• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 21 ۔ براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 21. Page: 1

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 1

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 2

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 2

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


دیباچہ پنجم حصہ براہین احمدیہ

بحمد اللہ کہ آخر اِیں کتابم مکمل شد بفضلِ آن جنابم


اما بعد واضح ہوکہ یہ براہین احمدیہ کا پانچواں حصہ ہے کہ جو اس دیباچہ کے بعد لکھا جائے گا۔ خدا تعالیٰ کی حکمت اورمصلحت سے ایسا اتفاق ہوا کہ چار حصیّ اس کتاب کے چھپ کر پھر تخمیناً تیئس۲۳ برس تک اس کتاب کا چھپنا ملتوی رہا۔ اور عجیب تریہ کہ اسی۰۸ کے قریب اِس مدت میں مَیں نے کتابیں تالیف کیں جن میں سے بعض بڑے بڑے حجم کی تھیں لیکن اِس کتاب کی تکمیل کے لئے توجہ پیدا نہ ہوئی اور کئی مرتبہ دل میں یہ درد پیدا بھی ہوا کہ براہین احمدیہ کے ملتوی رہنے پر ایک زمانہ دراز گذر گیا مگر باوجود کوشش بلیغ اور باوجود اس کے کہ خریداروں کی طرف سے بھی کتاب کے مطالبہ کے لئے سخت الحاح ہوا اور اس مدت مدید اور اس قدر زمانہ التوا میں مخالفوں کی طرف سے بھی وہ اعتراض مجھ پر ہوئے کہ جو بدظنی اور بدزبانی کے گند سے حد سے زیادہ آلودہ تھے اور بوجہ امتدادمدت درحقیقت وہ دلوں میں پیدا ہوسکتے تھے مگر پھر بھی قضاء و قدر کے مصالح نے مجھے یہ توفیق نہ دی کہ میں اس کتاب کو پورا کرسکتا ۔ اس سے ظاہر ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 3

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 3

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


کہ قضاء وقدر درحقیقت ایک ایسی چیز ہے جس کے احاطہ سے باہر نکل جانا انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔مجھےؔ اس بات پر افسوس ہے بلکہ اس بات کے تصور سے دل دردمند ہو جاتا ہے کہ بہت سے لوگ جو اس کتاب کے خریدار تھے اس کتاب کی تکمیل سے پہلے ہی دنیا سے گذر گئے مگر جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں انسان تقدیر الٰہی کے ماتحت ہے اگر خدا کا ارادہ انسان کے ارادہ کے مطابق نہ ہو تو انسان ہزار جدوجہد کرے اپنے ارادہ کو پورا نہیں کرسکتا۔ لیکن جب خدا کے ارادہ کا وقت آجاتا ہے تو وہی امور جو بہت مشکل نظر آتے تھے نہایت آسانی سے میسر آجاتے ہیں۔

اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ کے تمام کاموں میں حکمت اورمصلحت ہوتی ہے تواس عظیم الشان دینی خدمت کی کتاب میں جس میں اسلام کے تمام مخالفوں کا رد مقصود تھا کیا حکمت تھی کہ وہ کتاب تخمیناًتیئس۲۳برس تک مکمل ہونے سے معرض التوا میں رہی۔ اس کا جواب خدا ہی بہتر جانتا ہے کوئی انسان اس کے تمام بھیدوں پر محیط نہیں ہوسکتامگر جہاں تک میرا خیال ہے وہ یہ ہے کہ براہین احمدیہ کے ہر چہار حصے کو جو شائع ہوچکے تھے وہ ایسے امور پرمشتمل تھے کہ جب تک وہ امور ظہور میں نہ آجاتے تب تک براہین احمدیہ کے ہر چہار حصّہ کے دلائل مخفی اور مستور رہتے اور ضرور تھا کہ براہین احمدیہ کا لکھنا اس وقت تک ملتوی رہے جب تک کہ امتدادِ زمانہ سے وہ سربستہ امور کھل جائیں اور جو دلائل اُن حصوں میں درج ہیں وہ ظاہر ہوجائیں کیونکہ براہین احمدیہ کے ہر چہار حصوں میں جو خدا کاکلام یعنی اس کا الہام جابجا مستور ہے جو اس عاجز پر ہوا وہ اس بات کا محتاج تھا جو اس کی تشریح کی جائے اور نیز اس بات کا محتاج تھا کہ جو پیشگوئیاں اس میں درج ہیں اُن کی سچائی لوگوں پر ظاہر ہو جائے ۔ پس اس لئے خدائے حکیم و علیم نے اس وقت تک براہین احمدیہ کا چھپنا ملتوی رکھا کہ جب تک وہ تمام پیشگوئیاں ظہور میں آگئیں اور یاد رہے کہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 4

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 4

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


کسی مذہب کی سچائی ثابت کرنے کے لئے یعنی اس بات کے ثبوت کے لئے کہ وہ مذہب منجانب اللہ ہے دو قسم کی فتح کا اس میں پایا جانا ضروری ہے۔

اوّل۔ یہ کہ وہ مذہب اپنے عقائد اور اپنی تعلیم اور اپنے احکام کی رُو سے ایسا جامع اور اکمل اورؔ اتم اور نقص سے دُور ہو کہ اس سے بڑھ کر عقل تجویز نہ کرسکے۔ اورکوئی نقص اور کمی اُس میں دکھلائی نہ دے۔ اور اس کمال میں وہ ہر ایک مذہب کو فتح کرنے والا ہو یعنی ان خوبیوں میں کوئی مذہب اُس کے برابر نہ ہو۔ جیسا کہ یہ دعویٰ قرآن شریف نے آپ کیا ہے کہ 3333 ۱؂یعنی آج میں نے تمہارے لئے اپنا دین کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تم پر پوراکیا۔ اورمیں نے پسند کیاکہ اسلام تمہارامذہب ہو۔ یعنی وہ حقیقت جو اسلام کے لفظ میں پائی جاتی ہے جس کی تشریح خود خدا تعالیٰ نے اسلام کے لفظ کے بارہ میں بیان کی ہے اس حقیقت پر تم قائم ہو جاؤ۔ اس آیت میں صریح یہ بیان ہے کہ قرآن شریف نے ہی کامل تعلیم عطاکی ہے اورقرآن شریف کاہی ایسا زمانہ تھا جس میں کامل تعلیم عطا کی جاتی۔ پس یہ دعویٰ کامل تعلیم کا جو قرآن شریف نے کیا یہ اُسی کاحق تھا اس کے سواکسی آسمانی کتاب نے ایسا دعویٰ نہیں کیا جیسا کہ دیکھنے والوں پر ظاہر ہے کہ توریت اور انجیل دونوں اس دعوے سے دست بردار ہیں کیونکہ توریت میں خدا تعالیٰ کا یہ قول موجود ہے کہ میں تمہارے بھائیوں میں سے ایک نبی قائم کروں گا اور اپناکلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو شخص اس کے کلام کو نہ سنے گا میں اس سے مطالبہ کروں گا۔ پس صاف ظاہر ہے کہ اگر آئندہ زمانہ کی ضرورتوں کی رُو سے توریت کا سننا کافی ہوتا توکچھ ضرورت نہ تھی کہ کوئی اورنبی آتا۔ اور مواخذہ الٰہیہ سے مخلصی پانا اُس کلام کے سننے پرموقوف ہوتاجو اُس پر نازل ہوتا۔ ایسا ہی انجیل نے کسی مقام میں دعویٰ نہیں کیا کہ انجیل کی تعلیم کامل اور جامع ہے بلکہ صاف اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 5

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 5

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


کھلا کھلا اقرار کیا ہے کہ اور بہت سی باتیں قابل بیان تھیں مگر تم برداشت نہیں کرسکتے لیکن جب فارقلیط آئے گا تو وہ سب کچھ بیان کرے گا۔ اب دیکھنا چاہئے کہ حضرت موسیٰ نے اپنی توریت کو ناقص تسلیم کرکے آنے والے نبی کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی ایسا ہی حضرت عیسیٰ نے بھی اپنی تعلیم کا نامکمل ہونا قبول کرکے یہ عذر پیش کردیا کہ ابھی کامل تعلیم بیان کرنے کا وقت نہیں ہے لیکن جب فارقلیط آئے گا تو وہ کامل تعلیم بیان کردے گا مگرؔ قرآن شریف نے توریت اور انجیل کی طرح کسی دوسرے کاحوالہ نہیں دیا بلکہ اپنی کامل تعلیم کا تمام دنیا میں اعلان کردیا اور فرمایا کہ3 3333 ۱؂۔ اس سے ظاہر ہے کہ کامل تعلیم کادعویٰ کرنے والا صرف قرآن شریف ہی ہے اور ہم اپنے موقعہ پر بیان کریں گے کہ جیسا کہ قرآن شریف نے دعویٰ کیا ہے ویسا ہی اُس نے اس دعویٰ کو پورا کرکے دکھلا بھی دیا ہے اور اُس نے ایک ایسی کامل تعلیم پیش کی ہے جس کو نہ توریت پیش کرسکی اورنہ انجیل بیان کرسکی۔ پس اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لئے یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ وہ تعلیم کی رُو سے ہر ایک مذہب کو فتح کرنے والا ہے۔ اور کامل تعلیم کے لحاظ سے کوئی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

