• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 20 ۔ لیکچر سیالکوٹ ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 201

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 201

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 202

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 202

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


آمدِ مہدئ معہودؑ مبارک ہووے


مقدمِ عیسیٰ موعودؑ مبارک ہووے

آج سلکوٹ ہوا غیرتِ فردوس و ارم


شرف افزائی مسعود مبارک ہووے

آ گیا آج وہ دنیا میں امامِ اعظم


َ حکمِ عادل و محمود مبارک ہووے

بطفیل اُس کے ہمیں بخش تو مولائے کریم!


فضل و رحمت تیری اورجود مبارک ہووے


سیالکوٹ کی سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسا ممتاز بنایا ہوا ہے کہ اُس میں خدا کے پاک سلسلہ کے حامی اخلاص اور محبت سے بھرے ہوئے دل رکھنے والے کثرت سے موجود ہیں۔ جب حضور مسیح موعود ؑ لاہور کے سفر سے فارغ ہو کر واپس تشریف لے گئے تو جماعت سیالکوٹ کے نہایت اخلاص اور اصرار سے درخواست کرنے پر حضور جو مجسم کرم اور رحمت ہیں بتاریخ ۲۷ ماہ اکتوبر ۱۹۰۴ء اپنے عیال اور اصحاب کو ہمراہ لے کر بذریعہ ریل لاہور کی راہ سے سیالکوٹ تشریف لائے۔ راستے میں تمام اسٹیشنوں پر مقامی جماعتوں کے لوگ بڑے شوق سے ملاقات کے لئے حاضر ہوتے رہے اور شام کے ساڑھے چھ۶ بجے سیالکوٹ کے ریلوے سٹیشن پر پہنچی۔ مخالف مولوی پہلے سے مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کے وعظ پر برانگیختہ ہو کر عام لوگوں کو ورغلانے میں مصروف تھے اور وعظوں میں کہتے تھے کہ جو شخص مرزا صاحب کو دیکھنے بھی جائے گا اس کا نکاح فسخ ہو جائے گا اور وہ مرتد ہو جائے گا مگر خدا کب اُن کی ایسی مخالفتوں کی کچھ پیش جانے دیتا ہے۔ لوگوں میں خود بخود ایسی تحریک تھی اور دیکھنے کے لئے اتنا شوق تھا کہ پہلے سے ہزاروں آدمی اسٹیشن اور پلیٹ فارم اور سڑک اور بازاروں میں جمع ہوگئے اور حضور کی تشریف آوری پر ایک عظیم الشان میلہ لگ گیا اور ہفتہ بھر سیالکوٹ میں دین کا وہ جوش اور شوکت رہی کہ آج تک اُس کی نظیر نظر نہیں آئی۔

جماعت سیالکوٹنے مہمان نوازی کے لئے جو اہتمام اور انتظام کیا وہ ہر نوع سے قابل تحسین اور آفرین ہے۔ فی الواقعہ سیالکوٹ کی جماعت کے لئے یہ بڑا مبارک موقعہ ہے کہ اُن میں بیٹھ کر خدا کے مسیح نے یہ لیکچر لکھا اور پڑھایا۔ اے اُس شہر کے رہنے والو جس کو خدا کا مامور اپنے مولد کے برابر پیارا سمجھتا ہے تم کو مبارک ہو کہ خدا کامسیح تم میں آیا اور اس عظیم الشان جلسہ کی عزت تمہیں حاصل ہوئی۔ اے زمین تیرے لئے مبارکی ہو اور خوش ہو اور شادمانی کے گیت گا کہ تجھ میں مہدی آیا۔

اے خدا کے مسیح ہے کرشن رودر گوپال تیری جگ میں مہما ہو۔ تیرے قدموں کی برکت سے لوگ ہدایت کا نور پائیں اور ضلالت کے گڑھے سے نکلیں۔ آمین

خاکسار مولا بخش احمدی بھٹی ساکن چونڈہ تحصیل ظفروال ضلع سیالکوٹ

حال نائب محافظ دفتر ضلع سیال کوٹ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 203

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 203

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

اسلام


دنیا کے مذاہب پر اگر نظر کی جائے تو معلوم ہوگا کہ بجز اسلام ہر ایک مذہب اپنے اندر کوئی نہ کوئی غلطی رکھتا ہے اور یہ اس لئے نہیں کہ درحقیقت وہ تمام مذاہب ابتدا سے جھوٹے ہیں بلکہ اس لئے کہ اسلام کے ظہور کے بعد خدا نے ان مذاہب کی تائید چھوڑ دی اور وہ ایسے باغ کی طرح ہو گئے جس کا کوئی باغبان نہیں۔ اور جس کی آبپاشی اور صفائی کے لئے کوئی انتظام نہیں۔ اِس لئے رفتہ رفتہ اُن میں خرابیاں پیدا ہوگئیں۔ تمام پھل دار درخت خشک ہوگئے۔ اور ان کی جگہ کانٹے اور خراب بوٹیاں پھیل گئیں اور روحانیت جو مذہب کی جڑھ ہوتی ہے وہ بالکل جاتی رہی اور صرف خشک الفاظ ہاتھ میں رہ گئے۔ مگر خدا نے اسلام کے ساتھ ایسا نہ کیا اور چونکہ وہ چاہتا تھا کہ یہ باغ ہمیشہ سرسبز رہے اس لئے اُس نے ہر یک صدی پر اس باغ کی نئے سرے آبپاشی کی اور اس کو خشک ہونے سے بچایا۔ اگرچہ ہر صدی کے سر پر جب کبھی کوئی بندۂ خدا اصلاح کے لئے قائم ہوا جاہل لوگ اس کا مقابلہ کرتے رہے اور اُن کو سخت ناگوار گذرا کہ کسی ایسی غلطی کی اصلاح ہو جو اُن کی رسم اور عادت میں داخل ہو چکی ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اپنی سنّت کو نہ چھوڑا یہاں تک کہ اس آخری زمانہ میں جو ہدایت اور ضلالت کا آخری جنگ ہے خدا نے چودھویں۰۰ ۱۴صدی اور الف آخر کے سر پر مسلمانوں کو غفلت میں پا کر پھر اپنے عہد کو یادؔ کیا اور دین اسلام کی تجدید فرمائی مگر دوسرے دینوں کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 204

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 204

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


یہ تجدیدکبھی نصیب نہیں ہوئی۔ اِس لئے وہ سب مذہب مرگئے۔ اُن میں روحانیّت باقی نہ رہی اور بہت سی غلطیاں اُن میں ایسی جم گئیں کہ جیسے بہت مستعمل کپڑہ پر جو کبھی دھویا نہ جائے میل جم جاتی ہے اور ایسے انسانوں نے جن کو روحانیت سے کچھ بہرہ نہ تھا اور جن کے نفسِ امّارہ سفلی زندگی کی آلائشوں سے پاک نہ تھے اپنی نفسانی خواہشوں کے مطابق اُن مذاہب کے اندر بے جا دخل دے کر ایسی صورت اُن کی بگاڑ دی کہ اب وہ کچھ اور ہی چیز ہیں۔ مثلاً عیسائیت کے مذہب کو دیکھو کہ وہ ابتدا میں کیسے پاک اُصول پر مبنی تھا اور جس تعلیم کو حضرت مسیح علیہ السلام نے پیش کیا تھا اگرچہ وہ تعلیم قرآنی تعلیم کے مقابل پر ناقص تھی کیونکہ ابھی کامل تعلیم کا وقت نہیں آیا تھا اور کمزور استعدادیں اس لائق بھی نہ تھیں تا ہم وہ تعلیم اپنے وقت کے مناسب حال نہایت عمدہ تعلیم تھی۔ وہ اُسی خدا کی طرف رہنمائی کرتی تھی جس کی طرف توریت نے رہنمائی کی۔ لیکن حضرت مسیحؑ کے بعد مسیحیوں کا خدا ایک اور خدا ہو گیا جس کا توریت کی تعلیم میں کچھ بھی ذکر نہیں اور نہ بنی اسرائیل کو اس کی کچھ بھی خبر ہے۔ اس نئے خدا پر ایمان لانے سے تمام سلسلہ تورات کا اُلٹ گیا اور گناہوں سے حقیقی نجات اور پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے جو ہدائتیں تورات میں تھیں وہ سب درہم برہم ہوگئیں اور تمام مدار گناہ سے پاک ہونے کا اِس اقرار پر آگیا کہ حضرت مسیحؑ نے دنیا کو نجات دینے کے لئے خود صلیب قبول کی اور وہ خدا ہی تھے اور نہ صرف اِسی قدر بلکہ تورات کے اور کئی ابدی احکام توڑ دیئے گئے اور عیسائی مذہب میں ایک ایسی تبدیلی واقع ہوئی کہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام خود بھی دوبارہ تشریف لے آویں تو وہ اس مذہب کو شناخت نہ کر سکیں۔ نہایت حیرت کا مقام ہے کہ جن لوگوں کو تورات کی پابندی کی سخت تاکید تھی انہوں نے یکلخت تورات کےؔ احکام کو چھوڑ دیا۔ مثلاً انجیل میں کہیں حکم نہیں کہ تورات میں تو سؤر حرام ہے اور مَیں تم پر حلال کرتا ہوں اور تورات میں تو ختنہ کی تاکید ہے اور مَیں ختنہ کا حکم منسوخ کرتا ہوں۔



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 205

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 205

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


پھر کب جائز تھا کہ جو باتیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے منہ سے نہیں نکلیں وہ مذہب کے اندر داخل کر دی جائیں لیکن چونکہ ضرور تھا کہ خدا ایک عالمگیر مذہب یعنی اسلام دنیا میں قائم کرے اس لئے عیسائیت کا بگڑنا اسلام کے ظہور کے لئے بطور ایک علامت کے تھا۔ یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ اسلام کے ظہور سے پہلے ہندو مذہب بھی بگڑ چکا تھا اور تمام ہندوستان میں عام طور پر بُت پرستی رائج ہوچکی تھی اور اُسی بگاڑ کے یہ آثارِ باقیہ ہیں کہ وہ خدا جو اپنی صفات کے استعمال میں کسی مادہ کا محتاج نہیں اب آریہ صاحبوں کی نظر میں وہ پیدائش مخلوقات میں ضرور مادہ کا محتاج ہے۔ اس فاسد عقیدہ سے اُن کو ایک دوسرا فاسد عقیدہ بھی جو شرک سے بھرا ہوا ہے قبول کرنا پڑا۔ یعنی یہ کہ تمام ذرّاتِ عالم اور تمام ارواح قدیم اور انادی ہیں۔ مگر افسوس کہ اگر وہ ایک نظر غائر خدا کی صفات پر ڈالتے تو ایسا کبھی نہ کہہ سکتے۔ کیونکہ اگر خدا پیدا کرنے کی صفت میں جو اس کی ذات میں قدیم سے ہے انسان کی طرح کسی مادہ کا محتاج ہے تو کیا وجہ کہ وہ اپنی صفت شنوائی اور بینائی وغیرہ میں انسان کی طرح کسی مادہ کا محتاج نہیں۔ انسان بغیر توسط ہوا کے کچھ سن نہیں سکتا اور بغیر توسط روشنی کے کچھ دیکھ نہیں سکتا۔ پس کیا پرمیشر بھی ایسی کمزوری اپنے اندر رکھتا ہے؟ اور وہ بھی سننے اور دیکھنے کے لئے ہوا اور روشنی کا محتاج ہے؟ پس اگر وہ ہوا اور روشنی کا محتاج نہیں تو یقیناًسمجھو کہ وہ صفت پیدا کرنے میں بھی کسی مادہ کا محتاج نہیں۔ یہ منطق سراسر جھوٹ ہے کہ خدا اپنی صفات کے اظہار میں کسی مادہ کا محتاج ہے۔ انسانی صفات کا خدا پر قیاس کرنا کہ نیستی سے ہستی نہیں ہو سکتی اور انسانی کمزوریوں کو خدا پر جمانا بڑی غلطی ہے۔ انسان کی ہستی محدود اور خدا کی ہستی غیر محدود ہے۔ پس وہ اپنی ہستی کی قوت سے ایک اور ہستی پیدا کر لیتا ہے۔ یہی تو خدائی ہے اور وہ اپنی کسی صفت میں مادہ کا محتاج نہیں ہے ورنہ وہ خدا نہ ہو۔ کیا اس کے کاموں میں کوئیؔ روک ہوسکتی ہے؟ اور اگر مثلاً چاہے کہ ایک دم میں زمین و آسمان پیدا کر دے تو کیا وہ پیدا نہیں کر سکتا؟



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 206

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 206

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


ہندوؤں میں جو لوگ علم کے ساتھ روحانیت کا بھی حصہ رکھتے تھے اور نری خشک منطق میں گرفتار نہ تھے کبھی ان کا یہ عقیدہ نہیں ہوا جو آج کل پرمیشر کی نسبت آریہ صاحبان نے پیش کیا ہے۔ یہ سراسر عدمِ روحانیت کا نتیجہ ہے۔

غرض یہ تمام بگاڑ کہ ان مذاہب میں پیدا ہوگئے جن میں سے بعض ذکر کے بھی قابل نہیں اور جو انسانی پاکیزگی کے بھی مخالف ہیں یہ تمام علامتیں ضرورتِ اسلام کے لئے تھیں۔ ایک عقلمند کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اسلام سے کچھ دن پہلے تمام مذاہب بگڑ چکے تھے اور روحانیت کوکھو چکے تھے۔ پس ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اظہار سچائی کے لئے ایک مجدّد اعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے۔ اِس فخر میں ہمارے نبی صلعم کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپ نے تمام دنیا کو ایک تاریکی میں پایا اور پھر آپ کے ظہور سے وہ تاریکی نور سے بدل گئی۔ جس قوم میں آپ ظاہر ہوئے آپ فوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اُتار کر توحید کا جامہ نہ پہن لیا اور نہ صرف اس قدر بلکہ وہ لوگ اعلیٰ مراتب ایمان کو پہنچ گئے اور وہ کام صدق اور وفا اور یقین کے اُن سے ظاہر ہوئے کہ جس کی نظیر دنیا کے کسی حصہ میں پائی نہیں جاتی۔ یہ کامیابی اور اس قدر کامیابی کسی نبی کو بجز آنحضرت صلعم کے نصیب نہیں ہوئی۔ یہی ایک بڑی دلیل آنحضرت ؐ کی نبوت پر ہے کہ آپ ایک ایسے زمانہ میں مبعوث اور تشریف فرما ہوئے جب کہ زمانہ نہایت درجہ کی ظلمت میں پڑا ہوا تھا اور طبعًا ایک عظیم الشان مصلح کا خواستگار تھا اور پھر آپ نے ایسے وقت میں دنیا سے انتقال فرمایا جب کہ لاکھوں انسان شرک اور بُت پرستی کو چھوڑ کر توحید اور راہ راست اختیار کر چکے تھے۔ اور درحقیقت یہ کامل اصلاح آپ ہی سے مخصوص تھی کہ آپ نے ایک قوم وحشی سیرت اور بہائم خصلت کو انسانی عادات سکھلائے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ بہائم کو انسان بنایا اور پھر انسانوں سے تعلیم یافتہ انسان بنایاؔ اور پھر تعلیم یافتہ انسانوں سے باخدا انسان بنایا اور



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 207

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 207

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


روحانیت کی کیفیت اُن میں پھونک دی اور سچے خدا کے ساتھ ان کا تعلق پیدا کر دیا۔ وہ خدا کی راہ میں بکریوں کی طرح ذبح کئے گئے اور چیونٹیوں کی طرح پیروں میں کچلے گئے مگر ایمان کو ہاتھ سے نہ دیا بلکہ ہر ایک مصیبت میں آگے قدم بڑھایا۔ پس بلاشبہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سے آدم ثانی تھے بلکہ حقیقی آدم وہی تھے جن کے ذریعہ اور طفیل سے تمام انسانی فضائل کمال کو پہنچے اور تمام نیک قوتیں اپنے اپنے کام میں لگ گئیں اور کوئی شاخ فطرت انسانی کی بے بار وبر نہ رہی اور ختم نبوت آپ پر نہ صرف زمانہ کے تاخّر کی وجہ سے ہوا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ تمام کمالات نبوت آپ پر ختم ہوگئے اور چونکہ آپ صفاتِ الٰہیہ کے مظہر اتم تھے اس لئے آپ کی شریعت صفاتِ جلالیہ و جمالیہ دونوں کی حامل تھی اور آپ کے دونام محمد اور احمد صلی اللہ علیہ وسلم اِسی غرض سے ہیں اور آپ کی نبوت عامہ میں کوئی حصہ بخل کا نہیں۔ بلکہ وہ ابتدا سے تمام دنیا کے لئے ہے اور ایک اَور دلیل آپ کے ثبوت نبوت پر یہ ہے کہ تمام نبیوں کی کتابوں سے اور ایسا ہی قرآن شریف سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے آدم سے لے کر اخیر تک دنیا کی عمر سات ہزار برس رکھی ہے اور ہدایت اور گمراہی کے لئے ہزار ہزار سال کے دَور مقرر کئے ہیں۔ یعنی ایک وہ دَور ہے جس میں ہدایت کا غلبہ ہوتا ہے اور دوسرا وہ دَور ہے جس میں ضلالت اور گمراہی کا غلبہ ہوتا ہے اور جیسا کہ مَیں نے بیان کیا خدا تعالیٰ کی کتابوں میں یہ دونوں دَور ہزار ہزار برس پر تقسیم کئے گئے ہیں۔ اوّل دَور ہدایت کے غلبہ کا تھا۔ اس میں بُت پرستی کا نام و نشان نہ تھا۔ جب یہ ہزار سال ختم ہوا تب دوسرے دَور میں جو ہزار سال کا تھا طرح طرح کی بُت پرستیاں دنیا میں شروع ہوگئیں اور شرک کا بازار گرم ہو گیا اور ہر ایک ملک میں بُت پرستی نے جگہؔ لے لی۔ پھر تیسرا دَور جو ہزار سال کا تھا اس میں توحید کی بنیاد ڈالی گئی اور جس قدر خدا نے چاہا دنیا میں توحید پھیل گئی۔ پھر ہزار چہارم کے دَور میں ضلالت نمودار ہوئی اور اسی ہزار چہارم میں سخت درجہ پر



