• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 3 ۔ازالہ اوہام ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 437
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 437
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
نہیں آتے۔ بلکہ بیان کیاجاتاہے کہ دنیا میں آکر پھر چالیس ۴۰ یا پینتالیس ۴۵ برس زندہ رہیں گے
پھر دوسری حدیث مسلم کی ہے جو جابر سے روایت کی گئی ہے او ر وہ یہ ہے۔
وعن جابر قال سمعت النّبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول قبل ان یموت بشھرٍ تسئلونی عن الساعۃ وانّما علمھا عند اللّٰہ واقسم باللّٰہ ماعلی الارض من نفسٍ منفوسۃ یأتی علیہا ماءۃ سنۃ وھی حیۃ۔ رواہ مسلم۔ اور روایت ہے جابر سے کہا کہ سُنا میں نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے جو وہ قسم کھا کر فرماتے تھے کہ کوئی ایسی زمین پر مخلوق نہیں جو اس پر سو برس گذرے اور وہ زندہ رہے۔ اس حدیث کے معنے یہ ہیں کہ جو شخص زمین کی مخلوقات میں سے ہو وہ شخص سو برس کے بعد زندہ نہیں رہے گا۔او ر ارض کی قید سے مطلب یہ ہے کہ تا آسمان کی مخلوقات اس سے باہر نکالی جائے۔ لیکن ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ابنؔ مریم آسمان کی مخلوقات میں سے نہیں بلکہ وہ زمین کی مخلوقات اور ما علی الارض میں داخل ہیں۔ حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی جسم خاکی زمین پر رہے تو فوت ہوجائے گا اور اگر آسمان پر چلاجائے تو فوت نہیں ہوگا۔ کیونکہ جسم خاکی کا آسمان پرجانا تو خود بموجب نص قرآن کریم کے ممتنع ہے۔ بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو زمین پر پید ا ہوا اور خاک میں سے نکلا وہ کسی طرح سو برس سے زیادہ نہیں رہ سکتا۔
(۳۰) تیسویں آیت یہ ہے ۔ یعنی کفار کہتے ہیں کہ تُو آسمان پر چڑھ کر ہمیں دکھلا تب ہم ایما ن لے آویں گے۔ اِن کو کہہ دے کہ میرا خدا اس سے پا ک تر ہے کہ اس دارالابتلاء میں ایسے کھلے کھلے نشان دکھاوے اور میں بجز اس کے اور کوئی نہیں ہوں کہ ایک آدمی۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان پر چڑھنے کا نشان مانگا تھااور انہیں صاف جواب ملا کہ یہ عادت اللہ نہیں ؔ کہ کسی جسم خاکی کو
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 438
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 438
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
آسمان پر لے جاوے۔ اب اگر جسم خاکی کے ساتھ ابن مریم کا آسمان پرجانا صحیح مان لیاجائے تو یہ جواب مذکورہ بالا سخت اعتراض کے لائق ٹھہرجائے گا اور کلام الٰہی میں تناقض او ر اختلاف لازم آئے گا لہٰذا قطعی اور یقینی یہی امر ہے کہ حضرت مسیح بجسدہ العنصری آسمان پر نہیں گئے۔ بلکہ موت کے بعد آسمان پر گئے ہیں۔ بھلا ہم ان لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا موت کے بعد حضرت یحییٰ اور حضرت آدم اور حضرت ادریس اور حضرت ابراہیم اور حضرت یوسف وغیرہ آسمان پر اٹھائے گئے تھے یا نہیں۔ اگر نہیں اٹھائے گئے تو پھر کیوں کر معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن سب کو آسمانوں میں دیکھا اور اگر اٹھائے گئے تھے تو پھر ناحق مسیح ابن مریم کی رفع کے کیوں اَور طور پرمعنے کئے جاتے ہیں ۔ تعجب کہ توفّی کا لفظ جو صریح وفات پر دلالت کرتا ہے جابجا اُنکے حق میں موجود ہے اور اٹھائے جانے کا نمونہ بھی بدیہی طور پر کھلا ہے کیونکہ وہ انہیں فوت شدہ لوگوں میں جاملے جو اُن سے پہلےؔ اٹھائے گئے تھے۔ اور اگر کہو کہ وہ لوگ اٹھائے نہیں گئے تو میں کہتا ہوں کہ وہ پھر آسمان میں کیوں کر پہنچ گئے آخر اٹھائے گئے تبھی توآسمان میں پہنچے۔ کیا تم قرآ ن شریف میں یہ آیت نہیں پڑھتے وَ3 ۱؂ ۔ کیا یہ وہی رفع نہیں ہے جو مسیح کے بارہ میں آیا ہے ؟ کیا اس کے اٹھائے جانے کے معنے نہیں ہیں فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ۔
حضرات غزنوی اور مولوی محی الدین صاحب
کے
الہامات کے بارے میں کچھ مختصر تحریر
میاں عبد الحق صاحب غزنوی اور مولوی محی الدین صاحب لکھو والے اس عاجز کے حق میں لکھتے ہیں کہ ہمیں الہام ہوا ہے کہ یہ شخص جہنّمی ہے۔ چنانچہ عبد الحق صاحب کے الہام میں تو صریح سیصلٰیؔ نارًا ذات لھبٍ موجود ہے او ر محی الدین صاحب کو یہ الہام ہو ا ہے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 439
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 439
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کہ یہ شخص ایسا مُلحد اور کافر ہے کہ ہرگز ہدایت پذیر نہیں ہوگا۔اور ظاہر ہے کہ جس کافر کا مآل کار کفر ہی ہو وہ بھی جہنمی ہی ہوتا ہے۔ غرض ان دونوں صاحبوں نے کہ خداانہیں بہشت نصیب کرے اس عاجز کی نسبت جہنم اور کفر کا فتوےٰ دے دیا اور بڑے زور سے اپنے الہامات کو شائع کر دیا۔ ہم اس جگہ ان صاحبوں کے الہامات کی نسبت کچھ زیادہ لکھنا ضروری نہیں سمجھتے۔ صرف اس قدر تحریر کرنا کافی ہے کہ الہام رحمانی بھی ہوتا ہے اور شیطانی بھی۔ اور جب انسان اپنے نفس اور خیال کو دخل دے کر کسی بات کے استکشاف کے لئے بطور استخارہ و استخبارہ وغیرہ کے توجہ کرتا ہے خاص کر اس حالت میں کہ جب اس کے دل میں یہ تمنا مخفی ہوتی ہے کہ میری مرضی کے موافق کسی کی نسبت کوئی بُرایا بھلا کلمہ بطور الہام مجھے معلوم ہو جائے تو شیطان اُس وقت اُس کی آرزو میں دخل دیتا ہے اور کوئی کلمہ اس کی زبان پر جاری ہو جاتا ہے اور دراصل وہ شیطانی کلمہ ہوتا ہے۔ یہ دخل کبھی انبیاء اور رسولوں کی وحی میں بھی ہو جاتا ہے مگر وہ بلا توقف نکاؔ لاجاتا ہے۔ اسی کی طرف اللہ جلَّ شَانُہٗ قرآن کریم میں اشارہ فرماتا ہے 33الخ ۱؂ ایسا ہی انجیل میں بھی لکھا ہے کہ شیطان اپنی شکل نوری فرشتوں کے ساتھ بدل کر بعض لوگوں کے پاس آجاتا ہے۔ دیکھو خط دوم قرنتھیاں باب۱۱ آیت ۱۴۔ اور مجموعہ توریت میں سے سلاطین اول باب بائیس آیت انیس میں لکھاہے کہ ایک بادشاہ کے وقت میں چار سو نبی نے اس کی فتح کے بارہ میں پیشگوئی کی اور وہ جھوٹے نکلے اور بادشاہ کو شکست آئی بلکہ وہ اُسی میدان میں مر گیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ دراصل وہ الہام ایک ناپا ک روح کی طرف سے تھا نوری فرشتہ کی طرف سے نہیں تھا اور ان نبیوں نے دھوکاکھا کر ربّانی سمجھ لیا تھا۔ اب خیال کرنا چاہیئے کہ جس حالت میں قرآن کریم کی رُو سے الہام اور وحی میں دخل شیطان ممکن ہے اور پہلی کتابیں توریت اور انجیل اس دخل کی مصدّق ہیں اور اسی بناء پر
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 440
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 440
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
الہام ولایت یا الہام عامہ مومنین بجُز موافقت و مطابقت قرآن کریم کے حجت بھی نہیں تو پھر ناظرین کے لئے غور کا مقام ہے کہ کیوں کر اور کن علامات بیّنہؔ سے میاں عبد الحق صاحب اور میاں محی الدین صاحب نے اپنے الہامات کو رحمانی الہامات سمجھ لیا ہے۔ اُن کے الہامات کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص عیسیٰ بن مریم کی وفات کا قائل ہو اور دنیا میں انہیں کا دوبارہ آنا تسلیم نہ کرے وہ کافر ہے۔ لیکن ناظرین اب اس رسالہ کو پڑھکر بطور حق الیقین سمجھ جائیں گے کہ درحقیقت واقعی امر جوقرآن شریف سے ظاہر ہو رہا ہے یہی ہے کہ سچ مچ حضرت مسیح ابن مریم فوت ہی ہو گئے اور فوت شدہ جماعت میں صدہا سال سے داخل ہیں۔ سو بڑی اور بھاری نشانی میاں محی الدین اور میاں عبد الحق کے شیطانی الہام کی یہ نکل آئی کہ اُن کے اس خیال کا قرآن شریف مکذّب ہے اور شمشیر برہنہ لے کرمقابلہ کر رہا ہے۔اب اس سے یقینی طور پر ثابت ہوگیا کہ ابلیس مکّار نے کسی اندرونی مناسبت کی وجہ سے اِن دونوں صاحبوں کو استخارہ کے وقت جا پکڑا اور قرآن کریم کے منشاء کے بر خلاف اُن کو تعلیم دی۔ بھلا اگر اِن صاحبوں کے یہ الہامات سچے ہیں تو اب قرآن کریم کی رُو سے مسیح ابن مریم کا زندہ ہوناثابت کر کے دکھلاویں اور ہم دس یا بیس آیتوں کا مطاؔ لبہ نہیں کرتے صرف ایک آیت ہی زندہ ہونے کے بارے میں پیش کر یں۔ اور جس فرشتہ نے اس عاجز کے جہنمی یا کافر ہونے کے بارے میں جھٹ پٹ ان کے کانوں تک دو تین فقرے پہنچا دئے تھے اب اُسی سے درخواست کریں کہ ہماری مدد کر۔ اور کچھ شک نہیں کہ اگر وہ الہام خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہے تو کم سے کم تیس ۳۰ آیت حضرت عیسیٰ کے زندہ ہونے کے بارے میں فی الفور القاء ہوجائیں گی کیونکہ ہم نے بھی تو تیس ۳۰ آیت اُن کے مرنے کے ثبوت میں پیش کی ہیں۔لیکن یا درکھنا چاہیئے کہ یہ لوگ ایک بھی آیت پیش نہیں کر سکیں گے۔کیونکہ اُن کے الہامات شیطانی ہیں اور حزب شیطان ہمیشہ مغلوب ہے۔ وہ بے چارہ لعنتوں کا مارا خود کمزور اور ضعیف ہے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 441
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 441
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
پھر دوسروں کی کیا مد د کرے گا۔
ماسوا اس کے یہ بھی یاد رہے کہ رحمانی الہامات اپنے بابرکت نشانوں سے شناخت کئے جاتے ہیں۔ کوئی دعویٰ بغیر دلیل کے قبو ل کرنے کے لائق نہیں ہوتا۔ خداوند علیم وحکیم اس بات کوؔ خوب جانتا ہے کہ اس عاجز نے صرف ایسی صورت میں اپنے الہامات کو منجانب اللہ سمجھاکہ جب صد ہا الہامی پیشگوئیاں روز روشن کی طرح پوری ہو گئیں۔سو جو شخص اس عاجز کے مقابل پر کھڑاہو اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے الہامات کے منجانب اللہ ہونے کے اثبات میں میری طرح کسی قدر پیشگوئیاں بیان کرے۔ بالخصوص ایسی پیشگوئیاں جو فضل اور احسان باری تعالیٰ پر دلالت کرتی ہوں۔ کیونکہ مقبولین کی شناخت کے لئے ایسی ہی پیشگوئیاں عمدہ دلیل ہیں جو کسی آئندہ عنایات بیّنہ کا وعدہ دیتی ہوں۔ وجہ یہ کہ خدا تعالیٰ انہیں پر فضل واحسان کرتا ہے جن کو بنظرِعنایت دیکھتا ہے۔
جن پیشگوئیوں کی سچائی پر میری سچائی کا حصر ہے وہ یہ ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تُو مغلوب ہو کر یعنی بظاہر مغلوبوں کی طرح حقیر ہوکر پھر آخر غالب ہوجائے گا اورانجام تیرے لئے ہوگا اور ہم وہ تمام بوجھ تجھ سے اتار لیں گے جس نے تیری کمر توڑ دی۔ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ تیری توحید تیری عظمت تیری کمالیت پھیلاوے خدا تعالیٰ تیرے چہرہ کو ظاہر کرے گااور تیرے سایہ کو لمبا کردے گا۔ دنیا میں ایک نذیرؔ آیا پر دنیا نے اُسے قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچا ئی ظاہر کر دے گا۔ عنقریب اسے ایک ملک عظیم دیا جائے گا (یعنی اُس کو قبولیت بخشی جائے گی اور خلق کثیر کے دل اس کی طرف مائل کئے جائیں گے) اور خزائن اُس پر کھولے جائیں گے (یعنی خزائن معارف و حقائق کھولے جائیں گے کیونکہ آسمانی مال جو خدائے تعالیٰ کے خاص بندوں کو ملتا ہے جس کو وہ دنیا میں تقسیم کرتے ہیں۔دنیا کا درہم و دینار نہیں بلکہ حکمت و معرفت ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے اس کی طرف اشارہ کرکے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 442
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 442
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
فرمایا ہے کہ یُؤْ333 ۱؂ خیر مال کوکہتے ہیں۔ سو پاک مال حکمت ہی ہے جس کی طرف حدیث نبوی میں بھی اشارہ ہے کہ انّما انا قاسم واللّٰہ ھو المُعطی۔ یہی مال ہے جو مسیح موعود کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے ) یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب۔ہم عنقریب تم میں ہی اور تمہارے اردگرد نشان دکھلاویں گے حجت قائم ہوجائے گی اور فتح کھلی کھلی ہوگی۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمؔ لوگ ایک بھاری جماعت ہیں یہ سب بھاگ جائیں گے اور پیٹھ پھیرلیں گے اگرچہ لوگ تجھے چھوڑ دیں گے پرمیں نہیں چھوڑوں گا اور اگر لوگ تجھے نہیں بچائیں گے پر میں بچاؤں گا میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا اور قدرت نمائی سے تجھے اٹھاؤں گا اے ابراہیم تجھ پر سلام ہم نے تجھے خالص دوستی کے ساتھ چن لیا۔ خداتیرے سب کا م درست کردے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا تو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید اور تفرید۔ خدا ایسا نہیں جو تجھے چھوڑ دے۔ جب تک وہ خبیث کو طیّب سے جدا نہ کر ے۔ وہ تیرے مجد کو زیادہ کرے گا اور تیری ذرّیت کو بڑھائے گا اور من بعد تیرے خاندان کا تجھ سے ہی ابتداء قرار دیاجائے گا میں تجھے زمین کے کناروں تک عزت کے ساتھ شہرت دُوں گا اور تیرا ذکر بلند کروں گا اور تیری محبت دلوں میں ڈال دُوں گا۔ جعلناک المسیح ابن مریم (ہم نے تجھ کو مسیح ابن مریم بنایا ) ان کو کہہ د ے کہ میں عیسیٰ کے قدم پر آیا ہوں۔یہ کہیں گے کہ ہم نے پہلوں سے ایسا نہیں سُنا۔ سوتُو ان کو جواب دے کہ تمہارے معلومات وسیع نہیں خدابہتر جانتا ہے۔ تم ظاہر لفظ اور ابہام پر قانع ہو اور اصلؔ حقیقت تم پر مکشوف نہیں۔ جو شخص کعبہ کی بنیاد کو ایک حکمت الٰہی کا مسئلہ سمجھتا ہے وہ بڑا عقلمند ہے کیونکہ اس کو اسرار ملکوتی سے حصّہ ہے۔ ایک اولوالعزم پیدا ہوگا۔ وہ حسن اوراحسان میں تیرا نظیرہوگا وہ تیری ہی نسل سے ہو گا۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 443
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 443
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
مظہر الحق والعُلاء کانّ اللّٰہ نزل من السماء۔
یاتی علیک زمان مختلف بازواج مختلفۃ وتریٰ نسلا بعیدا ولنحیینک حیٰوۃً طیّبۃ۔ثمانین حولًا او قریبًا من ذالک۔ انک باعیننا سمیتک المتوکل یحمدک اللّٰہ من عرشہٖ۔ کذّبوا باٰیٰتنا وکانوا بھا یستھزء ون سیکفیکھم اللہ ویردھا الیک لا تبدیل لکلمات اللّٰہ ان ربک فعال لما یرید۔ یہ عبارت اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۷ ؁ ء کی پیشگوئی کی ہے۔
اب جس قدر میں نے بطور نمونہ کے پیشگوئیاں بیان کی ہیں۔ درحقیقت میرے صدق یا کذب کے آزمانے کے لئے یہی کافی ہے اور جو شخص اپنے تئیں ملہم قرار دے کر مجھے کاذب اور جہنمی خیال کرتا ہے اُس کے لئے فیصلہ کا طریق یہ ہے کہ وہ بھی اپنی نسبت چند ایسے اپنے الہاؔ مات کسی اخبار وغیرہ کے ذریعہ سے شائع کرے جس میں ایسی ہی صاف اور صریح پیشگوئیاں ہوں۔ تب خود لوگ ظہور کے وقت اندازہ کر لیں گے کہ کون شخص مقبول الٰہی ہے اور کون مردودالہٰی۔ ورنہ صرف دعووں سے کچھ ثابت نہیں ہو سکتا۔ اور خدائے تعالیٰ کی عنایات خاصہ میں سے ایک یہ بھی مجھ پر ہے کہ اُس نے علم حقائق و معارف قرآنی مجھ کو عطا کیا ہے۔ اور ظاہرہے کہ مطہرین کی علامتوں میں سے یہ بھی ایک عظیم الشان علامت ہے کہ علم معارف قرآن حاصل ہو۔ کیونکہ اللہ جلَّ شَانُہٗ فرماتا ہے لَا3 ۱؂ سوفریق مخالف پر بھی لازم ہے کہ جس قدر مَیں اب تک معارف قرآن کریم اپنی متفرق کتابوں میں بیان کر چکا ہوں۔ اس کے مقابل پر کچھ اپنے معارف کا نمونہ دکھلاویں اورکوئی رسالہ چھاپ کر مشتہر کریں تا لوگ دیکھ لیں کہ جودقائق علم و معرفت اہل اللہ کو ملتے ہیں۔ وہ کہاں تک اُن کو حاصل ہیں مگر بشرطیکہ کتابوں کی نقل نہ ہو۔
ناظرین پر واضح رہے کہ میاں عبد الحق نے مباہلہ کی بھی درخواست کیؔ تھی۔ لیکن اب تک میں نہیں سمجھ سکتاکہ ایسے اختلافی مسائل میں جن کی وجہ سے کوئی فریق کا فر یا ظالم
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 444
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 444
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
نہیں ٹھہر سکتا کیوں کر مباہلہ جائز ہے۔ قرآن کریم سے ظاہرہے کہ مباہلہ میں دونوں فریق کا اس بات پر یقین چاہیئے کہ فریق مخالف میراکاذب ہے۔ یعنی عمدًا سچائی سے روگرداں ہے مخطی نہیں ہے۔ تا ہر یک فریق *** اللّٰہ علی الکاذبین کہہ سکے۔ اب اگر میاں عبد الحق اپنے قصور فہم کی وجہ سے مجھے کاذب خیال کرتے ہیں لیکن میں انہیں کاذب نہیں کہتا بلکہ مخطی جانتا ہوں اور مخطی مسلمان پر *** جائز نہیں۔ کیابجائے *** اللّٰہ علی الکاذبین یہ کہنا جائز ہے کہ *** اللہ علی المخطئین۔ کوئی مجھے سمجھا وے کہ اگر میں مباہلہ میں فریق مخالفِ حق پر *** کروں توکس طور سے کروں۔ اگر میں *** اللہ علی الکاذبین کہوں تو یہ صحیح نہیں کیونکہ میں اپنے مخالفین کو کاذب تو نہیں سمجھتا بلکہ ماوّل مخطی سمجھتا ہوں جو نصوص کو اُنکے ظاہر سے پھیرکر بلاقیام قرینہ باطن کی طرف لے جاتے ہیں اور کذب اس شے کانام ہے جو عمدًا اپنے بیان میں اس یقین کی مخالفت کیؔ جائے جو دل میں حاصل ہے۔ مثلًا ایک شخص کہتا ہے کہ آج مجھے روزہ ہے اورخوب جانتا ہے کہ ابھی میں روٹی کھا کے آیا ہوں سو یہ شخص کاذب ہے۔ غرض کذب اور چیز ہے اور خطااَور چیز۔ اور خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ کاذبوں پر *** کرو۔ یہ تو نہیں فرماتا کہ مخطیوں پر *** کرو۔ اگر مخطی سے مباہلہ اورملاعنہ جائز ہوتا تو اسلام کے تمام فرقے جو باہم اختلاف سے بھرے ہوئے ہیں۔ بے شک باہم مباہلہ وملاعنہ کر سکتے تھے اور بلا شبہ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ اسلام کا روئے زمین سے خاتمہ ہوجاتا۔ اور مباہلہ میں جماعت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ نص قرآن کریم جماعت کو ضروری ٹھہراتی ہے۔ لیکن میاں عبد الحق نے اب تک ظاہر نہیں کیا کہ مشاہیر علماء کی جماعت اس قدر میرے ساتھ ہے جو مباہلہ کے لئے تیار ہے اور نساء ابناء بھی ہیں۔ پھر جب شرائط مباہلہ متحقق نہیں تومباہلہ کیونکرہو۔ اور مباہلہ میں یہ بھی ضرور ی ہوتاہے کہ اوّل ازالہ شبہات کیاجائے بجُز اس صورت کے کہ کاذب قرار دینے میں کوئی تامّل اور شبہ کی جگہ باقی نہ ہو۔ لیکن میاں عبد الحق بحث مباحثہ کاتونام تک بھی نہیں لیتے۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 445
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 445
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ایکؔ پُرانا خیال جو دل میں جما ہوا ہے کہ مسیح عیسیٰ ابن مریم آسمان سے نازل ہوں گے اِسی خیال کو اس طرح پر سمجھ لیا ہے کہ گویا سچ مچ حضرت مسیح ابن مریم رسول اللہ جن پر انجیل نازل ہوئی تھی کِسی زمانہ میں آسمان سے اُتریں گے حالانکہ یہ ایک بھاری غلطی ہے۔ جو شخص فوت ہوچکا اورجس کا فوت ہونا قرآن کریم کی تیس آیات سے بپایہ ثبوت پہنچ گیا وہ کہاں سے اب زمین پر آجائے گا۔ قرآن شریف کی آیات بیّنا ت محکمات کوکونسی حدیث منسوخ کردے گی۔ 3 ۱؂ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ زندہ کرنے پر قادر ہے۔ مگر یہ قدرت اس کی وعدہ کے مخالف ہے۔ اُس نے صریح اور صاف لفظوں میں فرمادیا ہے کہ جولوگ مر گئے پھر دنیا میں نہیں آیا کرتے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے33 ۲؂ اور جیسا کہ فرماتا ہے3 ۳؂ الجزو نمبر ۱۸ یعنی تم مرنے کے بعد قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے اورجیسا کہ فرماتاہے33 ۴؂ اور جیسا کہ فرماتا ہے وَ 3 ۵؂ ۔ اوراگر یہ کہو کہ معجزہ کے طور پر مردے زندہ ہوتے ہیں تو اس کا جواؔ ب یہ ہے کہ وہ حقیقی موت نہیں ہوگی بلکہ غشی یا نیند وغیرہ کی قسم سے ہو گی۔ کیونکہ مَاتَ کے معنے لغت میں نَامَ کے بھی ہیں دیکھو قاموس۔ غرض وہ موتٰی جو ایک دم کے لئے زندہ ہوگئے ہوں وہ حقیقی موت سے باہر ہیں۔ اور کوئی اِس بات کا ثبوت نہیں دے سکتا کہ کبھی حقیقی اور واقعی طور پر کوئی مردہ زندہ ہوگیا اور دنیا میں واپس آیا اور اپنا ترکہ مقسومہ واپس لیا اور پھر دنیا میں رہنے لگا اور خود موت کا لفظ قرآن کریم میں ذوالوجوہ ہے۔ کافر کانام بھی مردہ رکھا ہے۔اور ہوا وہوس سے مرنا بھی ایک قسم کی موت ہے اور قریب الموت کا نام بھی میّت ہے۔ اور یہی تینوں وجوہ استعمال حیات میں بھی پائی جاتی ہیں۔ یعنی حیات بھی تین قسم کی ہیں ۔ لیکن آیت 3 بیّنات محکمات میں سے ہے اورنہ صرف ایک آیت
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 446
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 446
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بلکہ اس قسم کی بہت سی آیات قرآن شریف میں موجود ہیں کہ جو مر گیا وہ ہرگز پھر دنیا میں واپس نہیں آئے گا۔ اور یہ تو ظاہر ہو چکا کہ حضرت مسیح فی الواقعہ فوت ہوچکے ہیں۔ پھر باوجود اس قرینہ صحیحہ بیّنہ کے اگر حدیثوں میں ابن مریم کے نزول کا ذکر آیا ہے تو کیا یہ عقلمندؔ ی ہے کہ یہ خیال کیاجائے کہ وہی ابن مریم رسول اللہ آسمان سے اُتر آئے گا۔ مثلًادیکھئے کہ اللہ جلَّ شَانُہٗ سور ۂبقرۃ میں فرماتا ہے کہ اے بنی اسرائیل ہماری اس نعمت کو یادکرو کہ ہم نے آل فرعون سے تمہیں چھڑایا تھا جب وہ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو رکھ لیتے تھے اور وہ زمانہ یاد کرو جب دریا نے تمہیں راہ دیا تھا اور فرعون اس کے لشکر کے سمیت غرق کیا گیا تھا اور وہ زمانہ یاد کرو جب تم نے موسیٰ کو کہا تھا کہ ہم بغیر دیکھے خداپر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے اور وہ زمانہ یاد کرو جب ہم نے تمہیں بدلی کا سایہ دیا اور تمہارے لئے من وسلویٰ اتارا اور وہ زمانہ یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا اور کوہ طُور تمہارے سر کے اوپر ہم نے رکھا تھا پھر تم نے سرکشی اختیار کی۔اور وہ زمانہ یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا تھا کہ تم نے خون نہ کرنا اور اپنے عزیزوں کو اُن کے گھروں سے نہ نکالنا اور تم نے اقرار کر لیا تھا کہ ہم اس عہد پر قائم رہیں گے لیکن تم پھر بھی ناحق کا خون کرتے اور اپنے عزیزوں کو ان کے گھروں سے نکالتے رہے۔ تمہاری یہیؔ عادت رہی کہ جب کوئی نبی تمہاری طرف بھیجا گیا تو بعض کو تم نے جھٹلا یا اور بعض کے درپے قتل ہوئے یا قتل ہی کردیا۔
اب فرمائیے کہ اگر یہ کلمات بطور استعارہ نہیں ہیں اور ان تمام آیات کو ظاہر پر حمل کرنا چاہیئے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ جو لوگ درحقیقت ان آیات کے مخاطب ہیں جن کو آل فرعون سے نجات د ی گئی تھی اور جن کودریا نے راہ دیا تھا اورجن پر من وسلویٰ اتارے گئے تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک زندہ ہی تھے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 447
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 447
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
یا مرنے کے بعد پھر زندہ ہو کر آگئے تھے۔ کیا آپ لوگ جب مسجدوں میں بیٹھ کر قرآن کریم کا ترجمہ پڑھاتے ہیں تو ان آیات کے معنے یہ سمجھا یاکرتے ہیں کہ اِن آیات کے مخاطبین ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسالت تک بقید حیات تھے یا قبروں سے زندہ ہو کر پھر دنیا میں آگئے تھے۔ اگر کوئی طالب علم آپ سے سوال کرے کہ اِن آیات کے ظاہر مفہوم سے تو یہی معنے نکلتے ہیں کہ مخاطب وہی لوگ ہیں جو حضرت موسیٰ اوردوسرے نبیوں کے وقت میں موجود تھے کیا اب یہ اعتقاد رکھاجائے کہ وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےؔ وقت میں زندہ تھے یا زندہ ہوکر پھر دنیا میں آگئے تھے۔ تو کیا آپ کا یہی جواب نہیں کہ بھائی وہ تو سب فوت ہوگئے اور اب مجازی طورپر مخاطب اُن کی نسل ہی ہے جو اُن کے کاموں پر راضی ہے گویا انہیں کا وجود ہے یایوں کہو کہ گویا وہی ہیں۔ تواب سمجھ لو کہ یہی مثال ابن مریم کے نزول کی ہے۔سُنّت اللہ اسی طرح پر ہے کہ مراتب وجود دَوری ہیں اور بعض کے ارواح بعض کی صورت مثالی لے کر اس عالم میں آتے ہیں اور روحانیت ان کی بکلّی ایک دوسرے پر منطبق ہوتی ہے۔ آیت 3 ۱؂ کو غور سے پڑھو اس بات کو خوب غور سے سوچنا چاہیئے کہ ابن مریم کے آنے کی اس اُمّت میں کیا ضرورت تھی اور یہ بات کس حکمت اور سرِّ مخفی پر مبنی ہے کہ ابن مریم کے آنے کی خبر دی گئی داؤد یا موسیٰ یا سلیمان کے آنے کی خبر نہیں دی گئی۔ اس کی کیا حقیقت ہے اور کیا اصل ہے اورکیابھید ہے۔ سو جب ہم عمیق نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سطحی خیال کو چھوڑ کر غور کرتے کرتے بحر تدبّر اورتفکّر میں بہت نیچے چلے جاتے ہیں تو اس گہرا غوطہ مارنے سے یہ گوہرِ معرفت ہمارے ہاتھ آتا ہے کہ ؔ اس پیشگوئی کے بیان کرنے سے اصل مطلب یہ ہے کہ تا محمد مصطفےٰ حبیب اللہ اور موسیٰ کلیم اللہ میں جو عند اللہ مماثلت تامہ ہے اور اُن کی اُمّتوں پر جو احسانات حضرت احدیت متشابہ اور متشاکل طور پر واقع ہیں اُن کو بتصریح بپایہ ثبوت پہنچایا جائے۔ اور ظاہر ہے کہ موسوی شریعت کے آخری زمانہ میں بہت کچھ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 448
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 448
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
فسادیہودیوں میں واقع ہوگیا تھا اور انواع واقسام کے فرقے اُن میں پیدا ہوگئے تھے اور باہمی ہمدردی اور محبت اور حقوق اخوت سب دُور ہو کر بجائے اس کے تباغض و تحاسد اورکینہ اورعداوت باہمی پید ا ہو گئے تھے اور خدا تعالیٰ کی پرستش اورخوفِ الٰہی بھی اُن کے دلوں میں سے اُٹھ گیا تھا اور جھگڑے اور فساد اور دنیا پرستی کے خیالات اور انواع اقسام کے مکر زاہدوں اور مولویوں اور دنیا داروں میں اپنے اپنے طرز کے موافق پیدا ہوگئے تھے اوراُن کے ہاتھ میں بجائے مذہب کے صرف رسم اور عادت رہ گئی تھی۔اورحقیقی نیکی سے بکلّی بے خبر ہو گئے تھے اور دلوں میں از حد سختی بڑھ گئی تھی۔ایسے زمانہ میں خدائے تعالیٰ نے مسیح ابن مریم کو بنیؔ اسرائیل کے نبیوں کا خاتم الانبیاء کر کے بھیجا۔ مسیح ابن مریم تلوار یا نیزہ کے ساتھ نہیں بھیجا گیا تھا اور نہ اس کو جہاد کا حکم تھا بلکہ صرف حجت اور بیان کی تلوار اس کو دی گئی تھی تا یہودیوں کی اندرونی حالت درست کرے اور توریت کے احکام پر دوبارہ اُن کوقائم کر دے۔ ایسا ہی شریعت محمدؐ یہ کے آخری زمانہ میں جو یہ زمانہ ہے اکثر مسلمانوں نے سراسر یہودیوں کا رنگ قبول کر لیا اور اپنے باطن کی رُوسے اُسی طرز کے یہودی ہوگئے جو حضرت مسیح کے وقت میں تھے۔ لہٰذا خدائے تعالیٰ نے تجدید احکام فرقان کریم کے لئے ایک شخص کو بعینہٖ مسیح ابن مریم کے رنگ پر بھیج دیا اور استعارہ کے طور پر اس کا نام بھی مسیح عیسیٰ ابن مریم رکھا۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ کا پورانام فرقان کریم میںیہی ہے۔ کماقال اللّٰہ تعالٰی 3333 ۱؂ ۔ سو چونکہ اس بات کا ظاہرکرنا منظور تھا کہ جب آخری زمانہ میں اس اُمّت میں فساد واقع ہو ا تو اِس اُمّت کو بھی ایک مسیح ابن مریم دیا گیا جیسا کہ حضر ت موسیٰ کی اُمّت کو دیا گیا تھا۔ لہٰذاؔ یہ ضروری ہوا کہ اس آنے والے کانام بھی ابن مریم ہی رکھا جائے تا یہ احسان باری تعالیٰ کا ہر یک آنکھ کے سامنے آجائے او ر تا اُمّت موسویہ اوراُمّت محمدیہ میں ازرو
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 449
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 449
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
مورد احسانات حضرت عزّت ہونے کے پوری پوری مماثلت ثابت ہوجائے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریب القیامت لوگوں کا نام یہودی رکھا ہے پھر اگراُسی نبی نے ایسے شخص کانام ابن مریم رکھ دیا ہوجو اِن یہودیوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہو تو اس میں کونسی تعجب اورقباحت اور استبعاد کی بات ہے۔بلاغت میں یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ ایک فقرہ کے مناسب حال دوسرا فقرہ بیان کرنا پڑتا ہے۔ مثلًا جیسے کوئی کہے کہ تمام دنیا فرعون بن گئی ہے تو اس فقرہ کے مناسب حال یہی ہے کہ اب کوئی موسیٰ اُن کی اصلاح کے لئے آنا چاہیئے لیکن اگر اس طرح کہا جائے کہ تمام دنیا فرعون بن گئی ہے اُن کی اصلاح کے لئے اب عیسیٰ آنا چاہیئے توکیسا بُرا اور بے محل معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ فرعون کے ساتھ موسیٰ کا جوڑ ہے نہ عیسیٰ کا۔ اِسی طرح جب آخری زمانہ کی اُمّت محمدیہ کو یہودی قرار دیا اور یہودی بھی وہؔ یہودی جو شریعت موسوی کے آخری عہد میں تھے جن کے لئے حضرت مسیح بھیجے گئے تھے اور تمام خصلتیں اُن کی بیان کر دی گئیں اور بعینہٖ اُن کو یہودی بنا دیا تو کیا اس کے مقابل پر یہ موزوں نہ تھا کہ جب تم یہودی بن جاؤ گے تو تمہارے لئے عیسیٰ ابن مریم بھیجا جائے گا۔ دجّالیت حقیقت میںیہودیوں کا ہی ورثہ تھا اور اُن سے نصارےٰ کوپہنچا۔ اوردجّال اس گروہ کو کہتے ہیں جو کذّاب ہو۔اور زمین کو نجس کرے اورحق کے ساتھ باطل کو ملا وے۔ سو یہ صفت حضرت مسیح کے وقت میں یہودیوں میں کمال درجہ پر تھی پھر نصاریٰ نے اُن سے لی۔ سو مسیح ایسی دجّالی صفت کے معدوم کرنے کے لئے آسمانی حربہ لے کر اُترا ہے وہ حربہ دنیا کے کاریگروں نے نہیں بنایا بلکہ وہ آسمانی حربہ ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ اگریہ کہا جائے کہ مثیل موسےٰ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو موسیٰ سے افضل ہیں تو پھر مثیل مسیح کیوں ایک اُمّتی آیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مثیل موسیٰ کی شان نبوت ثابت کرنے کے لئے اور خاتم الانبیاء کی عظمت دکھانے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 450
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 450
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کے لئے اگر کوئی نبی آتا تو پھر خاتم الانبیاء کیؔ شان عظیم میں رخنہ پڑتا۔ اور یہ تو ثابت ہے کہ اس مسیح کو اسرائیلی مسیح پر ایک جزئی فضیلت حاصل ہے کیونکہ اِس کی دعوت عام ہے اوراس کی خاص تھی اور اس کو طفیلی طورپر تمام مخالف فرقوں کے اوہام دور کرنے کے لئے ضروری طورپر وہ حکمت اور معرفت سکھلائی گئی ہے جو مسیح ابن مریم کو نہیں سکھلائی تھی کیونکہ بغیر ضرورت کے کوئی علم عطا نہیں ہوتا۔ وماننزّلہ اِلّا بقدرٍ معلوم۔
قرآن کریم کے رُو سے مثیل مسیح کا آخری زمانہ میں اس اُمّت میں آنا اس طور سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم اپنے کئی مقامات میں فرماتا ہے کہ اس اُمّت کو اسی طرز سے خلافت دی جائیگی اور اسی طرز سے اس اُمّت میں خلیفے آئیں گے جو اہل کتاب میں آئے تھے۔ اب ظاہرہے کہ اہل کتاب کے خلفاء کا خاتمہ مسیح ابن مریم پر ہوا تھا جو بغیر سیف وسنان کے آیا تھا۔ مسیح درحقیقت آخری خلیفہ موسیٰ علیہ السلام کاتھا۔ لہٰذا حسب وعدہ قرآن کریم ضرورتھا کہ اس اُمّت کے خلفاء کا خاتمہ بھی مسیح پرہی ہوتا اورجیسے موسوی شریعت کا ابتداء موسیٰ سے ہوا اور انتہاء مسیح ابن مریم پر۔ ایسا ہی اس اُمّت کے لئے ہو۔ فَطُوْبٰی لِہٰذِہِ الْاُمَّۃِ۔
اورؔ احادیث میں جو نزول مسیح ابن مریم کا لفظ ہے ہم اس میں بہ بسط تمام لکھ آئے ہیں کہ نزول کے لفظ سے درحقیقت آسمان سے نازل ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کھلے کھلے طور پر قرآن شریف میں آیا ہے تو کیا اس سے یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آسمان سے ہی اُترے تھے بلکہ قرآن شریف میں یہ بھی آیت ہےیعنی دنیا کی تمام چیزوں کے ہمارے پاس خزانے ہیں مگر بقدر ضرورت و بمقتضائے مصلحت و حکمت ہم اُن کواُتارتے ہیں۔ اس آیت سے صاف طور پر ثابت ہواکہ ہر یک چیز جو دنیا میں پائی جاتی
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 451
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 451
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ہے وہ آسمان سے ہی اُتری ہے۔ اس طرح پر کہ اِن چیزوں کے علل موجبہ اُسی خالق حقیقی کی طرف سے ہیں اورنیز اس طرح پر کہ اُسی کے الہام اورالقاء اورسمجھانے اورعقل اورفہم بخشنے سے ہر یک صنعت ظہورمیں آتی ہے لیکن زمانہ کی ضرورت سے زیادہ ظہور میں نہیں آتی اور ہریک مامور من اللہ کو وسعت معلومات بھی زمانہ کی ضرورؔ ت کے موافق دی جاتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس قرآن کریم کے دقائق و معارف و حقائق بھی زمانہ کی ضرورت کے موافق ہی کھلتے ہیں۔ مثلًا جس زمانہ میں ہم ہیں اور جن معارف فرقانیہ کے بمقابل دجّالی فرقوں کی ہمیں اس وقت ضرورت آپڑ ی ہے وہ ضرورت اُن لوگوں کو نہیں تھی جنہوں نے اِن دجّالی فرقوں کا زمانہ نہیں پایا۔ سو وہ باتیں اُن پر مخفی رہیں اورہم پر کھولی گئیں۔ مثلًا اس بات کی انتظار میں بہت لوگ گذر گئے کہ سچ مچ مسیح ابن مریم ہی دوبارہ دنیا میں آجائے گا اور خدائے تعالیٰ کی حکمت اورمصلحت نے قبل از وقت اُن پر یہ راز نہ کھولا کہ مسیح کے دوبارہ آنے سے کیا مراد ہے۔ اب جو یہودیت کی صفتوں کا عام وبا پھیل گیا اور مسیح کے زندہ ماننے سے نصاریٰ کو اپنے مشرکانہ خیالات میں بہت سی کامیابی ہوئی۔ اس لئے خدائے تعالیٰ نے چاہا کہ اب اصل حقیقت ظاہرکرے۔ سو اس نے ظاہر کر دیا کہ مسلمانوں کا مسیح مسلمانوں میں سے ہی ہو گا جیسا کہ بنی اسرائیل کا مسیح بنی اسرائیل میں سے ہی تھا۔ اوراچھی طرح کھول دیا کہ اسرائیلی مسیح فوت ہوؔ چکا ہے اوریہ بھی بیان کر دیا کہ فوت شدہ پھر دنیا میں آنہیں سکتا۔ جیسا کہ جابرؓ کی حدیث میں بھی مشکٰوۃ کے باب مناقب میں اسی کے مطابق لکھاہے اور وہ یہ ہے قا ل قد سبق القول منّی انّھم لا یرجعون۔ رواہ الترمذی یعنی جو لوگ دنیا سے گذر گئے پھر وہ دنیا میں نہیں آئیں گے۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 452
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 452
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/452/mode/1up
قرآن کریم کی شان بلند جو اُسی کے بیان سے ظاہرہوتی ہے
وکل العلم فی القراٰن لٰکن
تقاصر منہ افھام الرّجال
جاننا چاہیئے کہ اس زمانہ میں اسباب ضلالت میں سے ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اکثر لوگوں کی نظر میں عظمت قرآن شریف کی باقی نہیں رہی۔ ایک گروہ مسلمانوں کا ایسا فلاسفہ ضالّہ کا مقلّد ہوگیا کہؔ وہ ہر ایک امر کا عقل سے ہی فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کابیان ہے کہ اعلیٰ درجہ کا حَکم جو تصفیہ تنازعات کے لئے انسان کو ملا ہے وہ عقل ہی ہے ۔ ایسے ہی لوگ جب دیکھتے ہیں کہ وجود جبرائیل اورعزرائیل اور دیگر ملائکہ کرام جیسا کہ شریعت کی کتابوں میں لکھا ہے اور وجودجنت و جہنم جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہوتاہے وہ تمام صداقتیں عقلی طور پر بپایۂ ثبوت نہیں پہنچتیں تو فی الفور اُ ن سے منکر ہوجاتے ہیں اور تاویلات رکیکہ شروع کر دیتے ہیں کہ ملائک سے صرف قوتیں مراد ہیں اور وحی رسالت صرف ایک ملکہ ہے اور جنت اور جہنّم صرف ایک روحانی راحت یا رنج کانام ہے۔ان بے چاروں کو خبر نہیں کہ آلہ دریافت مجہولات صرف عقل نہیں ہے و بس۔بلکہ اعلیٰ درجہ کی صداقتیں اورانتہائی مقام کے معارف تو وہی ہیں جو مبلغ عقل سے صدہادرجہ بلند تر ہیں جو بذریعہ مکاشفات صحیحہ ثابت ہوتی ہیں۔اور اگر صداقتوں کا محک صرف عقل کو ہی ٹھہرایاجائے تو بڑے بڑے عجائبات کارخانہ الوہیت کے در پردۂ مستوری و محجوبی رہیں گے اور سلسلہ معرفت کا محض ناتمام اور ناقصؔ اور ادھورا رہ جائے گا اورکسی حالت میں انسان شکوک اور شبہات سے مَخلصی نہیں پاسکے گا اور اس یک طرفہ معرفت کا آخری نتیجہ یہ ہو گا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 453
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 453
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/453/mode/1up
کہ بوجہ نہ ثابت ہونے بالائی رہنمائی کے اور بباعث نہ معلوم ہونے تحریکات طاقت بالا کے خود اس صانع کی ذات کے بارہ میں طرح طرح کے وساوس دلوں میں پیداہوجائیں گے سو ایسا خیال کہ خالق حقیقی کے تمام دقیق در دقیق بھیدوں کے سمجھنے کے لئے صرف عقل ہی کافی ہے کس قدر خام اور نا سعادتی پر دلالت کررہا ہے۔
اور ان لوگوں کے مقابل پر دوسرا گروہ یہ ہے کہ جس نے عقل کو بکلّی معطّل کی طرح چھوڑ دیا ہے۔ اورایسا ہی قرآن شریف کو بھی چھوڑ کر جو سرچشمہ تمام علوم الٰہیہ ہے صرف روایات و اقوال بے سرو پا کو مضبوط پکڑ لیا ہے۔ سو ہم اِن دونوں گروہ کو اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ قرآن کریم کی عظمت ونورانیت کا قدر کریں اور اس کے نور کی رہنمائی سے عقل کو بھی دخل دیں اور کسی غیر کا قول تو کیا چیز ہے اگر کوئی حدیث بھی قرآن کریم کے مخالف پاویںؔ تو فی الفور اس کو چھوڑ دیں جیسا کہ اللہ جلَّ شَانُہٗ قرآن کریم میں آپ فرماتا ہے3 ۱؂ یعنی قرآن کریم کے بعد کس حدیث پر ایمان لاؤ گے۔ اور ظاہر ہے کہ ہم مسلمانوں کے پاس وہ نص جو اوّل درجہ پر قطعی اور یقینی ہے قرآن کریم ہی ہے۔ اکثر احادیث اگر صحیح بھی ہوں تو مفید ظن ہیں وَالظَّنُّ33مندرجہ ذیل صفات قرآن کریم کی غور سے پڑھو اور پھر انصافًا خود ہی کہو کہ کیا مناسب ہے کہ اس کلام کو چھوڑ کر کوئی اور ہادی یا حَکَم مقرر کیا جائے۔ اور وہ آیات یہ ہیں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 454
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 454
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/454/mode/1up
یعنی یہ قرآن ا س راہ کی طرف ہدایت کرتا ہے جو نہایت سیدھی ہے اِس میں اُن لوگوں کے لئے جو پرستا ر ہیں حقیقی پرستش کی تعلیم ہے اور یہ اُن کے لئے جو متقی ہیں کمالا ت تقویٰ کے یاد دلانے والا ہے یہ حکمت ہے جو کمال کو پہنچی ہوئی ہے اور یہ یقینی سچائی ہے اور اس میں ہریک چیز کا بیان ہے یہ نورٌ علٰی نور اور سینوں کو شفابخشنے والا ہے۔ رحمٰن نے قرآن کو سکھلایا۔ ایسی کتاب نازل کی جو اپنی ذات میں حق ہے اور حق کے وزن کرنے کے لئے ایک ترازو ہے وہ لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اجمالی ہدایتوں کی اس میں تشریح ہے اور وہ اپنے دلائل کے ساتھ حق اور باطل میں فرق کرتا ہے اور وہ قول فصل ہے اور شک اور شبہ سے خالی ہے ہم نے اِس کو اس لئے تجھ پر اتارا ہے کہ تا امور متنازعہ فیہ کا اس سے فیصلہ کردیں اور مومنوں کے لئے ہدایتؔ اور رحمت کا سامان طیارکر دیں۔ اِس میں وہ تمام صداقتیں موجود ہیں جو پہلی کتابوں میں متفرق اور پراگندہ طور پر موجود تھیں ایک ذرّہ باطل کا اس میں دخل نہیں نہ آگے سے اور نہ پیچھے سے۔ یہ لوگوں کے لئے روشن دلیلیں ہیں اور جویقین لانے والے ہوں اُن کے لئے ہدایت ورحمت ہے سو ایسی کونسی حدیث ہے جس پر تم اللہ اور اُس کی آیات کو چھوڑ کر ایمان لاؤ گے یعنی اگر کوئی حدیث قرآن کریم سے مخالف ہو تو ہرگز نہیں ماننی چاہیئے بلکہ ردّ کر دینی چاہیئے۔ ہاں اگر کوئی حدیث بذریعہ تاویل قرآن کریم کے بیان سے مطابق آسکے مان لینا چاہیئے۔ پھر بعد اس کے ترجمہ بقیہ آیا ت کا یہ ہے کہ اُن کو کہہ دے کہ خدائے تعالیٰ کے فضل ورحمت سے یہ قرآن ایک بیش قیمت مال ہے سو اس کو تم خوشی سے قبول کرو۔ یہ اُن مالوں سے اچھا ہے جو تم جمع کرتے ہو یہ اس بات
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 455
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 455
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/455/mode/1up
کی طرف اشارہ ہے کہ علم اور حکمت کی مانند کوئی مال نہیں۔ یہ وہی مال ہے جس کی نسبت پیشگوئی کے طور پر لکھا تھا کہ مسیح دنیا میں آ کر اس مال کو اس قدرتقسیم کرے گا کہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں گے ۔ یہؔ نہیں کہ مسیح درم و دینارکوجو مصداق آیت 3 ۱؂ ہے جمع کرے گا اور دانستہ ہر یک کومال کثیر دے کرفتنہ میں ڈال دے گا مسیح کی پہلی فطرت کو بھی ایسے مال سے مناسبت نہیں۔ وہ خو د انجیل میں بیان کرچکا ہے کہ مومن کا مال درم و دینار نہیں بلکہ جواہر حقائق و معارف اُس کا مال ہیں۔ یہی مال انبیاء خدائے تعالیٰ سے پاتے ہیں اور اِسی کو تقسیم کرتے ہیں۔ اسی مال کی طرف اشارہ ہے کہ اِنّما انا قاسم واللّٰہ ھو المُعطی۔ حدیثوں میں یہ بات بوضاحت لکھی گئی ہے کہ مسیح موعود اُس وقت دنیا میں آئے گا کہ جب علم قرآن زمین پر سے اُٹھ جائے گا اور جہل شیوع پاجائے گا۔ یہ وہی زمانہ ہے جس کی طرف ایک حدیث میں یہ اشارہ ہے لوکان الایمان معلّقًا عند الثریا لنالہ‘ رجل من فارس۔ یہ وہ زمانہ ہے جو اس عاجز پر کشفی طور پر ظاہر ہؤ ا جو کمال طغیان اس کا اس سن ہجری میں شروع ہوگا جو آیت3 3۲؂ میں بحساب جمل مخفی ہے یعنی ۱۲۷۴ ؁ھ۔
اس مقام کو غور سے دیکھو اورجلدی سے نکل نہ جاؤ۔ اور خدا سےؔ دعا مانگو کہ وہ تمہارے سینوں کو کھول دے۔ آپ لوگ تھوڑے سے تامّل کے ساتھ یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ حدیثوں میں یہ وارد ہے کہ آخری زمانہ میں قرآن زمین سے اٹھا لیا جائے گا اور علم قرآن مفقود ہوجائے گا اور جہل پھیل جائے گا اور ایمانی ذوق اور حلاوت دلوں سے دورہوجائے گی۔پھر ان حدیثوں میں یہ حدیث بھی ہے کہ اگر ایمان ثریّا کے پاس جا ٹھہرے گا یعنی زمین پر اس کا نام و نشان نہیں رہے گاتو ایک آدمی فارسیوں میں سے اپنا ہاتھ پھیلائے گا اور وہیں ثریا کے پا س سے اس کو لے لیگا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 456
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 456
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/456/mode/1up
اب تم خود سمجھ سکتے ہو کہ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جب جہل اور بے ایمانی اور ضلالت جو دوسری حدیثوں میں دُخان کے ساتھ تعبیر کی گئی ہے دنیا میں پھیل جائے گی اور زمین میں حقیقی ایمانداری ایسی کم ہوجائے گی کہ گویا وہ آسمان پر اُٹھ گئی ہو گی اور قرآن کریم ایسا متروک ہوجائے گا کہ گویا وہ خدائے تعالیٰ کی طرف اٹھایا گیا ہو گا۔ تب ضرور ہے کہ فارس کی اصل سے ایک شخص پید ا ہو اور ایمان کو ثریا سے لے کر پھر زمین پر نازل ہو۔ سو یقینًا سمجھو کہ نازل ہوؔ نے والا ابن مریم یہی ہے جس نے عیسیٰ بن مریم کی طرح اپنے زمانہ میں کسی ایسے شیخ والد روحانی کو نہ پایا جو اس کی روحانی پیدائش کاموجب ٹھہرتا۔ تب خدائے تعالیٰ خود اس کا متولّی ہوا اور تربیت کی کنار میں لیا اور اس اپنے بندے کا نام ابن مریم رکھا۔ کیونکہ اُس نے مخلوق میں سے اپنی روحانی والدہ کا تو مُنہ دیکھا جس کے ذریعہ سے اُس نے قالب اسلام کا پایا لیکن حقیقت اسلام کی اس کو بغیر انسانوں کے ذریعہ کے حاصل ہوئی۔ تب وہ وجود روحانی پا کر خدائے تعالیٰ کی طرف اُٹھایا گیا کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنے ماسواسے اسکو موت دیکر اپنی طرف اُٹھالیا اور پھر ایمان اور عرفان کے ذخیرہ کے ساتھ خلق اللہ کی طرف نازل کیا سو وہ ایمان اور عرفان کا ثریا سے دُنیا میں تحفہ لایا اور زمین جو سُنسان پڑی تھی اور تاریک تھی اس کے روشن اورآباد کرنے کے فکر میں لگ گیا۔ پس مثالی صورت کے طور پر یہی عیسیٰ بن مریم ہے جو بغیر باپ کے پیدا ہوا کیاتم ثابت کر سکتے ہو کہ اس کا کوئی والد روحانی ہے۔ کیا تم ثبوت دے سکتے ہو کہ تمہارے سلاسل اربعہ میں سے کسی سلسلہ میں یہ داخل ہے۔ پھر اگرؔ یہ ابن مریم نہیں تو کون ہے ؟
اور اگر اب بھی تمہیں شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ مسلمانوں کے ساتھ جزئی اختلافات کی وجہ سے *** بازی صدیقوں کاکام نہیں۔ مومن لعّان نہیں ہوتا۔ لیکن ایک طریق بہت آسان ہے اور وہ درحقیقت قائم مقام مباہلہ ہی ہے جس سے کاذب اور صادق او ر مقبول اور مردود کی تفریق ہوسکتی ہے۔ اور وہ یہ ہے جو ذیل میں موٹی قلم سے لکھتا ہوں۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 457
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 457
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/457/mode/1up
اے حضرات مولوی صاحبان ! آپ لوگوں کایہ خیال کہ ہم مومن ہیں اور یہ شخص کافر اور ہم صادق ہیں اور یہ شخص کاذب اور ہم متبع اسلام ہیں اور یہ شخص مُلحد اور ہم مقبول الٰہی ہیں اور یہ شخص مردو د اور ہم جنّتی ہیںؔ اور یہ شخص جہنّمی۔ اگر چہ غور کرنیوالوں کی نظر میں قرآن کریم کی رُو سے بخوبی فیصلہ پاچکا ہے اور اس رسالہ کے پڑھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ حق پرکون ہے اور باطل پرکون۔ لیکن ایک اور بھی طریق فیصلہ ہے جس کی رُو سے صادقوں اور کاذبوں اور مقبولوں اور مردُودوں میں فرق ہوسکتا ہے۔ عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر مقبول اور مردُود اپنی اپنی جگہ پر خدائے تعالیٰ سے کوئی آسمانی مدد چاہیں تو وہ مقبول کی ضرو ر مدد کرتا ہے اورؔ کسی ایسے امر سے جو انسان کی طاقت سے بالاتر ہے اس مقبول کی قبولیت ظاہر کردیتاہے۔ سو چونکہ آپ لوگ اہل حق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور آپکی جماعت میں وہ لوگ بھی ہیں جو ملہم ہونے کے مدعی ہیں جیسے مولوی محی الدین و عبد الرحمن صاحب لکھو والے اور میاں عبد الحق صاحب غزنوی جو اس عاجز کو کافر اورجہنّمی ٹھہراتے ہیں لہٰذا آپ پر واجب ہے کہ اس آسمانی ذریعہ سے بھی دیکھ لیں کہ آسمان پر مقبول کس کا نام ہے اور مردودکسؔ کا نام
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 458
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 458
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/458/mode/1up
میں اس بات کو منظور کرتاہوں کہ آپ دس ہفتہ تک اِس بات کے فیصلہ کے لئے احکم الحاکمین کی طرف توجہ کریں تا اگر آپ سچے ہیں تو آپکی سچائی کا کوئی نشان یا کوئی اعلیٰ درجہ کی پیشگوئی جو راستباز وں کو ملتی ہے آپ کو دی جائے۔ ایسا ہی دوسری طرف میں بھی توجہ کروں گا اور مجھے خداوند کریم و قدیر کی طرف سے یقین دلایا گیا ہے کہ اگر آپ نے اس طور سے میرا مقابلہ کیا تو میری فتح ہو گی۔ میں اس مقابلہ میں کسی پر *** کرناؔ نہیں چاہتا اور نہ کروں گا۔ اور آپ کا اختیار ہے جو چاہیں کریں۔ لیکن اگر آپ لوگ اعراض کرگئے تو گریز پر حمل کیاجائیگا۔ میری اس تحریر کے مخاطب مولوی محی الدین۔ عبد الرحمن صاحب لکھووالے اور میاں عبدالحق صاحب غزنوی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اور مولوی عبد الجبّار صاحب غزنوی اور مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی ہیں اور باقی انہیں کے زیر اثر آجائیں گے۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 459
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 459
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/459/mode/1up
جوؔ ہمارا تھا وہ اب دلبرکا سارا ہوگیا
آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا
شکر للہ مل گیا ہم کو وہ لعل بے بدل
کیا ہوا گرقوم کا دل سنگِ خارا ہو گیا
مسیح موعود ہونے کا ثبوت
اس میں تو کچھ شک نہیں کہ اس بات کے ثابت ہونے کے بعد کہ درحقیقت حضرت مسیح ابن مریم اسرائیلی نبی فوت ہوگیا ہے ہریک مسلمان کو یہ ماننا پڑے گا کہ فوت شدہ نبی ہرگز دنیا میں دوبارہ نہیں آسکتا۔ کیونکہ قرآن اورحدیث دونوں بالاتفاق اِس بات پر شاہد ہیں کہ جو شخص مر گیا پھر دنیا میں ہرگز نہیں آئے گااور قرآن کریم 33۱ ؂ کہہ کر ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے اُن کو رخصت کرتا ہے۔اور قصّہ عزیروغیرہ جو قرآن کریم میں ہے اس بات کے مخالف نہیں کیونکہ لغت میں موت بمعنی نوم اور غشی بھی آیا ہے۔ دیکھو قاموس۔اور جو عزیر کے قصہ میں ہڈیوں پر گوشت چڑھاؔ نے کا ذکر ہے وہ حقیقت میں ایک الگ بیان ہے جس میں یہ جتلانا منظور ہے کہ رحم میں خدائے تعالیٰ ایک مردہ کو زندہ کرتا ہے اور اس کی ہڈیوں پر گوشت چڑھاتا ہے اور پھر ا س میں جان ڈالتاہے ماسوا اس کے کسی آیت یا حدیث سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ عزیر دوبارہ زندہ ہو کر پھر بھی فوت ہوا۔ پس اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ عزیر کی زندگی دوم دنیوی زندگی نہیں تھی ورنہ بعد اس کے ضرور کہیں اس کی موت کا بھی ذکر ہوتا۔ ایسا ہی قرآن کریم میں جو بعض لوگوں کی دوبارہ زندگی لکھی ہے وہ بھی دنیوی زندگی نہیں۔
اب حدیثوں پر نظر غور کرنے سے بخوبی یہ ثابت ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں ابن مریم اُترنے والا ہے جس کی یہ تعریفیں لکھی ہیں کہ وہ گندم گوں ہو گا اور بال اس کے سیدھے ہوں گے اور مسلمان کہلائے گا اور مسلمانوں کے باہمی اختلافات دُور کرنے کے لئے آئے گا او ر مغز شریعت جس کو وہ بھول گئے ہوں گے انہیں یا د دلائے گا اور ضرور ہے کہ وہ اس وقت نازل ہو جس وقت انتہا تک شرر اور فتن پہنچ جائیں اور مسلمانوں پر
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 460
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 460
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/460/mode/1up
وہ تنزّل کا زمانہ ہو جو یہودیوں پر اُن کے آخری دنوں میں آیا تھا۔
اسؔ زمانہ کے بعض نوتعلیم یافتہ ایسے شخص کے آنے سے ہی شک میں ہیں جو ابن مریم کے نام پر آئے گا وہ کہتے ہیں کہ یہ عظیم الشان شخص جو حدیثوں میں بیان کیا گیا ہے اگر واقعی طور پر ایسا آدمی آنے والا تھا تو چاہیئے تھا کہ قرآن کریم میں اس کا کچھ ذکر ہوتا جیسا کہ دابۃ الارض اور دخان اور یاجوج ماجوج کا ذکر ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ لوگ سراسر غلطی پر ہیں خدائیتعالیٰ نے اپنے کشف صریح سے اس عاجز پر ظاہرکیا ہے کہ قرآن کریم میں مثالی طورپر ابن مریم کے آنے کا ذکر ہے اور وہ یوں ہے کہ خدائے تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ قرار دیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے 3333 ۱؂ اس آیت میں خدائے تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو موسیٰ کی طرح اور کفار کو فرعون کی طرح ٹھہرایا۔ اورپھر دوسری جگہ فرمایا333333333
الجزو نمبر ۱۸سورۃ النور ۲؂ یعنی خدائے تعالیٰ نے اس اُمّت کے مومنوں اور نیکوکاروں کے لئے وعدہ فرمایا ہے کہ انہیں زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے پہلوں کو بنایا تھا یعنی اُسی طرز اور طریق کے موافق اور نیز اُسی مدت اور زمانہ کے مشابہ اور اُسی صورت جلالی اور جمالی کی مانند جو بنی اسرائیل میں سنّت اللہ گذر چکی ہے اس اُمّت میں بھی خلیفے بنائے جائیں گے اور اُن کا سِلسلہ خلافت اس سلسلے سے کم نہیں ہو گا۔ جو بنی اسرائیل کے خلفاء کے لئے مقرر کیا گیا تھا اور نہ ان کی طرز خلافت اس طرز سے مبائن و مخالف ہوگی جو بنی اسرائیل کے خلیفوں کے لئے مقرر کی گئی تھی۔پھر آگے فرمایا ہے کہ ان خلیفوں کے ذریعے سے زمین پر دین
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 461
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 461
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/461/mode/1up
جما دیا جائے گا اور خداخوف کے دنوں کے بعد امن کے دن لائے گا۔ خالصًا اُسی کی بندگی کریں گے اور کوئی اس کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ لیکن اس زمانہ کے بعد پھرکفر پھیل جائے گا۔ مماثلت تامہ کا اشارہ جو کما استخلف الذین من قبلہم سے سمجھاجاتا ہے۔ صاف دلالت کررہا ہے کہ یہ مماثلت مدت ایام خلافت اور خلیفوں کی طرز اصلاح اورؔ طرزِ ظہور سے متعلق ہے۔سو چونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل میں خلیفۃ اللہ ہونیکا منصب حضرت موسیٰ سے شروع ہوا اور ایک مدت دراز تک نوبت بہ نوبت انبیاء بنی اسرائیل میں رہ کر آخر چودہ (سو) برس کے پورے ہوتے تک حضرت عیسیٰ ابن مریم پر یہ سلسلہ ختم ہوا حضرت عیسیٰ ابن مریم ایسے خلیفۃ اللہ تھے کہ ظاہری عنان حکومت اُن کے ہاتھ میں نہیں آئی تھی اور سیاست ملکی اور اس دنیو ی بادشاہی سے ان کو کچھ علاقہ نہیں تھا اور دنیا کے ہتھیاروں سے وہ کچھ کام نہیں لیتے تھے بلکہ اس ہتھیار سے کام لیتے تھے جو اُن کے انفاس طیّبہ میں تھا۔ یعنی اس موجّہ بیان سے جو اُن کی زبان پرجاری کیا گیا تھا جس کے ساتھ بہت سی برکتیں تھیں اور جس کے ذریعہ سے وہ مرے ہوئے دلوں کو زندہ کرتے تھے اور بہرے کانوں کو کھولتے تھے اور مادر زاد اندھوں کو سچائی کی روشنی دکھا دیتے تھے اُن کا وہ دم ازلی کافر کو مارتا تھا اور اُس پر پوری حجت کرتا تھا لیکن مومن کو زندگی بخشتا تھا۔ وہ بغیر باپ کے پیدا کئے گئے تھے اور ظاہری اسباب اُن کے پاس نہیں تھے اور ہر باتؔ میں خدائے تعالیٰ اُن کا متولّی تھا۔ وہ اُس وقت آئے تھے کہ جبکہ یہودیوں نے نہ صرف دین کو بلکہ انسانیت کی خصلتیں بھی چھوڑ دی تھیں اوربے رحمی اور خود غرضی اور کینہ اور بُغض اور ظلم اور حسداور بے جا جوش نفس امّارہ کے اُن میں ترقی کر گئے تھے۔ اور نہ صرف بنی نوع کے حقوق کو انہوں نے چھوڑ دیا تھا بلکہ غلبہ شقاوت کی وجہ سے حضرت محسنِ حقیقی سے عبودیت اور اطاعت اور سچے اخلاص کا رشتہ بھی توڑ بیٹھے تھے۔ صرف بے مغز استخوان کی طرح توریت کے چند الفاظ اُن کے پاس تھے جو قہر الٰہی کی وجہ سے ان کی حقیقت تک وہ نہیں پہنچ سکتے تھے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 462
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 462
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/462/mode/1up
کیونکہ ایمانی فراست اور زیرکی بالکل اُن میں سے اُٹھ گئی تھی اور اُن کے نفوس مظلمہ پر جہل غالب آگیا تھا اور سفلی مکاریاں اور کراہت کے کام اُن سے سرزد ہوتے تھے اورجھوٹ اور ریاکاری اور غدّاری اُن میں انتہا تک پہنچ گئی تھی۔ ایسے وقت میں اُن کی طرف مسیح ابن مریم بھیجا گیا تھا جو بنی اسرائیل کے مسیحوں اور خلیفوں میں سے آخری مسیح اور آخری خلیفۃ اللہ تھا جو برخلاف سُنّت اکثر نبیوؔ ں کے بغیر تلوار اور نیزہ کے آیا تھا۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ شریعت موسوی میں خلیفۃ اللہ کو مسیح کہتے تھے اور حضرت داؤد کے وقت اور یا اُن سے کچھ عرصہ پہلے یہ لفظ بنی اسرائیل میں شائع ہوگیا تھا۔ بہرحال اگرچہ بنی اسرائیل میں کئی مسیح آئے لیکن سب سے پیچھے آنے والا مسیح وہی ہے جس کانام قرآن کریم میں مسیح عیسیٰ ابن مریم بیان کیاگیا ہے۔ بنی اسرائیل میں مریمیں بھی کئی تھیں اور ان کے بیٹے بھی کئی تھے لیکن مسیح عیسیٰ بن مریم یعنی اِن تینوں ناموں سے ایک مرکب نام بنی اسرائیل میں اُس وقت اورکوئی نہیں پایا گیا۔ سو مسیح عیسیٰ ابن مریم یہودیوں کی اس خراب حالت میں آیا جس کا میں نے ابھی ذکرکیا ہے۔ آیات موصوفہ بالا میں ابھی ہم بیان کر چکے ہیں کہ خدائے تعالیٰ کا اس اُمّت کے لئے وعدہ تھا کہ بنی اسرائیل کی طرز پر ان میں بھی خلیفے پیدا ہوں گے۔ اب ہم جب اس طرز کو نظر کے سامنے لاتے ہیں تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ ضرور تھا کہ آخری خلیفہ اس اُمّت کا مسیح ابن مریم کی صورت مثالی پر آوے اور اس زمانہ میں آوے کہ جو اُس وقت سے مشابہ ہو جسؔ وقت میں بعد حضرت موسیٰ کے مسیح ابن مریم آئے تھے یعنی چودھویں صدی میں یا اس کے قریب اُسکا ظہور ہو اور ایسا ہی بغیر سیف وسنان کے اور بغیر آلات حرب کے آوے جیسا کہ حضرت مسیح ابن مریم آئے تھے اور نیز ایسے ہی لوگوں کی اصلاح کیلئے آوے جیسا کہ مسیح ابن مریم اُس وقت کے خراب اندرون یہودیوں کی اصلاح کے لئے آئے تھے۔ اور جب آیات ممدوحہ بالا کو غور سے دیکھتے ہیں تو ہمیں ان کے اندر سے یہ آوازسُنائی دیتی ہے کہ ضرور آخری خلیفہ اس اُمّت کا جو چودھویں صدی کے سر پر ظہور کرے گا حضرت مسیح کی صورت مثالی پر آئے گا اور بغیر آلاتِ حرب ظہور کرے گا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 463
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 463
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/463/mode/1up
دو سلسلوں کی مماثلت میں یہی قاعدہ ہے کہ اوّل اور آخر میں اشد درجہ کی مشابہت اُن میں ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک لمبے سلسلہ اور ایک طولانی مدت میں تمام درمیانی افراد کا مفصل حال معلوم کرنا طول بلا طائل ہے۔ پس جبکہ قرآن کریم نے صاف صاف بتلا دیا کہ خلافت اسلامی کا سلسلہ اپنی ترقی اور تنزّل اور اپنی جلالی اورجمالی حالت کی رو سے خلافت اسرائیلی سے بکلی مطابق و مشابہ ومماثل ہو گا اور یہ بھی بتلاد یاکہ نبی عرؔ بی امّی مثیل موسیٰ ہے تو اس ضمن میں قطعی اور یقینی طور پر بتلایا گیا کہ جیسے اسلام میں سردفتر الٰہی خلیفوں کا مثیل موسیٰ ہے جو اس سلسلہ اسلامیہ کا سپہ سالار اور بادشاہ اور تختِ عزت کے اوّل درجہ پر بیٹھنے والا اور تمام برکات کا مصدر اوراپنی روحانی اولاد کا مورث اعلیٰ ہے صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ایسا ہی اس سلسلہ کا خاتم باعتبار نسبت تامہ وہ مسیح عیسیٰ بن مریم ہے جو اس اُمّت کے لوگوں میں سے بحکم ربی مسیحی صفات سے رنگین ہوگیا ہے اور فرمان جَعَلْنَاکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ نے اُس کودرحقیقت وہی بنادیا ہے 3 ۱؂۔ اور اس آنے والے کا نام جو احمد رکھا گیا ہے وہ بھی اس کے مثیل ہونے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ محمدؐ جلالی نام ہے اور احمد جمالی۔ اور احمد اور عیسیٰ اپنے جمالی معنوں کی رُو سے ایک ہی ہیں۔ اسی کی طرف یہ اشارہ ہے