دو۲م۔ پھر دوسری قسم فتح کی جو اسلام میں پائی جاتی ہے جس میں کوئی مذہب اس کا شریک نہیں اورجو اس کی سچائی پر کامل طور پر مُہر لگاتی ہے اُس کی زندہ برکات اور معجزات ہیں جن سے دوسرے مذاہب بکلی محروم ہیں۔ یہ ایسے کامل نشان ہیں کہ اُن کے ذریعہ سے نہ صرف اسلام دوسرے مذاہب پر فتح پاتا ہے بلکہ اپنی کامل روشنی دکھلاکر دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتاہے۔ یاد رہے کہ پہلی دلیل اسلام کی سچائی کی جو ابھی ہم لکھ چکے ہیں یعنی کامل تعلیم وہ درحقیقت اس بات کے سمجھنے کیلئے کہ مذہب اسلام منجانب اللہ ہے ایک کھلی کھلی دلیل نہیں ہے کیونکہ ایک متعصب منکر جس کی نظر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 6

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 6

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


باریک بین نہیں ہے کہہ سکتا ہے کہ ممکن ہے کہ ایک کامل تعلیم بھی ہو اور پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہو۔ پس اگرچہ یہ دلیل ایک دانا طالب حق کو بہت سے شکوک سے مخلصی دے کر یقین کے نزدیک کردیتی ہے لیکن تاہم جب تک دوسری دلیل مذکورہ بالا اس کے ساتھ منضم اور پیوستہ نہ ہو کمال یقین کے مینار تک نہیں پہنچا سکتی اور ان دونوں دلیلوں کے اجتماع سے سچے مذہب کی روشنی کمال تک پہنچ جاتی ہے اور اگرچہ سچا مذہب ہزارہا آثار اور انوار اپنے اندر رکھتا ہے لیکن یہ دونوں دلیلیں بغیر حاجت کسی اور دلیل کے طالب حق کے دل کو یقین کے پانی سے سیراب کردیتی ہیںؔ اور مکذّبوں پر پورے طور پر اتمام حجت کرتی ہیں۔ اس لئے ان دو قسم کی دلیلوں کے موجود ہونے کے بعد کسی اور دلیل کی حاجت نہیں رہتی۔ اورمیں نے پہلے ارادہ کیا تھا کہ اثباتِ حقّیّتِ اسلام کے لئے تین سو دلیل براہین احمدیہ میں لکھوں لیکن جب میں نے غور سے دیکھا تومعلوم ہوا کہ یہ دو قسم کے دلائل ہزارہا نشانوں کے قائم مقام ہیں۔ پس خدا نے میرے دل کو اس ارادہ سے پھیر دیا اور مذکورہ بالا دلائل کے لکھنے کے لئے مجھے شرح صدر عنایت کیا۔ اگرمیں کتاب براہین احمدیہ کے پورا کرنے میں جلدی کرتا تو ممکن نہ تھا کہ اس طریق سے اسلام کی حقّانیت لوگوں پر ظاہر کرسکتا۔ کیونکہ براہین احمدیہ کے پہلے حصوں میں بہت سی پیشگوئیاں ہیں جو اسلام کی سچائی پر قوی دلیل ہیں مگر ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا کہ خدا تعالیٰ کے وہ موعود ہ نشان کھلے کھلے طور پر دنیا پر ظاہر ہوتے۔ ہر ایک دانشمندسمجھ سکتا ہے کہ معجزات اور نشانوں کا لکھنا انسان کے اختیار میں نہیں اور دراصل یہی ایک بڑا ذریعہ سچے مذہب کی شناخت کا ہے کہ اس میں برکات اور معجزات پائے جائیں کیونکہ جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے صرف کامل تعلیم کا ہونا سچے مذہب کے لئے پوری پوری اور کھلی کھلی علامت نہیں ہے جو تسلی کے انتہائی درجہ تک پہنچا سکے۔ سو میں انشاء اللہ تعالیٰ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 7

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 7

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


یہی دونوں قسم کے دلائل اس کتاب میں لکھ کر اس کتاب کو پورا کروں گا۔ اگرچہ براہین احمدیہ کے گذشتہ حصوں میں نشانوں کے ظہور کاوعدہ دیا گیا تھا مگر میرے اختیار میں نہ تھا کہ کوئی نشان اپنی طاقت سے ظاہرکرسکتا اور کئی باتیں پہلے حصوں میں تھیں جن کی تشریح میری طاقت سے باہر تھی لیکن جب تیئس۲۳ برس کے بعد وہ وقت آگیا تو تمام سامان خدا تعالیٰ کی طرف سے میسر آگئے اور موافق اُس وعدہ کے جو براہین احمدیہ کے پہلے حصوں میں درج تھا قرآن شریف کے معارف اور حقائق میرے پر کھولے گئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ 3۱؂ایسا ہی بڑے بڑے نشان ظاہر کئے گئے۔

جولوؔ گ سچے دل سے خدا کے طالب ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ خدا کی معرفت خدا کے ذریعہ سے ہی میسر آسکتی ہے اور خدا کو خدا کے ساتھ ہی شناخت کرسکتے ہیں۔ اورخدا اپنی حجت آپ ہی پوری کرسکتا ہے انسان کے اختیار میں نہیں اور انسان کبھی کسی حیلہ سے گناہ سے بیزار ہوکر اس کاقرب حاصل نہیں کرسکتا جب تک کہ معرفت کاملہ حاصل نہ ہو۔ اور اس جگہ کوئی کفارہ مفید نہیں اورکوئی طریق ایسا نہیں جو گناہ سے پاک کرسکے بجز اُس کامل معرفت کے جو کامل محبت اور کامل خوف کو پیدا کرتی ہے۔ اور کامل محبت اور کامل خوف یہی دونوں چیزیں ہیں جو گناہ سے روکتی ہیں کیونکہ محبت اورخوف کی آگ جب بھڑکتی ہے توگناہ کے خس و خاشاک کو جلاکر بھسم کردیتی ہے۔ اور یہ پاک آگ اورگناہ کی گندی آگ دونوں جمع ہو ہی نہیں سکتیں۔ غرض انسان نہ بدی سے رک سکتا ہے اور نہ محبت میں ترقی کرسکتاہے جب تک کہ کامل معرفت اُس کو نصیب نہ ہو اور کامل معرفت نہیں ملتی جب تک کہ انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے زندہ برکات اورمعجزات نہ دیئے جائیں۔ یہی ایک ایسا ذریعہ سچے مذہب کی شناخت کا ہے کہ جو تمام مخالفوں کامنہ بند کردیتاہے اور ایسا مذہب جو مذکورہ بالا دونوں قسم کے دلائل اپنے اندر رکھتا ہے یعنی ایسا مذہب کہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 8

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 8

http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/8/mode/1up


تعلیم اُس کی ہر ایک پہلو سے کامل ہے جس میں کوئی فروگذاشت نہیں اور نیز یہ کہ خدا نشانوں اور معجزات کے ذریعہ سے اس کی سچائی کی گواہی دیتا ہے۔ اس مذہب کو وہی شخص چھوڑتا ہے جو خدا تعالیٰ کی کچھ بھی پروا نہیں رکھتا اور روزِ آخرت پر چند روزہ زندگی اور قوم کے جھوٹے تعلقات کو مقدم کر لیتا ہے ۔ وہ خدا جو آج بھی ایسا ہی قادر ہے جیسا کہ آج سے دس۱۰ ہزار برس پہلے قادر تھا۔ اُس پر اسی صورت سے ایمان حاصل ہوسکتا ہے کہ اُس کی تازہ برکات اور تازہ معجزات اور قدرت کے تازہ کاموں پر علم حاصل ہو۔ ورنہ یہ کہنا پڑے گا کہ یہ وہ خدا نہیں ہے جو پہلے تھا یا اُس میں وہ طاقتیں اب موجود نہیں ہیں جو پہلے تھیں۔ اس لئے ان لوگوں کا ایمان کچھ بھی چیز نہیں جو خدا کے تازہ برکات اور تازہ معجزات کے دیکھنے سے محروم ہیں اور خیال کرتے ہیںؔ کہ اُس کی طاقتیںآگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہیں۔