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 208

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 208

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/208/mode/1up


بنی اسرائیل بگڑ گئے اور عیسائی مذہب تخم ریزی کے ساتھ ہی خشک ہو گیا اور اُس کا پیدا ہونا اور مرنا گویا ایک ہی وقت میں ہوا۔ پھر ہزار پنجم کا دَور آیا جو ہدایت کا دَور تھا۔ یہ وہ ہزار ہے جس میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر توحید کو دوبارہ دنیا میں قائم کیا۔ پس آپؐ کے منجانب اللہ ہونے پر یہی ایک نہایت زبردست دلیل ہے کہ آپؐ کا ظہور اُس سال کے اندر ہوا جو روزِ ازل سے ہدایت کے لئے مقرر تھا اور یہ مَیں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں سے یہی نکلتا ہے اور اِسی دلیل سے میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا بھی ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اس تقسیم کی رُو سے ہزار ششم ضلالت کا ہزار ہے اور وہ ہزار ہجرت کی تیسری صدی کے بعد شروع ہوتا ہے اور چودہویں صدی کے سر تک ختم ہوتا ہے۔ اس ششم ہزار کے لوگوں کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیج اعوج رکھا ہے اور ساتواں ہزار ہدایت کا ہے جس میں ہم موجود ہیں۔ چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام آخر الزمان اس کے سرپر پیدا ہو اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح۔ مگر وہ جو اس کے لئے بطور ِ ظل کے ہو۔ کیونکہ اس ہزار میں اب دنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیوں نے شہادت دی ہے اور یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجدّد صدی بھی ہے اور مجدّد الف آخر بھی۔ اِس بات میں نصاریٰ اور یہود کو بھی اختلاف نہیں کہ آدم سے یہ زمانہ ساتواں ہزار ہے۔ اور خدا نے جو سورہ والعصر کے اعدادؔ سے تاریخ آدم میرے پر ظاہر کی اس سے بھی یہ زمانہ جس میں ہم ہیں ساتواں ہزار ہی ثابت ہوتا ہے۔ اور نبیوں کا اِس پر اتفاق تھا کہ مسیح موعود ساتویں ہزار کے سر پر ظاہر ہوگا اور چھٹے ہزار کے اخیر میں پیدا ہوگا کیونکہ وہ سب سے آخر ہے جیسا کہ آدم سب سے اوّل تھا۔ اور آدم چھٹے دن جمعہ کی اخیر ساعت میں پیدا ہوا اور چونکہ خدا کا ایک دن دنیا کے ہزار سال کے برابر ہے اِس



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 209

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 209

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/209/mode/1up


مشابہت سے خدا نے مسیح موعود کو ششم ہزار کے اخیر میں پیدا کیا۔ گویا وہ بھی دن کی آخری گھڑی ہے اور چونکہ اوّل اور آخر میں ایک نسبت ہوتی ہے اس لئے مسیح موعود کو خدا نے آدم کے رنگ پر پیدا کیا۔ آدم جوڑا پیدا ہوا تھا اور بروز جمعہ پیدا ہوا تھا۔ اِسی طرح یہ عاجز بھی جو مسیح موعود ہے جوڑا پیدا ہوا اور بروز جمعہ پیدا ہوا۔ اور اِس طرح پیدائش تھی کہ پہلے ایک لڑکی پیدا ہوئی پھر اس کے عقب میں یہ عاجز پیدا ہوا۔ اِس طرح کی پیدائش ختم ولایت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ غرض یہ تمام نبیوں کی متفق علیہ تعلیم ہے کہ مسیح موعو دہزار ہفتم کے سر پر آئے گا۔ اِسی وجہ سے گذشتہ سالوں میں عیسائی صاحبوں میں بہت شور اٹھا تھا اور امریکہ میں اس مضمون پر کئی رسالے شائع ہوئے تھے کہ مسیح موعود نے اِسی زمانہ میں ظاہر ہونا تھا کیا وجہ کہ وہ ظاہر نہ ہوا۔ بعض نے ماتمی رنگ میں یہؔ جواب دیا تھا کہ اب وقت گذر گیا۔ کلیسیا کو ہی اس کے قائم مقام سمجھ لو۔ القصہ میری سچائی پر یہ ایک دلیل ہے کہ مَیں نبیوں کے مقرر کردہ ہزار میں ظاہر ہوا ہوں اور اگر اَور کوئی بھی دلیل نہ ہوتی تو یہی ایک دلیل روشن تھی جو طالب حق کے لئے کافی تھی کیونکہ اگر اس کو ردّ کر دیا جائے تو خدا تعالیٰ کی تمام کتابیں باطل ہوتی ہیں جن کو الٰہی کتابوں کا علم ہے اور جو اُن میں غور کرتے ہیں اُن کے لئے یہ ایک ایسی دلیل ہے جیسا کہ ایک روزِ روشن ۔اِس دلیل کے ردّ کرنے سے تمام نبوتیں ردّ ہوتی ہیں اور تمام حساب درہم برہم ہو جاتا ہے اور الٰہی تقسیم کا شیرازہ بگڑ جاتا ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے جو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قیامت کا کسی کو علم نہیں۔پھر آدم سے اخیر تک سات ہزار سال کیونکر مقرر کر دیئے جائیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کبھی خدا تعالیٰ کی کتابوں میں صحیح طور پر فکر نہیں کیا۔ مَیں نے آج یہ حساب مقرر نہیں کیا یہ تو قدیم سے محققین اہل کتاب میں مسلّم چلا آیا ہے۔ یہاں تک کہ یہودی فاضل بھی اس کے قائل رہے ہیں اور قرآن شریف سے بھی صاف طور پر یہی نکلتا ہے کہ آدم سے اخیر تک عمر بنی آدم کی سات ہزار سال ہے اور ایسا ہی



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 210

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 210

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/210/mode/1up


پہلی تمام کتابیں بھی باتفاق یہی کہتی ہیں اور آیت 33 ۱؂سے بھی یہی نکلتا ہے اور تمام نبی واضح طور پر بھی خبر دیتے آئے ہیں اور جیسا کہ مَیں بھی بیان کر چکا ہوں سورۃ والعصر کے اعداد سے بھی یہی صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آدم سے الف پنجم میں ظاہر ہوئے تھے اور اِس حساب سے یہ زمانہ جس میں ہم ہیں ہزار ہفتم ہے۔ جس بات کو خدا نے اپنی وحی سے ہم پر ظاہر کیا اس سے ہم انکار نہیں کر سکتے اور نہ ہم کوئی وجہ دیکھتے ہیں کہ خدا کے پاک نبیوں کے متفق علیہ کلمہ سے انکار کریں۔ پھر جبکہ اس قدر ثبوت موجود ہے اور بلاشبہ احادیث اور قرآن شریف کے رو سے یہ آخری زمانہ ہے۔ پھر آخری ہزار ہونے میں کیاشک رہا اور آخری ہزار کے سر پر مسیح موعود کا آنا ضروری ہے۔ اور یہ جو کہا گیا کہ قیامت کی گھڑی کا کسی کو علم نہیں۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ کسی وجہ سے بھی علم نہیں۔ اگر یہی بات ہے تو پھر آثارِ قیامت جو قرآن شریف اور حدیث صحیح میں کہے گئے ہیں وہ بھی قابل قبول نہیں ہوں گے کیونکہ ان کے ذریعہ سے بھی قرب قیامت کا ایک علم حاصل ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں لکھا تھا کہ آخری زمانہ میں زمین پر بکثرت نہریں جاری ہوں گی۔ کتابیں بہت شائع ہوں گی جن میں اخبار بھی شامل ہیں اور اونٹ بے کار ہو جائیں گے۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سب باتیں ہمارے زمانہ میں پوری ہو گئیں اور اونٹوں کی جگہ ریل کے ذریعہ سے تجارت شروع ہو گئی۔ سو ہم نے سمجھ لیا کہ قیامت قریب ہے اور خود مدت ہوئی کہ خدا نے آیت 3 ۲؂ اور دوسری آیتوں میں قرب قیامت کی ہمیں خبر دے رکھی ہے۔ سو شریعت کا یہ مطلب نہیں کہ قیامت کا وقوع ہر ایک پہلو سے پوشیدہ ہے بلکہ تمام نبی آخری زمانہ کی علامتیں لکھتے آئے ہیں اور انجیل میں بھی لکھی ہیں۔ پس مطلب یہ ہے کہ اس خاص گھڑی کی کسی کو خبر نہیں خدا قادر ہے کہ ہزار سال گذرنے کے بعد چند صدؔ یاں اور بھی زیادہ کر دے کیونکہ کسر شمار میں نہیں آتی۔



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 211

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 211

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/211/mode/1up


جیسا کہ حمل کے دن بعض وقت کچھ زیادہ ہو جاتے ہیں۔ دیکھو! اکثربچے جو دنیا میں پیدا ہوتے ہیں وہ اکثر نو مہینے اور دس دن کے اندر پیدا ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی کہا جاتا ہے کہ اُس گھڑی کی کسی کو خبر نہیں۔ جب کہ دردزہ شروع ہو گا۔ اِسی طرح دنیا کے خاتمے پر گو اب ہزار سال باقی ہے لیکن اس گھڑی کی خبر نہیں جب قیامت قائم ہو جائے گی۔ جن دلائل کو خدا نے امامت اور نبوت کے ثبوت کے لئے پیش کیا ہے اُن کو ضائع کرنا گویا اپنے ایمان کو ضائع کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ قربِ قیامت پر تمام علامتیں بھی جمع ہو گئی ہیں اور زمانہ میں ایک انقلاب عظیم مشہود ہو رہا ہے اور وہ علامتیں جو قربِ قیامت کے لئے خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں بیان فرمائی ہیں اکثر ان میں سے ظاہر ہو چکی ہیں۔ جیسا کہ قرآن شریف سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرب قیامت کے زمانہ میں زمین پر اکثر نہریں جاری ہو جائیں گی اور بکثرت کتابیں شائع ہوں گی۔ پہاڑ اُڑا دیئے جائیں گے۔ دریا خشک کر دیئے جائیں گے اور زراعت کے لئے زمین بہت آباد ہو جائے گی اور ملاقاتوں کے لئے راہیں کھل جائیں گی اور قوموں میں مذہبی شور و غوغا بہت پیدا ہو گا اور ایک قوم دوسری قوم کے مذہب پر ایک موج کی طرح ٹوٹ پڑے گی تا ان کو بالکل نابود کر دے۔ انہی دنوں میں آسمانی کرنا اپنا کام دکھلائے گی اور تمام قومیں ایک ہی مذہب پر جمع کی جائیں گی بجزؔ ان ردّی طبیعتوں کے جو آسمانی دعوت کے لائق نہیں۔ یہ خبر جو قرآن شریف میں لکھی ہے مسیح موعود کے ظہور کی طرف اشارہ ہے اور اسی وجہ سے یاجوج ماموج کے تذکرہ کے نیچے اس کو لکھا ہے اور یاجوج ماجوج دو قومیں ہیں جن کا پہلی کتابوں میں ذکر ہے اور اس نام کی یہ وجہ ہے کہ وہ اجیج سے یعنی آگ سے بہت کام لیں گی اور زمین پر ان کا بہت غلبہ ہو جائے گا اور ہر ایک بلندی کی مالک ہو جائیں گی۔ تب اُسی زمانہ میں آسمان سے ایک بڑی تبدیلی کا انتظام ہو گا اور صلح اور آشتی کے دن ظاہر ہوں گے۔ ایسا ہی قرآن شریف میں لکھا ہے کہ ان دنوں میں زمین سے بہت سی کانیں اور مخفی چیزیں نکلیں گی اور ان دنوں میں آسمان پر کسوف و خسوف ہو گا اور



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 212

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 212

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/212/mode/1up


زمین پر طاعون بہت پھیل جائے گی اور اونٹ بے کار ہو جائیں گے۔ یعنی ایک اور سواری نکلے گی جو اونٹوں کو بے کار کر دے گی۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمام کاروبار تجارتی جو کہ پہلے اونٹوں کے ذریعہ سے چلتے تھے۔ اب ریل کے ذریعہ سے چلتے ہیں اور وہ وقت قریب ہے کہ حج کرنے والے بھی ریل کی سواری میں مدینہ منورہ کی طرف سفر کریں گے اور اس روز اس حدیث کو پورا کر دیں گے جس میں لکھا ہے کہ و یترک القلاص فلا یسعٰی علیھا۔

پس جبکہ آخری دنوں کے لئے یہ علامتیں ہیں جو پورے طورؔ پر ظاہر ہو چکی ہیں تو اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کے دَوروں میں سے یہ آخری دَور ہے اور جیسا کہ خدا نے سات دن پیدا کئے ہیں اور ہر ایک دن کو ایک ہزار سال سے تشبیہ دی ہے ا س تشبیہ سے دنیا کی عمر سات ہزار ہونا نصّ قرآنی سے ثابت ہے اور نیز خدا وترہے اور وتر کو دوست رکھتا ہے اور اس نے جیسا کہ سات دن و تر پیدا کئے ہیں ایسا ہی سات ہزار بھی وتر ہیں۔ ان تمام وجوہات سے سمجھ میں آ سکتا ہے کہ یہی آخری زمانہ اور دنیا کا آخری دَور ہے جس کے سر پر مسیح موعود کا ظاہر ہونا کتب الٰہیہ سے ثابت ہوتا ہے اور نواب صدیق حسن خاں اپنی کتاب حجج الکرامہمیں گواہی دیتے ہیں کہ اسلام میں جس قدر اہل کشف گذرے ہیں کوئی ان میں سے مسیح موعود کا زمانہ مقرر کرنے میں چودھویں صدی کے سر سے آگے نہیں گذرا۔ ا ب اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسیح موعود کو اس اُمت میں سے پیدا کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں وعدہ فرمایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنے زمانہ نبوت کے اوّل اور آخر کے لحاظ سے حضرت موسیٰ ؑ سے مشابہ ہوں گے۔ پس وہ مشابہت ایک تو اوّل زمانہ میں تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا زمانہ تھا اور ایک آخری زمانہ میں۔ سو اوّل مشابہت یہ ثابت ہوئی کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا نے آخر کار فرعون اور اس کے لشکر پر فتح ؔ دی تھی اُسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو آخر کار ابوجہل پر جو اس زمانہ کا فرعون تھا اور اس کے لشکر پر فتح دی اور اُن سب کو