33 ۲؂۔ مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فقط احمد ہی نہیں بلکہ محمد بھی ہیںیعنی جامع جلال و جمال ہیں۔ لیکن آخری زمانہ میں برطبق پیشگوئی مجرّد احمد جو اپنے اندر حقیقت عیسویت رکھتا ہے بھیجا گیا۔ وہ ؔ حی و قیوم خدا جو اس بات پر قادر ہے جو انسان کو حیوان بلکہ شرّ الحیوانات بنا دے جیسا کہ اس نے فرمایا ہے 33 ۳؂ اور فرمایا کہ 3۴؂ کیا وہ ایک انسان کو دوسرے انسان کی صورت مثالی پر نہیں بنا سکتا۔33 ۵؂۔ پھر جب کہ انسانیت کی حقیقت پر فنا طاری ہونے کے وقت میں ایک ایسے ہی انسان کی ضرورت تھی
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 464
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 464
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/464/mode/1up
جس کا محض خدائے تعالیٰ کے ہاتھ سے تولّد ہوتا۔ جس کا آسمان پر ابن مریم نام ہے تو کیوں خدائے تعالیٰ کی قادریّت اس ابن مریم کے پیداکرنے سے مجبور رہ سکتی۔ سو اُس نے محض اپنے فضل سے بغیر وسیلہ کسی زمینی والد کے اس ابن مریم کوروحانی پیدائش اورروحانی زندگی بخشی جیسا کہ اس نے خود اس کو اپنے الہام میں فرمایا ثم احییناک بعد ما اھلکنا القرون الاولٰی و جعلناک المسیح ابن مریم۔ یعنی پھرہم نے تجھے زندہ کیا بعد اس کے جو پہلے قرنوں کو ہم نے ہلاک کردیا اور تجھے ہم نے مسیح ابن مریم بنایا یعنی بعد اس کے جو عام طور پر مشائخ اور علماء میں موت روحانی پھیل گئی۔ انجیل میں بھی اِسی کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح ستاروں کے گرنے کے بعد آئے گا۔
ابؔ ا س تحقیق سے ثابت ہے کہ مسیح ابن مریم کی آخری زمانہ میں آنے کی قرآن شریف میں پیشگوئی موجود ہے۔قرآن شریف نے جو مسیح کے نکلنے کی چودہ ۱۴۰۰سو برس تک مدّت ٹھہرائی ہے بہت سے اولیا ء بھی اپنے مکاشفات کی رُو سے اس مدت کو مانتے ہیں اور آیت 33 ۱؂ جس کے بحساب جمل ۱۲۷۴عد د ہیں۔ اسلامی چاند کی سلخ کی راتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جس میں نئے چاند کے نکلنے کی اشارت چھپی ہوئی ہے جو غلام احمد قادیانی کے عددوں میں بحساب جمل پائی جاتی ہے اور
یہ آیت کہ 33۲؂ درحقیقت اسی مسیح ابن مریم کے زمانہ سے متعلق ہے کیونکہ تمام ادیان پر روحانی غلبہ بجُز اس زمانہ کے کسی اور زمانہ میں ہرگز ممکن نہیں تھا وجہ یہ کہ یہی زمانہ ہے کہ جس میں ہزارہا قسم کے اعتراضات اور شبہات پیدا ہوگئے ہیں اور انواع اقسام کے عقلی حملے اسلام پر کئے گئے ہیں۔ اور خدائے تعالیٰ فرماتا ہے 33۳؂ یعنی ہریک چیز کے ہمارے پاس خزانے ہیں مگر بقدر معلوم اور بقدر ضرورت ہم اُن کو اُتارتے ہیں۔ سو جس قدر معارف و حقائق بطون قرآن کریم میں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 465
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 465
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/465/mode/1up
چُھپے ہوئے ہیں جو ہریک قسم کے ادیان فلسفیہ وغیر فلسفیہ کو مقہور و مغلوب کرتے ہیں اُن کے ظہور کا زمانہ یہی تھا۔ کیونکہ وہ بجُز تحریک ضرورت پیش آمدہ کے ظاہر نہیں ہو سکتے تھے سو اب مخالفانہ حملے جونئے فلسفہ کی طرف سے ہوئے تو اُن معارف کے ظاہر ہونے کا وقت آگیا اور ممکن نہیں تھا کہ بغیر اس کے کہ وہ معارف ظاہر ہوں اسلام تمام ادیان باطلہ پر فتح پا سکے کیونکہ سیفی فتح کچھ چیزنہیں اورچند روزہ اقبال کے دورہونے سے وہ فتح بھی معدوم ہوجاتی ہے۔ سچی اور حقیقی فتح وہ ہے جومعارف اورحقائق اورکامل صداقتوں کے لشکر کے ساتھ حاصل ہو۔ سووہ یہ فتح ہے جو اب اسلام کو نصیب ہو رہی ہے۔ بلاشبہ یہ پیشگوئی اسی زمانہ کے حق میں ہے اور سلف صالح بھی ایسا ہی سمجھتے آئے ہیں۔ یہ زمانہ درحقیقت ایک ایسا زمانہ ہے جو بالطبع تقاضاکررہا ہے جو قرآن شریف اپنے اُن تمام بطون کو ظاہر کرے جو اُس کے اندرمخفی چلے آتےؔ ہیں کیونکہ بطنی معارف قرآن کریم کے جن کا وجود احادیث صحیحہ اور آیات بیّنہ سے ثابت ہے فضول طور پر کبھی ظہور نہیں کرتے بلکہ یہ معجزہ فرقانی ایسے ہی وقت میں اپنا جلوہ دکھاتا ہے جبکہ اس روحانی معجزہ کے ظہور کی اشد ضرورت پیش آتی ہے۔ سو اس زمانہ میں کامل طور پر یہ ضرورتیں پیش آگئی ہیں۔ انسانوں نے مخالفانہ علوم میں بہت ترقی کرلی ہے اور کچھ شک نہیں کہ اگر اس نازک وقت میں بطنی علوم قرآن کریم کے ظاہر نہ ہوں گے تو موٹی تعلیم جس پر حال کے علماء قائم ہیں کبھی اورکسی صورت میں مقابلہ مخالفین کا نہیں کر سکتے اور ان کو مغلوب کرنا تو کیا خود مغلوب ہوجانے کے قوی خطرہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ بات ہریک فہیم کوجلدی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اللہ جلَّ شَانُہٗ کی کوئی مصنوع دقائق وغرائب خواص سے خالی نہیں۔ اور اگر ایک مکھی کے خواص اور عجائبات کی قیامت تک تفتیش و تحقیقات کرتے جائیں تو بھی کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ تو اب سوچنا چاہیئے کہ کیا خواص و عجائبات قرآ ن کریم کے اپنے قدر واندازہ میں مکھی جتنے بھی نہیں۔ بلا شبہ وہ عجائبات تمام مخلوقات کے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 466
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 466
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/466/mode/1up
مجموعی عجائبات سے بہت بڑھ کر ہیں اوراُن کا انکار درحقیقت قرآن کریم کے منجانب اللہ ہونے کا انکار ہے کیونکہ دنیا میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں کہ جوخدائے تعالیٰ کی طرف سے صادر ہو اور اُس میں بے انتہاء عجائبات نہ پائے جائیں۔ اب یہ عذر کہ اگر ہم قرآن کریم کے ایسے دقائق ومعارف بھی مان لیں جو پہلوں نے دریافت نہیں کئے تو اس میں اجماع کی کسر شان ہے۔ گویا ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ جو پہلے اماموں کو معلوم نہیں ہوا تھا وہ ہم نے معلوم کرلیا۔ یہ خیال ان مُلّا لوگوں کا بالکل فاسد ہے۔ اُن کو سوچنا چاہیئے کہ جبکہ یہ ممکن ہے کہ بعض نباتات وغیرہ میں زمانۂ حال میں کوئی ایسی خاصیت ثابت ہو جائے جو پہلوں پر نہیں کھلی تو کیا یہ ممکن نہیں کہ قرآن کریم کے بعض عجیب حقائق و معارف اب ایسے کھل جائیں جو پہلوں پر کھل نہیں سکے کیونکہ اس وقت اُن کے کھلنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ ہاں ایمان اورعقائد کے متعلق جو ضروری پاتے ہیں جو شریعت سے علاقہ رکھتے ہیں جو مسلمان بننے کے لئے ضروری ہیں۔ وہ تو ہر یک کی اطلاع کے لئے کھلے کھلے بیان کے ساتھ قرآن شریف میں درج ہیں لیکن وہ نکات و حقائق جوؔ معرفت کو زیادہ کرتے ہیں وہ ہمیشہ حسب ضرورت کھلتے رہتے ہیں اور نئے نئے فسادوں کے وقت نئے نئے پُر حکمت معانی بمنصۂ ظہور آتے رہتے ہیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ قرآن کریم بذات خود معجزہ ہے اور بڑی بھاری وجہ اعجاز کی اس میں یہ ہے کہ وہ جامع حقائق غیر متناہیہ ہے۔ مگر بغیر وقت کے وہ ظاہر نہیں ہوتے۔ جیسے جیسے وقت کے مشکلات تقاضہ کرتی ہیں وہ معارف خفیہ ظاہر ہوتے جاتے ہیں۔ دیکھو دنیوی علوم جو اکثر مخالف قرآن کریم اور غفلت میں ڈالنے والے ہیں۔ کیسے آج کل ایک زور سے ترقی کر رہے ہیں اورزمانہ اپنے علوم ریاضی اور طبعی اور فلسفہ کی تحقیقاتوں میں کیسی ایک عجیب طور کی تبدیلیاں دکھلا رہا ہے۔ کیا ایسے نازک وقت میں ضرور نہ تھاکہ ایمانی اور عرفانی ترقیات کے لئے بھی دروازہ کھولا جاتا۔ تا شرور محدثہ کی مدافعت کے لئے آسانی پیداہوجاتی۔ سو یقینًا سمجھوکہ وہ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 467
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 467
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/467/mode/1up
دروازہ کھولا گیا ہے اور خدائے تعالیٰ نے ارادہ کرلیاہے کہ تا قرآن کریم کے عجائبات مخفیہ اس دنیا کے متکبّر فلسفیوں پر ظاہرکرے۔ اب نیم مُلّاں دشمن اسلام اس ارادہ کو روک نہیں سکتے۔ اگر اپنی شرارتوؔ ں سے باز نہیں آئیں گے تو ہلاک کئے جائیں گے اور قہری طمانچہ حضرت قہارکا ایسا لگے گا کہ خاک میں مل جائیں گے۔ اِن نادانوں کو حالت موجودہ پر بالکل نظر نہیں۔ چاہتے ہیں کہ قرآن کریم مغلوب اور کمزور اور ضعیف اور حقیر سا نظر آوے لیکن اب وہ ایک جنگی بہادر کی طرح نکلے گا۔ ہاں وہ ایک شیر کی طرح میدان میں آئے گا اور دنیا کے تمام فلسفہ کو کھاجائے گا اور اپنا غلبہ دکھائے گا اور لِیُظْہِرَہ‘ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ کی پیشگوئی کو پوری کر دے گا اور پیشگوئی وَلِیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمْ کو روحانی طور سے کمال تک پہنچائے گا۔ کیونکہ دین کا زمین پر بوجہ کمال قائم ہوجانا محض جبر اوراکراہ سے ممکن نہیں۔ دین اُس وقت زمین پر قائم ہوتا ہے کہ جب اس کے مقابل پر کوئی دین کھڑانہ رہے اور تمام مخالف سِپر ڈال دیں۔ سو اب وہی وقت آگیا۔ اب وہ وقت نادان مولویوں کے روکنے سے رک نہیں سکتا۔ اب وہ ابن مریم جسکا روحانی باپ زمین پر بجُز معلّم حقیقی کے کوئی نہیں جو اس وجہ سے آدم سے بھی مشابہت رکھتا ہے بہت سا خزانہ قرآن کریم کا لوگوں میں تقسیم کرے گا یہاں تک کہؔ لوگ قبُول کرتے کرتے تھک جائیں گے اور لا یقبلہ احد کا مصداق بن جائیں گے اور ہر یک طبیعت اپنے ظرف کے مطابق پُر ہوجائے گی۔ وہ خلافت جو آدم سے شروع ہوئی تھی خدائے تعالیٰ کی کامل اور بے تغیر حکمت نے آخر کار آدم پر ہی ختم کردی یہی حکمت اس الہام میں ہے کہ اردت ان استخلف فخلقت اٰدم یعنی میں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ بناؤں سو میں نے آدم کوپیدا کردیا۔ چونکہ استدارت زمانہ کایہی وقت ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ اس پر ناطق ہیں اس لئے خدائے تعالیٰ نے آخر اور اوّل کے لفظ کو ایک ہی کرنے کے لئے آخری خلیفے کانام آدم رکھا اور آدم اور عیسیٰ میں کسی وجہ سے روحانی مبائنت نہیں بلکہ مشابہت ہے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 468
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 468
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/468/mode/1up
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ خدائے تعالیٰ نے اگرچہ ایک طرز جدید سے قرآن کریم میں صاف طور پر بیان کر دیا کہ آخری خلیفہ اسلام کے الٰہی خلیفوں کا روحانی طور پر ایسے خلیفہ کا روپ اور رنگ لے کر آئے گا جو اسرائیلی خلیفوں میں سے آخری خلیفہ تھاؔ یعنی مسیح ابن مریم لیکن کیاوجہ کہ خدائے تعالیٰ نے اس پیشگوئی میں مسیح ابن مریم کا بصراحت نام لیا۔ گو مطلب وہی نکل آیا ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ تا لوگ غلط فہمی سے بلا میں نہ پڑجائیں۔کیونکہ اگر خدائے تعالیٰ صاف طور پر نام لے کر بیان کر دیتا کہ اس اُمّت کا آخری خلیفہ یہی مسیح ابن مریم ہی ہو گا تو نادان مولویوں کے لئے بلا پر بلاپیداہوجاتی اور غلط فہمی کی آفت ترقی کرجاتی۔سوخدائے تعالیٰ نے اپنے بیان میں دومسلک اختیار کرنا پسند رکھا۔ ایک وہ مسلک جوحدیثوں میں ہے جس میں ابن مریم کا لفظ موجود ہے۔ اور دوسر ا وہ مسلک جو قرآن کریم میں ہے جس کا ابھی بیان ہوچکا ہے۔ اب ثبوت اِس بات کا کہ وہ مسیح موعود جس کے آنے کا قرآن کریم میں وعدہ دیا گیا ہے یہ عاجز ہی ہے۔ اِن تمام دلائل اور علامات اور قرائن سے جوذیل میں لکھتا ہوں ہریک طالب حق پر بخوبی کھل جائے گا۔
از انجملہ ایک یہ ہے کہ یہ عاجز ایسے وقت میں آیا ہے جس وقت میں مسیح موعود آنا چاہیئے تھا کیونکہ حدیث الآیات بعد المأتین جس کےؔ یہ معنے ہیں کہ آیات کبریٰ تیرھویں صدی میں ظہورپذیر ہوں گی اسی پر قطعی اوریقینی دلالت کرتی ہے کہ مسیح موعود کا تیرھویں صدی میں ظہور یا پیدائش واقع ہو۔ بات یہ ہے کہ آیات صغریٰ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت مبارک سے ہی ظاہر ہونی شروع ہوگئی تھیں۔ پس بلاشبہ الآیات سے آیات کبریٰ مرادہیں جوکسی طرح سے دوسو برس کے اندرظاہر نہیں ہو سکتی تھیں لہذا علماء کا اسی پر اتفاق ہوگیا ہے کہ بعد المأتین سے مراد تیرھویں صدی ہے اور الآیات سے مراد آیات کبریٰ ہیں جو ظہور مسیح موعو د اور دجّال اور یاجوج ماجوج وغیرہ ہیں اور ہریک شخص
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 469
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 469
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/469/mode/1up
سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت جو ظہور مسیح موعود کاوقت ہے کسی نے بجز اس عاجزکے دعوےٰ نہیں کیا کہ میں مسیح موعودہوں بلکہ اس مدّت تیرہ سو برس میں کبھی کسی مسلمان کی طرف سے ایسا دعویٰ نہیں ہوا کہ میں مسیح موعودہوں۔ ہاں عیسائیوں نے مختلف زمانوں میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور کچھ تھوڑا عرصہ ہوا ہے کہ ایک عیسائی نے امریکہ میں بھی مسیح ابن مریم ہونے کادم مارا تھا۔ لیکن ان مشرک عیسائیوں کے دعویٰؔ کو کسی نے قبول نہیں کیا۔ہاں ضرورتھا کہ وہ ایسا دعویٰ کرتے تاانجیل کی وہ پیشگوئی پوری ہو جاتی کہ بہتیرے میرے نام پر آئیں گے اور کہیں گے کہ میں مسیح ہوں۔ پر سچا مسیح ان سب کے آخر میں آئے گا اور مسیح نے اپنے حواریوں کو نصیحت کی تھی کہ تم نے آخر کامنتظر رہنا ، میرے آنے کا۔ یعنی میرے نام پر جو آئے گا اس کا نشان یہ ہے کہ اُس وقت سورج اور چاند تاریک ہوجائے گا۔ اور ستارے زمین پر گر جائیں گے اور آسمان کی قوتیں سُست ہوجائیں گی۔ تب تم آسمان پر ابن آدم کانشان دیکھو گے۔ یہ تمام اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ اس وقت نور علم کا اُٹھ جائے گا اور ربّانی علماء فوت ہوجائیں گے اور جہالت کی تاریکی پھیل جائے گی۔ تب ابن مریم آسمانی حکم سے ظاہر ہوگا۔ یہی اشارہ سورۃ الزلزال میں ہے کہ اُس وقت زمین پر سخت زلزلہ آئے گا اور زمین اپنے تمام خزائن اور دفائن باہر نکال دے گی یعنی علوم ارضیہ کی خوب ترقی ہوگی مگر آسمانی علوم کی نہیں 33 ۱؂ ۔
از انجملہ ایک یہ ہے کہ مکاشفات اکابر اولیاء بالاتفاق اسؔ بات پر شاہد ہیں کہ مسیح موعودکا ظہور چودھویں صدی سے پہلے یا چودھویں صدی کے سر پر ہو گا اور اس سے تجاوز نہیں کرے گا چنانچہ ہم نمونہ کے طور پر کسی قدراس رسالہ میں لکھ بھی آئے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اس وقت میں بجُز اس عاجز کے اور کوئی شخص دعوے دا ر اس منصب کا نہیں ہوا۔
از انجملہ ایک یہ ہے کہ مدت ہوئی کہ گروہ دجّال ظاہرہوگیاہے اور بڑے زور سے اس کا ظہور ہورہا ہے اور اس کا گدھا بھی جودرحقیقت اُسی کا بنایا ہوا ہے جیسا کہ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 470
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 470
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/470/mode/1up
احادیث صحیحہ کامنشاء ہے مشرق ومغرب کا سیر کر رہا ہے اور وہ گدھا دجّال کا بنایا ہوا ہوتاجو حدیث کے منشاء کے موافق ہے اس دلیل سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر ایسا گدھا معمولی طور پر کسی گدھی کے شکم سے پیدا ہوتا تو اس قسم کے بہت سے گدھے اب بھی موجود ہونے چاہیئے تھے کیونکہ بچے کی مشابہت قد وقامت اور سیر وسیاحت اور قوت وطاقت میں اس کے والدین سے ضرور ی ہے۔ لہٰذا احادیث صحیحہ کا اشارہ اسی بات کی طرف ہے کہ وہ گدھا دجّال کا اپنا ہی بنایاہو اہو گا پھر اگر وہ ریل نہیں تو اَور کیا ہے۔ ایسا ہی یاجوؔ ج ماجوج کی قومیں بھی بڑے زور سے خروج کررہی ہیں۔ دابۃ الارض بھی جابجا نظر آتا ہے۔ ایک تاریک دُخان نے بھی آسمان سے نازل ہو کر دنیا کو ڈھانک لیا ہے۔ پھر اگر ایسے وقت میں مسیح ظاہر نہ ہوتا توپیشگوئی میں کذب لازم آتا سو مسیح موعود جس نے اپنے تئیں ظاہر کیا وہ یہی عاجز ہے۔
اگر یہ شبہ پیش کیاجائے کہ دجّال کی علامتیں کامل طور پر ان انگریزپادریوں کے فرقوں میں کہاں پائی جاتی ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کامل طور پر اسی رسالہ میں ثابت کر آئے ہیں کہ درحقیقت یہی لوگ دجّال معہود ہیں۔ اوراگر غور سے دیکھاجائے تو تمام علامات ان پر صادق آرہی ہیں۔ اور ان لوگوں نے بباعث اپنی صنعتوں اور تدبیرو ں اور حکیمانہ ید طولیٰ اور وسعت مالی کے ہر یک چیز گویا اپنے قابو میں کر رکھی ہے۔ اور یہ علامت کہ دجّال صرف چالیس دن رہے گا اور بعض دن برس کی طرح ہو ں گے یہ حقیقت پر محمول نہیں ہو سکتی کیونکہ بعض حدیثوں میں بجائے چالیس دن کے چالیس سال بلکہ پینتالیس برس بھی آیا ہے پھر اگر بعض دن برس کے برابرؔ ہوں گے تو اس سے لازم آتا ہے کہ مسیح ابن مریم فوت بھی ہوجائے اوردجّال ہنوز باقی رہے۔ لہٰذا اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ سب الفاظ قابل تاویل ہیں دجّال کے فوت ہونے سے مراد اس قوم کا استیصال نہیں بلکہ اس مذہب کے دلائل اور حجج کا استیصال ہے۔ا ور کچھ شک نہیں کہ جومذہب دلائل یقینیہ کے رو سے بکلّی مغلوب ہوجائے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 471
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 471
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/471/mode/1up
اور اس کی ذلّت اور رسوائی ظاہر ہو جائے وہ بلا شبہ میّت کے ہی حکم میں ہوتا ہے۔
بعض یہ شبہ بھی پیش کرتے ہیں کہ ایک سوال کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ جب دجّال کے زمانہ میں دن لمبے ہوجائیں گے یعنی برس کی مانند یا اس سے کم تو تم نے نمازوں کا اندازہ کر لیاکرنا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلعم کو انہیں ظاہری معنوں پر یقین تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ صرف فرضی طورپر ایک سوال کا جواب حسب منشاء سائل دیا گیا تھا اور اصلی واقعہ کا بیان کرنا مدعا نہ تھا بلکہ آپ نے صاف صاف فرما دیا تھا کہ سائر ایّامہ کایّامکم۔ ماسو ا اس کے یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ایسے امور میں جو عملی طور پر سکھلائے نہیں جاتے اورؔ نہ اُن کی جزئیات مخفیہ سمجھائی جاتی ہیں۔انبیاء سے بھی اجتہاد کے وقت امکانِ سہو وخطا ہے۔ مثلًا اس خواب کی بناء پر جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے جو بعض مومنوں کے لئے موجب ابتلاء کا ہوئی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ سے مکّہ معظمہ کا قصد کیا اور کئی دن تک منزل درمنزل طے کر کے اس بلدہ مبارکہ تک پہنچے مگر کفار نے طواف خانہ کعبہ سے روک دیا اور اُس وقت اس رؤیا کی تعبیر ظہور میں نہ آئی۔ لیکن کچھ شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی امید پر یہ سفر کیا تھا کہ اب کے سفر میں ہی طواف میسّر آجائے گا اوربلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب وحی میں داخل ہے لیکن اس وحی کے اصل معنے سمجھنے میں جو غلطی ہوئی اس پر متنبّہ نہیں کیا گیا تھا تبھی تو خداجانے کئی روز تک مصائب سفر اُٹھا کرمکہ معظمہ میں پہنچے۔ اگر راہ میں متنبّہ کیاجاتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ضرور مدینہ منورہ میں واپس آجاتے پھرجب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے آپ کے روبرو ہاتھ ناپنے شروع کئے تھے تو آپ کو اس غلطی پر متنبّہ نہیں کیا گیا یہاؔ ں تک کہ آپ فوت ہوگئے اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی یہی رائے تھی کہ درحقیقت جس بیوی کے لمبے ہاتھ ہیں وہی سب سے پہلے فوت ہوگی۔ اِسی وجہ سے باوجودیکہ آپ کے رُوبرو باہم ہاتھ ناپے گئے مگر آپ نے منع نہ فرمایا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 472
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 472
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/472/mode/1up
کہ یہ حرکت تو خلاف منشاء پیشگوئی ہے۔ اِسی طرح ابن صیّاد کی نسبت صاف طورپر وحی نہیں کھلی تھی اور آنحضرت کا اوّل اوّل یہی خیال تھا کہ ابن صیّاد ہی دجّال ہے۔ مگر آخر میں یہ رائے بدل گئی تھی۔ ایسا ہی سورۂ روم کی پیشگوئی کے متعلق جو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شرط لگائی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرمایا کہ بضع کا لفظ لغت عرب میں نو برس تک اطلاق پاتا ہے اور میں بخوبی مطلع نہیں کیا گیا کہ نوبرس کی حد کے اندر کس سال یہ پیشگوئی پوری ہوگی۔ایسا ہی وہ حدیث جس کے یہ الفاظ ہیں فذھب وھلی الٰی انھا الیمامۃ او الھجر فاذا ھی المدینۃ یثرب۔ صاف صاف ظاہرکر رہی ہے کہ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے پیشگوئی کا محل ومصداق سمجھا تھا وہ غلط نکلا۔ اور حضرت مسیحؔ کی پیشگوئیوں کا سب سے عجب ترحال ہے۔ بارہا انہوں نے کسی پیشگوئی کے معنے کچھ سمجھے اور آخر کچھ اور ہی ظہور میں آیا۔ یہودا اسکریوطی کو ایک پیشگوئی میں بہشت کابارھواں تخت دیا لیکن وہ بکلّی بہشت سے محروم رہا۔ اور پطرس کو کبھی بہشت کی کنجیاں دیں اورکبھی اُس کو شیطان بنایا۔ اسی طرح انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کا مکاشفہ کچھ بہت صاف نہیں تھا اور کئی پیشگوئیاں ان کی بسبب غلط فہمی کے پوری نہیں ہو سکیں مگر اپنے اصلی معنوں پر پوری ہوگئیں۔ بہر حال ان تمام باتوں سے یقینی طورپر یہ اصول قائم ہوتاہے کہ پیشگوئیوں کی تاویل اور تعبیر میں انبیاء علیہم السلام کبھی غلطی بھی کھاتے ہیں۔ جس قدر الفاظ وحی کے ہوتے ہیں وہ تو بلاشبہ اول درجہ کے سچے ہوتے ہیں مگر نبیوں کی عادت ہوتی ہے کہ کبھی اجتہادی طورپر بھی اپنی طرف سے اُن کی کسی قدر تفصیل کرتے ہیں۔ اور چونکہ وہ انسان ہیں اس لئے تفسیر میں کبھی احتمال خطاکا ہوتا ہے۔لیکن امور دینیہ ایمانیہ میں اس خطا کی گنجائش نہیں ہوتی۔ کیونکہ ان کی تبلیغ میں منجانب اللہ بڑا اہتمام ہوتا ہے اور وہ نبیوں کو عملیؔ طورپربھی سکھلائی جاتی ہیں چنانچہ ہماے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہشت اوردوزخ بھی دکھایا گیا اور آیات متواترہ مُحکمہ بیّنہ سے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 473
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 473
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/473/mode/1up
جنت اور نارکی حقیقت بھی ظاہر کی گئی ہے پھر کیوں کر ممکن تھا کہ اس کی تفسیر میں غلطی کر سکتے غلطی کا احتمال صرف ایسی پیشگوئیوں میں ہوتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ خود اپنی کسی مصلحت کی وجہ سے مبہم اور مجمل رکھناچاہتا ہے اورمسائل دینیہ سے اُن کاکچھ علاقہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک نہایت دقیق راز ہے جس کے یادرکھنے سے معرفت صحیحہ مرتبہ نبوت کی حاصل ہوتی ہے اور اسی بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ابن مریم اور دجّال کی حقیقت کاملہ بوجہ نہ موجود ہونے کسی نمونہ کے موبمومنکشف نہ ہوئی ہو اور نہ دجّال کے ستّر باع کے گدھے کی اصل کیفیت کھلی ہو اور نہ یاجوج ماجوج کی عمیق تہ تک وحی الٰہی نے اطلاع دی ہو اور نہ دابۃ الارض کی ماہیت کَمَا ہِیَ ظاہر فرمائی گئی اور صرف امثلہ قریبہ اور صور متشابہ اور امور متشاکلہ کے طرز بیان میں جہاں تک غیب محض کی تفہیم بذریعہ انسانی قویٰ کے ممکن ہے اجمالی طورپر سمجھایا گیا ہو تو کچھ تعجب کی بات نہیںؔ اور ایسے امور میں اگر وقت ظہورکچھ جزئیات غیر معلومہ ظاہر ہوجائیں تو شان نبوت پر کچھ جائے حرف نہیں۔ مگر قرآن اور حدیث پر غور کرنے سے یہ بخوبی ثابت ہوگیا ہے کہ ہماے سیّد ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تو یقینی اور قطعی طور پر سمجھ لیا تھا کہ وہ ابن مریم جورسول اللہ نبی ناصری صاحب انجیل ہے وہ ہرگز دوبار ہ دنیامیں نہیں آئے گا۔ بلکہ اس کا کوئی سمّی آئے گا جو بوجہ مماثلت روحانی اس کے نام کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے پائے گا۔
اور منجملہ اُن علامات کے جو اس عاجز کے مسیح موعود ہونے کے بارہ میں پائی جاتی ہیں وہ خدمات خاصہ ہیں جو اس عاجز کومسیح ابن مریم کی خدمات کے رنگ پر سپرد کی گئی ہیں۔ کیونکہ مسیح اُس وقت یہودیوں میں آیاتھا کہ جب توریت کا مغز اور بطن یہودیوں کے دلوں پر سے اُٹھایا گیا تھا اور وہ زمانہ حضرت موسیٰ سے چوداں ۱۴۰۰سو برس بعد تھا کہ جب مسیح ابن مریم یہودیوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا تھا۔ پس ایسے ہی زمانہ میں یہ عاجز آیا کہ جب قرآن کریم کا مغز اور
بطن مسلمانوں کے دلوں پر سے اٹھایا گیا اور یہ زمانہ بھی حضرت مثیل موسیٰ کے وقت ؔ سے اُسی زمانہ کے قریب قریب گذر چکا تھاجو حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کے درمیان میں زمانہ تھا۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 474
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 474
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/474/mode/1up
ازانجملہ ایک یہ کہ ضرور تھا کہ آنے والا ابن مریم الف ششم کے آخر میں پیدا ہوتا۔ کیونکہ ظلمت عامہ اور تامہ کے عام طور پر پھیلنے کی وجہ سے او ر حقیقت انسانیہ پر ایک فنا طاری ہونے کے باعث سے وہ روحانی طورپر ابو البشر یعنی آدم کی صورت پر پیدا ہونے والاہے اور بڑے علامات اور نشان اُس کے وقت ظہور کے انجیل اورفرقان میں یہ لکھے ہیں کہ اس سے پہلے روحانی طورپر عالمِ کون میں ایک فساد پیدا ہوجائے گا۔ آسمانی نورکی جگہ دُخان لے لے گا اور ایک عالم پر دخان کی تاریکی طاری ہوجائے گی۔ ستارے گرجائیں گے زمین پر ایک سخت زلزلہ آجائے گا۔ مرد جو حقیقت کے طالب ہوتے ہیں تھوڑے رہ جائیں گے۔ اوردنیا میں کثرت سے عورتیں پھیل جائیں گی یعنی سفلی لذّات کے طالب بہت ہوجائیں گے جوسفلی خزائن اور دفائن کو زمین سے باہر نکالیں گے مگر آسمانی خزائن سے بے بہرہ ہوجائیں گے تب وہ آدم جس کا دوسرا نام ابن مریم بھی ہے بغیر وسیلہ ہاتھوں کے پیداکیاجائے گا اسی کی طرف وہ الہام اشارہ کررہا ہے جو براہین میںؔ درج ہوچکاہے اوروہ یہ ہے اردت ان استخلف فخلقت اٰدم یعنی میں نے ارادہ کیا جو اپنا خلیفہ بناؤں سو میں نے آدم کوپیدا کیا۔ آدم اور ابن مریم درحقیقت ایک ہی مفہوم پر مشتمل ہے۔ صرف اسقدرفرق ہے کہ آدم کالفظ قحط الرجال کے زمانہ پر ایک دلالت تامہ رکھتاہے اور ابن مریم کالفظ دلالت ناقصہ۔مگر دونوں لفظوں کے استعمال سے حضرت باری کا مدعا اور مراد ایک ہی ہے۔ اسی کی طرف اس الہام کا بھی اشارہ ہے جو براہین میں درج ہے اور وہ یہ ہے ان السّمٰوات والارض کانتا رتقا ففتقناھما۔ کنت کنزًا مخفیا فاحببت ان اعرف۔ یعنی زمین و آسمان بند تھے اور حقائق ومعارف پوشیدہ ہوگئے تھے سو ہم نے اُن کو اس شخص کے بھیجنے سے کھول دیا۔ میں ایک چھپاہوا خزانہ تھا سو میں نے چاہا کہ شناخت کیا جاؤں۔
اب جبکہ اس تمام تقریر سے ظاہر ہوا کہ ضرور ہے کہ آخر الخلفاء آدم کے نام پر آتا۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 475
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 475
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/475/mode/1up
اور ظاہر ہے کہ آدم کے ظہور کا وقت روز ششم قریب عصر ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ اور توریت سے بھی ثابتؔ ہوتا ہے۔ اس لئے ہریک منصف کو مانناپڑے گا کہ وہ آدم اور ابن مریم یہی عاجز ہے۔ کیونکہ اوّل تو ایسا دعوےٰ اس عاجز سے پہلے کبھی کسی نے نہیں کیا اور اس عاجز کا یہ دعویٰ دس برس سے شائع ہورہا ہے او ر براہین احمدیہ میں مدّت سے یہ الہام چھپ چکاہے کہ خدائے تعالیٰ نے اس عاجز کی نسبت فرمایا ہے کہ یہ آدم ہے اور یہ خدائے تعالیٰ کی ایک باریک اور کامل حکمت ہے کہ اس طوفان نزاع کے وقت سے دس برس پہلے ہی اُس نے اس عاجز کا نام آدم اور عیسیٰ رکھ دیا تا غور کرنے والوں کے لئے نشان ہو اور تا اُس تکلّف اور تاویل کا خیال دور ہوجاوے جو خام طبع لوگوں کے دلوں میں بسا ہوا ہے۔ سو اس حکیم مطلق نے اس عاجز کا نام آدم اور خلیفۃ اللہ رکھ کر اور انّی جاعل فی الارض خلیفہ کی کھلے کھلے طور پر براہین احمدیہ میں بشارت دے کرلوگوں کو توجہ دلائی کہ تا اِس خلیفۃ اللہ آدم کی اطاعت کریں اور اطاعت کرنے والی جماعت سے باہر نہ رہیں اور ابلیس کی طرح ٹھوکر نہ کھاویں اور من شَذَّ شُذّ فی النّار کی تہدید سے بچیں اور اپنے الہاموں کی حقیقت کو سمجھیں لیکن انہوں نے کورانہ لکیر کا نام جماعت ؔ رکھا اور حقیقی جماعت جو بنظر ظاہر بیناں ایک فۂ قلیلہ اور قلیلاً ما ہم میں داخل ہے اس سے مُنہ پھیر لیا اور اس عاجز کو جوخدائے تعالیٰ نے آدم مقرر کر کے بھیجا اس کا یہ نشان رکھا کہ الف ششم میں جو قائم مقام روز ششم ہے یعنی آخری حصّہ الف میں جو وقت عصر سے مشابہ ہے اس عاجز کو پیدا کیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے 33 ۱؂۔ اور ضرور تھا کہ وہ ابن مریم جس کا انجیل اور فرقان میں آدم بھی نام رکھا گیا ہے وہ آدم کی طرز پر الف ششم کے آخر میں ظہور کرتا۔ سو آدم اوّل کی پیدائش سے الف ششم میں ظاہر ہونے والا یہی عاجز ہے۔ بہت سی حدیثوں سے ثابت ہوگیا ہے کہ بنی آدم کی عمر سات ہزار برس ہے اور آخری آدم پہلے آدم کی طرز ظہور پر الف ششم کے آخر میں جوروز ششم کے حکم میں ہے پیداہونے والا ہے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 476
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 476
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/476/mode/1up
سو وہ یہی ہے جو پیدا ہوگیا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذٰلک۔
از انجملہ ایک یہ ہے کہ مسیح کے نزول کی علامت یہ لکھی ہے کہ دو فرشتوں کے پروں پر اس نے اپنی ہتھیلیاں رکھی ہوئی ہوں گی۔ یہ اؔ س بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کا دایاں اور بایاں ہاتھ جو تحصیل علوم عقلی اور انوار باطنی کا ذریعہ ہے آسمانی موکلوں کے سہارے پر ہوگا اور وہ مکتب اور کتابوں اور مشائخ سے نہیں بلکہ خدائے تعالیٰ سے علم لدنّی پائے گا اور اس کی ضروریات زندگی کا بھی خدا ہی متولّی اور متکفّل ہوگا۔جیسا کہ عرصہ دس سال سے براہین احمدیہ میں اس عاجز کی نسبت یہ الہام چھپ چکا ہے کہ انک باعیننا سمّیتک المتوکل وعلمنٰہُ من لدنا علمًا یعنی تُو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ہم نے تیرا نام متوکّل رکھا اور اپنی طرف سے علم سکھلایا۔ یا درہے کہ اجنحہ سے مراد جو حدیث میں ہے صفات اور قویٰ ملکیہ ہیں جیسا کہ صاحب لمعات شارح مشکٰوۃ نے حدیث مندرجہ ذیل کی شرح میں یہی معنے لکھے ہیں۔ عن زید ابن ثابت قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم طوبیٰ للشام قلنا لای ذٰلک یارسو ل اللّٰہ قال لان ملائکۃ الرحمٰن باسطۃ اجنحتھا علیھا رواہ احمد والترمذی۔ یہ بات بہت سی حدیثوں اور قرآن کریم سے ثابت ہے کہ جوشخص کاملؔ انقطاع اور کامل توکل کا مرتبہ پیدا کرلیتا ہے تو فرشتے اس کے خادم کئے جاتے ہیں اور ہر یک فرشتہ اپنے منصب کے موافق اس کی خدمت کرتا ہے وقال اللّٰہ تعالٰی: 333333 ۱؂ ایسا ہی خدائے تعالیٰ فرماتاہے 33۲؂ یعنی اُٹھایا ہم نے اُن کو جنگلوں میں اور دریاؤں میں۔ اب کیا اس کے یہ معنے کرنے چاہئیں کہ حقیقت میں خدائے تعالیٰ اپنی گود میں لے کر اُٹھائے پھرا۔ سو اسی طرح ملائک کے پروں پر ہاتھ رکھنا حقیقت پر محمول نہیں۔
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ عاجز ایسی علامت متذکرہ بالا کے ساتھ آیا ہے اور اجنحہ ملائکہ پر اس عاجز کے دونوں ہاتھ ہیں اور غیبی قوتوں کے سہارے سے علوم لدنّی کھل رہے ہیں۔اگر کوئی
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 477
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 477
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/477/mode/1up
شخص نابینا نہیں تو صریح اس علامت سے دیکھ لے گا اور دوسرے میں اس کی نظیر نہیں پائیگا۔
ازانجملہ ایک یہ ہے کہ مسیح کی علامت یہ لکھی ہے کہ اسؔ کے دم سے کافر مرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے مخالف اور منکر کسی بات میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے کیونکہ اس کے دلائل کاملہ کے سامنے مرجائیں گے۔ سو عنقریب لوگ دیکھیں گے کہ حقیقت میں مخالف حجت اور دلیل بینہ کی رو سے مرگئے۔
از انجملہ ایک یہ ہے کہ مسیح جب آئے گا تو لوگوں کے عقائد اور خیالات کی غلطیاں نکالے گا جیسا کہ بخاری میں یہی حدیث لکھی ہے کہ مسیح ابن مریم حَکَم اور عدل ہونے کی حالت میں نازل ہوگا۔ پس حَکم اور عدل کے لفظ سے ہر یک دانا سمجھ سکتا ہے کہ مسیح بہتوں کے فہم اور سمجھ کے مخالف حق اور عدل کے ساتھ حکم کرے گا اور جیسے حَکم عدل سے نادان لوگ ناراض ہوجاتے ہیں ایسا ہی اس سے بھی ہوں گے۔سو یہ عاجز حَکم ہو کر آیا اور تمام غلط اوہام کا غلط اوہام ہونا ظاہر کر دیا۔ چنانچہ لوگ اوّل یہ سمجھ رہے تھے کہ وہی مسیح ابن مریم نبی ناصری جو فوت ہو چکا ہے پھر دوبارہ دنیا میں آجائے گا۔ سو پہلے یہی غلطی ان کی دور کر دی گئی اور اُن لوگوں کو سچا ٹھہرایا گیا جو مسلمانوں میں سے مسیح کی موت کے قائل تھے یا جیسے عیسائیوں میں سے یونیؔ ٹیرین فرقہ جو اسی بات کا قائل ہے کہ مسیح مرگیا اور پھر دنیا میں نہیں آئے گا اور ظاہر کر دیا گیا کہ قرآن کریم کی تیس آیتوں سے مسیح ابن مریم کافوت ہونا ثابت ہوتا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کسی نبی کی وفات ایسی صراحت سے قرآن کریم میں نہیں لکھی جیسی مسیح ابن مریم کی۔اور یہ وہ امر ہے جسکو ہم شرطی طورپر قرآن کریم کی رو سے پیش کر سکتے ہیں۔اور ہم نے مسیح کی موت کا ثبوت دینے کے بعد یہ بھی ثابت کر دیا کہ وعدہ صرف یہ تھا کہ جب چودھویں صدی تک اس اُمّت کے ایّام پہنچ جائیں گے تو خدائے تعالیٰ اس لطف واحسان کی طرح جو حضرت موسیٰ کی اُمت سے اُس اُمت کے آخری زمانہ میں کیا تھا۔ مثیل موسیٰ کی ایک غافل اُمت پر بھی اُن کے آخری زمانہ میں وہی احسان کرے گا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 478
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 478
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/478/mode/1up
اور اسی اُمت میں سے ایک کو مسیح ابن مریم بنا کر بھیجے گا سو وہ مسلمانوں میں سے ہی آوے گا۔ جیسا کہ اسرائیلی ابن مریم بنی اسرائیل میں سے ہی آیا۔
ایساہی لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ مسیح وفات کے بعد آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں دفن کیا جائے گالیکن وہ اس بے ادبیؔ کو نہیں سمجھتے تھے کہ ایسے نالائق اور بے ادب کون آدمی ہوں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو کھودیں گے۔ اور یہ کس قدر لغو حرکت ہے کہ رسول مقبول کی قبر کھودی جاوے اور پاک نبی کی ہڈیاں لوگوں کو دکھائی جاویں۔ بلکہ یہ معیّت روحانی کی طرف اشارہ ہے۔ ایسا ہی بہت سی غلطیاں ہیں جو نکل رہی ہیں۔
از انجملہ ایک یہ ہے کہ مسیح موعود جو آنے والا ہے اس کی علامت یہ لکھی ہے کہ وہ نبی اللہ ہوگا یعنی خدائے تعالیٰ سے وحی پانے والا۔ لیکن اس جگہ نبوت تامہ کاملہ مرادنہیں کیونکہ نبوت تامہ کاملہ پر مہر لگ چکی ہے بلکہ وہ نبوت مراد ہے جو محدثیت کے مفہوم تک محدود ہے جو مشکٰوۃ نبوت محمدیہ سے نور حاصل کرتی ہے۔ سو یہ نعمت خاص طور پر اس عاجز کو دی گئی ہے اور اگرچہ ہر یک کو رؤیاصحیحہ اور مکاشفات میں سے کسی قدر حصہ ہے۔ مگر مخالفین کے دل میں اگر گمان اور شک ہوتو وہ مقابلہ کر کے آزما سکتے ہیں کہ جو کچھ اس عاجز کو رؤیاصالحہ اور مکاشفہ اور استجابت دعا اور الہامات صحیحہ صادقہ سے حصّہ وافرہ نبیوں کے قریب قریب دیاؔ گیا ہے وہ دوسروں کو تمام حال کے مسلمانوں میں سے ہرگز نہیں دیا گیا اور یہ ایک بڑا محک آزمائش ہے کیونکہ آسمانی تائید کی مانند صادق کے صدق پر اور کوئی گواہ نہیں۔ جو شخص خدائے تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے بے شک خدائے تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور ایک خاص طورپر مقابلہ کے میدانوں میں اس کی دستگیری فرماتا ہے۔چونکہ میں حق پر ہوں اور دیکھتا ہوں کہ خدا میرے ساتھ ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اس لئے میں بڑے اطمینان اور یقین کامل سے کہتا ہوں کہ اگر میری ساری قوم کیا پنجاب کے رہنے والے اور کیا ہندوستان کے باشندے اور کیا عرب کے مسلمان اور کیا روم اور فارس کے کلمہ گو اور کیا افریقہ اور دیگر بلاد کے اہل اسلام
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 479
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 479
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/479/mode/1up
اوراُن کے علماء اور اُن کے فقراء اور اُن کے مشائخ اوراُن کے صلحاء اور اُن کے مرد اور اُن کی عورتیں مجھے کاذب خیال کر کے پھرمیرے مقابل پر دیکھنا چاہیں کہ قبولیت کے نشان مجھ میں ہیں یا اُن میں۔ اور آسمانی دروازے مجھ پر کھلتے ہیں یا اُن پر۔ اور وہ محبوب حقیقی اپنی خاص عنایات اور اپنے علوم لدنیہ اور معارف روحانیہ کے القاء کی وجہ سے میرے ساتھ ہےؔ یا اُن کے ساتھ۔ تو بہت جلد اُن پر ظاہرہوجائے گا کہ وہ خاص فضل اور خاص رحمت جس سے دل مورد فیوض کیاجاتا ہے اسی عاجز پر اس کی قوم سے زیادہ ہے۔کوئی شخص اس بیان کو تکبّر کے رنگ میں نہ سمجھے بلکہ یہ تحدیث نعمت کی قسم میں سے ہے وذٰلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء۔ اسی کی طرف اشارہ ان الہامات میں ہے قل انی امرت و انا اول المؤمنین۔ الحمد للّٰہ الذی اذھب عنی الحزن واٰتانی ما لم یؤت احد من العٰلمین۔ احد من العٰلمین سے مراد زمانہ حال کے لوگ یا آئندہ زمانہ کے ہیں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔
از انجملہ بعض مکاشفات مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مرحوم ہیں جو اس عاجز کے زمانہ ظہور سے پہلے گذر چکے ہیں۔چنانچہ ایک یہ ہے کہ آج کی تاریخ ۱۷ جون ۱۸۹۱ ؁ء سے عرصہ چارماہ کاگذرا ہے کہ حافظ محمد یوسف صاحب جو ایک مرد صالح بے ریا متقی اور متبع سُنّت اور اوّل درجہ کے رفیق اور مخلص مولوی عبداللہ صاحب غزنوی ہیں وہ قادیان میں اس عاجز کے پاس آئے اور باتوں کے سلسلہؔ میں بیان کیا کہ مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے اپنے کشف سے ایک پیشگوئی کی تھی کہ ایک نور آسمان سے قادیان کی طرف نازل ہوا مگر افسوس کہ میری اولاد اس سے محروم رہ گئی۔ فقط ایک صاحب غلام نبی نارو والے نام اپنے اشتہارمرقومہ دوم ذیقعدہ میں لکھتے ہیں کہ یہ افتراء ہے اگر افتراء نہیں تو اُس راوی کا نام لینا چاہیئے جس کے روبرو مولوی صاحب مرحوم نے بیان کیا۔ سو اب ہم نے بیان کر دیا کہ وہ راوی کون ہے اور کس درجہ کا آدمی ہے۔ چاہیئے کہ حافظ صاحب سے دریافت کریں کہ افتراء ہے یا سچی بات ہے۔ و من اظلم ممن افترٰی او کذّب و ابٰی۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 480
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 480
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/480/mode/1up
ایسا ہی فروری ۱۸۸۶ ؁ء میں بمقام ہوشیارپور منشی محمدیعقوب صاحب برادر حافظ محمد یوسف نے میرے پاس بیان کیا کہ مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی مرحوم سے ایک دن میں نے سُنا کہ وہ آپ کی نسبت یعنی اس عاجز کی نسبت کہتے تھے کہ میرے بعد ایک عظیم الشان کام کے لئے وہ مامور کئے جائیں گے۔ مگر مجھے یاد نہیں رہا کہ منشی محمد یعقوب صاحب کے منہ سے یہی الفاظ نکلے تھے یا انہیں کے ہمؔ معنے اور الفاظ تھے۔ بہرحال انہوں نے بعض آدمیوں کے روبر و جن میں سے ایک میاں عبداللہ سنور ی پٹیالہ کی ریاست کے رہنے والے ہیں اس مطلب کو انہیں الفاظ یا اور لفظوں میں بیان کیا تھا۔ مجھے یا د ہے کہ اس وقت منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ اور کئی اَور صاحب میرے مکان پرجو شیخ مہر علی صاحب رئیس کامکان تھا موجود تھے مگر یہ معلوم نہیں کہ اس جلسہ میں کون کون موجود تھا جب یہ ذکر کیاگیا۔مگر میاں عبد اللہ سنوری نے میرے پاس بیان کیا کہ میں اس تذکرہ کے وقت موجودتھا اورمیں نے اپنے کانوں سے سُنا۔
از انجملہ ایک کشف ایک مجذوب کا ہے۔جو اس زمانہ سے تیس یا اکتیس برس پہلے اس عالم بے بقا سے گذرچکا ہے۔ جس شخص کی زبان سے میں نے یہ کشف سنا ہے وہ ایک معمر سفید ریش آدمی ہے۔ جس کے چہرہ پر آثار صلاحیت وتقویٰ ظاہر ہیں جس کی نسبت اس کے جاننے والے بیان کرتے ہیں کہ یہ درحقیقت راست گو اور نیک بخت اور صالح آدمی ہیں۔ یہاں تک کہ مولوی عبدالقادرمدرس جمالپور ضلع لدھانہ نے جو ایک صالح آدمی ہے اس پیر سفید ریش کی بہت تعریف کی کہ درؔ حقیقت یہ شخص متقی اور متبع سنّت اور راست گو ہے۔اور نہ صرف انہوں نے آپ ہی تعریف کی بلکہ اپنی ایک تحریر میں یہ بھی لکھا کہ مولوی محمد حسن صاحب رئیس لدھیانہ کہ جوگروہ موحدین میں سے ایک منتخب اور شریف اور غایت درجہ کے خلیق اور بُردبار اور ثقہ ہیں جن کے والدصاحب مرحوم کا جو ایک باکمال بزرگ تھے یہ سفید ریش بڈھا قدیمی دوست اور ہم قوم اورپُرانے زمانہ سے تعارف
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 481
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 481
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/481/mode/1up
رکھنے والا اور اُن کی پُر فیض صحبتوں کے رنگ سے رنگین ہے بیان فرماتے تھے کہ حقیقت میں میاں کریم بخش یعنی یہ بزرگ سفید ریش بہت اچھا آدمی ہے اور اعتبار کے لائق ہے مجھ کو اس پر کسی طور سے شک نہیں ہے۔
اب وہ کشف جس طور سے میاں کریم بخش موصوف نے اپنے تحریر ی اظہار میں بیان کیا ہے اس اظہار کی نقل معہ اُن تمام شہادتوں کے جو اس کاغذ پر ثبت ہیں ذیل میں ہم لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے :۔
میرا نام کریم بخش والدکانام غلام رسول قوم اعوان ساکن جمالپور اعوانہ تحصیل لودھیانہ پیشہ زمینداری عمرتخمینًا چونسٹھ ۶۴سال مذہب موحد اہلحدؔ یث حلفًا بیان کرتا ہوں کہ تخمینًا تیس یا اکتیس سال کا گذرا ہوگا یعنی سمت ۱۹۱۷ میں جبکہ سن سترہ کا ایک مشہورقحط پڑا تھا ایک بزرگ گلاب شاہ نام جس نے مجھے توحید کا راہ سکھلایا اور جو بباعث اپنے کمالات فقر کے بہت مشہور ہوگیا تھا اور اصل باشندہ ضلع لاہور کا تھا ہمارے گاؤں جمالپور میں آرہا تھااور ابتداء میں ایک فقیر سالک اور زاہد اورعابد تھا اور اسرار توحید اُس کے منہ سے نکلتے تھے لیکن آخر اس پر ایک ربودگی اور بیہوشی طاری ہو کرمجذوب ہوگیا اور بعض اوقات قبل از ظہور بعض غیب کی باتیں اس کی زبان پر جاری ہوتیں اور جس طرح وہ بیان کرتا آخر اُسی طرح پوری ہوجاتیں۔ چنانچہ ایک دفعہ اُس نے سمت سترہ کے قحط سے پہلے ایک قحط شدید کے آنے کی پیشگوئی کی تھی اور پیش از وقوع مجھے بھی خبر دی تھی۔ سو تھوڑے دنوں کے بعد سترہ کاقحط پڑ گیا تھا۔ اور ایک دفعہ اُس نے بتلایا تھا کہ موضع رام پور ریاست پٹیالہ تحصیل پائیلی کے قریب جہاں اب نہر چلتی ہے ہم نے وہاں نشان لگایا ہے کہ یہاں دریا چلے گا۔ پھر بعد ایک مدّت کے وہاں اُسی نشان کی جگہ پر نہر جاری ہوگئی جو درحقیقت دریا کی ہی ایک شاخؔ ہے۔یہ پیشگوئی اُن کی سارے جمالپور میں مشہور ہے۔ ایساہی ایک دفعہ انہوں نے سمت سترہ کے قحط سے پہلے کہا تھا کہ اب بیوپاریوں کو
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 482
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 482
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/482/mode/1up
بہت فائدہ ہوگا۔ چنانچہ تھوڑے دنوں کے بعد قحط پڑا اور بیوپاری لوگوں کو اس قحط میں بہت فائدہ ہوا۔ ایسی ہی اُن کی اَور بھی کئی پیشگوئیاں تھیں جو پوری ہوتی رہیں۔
اس بزرگ نے ایک دفعہ جس بات کو عرصہ تیس سال کا گذراہوگا مجھ کو کہا کہ عیسیٰ اب جوا ن ہوگیا ہے اورلدھیانہ میں آکر قرآن کی غلطیاں نکالے گا اورقرآن کی رو سے فیصلہ کرے گا اور کہا کہ مولوی اس سے انکار کریں گے پھر کہا کہ مولوی انکارکرجائیں گے۔ تب میں نے تعجب کی راہ سے پوچھا کہ کیا قرآن میں بھی غلطیاں ہیں قرآن تو اللہ کا کلام ہے۔تو انہوں نے جواب دیا کہ تفسیروں پر تفسیریں ہوگئیں اور شاعری زبان پھیل گئی ( یعنی مبالغہ پر مبالغہ کر کے حقیقتوں کو چھپایا گیا جیسے شاعر مبالغات پر زور دیکر اصل حقیقت کو چھپا دیتا ہے ) پھر کہاکہ جب وہ عیسیٰ آئے گا تو فیصلہ قرآن سے کرے گا۔پھر اس مجذوب نے بات کو دوہرا کریہ بھی کہاتھا کہؔ قرآن پر کرے گا اور مولوی انکار کرجائیں گے۔اورپھر یہ بھی کہا کہ انکارکریں گے اور جب وہ عیسیٰ لدھیانہ میں آئے گا تو قحط بہت پڑے گا۔ پھر میں نے پوچھا کہ عیسیٰ اب کہاں ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ بیچ قادیان کے یعنی قادیان میں تب میں نے کہا کہ قادیان تو لدھیانہ سے تین کوس ہے وہاں عیسیٰ کہاں ہے (لدھیانہ کے قریب ایک گاؤں ہے جس کانام قادیان ہے )اس کا انہوں نے کچھ جواب نہ دیا۔ اور مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ ضلع گورداسپور ہ میں بھی کوئی گاؤں ہے جس کا نام قادیان ہے۔ پھر میں نے اُن سے پوچھا کہ عیسیٰ علیہ السلام نبی اللہ آسمان پر اٹھائے گئے اور کعبہ پر اُتریں گے۔ تب انہوں نے جواب دیا۔ عیسیٰ ابن مریم نبی اللہ تو مر گیا ہے اب وہ نہیں آئے گا ہم نے اچھی طرح تحقیق کیا ہے کہ مر گیا ہے ہم بادشاہ ہیں جھوٹ نہیں بولیں گے اور کہاکہ جو آسمانوں والے صاحب ہیں وہ کسی کے پاس چل کرنہیں آیا کرتے ۔
المظھر
میاں کریم بخش بمقام لدھیانہ محلہ اقبال گنج ۱۴ جون ۱۸۹۱ ؁ء روز شنبہ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 483
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 483
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/483/mode/1up
نامؔ اُن صاحبوں کے جنہوں نے اپنے کانوں سے اس بیان کو سُن کر میاں کریم بخش کے اظہار تحریری پر اُسی وقت اُن کے روبرو اپنی اپنی گواہییں لکھیں۔
میرے سامنے میاں کریم بخش نے مضمون مذکورہ صدر حرف بحرف لکھوایا۔
میر عباس علی بقلم خو د
میرے رو برو میاں کریم بخش صاحب نے یہ بیان تحریر کرایاجو اوپر لکھا گیا ہے۔
عاجز رستم علی ڈپٹی انسپکٹر ریلوے پولیس ۱۴ جون ۹۱ ؁ء
اس عاجز کے روبرو میاں کریم بخش نے یہ بیان تحریر کرایا اور یہ مضمون بلا کمی بیشی حرف بہ حرف لکھا گیا۔
عبد اللہ پٹواری غوث گڑھ
میرے سامنے میاں کریم بخش نے یہ بیان حرف بحرف تحریر کرایا۔
الہ بخش بقلم خو د سکنہ لدھانہ
میرے سامنے میاں کریم بخش نے مضمون مذکور الصدرحرف بہ حرف لکھوایا۔
غلام محمد از پکہو وال بقلم خود
میرے رو برو بیان مذکورہ بالا میاں کریم بخش نے حرف بہ حرف لکھوایا
عطاء الرحمان ساکن دہلی
میرے رو بر و میاں کریم بخش نے حرف بہ حرف حلفًا بیان مذکورہ بالا تحریر کرایا
عبد الحق خلف عبد السمیع ساکن لدھیانہ
یہ بیان میاں کریم بخش نے حلفًا میرے روبرو لکھوایاہے۔
عبد القادرمدرس جمالپور بقلم خود
اس عاجز کے رو برو میاں کریم بخش نے اظہار مذکورہ بالا حلفًا لکھوایا۔
سید فضل شاہ ساکن ریاست جموں
بیان بالا میری موجودگی میں حلفاً میاں کریم بخش سکنہ جمالپور نے لکھوایا ہے ۔
کنہیا لال سیکنڈ ماسٹرراج سکول سنگرور ریاست جیند سکنہ لدھانہ
میرے رو برو بیان مذکورہ بالا حرف بہ حرف میاں کریم بخش نے حلفًا لکھوایا ہے ۔
سیّد عنایت علی سکنہ لودھیانہ محلہ صوفیاں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 484
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 484
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/484/mode/1up
میرے رو برو بیان مذکورہ بالاکی میاں کریم بخش نے تصدیق کی۔ ناصر نواب
میرے روبرو میاں کریم بخش نے بیان مذکور ہ بالا کی تصدیق کی ۔ قاضی خواجہ علی بقلم خود
میاں کریم بخش نے حلفاً بیان مذکورہ بالا لکھوایا ہے
مولوی تاج محمد
میرے رو برو یہ مضمون مسمّی کریم بخش کو سنایا گیا اور اس نے تصدیق کیا۔
مراری لال کلرک نہر سرہند ڈویژن لودہانہ
میاںؔ کریم بخش نے وہ تمام بیان جو اس کی زبان سے لکھاگیا حلفًا تصدیق کیا۔
مولوی نصیر الدین واعظ ساکن بہولر ریاست بہاولپور۔حال وارد لدھانہ
بیان مذکورہ بالا کومیاں کریم بخش نے میرے روبرو تصدیق کیا۔
محمد نجیب خان دفتر نہر سرہند ڈویژن لودھیانہ
اس بیان کے بعد پھر میاں کریم بخش نے بیان کیا کہ ایک بات میں بیان کرنے سے رہ گیا۔ اور وہ یہ ہے کہ اس مجذوب نے مجھے صاف صاف یہ بھی بتلا دیا تھا کہ اُس عیسیٰ کانام غلام احمد ہے۔
اب وہ گواہیاں ذیل میں لکھی جاتی ہیں۔ جنھوں نے قسم کھاکر بیان کیا کہ درحقیقت میاں کریم بخش ایک مرد صالح اورنیک چلن آدمی ہے جس کا کبھی کوئی جھوٹ ثابت نہیں ہوا یہ گواہ اسی گاؤں کے یا اس کے قریب کے رہنے والے ہیں۔
ہم حلفًا بیان کرتے ہیں کہ میا ں کریم بخش ایک راستباز آدمی ہے اور صوم وصلوٰۃ کا اعلیٰ درجہ کا پابندہے اور ہم نے اپنی تمام عمر میں اس کی نسبت کوئی جھوٹ بات بولنے اور خلاف واقعہ بیان کرنے میں اتہام نہیںؔ سُنا بلکہ آج تک ایک گنّا یاچھلّی تک کسی شخص کی نہیں توڑی۔ اور میاں گلا ب شاہ بھی اس دیہہ میں ایک مشہور مجذوب گذرا اور اس مجذوب کے انتقال کو عرصہ تخمینًا پچیس سال کا ہوا ہے اس مجذوب کی اکثر پیش از وقوع باتیں بتلائی ہوئی ہمارے رو برو پوری ہوئی ہیں۔
العبد
خیرایتی نمبر دار جمالپور
العبد
نور الدین ولد دتا ساکن جمالپور
۲۶؍ جون ۱۸۸۳ ؁ ء سے میں اس جگہ ملازم ہوں میں نے میاں کریم بخش کا کوئی جھوٹ آج تک نہیں معلوم کیا اور یہ شخص اول درجہ کا پابند صوم وصلوٰۃ اور راستباز آدمی ہے۔ اور موحد ہے۔
العبد
عبد القادر مدرس جمالپور بقلم خود
میاں کریم بخش نیک آدمی ہے اور پکّا نمازی۔ میں نے اپنی تمام عمر میں اس کا کوئی جھوٹ نہیں سُنا حلفًا بیان کیا ہے اور میاں گلاب شاہ بہت اچھا فقیر تھا اس گلاب شاہ کو تمام زن و مرد اس دیہہ کے جانتے ہیں۔
العبد
نبی بخش ارائیں سکنہ جمالپور
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 485
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 485
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/485/mode/1up
میاںؔ کریم بخش سچا آدمی ہے اور پختہ نمازی ہے اور نماز جمعہ کا سخت پابند اور کم گو ہے
العبد
پیر محمد نمبردار بقلم خود سکنہ جمالپور
کریم بخش نمازی ہے اور بہت سچا آدمی ہے
الہ دتا سکنہ جمالپور
اوپر کا لکھا ہوا نہایت صحیح ہے اور کریم بخش نہایت سچا آدمی ہے اور نماز روزہ اور جمعہ کبھی قضا نہیں کیا اور کوئی جھوٹ اور افتراء کی بات اس کی نسبت ثابت نہیں ہوئی اور بہت کم گو آدمی ہے۔ العبد
نور محمد ولد مادا سکنہ جمالپور
کرؔ یم بخش نہایت سچا اور نیک بخت اور کم گو اور پرہیزگار اور نمازی آدمی ہے اور سب عادتیں اس کی بہت اچھی ہیں۔
العبد
روشن لال ولد قاسا نمبردار جمال پور عمر ۵۰ سال
میاں کریم بخش بہت سچا آدمی ہے اور کبھی اس شخص نے جھوٹھی گواہی نہیں دی اور نہ جھوٹ کی تہمت اس کو کسی نے میری ہوش میں لگائی۔
العبد
خیالی ولد گور مکھ ترکھان سکنہ جمالپور
کریم بخش غلام رسول کا بیٹا بہت نیک آدمی ہے اور سچا ہے اور ہمیشہ جمعہ پڑھتا ہے اور کبھی اس نے جھوٹ نہیں بولا۔
العبد
کاکا ولد چوہڑ سکنہ جمالپور
کریم بخش سچا آدمی ہے اور نیک بخت ہے اور نمازی ہے فقط اور میاں گلاب شاہ بہت اچھا مجذوب تھا۔
العبد
بوٹا ولد احمد بقلم پیر محمد نمبردار
میاں کریم بخش بہت سچا اور نیک چلن آدمی ہے اور اس شخص نے کبھی جھوٹھی شہادت نہیں دی اور نہ سُنی۔
العبد
ہیرا لال ولددو سندھی سکنہ جمالپور بقلم خود
میاں کریم بخش بہت سچا اور بہت نیک اورنمازی ہے اور میں نے اپنی ہوش میں اسکا کوئی جھوٹ نہیں سُنا۔
العبد
گلزار شاہ بقلم خود
میاں کریم بخش کومیں بخوبی جانتاہوں کہ یہ شخص نیک بخت ہے اور بہت سچا ہے ۱۸۶۲ ؁ء سے میں اِسکا واقف ہوں اور اس شخص کا جھوٹھ کوئی میں نے نہیں سُنا اورنہ کوئی بدچلنی اس کی سُنی گئی ہے اور یہ شخص نمازی ہے اورجمعہ پڑھنے بھی لدھیانہ آیا کرتا ہے۔
العبد
امیر علی ولدنبی بخش آوان ساکن لدھیانہ برادر مولوی محمدحسن صاحب رئیس اعظم بقلم خود
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 486
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 486
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/486/mode/1up
کریم بخش پکّا نمازی ہے اور سچّا اور نیک بخت اور کبھی جھوٹھی شہادت اس نے نہیں دی۔
بقلم خود امان علی ولد چانن شاہ ٹھیکیدار
مسمّیؔ کریم بخش بہت سچا اور پکّا نمازی اورنیک چلن آدمی ہے اورکبھی اس کا کوئی جھوٹ بولنا ثابت نہیں ہوا۔ اور گلاب شاہ بہت اچھا فقیر تھا۔ اور اس ہمارے دیہہ میں بہت مدت تک رہے ہیں۔
العبد
اکبر ولد محمدپناہ سکنہ جمالپور
مسمی کریم بخش بڑا سچا آدمی اور پختہ نمازی ہے رمضان کے روزے ہمیشہ رکھتاہے اور کبھی جمعہ قضا نہیں کرتا اورکبھی اس کا جھوٹ ثابت نہیں ہوا اورنہایت نیک چلن ہے۔
العبد
بقلم غلام محمد پسر روشن ذات آوان ساکن جمالپور
میں مسمی کریم بخش کو بہت نیک بخت جانتا ہوں۔ او ر سچا ہے اور یہ شخص پکّانمازی ہے۔
العبد
غلام محمد نائب مدرس مدرسہ جمالپور سکنہ پکھو وال بقلم خود
میاں کریم بخش بہت اچھا اور نیک چلن نمازی ہے اور جمعہ پڑھنے والا اور سچا آدمی ہے۔
العبد
نظام الدین سکنہ جمالپور بقلم خود نظام الدین
میاںؔ کریم بخش بہت اچھا اور نیک چلن اور نماز ی اور جمعہ پڑھنے والا اور سچا آدمی ہے۔
العبد
شیرا ولد روشن گوجر از جمالپور
میاں کریم بخش بہت اچھا اور نیک چلن آدمی ہے اوراس شخص نے کبھی جھوٹی شہادت نہیں دی اور نہ سُنی۔
العبد
گوکل ولد متابا سود از جمالپور
میاں کریم بخش آدمی نماز ی ہے اور بہت سچا ہے
العبد
کریم بخش ولد غلام غوث آوان از جمالپور
کریم بخش بہت اچھا نیک بخت آدمی ہے اور سچا اور نمازی اور پرہیز گار ہے۔
العبد
لکھا ولد سوندھا ارائیں جمالپور
کریم بخش بہت نیک بخت ہے اور سچا ہے اور اس میں جھوٹ بولنے کی عادت نہیں
العبد
گنیشا مل سود جمالپوریہ بقلم لنڈے
کریم بخش پکا نمازی ہے اور بہت سچا آدمی ہے اور کبھی اس نے جھوٹی گواہی نہیں دی۔
العبد
گاندھی ولد عالم گوجر چوکیدار جمالپور
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 487
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 487
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/487/mode/1up
مکاشفہ مذکورہ بالا کی مؤید ایک رویاصالحہ ذیل میں بیان کی جاتی ہے جس کو ایک بزرگ محمد نام خاص مکہ کے رہنے والے عربی مکّی نے دیکھا ہے اور اس خواب کی مندرجہ ذیل عبارت خود انہیں کے مُنہ سے نکلی ہوئی بذریعہ ان کی ایک خاص تحریر کے مجھ کو ملی ہے اور وہ یہ ہے اقول و انا محمد ابن احمدن المکی من حارۃ شعب عامر انی رایت فی المنام فی سنۃ۱۳۰۵ان ابی قائم و انا معہ فنظرت الی جانبؔ المشرق فرئیت عیسٰی علیہ السلام نزل من السماء و انا ارید ان اتوضا فتوجھت الی البحر ثم توضئت و رجعت الی ابی فقلت یا ابی ان عیسی علیہ السلام قد نزل فیکف اصلّی فقال لی ابی انہ نزل علی دین الاسلام و دینہ دین النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم فصل مثل ما کنت تصلّی اولا فصلیت ثم استیقظت من منامی فقلت فی نفسی
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 488
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 488
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/488/mode/1up