بالآخر یہ بھی یاد رہے کہ جو براہین احمدیہ کے بقیہ حصّہ کے چھاپنے میں تیئس۲۳ برس تک التواء رہا یہ التواء بے معنی اور فضول نہ تھا بلکہ اِس میں یہ حکمت تھی کہ تا اُس وقت تک پنجم حصہ دنیا میں شائع نہ ہو جب تک کہ وہ تمام امور ظاہر ہو جائیں جن کی نسبت براہین احمدیہ کے پہلے حصوں میں پیشگوئیاں ہیں کیونکہ براہین احمدیہ کے پہلے حصّے عظیم الشان پیشگوئیوں سے بھرے ہوئے ہیں اور پنجم حصہ کا عظیم الشان مقصد یہی تھا کہ وہ موعودہ پیشگوئیاں ظہور میں آجائیں۔ اور یہ خدا کا ایک خاص نشان ہے کہ اُس نے محض اپنے فضل سے اِس وقت تک مجھے زندہ رکھا یہاں تک کہ وہ نشان ظہور میں آگئے تب وہ وقت آگیا کہ پنجم حصہ لکھا جائے اور اِس حصہ پنجم کے وقت جو نصرت حق ظہور میں آئی ضرور تھا کہ بطور شکر گذاری کے اس کا ذکر کیا جاتا۔ سو اس امر کے اظہار کے لئے میں نے براہین احمدیہ کے پنجم حصہ کے لکھنے کے وقت جس کو درحقیقت اس کتاب کا نیا جنم کہنا چاہئے اس حصہ کا نام نصرت الحق بھی رکھ دیا تا وہ نام ہمیشہ کیلئے اس بات کا نشان ہو



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 9

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 9

http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/9/mode/1up


کہ باوجود صدہا عوائق او ر موانع کے محض خدا تعالیٰ کی نصرت اور مدد نے اِس حصہ کو خلعتِ وجود بخشا۔ چنانچہ اس حصہ کے چند اوائل ورق کے ہر ایک صفحہ کے سر پر نصرت الحق لکھا گیا مگر پھر اس خیال سے کہ تا یاد دلایا جائے کہ یہ وہی براہین احمدیہ ہے جس کے پہلے چار حصے طبع ہوچکے ہیں بعد اس کے ہر ایک سر صفحہ پر براہین احمدیہ کا حصہ پنجم لکھا گیا۔ پہلے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ تھا مگر پچاسسے پانچ پر اکتفا کیا گیااور چونکہ پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے اس لئے پانچ حصوں سے وہ وعدہ پورا ہوگیا۔

دوسرا سبب اس التواء کا جو تیئس۲۳ برس تک حصہ پنجم لکھا نہ گیا یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ اُن لوگوں کے دلی خیالات ظاہر کرے جن کے دل مرض بدگمانی میں مبتلا تھے اور ایسا ہی ظہور میں آیا۔ کیونکہ اس قدر دیر کے بعد خام طبع لوگ بدگمانی میں بڑھ گئے۔ یہاںؔ تک کہ بعض ناپاک فطرت گالیوں پر اُتر آئے اور چار حصے اس کتاب کے جو طبع ہوچکے تھے کچھ تو مختلف قیمتوں پر فروخت کئے گئے تھے اورکچھ مفت تقسیم کئے گئے تھے۔ پس جن لوگوں نے قیمتیں دی تھیں اکثر نے گالیاں بھی دیں اور اپنی قیمت بھی واپس لی۔ اگر وہ اپنی جلد بازی سے ایسا نہ کرتے تواُن کے لئے اچھا ہوتا۔ لیکن اس قدر دیر سے اُن کی فطرتی حالت آزمائی گئی۔

اِس دیر کا ایک یہ بھی سبب تھا کہ تا خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر ظاہر کرے کہ یہ کاروبار اُس کی مرضی کے مطابق ہے اور یہ تمام الہام جو براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں لکھے گئے ہیں یہ اُسی کی طرف سے ہیں نہ انسان کی طرف سے کیونکہ اگریہ کتاب خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق نہ ہوتی اور یہ تمام الہام اُس کی طرف سے نہ ہوتے تو یہ امر خدا ئے عادل اور قدوس کی عادت کے برخلاف تھا کہ جوشخص



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 10

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 10

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/10/mode/1up


اُس کے نزدیک مفتری ہے اور اُس نے یہ گناہ کیا ہے کہ اپنی طرف سے باتیں بناکر اُس کا نام وحی اللہ اور خدا کا الہام رکھا ہے اس کو تیئس۲۳ برس تک مہلت دے تا وہ اپنی کتاب براہین احمدیہ کے باقی ماندہ حصہ کو جہاں تک اراد ۂ الٰہیہ ہو اور نہ صرف اسی قدر بلکہ خدا اُس پر یہ بھی احسان کرے کہ جو باتیں اس تکمیل کے لئے انسانی اختیار سے باہر تھیں ان کو اپنی طرف سے انجام دے دے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے شخص کے ساتھ یہ معاملہ لطف واحسان کا نہیں کرتا جس کو جانتا ہے کہ وہ مفتری ہے ۔ پس اس قدر دیر اور التواء سے یہ نشان بھی ظہور میں آگیا کہ نصرت اور حمایت الٰہی میری نسبت ثابت ہوگئی۔ اس لمبی مدت میں بہت سے کافر اور دجال اور کذاب کہنے والے جو مجھے دائرہ اسلام سے خارج کرتے تھے اور مباہلہ کے رنگ میں جھوٹے پر بد دُعائیں کرتے تھے دنیا سے گذر گئے مگر خدا نے مجھے زندہ رکھا اور میری وہ حمایت کی کہ جھوٹوں کا تو کیا ذکر ہے دنیا میں بہت ہی کم سچے اور راستباز گذرے ہوں گے جن کی ایسی حمایت کی گئی ہو ۔ پس یہ خدا کا کھلا کھلا نشان ہے مگر اُن کے لئے جو آنکھ بند نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ کے نشانوں کو قبول کرنے کیلئے طیار ہیں۔

میرزا غلام احمدؐ قادیانی مسیح موعود



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 11

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 11

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/11/mode/1up



ہے شکر ربِّ عزّوجل خارج از بیاں

جس کی کلام سے ہمیں اُس کا ملا نشاں

وہ روشنی جو پاتے ہیں ہم اس کتاب میں

ہوگی نہیں کبھی وہ ہزار آفتاب میں

اُس سے ہمارا پاک دل و سینہ ہوگیا

وہ اپنے منہ کا آپ ہی آئینہ ہوگیا

اُس نے درختِ دل کو معارف کا پھل دیا

ہر سینہ شک سے دھو دیا ہر دل بدل دیا

اُس سے خدا کا چہرہ نمودار ہوگیا

شیطاں کا مکر و وسوسہ بیکار ہوگیا

وہ رَہ جو ذاتِ عزّوجل کو دکھاتی ہے

وہ رہ جو دل کو پاک و مطہر بناتی ہے

وہ رہ جو یارگم شدہ کو کھینچ لاتی ہے

وہ رہ جو جامِ پاک یقیں کا پلاتی ہے

وہ رہ جو اُس کے ہونے پہ محکم دلیل ہے

وہ رَہ جو اُس کے پانے کی کامل سبیل ہے

اُس نے ہر ایک کو وہی رستہ دکھا دیا

جتنے شکوک و شبہ تھے سب کو مٹا دیا

افسردگی جو سینوں میں تھی دور ہوگئی

ظلمت جو تھی دلوں میں وہ سب نور ہوگئی

جو ؔ دَور تھا خزاں کا وہ بدلا بہار سے

چلنے لگی نسیم عنایاتِ یار سے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 12

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 12

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/12/mode/1up


جاڑے کی رُت ظہور سے اُسکے پلٹ گئی

عشقِ خدا کی آگ ہر اک دل میں اٹ گئی

جتنے درخت زندہ تھے وہ سب ہوئے ہرے

پھل اس قدر پڑا کہ وہ میووں سے لد گئے

موجوں سے اُس کی پردے وساوس کے پھٹ گئے

جو کُفر اور فسق کے ٹیلے تھے کٹ گئے

قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے

بے اُس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے

جو لوگ شک کی سردیوں سے تھرتھراتے ہیں

اس آفتاب سے وہ عجب دھوپ پاتے ہیں

دنیا میں جس قدر ہے مذاہب کا شور و شر

سب قصہ گو ہیں نور نہیں ایک ذرّہ بھر

پر یہ کلام نورِ خدا کو دکھاتا ہے

اسکی طرف نشانوں کے جلوہ سے لاتا ہے

جس دیں کا صرف قصوں پہ سارا مدار ہے

وہ دیں نہیں ہے ایک فسانہ گذار ہے

سچ پوچھیئے تو قصوں کا کیا اعتبار ہے

قصوں میں جھوٹ اور خطا بے شمار ہے

ہے دیں وہی کہ صرف وہ اک قصہ گو نہیں

زندہ نشانوں سے ہے دکھاتا رہِ یقیں

ہے دیں وہی کہ جس کا خدا آپ ہوعیاں

خود اپنی قدرتوں سے دکھاوے کہ ہے کہاں

جو معجزات سنتے ہو قصوں کے رنگ میں

اُنکو تو پیش کرتے ہیں سب بحث و جنگ میں

جتنے ہیں فرقے سب کا یہی کاروبارہے

قصوں میں معجزوں کا بیاں بار بار ہے

پر اپنے دیں کا کچھ بھی دکھاتے نہیں نشاں

گویا وہ ربِّ ارض و سما اب ہے ناتواں

گویا اب اُس میں طاقت و قدرت نہیں رہی

وہ سلطنت وہ زور وہ شوکت نہیں رہی

یا ؔ یہ کہ اب خدا میں وہ رحمت نہیں رہی

نیت بدل گئی ہے وہ شفقت نہیں رہی

ایسا گماں خطا ہے کہ وہ ذات پاک ہے

ایسے گماں کی نوبت آخر ہلاک ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 13