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 213

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 213

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/213/mode/1up


ہلاک کر کے اسلام کو جزیرہ عرب میں قائم کر دیا اور اس نصرت الٰہی سے یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ33۱؂ اور آخری زمانہ میں یہ مشابہت ہے کہ خدا تعالیٰ نے ملتِ موسوی کے آخری زمانہ میں ایک ایسا نبی مبعوث فرمایا جو جہاد کا مخالف تھا اور دینی لڑائیوں سے اُسے کچھ سروکار نہ تھا بلکہ عفو اور درگذر اس کی تعلیم تھی۔ اور وہ ایسے وقت میں آیا تھا جبکہ بنی اسرائیل کی اخلاقی حالتیں بہت بگڑ چکی تھیں اور اُن کے چال چلن میں بہت فتور واقع ہو گیا تھا اور اُن کی سلطنت جاتی رہی تھی اور وہ رومی سلطنت کے ماتحت تھے اور وہ حضرت موسیٰ ؑ سے ٹھیک ٹھیک چودھویں صدی پر ظاہر ہؤا تھا اور اس پر سلسلہ اسرائیلی نبوت کا ختم ہو گیا تھا اور وہ اسرائیلی نبوت کی آخری اینٹ تھی۔ ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے آخری زمانہ میں مسیحؑ ابن مریم کے رنگ اور صفت میں اس راقم کو مبعوث فرمایا اور میرے زمانہ میں رسم جہاد کو اُٹھا دیا جیسا کہ پہلے سے خبر دی گئی تھی کہ مسیح موعود کے زمانہ میں جہاد کو موقوف کر دیا جائے گا۔ اسی طرح مجھے عفو اور درگذر کی تعلیم دی گئی اور میں ایسے وقت میں آیا جب کہ اندرونی حالت اکثر مسلمانوں کیؔ یہودیوں کی طرح خراب ہو چکی تھی اور روحانیت گم ہو کر صرف رسوم اور رسم پرستی اُن میں باقی رہ گئی تھی اور قرآن شریف میں ان امور کی طرف پہلے سے اشارہ کیا گیا تھا۔ جیسا کہ ایک جگہ مسلمانوں کے آخری زمانہ کے لئے قرآن شریف نے وہ لفظ استعمال کیا ہے جو یہود کے لئے استعمال کیا تھا۔ یعنی فرمایا 3 ۲؂ جس کے یہ معنی ہیں کہ تم کو خلافت اور سلطنت دی جائے گی مگر آخری زمانہ میں تمہاری بداعمالی کی وجہ سے وہ سلطنت تم سے چھین لی جائے گی جیسا کہ یہودیوں سے چھین لی گئی تھی اور پھر سورہ نور میں صریح اشارہ فرماتا ہے کہ ہر ایک رنگ میں جیسے بنی اسرائیل میں خلیفے گذرے ہیں وہ تمام رنگ اس اُمت کے خلیفوں میں بھی ہوں گے۔ چنانچہ اسرائیلی خلیفوں



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 214

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 214

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/214/mode/1up


میں سے حضرت عیسیٰ ؑ ایسے خلیفے تھے جنہوں نے نہ تلوار اُٹھائی اور نہ جہاد کیا۔ سو اِس امت کو بھی اسی رنگ کا مسیح موعود دیا گیا۔ دیکھو آیت 33 3 3 ص 33 33 3 ۱؂ ا س آیت میں فقرہ 33 قابلِ غور ہے۔کیونکہ اِس سے سمجھا جاتا ہے کہ محمدی خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہؔ ہے اور چونکہ موسوی خلافت کا انجام ایسے نبی پر ہوا یعنی حضرت عیسیٰ ؑ پر جو حضرت موسیٰ ؑ سے چودھویں صدی کے سر پر آیا اور نیز کوئی جنگ اور جہاد نہیں کیا اس لئے ضروری تھاکہ آخری خلیفہ سلسلہ محمدی کا بھی اِسی شان کا ہو۔

اسی طرح احادیثِ صحیحہ میں بھی ذکر تھا کہ آخری زمانہ میں اکثر حصہ مسلمانوں کا یہودیوں سے مشابہت پیدا کر لے گا اور سورۃ فاتحہ میں بھی اسی کی طرف اشارہ تھا۔ کیونکہ اس میں یہ دعا سکھلائی گئی ہے کہ اے خدا ہمیں ایسے یہودی بننے سے محفوظ رکھ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں تھے اور اُن کے مخالف تھے جن پر خداتعالیٰ کا غضب اِسی دنیا میں نازل ہوا تھا اور یہ عادت اللہ ہے کہ جب خداتعالیٰ کسی قوم کو کوئی حکم دیتا ہے یا ان کو کوئی دُعا سکھلاتا ہے تو اس کایہ مطلب ہوتا ہے کہ بعض لوگ ان میں سے اس گناہ کے مرتکب ہوں گے جس سے ان کو منع کیا گیا ہے۔ پس چونکہ آیت 3 ۲؂ سے مراد وہ یہودی ہیں جو ملتِ موسوی کے آخری زمانہ میں یعنی حضرت مسیحؑ کے وقت میں بباعث نہ قبول کرنے حضرت مسیحؑ کے موردِ غضب الٰہی ہوئے تھے۔ اس لئے اس آیت میں سنت مذکورہ کے لحاظ سے یہ پیشگوئی ہے کہ امتِ محمدیہ کے آخری زمانہ میں بھی اسی اُمت میں سے مسیح موعود ظاہر ہو گا اور بعض مسلمان اسؔ کی مخالفت



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 215

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 215

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/215/mode/1up


کرکے ان یہودیوں سے مشابہت پیدا کرلیں گے جو حضرت مسیحؑ کے وقت میں تھے۔ یہ بات جائے اعتراض نہیں کہ آنے والامسیحؑ اگر اسی اُمت میں سے تھا تو اس کا نام احادیث میں عیسیٰ ؑ کیوں رکھا گیا۔ کیونکہ عادت اللہ اسی طرح واقعہ ہے کہ بعض کو بعض کا نام دیا جاتا ہے جیسا کہ احادیث میں ابوجہل کانام فرعون اور حضرت نوحؑ کا نام آدم ثانی رکھا گیا۔ اور یوحنا کا نام ایلیاؑ رکھا گیا۔ یہ وہ عادت الٰہی ہے جس سے کسی کو بھی انکار نہیں اور خداتعالیٰ نے آنے والے مسیحؑ کو پہلے مسیح ؑ سے یہ بھی ایک مشابہت دی ہے کہ پہلا مسیح یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام سے چودھویں صدی پر ظاہر ہؤا تھا اور ایسا ہی آخری مسیح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چودہویں صدی پر ظاہر ہؤا ایسے وقت میں جبکہ ہندوستان سے سلطنت اسلامی جاتی رہی تھی اور انگریزی سلطنت کا دَور تھا۔ جیسا کہ حضرت مسیح علیہ السلام بھی ایسے ہی وقت میں ظاہر ہوئے تھے جبکہ اسرائیلی سلطنت زوال پذیر ہو کر یہودی لوگ رومی سلطنت کے تحت ہو چکے تھے اور اسؔ امت کے مسیح موعود کے لئے ایک اور مشابہت حضرت عیسیٰ ؑ سے ہے اور وہ یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پورے طور پر بنی اسرائیل میں سے نہ تھے بلکہ صرف ماں کی وجہ سے اسرائیلی کہلاتے تھے۔ ایسا ہی اس عاجز کی بعض دادیاں سادات میں سے ہیں۔ گوباپ سادات میں سے نہیں اور حضرت عیسیٰ ؑ کے لئے خدا نے جو یہ پسندکیا کہ کوئی اسرائیلی حضرت مسیح کا باپ نہ تھا۔ اِس میں یہ بھید تھا کہ خداتعالیٰ بنی اسرائیل کی کثرت گناہوں کی وجہ سے اُن پر سخت نارا ض تھا۔ پس اس لئے تنبیہ کے طور پر اُن کو یہ نشان دکھلایا کہ اُن میں سے ایک بچہ صرف ماں سے بغیر شراکت باپ کے پیدا کیا۔ گویا اسرائیلی وجود کے دو حصوں میں سے صرف ایک حصہ حضرت مسیح کے پاس رہ گیا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھاکہ آنے والے نبی میں یہ بھی نہیں ہو گا۔ پس چونکہ دنیا ختم ہونے پر ہے اس لئے میری اس پیدائش میں بھی ایک اشارہ ہے اور وہ یہ کہ قیامت قریب ہے اور وہ ہی



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 216

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 216

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/216/mode/1up


قریش کی خلافت کے وعدوں کو ختم کر دے گی۔ غرض موسوی اور محمدؑ ی مماثلت کو پورا کرنے کے لئے ایسے مسیح موعود کی ضرورت تھی جو ان تمام لوازم کے ساتھ ظاہر ہوتا جیسا کہ سلسلہ اسلامیہ مثیلِ موسیٰ ؑ سے شروع ہوا۔ ایسا ہی وہ سلسلہ مثیل عیسیٰؑ پر ختم ہو جائے تا آخر کو اوّل سے مشابہت ہو۔ پس یہ بھی میری سچائی کے لئے ایک ثبوت ہے۔ لیکن ان لوگوں کے لئے جو خدا ترسی سے غور کرتے ہیں۔خدا اس زمانہ کے مسلمانوں پر رحم ؔ کرے کہ اکثر ان کے اعتقادی اُمور ظلم اور ناانصافی میں حد سے گذر گئے ہیں۔ قرآن شریف میں پڑھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ فوت ہو گئے اور پھر ان کو زندہ سمجھتے ہیں۔ ایسا ہی قرآن شریفمیں سورہ نور میں پڑھتے ہیں کہ تمام خلیفے آنے والے اِسی اُمت میں سے ہوں گے اور پھر حضرت عیسیٰ ؑ کو آسمان سے اُتار رہے ہیں اور صحیح بخاری اور مسلم میں پڑھتے ہیں کہ وہ عیسیٰ جو اس اُمت کے لئے آئے گاوہ اِسی اُمت میں سے ہو گا۔ پھر اسرائیلی عیسیٰ ؑ کے منتظر ہیں اور قرآن شریف میں پڑھتے ہیں کہ عیسیٰ ؑ دوبارہ دنیا میں نہیں آئے گا اور باوجود اس علم کے پھر اس کو دوبارہ دنیا میں لانا چاہتے ہیں۔ اور باایں ہمہ دعویٰ اسلام بھی ہے اور کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر زندہ معہ جسم عنصری اُٹھائے گئے مگر اس کا جواب نہیں دیتے کہ کیوں اُٹھائے گئے۔ یہود کا جھگڑا تو صرف رفع روحانی کے بارہ میں تھا اور اُن کا خیال تھا کہ ایمانداروں کی طرح حضرت عیسیٰ ؑ کی روح آسمان پر نہیں اُٹھائی گئی کیونکہ وہ صلیب دیئے گئے تھے اور جو صلیب دیا جائے وہ *** ہے یعنی آسمان پر خدا کی طرف اس کی روح نہیں اُٹھائی جاتی اور قرآن شریف نے صرف اسی جھگڑے کو فیصلہ کرناتھا جیسا کہ قرآن شریف کا دعویٰ ہے کہ وہ یہودونصاریٰ کی غلطیوں کو ظاہر کرتا ہے اور ان کے تنازعات کا فیصلہ کرتا ہے اور یہود کا جھگڑا تو یہ تھا کہ عیسیٰ مسیح ایماندار لوگوں میں سے نہیں ہے اور اس کی نجات نہیں ہوئی اور اس کی روح کا رفع خداتعالیٰ کی طرف نہیں ہؤا۔ پس فیصلہ طلب یہ امر تھا کہ عیسیٰ مسیحؑ ایماندار اور خدا کا سچا نبی ہے یا نہیں اور اس کی روحؔ کا رفع مومنوں کی طرح خداتعالیٰ کی طرف



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 217

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 217

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/217/mode/1up


ہوا یا نہیں۔ یہی قرآن شریف نے فیصلہ کرنا تھا۔ پس اگر آیت 3 ۱؂ سے یہ مطلب ہے کہ خداتعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کو معہ جسم عنصری دوسرے آسمان پر اُٹھا لیا تو اس کارروائی سے متنازعہ فیہ امر کا کیا فیصلہ ہوا؟ گویا خدا نے امر متنازعہ فیہ کو سمجھا ہی نہیں اور وہ فیصلہ دیا جو یہودیوں کے دعویٰ سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتا۔ پھر آیت میں تو یہ صاف لکھا ہے کہ عیسیٰؑ کا رفع خدا کی طرف ہؤا۔ یہ تو نہیں لکھا کہ دوسرے آسمان کی طرف رفع ہوا۔ کیا خدائے عزّوجلّ دوسرے آسمان پر بیٹھا ہوا ہے؟ یا نجات اور ایمان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جسم بھی ساتھ ہی اُٹھایا جائے اور عجب بات یہ ہے کہ آیت بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِمیں آسمان کا ذکر بھی نہیں بلکہ اس آیت کے تو صرف یہ معنی ہیں کہ خدا نے اپنی طرف مسیح کو اُٹھا لیا۔ اب بتلاؤ کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت اسماعیلؑ ، حضرت اسحاقؑ ، حضرت یعقوبؑ ، حضرت موسیٰ ؑ اور آنحضرت صلعم نعوذ باللہ کسی اور طرف اُٹھا ئے گئے تھے خدا کی طرف نہیں؟ میں اس جگہ زور سے کہتا ہوں کہ اس آیت کی حضرت مسیحؑ سے تخصیص سمجھنا یعنی رَفَع اِلَی اللّٰہ انہیں کے ساتھ خاص کرنا اور دوسرے نبیوں کو اس سے باہر رکھنا یہ کلمہ کفر ہے۔ اِس سے بڑھ کر اور کوئی کفر نہ ہو گا۔ کیونکہ ایسے معنوں سے باستثناء حضرت عیسیٰ ؑ تمام انبیاء کو رفع سے جواب دیا گیا ہے۔ حالانکہ آنحضرت صلعم نے معراج سے آ کر ان کی رفع کی گواہی بھی دی اورؔ یہ یاد رہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی رفع کا ذکر صرف یہودیوں کی تنبیہ اور دفع اعتراض کے لئے تھا۔ ورنہ یہ رفع تمام انبیاء اور رُسل اور مومنوں میں عام ہے۔ مرنے کے بعد ہر ایک مومن کا رفع ہوتا ہے۔ چنانچہ آیت33۔ 3 ۲؂ (سورۃ ص پارہ ۲۳ ع۱۳) میں اس رفع کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن کافر کا رفع نہیں ہوتا چنانچہ آیت

3۳؂ اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ہاں جن لوگوں نے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 218

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 218

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/218/mode/1up


مجھ سے پہلے اس بارے میں غلطی کی ہے ان کو وہ غلطی معاف ہے کیونکہ ان کو یاد نہیں دلایا گیا تھا۔ ان کو حقیقی معنی خدا کے کلام کے سمجھائے نہیں گئے تھے۔ پر میں نے تم کو یاد دلا دیا اور صحیح صحیح معنی سمجھا دیئے۔ اگر میں نہ آیا ہوتا تو غلطی کے لئے رسمی تقلید کا ایک عذر تھا۔ لیکن اب کوئی عذر باقی نہیں۔ میرے لئے آسمان نے گواہی دی اور زمین نے بھی اور اس اُمت کے بعض اولیاء نے میرا نام اور میرے مسکن کا نام لے کر گواہی دی کہ وہی مسیح موعود ہے اور بعض گواہی دینے والے میرے ظہور سے تیس۳۰ برس پہلے دنیا سے گذر چکے جیساکہ ان کی شہادتیں میں شائع کر چکا ہوں اور اسی زمانہ میں بعض بزرگانِ دین نے جن کے لاکھوں انسان پیرو تھے خدا سے الہام پا کر اور آنحضرتؐ سے رؤیا میں سن کر میری تصدیق کی اور اب تک ہزارہا نشان مجھ سے ظاہر ہو چکے ہیں اور خدا کے پاک نبیوں نے میرے وقت اور زمانہ کو مقرر کیا اورؔ اگر تم سوچو تو تمہارے ہاتھ پیر اور تمہارے دل بھی میرے لئے گواہی دیتے ہیں۔ کیونکہ کمزوریاں حد سے گذر گئیں اور اکثر لوگ ایمان کی حلاوت کو بھی بھول گئے اور جس ضعف اور کمزوری اور غلطی اور بے راہی اور دنیاپرستی اور تاریکی میں یہ قوم گرفتار ہو رہی ہے یہ حالت بالطبع تقاضا کر رہی ہے کہ کوئی اُٹھے اور ان کی دستگیری کرے۔ باایں ہمہ اب تک میرا نام دجال رکھا جاتا ہے۔ وہ قوم کیسی بدنصیب ہے کہ ان کی ایسی نازک حالت کے وقت ان کے لئے دجال بھیجا جائے۔ وہ قوم کیسی بدبخت ہے کہ ان کی اندرونی تباہی کے وقت ایک اور تباہی آسمان سے دی جائے اور کہتے ہیں کہ یہ شخص *** ہے۔ بے ایمان ہے یہی لفظ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی کہے گئے تھے اور ناپاک یہودی اب تک کہتے ہیں مگر قیامت کو جو لوگ جہنم کا مزا چکھیں گے وہ کہیں گے 3

3 ۱؂ یعنی ہمیں کیا ہو گیا کہ دوزخ میں ہمیں وہ لوگ نظر نہیں آتے جنہیں ہم شریر سمجھتے تھے۔ دنیا نے ہمیشہ خدا کے ماموروں سے دشمنی کی۔ کیونکہ دنیا سے پیار کرنا اور خدا کے مرسلوں سے پیار کرنا ہرگز ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتا اور تم دنیا سے پیار نہ کرتے تو مجھے دیکھ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 219