لا بد انشاء اللّٰہ ان ینزل عیسٰی علیہ السلام فی حیاتی وانظر ہ بعینی۔ یعنی میں جو محمد ابن احمد مکّی رہنے والا خاص مکّہ معظمہ محلہ شعب عامر کا ہوں کہتا ہوں کہ میں نے ۱۳۰۵ ؁ہجری میں خواب میں دیکھا کہ ایک جگہ میرا باپ کھڑا ہے اور مَیں اس کے ساتھ ہوں اس وقت جو میں نے مشرق کی طرف نظر اٹھا کر دیکھاتو کیا دیکھتا ہوں کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اُتر آیا اور میں ارادہ کر رہا ہوں کہ وضو کروں سو میں نے دریا کی طرف رُخ کیاپھر وضو کرکے اپنے باپ کی طرف چلا آیا۔ تب میں نے اپنے باپ کو کہا کہ عیسےٰ علیہ السلام تو نازل ہوگیا اب میں کس طور سے نماز پڑھوں سو میرے باپ نے مجھے کہا کہ وہ دین اسلام پر اُترا ہے اور اس کا دین کوئی الگ دین نہیں بلکہ وہ تو نبی صلی اللہ علیہؔ وسلم کا ہی دین رکھتا ہے۔ سو تُو اُسی طرح نماز پڑھ جیسے پہلے پڑھاکرتا تھا۔تب میں نے نماز پڑھ لی۔پھر میری آنکھ کھل گئی اور میں نے دل میں کہا کہ انشاء اللہ عیسٰی علیہ السلام میری زندگی میں اُترآئے گا اور میں اس کو اپنی آنکھ سے دیکھ لوں گا۔
از انجملہ اس عاجز کے مسیح موعود ہونے پر یہ نشان ہے کہ مسیح موعود کے ظہور کی خصوصیت کے ساتھ یہ علامت ہے کہ دجّال معہود کے خروج کے بعد نازل ہو۔کیونکہ یہ ایک واقعہ مسلّمہ ہے کہ دجّال معہود کے خروج کے بعد آنے والاوہی سچا مسیح ہے جو مسیح موعود کے نام سے موسوم ہے جس کا مسلم کی حدیث میں وجہ تسمیہ مسیح ہونے کا یہ بیان کیاگیا ہے کہ وہ مومنوں کی شدت اورمحنت اور ابتلا کا غبارجو دجّال کی وجہ سے اُن کے طاری حال ہوگا اُن کے چہروں سے پونچھ دے گا یعنی دلیل اور حجت سے اُن کو غالب کر دکھائے گا۔سو اِ س لئے وہ مسیح کہلائے گا کیونکہ مسح پونچھنے کو کہتے ہیں جس سے مسیح مشتق ہے۔ اورضرور ہے کہ وہ دجّال معہود کے بعد ناز ل ہو۔ سو یہ عاجز دجّال معہود کے خروج کے بعد آیا ہے۔پس اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ دجّاؔ ل معہود یہی پادریوں اورعیسائی متکلموں کا گروہ ہے جس نے زمین کو اپنے ساحرانہ کاموں سے تہ وبالا کردیا ہے اورجو ٹھیک ٹھیک اس وقت سے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 489
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 489
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/489/mode/1up
زور کے ساتھ خروج کررہا ہے اورجو اعدا د آیت33 ۱؂ سے سمجھا جاتا ہے یعنی ۱۸۵۷ ؁ء کا زمانہ۔ * تو ساتھ ہی اس عاجز کا مسیح ہونا بھی ثابت ہوجائے گا۔ اور ہمؔ پہلے بھی تحریر کرآئے ہیں کہ عیسائی واعظوں کا گروہ بلاشبہ دجّال معہود ہے۔ اگرچہ حدیثوں کے ظاہر الفاظ سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ دجّال ایک خاص آدمی ہے جو ایک آنکھ سے کانا اوردوسری بھی عیب دار ہے لیکن چونکہ یہ حدیثیں جو پیشگوئیوں کی قسم سے ہیں مکاشفات کی نوع میں سے ہیں جن پر موافق سُنّت اللہ کے استعارہ اور مجاز غالب ہوتاؔ ہے۔ جیسا کہ مُلّا علی قاری نے بھی لکھا ہے اور جن کے معنے سلف صالح ہمیشہ استعارہ کے طور پر لیتے رہے ہیں۔ اس لئے بوجہ قرآئن قویہ ہم دجّال کے لفظ سے صرف ایک شخص ہی مراد نہیں لے سکتے۔رویا اور مکاشفہ میں اسی طرح سُنّت اللہ واقع ہے کہ بعض اوقات ایک شخص نظر آتا ہے اور اس سے مراد ایک گروہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہمارے نبیؔ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک میں ایک شخص نے ایک عرب کے بادشاہ کو خوا ب میں دیکھا تھاتو آپ نے فرمایا تھا کہ اس سے مراد ملک عرب ہے جو ایک گروہ ہے۔ اوراس ہمارے بیان پر یہ قرینہ شاہد ناطق ہے کہ دجّال درحقیقت لغت کی رُو سے اسم جنس ہے
۱۸۵۷؁ء کی طرف اشارہ ہے جس میں ہندوستان میں ایک مفسدہ عظیم ہو کر آثار باقیہ اسلامی سلطنت کے ملک ہند سے ناپدید ہوگئے تھے کیونکہ اس آیت کے اعداد بحساب جمل ۱۲۷۴ ہیں اور ۱۲۷۴کے زمانہ کو جب عیسوی تاریخ میں دیکھنا چاہیں تو ۱۸۵۷ ؁ء ہوتاہے۔ سو درحقیقت ضعف اسلام کازمانہ ابتدائی یہی ۱۸۵۷ ؁ء ہے جس کی نسبت خدائے تعالےٰ آیت موصوفہ بالا میں فرماتاہے کہ جب وہ زمانہ آئیگا تو قرآن زمین پر سے اٹھایا جائیگا۔ سو ایساہی ۱۸۵۷ ؁ء میں مسلمانوں کی حالت ہوگئی تھی کہ بجُز بدچلنی اور فسق وفجور کے اسلام کے رئیسوں کو اور کچھ یادنہ تھا جس کا اثر عوا م پر بہت پڑ گیا تھا انہیں ایام میں انہوں نے ایک ناجاؔ ئز اور ناگوار طریقہ سے سرکار انگریزی سے باوجود نمک خوار اور رعیت ہونے کے مقابلہ کیا۔ حالانکہ ایسامقابلہ اور ایسا جہاد ان کے لئے شرعًا جائز نہ تھا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 490
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 490
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/490/mode/1up
جس سے ایسے لوگ مراد ہیں جو کذّاب ہوں۔چنانچہ قاموس میں یہی معنے لکھےؔ ہیں کہ دجّال اس گرو ہ کو کہتے ہیں کہ جو باطل کو حق کو ساتھ ملانے والااور زمین کونجس کرنے والا ہو۔ اور مشکٰوۃ کتاب الفتن میں مسلم کی ایک حدیث لکھی ہے جس میں دجّال کے ایک گروہ ہونے کی طرف صریح اشارہ کیاگیا ہے۔
اب جانناچاہیئے کہ دجّال معہود کی بڑی علامتیں حدیثوں میں یہؔ لکھی ہیں۔
(۱) آدم کی پیدائش سے قیامت کے دن تک کوئی فتنہ دجّال کے فتنے سے بڑھکر نہیں یعنی جس قدر دین اسلام کے تخریب کے لئے فتنہ اندازی اس سے ظہور میں آنے والی ہے اور کسی سے ابتداء دنیا سے قیامت کے وقت تک ظہور میں نہیں آئیگی۔ صحیح مسلم۔
(۲)دجّال کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم کشف اور رویا میں دیکھا کہ دہنی آنکھ سے وہ کانا ہے اور دوسری آنکھ بھی عیب سے خالی نہیںؔ ۔ یعنی دینی بصیرت اُن کو بکلّی نہیں دی گئی اور تحصیل دنیا کی وجوہ بھی حلال اور طیّب نہیں۔ بخاری اور مسلم۔
کیونکہ وہ اس گورنمنٹ کی رعیت اور ان کے زیر سایہ تھے اور رعیت کا اس گورنمنٹ کے مقابل پر سر اٹھاناجس کی وہ رعیت ہے اور جس کے زیر سایہ امن اور آزادی سے زندگی بسر کرتی ہے سخت حرام اورمعصیت کبیرہ اور ایک نہایت مکروہ بدکاری ہے۔جب ہم ۱۸۵۷ ؁ء کی سوانح کو دیکھتے ہیں اور اس زمانہ کے مولویوں کے فتووں پر نظر ڈالتے ہیں جنہوں نے عام طور پر مہریں لگا دی تھیں جو انگریزوں کو قتل کردینا چاہیئے تو ہم بحر ندامت میں ڈوب جاتے ہیں کہ یہ کیسے مولوی تھے اور کیسے اُن کے فتوے تھے۔ جن میں نہ رحم تھا نہ عقل تھی نہ اخلاق نہ اؔ نصاف۔ ان لوگوں نے چوروں اور قزاقوں اور حرامیوں کی طرح اپنی محسن گورنمنٹ پر حملہ کرنا شروع کیا اور اس کا نام جہاد رکھا۔ننھے ننھے بچوں اور بے گناہ عورتوں کو قتل کیا اورنہایت بے رحمی سے انہیں پانی تک نہ دیا۔ کیا یہ حقیقی اسلام تھا یایہودیوں کی خصلت تھی۔ کیا کوئی بتلا سکتا ہے کہ خدائے تعالےٰ نے اپنی کتاب میں ایسے جہاد کاکسی جگہ حکم دیا ہے۔ پس اس حکیم وعلیم کا قرآن کریم میں یہ بیان فرمانا کہ ۱۸۵۷ ؁ء میں میرا کلام آسمان پر اُٹھایاجائیگا یہی معنے رکھتا ہے کہ مسلمان اس پر عمل نہیں کریں گے جیساکہ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 491
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 491
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/491/mode/1up
(۳) دجّال کے ساتھ بعض اسباب تنعّم اور آسائش جنت کی طرح ہوں گے اور بعض اسباب محنت اور بلا کے آگ یعنی دوزخ کی طرح ہوں گے (بخاری و مسلم ) جس قدر عیسائی قوم نے تنعّم کے اسباب نئے سے نئے ایجاد کئے ہیں اور جو دوسری راہوں سے محنت اور بلا اور فقر اور فاقہ بھی اُن کے بعض انتظامات کی وجہ سے دیس کے لوگوں کو پکڑتاجاتا ہے اگریہ دونوں حالتیں بہشت اور دوزخ کے نمونے نہیں ہیں تو اور کیا ہے۔
(۴) دجّال کے بعض دن برس کی طرح ہوں گے اور بعض دن مہینہ کی طرح اور بعض دن ہفتہ کی طرح مگر یہ نہیں کہ دنوں میں فرق ہوگا بلکہ اُس کے دن اپنی مقدار میں ایسے ہی ہوں گے جیسے تمہارے۔ مسلم۔
(۵) دجّال کے گدھے کا اس قدر جسم ہوگا کہ اس کے ایک کان سے دوسرے کان تک ستّر باع کافاصلہ ہوگا۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس جسامت کی گدھی خدائے تعالیٰ نے پیدا نہیں کی تا امید کی جائے کہ ان کی اولاد سے ؔ یہ گدھا ہوگا۔
مسلمانوں نے ایسا ہی کیا۔ خدائے تعالیٰ پر یہ الزام لگانا کہ ایسے جہاد اور ایسی لڑائیاں اس کے حکم سے کی تھیں یہ دوسرا گناہ ہے۔ کیا خدائے تعالیٰ ہمیں یہی شریعت سکھلاتا ہے کہ ہم نیکی کیؔ جگہ بدی کریں۔ اور اپنی محسن گورنمنٹ کے احسانات کا اس کو یہ صلہ دیں کہ اُن کی قوم کے صغر سن بچوں کو نہایت بے رحمی سے قتل کریں اور ان کی محبوبہ بیویوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں۔ بلاشبہ ہم یہ داغ مسلمانوں خاص کر اپنے اکثر مولویوں کی پیشانی سے دھو نہیں سکتے کہ وہ ۵۷ ؁ء میں مذہب کے پردہ میں ایسے گناہ عظیم کے مرتکب ہوئے جس کی ہم کسی قوم کی تواریخ میں نظیرنہیں دیکھتے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ انہوں نے اور بھی ایسے بُرے کام کئے جو صرف وحشی حیوانات کی عادات ہیں نہ انسانوں کی خصلتیں۔ انہوں نے نہ سمجھا کہ اگر اُن کے ساتھ یہ سلوک کیاجائے کہ ایک ممنون منت اُن کااُن کے بچوں کومار دے اوران کی عورتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرے تو اُس وقت اُن کے دل میں کیا کیا خیال پیدا ہوگا۔ باوجوؔ د اس کے یہ مولوی لوگ ا س بات کی شیخی مارتے ہیں کہ ہم بڑے متقی ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ نفاق سے زندگی
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 492
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 492
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/492/mode/1up
(۶)دجّال جب گدھے پر سوار ہوگاتو گدھا جس جلدی سے چلے گا اس کی یہ مثال ہے کہ جیسے بادل اس حالت میں چلتا ہے جبکہ پیچھے اس کے ہوا ہو۔ یہ ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ دجّال کاگدھاکوئی جاندار مخلوق نہیں ہوگا بلکہ وہ کسی ہوائی مادہ کے زور سے چلے گا۔
(۷) زمین اور آسمان دونوں دجّال کے فرمانبردار ہوں گے یعنی خدائے تعالیٰ اس کی تدبیر کے ساتھ تقدیر موافق کردے گا اور اس کے ہاتھ پر زمین کو اُس کی مرضی کے موافق آباد کریگا۔
(۸) دجّال مشرق کی طرف سے خروج کرے گا یعنی ملک ہند سے کیونکہ یہ ملک زمین حجاز سے مشرق کی طرف ہے۔ متفق علیہ۔
(۹) دجّال جس ویرانہ پر گذرے گا اُسے کہے گا کہ تُو اپنے خزانے باہر نکال۔ سو وہ تمام خزانے باہر نکل آئیں گے اوردجّال کے پیچھے پیچھے جائیں گے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دجّال زمین سے بہت فائدہ اٹھائے گا۔اور اپنی تدبیروں سے زمین کو آباد کرے گا اور ویرانے کوؔ خزانے کر کے دکھا ئے گا پھر آخر باب لُدپر قتل کیاجائیگا۔لُد اُن لوگوں کو کہتے ہیں جو بے جا جھگڑنے والے ہوں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے
بسر کرنا انہوں نے کہاں سے سیکھ لیا ہے۔ کتاب الٰہی کی غلط تفسیروں نے انہیں بہت خراب کیا ہے اور انکے دلی اور دماغی قویٰ پر بہت بُرا اثر ان سے پڑا ہے۔ اس زمانہ میں بلاشبہ کتاب الٰہی کے لئے ضرور ی ہے کہ اس کی ایک نئی اور صحیح تفسیرکی جائے کیونکہ حال میں جن تفسیروں کی تعلیم دی جاتی ہے وہ نہ اخلاقی حالت کو درست کرسکتی ہیں اور نہ ایمانی حالت پر نیک اثرڈا لتی ہیں بلکہ فطرتی سعادت اور نیک روشی کی مزاحم ہورہی ہیں۔ کیوں مزاحم ہورہی ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دراصل اپنے اکثر زوائد کی وجہ سے قرآن کریم کی تعلیم نہیں ہے قرآنی تعلیم ایسے لوگوں کے دلوں سے مٹ گئی ہے کہ گویا قرآن آسمان پراؔ ٹھایاگیاہے۔ وہ ایمان جو قرآن نے سکھلایاتھا اس سے لوگ بے خبر ہیں وہ عرفان جو قرآن نے بخشاتھا اس سے لوگ غافل ہوگئے ہیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ قرآن پڑھتے ہیں مگر قرآن اُن کے حلق کے نیچے نہیں اُترتا۔ انہیں معنوں سے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 493
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 493
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/493/mode/1up
کہ جب دجّال کے بے جا جھگڑے کمال تک پہنچ جائیں گے تب مسیح موعود ظہور کرے گا اور اس کے تمام جھگڑوں کا خاتمہ کردے گا۔
(۱۰) دجّال خدا نہیں کہلائے گا بلکہ خدائے تعالیٰ کا قائل ہوگا بلکہ بعض انبیاء کا بھی۔ مسلم۔
اِن دسوں علامتوں میں سے ایک بھاری علامت دجّال معہود کی یہ لکھی ہے کہ اُس کا فتنہ تمام اُن فتنوں سے بڑھ کر ہوگا کہ جو ربّانی دین کے مٹانے کے لئے ابتداسے لوگ کرتے آئے ہیں اور ہم اسی رسالہ میں ثابت کرچکے ہیں کہ یہ علامت عیسائی مشنوں میں بخوبی ظاہر وہویدا ہے۔
از انجملہ ایک بڑی بھاری علامت دجّال کی اُس کا گدھا ہے جس کے بین الاذنین کا اندازہ ستّر باع کیاگیا ہے اور ریل کی گاڑیوں کا اکثر اسی کے موافق سلسلہ طولانی ہوتا ہے اور اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ وہ دخان کے زور سے چلتی ہے جیسے بادل ہواکے زور سے تیز حرکت کرتا ہے۔ اس جگہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلے کھلے طورپر ریلؔ گاڑی کی طرف اشارہ فرمایا ہے چونکہ یہ عیسائی قوم کا ایجادہے جن کا امام ومقتدا یہی دجّالی گروہ ہے اس لئے اِن گاڑیوں کو دجّال کا گدھا قرار دیا گیا۔ اب اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہو گا کہ علاماتِ خاصہ دجّال کے انہیں لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ انہیں لوگوں نے مکروں اور فریبوں کا اپنے وجود پر خاتمہ کردیا ہے اور دین اسلام کو وہ ضرر پہنچایا ہے جس کی نظیر دنیا کے ابتداء سے نہیں پائی جاتی اور انہیں لوگوں کے متبعین کے پاس وہ گدھا بھی ہے جو دخان کے زور سے چلتا ہے جیسے بادل ہوا کے زور سے۔ اور انہیں لوگوں کے متبعین زمین کو
کہا گیا ہے کہ آخری زمانہ میں قرآن آسمان پر اُٹھایاجائے گا۔ پھر انہیں حدیثوں میں لکھا ہے کہ پھر دوبارہ قرآن کو زمین پر لانے والا ایک مرد فارسی الاصل ہوگا جیسا کہ فرماتا ہے لوکان الایمان معلقًا عند الثریا لنالہ رجل من فارس۔ یہ حدیث درحقیقت اسی زمانہ کی طرف اشارہ کرتی ہے جو آیت 33 میں اشارۃً بیان کیاگیا ہے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 494
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 494
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/494/mode/1up
آباد کرتے جاتے ہیں اور جس ملک ویران پر قبضہ کرتے ہیں اس کو کہتے ہیں کہ تو اپنے خزانے باہر نکال۔ تب ہزارہا وجوہ تحصیل مال کی اُسی ملک سے نکال لیتے ہیں۔زمین کو آباد کردیتے ہیں امن کو قائم کردیتے ہیں۔لیکن وہ تمام خزائن انہیں کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں اور انہیں کے ملک کی طرف وہ تمام روپیہ کھنچا ہوا چلاجاتاہے۔ اس بات کو کون نہیں جانتا کہ مثلًا ملک ہند کے خزانے یورپ کی طرف حرکت کررہے ہیں۔ یورپ کے لوگ آپ ہی ان خزائن کو نکالتے ہیں اور پھر اپنے ملکؔ کی طرف روانہ کرتے ہیں۔
غرض اِن تمام احادیث پر عمیق غورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ کے لئے یہ پیشگوئی فرمائی ہے اور انہی لوگوں کانام دجّال رکھا ہے اور قرآن کریم میں اگرچہ بتصریح کسی جگہ دجّال کے نکلنے کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن کچھ شک نہیں کہ قرآن کریم نے دخان کا ذکر کر کے اسی کے ضمن میں دجّال کو داخل کردیاہے اور پھر اس زمانہ کا بیان بھی قرآن میں ہے کہ جب دنیا میں دخان کے بعد نوراللہ پھیلے گا اور اس نوارنی زمانہ سے مراد وہی زمانہ ہے کہ جب مسیح موعود کے ظہور کے بعد پھر دنیا نیکی کی طرف رُخ کرے گی۔ کچھ شک نہیں کہ یہ زمانہ جو ہنوز دخانی زمانہ ہے سچائی کی حقیقت کو بہت دور چھوڑ گیا ہے اور دجّالی ظلمت نے دلوں پر ایک سخت اثر ڈالا ہے۔ اور کروڑہا مخلوقات شیاطین الانس کے اغوا سے توحید اور راستی اور ایمان سے باہر ہوگئی ہے۔ اب اگر فرض کیاجائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دجّال کی جو عیسائی پادریوں کا گروہ ہے خبر نہیں دی جس کی نظیر دنیا کی ابتداء سے آج تک نہیں پائی جاتیؔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کشفیہ پر سخت اعتراض ہوگا کہ ایسا بڑا فتنہ جو اُن کی اُمّت کے لئے درپیش تھاجس میں نہ ستّرہزار بلکہ ستّر لاکھ سے زیادہ متفرق ملکوں میں لوگ دین اسلام سے انحراف کر چکے ہیں اس کی آنحضرت نے خبر نہیں دی۔ لیکن اگر جیسا کہ شرط انصاف ہے ہم تسلیم کرلیں کہ آنجناب نے اس دجّال کی خبر دی ہے۔ اور
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 495
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 495
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/495/mode/1up
اس کے گدھے کی بھی خبردی ہے جو خشکی اورتری دونو ں کو چیرتا ہوا دور دور ملکوں تک انہیں پہنچاتا ہے اور اُن کے یک چشم ہونے سے بھی اطلاع بخشی ہے اور اُن کی بہشت اور دوزخ اور روٹیوں کے پہاڑ اور خزانوں سے بھی مطلع فرمایا ہے ۔ تو پھر اِن حدیثوں کے سوا جو دجّال کے حق میں ہیں اورکونسی حدیثیں ہمارے پاس ہیں جو اس دعویٰ کی تائید میں ہم پیش کر یں۔ اور اگر ہم موجودہ حدیثوں کو اُن پر وارد نہ کریں بلکہ وہمی اور فرضی طورپر کوئی اوردجّال اپنے دل میں تراش رکھیں جو کسی اَور زمانہ میں ظاہر ہوگا تو پھر ان کے لئے حدیثیں کہاں سے لاویں۔اور ظاہرہے کہ موجود کو چھوڑ کر وہم اور خیال کی طرف دوڑنا بلاشبہ حق پوشی ہے۔ کیونکہ جو موجود ہوگیاہے اور جس کوہم نے بچشم خودؔ دیکھ لیا ہے اور اس کے بے مثل فتنوں کو مشاہدہ کر لیا ہے اور تمام پیشگوئیوں کا اس کو مصداق بھی سمجھ لیا ہے۔ اگر پھر بھی ہم اس کو ان پیشگوئیوں کا حقیقی مورد نہ ٹھہراویں تو گویا ہماری یہ مرضی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی پیشگوئی پوری ہو۔ حالانکہ سلف صالح کا یہ طریق تھا کہ اس بات پر سخت حریص تھے کہ پیشگوئی پوری ہوجائے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کی نسبت کہ حرم کعبہ میں ایک مینڈھا ذبح کیاجائے گا وہ لوگ مینڈھے کے ذبح ہونے کے منتظر نہ رہے بلکہ جب حضرت عبد اللہ ابن زبیر شہید ہوئے تو انہوں نے یقینًا سمجھ لیاکہ یہی مینڈھا ہے حالانکہ حدیث میں انسان کانام نہیں وہاں تو صاف مینڈھالکھا ہے اور اس پیشگوئی کے متعلق بھی جو بخاری اور مسلم میں درج ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے پہلے وہ فوت ہوگی جس کے لمبے ہاتھ ہوں گے انہوں نے زینبؓ کی وفات کے وقت یقین کرلیا کہ پیشگوئی پوری ہوگئی۔ حالانکہ یہ بات اجماعی طورپر تسلیم ہوچکی تھی کہ سودہؓ کے لمبے ہاتھ ہیں وہی پہلے فوت ہوگی۔ اُن بزرگوں نے جب دیکھا کہ پیشگوئی کے الفاظ کو حقیقت پر حمل کرنے سے پیشگوئی ہی ہاتھؔ سے جاتی ہے تو لمبے ہاتھوں سے ایثار اور صدقہ کی صفت مراد لے لی۔ لیکن ہمارے زمانہ کے علماء کو اس بات سے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 496
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 496
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/496/mode/1up
شرم آتی ہے کہ باوجود قرائن قویہ کے بھی کسی حدیث کے ظاہری معنے کو چھوڑ سکیں اور قرآن اور حدیث کو باہم تطبیق دے کر ابن مریم سے روحانی طورپر ابن مریم کا مصداق مراد لے لیں اور دجّال یک چشم سے روحانی یک چشمی کی تعبیر کرلیں اور قرآن کے انکار سے اپنے تئیں بچالیں۔ نہیں سوچتے کہ ابن مریم یا یک چشم کا لفظ بھی اُسی پاک مُنہ سے نکلا ہے جس سے لمبے ہاتھ کا لفظ نکلا تھا بلکہ لمبے ہاتھ کے حقیقی اور ظاہر ی معنے مرادہونے پر تو تصدیقِ نبوی بھی ہو چکی تھی۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو ہی سرکنڈہ کے ساتھ ہاتھ ناپے گئے تھے اور سودہؓ کے ہاتھ سب سے لمبے نکلے تھے اور یہی قرار پایا تھا کہ سب سے پہلے سودہؓ فوت ہوگی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھوں کو ناپتے دیکھ کر بھی منع نہیں فرمایا تھا جس سے اجماعی طورپر سودہؓ کی وفات تمام بیویوں سے پہلے یقین کی گئی۔ لیکن آخر کا ر ظاہری معنے صحیح نہ نکلے۔ جس سے ثابت ہوا کہ اس پیشگوئی کی اصل حقیقت آنحضرت صل اللہ علیہ ؔ وسلم کو بھی معلوم نہیں تھی۔
اگر حال کے علما ء ذراسوچیں اور تواریخ کے صفحہ صفحہ پرنظر ڈالیں اور آدم کے وقت سے آج تک جو قریب چھ ہزار برس کے گذرا ہے جس قدر دین حق کے مقابلہ پر فتنہ اندازیاں ہوئی ہیں اُن کاحال کی فتنہ اندازیوں اور کوششوں سے موازنہ کریں تو خود انہیں اقرار کرنا پڑے گا جو باطل کو حق کے ساتھ ملانے کے لئے جس قدر منصوبے اس عیسائی قوم سے ظہور میں آئے اور آرہے ہیں اس کا کروڑم حصّہ بھی کسی دوسری قوم سے ہرگز ظہور میں نہیں آیا۔ اگرچہ ناحق کے خون کرنے والے ،کتابوں کے جلانے والے ،راستبازوں کو قید کرنے والے بہت گذرے ہیں مگر اُن کے فتنے دلوں کو تہ و بالا کرنے والے نہیں تھے بلکہ مومن لوگ دُکھ اُٹھا کر اَور بھی زیادہ استقامت میں ترقی کرتے تھے۔لیکن اِن لوگوں کا فتنہ دلوں پر ہاتھ ڈالنے والا اور ایمان کو شبہات سے ناپا ک کرنے والا ہے جواعتقادوں کے بگاڑنے کے لئے زہر ہلاہل کا اثر رکھتا ہے۔ خیال کرنے کا مقام ہے کہ جس قوم نے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 497
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 497
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/497/mode/1up
چھ کروڑ کتاب وساوس اور شبہات کے پھیلانے کے لئے اب تک تقسیم کر دی اور آئندؔ ہ بھی بڑی سرگرمی سے یہ کارروائی جاری ہے۔ اس قوم کے مقابل پر کس زمانہ میں کوئی نظیر مل سکتی ہے۔ بلکہ چھ ہزار برس کی مدّت پر نظر ڈالنے سے کوئی نظیر پیدا نہیں ہوئی تو پھر کیا ابھی تک منشائے حدیث کے موافق ثابت نہیں ہوا کہ ان لوگوں کی فتنہ اندازی بے مثل ومانند ہے۔ زمانہ نے آخر کار جس فتنہ عظیمہ کوظاہر کیا وہ یہی فتنہ ہے جس نے لاکھوں مسلمانوں کو گرجاؤں میں بٹھا دیا۔ کروڑہا کتابیں ردّ اسلام میں تالیف ہوگئیں۔سو اس موجودہ فتنہ کو کَاَنْ لَّمْ یَکُن سمجھنا انہیں مولویوں کا کام ہے جن کے دل میں ہرگز یہ خیال نہیں کہ اپنی زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوتی دیکھ لیں۔
بعض نافہم مولوی بطور جرح یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ مسیح ابن مریم کی یہ علامت لکھی ہے کہ دجّال معہود کو وہ قتل کرے گا اور تمام اہل کتاب اس پر ایمان لے آویں گے اور اس خیال کی تائید میں یہ آیت پیش کرتے ہیں 33 ۱؂۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ مسیح کے نزول کے وقت تمام اہل کتاب ایمان لے آئیں گے تو پھر ہم ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ دجّال کفر کی حالتؔ میں ہی قتل کیاجائے گا۔ ماسوا اس کے مسلم کی حدیث میں صاف لکھاہے کہ دجّال کے ساتھ ستّر ہزار اہل کتاب شامل ہوجائیں گے اور اکثر کی اُن میں سے کفر پرموت ہوگی اور مسیح کی وفات کے بعد بھی اکثر لوگ کافر اور بے دین باقی رہ جائیں گے جن پر قیامت آئے گی اور قرآن کریم بھی صریح اور صاف طور پر اس پر شہادت دیتا ہے کیونکہ وہ فرماتاہے۔ 3333 ۲؂
یعنی میں تیرے متبعین کو تیرے منکرین پر یعنی یہود پر قیامت تک غلبہ دوں گا۔ پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ قیامت کے دن تک یہود کی نسل تھوڑی بہت
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 498
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 498
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/498/mode/1up
باقی رہ جا ئے گی اور پھرفرماتا ہے 33 ۱؂ یعنی ہم نے یہود اور نصاریٰ میں قیامت کے دن تک عداوت اور بُغض ڈال دیاہے۔ اس آیت سے بھی صاف طورپر ثابت ہے کہ یہودی قیامت کے دن تک رہیں گے کیونکہ اگر وہ پہلے ہی حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آئیں گے تو پھر سلسلہ عداوت اور بُغض کا قیامت تک کیوں کر ممتدہوگا۔ لہٰذا ماننا پڑا کہ ایسا خیال کہ حضرت مسیح کے نزول کیؔ یہ علامت ہے کہ تمام اہل کتاب اُس پر ایمان لے آویں گے صریح نص قرآن اور حدیث سے مخالف ہے۔
خلاصہ فیصلہ
ہمارا دعویٰ جو الہام الٰہی کی رُو سے پیداہوا اور قرآن کریم کی شہادتوں سے چمکا اور احادیث صحیحہ کی مسلسل تائیدوں سے ہر یک دیکھنے والی آنکھ کونظر آنے لگا وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ جن پر انجیل نازل ہوئی تھی وہ اس عالم سفلی سے انتقال کرگئے اور اس جہانِ فانی کو چھوڑ کر جہان جاودانی کے لوگوں میں جاملے۔ اور اس جسد عنصری کے خواص اور لوازم کو ترک کر کے ان خواص اور لوازم سے متمتع ہو گئے جو صرف اُن لوگوں کو ملتے ہیں جو فوت ہوجاتے ہیں۔ اور ان لذّات سے بہرہ یاب ہوگئے جو محض اُن لوگوں کو دی جاتی ہیں جو موت کے پُل سے گذر کر محبوب حقیقی کو جاملتے ہیں اور کچھ شک نہیں کہ جو شخص اس عالم کے لوگوں کو چھوڑ تا ہے اور عالم ثانی کے لوگوؔ ں سے جا ملتا ہے اور اس عالم کے لوازم اور خواص چھوڑتا ہے اور عالم ثانی کے لوازم اور خواص قبول کرلیتا ہے اور اس عالم کی لذّات قطعًا چھوڑتا ہے اور عالم ثانی کے لذات پالیتا ہے اور اس عالم کے مؤثرات ارضی وسماوی چھوڑتا ہے اور عالم ثانی کی غیر متبدّل زندگی حاصل کرتا ہے اور اِس عالم سے بکلّی گم اور ناپدید ہوجاتاہے اور اُس عالم میں ظہور فرماہوتا ہے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 499
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 499
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/499/mode/1up
وہی ہے جس کو دوسرے لفظوں میں کہتے ہیں کہ مر گیا۔ اور اس بات میں کچھ بھی شبہ نہیں کہ یہ تبدیلی جو بہ تغیّر الفاظ موت کے نام سے موسوم ہے۔ حضرت مسیح کی دنیوی زندگی پر وارد ہوچکی ہے اور اس تبدیلی کے ضروری لوازم میں وہ اپنے اُن دوسرے بھائیوں سے کسی بات میں کم نہیں ہیں جو دنیا و مافیہا کو چھوڑ گئے۔ اس عالم کے لوگ جو مرنے کے بعد اُس جگہ پہنچتے ہیں اُن کی یہ علامات خاصہ ہیں کہ وہ نہ سوتے ہیں اور نہ اس عالم کی روٹی کھاتے ہیں اورنہ پانی پیتے ہیں اور نہ وہ بیمار ہوتے ہیں نہ انہیں پاخانہ اور پیشاب کی ضرورت ہوتی ہے نہ بالوں اور ناخنوں کے کٹانے کی انہیں حاجت پڑتی ہے اور نہ روشنی کے لئے وہ سورج اور ؔ چاند کے محتاج ہوتے ہیں اور نہ اُن پر زمانہ اثرکرتا ہے اور نہ ہوا کے ذریعہ سے وہ دم لیتے ہیں اور نہ کسی روشنی کے ذریعہ سے وہ دیکھتے ہیں۔ ایسا ہی وہ ہوا کے ذریعہ سے سنتے بھی نہیں اور نہ سونگھتے ہیں اور نہ توالد تناسل پر قادر ہوتے ہیں۔ غرض ایک پورا انقلاب اُن کی ہستی پر وارد ہوجاتا ہے جس کانام موت رکھا گیا ہے۔ اُن کو جسم تو دیاجاتاہے مگر وہ جسم اس عالم کے خواص اور لوازم نہیں رکھتا۔ ہاں وہ بہشت میں کھاتے پیتے بھی ہیں مگر وہ اس عالم کا طعام او ر شراب نہیں جس کا جسم عنصری محتاج ہے بلکہ وہ ایسی نعمتیں ہیں جو نہ آنکھوں نے دیکھیں اور نہ کانوں نے سُنیں اور نہ دلوں میں کبھی گذریں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح مرے نہیں اور اسی دنیوی زندگی کے ساتھ کسی آسمان پر بیٹھے ہیں تو کیا تمام لوازم جسم خاکی کے اُن میں خصوصیت کے ساتھ موجود ہیں جو دوسروں میں نہیں پائے جاتے۔ کیا وہ کبھی سوتے اور کبھی جاگتے ہیں اور کبھی اُٹھتے ہیں اور کبھی بیٹھتے ہیں اور کبھی دنیوی شراب اور طعام کو کھاتے پیتے ہیں اور کیا وہ اوقات ضروریہ میں پاخانہ پھرتے اور پیشاب بھی کرؔ تے ہیں اور کیا وہ ضرورتوں کے وقت ناخنوں کو کٹاتے اور بالوں کو منڈواتے یا قصر شعر کرواتے ہیں۔ کیا اُن کے لیٹنے کے لئے کوئی چار پائی اور کوئی بستر بھی ہے۔ کیا وہ ہوا کے ساتھ دم لیتے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 500
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 500
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/500/mode/1up
ور ہوا کے ذریعہ سے سونگھتے اور ہوا ہی کے ذریعہ سے سنتے اور روشنی کے ذریعہ سے دیکھتے ہیں۔ اور کیا وہ زمانہ کے اثر سے اب بڈھے ہوگئے ہیں ؟تو بلاشبہ اس کا جواب یہی دیا جائے گا کہ دنیوی ہستی کے لوازم اور خواص اُن میں باقی نہیں رہے بلکہ وہ ہریک حالت میں اُن لوگوں کے ہمرنگ ہیں جو اس دُنیا کو فوت ہونے کی وجہ سے چھوڑ گئے ہیں اور نہ صرف ہمرنگ بلکہ اس فوت شدہ جماعت میں داخل ہیں۔ سو اس جواب سے تو اُن کی موت ہی ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ جبکہ انہوں نے فوت شدہ لوگوں کی طرح عالم ثانی کی زندگی کے تمام لوازم اختیار کرلئے جو فوت شدہ لوگوں کی علامات میں سے ہیں اور نہ صرف اختیار ہی کئے بلکہ اس جماعت میں جاملے اور فرمان 3 ۱؂ کا قبول کر کے 3 ۲؂ کا مصداق ہوگئے۔ تو اب بھی اگر اُن کو فوت شدہ نہ کہا جائے تو اَور کیا کہا جاوے۔ ظاہرہے کہؔ عالم دو ہی ہیں۔
ایک یہ دنیا کا عالم۔ جب تک انسان اس عالم میں ہوتا ہے اور اس عالم کے لوازم جیسے کھانا پینا پہننا دم لینا جاگنا سونا اور بدنی نشوونما یا تحلیل کی وجہ سے معرض تغیّر میں ہونا اس کے شامل حال ہوتے ہیں اُس وقت تک اُس کو زندہ کہاجاتا ہے اور جب یہ لوازم بکلّی اس سے دورہوجاتے ہیں تب سب بول اُٹھتے ہیں کہ مر گیا اور پھر بمجرّد موت کے عالم ثانی کے لوازم اُس میں پیدا ہوجاتے ہیں بلکہ حق تو یہ ہے کہ جس جماعت میں انسا ن داخل ہوتا ہے اسی جماعت کے حالات پر اس کے حالات کا قیاس کیاجاتا ہے جو شخص اس دنیا کے لوگوں میں داخل ہے وہ اسی دنیا میں سے سمجھاجائے گا او رجو شخص اس دنیا کو چھوڑگیا او رعالم ثانی کی جماعت میں جاملا وہ اسی جماعت میں سے خیال کیاجائے گا۔اب دیکھ لینا چاہیئے کہ مسیح کس جماعت میں داخل ہے جس جماعت میں داخل ہوگا اسی جماعت کے احکام اس پر وارد ہوں گے۔ خدائے تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کوئی شخص فوت شدہ جماعت میں بغیر فوت ہونے کے داخل نہیں ہو سکتا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 501
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 501
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/501/mode/1up
لیکن یہ بات صحیح بخاری سے بھی معلوم ہوؔ چکی ہے کہ مسیح ابن مریم فوت شدہ جماعت میں داخل ہے اوریحییٰ بن زکریا کے ساتھ دوسرے آسمان میں موجود ہے۔ اورخدائے تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ کوئی شخص میری طرف بغیر مرنے کے آنہیں سکتا۔لیکن کچھ شک نہیں کہ مسیح اس کی طرف اُٹھایا گیا سو وہ ضرور مر گیا۔خدائے تعالیٰ نے اپنی پاک کلام میں اس کو 33 ۱؂ سے پکارا ہے۔ سو لفظ متوفّی جن عام معنوں سے تمام قرآن اور حدیثوں میں مستعمل ہے وہ یہی ہے کہ روح کو قبض کرنا اورجسم کو معطّل چھوڑ دینا یہ بڑے تعصّب کی بات ہے کہ تمام جہان کے لئے تو توفّی کے یہی معنے روح قبض کرنے کے ہوں لیکن مسیح ابن مریم کے لئے جسم قبض کرنے کے معنے لئے جاویں۔کیا ہم خاص عیسیٰ کے لئے کوئی نئی لغت بنا سکتے ہیں جو کبھی اللہ اور رسول کے کلام میں مستعمل نہیں ہوئی اورنہ عرب کے شعراء اور زبان دان کبھی اس کو استعمال میں لائے۔ پھر جس حالت میں توفّیکے یہی شائع متعارفہ معنے ہیں کہ روح قبض کی جائے خواہ بطور ناقص یابطور تام۔ تو پھر رفع سے رفع جسد کیوں مراد لیاجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جس چیز پر قبضہ کیاجائے گا رفع بھی اُسی کا ہوگا۔ نہؔ یہ کہ قبض تو روح کا ہو اورجسم کا رفع کیاجائے۔ غرض برخلاف اس متبادر اور مسلسل معنوں کے جو قرآن شریف سے توفی کے لفظ کی نسبت اوّل سے آخر تک سمجھے جاتے ہیں ایک نئے معنے اپنی طرف سے گھڑنا یہی تو الحاد اور تحریف ہے۔خدائے تعالیٰ مسلمانوں کو اس سے بچاوے اگر یہ کہاجاوے کہ توفّی کے معنے تفسیروں میں کئی طور سے کئے گئے۔ تو میں کہتا ہوں کہ وہ مختلف اور متضاد اقوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان سے نہیں لئے گئے ورنہ ممکن نہ تھا کہ وہ بیان جو چشمۂ وحی سے نکلا ہے اس میں اختلاف اور تناقض راہ پا سکتا بلکہ وہ مفسرین کے صرف اپنے اپنے بیانات ہیں جن سے ثابت ہوتاہے کہ کبھی اُن کا کسی خاص معنے پر اجماع نہیں ہوا۔ اگر ان میں سے کسی کو وہ بصیرت دی جاتی جو اس
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 502
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 502
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/502/mode/1up
عاجز کو دی گئی تو ضرور اسی ایک بات پر اُن کااجماع ہوجاتا لیکن خدائے تعالیٰ نے ا س قطعی اور یقینی علم سے اُن کو محروم رکھاتا اپنے ایک بندہ کو کامل طورپر یہ علم دے کر آدم صفی اللہ کی طرح اس کی علمی فضیلت کا ایک نشان ظاہر کرے۔
اگر یہ کہاجائے کہ اکثر مفسّرین مسیح ابن مریم کی موت کے تو ؔ قائل ہیں لیکن یہ بھی تو کہتے ہیں کہ بعد اس کے زندہ ہوگئے۔ا س کے جواب میں مَیں کہتا ہوں کہ جن بزرگوں کو مسیح ابن مریم کے فوت ہونے کے بعد اُس کے زندہ ہوجانے کا اعتقاد ہے وہ ہرگز اس بات کے قائل نہیں کہ مسیح کومرنے کے بعد دنیوی زندگی ملی تھی بلکہ وہ خود مانتے ہیں کہ مسیح کو مرنے کے بعد ایسی زندگی ملی تھی جو دنیوی زندگی سے بالکل مبائن اور مغائر اور عالم ثانی کی زندگی کے قسم میں سے تھی اور اس زندگی کے قسم میں سے تھی جو فوت کے بعد حضرت یحییٰ کو ملی، حضرت ادریس کو ملی، حضرت یوسف کو ملی، حضرت ابراہیم کو ملی، حضرت موسیٰ کو ملی، حضرت آدم کو ملی، اور جو سب سے زیادہ تر ہمارے سیّد و مولیٰ نبی عربی ہاشمی امّی کو ملی صلی اللّٰہ علیہ وعلی اٰلہ و اخوانہ اجمعین۔
اور اگر کوئی کہے کہ نہیں صاحب وہ زندگی جو مسیح کو مرنے کے بعد ملی وہ حقیقت میں دنیوی زندگی تھی تو ایسے قائل کو اس بات کا مان لینا لازم ہوگا کہ مسیح میں دنیوی زندگی کے لوازم موجود ہیں اور وہ اس عالم کے زندوں کی طرح ہوا کے ذریعہ سے دم لیتا ہے اور ہوا کے ذریعہ سے سونگھتا اور ہوا کے ذریعہ سے آوازیں سُنتا اور کھاتا پیتا اور تمام مکروہات، پیشاؔ ب اور پاخانہ وغیرہ کے اس کو لگے ہوئے ہیں لیکن قرآن شریف تو ان سب کی اُسکی ذات سے نفی کرتا ہے اور حدیثیں صاف اور بلند آواز سے کہہ رہی ہیں کہ مسیح کی زندگی تمام گذشتہ اور فوت شدہ نبیوں کی زندگی سے بالکل ہمرنگ ہے۔ چنانچہ معراج کی حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے اور عیسائی لوگ بھی باوجود اس کے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 503
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 503
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/503/mode/1up
کہ اُن کومسیح کے فوت ہونیکے بعد زندہ اُٹھائے جانے پر بڑا اصرار ہے ہرگز یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ آسمانوں میں دنیوی زندگی سے عمر بسر کرتے ہیں بلکہ محض موسیٰ اور داؤد اور دوسرے نبیوں کی زندگی کی مانند مسیح کی زندگی خیال کرتے ہیں کیونکہ مسیح کو خود اس بات کا اقرار ہے۔
اس جگہ یہ بھی ظاہر رہے کہ توفی کے معنے وفات دینے کے صرف اجتہادی طورپر ہم نے معلوم نہیں کئے بلکہ مشکٰوۃ کے باب الحشر میں بخاری اور مسلم کی حدیث جو ابن عباس سے ہے صریح اور صاف طور پر اُس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آیت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کی یہی تفسیر فرماتے ہیں کہ درحقیقت اس سے وفات ہی مراد ہے۔ بلکہ اسی حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ سوال حضرت مسیح سے عالم برزخ میں اُن کی وفاؔ ت کے بعد کیاگیا تھا نہ یہ کہ قیامت میں کیاجائے گا۔ پس جس آیت کی تفسیر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی کھول دیا پھر اگر کوئی تفسیر نبوی کو بھی سُن کر شک میں رہے تو اس کے ایمان اور اسلام پر اگر افسوس اور تعجب نہ کریں تو اَور کیاکریں۔ دیکھو اس حدیث کو امام بخاری انہیں معنوں کی طرف اشارہ کرنے کی غرض سے اپنی صحیح کی کتاب التفسیر میں لایا ہے۔ دیکھو صفحہ ۶۶۵ بخاری۔
بعض صاحب اِن سب دلائل شافیہ کو سُن کر حضرت مسیح کی وفات کے قائل تو ہوجاتے ہیں مگر پھر وہ دوبارہ یہ وہم پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ ان کو زندہ کر کے پھر قبر میں سے اُٹھاوے۔ ہم اس وہم کے جواب میں کئی دفعہ بیان کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم اوراحادیث صحیحہ میں وعدہ کرچکا ہے کہ جو شخص ایک دفعہ مرچکااور واقعی موت جو اس کے لئے مقدّر تھی اس پر وارد ہوچکی پھر دوبارہ دنیامیں نہیں بھیجا جائے گا اور نہ دنیا میں دوموتیں اُس پر وارد کی جائیں گی۔ اس جواب کے سننے کے بعد پھر وہ ایک اَور وہم پیش کرتے ہیں کہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض مردے زندہ ہوگئے۔ جیسے وہ مُردہ جس کا خون بنی اسرائیل نے چھپا لیا تھاجس کا ذکر اس آیت میں ہے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 504
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 504
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/504/mode/1up
اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے قصّوں میں قرآن شریف کی کسی عبارت سے نہیں نکلتا کہ فی الحقیقت کوئی مردہ زندہ ہوگیا تھا اور واقعی طورپر کسی قالب میں جان پڑ گئی تھی۔ بلکہ اس آیت پر نظر غور کرنے سے صرف اس قدر ثابت ہوتاہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نے ایک خون کر کے چھپا دیا تھا اور بعض بعض پر خون کی تہمت لگاتے تھے۔ سو خدائے تعالیٰ نے اصل مجرم کے پکڑنے کے لئے یہ تدبیر سمجھائی تھی کہ تم ایک گائے کو ذبح کرکے اس کی بوٹیاں اس لاش پر مارو۔ اور وہ تمام اشخاص جن پر شبہ ہے ان بوٹیوں کونوبت بہ نوبت اس لاش پر ماریں۔ تب اصل خونی کے ہاتھ سے جب لاش پر بوٹی لگے گی تو لاش سے ایسی حرکات صادرہوں گی جس سے خونی پکڑا جائے گا۔
اب اس قصّہ سے واقعی طور پر لاش کا زندہ ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ صرف ایک دھمکی تھی کہ تا چور بیدل ہوکر اپنے تئیں ظاہر کرے۔ لیکن ایسی تاویل سے عالم الغیب کا عجز ظاہر ہوتا ہے اور ایسی تاویلیں وہی لوگ کرتے ہیں کہ جن کو عالم ملکوت کے اسرارسےؔ حصّہ نہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ طریق علم عمل الترب یعنی مسمریزم کا ایک شعبہ تھاجس کے بعض خواص میں سے یہ بھی ہے کہ جمادات یا مردہ حیوانات میں ایک حرکت مشابہ بحرکت حیوانات پیدا ہو کر اس سے بعض مشتبہ اور مجہول امور کا پتہ لگ سکتاہے۔ ہمیں چاہئیے کہ کسی سچائی کو ضائع نہ کریں اور ہریک وہ حقیقت یا خاصیت جو عین صداقت ہے اس کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے سمجھیں۔ علم عمل الترب ایک عظیم الشان علم ہے جو طبیعی کا ایک روحانی حصہ ہے جس میں بڑے بڑے خواص اور عجائبات پائے جاتے ہیں۔ اور اس کی اصلیت یہ ہے کہ انسان جس طرح باعتبار اپنے مجموعی وجود کے تمام چیزوں پر خلیفۃ اللہ ہے اور سب چیزیں اس کے تابع کردی گئی ہیں اسی طرح انسان جس قدر اپنے اندر انسانی قویٰ رکھتا ہے تمام چیزیں ان قویٰ کی اس طرح پر تابع ہیں کہ شرائط مناسبہ کے ساتھ ان کا اثر قبول کرلیتی ہیں۔ انسان قوت فاعلہ کے ساتھ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 505
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 505
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/505/mode/1up
دنیا میں بھیجا گیا ہے اور دوسری چیزیں قوت منفعلہ رکھتی ہیں۔ ادنیٰ اثر انسان کی قوتِ فاعلہ کا یہ ہے کہ ہریک جاندار اس سے ایسا ہِل سکتا ہے کہ اس کے خادموں میں اپنے تئیں شمار کرلیتا ہے اورؔ اس کا مسخر ہو جاتا ہے۔فطرت نے جن انسانوں کو قوت فاعلہ کا بہت ساحصہ دیا ہے اُن سے عمل الترب کے عجیب عجیب خواص ظاہر ہوتے ہیں۔ درحقیقت انسان ایک ایساجانور ہے کہ اس کے ظاہری اور باطنی قویٰ ترقی دینے سے ترقی پذیر ہو سکتے ہیں اور ان کی قوت فاعلی کا اثر بڑھ جاتا ہے۔ مثلًا جن لوگوں کو ہمارے ملک میں ڈائن کہتے ہیں ان کی صرف اس قدر حقیقت ہے کہ ان کی زہریلی نظر سے ضعیف الخلقت لوگ بچے وغیرہ کسی قدر متاثر ہوجاتے ہیں۔ بعض لوگ اپنی زہریلی نظر سے درندوں کو مغلوب اور متاثر کر کے آسانی سے اُن کا شکار کرلیتے ہیں۔ بعض اپنے تصّورات تربی مشق کی وجہ سے دوسرے کے دل میں ڈال دیتے ہیں۔ بعض اپنی کیفیت ذوقی کا اثر اسی عمل کے زور سے دوسرے کے دل تک پہنچا سکتے ہیں۔ بعض بے جان چیزوں پر اثرڈال کر ان میں حرکت پیدا کر دیتے ہیں۔ چنانچہ زمانہ حال میں بھی ان باتوں میں مشق رکھنے والے بہت نظر آتے ہیں۔ بعض کٹے ہوئے سر بکر ی وغیرہ کے عمل الترب کے زور سے ایسی حرکت میں لاتے ہیں کہ وہ ناچتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ بعض عمل الترب کے زور سے چوروں کا پتہ لگا لیتے ہیں۔قرآن شریفؔ یالوٹے کو حرکت دے کر جو چور کا پتہ نکالتے ہیں حقیقت میں یہ عمل الترب کی ایک شاخ ہے۔ اگرچہ اس کی شرائط ضروریہ کے نہ پائے جانے کی وجہ سے غلطی واقع ہو۔ چنانچہ اسی وجہ سے بکثرت غلطی واقع ہوتی بھی ہے لیکن یہ غلطی اس عمل کی عزت اور عظمت کو گھٹا نہیں سکتی کیونکہ بہت سے تجارب صحیحہ سے اس کی اصلیت ثابت ہوچکی ہے۔ بے شک انسانی حیات اور شعور کا اثر دوسری چیزوں پر بھی پڑ سکتا ہے اورانسا ن کی قوت کشفی کا پرتوہ جمادات یا کسی مردہ حیوان پر پڑ کر اس کو بعض مجہولات کے استکشاف کا آلہ بنا سکتاہے۔ چنانچہ قضیہ مذکورہ بالا جس کا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 506
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 506
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/506/mode/1up
آیت مذکورہ بالا میں ذکر ہے اسی قسم میں سے ہے اور بعد میں جو آیت ہے 33 ٰ۱؂ یہ حیات حقیقی کا ثبوت نہیں بلکہ ایک اعجوبہ قدرت کے ثابت ہونے سے دوسری قدرت کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ جابجا قرآن شریف میں یہی طریق ہے یہاں تک کہ نباتات کے اُگنے کو احیاء موتٰی پردلیل ٹھہرائی گئی ہے اور یہی آیت 33 ان مقامات میں بھی لکھی گئی ہے۔ اوریاد رکھنا چاہیئے کہ جو قرآن کریم میں چار پرندوں کا ذکر لکھا ہے کہ ان کو اجزاء متفرقہ یعنی جدا جدا کرؔ کے چار پہاڑیوں پر چھوڑا گیا تھا اورپھر وہ بلانے سے آگئے تھے یہ بھی عمل الترب کی طرف اشارہ ہے کیونکہ عمل الترب کے تجارب بتلا رہے ہیں کہ انسان میں جمیع کائنات الارض کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے ایک قوت مقناطیسی ہے اور ممکن ہے کہ انسان کی قوتِ مقناطیسی اس حد تک ترقی کرے کہ کسی پرند یا چرند کو صرف توجہ سے اپنی طرف کھینچ لے۔ فتدبّر و لا تغفل۔
اب پھر ہم اصل بحث کی طرف رجوع کرکے کہتے ہیں کہ تمام مقدّس لوگ جو اس دنیا سے رخصت ہوگئے وہ دوسرے جہان میں زندہ ہیں۔ چنانچہ جب مسیح سے قیامت کے منکروں نے سوال کیا کہ مُردوں کے جی اُٹھنے پر کیا دلیل ہے تو مسیح نے یہی جواب دیا کہ خدائے تعالیٰ توریت میں فرماتا ہے کہ ابراہیم کا خدا اسحٰق کا خدا یعقوب کا خدا۔ سو خدا زندوں کا خدا ہوتاہے نہ مُردوں کا۔ اس سے مسیح نے اس بات کا اقرار کر لیا کہ ابراہیم اور اسحٰق اور یعقوب سب زندہ ہیں۔ اور لعاذر کے قصہ میں بھی مسیح نے ابراہیم کا زندہ ہونا مان لیا ہے اور اب تک عیسائی لوگ اس بات کا ثبوت نہیں دے سکے کہ مسیح کی زندگی کو ابراہیم کی زندگی پر کیا ترجیح ہے اور مسیح کی زندگی میں وہ ؔ کون سے خاص لوازم ہیں جو ابراہیم کی زندگی میں نہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر ابراہیم کو ایک جسم نہ ملتا تو لعاذر اُس کی گود میں کیوں کر بیٹھتا۔ مسیح نے انجیل میں خو د اقرار کرلیا کہ ابراہیم جسم کے سمیت عالم ثانی میں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 507
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 507
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/507/mode/1up
موجود ہے پھر مسیح کے جسم میں کونسی انوکھی بات ہے تا کوئی منصف یقین کرلیوے کہ مسیح تو جسم خاکی عنصری رکھتا ہے مگر ابراہیم کا نورانی جسم ہے۔ ہاں اگر یہ ثابت ہوجائے کہ مسیح کے جسم میں خاکی جسم کے لوازم موجود ہیں۔ جیسے روٹی کھانا۔ پانی پینا۔ پیشاب کرنا پاخانہ پھرنا وغیرہ وغیرہ اور ابراہیم کے جسم میں یہ لوازم موجود نہیں تو بھلاپھرکون ہے کہ اس ثبوت کے بعد پھر برسر انکار رہے۔ لیکن اب تک یہ ثبوت نہ عیسائی لوگ پیش کر سکے اور نہ مسلمانوں میں سے کسی نے پیش کیا بلکہ دونوں فریق کو صاف اقرار ہے کہ مسیح کی زندگی دوسرے نبیوں کی زندگی سے صاف متحد الحقیقت اور ہمرنگ اور ایک ذرہ مابہ الامتیاز درمیان نہیں۔ پھر بھلا ہم کیوں کر مان لیں کہ مسیح کسی نرالے جسم کے ساتھ آسمان پر بیٹھاہے اور دوسرے سب بغیر جسم کے ہیں۔ ہم کو محض جبر اورتحکم کی راہ سے یہ سنایاجاتاہے کہ اسی بات پرتماؔ م اُمت کا اجماع ہے۔لیکن جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سلف اور خلف کا تو کسی ایک بات پر اتفاق ہی نہیں تو ہم کیوں کر قبول کر لیں کہ ہاں اجماع ہی ہے۔ بھلا اگر مسیح کی زندگی پر کسی کا اجماع ہے تو ایک قول تو دکھلاؤ جس میں سلف کے لوگوں نے مسیح کی زندگی ایک دنیوی زندگی قرار دی ہو اور دنیوی زندگی کے لوازم اُس میں قبول کر لئے ہو ں او ردوسروں کو اس سے باہر رکھا ہو۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس بات پر تمام خلف و سلف کا اجماع معلوم ہوتا ہے کہ مسیح ا س عالم کو چھوڑکر دوسرے عالم کے لوگوں میں جا ملا ہے اور بلا کم وبیش انہیں کی زندگی کے موافق اس کی زندگی ہے گو بعض نے نادانی سے مسیح کی موت سے انکار کیا ہے مگر باوجود اس کے قبول کر لیا ہے کہ وہ مرنے والے لوگوں کی طرح اس عالم کو چھوڑ گیا ہے اوراس جماعت میں جا ملا جو مر گئے ہیں اور بکلّی اُن کے رنگ میں ہوگیا۔ بھلا کوئی دانشمند اُن سے پوچھے کہ اگر یہ موت نہیں تو اَور کیا ہے جس نے دُنیا کے عالم کو چھوڑ دیا اور دوسرے عالم میں جا پہنچا اور دنیا کے لوگوں کو چھوڑ دیا اور دوسرے جہان کے لوگوں میں سے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 508
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 508
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/508/mode/1up
ایک ہوگیا۔ اگر اس کو فوت شد ہ نہ کہیں تو اَور کیا کہیں۔
اورؔ ہم لکھ چکے ہیں کہ قرآن کریم مسیح ابن مریم کواپنی آیات کے تیس مقامات میں مار چکاہے اور کیا عبارت النص کے طور پر اور کیا اشارۃ النص کے طور پر۔ کیا فحوائے نص کے طور پر ان کی موت پر شہادت دے رہا ہے۔اور ایک بھی ایسی آیت نہیں پائی جاتی جو اُن کے زندہ ہونے اور زندہ اُٹھائے جانے پر ایک ذرّہ بھی اشارہ کرتی ہو۔ ہاں بعض بے اصل اور بیہُودہ اقوال تفسیروں میں پائے جاتے ہیں جن کی تائید میں نہ کوئی آیت قرآن کریم کی پیش کی گئی ہے اورنہ کوئی حدیث معرض بیان میں لائی گئی ہے اور بااینہمہ ان اقوال کی بنا یقین پرنہیں کیوں کہ انہیں تفسیروں میں بعض اقوال کے مخالف بعض دوسرے اقوال بھی لکھے ہیں۔ مثلًا اگر کسی کا یہ مذہب لکھا ہے کہ مسیح ابن مریم جسد عنصری کے ساتھ زندہ ہی اٹھایا گیا تو ساتھ ہی اس کے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ بعض کا یہ بھی مذہب ہے کہ مسیح فوت ہوگیا ہے۔ بلکہ ثقات صحابہ کی روایت سے فوت ہوجانے کے قول کو ترجیح دی ہے۔ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہی مذہب بیان کیا گیا ہے۔
رہی حدیثیں سو اُن میں کسی جگہ بیان نہیں کیا گیا کہ مسیح ابنؔ مریم جو رسول اللہ تھا جس پر انجیل نازل ہوئی تھی جو فوت ہو چکا ہے درحقیقت وہی عالم آخرت کے لوگوں میں سے نکل کر پھر اس دنیا کے لوگوں میں آجائے گا بلکہ حدیثوں میں ایک ایسی طرز اختیار کی گئی ہے جس سے ایک دانا انسان صریح سمجھ سکتا ہے کہ مسیح ابن مریم سے مراد مسیح ابن مریم نہیں ہے بلکہ اس کی صفات خاصہ میں کوئی اس کا مثیل مراد ہے۔ کیونکہ احادیث صحیحہ میں دو پہلو قائم کر کے ایک پہلو میں یہ ظاہرکرنا چاہا ہے کہ اسلام تنزّل کرتا کرتا اس حد تک پہنچ جائے گا کہ اس وقت کے مسلمان اُن یہودیوں کے مشابہ بلکہ بعینہٖ وہی ہوجائیں گے جو حضرت مسیح ابن مریم کے وقت میں موجود تھے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 509
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 509
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/509/mode/1up
پھر دوسرے پہلو میں یہ ظاہر کیا ہے کہ اس تنزّل کے زمانہ میں کہ جب مسلما ن لوگ ایسے یہودی بن جائیں گے کہ جو عیسیٰ بن مریم کے وقت میں تھے تو اُس وقت اُن کی اصلاح کے لئے ایک مسیح ابن مریم بھیجا جائے گا۔ اب ظاہر ہے کہ اگراس پیشگوئی کے وہ دونوں ٹکڑے اکٹھے کر کے پڑھے جائیں جو ایک طرف اس اُمّت میں یہودیت کوقائم کرتے ہیں اور دوسری طرف مسیحیت کو۔ تو پھر اس بات کے سمجھنے کے لئےؔ کوئی اشتباہ باقی نہیں رہتا کہ یہ دونوں صفتیں اسی اُمّت کے افراد کی طرف منسوب ہیں اور ان حدیثوں کی قرآن کریم کے منشاء سے اسی صورت میں تطبیق ہوگی کہ جب یہ دونوں صفتیں اسی اُمّت کے متعلق کی جائیں کیونکہ جیساکہ ہم بیان کرچکے ہیں قرآن شریف وعدہ فرما چکا ہے کہ خلافت محمد یّہ کا سلسلہ باعتبار اوّل اور آخر کے بعینہٖ خلافت موسویہ کے سلسلہ سے مماثل ومشابہ ہے یعنی اس اُمت کے اعلیٰ اورادنیٰ افراد کا بنی اسرائیل کی اُمّت سے تشابہ قلوب ہے اعلیٰ کی اعلیٰ سے اور ادنی کی ادنیٰ سے۔اور یہ دونوں سلسلے اپنی ترقی اور تنزّل کی حالت میں بالکل باہم مماثل اورمشابہ ہیں اور جیسا کہ موسوی شریعت چودہ سو برس کے قریب عمر پا کر اس مدت کے آخری ایام میں اوج اقبال سے گر گئی تھی اور ہریک بات میں تنزّل راہ پاگیا تھاکیا دنیوی حکومت و سلطنت میں اور کیا دینی تقویٰ اور طہارت میںیہی تنزّل اسی مدّت کے موافق اسلامی شریعت میں بھی راہ پاگیا۔ اور موسوی شریعت میں تنزّل کے ایا م کا مصلح جو منجانب اللہ آیا وہ مسیح ابن مریم تھا۔ پس ضرور تھا کہ دونو سلسلہ میںؔ پور ی مماثلت دکھلانے کی غرض سے اسلامی تنزّل کے زمانہ میں بھی کوئی مصلح مسیح ابن مریم کے رنگ پر آتا اور اسی زمانہ کے قریب قریب آتا جو موسوی شریعت کے تنزّل کا زمانہ تھا۔ یہ وہ تمام باتیں ہیں جو قرآن شریف سے مترشح ہوتی ہیں۔ جب ہم قرآن شریف پر غورکریں تو گویا وہ دونوں ہاتھ پھیلا کر ہمیں بتلا رہا ہے کہ یہی سچ ہے تم اس کو قبول کرو۔ لیکن افسوس کہ ہمارے علماء سچائی کو دیکھ کر پھر اُس کو
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 510
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 510
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/510/mode/1up
قبول نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ کیا پہلے علماء میں یہ سمجھ اور فہم نہیں تھا جو تمہیں دیا گیا اور آپ ہی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ جب مسیح ابن مریم آئے گا تو وہ ایسے ایسے استنباط قرآن سے کرے گا جو علماء وقت کی نظر میں اجنبی معلوم ہوں گے اور اسی وجہ سے وہ آمادہ مخالفت ہوجائیں گے۔ دیکھو مجلد ثانی مکتوبات امام ربّانی صفحہ ۱۰۷۔ اور کتاب آثار القیامۃ مولوی صدیق حسن صاحب مرحوم۔ اب کیا ضرور نہ تھا کہ ایسا ہی ہوتا اور وہ قرائن جن سے ثابت ہوتا ہے کہ احادیث کا ہرگز یہ منشاء نہیں کہ مسیح ابن مریم سے بنی اسرائیل صاحبِ انجیل مراد ہے بہ تفصیل ذیل ہیں۔
اوّلؔ ۔یہی جو اوپر لکھاگیا ہے کہ ایسا خیال قرآن کریم کی اُن پیشگوئیوں کے مخالف ہے جن میں خلافت موسویہ اور خلافت محمدیہ کی ترقی اور تنزّل کا سلسلہ معہ اُس کے تمام لوازم کے ایک ہی طرز پر واقع ہونا بیان فرمایا گیا ہے اور صریح بلند آواز سے بتلایا گیاہے کہ اسلامی شریعت کے تنزّل کے زمانہ کا تدارک ایسی طرز اور نہج سے اوراُسی رنگ کے مصلح سے کیاجائے گا جیسا کہ موسوی شریعت کے تنزّل کے زمانہ کے وقت کیا گیا تھا۔ یعنی اللہ جلَّ شَانُہٗ کا قرآن کریم میں منشاء یہ ہے کہ اسی شریعت کے مصلح جو اس دین میں پیدا ہوں گے شریعت موسوی کے مصلحین سے متشابہ اور متماثل ہوں گے اور جو کچھ خدائے تعالیٰ نے موسوی شریعت کی ترقی اور تنزّل کے زمانہ میں کارروائیاں کی تھیں وہی کارروائیاں اس اُمت کی ترقی اور تنزّل کے زمانہ میں کرے گا اور جو کچھ اس کی مشیّت نے تنزّل کے زمانہ میں یہودیوں پر کسل اور ضلالت اور تفرقہ وغیرہ کا اثر ڈالا تھا اور پھر اس کی اصلاح کے لئے ایک بردبار اور دقیقہ رس اور روح سے تائید یافتہ مصلح دیاتھا۔ یہی سُنّت اللہ اسلام کے تنزّل کی حالت میں ظہور میں آئے گی۔ اب اگر اس منشاء کے مخالف اصلؔ مسیح ابن مریم کو ہی دوبارہ زمین پر اُتارا جائے تو قرآن شریف کی تعلیم سے صریح مخالفت ہے۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 511
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 511
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/511/mode/1up
دوم۔ قرآن شریف قطعی طورپر عیسیٰ ابن مریم کی موت ثابت وظاہر کرچکا ہے صحیح بخاری جو بعد کتاب اللہ اصح الکتب سمجھی گئی ہے۔ اس میں فلمّا توفّیتنی کے معنی وفات ہی لکھے ہیں۔ اِسی وجہ سے امام بخاری اس آیت کو کتاب التفسیر میں لایا ہے۔
سوم۔ قرآن کریم کئی آیتوں میں بتصریح فرما چکاہے کہ جو شخص مر گیا پھر وہ دنیا میں کبھی نہیں آئے گا۔لیکن نبیوں کے ہمنام اس اُمت میں آئیں گے۔
چہارم۔ قرآن کریم بعد خاتم النبییّن کے کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا خواہ وہ نیا رسول ہویا پُرانا ہو۔ کیونکہ رسول کو علمِ دین بتوسط جبرائیل ملتا ہے او رباب نزول جبرائیل بہ پیرایہ وح ئ رسالت مسدود ہے۔ اور یہ بات خود ممتنع ہے کہ دنیا میں رسول تو آوے مگر سلسلہ وحی رسالت نہ ہو۔
پنجم۔ یہ کہ احادیث صحیحہ بصراحت بیان کر رہی ہیں کہ آنے والا مسیح ابن مریم اُمتیوں کے رنگ میں آئے گا۔ چنانچہ اس کو امتی کر کے بیان بھی کیا گیا ہے جیسا کہ حدیث امامکم منکم سے ظاہر ہے اور نہ صرف بیانؔ کیاگیا بلکہ جو کچھ اطاعت اورپیروی اُمت پر لازم ہے وہ سب اس کے لازم حال ٹھہرائی گئی۔
ششم۔ یہ کہ بخاری میں جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے اصل مسیح ابن مریم کا اور حلیہ بتایا گیا ہے اور آنے والے مسیح ابن مریم کا اور حلیہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اب ان قرائن ستّہ کے رو سے صریح اور صاف طورپر ثابت ہے کہ آنے والا مسیح ہرگز وہ مسیح نہیں ہے جس پرانجیل نازل ہوئی تھی بلکہ اس کا مثیل ہے اور اِس وقت اُس کے آنے کا وعدہ تھا کہ جب کروڑہا افراد مسلمانوں میں سے یہودیوں کے مثیل ہوجائیں گے تا خدائے تعالیٰ اس اُمّت کی دونو قسموں کی استعدادیں ظاہر کرے نہ یہ کہ اس اُمّت میں صرف یہودیوں کی نجس صورت قبول کرنے کی استعداد ہو اور مسیح بنی اسرائیل میں سے آوے۔ بلاشبہ ایسی صورت میں اس مقدس اور روحانی معلّم اورپاک نبی کی
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 512
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 512
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/512/mode/1up
بڑی ہتک ہے جس نے یہ خوشخبری بھی دی تھی کہ اِس اُمّت میں مثیل انبیا ء بنی اسرائیل پیدا ہوں گے۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ جس حالت میں اصل عیسیٰ ابن مریم آنےؔ والا نہیں تھا بلکہ اس کا مثیل آنے والا تھا تو یہ کہنا چاہیئے تھا کہ مثیل آنے والا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عام محاورہ ہے کہ جب متکلّم کا یہ ارادہ ہوتا ہے کہ مشبّہ او ر مشبّہ بہٖ میں مماثلت تام ہے تو مشبّہ کا مشبّہ بہٖ پر حمل کر دیتا ہے تا انطباق کلّی ہو جیسے امام بخاری کی نسبت ایک جلسہ میں کہا گیا کہ دیکھو یہ احمد حنبل آیا ہے الخ اور جیسے کہتے ہیں کہ یہ شیر ہے اور یہ نوشیرواں ہے یہ حاتم ہے یا مثلًا جیسے کوئی کسی کو کہتا ہے کہ تُو گدھا ہے یا بندر ہے۔اور نہیں کہتاکہ تُو گدھے کی مانند ہے یا بند ر کی مانند۔کیونکہ وہ مطلب مماثلت تامہ کا جو اس کے دل میں ہوتاہے مانند کہنے سے فوت ہوجاتا ہے اور جس کیفیت کو وہ ادا کرنا چاہتا ہے وہ ان لفظوں سے ادا نہیں ہوسکتی۔ فتدبّر
اُمّت احمد نہاں دارد د۲و ضدرادر وجود
مے تواند شد مسیحامے تواند شد یہو د
زمرۂ زیشاں ہمہ بدطینتاں را جائے ننگ
زمرۂ دیگر بجائے انبیا دارد قعود
بعض نہایت سادگی سے کہتے ہیں کہ سلاطین کی کتاب میں جو لکھاہے کہ ؔ ایلیاء جسم کے سمیت آسمان پر اُٹھایا گیا تو پھر کیا مسیح ابن مریم کے اُٹھائے جانے میں کچھ جائے اشکال ہے تو اُن کو واضح ہو کہ درحقیقت ایلیا بھی خاکی جسم کے ساتھ نہیں اُٹھا یا گیا تھا۔ چنانچہ مسیح نے اس کی وفات کی طرف اشارہ کر دیا جبکہ اس نے یہودیوں کی وہ امید توڑ دی جو وہ اپنی خام خیالی سے باندھے ہوئے تھے اور کہدیا کہ وہ ہرگز نہیں آئے گا۔ اور ظاہر ہے کہ اگر وہ جسم خاکی کے ساتھ اُٹھایا جاتا تو پھر خاک کی طرف اس کارجوع کرنا ضروری تھا کیونکہ لکھا ہے کہ خاکی جسم