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 13

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/13/mode/1up


سچ ہے یہی کہ ایسے مذاہب ہی مرگئے

اَب اُن میں کچھ نہیں ہے کہ جاں سے گذر گئے

پابند ایسے دینوں کے دنیا پرست ہیں

غافل ہیں ذوقِ یار سے دنیا میں مست ہیں

مقصود اُن کا جینے سے دنیا کمانا ہے

مومن نہیں ہیں وہ کہ قدم فاسقانہ ہے

تم دیکھتے ہو کیسے دلوں پر ہیں اُن کے زنگ

دنیا ہی ہوگئی ہے غرض۔ دین سے آئے ننگ

وہ دیں ہی چیز کیا ہے کہ جو رہنما نہیں

ایسا خدا ہے اُس کا کہ گویا خدا نہیں

پھر اُس سے سچی راہ کی عظمت ہی کیا رہی

اور خاص وجہ صفوتِ ملّت ہی کیا رہی

نُور خدا کی اُس میں علامت ہی کیارہی

توحید خشک رہ گئی نعمت ہی کیا رہی

لوگو ! سنو! کہ زندہ خدا وہ خدا نہیں

جس میں ہمیشہ عادتِ قدرت نما نہیں

مُردہ پرست ہیں وہ جو قصہ پرست ہیں

پس اس لئے وہ موردِ ذِل و شکست ہیں

بن دیکھے دل کو دوستو پڑتی نہیں ہے کل

قصوں سے کیسے پاک ہو یہ نفس پُرخلل

کچھ کم نہیں یہودیوں میں یہ کہانیاں

پر دیکھو کیسے ہوگئے شیطاں سے ہم عناں

ہر دم نشانِ تازہ کا محتاج ہے بشر

قصوں کے معجزات کا ہوتا ہے کب اثر

کیونکر ملے فسانوں سے وہ دلبرِ ازل

گر اِک نشاں ہو ملتا ہے سب زندگی کا پھل

قصوں کا یہ اثر ہے کہ دل پُر فساد ہے

ایماں زباں پہ۔ سینہ میں حق سے عِناد ہے

دُنیاؔ کی حرص و آز میں یہ دل ہیں مرگئے

غفلت میں ساری عمر بسر اپنی کر گئے

اے سونے والو جاگو کہ وقتِ بہار ہے

اب دیکھو آکے درپہ ہمارے وہ یار ہے

کیا زندگی کا ذوق اگر وہ نہیں ملا

*** ہے ایسے جینے پہ گر اُس سے ہیں جُدا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 14

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 14

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/14/mode/1up


اُس رُخ کو دیکھنا ہی تو ہے اصل مدّعا

جنت بھی ہے یہی کہ ملے یارِ آشنا

اَے حُبِّ جاہ والو یہ رہنے کی جا نہیں

اِس میں تو پہلے لوگوں سے کوئی رہا نہیں

دیکھو تو جاکے اُن کے مقابر کو اِک نظر

سوچو کہ اب سلف ہیں تمہارے گئے کدھر

اِک دن وہی مقام تمہارا مقام ہے

اِک دن یہ صبح زندگی کی تم پہ شام ہے

اِک دن تمہارا لوگ جنازہ اُٹھائیں گے

پھر دفن کرکے گھر میں تاسّف سے آئیں گے

اے لوگو! عیشِ دنیا کو ہرگز وفا نہیں

کیا تم کو خوفِ مرگ و خیالِ فنا نہیں

سوچو کہ باپ دادے تمہارے کدھر گئے

کس نے بلا لیا وہ سبھی کیوں گذر گئے

وہ دن بھی ایک دن تمہیں یارو نصیب ہے

خوش مت رہو کہ کوچ کی نوبت قریب ہے

ڈھونڈو وہ راہ جس سے دل و سینہ پاک ہو

نفس دنی خدا کی اطاعت میں خاک ہو

ملتی نہیں عزیزو فقط قصوں سے یہ راہ

وہ روشنی نشانوں سے آتی ہے گاہ گاہ

وہ لغو دیں ہے جس میں فقط قصہ جات ہیں

اُن سے رہیں الگ جو سعید الصفات ہیں

صد حیف اِس زمانہ میں قصوں پہ ہے مدار

قصوں پہ سارا دیں کی سچائی کا اِنحصار

پر نقد معجزات کا کچھ بھی نشاں نہیں

پس یہ خدائے قِصّہ خدائے جہاں نہیں

دنیاؔ کو ایسے قِصّوں نے یکسر تبہ کیا

مُشرک بنا کے کُفر دیا روسیہ کیا

جس کو تلاش ہے کہ ملے اُس کو کردگار

اُس کے لئے حرام جو قصّوں پہ ہو نثار

اُس کا تو فرض ہے کہ وہ ڈھونڈے خدا کا نور

تا ہووے شک و شبہ سبھی اُس کے دِل سے دُور

تا اُس کے دل پہ نُورِ یقیں کانزول ہو

تا وہ جنابِ عزّوجل میں قبول ہو



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 15

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 15

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/15/mode/1up


قِصّوں سے پاک ہونا کبھی کیا مجال ہے

سچ جانو یہ طریق سراسر محال ہے

قِصّوں سے کب نجات ملے ہے گناہ سے

ممکن نہیں وصالِ خدا ایسی راہ سے

مُردہ سے کب اُمید کہ وہ زندہ کرسکے

اُس سے تو خود محال کہ رہ بھی گذرسکے

وہ رہ جو ذاتِ عزّوجل کو دکھاتی ہے

وہ رہ جو دل کو پاک و مطہر بناتی ہے

وہ رہ جو یارِ گم شدہ کو ڈھونڈلاتی ہے

وہ رہ جو جامِ پاک یقین کا پلاتی ہے

وہ تازہ قدرتیں جو خدا پر دلیل ہیں

وہ زندہ طاقتیں جو یقیں کی سبیل ہیں

ظاہر ہے یہ کہ قصوں میں اُن کا اثر نہیں

افسانہ گو کو راہِ خدا کی خبر نہیں

اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی نشاں سے ہے

سچ ہے کہ سب ثبوت خدائی نشاں سے ہے

کوئی بتائے ہم کو کہ غیروں میں یہ کہاں

قصوں کی چاشنی میں حلاوت کا کیا نشاں

یہ ایسے مذہبوں میں کہاں ہے دکھایئے

ورنہ گزاف قصوں پہ ہرگز نہ جایئے

جب سے کہ قصے ہوگئے مقصود راہ میں

آگے قدم ہے قوم کا ہردم گناہ میں

تم دیکھتے ہو قوم میں عِفّت نہیں رہی

وہ صدق وہ صفا وہ طہارت نہیں رہی

مو ؔ من کے جو نشاں ہیں وہ حالت نہیں رہی

اُس یار بے نشاں کی محبت نہیں رہی

اِک سیل چل رہا ہے گناہوں کا زور سے

سنتے نہیں ہیں کچھ بھی معاصی کے شور سے

کیوں بڑھ گئے زمیں پہ بُرے کام اس قدر

کیوں ہوگئے عزیزو! یہ سب لوگ کور و کر

کیوں اب تمہارے دل میں وہ صدق و صفا نہیں

کیوں اس قدر ہے فسق کہ خوف و حیا نہیں

کیوں زندگی کی چال سبھی فاسقانہ ہے

کچھ اِک نظر کرو کہ یہ کیسا زمانہ ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 16