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 219

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/219/mode/1up


لیتے لیکن اب تم مجھے دیکھ نہیں سکتے۔

پھر ماسوائے اس کے اگر یہ بات صحیح ہے کہؔ آیت3 ۱؂ کے یہی معنی ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ آسمانِ دوم کی طرف اُٹھائے گئے تو پھر پیش کرنا چاہئے کہ اصل متنازعہ فیہ امر کا فیصلہ کس آیت میں بتلایا گیا ہے۔ یہودی جو اب تک زندہ اور موجود ہیں وہ تو حضرت مسیح کے رفع کے انہیں معنوں سے منکر ہیں کہ وہ نعوذ باللہ مومن اور صادق نہ تھے اور ان کی روح کا خدا کی طرف رفع نہیں ہوا اور شک ہو تو یہودیوں کے علماء سے جا کر پوچھ لو کہ وہ صلیبی موت سے یہ نتیجہ نہیں نکالتے کہ اِس موت سے روح معہ جسم آسمان پر نہیں جاتی۔ بلکہ وہ بالاتفاق یہ کہتے ہیں کہ جو شخص صلیب کے ذریعہ سے مارا جائے وہ ملعون ہے۔ اس کا خدا کی طرف رفع نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں حضرت عیسیٰؑ کی صلیبی موت سے انکار کیا اور فرمایا 3۲؂ اور3کے ساتھ آیت میں 3کا لفظ بڑھا دیا۔ تا اس بات پر دلالت کرے کہ صرف صلیب پر چڑھایا جانا موجب *** نہیں بلکہ شرط یہ ہے کہ صلیب پر چڑھایا بھی جائے اور بہ نیت قتل اس کی ٹانگیں بھی توڑی جائیں اور اس کو مارا بھی جائے تب وہ موت ملعون کی موت کہلائے گی مگر خدا نے حضرت عیسیٰؑ کو اس موت سے بچا لیا۔ وہ صلیب پر چڑھائے گئے مگر صلیب کے ذریعہ سے ان کی موت نہیں ہوئی۔ ہاں یہود کے دلوں میں یہ شُبہ ڈال دیا کہ گویا وہ صلیب پر مرؔ گئے ہیں اور یہی دھوکا نصاریٰ کو بھی لگ گیا۔ ہاں انہوں نے خیال کیا کہ وہ مرنے کے بعد زندہ ہو گئے ہیں لیکن اصل بات صرف اتنی تھی کہ اس صلیب کے صدمہ سے بے ہوش ہو گئے تھے اور یہی معنی 3 کے ہیں۔ اِس واقعہ پر مرہم عیسیٰ کا نسخہ ایک عجیب شہادت ہے جو صدہاسال سے عبرانیوں اور رومیوں اور یونانیوں اور اہل اسلام کی قرابادینوں میں



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 220

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 220

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/220/mode/1up


مندرج ہوتا چلا آیا ہے جس کی تعریف میں لکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے واسطے یہ نسخہ بنایا گیا تھا۔ غرض یہ خیالات نہایت قابلِ شرم ہیں کہ خداتعالیٰ حضرت مسیح کو معہ جسم آسمان پر اٹھا لے گیا تھا۔ گویا یہودیوں سے ڈرتا تھا کہ کہیں پکڑ نہ لیں۔ جن لوگوں کو اصل تنازعہ کی خبر نہ تھی انہوں نے ایسے خیالات پھیلائے ہیں اور ایسے خیالات میں آنحضرت صلعم کی ہجو ہے کیونکہ آپ سے کُفّارِ قریش نے بتمام تر اصرار یہ معجزہ طلب کیا تھا کہ آپ ہمارے رُوبرو آسمان پر چڑھ جائیں اور کتاب لے کر آسمان سے اُتریں تو ہم سب ایمان لے آویں گے اور ان کو یہ جواب ملا تھا3 ۱؂ یعنی مَیں ایک بشر ہوں اور خدا تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ وعدہ کے برخلاف کسی بشر کو آسمان پر چڑھاوے۔ حالانکہ وہ وعدہ کر چکا ہے کہ تمام بشر زمین پر ہی اپنی زندگی بسر کریں گے۔ لیکن حضرت مسیح کو خدا نے آسمان پر معہ جسم چڑھا دیا اور اس وعدہ کا کچھ پاس نہ کیا۔ جیسا کہ فرمایاتھا 3 ۲؂ بعض کا یہ خیال ہے کہ ہمیں کسی مسیح موعود کے ماننے کی ضرورت نہیں اور کہتے ہیں کہ گو ہم نے قبول کیا کہ حضرت عیسیٰؑ فوت ہوگئے ہیں لیکن جب کہ ہم مسلمان ہیں اور نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے ہیں اور احکام اسلام کی پیروی کرتے ہیں تو پھر ہمیں کسی دوسرے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ لیکن یاد رہے کہؔ اس خیال کے لوگ سخت غلطی میں ہیں۔ اوّل تو وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کیونکر کر سکتے ہیں جب کہ وہ خدا اور رسول کے حکم کو نہیں مانتے۔ حکم تو یہ تھا کہ جب وہ امام موعود ظاہر ہو تو تم بلاتوقف اُس کی طرف دوڑو اور اگر برف پر گھٹنوں کے بل بھی چلنا پڑے تب بھی اپنے تئیں اُس تک پہنچاؤ لیکن اس کے برخلاف اب لاپرواہی ظاہر کی جاتی ہے۔ کیا یہی اسلام ہے؟ اور یہی مسلمانی ہے اور نہ صرف اس قدر بلکہ سخت سخت گالیاں دی جاتی ہیں اور کافر کہا جاتا ہے اور نام دجّال رکھا جاتا ہے اور جو شخص مجھے دُکھ دیتا ہے وہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 221

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 221

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/221/mode/1up


خیال کرتا ہے کہ مَیں نے بڑا ثواب کا کام کیا ہے اور جو مجھے کاذب کاذب کہتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ مَیں نے خدا کو خوش کر دیا۔

اَے وے لوگو! جن کو صبر اور تقویٰ کی تعلیم دی گئی تھی۔ تمہیں جلد بازی اور بدظنّی کس نے سکھلائی۔ کونسا نشان ہے جو خدا نے ظاہر نہ کیا اور کونسی دلیل ہے جو خدا نے پیش نہ کی مگر تم نے قبول نہ کیا اور خدا کے حکموں کو دلیری سے ٹال دیا۔ مَیں اِس زمانہ کے حیلہ گر لوگوں کو کس سے تشبیہ دوں۔ وہ اُس مکّار سے مشابہ ہیں کہ روز روشن میں آنکھیں بند کر کے کہتا ہے کہ سورج کہاں ہے۔ اے اپنے نفس کے دھوکہ دینے والے!اوّل اپنی آنکھ کھول۔ پھر تجھے سورج دکھائی دے دے گا۔ خدا کے مرسل کو کافر کہنا سہل ہے مگر ایمان کی باریک راہوں میں اس کی پیروی کرنا مشکل ہے۔ خدا کے فرستادہ کو دجّال کہنا بہت ؔ آسان ہے مگر اس کی تعلیم کے موافق تنگ دروازہ میں سے داخل ہونا یہ دشوار امر ہے۔ ہر ایک جو کہتا ہے کہ مجھے مسیح موعود کی پرواہ نہیں ہے اُس کو ایمان کی پرواہ نہیں ہے۔ ایسے لوگ حقیقی ایمان اور نجات اور سچی پاکیزگی سے لاپروا ہ ہیں۔ اگر وہ ذرا انصاف سے کام لیں اور اپنے اندرونی حالات پر نظر ڈالیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ بغیر اِس تازہ یقین کے جو خدا کے مرسلوں اور نبیوں کے ذریعہ سے آسمان سے نازل ہوتا ہے۔ اُن کی نمازیں صرف رسم اور عادت سے ہیں اور اُن کے روزے صرف فاقہ کشی ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ کوئی انسان نہ تو واقعی طور پر گناہ سے نجات پا سکتا ہے اور نہ سچے طور پر خدا سے محبت کر سکتا ہے اور نہ جیسا کہ حق ہے اس سے ڈر سکتا ہے جب تک کہ اُسی کے فضل اور کرم سے اُس کی معرفت حاصل نہ ہو اور اس سے طاقت نہ ملے اور یہ بات نہایت ہی ظاہر ہے کہ ہر ایک خوف اور محبت معرفت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ دنیا کی تمام چیزیں جن سے انسان دل لگاتا ہے اور اُن سے محبت کرتا ہے یا اُن سے ڈرتا ہے اور دُور بھاگتا ہے۔ یہ سب حالات انسان کے دل کے اندر معرفت کے بعد ہی پیدا ہوتے ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 222

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 222

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/222/mode/1up


ہاں یہ سچ ہے کہ معرفت حاصل نہیں ہو سکتی جب تک خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو۔ اور نہ مفید ہو سکتی ہے جب تک خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو اور فضل کے ذریعہ سے معرفت آتی ہے۔ تب معرفت کے ذریعہ سے حق بینی اور حق جوئی کا ایک دروازہ کھلتا ہے اورؔ پھر بار بار دَورفضل سے ہی وہ دروازہ کھلا رہتا ہے اور بند نہیں ہوتا۔ غرض معرفت فضل کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے اور پھر فضل کے ذریعہ سے ہی باقی رہتی ہے۔ فضل معرفت کو نہایت مصفّٰی اور روشن کر دیتا ہے اور حجابوں کو درمیان سے اُٹھا دیتا ہے اور نفس امّارہ کے لئے گردوغبار کو دور کر دیتا ہے اور رُوح کو قوت اور زندگی بخشتا ہے اور نفسِ امّارہ کو امارگی کے زندان سے نکالتا ہے اور بدخواہشوں کی پلیدی سے پاک کرتا ہے اور نفسانی جذبات کےُ تند سیلاب سے باہر لاتا ہے۔ تب انسان میں ایک تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور وہ بھی گندی زندگی سے طبعاً بیزار ہو جاتا ہے کہ بعد اس کے پہلی حرکت جو فضل کے ذریعہ سے رُوح میں پیدا ہوتی ہے وہ دعا ہے۔ یہ خیال مت کرو کہ ہم بھی ہر روز دُعا کرتے ہیں اور تمام نماز دُعا ہی ہے جو ہم پڑھتے ہیں۔ کیونکہ وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے۔ وہ فنا کرنے والی چیز ہے۔ وہ گداز کرنے والی آگ ہے وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے۔ وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے۔ وہ ایک تند سیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے۔ ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے۔

مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں۔ تھکتے نہیں کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے۔ مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں سُست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے۔ مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے۔



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 223

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 223

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/223/mode/1up


مبارؔ ک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دعا کے لئے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینہ میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اُٹھانے کے لئے اندھیری کوٹھڑیوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنا دیتی ہے کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا۔ وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں نہایت کریم و رحیم، حیا والا، صادق، وفادار، عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے۔ پس تم بھی وفادار بن جاؤ اور پورے صدق اور وفا سے دعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا۔ دنیا کے شور و غوغا سے الگ ہو جاؤ اور نفسانی جھگڑوں کا دین کو رنگ مت دو۔ خدا کے لئے ہار اختیار کر لو اور شکست کو قبول کر لو تا بڑی بڑی فتحوں کے تم وارث بن جاؤ۔ دعا کرنے والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت دی جائے گی۔ دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے۔ دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے۔ دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ پھر اس تبدیلی سے خدا بھی اپنے صفات میں تبدیلی کرتا ہے اور اس کے صفات غیر متبدل ہیں مگر تبدیلی یافتہ کے لئے اُس کی ایک الگ تجلی ہے جس کو دنیا نہیں جانتی۔ گویاوہ اَور خدا ہے حالانکہ اور کوئی خدا نہیں۔ مگر نئی تجلی نئے رنگ میں اس کو ظاہر کرتی ہے۔ تب اس خاص تجلی کے شان میں اس تبدیل یافتہ کے لئے وہ کام کرتا ہے جو دوسروں کے لئے نہیں کرتا۔ یہی وہ خوارق ہے۔

غرضؔ دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشتِ خاک کو کیمیا کر دیتی ہے اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے۔ اُس دعا کے ساتھ روح پگھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ

کر آستانہ حضرتِ احدّ یت پر گرتی ہے۔ وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی

ہے اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے۔ اور اسی کی ِ ظل وہ نماز ہے جو



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 224

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 224

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/224/mode/1up


اسلام نے سکھلائی ہے اور رُوح کا کھڑا ہونا یہ ہے کہ وہ خدا کے لئے ہر ایک مصیبت کی برداشت اور حکم ماننے کے بارے میں مستعدی ظاہر کرتی ہے اور اس کا رکوع یعنی جھکنا یہ ہے کہ وہ تمام محبتوں اور تعلّقوں کو چھوڑ کر خدا کی طرف جھک آتی ہے اور خدا کے لئے ہو جاتی ہے اور اُس کا سجدہ یہ ہے کہ وہ خدا کے آستانہ پر گِر کر اپنے تئیں بکلّی کھو دیتی ہے اور اپنے نقشِ وجود کو مٹا دیتی ہے۔ یہی نماز ہے جو خدا کو ملاتی ہے اور شریعت اسلامی نے اس کی تصویر معمولی نماز میں کھینچ کر دکھلائی ہے تا وہ جسمانی نماز روحانی نماز کی طرف محرک ہو کیونکہ خداتعالیٰ نے انسان کے وجود کی ایسی بناوٹ پیدا کی ہے کہ روح کا اثر جسم پر اور جسم کا اثر روح پر ضرور ہوتا ہے۔ جب تمہاری روح غمگین ہو تو آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور جب روح میں خوشی پیدا ہو تو چہرہ پر بشاشت ظاہر ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ انسان بسا اوقات ہنسنے لگتا ہے ایسا ہی جب جسم کو کوئی تکلیف اور درد پہنچے تو اس درد میں روح بھی شریک ہوتی ہے اور جب جسمُ کھلی ٹھنڈی ہوا سے خوش ہو تو روح بھی اس سے کچھ حصہ لیتی ہے پس جسمانی عباداتکی غرض یہ ہے کہ روح اور جسم کے باہمی تعلقات کیؔ وجہ سے روح میں حضرتِ احدیت کی طرف حرکت پیدا ہو اور وہ روحانی قیام اور رکوع اور سجود میں مشغول ہو جائے کیونکہ انسان ترقیات کے لئے مجاہدات کا محتاج ہے اور یہ بھی ایک قسم مجاہدہ کی ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جب دو چیزیں باہم پیوست ہوں تو جب ہم اُن میں سے ایک چیز کو اٹھائیں گے تو اُس اُٹھانے سے دوسری چیز کو بھی جو اس سے ملحق ہے کچھ حرکت پیدا ہوگی۔ لیکن صرف جسمانی قیام اور رکوع اور سجود میں کچھ فائدہ نہیں ہے جب تک کہ اس کے ساتھ یہ کوشش شامل نہ ہو کہ روح بھی اپنے طور سے قیام اور رکوع اور سجود سے کچھ حصہ لے اور یہ حصہ لینا معرفت پر موقوف ہے اور معرفت فضل پر موقوف، اور خدا نے قدیم سے اور جب سے کہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 225

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 225

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/225/mode/1up


انسان کو پیدا کیا ہے یہ سنّت جاری کی ہے کہ وہ پہلے اپنے فضل عظیم سے جس کو چاہتا ہے اُس پر رُوح القدس ڈالتا ہے اور پھر روح القدس کی مدد سے اس کے اندر اپنی محبت پیدا کرتا ہے اور صدق و ثبات بخشتا ہے اور بہت سے نشانوں سے اس کی معرفت کو قوی کر دیتا ہے اور اس کی کمزوریوں کو دور کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ سچ مچ اس کی راہ میں جان دینے کو طیار ہوتا ہے اور اس کا اُس ذات قدیم سے کچھ ایسا غیر منفک تعلق ہو جاتا ہے کہ وہ تعلق کسی مصیبت سے دُور نہیں ہو سکتا اور کوئی تلوار اس علاقہ کو قطع نہیں کر سکتی اور اس محبت کا کوئی عارضی سہارا نہیں ہوتا۔ نہ بہشت کی خواہش نہ دوزخ کا خوف۔ نہ دنیا کا آرام اور نہ کوئی مال و دولت بلکہ ایک لامعلوم تعلق ہے جس کو خدا ہی جانتا ہے اور عجب تر یہ کہ یہ گرفتارِ محبت بھی اس تعلق کی کُنہ کو نہیں پہنچ سکتا کہ کیوں ہے اور کس خواہش اور کس طرح سے ہے کیونکہ وہ ازل سے تعلق ہوتا ہے۔ وہ تعلق معرفت کےؔ ذریعہ سے نہیں بلکہ معرفت بعد میں آتی ہے جو اس تعلق کو روشن کر دیتی ہے۔ جیسا کہ پتھر میں آگ تو پہلے سے ہے لیکن چقماق سے آگ کے شعلے نکلنے شروع ہو جاتے ہیں اور ایسے شخص میں ایک طرف تو خدا تعالیٰ کی ذاتی محبت ہوتی ہے اور دوسری طرف بنی نوع کی ہمدردی اور اصلاح کا بھی ایک عشق ہوتا ہے اسی وجہ سے ایک طرف تو خدا کے ساتھ اس کا ایسا ربط ہوتا ہے جو اس کی طرف ہر وقت کھینچا چلا جاتا ہے اور دوسری طرف نوعِ انسان کے ساتھ بھی اس کو ایسا تعلق ہوتا ہے جو اُن کی مستعد طبائع کو اپنی طرف کھینچتا ہے جیسا کہ آفتاب زمین کے تمام طبقات کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے اور خود بھی ایک طرف کھینچا جا رہا ہے۔ یہی حالت اس شخص کی ہوتی ہے ایسے لوگوں کو اصطلاحِ اسلام میں نبی اور رسول اور محدّث کہتے ہیں اور وہ خدا کے پاک مکالمات اور مخاطبات سے مشرف ہوتے ہیں اور خوارق اُن کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے ہیں اور اکثر دعائیں اُن کی قبول ہوتی ہیں اور اپنی دعاؤں میں خدا تعالیٰ سے بکثرت جواب پاتے ہیں۔ بعض جاہل اِس جگہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 226