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 513
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 513
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/513/mode/1up
خاک کی طرف عود کرتا ہے 3 ۱؂ کیاایلیاآسمان پر ہی فوت ہو گا یا 3 ۲؂ سے باہر رہے گا۔ اگر سوچ کر دیکھو تو ایلیا کی چادر گرنے والی وہی اس کا وجود تھا جو اس نے چھوڑ دیا اور نیا چولہ پہن لیا۔
کیوں نہیں لوگو تمہیں حق کا خیال
دل میں اُٹھتا ہے مرے سَو سَو اُبال
ابن مریم مر گیا حق کی قسم
داخلِ جنت ہوا وہ محترم
مارتا ہے اُس کو فرقاں سر بسر
اس کے مرجانے کی دیتا ہے خبر
وہ نہیں باہر رہا اموات سے
ہوگیا ثابت یہ تیس آیات سے
وؔ ئی مُردوں سے کبھی آیا نہیں
یہ تو فرقاں نے بھی بتلا یا نہیں
عہد شد از کردگار بے چگوں
غور کن در
اے عزیزو!! سوچ کر دیکھو ذرا
موت سے بچتا کوئی دیکھا بھلا
یہ تو رہنے کا نہیں پیارو مکاں
چل بسے سب انبیاء و راستاں
ہاں نہیں پاتا کوئی اس سے نجات
یونہی باتیں ہیں بنائیں واہیات
کیوں تمہیں انکار پر اصرار ہے
ہے یہ دین یا سیرت کفّار ہے
برخلاف نصّ یہ کیاجوش ہے
سوچ کر دیکھو اگر کچھ ہوش ہے
کیوں بنایا ابن مریم کو خدا
سنت اللہ سے وہ کیوں باہر رہا
کیوں بنایا اس کو باشانِ کبیر
غیب دان و خالق حیّ و قدیر
مرگئے سب پر وہ مرنے سے بچا
اب تلک آئی نہیں اس پر فنا
ہے وہی اکثر پرندوں کا خدا
اس خدادانی پہ تیرے مرحبا
مولوی صاحب یہی توحید ہے
سچ کہو کس دیو کی تقلید ہے
کیایہی توحیدِ حق کا راز تھا
جس پہ برسوں سے تمہیں اک ناز تھا
کیا بشر میں ہے خدائی کا نشان
الاماں ایسے گماں سے الاماں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 514
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 514
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/514/mode/1up
ہے تعجب آپ کے اس جوش پر
فہم پر اور عقل پر اور ہوش پر
کیوؔ ں نظر آتا نہیں راہِ صواب
پڑ گئے کیسے یہ آنکھوں پرحجاب
کیایہی تعلیمِ فرقاں ہے بھلا
کچھ تو آخر چاہیئے خوفِ خدا
مومنوں پر کفر کا کرنا گماں
ہے یہ کیا ایمانداروں کا نشاں
ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں
دل سے ہیں خدّام ختم المرسلیں
شرک اور بدعت سے ہم بیزارہیں
خاکِ راہِ احمد مختار ہیں
سارے حکموں پر ہمیں ایمان ہے
جان و دل اس راہ پر قربا ن ہے
دے چکے دل اب تنِ خاکی رہا
ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی فدا
تم ہمیں دیتے ہو کافر کا خطاب
کیوں نہیں لوگو تمہیں خوف عقاب
سخت شورے اوفتاد اندر زمیں
رحم کن برخلق اے جاں آفریں
کچھ نمونہ اپنی قدرت کا دکھا
تجھ کو سب قدرت ہے ،اے ربّ الورا
آمین
بعضؔ مبائعین کا ذکر اور نیز اس سلسلہ کے معاونین کاتذکرہ اور اِس58لام کو یُورپ اور امریکہ میں پھیلانے کی احسن تجویز
میں رسالہ فتح اسلام میں کسی قدرلکھ آیا ہوں کہ اسلا م کے ضعف اور غربت اور تنہائی کے وقت میں خدائے تعالیٰ نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے تا میں ایسے وقت میں جو اکثر لوگ عقل کی بد استعمالی سے ضلالت کی راہیں پھیلا رہے ہیں او رروحانی امور سے رشتہ مناسبت بالکل کھو بیٹھے ہیں اسلامی تعلیم کی روشنی ظاہر کروں۔ مَیں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 515
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 515
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/515/mode/1up
یقینًا جانتا ہوں کہ اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ اسلام اپنا اصلی رنگ نکال لائے گا اور اپنا وہ کمال ظاہر کرے گا جس کی طرف آیت 3 ۱؂ میںؔ ؔ اشارہ ہے۔ سنّت اللہ اسی طرح واقع ہے کہ خزائن معارف و دقائق اُسی قدر ظاہر کئے جاتے ہیں جس قدراُن کی ضرورت پیش آتی ہے۔ سو یہ زمانہ ایک ایسازمانہ ہے جو اس نے ہزارہا عقلی مفاسد کو ترقی دے کر اور بے شمار معقولی شبہات کو بمنصۂ ظہور لا کر بالطبع اس بات کا تقاضا کیا ہے کہ ان اوہام و اعتراضات کے رفع ودفع کے لئے فرقانی حقائق و معارف کا خزانہ کھولا جائے۔ بے شک یہ بات یقینی طورپر ماننی پڑے گی کہ جس قدر حق کے مقابل پر اب معقول پسندوں کے دلوں میں اوہام باطلہ پیدا ہوئے ہیں اور عقلی اعتراضات کا ایک طوفان برپا ہوا ہے اس کی نظیر کسی زمانہ میں پہلے زمانوں میں سے نہیں پائی جاتی۔ لہٰذا ابتداء سے اس امرکو بھی کہ ان اعتراضات کا براہین شافیہ وکافیہ سے بحوالہ آیات فرقان مجید بکلی استیصال کر کے تمام ادیان باطلہ پر فوقیت اسلام ظاہر کر دی جائے اِسی زمانہ پر چھوڑ ا گیا تھا کیونکہ پیش از ظہور مفاسد ا ن مفاسد کی اصلاح کاتذکرہ محض بے محل تھا۔ اِسی وجہ سے حکیم مطلق نے ان حقائق اور معارف کو اپنی کلام پاک میں مخفی رکھا اور کسی پر ظاہر نہ کیا جب تک کہ اُن کے اظہارکاؔ ؔ وقت آگیا۔ ہاں اس وقت کی اس نے پہلے سے اپنی کتاب عزیز میں خبر دے رکھی تھی جو آیت 3۲؂ میں صاف اور کھلے کھلے طور پر مرقوم ہے۔ سو اب وہی وقت ہے اور ہر یک شخص روحانی روشنی کا محتاج ہو رہا ہے سو خدائے تعالیٰ نے اس روشنی کو دے کر ایک شخص دنیا میں بھیجا وہ کون ہے ؟ یہی ہے جو بول رہا ہے۔ رسالہ فتح اسلام میں یہ امر مفصّل طورپر بیان کیا گیا ہے کہ ایسے عظیم الشان کاموں کے لئے قوم کے
ذی مقدرت لوگوں کی امداد ضروری ہوتی ہے اور اس سے زیادہ اور کون سی سخت معصیت ہوگی کہ ساری قوم دیکھ رہی ہے کہ اسلام پر چاروں طرف سے حملے ہورہے ہیں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 516
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 516
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/516/mode/1up
اور وہ وبا پھیل رہی ہے جو کسی آنکھ نے پہلے اس سے نہیں دیکھی تھی۔ اس نازک وقت میں ایک شخص خدائے تعالیٰ کی طرف سے اُٹھا اور چاہتا ہے کہ اسلام کاخوبصورت چہرہ تمام دنیا پر ظاہر کرے اور اس کی راہیں مغربی ملکوں کی طرف کھولے لیکن قوم اس کی امداد سے دستکش ہے اور سوء ظن اور دنیا پرستی کی راہ سے بکلّی قطع تعلقات کر کے چپ چاپ بیٹھی ہے۔ افسوس کہ ہماری قوم میںؔ سے بہتوں نے سوء ظن کی راہ سے ہر یک شخص کو ایک ہی مد مکر اور فریب میں داخل کردیا ہے اور کوئی ایسا شخص جوروحانی سرگرمی اور دیانتداری کا اثر اپنے اندررکھتا ہو شاید اُن کے نزدیک ممتنع الوجود ہے۔ بہت سے ان میں ایسے ہیں کہ وہ صرف دنیوی زندگی کی فکروں میں لگے ہوئے ہیں اور ان کی نگاہ میں وہ لوگ سخت بے وقوف ہیں جو کبھی آخرت کابھی نام لیتے ہیں۔ بعض ایسے ہیں کہ دین سے بھی کچھ دلچسپی رکھتے ہیں۔ مگر صرف بیرونی صورت اور مذہب کی بے اصل باتوں میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ نبیوں کی تعلیم کا اعلیٰ مقصد کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیئے جس سے ہم اپنے مولیٰ کی دائمی رضا مندی میں داخل ہوجائیں۔
میرے پیارے دوستو! میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ مجھے خدائے تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لئے بخشا ہے اور ایک سچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کے لئے مجھے عطا کی گئی ہے اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذرّیت کو نہایت ضرورت ہے۔ سو میں اس لئے مستعد کھڑاہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیّبہؔ سے اپنے دینی مہمات کے لئے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدائے تعالیٰ نے اس کو وسعت وطاقت و مقدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے اور اللہ اور رسول سے اپنے اموال کو مقدّم نہ سمجھے اور پھر میں جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفات کے ذریعہ سے اُ ن علوم او ر برکات کو ایشیااور یورپ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خدا تعالیٰ کی پاک روح نے مجھے دی ہیں۔ مجھ سے پوچھا گیا تھا کہ امریکہ اور یوروپ میں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 517
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 517
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/517/mode/1up
تعلیم اسلام پھیلانے کے لئے کیاکرنا چاہیئے۔ کیا یہ مناسب ہے کہ بعض انگریزی خوان مسلمانوں میں سے یورپ اور امریکہ میں جائیں اور وعظ اورمنادی کے ذریعہ سے مقاصد اسلام اُن لوگوں پر ظاہر کریں۔ لیکن میں عمومًا اس کا جواب ہاں کے ساتھ کبھی نہیں دونگا۔ میں ہرگز مناسب نہیں جانتا کہ ایسے لوگ جو اسلامی تعلیم سے پور ے طور پر واقف نہیں اور اس کی اعلیٰ درجہ کی خوبیوں سے بکلی بے خبر اور نیز زمانہ حال کی نکتہ چینیوں کے جوابات پرکامل طور پر حاوی نہیں ہیں اور نہ روح القد س سے تعلیم پانے والے ہیں وہ ہماری طرف سے وکیل ہوکر جائیں۔ میرے خیال میں ایسی کارروائی کاؔ ضرر اس کے نفع سے اقرب اور اسرع الوقوع ہے اِلّا ماشاء اللہ۔ بلاشبہ یہ سچ بات ہے کہ یورپ اور امریکہ نے اسلام پر اعتراضات کرنے کا ایک بڑا ذخیرہ پادریوں سے حاصل کیا ہے اور ان کا فلسفہ اور طبعی بھی ایک الگ ذخیرہ نکتہ چینی کا رکھتا ہے۔ میں نے دریافت کیا ہے کہ تین ہزار کے قریب حال کے زمانہ نے و ہ مخالفانہ باتیں پیدا کی ہیں جو اسلام کی نسبت بصورت اعتراض سمجھی گئی ہیں حالانکہ اگر مسلمانوں کی لاپرواہی کوئی بدنتیجہ پیدا نہ کرے تو ان اعتراضات کا پیدا ہونا اسلام کے لئے کچھ خوف کا مقام نہیں۔ بلکہ ضرور تھا کہ وہ پیدا ہوتے تااسلام اپنے ہر یک پہلو سے چمکتا ہوا نظر آتا لیکن ان اعتراضات کاکافی جواب دینے کے لئے کسی منتخب آدمی کی ضرورت ہے جو ایک دریا معرفت کا اپنے صدر منشرح میں موجود رکھتا ہو جس کی معلومات کو خدائے تعالےٰ کے الہامی فیض نے بہت وسیع اور عمیق کر دیا ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ایساکام ان لوگوں سے کب ہو سکتاہے جن کی سماعی طور پر بھی نظر محیط نہیں اور ایسے سفیر اگر یورپ اور امریکہ میں جائیں تو کس کام کو انجام دیں گے اورمشکلات پیش کردہ کا کیا حل ؔ کریں گے۔ اور ممکن ہے کہ اُن کے جاہلانہ جوابات کا اثر معکوس ہو جس سے وہ تھوڑا سا ولولہ اور شوق بھی جو حال میں امریکہ اور یوروپ کے بعض منصف دلوں میں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 518
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 518
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/518/mode/1up
پیدا ہوا ہے جاتا رہے اور ایک بھاری شکست اور ناحق کی سُبکی اور ناکامی کے ساتھ واپس ہوں۔ سومیری صلاح یہ ہے کہ بجائے ان واعظوں کے عمدہ عمدہ تالیفیں اِن ملکوں میں بھیجی جائیں۔ اگر قوم بدل وجان میری مدد میں مصروف ہو تو میں چاہتا ہوں کہ ایک تفسیر بھی تیارکر کے اور انگریزی میں ترجمہ کرا کر اُن کے پاس بھیجی جائے۔ میں اس بات کو صاف صاف بیان کرنے سے رہ نہیں سکتا کہ یہ میرا کام ہے دوسرے سے ہرگز ایسا نہیں ہوگا جیسا مجھ سے یا جیسا اس سے جو میری شاخ ہے اور مجھ میں ہی داخل ہے۔ ہاں اس قدر میں پسند کرتا ہوں کہ ان کتابوں کے تقسیم کرنے کے لئے یا اُن لوگوں کے خیالات اور اعتراضات کوہم تک پہنچانے کی غرض سے چند آدمی ان ملکوں میں بھیجے جائیں جو امامت اور مولویت کا دعویٰ نہ کریں بلکہ ظاہر کردیں کہ ہم صرف اس لئے بھیجے گئے ہیں کہ تا کتابوں کو تقسیم کریں اور اپنی معلومات کیؔ حد تک سمجھاویں اور مشکلات اور مباحث دقیقہ کاحل ان اماموں سے چاہیں جو اس کام کے لئے ملک ہند میں موجود ہیں۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ اسلام میں اس قدرصداقت کی روشنی چمک رہی ہے اور اس قدر اس کی سچائی پر نورانی دلائل موجود ہیں کہ اگر وہ اہل تحقیق کے زیر توجہ لائی جاویں تو یقینًا وہ ہر یک سلیم العقل کے دل میں گھرکر جاویں۔ لیکن افسوس کہ ابھی وہ دلائل اندرونی طورپر بھی اپنی قوم میں شائع نہیں چہ جائیکہ مخالفوں کے مختلف فرقوں میں شائع ہوں۔ سو انہیں براہین اور دلائل اور حقائق اور معارف کے شائع کرنے کے لئے قوم کی مالی امداد کی حاجت ہے کیاقوم میں کوئی ہے جو اس بات کو سُنے ؟
جب سے میں نے رسالہ فتح اسلام کو تالیف کیا ہے ہمیشہ میرا اسی طرف خیال لگا رہا کہ میری اس تجویز کے موافق جو میں نے دینی چندہ کے لئے رسالہ مذکورہ میں لکھی ہے دلوں میں حرکت پیدا ہوگی۔ اسی خیال سے میں نے چار سو کے قریب
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 519
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 519
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/519/mode/1up
وہ رسالہ مفت بھی تقسیم کر دیا تا لوگ اس کو پڑھیں اور اپنے پیارے دین کی امدادکے لئےؔ اپنے گذشتنی گذاشتنی مالوں میں سے کچھ حق مقررکریں مگر افسوس کہ بجُز چند میرے مخلصوں کے جن کا ذکر میں عنقریب کروں گا کسی نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ میں حیران ہوں کہ کن الفاظ کو استعمال کروں تا میری قوم پر وہ مؤثر ہوں۔ میں سوچ میں ہوں کہ وہ کون سی تقریر ہے جس سے وہ میرے غم سے بھرے ہوئے دل کی کیفیت سمجھ سکیں۔ اے قادر خدا اُن کے دلوں میںآپ الہام کر اور غفلت اور بد ظنّی کی رنگ آمیزی سے ان کو باہر نکال اور حق کی روشنی دکھلا۔
پیارو یقینًا سمجھو کہ خداہے اور وہ اپنے دین کو فراموش نہیں کرتا بلکہ تاریکی کے زمانہ میں اس کی مدد فرماتا ہے مصلحت عام کے لئے ایک کو خاص کرلیتا ہے اوراُس پر علوم لدنیہ کے انوار نازل کرتا ہے۔ سو اُسی نے مجھے جگایا اور سچائی کے لئے میرا دل کھول دیا۔ میری روزانہ زندگی کا آرام اسی میں ہے کہ میں اسی کام میں لگا رہوں۔بلکہ میں اس کے بغیر جی ہی نہیں سکتا کہ میں اس کا اور اس کے رسول کا اور اس کی کلام کا جلال ظاہر کروں۔ مجھے کسیؔ کی تکفیر کا اندیشہ نہیں اور نہ کچھ پروا۔ میرے لئے یہ بس ہے کہ وہ راضی ہو جس نے مجھے بھیجا ہے۔ ہاں مَیں اس میں لذّت دیکھتا ہوں کہ جو کچھ اُس نے مجھ پر ظاہر کیا وہ میں سب لوگوں پر ظاہرکروں اور یہ میرا فرض بھی ہے کہ جو کچھ مجھے دیاگیا وہ دوسروں کو بھی دُوں۔ اوردعوت مولیٰ میں ان سب کو شریک کرلوں جو ازل سے بلائے گئے ہیں۔ میں اس مطلب کے پورا کرنے کے لئے قریبًا سب کچھ کرنے کے لئے مستعد ہوں اور جانفشانی کے لئے راہ پر کھڑا ہوں۔ لیکن جو امر میرے اختیار میں نہیں میں خداوند قدیر سے چاہتا ہوں کہ وہ آپ اس کو انجام دیوے۔ میں مشاہدہ کررہا ہوں کہ ایک دست غیبی مجھے مدد دے رہا ہے۔ اور اگرچہ میں تمام فانی انسانوں کی طرح ناتواں اور ضعیف البنیان ہوں تاہم میں دیکھتاہوں کہ مجھے غیب سے قوت ملتی ہے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 520
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 520
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/520/mode/1up
اور نفسانی قلق کو دبانے والا ایک صبر بھی عطا ہوتا ہے اور میں جو کہتاہوں کہ اِن الٰہی کاموں میں قوم کے ہمدرد مدد کریں وہ بے صبری سے نہیں بلکہ صرف ظاہرکے لحاظ اور اسباب کی رعایت سے کہتا ہوں۔ ورنہ خدا تعالیٰ کے فضل پر میرا دل مطمئن ہے اورؔ امید رکھتا ہوں کہ وہ میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا اور میرے تمام ارادے اور امیدیں پوری کردے گا۔اب میں اُن مخلصوں کا نام لکھتا ہوں جنھوں نے حتی الوسع میرے دینی کاموں میں مدد دی یاجن پر مدد کی امید ہے یا جن کو اسباب میسر آنے پر طیار دیکھتا ہوں۔
(۱) حبّی فی اللہ مولوی حکیم نور دین صاحب بھیروی۔ مولوی صاحب ممدوح کا حال کسی قدررسالہ فتح اسلام میں لکھ آیاہوں۔لیکن ان کی تازہ ہمدردیوں نے پھر مجھے اس وقت ذکرکرنے کا موقعہ دیا۔ اُن کے مال سے جس قدرمجھے مدد پہنچی ہے میں کوئی ایسی نظیر نہیں دیکھتا جو اس کے مقابل پر بیان کر سکوں۔ میں نے انکو طبعی طور پر اورنہایت انشراح صدر سے دینی خدمتوں میں جان نثار پایا۔ اگرچہ ان کی روز مرہ زندگی اسی راہ میں وقف ہے کہ وہ ہر یک پہلو سے اسلام اورمسلمانوں کے سچے خادم ہیں مگر اس سلسلہ کے ناصرین میں سے وہ اوّل درجہ کے نکلے۔مولوی صاحب موصوف اگرچہ اپنی فیاضی کی وجہ سے اس مصرعہ کے مصداق ہیں کہ قرار در کفِ آزاؔ دگاں نگیرد مال لیکن پھر بھی انہوں نے بارہ سو روپیہ نقد متفرق حاجتوں کے وقت اس سلسلہ کی تائید میں دیا۔ اوراب 3بیس روپے ماہواری دینااپنے نفس پر واجب کر دیا اور اس کے سوا اور بھی ان کی مالی خدمات ہیں جو طرح طرح کے رنگوں میں ان کا سلسلہ جاری ہے میں یقینًا دیکھتاہوں کہ جب تک وہ نسبت پیدانہ ہو جو محب کو اپنے محبوب سے ہوتی ہے تب تک ایسا انشراح صدر کسی میں پیدا نہیں ہوسکتا۔ اُن کو خدائے تعالیٰ نے اپنے قوی ہاتھ سے اپنی طرف کھینچ لیا ہے اور طاقتِ بالا نے خارق عادت اثر اُن پر کیا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 521
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 521
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/521/mode/1up
انہوں نے ایسے وقت میں بلا تردّد مجھے قبول کیاکہ جب ہر طرف سے تکفیر کی صدائیں بلند ہونے کو تھیں اور بہتیروں نے باوجود بیعت کے عہد بیعت فسخ کر دیا تھا اور بہتیرے سُست اور متذبذب ہوگئے تھے۔ تب سب سے پہلے مولوی صاحب ممدوح کا ہی خط اس عاجز کے اس دعویٰ کی تصدیق میں کہ میں ہی مسیح موعود ہوں قادیان میں میرے پاس پہنچا جس میں یہ فقرات درج تھے۔ اٰمنّا وصدقنا فا کتبنا مع الشَّاھدین مولوی صاحب موصوف کے اعتقاد اور اعلیٰ درجہ کی ؔ قوتِ ایمانی کا ایک یہ بھی نمونہ ہے کہ ریاست جموں کے ایک جلسہ میں مولوی صاحب کاایک ڈاکٹر صاحب سے جن کانام جگن ناتھ ہے اس عاجز کی نسبت کچھ تذکرہ ہوکر مولوی صاحب نے بڑی قوت اور استقامت سے یہ دعویٰ پیش کیا کہ خدائے تعالیٰ اُن کے یعنی اس عاجز کے ہاتھ پر کوئی آسمانی نشان دکھلانے پر قادر ہے۔ پھر ڈاکٹر صاحب کے انکار پر مولوی صاحب نے ریاست کے بڑے بڑے ارکان کی مجلس میں یہ شرط قبول کی کہ اگر وہ یعنی یہ عاجز کسی مدّت مسلّمہ فریقین پر کوئی آسمانی نشان دکھلا نہ سکے تو مولوی صاحب ڈاکٹر صاحب کو پنج ہزار روپیہ بطور جرمانہ دیں گے اور ڈاکٹر صاحب کی طرف سے یہ شرط ہوئی کہ اگرانہوں نے کوئی نشان دیکھ لیا تو بلا توقف مسلمان ہوجائیں گے اور اِن تحریری اقراروں پر مندرجہ ذیل گواہیاں ثبت ہوئیں۔
خان بہادر جنرل ممبر کونسل ریاست جموں غلام محی الدین خا ں
سراج الدین سپرنٹنڈنٹ و افسر ڈاکخانجات ریاست جموں
سرکار سنگھ سیکرٹری راجہ امر سنگھ صاحب بہادر پریذیڈنٹ کونسل
مگرؔ افسوس کہ ڈاکٹر صاحب ناقابل قبول اعجازی صورتوں کو پیش کر کے ایک حکمت عملی سے گریز کر گئے۔ چنانچہ انہوں نے ایک آسمانی نشان یہ مانگاکہ کوئی مرا ہوا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 522
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 522
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/522/mode/1up
پرندہ زندہ کر دیاجائے حالانکہ وہ خوب جانتے ہوں گے کہ ہمارے اصولوں سے یہ مخالف ہے۔ ہمار ا یہی اصول ہے کہ مُردوں کو زندہ کرنا خدائے تعالیٰ کی عادت نہیں اور وہ آپ فرماتا ہے 333 ۱؂۔ یعنی ہم نے یہ واجب کر دیاہے کہ جو مر گئے پھر وہ دنیا میں نہیں آئیں گے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو یہ کہا تھا کہ آسمانی نشان کی اپنی طرف سے کوئی تعیین ضروری نہیں بلکہ جو امر انسانی طاقتوں سے بالاتر ثابت ہو خواہ وہ کوئی امر ہو اسی کو آسمانی نشان سمجھ لینا چاہیئے اور اگر اس میں شک ہو تو بالمقابل ایسا ہی کوئی دوسرا امر دکھلا کر یہ ثبوت دینا چاہیئے کہ وہ امر الٰہی قدرتوں سے مخصوص نہیں لیکن ڈاکٹر صاحب اس سے کنارہ کر گئے اور مولوی صاحب نے وہ صدق قدم دکھلایا جومولوی صاحب کی عظمتِ ایمان پر ایک محکم دلیل ہے۔ دل میں از بس آرزو ہے کہ اَور لوگ بھی مولوی صاحب کے نمونہ پر چلیں۔ مولوی صاحب پہلے راستباؔ زوں کا ایک نمونہ ہیں۔ جزاہم اللّٰہ خیرا الجزاء و احسن الیہم فی الدنیا والعقبٰی۔
(۲) حبّی فی اللہ حکیم فضل دین صاحب بھیروی۔ حکیم صاحب اخویم مولوی حکیم نور دین صاحب کے دوستوں میں سے اور ان کے رنگ اخلاق سے رنگین اور بہت بااخلاص آدمی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ اُن کو اللہ اور رسول سے سچی محبت ہے اور اسی وجہ سے وہ اس عاجز کو خادم دین دیکھ کر حبّ لِلّٰہ کی شرط کو بجا لارہے ہیں۔ معلوم ہوتاہے کہ انہیں دین اسلام کی حقانیت کے پھیلانے میں اُسی عشق کاوافر حصہ ملا ہے جو تقسیم ازلی سے میرے پیارے بھائی مولوی حکیم نور دین صاحب کو دیا گیا ہے۔ وہ اِس سلسلہ کے دینی اخراجات کو بنظر غور دیکھ کر ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ چندہ کی صورت پر کوئی اُن کا احسن انتظام ہوجائے۔ چنانچہ رسالہ فتح اسلام میں جِس میں مصارف دینیہ کی پنج شاخوں کا بیان ہے اُنہیں کی تحریک اور مشورہ سے لکھاگیا تھا۔ انکی
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 523
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 523
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/523/mode/1up
فراست نہایت صحیح ہے اور وہ بات کی تہ تک پہنچتے ہیں اور اُن کا خیال ظنونِ فاسدہ سے مصفّٰی اورمزکی ہے۔ رسالہ ازاؔ لہ اوہام کے طبع کے ایام میں دوسو3 روپیہ اُن کی طرف سے پہنچا اور اُن کے گھر کے آدمی بھی اُن کے اس اخلاص سے متأثر ہیں اوروہ بھی اپنے کئی زیورات اس راہ میں محض للہ خرچ کر چکے ہیں۔ حکیم صاحب موصوف نے باوجود اِن سب خدمات کے جو اُن کی طرف سے ہوتی رہتی ہیں خاص طور پر پنج روپے ماہواری اس سلسلہ کی تائید میں دینا مقرر کیا ہے۔ جزاہم اللّٰہ خیرا الجزاء واحسن الیہم فی الدنیا والعقبٰی۔
(۳) حبّی فی اللہ مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی۔ مولوی صاحب اس عاجز کے یکرنگ دوست ہیں اور مجھ سے ایک سچی اور زندہ محبت رکھتے ہیں اور اپنے اوقات عزیز کا اکثر حصہ انہوں نے تائید دین کے لئے وقف کررکھا ہے۔ اُن کے بیان میں ایک اثر ڈالنے والا جو ش ہے۔ اخلاص کی برکت اور نورانیت اُن کے چہرہ سے ظاہر ہے۔ میری تعلیم کی اکثر باتوں سے وہ متفق الرائے ہیں مگر میرے خیال میں ہے کہ شاید بعض سے نہیں۔ لیکن اخویم مولوی حکیم نور دین صاحب کے انوار صحبت نے بہت سا نورانی اثر اُن کے دلؔ پر ڈالا ہے اور نیچریت کی اکثر خشک باتوں سے وہ بیزار ہوتے جاتے ہیں۔ اور درحقیقت میں بھی اِس بات کوپسند نہیں کرتا کہ الٰہی کتاب کے واقعی اور سچے منشاء کے مخالف نیچر کے ایسے تابع ہوجائیں کہ گویا کامل ہادی ہمارا وہی ہے۔ میں ایسے حصّہ نیچریت کو قبول کرتا ہوں جس کو میں دیکھتا ہوں کہ میرے مولیٰ اور ہادی نے اپنی کتاب قرآن کریم میں اس کو قبول کر لیا ہے اور سُنّت اللہ کے نام سے اس کو یاد کیا ہے۔ مَیں اپنے خداوند کو کامل طورپر قادر مطلق سمجھتا ہوں اور اسی بات پر ایمان لاچکا ہوں کہ وہ جو چاہتا ہے کر دکھاتا ہے اور اسی ایمان کی برکت سے میری معرفت زیادت میں ہے اورمحبت ترقی میں۔ مجھے بچوں کا ایمان پسندآتا ہے اور فلسفیوں کے بودے ایمان سے میں متنفّرہوں مجھے یقین ہے کہ مولوی صاحب اپنی محبت کے پاک جذبات کی وجہ سے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 524
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 524
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/524/mode/1up
اور بھی ہمرنگی میں ترقی کریں گے اور اپنے بعض معلومات میں نظر ثانی فرمائیں گے۔
(۴) حبّی فی اللہ مولوی غلام قادر صاحب فصیح جوان صالح خوش شکل اور اس عاجز کی بیعت میں داخل ہیں۔باہمت اور ہمدرد اسلام ہیںؔ ۔ قول فصیح جو مولوی عبد الکریم صاحب کی تالیف ہے اسی مرد باہمت نے اپنے مصارف سے چھاپی اور مفت تقسیم کی۔ قوت بیانی نئی طرز کے موافق بہت عمدہ رکھتے ہیں۔ اب ایک ماہواری رسالہ ان کی طرف سے نکلنے والا ہے جس کا نام الحق ہوگا۔ یہ رسالہ محض اس غرض سے جاری کیاجائے گا کہ تا اس میں وقتًا فوقتًا ان مخالفوں کا جواب دیاجائے جو دین اسلام پر حملہ کرتے ہیں خدائے تعالیٰ اس کام میں اُن کی مدد کرے۔
(۵) سیّد حامد شاہ صاحب سیالکوٹی۔ یہ سید صاحب محب صادق اور اس عاجز کے ایک نہایت مخلص دوست کے بیٹے ہیں جس قدر خدائے تعالیٰ نے شعر اورسخن میں اُن کو قوت بیان دی ہے وہ رسالہ قول فصیح کے دیکھنے سے ظاہر ہوگی۔ میرحامد شاہ کے بشرہ سے علامات صدق واخلاص و محبت ظاہرہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ اسلام کی تائید میں اپنی نظم و نثر سے عمدہ عمدہ خدمتیں بجالائیں گے۔ اُن کا جوش سے بھرا ہوا اخلاص اور ان کی محبت صافی جس حد تک مجھے معلوم ہوتی ہے۔ مَیں اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔مجھے نہایت خوشی ہے کہ وہ میرے پُرانے دوست مِیر حسام الدین صاحب رئیس سیالکوٹ کےؔ خلف رشید ہیں۔
(۶) حبّی فی اللہ مولوی سیّد محمد احسن صاحب امروہی مہتمم مصارف ریاست بھوپال۔ مولوی صاحب موصوف اس عاجز سے کما ل درجہ کا اخلاص و محبت اور تعلق روحانی رکھتے ہیں۔ اُن کی تالیفات کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ لیاقت کے آدمی اور علوم عربیہ میں فاضل ہیں بالخصوص علم حدیث میں ان کی نظر بہت محیط اور عمیق معلوم ہوتی ہے۔ حال میں انہوں نے ایک رسالہ اعلام الناس
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 525
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 525
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/525/mode/1up
اس عاجز کے تائید دعویٰ میں بکمال متانت و خوش اسلوبی لکھا ہے جس کے پڑھنے سے ناظرین سمجھ لیں گے کہ مولوی صاحب موصوف علوم دینیہ میں کس قدر محقق اور وسیع النظر او رمدقّق آدمی ہیں انہوں نے نہایت تحقیق اور خوش بیانی سے اپنے رسالہ میں کئی قسم کے معارف بھر دئے ہیں۔ ناظرین اس کو ضرور دیکھو۔
(۷) حبّی فی اللہ مولوی عبد الغنی صاحب معروف مولوی غلام نبی خوشابی دقیق فہم اور حقیقت شناس ہیں اور علوم عربیہ تازہ بتازہ ان کے سینہ میں موجود ہیں اوائل میں مولوی صاحب موصوف سخت مخالفؔ الرائے تھے۔ جب ان کو اس بات کی خبر پہنچی کہ یہ عاجز مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے اور مسیح ابن مریم کی نسبت وفات کا قائل ہے تب مولوی صاحب میں پورانے خیالات کے جذبہ سے ایک جوش پیدا ہوا اور ایک عام اشتہار دیا کہ جمعہ کی نماز کے بعد اس شخص کے ردّ میں ہم وعظ کریں گے۔ شہر لودھانہ کے صدہا آدمی وعظ کے وقت موجود ہو گئے۔تب مولوی صاحب اپنے علمی زور سے بخاری اور مسلم کی حدیثیں بارش کی طرح لوگوں پر برسانے لگے اور صحاح ستّہ کا نقشہ پُرانی لکیر کے موافق آگے رکھ دیا۔اُن کے وعظ سے سخت جوش مخالفت کا تمام شہر میں پھیل گیا۔ کیونکہ ان کی علمیّت اور فضیلت دلوں میں مسلّم تھی لیکن آخر سعادت ازلی کشاں کشاں اُن کو اس عاجز کے پاس لے آئی اور مخالفانہ خیالات سے توبہ کر کے سلسلہ بیعت میں داخل ہوئے۔ اب اُن کے پُرانے دوست اُن سے سخت ناراض ہیں۔ مگر وہ نہایت استقامت سے اس شعر کے مضمون کا وِرد کررہے ہیں
حضرت ناصح جو آویں دیدہ ودل فرش راہ
پر کوئی مجھ کوتو سمجھاوے کہ سمجھاویں گے کیا
(۸ؔ ) حبّی فی اللہ نواب محمد علی خان صاحب رئیس خاندان ریاست مالیر کوٹلہ۔ یہ نواب صاحب ایک معزز خاندان کے نامی رئیس ہیں۔ مورث اعلیٰ نوا ب صاحب موصوف کے شیخ صدرجہاں ایک باخدابزرگ تھے جو اصل باشندہ جلال آباد سروانی قوم کے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 526
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 526
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/526/mode/1up
پٹھان تھے ۱۴۶۹ ؁ء میں عہد سلطنت بہلول لودھی میں اپنے وطن سے اس ملک میں آئے شاہِ وقت کا اُن پر اس قدراعتقاد ہو گیا کہ اپنی بیٹی کا نکاح شیخ موصوف سے کر دیا۔او رچند گاؤں جاگیر میں دے دیئے۔ چنانچہ ایک گاؤں کی جگہ میں یہ قصبہ شیخ صاحب نے آباد کیا جس کا نام مالیر ہے۔ شیخ صاحب کے پوتے بایزید خاں نامی نے مالیر کے متصل قصبہ کوٹلہ کو تقریبًا ۱۵۷۳ ؁ء میں آباد کیا۔ جس کے نام سے اب یہ ریاست مشہور ہے۔ بایزید خان کے پانچ بیٹوں میں سے ایک کا نام فیروزخان تھا اور فیروز خان کے بیٹے کانام شیرمحمد خان اور شیر محمد خان کے بیٹے کانام جمال خان تھا جمال خان کے پانچ بیٹے تھے۔ مگر ان میں سے صرف دو بیٹے تھے جن کی نسل باقی رہی یعنی بہادرخان اور عطاء اللہ خان۔ بہادرخان کی نسلؔ میں سے یہ جوان صالح خلف رشید نواب غلام محمد خان صاحب مرحوم ہے جس کا عنوان میں ہم نے نام لکھاہے خدا تعالیٰ اس کو ایمانی امور میں بہادرکرے اور اپنے جد شیخ بزرگوار صدرجہان کے رنگ میں لاوے۔ سردارمحمدعلی خان صاحب نے گورنمنٹ برطانیہ کی توجہ اور مہربانی سے ایک شائستگی بخش تعلیم پائی جس کا اثر اُن کے دماغی اور دلی قویٰ پر نمایاں ہے۔ اُن کی خداداد فطرت بہت سلیم اور معتدل ہے اور باوجود عین شباب کے کسی قسم کی حدّت اور تیزی اور جذبات نفسانی اُن کے نزدیک آئی معلوم نہیں ہوتی۔ مَیں قادیان میں جب کہ وہ ملنے کے لئے آئے تھے اور کئی دن رہے پوشیدہ نظر سے دیکھتا رہا ہوں کہ التزام ادائے نماز میں اُن کو خوب اہتمام ہے اور صلحاء کی طرح توجہ اور شوق سے نماز پڑھتے ہیں اور منکرات اور مکروہات سے بکلّی مجتنب ہیں۔ مجھے ایسے شخص کی خوش قسمتی پر رشک ہے جس کا ایسا صالح بیٹا ہو کہ باوجود بہم پہنچنے تمام اسباب اور وسائل غفلت اور عیاشی کے اپنے عنفوان جوانی میں ایسا پرہیز گار ہو۔ معلوم ہوتا کہ انہوں نے بتوفیقہٖ تعالیٰ خود اپنی اصلاح پر آپ زور دے کر رئیسوں کے بے جا طریقوں اورؔ چلنوں سے نفرت پیدا کرلی ہے اور نہ صرف
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 527
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 527
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/527/mode/1up
اسی قدر بلکہ جو کچھ ناجائز خیالات اور اوہام اور بے اصل بدعات شیعہ مذہب میں ملائی گئی ہیں اور جس قدر تہذیب او ر صلاحیت اور پاک باطنی کے مخالف ان کا عملدر آمد ہے ان سب باتوں سے بھی اپنے نور قلب سے فیصلہ کرکے انہوں نے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ وہ اپنے ایک خط میں مجھ کولکھتے ہیں کہ ابتدا میں گو میں آپ کی نسبت نیک ظن ہی تھا لیکن صرف اس قدر کہ آپ اَور علماء اور مشائخ ظاہری کی طرح مسلمانوں کے تفرقہ کے مؤید نہیں ہیں بلکہ مخالفان اسلام کے مقابل پرکھڑے ہیں۔ مگر الہامات کے بارہ میں مجھ کو نہ اقرار تھا اور نہ انکار۔ پھر جب میں معاصی سے بہت تنگ آیا اور اُن پر غالب نہ ہو سکا تو میں نے سوچا کہ آپ نے بڑے بڑے دعوے کئے ہیں یہ سب جھوٹے نہیں ہو سکتے۔ تب میں نے بطور آزمائش آپ کی طرف خط و کتابت شروع کی جس سے مجھ کو تسکین ہوتی رہی اور جب قریبًا اگست میں آپ سے لودھیانہ ملنے گیا تو اُس وقت میری تسکین خوب ہوگئی اور آپ کو ایک باخدا بزرگ پایا اور بقیہ شکوک کا پھر بعد کی خط وکتابت میںؔ میرے دل سے بکلّی دھویاگیا۔ اورجب مجھے یہ اطمینان دی گئی کہ ایک ایسا شیعہ جو خلفائے ثلاثہ کی کسرِ شان نہ کرے سلسلہ بیعت میں داخل ہوسکتا ہے تب میں نے آپ سے بیعت کر لی۔ اب میں اپنے آپ کو نسبتًا بہت اچھاپاتا ہوں۔ اور آپ گواہ رہیں کہ میں نے تمام گناہوں سے آئندہ کے لئے توبہ کی ہے۔ مجھ کو آپ کے اخلاق اور طرز معاشرت سے کافی اطمینان ہے کہ آپ ایک سچے مجدّد اور دنیا کے لئے رحمت ہیں۔
(۹) حبّی فی اللہ میر عباس علی لودہانوی۔ یہ میر ے وہ اوّل دوست ہیں جن کے دل میں خدائے تعالیٰ نے سب سے پہلے میری محبت ڈالی اور جوسب سے پہلے تکلیف سفر اُٹھا کر ابرار اخیار کی سُنت پر بقدم تجرید محض للہ قادیان میں میرے ملنے کے لئے آئے وہ یہی بزرگ ہیں۔ میں اِس بات کو کبھی نہیں بھول سکتا کہ بڑے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 528
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 528
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/528/mode/1up
سچے جوشوں کے ساتھ انہوں نے وفاداری دکھلائی اور میرے لئے ہریک قسم کی تکلیفیں اُٹھائیں اور قوم کے مُنہ سے ہر یک قسم کی باتیں سنُیں۔ میرصاحب نہایت عمدہ حالات کے آدمی اور اس عاجز سے روحانی تعلق رکھنے والے ہیں او راُن کے مرتبہ اخلاص کے ثابت کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ ایک مرتبہ اس عاجز کو اُن کے حق میں الہام ہوا تھاؔ ؔ اصلہ ثابت وفرعہ فی السّمآء۔ وہ اس مسافر خانہ میں محض متوکّلانہ زندگی بسرکرتے ہیں۔ اپنے اوائل ایام میں وہ بیس برس تک انگریزی دفتر میں سرکاری ملازم رہے مگر بباعث غربت ودرویشی کے اُن کے چہرہ پر نظر ڈالنے سے ہرگز خیال نہیں آتا کہ وہ انگریزی خواں بھی ہیں۔ لیکن دراصل وہ بڑے لائق اور مستقیم الاحوال اور دقیق الفہم ہیں مگر باایں ہمہ سادہ بہت ہیں۔ اسی وجہ سے بعض موسوسین کے وساوس اُن کے دل کو غم میں ڈال دیتے ہیں لیکن ان کی قوت ایمانی جلد ان کو دفع کر دیتی ہے۔
(۱۰) حبّی فی اللہ منشی احمد جان صاحب مرحوم۔ اس وقت ایک نہایت غم سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ یہ پُردرد قصہ مجھے لکھنا پڑا۔ کہ اب یہ ہمارا پیارا دوست اس عالم میں موجود نہیں ہے اورخداوند کریم ورحیم نے بہشت بریں کی طرف بلا لیا۔ اِنّا لِلّٰہِ وَ اِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن و انا بفراقہ لمحزونون۔ حاجی صاحب مغفور و مرحوم ایک جماعت کثیر کے پیشوا تھے اور اُن کے مُریدوں میں آثار رُشد وسعادت و اتباع سُنّت نمایاں ہیں۔ اگرچہ حضرت موصوف اس عاجز کے شروع سلسلہؔ بیعت سے پہلے ہی وفات پا چکے لیکن یہ امراُن کے خوارق میں سے دیکھتا ہوں کہ انہوں نے بیت اللہ کے قصد سے چند روز پہلے اِس عاجز کو ایک خط ایسے انکسار سے لکھا جس میں انہوں نے درحقیقت اپنے تئیں اپنے دل میں سلسلہ بیعت میں داخل کر لیا۔ چنانچہ انہوں نے اس میں سیرت صالحین پر اپنا توبہ کا اظہار کیا اور اپنی مغفرت کے لئے دعا چاہی اورلکھا کہ میں آپ کی للّہی ربط کے زیر سایہ اپنے تئیں سمجھتا ہوں اور پھر لکھا کہ میری زندگی کا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 529
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 529
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/529/mode/1up
نہایت عمدہ حصہ یہی ہے کہ میں آپ کی جماعت میں داخل ہوگیا ہوں۔ اور پھر کسر نفسی کے طورپر اپنے گذشتہ ایام کا شکوہ لکھا اور بہت سے رقّت آمیز ایسے کلمات لکھے جن سے رونا آتا تھا۔ اس دوست کا وہ آخری خط جو ایک دردناک بیان سے بھرا ہے اب تک موجود ہے مگر افسوس کہ حج بیت اللہ سے واپس آتے وقت پھر اس مخدوم پر بیماری کا ایسا غلبہ طاری ہوا کہ اس دور افتادہ کو ملاقات کا اتفاق نہ ہوا بلکہ چند روز کے بعد ہی وفات کی خبر سنی گئی اور خبر سنتے ہی ایک جماعت کے ساتھ قادیان میں نماز جنازہ پڑھی گئی۔ حاجی صاحب مرحوم اظہار حق میں بہادر آدمی تھے۔ بعض نافہمؔ لوگوں نے حاجی صاحب موصوف کو اس عاجز کے ساتھ تعلق ارادت رکھنے سے منع کیا کہ اس میں آپ کی کسر شان ہے لیکن انہوں نے فرمایا کہ مجھے کسی شان کی پروا نہیں اور نہ مریدوں کی حاجت۔ آپ کا صاحبزادہ کلاں حاجی افتخاراحمد صاحب آپ کے قدم پر اس عاجز سے کمال درجہ کا اخلاص رکھتے ہیں اور آثار رُشد وصلاح و تقوےٰ اُن کے چہرہ پر ظاہرہیں۔ وہ باوجود متوکّلانہ گذارہ کے اول درجہ کی خدمت کرتے ہیں اور دل وجان کے ساتھ اس راہ میں حاضر ہیں خدائے تعالیٰ ان کو ظاہری اور باطنی برکتوں سے متمتع کرے۔
(۱۱) حبّی فی اللہ قاضی خواجہ علی صاحب۔ قاضی صاحب موصوف ا س عاجز کے ایک منتخب دوستوں میں سے ہیں۔ محبت وخلوص ووفا و صدق وصفا کے آثار اُن کے چہرہ پر نمایاں ہیں۔ خدمت گذاری میں ہر وقت کھڑے ہیں۔ وہ اُن اوّلین سابقین میں سے ہیں جن میں سے اخویم میر عباس علی صاحب ہیں۔ وہ ہمیشہ خدمت میں لگے رہتے ہیں اور ایام سکونت لودھیانہ میں جو چھ چھ ماہ تک بھیؔ اتفاق ہوتا ہے ایک بڑا حصہ مہمانداری کا خوشی کے ساتھ وہ اپنے ذمّے لے لیتے ہیں اورجہاں تک اُن کے قبضۂ قدرت میں ہے وہ ہمدردی اور خدمت اور ہریک قسم کی غمخواری میں کسی بات سے فرق
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 530
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 530
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/530/mode/1up
نہیں کرتے۔ او راگرچہ وہ پہلے ہی سے مخلص باصفاہیں لیکن میں دیکھتاہوں کہ اب وہ زیادہ تر قریب کھینچے گئے ہیں اور میں خیال کرتا ہوں کہ حقانیت کی روشنی ایک بے غرضانہ خلوص اور للّہی محبت میں دمبدم اُن کو ترقی دے رہی ہے اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان ترقیات کی وجہ سے اپنے حُسن ظن کے حالات میں زیادہ سے زیادہ پاکیزگی حاصل کرتے جاتے ہیں اور روحانی کمزوری پر غالب ہوتے جاتے ہیں۔ میرا دل ان کی نسبت یہ بھی شہادت دیتا ہے کہ وہ دنیوی طورسے ایک صحیح اور باریک فراست رکھتے ہیں اور خدائے تعالیٰ کے فضل نے اس عاجز کی روحانی شناسائی کا بھی ایک قابل قدر حصہ انہیں بخشا ہے اور آداب ارادت میں وہ صفائی حاصل کرتے جاتے ہیں اور قلّت اعتراض اور حُسن ظن کی طرف ان کا قدم بڑھتاجاتا ہے اور میری دانست میں وہ ان مراحل کو طے کر چکے ہیں جن میں کسیؔ خطرناک لغزش کا اندیشہ ہے۔
(۱۲) حبّی فی اللہ مرزا محمد یوسف بیگ صاحب سامانوی۔ مرزا صاحب مرزا عظیم بیگ صاحب مرحوم کے حقیقی بھائی ہیں جن کا حال رسالہ فتح اسلام میں لکھا گیا ہے اور وہ تمام الفاظ اور اخلاص کے جو میں نے اخویم مرزا عظیم بیگ صاحب مغفور ومرحوم کے بارے میں فتح اسلام میں لکھے ہیں اُن سب کا مصداق میرزا محمدیوسف بیگ صاحب بھی ہیں۔ ان دونوں بزرگوار بھائیوں کی نسبت میں ہمیشہ حیران رہا کہ اخلاق اور محبت کے میدانوں میں زیادہ کس کو قرار دُوں۔ میرزا صاحب موصوف ایک اعلیٰ درجہ کی محبت اور اعلیٰ درجہ کا اخلاص اور اعلیٰ درجہ کا حُسن ظن اس عاجز سے رکھتے ہیں اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن کے ذریعہ سے میں اُن کے خلوص کے مراتب بیان کر سکوں یہ کافی ہے کہ اشارہ کے طور پر میں اسی قدر کہوں کہ ھو رجل یحبّنا ونحبہ ونسئل اللّٰہ خیرہ فی الدنیا والاٰخرۃ۔ مرزا صاحب نے اپنی زبان اپنا مال اپنی عزت اس للّہی محبت میں وقف کر رکھی ہے اور اُن کا مریدانہ و محبانہ اعتقاد اس حد تک
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 531
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 531
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/531/mode/1up
بڑھاہوا ہے کہ اؔ ب ترقی کے لئے کوئی مرتبہ باقی نہیں معلوم ہوتا۔ و ذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء۔
(۱۳) حبّی فی اللہ میاں عبد اللہ سنوری۔ یہ جوان صالح اپنی فطرتی مناسبت کی وجہ سے میری طرف کھینچا گیا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ اُن وفادار دوستوں میں سے ہے جن پر کوئی ابتلا جنبش نہیں لا سکتا۔ وہ متفرق وقتوں میں دو دو تین تین ماہ تک بلکہ زیادہ بھی میری صحبت میں رہا اور میں ہمیشہ بنظر امعان اس کی اندرونی حالت پرنظر ڈالتا رہاہوں سو میری فراست نے اس کی تہ تک پہنچنے سے جو کچھ معلوم کیا وہ یہ ہے کہ یہ نوجوان درحقیقت اللہ اور رسول کی محبت میں ایک خاص جوش رکھتا ہے۔ اور میرے ساتھ اس کے اس قدر تعلق محبت کے بجُز اِس بات کے اورکوئی بھی وجہ نہیں جو اس کے دل میں یقین ہوگیا ہے کہ یہ شخص محبانِ خدا و رسو ل میں سے ہے۔ اور اس جوان نے بعض خوارق اور آسمانی نشان جو اس عاجز کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملے بچشم خود دیکھے ہیں جن کی وجہ سے اس کے ایمان کو بہت فائدہ پہنچا۔ الغرض میاں عبد اللہ نہایت عمدہ آدمی اور میرے منتخب ّ محبو ں میں سے ہےؔ اور باوجود تھوڑے سے گزارہ ملازمت پٹوار کے ہمیشہ حسب مقدرت اپنی خدمت مالی میں بھی حاضر ہے اور اب بھی 3بارہ روپیہ سالانہ چندہ کے طور پر مقرر کردیاہے۔ بہت بڑا موجب میاں عبداللہ کے زیادت خلوص ومحبت و اعتقاد کا یہ ہے کہ وہ اپنا خرچ بھی کر کے ایک عرصہ تک میری صحبت میں آ کر رہتا رہا اور کچھ آیات ربّانی دیکھتا رہا۔سو اس تقریب سے روحانی امور میں ترقی پاگیا۔کیااچھا ہو کہ میرے دوسرے مخلص بھی اس عادت کی پیروی کریں۔
(۱۴) حبّی فی اللہ مولوی حکیم غلام احمد صاحب انجینیئر ریاست جموں۔ مولوی صاحب موصوف نہایت سادہ وضع ‘یک رنگ ‘صاف باطن دوست ہیں اور عطر محبت اوراخلاص سے اُن کا دل معطّر ہے۔ دینی امدادات میں پورے پورے صدق سے حاضر ہیں۔ مولوی صاحب
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 532
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 532
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/532/mode/1up
اکثر علوم وفنون میں کامل لیاقت رکھتے ہیں اور اُن کے چہرے پر استقامت وشجاعت کے انوار پائے جاتے ہیں اس سلسلہ کے چندہ میں 3دو روپیہ ماہواری انہوں نے اپنی مرضی سے مقررکیاہے۔ جزاہم اللہ خیرالجزاء۔
(۱۵ؔ ) حبّی فی اللہ سیّد فضل شاہ صاحب لاہوری اصل سکنہ ریاست جموں نہایت صاف باطن اور محبت اوراخلاص سے بھرے ہوئے اور کامل اعتقاد کے نور سے منور ہیں۔ اورمال وجان سے حاضر ہیں اور ادب اور حسن ظن جو اس راہ میں ضروریات سے ہے ایک عجیب انکسار کے ساتھ ان میں پایاجاتا ہے۔ وہ تہ دل سے سچی اور پاک اور کامل ارادت اس عاجز سے رکھتے ہیں اور للّہی تعلق اور حُب میں اعلیٰ درجہ انہیں حاصل ہے اور یک رنگی اور وفاداری کی صفات ان میں صاف طور پر نمایاں ہیں اور ان کے برادرحقیقی نصر شاہ بھی اس عاجز سے تعلق بیعت رکھتے ہیں اور ان کے ماموں منشی کرم الٰہی صاحب بھی اس عاجز کے یک رنگ دوست ہیں۔
(۱۶) حبّی فی اللہ منشی محمد اروڑا نقشہ نویس مجسٹریٹی۔ منشی صاحب محبت اور خلوص اور ارادت میں زندہ دل آدمی ہیں۔سچائی کے عاشق اورسچائی کو بہت جلد سمجھ جاتے ہیں خدمات کو نہایت نشاط سے بجا لاتے ہیں۔ بلکہ وہ تو دن رات اسی فکر میں لگے رہتے ہیں کہ کوئی خدمت مجھ سے صادر ہوجائے۔ عجیب منشرح الصدر اور جانؔ نثار آدمی ہے میں خیال کرتا ہوں کہ ان کو اس عاجز سے ایک نسبت عشق ہے۔ شاید انکو اس سے بڑھ کر اور کسی بات میں خوشی نہیں ہوتی ہوگی کہ اپنی طاقتوں اور اپنے مال اور اپنے وجود کی ہر یک توفیق سے کوئی خدمت بجا لاویں وہ دل وجان سے وفاداراورمستقیم الاحوال اور بہادرآدمی ہیں۔ خدائے تعالیٰ ان کو جزائے خیر بخشے۔ آمین۔
(۱۷) حبّی فی اللہ میاں محمد خاں صاحب ریاست کپورتھلہ میں نوکر ہیں۔ نہایت درجہ کے غریب طبع صاف باطن دقیق فہم حق پسند ہیں اور جس قدرانہیں میری نسبت عقیدت و ارادت ومحبت ونیک ظن ہے میں اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ مجھے ان کی نسبت یہ تردّد نہیں کہ اُن کے اس درجۂ ارادت میں کبھی کچھ خلل پیدا ہو بلکہ یہ اندیشہ ہے کہ حد سے زیادہ نہ بڑھ جائے وہ سچے وفادار اور جاں نثار اور مستقیم الاحوال ہیں۔ خدا اُن کے ساتھ ہو اُن کا نوجوان بھائی سردار علی خاں بھی میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہے۔ یہ لڑکا بھی اپنے بھائی کی طرح بہت سعید و رشید ہے۔ خداؔ ئے تعالیٰ اُ ن کامحافظ ہو۔
(۱۸) حبّی فی اللہ منشی ظفر احمدصاحب۔ یہ جوان صالح کم گو اور خلوص سے بھرادقیق فہم آدمی ہے۔ استقامت کے آثار وانوار اُس میں ظاہر ہیں۔ وفاداری کی علامات وامارات اس میں پیدا ہیں۔ ثابت شدہ صداقتوں کو خوب سمجھتا ہے۔ اور
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 533
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 533
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/533/mode/1up
اُن سے لذّت اُٹھاتا ہے۔ اللہ اور رسول سے سچی محبت رکھتا ہے اور ادب جس پر تمام مدار حصول فیض کا ہے اور حُسن ظن جو اس راہ کا مرکب ہے دونوں سیرتیں ان میں پائی جاتی ہیں۔ جزاہم اللہ خیرالجزاء۔
(۱۹) حبّی فی اللہ سیّد عبد الہادی صاحب سب اور سیر۔ یہ سیّد صاحب انکسار اور ایمان اور حُسن ظن اور ایثار اور سخاوت کی صفت میں حصہ وافر رکھتے ہیں۔وفادار اور متانت شعار ہیں۔ ابتلا کے وقت استقامت کوہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ وعدہ اورعہد میں پختہ ہیں۔ حیا کی قابل تعریف صفت اُن پر غالب ہے۔ اس عاجز کے سلسلہ بیعت میں داخل ہونے سے پہلے بھی وہی ادب ملحوظ رکھتے تھے جو اَب ہے۔ اللہ جلّشانہ‘کا اُن پر یہ خاص احسان ہے کہ وہ نیک کاموں کے کرنے کے لئے منجانب اللہ توفیقؔ پاتے ہیں۔ ان کی طبیعت فقر کے مناسب حال ہے۔ انہوں نے اس سلسلہ کے لئے 3دو روپے ماہواری چندہ مقررکیا ہے۔ مگر اس چندہ پر کچھ موقوف نہیں وہ بڑی سرگرمی سے خدمت کرتے رہتے ہیں اور اُن کی مالی خدمات کی اس جگہ تصریح مناسب نہیں کیونکہ میں خیال کرتا ہوں کہ ان کی مالی خدمات کے اظہار سے ان کو رنج ہوگا۔ وجہ یہ کہ وہ اس سے بہت پرہیز کرتے ہیں کہ اُن کے اعمال میں کوئی شعبہ ریا کا دخل کرے اوران کو یہ وہم ہے کہ اجر کسی عمل کا اس کے اظہارسے ضائع ہوجاتا ہے۔
(۲۰) حبّی فی اللہ مولوی محمد یوسف سنوری میاں عبد اللہ صاحب سنور ی کے ماموں ہیں۔ بہت راست طبع نیک ظن پاک خیال آدمی ہیں۔ اس عاجز سے استقلال اور وفا کے ساتھ خلوص اورمحبت رکھتے ہیں۔
(۲۱) منشی حشمت اللہ صاحب مدرس مدرسہ سنور اور منشی ہاشم علی صاحب پٹواری تحصیل برنالہ اس عاجز کے یکرنگ مخلصین میں سے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کامددگار ہو۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 534
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 534
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/534/mode/1up
(۲۲ؔ ) حبّی فی اللہ صاحبزادہ سراج الحق صاحب ابو اللمعان محمد سراج الحق جمالی نعمانی ابن شاہ حبیب الرحمٰن ساکن سرساوہ ضلع سہارنپور از اولاد قطب الاقطاب شیخ جمال الدین احمد ہانسوی اکابر مخلصین اس عاجز سے ہیں۔ صاف باطن یکرنگ اور للّہی کاموں میں جوش رکھنے والے اور اعلائے کلمۂ حق کے لئے بدل وجان ساعی وسرگر م ہیں۔ اس سلسلہ میں داخل ہونے کے لئے خدائے تعالیٰ نے جوان کے لئے تقریب پیدا کی وہ ایک دلچسپ حال ہے جو ان کے ایک خط سے ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ میں اس زمانہ کو ایک آخری زمانہ سمجھ کر اور علماء اور فقراء سے ظہور حضرت مسیح ابن مریم موعود اور حضرت مہدی کی بشارتیں سُنکر ہمیشہ دعاکیا کرتا تھا کہ خداوند کریم مجھ کو ان میں سے کسی کی زیارت کرا دے خواہ حالت جوانی میں ہی یاضعیفی میں۔ سو جب میری دعائیں انتہاء کوپہنچیں تو اُن کا یہ اثر ہوا کہ مجھے عالم رؤیا میں وقتًا فوقتًا مقصد مذکورہ بالا کے لئے کچھ کچھ بشارتیں معلوم ہونے لگیں۔چنانچہ ایک دفعہ میں سفر کی حالت میں شہر جیند میں تھا تو عالم رؤیا میں کیادیکھتا ہوں کہ میں ایک مسجدمیںؔ وضو کر رہا ہوں اور اس مسجد کے متصل ایک کوچہ ہے وہاں سے ہر قسم کے آدمی ہندو مسلمان نصاریٰ آتے جاتے ہیں میں نے پوچھاکہ تم لوگ کہاں سے آتے ہو تو انہوں نے کہا کہ ہم حضرت رسولؐ مقبول کی خدمت میں گئے تھے۔ تب میں نے بھی جلد وضو کرکے اس کوچہ کی راہ لی۔ ایک مکان میں دیکھا کہ کثرت سے آدمی موجود ہیں اور حضرت رسول مقبول خاتم الانبیاء محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے ہیں۔سفید پوشاک پہنے ہوئے اور ایک شخص دو زانو اُنکے سامنے با ادب بیٹھاہے۔ میں نے پوچھنا چاہا کہ مرشد کے قدم چومنے میں علماء اور فقراء کو اختلاف ہے۔ اصل کیا بات ہے۔ تب ایک شخص جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھاتھا خود بخود بول اُٹھا کہ نہیں نہیں۔ اس وقت میں بے تکلّف اُٹھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک جا بیٹھا۔ تب حضرت نبی کریم ؐ نے مجھ کو دیکھا اور اپنا داہنا پائے مبارک
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 535
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 535
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/535/mode/1up
میری طرف لمبا کر دیا۔ میں نے حضرت کے قدم مبارک کو بوسہ دیا اور آنکھوں سے لگایا اُس وقت حضرت نے ایک جوراب سُوتی اپنے پاک۱؂ مبارک سے اُتار کر مجھ کو عنایت فرمائی۔ اس رؤیا صادقہ سے میں بہت متلذذ رہاؔ ۔ پھر دو برس کے بعد ایسااتفاق ہوا کہ میں لودھیانہ میں آیااور میں نے آپ کا یعنی اس عاجز کا شہرہ سُنا اور رات کو آپ کی خدمت میں حاضرہوا اور وہی جلسہ دیکھا اور وہی کثرت مخلوق دیکھی جو میں نے حضرت نبی کریم کی خواب میں دیکھی تھی۔ اور جب میں نے آپ کی صورت دیکھی تو کیادیکھتا ہوں کہ وہی صورت ہے کہ جس صورت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ تب مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے آپ ہی کو خواب میں دیکھا تھا اور خدائے تعالیٰ نے آپ کو نبی کریم کے پیرایہ میں میرے پر ظاہر کیا۔ تا وہ عینیّت جو ببرکت متابعت پیدا ہوجاتی ہے میرے پر منکشف ہوجائے۔ پھر جب میں پانچ چھ ماہ کے بعد آپ کو قادیان میں ملا تو میری حالت اعتقاد بہت ترقی کر گئی اور مجھ کو کامل و مکمل یقین کہ عین الیقین کا مرتبہ حاصل ہوگیا کہ بلا شبہ آپ مجدد الوقت اور غوث الوقت ہیں اور میرے پر پورے عرفا ن کے ساتھ کھل گیاکہ میرے خواب کے مصداق آپ ہی ہیں۔ پھر اس کے بعد اَور بھی حالات نوم اور غیر نوم میں میرے پر کھلتے رہے۔ ایک دفعہ استخارہ کے وقت آپکی نسبت یہ آیت نکلی33۲؂۔ تب میں بیعت سے بصدق دل مشرفؔ ہوا اور وہ حالات جو میرے پرکھلے اور میرے دیکھنے میں آئے وہ انشاء اللہ ایک رسالہ میں لکھونگا۔
(۲۳) حبّی فی اللہ میر ناصر نواب صاحب۔ میر صاب موصوف علاوہ رشتہ روحانی کے رشتہ جسمانی بھی اس عاجز سے رکھتے ہیں کہ اس عاجز کے خسر ہیں۔ نہایت یکرنگ اور صاف باطن اور خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہیں اور اللہ اور رسول کی اتباع کو سب چیزسے مقدّم سمجھتے ہیں اور کسی سچائی کے کھلنے سے پھراسکو شجاعت قلبی کے ساتھ بلا توقف قبول کر لیتے ہیں۔ حُب ِ للہ اور بُغض ِ للہ کا مومنانہ شیو ہ اُن پر
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 536
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 536
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/536/mode/1up
غالب ہے۔ کسی کے راستباز ثابت ہونے سے وہ جان تک بھی فرق نہیں کر سکتے اور کسی کو ناراستی پر دیکھ کر اُس سے مداہنت کے طورپر کچھ تعلق رکھنا نہیں چاہتے۔ اوائل میں وہ اس عاجزکی نسبت نہایت نیک گمان تھے مگر درمیان میں ابتلا کے طور پر اُن کے حُسن ظن میں فرق آگیا۔ چونکہ سعید تھے اس لئے عنایت الٰہی نے پھر دستگیری کی اور اپنے خیالات سے توبہ کر کے سلسلہ بیعت میں داخل ہوئے۔ اُن کا یک دفعہ نیک ظنّی کی طرفؔ پلٹاکھانا اور جوش سے بھرے ہوئے اخلاص کے ساتھ حق کو قبول کر لینا غیبی جذبہ سے معلوم ہوتاہے۔ وہ اپنے اشتہار ۱۲ ؍اپریل ۱۸۹۱ ؁ء میں اس عاجز کی نسبت لکھتے ہیں کہ میں اُن کے حق میں بدگمان تھا لہٰذا وقتًا فوقتًا نفس و شیطان نے خداجانے کیا کیا مجھ سے اُن کے حق میں کہوا یاجس پر آج مجھ کو افسوس ہے اگرچہ اس عرصہ میں کئی بار میرے دل نے مجھے شرمندہ کیا لیکن اس کے اظہار کا یہ وقت مقدّر تھا۔ میں نے جو کچھ مرزا صاحب کو فقط اپنی غلط فہمیوں کے سبب سے کہا نہایت بُراکیا۔ اب میں توبہ کرتا ہوں او راس توبہ کا اعلان اس لئے دیتا ہوں کہ میری پیروی کے سبب سے کوئی وبال میں نہ پڑے۔ اس سے بعد اگر کوئی شخص میری کسی تحریر یا تقریر کو چھپوا دے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہے تو میں عند اللہ بری ہوں اور اگر کبھی میں نے مرزا صاحب کی نسبت اپنے کسی دوست سے کچھ کہا ہو یا شکایت کی ہوتو اس سے اللہ تعالیٰ کی جناب میں معافی مانگتا ہوں۔
(۲۴) حبّی فی اللہ منشی رستم علی ڈپٹی انسپکٹر پولیس ریلوے۔ یہ ایک جوان صالح اخلاص سے بھر ا ہوا میرے اوّل درجہ کے دوستوں سےؔ ہے۔ اُن کے چہرے پر ہی علامات غربت و بے نفسی واخلاص ظاہرہیں۔ کسی ابتلاء کے وقت میں نے اس دوست کو متزلزل نہیں پایا۔ اور جس روز سے ارادت کے ساتھ انہوں نے میری طرف رجوع کیا اس ارادت میں قبض اور افسردگی نہیں بلکہ روز افزوں ہے۔ وہ 3دو روپیہ چندہ اس سلسلہ کے لئے دیتے ہیں۔ جزاہم اللہ خیرالجزاء۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 537
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 537
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/537/mode/1up
(۲۵) حبّی فی اللہ میاں عبدالحق خلف عبد السمیع۔ یہ ایک اول درجہ کامخلص او ر سچا ہمدرد اور محض للہ محبت رکھنے والا دوست اور غریب مزاج ہے۔ دین کو ابتداء سے غریبوں سے مناسبت ہے کیونکہ غریب لوگ تکبّر نہیں کرتے اور پوری پوری تواضع کے ساتھ حق کو قبول کرتے ہیں۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دولت مندوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں کہ اس سعادت کا عشر بھی حاصل کر سکیں جس کو غریب لوگ کامل طورپر حاصل کر لیتے ہیں۔ فطوبٰی للغرباء۔ میاں عبدالحق باوجود اپنے افلاس اورکمی مقدرت کے ایک عاشق صادق کی طرح محض للہ خدمت کرتا رہتا ہے اور اس کی یہ خدمات اس آیت کا مصداق اس کو ٹھہرا رہی ہیں۔33 ۱؂۔
(۲۶ؔ ) حبّی فی اللّٰہ شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی۔ شیخ رحمت اللہ جوان صالح یکرنگ آدمی ہے۔ اِن میں فطرتی طور پر مادہ اطاعت اور اخلاص اور حسن ظن اس قدر ہے جس کی برکت سے وہ بہت سی ترقیات اس راہ میں کر سکتے ہیں۔ اُن کے مزاج میں غربت اور ادب بھی از حد ہے اور اُن کے بشرہ سے علامات سعادت ظاہرہیں۔ حتی الوسع وہ خدمات میں لگے رہتے ہیں۔ خدائے تعالیٰ کشاکش مکروہات سے انہیں بچاکر اپنی محبت کی حلاوت سے حصہ وافر بخشے۔ آمین ثم آمین۔
(۲۷) حبّی فی اللّٰہ میاں عبد الحکیم خاں جوان صالح ہے۔ علامات رشد وسعادت اُس کے چہرہ سے نمایاں ہیں۔ زیرک اور فہیم آدمی ہے۔ انگریزی زبان میں عمدہ مہارت رکھتے ہیں میں امید رکھتاہوں کہ خدائے تعالیٰ کئی خدمات اسلام اُن کے ہاتھ سے پوری کرے۔ وہ باوجود زمانہ طالب علمی اور تفرقہ کی حالت کے ایک روپیہ ماہواری بطور چندہ اس سلسلہ کے لئے دیتے ہیں اور ایسا ہی اُن کا دوست رشید خلیفہ رشید الدین صاحب جو ایک اہل آدمی اور اُنہیں کے ہمرنگ ہیں اسی قدر چندہ محض للّہی محبت کے جوش سے ماہ بماہ ادا کرتے ہیں۔ جزاؔ ہم اللّٰہ خیرالجزاء۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 538
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 538
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/538/mode/1up
(۲۸) حبّی فی اللّٰہ بابو کرم الٰہی صاحب ریکارڈ کلرک راجپورہ ریاست پٹیالہ۔ بابو صاحب متانت شعار مخلص آدمی ہیں وہ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ آپ کے رسالوں کے پڑھنے کے بعد بعض علماء طرح طرح کے توہمات میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ مگر الحمد للہ میرے دل میں ایک ذرّہ بھی شک راہ نہیں پایا۔ سو میں اس کا شکر یہ ادا نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ایسے طوفان کے وقت میں شکوک اور شبہات سے بچنا بشر کے اختیار میں نہیں۔ میری تنخواہ بہت کم ہے۔ مگر تاہم کم سے کم ایک روپیہ ماہواری آپ کے سلسلہ کی امداد کے لئے بھیجا کرونگا۔ کیونکہ تھوڑی خدمت میں بھی شریک ہوجانا بکلی محروم رہنے سے بہتر ہے۔ فقط۔سو بابو صاحب نہایت اخلاص اور محبت سے ایک روپیہ ماہواری بھیجتے رہتے ہیں۔جزاہم اللّٰہ خیرالجزاء۔
(۲۹) حبّی فی اللّٰہ مولوی عبد القادرجمالپوری۔ مولوی عبد القادر۔ جوان صالح۔متقی مستقیم الاحوال ہے۔ اس ابتلا کے وقت جو علماء میں بباعث نافہمی اور غلبہ سوء ظن ایک طوفان کی طرح اُٹھا مولوؔ ی عبد القادر صاحب کی بہت استقامت ظاہر ہوئی اور اوّل المومنین میں وہ داخل رہے بلکہ دعوت حق کرتے رہے۔ ان کا گذارہ ایک تھوڑی سی تنخواہ پر ہے تاہم اس سلسلہ کی امداد کے لئے ۲؍ ۶ پائی وہ ماہواری دیتے ہیں۔
(۳۰) حبّی فی اللّٰہ محمد ابن احمد مکّی من حارہ شعب عامر۔ یہ صاحب عربی ہیں اور خاص مکّہ معظمہ کے رہنے والے ہیں۔ صلاحیت اور رشد اورسعادت کے آثار اُن کے چہرہ پر ظاہر ہیں اپنے وطن خاص مکہ معظمہ سے زادہ اللّٰہ مجدًا و شرفًا بطور سیر و سیاحت اس ملک میں آئے اور ان دنوں میں بعض بداندیش لوگوں نے خلاف واقعہ باتیں بلکہ تہمتیں اپنی طرف سے اس عاجز کی نسبت اُن کو سنائیں اور کہا کہ یہ شخص رسالت کا دعویٰ کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن کریم سے منکر ہے اور کہتا ہے کہ مسیح جس پر انجیل نازل ہوئی تھی وہ اللّٰہمیں ہی ہوں۔ ان باتوں سے عربی صاحب کے دل میں بہ مقتضائے غیرت اسلامی ایک اشتعال پیدا ہوا تب انہوں نے عربی زبان میں اس عاجز کی طرف ایک خط لکھا جس میں یہ فقرات بھیؔ درج تھے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 539