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 16

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/16/mode/1up


اِس کا سبب یہی ہے کہ غفلت ہی چھاگئی

دُنیائے دُوں کی دل میں محبت سما گئی

تقویٰ کے جامے جتنے تھے سب چاک ہوگئے

جتنے خیال دل میں تھے ناپاک ہوگئے

ہر دم کے خبث و فسق سے دل پر پڑے حجاب

آنکھوں سے اُن کی چھپ گیا ایماں کا آفتاب

جس کو خدائے عزوجل پر یقیں نہیں

اُس بدنصیب شخص کا کوئی بھی دیں نہیں

پر وہ سعید جوکہ نشانوں کو پاتے ہیں

وہ اُس سے مل کے دل کو اُسی سے ملاتے ہیں

وہ اُس کے ہوگئے ہیں اُسی سے وہ جیتے ہیں

ہر دم اُسی کے ہاتھ سے اِک جام پیتے ہیں

جس مَے کو پی لیا ہے وہ اُس مَے سے مَست ہیں

سب دشمن اُن کے اُن کے مقابل میں پَست ہیں

کچھ ایسے مست ہیں وہ رُخ خوب یار سے

ڈرتے کبھی نہیں ہیں وہ دشمن کے وار سے

اُن سے خدا کے کام سبھی معجزانہ ہیں

یہ اس لئے کہ عاشقِ یارِ یگانہ ہیں

اُن کو خدانے غیروں سے بخشی ہے امتیاز

اُن کے لئے نشاں کو دکھاتا ہے کارساز

جب دشمنوں کے ہاتھ سے وہ تنگ آتے ہیں

جب بدشعار لوگ اُنہیں کچھ ستاتے ہیں

جبؔ اُن کے مارنے کیلئے چال چلتے ہیں

جب اُن سے جنگ کرنے کو باہر نکلتے ہیں

تب وہ خدائے پاک نشاں کو دکھاتا ہے

غیروں پہ اپنا رُعب نشاں سے جماتا ہے

کہتا ہے یہ تو بندۂ عالی جناب ہے

مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے

اُس ذاتِ پاک سے جو کوئی دل لگاتا ہے

آخر وہ اُس کے رحم کو ایسا ہی پاتا ہے

جن کو نشانِ حضرت باری ہوا نصیب

وہ اُس جنابِ پاک سے ہردم ہوئے قریب

کھینچے گئے کچھ ایسے کہ دنیا سے سو گئے

کچھ ایسا نور دیکھا کہ اُس کے ہی ہوگئے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 17

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 17

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/17/mode/1up


بِن دیکھے کیسے پاک ہو انساں گناہ سے

اِس چاہ سے نکلتے ہیں لوگ اُس کی چاہ سے

تصویر شیر سے نہ ڈرے کوئی گوسپند

نَے مار مُردہ سے ہے کچھ اندیشۂ گزند

پھر وہ خدا جو مُردہ کی مانند ہے پڑا

پس کیا امید ایسے سے اور خوف اُس سے کیا

ایسے خدا کے خوف سے دل کیسے پاک ہو

سینہ میں اُسکے عشق سے کیونکر تپاک ہو

بِن دیکھے کس طرح کسی مَہ رُخ پہ آئے دل

کیونکر کوئی خیالی صنم سے لگائے دل

دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی

حُسن و جمالِ یار کے آثار ہی سہی

جب تک خدائے زندہ کی تم کو خبر نہیں

بے قید اور دلیر ہو کچھ دل میں ڈر نہیں

سَوروگ کی دوا یہی وصلِ الٰہی ہے

اِس قید میں ہر ایک گنہ سے رہائی ہے

پر جس خدا کے ہونے کا کچھ بھی نہیں نشاں

کیونکر نثار ایسے پہ ہو جائے کوئی جاں

ہر چیز میں خدا کی ضیا کا ظہور ہے

پر پھر بھی غافلوں سے وہ دلدار دور ہے

جو ؔ خاک میں ملے اُسے ملتا ہے آشنا

اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما

عاشق جو ہیں وہ یار کومَرمَرکے پاتے ہیں

جب مرگئے تو اُسکی طرف کھینچے جاتے ہیں

یہ راہ تنگ ہے پہ یہی ایک راہ ہے

دلبر کی مرنے والوں پہ ہردم نگاہ ہے

ناپاک زندگی ہے جو دوری میں کٹ گئی

دیوار زُہد خشک کی آخر کوپَھٹ گئی

زندہ وہی ہیں جو کہ خدا کے قریب ہیں

مقبول بن کے اُس کے عزیزو حبیب ہیں

وہ دُور ہیں خدا سے جو تقویٰ سے دُور ہیں

ہر دم اسیرِ نخوت و کبر و غرور ہیں

تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو

کبر و غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 18

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 18

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/18/mode/1up


اِس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو

اُس یار کے لئے رہِ عشرت کو چھوڑ دو

*** کی ہے یہ راہ سو *** کو چھوڑ دو

ورنہ خیالِ حضرتِ عزّت کو چھوڑ دو

تلخی کی زندگی کو کرو صدق سے قبول

تاتم پہ ہو ملائکہء عرش کا نزول

اسلام چیز کیا ہے خدا کیلئے فنا

ترکِ رضائے خویش پئے مرضیء خدا

جو مرگئے انہی کے نصیبوں میں ہے حیات

اِس راہ میں زندگی نہیں ملتی بجزممات

شوخی و کبر دیو لعیں کا شعار ہے

آدم کی نسل وہ ہے جو وہ خاکسار ہے

اے کرمِ خاک چھوڑ دے کبروغرور کو

زیبا ہے کبر حضرتِ ربِّ غیور کو

بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں

شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں

چھوڑو غرور و کبر کہ تقویٰ اسی میں ہے

ہو جاؤ خاک مرضئ مولیٰ اِسی میں ہے

تقوؔ یٰ کی جڑ خدا کے لئے خاکساری ہے

عفّت جو شرط دیں ہے وہ تقویٰ میں ساری ہے

جو لوگ بدگمانی کو شیوہ بناتے ہیں

تقویٰ کی راہ سے وہ بہت دُور جاتے ہیں

بے احتیاط اُن کی زباں وار کرتی ہے

اِک دم میں اُس علیم کو بیزار کرتی ہے

اِک بات کہہ کے اپنے عمل سارے کھوتے ہیں

پھر شوخیوں کا بیج ہر اک وقت بوتے ہیں

کچھ ایسے سوگئے ہیں ہمارے یہ ہم وطن

اُٹھتے نہیں ہیں ہم نے تو سوسوکئے جتن

سب عضو سست ہوگئے غفلت ہی چھاگئی

قوت تمام نوکِ زباں میں ہی آگئی

یا بدزباں دکھاتے ہیں یا ہیں وہ بدگماں

باقی خبر نہیں ہے کہ اسلام ہے کہاں

تم دیکھ کر بھی بدکو بچو بدگمان سے

ڈرتے رہو عقابِ خدائے جہان سے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 19

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 19

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/19/mode/1up


شاید تمہاری آنکھ ہی کر جائے کچھ خطا

شاید وہ بد نہ ہو جو تمہیں ہے وہ بدنما

شاید تمہاری فہم کا ہی کچھ قصور ہو

شاید وہ آزمائشِ ربِّ غفور ہو

پھر تم تو بدگمانی سے اپنی ہوئے ہلاک

خود سرپہ اپنے لے لیا خشمِ خدائے پاک

گر ایسے تم دلیریوں میں بے حیا ہوئے

پھر اِتّقا کے سوچو کہ معنے ہی کیا ہوئے

موسیٰ بھی بدگمانی سے شرمندہ ہوگیا

قرآں میں خضر نے جو کیا تھا پڑھو ذرا

بندوں میں اپنے بھید خدا کے ہیں صد ہزار

تم کو نہ علم ہے نہ حقیقت ہے آشکار

پس تم تو ایک بات کے کہنے سے مرگئے

یہ کیسی عقل تھی کہ براہِ خطر گئے

بدبخت تر تمام جہاں سے وہی ہوا

جو ایک بات کہہ کے ہی دوزخ میں جاگرا

پسؔ تم بچاؤ اپنی زباں کو فساد سے

ڈرتے رہو عقوبت ربّ العباد سے

دو عضو اپنے جو کوئی ڈر کر بچائے گا

سیدھا خدا کے فضل سے جنت میں جائے گا

وہ اِک زباں ہے عضو نہانی ہے دوسرا

یہ ہے حدیث سیّدنا سیّد الورٰی

پر وہ جو مجھ کو کاذب و مکّار کہتے ہیں

اور مفتری و کافر و بدکار کہتے ہیں

اُن کیلئے تو بس ہے خدا کا یہی نشاں

یعنی وہ فضل اُس کے جو مجھ پر ہیں ہرزماں

دیکھو خدا نے ایک جہاں کو جھکا دیا

گمنام پاکے شہرۂ عالم بنا دیا

جو کچھ مری مراد تھی سب کچھ دکھا دیا

میں اِک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا

دنیا کی نعمتوں سے کوئی بھی نہیں رہی

جو اُس نے مجھ کو اپنی عنایات سے نہ دی

ایسے بدوں سے اُس کے ہوں ایسے معاملات

کیا یہ نہیں کرامت و عادت سے بڑھ کے بات



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 20

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 20

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/20/mode/1up


جو مفتری ہے اُس سے یہ کیوں اتحاد ہے

کس کو نظیر ایسی عنایت کی یاد ہے

مجھ پر ہر اک نے وار کیا اپنے رنگ میں

آخر ذلیل ہوگئے انجامِ جنگ میں

اِن کینوں میں کسی کو بھی ارماں نہیں رہا

سب کی مراد تھی کہ میں دیکھوں رہِ فنا

تھے چاہتے کہ مجھ کو دکھائیں عدم کی راہ

یا حاکموں سے پھانسی دلا کر کریں تباہ

یا کم سے کم یہ ہو کہ میں زنداں میں جاپڑوں

یا یہ کہ ذلتوں سے میں ہو جاؤں سرنگوں

یا مخبری سے ان کی کوئی اَور ہی بلا

آجائے مجھ پہ یا کوئی مقبول ہو دُعا

پس ایسے ہی ارادوں سے کرکے مقدمات

چاہا گیا کہ دن مرا ہوجائے مجھ پہ رات

کوؔ شش بھی وہ ہوئی کہ جہاں میں نہ ہو کبھی

پھر اتفاق وہ کہ زماں میں نہ ہو کبھی

مجھ کو ہلاک کرنے کو سب ایک ہوگئے

سمجھا گیا میں بدپہ وہ سب نیک ہوگئے

آخر کو وہ خدا جو کریم و قدیر ہے

جو عالم القلوب و علیم و خبیر ہے

اُترا مری مدد کیلئے کرکے عہد یاد

پس رہ گئے وہ سارے سیہ رُوئے و نامراد

کچھ ایسا فضل حضرتِ ربّ الوریٰ ہوا

سب دشمنوں کے دیکھ کے اوساں ہوئے خطا

اِک قطرہ اُس کے فضل نے دریا بنا دیا

میں خاک تھا اُسی نے ثریا بنا دیا

میں تھا غریب و بیکس و گمنام و بے ہنر

کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر

لوگوں کی اِس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی

میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی

اب دیکھتے ہو کیسا رجوعِ جہاں ہوا

اِک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا

پر پھر بھی جن کی آنکھ تعصب سے بند ہے

اُن کی نظر میں حال مرا ناپسند ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 21