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 226

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/226/mode/1up


یہ کہا کرتے ہیں کہ ہمیں بھی سچی خوابیں آجاتی ہیں۔ کبھی دعا بھی قبول ہو جاتی ہے۔ کبھی الہام بھی ہو جاتا ہے۔ پس ہم میں اور رسولوں میں کیا فرق ہے؟ پس اُن کے نزدیک خدا کے نبی مکّار یا دھوکا خوردہ ہیں۔ جو ایک معمولی بات پر فخر کر رہے ہیں اور اُن میں اور اُن کے غیر میں کچھ بھی فرق نہیں۔ یہ ایک ایسا مغرورانہ خیال ہے جس سے اس زمانہ میں بہت سے لوگ ہلاک ہو رہے ہیں۔ لیکن طالب حق کے لئے ان اوہام کا صاف جواب ہے اور وہ یہ کہ بلاشبہ یہ بات سچ ہے کہ خدا نے ایک گروہ کو اپنے خاص فضل اور عنایت کے ساتھ برگزیدؔ ہ کر کے اپنی روحانی نعمتوں کا بہت سا حصہ اُن کو دیا ہے اس لئے باوجود اس کے کہ ایسے معاند اور اندھے ہمیشہ انبیاء علیہم السلام سے منکر رہے ہیں تا ہم خدا کے نبی اُن پر غالب آتے رہے ہیں اور اُن کا خارق عادت نور ہمیشہ ایسے طور سے ظاہر ہوتا رہا ہے کہ آخر عقلمندوں کو ماننا پڑا ہے کہ اُن میں اور اُن کے غیروں میں ایک عظیم الشان امتیاز ہے جیسا کہ ظاہر ہے کہ ایک مفلس گدائی پیشہ کے پاس بھی چند درہم ہوتے ہیں اور ایک شہنشاہ کے خزائن بھی دراہم سے پُر ہوتے ہیں۔ مگر وہ مفلس نہیں کہہ سکتا کہ میں اس بادشاہ کے برابر ہوں۔ یا مثلاً ایک کیڑے میں روشنی ہوتی ہے جو رات کو چمکتا ہے اور آفتاب میں بھی روشنی ہے مگر کیڑا نہیں کہہ سکتا کہ مَیں آفتاب کے برابر ہوں اور خدانے جو عام لوگوں کے نفوس میں رؤیا اور کشف اور الہام کی کچھ کچھ تخمریزی کی ہے وہ محض اس لئے ہے کہ وہ لوگ اپنے ذاتی تجربہ سے انبیاء علیہم السلام کو شناخت کر سکیں اور اس راہ سے بھی اُن پر حجت پوری ہو اور کوئی عذر باقی نہ رہے۔

اور پھر ایک خصوصیت خدا کے برگزیدہ بندوں میں یہ ہے کہ وہ اہلِ تاثیر اور اہلِ جذب ہوتے ہیں اور وہ دنیا میں روحانی نسلوں کے قائم کرنے کے لئے بھیجے جاتے ہیں اور چونکہ وہ علیٰ وجہ البصیرت رہنمائی کرتے ہیں اور مخلوق کے ظلماتی پردوں کو درمیان سے اُٹھاتے ہیں اس لئے سچی معرفت الٰہی اور سچی محبت الٰہی اور سچا زہد و تقویٰ اور ذوق اور حلاوت



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 227

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 227

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/227/mode/1up


انہیں کے ذریعہ سے دونوں* میں پیدا ہوتا ہے اور اُن سے تعلق توڑنا ایسا ہوتا ہے کہ جیسا کہ ایک شاخ اپنے درخت سے تعلق توڑ دے۔ اور ان تعلقات میں کچھ ایسی خاصیت ہے کہؔ تعلق کرنے کے ساتھ ہی بشرط مناسبت روحانیت کا نشوونما چارسُوشروع ہو جاتا ہے اور تعلق توڑنے کے ساتھ ہی ایمانی حالت پر گردوغبار آنا شروع ہو جاتا ہے۔ پس یہ نہایت مغرورانہ خیال ہے کہ کوئی یہ کہے کہ مجھے خدا کے نبیوں اور رسولوں کی ضرورت نہیں اور نہ کچھ حاجت۔ یہ سلبِ ایمان کی نشانی ہے اور ایسے خیال والا انسان اپنے تئیں دھوکا دیتا ہے جب کہ وہ کہتا ہے کہ کیا مَیں نماز نہیں پڑھتا یا روزہ نہیں رکھتایا کلمہ گو نہیں ہوں۔ چونکہ وہ سچے ایمان اور سچے ذوق و شوق سے بے خبر ہے اس لئے ایسا کہتا ہے۔ اُس کو سوچنا چاہئے کہ گو انسان کو خدا ہی پیدا کرتا ہے مگر کس طرح اُس نے ایک انسان کو دوسرے انسان کی پیدائش کا سبب بنا دیا ہے۔ پس جس طرح جسمانی سلسلہ میں جسمانی باپ ہوتے ہیں جن کے ذریعہ سے انسان پیدا ہوتا ہے۔ ایسا ہی روحانی سلسلہ میں روحانی باپ بھی ہیں جن سے روحانی پیدائش ہوتی ہے۔ ہوشیارر ہو اور اپنے تئیں صرف ظاہری صورت اسلام سے دھوکا مت دو اور خدا کی کلام کو غور سے پڑھو کہ وہ تم سے کیا چاہتا ہے۔ وہ وہی امر تم سے چاہتا ہے جس کے بارہ میں سورہ فاتحہ میں تمہیں دعا سکھلائی گئی ہے۔ یعنی یہ دعا کہ33 ۱؂ پس جب کہ خدا تمہیں یہ تاکید کرتا ہے کہ پنج وقت یہ دعا کرو کہ وہ نعمتیں جو نبیوں اور رسولوں کے پاس ہیں وہ تمہیں بھی ملیں۔ پس تم بغیر نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ کے وہ نعمتیں کیونکر پا سکتے ہو۔ لہٰذا ضرور ہوا کہ تمہیں یقین اور محبت کے مرتبہ پر پہنچانے کے لئے خدا کے انبیاء وقتاً بعد وقتٍ آتے رہیں جن سے تم وہ نعمتیں پاؤ۔ اب کیا تم خدا تعالیٰ کا مقابلہ کرو گے اور اُس کے قدیم قانون کو توڑ دو گے۔ کیا نطفہ کہہ سکتا ہے کہ میں باپ کے ذریعہ سے پیدا ہونا نہیں چاہتاتھا؟ کیا کان کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہوا کے ذریعہ سے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 228

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 228

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/228/mode/1up


آواز کو سننا نہیں چاہتے۔ اِس سے بڑھ کر اور کیا نادانی ہوگی کہ خدا تعالیٰ کے قانون قدیم پر حملہ ہو۔

اخیرؔ پر یہ بھی واضح ہو کہ میرا اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آنا محض مسلمانوں کی اصلاح کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں اور ہندوؤں اور عیسائیوں تینوں قوموں کی اصلاح منظور ہے۔ اور جیسا کہ خدا نے مجھے مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود کر کے بھیجا ہے ایسا ہی مَیں ہندوؤں کے لئے بطور اوتارکے ہوں اور مَیں عرصہ بیس۲۰ برس سے یا کچھ زیادہ برسوں سے اِس بات کو شہرت دے رہا ہوں کہ مَیں ان گناہوں کے دور کرنے کے لئے جن سے زمین پُر ہوگئی ہے جیسا کہ مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہوں ایسا ہی راجہ کرشن کے رنگ میں بھی ہوں جو ہندو مذہب کے تمام اوتاروں میں سے ایک بڑا اوتار تھا ۔یا یوں کہنا چاہئے کہ روحانی حقیقت کی رو سے مَیں وہی ہوں۔ یہ میرے خیال اور قیاس سے نہیں ہے بلکہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا خدا ہے اُس نے یہ میرے پر ظاہر کیا ہے اور نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ مجھے بتلایا ہے کہ تو ہندوؤں کے لئے کرشن اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ جاہل مسلمان اِس کو سن کر فی الفور یہ کہیں گے کہ ایک کافر کا نام اپنے پر لے کر کفر کو صریح طور پر قبول کیا ہے۔ لیکن یہ خدا کی وحی ہے جس کے اظہار کے بغیر مَیں رہ نہیں سکتا اور آج یہ پہلا دن ہے کہ ایسے بڑے مجمع میں اس بات کو مَیں پیش کرتا ہوں کیونکہ جو لوگ خدا کی طرف سے ہوتے ہیں وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔

اب واضح ہو کہ راجہ کرشن جیسا کہ میرے پر ظاہر کیا گیا ہے درحقیقت ایک ایسا کامل انسان تھا جس کی نظیر ہندوؤں کے کسی رشیؔ اور اوتار میں نہیں پائی جاتی اور اپنے وقت کا اوتار یعنی نبی تھا جس پر خدا کی طرف سے رُوح القدس اُترتا تھا۔ وہ

خدا کی طرف سے فتح مند اور بااقبال تھا۔ جس نے آریہ ورت کی زمین کو پاپ سے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 229

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 229

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/229/mode/1up


صاف کیا۔ وہ اپنے زمانہ کا درحقیقت نبی تھا جس کی تعلیم کو پیچھے سے بہت باتوں میں بگاڑ دیا گیا۔ وہ خدا کی محبت سے پُر تھا اور نیکی سے دوستی اور شر سے دشمنی رکھتا تھا۔ خدا کا وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں اُس کا بروز یعنی اوتار پیدا کرے۔ سو یہ وعدہ میرے ظہور سے پورا ہوا۔ مجھے منجملہ اور الہاموں کے اپنی نسبت ایک یہ بھی الہام ہوا تھا کہ ہے کرشن رودر گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے۔سو مَیں کرشن سے محبت کرتا ہوں کیونکہ مَیں اس کا مظہر ہوں اور اس جگہ ایک اور راز درمیان میں ہے کہ جو صفات کرشن کی طرف منسوب کئے گئے ہیں (یعنی پاپ کانشٹ کرنے والا اور غریبوں کی دلجوئی کرنے والا اور اُن کو پالنے والا) یہی صفات مسیح موعود کے ہیں۔ پس گویا روحانیت کی رو سے کرشن اور مسیح موعود ایک ہی ہیں۔ صرف قومی اصطلاح میں تغائر ہے۔ اب مَیں بحیثیت کرشن ہونے کے آریہ صاحبوں کو اُن کی چند غلطیوں پر تنبیہ کرتا ہوں۔ اُن میں سے ایک تو وہی ہے جس کا ذکر مَیں پہلے بھی کر آیا ہوں کہ یہ طریق اور یہ عقیدہ صحیح نہیں ہے کہ روحوں اور ذرات عالم کو جن کو پر کرتی یا ؔ پرمانو بھی کہتے ہیں۔ غیر مخلوق اور انادی سمجھا جائے۔ غیر مخلوق بجز اس پرمیشر کے کوئی بھی نہیں۔ جو کسی دوسرے کے سہارے سے زندہ نہیں لیکن وہ چیزیں جو کسی دوسرے کے سہارے سے زندہ ہیں وہ غیر مخلوق نہیں ہو سکتیں۔ کیا روحوں کےُ گن خود بخود ہیں؟ اُن کا پیدا کرنے والا کوئی نہیں؟ اگر یہی صحیح ہے تو روحوں کا جسموں میں داخل ہونا بھی خود بخود ہو سکتا ہے اور ذرّات کا اکٹھے ہونا اور متفرق ہونا بھی خود بخود ہو سکتا ہے۔ اس طریق سے پرمیشر کا وجود ماننے کے لئے کوئی عقلی دلیل آپ کے ہاتھ میں نہیں رہے گی۔ کیونکہ اگر عقل اس بات کو قبول کر سکتی ہے کہ تمام ارواح معہ اپنے تمامُ گنوں کے جو اُن کے اندر پائے جاتے ہیں خود بخود ہیں۔ تو اس دوسری بات کو بھی بہت خوشی سے قبول کر لے گی کہ روحوں اور اجسام کا باہم اتصال یا انفصال بھی خود بخود ہے اور جب کہ خود بخود ہونے کی بھی راہ کھلی



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 230

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 230

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/230/mode/1up


ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک راہ کھلی رکھی جاوے اور دوسری بند کی جاوے۔ یہ طریق کسی منطق سے سدھ نہیں ہوسکتا۔

پھر اس غلطی نے ایک اور غلطی میں آریہ صاحبوں کو پھنسا دیا ہے جس میں اُن کا خود نقصان ہے جیسا کہ پہلی غلطی میں پرمیشر کا نقصان ہے۔ اور وہ یہ کہ آریہ صاحبوں نے مکتی کو میعادی ٹھہرا دیا ہے اور تناسخ ہمیشہ کے لئے گلے کا ہار قرار دیا گیا ہے جس سے کبھی نجات نہیں۔ یہ بخل اور تنگ دلی خدائے رحیم و کریم کی طرف منسوب کرنا عقل سلیم تجویز نہیں کر سکتی۔ جس حالت میں پرمیشر کو ابدی نجاؔ ت دینے کی قدرت تھی اور وہ سرب شکتی مان تھا تو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ ایسا بخل اُس نے کیوں کیا کہ اپنی قدرت کے فیض سے بندوں کو محروم رکھا اور پھر یہ اعتراض اور بھی مضبوط ہوتا ہے جبکہ دیکھا جاتا ہے کہ جن رُوحوں کو ایک طول طویل عذاب میں ڈالا ہے اور ہمیشہ کے لئے جُونیں بھگتنے کی مصیبت ان کی قسمت میں لکھ دی ہے وہ روحیں پرمیشور کی مخلوق بھی نہیں ہیں۔ اس کا جواب آریہ صاحبوں کی طرف سے یہ سُنا گیا ہے کہ پرمیشور ہمیشہ کی مکتی دینے پر قادر تو تھا۔ سرب شکتی مان جو ہوا ۔لیکن میعادی مکتی اس وجہ سے تجویز کی گئی کہ تا سلسلہ تناسخ کا ٹوٹ نہ جائے۔ کیونکہ جس حالت میں روحیں ایک تعداد مقررہ کے اندر ہیں اور اس سے زیادہ نہیں ہو سکتیں۔ پس ایسی صورت میں اگر دائمی مکتی ہوتی تو جُونوں کا سلسلہ قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ کیونکہ جو روح نجات ابدی پا کر مکتی خانہ میں گئی وہ تو گویا پرمیشور کے ہاتھ سے گئی اور اس روز مرہ کے خرچ کا آخری نتیجہ ضرور یہ ہونا تھا کہ ایک دن ایک روح بھی جُونوں میں ڈالنے کے لئے پرمیشور کے ہاتھ میں نہ رہتی اور کسی دن یہ شغل تمام ہو کر پرمیشور معطّل ہو کر بیٹھ جاتا۔ پس ان مجبوریوں کی وجہ سے پرمیشور نے یہ انتظام کیا کہ مکتی کو ایک حد تک محدود رکھا۔ اور پھر اسی جگہ ایک اور اعتراض ہوتا تھا کہ پرمیشور بے گناہوں کو جو ایک دفعہ مکتی پا چکے اور گناہوں سے صاف ہو چکے پھر مکتی خانہ سے کیوں بار بار نکالتا ہے۔ اس اعتراض کو پرمیشر نے اس طرح



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 231

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 231

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/231/mode/1up


دفعہ کیا کہ ہر ایک شخص جس کو مکتی خانہ میں داخل کیا ایک گناہ اس کے ذمہ رکھ لیا۔ اُسی گناہ کی سزا میں آخر کار ہر ایک رُوح مکتی خانہ سے نکالی جاتی ہے۔