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 539
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/539/mode/1up
ان کنتَ عیسٰی ابن مریم فانزل علینا مائدۃ ایّھا الکذّاب۔ ان کنت عیسٰی ابن مریم فانزل علینا مائدۃ ایّھا الدجّال۔ یعنی اگر تو عیسیٰ بن مریم ہے تو اے کذّاب اے دجّال ہم پر مائدہ نازل کر۔ لیکن معلوم نہیں کہ یہ کس وقت کی دعا تھی کہ جو منظور ہوگئی اور جس مائدہ کو دے کر خدائے تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے آخر وہ قادرخدا انہیں اس طرف کھینچ لایا۔ لودھیانہ میں آئے اور اس عاجز کی ملاقات کی اور سلسلۂ بیعت میں داخل ہوگئے۔ فالحمد للّٰہ الذی نجّاہ من النار وانزل علیہ مائدۃ من السّمآء۔ اُن کا بیان ہے کہ جب میں آپ کی نسبت بُرے اور فاسد ظنون میں مبتلا تھا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص مجھے کہتا ہے کہ یامحمد انت کذّاب۔ یعنے اے محمد کذاب تو ہی ہے۔ اوراُن کا یہ بھی بیان ہے کہ تین برس ہوئے کہ میں نے خواب میں دیکھاتھا کہ عیسیٰ آسمان سے نازل ہوگیا اور میں نے اپنے دل میں کہا تھا کہ انشاء اللہ القدیر میں اپنی زندگی میں عیسیٰ کو دیکھ لوں گا۔
(۳۱) حبّی فی اللّٰہ صاحبزادہ افتخاراحمد۔ یہ جوان صالح میرؔ ے مخلص اور محب صادق حاجی حرمین شریفین منشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور کے خلف رشید ہیں۔ اور بمقتضائے الولد سرّ لابیہ تمام محاسن اپنے والد بزرگوار کے اپنے اندر جمع رکھتے ہیں اوروہ مادہ اُن میں پایاجاتا ہے جو ترقی کرتا کرتا فانیوں کی جماعت میں انسان کو داخل کردیتا ہے۔ خدائے تعالیٰ روحانی غذاؤں سے ان کو حصہ وافر بخشے اور اپنے عاشقانہ ذوق و شوق سے سرمست کرے۔ آمین ثم آمین۔
(۳۲) حبّی فی اللّٰہ مولوی سیّد محمد عسکری خان اکسٹرا اسسٹنٹ حال پنشنر۔ سیّد صاحب موصوف الٰہ آباد کے ضلع کے رہنے والے ہیں۔ اس عاجز سے دلی محبت رکھتے ہیں بلکہ اُن کا دل عطر کے شیشہ کی طرح محبت سے بھر ا ہوا ہے۔ نہایت عمدہ صاف باطن یکرنگ دوست ہیں۔ معلومات بہت وسیع رکھتے ہیں ایک جید عالم قابل قدرہیں۔ اِن دنوں میں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 540
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 540
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/540/mode/1up
بیمار ہیں خدا تعالیٰ اُن کو جلد شفا بخشے۔آمین ثم آمین۔
(۳۳) حبی فی اللّٰہ مولوی غلام حسن صاحب پشاوری اس وؔ قت لودھیانہ میں میرے پاس موجود ہیں۔ محض ملاقات کی غرض سے پشاور سے تشریف لائے ہیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ وفادار مخلص ہیں اور لَایَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَاءِمٍ میں داخل ہیں جوش ہمدردی کی راہ سے 3دو روپیہ ماہواری چندہ دیتے ہیں مجھے امید ہے کہ وہ بہت جلد للہی راہوں اور دینی معارف میں ترقی کریں گے کیونکہ فطرت نورانی رکھتے ہیں۔
(۳۴) حبّی فی اللّٰہ شیخ حامد علی۔ یہ جوان صالح اور ایک صالح خاندان کا ہے اور قریبًا سات آٹھ سال سے میری خدمت میں ہے اور میں یقینًا جانتا ہوں کہ مجھ سے اخلاص اور محبت رکھتا ہے۔ اگرچہ دقائق تقویٰ تک پہنچنا بڑے عرفاء اور صلحاء کا کام ہے۔ مگر جہاں تک سمجھ ہے اتباع سُنّت اور رعایت تقوےٰ میں مصروف ہے۔ میں نے اس کو دیکھا ہے کہ ایسی بیماری میں جو نہایت شدید اور مرض الموت معلوم ہوتی تھی اور ضعف اور لاغری سے میّت کی طرح ہو گیا تھا۔ التزام ادائے نماز پنجگانہ میں ایسا سرگرم تھا کہ اس بے ہوشی اور نازک حالت میں جس طرح بن پڑے نماز پڑھ لیتاؔ تھا۔ میں جانتا ہوں کہ انسان کی خداترسی کا اندازہ کرنے کے لئے اس کے التزام نماز کو دیکھنا کافی ہے کہ کس قدر ہے اور مجھے یقین ہے کہ جو شخص پورے پورے اہتمام سے نماز ادا کرتاہے اور خوف اور بیماری اور فتنہ کی حالتیں اس کو نماز سے روک نہیں سکتیں وہ بے شک خدائے تعالیٰ پر ایک سچا ایمان رکھتا ہے مگریہ ایمان غریبوں کو دیا گیا دولتمند اس نعمت کو پانے والے بہت ہی تھوڑے ہیں۔ شیخ حامد علی نے خدائے تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس عاجز کے کئی نشان دیکھے ہیں اورچونکہ وہ سفر وحضر میں ہمیشہ میرے ساتھ ہی رہتا ہے اس لئے خدائے تعالیٰ اس کے لئے ایسے اسباب پیدا کرتا رہااور وہ اپنی آنکھ سے دیکھتا رہا کہ کیوں کر خدائے تعالیٰ کی عنایتیں اس طرف رجوع کررہی ہیں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 541
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 541
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/541/mode/1up
اور کیوں کر دعاؤں کے قبول ہونے سے خارق عادت نشان ظہور میں آئے۔ شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پوری کے ابتلاء اور نزول بلاکی خبر جو پورے چھ مہینہ پہلے شیخ صاحب کو بذریعہ خط دی گئی تھی اور پھر اُنکے انجام بخیر ہونے کی بشارت جو حکم سزائے موت کی حالت میںؔ اُن کو پہنچائی گئی تھی۔ یہ سب باتیں حامد علی کی چشم دید ہیں۔ بلکہ اس پیشگوئی پر بعض نادان اس سے لڑتے اور جھگڑتے رہے کہ اس کا پور اہونا غیر ممکن ہے۔ ایسا ہی دلیپ سنگھ کے روکے جانے کی پیشگوئی اور کئی دوسری پیشگوئیاں اور نشان جو صبح صادق کی طرح ظاہر ہوگئیں اس شخص کو معلوم ہیں جن کا خدائے تعالیٰ نے اس کو گواہ بنا دیا ہے۔ ا ور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اس کو نشان دکھائے گئے وہ ایک طالب حق کا ایمان مضبوط کرنے کے لئے ایسے کافی ہیں کہ اس سے بڑھ کر حاجت نہیں۔ حامد علی بے شک ایک مخلص ہے مگر فطرتی طورپر اشتعال طبع اس میں زیادہ پایاجاتا ہے۔ صبر اور ضبط کی عادت ابھی اس میں کم ہے۔ ایک غریب اورادنیٰ مزدورکی سخت بات پر برداشت کرنا ہنوز اس کی طاقت سے باہر ہے۔ غصّہ کے وقت کسی قدر جبائرہ کا رگ وریشہ نمودار ہوجاتا ہے۔ کاہلی اور کسل بھی بہت ہے مگر متدین اور متقی اور وفادار ہے۔ خدائے تعالیٰ اس کی کمزوری کو دورکرے۔ آمین۔ حامد علی صرف تین روپے مجھ سے تنخواہ پاتا ہے اور اس میں سے اس سلسلہ کے چندہ کے لئے ۴؍ بطیب خاطر محض للّہی شوق سے ادا کرتا ہے اور حبّی فی اللّٰہ شیخ چراغ علی چچا اس ؔ کا اس کی تمام خوبیوں میں اس کا شریک ہے اور یکرنگ اور بہادرہے۔
(۳۵) حبّی فی اللّٰہ شیخ شہاب الدین موحد شیخ شہاب الدین غریب طبع اور مخلص اور نیک خیال آدمی ہے۔ نہایت تنگدستی اور عُسر سے اس مسافرخانہ کے دن پورے کر رہا ہے۔ افسوس کہ اکثر دولت مند مسلمانوں نے زکوٰۃ دینا بھی چھوڑ دیا اور شریعت اسلامی کا یہ پُرحکمت مسئلہ کہ یؤخذ من الاغنیاء ویردّ الی الفقراء یونہی معطّل
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 542
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 542
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/542/mode/1up
پڑا ہے۔ اگر دولت مند لوگ کسی پر احسان نہ کریں صرف فریضہ زکوٰۃ کے ادا کرنے کی طرف متوجہ ہوں تاہم ہزار ہا روپیہ اسلامی اور قومی ہمدردی کے لئے جمع ہوسکتاہے۔ لیکن مال بخیل آنگاہ از خاک برآید کہ بخیل درخاک رود۔
(۳۶) حبّی فی اللّٰہ میراں بخش ولد بہادر خان کیروی ایک مخلص اور پختہ اعتقاد آدمی ہے اس کے زیادت اعتقاد کا موجب اس نے یہ بیان کیا کہ ایک مجذوب نے اس کو خبر دی تھی کہ عیسیٰ جو آنے والا تھا وہ یہی ہے۔ یعنی یہ عاجز۔ اور یہ خبر اس عاجز کے اظہار دعویٰ سے کئی سال پیشتر وہ سُن چکا تھا اور صد ہا آدمیوؔ ں میں شہرت پا چکے تھے۔
(۳۷) حبّی فی اللّٰہ حافظ نور احمد صاحب لدھیانوی۔ حافظ صاحب جوان صالح بڑے محب اورمخلص اور اوّل درجہ کا اعتقاد رکھنے والے ہیں۔ ہمیشہ اپنے مال سے خدمت کرتے رہتے ہیں۔ جزاہم اللّٰہ خیرالجزاء۔
(۳۸)حبّی فی اللّٰہ مولوی محمد مبارک علی صاحب۔ یہ مولوی صاحب اس عاجز کے اُستاد زادہ ہیں۔ ان کے والد صاحب حضرت مولوی فضل احمد صاحب مرحوم ایک بزرگوار عالم باعمل تھے مجھ کو اُن سے از حد محبت تھی۔ کیونکہ علاوہ اُستاد ہونے کے وہ ایک باخدا اور صاف باطن اور زندہ دل اور متّقی اور پرہیزگار تھے۔ عین نماز کی حالت میں ہی اپنے محبوب حقیقی کو جاملے۔ اور چونکہ نماز کی حالت میں ایک تبتّل اور انقطاع کا وقت ہوتا ہے اس لئے اُن کا واقعہ ایک قابل رشک واقعہ ہے۔ خدائے تعالیٰ ایسی موت سب مومنوں کے لئے نصیب کرے۔ مولوی مبارک علی صاحب اُن کے خلف رشید اور فرزند کلاں ہیں۔ سیرت اور صورت میں حضرت مولوی صاحب مرحومؔ سے بہت مشابہ ہیں۔اس عاجز کے یکرنگ اور پُر جوش دوست ہیں اور اس راہ میں ہر یک قسم کے ابتلاء کی برداشت کر رہے ہیں۔ حضرت عیسیٰ ابن مریم کی وفات کے بارے میں ایک رسالہ انہوں نے تالیف کیا ہے جو چھپ کر شائع ہوگیا ہے جس کا نام قول جمیل ہے۔ اس عاجز کا ذکر بھی اس میں کئی جگہ کیا گیا ہے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 543
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 543
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/543/mode/1up
چونکہ مولوی صاحب موصوف کی حدیث اور تفسیرپر نظر وسیع ہے اس لئے انہوں نے محدثین کی طرز پر نہایت خوبی اور متانت سے اس رسالہ کو انجام دیا ہے۔ مخالف الرائے مولوی صاحبان جن کو غور اور فکر کرنے کی عادت نہیں اور جو آنکھ بند کر کے فتوے پر فتوے لکھ رہے ہیں انہیں مناسب ہے کہ علاوہ اس عاجز کی کتاب ازالہ اوہام کے میرے دوست عزیز مولوی محمد مبارک علی صاحب کے رسالہ کو بھی دیکھیں اور نیز میرے دوست رفیق مولوی محمد احسن صاحب امروہوی کے رسالہ اعلام الناس کو بھی ذرہ غور سے پڑھیں اور خدائے تعالیٰ کی ہدایت سے نومید نہ ہوں گو ان کی حالت بہت خطرناک اور قریب قریب یا س کے ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہر یک چیز پر قادر ہے۔ مولویوں کا حجاب کفار کے ؔ حجاب سے کچھ زیادہ نہیں پھر کیوں اس سرچشمہ رحمت سے نومید ہوتے ہیں۔ وھو علٰی کلِّ شی ءٍ قدیر۔
(۳۹) حبّی فی اللّٰہ مولوی محمد تفضل حسین صاحب مولوی صاحب ممدوح میرے ساتھ سچے دل سے اخلاص اور محبت رکھتے ہیں میں نے اُن کے دل کی طرف توجہ کی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ درحقیقت نیک فطرت آدمی اور سعیدوں میں سے ہیں اور قابل ترقی مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں۔اگر وہ بشریت کی کمزوری کی وجہ سے کسی خلجان میں پڑ یں تو میں امید نہیں رکھتا کہ اسی میں وہ بند رہ جائیں۔ کیونکہ اُن کی طینت صاف اور فراست ایمانی اور اسلامی نور کا اُن کو حصہ ہے اور کسی امر کے مشتبہ ہونے کے وقت قوت فیصلہ اپنے اندر رکھتے ہیں اور اس لائق ہیں کہ اگر وہ کچھ عرصہ صحبت میں رہیں تو علمی اور عملی طریقوں میں بہت ترقی کر جائیں۔ مولوی صاحب موصوف ایک بزرگ عارف باللہ کے خلف رشید ہیں اور پدری نور اپنے اندر مخفی رکھتے ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ کسی وقت وہ روحانیت اُن پر غالب ہوجائے۔ یہ عاجز جبؔ علی گڑھ میں گیا تھا تو درحقیقت مولوی صاحب ہی میرے جانے کے باعث ہوئے تھے اور اس قدرانہوں نے خدمت کی کہ میں اس کا شکر ادا نہیں کر سکتا۔ اس سلسلہ کے چندہ میں بھی انہوں نے دو روپیہ ماہواری مقرر
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 544
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 544
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/544/mode/1up
کر رکھے ہیں۔ مولوی صاحب موصوف اگرچہ تحصیلداری کے عہدہ پر ہیں مگر ایک بھاری بوجھ عیال کا ان کے سرپر ہے اور وہ دور نزدیک کے خویشوں اوراقارب بلکہ دوستوں کی بھی اپنے مال سے مدد کرتے ہیں اوربڑے مہمان نواز ہیں اور درویشوں اور فقیروں اور غریبوں سے بالطبع اُنس رکھتے ہیں اور سادہ طبع اور صاف باطن اور خیراندیش آدمی ہیں۔ باایں ہمہ ہمدردی اسلام کا جوش پورے طور پر اُن میں پایاجاتا ہے جزاھم اللّٰہ خیرًا۔ باقی اسماء بعض مبائعین کے یہ ہیں:۔
حبی فی اللّٰہ منشی محمد جلال الدین صاحب میر منشی
حبی فی اللّٰہ منشی الٰہ بخش صاحب
حبی فی اللّٰہ مولوی عنایت علی صاحب
حبی فی اللّٰہ عبد المجید خاں اورنگ آبادی
حبی فی اللّٰہ منشی فیاض علی صاحب
حبی فی اللّٰہ میاں علی گوہر صاحب
حبیؔ فی اللّٰہ میاں عبدالکریم خاں صاحب
حبی فی اللّٰہ منشی حبیب الرحمن صاحب
حبی فی اللّٰہ مولوی حکیم محی الدین عربی
حبی فی اللّٰہ سردار خاں برادر اخویم محمد خاں
حبی فی اللّٰہ سید خصلت علی صاحب
حبی فی اللّٰہ میر عنایت علی صاحب
حبی فی اللّٰہ میاں عطاء الرحمٰن دہلوی
حبی فی اللّٰہ مولوی تاج محمد صاحب سیرماندی
حبی فی اللّٰہ میر محمود شاہ صاحب سیالکوٹی
حبی فی اللّٰہ شیخ فتح محمد صاحب جمونی
حبی فی اللّٰہ شیح برکت علی صاحب
حبی فی اللّٰہ منشی احمد شاہ صاحب نور پور ی
حبی فی اللّٰہمولوی شیر محمد صاحب ہجنی
حبی فی اللّٰہ منشی محمد حسین صاحب مراد آبادی
حبی فی اللّٰہ منشی ہاشم علی صاحب
حبی فی اللّٰہ مولوی محمود حسن خاں صاحب
حبی فی اللّٰہ مولوی غلام جیلانی صاحب
حبی فی اللّٰہ سید امیر علی صاحب
حبی فی اللّٰہ مرزاخدا بخش صاحب
حبی فی اللّٰہ منشی غلام محمد صاحب سیالکوٹی
حبی فی اللّٰہ مولوی محمد دین سیالکوٹی
حبی فی اللّٰہ مولوی نوردین صاحب پوکہری
حبی فی اللّٰہ مولوی محمد حسین صاحب متوطن علاقہ ریاست کپور تھلہ
حبی فی اللّٰہ مفتی محمد صادق صاحب بھیروی
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 545
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 545
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/545/mode/1up
حبی فی اللّٰہ شیخ چراغ علی صاحب تہوی
حبی فی اللّٰہ مولوی محی الدین صاحب بہوبری
حبی فی اللّٰہ شیخ احمد شاہ صاحب منصور پوری
حبی فی اللّٰہ میاں عبد الحق صاحب متوطن پٹیالہ
حبی فی اللّٰہ مولوی نور محمد صاحب مانگٹی
یہؔ سب صاحب علیٰ حسب مراتب اس عاجز کے مخلص دوست ہیں۔ بعض ان میں سے اعلیٰ درجہ کا اخلاص رکھتے ہیں اسی اخلاص کے موافق جو اس عاجز کے منتخب دوستوں میں پایاجاتا ہے۔ اگر مجھے طول کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں جدا گانہ ان کے مخلصانہ حالات لکھتا۔ انشاء اللہ القدیر کسی دوسرے مقام میں لکھوں گا۔ اب میں اس تذکرہ کو دعاپر ختم کرتاہوں۔اے قادر خدا میرے اس ظن کو جو میں اپنے ان تمام دوستوں کی نسبت رکھتا ہوں سچاکر کے مجھے دکھا اور ان کے دلوں میں تقویٰ کی سبز شاخیں جو اعمال صالحہ کے میووں سے لدی ہوئی ہیں پیدا کر۔ ان کی کمزوری کو دور فرما اور ان کا سب کسل دُور کر دے اور ان کے دلوں میں اپنی عظمت قائم کر اور ان میں اور ان کے نفسوں میں دُوری ڈال اور ایسا کر کہ و ہ تجھ میں ہو کر بولیں۔ اور تجھ میں ہو کر سُنیں اور تجھ میں ہوکر دیکھیں اور تجھ میں ہو کر ہریک حرکت سکون کریں۔ ان سب کو ایک ایسا دل بخش جو تیری محبت کی طرف جھک جائے اور اُن کو ایک ایسی معرفت عطا کر جو تیری طرف کھینچ لیوے اے بار خدا۔ یہ جماعت تیری جماعت ہے اس کو برکت بخش اور سچائی کی روح ان میں ڈال کہ سب قدرت تیری ہی ہے۔ آمین۔
اور چندہ دہندوں کے نام معہ تفصیل چندہ یہ ہیں:۔
میاؔ ں عبداللہ پٹواری موضع غوث گڑھ
منشی عبد الرحمٰن صاحب پٹواری تحصیل سنام
مولوی محمد یوسف صاحب مدرس مدرسہ سنور
منشی احمد بخش صاحب پٹواری تحصیل بانگر
منشی حشمت اللہ صاحب مدرس مدرسہ سنور
منشی ابراہیم ثانی پٹواری تحصیل سرہند
منشی ہاشم علی صاحب پٹواری تحصیل برنالہ
منشی غلام قادر صاحب پٹواری تحصیل
منشی ابراہیم صاحب پٹواری تحصیل بانگر
منشی محمد فاضل صاحب سکنہ سنور
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 546
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 546
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/546/mode/1up
اخویم حکیم فضل دین صاحب بھیروی
اخویم منشی ظفر احمد صاحب
میاں الٰہ دین صاحب عرضی نویس معرفت حکیم فضل دین صاحب
اخویم میاں محمد خاں صاحب
میاں نجم الدین عبد الریانہ سکنہ بھیر ہ ا مام مسجد دھرکھانا والی
منشی عبد الرحمن صاحب
اخویم مولوی حکیم غلام احمد صاحب انجینئر ریاست جموں
منشی حبیب الرحمٰن صاحب
اخویم مکرم مولوی حکیم نوردین صاحب
معالج ریاست جموں
منشی فیاض علی صاحب
اخوؔ یم سید عبد الہادی صاحب سب اوور سیر فارکچھ
مولوی عبد القادر صاحب مدرس جمالپور ضلع لدھیانہ
مولوی سید تفضل حسین صاحب تحصیلدار علی گڑھ
منشی محمد بخش صاحب
اخویم منشی رستم علی صاحب ڈپٹی انسپکٹر محکمہ ریلوے
شیخ چراغ علی صاحب سکنہ تھہ غلام نبی
منشی محمدؐ کرم الہٰی صاحب ریکارڈ کلرک راجپورہ ریاست پٹیالہ
مولوی غلام حسن صاحب مدرس میونسپل بورڈ سکول پشاور
خاتمہؔ
اُن دوستوں کے لئے جو سِلسلہ بیعت میں داخل ہیں نصیحت کی باتیں
عزیزاں بے خلوص و صدق نکشا یند راہے را
مصفّا قطرۂ باید کہ تا گوہر شود پیدا
اے میرے دوستو! جو میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو۔ خدا ہمیں اور تمہیں اُن باتوں کی توفیق دے جن سے وہ راضی ہوجائے۔ آج تم تھوڑے ہو اور تحقیر کی نظر سے دیکھے گئے ہو اور ایک ابتلاء کاوقت تم پر ہے اسی سُنّت اللہ کے موافق جو قدیم سے جاری ہے۔ ہر یک
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 547
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 547
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/547/mode/1up
طرف سے کوشش ہوگی کہ تم ٹھوکرکھاؤ اور تم ہر طرح سے ستائے جاؤ گے اور طرح طرح کی باتیں تمہیں سُننی پڑیں گی اور ہریکؔ جو تمہیں زبان یا ہاتھ سے دکھ دے گا وہ خیال کرے گا کہ اسلام کی حمایت کر رہا ہے۔ اور کچھ آسمانی ابتلاء بھی تم پر آئیں گے تا تم ہر طرح سے آزمائے جاؤ۔ سو تم اس وقت سُن رکھو کہ تمہارے فتح مند اور غالب ہوجانے کی یہ راہ نہیں کہ تم اپنی خشک منطق سے کام لو یا تمسخر کے مقابل پر تمسخر کی باتیں کرو۔ یا گالی کے مقابل پر گالی دو۔ کیونکہ اگر تم نے یہی راہیں اختیار کیں تو تمہارے دل سخت ہوجائیں گے اور تم میں صرف باتیں ہی باتیں ہوں گی جن سے خدا تعالیٰ نفرت کرتا ہے اور کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ سو تم ایسا نہ کرو کہ اپنے پر دو لعنتیں جمع کر لو ایک خلقت کی اور دوسری خدا کی بھی۔
یقیناًیاد رکھو کہ لوگوں کی *** اگر خدائے تعالیٰ کی *** کے ساتھ نہ ہو کچھ بھی چیز نہیں اگر خدا ہمیں نابود نہ کرنا چاہے تو ہم کسی سے نابود نہیں ہو سکتے۔ لیکن اگر وہی ہمارا دشمن ہوجائے توکوئی ہمیں پناہ نہیں دے سکتا۔ ہم کیوں کر خدائے تعالیٰ کو راضی کریں اورکیونکروہ ہمارے ساتھ ہو۔ اِس کا اُس نے مجھے بار بار یہی جواب دیا کہ تقویٰ سے۔ سو اے میرے پیارے بھائیو کوشش کرو تا متقی بن جاؤ۔ بغیر عمل کے سب باتیں ہیچؔ ہیں اور بغیر اخلاص کے کوئی عمل مقبول نہیں۔ سو تقویٰ یہی ہے کہ ان تمام نقصانوں سے بچکر خدا تعالیٰ کی طرف قدم اُٹھاؤ۔ اور پرہیزگاری کی باریک راہوں کی رعایت رکھو۔ سب سے اوّل اپنے دلوں میں انکسار اور صفائی اوراخلاص پیدا کرو اور سچ مچ دلوں کے حلیم اورسلیم اور غریب بن جاؤ کہ ہر یک خیر اور شرکا بیج پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے اگر تیرا دل شر سے خالی ہے تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہو گی اور ایسا ہی تیری آنکھ اور تیرے سارے اعضاء۔ ہر یک نور یا اندھیرا پہلے دل میں ہی پیداہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ تمام بدن پر محیط ہوجاتا ہے۔ سو اپنے دلوں کو ہر دم ٹٹولتے رہو اور جیسے پان کھانے والا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 548
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 548
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/548/mode/1up
اپنے پانوں کو پھیرتا رہتا ہے اور ردّی ٹکڑے کو کاٹتاہے اور باہر پھینکتا ہے۔ اسی طرح تم بھی اپنے دلوں کے مخفی خیالات اور مخفی عادات اور مخفی جذبات اور مخفی ملکات کو اپنی نظر کے سامنے پھیرتے رہو اور جس خیال یا عادت یا ملکہ کو ردّی پاؤ اس کو کا ٹ کر باہر پھینکو ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے سارے دل کو ناپاک کر دیوے اور پھر تم کاٹے جاؤ۔
پھر بعد اس کے کوشش کرو اور نیز خدائے تعالیٰ سے قوت اورہمت مانگوؔ کہ تمہارے دلوں کے پاک ارادے اور پاک خیالات اورپاک جذبات اورپاک خواہشیں تمہارے اعضاء اور تمہارے تمام قویٰ کے ذریعہ سے ظہور پذیر اور تکمیل پذیر ہوں تا تمہاری نیکیاں کمال تک پہنچیں کیونکہ جو بات دل سے نکلے اور دل تک ہی محدود رہے وہ تمہیں کسی مرتبہ تک نہیں پہنچا سکتی۔ خدا تعالیٰ کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اس کے جلال کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو۔ اور یاد رکھو کہ قرآن کریم میں پانسو کے قریب حکم ہیں اور اس نے تمہارے ہر یک عضو اور ہر یک قوت اورہریک وضع اور ہر یک حالت اور ہرایک عمر اور ہر یک مرتبہ فہم اور مرتبہ فطرت اور مرتبہ سلوک او رمرتبہ انفراد اور اجتماع کے لحاظ سے ایک نورانی دعوت تمہاری کی ہے سو تم اس دعوت کو شکر کے ساتھ قبول کرو اور جس قدر کھانے تمہارے لئے تیار کئے گئے ہیں وہ سارے کھاؤ اور سب سے فائدہ حاصل کرو۔ جو شخص ان سب حکموں میں سے ایک کو بھی ٹالتا ہے میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ عدالت کے دن مواخذہ کے لائق ہو گا۔
اگر نجات چاہتے ہو تو دین العجائز اختیار کرو اور مسکینی سے قرآن کریم کا جؤا اپنی گردنوں پر اٹھاؤ کہ شریر ہلاک ہوگا اور سرکش جہنّم میںؔ گرایا جائے گا۔ پر جو غریبی سے گردن جھکاتا ہے وہ موت سے بچ جائے گا۔ دنیا کی خوشحالی کی شرطوں سے خدا تعالیٰ کی عبادت مت کرو کہ ایسے خیال کے لئے گڑھادرپیش ہے۔ بلکہ تم اس لئے اس کی پرستش کرو کہ پرستش ایک حق خالق کا تم پر ہے۔ چاہئے پرستش ہی تمہاری زندگی ہوجاوے اور تمہاری نیکیوں کی فقط یہی غرض ہوکہ وہ محبوب حقیقی اور محسنِ حقیقی راضی ہوجاوے کیونکہ جو اس سے کمتر خیال ہے وہ ٹھوکر کی جگہ ہے۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 549
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 549
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/549/mode/1up
خدا بڑی دولت ہے اس کے پانے کے لئے مصیبتوں کے لئے تیار ہوجاؤ۔ وہ بڑی مراد ہے۔ اس کے حاصل کرنے کے لئے جانوں کو فدا کرو۔ عزیزو!! خدائے تعالیٰ کے حکموں کو بے قدری سے نہ دیکھو۔ موجودہ فلسفہ کی زہر تم پر اثر نہ کرے۔ ایک بچے کی طرح بن کر اس کے حکموں کے نیچے چلو۔ نماز پڑھو نماز پڑھو کہ وہ تمام سعادتوں کی کُنجی ہے اور جب تُو نماز کے لئے کھڑا ہوتو ایسا نہ کر کہ گویا تُو ایک رسم ادا کر رہا ہے بلکہ نماز سے پہلے جیسے ظاہری وضو کرتے ہو ایسا ہی ایک باطنی وضو بھی کرو۔ اور اپنے اعضاء کو غیر اللہ کے خیال سے دھو ڈالو۔ تب ان دونوں وضوؤں کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ اور نماز میں بہت دعا کرو اور رونا اور گڑگڑانا اپنی عادت کر لو تا تم پر رحم کیاجائے۔
سچاؔ ئی اختیار کرو سچائی اختیار کرو کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے دل کیسے ہیں۔ کیا انسان اس کو بھی دھوکہ دے سکتا ہے۔کیا اس کے آگے بھی مکّاریاں پیش جاتی ہیں۔نہایت بدبخت آدمی اپنے فاسقانہ افعال اس حد تک پہنچاتا ہے کہ گویا خدا نہیں۔ تب وہ بہت جلد ہلاک کیاجاتاہے اورخدائے تعالیٰ کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی۔
عزیزو! اس دنیا کی مجر د منطق ایک شیطان ہے اور اس دنیا کا خالی فلسفہ ایک ابلیس ہے جو ایمانی نور کو نہایت درجہ گھٹا دیتا ہے اور بیباکیاں پیدا کرتا ہے اور قریب قریب دہریّت کے پہنچا تا ہے۔ سوتم اس سے اپنے تئیں بچاؤ اور ایسا دل پیدا کرو جو غریب اور مسکین ہو اوربغیر چون چراکے حکموں کو ماننے والے ہوجاؤ جیسا کہ بچہ اپنی والدہ کی باتوں کومانتا ہے۔
قرآن کریم کی تعلیمیں تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچانا چاہتی ہیں ان کی طرف کان دھرو اور اُن کے موافق اپنے تئیں بناؤ۔
قرآن شریف انجیل کی طرح تمہیں صرف یہ نہیں کہتا کہ نامحرم عورتوں یاایسوں کو جو عورتوں کی طرح محلِ شہوت ہوسکتی ہیں شہوت کیؔ نظر سے مت دیکھو بلکہ اس کی کامل تعلیم کا یہ منشاء ہے کہ تُو بغیر ضرورت نامحرم کی طرف نظر مت اُٹھا نہ شہوت سے اور نہ بغیر شہوت۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 550
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 550
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/550/mode/1up
بلکہ چاہیئے کہ تُو آنکھیں بند کر کے اپنے تئیں ٹھوکر سے بچاوے تا تیری دلی پاکیزگی میں کچھ فرق نہ آوے۔ سو تم اپنے مولیٰ کے اس حکم کو خوب یاد رکھواور آنکھوں کے زنا سے اپنے تئیں بچاؤ اور اس ذات کے غضب سے ڈرو جس کا غضب ایک دم میں ہلاک کر سکتا ہے۔ قرآن شریف یہ بھی فرماتا ہے کہ تُو اپنے کانوں کوبھی نامحرم عورتوں کے ذکر سے بچا اور ایسا ہی ہر یک ناجائز ذکر سے۔
مجھے اس وقت اس نصیحت کی حاجت نہیں کہ تم خون نہ کرو کیونکہ بجُز نہایت شریر آدمی کے کون ناحق کے خون کی طرف قدم اٹھاتاہے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ ناانصافی پر ضد کر کے سچائی کا خون نہ کرو۔ حق کو قبو ل کرلو اگرچہ ایک بچہ سے اور اگر مخالف کی طرف حق پاؤتو پھر فی الفور اپنی خشک منطق کو چھوڑ دو۔ سچ پر ٹھہر جاؤ اور سچی گواہی دو۔ جیساکہ اللہ جلَّ شَانُہٗ فرماتا ہے333 ۱؂ یعنی بُتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹ سے بھیؔ کہ وہ بُت سے کم نہیں۔ جو چیز قبلۂ حق سے تمہارا مُنہ پھیرتی ہے وہی تمہاری راہ میں بُت ہے۔ سچی گواہی دواگرچہ تمہارے باپوں یا بھائیوں یادوستوں پر ہو۔ چاہیئے کہ کوئی عداوت بھی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو۔
باہم’’ بخل‘‘ اورکینہ اور حسد اور بُغض اور بے مہری چھوڑدو اور ایک ہوجاؤ۔قرآن شریف کے بڑے حکم دو ہی ہیں۔ ایک توحید و محبت و اطاعت باری عزاسمہ‘۔ دوسری ہمدردی اپنے بھائیوں اور اپنے بنی نوع کی۔ اور ان حکموں کو اس نے تین درجہ پر منقسم کیاہے۔ جیسا کہ استعدادیں بھی تین ہی قسم کی ہیں اور وہ آیت کریمہ یہ ہے۔ 333۲؂۔پہلے طور پر اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ تم اپنے خالق کے ساتھ اس کی اطاعت میں عدل کا طریق مرعی رکھو ظالم نہ بنو۔ پس جیسا کہ درحقیقت بجُز اُس کے کوئی بھی پرستش کے لائق نہیں۔ کوئی بھی محبت کے لائق نہیں کوئی بھی توکّل کے لائق نہیں۔ کیونکہ بوجہ خالقیت اور قیومیت وربوبیت خاصہ کے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 551
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 551
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/551/mode/1up
ہر یک حق اُسی کا ہے۔ اِسی طرح تمؔ بھی اس کے ساتھ کسی کو اُس کی پرستش میں اوراُسکی محبت میں اور اُس کی ربوبیت میں شریک مت کرو۔ اگر تم نے اِس قدرکر لیاتو یہ عدل ہے جس کی رعایت تم پر فرض تھی۔
پھر اگر اس پر ترقی کرنا چاہو تو احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اس کی عظمتوں کے ایسے قائل ہوجاؤ اور اُس کے آگے اپنی پرستشوں میں ایسے متادّب بن جاؤ اور اُس کی محبت میں ایسے کھوئے جاؤ کہ گویا تم نے اُس کی عظمت اور جلال اوراُس کے حُسنِ لازوال کودیکھ لیا ہے۔
بعد اس کے ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہاری پرستش اور تمہاری محبت اور تمہاری فرمانبرداری سے بالکل تکلّف اور تصنّع دُورہوجائے اور تم اُس کو ایسے جگری تعلق سے یاد کرو کہ جیسے مثلًا تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو اور تمہاری محبت اس سے ایسی ہوجائے کہ جیسے مثلاً بچہ اپنی پیاری ماں سے محبت رکھتاہے۔
اور دوسرے طور پر جو ہمدردی بنی نوع سے متعلق ہے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ اپنے بھائیوں اور بنی نوع سے عدل کرو اورؔ اپنے حقوق سے زیادہ اُن سے کچھ تعرّض نہ کرو اور انصاف پرقائم رہو۔
اوراگر اس درجہ سے ترقی کرنی چاہو تو اس سے آگے احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تُو اپنے بھائی کی بدی کے مقابل نیکی کرے اور اُس کی آزار کی عوض میں تُو اس کو راحت پہنچاوے اور مروّت اور احسان کے طور پر دستگیری کرے۔
پھر بعد اس کے ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تُو جس قدر اپنے بھائی سے نیکی کرے یاجس قدر بنی نوع کی خیر خواہی بجا لاوے اس سے کوئی اور کسی قسم کا احسان منظور نہ ہو بلکہ طبعی طور پر بغیر پیش نہاد کسی غرض کے وہ تجھ سے صادر ہوجیسی شدت قرابت کے جوش سے ایک خویش دوسرے خویش کے ساتھ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 552
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 552
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/552/mode/1up
نیکی کرتا ہے۔ سو یہ اخلاقی ترقی کا آخری کمال ہے کہ ہمدردی خلائق میں کوئی نفسانی مطلب یا مدّعا یاغرض درمیان نہ ہو بلکہ اخوت وقرابت انسانی کا جوش اس اعلیٰ درجہ پر نشوونما پاجائے کہ خود بخود بغیر کسی تکلّف کے اور بغیر پیش نہاد رکھنے کسی قسم کی شکر گذاری یادؔ عا یا اور کسی قسم کی پاداش کے وہ نیکی فقط فطرتی جوش سے صادر ہو۔
عزیزو! اپنے سلسلہ کے بھائیوں سے جو میری اس کتاب میں درج ہیں باستثنا اس شخص کے کہ بعد اس کے خدائے تعالیٰ اس کو ردّ کر دیوے خاص طور سے محبت رکھو اور جب تک کسی کونہ دیکھو کہ وہ اس سلسلہ سے کسی مخالفانہ فعل یا قول سے باہر ہو گیاتب تک اس کو اپنا ایک عضو سمجھو۔ لیکن جو شخص مکّاری سے زندگی بسرکرتا ہے اور اپنی بدعہدیوںیا کسی قسم کے جوروجفا سے اپنے کسی بھائی کو آزار پہنچاتا ہے یا وساوس و حرکاتِ مخالف عہد بیعت سے باز نہیں آتا وہ اپنی بدعملی کی وجہ سے اس سلسلہ سے باہر ہے۔ اس کی پرواہ نہ کرو۔
چاہیئے کہ اسلام کی ساری تصویر تمہارے وجود میں نمودارہو اور تمہاری پیشانیوں میں اثرسجود نظر آوے اور خدائے تعالیٰ کی بزرگی تم میں قائم ہو۔ اگر قرآن اورحدیث کے مقابل پر ایک جہان عقلی دلائل کا دیکھو تو ہرگز اس کو قبول نہ کرو اور یقینًا سمجھو کہ عقل نے لغزش کھائی ہے۔ توحید پرقائم رہو اور نماز کے پابند ہوجاؤ اور اپنے مولیٰ حقیقی کے حکموں کو سب سے مقدّم رکھو اوراسلام کے لئے سارے دُکھ اُٹھاؤ۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 553
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 553
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/553/mode/1up
بیرونی شہادتیں
بعد ختم کتاب بعض شہادتیں ہم کوملیں مناسب سمجھ کر اُن کو کتاب کے ساتھ شامل کردیا
(۱) یہ کہ کوہ نور یکم اگست ۱۸۹۱ ؁ء اور نورافشاں ۳۰ جولائی ۱۸۹۱ ؁ء میں بحوالہؔ اخبار عام لکھا ہے کہ حا ل میں امریکہ کے ایک بڑے پادری صاحب پر وہاں کے لوگوں نے کفر کا الزام لگایا ہے۔ وجہ کفر یہ ہے کہ اسے مسیح کے معجزات اور جسمانی طور پر زندہ ہونے مسیح کا اعتقاد نہیں ہے۔ بیان کیا گیا ہے کہ یہ ایک بڑا پادری اسی فرقہ میں سے ہے کہ جو عیسائیوں کے اس عقیدہ سے پھر گیا ہے کہ مسیح زندہ ہے اورپھردوبارہ دنیا میں آئیگاسو یہ ایک بیرونی شہادت ہے جو خدائے تعالیٰ نے اس عاجز کے دعویٰ پر قائم کی اور عیسائیوں کے ایک محقق پادری سے جو درجہ کی رو سے ایک بڑا پادری ہے وہی اقرار کرایا جس کی نسبت اِس عاجز کو الہامی خبر دی گئی۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔
(۲) دوسری یہ کہ ایک بزرگ حاجی حرمین شریفین عبد الرحمٰن نام جنہوں نے دو حج کئے ہیں مرید خاص حضرت حاجی منشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور ساکن لودہیانہ جو مرد پیر بعمر قریب اسی سال کے ہیں اپنی ایک رؤیا میں بیان کرتے ہیں کہ میں نے جس روز مولوی محمد حسین صاحب کی آپ سے یعنی اس عاجز سے بحث ہوئی تھی رات کو خواب میں دیکھا کہ میاں صاحب مرحوم یعنی حاجی احمد جان صاحب نے مجھے اپنے مکان پر بلایا ہے۔ چنانچہ میں گیا اور ہم پانچ آدمی ہو گئے اور سب مل کر حضرت خواجہ اویس قرنی کے پاسؔ گئے۔ اُس وقت حضرت اویس قرنی خرقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنے ہوئے تھے۔پھر وہاں سے ہم سب اور اویس قرنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں پہنچے اور اویس قرنی نے وہ خرقہ آنحضرت صلعم کے سامنے رکھ دیا اورعرض کی کہ آج
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 554
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 554
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/554/mode/1up
اس خرقہ کی توہین ہوئی اور اس کی حُرمت آپ کے اختیار میں ہے۔ آپ ہی کی طرف سے تھا میں صرف ایلچی تھا۔ تب میں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دا ہنی طرف حضرت ابوبکر صدیق اور صحابہ اور بائیں طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام بیٹھے تھے اور سامنے آپ یعنی یہ عاجز کھڑا ہے اور ایک طرف مولوی محمد حسین کھڑا ہے اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیان کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی یہ عادت ہوتی کہ وہ فوت شدہ لوگوں کو دوبارہ دنیا میں بھیجتا اور میں بھیجاجاتا تو مجھ سے بھی دنیا کے لوگ یونہی پیش آتے جیسا کہ ان کے ساتھ آئے (یعنی اس عاجز کے ساتھ ) پھر میاں صاحب مرحوم نے مجھے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ کے بالوں کو دیکھ۔تب میں نے اُن کے سر کے بالوں پر ہاتھ پھیرا تو وہ سیدھے ہوگئے اور جب ہاتھ اُٹھایا تو کُنڈل پڑ گئے۔ پھرمیاں صاحب نے فرمایا کہ دیکھو ان کی آنکھوؔ ں کی طرف۔ جب میں نے دیکھا تو آنکھیں شربتی تھیں اور رنگ نہایت سفید جو نہیں دیکھاجاتاتھا۔ پھر میاں صاحب نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا یہی حُلیہ ہے مگر وہ مسیح موعود جس کے آنے کا وعدہ تھا اُس کا حُلیہ وہی ہے جو تم دیکھتے ہو اور آپ کی طرف اشارہ کیا یعنی اس عاجز کی طرف۔پھر مَیں بیدار ہوگیا اور دل پر اس رؤیا کا اثر تار برقی کی طرح پایا۔
(۳) تیسری یہ کہ حبّی فی اللّٰہ میاں عبدالحکیم خاں صاحب اپنے رسالہ ذکر الحکیم کے صفحہ ۳۸ میں لکھتے ہیں کہ میں ماہ ستمبر ۱۸۹۰ ؁ء میں بموقعہ تعطیلات موسمی تراوڑ ی میں مقیم تھا۔ اُس جگہ میں نے متواتر تین یا چار دفعہ عیسیٰ علیہ السلام کو خواب میں دیکھا اور ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں نے خواب میں سُنا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے ہیں میں یہ خبر سُنکر حضرت مسیح علیہ السلام کی زیارت کیواسطے چلا۔ جب آپکی محفل میں پہنچا تو میں نے سب پر سلام کہا اورپوچھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کس جگہ تشریف رکھتے ہیں وہاں مرزا یوسف بیگ صاحب سامانوی جو مرزا صاحب کے مریدوں میں سے ہیں موجود تھے انہوں نے مجھے بتلایامیں ادب سے مسیح علیہ السلام کی طرف چلا۔مگر جب دوبارہ نظر اُٹھاکر دیکھا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 555
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 555
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/555/mode/1up
تو مرزا غلام احمد صاؔ حب ایک عجیب وجیہ حسین اور شاندار صورت میں تشریف رکھتے ہیں۔ یہ خواب میں نے حافظ عبد الغنی صاحب سے جو تراوڑی میں ایک مسجد کا امام ہے بیان کی تھی اور میرزا صاحب نے ابھی مسیح ہونے کا دعویٰ مشتہر نہیں کیا تھا۔
یہ شہادتیں ہیں جو رسالہ کے ختم ہونے کے بعد ہم کوملیں۔ ایسا ہی ایک اعتراض بھی اس رسالہ کے ختم ہونے کے بعد پیش کیا گیا اور وہ یہ ہے کہ اگرمسیح دجّال کے گدھے سے مراد یہی ریل گاڑی ہے تو اس ریل پر تو نیک و بد دونوں سوار ہوتے ہیں بلکہ جس کو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ ہے وہ بھی سوار ہوتا ہے پھر یہ دجّال کا گدھا کیوں کر ہوگیا۔ جواب یہ ہے کہ بوجہ ملکیت اور قبضہ اور تصرّف تام اور ایجاد دجّالی گروہ کے یہ دجّال کا گدھا کہلاتا ہے۔اور اگر عارضی طورپر کوئی اس سے نفع اُٹھاوے تو اس سے وہ اس کا مالک یا موجد ٹھہرنہیں سکتا۔ خرِ دجّال کی اضافت ِ ملکی ہے۔پھر اگر خدا تعالیٰ دجّال کی مملوکات و مصنوعات میں سے بھی مومنوں کو نفع پہنچاوے تو اس میں کیا حرج ہے۔ کیا انبیاء کفار کی مملوکات و مصنوعات سے نفع نہیں اُٹھاتے تھے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر خچر کی سواری کرتے تھے حالانکہ احادیث نبویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ گدھے سے گھوڑؔ ی کو ملانا ممنوع ہے۔ ایسے ہی بہت نمونے پائے جاتے ہیں۔ماسوا اس کے جبکہ مسیح موعود قاتلِ دجّال ہے یعنی روحانی طور پر تو بموجب حدیث من قتل قتیلاً کے جو کچھ دجّال کا ہے وہ مسیح کا ہے۔ علاوہ اس کے مسلم کی حدیث میں جو ابوہریرہ سے مروی ہے عیسیٰ کے آنے کی یہ نشانیاں لکھی ہیں لینزلن ابن مریم حکمًا عدلًا فلیکسرن الصلیب ولیقتلن الخنزیر ولیضعن الجزیۃ ولیترکن القلاص فلا یسعٰی علیھایعنی عیسیٰ حَکَم اورعدل ہونے کی حالت میں اُترے گا اس طرح پر کہ مسلمانوں کے اختلافات پر حق کے ساتھ حکم کرے گا او ر عدل کو زمین پر قائم کر دے گا صلیب کو توڑے گا خنزیروں کو قتل کرے گا اور جزیہ کو اُٹھا دے گا اور اس کے آنے کا ایک یہ نشان ہو گا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 556
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 556
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/556/mode/1up
کہ جوان اُونٹنیاں جو بار برداری اورسواری کا بخوبی کام دیتی ہیں چھوڑ دی جائیں گی پھر اُن پر سواری نہیں کی جائے گی۔ اب واضح ہو کہ یہ ریل گاڑی کی طرف اشارہ ہے جس نے تمام سواریوں سے قریبًا نوع انسان کو فارغ کردیا ہے اور جو تمام دنیا کے ستّر ہزار میل میں پھر گئی ہے اور ہندوستان کے سولہ ہزار میل میں۔ چونکہ عرب میں اعلیٰ درجہ کی سواری جو ایک عربی کے تمام گھرکو اُٹھاسکتی ہے اونٹنی کی سواری ہے جو باربرداری اور مسافت کے طے کرنے میں تمام سواریوں سے بڑھ کر ہے اِس لئے آنحضرت صلعم نے اِسی کی طرف اشارہ کیا تا اعلیٰ کے ذکر کرنے سے ادنیٰ خود اس کے ضمن میں آجائے۔ پس فرمایاؔ کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت میں یہ سب سواریاں بے قدرہوجائیں گی اور کوئی اُن کی طرف التفات نہیں کرے گا یعنی ایک نئی سواری دنیا میں پیدا ہوجائے گی جو دوسری تمام سواریوں کی وقعت کھودے گی۔ اب اگر عمومًا تمام لوگ اِس ریل گاڑی پر سوار نہ ہوں تو یہ پیشگوئی ناقص رہتی ہے۔
اس جگہ یہ بھی ظاہر ہے کہ مسلم کی حدیث سے جو فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے ثابت ہوتا ہے جو دجّال ہندوستان سے نکلنے والا ہے جس کا گدھا دخان کے زورسے چلے گا جیسے بادل جس کے پیچھے ہواہوتی ہے اور ایسا ہی مسیح بھی اسی ملک میں اوّل ظہور کرے گا گو بعد میں مسافر کے طور پر کسی اور ملک دمشق وغیرہ میں نزول کرے۔ نزول کا لفظ جو دمشق کے ساتھ لگایا گیاہے خود دلالت کررہا ہے جو دمشق میں اس کا آنا مسافرانہ طورپر ہوگا اور اصل ظہورکسی اور ملک میں اور ظاہر ہے کہ جس جگہ دجّال ظہور کرے اُسی جگہ مسیح کا آنا ضروری ہے کیونکہ مسیح دجّال کے لئے بھیجا گیا ہے اور یہ بھی اسی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ دجّال خود نہیں نکلے گا بلکہ اس کا کوئی مثیل نکلے گا اور حدیث کے لفظ یہ ہیں الا انّہ‘ فی بحر الشام او بحر الیمن لا بل من قبل المشرق ماھو و اَوْمیٰ بیدہ الیؔ المشرق رواہ مسلم۔ یعنی خبردارہو کیا دجّال بحرشام میں ہے یا بحر یمن میں۔ نہیں بلکہ وہ مشرق کی طرف سے نکلے گا۔ نہیں وہ یعنی وہ نہیں نکلے گا بلکہ اس کا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 557
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 557
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/557/mode/1up
مثیل نکلے گا اور مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تمیم داری کا خیال تو یہ تھا کہ دجّال بحرشام میں ہے یعنی اس طرف کسی جزیرہ میں۔ کیونکہ تمیم نصرانی ہونے کے زمانہ میں اکثر ملک شام کی طرف جاتا تھا۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال کو ردّ کر دیا اور فرمایا کہ وہ مشرق کی کسی خاص طرف سے نکلے گا اور ممالک مشرقیہ میں ہندوستان داخل ہے۔ اس جگہ یہ بھی یادرہے کہ اس خبر تمیم داری کی تصدیق کے بارے میں ایسے الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مُنہ سے ہرگز نہیں نکلے جو اس بات پر دلالت کرتے ہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تمیم داری کے دجّال کا وجود یقین کرلیا تھا بلکہ اس بات کی تصدیق پائی جاتی ہے کہ دجّال مدینہ منوّرہ اور مکہ معظمہ میں داخل نہیں ہو گا۔ ماسوا اس کے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ تصدیق وحی کی رو سے ہے اور جاننے والے اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ آنحضرت صلعم جو اخبار وحکایات بیان کردہ تصدیق کرتے تھے اس کے لئے یہ ضرور نہیں ہوتا تھا کہ وہ تصدیق وحی کی رُو سے ہو۔ بلکہ بسا اوقات محض مخبر کے اعتبار کے خیال سے تصدیق کرلیا کرتے تھے۔چنانچہ کئی دفعہ یہ اتفاق ہوا ہوگا کہ آنحضرت صلعم نے کسیؔ مخبر کی خبر کو صحیح سمجھا اور بعد ازاں وہ خبر غلط نکلی بلکہ بعض وقت ایک مخبر کے اعتبار پر یہ خیال کیاگیاکہ دشمن چڑھائی کرنے والا ہے اور پیش قدمی کے طور پر اس پر چڑھائی کر دی گئی لیکن آخر کا ر وہ خبر غلط نکلی۔ انبیاء لوازم بشریت سے بالکل الگ نہیں کئے جاتے۔ ہاں وحی الٰہی کے پہنچانے میں محفوظ اور معصوم ہوتے ہیں۔سو یہ قصہ تمیم داری والا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سُنا ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتاکہ وحی کی رُو سے آنحضرت صلعم نے اس قصہ کی تصدیق کی اورحدیث میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں کہ اس خیال پر دلالت کر سکے۔پس صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلعم کے الفاظ سے جس قدر تصدیق اس قصہ کی پائی جاتی تھی وہ تصدیق وحی کی رو سے ہرگز نہیں۔ بلکہ محض عقلی طورپر اعتبار راوی کے لحاظ سے ہے۔ کیونکہ تمیم داری اس قصہ کے بیان کرنے کے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 558
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 558
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/558/mode/1up
وقت مسلما ن ہو چکا تھا اور بوجہ مشرف باسلام ہونے کے اس لائق تھا کہ اس کے بیان کو عزت اوراعتبار کی نظر سے دیکھاجائے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب وھذ ا اٰخر ما اردنا فی ھذا الباب والحمد للّٰہ اوّلًا و اٰخرًا و الیہ المرجع والمآب
بسمؔ اللّٰہ الرحمن الرحیم
نحمدہٗ و نصلی
گذارش ضروری بخدمت اُن صاحبوں کے جو بیعت کرنے کے لئے مستعد ہیں
اے اخوان مؤمنین ایّدکم اللّٰہ بروح منہ۔ آپ سب صاحبوں پر جو اس عاجز سے خالصًا لطلب اللہ بیعت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں*واضحؔ ہو کہ بالقائے رب کریم وجلیل (جس کا ارادہ ہے کہ مسلمانوں کو انواع واقسام کے اختلافات اور غل اور حقد اور نزاع اورفساد اور کینہ اور بُغض سے جس نے اُن کو بے برکت و نکمّا و کمزور کر دیا ہے نجات دے کر 3 ۱؂ کا مصداق بنا دے) مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض فوائد ومنافع بیعت کے جو آپ لوگوں کےؔ لئے مقدر ہیں اس انتظام پر موقوف ہیں کہ آپ سب صاحبوں کے اسماء مبارکہ ایک کتاب میں
تاریخ ھذا سے جو ۴ مارچ ۱۸۸۹ ؁ء ہے ۲۵ مارچ تک یہ عاجز لودہیانہ محلہ جدید میں مقیم ہے اس عرصہ میں اگر کو ئی صاحب آنا چاہیں تو لودہیانہ میں ۲۰ تاریخ کے بعد آجاویں اور اگر اس جگہ آنا موجب حرج ودقت ہوتو ۲۵ مارچ کے بعد جس وقت کوئی چاہے قادیان میں بعد اطلاع دہی بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوجاوے۔ مگر جس مدعا کے لئے بیعت ہے یعنی حقیقی تقویٰ اختیار کرنا اور سچا مسلمان بننے کیلئے کوشش کرنا ۔ اس مدعا کو خوب یاد رکھے ۔ اور اس وہم میں نہیںؔ پڑنا چاہیئے کہ اگر تقویٰ اور سچا مسلمان بننا پہلے ہی سے شرط ہے تو پھر بعد اس کے بیعت کی کیا حاجت ہے۔ بلکہ یاد رکھنا چاہیئے کہ بیعت اس غرض سے ہے کہ تا وہ تقویٰ کہ جو اوّل حالت میں تکلّف او رتصنّع سے اختیارکی جاتی ہے دوسرا رنگ پکڑے اور ببرکت توجہ صادقین وجذبہ کاملین طبیعت میں داخل ہوجائے اور اس کا جز بن جائے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 559
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 559
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/559/mode/1up
بقید ولدیّت وسکونت مستقل وعارضی طور معہ کسی قدر کیفیت کے (اگر ممکن ہو) اندراج پاویں اور پھر جب وہ اسماء مندرجہ کسی تعداد موزوں تک پہنچ جائیں تو اُن سب ناموں کی ایک فہرست تیار کرکے اور چھپواکر ایک ایک کاپی اس کی تمام بیعتؔ کرنے والوں کی خدمت میں بھیجی جائے اور پھر جب دوسرے وقت میں نئی بیعت کرنے والوں کا ایک معتد بہ گروہ ہوجاوے تو ایسا ہی اُن کے اسماء کی بھی فہرست تیار کر کے تمام مبائعین یعنی داخلین بیعت میں شائع کی جائے اور ایسا ہی ہوتا رہے جب تک ارادہ الٰہی اپنے اندازہ مقدر تک پہنچ جائے۔ یہ انتظام جس کے ذریعہ سے راستبازوں کا گروہ کثیر ایک ہی سلک میں منسلک ہو کر وحدت مجموعی کے پیرایہ میں خلق اللہ پر جلوہ نما ہو گا اور اپنی سچائی کے مختلف المخرج شعاعوں کو ایک ہی خط ممتد میں ظاہر کرے گا۔ خداوند عزّ وجلّ کو بہت پسند آیا ہے۔ مگر چونکہ یہ کارروائی بجُز اس کے بآسانی و صحت انجام پذیرنہیں ہو سکتی کہ خود مبایعین اپنے ہاتھ سے خوشخط قلم سے لکھ کر اپنا تمام پتہ ونشان بتفصیل مندرجہ بالا بھیج دیں۔ اس لئے ہر ایک صاحب کو جو صدق دل اورخلوص تام سے بیعت کرنے کے لئے
اور وہ مشکٰوتی نور دل میں پیدا ہوجاوے کہ جو عبودیت اور ربوبیت کے باہم تعلق شدید سے پیدا ہوتا ہے جس کو متصوفین دوسرے لفظوں میں روح قدس بھی کہتے ہیں جس کے پیدا ہونے کے بعد خدائے تعالےٰ کی نافرمانی ایسی بالطبع بُری معلوم ہوتی ہے جیسی وہ خود خدائے تعالےٰ کی نظر میں بُری ومکروہ ہے اور نہ صرف خلق اللہ سے انقطاع میسر آتا ہے بلکہ بجُز خالق ومالک حقیقی ہریک موجودکو کالعدم سمجھ کر فنا نظری کا درجہ حاصل ہوتا ہے سو اس نور کے پیدا ہونے کے لئے ابتدائی اتقا جسکو طالب صادق اپنے ساتھؔ لاتا ہے شرط ہے جیسا کہ اللہ تعالےٰ نے قرآن شریف کی علّت غائی بیان کرنے میں فرمایا ہے ھُدًی للمتّقین یہ نہیں فرمایا کہ ھدی للفاسقین یا ھُدًی للکافرین ابتدائی تقویٰ جس کے حصول سے متقی کا لفظ انسان پر صاد ق آسکتا ہے ۔ وہ ایک فطرتی حصہ ہے کہ جو سعیدوں کی خلقت میں رکھا گیا ہے اور ربوبیت اولیٰ اس کی مربی اور وجود بخش ہے جس سے متقی کا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 560
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 560
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/560/mode/1up
مستعد ہیں تکلیف دی جاتی ہے کہ وہ بتحریر خاص اپنے پورے پورے نام وولدیت وسکونت مستقل وعارضی سے اطلاع بخشیں یا اپنے حاضر ہونے کے وقت یہ تمام اموردرج کرا دیں۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی کتاب کا مرتب و شائع ہونا جس میں تمام بیعت کرنے والوں کے نام و دیگر پتہ و نشان درج ہو انشاؔ ء اللہ القدیر بہت سی خیر وبرکت کا موجب ہو گا۔ از انجملہ ایک بڑی عظیم الشان بات یہ ہے کہ اس ذریعہ سے بیعت کرنے والوں کا بہت جلد باہم تعارف ہوجائے گا اور باہم خط وکتابت کرنے اور افادہ و استفادہ کے وسائل نکل آئیں گے اور غائبانہ ایک دوسرے کو دعائے خیر سے یادکریں گے۔ اور نیز اس باہمی شناسائی کی رو سے ہرایک محل و موقعہ پر ایک دوسرے کی ہمدردی کرسکیں گے۔ اور ایک دوسرے کی غمخواری میں یا رانِ موافق و دوستانِ صادق کی طرح مشغول ہوجائیں گے اور ہرایک کو ان میں سے اپنے ہم ارادت لوگوں کے ناموں پر اطلاع پانے سے معلوم ہوجائے گا کہ اس کے روحانی بھائی دنیا میں کس قدر پھیلے ہوئے ہیں اور کن کن خداداد فضائل سے متصف ہیں۔ سو یہ علم اُن پر ظاہر کرے گا کہ خدائے تعالیٰ نے کس خارق عادت طور پر اس جماعت کو تیار کیا ہے اور کِس سرعت اورجلدی سے دنیا میں پھیلایا ہے۔ اور اس جگہ اس وصیت کالکھنا بھی موزوں معلوم ہوتا ہے کہ ہرایک شخص اپنے بھائی سے بکمال ہمدردی و محبت پیش آوے اور حقیقی بھائیوں سے بڑھ کر اُن کا قدرکرے۔ اُن سے جلد صلح کر لیوے اور دلی غبار کو دُور کردیوے اور صاف باطن ہو جاوے اور ہرگز ایک ذرا کینہ اورؔ بُغض اُن سے نہ رکھے۔ لیکن اگر کوئی عمدًا
پہلا تولد ہے مگر وہ اندرونی نور جو روح القدس سے تعبیر کیا گیا ہے وہ عبودیت خالصہ تامہ اور ربوبیت کاملہ مستجمعہ کے پور ے جوڑ واتصال سے بطرز 33 ۱؂ کے پیدا ہوتا ہے اور یہ ربوبیت ثانیہ ہے جس سے متقی تولد ثانی پاتا ہے اور ملکوتی مقام پر پہنچتا ہے اور اس کے بعد ربوبیت ثالثہ کا درجہ ہے جو خلق جدید سے موسوم ہے جس سے متقی لاہوتی مقام پر پہنچتا ہے اور تولد ثالث پاتاہے ۔فتدبّر منہ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 561
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 561
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/561/mode/1up
ان شرائط کی خلاف ورزی کرے جو اشتہار ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ ؁ء میں مندرج ہیں اور اپنی بے باکانہ حرکات سے باز نہ آوے تو وہ اس سلسلہ سے خار ج شمار کیاجاویگا۔ یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ متقین یعنی تقویٰ شعارلوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کے لئے ہے تا ایسے متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے * اور اُن کا اتفاق اسلام کے لئے برکت وعظمت و نتائج خیر کا موجب ہو اور وہ ببرکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونےؔ کے اسلام کی پاک و مقدس خدمات میں جلد کام آسکیں اور ایک کاہل اور بخیل و بے مصرف مسلمان نہ ہوں اورنہ اُن نالائق لوگوں کی طرح جنھوں نے اپنے تفرقہ و نا اتفاقی کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور اس کے خوبصورت چہرہ کو اپنی فاسقانہ حالتوں سے داغ لگا دیا ہے اورنہ ایسے غافل درویشوں اور گوشہ گزینوں کی طرح جن کو اسلامی ضرورتوں کی کچھ بھی خبر نہیں اور اپنے بھائیوں کی ہمدردی سے کچھ غرض نہیں اور بنی نوع کی بھلائی کے لئے کچھ جوش نہیں بلکہ وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہوجائیں۔ یتیموں کے لئے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشق زار کی طرح
اسؔ جماعت کے نیک اثر سے جیسے عامہ خلائق منتفع ہوں گی۔ ایسا ہی اس پاک باطن جماعت کے وجود سے گورنمنٹ برطانیہ کے لئے انواع اقسام کے فوائد متصوّر ہوں گے جن سے اس گورنمنٹ کو خداوند عزّ وجل کا شکر گذار ہونا چاہیئے۔ از انجملہ ایک یہ کہ یہ لوگ سچے جوش او ر دلی خلوص سے اس گورنمنٹ کے خیر خواہ اوردعا گوہوں گے کیونکہ بموجب تعلیم اسلام (جس کی پیروی اس گروہ کاعین مدعا ہے ) حقوق عباد کے متعلق اس سے بڑھکر کوئی گناہ کی بات اور خبث اور ظلم اور پلید راہ نہیں کہ انسان جس سلطنت کے زیر سایہ بامن وعافیت زندگی بسر کرے اور اسکی حمایت سے اپنے دینی ودنیوی مقاصد میں بآزادی کوشش کر سکے اسی کا بدخواہ وبداندیش ہو۔بلکہ جب تک ایسی گورنمنٹ کا شکر گذار نہ ہو تب تک خدائے تعالےٰ کا بھی شکر گذار نہیں۔ پھر دوسرا فائدہ اس بابرکت گروہ کی ترقی سے گورنمنٹ کویہ ہے کہ ان کا عملی طریق موجب انسداد جرائم ہے۔ فتفکروا و تاملوا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 562
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 562
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/562/mode/1up
فدا ہونے کو تیار ہوں اور تمام تر کوشش ا س بات کے لئے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبت الٰہی اور ہمدردی بندگان خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتاہوا نظر آوے۔ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ محض اپنے فضل اور کرامت خاص سے اس عاجز کی دعاؤں اور اس ناچیز کی توجہ کو ان کی پاک استعدادوں کے ظہور و بروز کا وسیلہ ٹھہراوے۔ اور اُس قدّوس جلیل الذات نے مجھے جوش بخشا ہے تا میں ان طالبوں کی تربیت باطنی میں مصروف ہوجاؤں اور اُن کی آلودگی کے ازالہ کے لئے رات دن کوشش کرتا رہوں اور اُن کے لئے وہ نور مانگوں جس سے انسان نفس اورشیطان کی غلامی سے آزادؔ ہوجاتا ہے اور بالطبع خدائے تعالیٰ کی راہوں سے محبت کرنے لگتا ہے اور اُن کے لئے و ہ روح قدس طلب کروں جو ربوبیت تامہ اور عبودیت خالصہ کے جوڑ سے پیدا ہوتی ہے اوراس روح خبیث کی تکفیر سے اُن کی نجات چاہوں کہ جو نفس امارہ اور شیطان کے تعلق شدید سے جنم لیتی ہے۔ سو میں بتوفیقہ تعالیٰ کاہل اور سُست نہیں رہونگا اور اپنے دوستوں کی اصلاح طلبی سے جنہوں نے اس سلسلہ میں داخل ہونا بصدق قدم اختیار کرلیا ہے غافل نہیں ہوں گابلکہ اُن کی زندگی کے لئے موت تک دریغ نہیں کروں گا اور اُن کے لئے خدائے تعالیٰ سے وہ روحانی طاقت چاہوں گا جس کا اثر برقی مادہ کی طرح اُن کے تمام وجود میں دوڑ جائے۔ اور میں یقین رکھتاہوں کہ اُن کے لئے کہ جو داخل سلسلہ ہوکر صبر سے منتظر رہیں گے ایسا ہی ہو گا کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تادنیا میں محبت الٰہی اورتوبہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اورصلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا وے۔ سو یہ گروہ اس کا ایک خالص گروہ ہو گااور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا۔ وہ جیساکہ اُسؔ نے اپنی پاک پیشگوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 563
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 563
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/563/mode/1up
اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزارہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا وہ خود اس کی آبپاشی کرے گا او راس کو نشوونما دے گا۔ یہاں تک کہ اُن کی کثرت اوربرکت نظروں میں عجیب ہوجائے گی اور وہ اس چراغ کی طرح جو اُونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کے چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے وہ اس سلسلہ کے کامل متبعین کو ہر یک قسم کی برکت میں دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا اور ہمیشہ قیامت تک اُن میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی۔ اس رب جلیل نے یہی چاہا ہے وہ قادرہے جو چاہتاہے کرتاہے ہر یک طاقت اورقدرت اُسی کو ہے۔ فالحمد لہٗ اوّلًا واٰخرًا وظاہرًا وباطنًا اسلمنا لہ‘ ھو مولانا فی الدنیا والاٰخرۃ نعم المولٰی و نعم النصیر۔
خاکسار
غلام احمد۔ لودھیانہ۔ محلہ جدیدمتصل مکان اخی
مکرمی منشی حاجی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور۔
۴۔ مارچ ۱۸۸۹ ؁ء
بسمؔ اللّٰہ الرحمن الرحیم
نحمدہٗ ونصلی
تکمیل تبلیغ
مضمون تبلیغ جو اس عاجز نے اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ ؁ء میں شائع کیا ہے جس میں بیعت کے لئے حق کے طالبوں کو بلایا ہے اس کی مجمل شرائط کی تشریح یہ ہے۔ اوّل بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرلے کہ آئندہ اُ س وقت تک کہ قبر میں داخل ہوجائے شرک سے مجتنب رہے۔ دوم یہ کہ جھوٹ اورزنا اور بدنظری اور ہر یک فسق اور فجور اور ظلم اور خیانت
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 564
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 564
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/564/mode/1up
اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت اُن کامغلوب نہیں ہوگا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے۔ سوم یہ کہ بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گااور حتی الوسع نماز تہجّد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا اور دلی محبت سے خدائے تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اورتعریف کو ہر روزہ اپنا ورد بنائے گا۔ چہارم یہ کہ عام خلق اللہ کوعمومًا اور مسلمانوں کو خصوصًا اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا۔ نہ زباؔ ن سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔ پنجم یہ کہ ہر حال رنج وراحت اور عُسر اور یُسر اور نعمت اوربلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا او ربہر حالت راضی بقضا ہوگا۔ اور ہر یک ذلّت اور دکھ کے قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں طیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وار دہونے پر اس سے مُنہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا۔ ششم یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا وہوس سے باز آئے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے سرپر قبول کرلے گا اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنی ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا۔ ہفتم یہ کہ تکبّر اورنخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اورحلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا۔ ہشتم یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردئ اسلام کو اپنی جان اوراپنے مال اور اپنی عزت اوراپنی اولاد اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا۔ نہم یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اورجہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔ دہم یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض ِ للہ باقرارطاعت درمعروف باندھ کر اس پر تا وقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسااعلیٰ درجہ کا ہوگا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو۔
یہ وہ شرائط ہیں کہ جو بیعت کرنے والوں کے لئے ضروری ہیں جن کی تفصیل یکم دسمبر ۱۸۸۸ ؁ء
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 565
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 565
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/565/mode/1up
کے اشتہار میں نہیں لکھی گئی۔ اور الہامات جو اس بارہ میں آج تک ہوئے ہیں وہ یہ ہیں۔ اذاؔ عزمت فتوکل علی اللّٰہ واصنع الفلک باعیینا و وحینا الذین یبایعونک انما یبایعون اللّٰہ یداللّٰہ فوق ایدیھم یعنی جب تُو نے اس خدمت کے لئے قصد کر لیا تو خدائے تعالیٰ پر بھروسا کر اور یہ کشتی ہماری آنکھوں کے رو برو اور ہماری وحی سے بنا۔ جو لوگ تجھ سے بیعت کریں گے وہ تجھ سے نہیں بلکہ خدا سے بیعت کریں گے۔خداکا ہاتھ ہوگا جو اُن کے ہاتھوں پر ہوگا۔ پھر ان دنوں کے بعد جب لوگ مسیح موعود کے دعویٰ سے سخت ابتلاء میں پڑ گئے یہ الہامات ہوئے۔ الذین تابوا واصلحوا اولٰئک اتوب علیھم وانا التواب الرحیم۔ امم یسرنا لھم الھدیٰ وامم حق علیھم العذاب ویمکرون ویمکراللّٰہ واللّٰہ خیر الماکرین و لکید اللّٰہ اکبر۔ وان یتخذونک الا ھزوا اھذا الذی بعث اللّٰہ۔ قل ایھا الکفار انی من الصادقین۔ فانتظروا اٰیاتی حتی حین سنریھم اٰ یٰتنا فی الاٰفاق۔ و فی انفسہم حجۃ قائمۃ وفتح مبین۔ ان اللّٰہ یفصل بینکم ان اللّٰہ لا یھدی من ھو مسرف کذّاب۔ یریدون ان یطفؤا نور اللّٰہ بافواھھم واللّٰہ متم نورہٖ ولو کرہ الکٰفرون۔ نرید ان ننزل علیک اسرارًا من السمآء ونمزق الاعداء کل ممزق ونری فرعون وھامان وجنودھما ما کانوا یحذرون سلّطنا کلا با علیک وغیظنا سباعًا من قولک وفتناک فتونا فلا تحزن علی الذی قالوا ان ربک لبالمرصاد۔ حکم اللّٰہ الرحمٰن لخلیفۃ اللّٰہ السلطان یوتی لہ الملک العظیم ویفتح علیٰ یدہ الخزائن وتشرق الارض بنور ربھا ذالک فضل اللّٰہ و فی اعینکم عجیب۔ یعنی ؔ جو لوگ توبہ کریں گے اور اپنی حالت کو درست کر لیں گے تب میں بھی اُن کی طرف رجوع کروں گا اور میں توّاب اور رحیم ہوں۔ بعض گروہ وہ ہیں جن کے لئے ہم نے ہدایت کو آسان کر دیا او ربعض وہ ہیں جن پر عذاب ثابت ہوا۔ وہ مکر کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی مکر کر رہا ہے اور وہ خیر الماکرین ہے اور اس کا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 566
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 566
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/566/mode/1up
مکر بہت بڑا ہے۔ اور تجھے ٹھٹھوں میں اُڑاتے ہیں۔ کیا یہی ہے جو مبعوث ہو کرآیاہے ان کو کہدے کہ اے منکرو! میں صادقوں میں سے ہوں۔ اور کچھ عرصہ کے بعد تم میرے نشان دیکھو گے۔ ہم انہیں ان کے اردگرد اور خود انہیں میں اپنے نشان دکھائیں گے۔ حجت قائم کی جائے گی اور فتح کھلی کھلی ہوگی۔ خدا تم میں فیصلہ کردے گا۔ وہ کسی جھوٹے حد سے بڑھنے والے کا رہنما نہیں ہوتا۔ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو بُجھا دیں مگر خدا اسے پور ا کرے گا اگرچہ منکر لوگ کراہت ہی کریں۔ ہمارا ارادہ یہ ہے کہ کچھ اسرار تیرے پر آسمان سے نازل کریں اور دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں۔ اور فرعون اور ہامان اور اُن کے لشکروں کو وہ باتیں دکھا دیں جن سے وہ ڈرتے ہیں۔ ہم نے کتّوں کو تیرے پر مسلّط کیا۔ اور درندوں کو تیری بات سے غصہ دلایا۔اور سخت آزمائش میں تجھے ڈال دیا۔ سو تُو اُن کی باتوں سے کچھ غم نہ کر۔ تیرا رب گھات میں ہے وہ خداجو رحمٰن ہے وہ اپنے خلیفہ سلطان کے لئے مندرجہ ذیل حکم صادر کرتا ہے کہ اس کو ایک ملک عظیم دیا جائے گا اور خزائن علوم ومعارف اس کے ہاتھ پر کھولے جائیں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہوجائے گی۔ یہ خدائے تعالیٰ کا فضل ہے
اور تمہاری آنکھوں میں عجیب۔اس جگہ بادشاہت سے مراددنیا
کی بادشاہت نہیں اورنہ خلافت سے مراد دنیاکی
خلافت بلکہ جو مجھے دیا گیا ہے وہ محبت کے
ملک کی بادشاہت اورمعارف الٰہی کے
خزانے ہیں جن کو بفضلہ تعالیٰ اس قدر
دوں گاکہ لوگ لیتے لیتے
تھک جائیں گے۔
تمت
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 567
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 567
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/567/mode/1up
اکتیسؔ جولائی ۱۸۹۱ ؁ء کا (بمقام لودھیانہ ) مباحثہ
اور
حضرت مولوی ابُو سعید محمدحسین صاحب بٹالوی کا واقعات کے برخلاف اشتہار
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا اشتہار مورخہ یکم اگست ۱۸۹۱ ؁ء میری نظر سے گذرا۔ جس کے دیکھنے سے مجھے سخت تعجب ہوا۔ کہ مولوی صاحب نے کیسی بے باکی سے اپنے اس اشتہارکو سراسر افترآت اور اکاذیب سے بھر دیاہے۔ وہ نہایت چالاکی سے شرائط شکنی کا الزام میرے ذمہ لگاتے ہیں۔ لیکنؔ اصل حقیقت جس کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے یہ ہے کہ وہ ایک دن بھی شرائط مقررہ پر قائم نہیں رہ سکے۔چنانچہ وہ اکثر برخلاف شرط قرار یافتہ کے اول مضمو ن مباحثہ اپنے ہاتھ سے لکھ کر پھر دوسرے سے لکھوا کر اورجا بجا کم و بیش کر کے تحریر ثانی کو دیتے رہے ہیں اور اگراُن کی اوّل تحریر اور ثانی کامقابلہ کیاجائے تو صاف ظاہر ہوگا کہ تحریر ثانی میں بہت کچھ تصرف ہے جو طریق دیانت اور امانت سے بالکل بعید تھا یہ اُن کی پہلی عہد شکنی ہے جو اخیر تک اُن سے ظہور میں آتی گئی۔ پھر دوسری عہد شکنی یہ کہ انہوں نے پہلے ہی سے یہ عادت ٹھہرا لی کہ سُنانے کے وقت تحریرسے تجاوز کر کے بہت کچھ وعظ کے طور پر صرف زبانی کہتے رہے جس کا کوئی نام و نشان تحریر میں نہیں تھا۔جب انہو ں نے اپنی وہ تحریر جو ۷۶ صفحہ کی تھی سُنائی تو بکلّی شرطوں کو توڑ کر زبانی وعظ شروع کر دیا۔ اور ان زبانی کلمات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ میں حدیثوں کے تعارض کو ایک دم میں رفع کر سکتا ہوں۔ ابھی رفع کرسکتا ہوں اور ساتھ اس کے بہت سی تیزی اور خلاف تہذیب اورچالاکی کی باتیں تھیں جن میں باربار یہ جتلانا انہیں منظور تھا کہ یہ شخص نافہم ہے۔ نادان ہے۔ جاہل ہے۔ لیکن اس عاجز نے اُن کی اِن تمام دل آزار باتوں پر ؔ صبر کیا اور اُن کی
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 568
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 568
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/568/mode/1up
اس عہد شکنی پر بھی تعرض کرنا مناسب نہ سمجھا۔ تا گریز اور التواء بحث کے لئے انکو کوئی حیلہ نہ ہاتھ آ جائے۔ وہ قسم کھا کر بیان کریں میں قبول کرلوں گاکہ کیا اُن کی اس عہد شکنی سے پہلے کوئی ایک ذرہ خلاف عہد بات مجھ سے بھی ظہور میں آئی۔ اور اگرچہ مجھے خوب معلوم تھا کہ ایک غیر ضروری بحث طول پکڑتی جاتی ہے اور باوجودیکہ امور مستفسرہ کا جواب شافی کافی دیا گیا ہے پھر بھی مولوی صاحب صرف اصل بحث کو ٹالنے کی غرض سے تمہیدی امور کی بے سُود دُم کھینچتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن میں اس بات سے ڈرتا ہی رہاکہ اگر میں نے کچھ بھی بات کی تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مولوی صاحب ایک بہانہ تراش کر اپنے گھر کی طرف سدھاریں گے حاضرین مجلس جو میرے اور مولوی صاحب کے مباحثات کو دیکھتے رہے محض للہ شہادت دے سکتے ہیں کہ میں نے اُن کی سخت زبانیوں پر بھی جو میرے بالمواجہ اُ ن سے ظہور میں آتی رہیں بہت صبر کیا اور ہرایک وقت جو انہوں نے میرا نام جاہل یانادان رکھا تو میں نے اپنے دل کوسمجھایاکہ سچ تو ہے بجُز خدا وند علیم مطلق کے کون ہے جو دانا کہلا سکتا ہے اور اگر انہوں نے مجھے مفتری کہا تو میں نے اپنے دل کو تسلی دی کہ پہلے بھی خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں کو یہی کہا گیا ہے۔ اور اگر انہوں نے مجھے کاذ ب کاذب کر کے پکارا تو میں نے اپنے دل پر قرآن کریم کی آیتیں عرض کیںؔ کہ دیکھ پہلے راستباز بھی کاذب کاذب کر کے پکارے گئے ہیں۔ غرض اسی طرح میں نے صبر سے گیاراں روز گذارے اور شہر میں اُن کی بد زبانی کا شورپڑ گیا۔ اور جس روز انہوں نے چھہتر ۷۶ صفحہ کاجواب سُنایا اور بہت کچھ بد زبانی اور چالاکی کی باتیں خارج از تحریر بیان کیں تو اُس وقت میں نے ایک مجمع کثیر کے رو برو جس میں اُن کے خاص دوست مولوی محمد حسن صاحب رئیس لودیانہ بھی تھے انہیں کہہ دیا کہ آج پھر آپ نے عہد شکنی کی اور خارج از تحریر زبانی وعظ کرنا شروع کردیا۔ اب مجھے بھی حق حاصل ہے کہ میں بھی اپنے مضمون سُنانے کے وقت کچھ زبانی وعظ بھی کروں۔ لیکن باوجودیکہ مجھے یہ حق حاصل ہوگیا تھا پھر بھی میں نے جواب سُنانے کے وقت اس حق سے بجُز ایک دو کلمہ کے کچھ فائدہ نہیں اُٹھایا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 569
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 569
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/569/mode/1up
۳۱ جولائی ۱۸۹۱ ؁ء کو جب میں جواب سُنانے کے لئے گیا تو جاتے ہی مولوی محمد حسین صاحب کے طور بدلے ہوئے نظر آئے۔ اُن کی ہرایک بات میں کجی معلوم ہوتی تھی اور بداخلاقی کا کچھ انتہا نہ تھا۔ جب میں مضمون حاضرین کے رو برو پڑھنے لگا تو انہوں نے دخل بے جا شروع کیا۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ خواہ نخواہ فضولی کے طور پر بول اُٹھے کہ تم نے کسی کتاب کانام غلط پڑھا ہے۔ اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ اس عاجزؔ نے کوئی نام غلط نہیں پڑھا تھا۔ مولوی صاحب کو صرف اپنی شیخی اور علمیّت ظاہر کرنا منظور تھا جس کے جوش میں آکر انہوں نے ترک گفتگو زبانی کا عہد کئی بار توڑا۔ اور جیسے پُل ٹوٹنے سے پانی زور سے بہ نکلتا ہے ایساہی اُن کا صبرٹوٹ کر نفسانی جذبات کا سیلاب جاری ہوا۔ ہرچند کہا گیا کہ حضرت مولوی صاحب آپ سے یہ شرط ہے کہ آپ میری تقریر کے وقت خاموش رہیں جیسا میں خاموش رہا۔ لیکن انہوں نے صبر نہ کیا کیونکہ سچائی کے رُعب سے اُن پر حق پوشی کے لئے ایک قلق طاری ہو رہا تھا۔ آخر دیکھتے دیکھتے اُن کی حالت خوفناک ہوگئی۔ مگر شکر ِ للہ کہ اس عرصہ میں تمام مضمون سُنایاگیا۔ اور آخری مضمون یہ تھا کہ اب یہ تمہید ی بحث ختم کی گئی کیونکہ امور مستفسرہ کا بہ بسط تمام جواب ہوچکا۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ اگر مولوی صاحب کے دل میں او ر بھی خیالات باقی ہیں تو بذریعہ اپنے رسالہ کے شائع کریں۔ اس تمہیدی بحث کے ختم کرنے کی وجہ یہی تھی کہ فریقین کے بیانات نہایت طول تک بلکہ دس جزو تک پہنچ چکے تھے اور برابر باراں دن اس ادنیٰ اور تمہیدی مباحثہ میں خرچ ہوئے تھے۔ اور اس تمام بحث میں مولوی صاحب کا صرف ایک ہی سوال بار بار تھا کہ کتاب اللہ اور حدیث کو مانتے ہو یا نہیںؔ ۔ جس کاکئی دفعہ مولوی صاحب کو کھول کھول کر جواب دیاگیا کہ کتاب اللہ کو بلاشرائط اورحدیث کو بشرط مانتا ہوں اور مکرر استفسار پر اصل منشاء ظاہر کر دیا گیا کہ حدیث کا وہ حصہ جو اخباراور مواعید اور قصص اور واقعات گذشتہ سے متعلق ہے اس شرط سے قبول کیا جائے گا کہ قرآن کریم کے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 570
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 570
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/570/mode/1up
اخبار وغیرہ سے معارض نہ ہو۔ لیکن پھر بھی مولوی صاحب بار بار اپنے پرچہ میں یہی لکھتے رہے کہ ابھی میرا جواب نہیں آیا۔ ابھی جواب نہیں آیا۔ حالانکہ اُن کا حق صرف اتنا تھا کہ میرا مذہب دریافت کریں۔ اور جب میں اپنا مذہب بیان کر چکا تو پھر اُن کو ہرگز استحقاق نہ تھا کہ ناحق وہی بات بار بار پوچھیں جس کا میں پہلے جواب دے چکا اور اس طرف لوگ بہت تنگ آگئے تھے اور بعض لوگ جو دُور سے اصل بحث سننے کے لئے آئے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ باراں دن تک اصل بحث کا نام و نشان ظاہر نہیں ہواتو وہ نہایت دل شکستہ ہوگئے تھے کہ ہم نے یونہی دن ضائع کئے لہٰذا برطبق حدیث من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ سخت ناچار ہو کر اس فضول بحث کو بند کرناپڑا۔اگرچہ مولوی صاحب کسی طرح نہیں چاہتے تھےؔ کہ اصل بحث کی طرف آویں اور اس فضول بحث کو ختم کریں بلکہ ڈراتے تھے کہ ابھی تو میرے اصول موضوعہ اور بھی ہیں جن کو میں بعد اس کے معرض بحث میں ڈالوں گا۔ اور لوگ جلتے تھے کہ خدا آپ کے اصول موضوعہ کا ستیاناس کرے آپ کیوں اصل بحث کی طرف نہیں آتے۔ اب ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ مولوی صاحب کی یہ شکایت کس قدرہیچ ہے کہ مجھے جواب لکھنے کے لئے اپنامضمون نہیں دیا۔ ظاہر ہے کہ جس حالت میں یہ عاجز حسب رائے عام یہ بحث تمہیدی ختم کر چکا تھا تو پھر مولوی صاحب کو تحریری جواب کا کیوں موقعہ دیاجاتا۔ا گر وہ جواب تحریر کرتے تو پھرمیری طرف سے بھی جواب الجواب چاہیئے تھا۔ اس صورت میں یہ تسلسل کب اور کیوں کر ختم ہوسکتا تھا میں نے بے وقت اس تمہیدی بحث کو ختم نہیں کیا۔ بلکہ باراں دن ضائع کر کے اور مضمون بحث کو دس جزو تک پہنچا کر اور اکثر لوگوں کا واویلا اور شکایت سُنکر بدرجہ ناچاری مباحثہ کو ختم کیااورساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ا ب اصل بحث شروع کریں میں حاضر ہوں۔ لیکن وہ اصل بحث سے تو ایسا ڈرتے تھے جیسا کہ ایک بچہ شیر سے اور چونکہ پہلا سوال مولوی محمد حسین صاحب کی طرف سے تھا اس لئے یہ میرا حق بھی تھا کہ میرے جواب پر ہی بحثؔ ختم ہوتی تا چھ ۶ پرچے اُنکے اور چھ۶پرچے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 571
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 571
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/571/mode/1up
میرے بھی ہوجاتے۔ چونکہ مولوی صاحب کی نیت نیک نہیں تھی اس لئے انہوں نے اس بحث کا خاتمہ سُن کر جس قدرجوش دکھلایا اور جس قدر خشونت وحشیانہ ظاہر کی اور جس قدر خلاف تہذیب کلمات اس جوش کی حالت میں اُن کے مُنہ سے نکلے وہ اُن سب پر ظاہرہیں جو اُس وقت حاضر تھے۔ انہوں نے ایک یہ بھی چالاکی اختیار کی کہ اپنی جماعت کے لوگوں کے نام بطور گواہوں کے اپنے اشتہار پر لکھ دئے تا لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوکہ وہ فی الحقیقت سچے ہیں۔ تبھی تو اتنے گواہ اُن کے بیان کے مصدّق ہیں۔ لیکن یہ کس قدر بددیانتی ہے کہ اپنی ہی جماعت کو جو اپنے حامی اور انصار اور ایک ہی مدعامیں شریک ہوں بطور گواہوں کے پیش کیاجائے۔ آخر اس جلسہ میں ثالث آدمی بھی تو موجود تھے جن کو فریقین سے کچھ تعلق نہ تھا۔ جیسے حضرت خواجہ احسن شاہ صاحب آنریری مجسٹریٹ و رئیس اعظم لودیانہ جو اس شہر کے ایک نامی معزّز اور منتخب رئیس اور صادق اور راستباز آدمی ہیں۔ اور ایسا ہی منشی میراں بخش صاحب اکونٹنٹ جو ایک معزّز عہدہ دار اور متانت شعار اور اپنے عہدہ اور تنخواہ کی رُو سے اکسٹرا اسسٹنٹوں کے ہم رُتبہ ہیں۔ ایساہی حاجی شہزادہ عبد المجید خاں صاحب۔ ڈاکٹر ؔ مصطفےٰ علی صاحب خواجہ محمد مختار شاہ صاحب رئیس اعظم لودیانہ۔ خواجہ عبد القادر شاہ صاحب۔ ماسٹر چراغ الدین صاحب۔ منشی محمد قاسم صاحب۔ ماسٹرقادر بخش صاحب۔ میاں شیر محمد خاں صاحب جھجروالہ اور کئی اور معزّز بھی موجود تھے۔ ان تمام معزز رئیسوں اور عہدہ داروں اوربزرگوں کو کیوں گواہی سے باہر رکھا گیا اور کیوں اُن کی شہادتیں درج نہ ہوئیں۔ حالانکہ فقط جناب خواجہ احسن شاہ صاحب رئیس اعظم کی گواہی ہزار عوام الناس کی گواہی کے برابر تھی۔ اس کا سبب یہی تھا کہ اِن بزرگوں کے بیان سے اصل حقیقت کھلتی تھی۔ افسوس کہ مولوی محمد حسین صاحب نے علاوہ اِن اکاذیب کے جو بحث کے متعلق بیان کئے ایک بازاری جھوٹ ہے جو بحث سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتا نا حق اپنے اشتہار میں لکھ دیا۔ چنانچہ وہ اس عاجز کی نسبت اپنے اشتہار میں لکھتے ہیں کہ مجلس سے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 572
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 572
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/572/mode/1up
اُٹھ کھڑے ہوئے او رگاڑی میں کہ جو چپکی دروازہ پر کھڑی تھی ایسے جلدی ہواہو کر بھاگے کہ آپ کے ہمراہی چلتی گاڑی پر دوڑکر سوار ہوئے۔ اس افتراء کا میں کیاجواب دُوں۔ بجز اس کے کہ علی الکاذبین کہوں یا آپ ہی کا قول مندرجہ اشتہار آپ کیؔ خدمت میں واپس دُوں کہ جھوٹے پر اگر ہزار *** نہیں تو پانچ سو سہی۔ حضرت وہ گاڑی منشیؔ میراں بخش صاحب اکونٹنٹ کی تھی جو دروازے پر کھڑی تھی اور وہ خود جلسہ بحث میں تشریف رکھتے تھے اور وہی اس پر سوار ہو کر آئے تھے۔ تمام بازاری اس بات کے گواہ ہیں۔ منشی صاحب موصوف سے دریافت کیجئے کہ برخاست جلسہ بحث کے وقت اس پر کون سوار ہوا تھا اور کیا میں اپنے مکان تک آہستہ چال سے پیادہ آیا تھا یا اُس گاڑی پر ایک قدم بھی رکھا تھا۔ میرے ساتھ اُس وقت شاید قریب تیس ۳۰ آدمی کے ہوں گے جو سب پیادہ آئے تھے اور جب ہم اپنے مکان کے قریب پہنچ گئے تو منشی میراں بخش صاحب گاڑی پر سوار آپہنچے اور عذر کیا کہ میں سوار آیا اور آپ پیادہ آئے۔ اس قدر افتراء کیا اندھیر کی بات ہے کیا جھوٹ مولویوں کے ہی حصہ میں آگیا۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ آپ کی عہد شکنی نہایت قابل افسوس ہے۔آپ اس بات کو مانتے ہیں کہ آپ سے یہ شرط ہوچکی تھی کہ زبانی گفتگو ایک کلمہ تک نہ ہو جو کچھ ہو بذریعہ تحریر ہو۔ جیساکہ آپ نے اپنے اشتہار میں بھی لکھ دیا ہے لیکن آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے عمدًا اس شرط کو توڑ دیا اور جب آپ توڑ چکے اور عہد شکنی کےؔ طور پر مضمون سُنانے کے محل میں زبانی وعظ بھی کر چکے تب میں نے آپ کو کہا کہ اب زبانی وعظ کرنا میرا بھی حق ہوگا۔ پس اگر میں نے مضمون سُنانے کے وقت میں چند کلمے زبانی بھی کہے تو کیا یہ عہد شکنی تھی یا آپ کی عہد شکنی کا عوض معاوضہ تھا جس کی نسبت میں وعدہ کرچکا تھا۔ حضرت مولوی محمد حسن صاحب جو رئیس او رآپ کے دوست ہیں جن کے مکان پر آپ نے یہ عہد شکنی کی تھی اگر قسم کھا کر میر ے روبرو میرے اس بیان کا انکار کریں تو پھر میں اس الزام سے دست بردار ہوجاؤں گا ورنہ آپ ناراض نہ ہوں۔آپ بلاشبہ جریمہ عہد شکنی کے کئی دفعہ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 573
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 573
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/573/mode/1up
مرتکب ہوئے اور نخوت سے بھرا ہوا جوش آپ کو اس جرم کا مرتکب بناتا رہا۔ آخری روز میں بھی آپ سے یہی حرکت صادر ہوئی اور وحشیانہ غیظ وغضب اس کے علاوہ ہوا۔ جس کی وجہ سے آپ سے بحکم آیۃ کریمہ اَعْرِضْ بکلّی اِعراض لازم آیا۔ اور آپ کو نقل جواب نہ دی گئی۔ حضرت !آپ کے لفظ لفظ میں نخوت اور تکبّر بھرا ہوا ہے اور فقرہ فقرہ سے اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ کی بدبُو آرہی ہے۔بھلا ایک کتاب کے نام کی غلطی کا الزام دینا کیا یہی تہذیب تھی۔ اور وہ بھی سفلہ طبع ملّاؤں کی طرح سراسر دروغ۔ اگر میں چاہتا تو آپ کی صرف نحو بھی اُسی وقت لوگوں کو دکھلا دیتا۔ لیکن یہ کمینگی کی خصلت مجھ سے صادرؔ نہیں ہو سکتی تھی۔ میں دیکھتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ اپنے اِس تعصّب اور پست خیالی سے تائب نہیں ہوں گے تو خدائے تعالیٰ جیسا کہ قدیم سے اس کی سُنت ہے آپ کے علم کی بھی پردہ دری کرے گا اور آپ کو آپ کا اصلی چہرہ دکھلاوے گا۔ جس وقت آپ اس عاجز کی نسبت یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص بے علم او رنادان اور جاہل اور مفتری ہے تو آپ کا ایسی چالاکیوں سے صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ تالوگوں کے ذہن نشین کریں کہ میں بڑا عالم اور دانا اورصاحب علم اور معرفت اور نیز صادق آدمی ہوں۔ لیکن اپنے مُنہ سے کوئی مرتبہ انسان کو نہیں مل سکتا جب تک آسمانی نور اس کے ساتھ نہ ہو۔ اور جس علم کے ساتھ آسمانی نور نہیں وہ علم نہیں وہ جہل ہے۔ وہ روشنی نہیں وہ ظلمت ہے۔وہ مغز نہیں وہ اُستخواں ہے۔ ہمار ا دین آسمان سے آیاہے اور وہی اس کو سمجھتا ہے جو وہ بھی آسمان سے آیا ہو۔ کیا خدائے تعالیٰ نے نہیں فرمایا 3 3 ۱؂ میں قبول نہیں کروں گا اور ہرگز نہیں مانوں گا کہ آسمانی علوم اور اُن کے اندرونی بھید اور اُن کے تہ درتہ چھپے ہوئے اسرار زمینی لوگوں کو خود بخود آسکتے ہیں۔ زمینی لوگ دابۃ الارض ہیں مسیح السماء نہیں ہیں۔ مسیح السماء آسمان سے اُترتا ہے اور اُسؔ کا خیال آسمان کومَسح کرکے آتا ہے اور روح القدس اُس پر نازل ہوتا ہے اس لئے وہ آسمانی روشنی ساتھ رکھتا ہے۔ لیکن دابۃِ الارض کے ساتھ زمین کی غلاظتیں ہوتی ہیں اورنیز وہ انسان کی پور ی شکل نہیں رکھتا۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 574
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 574
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/574/mode/1up
بلکہ اُس کے بعض اجزاء مسخ شدہ بھی ہوتے ہیں۔ اِسی وجہ سے میں نے کہا تھا کہ آپ ناراض نہ ہوں۔ آپ دین کے حقیقی علم سے بے خبرہیں۔خدا تعالیٰ آپ کے ہر یک تکبّر کوتوڑ دے گا اور آپ کا چہرہ آپ کو دکھلادے گا۔افسوس کہ آپ کی کچی باتیں آپ کو شرمندہ نہیں کرتیں۔ اور باجود سخت لاجواب ہوجانیکے پھر بھی علم حدیث کا دعویٰ چلاجاتا ہے۔ آپ نے کہا تھا کہ الدجّال سے مراد خاص مسیح الدجّال نہیں۔بلکہ دوسرے دجّالوں کی نسبت بھی صحاح میں الدجّال بولا گیا ہے۔ لیکن جب آپ کو کہا گیا کہ یہ سراسر آپ کی غلطی ہے آپ کو حدیث رسول اللہ کا حقیقی علم نصیب نہیں۔ اگر آپ بجُز دجّال معہود کے کسی اور کی نسبت یہ لفظ صحاح سِتّہ میں اطلاق پانا ثابت کریں تو آپ کو پانچ روپے بطور تاوان ملیں گے تو آپ ایسے چُپ ہوئے کہ کوئی جواب آپ سے بن نہ پڑا۔ یہ غرور اور تکبّر کی سزا ہے کیا بے علمی اسی کا نام ہے یا کسی اور چیز کا کہ آپ نے الدجّال کے متعلق حدیث رسول اللہ کے اُلٹے معنے کئے اور محضؔ افتراء کے طور پر کچھ کا کچھ گھڑ کے سُنا دیا یہی حدیث دانی ہے؟ پھر آپ نے دعویٰ کیا تھا کہ میں صحیحین کی حدیثوں کا تعارض دُور کر سکتا ہوں۔ اِسکے جواب میں آپ کوکہا گیا کہ اگر آپ قبول کریں تو چند منصف مقرر کر کے چند متعارض حدیثیں آپ کے سامنے بغرض تطبیق و توفیق پیش کی جائیں گی۔ اگر آپ اپنی علمی لیاقت سے تعارض دُورکرکے دکھلا دیویں گے تو پچیس3 روپے آپ کو انعام ملیں گے اور آپکی علمیت مسلّم ٹھہرجائیگی اور اگر چُپ رہیں تو آپ کی بے علمی ثابت ہوگی۔ لیکن آپ چپ رہے۔ سو میں مکرر کہتا ہوں کہ ہر چندج مرکب کی وجہ سے آپ کو دعویٰ علم دین بہت ہے مگر آپ خوب یاد رکھیں کہ جب تک ان تمام آزمائشوں میں آپ صادق نہ نکلیں تب تک یہ دعویٰ بے اصل وبے دلیل ہے۔ اور پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ ان آزمائشوں میں ہرگز آپ عزت کے ساتھ اپنا انجام نہیں دیکھیں گے۔ یہ سزا اس کبر کی ہے کہ خدائے تعالیٰ ہریک متکبّر کو دیتا ہے۔ 33 ۱؂ اور آپ کا وہ جوش جس کی وجہ سے شرطی طورپر
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 575
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 575
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/575/mode/1up
آپ نے اپنی دونوں بیویوں کو طلاق دیدی۔ ہریک دانا کی نظر میں قابل ہنسی ہے کیونکہ آپ کو تلویح کی عبارت کا ایک حصہ سُنا دیاگیاؔ تھا۔ جس کے حوالہ سے وہ حدیث بیان کی گئی تھی اور ظاہر ہے کہ صاحب تلویح نے بطور شاہد اپنے تئیں قرار دے کر بیان کیا ہے کہ وہ حدیث یعنی عرض الحدیث علی القرآن کی حدیث بخاری میں موجود ہے۔اب اس کے مقابل پر یہ عذر پیش کرنا کہ نسخہ جات موجودہ بخاری جو ہند میں چھپ چکے ہیں ان میں یہ حدیث موجود نہیں۔ سراسرناسمجھی کا خیال ہے۔ کیونکہ علم محدود کے عدم سے بکلّی عدم شے لازم نہیں آتا۔ جس حالت میں ایک سرگروہ مسلمانوں کا اپنی شہادت رویت سے اس حدیث کا بخاری میں ہونا بیان کرتا ہے اور آپ کو یہ دعویٰ نہیں اور نہ کر سکتے ہیں کہ تمام دنیاکے نسخہ جات بخاری کے قلمی وغیر قلمی آپ دیکھ چکے ہیں۔ پھر کس قدر فضولی ہے کہ صرف چند نسخوں پر بھروسہ کر کے بے گناہ عورتوں کو طلاق دی جائے۔ اگر ثانی الحال کوئی قلمی نسخہ نکل آوے جس میں یہ حدیث موجود ہو تو پھر آپ کا کیا حال ہو۔ مومن کی شہادت عند الشرع قابل پذیرائی ہوتی ہے اور فقط ایک کی شہادت رویت ماہ رمضان سے تمام دنیا کے مسلمانوں پر روزہ رکھنا فرض ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں علّامہ تفتازانی صاحب تلویح کی شہادت بالکل ضائع اور نکمی نہیں ہو سکتی بخاری کے مطبوعہ نسخوں میں بھی بعض الفاظ کا اختلاف موجود ہے۔ پھرؔ سارے جہان کے قلمی نسخوں کاکون ٹھیکہ لے سکتاہے۔ پس آپ کی بے دلیل نفی بے سود ہے۔ حضرت! مثبت کے بیان کو قواعد تحقیق کی رُو سے ترجیح ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کے ساتھ زیادت علم ہے۔ اب اس شہادت کے مقابل پرجو عند الشرع قابل قبول ہے جب تک آپ سارے زمانہ کے قلمی نسخے نہ دکھا دیں اور صاحب تلویح کا کذب ثابت نہ کرلیں تب تک احتمالی طور پر طلاق واقعہ ہوگئی ہے۔ علماء کو پوچھ کر دیکھ لیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اگر صاحب تلویح اپنی رویت میں کاذب ہوتا تو اُسی زمانہ میں علماء کی زبان سے اس کی تشنیع کی جاتی اور اس سے جواب پوچھاجاتا۔ اورجبکہ کوئی جواب پوچھا نہیں گیا تو یہ دوسری دلیل اِس بات پر ہے کہ درحقیقت اسکی
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 576
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 576
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/576/mode/1up
رویت صحیح تھی۔ اور ان سب کا سکوت بطور شواہد مل کر اس امر کو اور بھی قوت دیتاہے کہ درحقیقت وہ حدیث صاحب تلویح نے بخاری میں دیکھی تھی۔ اور جس حالت میں صاحب بخاری تین لاکھ حدیثیں یاد رکھتے تھے اس صورت میں کیا قرین قیاس نہیں کہ بعض حدیثوں کے لکھنے میں نسخوں میں کمی بیشی ہو۔ اور اس طلاق کے مقابل پر میرا اشتہار لکھنا محض فضول تھا۔ اس سے اگر کچھ ثابت ہو تو فقط یہ ثابت ہو گا کہ بے وجہ نکتہؔ چینیاں آپ کی عادت ہے۔ حضرت! آپ جانتے ہیں کہ یوں تو ہرایک شخص کو اختیار ہے کہ اپنی بیوی کو نافرمان یا سرکش یا بد زبان یابکلّی ناہموار اور نا موافق پاکراس کو طلاق دے دیوے۔ اس طرح تو پیغمبربھی دیتے رہے ہیں۔لیکن ایک شخص بحث اور جھگڑا تو لوگوں سے کرے اور ناحق اپنی بے خبر اور بے گناہ بیویوں کو غصّہ میں آ کر طلاق دیوے یہ امر وحشیانہ اور سراسر خلاف تہذیب ہے۔ کیامناسب ہے کہ گناہ کسی کا ہو اور مارا جائے کوئی۔ کیا سُنّت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کا کوئی نمونہ پایاجاتاہے۔ آپ کا یہ بھی جھوٹ ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام ابو حنیفہ کی تحقیر نہیں کی۔ اگر آپ کو ایک بات میں نادان کہاجائے تو آپ کو کیسا غصہ آتا ہے۔ مگر آپ نے تو امام صاحب کو حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے قریب قریب محروم مطلق کے ظاہر کیا کیا یہ تحقیر نہیں؟ ہمارے اور آپ کے حنفی علماء منصف رہے۔ پھر آپ اپنے اشتہار میں میرے اس قول کو اکاذیب میں داخل قرار دیتے ہیں کہ ابن صیّاد کے دجّال ہونے پر صحابہ کا اجماع تھا خدائے تعالیٰ آپ کے حال پر رحم کرے۔ کیاؔ خود ابن صیّاد کے بیان سے جو بعد مشرف باسلام ہونے کے اس نے کیا تھا جو صحیح مسلم میں موجود ہے ثابت نہیں ہوتا کہ صحابہ اس کو دجّال معہود کہتے تھے۔ کیا اس حدیث میں کوئی صحابی باہر بھی رکھا ہے جو اس کو دجّال معہود نہیں سمجھتا تھا۔ یا کیا اس خبر کے مشہور ہونے کے بعد کسی صحابی کا انکار مروی ہے۔ اس کا ذرہ نام تو لو۔ کیا آپ کو خبر نہیں کہ اصول فقہ کی رو سے اجماع کی قسموں میں سے ایک سکوتی اجماع بھی ہے۔ کیا آپکو معلوم نہیں کہ ابن صیّاد کے دجّال معہود ہونے پرحضرت عمرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں قسم کھائی
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 577
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 577
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/577/mode/1up
جس پر نہ خود آنجناب نے انکار کیا اور نہ صحابہ حاضرین میں سے کوئی منکرہوا۔ کیا یہ حدیث مسلم میں نہیں ہے۔ اور آپ کا یہ عذر کہ الدّجال دجّال معہود کا خاص نام نہیں ہے، آپ کی غباوت اور کم علمی پر اوّل درجہ کی شہادت ہے۔ حضرت مولوی صاحب! اگر آپ صحیح بخاری یا مسلم یا کسی اور صحیح حدیث سے یہ مجھے ثابت کر کے دکھلاویں کہ الدّجال کالفظ بجُز دجّال معہودکے کسی اور پربھی صحابہ کے مُنہ سے اطلاق پایا ہے تو میں بجائے پانچ 3روپے کے پچا3س روپے آپ کی نذر کروں گا۔ آپ کیوں اپنی پردہ دری کراتے ہیں۔ چپکے رہیں حقیقت معلوم شد۔
پھرؔ ایک اور جھوٹ اور افتراء میرے پر آپ نے اپنے اشتہار میں یہ کیا ہے کہ گویا میں سچ مچ اپنے علم یقینی اور قطعی سے بخاری اور مسلم کی بعض احادیث کو موضوع سمجھتا ہوں۔ حضرت میرا یہ قول نہیں۔ معلوم نہیں کہ آپ کیوں اور کس وجہ سے اس قدر افتراء میرے پر دہاپ رہے ہیں۔ اور کب سے جعلسازی کی مشق آپ کو ہو گئی ہے۔ میں تو صرف اس قدر کہتا ہوں کہ اگر بخاری اور مسلم کی بعض اخباری حدیثوں کے اس طرز پر معنے نہ کئے جاویں جو قرآن کے اخبار سے مطابق وموافق ہوں تو پھر اس صورت میں وہ حدیثیں موضوع ٹھہریں گی۔ کیونکہ اصول فقہ کا یہ مسئلہ ہے کہ انما یرد خبر الواحد من معارضۃ الکتٰب میں نے کب اور کس وقت کہا تھا کہ درحقیقت قطعی اور یقینی طور پر فلاں فلاں حدیث بخاری یا مسلم کی میرے نزدیک موضوع ہے۔ مولوی صاحب حیا اور شرم شعبہ ایمان ہے فاتقوا اللّٰہ وکونوا من المؤمنین۔ پھر آپ اپنی ٹانگ خشک ہونے کی خواب سے نیم انکار کر کے لکھتے ہیں کہ یہ نقل کذب اور افتراء سے خالی نہیں۔ آپ کا یہ مقنّنانہ فقرہ صاف دلالت کر رہا ہے کہ کسی قدر اس بیان کی صداقت کا آپ کو اقرار ہے کیونکہ آپ کا ُ چھپا ہوا یہ منشاء ہے کہ اس خواب کو جیسا کہ نقل کیا گیا ہے وہ صورت نقل افتراء سے خالی نہیں۔ کیونکہ آپؔ نے یہ بیان نہیں کیا کہ یہ نقل سراسر افتراء ہے بلکہ یہ بیان کیا ہے کہ یہ نقل افتراء سے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 578
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 578
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/578/mode/1up
خالی نہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ دال میں کالاہے۔ اور ضرور آپ نے اس قسم کی خواب دیکھی ہے گو اس میں ٹانگ خشک ہو یا ہاتھ خشک ہو یا اور امور زائدہ ساتھ لگے ہوئے ہوں۔حضرت آپ نے یہ خواب ضرور دیکھی ہے آپ کایہ پہلو دار فقرہ ہی دلالت کر رہا ہے کہ ضرور آپ نے ایسی خواب دیکھی ہے۔ بھلا ذرہ قسم تو کھاویں کہ ہم نے کچھ نہیں دیکھا اور میں پیشگوئی کرتا ہوں کہ آپ کبھی قسم نہ کھائیں گے کیونکہ یہ دعویٰ سراسر دروغ ہے۔آپ اگر سچے ہیں تو لاہور میں ایک جلسہ مقرر کرکے حاضرین کے سامنے قسم کھالیں کہ میں نے کچھ نہیں دیکھا اور حاضرین میں وہ لوگ بھی ہوں گے جن کو ایسی روایت سے تعلق ہے۔ جس وقت آپ مجھے قسم کھانے کے لئے اطلاع دیں گے میں حاضر ہوجاؤنگا تا آپکی ایمانداری اور صداقت شعاری دیکھ لوں کہ کہاں تک آپ کو کذب اور افتراء سے پرہیز ہے۔ تب تسلّی رکھیں کہ ساری حقیقت کھل جائے گی اور آپ کی راستگوئی کاآپ کے شاگردوں پر بھی نمونہ ظاہر ہوجائے گا۔ اور جو آپ نے اس عاجز کی نسبت اپنی چند خوابیں تحریر کی ہیں اگر وہ صحیح بھی ہیں تب بھی اُن کی وہ تعبیر نہیں جو آپ نے سمجھیؔ ہے۔ بلکہ بسا اوقات انسان دوسرے کو دیکھتا ہے اور اس سے مراد اپنا نفس ہی ہوتا ہے معبّرین نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص مثلًا کسی نبی کو خواب میں نابینا یا مجذوم یا کسی حیوان کی شکل میں دیکھے تو اس کی یہ تعبیر ہو گی کہ یہ دیکھنے والا خود اِن آفتوں میں مبتلا ہے۔ مثلًا اگر اُس نے کسی مقدس آدمی کو یک چشم دیکھاہے تو اس کی یہ تعبیر ہوگی کہ دین میں وہ آپ ہی ناقص ہے۔ اور اگر مجذوم دیکھا ہے تو اس کی یہ تعبیر ہوگی کہ وہ آپ ہی فساد میں پڑا ہوا ہے۔ اور اگر اُس نے نبی کی مسخی صورت دیکھی ہے تو اس کی یہ تعبیر ہوگی کہ وہ آپ ہی اپنے دین میں مسخی صورت رکھتا ہے۔ کیونکہ مقدس لوگ آئینہ کی طرح ہوتے ہیں۔ انسان جو کچھ اُن کی شکل اوروضع میں اپنی رؤیا میں فرق دیکھتا ہے۔ درحقیت وہ عیب اُس کے اپنے وجود میں ہی ہوتا ہے۔ اور جس بد عملی میں اُس کو مشاہدہ کرتا ہے درحقیقت اس کا آپ ہی مرتکب ہوتا ہے۔ تعبیر رویت ابرار میں یہ اصول محکم ہے اس کو یاد رکھنا چاہیئے۔ ایک مدّت کی
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 579
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 579
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/579/mode/1up
بات ہے کہ ایک نے میرے پاس بیان کیا کہ میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ نعوذ باللہ نابینا تھے۔ میں نے کہا کہ تُو ابراہیم کی سُنّت کامنکر اور اس کے دیکھنے سے نابینا ہے۔ ایسا ہی ایک ہندو بڈھے نے بیان کیا کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح کو میں نے مجذوم دیکھاہے۔ میں نے اس کی تعبیرؔ کی کہ تیری بد دینی ناقابل علاج ہے تو کسی عیسیٰ دم سے اچھا نہیں ہوگا۔ ایک نے میرے پاس بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ نیلا تہ بند باندھا ہوا ہے اور باقی بدن سے ننگے ہیں اوردال روٹی کھا رہے ہیں میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ دیکھنے والے کو غم اور فقر وفاقہ آئے گا اور اُس کا کوئی دستگیر نہیں ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ایک مرتبہ میرے اُستاد مرحوم مولوی فضل احمد صاحب نے میرے پاس بیان کیا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی کوٹھڑی میں اسیروں کی طرح بیٹھے ہیں جس میں آگ اور بہت سا دھوأں ہے اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ گردا گرد اس کوٹھڑی کے پہرہ داروں کی طرح عیسائی کھڑے ہیں۔ اور مولوی صاحب بہت متوحش تھے کہ اس کی کیا تعبیر ہے۔ تب خداتعالیٰ نے فی الفور میرے دل پر القاء کیا کہ یہ سب دیکھنے والے کا حال ہے جو اس پر ظاہر کیا گیا۔ وہ بے ایمان ہو کر مرے گا اور آخر جہنم اُس کا ٹھکانہ ہوگا۔ اور عیسائیوں میں مل جائے گا۔ مولوی صاحب اس تعبیر کو سنتے ہی باغ باغ ہو گئے اور مارے خوشی کے چہرہ روشن ہوگیا۔ اور فرمانے لگے کہ یہ خواب پوری ہوگئی اور تھوڑا عرصہ ہوا کہ وہ شخصؔ اس خواب کے دیکھنے کے بعد عیسائی ہو گیا۔* غرض اس بات میں مَیں صاحب تجربہ ہوں۔ مولوی صاحب کو چاہیئے کہ ڈریں اور توبہ کریں کہ اُن کے آثار اچھے نظرنہیں آتے۔ یہ اُن کی ساری خوابیں اُن کی پہلی خواب کی مؤید ہیں۔ رہا یہ عاجز
نوٹ رسالہ کامل التعبیر کے صفحہ ۲۶ میں لکھا ہے کہ اگر کسے بیند کہ اندامے از اندا مہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کم بود آں نقصان نقصان دین بینند ہ باشد ۔ ابن سیرین رحمہ اللہ گوید کہ اگر کسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم را ناقص بیندآں نقصان بہ بینندہ باز گردد۔ (دیکھو رسالہ کامل التعبیر ص۲۶ ) منہ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 580
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 580
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/580/mode/1up
تو میری صداقت یا عدم صداقت کا امتحان آسان ہے۔ صرف بے ہودہ خوابوں سے میرے پر کوئی الزام نہیں آسکتا اگر فرض کے طور پر مولوی صاحب کی خوابیں میری طرف منسوب کی جائیں تب بھی ظاہر ہے کہ ہر یک دشمن اپنی دشمنی کے جوش میں اپنے مخالف کو خواب کی حالت میں کبھی سانپ کی شکل میں دیکھتا ہے اور کبھی کسی اور درندہ کی شکل میں۔ او ریہ قانون قدرت ہے جو اس پر طاری ہوتاہے۔ممکن ہے کہ ایک اُس کا دشمن اس کو سانپ کی شکل میں نظر آوے یا کسی درندہ وغیرہ کیؔ شکل میں۔ کیونکہ عداوت کی حالت میں ایسی تمثیلات خود طبیعت عدوّانہ اپنے جوش سے پیدا کرلیتی ہے۔ یہ نہیں کہ اس مقدس کی اصل شکل یہی ہوتی ہے۔ بعض اوقات حیوانی شکل قابل اعتراض بھی نہیں ہوتے۔ حضرت مسیح بعض پہلے نبیوں کو برّہ کی شکل پر نظر آئے اورہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو گائیوں کی شکل پر دیکھا اور یہ بات یعنی یہ جو میں نے ابھی بیان کیاہے کہ میری صداقت یا عدم صداقت کا امتحان آسان ہے اس کی زیادہ تفصیل یہ ہے کہ میرا تو خدا تعالیٰ کے اعلام وافہام سے یہ دعویٰ ہے کہ اگر دنیا کے تمام لوگ ایک طرف ہوں اور ایک طرف یہ عاجز ہو اور آسمانی امور کے انکشاف کے لئے ایک دوسرے کے قرب اور وجاہت عند اللہ کا امتحان کریں تو مَیں حلفًا کہتا ہوں کہ مجھے پور ایقین ہے کہ میں ہی غالب آؤں گا۔ خداوند علیم وحکیم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آج تک صدہا نشان آسمانی میرے پر ظاہر ہو چکے ہیں اور بہت سے لوگ ان نشانوں کے دیکھنے والے موجود ہیں۔ میں نے ۳۱جولائی ۱۸۹۱ ؁ء کے خاتمہ مضمون میں عام طور پر سُنا دیا تھا کہ میرے نشانوں کے دیکھنے والے اسی مجلس میں موجودہیں۔اگرؔ چاہوتو حلفًا اُن سے تصدیق کرا لو مگر آپ نے دم نہ مارا۔ پھر میں نے آواز بلند سے تین سو آدمی کی مجلس میں جن میں بعض عیسائی صاحبان اور ایڈیٹر صاحب پرچہ نور افشاں بھی موجود تھے یہ بھی سُنا دیا تھا کہ مولوی صاحب کو اگر اپنے اہل باطن ہونے کاگمان ہے تو چالیس دن تک میرے ساتھ مقابلہ کے طور پر خدائے تعالیٰ کی جناب میں توجہ کریں اگر میں آسمانی امور کے انکشاف اور نشانوں کے ظہور میں مولوی صاحب پر غالب نہ آیا تو جس ہتھیار
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 581
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 581
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/581/mode/1up
سے چاہیں مجھے ذبح کر دیں۔ لیکن آپ نے اس کے جواب میں بھی دم نہ مارا۔ اگر آپ کو بھی سچی خوابیں آتی ہیں اضغاثِ احلام نہیں اور اعتماد کے لائق ہیں تو میرے مقابل پر آپ کیوں چُپ رہے کیا آپ کے دروغ بے فروغ پر اس سے زیادہ کوئی اور دلیل ہوگی۔ اور میں تو اب بھی حاضرہوں۔ میدان میں کھڑ ا ہوں۔ یقینًا یاد رکھیں کہ وہ نورجو آسمان سے اُتراہے آپ کی مُنہ کی پھونکوں سے بُجھ نہیں سکتا۔ آپ اپنے مُنہ کی فکر کریں۔ ایسا نہ ہو کہ پھونکیں مارتے مارتے ایک شعلہ اُٹھے اور آپ کے مُنہ کی مسخی صورت بنا دے۔ من عادیٰ کی حدیث آپ کو یاد نہیں جس کو ارادت کی راہ سے میری طرف لکھا کرتے تھے۔ ابؔ آپ نے مجھے مفتری بنایا۔کاذب قرار دیا۔مکّار نا م رکھا۔ دجّال کے اسم سے موسوم کیا۔ مگر اپنے ہی ریویو کی وہ عبارتیں آپ کو یاد نہ رہیں جو آپ براہین احمدیہ کے ریویو نمبر۶ جلدسات۷ میں لکھ چکے ہیں۔ چنانچہ آپ بغرض تعریف و توصیف کتاب موصوف کے صفحہ ۲۸۴ میں لکھتے ہیں۔
مؤلف براہین احمدیہ کے حالات وخیالات سے جس قدرہم واقف ہیں ہمارے معاصرین ایسے واقف کم نکلیں گے۔ مؤلف صاحب ہمارے ہموطن بلکہ اوائل عمر کے ہمارے ہم مکتب ہیں اس زمانہ سے آج تک خط وکتابت و ملاقات و مراسلت برابر جاری ہے۔( ص۲۸۴)
مؤلف براہین احمدیہ مخالف وموافق کے تجربہ اور مشاہدہ کی رو سے واللّٰہ حسیبہ شریعت محمد یہ پر قائم اور پرہیز گار و صداقت شعار ہیں (ص۱۶۹)کتاب براہین احمدیہ (یعنی تالیف اس عاجز کی ) ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی۔ اور اس کا مؤلف اسلام کی مالی وجانی وقلمی ولسانی وحالی وقالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلاہے جس کی نظیر پہلی کتابوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے۔ اے خدا اپنے طالبوں کے رہنما اِن پر اِن کی ذات سے اِ ن کے ما باپ سے تمام جہان کےؔ مشفقوں سے زیادہ رحم کر اور اس کتاب کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالدے اور اس کی برکات سے مالامال کر دے اور اس خاکسار شرمسار گنہگار کو بھی اپنے فیوض و انعامات اور اس کتاب کی اخص برکات سے فیضیاب کر۔ آمین و للارض من کاس الکرام نصیب صفحہ ۳۴۸۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 582
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 582
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/582/mode/1up
اب حضرت سمجھ کر اور سوچ کر جواب دیں کہ یہ عبارتیں میرے حق میں آپ ہی کی ہیں یا کسی اور کی۔ اور یقینًا سمجھیں کہ آپ کی دعا کے موافق سب سے زیادہ خدائے تعالیٰ کا میرے پر رحم ہے اور یاد رکھیں کہ وہ ہرگز مجھے ضائع نہ کرے گا۔ آپ کی قسمت میں لغزش تھی سو وہ وقوع میں آگئی اور جو پیالہ ابتدا سے آپ کے لئے مقدر تھا آپ کو وہ پینا پڑا۔ کیا آپ کو میں نے اِن سب باتوں سے پہلے خبر نہیں دی تھی کہ آپ کے لئے مقدّر ہے کہ آپ مخالفت پر کھڑے ہوجائیں گے اور صدق اور راستی کو چھوڑ دیں گے۔ سخت بد قسمت وہ انسان ہے جو راستباز کومکّار سمجھے۔ نہایت بدنصیب وہ شخص ہے کہ جو صدیق کو کذاب خیال کرے۔
آپ اپنے اشتہار کے اخیر میں پھر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ گویا میں بخاری اور مسلم سے منکر ہوں۔ اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اشاعۃ السنۃ میںؔ بخوبی ظاہر کیا جائے گا۔ سومیری طرف سے گذارش ہے کہ یوں تو مجھے اور ہر یک سمجھدا ر کو یہی امید ہے کہ آپ اسی طرح دفع وقت کے لئے زائد اور بے تعلق باتوں میں اپنے پرچہ اشاعۃ السنۃ کو سیاہ کرتے رہیں گے اور اصل بحث کی طرف ہرگز نہ آئیں گے۔ لیکن میرے پر یہ بہتان کھڑا کرنا کہ گویا میں صحیحین کا منکر ہوں آپ کے لئے کچھ بھی مفید نہیں ہوگا۔ آپ ذرہ غور کریں کہ کیا کوئی عقلمند ایسی کتابوں سے منکر ہوسکتاہے جو اس کے دعویٰ کی اوّل درجہ پر مؤید اور حامی ہیں۔ ایسا تو کوئی نادان بھی نہیں کر سکتا۔ اگر میں بخاری اور مسلم کی صحت کاقائل نہ ہوتا تو میں اپنی تائیددعویٰ میں کیوں بار بار اُن کو پیش کرتا۔ چنانچہ اسی رسالہ ازالہ اوہام میں بہت سی حدیثیں صحیح مسلم کی اپنے تائید دعویٰ میں پیش کرچکاہوں۔ہاں بخاری میں سے میں نے کم لکھا ہے۔ سو اس جگہ آپ کی خاطر کچھ اور بھی لکھ دیتا ہوں تا آپ پر واضح ہو کہ بخار ی بھی اس عاجز کی حامی اور ناصر ہے۔ اور اگر آپ ہزار جان کنی کریں۔ بخاری کو بھی مؤید مطلب ہرگز نہ پائیں گے۔ بلکہ قرآن کریم کی طرح وہ بھی اس عاجز کے مدعا اور اور دعویٰ پر کامل دلائل پیش کرتی ہے۔ حضرت یہی تو میرے گواہ ہیں جنؔ سے میرا دعویٰ ثابت ہوتا ہے ان سے اگر انکار کروں تو کہاں جاؤں۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 583
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 583
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/583/mode/1up
اب لیجئے نمونہ کے طور پر کسی قدر بخاری کے دلائل پیش کرتا ہوں اگر کچھ منکر انہ جوش ہے تو ردّ کر کے دکھلاویں۔ اوراگر سعادت ہے تو قبول کرلیں۔ وَ طُوبٰی لِلسُّعَدَآءِ۔
اِفَادَاتُ الْبُخَارِیْ
یہ عاجز پہلے اس سے اسی رسالہ میں بیان کر چکا ہے کہ عموم محاورہ قرآن شریف کا توفّی کے لفظ کے استعمال میں یہی واقعہ ہوا ہے کہ وہ تمام مقامات میں اوّل سے آخر تک ہرایک جگہ جوتَوَفِّی کا لفظ آیا ہے اس کو موت اور قبض روح کے معنے میں لاتا ہے اور جب عرب کے قدیم وجدید اشعار وقصائد ونظم ونثر کاجہاں تک ممکن تھا تتبّع کیاگیا اور عمیق تحقیقات سے دیکھا گیا تو یہ ثابت ہوا کہ جہاں جہاں تَوَفِّی کے لفظ کا ذوی الروح سے یعنی انسانوں سے علاقہ ہے اور فاعل اللہ جَلَّشَانُہٗ کو ٹھہرایا گیا ہے اِن تمام مقامات میں تَوَفِّی کے معنے موتؔ وقبض روح کے کئے گئے ہیں۔اور اشعار قدیمہ وجدیدہ عرب میں اور ایسا ہی اُن کی نثر میں بھی ایک بھی لفظ توفی کا ایسا نہیں ملے گا جو ذوی الروح میں مستعمل ہو اور جس کافاعل لفظًا یا معنًا خدائے تعالیٰ ٹھہرایا گیا ہو۔ یعنی فعل عبد کا قرار نہ دیا گیا ہو اور محض خدائے تعالیٰ کا فعل سمجھا گیا ہو اور پھراس کے معنے بجز قبض روح کے اور مراد رکھے گئے ہوں۔ لغات کی کتابوں قاموس۔ صحاح۔ صراحؔ وغیرہ پر نظر ڈالنے والے بھی اس بات کو جانتے ہیں۔ کہ ضرب المثل کے طور پر بھی کوئی فقرہ عرب کے محاورات کا ایسا نہیں ملا جس میں توفی کے لفظ کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرکے اور ذوی الروح کے بارہ میں استعمال میں لاکر پھر اس کے اور بھی معنے کئے ہوں۔بلکہ برابر ہر جگہ یہی معنے موت اورقبض روح کے کئے گئے ہیں اورکسی دوسرے احتمال کا ایک ذرہ راہ کُھلا نہیں رکھا۔ پھر بعد اس کے اِس عاجز نے حدیثوں کی طرف رجوع کیا تا معلوم ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ اورخود آنحضرت صلعم اس لفظ تَوَفِّی کو
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 584
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 584
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/584/mode/1up
ذوی الروح کی طرف منسوب کرکے کن کن معنوں میں استعمال کرتے تھے۔ آیا یہ لفظ اس وقت اُن کے روز مرہ محاورات میں کئی معنوں پر استعمال ہوتا تھا یا صرف ایک ہی معنے قبض روح اور موت کے لئے مستعمل تھا۔ سو اس تحقیقات کے لئے مجھے بڑی محنت کرنی پڑی اور اِن تمام کتابوں صحیح بخاری۔ صحیح مسلم۔ ترمذی۔ ابن ماجہ۔ ابوداؤد۔ نسائی۔دارمی۔ موطا ۔ شرح السنہ وغیرہ وغیرہ کا صفحہ صفحہ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ان تمام کتابوں میں جو داخل مشکٰوۃ ہیں تین سو چھیالیس مرتبہ مختلف مقامات میں توفی کا لفظ آیا ہے اور ممکن ہے کہ میرے شمار کرنے میں بعض توفی کے لفظ رہ بھی گئے ہوں لیکن پڑھنے اور زیر نظر آجانے سے ایک بھی لفظ باہر نہیں رہا۔ اور جس قدر وہ الفاظ توفی کے ان کتابوں میں آئے ہیں۔ خواہ وہ ایسا لفظ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مُنہ سے نکلا ہے یاایساہے جوکسی صحابی نے مُنہ سے نکالاہے۔ تمام جگہ وہ الفاظ موت اور قبض روح کے معنے میں ہی آئے ہیں۔ اور چونکہ میں نے ان کتابوں کو بڑی کوشش اورجانکاہی سے سطر سطر پر نظر ڈال کردیکھ لیا ہے۔ اس لئے میں دعویٰ سے اور شرط کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہر یک جگہ جو تَوَفِّی کا لفظ ان کتابوں کی احادیث میں آیا ہے اس کے بجُز موت اور قبض روح کے اور کوئی معنے نہیں۔ اوران کتابوں سے بطور استقراء کے ثابت ہوتا ہے کہ بعد بعثت اخیر عمر تک جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نیتَوَفِّی کا لفظ بغیر معنی موت اورقبض روح کے کسی دوسرے معنیؔ کے لئے ہرگز استعمال نہیں کیا اور نہ کبھی دوسرے معنی کالفظ زبان مبارک پر جاری ہؤا۔اور کچھ شک نہیں کہ استقراء بھی ادلّۂ یقینیہ میں سے ہے۔ بلکہ جس قدر حقائق کے ثابت کرنے کے لئے استقراء سے مدد ملی ہے اور کسی طریق سے مددنہیں ملی۔ مثلًا ہمارے ان یقینیات کی بناء جو عمومًا تمام انسانوں کی ایک زبان ہوتی ہے اور دوآنکھ اورعمر انسان کی عمومًا اس حد سے تجاوز نہیں کر سکتی۔ اوراناج کی قسموں میں سے چنا اس انداز کا ہوتاہے اور گیہوں کا دانہ اس اندازکا۔یہ سب یقینیات استقراء سے معلوم ہوئے ہیں۔ پس جو شخص اس استقراء کا انکار کرے تو ایسا کوئی لفظتَوَفِّی کا پیش کرنا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 585
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 585
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/585/mode/1up
اس کے ذمہ ہوگا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مُنہ سے نکلاہو۔ اور بجُز موت اور قبض روح کے اس کے کوئی اور معنے ہوں۔ اورامام محمد اسماعیل بخاری نے اس جگہ اپنی صحیح میں ایک لطیف نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے جس سے معلوم ہوا کہ کم سے کم سات ہزار مرتبہ تَوَفِّی کالفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مُنہ سے بعثت کے بعد اخیر عمر تک نکلاہے۔ اورہر یک لفظ تَوَفِّی کے معنے قبض روح اور موت تھی۔ سو یہ نکتہ بخاری کا منجملہ اُن نکات کے ہے جن سے حق کے طالبوں کو امام بخاری کا مشکور وممنون ہونا چاہیئے۔
اورؔ منجملہ افادات امام بخاری کے جس کا ہمیں شکر کرنا چاہیئے ایک یہ ہے کہ انہوں نے مسیح ابن مریم کی وفات کے بارہ میں ایک قطعی فیصلہ ایسا دے دیا ہے جس سے بڑھ کر متصور نہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ امام بخاری نے اپنی صحیح کے کئی حصوں میں سے جن کانام اُس نے خاص خاص غرضوں کی طرف منسوب کر کے کتاب رکھا ہے۔ ایک حصہ کو کتاب التفسیر کے نام سے نامزد کیا ہے۔ کیونکہ اس حصہ کے لکھنے سے اصل غرض یہ ہے کہ جن آیات قرآن کریم کی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ تفسیر وتشریح کی ہے یا اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے اُن آیات کی بحوالہ قول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تفسیرکر دی جائے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ اسی غرض سے آیۂ کریمہ 33 ۱؂ کو کتاب التفسیر میں لایا ہے۔ اور اس ایراد سے اُس کا منشاء یہ ہے کہ تا لوگوں پر ظاہر کرے کہ تَوفیتنی کے لفظ کی صحیح تفسیر وہی ہے۔جس کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ فرماتے ہیں یعنی مار دیا اور وفات دے دی اورحدیث یہ ہے عن ابن عباسٍ انہ‘ یُجآء برجالٍ من امتی فیؤخذبھم ذات الشمال فاقول یا رب اصیحاؔ بی فیُقال انک لا تدری ما احدثوا بعدک فاقول کماقال العبد الصالح وکنت علیھم شھیدًا ما دمتُ فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم۔صفحہ ۶۶۵بخاری ۶۹۳ بخاری ۔ یعنی قیامت کے دن میں بعض لوگ میری اُمت میں سے آگ کی طرف
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 586
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 586
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/586/mode/1up
لائے جائیں گے تب میں کہوں گا کہ اے میرے رب یہ تو میرے اصحاب ہیں تب کہاجائے گا کہ تجھے اُن کاموں کی خبر نہیں جو تیرے پیچھے اِن لوگوں نے کئے۔ سو اُس وقت میں وہی بات کہوں گا جو ایک نیک بندہ نے کہی تھی یعنی مسیح ابن مریم نے۔ جب کہ اُسکو پوچھا گیا تھا کہ کیا یہ تو نے تعلیم دی تھی کہ مجھے اورمیری ماں کو خدا کر کے ماننا۔ اور وہ بات (جو میں ابن مریم کی طرح کہوں گا) یہ ہے کہ میں جب تک اُن میں تھا اُن پر گواہ تھا پھر جب تُو نے مجھے وفات دیدی تو اُس وقت تُو ہی اُن کانگہبان اور محافظ اور نگران تھا۔ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قصہ اور مسیح ابن مریم کے قصہ کو ایک ہی رنگ کا قصہ قرار دیکر وہی لفظ فلمّا توفّیتنی کا اپنے حق میں استعمال کیا ہے جس سے صاف سمجھاجاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فلمّا توفّیتنی سے وفات ہی مراد لی ہے۔ کیونکہ اس میں کسی کو اختلاف نہیں کہ آنحضرت صلعم فوتؔ ہوگئے ہیں اور مدینہ منورہ میں آنحضرت کی مزار شریف موجود ہے۔ پس جبکہ فلمّا توفیتنی کی شرح اور تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت وفات پانا ہے ثابت ہوا۔ اور وہی لفظ حضرت مسیح کے مُنہ سے نکلا تھا اورکھلے طورپر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ جن الفاظ کو مسیح ابن مریم نے استعمال کیا تھا وہی الفاظ مَیں استعمال کرونگا پس اس سے بکلی منکشف ہوگیا کہ مسیح ابن مریم بھی وفات پاگیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی وفات پاگئے اوردونوں برابر طور پر اثر آیت فلمّا توفّیتنی سے متاثر ہیں۔ اِسی وجہ سے امام بخاری اس آیت فلمّا توفّیتنی کو قصدًا کتاب التفسیر میں لایا تا وہ مسیح ابن مریم کی نسبت اپنے مذہب کو ظاہر کرے کہ حقیقت میں وہ اس کے نزدیک فوت ہوگیا ہے۔ یہ مقام سوچنے اور غورکرنے کا ہے کہ امام بخاری آیت فلمّا توفّیتنی کو کتاب التفسیر میں کیوں لایا۔پس ادنیٰ سوچ سے صاف ظاہرہوگا کہ جیسا کہ امام بخاری کی عادت ہے اس کا منشاء یہ تھا کہ آیت فلمّا توفّیتنی کے حقیقی اور واقعی معنی وہی ہیں جن کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایاہے۔ سو اس کا مدعا اس بات کاؔ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 587
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 587
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/587/mode/1up
ظاہر کرنا ہے کہ اس آیت کی یہی تفسیر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پر وارد کر کے آپ فرمائی ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ اس طرز کو امام بخاری نے اختیار کر کے صرف اپنا ہی مذہب ظاہرنہیں کیا بلکہ یہ بھی ظاہر کردیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت فلمّا توفّیتنی کے یہی معنی سمجھتے تھے تب ہی تو انہیں الفاظ فلمّا توفّیتنی کو بغیر کسی تبدیل وتغییر کے اپنی نسبت استعمال کرلیا۔ پھر امام صاحب نے اسی مقام میں ایک اور کمال کیا ہے کہ اس معنی کے زیادہ پختہ کرنے کے لئے اسی صفحہ ۶۶۵ میں آیت یاعیسٰی انی متوفیک *کے بحوالہ ابن عباس کے اسی کے مطابق تفسیر کی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں وقال ابن عباس متوفّیک مُمیتک (دیکھو وہی صفحہ ۶۶۵ بخاری)یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ یہ جو آیت قرآن کریم ہے کہ یاعیسٰی انّی متوفّیک اس کے یہ معنے ہیں کہ اے عیسےٰ میں تجھے وفات دُوں گا۔ سو امام بخاری صاحب ابن عباس کا قول بطور تائید کے لائے ہیں تا معلوم ہو کہ صحابہ کا بھی یہی مذہب تھا کہ مسیح ابن مریم فوت ہوگیاہے۔ اور پھر امام بخاری نے ایک اور کمال کیا ہے کہ اپنی صحیح کے صفحہ ۵۳۱ میں مناقب ابن عباس میںؔ لکھا ہے کہ خود ابن عباس سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو اپنے سینہ* سے لگا یا اوردعا کی کہ
یا الٰہی اس کو حکمت بخش اس کو علم قرآن بخش چونکہ دُعا نبی کریم کی مستجاب ہے اس لئے ابن عباس کا یہ بیان کہ توفّی عیسٰی جو قرآن کریم میں آیا ہے اما تت عیسٰی اس سے مراد ہے یعنی عیسیٰ کی۱؂ وفات دینا۔ یہ معنی آیت کریمہ کے جو ابن عباس نے کئے ہیں اس وجہ سے بھی قابل قبول ہیں کہ ابن عباس کے حق میں علم قرآن کی دعا مستجاب ہوچکی ہے۔