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 21

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/21/mode/1up


میں مفتری ہوں اُن کی نگاہ و خیال میں

دنیا کی خیر ہے مری موت و زوال میں

*** ہے مفتری پہ خدا کی کتاب میں

عزّت نہیں ہے ذرّہ بھی اُس کی جناب میں

توریت میں بھی نیز کلام مجید میں

لکھا گیا ہے رنگِ وعیدِ شدید میں

کوئی اگر خدا پہ کرے کچھ بھی افترا

ہوگا وہ قتل ہے یہی اِس جرم کی سزا

پھر یہ عجیب غفلت ربِّ قدیر ہے

دیکھے ہے ایک کو کہ وہ ایسا شریر ہے

پچیس سال سے ہے وہ مشغولِ افترا

ہر دن ہر ایک رات یہی کام ہے رہا

ہرؔ روز اپنے دل سے بناتا ہے ایک بات

کہتا ہے یہ خدا نے کہا مجھ کو آج رات

پھر بھی وہ ایسے شوخ کو دیتا نہیں سزا

گویا نہیں ہے یاد جو پہلے سے کہہ چکا

پھر یہ عجیب تر ہے کہ جب حامیانِ دیں

ایسے کے قتل کرنے کو فاعل ہوں یامعیں

کرتا نہیں ہے اُن کی مدد وقتِ انتظام

تا مفتری کے قتل سے قصہ ہی ہو تمام

اپنا تو اُس کا وعدہ رہا سارا طاق پر

اوروں کی سعی و جہد پہ بھی کچھ نہیں نظر

کیاوہ خدا نہیں ہے جو فرقاں کا ہے خدا

پھر کیوں وہ مفتری سے کرے اسقدر وفا

آخر یہ بات کیا ہے کہ ہے ایک مفتری

کرتا ہے ہر مقام میں اُس کو خدا بَری

جب دشمن اُسکوپیچ میں کوشش سے لاتے ہیں

کوشش بھی اسقدر کہ وہ بس مر ہی جاتے ہیں

اِک اتفاق کرکے وہ باتیں بناتے ہیں

سو جھوٹ اور فریب کی تہمت لگاتے ہیں

پھر بھی وہ نامراد مقاصد میں رہتے ہیں

جاتا ہے بے اثر وہ جو سو بار کہتے ہیں

ذلّت ہیں چاہتے۔ یہاں اِکرام ہوتا ہے

کیا مفتری کا ایسا ہی انجام ہوتا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 22

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 22

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/22/mode/1up


اے قوم کے سرآمدہ اے حامیانِ دیں

سوچو کہ کیوں خدا تمہیں دیتا مدد نہیں

تم میں نہ رحم ہے نہ عدالت نہ اتّقا

پس اس سبب سے ساتھ تمہارے نہیں خدا

ہوگا تمہیں کلارک کا بھی وقت خوب یاد

جب مجھ پہ کی تھی تہمت خوں ازرہِ فساد

جب آپ لوگ اُس سے ملے تھے بدیں خیال

تا آپ کی مدد سے اُسے سہل ہو جدال

پر وہ خدا جو عاجز و مسکیں کا ہے خدا

حاکم کے دل کو میری طرف اُس نے کردیا

تمؔ نے تو مجھ کو قتل کرانے کی ٹھانی تھی

یہ بات اپنے دل میں بہت سہل جانی تھی

تھے چاہتے صلیب پہ یہ شخص کھینچا جائے

تاتم کو ایک فخر سے یہ بات ہاتھ آئے

جھوٹا تھا مفتری تھا تبھی یہ ملی سزا

آخر مری مدد کیلئے خود اُٹھا خدا

ڈگلس پہ سارا حال بریّت کا کھل گیا

عزت کے ساتھ تب میں وہاں سے بَری ہوا

الزام مجھ پہ قتل کا تھا سخت تھا یہ کام

تھا ایک پادری کی طرف سے یہ اتّہام

جتنے گواہ تھے وہ تھے سب میرے برخلاف

اِک مولوی بھی تھا جو یہی مارتا تھا لاف

دیکھو یہ شخص اب تو سزا اپنی پائے گا

اب بن سزائے سخت یہ بچ کر نہ جائے گا

اتنی شہادتیں ہیں کہ اب کھل گیا قصور

اب قیدیا صلیب ہے اک بات ہے ضرور

بعضوں کو بددُعا میں بھی تھا ایک انہماک

اِتنی دُعا کہ گھس گئی سجدے میں اُن کی ناک

القصّہ جہد کی نہ رہی کچھ بھی انتہا

اِک سُو تھا مگر ایک طرف سجدہ و دُعا

آخر خدا نے دی مجھے اُس آگ سے نجات

دُشمن تھے جتنے اُن کی طرف کی نہ التفات

کیسا یہ فضل اُس سے نمودار ہوگیا

اِک مفتری کا وہ بھی مددگار ہوگیا

اُس کا تو فرض تھا کہ وہ وعدہ کو کرکے یاد

خود مارتا وہ گردنِ کذّاب بدنہاد



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 23

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 23

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/23/mode/1up


گر اُس سے رہ گیا تھا کہ وہ خود دکھائے ہاتھ

اتنا تو سہل تھا کہ تمہارا بٹائے ہاتھ

یہ بات کیا ہوئی کہ وہ تم سے الگ رہا

کچھ بھی مدد نہ کی نہ سنی کوئی بھی دُعا

جو مفتری تھا اُس کو تو آزاد کردیا

سب کام اپنی قوم کا برباد کردیا

سبؔ جدوجہد وسعی اکارت چلی گئی

کوشش تھی جس قدر وہ بغارت چلی گئی

کیا ’’راستی کی فتح‘‘ نہیں وعدہ ء خدا

دیکھو تو کھول کر سخنِ پاک کبریا

پھر کیوں یہ بات میری ہی نسبت پلٹ گئی

یا خود تمہاری چادرِ تقویٰ ہی پھٹ گئی

کیا یہ عجب نہیں ہے کہ جب تم ہی یار ہو

پھر میرے فائدہ کا ہی سب کاروبار ہو

پھر یہ نہیں کہ ہوگئی ہے صرف ایک بات

پاتا ہوں ہر قدم میں خدا کے تفضلات

دیکھو وہ بھیں کا شخص کرم دیں ہے جس کا نام

لڑنے میں جس نے نیند بھی اپنے پہ کی حرام

جس کی مدد کے واسطے لوگوں میں جوش تھا

جس کا ہر ایک دشمنِ حق عیب پوش تھا

جس کا رفیق ہوگیا ہر ظالم و غوی

جس کی مدد کے واسطے آئے تھے مولوی

اُن میں سے ایسے تھے کہ جو بڑھ بڑھ کے آتے تھے

اپنا بیاں لکھانے میں کرتب دکھاتے تھے

ہشیاری مستغیث بھی اپنی دکھاتا تھا

سو سو خلاف واقعہ باتیں بناتا تھا

پر اپنے بدعمل کی سزا کو وہ پاگیا

ساتھ اُس کے یہ کہ نام بھی کاذب رکھا گیا

کذّاب نام اس کا دفاتر میں رہ گیا

چالاکیوں کا فخر جو رکھتا تھا بہ گیا

اے ہوش و عقل والو یہ عبرت کا ہے مقام

چالاکیاں تو ہیچ ہیں تقویٰ سے ہوویں کام

جو متقی ہے اُس کا خدا خود نصیر ہے

انجام فاسقوں کا عذاب سعیر ہے

جڑ ہے ہر ایک خیروسعادت کی اتّقا

جس کی یہ جڑ رہی ہے عمل اُس کا سب رہا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 24