یہ ہیں اُصول آریہ صاحبوں کے۔ اب انصاف کرنا چاہئے کہ جو شخص انؔ مجبوریوں میں پھنسا ہوا ہے اس کو پرمیشر کیونکر کہہ سکتے ہیں۔ بڑا افسوس ہے کہ آریہ صاحبوں نے ایک صاف مسئلہ خالقیّت باری تعالیٰ سے انکار کر کے اپنے تئیں بڑی مشکلات میں ڈال لیا اور پرمیشر کے کاموں کو اپنے نفس کے کاموں پر قیاس کر کے اس کی توہین بھی کی اور یہ نہ سوچاکہ خدا ہر ایک صفت میں مخلوق سے الگ ہے اور مخلوق کے پیمانہ صفات سے خدا کو ناپنا یہ ایک ایسی غلطی ہے جس کو اہل مناظرہ قیاس مع الفارق کہتے ہیں اور یہ کہنا کہ نیستی سے ہستی نہیں ہو سکتی یہ تو مخلوق کے کاموں کی نسبت عقل کا ایک ناقص تجربہ ہے۔ پس اسی قاعدہ کے نیچے خدا کی صفات کو بھی داخل کرنا اگر ناسمجھی نہیں تو اور کیا ہے۔ خدا بغیر جسمانی زبان کے بولتا ہے اور بغیر جسمانی کانوں کےُ سنتا ہے اور بغیر جسمانی آنکھوں کے دیکھتا ہے۔ اسی طرح وہ بغیر جسمانی لوازم کے پیدا بھی کرتا ہے۔ اس کو مادہ کے لئے مجبور کرنا گویا خدائی صفات سے معطل کرنا ہے اور پھر اس عقیدہ میں ایک اور بھاری فساد ہے کہ یہ عقیدہ انادی ہونے کی صفت میں ذرہ ذرہ کو خداتعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے اور بُت پرست تو چند بُتوں کو بھی خدا کے شریک قرار دیتے تھے مگر اس عقیدہ کے رُو سے تمام دنیا ہی خدا کی شریک ہے۔ کیونکہ ہرایک ذرہ اپنے وجود کا آپ ہی خدا ہے۔ خداتعالیٰ جانتا ہے کہ مَیں یہ باتیں کسی بغض اور عداوت سے نہیں کہتا بلکہ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ وید کی اصلی تعلیم یہ ہرگز نہیں ہو گی۔ مجھے معلوم ہے کہ خودروفلسفیوں کے ایسے عقیدے تھے جن میں سےؔ بہت سے لوگ آخر کار دہریہ ہو گئے اور مجھے خوف ہے کہ اگر آریہ صاحبوں نے اس عقیدہ سے دست کشی نہ کی تو ان کا انجام بھی یہی ہو گا اور اس عقیدہ کی شاخ جو تناسخ ہے وہ بھی خدا کے رحم اور فضل پر سخت دھبہ لگاتی ہے۔ کیونکہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 232

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 232

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/232/mode/1up


جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دو تین بالشت کی جگہ میں مثلاً چیونٹیئیں اتنی ہوتی ہیں کہ کئی ارب سے زائد ہو جاتی ہیں اور ہر ایک قطرہ پانی میں کئی ہزار کیڑا ہوتا ہے اور دریا اور سمندر اور جنگل طرح طرح کے حیوانات اور کیڑوں سے بھرے ہوئے ہیں جن کی طرف ہم انسانی تعداد کو کچھ بھی نسبت نہیں دے سکتے۔ اس صورت میں خیال آتا ہے کہ اگر بفرض محال تناسخ صحیح ہے تو اب تک پرمیشر نے بنایا کیا؟ اور کس کو مکتی دی اور آئندہ کیا امید رکھی جائے؟

ماسوا اس کے یہ قانون بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ سزا تو دی جائے مگر سزا یافتہ شخص کو جرم پر اطلاع نہ دی جائے۔ اور پھر ایک نہایت مصیبت کی جگہ یہ ہے کہ مکتی تو گیان پر موقوف ہے اور گیان ساتھ ساتھ برباد ہوتا رہتا ہے اور کوئی کسی ُ جون میں آنے والا خواہ کیسا ہی پنڈت کیوں نہ ہو کوئی حصہ وید کایا دنہیں رکھتا۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ جونوں کے ذریعہ سے مکتی پانا ہی محال ہے اور جو جونوں کے چکر میں پڑ کر مرد اور عورتیں دنیا میں آئی ہیں ان کے ساتھ کوئی ایسی فہرست نہیں آتی جس سے اُن کے رشتوں کا حال معلوم ہوؔ ۔تا کوئی بیچارہ کسی ایسی نوزاد کو اپنی شادی میں نہ لائے جو دراصل اس کی ہمشیرہ یا ماں ہے۔

اورنیوگ کا مسئلہ جو آج کل آریہ صاحبوں میں رائج ہے اِس کی نسبت تو ہم باربار یہی نصیحت کرتے ہیں کہ اس کو جہاں تک ممکن ہو ترک کردینا چاہئے۔ انسانی سرشت ہرگز قبول نہ کرے گی کہ ایک شخص اپنی عزت دار عورت کو جس پر اُس کے تمام ننگ و ناموس کا مدار ہے باوجود اپنے جائز خاوند ہونے کے اور باوجود اس علاقہ کے قائم ہونے کے جو زن و شوہر میں ہوتا ہے۔ پھر اپنی پاک دامن بیوی کو اولاد کی خواہش سے دوسروں سے ہم بستر کرا وے۔ اس بارہ میں ہم زیادہ لکھنا نہیں چاہتے صرف شریف انسانوں کے کانشنس پر چھوڑتے ہیں۔ باایں ہمہ آریہ صاحبان اس کوشش میں ہیں کہ مسلمانوں کو اپنے اس مذہب کی دعوت کریں۔ سو ہم کہتے ہیں کہ ہر ایک عقلمند سچائی کے قبول



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 233

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 233

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/233/mode/1up


کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے مگر یہ سچائی نہیں ہے کہ اُس خدا کو جس نے اپنی بزرگ قدرتوں سے اپنی ہستی کو ظاہر فرمایا ہے۔ خالقیّت سے جواب دیا جاوے اور اُس کو تمام فیضوں کا مظہر نہ سمجھا جائے۔ ایسا پرمیشور ہرگز پرمیشور نہیں ہو سکتا۔ انسان نے خدا کو اُس کی قدرتوں سے شناخت کیا ہے۔ جب کوئی قدرت اس میں نہیں رہی اور وہ بھی ہماری طرح اسباب کا محتاج ہے تو پھر اس کی شناخت کا دروازہ بند ہو جائے گا۔

پھرؔ ماسوا اس کے خداتعالیٰ اپنے احسانات کی وجہ سے قابلِ عبادت ہے مگر جب کہ اُس نے رُوحوں کو پیدا ہی نہیں کیا اور نہ اس میں بغیر عمل کسی عامل کے فضل اور احسان کرنے کی صفت موجود ہے تو ایسا پرمیشر کس وجہ سے قابلِ عبادت ٹھہرے گا؟ جہاں تک ہم غور کرتے ہیں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آریہ صاحبوں نے اپنے مذہب کا اچھا نمونہ پیش نہیں کیا۔ پرمیشر کو ایسا کمزور اور کینہ ور ٹھہرایا کہ وہ کروڑہا ارب سزا دے کر پھر بھی دائمیُ مکتی نہیں دیتا اور غصہ اُس کا کبھی فرو نہیں ہوتا اور آریہ صاحبوں نے قومی تہذیب پر نیوگ کا ایک سیاہ داغ لگا دیا ہے اور اس طرح پر انہوں نے غریب عورتوں کی عزت پر بھی حملہ کیا ۔اور دونوں پہلو حق اللہ اور حق العباد میں قابل شرم فساد ڈال دیا۔ یہ مذہب پرمیشور کو معطّل کرنے کے لحاظ سے دہریوں سے بہت قریب ہے۔ اور نیوگ کے لحاظ سے ایک ناقابلِ ذکر قوم سے قریب۔

اِس جگہ مجھے بہت درد دل سے یہ کہنے کی بھی ضرورت پڑی ہے کہ یوں تو اکثر حضرات آریہ صاحبان اور مسیحی صاحبوں کو اسلام کے سچے اور کامل اصولوں پر بے جا حملہ کرنے کی بہت عادت ہے۔ مگر وہ اپنے مذہب میں روحانیت پیدا کرنے سے بہت غافل ہیں ۔مذہب اس بات کا نام نہیں ہے کہ انسان دنیا کے تمام اکابر اور نبیوں اور رسولوں کو بدگوئی سے یاد کرے۔ ایسا کرنا تو مذہب کی اصل غرض سے مخالف ہے بلکہ مذہب سے غرض یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو ہر ایک بدی سے پاک کر کے اِس لائق بنا وے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 234

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 234

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/234/mode/1up


کہ اس کی رُوح ہر وقت خداتعالیٰ کے آستانہ پر گِری رہے اور یقین اور محبت اور معرفت اور صدق اور وفا سے بھر جائے اور اس میں ایک خالص تبدیلی پیدا ہو جائے تا اِؔ سی دنیا میں بہشتی زندگی اُس کو حاصل ہو۔ لیکن ایسے عقیدوں سے حقیقی نیکی کب اور کس طر ح حاصل ہو سکتی ہے جس میں انسانوں کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ صرف خونِ مسیح پر ایمان لاؤ اور پھر اپنے دلوں میں سمجھ لو کہ گناہوں سے پاک ہو گئے۔ یہ کس قسم کا پاک ہونا ہے جس میں تزکیہ نفس کی کچھ بھی ضرورت نہیں۔ بلکہ حقیقی پاکی تب حاصل ہوتی ہے جب انسان گندی زندگی سے توبہ کر کے ایک پاک زندگی کا خواہاں ہو۔ اور اس کے حصول کے لئے صرف تین باتیں ضروری ہیں۔ ایک۔۱ تدبیر اور مجاہدہ کہ جہاں تک ممکن ہو گندی زندگی سے باہر آنے کے لئے کوشش کرے۔ اور دوسری۔۲ دعا کہ ہر وقت جنابِ الٰہی میں نالاں رہے۔ تا وہ گندی زندگی سے اپنے ہاتھ سے اس کو باہر نکالے اور ایک ایسی آگ اس میں پیدا کرے جو بدی کے خس و خاشاک کو بھسم کر دے اور ایک ایسی قوت عنایت کرے جو نفسانی جذبات پر غالب آ جاوے۔ اور چاہئے کہ اسی طرح دُعا میں لگا رہے جب تک کہ وہ وقت آ جاوے کہ ایک الٰہی نور اس کے دل پر نازل ہو۔ اور ایک ایسا چمکتا ہوا شعاع اُس کے نفس پر گِرے کہ تمام تاریکیوں کو دور کر دے اور اس کی کمزوریاں دور فرمائے اور اس میں پاک تبدیلی پیداکرے۔کیونکہ دعاؤں میں بلاشبہ تاثیر ہے۔ اگرُ مردے زندہ ہو سکتے ہیں تو دعاؤں سے۔ اور اگر اسیر رہائی پا سکتے ہیں تو دعاؤں سے۔ اور اگر گندے پاک ہو سکتے ہیں تو دعاؤں سے۔ مگر دعا کرنا اور مرنا قریب قریب ہے۔ تیسر۳۔ا طریق صحبت کا ملین اور صالحین ہے۔ کیونکہ ایک چراغ کے ذریعہ سے دوسرا چراغ روشن ہو سکتا ہے۔ غرض یہ تین طریق ہی گناہوں سےؔ نجات پانے کے ہیں۔ جن کے اجتماع سے آخر کار فضل شاملِ حال ہو جاتا ہے۔ نہ یہ کہ خونِ مسیح کا عقیدہ قبول کر کے آپ ہی اپنے دل میں سمجھ لیں کہ ہم گناہوں سے نجات پا گئے۔یہ تو اپنے تئیں آپ دھوکا دینا ہے۔ انسان ایک بڑے مطلب کے لئے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 235

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 235

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/235/mode/1up


پیدا کیا گیا ہے اور اس کا کمال صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ گناہوں کو چھوڑ دے۔ بہت سے جانور کچھ بھی گناہ نہیں کرتے تو کیا وہ کامل کہلا سکتے ہیں؟ اور کیا ہم کسی سے اس طرح پر کوئی انعام حاصل کر سکتے ہیں کہ ہم نے تیرا کوئی گناہ نہیں کیا۔بلکہ مخلصانہ خدمات سے انعام حاصل ہوتے ہیں اور وہ خدمت خدا کی راہ میں یہ ہے کہ انسان صرف اسی کا ہو جائے اور اس کی محبت سے تمام محبتوں کو توڑ دے اور اس کی رضا کے لئے اپنی رضا چھوڑ دے۔ اس جگہ قرآن شریف نے خوب مثال دی ہے اور وہ یہ کہ کوئی مومن کامل نہیں ہو سکتا جب تک وہ دو شربت نہ پی لے۔ پہلا شربت گناہ کی محبت ٹھنڈی ہونے کا جس کا نام قرآن شریف نے شربت کا فوری رکھا ہے۔ اور دوسرا شربت خدا کی محبت دل میں بھرنے کا جس کا نام قرآن شریف نے شربت زنجبیلی رکھا ہے۔ لیکن افسوس کہ عیسائی صاحبوں اور آریہ صاحبوں نے اس راہ کو اختیار نہ کیا۔ آریہ صاحبان تو اس طرف جُھک گئے ہیں کہ گناہ بہر حالت خواہ توبہ ہو یا نہ ہو قابلِ سزا ہے جس سے بے شمار جونیں بھگتنی پڑیں گی۔ اور عیسائی صاحبان گناہ سے نجات پانے کی وہ راہ بیان فرماتے ہیں جو ابھی مَیں ذکر کر چکا ہوں۔ دونوں فریق اصل مطلب سے دُور پڑ گئے ہیں اور جس دروازہ سے داخل ہونا تھا اس کو چھوڑ کر دُور دُور جنگلوں میں سرگرداں ہیں۔

یہ ؔ تو مَیں نے آریہ صاحبوں کی خدمت میں گذارش کی ہے اور مسیحی صاحبان جو بڑی کوشش سے اپنے مذہب کی دنیا میں اشاعت کر رہے ہیں اُن کی حالت آریہ صاحبوں سے زیادہ قابلِ افسوس ہے۔ آریہ صاحبان تو اس زمانہ میں یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح اپنے پُرانے مذہب مخلوق پرستی سے نکلیں۔ اور عیسائی صاحبان اس کوشش میں ہیں کہ مخلوق پرستی میں نہ صرف آپ بلکہ تمام دنیا کو داخل کر دیں۔ محض زبردستی اور تحکم کے طور پر حضرت مسیحؑ کو خدا بنایا جاتا ہے۔ اُن میں کوئی بھی ایک ایسی خاص طاقت



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 236

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 236

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/236/mode/1up


ثابت نہیں ہوئی جو دوسرے نبیوں میں پائی نہ جائے بلکہ بعض دوسرے نبیؑ معجزہ نمائی میں اُن سے بڑھ کر تھے۔ اور اُن کی کمزوریاں گواہی دے رہی ہیں کہ وہ محض انسان تھے۔ انہوں نے اپنی نسبت کوئی ایسا دعویٰ نہیں کیا جس سے وہ خدائی کے مدعی ثابت ہوں اور جس قدر اُن کے کلمات ہیں جن سے اُن کی خدائی سمجھی جاتی ہے ایسا سمجھنا غلطی ہے۔ اس رنگ کے ہزاروں کلمات اللہ خدا کے نبیوں کے حق میں بطور استعارہ اور مجاز کے ہوتے ہیں اُن سے خدائی نکالنا کسی عقلمند کا کام نہیں بلکہ انہیں کا کام ہے جو خواہ نخواہ انسان کو خدا بنانے کا شوق رکھتے ہیں۔ اور مَیں خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ میری وحی اور الہام میں اُن سے بڑھ کر کلمات ہیں۔ پس اگر اُن کلمات سے حضرت مسیحؑ کی خدائی ثابت ہوتی ہے تو پھر مجھے بھی (نعوذ باللہ) حق حاصل ہے کہ یہی دعویٰ میں بھی کروں۔ سو یاد رکھو کہ خدائی کے دعویٰ کی حضرت مسیحؑ پر سراسر تہمت ہے۔ انہوں نے ہرگز ایسا دعویٰ نہیں کیا۔ جو کچھ انہوں نے اپنی نسبت فرمایا ہے وہ الفاظ شفاعت کی حد سے بڑھتے نہیں۔ سو نبیوں کی شفاعت سے کس کو انکار ہے۔ حضرت موسٰی ؑ کی شفاعت سے کئی مرتبہ بنی اسرائیل بھڑؔ کتے ہوئے عذاب سے نجات پا گئے اور مَیں خود اِس میں صاحب تجربہ ہوں۔ اور میری جماعت کے اکثر معزز خوب جانتے ہیں کہ میری شفاعت سے بعض مصائب اور امراض کے مبتلا اپنے دکھوں سے رہائی پا گئے اور یہ خبریں اُن کو پہلے سے دی گئی تھیں اور مسیحؑ کا اپنی اُمت کی نجات کے لئے مصلوب ہونا اور اُمت کا گناہ اُن پر ڈالے جانا ایک ایسا مہمل عقیدہ ہے جو عقل سے ہزاروں کوس دُور ہے۔ خدا کی صفات عدل اور انصاف سے یہ بہت بعید ہے کہ گناہ کوئی کرے اور سزا کسی دوسرے کو دی جائے۔ غرض یہ عقیدہ غلطیوں کا ایک مجموعہ ہے۔ خدائے واحد لاشریک کو چھوڑنا اور مخلوق کی پرستش کرنا عقلمندوں کا کام نہیں ہے۔ اور تین مستقل اور کامل اقنوم قرار دینا ‘ جو سب جلال اور قوت میں برابر ہیں۔ اور پھر ان تینو۳ں کی