پھر امام بخاری نے اسی آیت فلمّا توفّیتنی کو کتاب الانبیاء صفحہ ۴۷۳ اور پھرصفحہ ۴۹۰ میں انہیں معنوں کے ظاہر کرنیکی غرض سے ذکر کیا ہے اور ظاہر کیا ہے کہ اس قصّہ کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسیح ابن مریم سے ایک مشابہت ہے چنانچہ صفحہ ۴۸۹ میں یہ
* فٹ نوٹ: اس آیت کا حاشیہ ایڈیشن اوّل کے صفحہ ۹۲۲ اور اس ایڈیشن کے صفحہ ۶۰۶ پر ملاحظہ فرماویں۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 588
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 588
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/588/mode/1up
حدیث بھی بروایت ابو ہریرہ لکھ دی ہے انا اولی الناس بابن مریم والانبیاء اولاد علات اور اسی کی تائید میں امام بخاری نے کتاب المغازی میں بذیل کتاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۶۴۰ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک اور حدیث لکھی ہے۔
اورؔ منجملہ افادات امام بخاری کے جن کا ہمیں شکر کرنا چاہیئے یہ ہے کہ انہوں نے صرف اسی قدرثابت نہیں کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں بلکہ احادیث نبویہ کی رو سے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ جو شخص فوت ہوجائے پھر دنیا میں آ نہیں سکتا۔ چنانچہ بخاری کے صفحہ ۶۴۰ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ روایت کی گئی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے تو بعض آدمی یہ گمان کرتے تھے کہ آنحضرت فوت نہیں ہوئے اور بعض کہتے تھے کہ فوت ہوگئے۔ مگر پھردنیا میں آئیں گے۔ اس حالت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ کے گھر گئے اور دیکھاجو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں تب وہ چادر کاپردہ اُٹھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کی طرف جھکے اور چومااور کہا کہ میرے ماں باپ تیرے پر قربان مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ خدا تیرے پر دوموتیں جمع نہیں کرے گا۔ پھرلوگوں میں آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فوت ہوجانا ظاہر کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے اور پھر دنیا میں نہ آنے کی تائید میں یہ آیت پڑھی 33 ۱؂ یعنی محمد اس سے زیادہ نہیںؔ کہ وہ رسول اللہ ہے اور اس سے پہلے تمام رسول اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے گذرچکے ہیں۔ یاد رہے کہ من قبلہ الرسل کا الف لام استغراق کا ہے جو رسولوں کی جمع افراد گذشتہ پر محیط ہے اور اگرایسا نہ ہو تو پھر دلیل ناقص رہ جاتی ہے کیونکہ اگرایک فرد بھی باہر رہ جائے تو وہ پھر وہ استدلال جو مدعاقرآن کریم کا ہے اس آیت سے پیدانہیں ہو سکتا۔ اس آیت کے پیش کرنے سے حضرت ابو بکر صدیق نے اِس بات کا ثبوت دیاکہ کوئی نبی ایسا نہیں گذراکہ جو فوت نہ ہوا ہو اور نیز اس بات کا ثبوت دیا کہ جو فوت ہوجائے پھر دنیا میں کبھی نہیں آتا۔ کیونکہ لغت عرب
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 589
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 589
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/589/mode/1up
اور محاورہ اہل عرب میں خَلَا یا خَلَتْ ایسے لوگوں کے گذرنے کو کہتے ہیں جو پھر آنیوالے نہ ہوں۔ پس تمام رسولوں کی نسبت جو آیت موصوفہ بالا میں خَلَتْ کا لفظ استعمال کیاگیا وہ اسی لحاظ سے استعمال کیا گیاتااس بات کی طرف اشارہ ہو کہ وہ لوگ ایسے گئے ہیں کہ پھر دنیا میں ہرگز نہیں آئیں گے۔ چونکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال یافتہ ہونے کی حالت میں آپ کے چہرہ مبارک کو بوسہ دے کر کہا تھا کہ تُو حیات اور موت میں پاک ہے تیرے پر دوموتیں ہرگز وارد نہیں ہوں گی یعنی تو دوسری مرتبہ دنیا میں ہرگز نہیں آئے گا۔اس لئے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے قول کی تائید میں آیت قرآن کریم کی پیش کی۔ جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ سب رسول جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تھے گذرچکے ہیں اور جو رسول اس دنیا سے گذر گئے ہیں پھر اس دنیا میں ہرگز نہیں آئیں گے۔ کیونکہؔ جیساکہ قرآن شریف میں اَور فوت شدہ لوگوں کی نسبت خَلَوْایا خَلَتْ کا لفظ استعمال ہواہے۔ ایساہی یہی لفظ نبیوں کے حق میں بھی استعمال ہواہے۔اور یہ لفظ موت کے لفظ سے اخص ہے کیونکہ اس کے مفہوم میں یہ شرط ہے کہ اس عالم سے گذر کر پھر اس عالم میں نہ آوے۔غرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس جگہ فوت شدہ نبیوں کے دوبارہ نہ آنے کے بارے میں اوّل قول ابوبکر صدیق کا پیش کیا جس میں یہ بیان ہے کہ خدا تیرے پر دوموتیں جمع نہیں کرے گا۔ کیونکہ دوبارہ آنا دوموتوں کو مستلزم ہے۔ اور پھر اس بارے میں قرآن کریم کی آیت پیش کی اور یہ ثبوت دیاکہ خَلَا اس گذرنے کو کہتے ہیں کہ پھر اس کے بعد عود نہ ہو۔ اس تحقیق وتدقیق سے کمالاتِ امام بخاری ظاہر ہیں۔ جزاہ اللّٰہ خیرالجزاء وادخلہ اللّٰہ فی الجنّات العلیا۔
اور منجملہ افادات امام بخاری کے ایک یہ ہے کہ انہوں نے اپنی صحیح میں پانچ حدیثیں ذکر کر کے متفرق طرق اور متفرق راویوں کے ذریعہ سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مسیح ابن مریم اپنی موت کے بعد اموات میں جاملا اور خداتعالیٰ کے بزرگ نبی جو اس دنیا سے گذر چکے ہیں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 590
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 590
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/590/mode/1up
اُن میں داخل ہوگیا اورؔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں فوت شدہ جماعت میں اُس کو پایا۔ دیکھو بخاری صفحہ ۵۰ اورصفحہ ۴۵۵ و صفحہ ۴۷۱ و صفحہ۵۴۸و۱۱۲۰۔ اور اِن احادیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ وہ سب نبی اگرچہ دنیوی زندگی کی روسے مرگئے اور ا س جسم کثیف ا ور اس کے حیات کے لوازم کو چھوڑ گئے لیکن اس عالم میں ایک نئی زندگی جس کو روحانی کہنا چاہیئے رکھتے ہیں۔ اور کیا مسیح اور کیا غیر مسیح برابر اور مساوی طور پر اس نئی زندگی کے لوازم اپنے اندرجمع رکھتے ہیں۔ یہی منشاء انجیل میں پطرس کے پہلے خط کا ہے۔چنانچہ وہ کہتا ہے کہ وہ یعنی مسیح جسم کے حق میں تو مارا گیا لیکن روح میں زندہ کیاگیا۔ یعنی موت کے بعد مسیح کو روحانی زندگی ملی ہے نہ جسمانی۔دیکھوپطرس کا پہلاخط تین باب اُنیس آیت۔ اور عبرانیوں کے خط نو ۹باب ستائیس آیت میں لکھا ہے کہ آدمیوں کے لئے ایک بار مرنا ہے ایسا ہی بائبل کے بہت سے مقامات میں موجود ہے کہ راستبازوں کے لئے ایک موت کے بعد پھر حیات ابدی ہے۔ اب اس بات کے ثابت ہونے کے بعد کہ مسیح مر گیا اور روح اس کی فوت شدہ روحوں میں داخل ہے۔ اگر فر ض محال کے طور پر پھر اس کا زندہ ہو کر دنیا میں آناقبول کرلیں تو آسمان سے اُترنا اس کا بہرحال غیر مسلّم ہو گا۔ کیونکہ ثابت ہوچکاکہ آسمان پر مرنے کے بعد صرف اسؔ کی روح گئی جو دوسری روحوں میں شامل ہو گئی۔ ہاں اس فرض کے بناء پر یہ کہناپڑے گا کہ کسی وقت اس کی قبر پھٹ جائے گی اور اس میں سے باہر آجائے گا اور یہ کسی کا اعتقاد نہیں۔ ماسوااس کے ایک موت کے بعد پھر دوسری موت ایک عظیم الشان نبی کے لئے تجویز کرنا خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں کے برخلاف ہے۔اورجوشخص ایک مرتبہ مسیح کو مار کر پھر قیامت کے قریب اسی دنیا میں لاتا ہے اُس کی یہ مرضی ہے کہ سب کے لئے ایک موت او رمسیح کے لئے دوموتیں ہوں جس نے دنیا میں کسی جسم اور صورت میں جنم لیا وہ موت سے بچ نہیں سکتا۔ دیکھو خط دوم پطرس ۳ باب ۱۰ آیت۔
او رمنجملہ افادات امام بخاری کے ایک یہ ہے کہ انہوں نے قطعی طور پر اس بات کافیصلہ دیکر
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 591
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 591
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/591/mode/1up
کہ مسیح ابن مریم فوت ہوگیا اور فوت شدہ بندوں میں جاملا۔پھراس پیشگوئی کی نسبت جو اُن کی صحیح میں درج ہے کہ ابن مریم نازل ہوگا۔ تین قوی قرینے قائم کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ آنے والا ابن مریم ہرگز وہ مسیح ابن مریم نہیں ہے جس پر انجیل نازل ہوئی تھی۔ چنانچہ اوّل قرینہ یہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لانبی بعدی۔ صفحہ ۶۳۳۔ دوم قرینہ یہ ہے کہ آنے والے مسیح کی نسبت اِمامکم منکم کا قولؔ استعمال کیا گیا ہے جس سے صاف طورپرجتلا دیا ہے کہ وہ مسیح آنے والا اصل مسیح نہیں ہے بلکہ وہ تمہارا ایک امام ہوگااور تم میں سے ہو گا۔ اور کسی اَور امام کا مسیح کے ساتھ ہونا ہرگز ذکر نہیں کیا۔ بلکہ امامت کی وجہ سے ہی مسیح موعود کانام حَکَم رکھا عدل رکھا مُقسط رکھا۔ اگر وہ امام نہیں تو یہ صفات جو امامت سے ہی تعلق رکھتی ہیں کیوں کر اس کے حق میں بولی جاسکتی ہیں۔ اور اگر کہو کہ امامت سے مراد نماز خوانی کی امامت ہے جیسا کہ ہریک مسجد میں ملّاں ہواکرتے ہیں تو یہ عجیب عقل کی بات ہے۔ کیونکہ یہ تو ہرگز ممکن نہیں کہ ۲۰ بیس کروڑ مسلمانوں کے لئے جو مختلف بلاد میں جابجا سکونت رکھتے ہیں پنجوقت نماز ادا کرنے کے لئے ایک ہی امام کافی ہو۔ بلکہ بڑے بڑے لشکروں کے لئے بھی جو جابجا حسب مصالح جنگی متفرق ہوں ایک امام کافی نہیں ہوسکتا۔ سو نماز پڑھانے کی امامت جیسا کہ آج کل لاکھوں آدمی کرا رہے ہیں یہی تعداد ہریک زمانہ کے لئے لابدی اور لازمی ہے جو صرف ایک سے انجام پذیر نہیں ہوسکتی۔ بلکہ امام سے مراد رہنما اور پیشوا اورخلیفہ ہے جس کی صفات میں سے حَکَم اور عدل اور مقسط ہونا بیان کیاگیا ہے۔اب آنکھ کھول کر دیکھنا چاہیئے کہ یہ صفات بخاریؔ کے سیاق سباق دیکھنے سے مسیح موعود کے حق میں اطلاق پائے ہیں یا کسی اور کے حق میں۔ اے بندگانِ خدا کچھ تو ڈرو۔ دیکھو تمہارا دل ہی تمہیں ملزم کرے گا کہ تم حق پر پردہ ڈال رہے ہو۔ ڈرو۔ اے لوگوڈرواور خدا اور رسول کے فرمودہ سے عمدًا انحراف مت کرو اور الحاد اور تحریف سے باز آجاؤ۔ اللہ اور رسول کے کلمات کو
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 592
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 592
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/592/mode/1up
اُن کے مواضع سے کیوں پھیرتے ہو۔ و قد حرَّفتم و انتم تعلمون۔
سوم قرینہ جو امام بخاری نے بیان کیا ہے یہ ہے کہ آنے والے مسیح اور اصل مسیح ابن مریم کے حُلیہ میں جابجا التزام کامل کے ساتھ فرق ڈال دیا ہے۔ ہرایک جگہ جو اصل مسیح ابن مریم کا حلیہ لکھاہے۔ اس کے چہرہ کو احمر بیان کیا ہے اور ہر یک جگہ جو آنے والے مسیح کا حلیہ بقول آنحضرت صلعم بیان فرمایا ہے اس کے چہرہ کو گندم گوں ظاہرکیا ہے اورکسی جگہ اس التزام کو ہاتھ سے نہیں دیا۔ چنانچہ صفحہ ۴۸۹ میں دوحدیثیں امام بخاری لایاہے۔ ایک ابوہریرہ سے اور ایک ابن عمر سے۔ اور اُن دونوں میں یہ بیان ہے کہ معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ کو جو اصل عیسیٰ ہے دیکھا اور اس کو سُرخ رنگ پایا۔ اور پھر اس کے آگے اَبی سَالم سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح کو خواب میں دیکھاؔ اور اس کا گندم گُوں حُلیہ بیان کیا۔ پھر صفحہ ۱۰۵۵ میں ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آنے والے مسیح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا اور معلوم ہوا کہ وہ گندم گوں ہے اور دجّال کو سرخ رنگ دیکھا ( جو اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ وہ سرخ رنگ قوم سے پیدا ہوگا) اور صفحہ ۴۸۹ میں عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے ابن مریم کو گندم گوں دیکھا۔ اسی طرح امام بخاری نے اپنی کتاب میں یہ التزام کیا ہے کہ وہ اصل مسیح کے حُلیہ کو بروایت ثقات صحابہ سرخ بیان کرتے ہیں اور آنے والے مسیح کا حلیہ گندم گوں ظاہر کرتے ہیں جس سے انہوں نے ثابت کیا ہے کہ آنے والا مسیح اَور ہے۔چنانچہ امام بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب اللباس میں بھی آنے والے مسیح کا حلیہ گندم گوں لکھاہے۔ دیکھو صفحہ ۸۷۶کتاب اللباس۔
او رمنجملہ افادات امام بخاری کے یہ ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو جو صحیح بخاری کے صفحہ ۶۵۲ اور ۴۶۴ میں ہے یعنی حدیث ما من مولود یولد الا والشیطٰن یمسّہٗ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 593
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 593
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/593/mode/1up
حین یولد الامریم وابنھا اور حدیث باصبعیہ ...غیر عیسٰی کو متعارض حدیثوں کے ساتھ ذکر کرؔ کے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ابن مریم سے مراد ہریک وہ شخص ہے جو اس کی صفت اوررنگ میں ہو۔ اورمتعارض حدیثیں یہ ہیں دیکھو صفحہ ۴۶۴ اور حدیث صفحہ ۷۷۶ جس کے آخیر ہے لم یضرہ شیطان۔ ماسوا اس کے آیت 33 ۱؂ اور آیت3 ۲؂ صاف دلالت کررہی ہے کہ مس شیطان سے محفوظ ہونا ابن مریم سے مخصوص نہیں۔ اور زمخشری کا یہ طعن کہ حدیث خصوصیت ابن مریم دربارہ محفوظیت از مس شیطان جو امام بخاری اپنی صحیح میں لایا ہے نقص سے خالی نہیں۔ اور اس کی صحت میں کلام ہے جیسا کہ خود اُس نے بیان کیا ہے فضو ل ہے۔ کیونکہ عمیق نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بزرگ بخاری نے خود اشارہ کر دیا ہے کہ ابن مریم اور اس کی والدہ سے مرا د ہر یک ایسا شخص ہے جو ان دونوں کی صفتیں اپنے اندر جمع رکھتا ہو۔ فلا تناقض ولاتعارض۔ اور جبکہ یہ ثابت ہوا کہ کلام نبوی میں غیر عیسیٰ پر عیسیٰ یاابن مریم کابولا گیا ہے تو یہ محاورہ اور بھی مؤیّد ہمارے مطلب کا ہوگا۔ احادیث نبویہ میں یہ بھی ایک محاورہ شائع متعارف ہے کہ بعض کا بعض صفات کے لحاظ سے ایک ایسا ؔ نام رکھا جاتاہے جو بظاہر وہ کسی دوسرے کا نام ہے جیسا کہ صفحہ ۵۲۱ میں یہ حدیث ہے لقدکان فیما کان قبلکم من الامم ناس محدثون فان یک فی اُمّتی احد فانہ عمر دیکھو صفحہ ۵۲۱ بخاری۔ اب ظاہر ہے کہ محدثیت حضرت عمر میں محدود نہیں۔ سو حدیث کا یہ مطلب ہے کہ جو محدث ہوگا وہ اپنی روحانی صفات کی رو سے عمر ہی ہوگا۔ ایسا ہی احادیث میں دابۃ الارض کو بھی ایک خاص نام رکھ کر بیان کیا ہے لیکن احادیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی استعمال کی رُو سے عام ہے اور دابۃ الارض کو صحیح مسلم میں ایسے پیرایہ سے ذکر کیاگیا ہے کہ ایک طرف تو اس کو دجّال کی جساسہ ٹھہرادیاگیاہے اور اُسی کی رفیق اوراسی جزیرہ میں رہنے والی جہاں وہ ہے۔ اور ایک طرف حرم مکہ معظمہ میں صفا کے نیچے اس کو جگہ دے رکھی ہے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 594
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 594
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/594/mode/1up
گویا و ہ اُس ارض مقدس کے نیچے ہے نہ دجّال کے پاس۔ اور بیان کیا گیا ہے کہ اُسی میں سے اُس کا خروج ہوگا۔ اس استعارہ سے یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ دابۃ الارض درحقیقت اسم جسم۱؂ ایسے علماء کے لئے ہے جو ذوجہتین واقع ہیں۔ایک تعلق اُن کا دین اورحق سے ہے اورایک تعلق اُن کا دنیا اوردجالیت سےؔ ۔ اور آخری زمانہ میں ایسے مولویوں اور مُلّاؤں کا پیدا ہونا کئی جگہ بخاری میں لکھاہے۔ چنانچہ بیان کیاگیا ہے کہ وہ لوگ حدیث خیر البریّہ پڑھیں گے۔ اور قرآن کی بھی تلاوت کرتے ہوں گے لیکن قرآن اُن کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا۔ سو یہ وہی زمانہ ہے انہیں لوگوں کی ملاقات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے اور فرمایا ہے فاعتزل تلک الفرق کلھا ولو ان تعض باصل شجرۃ حتّٰی یدرکک الموت وانت علٰی ذالک صفحہ ۵۰۹ بخاری۔ یہی لوگ ہیں کہ باوجودیکہ اللہ جلَّ شَانُہٗ اور اُس کا مقدّس رسول سراسر مسیح ابن مریم کی وفات ظاہر کررہے ہیں۔ مگر پھر بھی ان کو فرمودۂ خدا و رسول پر اعتماد نہیں۔ حالانکہ حکم یہ تھا 3333 ۔ ۲؂ ماکان من شرط لیس فی کتاب اللّٰہ فھو باطل قضاء اللّٰہ احق۔ بخاری صفحہ۳۷۷۔
ما عندنا شئ الّا کتٰب اللّٰہ۔ بخاری صفحہ ۲۵۰۔ حسبکم القراٰن۔ بخاری ۱۷۲۔
اب ہم بطور نمونہ امام بخاری کے افادات کے بیان کرنے سے فارغ ہوئے او ر بیانات متذکرہ بالا سے ظاہر ہے کہ امام بخاری صاحب اوّلؔ درجہ پر ہمارے دعاوی کے شاہد اور حامی ہیں اور ہمارے مخالفوں کے لئے ہرگز ممکن نہیں کہ ایک ذرّہ بھر بھی اپنے خیالات کی تائید میں کوئی حدیث صحیح بخاری کی پیش کرسکیں۔ سو درحقیقت صحیح بخاری سے وہ منکر ہیں نہ ہم۔
بالآخر میں یہ بھی لکھنا چاہتا ہوں کہ میں نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے یہ درخواست کی تھی کہ اگر آپ مجھے مکاراور غیرمسلم خیال کرتے ہیں تو آؤ اس طریق سے بھی مقابلہ کر و کہ ہم دونوں نشان قبولیت کے ظاہر ہونے کے لئے خدا تعالیٰ کی طر ف رجوع کریں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 595
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 595
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/595/mode/1up
تاجس کے شامل حال نصرت الٰہی ہو جاوے اور قبولیت کے آسمانی نشان اس کے لئے خدا کی طرف سے ظاہر ہوں وہ اس علامت سے لوگوں کی نظر میں اپنی قبولیت کے ساتھ شناخت کیاجاوے۔ اور جھوٹے کی ہر روزہ کشمکش سے لوگوں کو فراغت اور راحت حاصل ہو۔ اِس کے جواب میں مولوی صاحب موصوف اپنے اشتہار یکم اگست ۱۸۹۱ ؁ء میں لکھتے ہیں کہ یہ درخواست اُس وقت مسموع ہوگی کہ جب تم اوّل اپنے عقائد کا عقائد اسلام ہونا ثابت کرو گے غیر مسلم ( یعنی جو مسلما ن نہیں )خواہ کتنا ہی آسمانی نشان دکھاوے اہل اسلام اسؔ کی طرف التفات نہیں کرتے۔ اب ناظرین انصافًا فرما ویں کہ جس حالت میں اسی ثبوت کے لئے درخواست کی گئی تھی کہ تا ظاہر ہوجاوے کہ فریقین میں سے حقیقی اور واقعی طور پر مسلمان کون ہے پھر قبل از ثبوت ایک مسلمان کو جو لا الٰہ الّا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کا قائل اور معتقد ہو غیر مسلم کہنا اور لَسْتَ مُسْلِمًا کر کے پکارنا کس قسم کی مسلمانی اور ایمانداری ہے۔ ماسوا اس کے اگر یہ عاجز بزعم مولوی محمد حسین صاحب کافر ہے۔ تو خیر وہ یہ خیال کرلیں کہ میری طرف سے جو ظاہر ہوگا وہ استدراج ہے۔ پس اس صورت میں بمقابل اس استدرا ج کے اُن کی طرف سے کوئی کرامت ظاہرہونی چاہیئے اور ظاہر ہے کہ کرامت ہمیشہ استدراج پر غالب آتی ہے۔ آخر مقبولوں کو ہی آسمانی مدد ملتی ہے۔ اگر میں بقول اُن کے مردود ہوں اوروہ مقبول ہیں تو پھر ایک مردود کے مقابل پر اتنا کیوں ڈرتے ہیں......اگر میں بقول ان کے کافر ہونے کی حالت میں کچھ دکھاؤں گا تو وہ بوجہ اولیٰ دکھلا سکتے ہیں مقبول جوہوئے۔ کہ مقبول رارد نباشد سخن ومن عادیٰ لی ولیًّا فقد اٰذنتہ للحرب۔ ابن صیّاد نے اگر کچھ دکھایا تھا تو کیا اس کے مقابل پر معجزات نبوی ظاہرنہیں ہوئے تھے اور کیا دجّال کے ساحرانہ کاموں کے مقابل پر عیسیٰ کے نشان مروی نہیں۔ ففرّوا این تفرّون!
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 596
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 596
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/596/mode/1up
سیّد اؔ حمد خان صاحب کے۔ سی۔ایس۔ آئی کا الہام کی نسبت خیال
اور ہماری طرف سے جیساکہ واقعی امر ہے اُس کا بیان
3333 ۱؂ الجزو۵۔ آیت موصوفہ بالا کا ترجمہ یہ ہے کہ اے مسلمانو! اگر کسی بات میں تم میں باہم نزاع واقعہ ہو تو اس امر کو فیصلہ کے لئے اللہ اوررسول کے حوالہ کرواگر تم اللہ اور آخری دن پر ایمان لاتے ہو تو یہی کرو کہ یہی بہتر اور احسن تاویل ہے۔
اب جاننا چاہیئے کہ سیّد صاحب نے الہام کے بارہ میں اپنے پر چہ علی گڑھ گزٹ میں قرآن اور حدیث کے برخلاف رائے ظاہر کی ہے چنانچہ ان کی تحریر کا خلاصہ ذیل میں لکھاجاتا ہے اور وہ یہ ہے۔ جو بات یکایک دل میں آجاوے گو کسی امر سے متعلق ہو وہ الہام ہے۔ بشرطیکہ کوئی تعلیمؔ یا تعریف یا بیان اس طرف کو لے جانے والا نہ ہو۔ اس قسم کے الہامات کوئی عجیب شے نہیں ہیں بلکہ اکثروں کو ہوتے ہیں۔ منطقی کو منطق میں۔ فلسفی کو فلسفہ میں۔ طبیب کو علم طب اور تشخیص امراض میں۔ اہل حرفہ کو اپنے حرفہ میں وغیرہ ذالک۔ یہاں تک کہ وہ اسلام اور غیر اسلام پر بھی منحصر نہیں۔ بلکہ اس قسم کے الہامات ایک امر طبیعی انسان کا ہے جس میں اسلام کی ضرورت نہیں۔ ہاں ایسی خلقت کی ضرورت ہے کہ الہام ہونے کی قابلیت رکھتی ہو۔ الہام سے شاید بعض حالتوں میں اس شخص کو جس کو الہام ہو ا ہو کوئی طمانیت قلبی حاصل ہوتی ہو مگر اس سے کوئی ایسا نتیجہ جو دوسروں کو فائدہ پہنچانے والا یقین دلانے والا تسکین بخشنے والا یا اُس واقعہ کی واقعیت اوراصلیت کو ثابت کرنے والا ہو پیدا نہیں ہوسکتا۔ سلسلہ الہامات کا زیادہ تر عرفانیات سے علاقہ رکھتا ہے جو محض تخیلات ہیں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 597
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 597
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/597/mode/1up
اور کوئی ثبوت اُن کے محقّقہ اور واقعیہ ہونے کا نہیں۔ صوفیاء کرام کے تمام الہامات بجُز تخیلات نفسی کے زیادہ رتبہ نہیں رکھتے اور محض ہیچ پوچ اور بیکار ہیں۔ نہ اُن سے خلق اللہ کو کچھ نفع ہے اور نہ ضرر۔دین اسلام تو بموجب الیوم اکملت لکم دینکم کامل ہوچکا اب الہام اس میں کوئی نئی بات پیدا نہیں کر سکتا۔ جو لوگ کسی ملہم کو خدا رسیدہ سمجھتے ہیں وہ اِس بات کاؔ بھی تصفیہ نہیں کر سکتے کہ درحقیقت اس کا دعویٰ الہام صحیح ہے یا دماغ میں خدانخواستہ کچھ خلل ہے۔ اور ملہم جو اپنے تئیں بوجہ الہام مطمئن سمجھتا ہے یہ اطمینان اُس کے بھی اعتماد کے لائق نہیں کیامعلوم کہ وہ درحقیقت مطمئن ہے یا یونہی خیال باطل میں مبتلا ہے۔ اس سے زیادہ ملہموں اوراُن لوگوں میں جو صوفی اور اہل اللہ کہلاتے ہیں اور کچھ نہیں کہ وہ اپنے ہی امور خیالیہ پرجو بے اصل محض ہیں جم جاتے ہیں اور اُن کو صحیح خیال کرنے لگتے ہیں اور ان کی ترقیات سلوک صرف اوہام کی ترقی ہے۔ الہام اور ملہم کی طرف نہ دین کے لئے اورنہ معاد کے لئے اور نہ تقرب الی اللہ کے لئے اور نہ تمیز حق اور باطل کے لئے ہمیں کچھ حاجت ہے گولوگ کسی ملہم کے گرد ایسے جمع ہوجائیں جیسے بُت پرست کسی بُت کے گرد۔ خلاصہ مطلب یہ کہ الہام بالکل بے سُود ہے اوراس کی صحت پرکوئی حجت نہیں۔ فافہم ھذا ما الھمنی ربی۔ تم کلامہ۔
یہ عاجز سیّد صاحب کے وساوس کے دور کرنے کے لئے سب سے اوّل اس بات کو ظاہرکرنا مناسب سمجھتا ہے کہ جو کچھ سید صاحب نے الہام کے بارے میں سمجھا ہے یعنی یہ کہ وہ صرف امور خیالیہ ہیں کہ فقط ملہمین کا دل ہیؔ انکا مُوجد ہوتا ہے۔ یہ سید صاحب کی رائے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ اب تک اس تعلیم سے بے خبر ہیں کہ جوالہام یعنی وحی کے بارے میں اللہ جلَّ شَانُہٗ اور اس کے رسول نے فرمائی ہے۔ سو واضح ہو کہ قرآن کریم میں اس کیفیت کے بیان کرنے کے لئے جو مکالمہ الٰہی سے تعبیر کی جاتی ہے الہام کا لفظ اختیار نہیں کیا گیامحض لغوی طور پر ایک جگہ الہام کا لفظ آیا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے 3 ۱؂۔ سو اس کو مانحن فیہ سے کچھ تعلق نہیں۔ ا س کے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 598
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 598
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/598/mode/1up
توصرف اسی قدرمعنے ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے بوجہ علت العلل ہونے کے بدوں کو اُن کے مناسب حال اور نیکوں کو اُن کے مناسب حال اُن کے جذبات نفسانی یا متقیانہ جوشوں کے موافق اپنے قانو ن قدرت کے حکم سے خیالات و تدابیر وحیل مطلوبہ کے ساتھ تائید دیتا ہے یعنی نئے نئے خیالات و حیل مطلوبہ اُن کو سوجھا دیتا ہے یا یہ کہ اُن کے جوشوں اور جذبوں کو بڑھاتا ہے اور یا یہ کہ اُن کے تخم مخفی کو ظہور میں لاتا ہے۔ مثلًا ایک چور اس خیال میں لگا رہتا ہے کہ کوئی عمد ہ طریقہ نقب زنی کا اس کو معلوم ہوجائے تو اُس کو سوجھایاجاتاہے۔ یا ایک متقی چاہتا ہے کہ وجہ حلال کی قوت کے لئے کوئی سبیل مجھے حاصل ہو تواس بارہ میں اس کو بھی کوئی طریق بتلایاجاتا ہے۔ سو عام طور پر اس کا نامؔ الہام ہے جو کسی نیک بخت یا بدبخت سے خاص نہیں بلکہ تمام نوع انسان اور جمیع افراد بشر اس علۃ العلل سے مناسب حال اپنے اس الہام سے مستفیض ہورہے ہیں۔
لیکن اس سے بہت اوپر چڑھ کر ایک اور الہام بھی ہے جس کو خدائے تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں وحی کے لفظ سے یاد کیا ہے نہ الہام سے۔ اور اس کی تعریف یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ایک تجلی خاص کا نام ہے جو بکثرت انہیں پرہوتی ہے جو خاص اورمقرب ہوں۔ اور اس کی علّت غائی یہ ہے کہ شبہات او ر شکوک سے نکالنے کے لئے یا ایک نئی یامخفی بات کے بتانے کے لئے یاخدا تعالیٰ کی مرضی اورعدم مرضی اور اس کے ارادہ پر مطلع کرنے کے لئے یاکسی محل خوف سے مامون اور مطمئن کرنے کے لئے یا کسی بشار ت کے دینے کے لئے منجانب اللہ پیرایہ مکالمہ و مخاطبہ اور ایک کلام لذیذ کے رنگ میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ اور حقیقت اس کی یہ ہے کہ وہ ایک غیبی القاء لفظوں کے ساتھ ہے جس کا ادراک غالبًا غیبتِ حس کی حالت میں سماع کے طور پر یاجریان علی اللسان کے طورپر یا رویت کے طورپرہوتاہے اوراپنے نفس اورامور خیالیہ کو اس میں کچھ دخل نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ محض الٰہی تحریک اور ربّانی نفخ سے ایک قدرتی آواز ہے جس کومورد وحی کی قوت حاسّہ دریافت کرؔ لیتی ہے۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 599
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 599
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/599/mode/1up
جب انسان کی روح نفسانی آلائشوں سے پا ک ہوکر اوراسلام کی واقعی حقیقت سے کامل رنگ پکڑ کر خدائے تعالیٰ کی بے نیاز جناب میں رضا اور تسلیم کے ساتھ پوری پوری وفاداری کو لے کر اپناسر رکھ دیتی ہے اورایک سچی قربانی کے بعد جو فدائے نفس ومال و عزّت ودیگر لوازم محبوبۂ نفس سے مراد ہے محبت اور عشق مولیٰ کے لئے کھڑی ہوجاتی ہے اور تمام حُجبِ نفسانی جو اُس میں اور اُس کے رب میں دُور ی ڈال رہے تھے معدوم اورزائل ہوجاتے ہیں اور ایک انقلاب عظیم اورسخت تبدیلی اس انسان کی صفات اور اس کی اخلاقی حالت اور اس کی زندگی کے تمام جذبات میں پیدا ہو کر ایک نئی پیدائش اورنئی زندگی ظہور میں آجاتی ہے اوراس کی نظر شہود میں وجود غیر بکلّی معدوم ہوجاتاہے۔ تب ایسا انسان اس لائق ہوجاتا ہے کہ مکالمہ الٰہی سے بکثرت مشرف ہو۔ اور مکالمہ الٰہی کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ محدود اورمشتبہ معرفت سے انسان ترقی کر کے اس درجہ شہود پر پہنچتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ کو اس نے دیکھ لیاہے۔ سو یہ وہ مقام ہے جس پر تمام مقامات معرفت و خداشناسی کے ختم ہوجاتے ہیں اور یہی وہ آخری نقطہ کمالات بشریہ کا ہے جس سے بڑھ کر عرفان کے پیاسوں کے لئے اس دنیا میں ہرگز میسرؔ نہیں آسکتا اورنبیوں اورمحدثوں کے لئے اس کے حصول کا اکثر طور پر قدرتی طریق یہ ہے کہ جب خدائے تعالیٰ چاہتا ہے کہ کسی پر اُن میں سے اپنا کلام نازل کرے تو روحانی طورپر بغیر توسط جسمانی اسباب کے اس پر ربودگی اوربیہوشی طاری کی جاتی ہے۔ تب وہ شخص اپنے وجود سے بکلّی گم ہوکربلا اختیار جناب الٰہی کی ایک خاص کشش سے گہرے غوطہ میں چلا جاتاہے اورہوش آنے کے وقت ساتھ اپنے ایک کلام لذیذ لے آتا ہے وہی وحی الہٰی ہے۔
یہ کلام جو خدا تعالیٰ کے پیاروں اور مقدسوں پر نازل ہوتا ہے یہ کوئی وہمی اور خیالی بات نہیں ہوتی۔ جس کو انسان کا نفس آپ ہی پیداکرسکے بلکہ یہ واقعی اورحقیقی طور پر اس ذات لایدرک کا کلام ہوتاہے جس کی ہستی کا انتہائی اوراعلیٰ درجہ کاثبوت عارفوں کی
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 600
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 600
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/600/mode/1up
نِگاہ میں یہی کلام ہے اور اس بات کے ثبوت کے لئے کہ خدا تعالیٰ کی یہ عادت ہے کہ اپنا کلام اپنے بندوں پر نازل کرے۔ ایک مسلمان کے لئے قرآن کریم اوراحادیث نبویہ کافی ہیں خدائے تعالیٰ کا اپنے نبیوں سے ہمکلام ہونا اور اولیاء میں سے حضرت موسیٰ کی والدہ پر اپنا کلام نازل کرنا۔ حضرت خضر کو اپنے کلام سے مشرف کرنا۔ مریم صدیقہ سے اپنے فرشتہ کی معرفت ہمکلام ہونا وغیرہ وغیرہ۔ اسؔ قدر قرآن کریم میں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ حاجتِ بیان نہیں۔ اور صحیح بخاری میں صفحہ ۵۲۱ میں مناقب حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں یہ حدیث لکھی ہے قد کان فی من قبلکم من بنی اِسرَائیل رجالٌ یکلّمون من غیر ان یکونوا انبیاء فان یک فی اُمَّتِی مِنْھُمْ احدٌ فعمر۔ یعنی تم سے پہلے بنی اسرائیل میں ایسے لوگ گذرے ہیں کہ خدائے تعالیٰ اُن سے ہمکلام ہوتا تھا بغیر اس کے کہ وہ نبی ہوں سو اگر ایسے لوگ اس اُمّت میں ہیں تو وہ عمر ہے۔
ایسا ہی جمیع مشاہیر اولیاء کرام اپنے ذاتی تجارب سے اس بات کی گواہی دیتے آئے ہیں کہ خدائے تعالیٰ کو اپنے اولیاء سے مکالمات ومخاطبات واقع ہوتے ہیں اور کلام لذیذ رب عزیز کی بوقتِ دعا اوردوسرے اوقات میں بھی اکثر وہ سنتے ہیں۔ دیکھنا چاہیئے کہ فتوح الغیب میں سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کس قدرجابجا اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ کلام الٰہی اس کے مقرب اولیاء پر ضرور نازل ہوتا ہے اور وہ کلام ہوتا ہے نہ فقط الہام اور حضرت مُجدّد الف ثانی صاحب اپنے مکتوبات کی جلد ثانی صفحہ ۹۹ میں ایک مکتوب بنام محمدؐ صدیق لکھتے ہیںؔ ۔ جس کی عبارت یہ ہے۔
اعلم ایّھا الصِّدیق انّ کلامہ سُبحانہ‘ مع البشر قد یکون شفاھا وذالک الافراد من الانبیاء وقد یکون ذالک لبعض الکمل من متابعیھم واذا کثر ھذا القسم من الکلام مع واحدٍ منہم سُمی مُحدثا وھذا غیر الالھام وغیرالالقاء فی الروع وغیرالکلام الذی مع الملک
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 601
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 601
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/601/mode/1up
انّما یُخاطب بھذا الکلام الانسان الکامل واللّٰہ یختص برحمتہ من یشآء یعنی اے دوست تمہیں معلوم ہو کہ اللہ جلَّ شَانُہٗ کا بشر کے ساتھ کلام کرناکبھی روبرو اور ہمکلامی کے رنگ میں ہوتا ہے اور ایسے افراد جو خدائے تعالیٰ کے ہمکلام ہوتے ہیں وہ خواص انبیاء میں سے ہیں۔اور کبھی یہ ہمکلامی کا مرتبہ بعض ایسے مکمل لوگوں کو ملتاہے کہ نبی تو نہیں مگر نبیوں کے متبع ہیں اور جو شخص کثرت سے شرف ہمکلامی کاپاتا ہے اس کو محدّث بولتے ہیں۔ اوریہ مکالمہ الہٰی از قسم الہام نہیں بلکہ غیر الہام ہے اور یہ القاء فی الروع بھی نہیں ہے اور نہ اس قسم کا کلام ہے جو فرشتہ کے ساتھ ہوتاہے۔ اس کلام سے وہ شخص مخاطب کیاجاتا ہے جو انسان کامل ہو اور خدا تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے ساتھ خاص کرلیتاہے۔
انؔ عبارات سے معلوم ہواکہ درحقیقت الہام اور چیز ہے اورمکالمہ الٰہی اور چیز ہے۔ اور سیّد صاحب اپنی کتاب تبیین الکلام کے صفحہ ۷ میں اس بیان مذکورہ بالا کا صاف اقرار کرتے ہیں۔ ناظرین کو چاہیئے کہ صفحہ ۷ تبیین الکلام کاضرور پڑھیں تا معلوم ہوکہ سیّد صاحب آپ ہی پہلے ان تمام باتوں کا اقرار کرچکے ہیں اور اب بعد اقرار کسی مصلحت سے انکاری ہو بیٹھے ہیں۔
اور سیّد صاحب کا یہ فرمانا کہ الہام بے سُود ہے خود بے سود ہے۔ کیونکہ اگر وہ الہام بے سُود ہے جس کی سیّد صاحب نے تعریف اپنے مضمون میں کی ہے تو ہوا کرے۔لیکن کلام الٰہی تو بے سُود نہیں اورنعوذ باللہ کیوں کر بے سُود ہو۔ وہی تو ایک ذریعہ کامل معرفت کا ہے جس کی وجہ سے انسان اس پُر غبار دنیا میں صرف خود تراشیدہ خیالات سے خدائے تعالیٰ کی ہستی کا قائل نہیں ہوتا بلکہ اُس حیّ وقیوم کے مُنہ سے انا الموجود کی آواز بھی سُن لیتا ہے اور صدہا فوق العادت پیشگوئیوں اوراسرار عالیہ کی وجہ سے جو اس کلام کے ذریعہ منکشف ہوتے ہیں۔ متکلّم پر ایمان لانے کے لئے حق الیقین کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 602
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 602
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/602/mode/1up
اور ایسے شخص کا جلیس بھی ان روحانی منافع وفوائد سے محروم نہیں رہتا بلکہ رفتہ رفتہ یہا ں تک اس کو قوت یقین مل جاتی ہے کہ گویا خدائے عزّ وجلّ کودؔ یکھ لیتا ہے۔ اگر سید صاحب اس بات کا کسی اخبار میں اعلان دیں کہ ہمیں اس بات پر ایمان نہیں کہ یہ مرتبہ خدا تعالیٰ کی ہمکلامی کا انسان کو مل سکتا ہے اور ان تمام شہادتوں سے انکار ظاہرکریں کہ جو روحانی تجربہ کاروں رسولوں اور نبیوں اورولیوں نے پیش کی ہیں تو اس عاجز پرفرض ہوگا کہ اسی فوق العادت طریق سے جس کی بنیاد خدائے تعالیٰ کے پاک نبیوں نے ڈالی ہے۔ آزمائش کے لئے سیّد صاحب کو بذریعہ کسی اخبار کے کھلے کھلے طور پر دعوت کرے۔ اور اگر سیّد صاحب طالبِ حق ہوں گے تو اس رُوحانی دعوت کو بسروچشم قبول کرلیں گے۔ والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ۔
تَوَفّی کے لفظ کی نسبت اور نیز الدجّال کے بارے میں ہزار روپیہ کا اشتہار
تمام مسلمانوں پر واضح ہو کہ کمال صفائی سے قرآن کریم اورحدیث رسول اللہ صلعم سے ثابت ہوگیا ہے کہ درحقیقت حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام برطبق آیت33 ۱؂ زمین پر ہی اپنی جسمانی زندگی کے دن بسرکر کے فوت ہوچکے ہیں اورقرآن کریم کی سو۱۶لہ آیتوں اوربہت سی حدیثوں بخاری اور مسلم اور دیگر صحاح سے ثابت ہے کہ فوت شدہ لوگ پھر آباد ہونے اور بسنے کے لئے دنیا میں بھیجے نہیں جاتے اورنہ حقیقی اورواقعی طور پر دو موتیں کسی پر واقع ہوتی ہیں اورنہ قرآن کریم میں واپس آنے والوں کے لئے کوئی قانون وراثت موجود ہے۔ بااینہمہ بعض علماء وقت کو اس بات پرسخت غلو ہے کہ مسیح ابن مریم فوت نہیں ہوا بلکہ زندہ ہی آسمان کی طرف اٹھایا گیا اور حیات جسمانی دنیوی کے ساتھ آسمان پر موجود ہے اورنہایت بے باکی اورشوخی کی راہ سے کہتے ہیں کہتَوَفِّی کالفظ جو قرآن کریم میں حضرت مسیح کی نسبت آیا ہے اس کے معنے وفات دینا نہیں ہے بلکہ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 603
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 603
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/603/mode/1up
پورا لینا ہے یعنی یہ کہ روح کے ساتھ جسم کو بھی لے لینا۔مگر ایسے معنے کرنا اُن کا سراسر افتراء ہے قرآن کریم کا عمومًا التزام کے ساتھ اس لفظ کے بارہ میں یہ محاورہ ہے کہ وہ لفظ قبض روح اور وفات دینے کے معنوں پر ہریک جگہ اس کو استعمال کرتاہے۔ یہی محاورہ تمام حدیثوں اور جمیع اقوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پایا جاتاہے۔جب سے دنیا میں عرب کا جزیرہ آباد ہواہے اور زبان عربی جاری ہوئی ہے کسی قول قدیم یاجدید سے ثابت نہیں ہوتا کہتَوَفِّی کا لفظ کبھی قبض جسم کی نسبت استعمال کیاگیاہوبلکہ جہاں کہیں تَوَفّی کے لفظ کو خدائے تعالیٰ کا فعل ٹھہرا کر انسان کی نسبت استعمال کیا گیا ہے وہ صرف وفات دینے اور قبض روح کے معنی پر آیاہے نہ قبض جسم کے معنوں میں۔ کوئی کتاب لغت کی اس کے مخالف نہیں۔ کوئی مثل اور قول
اہل زبان کا اس کے مغائر نہیں غرض ایک ذرہ احتمال مخالف کے گنجائش نہیںؔ ۔اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا کسی حدیث رسول اللہ صلعم سے یااشعار وقصائد و نظم ونثر قدیم وجدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ تَوَفِّی کا لفظ خدا تعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو وہ بجُز قبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر بھی اطلاق پاگیا ہے یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللہ جلَّ شَانُہٗ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتاہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کر کے مبلغ ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آئندہ اس کی کمالات حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرارکرلوں گا۔ایسا ہی اگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یا کوئی ان کا ہم خیال یہ ثابت کردیوے کہ اَلدّجّال کا لفظ جو بخاری اور مسلم میں آیا ہے بجُز دجّال معہود کے کسی اور دجّال کے لئے بھی استعمال کیا گیاہے تو مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں ایسے شخص کو بھی جس طرح ممکن ہو ہزار روپیہ نقد بطور تاوان کے دوں گا۔ چاہیں تو مجھ سے رجسٹری کرالیں یا تمسک لکھا لیں۔ اس اشتہار کے مخاطب خاص طور پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 604
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 604
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/604/mode/1up
جنہوں نے غرور اور تکبر کی راہ سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ تَوَفِّی کا لفظ جو قرآن کریم میں حضرت مسیح کی نسبت آیا ہے اس کے معنی پورا لینے کے ہیں یعنی جسم اور روح کو بہ ہیئت کذائی زندہ ہی اٹھا لینا اور وجود مرکب جسم اور روح میں سے کوئی حصہ متروک نہ چھوڑنا۔بلکہ سب کو بحیثیت کذائی اپنے قبضہ میں زندہ اورصحیح سلامت لے لینا۔ سو اسی معنی سے انکارکر کے یہ شرطی اشتہار ہےؔ ۔ ایسا ہی محض نفسانیت اورعدم واقفیت کی راہ سے مولوی محمد حسین صاحب نے اَلدّجّال کے لفظ کی نسبت جو بخاری اورمسلم میں جا بجا دجّال معہود کا ایک نام ٹھہرایا گیا ہے یہ دعویٰ کردیاہے کہ اَلدّجّال دجّال معہود کاخاص طور پر نام نہیں بلکہ ان کتابوں میں یہ لفظ دوسرے دجّالوں کے لئے بھی مستعمل ہے اور اس دعوی کے وقت اپنی حدیث دانی کا بھی ایک لمبا چوڑا دعویٰ کیا ہے۔ سو اس وسیع معنی اَلدّجّال سے انکار کر کے اور یہ دعویٰ کر کے کہ یہ لفظ اَلدّجّال کا صرف دجّال معہود کے لئے آیا ہے او ربطور علم کے اس کے لئے مقرر ہوگیاہے۔ یہ شرطی اشتہار جاری کیا گیاہے۔ مولوی محمد حسین صاحب اوراُن کے ہم خیال علماء نے لفظتَوَفِّی اور اَلدّجّال کی نسبت اپنے دعویٰ متذکرہ بالا کو بپایہ ثبوت پہنچادیا تو و ہ ہزارروپیہ لینے کے مستحق ٹھہریں گے اورنیز عام طورپریہ عاجز یہ اقرار بھی چند اخباروں میں شائع کردے گا کہ درحقیقت مولوی محمد حسین صاحب اوراُن کے ہم خیال فاضل اور واقعی طور پر محدّث اور مفسر اور رموز اوردقائق قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے سمجھنے والے ہیں۔ اگر ثابت نہ کرسکے تو پھر یہ ثابت ہوجائے گا کہ یہ لوگ دقائق وحقائق بلکہ سطحی معنوں قرآن اورحدیث کے سمجھنے سے بھی قاصراور سراسر غبی اور پلید ہیں اور در پردہ اللہ اور رسول کے دشمن ہیں کہ محض الحادکی راہ سے واقعی اور حقیقی معنوں کو ترک کرکے اپنے گھر کے ایک نئے معنے گھڑتے ہیں۔ایسا ہی اگر کوئی یہ ثابت کر دکھاوے کہ قرآن کریم کی وہ آیتیں اور احادیث جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کوئی مردہ دنیا میں واپس نہیں آئے گاقطعیۃ الدلالت نہیں اور نیز بجائے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 605
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 605
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/605/mode/1up
لفظ موؔ ت اوراماتت کے جو متعدّد المعنی ہے اور نیند اور بے ہوشی اور کفر اور ضلالت اور قریب الموت ہونے کے معنوں میں بھی آیا ہے۔تَوَفِّی کا لفظ کہیں دکھاوے مثلًا یہ کہ توفاہ اللّٰہ ماءۃ عام ثم بعثہ۔ توایسے شخص کو بھی بلا توقف ہزار روپیہ نقددیاجاوے گا۔ *
المشتہر خاکسار غلام احمد از لودھیانہ محلہ اقبال گنج
فوت کے بعد زندہ کرنے کے متعلق جس قدر قرآن کریم میں آیتیں ہیں کوئی اُن میں سے حقیقی موت پر محمول نہیں ہے۔ اور حقیقی موت کے ماننے سے نہ صرف اس جگہ یہ لازم آتا ہے کہ وہ آیتیں قرآن کریم کی اُن سولہ آیتوں اور اُن تمام حدیثوں سے مخالف ٹھہرتی ہیں جن میں یہ لکھا ہے کہ کوئی شخص مرنے کے بعد پھر دنیامیں نہیں بھیجا جاتا۔ بلکہ علاوہ اس کے یہ فساد بھی لازم آتا ہے کہ جان کندن اور حساب قبر اور رفع الی السماء جو صرف ایک دفعہ ہونا چاہیئے تھا دو دفعہ ماننا پڑتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ اب شخص فوت شدہ حساب قبر کے بعد قیامت میں اٹھے گا کذب صریح ٹھہرتا ہے۔ اور اگر ان آیتوں میں حقیقی موت مراد نہ لیں تو کوئی نقص لازم نہیں آتا کیونکہ خدا تعالیٰ کی قدرت سے یہ بعید نہیں کہ موت کے مشابہ ایک مدت تک کسی پر کوئی حالت
بے ہوشی وارد کرکے پھر اس کو زندہ کردیوے مگر وہ حقیقی موت نہ ہو۔ اور سچ تو یہ ہے کہ جب تک خداتعالےٰ کسی جاندار پر حقیقی موت وارد نہ کرے وہ مر نہیں سکتا۔ اگرچہ وہ ٹکڑے ٹکڑے کیا جاوے۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 606
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 606
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/606/mode/1up
اس آیت میں خدائے تعالیٰ نے ترتیب وار اپنے تئیں فاعل ٹھہراکر چار فعل اپنے یکے بعد دیگرے بیان کئے ہیں۔ جیساکہ وہ فرماتا ہے کہ اے عیسیٰ میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور کفار کے الزاموں سے پاک کرنے والا ہوں اور تیرے متبعین کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دینے والاہوں اور ظاہر ہے کہ یہ ہر چہار فقرے ترتیب طبعی سے بیان کئے گئے ہیں۔کیونکہ اس میں شک نہیں کہ جو شخص خدائے تعالیٰ کی طرف بلایا جاوے اور ارجعی الٰی ربّک کی خبر اس کو پہنچ جائے پہلے اس کا وفات پاناضروری ہے۔ پھر بموجب آیت کریمہ 3۳؂ اور حدیث صحیح کے اس کا خدائے تعالیٰ کی طرف رفع ہوتاہے۔ اور وفات کے بعد مومن کی روح کا خداتعالیٰ کی طرف رفع لازمی ہے جس پر قرآن کریم اور احادیث صحیحہ ناطق ہیں پھر بعدا س کے جو خدائے تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو فرمایا جو میں تجھےؔ کفارکے الزاموں سے پاک کرنے والا ہوں۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہودچاہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کرکے اس الزام کے نیچے داخل کریں جو توریت باب استثناء میں لکھاہے جومصلوب *** اور خدائے تعالیٰ کی رحمت سے بے نصیب ہے۔ جو عزت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف اٹھایانہیں جاتا۔ سو خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو اس آیت میں بشارت دی کہ تو اپنی موت طبعی سے فوت ہوگا اور پھر عزت کے ساتھ میری طرف اُٹھایاجائے گا اورجوتیرے مصلوب کرنے کے لئے تیرے دشمن کو شش کر رہے ہیں ان کوششوں میں وہ ناکام رہیں گے اور جن الزاموں کے قائم کرنے کے لئے وہ فکر میں ہیں اُن تمام الزاموں سے میں تجھے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 607
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 607
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/607/mode/1up
پاک اور منزّہ رکھوں گایعنی مصلوبیت اور اس کے بدنتائج سے جولعنتی ہونااورنبوت سے محروم ہونا اور رفع سے بے نصیب ہوناہے۔ اور اس جگہتَوَفِّی کے لفظ میں بھی مصلوبیت سے بچانے کے لئے ایک باریک اشارہ ہے۔ کیونکہتَوَفِّی کے معنے پر غالب یہی بات ہے کہ موت طبعی سے وفات دی جائے۔ یعنی ایسی موت سے جو محض بیماری کی وجہ سے ہو نہ کسی ضربہ سقطہ سے۔ اسی وجہ سے مفسرین صاحب کشاف وغیرہ انی متوفیک کی یہ تفسیر لکھتے ہیں کہ انی ممیتک حتف انفک ۔ ہاں یہ اشارہ آیت کے تیسرے فقرہ میں کہ مطھرک من الذین کفروا ہے اور بھی ؔ زیادہ ہے۔غرض فقرہ مطھرک من الذین کفروا جیسا کہ تیسرے مرتبہ پر بیان کیاگیاہے ایسا ہی ترتیب طبعی کے لحاظ سے بھی تیسری مرتبہ پر ہے۔ کیونکہ جبکہ حضرت عیسیٰ کا موت طبعی کے بعد نبیوں اورمقدسوں کے طورپرخدا تعالیٰ کی طرف رفع ہوگیا۔تو بلاشبہ وہ کفار کے منصوبوں اور الزاموں سے بچائے گئے اورچوتھا فقرہ وجاعل الذین اتبعوک جیسا کہ ترتیبًا چوتھی جگہ قرآن کریم میں واقع ہے ایساہی طبعًا بھی چوتھی جگہ ہے۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ کے متبعین کاغلبہ ان سب امورکے بعد ہوا ہے۔سو یہ چار فقرے آیت موصوفہ بالا میں ترتیب طبعی سے واقعہ ہیں اوریہی قرآن کریم کی شان بلاغت سے مناسب حال ہے۔ کیونکہ امور قابل بیان کا ترتیب طبعی سے بیان کرنا کمال بلاغت میں داخل اور عین حکمت ہے۔ اسی وجہ سے ترتیب طبعی کا التزام تمام قرآن کریم میں پایاجاتاہے۔ سورۂ فاتحہ میں ہی دیکھو کہ کیوں کر پہلے رب العالمین کاذکر کیا۔ پھر رحمٰن پھر رحیم پھر مالک یوم الدین اور کیوں کر فیض کے سلسلہ کوترتیب وار عام فیض سے لے کر اخصّ فیض تک پہنچایا۔غرض موافق عام طریق کامل البلاغت قرآن کریم کی آیت موصوفہ بالا میں ہر چہار فقرے ترتیب طبعی سے بیان کئے گئے ہیں لیکن حال کے متعصّب ملّا جن کو یہودیوں کی طرز پر
۱؂ کی عادت ہے اور جو مسیح ابن مریم کی حیات ثابت کرنے کے لئے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 608
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 608
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/608/mode/1up
بے طرح ہاتھ پیرماررہے ہیں اور کلام الٰہی کی تحریف وتبدیل پرکمر باندھ لی ہے وہ نہایت تکلف سے خدائے تعالیٰ کی ان چار ترتیب وار فقروں میں سے دو فقروں کی ترتیبؔ طبعی سے منکر ہو بیٹھے ہیں یعنی کہتے ہیں کہ اگرچہ فقرہ مطھرک من الذین کفروا اور فقرہ وجاعل الذین اتبعوک بترتیب طبعی واقع ہیں۔ لیکن فقرہ انّی متوفیک اور فقرہ ورافعک الیّ ترتیب طبعی پر واقع نہیں ہیں بلکہ دراصل فقرہ انّی متوفیک مؤخر اور فقرہ رافعک الیّ مقدّم ہے۔ افسوس کہ ان لوگوں نے باوجود اس کے کہ کلام بلاغت نظام حضرت ذات احسن المتکلّمین جلَّ شَانُہٗ کو اپنی اصل وضع اورصورت اور ترتیب سے بدلا کر مسخ کردیا۔ اور چار فقروں میں سے دو فقروں کی ترتیب طبعی کو مسلّم رکھا اوردو فقروں کو دائرہ بلاغت وفصاحت سے خارج سمجھ کر اپنی طرف سے اُن کی اصلاح کی یعنی مقدم کو مؤخر کیا اور مؤخر کومقدم کیا۔ مگر باوجود اس قدر یہودیانہ تحریف کے پھر بھی کامیاب نہ ہوسکے۔ کیونکہ اگر فرض کیاجائے کہ فقرہ انی رافعک الیّ فقرہ انی متوفّیک پر مقدم سمجھناچاہیے تو پھر بھی اس سے محرفین کا مطلب نہیں نکلتا۔ کیونکہ اس صورت میں اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اے عیسیٰ میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور وفات دینے والا ہوں اور یہ معنے سراسر غلط ہیں کیونکہ اس سے لازم آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی آسمان پر ہی وفات ہو وجہ یہ کہ جب رفع کے بعد وفات دینے کاذکر ہے اور نزول کا درمیان کہیں ذکر نہیں۔ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آسمان پر ہی حضرت عیسیٰ وفاتؔ پائیں گے۔ ہاں اگر ایک تیسرا فقرہ اپنی طرف سے گھڑاجائے اور ان دونوں فقروں کے بیچ میں رکھاجائے اور یوں کہا جائے یاعیسٰی اِنّی رافِعُک ومُنزّلک ومُتوفّیک تو پھر معنے درست ہوجائیں گے۔ مگر ان تمام تحریفات کے بعد فقرات مذکورہ بالا خدائے تعالیٰ کا کلام نہیں رہیں گے۔ بلکہ بباعث دخل انسان اور صریح تغییر وتبدیل وتحریف کے اسی محرف کا کلام متصوّرہوں گے۔ جس نے بے حیائی اورشوخی کی راہ سے ایسی تحریف کی ہے۔ اور کچھ شبہ نہیں کہ ایسی کارروائی سراسر
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 609
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 609
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/609/mode/1up
الحاد اور صریح بے ایمانی میں داخل ہوگی۔
اگر یہ کہاجائے کہ ہم یہ تحریفات وتبدیلات بلاضرورت نہیں کرتے بلکہ آیات قرآنی کو بعض احادیث سے مطابق وموافق کرنے کے لئے بوجہ اشد ضرورت اس حرکت بے جا کے مرتکب ہوتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو آیت اور حدیث میں باہم تعارض واقع ہونے کی حالت میں اصول مفسرین ومحدثین یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو حدیث کے معنوں میں تاویل کر کے اس کو قرآن کریم کے مطابق کیاجائے۔جیسا کہ صحیح بخاری کی کتاب الجنائز صفحہ ۱۷۲ میں صاف لکھاہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے حدیث ان المیت یعذب ببعض بکاء اھلہ کو قرآن کریم کی اسؔ آیت سے کہ3 ۱؂ معارض ومخالف پاکر حدیث کی یہ تاویل کردی کہ یہ مومنوں کے متعلق نہیں۔ بلکہ کفار کے متعلق ہے جو متعلقین کے جزع فزع پر راضی تھے بلکہ وصیت کرجاتے تھے پھر بخاری کے صفحہ ۱۸۳ میںیہ حدیث جو لکھی ہے قال ھل وجدتم ماوعدکم ربکم حقّا۔ اس حدیث کو حضرت عائشہ صدیقہ نے اس کے سیدھے اور حقیقی معنی کے رو سے قبول نہیں کیا اس عذر سے کہ یہ قرآن کے معارض ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتاہے 33 ۲؂ اور ابن عمر کی حدیث کو صرف اسی وجہ سے رد کردیاہے کہ ایسے معنے معارض قرآن ہیں۔ دیکھو بخاری صفحہ ۱۸۳۔ ایسا ہی محققوں نے بخاری کی اس حدیث کو جو صفحہ ۶۵۲ میں لکھی ہے یعنی یہ کہ مامن مولود یولد الا والشیطٰن یمسّہ حین یولد الا مریم وابنھا۔ قرآن کریم کی ان آیات سے مخالف پاکر کہ 3۳؂ 33 ۴؂ ۔3 ۵؂ اس حدیث کی یہ تاویل کردی۔کہ ابن مریم اور مریم سے تمام ایسے اشخاص مراد ہیں جو ان دونوں کی صفت پرہوں جیساکہ شارح بخاری نے اس حدیث کی شرح میں لکھاہے۔
قد طعن الزمخشری فی معنی ھذا الحدیث و توقف فی صحتہ و قال ان صح
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 610
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 610
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/610/mode/1up
فمعناہ کل من کان فی صفتھا لقولہ تعالٰی الا عبادک منھم المخلصین یعنی علّامہ زمخشری نے بخاری کی اس حدیث میں طعنؔ کیاہے اور اس کی صحت میں اس کو شک ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث معارض قرآن ہے اور فقط اس صورت میں صحیح متصور ہوسکتی ہے کہ اس کے یہ معنے کئے جاویں کہ مریم اور ا بن مریم سے مراد تمام ایسے لوگ ہیں جو اُن کی صفت پرہوں۔ ماسوا اس کے حسب آیت3۱؂ اور بحسب آیت کریمہ 333 ۲؂ ہریک حدیث جو صریح آیت کے معارض پڑے ردکرنے کے لائق ہے۔ اورآخری نصیحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تھی کہ تم نے تمسک بکتاب اللہ کرنا۔ جیساکہ بخاری کے صفحہ ۷۵۱ میں یہ حدیث درج ہے کہ اوصٰی بکتاب اللّٰہ۔ اسی وصیت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انتقال کر گئے۔ پھر اسی بخاری کے صفحہ ۱۰۸۰ میں یہ حدیث ہے و ھذا الکتٰب الذی ھدی اللّٰہ بہٖ رسولکم فخذوا بہٖ تھتدوا یعنی اسی قرآن سے تمہارے رسول نے ہدایت پائی ہے سو تم بھی اسی کو اپنا رہنما پکڑو تا تم ہدایت پاؤ۔ پھر بخاری کے صفحہ ۲۵۰ میں یہ حدیث ہے ما عندنا شی ء الا کتاب اللّٰہ یعنی کتاب اللہ کے سوا ہمارے پاس اور کوئی چیز نہیں جس سے بالاستقلال تمسک پکڑیں۔ پھر بخاری کے صفحہ ۱۸۳ میں یہ حدیث ہے حسبکم القراٰن یعنی تمہیں قرآن کافی ہے۔ پھر بخاری میں یہ بھی حدیث ہے حسبنا کتٰب اللّٰہؔ ما کان من شرط لیس فی کتٰب اللّٰہ فھو باطل قضاء اللّٰہ احق دیکھو صفحہ ۲۹۰،۳۷۷،۳۴۸۔اور یہی اصول محکم ائمہ کبار کا ہے۔ چنانچہ تلویح میں لکھاہے انما یرد خبر الواحد من معارضۃ الکتٰب۔ پس جس صورت میں خبرواحد جس میں احادیث بخاری ومسلم بھی داخل ہیں بحالت معارضہ کتاب اللہ رد کرنے کے لائق ہے۔ تو پھر کیا یہ ایمانداری ہے کہ اگر کسی آیت کا کسی حدیث سے تعار ض معلوم ہو تو آیت کے زیر وزبر کرنے کی فکر میں ہوجائیں اور حدیث کی تاویل کی طرف رُخ بھی نہ کریں۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 611
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 611
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/611/mode/1up
ابھی میں بیان کر چکا ہوں کہ صحابہ کرام اور سلف صالح کی یہی عادت تھی کہ جب کہیں آیت اورحدیث میں تعارض وتخالف پاتے تو حدیث کی تاویل کی طرف مشغول ہوتے۔ مگر اب یہ ایسا زمانہ آیا ہے کہ قرآن کریم سے حدیثیں زیادہ پیاری ہوگئی ہیں اورحدیثوں کے الفاظ قرآن کریم کے الفاظ کی نسبت زیادہ محفوظ سمجھے گئے ہیں۔ ادنیٰ ادنیٰ بات میں جب کسی حدیث کا قرآن کریم سے تعارض دیکھتے ہیں تو حدیث کی طرف ذرہ شک نہیں گذرتا یہودیوں کی طرح قرآن کریم کا بدلانا شروع کردیتے ہیں اورکلمات اللہ کو اُن کے اصل مواضع سے پھیرکر کہیں کا کہیں لگادیتے ہیں اور بعض فقرے اپنی طرف سے بھی ملادیتے ہیں اور اپنے تئیں33 ۱؂ کا ؔ مصداق بنا کر اس *** اللہ سے حصہ لے لیتے ہیں جو پہلے اس سے یہودیوں پر انہیں کاموں کی وجہ سے وارد ونازل ہوئی تھی۔ بعض تحریف کی یہ صورت اختیار کرتے ہیں کہ فقرہ متوفیک کو مقدّم ہی رکھتے ہیں مگر بعد اس کے انی محییک کا فقرہ اپنی طرف سے ملا لیتے ہیں۔ ذرہ خیال نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ نے تحریف کرنے والوں پر *** بھیجی ہے اور بخاری نے اپنی صحیح کے آخر میں لکھا ہے کہ اہل کتاب کی تحریف یہی تھی کہ وہ پڑھنے میں کتاب اللہ کے کلمات کو اُن کے مواضع سے پھیرتے تھے (اور حق بات یہ ہے کہ وہ دونوں قسم کی تحریف تحریری وتقریری کرتے تھے ) مسلمانوں نے ایک قسم میں جو تقریری تحریف ہے اُن سے مشابہت پیدا کرلی۔ اور اگر وعدہ صادقہ 33 ۲؂ تصرّف تحریری سے مانع نہ ہوتا تو کیاتعجب کہ یہ لوگ رفتہ رفتہ تحریر میں بھی ایسی تحریفیں شروع کردیتے کہ فقرہ رافعک کو مقدّم اور انی متوفیک کو مؤخر لکھ دیتے۔ اور اگر ان سے پوچھاجائے کہ تم پر ایسی مصیبت کیا آپڑی ہے کہ تم کتاب اللہ کے زیر وزبر اورمحرف کرنے کی فکر میں لگ گئے تو اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ تا کسی طرح قرآن کریم ان حدیثوں کے مطابق ہوجائے جن سے بظاہر معارض ومخالف معلوم ہوتاہے۔ ان بے چاروں کو اس بات کی طرف خیا ل نہیں آتا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 612
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 612
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/612/mode/1up
کہ اگر درحقیقت کوئی حدیث قرآن کریم سے معارض ومخالف ہے تو حدیث قابل تاویل ہے نہ کہ قرآن۔ کیونکہ قرآن کریم کے الفاظ جواہراؔ ت مرصع کی طرح اپنے اپنے محل پر چسپاں ہیں اورنیز قرآن کریم کا ہر یک لفظ اورہر یک نقطہ تصرّف اوردخل انسان سے محفوظ ہے برخلاف حدیثوں کے کہ وہ محفوظ الالفاظ بکلی نہیں اور ان کے الفاظ کی یادداشت اور محل پر رکھنے میں وہ اہتمام نہیں ہواجو قرآن کریم میں ہوا۔ اسی وجہ سے ان میں تعارض بھی موجو د ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مقامات متعارضہ میں راویوں کے حافظہ نے وفا نہیں کی۔ اس جگہ ہم چند مقامات متعارضہ صحیح بخاری کے جو بعد کتاب اللہ اصح الکتب خیال کی گئی ہے اوردرحقیقت اصح ہے لکھتے ہیں۔ ازانجملہ وہی حدیث صفحہ ۶۵۲ بخاری ہے جس میں یہ لکھاہے کہ مس شیطان سے محفوظ صرف ابن مریم اور اس کی والدہ ہے لیکن حدیث صفحہ ۷۷۶ بخاری میں اس کے برخلاف درج ہے جس میں لکھا ہے کہ جو شخص صحبت کے وقت بِسْمِ اللّٰہ اللّٰھم الخ پڑھے اس کی اولاد مس شیطان سے محفوظ رہتی ہے۔ ایسا ہی بخاری کے صفحہ ۴۶۴ اور صفحہ ۲۶ کی حدیثیں بھی اس کے معارض پڑی ہیں۔ اور ایساہی بخاری کی وہ حدیث بھی جو صفحہ ۴۷۷ میں درج ہے جس میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے ایام بناء میں کس قدر فاصلہ ہے تو آپ نے فرمایا کہ چا۴۰لیس برس کا۔ حالانکہؔ روایت صحیح سے ثابت ہے کہ بانئ کعبہ ابراہیم علیہ السلام اور بان ئ بیت المقدس حضرت سلیمان ہے اور ان دونوں کے زمانہ میں ہزار برس سے بھی زیادہ فاصلہ ہے۔ اسی وجہ سے ابن جوزی نے بھی اس حدیث پر لکھا کہ فیہ اشکال لان ابراھیم بنی الکعبۃ وسلیمان بنی بیت المقدس وبینھما اکثر من الف سنۃ۔ دیکھو صفحہ ۴۷۷ بخاری ایسا ہی معراج کی حدیثوں میں سخت تعارض واقعہ ہے۔ کتاب الصلوٰۃ صفحہ ۵۰ میں جو حدیث ہے اس میں یہ الفاظ ہیں کہ میں مکہ میں تھا کہ چھت کو کھول کر حضرت جبرئیل میرے پاس آئے اور میرے سینہ کو کھولااورآب زمزم سے اس کو دھویا۔ پھر ایک سونے کا طشت