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 24

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/24/mode/1up


مومن ہی فتح پاتے ہیں انجام کار میں

ایسا ہی پاؤگے سخنِ کردگار میں

کوئیؔ بھی مفتری ہمیں دنیا میں اب دکھا

جس پر یہ فضل ہو یہ عنایات یہ عطا

اِس بدعمل کی قتل سزا ہے نہ یہ کہ پیت

پس کس طرح خدا کو پسند آگئی یہ ریت

کیا تھا یہی معاملہ پاداشِ اِفترا

کیا مفتری کے بارے میں وعدہ یہی ہوا

کیوں ایک مفتری کا وہ ایسا ہے آشنا

یا بے خبر ہے عیب سے دھوکے میں آگیا

آخر کوئی تو بات ہے جس سے ہوا وہ یار

بدکار سے تو کوئی بھی کرتا نہیں ہے پیار

تم بدبنا کے پھر بھی گرفتار ہوگئے

یہ بھی تو ہیں نشاں جو نمودار ہوگئے

تاہم وہ دوسرے بھی نشاں ہیں ہمارے پاس

لکھتے ہیں اب خدا کی عنایت سے بے ہراس

جس دل میں رچ گیا ہے محبت سے اُس کا نام

وہ خود نشاں ہے نیز نشاں سارے اس کے کام

کیا کیا نہ ہم نے نام رکھائے زمانہ سے

مُردوں سے نیز فرقہء ناداں زنانہ سے

اُس کے گمان میں ہم بدوبدحال ہوگئے

اُن کی نظر میں کافر و دجّال ہوگئے

ہم مفتری بھی بن گئے اُن کی نگاہ میں

بے دیں ہوئے فساد کیا حق کی راہ میں

پر ایسے کفر پر تو فدا ہے ہماری جاں

جس سے ملے خدائے جہان وجہانیاں

*** ہے ایسے دیں پہ کہ اس کفر سے ہے کم

سَوشکر ہے کہ ہوگئے غالب کے یار ہم

ہوتا ہے کردگار اسی رہ سے دستگیر

کیاجانے قدر اس کا جو قصوں میں ہے اسیر

وحی خدا اِسی رہِ فرّخ سے پاتے ہیں

دلبر کا بانکپن بھی اسی سے دکھاتے ہیں

اے مدعی نہیں ہے تیرے ساتھ کردگار

یہ کفر تیرے دیں سے ہے بہتر ہزار بار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 25

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 25

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/25/mode/1up


ہزار ہزار شکر اُس خداوند کریم کا ہے جس نے ایسا مذہب ہمیں عطا فرمایا جو خدادانی اور خدا ترسی کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس کی نظیر کبھی اور کسی زمانہ میں نہیں پائی گئی۔ اور ہزارہادروداُس نبی معصوم پر جس کے وسیلہ سے ہم اس پاک مذہب میں داخل ہوئے ۔ اور ہزارہا رحمتیں نبی کریم کے اصحاب پر ہوں جنہوں نے اپنے خونوں سے اِس باغ کی آب پاشی کی۔

اسلام ایک ایسا بابرکت اور خدا نما مذہب ہے کہ اگرکوئی شخص سچے طور پر اس کی پابندی اختیار کرے اور ان تعلیموں اور ہدایتوں اور وصیتوں پر کاربند ہو جائے جو خدائے تعالیٰ کے پاک کلام قرآن شریف میں مندرج ہیں تو وہ اسی جہان میں خدا کو دیکھ لے گا۔ وہ خدا جو دنیا کی نظر سے ہزاروں پردوں میں ہے اس کی شناخت کیلئے بجز قرآنی تعلیم کے اور کوئی بھی ذریعہ نہیں۔ قرآن شریف معقولی رنگ میں اور آسمانی نشانوں کے رنگ میں نہایت سہل اور آسان طریق سے خدائے تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اور اس میں ایک برکت اور قوتِ جاذبہ ہے جو خدا کے طالب کو دمبدم خدا کی طرف کھینچتی اور روشنی اور سکینت اوراطمینان بخشتی ہے اورقرآن شریف پر سچا ایمان لانے والا صرف فلسفیوں کی طرح یہ ظن نہیں رکھتا کہ اس پُر حکمت عالم کا بنانے والا کوئی ہونا چاہیے بلکہ وہ ایک ذاتی بصیرت حاصل کرکے اور ایک پاک رؤیت سے مشرف ہوکر یقین کی آنکھ سے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 26

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 26

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/26/mode/1up


دیکھؔ لیتا ہے کہ فی الواقع وہ صانع موجود ہے اور اس پاک کلام کی روشنی حاصل کرنے والا محض خشک معقولیوں کی طرح یہ گمان نہیں رکھتا کہ خدا واحد لاشریک ہے بلکہ صدہا چمکتے ہوئے نشانوں کے ساتھ جو اُس کا ہاتھ پکڑ کر ظلمت سے نکالتے ہیں واقعی طور پر مشاہدہ کرلیتا ہے کہ درحقیقت ذات اور صفات میں خدا کا کوئی بھی شریک نہیں اورنہ صرف اس قدر بلکہ وہ عملی طور پر دنیا کو دکھا دیتا ہے کہ وہ ایساہی خدا کو سمجھتا ہے اوروحدتِ الٰہی کی عظمت ایسی اس کے دل میں سما جاتی ہے کہ وہ الٰہی ارادہ کے آگے تمام دنیا کو ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح بلکہ مطلق لَاشَے اورسراسر کالعدم سمجھتا ہے۔

انسانی فطرت ایک ایسے درخت کی طرح واقع ہے جس کے ایک حصہ کی شاخیں نجاست اور پیشاب کے گڑھے میں غرق ہیں اور دوسرے حصے کی شاخیں ایک ایسے حوض میں پڑتی ہیں جو کیوڑہ اور گلاب اور دوسری لطیف خوشبوؤں سے پُر ہے اور ہر ایک حصے کی طرف سے جب کوئی ہوا چلتی ہے تو بدبو یاخوشبو کو جیسی کہ صورت ہو پھیلا دیتی ہے۔ اِسی طرح نفسانی جذبات کی ہوا بدبو ظاہر کرتی ہے اور رحمانی نفحات کی ہوا پوشیدہ خوشبو کو پیرایۂ ظہور و بروز پہناتی ہے۔ پس اگر رحمانی ہوا کے چلنے میں جو آسمان سے اُترتی ہے روک ہو جائے تو انسان نفسانی جذبات کی تندو تیز ہواؤں کے ہر طرف سے طمانچے کھاکر اور اُن کی بدبوؤں کے نیچے دب کر ایسا خدائے تعالیٰ سے منہ پھیر لیتاہے کہ شیطان مجسم بن جاتا ہے اور اسفل السافلین میں گرایا جاتا ہے اور کوئی نیکی اُس کے اندر نہیں رہتی اور کفر اور معصیت اور فسق و فجور اور تمام رذائل کے زہروں سے آخر ہلاک ہو جاتا ہے اور زندگی اُس کی جہنمی ہوتی ہے اور آخر مرنے کے بعد جہنم میں گرتا ہے اور اگر خدائے تعالیٰ کا فضل دستگیر ہو اور نفحاتِ الٰہیہ اُس کے صاف اور معطّر کرنے کے لئے آسمان سے چلیں اور اُس کی رُوح کو اپنی خاص تربیت سے دمبدم نورانیت اور تازگی اور پاک طاقت بخشیں تو وہ طاقت بالا سے قوت پاکر اس قدر اوپر کی طرف کھینچا جاتا ہے کہ فرشتوں کے مقام سے بھی اوپر گذر جاتا ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 27

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 27

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/27/mode/1up


انسان میں نیچےؔ گرنے کا بھی مادہ ہے اور اوپر اُٹھائے جانے کا بھی ۔ اور کسی نے اس بارے میں سچ کہا ہے۔