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 237

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 237

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/237/mode/1up


ترکیب سے ایک کامل خدا بنانا۔ یہ ایک ایسی منطق ہے جو دنیا میں مسیحیوں کے ساتھ ہی خاص ہے۔ پھر جائے افسوس تو یہ ہے کہ جس غرض کے لئے یہ نیا منصوبہ بنایا گیا تھا یعنی گناہ سے نجات پانا اور دنیا کی گندی زندگی سے رہائی حاصل کرنا وہ غرض بھی تو حاصل نہیں ہوئی۔ بلکہ کفارہ سے پہلے جیسے حواریوں کی صاف حالت تھی اور وہ دنیا اور دنیا کے درم و دینار سے کچھ غرض نہ رکھتے تھے اور دنیا کے گندوں میں پھنسے ہوئے نہ تھے۔ اور اُن کی کوشش دنیا کے کمانے کے لئے نہیں تھی۔ اِس قسم کے دل بعد کے لوگوں کے کفارہ کے بعد کہاں رہے۔ خاص کر اس زمانہ میں جس قدر کفارہ اور خونِ مسیحؑ پر زور دیا جاتا ہے۔ اسی قدر عیسائیوں میں دنیا کیؔ گرفتاری بڑھتی جاتی ہے اور اکثر اُن کے ایک مخمور کی طرح سراسر دن رات دنیا کے شغل میں لگے رہتے ہیں اور اس جگہ دوسرے گناہوں کا ذکر کرنا جو یورپ میں پھیل رہے ہیں خاص کر شراب خواری اور بدکاری اس ذکر کی کچھ حاجت نہیں۔

اَب مَیں عام سامعین کی خدمت میں اپنے دعویٰ کے ثبوت میں کچھ بیان کر کے اِس تقریر کو ختم کروں گا۔ اے معزز سامعین! خداتعالیٰ حق کے قبول کرنے کے لئے آپ صاحبوں کے سینوں کو کھولے اور آپ کو حق فہمی کا الہام کرے۔ یہ بات آپ کو معلوم ہو گی کہ ہر ایک نبی اور رسول اور خداتعالیٰ کا فرستادہ جو لوگوں کی اصلاح کے لئے آتا ہے اگرچہ اس کی اطاعت کرنے کے لئے عقل کی رُو سے اس قدر کافی ہے کہ جو کچھ وہ کہتا ہے وہ حق حق ہو اس میں کسی قسم کا دھوکا اور فریب کی بات نہ ہو۔کیونکہ عقل سلیم حق کے قبول کرنے کے لئے کسی معجزہ کی ضرورت نہیں سمجھتی۔ لیکن چونکہ انسانی فطرت میں ایک قوت واہمہ بھی ہے کہ باوجود اس بات کے کہ ایک امرفی الواقع صحیح اور سچا اور حق ہو پھر بھی انسان کو وہم اُٹھتا ہے کہ شاید بیان کرنے والے کی کوئی خاص غرض نہ ہو یا اُس نے دھوکا نہ کھایا ہو یا دھوکا نہ دیا ہو۔ اور کبھی بوجہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 238

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 238

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/238/mode/1up


اس کے معمولی انسان ہونے کے اُس کی بات کی طرف توجہ بھی نہیں ہوتی اور اُس کو حقیر اور ذلیل سمجھا جاتا ہے۔ اور کبھی شہوات نفسِ ا ّ مارہ کا اِس قدر غلبہ ہوتا ہے کہ گو سمجھ بھی آ جاوے کہ جو فرمایا گیا ہے وہ سب سچ ہے تاہم نفس اپنے ناپاک جذبات کا ایسا مغلوب ہوتا ہے کہ وہ اس راہ پر چل ہی نہیں سکتا جس پر واعظ ناصح چلانا چاہتا ہے اور یا فطرتی کمزوری قدم اُٹھانے سے روک دیتی ہے۔ پسؔ اِس لئے حکمتِ الٰہی نے تقاضا فرمایا کہ جو لوگ اُس کی طرف سے مخصوص ہو کر آتے ہیں اُن کے ساتھ کچھ نصرتِ الٰہی کے نشان بھی ہوں جو کبھی رحمت کے رنگ میں اور کبھی عذاب کے رنگ میں ظاہر ہوتے رہیں۔ اور وہ لوگ انہیں نشانوں کی وجہ سے خدا کی طرف سے بشیر اور نذیر کہلاتے ہیں۔ مگر رحمت کے نشانوں سے وہ مومن حصہ لیتے ہیں جو خدا کے حکموں کے مقابل پر تکبّر نہیں کرتے اور خدا کے فرستادہ لوگوں کو تحقیر اور توہین سے نہیں دیکھتے اور اپنی فراست خدا دادسے اُن کو پہچان لیتے ہیں اور تقویٰ کی راہ کو محکم پکڑ کر بہت ضد نہیں کرتے اور نہ دنیا داری کے تکبر اور جھوٹی وجاہتوں کی وجہ سے کنارہ کش رہتے ہیں بلکہ جب دیکھتے ہیں کہ سنتِ انبیاء کے موافق ایک شخص اپنے وقت پر اُٹھا ہے جو خدا کی طرف بلاتا ہے اور اُس کی باتیں ایسی ہیں کہ اُن کی صحت ماننے کے لئے ایک راہ موجود ہے اور اس میں نصرتِ الٰہی اور تقویٰ اور دیانت کے نشان پائے جاتے ہیں اور سُننِ انبیاء علیہم السلام کے پیمانہ کے رُو سے اُس کے قول یا فعل پر کوئی اعتراض نہیں آتا تو ایسے انسان کو قبول کر لیتے ہیں۔ بلکہ بعض سعید ایسے بھی ہیں کہ چہرہ دیکھ کر پہچان جاتے ہیں کہ یہ کذّاب اور ّ مکار کا چہرہ نہیں۔ پس ایسے لوگوں کے لئے رحمت کے نشان ظاہر ہوتے ہیں اور وہ دمبدم ایک صادق کی صحبت سے ایمانی قوت پا کر اور پاک تبدیلیوں کا مشاہدہ کر کے تازہ بتازہ نشانوں کو دیکھتے رہتے ہیں اور تمام حقائق اور معارف اور تمام نصرتیں اور تمام تائیدیں اور تمام قسم کے اعلام غیب اُن کے حق میںؔ نشان ہی ہوتے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 239

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 239

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/239/mode/1up


ہیں۔ اور وہ لطافتِ ذہن کی وجہ سے خداتعالیٰ کی دقیق در دقیق نصرتوں کو اُس فرستادہ کی نسبت محسوس کر کے باریک درباریک نشانوں پر بھی اطلاع پا لیتے ہیں۔ لیکن اُن کے مقابل پر وہ لوگ بھی ہیں جن کو رحمت کے نشانوں میں سے حصہ لینا نصیب نہیں۔جیسا کہ نوحؑ کی قوم نے بجز غرق کرنے کے معجزہ کے اور کسی نوع کے معجزہ سے حصہ نہ لیا اور لوطؑ کی قوم نے بجز اس معجزہ کے جو اُن کی زمین زیر و زبر کی گئی اور اُن پر پتھر برسائے گئے اور کسی معجزہ سے فائدہ نہ اُٹھایا۔ ایسا ہی اس زمانہ میں خدا نے مجھے مامور فرمایا۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ اس زمانہ کے اکثر لوگوں کی طبیعتیں نوحؑ کی قوم سے ملتی ہیں۔ کئی سال گذرے ہیں کہ میرے لئے آسمان پر دو نشان ظاہر ہوئے تھے کہ جو خاندانِ نبوت کی روایت سے ایک پیشگوئی تھی اور وہ یہ کہ جب امام آخرالزمان دنیا میں ظاہر ہو گا تو اس کے لئے دو نشان ظاہر ہوں گے جو کبھی کسی کے لئے ظاہر نہیں ہوئے یعنی یہ کہ آسمان پر رمضان کے مہینہ میں چاند گرہن ہو گا اور وہ گرہن چاند گرہن کی معمولی راتوں میں سے پہلی رات میں ہو گا اور ان دنوں میں رمضان میں ہی سورج گرہن بھی ہوگا اور وہ گرہن سورج گرہن کے معمولی دنوں میں سے بیچ کے دن میں ہو گا اور یہ پیشگوئی سُنیوں اور شیعوں میں ّ متفق َ علیہ تھی اور لکھا تھا کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کبھی ایسا ظہور میں نہیںؔ آیا کہ مدعی امامت موجود ہو اور اس کے عہد میں یہ دونوں واقعہ انہیں تاریخوں میں ظہور پذیر ہوں۔ لیکن امام آخر الزمان کے عہد میں ایسا ہی ہو گا اور یہ نشان اسی سے خاص ہو گا اور یہ پیشگوئی ان کتابوں میں لکھی گئی تھی جو آج سے ہزار برس پہلے دنیا میں شائع ہو چکی ہیں۔ لیکن جب یہ پیشگوئی میرے دعویٰ امامت کے وقت میں ظاہر ہوئی تو کِسی نے اس کو قبول نہ کیا اور ایک شخص نے بھی اس عظیم الشان پیشگوئی کو دیکھ کر میری بیعت نہ کی بلکہ گالیاں دینے اور ٹھٹھا کرنے میں اور بھی بڑھ گئے۔ میرا نام دجّال اور کافر اور کذّاب وغیرہ رکھا۔ یہ اس لئے ہوا کہ یہ پیشگوئی بطور



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 240

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 240

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/240/mode/1up


عذاب نہ تھی بلکہ رحمتِ الٰہی نے قبل از وقت ایک نشان دیا تھا لیکن لوگوں نے اِس نشان سے کچھ بھی فائدہ نہ اُٹھایا اور کچھ بھی ان کے دلوں کو میری طرف توجہ نہ ہوئی گویا وہ نشان ہی نہیں تھا ایک لغو پیشگوئی تھی جو کی گئی۔ پھر بعد اس کے جب منکروں کی شوخی حد سے بڑھ گئی تو خدا نے ایک عذاب کا نشان زمین پر دکھلایا۔جیسا کہ ابتدا سے نبیوں کی کتابوں میں لکھا گیا تھا۔اور وہ عذاب کا نشان طاعون ہے جو چند سال سے ا س ملک کوکھا رہی ہے اور کوئی انسانی تدبیر اس کے آگے چل نہیں سکتی۔ اِس طاعون کی خبر قرآن شریف میں صریح لفظوں میں موجود ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

33

3 ۱؂ یعنی قیامت سے کچھ دن پہلے بہت سخت مری پڑے گی اور اس سے بعض دیہات تو بالکل نابود ہو جاویں گے اور بعض ایک حد تک عذاب اُٹھا کر بچ رہیں گے اورؔ ایسا ہی ایک دوسری آیت میں خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ جب قرب قیامت ہو گا ہم زمین میں سے ایک کیڑا نکالیں گے جو لوگوں کو کاٹے گا۔ اس لئے کہ انہوں نے ہمارے نشانوں کو قبول نہیں کیا۔ یہ دونوں آیتیں قرآن شریف میں موجود ہیں اور یہ صریح طور پر طاعون کی نسبت پیشگوئی ہے۔ کیونکہ طاعون بھی ایک کیڑا ہے اگرچہ پہلے طبیبوں نے اس کیڑے پر اطلاع نہیں پائی لیکن خدا جو عالم الغیب ہے وہ جانتا تھا کہ طاعون کی جڑھ اصل میں کیڑا ہی ہے جو زمین میں سے نکلتا ہے اِس لئے اس کا نام اُس نے دآبّۃ الارضرکھا یعنی زمین کا کیڑا۔ غرض جب نشان عذاب ظاہر ہوااور ہزاروں جانیں پنجاب میں تلف ہو گئیں اور اس ملک میں ایک ہولناک زلزلہ پڑا تب بعض لوگوں کو ہوش آئی اور چند عرصہ میں دو لاکھ کے قریب لوگوں نے بیعت کر لی اور ابھی زور سے بیعت ہو رہی ہے کیونکہ طاعون نے بھی ابھی اپنا حملہ نہیں چھوڑا اور چونکہ وہ بطور نشان کے ہے اس لئے جب تک اکثر لوگ اپنے اندر کچھ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 241

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 241

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/241/mode/1up


تبدیلی پیدا نہیں کریں گے تب تک اُمید نہیں کہ یہ مرض اس ملک سے دُور ہو سکے۔ غرض یہ سرزمین نوح کے زمانہ کی سرزمین سے بہت مشابہ ہے کہ آسمان کے نشانوں کو دیکھ کر تو کوئی ایمان نہ لایا اور عذاب کے نشان کو دیکھ کر ہزاروں بیعت میں داخل ہوئے اور پہلے نبیوں نے بھی اس نشان طاعون کا ذکر کیا ہے۔ انجیل میں بھی مسیح موعود کے وقت میں مری پڑنے کا ذکر ہے اور لڑائیوں کا بھی ذکر ہے جو اَب ہو رہی ہیں۔

پس اے مسلمانوں! تو بہ کرو۔ تم دیکھتے ہو کہؔ ہر سال تمہارے عزیزوں کو یہ طاعون تم سے جُدا کر رہی ہے۔ خدا کی طرف جھکو تا وہ بھی تمہاری طرف جھکے اور ابھی معلوم نہیں کہ کہاں تک طاعون کا دَور ہے اور کیا ہونے والا ہے۔ میرے دعوے کی نسبت اگر شبہ ہو اور حق جوئی بھی ہو تو اس شبہ کا دُور ہونا بہت سہل ہے کیونکہ ہر ایک نبی کی سچائی تین۳ طریقوں سے پہچانی جاتی ہے۔

اوّل عقل سے۔یعنی دیکھنا چاہئے کہ جس وقت وہ نبی یا رسول آیا ہے عقلِ سلیم گواہی دیتی ہے یا نہیں کہ اس وقت اُس کے آنے کی ضرورت بھی تھی یا نہیں اور انسانوں کی حالت موجودہ چاہتی تھی یا نہیں کہ ایسے وقت میں کوئی مصلح پیدا ہو؟

دوسرے پہلے نبیوں کی پیشگوئی۔ یعنی دیکھنا چاہئے کہ پہلے کسی نبی نے اُس کے حق میں یا اُس کے زمانہ میں کسی کے ظاہر ہونے کی پیشگوئی کی ہے یا نہیں؟

تیسرے نصرتِ الٰہی اور تائیدِ آسمانی ۔یعنی دیکھنا چاہئے کہ اس کے شاملِ حال کوئی تائید آسمانی بھی ہے یا نہیں؟

یہ تین علامتیں سچے مامور من اللہ کی شناخت کے لئے قدیم سے مقرر ہیں۔ اب اے دوستو! خدا نے تم پر رحم کر کے یہ تینوں علامتیں میری تصدیق کے لئے ایک ہی جگہ جمع کر دی ہیں۔ اب چاہو تم قبول کرو یا نہ کرو۔ اگر عقل کی رُو سے نظر کرو تو عقلِ سلیم فریاد کر رہی ہے اور رو رہی ہے کہ مسلمانوں کو اِس وقت ایک آسمانی مصلح کی ضرورت ہے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 242

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 242

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/242/mode/1up


اندرونی اور بیرونی حالتیں دونوں خوفناک ہیںؔ اور مسلمان گویا کہ ایک گڑھے کے قریب کھڑے ہیں یا ایک تندسیل کی زد پر آپڑے ہیں۔ اگر پہلی پیشگوئیوں کو تلاش کرو تو دانیال نبی نے بھی میری نسبت اور میرے اِس زمانہ کی نسبت پیشگوئی کی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی فرمایا ہے کہ اسی اُمت میں سے مسیح موعود پیدا ہو گا۔ اگر کسی کو معلوم نہ ہو تو صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو دیکھ لے اور صدی کے سر پر مجدد آنے کی پیشگوئی بھی پڑھ لے اور اگر میری نسبت نصرت الٰہی کو تلاش کرنا چاہے تو یاد رہے کہ اب تک ہزار ہا نشان ظاہر ہوچکے ہیں۔