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 613
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 613
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/613/mode/1up
لایاگیاجس میں حکمت اورایمان بھراہوا تھا سو وہ میرے سینہ میں ڈالاگیاپھر جبرائیل میرا ہاتھ پکڑکر آسمان کی طرف لے گیا۔ مگر اس میں یہ نہیں لکھا کہ وہ طشت طلائی جو عین بیداری میں ملا تھا کیا ہوا اور کس کے حوالہ کیاگیا۔ بہرحال آسمان پر پہنچے اور ابراہیم کوچھٹے آسمان پر دیکھا اور سب سے اوّل آدم کو دیکھا۔ پھر ادریس کو دیکھا۔ پھر موسیٰ کو اور پھر ان سب کے بعد عیسیٰ کودیکھا۔ بعد اس کے ابراہیم کو دیکھا اورسب کے بعد بہشت کا مشاہدہ کیا اور پھر واپس آئے۔ اورکتاب بدء الخلق صفحہ ۴۵۵ بخاری میں یہ حدیث ہے کہ میں بیت اللہ کے پاس خواب اور بیداری کے درمیان تھا کہ تین فرشتے آدمیوں کی صورت پر آئے اور ایک جانور بھی حاضر کیاؔ گیا جس کا قد خچر سے کچھ کم مگر گدھے سے کچھ زیادہ تھا۔ پھر میں آسمان پر گیااوردوسرے آسمان پر یحییٰ اور عیسیٰ کو دیکھا۔ پھر تیسرے میں یوسف کو دیکھا اورچوتھے میں ادریس کو دیکھا اور پانچویں آسمان میں ہارون کی ملاقات ہوئی اورچھٹے آسمان میں موسیٰ کوملا۔ اورجب میں موسیٰ کے مقام سے آگے نکل گیا تو وہ رویا۔ پھر جب میں ساتویں آسمان میں گیا تو ابراہیم کو وہاں دیکھا۔
اور پھر اسی کتاب کے صفحہ ۴۷۱ بخاری میں یہ حدیث ہے کہ معراج کی رات ابراہیم کو میں نے چھٹے آسمان میں دیکھا اور اس حدیث میں براق کا کوئی ذکر نہیں۔ صرف اتنا لکھا ہے کہ جبرائیل نے میرا ہاتھ پکڑا اور آسمان پر لے گیا اور اس حدیث میں یہ بھی لکھاہے کہ پہلے آدم کو دیکھا اورپھر ادریس کو پھر موسیٰ کو پھر عیسیٰ کو پھر ابراہیم کو۔
پھر بخاری کی کتاب المناقب صفحہ ۵۴۸ میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَیں حطیم میں تھایا حجرہ میں لیٹا ہوا تھا کہ ایک آنے والا آیا اور اس نے میرا دل نکالا۔ اسی اثناء میں ایک سونے کا طشت لایاگیاجس میں ایمان بھراہوا تھا۔ اس کے ساتھ میرا دل دھویاگیااورپھر میں براق پرسوارہوکر آسمان پرگیا اوردوسرے آسمان پر یحییٰ اور عیسیٰ کو دیکھا اور تیسرے آسمان پر یوسف کو پایااور چوتھے آسمان پر ادریس کو دیکھا اور پانچویں آسمان پر ہارون کو اورچھٹے پر
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 614
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 614
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/614/mode/1up
موسیٰ کو اور ساتوؔ یں پر ابرہیم کو دیکھا۔
پھر بخاری کی کتاب التوحید والرد علی الجہمیہ میں صفحہ ۱۱۲۰ میں لکھا ہے کہ مسجد کعبہ میں تین شخص پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ہنوز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منصب نبوت پر مامور نہیں ہوئے تھے یعنی وحی نازل ہونے اورمبعوث ہونے سے پہلے کازمانہ تھا اور آنحضرت صلعم مسجد حرا م میں سوئے ہوئے تھے جو معراج ہوا۔ لیکن اسی حدیث میں لکھا ہے کہ آنحضرت مبعوث ہوچکے تھے جب یہ معراج ہوا۔ پھر بغیر براق کے آسمان پر گئے اورادریس کو دوسرے آسمان میں دیکھا اورہارون کوچوتھے میں اور ابراہیم کو چھٹے آسمان میں۔ اور موسیٰ کو ساتویں میں۔ اور جب موسیٰ سے آگے ہوگذرے اور ساتویں آسمان سے عبور کرنے لگے تو موسیٰ نے کہا اے میرے رب مجھے یہ گمان نہیں تھاکہ مجھ سے بھی زیادہ کسی کا رفع ہوگا۔عربی عبارت یہ ہے فقال موسٰی ربّ لم اظن ان یرفع عَلَیَّ اَحد ( یہ وہی رفع ہے جس کی طرف آیت ورافعک الیّ میں اشارہ ہے) پھر اس حدیث کے آخر میں لکھا ہے کہ اس قدر واقعہ دیکھ کر پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی اور جاگ اُٹھے۔ اوران پانچوں حدیثوں میں بالالتزام لکھا ہے کہ معراج کے وقت پہلے پچاس نمازیں مقرر ہوئیں اورپھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس سے تخفیف کرا کر پانچ منظورکرائیں۔
ابؔ دیکھنا چاہئے کہ ان پانچ حدیثوں میں کس قدراختلاف ہے۔ کسی حدیث میں براق کا ذکر ہے اورکسی میںیہ ہے کہ جبرائیل ہاتھ پکڑ کر لے گیا اور کسی میں بیداری اور کسی میں خواب لکھی ہے اور کسی میں لکھاہے کہ میں حجرہ میں لیٹا ہوا تھااورکسی میں لکھاہے کہ میں مسجد کعبہ میں تھا۔اورکسی میں لکھاہے کہ صرف جبرائیل آیا تھا اور کسی میں لکھا ہے کہ تین آدمی آئے تھے۔ اور کسی میں لکھا ہے کہ آدم کے بعد عیسیٰ اور یحییٰ کو دیکھا اور کسی میں لکھا ہے کہ آدم کے بعدادریس کو دیکھا اور کسی میں لکھا ہے کہ عیسیٰ کو دوسرے آسمان میں دیکھا اور موسیٰ کو چھٹے آسمان میں۔ اور کسی میں لکھا ہے کہ پہلے موسیٰ کو دیکھاپھر عیسیٰ کو۔ اورکسی میں یہ لکھاہے کہ ابراہیم کو
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 615
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 615
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/615/mode/1up
ساتویں آسمان میں دیکھا۔ اور کسی میں لکھا ہے کہ موسیٰ کو ساتویں آسمان میں دیکھا اورابراہیم کو چھٹے میں۔ غرض اس قدر اختلاف ہیں کہ جن کے مفصل لکھنے کے لئے بہت سے اوراق چاہئیں۔ اب کیوں کر ممکن ہے کہ اگر ہرایک راوی ان تمام الفاظ کو بہ صحت تمام یاد رکھتاجو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مُنہ سے نکلے تھے تو اس قدر اختلاف اور تعارض اُن کے بیانات میں پایاجاتا۔ بلاشبہ بعض راوی بوجہ کمزوری حافظہ بعض الفاظ کو بھول گئے یا محل بے محل کا فرق یاد نہ رہا۔ اسی وجہ سے یہ صریح اختلافات پیداہوگئے۔ پس جبکہ احادیث کے ضبط الفاظ کایہ نمونہ ہے جو اس کتاب سے ملتاہے جو بعد کتاب اللہ اصح الکتب ہے تو اس صورت میں اگر کوئیؔ حدیث صریح کتاب اللہ کے معارض ہویا ایسی باتوں کو بیان کرے جو اشارات النص کے مخالف ہوں تو کیوں کر ایسی حدیث کے وہ معنی مسلم رکھے جائیں جو قرآن کریم سے صریح تعارض رکھتے ہیں۔ جب کسی تعارض کے وقت حدیث کا بیان بمقابلہ بیان قرآن کریم کے چھوڑنا نفس پر شاق معلوم ہوتو حدیثوں کے باہمی تعارض پر نظر ڈال کرخود انصاف کرلینا چاہیئے کہ علاوہ اس کمال خاص قرآن کے کہ و ہ وحی متلو ہے محفوظیت کی رو سے بھی حدیثوں کوقرآن کریم سے کیا نسبت ہے۔ قرآن کریم کی جیسا کہ اس کی بلاغت وفصاحت وحقاق ومعارف کی رو سے کوئی چیز مثل نہیں ٹھہر سکتی۔ ایسا ہی اس کی صحت کاملہ اورمحفوظیت اورلاریب فیہ ہونے میں کوئی چیز اس کی مثیل نہیں۔ کیونکہ اس کے الفاظ و ترتیب الفاظ اورمحفوظیت تامہ کا اہتمام خدائے تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیاہے۔ اور ماسوا اس کے حدیث ہویا قول کسی صحابی کا ہو ان سب کا اہتمام انسانوں نے کیا ہے جو سہو اور نسیان سے بری نہیں رہ سکتے۔ اور ہرگز وہ لوگ محفوظیت تامہ اورصحت کاملہ میں احادیث اوراقوال کو مثل قرآن نہیں بنا سکتے تھے۔اور یہ عجزاُن کا اس آیت کریمہ کے اعجازات پیش کردہ میں داخل ہے۔ 3333 ۱؂ جب ہر ایک بات
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 616
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 616
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/616/mode/1up
میں مثل قرآن ممتنع ہے تو کیوں کر وہ لوگ احادیث کو صحت اورمحفوظیت میں مثل قرآنؔ بنا سکتے ہیں۔
بعض نے احادیث معراج کا جو صحیح بخاری میں ہیں تعارض دُور کرنے کے لئے یہ جواب دیا ہے کہ حقیقت میں وہ صرف ایک ہی معراج نہیں بلکہ پانچ معراج ہوئے تھے۔ کوئی بیداری میں اور کوئی خواب میں اور کوئی بعد از زمانہ وحی اورکوئی قبل از زمانہ وحی۔ اورکوئی بیت اللہ میں اورکوئی اپنے گھر کے حجرہ میں۔ اسی وجہ سے انبیاء کی رویت میں بھی اختلاف پڑا۔ کبھی کسی کو کسی آسمان میں دیکھااورکبھی کسی آسمان میں۔
لیکن واضح ہو کہ تعارض دور کرنے کیلئے یہ جواب صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اگر پانچ معراج ہی تسلیم کئے جائیں تو پھر بھی وہ اختلاف جو انبیاء کی رویت کی نسبت پایاجاتا ہے کسی طرح دور نہیں ہوسکتا کیونکہ خود انہیں احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کیلئے خاص خاص مقامات آسمانوں میں مقرر ہوگئے ہیں۔ اسی وجہ سے و ہ حدیث معراج جو امام بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب التوحید میں لکھی ہے جو بخاری مطبوعہ کے صفحہ ۱۱۲۰ میں موجود ہے بآواز بلند پکار رہی ہے کہ ہریک نبی آسمانوں پر اپنے اپنے مقام پر قرار یاب ہے جس سے بڑھ نہیں سکتا کیونکہؔ اس حدیث میں یہ فقرہ بھی درج ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ کو ساتویں آسمان میں دیکھا اور جب ساتویں آسمان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آگے جانے لگے تو موسیٰ نے کہا اے میرے رب مجھے یہ گمان نہ تھا کہ مجھ سے بھی زیادہ کسی کا رفع ہوگا۔ اب ظاہر ہے کہ اگرموسیٰ کے اختیار میں تھا کہ کبھی پانچویں آسمان پر آجائے اور کبھی چھٹے پر اور کبھی ساتویں پر تو یہ گریہ و بکا کیسا تھا جیسے پانچویں سے یا چھٹے سے ساتویں پر چلے گئے ایساہی آگے بھی جاسکتے تھے اور قرآن کریم سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی شخص عروج میں اپنے نفسی نقطہ سے آگے گذر نہیں سکتا۔ ماسوا اس کے پانچ معراجوں کے ماننے سے ایک اورمصیبت یہ پیش آتی ہے کہ قرآن کریم اور خدائے تعالیٰ کے احکام میں محض بے جا اور لغو طور پر منسوخیت ماننی پڑتی ہے اور اوامرنا قابل تبدیل اور مستمرہ کو فضول طورپر منسوخ مانناپڑتا ہے اور حکیم مطلق کو ایک لغو اور بے ضرورت تنسیخ کا مرتکب قرار دے کر پھر پشیمانی کے طورپر
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 617
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 617
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/617/mode/1up
پہلے ہی حکم کی طرف عود کرنے والااعتقاد کرنا پڑتاہے۔ کیونکہ اگر قصہ معراج پانچ مرتبہ واقع ہواہے تو پھر اس صورت میں یہ اعتقاد ہونا چاہیئے کہ پانچ ہی دفعہ اول نماز یں پچاس مقرّر کی گئیں اور پھر پانچ منظور کی گئیں۔ مثلًا پہلی دفعہ کے معراج کے وقت میں پچاس نمازؔ یں فرض کی گئیں اور ان پچا۵۰س میں تخفیف کرانے کے لئے جیسا کہ بخاری کی یہ پنج حدیثیں ہی ظاہر کررہی ہیں کئی مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ اور اپنے رب میں آمدو رفت کی یہاں تک کہ پچا۵۰س نماز سے تخفیف کرا کر پانچ نمازیں منظورکرائیں اورخدائے تعالیٰ نے کہہ دیا کہ اب ہمیشہ کے لئے غیر مبدّل یہ حکم ہے کہ نمازیں پانچ مقرر ہوئیں اور قرآن بھی پانچ کے لئے نازل ہوگیا۔ اور حسب آیاتِ محکمہ قرآن کریم کے پانچ نمازوں پر عملدرآمد شروع ہوگیا۔ اور سب قصہ لوگوں کو بھی سُنا دیا گیا کہ اب ہمیشہ کے لئے پانچ نمازیں مقرر ہوگئیں۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد جو دوسرا معراج ہوا توتمام پہلا ساختہ پرداختہ اس میں کالعدم کیاگیااور وہی پُرانا جھگڑا از سرِ نو پیش آگیاکہ خدائے تعالیٰ نے پھر نمازیں پچاس مقرر کر دیں اور قرآن میں جو حکم وارد ہوچکا تھا اس کا بھی کچھ لحاظ نہ رکھا اور منسوخ کردیا۔ مگر پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی دفعہ کی طرح تخفیف کرانے کی غرض سے کئی دفعہ اپنے رب میں اور موسیٰ میں آمدورفت کرکے نمازیں پانچ مقرر کرائیں اور جناب الٰہی سے ہمیشہ کے لئے یہ منظور ی ہو گئی کہ نمازیں پانچ پڑھا کریں۔ اور قرآن میں یہ حکم غیر مبدل قرار پاگیا۔ لیکن پھر تیسری دفعہ کے معراج میں وہی مصیبت پیش آگئی اور نمازیں پچاس مقرر کی گئیں اور قرآن کریم کی غیرؔ متبدل آیتیں منسوخ کی گئیں۔ پھر بمشکل تمام بدستور مذکورہ بالا پچاس سے پانچ کرائیں۔ مگر چوتھی دفعہ کے معراج میں پھر پچاس مقرر کی گئیں۔پھر جیسا کہ بار بار لکھا گیا ہے نہایت التجا اور کئی دفعہ کی آمدورفت سے پانچ مقرر کرائیں اور خدائے تعالیٰ نے پختہ عہدکر لیا کہ اب پانچ رہیں گی۔ لیکن پھر پانچویں دفعہ کے معراج میں پھر پچاس مقرر کی گئیں۔ پھر بہت سی آمد ورفت کے بعد پانچ نمازیں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 618
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 618
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/618/mode/1up
منظور کرائیں۔ مگر منسوخ شدہ آیتوں کے بعد پھر کوئی نئی آیت نازل نہ ہوئی۔اب کیا یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے احکام اس قدرکچے اور بے ثبات اور تعارض سے بھرے ہوئے ہیں کہ اول پچاس نمازیں مقرر ہوکر پھر پختہ طور پر ہمیشہ کے لئے پانچ نمازیں مقررکی جائیں۔ پھرتخلف وعدہ کر کے پانچ کی پچاس بنائی جائیں۔ پھرکچھ رحم فرما کر ہمیشہ کے لئے پانچ کر دی جائیں۔ پھر بار بار وعدہ توڑ دیاجائے اور باربارقرآن کریم کی آیتیں منسوخ کی جائیں اور حسب منشاء آیت کریمہ 33 ۱؂ اورکوئی آیت ناسخہ نازل نہ ہو۔ درحقیقت ایسا خیال کرنا وحی الٰہی کے ساتھ ایک بازی ہے جن لوگوں نے ایساخیال کیا تھا ان کا یہ مدعاتھا کہ کسی طرح تعارض دورہو۔ لیکن ایسی تاویلوں سے ہرگز تعارض دُور نہیں ہو سکتا بلکہ اَور بھی اعتراضات کا ذخیرہ بڑھتاہے۔ اورؔ کتاب التوحید کی حدیث جو بخاری کے صفحہ ۱۱۲۰ میں ہے جس میں قبل ان یوحٰی الیہ لکھا ہے یہ خود اپنے اندر تعارض رکھتی ہے۔ کیونکہ ایک طرف تو یہ لکھدیا کہ بعثت کے پہلے یہ معراج ہوا تھا اور پھر اُسی حدیث میں یہ بھی لکھا ہے کہ نمازیں پانچ مقرر کر کے پھر آخر کار ہمیشہ کیلئے پانچ مقرّر ہوئیں۔ اب ظاہر ہے کہ جس حالت میں یہ معراج نبوت سے پہلے تھا تو اس کو نمازوں کی فرضیت سے کیا تعلق تھا اور قبل از وحی جبرائیل کیوں کر نازل ہوگیا اور جو احکام رسالت سے متعلق تھے وہ قبل از رسالت کیوں کر صادر کئے گئے۔ غرض ان احادیث میں بہت سے تعارض ہیں۔ اگرچہ یہ نہیں کہاجاتا کہ یہ حدیثیں موضوع ہیں بلکہ قدر مشترک ان کا بشرطیکہ قرآن سے معارض نہ ہو قابل تسلیم اور واجب العمل ہے۔ ہاں یہ بھی ضروری ہے کہ نصوص بیّنہ قطعیہ قرآن کریم کو اُن پر مقدّم رکھا جائے۔ اور اگر ایک محدّث جس کو خدا تعالیٰ سے بذریعہ متواترتعلیمات ایک علم قطعی یقینی ملا ہے۔ قرآن سے اپنی وحی تحدیث کو موافق ومطابق پاکر ان احادیث کو جو اخبار وقصص سے متعلق ہیں اور تعامل کے سلسلہ سے باہرہیں مقدّم سمجھے اور ان ظنی امور کو اس یقین کے تابع کرے جو اس کو ایسے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 619
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 619
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/619/mode/1up
چشمۂ فیض سے حاصل ہوا ہے جس سے وحی نبوت ہے تو یہؔ اس کو حق پہنچتاہے کیونکہ ظن کو یقین کے تابع کرنا عین معرفت اور سراسر سیرتِ ایمان ہے۔
اوراگر یہ کہاجائے کہ بعض جگہ قرآن میں بھی تعارض پایاجاتا ہے جیسا کہ قرآن کریم کی سولہ آیتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص فوت ہوجائے پھر دنیا میں کبھی نہیں آسکتا اوردوموتیں کبھی کسی پر وارد نہیں ہو سکتیں۔ لیکن بعض جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کی فلاں قوم کو ہم نے مارا اور پھر زندہ کیا۔ اور ایک نبی عزیز یاکسی اَور کو سو برس تک مارا اورپھر زندہ کیا۔ اور ابراہیم کی معرفت چار جانور زندہ کئے گئے وغیرہ وغیرہ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم میں ہرگز تعارض نہیں پایاجاتا۔ بلکہ یہ شبہ صرف قلّت فہم اور جہالت سے پیداہوتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ قرآن کریم کی سولہ آیتوں سے کھلے کھلے طورپر یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جو شخص فوت ہو*جائے
وہ آیاؔ ت جن میں لکھا ہے کہ فوت شدہ لوگ پھر دنیا میں نہیں آتے ازانجملہ یہ آیت ہے 33 ۱؂ الجزو نمبر ۱۷ سورۃ الانبیاء ۔حضرت ابن عباسؓ سے حدیث صحیح میں ہے کہ اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ جن لوگوں پر واقعی طور پر موت وارد ہو جاتی ہے اور درحقیقت فوت ہو جاتے ہیں پھر وہ زندہ کر کے دنیا میں بھیجے نہیں جاتے۔ یہی روایت تفسیر معالم میں بھی زیر تفسیر آیت موصوفہ بالا حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے۔پھر دوسری آیت جو صریح منطوق قرآن کریم ظاہر کر رہا ہے یہ ہے 33333 3۲؂۔ الجزو نمبر ۱۸ سورۃ المؤمنون ۔ یعنی جب کافروں میں سے ایک کو موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ اے میرے رب مجھ کو پھر دنیا میں بھیج تاہو کہ میں نیک عمل کروں اور تدارک مافات مجھ سے ہو سکے۔ تو اس کو کہا جاتا ہے کہ یہ ہرگز نہیں ہو گا۔ یہ صرف اس کا قول ہے۔ یعنی خداتعالےٰ کی طرف سے ابتداء سے کوئی بھی وعدہ نہیں کہ مردہ کو پھر دنیا میں بھیجے اور
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 620
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 620
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/620/mode/1up
پھر ہرگز دنیا میں نہیں آتااورایسا ہی حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے لیکن یہ ہرگز سچ نہیں ہے کہ ان تمام مقامات میں جہاں مردہ زندہ ہونا لکھا ہے واقعی اور حقیقی موت کے بعد زندہ ہونا لکھاگیا ہے بلکہ لغت کی رو سے موت کے معنے نیند اور ہر قسم کی بے ہوشی بھی ہے۔ پس کیوں آیات کو خواہ نخواہ کسی تعارض میں ڈالاجائے اوراگرفرض کے طور پر چارجانور مرنے کے بعد زندؔ ہ ہوگئے ہوں تو و ہ اعادہ روح میں داخل نہیں ہوگا کیونکہ بجُز انسان کے اور کسی حیوان اور کیڑے مکوڑے کی روح کو بقاء نہیں ہے۔ اگر زندہ ہوجائے تو وہ ایک نئی مخلوق ہوگی۔ چنانچہ بعض رسائل عجائب المخلوقات میں لکھا ہے کہ اگر بہت سے بچّھو کوٹ کر ایک ترکیب خاص سے کسی برتن میں بند کئے جائیں تو اِس خمیرسے جس قدر جانور پیدا ہوں گے وہ سب بچّھو ہی ہوں گے۔ تو اب کیا کوئی دانا
پھر آگے فرمایا کہ جو لوگ مر چکے ہیں ان میں اور دنیا میں ایک پردہ ہے جس کی وجہ سے وہ قیامت تک دنیا کی طرف رجوع نہیں کر سکتے۔ پھر تیسری آیت جو اسی امر کو بوضاحت بیان کر رہی ہے یہ ہے 33 ۱؂۔یعنی جس پر موت وارد ہو گئی خداتعالےٰ دنیا میں آنے سے اسے روک دیتا ہے۔ پھر چوتھی آیت اسی مضمون کی یہ ہے 33333۲؂۔یعنی دوزخی لوگ درخواست کریں گے جو ایک دفعہ ہم دنیا میں جائیں۔ تا ہم اپنے باطل معبودوں سے ایسے ہی بیزار ہو جائیں جیسے وہ ہم سے بیزار ہیں لیکن وہ دوزخ سے نہیں نکلیں گے۔ پھر پانچویں آیت اس مضمون کی یہ ہے 3۳؂ ۔پھر چھٹی آیت یہ ہے 3 ۴؂ پھر ساتویں آیت یہ ہے 33 ۵؂۔ پھر آٹھویں آیت یہ ہے 3 3۶؂۔ پھر نویں آیت
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 621
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 621
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/621/mode/1up
خیال کر سکتاہے کہ وہی بچھو دوبارہ زندہ ہو کر آگئے جو مر گئے تھے بلکہ مذہب صحیح جو قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے یہی ہے کہ مخلوقات ارضی میں سے بجُز جنّ اور انس کے اور کسی چیز کو ابدی روح نہیں دیاگیا۔ پھر اگر خلق اللہ کے طور پر کسی مادہ سے خدا تعالیٰ کوئی پرندہ پیداکر دے تو کیا بعید ہے مگر ایسی روح کااعادہ جو حقیقی موت کے طور پر قالب سے نکل گیا تھا وعدہ الٰہیہ کے برخلاف ہے تمام مقامات قرآن کریم میں جو احیاء موتی کے متعلق ہیں جن میں یہ مذکور ہے کہ فلاں قوم یا شخص کو مارنے کے بعد زندہ کیاگیا ان میں صرف اماتت کا لفظ ہے توفّیکا لفظ نہیں۔ اس میں یہی بھیدہے کہ توفی کے حقیقی معنے وفات دینے اوررو ح قبض کرنے کے ہیں۔ لیکن اماتتکے حقیقی معنے صرف مارنا اورموت دینا نہیں بلکہ سُلانااوربیہوش کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ ہاں یہ بھی بالکل ممکن اور جائز ہے کہ خداتعالےٰ
پھر دسویں آیت یہ ہے
33 ۲؂ ۔ایسا ہی وہ تمام آیتیں جن کے بعد خالدون یا خالدین آتا ہے اسی امر کو ظاہر کر رہی ہیں کہ کوئی انسان راحت یا رنج عالم معاد کے چکھ کر پھر دنیا میں ہرگز نہیں آتا۔ اگرچہ ہم نے ابتداء میں ایسی آیتیں سولہ قرآن کریم میں سے نکالی تھیں مگر دراصل ایسی آیتوں سے قرآن کریم بھرا پڑا ہے۔ نہ صرف قرآن کریم بلکہ بہت سی حدیثیں بھی یہی شہادت دے رہی ہیں۔ چنانچہ ہم بطور نمونہ مشکوٰۃ شریف سے حدیث جابر بن عبداللہ کی اس جگہ نقل کرتے ہیں اور وہ یہ ہے۔ و عن جابر قال لقینی رسول اللہ صلعم فقال یا جابر مالی اراک منکسرًا قلت استشھد ابی و ترک عیالًا و دَینا قال افلا ابشرک لما لقی اللہ بہٖ اباک قلت بلٰی یا رسول اللّٰہ قال ما کلم اللّٰہ احدًا قطّ الا من وراء حجاب و احیی اباک فکلمہ کفاحًا قال یا عبدی تمن علیّ اعطک قال تحیینی فاقتل فیک ثانیۃ قال الرب تبارک و تعالٰی
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 622
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 622
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/622/mode/1up
کسی حیوان یا انسان یا پرندہ کو ایسی حالت میں بھی کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے کیاجائے حقیقی موت سے بچاوے اور اس کی روح کا اس کے پاش پاش شدہ جسم سے وہی تعلق قائم رکھے جو نیند کی حالت میں ہوتا ہے اورپھر اس کے جسم کو درست کردیوے اور اس کو نیند کی حالت سے جگا دیوے۔ کیونکہ وہ ہریک بات پر قادر ہے۔ اپنی صفات قدیمہ اور اپنے عہد اوروعدہ کے برخلاف کوئی بات نہیں کرتا اور سب کچھ کرتا ہے۔ فتدبر فی ھٰذا المقام و لا تکن من الغافلین۔ منہ
انہ قد سبق منّی انھم لا یرجعون رواہ الترمذی یعنی جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم مجھ کو ملے اور فرمایا کہ اے جابر کیا سبب ہے کہ میں تجھ کو غمناک دیکھتا ہوں۔میں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلعم میرؔ ا باپ شہید ہو گیا اور میرے سر پر عیال اور قرض کا بوجھ چھوڑ گیا۔ آپ نے فرمایا کہ کیا میں تجھے اس بات کی خوشخبری دوں جس طور سے اللہ جلّشانہ‘ تیرے باپ کو ملا۔ میں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ جلشانہ‘ کسی کے ساتھ بغیر حجاب کے کلام نہیں کرتا مگر تیرے باپ کو اُس نے زندہ کیا اور بالمواجہ کلام کی اور کوئی درمیان حجاب نہ تھا۔ اور پھر اس نے تیرے باپ کو کہا کہ اے میرے بندے کچھ مجھ سے مانگ کہ مَیں تجھے دوں گا۔ تب تیرے باپ نے عرض کی کہ اے میرے رب مجھ کو زندہ کر کے پھر دنیا میں بھیج تا تیری راہ میں دوبارہ شہید کیا جاؤں۔ تب اللہ تبارک و تعالےٰ نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہو گا کیونکہ میں (قرآن کریم میں) عہد کر چکا ہوں کہ جو لوگ فوت ہو جائیں پھر و ہ دنیا میں بھیجے نہیں جائیں گے (33 ۱؂ قرآن کریم کی آیت ہے)یہ وہ حدیث ہے جو ترمذی میں لکھی ہے اور اسی کے ہم مضمون ایک صحیح بخاری میں حدیث ہے مگر خوف طول سے چھوڑ دی گئی۔ اب ان تمام آیات اور احادیث سے ظاہر ہے کہ جس پر حقیقی موت وارد ہو جائے وہ ہرگز دوبارہ دنیا میں بھیجا نہیں جاتا۔ اگرچہ خدائے تعالےٰ ہر یک چیز پر قادر ہے مگر ایسا ہونا خدائے تعالےٰ کے وعدہ کے برخلاف ہے۔اسی جگہ سے ثابت ہوتاہے کہ وہ تمام مقامات قرآن کریم جن میں مُردوں کے زندہ کرنے کا ذکر ہے ان سے حقیقی موت مراد نہیں ہے۔ یہ بات بالکل ممکن اور صحیح ہے کہ ایک حالت انسان پر بالکل موت کی طرح وارد ہو جائے مگر وہ حقیقی موت نہ ہو اور اگر ذرہ غور کر کے دیکھیں تو صاف ظاہر ہو گا کہ مسیح ابن مریم کی نسبت یہ عذر
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 623
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 623
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/623/mode/1up
عالیؔ ہمّت دوستوں کی خدمت میں گذارش
چونکہ طبع کتاب ازالہ اوہام میں معمول سے زیادہ مصارف ہوگئے ہیں اور مالک مطبع اورکاتب کا حساب بے باق کرنے کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے لہٰذا بخدمت جمیع مخلص دوستوں کے التماس ہے کہ حتی الوسع اس کتاب کی خریداری سے بہت جلد مدد دیں۔ جو صاحب چند نسخے خرید سکتے ہیں وہ بجائے ایک کے اس قدر نسخے خریدلیں جس قدرانکو خریدنے کی خداد اد مقدرت حاصل ہے اور اس جگہ اخویم مکرم مولوی حکیم نور الدین صاحب معالج ریاست جموں کی نئی امداد جو انہوں نے کئی نوٹ اس وقت بھیجے قابل اظہار ہے خدا تعالیٰ ان کو جزائے خیر بخشے ایساہی اخویم مکرم حکیم فضل دین صاحب بھیروی نے علاوہ اس تین سو روپے کے جو پہلے بھیجاؔ تھا اب ایک سو۱۰۰ روپیہ اَور بھیج دیا نہایت خوشی کی بات ہے کہ حکیم فضل دین صاحب اپنے مخدوم مولوی حکیم نورالدین صاحب کے رنگ میں ایسے رنگین ہوگئے ہیں کہ نہایت اولو العزمی سے ایثار کے طور پر اُن سے اعلیٰ درجہ کے اعمال صالحہ صادرہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ سو3 روپیہ بعض زیورات کے فروخت سے محض ابتغاءً لمرضات اللّٰہ بھیجاہے۔ جزاہم اللہ خیرا لجزاء۔
پیش کرنا کہ اگر وہ فوت ہو گیا ہے تب بھی خدائے تعالےٰ قادر ہے کہ اس کو زندہ کر کے بھیج دیوے یہ عذر نہ فقط اس وجہ سے باطل ہے کہ فوت شدہ لوگ دنیا میں دوبارہ آیا نہیں کرتے بلکہ اس وجہ سے بھی باطل ہے کہ جس طور سے مسیح ابن مریم کا دنیا میں دوبارہ آنا دلوں میں بسا ہوا ہے ایسے عذر کو اس طور سے کچھ بھی تعلق نہیں ۔ وجہ یہ کہ مسیح کے دوبارہ آنےؔ کی نسبت تو یہ خیال دلوں میں جما ہوا ہے کہ وہ آسمان سے بجسدہ العنصری اترے گا۔ لیکن وہ فوت شدہ ہونے کی حالت میں آسمان سے تو کسی طرح بجسدہ العنصری اُتر نہیں سکتا بلکہ قبر سے نکلنا چاہیئے۔کیونکہ فوت شدہ لوگوں کی لاشیں قبروں میں رکھی جاتی ہیں نہ کہ آسمانوں پر اٹھائی جاتی ہیں۔ اور ہم
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 624
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 624
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/624/mode/1up
اس جگہ اخویم مولوی مردان علی صاحب صدر محاسب دفتر سرکار نظام حیدر آباد دکن بھی ذکرکے لائق ہیں۔مولوی صاحب موصوف نے درخواست کی ہے کہ میرانام سلسلہ بیعت کنندوں میں داخل کیاجاوے۔ چنانچہ داخل کیاگیا۔اُن کی تحریرات سے نہایت محبت واخلاص پایاجاتاہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے سچے دل سے پانچ برس اپنی عمر میں سے آپ کے نام لگا دئے ہیں۔ خدا تعالیٰ میری عمر میں سے کا ٹ کر آپ کی عمر میں شامل کردے سو خدا تعالیٰ اس ایثارکی جزا ان کو یہ بخشے کہ اُن کی عمر دراز کرے۔ انہوں نے اوراخویم مولوی ظہور علی صاحب اور مولوی غضنفر علی صاحب نے نہایت اخلاص سے دس دس روپیہ ماہواری چندہ دینا قبول کیا ہے اور بہتّر۷۲ روپیہ امداد کے لئے بھیجے ہیں۔ جزاہم اللّٰہ خیر الجزا۔ والصلٰوۃ والسلام علیٰ نبیّنا ومولانا محمد واٰلہ واصحابہ وجمیع عباد اللّٰہ الصالحین۔
راقم
خاکسار غلام احمد از لودہیانہ محلہ اقبال گنج
یہ ثابت کر چکے ہیں کہ توفی کا لفظ عمومًا محاورہ کی رُو سے یہی معنے رکھتا ہے کہ روح کا قبض کرنا لیکن جسم کا قبض کرنا قرآن کریم کے کسی لفظ سے ثابت نہیں ہوتا۔ پس جب کہ توفی کا لفظ صرف روح کی قبض کرنے میں محدود ہوا تو مسیح ابن مریم کا جسم آسمان کی طرف اُٹھایا جانا قرآن کریم کے کسی لفظ سے ثابت نہ ہو سکا۔ ظاہر ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالےٰ قبض کرتا ہے اٹھاتابھی اُسی کو ہے اور یہ وعدہ بھی قرآن کریم میں ہو چکا ہے کہ لاشیں قبروں میں سے بروز حشراٹھیں گی۔ اس صورت میں اگر فرض محال کے طور پر مسیح ابن مریم قبر میں سے اٹھے تو پھر نزول غلط ٹھہرے گا۔
بعض کہتے ہیں کیا یہ ممکن نہیں کہ مسیح سونے کی حالت میں اٹھایا گیا ہو اور پھر آخری زمانہ میں آسمان پر جاگ اٹھے اور زمین پر نازل ہو مگر یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ جسم کا اٹھایا جانا قرآن کریم سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔ توفی صرف روح کے قبض کرنے کو کہتے ہیں خواہ بحالت نوم قبض ہو یا بحالت موت پس جو چیز قبض کی جائے وہی اٹھائی جائے گی۔ اور یہ ہم ثابت کر آئے ہیں کہ مسیح کی توفِّیْ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 625
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 625
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/625/mode/1up
یعنی مسیح کی روح کا قبض کرنا بطور موت کے تھا نہ بطور خواب کے۔ اور صحیح بخاری میں جو بعد کتاب اللہ اصح الکتب ہے تفسیر کے محل میں انّی متوفّیک کے معنے انّی ممیتک لکھے ہیں۔ پس جبکہ قرآن شریف اور احادیث صحیحہ سے صرف حضرت مسیح کی روح کا اٹھایا جانا ثابت ہوتا ہے تو حال کے اکثر علماء کی حالت پر رونا آتا ہے کہ وہ کیوں اللہ اور رسول کے فرمودہ سے تجاوز کر کے اپنی طرف سے بلا دلیل مسیح کے جسم کا آسمان کی طرف اٹھایا جانا تجویز کرتے ہیں۔ کیا قرآن اور حدیث کا بالاتفاق مسیح ابن مریم کی موت پر گواہی دینا تسلی بخش نہیں ہے۔ افسوس کہ یہ لوگ ذرہ خیال نہیں کرتے کہ وہ حدیثیں جو نزول مسیح کے بارہ میں آئی ہیں اگر اُن کے یہی معنے کئے جائیں کہ مسیح ابن مریم زندہ ہے اور درحقیقت وہی آسمان سے اتر آئے گا۔ تو اس صورت میں ان حدیثوں کا قرآن کریم اور ان دوسری حدیثوں سے تعارض واقع ہو گا جن کی رو سے مسیح ابن مریم کا فوت ہو جانا یقینی طور پر ثابت ہو چکا ہے۔ آخر کتاب اللہ کی مخالفت کی وجہ سے وہ حدیثیں ردّ کے لائق ٹھہریں گی۔ پھر کیوں نزول کے ایسے معنے نہیں کرتے جو کتاب اللہ کے مخالف و مغائر نہ ہوں اور نہ دوسری صحیح حدیثوں سے مغائرت رکھیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے آیت فلمّا توفّیتنی میں صاف صاف اپنا اظہار دے دیا ہے کہ میں ہمیشہ کے لئے دنیا سے اٹھایا گیا۔کیونکہ ان کا یہ کہنا کہ جب مجھے وفات دی گئی تو پھر اے میرے رب میرے بعد تُو میری اُمت کا نگہبان تھا۔ صاف شہادت دے رہا ہے کہ وہ دنیا سے ہمیشہ کے لئے وفات پا گئے۔ کیونکہ اگر ان کا دنیا میں پھر آنا مقدر ہوتا تو وہ ضرور اِن دونوں واقعات کا ذکر کرتے اور نزول کے بعد کی تبلیغ کا بھی بیان فرماتے نہ یہ کہ صرف اپنی وفات کا ذکر کر کے پھر بعد اپنے خداتعالےٰ کو قیامت تک نگہبان ٹھہراتے۔ فتدبر۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 626
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 626
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/626/mode/1up
اشتہاؔ ر
نور الابصار صداقت آثار عیسائی صاحبوں کی ہدایت کے لئے
یاایھا المتنصرون ماکان عیسٰی الّا عبد من عباد اللّٰہ قد مات ودخل فی الموتٰی فلا تحسبوہ حیًّا بل ھو میّت ولا تعبدوا میّتًا وانتم تعلمون۔ اے حضرات عیسائی صاحبان ؛ آپ لوگ اگر غور سے اس کتاب ازالہ اوہام کو پڑھیں گے تو آپ پر نہایت واضح دلائل کے ساتھ کھل جائے گا کہ درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب زندہ موجود نہیں ہیں بلکہ وہ فوت ہو چکے اور اپنے فوت شدہ بزرگوں میں جاملے۔ ہاں وہ روحانی زندگی جو ابراہیم کوملی، اسحاق کو ملی۔ یعقوب کو ملی۔ اسمٰعیل کو ملی اور بلحاظ رفع سب سے بڑھ کر ہمارے سیّد ومولیٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کوملی۔ وہی زندگی بلا تفاوت حضرت عیسیٰ کو بھی ملی۔ اس بات پربائبل سے کوئی دلیل نہیں ملتیؔ کہ مسیح ابن مریم کوکوئی انوکھی زندگی ملی۔بلکہ اس زندگی کے لوازم میں تمام انبیاء شریک مساوی ہیں۔
ہاں باعتبار رفع کے اقرب الی اللہ مقام ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ سو اے حضرات عیسائی صاحبان ! آپ لوگ اب ناحق کی ضد نہ کریں۔ مسیح ایک عاجز بندہ تھا جو فوت ہوگیا اور فوت شدہ لوگوں میں جاملا۔آپ لوگوں کے لئے یہی بہتر ہے کہ خدا تعالیٰ سے ڈریں اور ایک عاجز مخلوق کو خدا کہہ کر اپنی عاقبت خراب نہ کریں آپ لوگ ذرہ سوچیں کہ مسیح اس دوسرے عالم میں اَوروں سے کس بات میں زیادہ ہے۔ کیا انجیل اس بات کی گواہی نہیں دیتی کہ ابراہیم زندہ ہے؟ بلکہ لعاذربھی؟ پھر مسیح لعاذر سے اپنی زندگی میں کس بات میں زیادہ ہے۔ اگر آپ لوگ تحقیق سے نوشتوں کو دیکھیں تو آپکو اقرارکرناپڑیگا کہ کسی بات میں زیادہ نہیں۔ اگر آپ لوگ اس بار ہ میں میرے ساتھ بحث کرنا چاہیں تو مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں اس بحث میں مغلوب ہونے کی حالت میں حتی الوسع اپنے ہر یک تاوان کو جو آپ لوگ تجویز کریں دینے کو طیارہوں بلکہ اپنی جان بھی اس راہ میں فداکرنے کو حاضر ہوں۔ خداوند کریم نے میرے پر کھول دیا ہے کہ درحقیقت عیسٰی ابن مریم فوت ہوگیااور اب فوتؔ شدہ نبیوں کی جماعت میں داخل ہے۔ سو آؤ دین اسلام اختیار کرو۔ وہ دین اختیار کرو جس میں حیّ لا یموت کی پرستش ہورہی ہے نہ کسی مردہ کی۔ جس پر کامل طورپر چلنے سے ہر یک محب صادق خود مسیح ابن مریم بن سکتا ہے۔ والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ۔ المشتہر غلام احمد قادیانی ۳ ؍ستمبر ۱۸۹۱ ؁ء
الحمد و المنۃکہ رسالہ ازالہ اوہام از تصنیفات مجدددوراں مرسل یزداں مسیح الزمان جناب حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان سلمہ المنان در مطبع ریاض ہند امرتسر باہتمام شیخ نور احمد صاحب زیور طبع پوشید بقلم ذلیل ترین کافۂ انام
غلام محمد امرتسری
غفر اللّٰہ ذنوبہ و ستر عیوبہ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 627
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 627
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/627/mode/1up
حبّیؔ فی اللہ اخویم مولوی حکیم نور الدّین صاحب کاخط ایک سائل کے جواب میں
عزیزمن حفظک اللّٰہ وسلّم۔ ثم السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہٗ۔ مرزاجی کے دعاوی پر آپ نے مجھے ایک بہت بڑ ا لمبا خط لکھا ہے۔ بجواب اس کے گذارش ہے کہ فلا تستعجلون (جلد باز نہ بنو) ایک الٰہی ارشاد ہے جو حضرت خاتم الانبیاء اصفی الاصفیاء سیّد نا مولانا احمد مجتبیٰ محمد مصطفےٰ (فداہٗ امی وابی) صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفوں کے نام جاری ہوا تھا۔ ہم اسی ارشاد کو ظلّی طور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل اور نائب اور اس کے دین کے خادم حضرت مجدد الوقت مرزا جی کے مخالفوں کوسُناتے ہیں۔ مخالفت والو ! صبر سے انتظار کروجلدباز نہ بنو۔
مرزا جی نے اپنے بعض احباب کو اس خاکسار کے سامنے فرمایا ہے کہ اگر لوگ تم سے بمباحثہ پیش آویں تو یہ الٰہی حکم اُن کو سُنا دو۔33 33 ۱؂۔
عزیز من سنو اور اس پر غور کرو۔ دنیا میں ایک جماعت گذری او ر اب بھی ہے جنہوں نے اَنَااللّٰہ کہا۔ اورکہتے ہیں۔ ایسے قائلین کی تکفیر وتفسیق سے بھی محتاط کف لسان پسند کرتے ہیں اوراس جماعت کو صلحاء واولیاء کی جماعت کہتے ہیں۔ پس عزیز من ! انا المسیح انا عیسٰی ابن مریم کہنے والے پر یہ شور وغل کیوں؟ انصاف! انصاف! ! انصاف!!!
میرے پیارے ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے الدر الثمین میں فرمایا ہے بلغنی عن سیدی العم انہ قال رایت النّبی صلی اللہ علیہ وسلم فی النوم فلم یزل یدنینی منہ حتی صرت نفسہ۔ ایساہی ابن حزم ظاہری کی نسبت شیخ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ نے ارقام فرمایا ہے یہ نظارہ انا محمد کہنے کا ہے۔ آہ پھر انا المسیح وانا ابن مریم الموعود پر یہ طیش وغضب کیوں!!!
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 628
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 628
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/628/mode/1up
عزیز من ! ایمانی امور میں کسی قدر اخفا کاہونا ایک ضروری اور لازمی امر ہے۔ اگرؔ کوئی معاملہ بالکل عیاں ہوجاوے تو پھر اخفا کہاں۔ عیاں وخفا میں مقابلہ ہے۔ اِسی واسطے شرعیہ احکام وامور میں جسمانی شمس وقمر کا ماننا ایمانی امور میں داخل نہیں۔ اور اسی واسطے قیامت کے روز شرعیہ تکالیف علی العموم اُٹھ جائیں گی۔ پس تم پیشگوئیوں میں ایمان سے کام لو۔ ان کے فہم میں عرفان کے مدعی نہ بنو۔ ہمارے سیّد ومولیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کا وہ ایک واقعہ قابل غور ہے جو قرآن کریم کے پندرہ سیپارہ کے آخر اور سولہ سیپارہ کے ابتداء میں مندرج ہے۔ اس واقعہ کے بیان میں ایک طرف سیدنا موسیٰ علیہ السلام ہیں جن کا اولو العزم صاحب شریعت رسول ہونا یہود عیسائیوں اور محمدیوں میں مسلّم ہے۔ اس مقدس نبی نے جیسے امام المحدثین امام بخاری رحمۃ اللہ وغیرہ نے ارقام فرمایا ہے کہیں انا اعلم کہہ دیا تب الٰہیہ غیرت نے اپنے پیارے بندے سیدنا خضر علیہ السلام کاانہیں پتہ دیا۔ جب جناب موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام اس عارف سے ملے تو اس کے سچے علوم واسرار کی تہ تک نہ پہنچے۔ جناب خضر علیہ السلام نے انہیں فرمادیا تھا 3 اورفرما دیا تھا 33 ۱؂۔ پس منجملہ آداب الٰہیہ کے یہ ادب ضروری تھا کہ ایسے بندوں کے معاملات میں کم سے کم خاموشی اختیارکی جاتی۔ اس وقت تک کہ لوگ مرزا جی کے معاملہ میں صریح کفر کو دیکھ لیتے۔ سیدنا موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بے صبری کو خبردار حجت نہ پکڑنا !اور ہرگز حجت نہ پکڑنا۔ کیونکہ سیّد ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ لیت موسٰی سکت حتی یقص اللّٰہ علینا۔
میری اس بات پر کسی بدظنّی سے کام نہ لینا۔ میں محمدی ہوں اور محمدیوں کو بحمد اللہ کچھ ایسے انعامات عطا ہوئے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی سرور میں آکر اللہ کی پاک جناب میں انت عبدی وانا ربک کہہ دے تو انشاء اللہ تعالیٰ جہنمی نہ ہو اگر چہ سچ یہی ہے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 629
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 629
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/629/mode/1up
کہ الٰہی انت ربی وانا عبدک ۔
مجھے اس وقت ایک قصہ یاد آگیا جس کو قلا ئد الجواھر میں محمد بن یحییٰ تادفی نے ارقام فرمایا ہے اس پر غور کرو۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں جاء نی ابو العباس الخضر علیہ السلام۔ یمتحننی بما امتحنؔ بہ الاولیاء من قبلی فکشف لی عن سریرتہ ففتح علٰی بما خاطبتہ بہ ثم قلت لہ و ھو مطرق ان یا خضر۔ ان کنت قلت لموسٰی انک لن تستطیع معی صبرًا۔ فانک لن تستطیع معی صبرًا یا خضر! ان کنت اسرائیلیا فانک اسرائیلی و انا محمدی۔ فھا انا و انت و ھذہ الکرۃ و ھذا المیدان ھذا محمد و ھذا الرحمٰن ۔ و ھذا فرسی مسرج ملجم وقوسی موتر و سیفی شاھر رضی اللّٰہ عنہ۔ سبحان اللہ کیا خوب ڈوئل ہے سنو! حضرت مسیح علیہ الصلٰوۃو السلام کی دوبارہ تشریف آوری کاذکر قرآن مجید میں تو بالکل نہیں اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کا بجسدہ العنصری زندہ رہ کر آسمان کی طرف عروج کرنا قرآن شریف سے ثابت نہیں۔ پھر اگر یہ پوچھو کہ یہ مسئلہ کہاں ہے شاید جواب یہ ہو کہ احادیث میں۔ مگر وہاں تو نہیں۔ پھر کیا اناجیل میں۔ مگر وہاں نہیں۔ پھرکہاں۔تو جوا ب یہی ہوگا۔ کہ عیسائیوں کے بھولے بھالے خیالات میں۔ کیونکہ متی اور یوحنا تو ساکت ہیں اور لوک اور مرک تابعی نہ صحابی بے دیکھے اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔ پھر کیا اسلامیوں کی اسرائیلی مرویات وحکایات وغیرہؔ میں جن کی تائید قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے نہیں ہو سکتی؟ کیونکہ قرآن کریم تو اسرائیلی مسیح عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی وفات کو مختلف جگہوں میں ذکر فرماچکاہے اور احادیث صحیحہ میں نزول مسیح عیسیٰ ابن مریم میں اسرائیلی نبی کا ذکر نہیں۔اگرہو بھی تو تثلیث ۱؂میں مسیح عیسیٰ ابن مریم نبی اللہ اسرائیلی کا جو شخص مثیل ہوگااِس پر مجازًا مسیح ابن مریم اسرائیلی کہنابھی جائز ہوگا۔ ہاں ینزل ابن مریم فیکم و امامکم منکم بخاری کی حدیث ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ او راس کی حقیقت
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 630
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 630
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/630/mode/1up
مرزا جی نے اپنے رسائل میں بیان فرمائی ہے۔ اس ترجمہ اور حقیقت پر اگر کسی کو طالب علمانہ بحث ہو تو اُسے یاد رہے کہ واؤ کا حرف تفسیرکے واسطے بھی ہواکرتاہے۔ دیکھوکلمات طیبات قرآنی جو ذیل میں درج ہیں۔ 33 ۱؂ ۔سورۃ حجر ۔33سورہ رعد ۲؂
عزیز من! بیرونی تحریکات کے سوا اندرونی تحریکوں کا ہونا ایک نادر امر ہے یہ معاملہ جس پر یہ ضعیف اور خاکسار خط لکھ رہا ہے اب پبلک میں آگیاہے شخصی خطوط میں اس کا تذکرہ اب چنداں ضرور ی نہیں۔ جناب مولوی محمدؔ حسین صاحب بٹالوی نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ اب مرزا جی کے معاملہ میں مجھ سے خط وکتابت نہ فرماویں گے مگر جب خلاف وعدہ مولوی جی نے خاکسار کو لکھا تو خاکسار نے اُن کو یہی جواب دیا کہ اب یہ معاملہ شخصی اور پرائیویٹ خطوط کے قابل نہیں رہا۔ سو تم بھی عام فیصلہ کا انتظار کرو۔ تم کو معلوم ہے کہ اس وقت تین آدمیوں کو پنجاب میں مرزا جی کی مخالفت پر بڑ اجوش ہے۔ اِدھرقرآن مجید راستبازوں کی فتحمندی پر تاکید سے خبر دے رہا ہے۔ 33۳؂ پس صبر ومتانت وسلامت روی سے چند روز کام لو۔
عزیز من ! یاد رکھو مجھ ہیچ میرز کو آگاہ کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا قصہ بدوں کسی قسم کی تاویل اور کسی قسم کے استعارہ ومجاز کے کسی قوم نے تسلیم نہیں فرمایا۔ یہ میری بات سرسری نہ سمجھو۔ نمونہ کے طور پر دیکھ لو۔ ہمارے اکثر مفسّرین حضرت مسیح کے قصہ میں 33 ۴؂ میں کیا کچھ اُلٹ پھیر نہیں کرتے۔ میاں عبد الحق صاحب غزنوی اپنے دوسرے اشتہار میں پہلے ہی صفحہ کے آخری سطر میں لکھتے ہیں۔ اللّٰہ اکبر ’’خربت خیبر‘‘ اب غور کا مقام ہے کہ میاں عبد الحق کا خیبر حقیقی خیبرتوؔ ہرگز نہیں ہوسکتا اب قادیان کو دمشق ماننے میں وہ کیوں گھبراتے اوراس پر شوروغل مچاتے ہیں !!!
مولوی عبد الرحمٰن لکھو کے والے عزیز القدر عبد الواحد حفظہ اللہ کو ارقا م فرماتے ہیں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 631
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 631
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/631/mode/1up
کہ’’ در تفسیر قرآن عظیم خلاف راہ صحابہ رضی اللہ عنہم اختیار نمودن الحاد وضلالت است ورضامندی رب العالمین در اتباع ایشان است‘‘ اور اسی خط میں ’’وقولہٗ تعالیٰ۔ 33 (ای الملۃ المحمدیۃ)33 ۱؂ میں الملّۃ الآخرۃ کی تفسیر خلاف صحابہ وتابعین وجمیع مفسرین الملّۃ المحمدیۃ سے فرماتے ہیں! احادیث میں مسیح علیہ السلام کا حلیہ کہیں احمر رجل الشعر اور کہیں اسمر سبط الشعر آیاہے۔ اس کی تطبیق میں تاویل کی جاتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس اور امور میں بھی الٰہی کلام میں تمثیلات و استعارات و کنایات کا ہونا اسلامیوں میں مسلّم ہے مگر ہر جگہ تاویلات و تمثیلات سے استعارات وکنایات سے اگر کام لیاجاوے تو ہر یک مُلحد منافق بدعتی اپنی آراء ناقصہ اور خیالات باطلہ کے موافق الٰہی کلمات طیّبات کو لاسکتا ہے اس لئے ظاہر معانی کے علاوہؔ اَور معانی لینے کے واسطے اسباب قویہ اور موجبات حقہ کاہونا ضرور ہے۔
الٰہی کلمات طیبات میں استعارات بکثرت ہوتے ہیں مگر اس امر کے باعث کیا ہم ہر جگہ استعارہ ومجاز لینے پر دلیر ہوسکتے ہیں ہرگز نہیں۔ کیا عبادات میں معاملات میں تمدّن ومعاشرت کے مسائل میں اخلاق وسیاست کے احکام میں بھی ہم استعارات سے کام لیں گے؟ ہرگز نہیں !ان باتو ں کو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے عملی طور پر کر کے ہمیں دکھا دیا۔ اُمّت کے تعامل ورواج نے وہ تصویر ہم تک پہنچا دی۔ جزاہم اللّٰہ احسن الجزاء۔
مگر جو کچھ پیشین گوئیوں میں مذکور ہے اور جو کچھ انبیاء علیہم السلام کے مکاشفات اور رویا صالحہ میں نظر آتا ہے کچھ شک نہیں کہ وہ عالم مثال میں ہو اکرتا ہے۔ ایسا ہی اُن کے بعض اخبار ماضیہ اور حقائق کونیہ او رعالم مثال کے اشکال والوان عالم جسمانی کے الوان واشکال سے بالکل نرالے ہواکرتے ہیں۔ پس ایسے موقعہ پر علوم ضروریہ یقینیہ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 632
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 632
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/632/mode/1up
الہامات صادؔ قہ مشاہدات وحقائق نفس الامریہ قواعد شرعیہ ان نصوص کو لامحالہ ظاہر سے اور معنے کی طرف لے جائیں گے۔ چنانچہ سیدنا یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سورج اور چاند اور سیّاروں کو اپنے لئے سجدہ کرتے دیکھا۔ مگر جسمانی عالم میں وہ سورج وچاند وسیارے اُن کے ماں باپ اور بھائی تھے۔ قرآن کریم میں ایک بادشاہ کا قصہ لکھا ہے جس نے فربہ گائیں اور سبز بالیاں دیکھیں۔ جسمانی عالم میں وہ قحط اور ارزانی تھی۔
ہمارے سیّد ومولیٰ نے رویاء صالحہ میں دیکھا کہ آپ کے کف دست مبار ک میں سونے کے کنگن ہیں اور آپ نے اُن کو پھونک سے اُڑادیا۔ وہ جسمانی عالم میں مسیلمہ اور اسود عنسی اور ان کی تباہی تھی۔ حضور علیہ السلام نے اپنی بیبیوں سے فرمایا اسرعُکن لحوقًا بی اطولکن یدًا۔ لگی بیبیاں ہاتھوں کو ناپنے۔ مگر واقعات نفس الامریہ نے بتا دیا اور مشاہدات نے دکھا دیا کہ صحابیات کا فہم پیشین گوئی کے سمجھنے میں اس پہلو پر غلط تھا جس پر انہوں نے سمجھاتھا۔ پس دجّال اور مسیح علیہ السلام کی پیشین گوئی میں کیوں ایمانی حد سے بڑھ کر لوگ عرفان کے مدعی ہوگئے ہیں اور عارف کے خلاف پر اُٹھؔ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں بڑا تعجب آتا ہے جب یہ کہتے سنتے ہیں کہ مرزا اجماع کے خلاف کرتا ہے۔
حالانکہ وہی لوگ جن کو مرزا جی سے بہت بڑا نقار ہے امام احمد بن حنبل کے اس قول کو ہمیشہ سناتے رہے کہ اجماع کا دعویٰ کذب ہے۔ اور عقل ودنیا کا نظارہ اورعلماء کی حالت بھی کہ وہ شرق وغرب وجبال وبحار میں پھیلے ہوئے ہیں گواہی دیتی ہے کہ اجماع کا دعویٰ ایک خیال سے بڑھ کر وقعت نہیں رکھتا۔
عزیز من! جیسے مرزا جی نے اپنے آپ کو ابن مریم کہا ہے ایک جگہ مریم بھی فرمایاہے اور اپنے بیٹے مثیل مسیح کا نام عموانوئیل بتایا ہے۔ خود خاکسار نے جب مرزا جی کے حضور میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا ایک پیغام پہنچا یا تو آپ نے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 633
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 633
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/633/mode/1up
فرمایا میں نے تو مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیاہے۔ ممکن ہے کہ مثیل مسیح بہت آویں اورکوئی ظاہری طور پر بھی مصداق ان پیشین گوئیوں اور نشانات کا ہو جن کو میں نے روحانی طور پر الہامًا اپنے پر چسپاں کیا ہے۔
الٰہی فیضان کی کوئی حد نہیں اور نہ وہاں کوئی کمی ہے تب میں نے عرضؔ کیا کہ ایسی صورت میں احادیث کے باعث لوگ کیوں اشکال میں پھنسے ہوئے ہیں؟ تعجب ہے۔ مگر عزیز من ! 33 ۱؂ پر دھیان کرو۔
سنو اور غور سے سنو! پیشین گویوں کے پورا ہونے کے واسطے اوقات مقدرہ ہوا کرتے ہیں۔ جیسے میں نے تین سوالوں کے جواب میں مفصل لکھاہے اور وہ جواب انجمن حمایت اسلام لاہور نے طبع کرایاہے۔ مثلًا حضور علیہ السلام کو مکّہ کے کفار کہتے ہیں33 ۲؂ آپ کے منکرین نے یہ طلب کیوں کی تھی صرف اسی بناء پر کہ حضور سیدنا ومولانا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشن گوئی کے سمجھنے میں بالکل ظاہری الفاظ کے معنوں پر موٹی نظر کی تھی۔ وہ پیشین گوئی یسعیاہ نبی کے ۴۳ باب ۱۹ کی ہے۔ یسعیاہ نبی نے حضرت خاتم الانبیاء کے زمانہ کی نسبت فرمایا تھا کہ صحرا میں ندیاں بناؤں گا۔ ظاہر ہے کہ سیّد ومولےٰ کے وقت زبیدہ والی ندی مکہ میں اور نہر بنی زرقا مدینہ میں جاری نہیں ہوئی تھی۔ جس پر بعض نے ناعاقبت اندیشی سے ٹھوکر کھائی۔
عزیز من! ترہیب اور ترغیب میں دلوں کے بڑھانے۔ ہمت وتوجہ کیؔ ترقی دینے کو ایسے الہامات بھی ہوتے ہیں جن کا بیان آیت ذیل میں ہے3۳؂ (حالانکہ بدر کی جنگ میں مکہ کے کفار مسلمانوں سے بہت زیادہ تھے ) مگرا یسا الہام کیوں ہوا۔ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ فرماتا ہے 3 3۴؂۔ سوچو اور غور کرو!
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 634
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 634
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/634/mode/1up
عزیز من ! مولوی محمدحسین صاحب پر اللہ تعالیٰ رحم فرماوے ان کو اپنے علم وفضل پر بڑا گھمنڈ ہے اور اللہ کریم کو گھمنڈ پسند نہیں۔ الہامی جماعت کی مخالفت بھی تمہیں ٹھوکرکا باعث نہ ہو۔ ازالہ اوھام میں اس کا عجیب وغریب جواب موجود ہے اور نصحًامیں کہتا ہوں 333 ۱؂ اور تمنّی پر آیت 33 ۲؂۔آپ فکر کرتے رہیں۔
بھائی صاحب ! مرزا جی اس صدی کے مُجَدّد ہیں اور مجدد اپنے زمانہ کا مھدی اور اپنے زمانہ کے شدّت مرض میں مبتلا مریضوں کا مسیح ہواکرتاہے اور یہ امر بالکل تمثیلی ہے جیسے مرزا جی اپنی الہامی رباعی میں ارقام فرما چکے ہیں۔
رُباعی
کیاؔ شک ہے ماننے میں تمہیں اس مسیح کے
جس کی مماثلت کو خدا نے بتادیا
حاذق طبیب پاتے ہیں تم سے یہی خطاب
خوبوں کو بھی تو تم نے مسیحا بنا دیا
میں اب اس خط کو ختم کرناچاہتا ہوں۔ مولوی محمد حسین صاحب کی اشاعت پر اللہ تعالیٰ جو فیضان کرے گا اس کا اظہار پھر ہو رہے گا۔ یار باقی صحبت باقی۔
آخر میں یہ شعر تمہیں سُناکر اور ایک تحریک کرکے بس کرتا ہوں۔
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی
ہمارے مخالف الرائے مولوی صاحبوں کا حوصلہ
خدائے تعالیٰ نے پورے طورپر جلوہ قدرت دکھلانے کے لئے ایک ایسے نامی مولوی صاحب سے ہمیں ٹکرا دیا جنکی لیاقت علمی جنکی طاقت فہمی جنکی طلاقت لسانی جنکی فصاحت بیانی شہرۂ پنجاب وہندوستان ہے اور خدائے حکیم وعلیم کی مصلحت نے اس ناکارہ کے مقابل پر ایساانہیں جوش بخشا اور اس درجہ کی بدظنی میں انہیں ڈال دیا کہ کوئی دقیقہ بدگمانی اور مخالفانہ حملہ کا انہوں نے اُٹھا نہیں رکھا۔ تا اس کا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 635
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 635
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/635/mode/1up
وہ امر خارق عادت ظاہر ہو جو اس نے ارادہ کیا ہے۔ مولوی صاحب نوراللہ کے بجھانے کے لئے بہت زور سے پھونکیں مار رہے ہیں۔ دیکھئے اب سچ مچ وہ نور بجھ جاتا ہے یا کچھ اور کرشمہ قدرت ظہور میں آتا ہے۔۹ ؍اپریل ۱۸۹۱ ؁ء کے خط میں جو انہوں نے میرےؔ ایک دوست مولوی سیّد محمد احسن صاحب کے نام بھوپال میں بھیجا تھا عجیب طور کے فقرات تحقیر کے استعمال کئے ہیں۔ آپ سیّد صاحب موصوف کو لکھتے ہیں کہ آپ اس شخص پر جلدی سے کیوں ایمان لے آئے اس کو ایک دفعہ دیکھ تو لیا ہوتا۔ مولوی صاحب نے اس فقرہ اور نیز ایک عربی کے فقرہ سے یہ ظاہر کرنا چاہا ہے کہ یہ شخص محض نالائق اور علمی اور عملی لیاقتوں سے بکلّی بے بہرہ ہے اورکچھ بھی چیز نہیں۔ اگر تم دیکھو تو اس سے نفرت کرو۔ مگر بخدا یہ سچ اور بالکل سچ ہے اور قسم ہے مجھے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ درحقیقت مجھ میں کوئی علمی اورعملی خوبی یا ذہانت اوردانشمندی کی لیاقت نہیں اور میں کچھ بھی نہیں۔ ایک غیب میں ہاتھ ہے جو مجھے تھام رہا ہے اور ایک پوشیدہ روشنی ہے جو مجھے منور کر رہی ہے اور ایک آسمانی روح ہے جو مجھے طاقت دے رہی ہے۔ پس جس نے نفرت کرنا ہے کرے۔ تامولوی صاحب خوش ہوجائیں بخدا میری نظر ایک ہی پرہے جو میرے ساتھ ہے۔ اور غیر اللہ ایک مرے ہوئے کیڑے کے بر ابر بھی میر ی نظر میں نہیں۔ کیا میرے لئے وہ کافی نہیں جس نے مجھے بھیجا ہے۔ میں یقینًا جانتا ہوں کہ وہ اِس تبلیغ کو ضائع نہیں کرے گا جس کو لے کر میں آیا ہوں۔ مولوی صاحب جہاں تک ممکن ہے لوگوں کو نفرت دلانے کے لئے زور لگالیں اور کوئی دقیقہ کوشش کا اُٹھا نہ رکھیں اور جیسا کہ وہ اپنے خطوط میں اور اپنے رسالہ میں اور اپنی تقریروں میں باربار ظاہر کر چکے ہیں کہ یہ شخص نادان ہے جاہل ہے گمراہ ہے مفتری ہے دوکاندا رہے بے دین ہے کافر ہے ایساہی کرتے رہیں اورمجھے ذرہ مہلت نہ دیں مجھے بھی اس ذات کی عجیب قدرتوں کے دیکھنے کاشوق ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ لیکن اگر کچھ تعجب ہے تو اس بات پر ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ عاجز مولوی صاحب کی نظر میں جاہل ہے بلکہ خط مذکورہ بالا میں یقینی طورپر مولوی صاحب نے لکھدیا ہے کہ یہ شخص ملہم نہیںیعنی مفتری ہے اور یہ دعویٰ جو اس عاجز نے کیا ہے مولوی صاحب کیؔ نظر میں بدیہی البطلان ہے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 636
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 636
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/636/mode/1up
جس کا قرآن وحدیث میں کوئی اثر ونشان نہیں پایاجاتا۔ پھر مولوی صاحب پرڈر اس قدر غالب ہے کہ آپ ہی بحث کے لئے بلاتے اور آپ ہی کنارہ کرجاتے ہیں۔ ناظرین کو معلوم ہوگا کہ مولوی صاحب نے ایک بڑے کرّوفر سے ۱۶؍اپریل ۱۸۹۱ ؁ء کو تار بھیج کر اس عاجز کو بحث کے لئے بلایا کہ جلد آؤ اورآکر بحث کرو ورنہ شکست یافتہ سمجھے جاؤ گے۔ اُس وقت بڑی خوشی ہوئی کہ مولوی صاحب نے اس طرف رُخ تو کیا۔ اور شوق ہوا کہ اب دیکھیں کہ مولوی صاحب حضرت مسیح ابن مریم کے زندہ مع الجسد اُٹھائے جانے کا کونسا ثبوت پیش کرتے ہیں یا بعد موت کے پھر زندہ ہوجانے کا کوئی ثبوت قرآن کریم یا حدیث صحیح سے نکالتے ہیں چنانچہ لدھیانہ میں ایک عام چرچا ہوگیا کہ مولوی صاحب نے بحث کے لئے بلایا ہے اور سیالکوٹ میں بھی مولوی صاحب نے اپنے ہاتھ سے خط بھیجے کہ ہم نے تارکے ذریعہ سے بلایا ہے۔ لیکن جب اس عاجز کی طرف سے بحث کے لئے تیاری ہوئی اورمولوی صاحب کو پیغام بھیجا گیا تو آپ نے بحث کرنے سے کنارہ کیا اوریہ عذرپیش کر دیا کہ جب تک ازالہ اوہام چھپ نہ جائے ہم بحث نہیں کریں گے۔ آپ کو اُس وقت یہ خیال نہ آیا کہ ہم نے تو بلانے کے لئے تار بھیجی تھی۔ اور یہ بھی ایک خط میں لکھا تھا کہ ہمیں ازالہ اوہام کے دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ اور یہ بھی بار بار ظاہر کردیا تھا کہ یہ شخص باطل پر ہے۔ اب ازالہ اوہام کی ضرورت کیوں پڑگئی۔ تار کے ذریعہ سے یہ پیغام پہنچاناکہ آؤ ورنہ شکست یافتہ سمجھے جاؤ گے اور حبّی فی اللہ اخویم حکیم نور دین صاحب پرناحق یہ الزام لگانا کہ وہ ہمارے مقابلہ سے بھاگ گئے اور پھر درخواست بحث پر ازالہ اوہام یاد آجانا عجیب انصاف ہے۔ مولوی صاحب دعوی اس عاجز کا سُن چکے تھے۔ فتح اسلام اور توضیح مرام کو دیکھ چکے تھے اب صرف قرآن اور حدیث کے ذریعہ سے بحث تھی جس کو مولوی صاحب نے وعدہ کر کے پھر ٹال دیا۔
تمّت
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 637
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 637
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/637/mode/1up
اطلاؔ ع
بعض دوستوں کے خط پہنچے کہ جیسے مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی بعد مباحثہ شہر لودیانہ سے حکماً نکالے گئے ہیں یہی حکم اس عاجز کی نسبت ہوا ہے سو واضح رہے کہ یہ افواہ سراسر غلط ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اپنی وحشیانہ طرز بحث کی شامت سے لودہانہ سے شہر بدر کئے گئے لیکن اس عاجز کی نسبت کوئی حکم اخراج صادر نہیں ہؤا چنانچہ ذیل میں نقل مراسلہ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر لودھیانہ لکھی جاتی ہے۔
از پیشگاہ مسٹر ڈبلیو چؤسصاحب بہادر ڈپٹی کمشنر لودہیانہ۔
میرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان سلامت چٹھی آپ کی مورخہ دیروزہ موصول ملاحظہ و سماعت ہوکر بجوابش تحریر ہے کہ آپ کو بمتابعت و ملحوظیت قانون سرکاری لودہیانہ میں ٹھہرنے کے لیے وہی حقوق حاصل ہیں جیسے کہ دیگر رعایا تابع قانون سرکار انگریزی کو حاصل ہیں ۔ المرقوم ۶؍ اگست ۱۸۹۱ ؁ ء
دستخط
صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 638
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 638
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/638/mode/1up
 
Top