منجملہ ان کے وہ نشان ہے جو آج سے چوبیس برس پہلے براہین احمدیہ میں لکھا گیا اور اُس وقت لکھا گیا جبکہ ایک فردِ بشر بھی مجھ سے تعلق بیعت نہیں رکھتا تھا اور نہ میرے پاس سفر کر کے کوئی آتا تھا اور وہ نشان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یأتیک من کل فجّ عمیق۔ یأتون من کلِّ فجّ عمیق۔ یعنی وہ وقت آتا ہے کہ مالی تائیدیں ہر ایک طرف سے تجھے پہنچیں گی اور ہزار ہا مخلوق تیرے پاس آئے گی اور پھر فرماتا ہے۔ وَلَا تُصَعِّرْ لخلق اللّٰہ و لا تسئم من الناس۔ یعنی اس قدر مخلوق آئے گی کہ تو اُن کی کثرت سے حیران ہو جائے گا۔ پس چاہئے کہ تو اُن سے بداخلاقی نہ کرے اور نہ ان کی ملاقاتوں سے تھکے۔

پس اے عزیزو! اگرچہ آپ کو یہ تو خبر نہیں کہ قادیان میں میرے پاس کس قدر لوگ آئے اور کیسی وضاحت سے وہ پیشگوئی پوری ہوئی لیکن اسی شہر میں آپ نے ملاحظہ کیا ہو گا کہ میرے آنے پر میرے دیکھنے کے لئے ہزارہا مخلوقات اس شہر کی ہی اسٹیشن پر جمع ہو گئی تھی اور صدہا مردوں اور عورتوں نے اِسی شہر میں بیعت کی اور مَیں وہی شخص ہوں جو براہین احمدیہ کے زمانہؔ سے تخمیناً سات آٹھ سال پہلے اِسی شہر میں قریباً سات برس رہ چکا تھا اور کسی کو مجھ سے تعلق نہ تھا اور نہ کوئی میرے حال سے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 243

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 243

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/243/mode/1up


واقف تھا۔ پس اب سوچو اور غور کرو کہ میری کتا ب براہین احمدیہ میں اس شہرت اور رجوع خلائق سے چوبیس۲۴ سال پہلے میری نسبت ایسے وقت میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ جبکہ میں لوگوں کی نظر میں کسی حساب میں نہ تھا۔ اگرچہ میں جیسا کہ مَیں نے بیان کیا۔ براہین کی تالیف کے زمانہ کے قریب اسی شہر میں قریباً سات سال ر ہ چکا۔ تاہم آپ صاحبوں میں ایسے لوگ کم ہوں گے جو مجھ سے واقفیت رکھتے ہوں کیونکہ مَیں اس وقت ایک گمنام آدمی تھا اور اَحَدٌمِّنَ النَّاسِتھااور میری کوئی عظمت اور عزت لوگوں کی نگاہ میں نہ تھی۔ مگر وہ زمانہ میرے لئے نہایت شیریں تھا کہ انجمن میں خلوت تھی اور کثرت میں وحدت تھی اور شہر میں مَیں ایسا رہتا تھا جیسا کہ ایک شخص جنگل میں۔ مجھے اس زمین سے ایسی ہی محبت ہے جیسا کہ قادیان سے کیونکہ میں اپنے اوائل زمانہ کی عمر میں سے ایک حصہ اِس میں گذار چکا ہوں اور اس شہر کی گلیوں میں بہت سا پھر چکا ہوں۔ میرے اس زمانہ کے دوست اور مخلص اس شہر میں ایک بزرگ ہیں یعنی حکیم حسام الدین صاحب جن کو اس وقت بھی مجھ سے بہت محبت رہی ہے۔ وہ شہادت دے سکتے ہیں کہ وہ کیسا زمانہ تھا اور ؔ کیسی گمنامی کے گڑھے میں میرا وجود تھا۔ اب مَیں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ ایسے زمانہ میں ایسی عظیم الشان پیشنگوئی کرنا کہ ایسے گمنام کا آخر کار یہ عروج ہو گا کہ لاکھوں لوگ اُس کے تابع اور مرید ہو جاویں گے اور فوج درفوج لوگ بیعت کریں گے۔ اور باوجود دشمنوں کی سخت مخالفت کے رجوع خلائق میں فرق نہیں آئے گا بلکہ اس قدر لوگوں کو ۱؂ کثرت ہو گی کہ قریب ہو گا کہ وہ لوگ تھکا دیں کیا یہ انسان کے اختیار میں ہے؟ اور کیا ایسی پیشگوئی کوئی مکاّر کر سکتا ہے کہ چوبیس سال پہلے تنہائی اور بیکسی کے زمانہ میں اس عروج اور مرجع خلائق ہونے کی خبر دے؟ کتاب براہین احمدیہ جس میں یہ پیشگوئی ہے کوئی گمنام کتاب نہیں بلکہ وہ اس ملک میں مسلمانوں، عیسائیوں اور آریہ صاحبوں کے پاس بھی موجود ہے اور گورنمنٹ میں بھی موجود ہے۔ اگر کوئی اس



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 244

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 244

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/244/mode/1up


عظیم الشان نشان میں شک کرے تو اس کو دنیا میں اس کی نظیر دکھلانا چاہئے اور اس کے سوا اور بہت سے نشان ہیں جن سے اس ملک کو اطلاع ہے۔ بعض نادان جن کو حق کا قبول کرنا منظور ہی نہیں وہ ثابت شدہ نشانوں سے کچھ بھی فائدہ نہیں اُٹھاتے اور بے ہودہ نکتہ چینیوں سے گریز کی راہ ڈھونڈؔ تے ہیں اور ایک دو پیشگوئیوں پر اعتراض کر کے باقی ہزارہا پیشگوئیوں اور کُھلے کُھلے نشانوں پر خاک ڈالتے ہیں۔ افسوس کہ وہ جھوٹ بولتے وقت ایک ذرّہ خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتے اور افترا کے وقت آخرت کے مؤاخذہ کو یاد نہیں کرتے۔ مجھے ضرورت نہیں کہ اُن کے افتراؤں کی تفصیل بیان کر کے سامعین کو اُن کے سب حالات سُناؤں۔ اگر اُن میں تقویٰ ہوتا۔ اگر اُن کو ایک ذرّہ خداتعالیٰ کا خوف ہوتا تو خدا کے نشانوں کی تکذیب میں جلدی نہ کرتے اور اگر بفرض محال کوئی نشان اُن کو سمجھ میں نہ آتا تو انسانیت اور نرمی سے اس کی حقیقت مجھ سے پوچھ لیتے۔ ایک بڑااعتراض اُن کا یہ ہے کہ آتھم میعاد کے اندر نہیں مرا۔ اور احمد بیگ اگرچہ پیشگوئی کے مطابق مر گیا مگر داماد اس کا جو اسی پیشگوئی میں داخل تھا نہ مرا۔ یہ ان لوگوں کا تقویٰ ہے کہ ہزارہا ثابت شدہ نشانوں کا تو ذکر تک منہ پر نہیں لاتے اور ایک دو پیشگوئیاں جو اُن کی سمجھ میں نہ آئیں بار بار اُن کو ذکر کرتے ہیں اور ہر ایک مجمع میں شور ڈالتے ہیں۔ اگر خدا کا خوف ہوتا تو ثابت شدہ نشانوں اور پیشگوئیوں سے فائدہ اُٹھاتے۔ یہ طریق راست باز انسانوں کا نہیں ہے کہ کُھلے کُھلے معجزات سے منہ پھیر لیں اور اگر کوئی دقیق امر ہو تو اُس پر اعتراض کر دیں۔ اس طرح پر تو تمام انبیاء پر اعتراضات کا دروازہ کھل جائے گا اور آخر کار اس طبیعت کے لوگوں کو سب سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صاحب معجزات ہونے میں کیا کلام ہے مگر ایک شریر مخالف کہہ سکتا ہے کہ اُن کی بعض پیشگوئیاں جھوٹی نکلیں جیسا کہ اب تک یہودی کہتے ہیں کہ یسوع مسیح کی کوئی بھی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اُس نے کہا تھا کہ میرے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 245

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 245

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/245/mode/1up


بارہ۱۲ حواری بارہ تختوں پر بہشت میں بیٹھیںؔ گے مگر وہ بارہ کے گیارہ رہ گئے اور ایک مرتد ہو گیا اور ایسا ہی اُس نے کہاتھا کہ اس زمانہ کے لوگ نہیں مریں گے جب تک کہ میں واپس آجاؤں۔ حالانکہ وہ زمانہ کیا اٹھارہ صدیوں کے لوگ قبروں میں جا پڑے اور وہ اب تک نہیں آیا اور اُسی زمانہ میں اس کی پیشگوئی جھوٹی نکلی اور اس نے کہا تھا کہ میں یہودیوں کا بادشاہ ہوں مگر کوئی بادشاہت اس کو نہ ملی۔ ایسے ہی اور بہت اعتراض ہیں۔ ایسا ہی اِس زمانہ میں بعض ناپاک طبع آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بعض پیشگوئیوں پر اعتراض کر کے کل پیشگوئیوں سے انکار کرتے ہیں اور بعض حدیبیہ کے قصہ کو پیش کرتے ہیں۔ اب اگر ایسے اعتراض تسلیم کے لائق ہیں تو مجھے ان لوگوں پر کیا افسوس۔ مگر یہ خوف ہے کہ اس طریق کو اختیار کر کے کہیں اسلام کو ہی الوداع نہ کہہ دیں۔ تمام نبیوں کی پیشگوئیوں میں ایسا ہی میری پیشگوئیوں میں بعض اجتہادی دخل بھی ہوتے ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حدیبیہ کے سفر میں بھی اجتہادی دخل تھا۔ تب ہی تو آپ نے سفر کیاتھا مگر وہ اجتہاد صحیح نہ نکلا۔ نبی کی شان اور جلالت اور عزت میں اس سے کچھ فرق نہیں آتا کہ کبھی اس کے اجتہاد میں غلطی بھی ہو۔ اگر کہو کہ اس سے امان اُٹھ جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ کثرت کا پہلو اس امان کو محفوظ رکھتا ہے۔ کبھی نبی کی وحی خبر واحد کی طرح ہوتی ہے اور مع ذالک مجمل ہوتی ہے۔ اور کبھی وحی ایک امر میں کثرت سے اور واضح ہوتی ؔ ہے۔ پس اگر مجمل وحی میں اجتہاد کے رنگ میں کوئی غلطی بھی ہو جائے تو بیّنات محکمات کو اس سے کچھ صدمہ نہیں پہنچتا۔ پس میں اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ کبھی میری وحی بھی خبر واحد کی طرح ہو اور مجمل ہو اور اس کے سمجھنے میں اجتہادی رنگ کی غلطی ہو۔ اِس بات میں تمام انبیاء شریک ہیں۔ لعنۃُ اللّٰہ علی الکاذبین اور ساتھ اس کے یہ بھی ہے کہ وعید کی پیشگوئیوں میں خدا پر فرض نہیں ہے کہ اُن کو ظہور میں لاوے۔ یُونسؑ کی پیشگوئی اس پر شاہد ہے اِس پر تمام انبیاء کا



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 246

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 246

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/246/mode/1up


اتفاق ہے کہ خدا کے ارادے جو وعید کے رنگ میں ہوں صدقہ اور دعا سے ٹل سکتے ہیں۔ پس اگر وعید کی پیشگوئی ٹل نہیں سکتی تو صدقہ اور دُعا لاحاصل ہے۔

اب ہم اس تقریر کو ختم کرتے ہیں اور خداتعالیٰ کا شکر کرتے ہیں جس نے باوجود علالت اور ضعفِ جسمانی کے اس کے لکھنے کی ہمیں توفیق دی۔ اور ہم جناب الٰہی میں دعا کرتے ہیں کہ اس تقریر کو بہتوں کے لئے موجبِ ہدایت کرے اور جیسا کہ اس مجمع میں ظاہری اجتماع نظر آ رہا ہے ایسا ہی تمام دلوں میں ہدایت کے سلسلہ میں باہم ربط اور محبت پیدا کر دے اور ہر ایک طرف ہدایت کی ہوا چلاوے۔ بغیر آسمانی روشنی کے آنکھیں کچھ نہیں دیکھ سکتیں۔ سو خدا آسمان سے رُوحانی روشنی کو نازل کرے تا آنکھیں دیکھ سکیں اورغیب سے ہوا پیدا کرے تا کان سُنیں۔ کون ہے جو ہماری طرف آ سکتا ہے مگر وہی جس کو خدا ہماری طرف کھینچے۔ وہ بہتوں کو کھینچ رہا ہے اور کھینچے گا اور کئی قفل توڑے گا۔ ہمارے دعویٰ کی جڑھ حضرت عیسیٰ ؑ کی وفات ہے۔ اِس جڑھ کو خدا اپنے ہاتھ سے پانی دیتا ہے اورؔ رسول اس کی حفاظت کرتا ہے۔ خدا نے قول سے اور اس کے رسول نے فعل سے یعنی اپنی چشم دید رؤیت سے گواہی دی ہے کہ حضرت عیسیٰؑ فوت ہو گئے اور آپ نے معراج کی رات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فوت شدہ ارواح میں دیکھ لیا ہے مگر افسوس کہ پھر بھی لوگ اُن کو زندہ سمجھتے ہیں اور ان کو ایسی خصوصیت دیتے ہیں جو کسی نبی کو خصوصیت نہیں دی گئی۔ یہی امور ہیں جن سے حضرت مسیحؑ کی الوہیت کو عیسائیوں کے زعم میں قوت پہنچتی ہے اور بہت سے کچے آدمی ایسے عقائد سے ٹھوکر کھاتے ہیں۔ ہم گواہ ہیں کہ خدا نے ہمیں خبر دی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے۔ اب اُن کے زندہ کرنے میں دین کی ہلاکت ہے اور اِس خیال میں لگنا خواہ مخواہ کی خاک پیزی ہے۔ اسلا م میں پہلا اجماع یہی تھا کہ کوئی نبی گذشتہ نبیوں میں سے زندہ نہیں ہے۔ جیسا کہ آیت



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 247

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 247

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/247/mode/1up


33 ۱؂ سے ثابت ہے۔ خدا ابوبکررضی اللہ عنہ کو بہت بہت اجر دے جو اس اجماع کے موجب ہوئے اور ممبر پر چڑھ کر اس آیت کو پڑھ سنایا۔

اخیر پر ہم اس گورنمنٹ انگریزی کا سچے دل سے شکر کرتے ہیں جس نے اپنی کشادہ دلی سے ہمیں مذہبی آزادی عطا فرمائی۔ یہ آزادی جس کی وجہ سے ہم نہایت ضروری دینی علوم کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں یہ ایسی نعمت نہیں ہے جس کی وجہ سے معمولی طور پر ہم اس گورنمنٹ کا شکر کریں بلکہ تہ دل سے شکر کرنا چاہئے اگر یہ گورنمنٹ عالیہ ہمیں کئی لاکھ کی جاگیر دیتی مگر یہ آزادی نہ دیتی تو ہم سچ سچ کہتےؔ ہیں کہ وہ جاگیر اُس کے برابر نہ تھی۔ کیونکہ دنیا کا مال فانی ہے۔ مگر یہ وہ مال ہے جس کو فنا نہیں۔ ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ اس محسن گورنمنٹ کے سچے دل سے شکر گذار رہیں۔ کیونکہ جو انسان کا شکر نہیں کرتا وہ خدا کا بھی نہیں کرتا۔ نیک انسان وہی ہے کہ جیسے خداتعالیٰ کا شکر کرتا ہے اس انسان کا بھی شکر کرے جس کے ذریعہ اس منعم حقیقی کی کوئی نعمت اُس کو پہنچی ہے۔ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی۔

الراقم میرزا غلام احمد قادیانی

یکم نومبر۱۹۰۴ء روز سہ شنبہ

سیالکوٹ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 248

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچرسیالکوٹ: صفحہ 248

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/248/mode/1up


حکم است ز آسماں بزمیں مے رسانمش

گر بشنوم نہ گوئمش آنرا کُجا برم

مامُورم و مرا چہ دریں کار اختیار

رو ایں سخن بگو بخداوند آمرم

اے حسرت ایں گروہِ عزیزاں مراندید

وقتے بہ بیندم کہ ازیں خاک بگذرم

ہر شب ہزار غم بمن آید ز دردِ قوم

یارب نجات بخش ازیں روز پُرشرم

بعد از رہم ہر آنچہ پسندند ہیچ نیست

بد قسمت آنکہ درنظرش ہیچ محترم

بعد از خدا بہ عشقِ محمدؐ مخمرم

گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم

جانم گداخت از غم ایمانت اے عزیز

ویں طرفہ ترکہ من بہ گمانِ تو کافرم

یارب بآب چشم من ایں کسلِ شاں بشو

کامروز ترشدست ازیں درد بسترم

جانم فدا شود برہِ دینِ مصطفی!

این است کامِ دل اگر آید میسّرم
 
Top