حضرتِ انساں کہ حدِّ مشترک راجا مع است


می تواند شد مسیحا مے تواند خرشدن

لیکن اس جگہ مشکل یہ ہے کہ نیچے جانا انسان کے لئے سہل امر ہے گویا ایک طبعی امر ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو ایک پتھر اوپر کو بہت مشکل سے جاتا ہے اور کسی دوسرے کے زور کامحتاج ہے لیکن نیچے کی طرف خود بخود گر جاتا ہے اور کسی کے زور کا محتاج نہیں۔ پس انسان اوپر جانے کے لئے ایک زور آو ر ہاتھ کا محتاج ہے۔ اِسی حاجت نے سلسلہ انبیاء اور کلام الٰہی کی ضرورت ثابت کی ہے۔ اگرچہ دنیا کے لوگ سچے مذہب کے پرکھنے کے معاملہ میں ہزارہا پیچ در پیچ مباحثات میں پڑ گئے ہیں اور پھر بھی کسی منزل مقصود تک نہیں پہنچے لیکن سچ بات یہ ہے کہ جومذہب انسانی نابینائی کے دُور کرنے اور آسمانی برکات کے عطا کرنے کیلئے اس حد تک کامیاب ہوسکے جو اس کے پیروکی عملی زندگی میں خدا کی ہستی کا اقرار اورنوع انسان کی ہمدردی کا ثبوت نمایاں ہو وہی مذہب سچا ہے اور وہی ہے جو اپنے سچے پابند کو اس منزل مقصود تک پہنچا سکتا ہے جس کی اُس کی رُوح کو پیاس لگادی گئی ہے۔ اکثر لوگ صرف ایسے فرضی خدا پر ایمان لاتے ہیں جس کی قدرتیں آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہیں اور جس کی سکتی اور طاقت صرف قصوں اور کہانیوں کے پیرایہ میں بیان کی جاتی ہے۔ پس یہی سبب ہوتا ہے کہ ایسا فرضی خدا اُن کو گناہ سے روک نہیں سکتا بلکہ ایسے مذہب کی پیروی میں جیسے جیسے اُن کا تعصب بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے فسق و فجور پر شوخی اور دلیری زیادہ پیدا ہوتی جاتی ہے اور نفسانی جذبات ایسی تیزی میں آتے ہیں کہ جیسے ایک دریا کا بند ٹوٹ کر ارد گرد پانی اُس کا پھیل جاتاہے اور کئی گھروں اور کھیتوں کو تباہ کر دیتاہے۔ وہ زندہ خدا جو قادرانہ نشانوں کے شعاع اپنے ساتھ رکھتا ہے اور اپنی ہستی کو تازہ بتازہ معجزات اور طاقتوں سے ثابت کرتا رہتا ہے وہی ہے جس کاپانا اور دریافت کرنا گناہ سے روکتا ہے اور سچی سکینت اور شانتی اور تسلی بخشتا ہے اور استقامت اور دلی بہادری کو عطا فرماتا ہے۔ وہ آگ بن کر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 28

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 28

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/28/mode/1up


گناہوں کو جلا دیتا ہے اور پانی بن کر دنیا پرستی کی خواہشوں کو دھو ڈالتا ہے مذہب اسی کا نام ہے جو اُسؔ کو تلاش کریں اور تلاش میں دیوانہ بن جائیں۔

یاد رہے کہ محض خشک جھگڑے اور سب وشتم اور سخت گوئی اور بدزبانی جو نفسانیت کی بنا پر مذہب کے نام پر ظاہر کی جاتی ہے۔ اور اپنی اندرونی بدکاریوں کو دُور نہیں کیا جاتا اور اس محبوب حقیقی سے سچا تعلق پیدا نہیں کیا جاتا اور ایک فریق دوسرے فریق پر نہ انسانیت سے بلکہ کتوں کی طرح حملہ کرتا ہے اور مذہبی حمایت کی اوٹ میں ہر ایک قسم کی نفسانی بدذاتی دکھلاتا ہے کہ یہ گندہ طریق جو سراسر استخوان ہے اس لائق نہیں کہ اس کا نام مذہب رکھا جائے۔ افسوس ایسے لوگ نہیں جانتے کہ ہم دنیا میں کیوں آئے۔ اور اصل اور بڑا مقصود ہمارا اس مختصر زندگی سے کیا ہے بلکہ وہ ہمیشہ اندھے اور ناپاک فطرت رہ کر صرف متعصبانہ جذبات کا نام مذہب رکھتے ہیں اور ایسے فرضی خدا کی حمایت میں دنیا میں بداخلاقی دکھلاتے اور زبان درازیاں کرتے ہیں جس کے وجود کا اُن کے پاس کچھ بھی ثبوت نہیں۔ وہ مذہب کس کام کا مذہب ہے جو زندہ خدا کا پرستار نہیں بلکہ ایسا خدا ایک مُردے کا جنازہ ہے جو صرف دوسروں کے سہارے سے چل رہا ہے سہارا الگ ہوا اور وہ زمین پر گرا۔ ایسے مذہب سے اگر ان کو کچھ حاصل ہے تو صرف تعصب اور حقیقی خدا ترسی اور نوع انسان کی سچی ہمدردی جو افضل الخصائل ہے۔ بالکل اُن کی فطرت سے مفقود ہو جاتی ہے۔ اور اگر ایسے شخص کا اُن سے مقابلہ پڑے جو اُن کے مذہب اور عقیدے کا مخالف ہو تو فقط اسی قدر مخالفت کو دل میں رکھ کر اُس کی جان اور مال اور عزّت کے دشمن ہو جاتے ہیں اور اگر ان کے متعلق کسی غیر قوم کے شخص کا کام پڑ جائے تو انصاف اور خدا ترسی کو ہاتھ سے دے کر چاہتے ہیں کہ اس کو بالکل نابود کردیں اوروہ رحم اور انصاف اور ہمدردی جو انسانی فطرت کی اعلیٰ فضیلت ہے بالکل اُن کے طبائع سے مفقود ہو جاتی ہے اور تعصب کے جوش سے ایک ناپاک درندگی اُن کے اندر سما جاتی ہے اور نہیں جانتے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 29

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 29

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/29/mode/1up


کہ اصل غرض مذہب سے کیا ہے۔ اصل بدخواہ مذہب اور قوم کے وہی بدکردار لوگ ہوتے ہیں جو حقیقت اور سچی معرفت اور سچی پاکیزگی کی کچھ پروا نہیں رکھتے اور صرف نفسانی جوشوں کا نام مذہب رکھتے ہیں۔ تمام وقت فضول لڑائی جھگڑؔ وں اور گندی باتوں میں صرف کرتے ہیں اور جو وقت خدا کے ساتھ خلوت میں خرچ کرنا چاہیئے وہ خواب میں بھی اُن کو میسر نہیں ہوتا۔ بزرگوں کی نندیا تحقیر توہین ان کا کام ہوتا ہے اور خود اندر اُن کا نفسانی غلاظتوں سے اس قدر بھرا ہوا ہوتا ہے جیسا کہ سنڈ اس نجاست سے۔ زبان پر بک بک بہت مگر دل خدا سے دُور اور دنیا کے گندوں میں غرق پھر مصلح قوم ہونے کا دعویٰ۔

ع خفتہ را خفتہ کے کند بیدار

ایسے آدمی نہ خوف زدہ دل سے کسی کی بات سن سکتے ہیں نہ تحمل سے جواب دے سکتے ہیں۔ اُن کے نزدیک تمام اسلام نشانۂ اعتراضات ہے کوئی بات بھی اچھی نہیں اور عجیب تر یہ کہ وہ اس حالت پر خوش ہوتے ہیں اور کسی دوسری قوم کے انسان پر کوئی موذیانہ ہاتھ ڈال کر خیال کرتے ہیں کہ ہم نے بہت ثواب کا کام کیا ہے یا بڑی ہمت اور جوانمردی دکھلائی ہے لیکن افسوس کہ اس زمانہ میں اکثر قومیں اسی تعصب کا نام مذہب خیال کرتی ہیں۔ اور ہم اس خراب عادت سے عام مسلمانوں کو بھی باہر نہیں رکھتے ۔ پس وہ خدا کے نزدیک زیادہ مؤاخذہ کے لائق ہیں کیونکہ ان کو وہ دین دیا گیا تھا جس کا نام اسلام ہے جس کے معنے خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں خود ظاہر فرمائے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا۔33 ۱؂۔ یعنی اسلام کے دو ٹکڑے ہیں ۔ایک یہ کہ خدا کی رضا میں ایسا محو ہوجانا کہ اپنی رضا چھوڑ کر اُس کی رضا جوئی کیلئے اُس کے آستانہ پر سر رکھ دینا اور دوسر۲ے عام طورپر تمام بنی نوع سے نیکی کرنا۔ پس یہ دین کیسا پیارا اور نیک اور پاک اصولوں پر مبنی تھا جس کی تعلیموں سے وہ بہت دُور پڑ گئے۔ اور یہ تباہی اُس وقت پیدا ہوئی جبکہ قرآن شریف کی تعلیم سے عمداً یا غلطی سے اعراض



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 30

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 30

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/30/mode/1up


کیا گیا کیونکہ اعراض خواہ صوری ہو یا معنوی فیض الٰہی سے محروم کردیتا ہے۔ اور اس جگہ ہماری مراد اعراض صوری سے یہ ہے کہ ایک شخص خدائے تعالیٰ کے کلام سے بالکل منکر ہو۔ اور اعراض معنوی سے یہ مراد ہے کہ بظاہر منکر تو نہ ہو لیکن رسم اور عادت اور نفسانی اغراض اور اقوال غیر کے نیچے دب کر ایسا ہو جائے کہ خدائے تعالیٰ کے کلام کی کچھ پرواہ نہ کرے۔

غرض یہ دو خبیث مرضیں ہیں جن سے بچنے کیلئے سچے مذہب کی پیروی کی ضرورت ہے۔ یعنیؔ اوّل یہ مرض کہ خدا کو واحد لا شریک اور متصف بہ تمام صفات کاملہ اور قدرت تامہ قبول نہ کرکے اس کے حقوقِ واجبہ سے منہ پھیر نا اور ایک نمک حرام انسان کی طرح اُس کے اُن فیوض سے انکار کرنا جو جان اور بدن کے ذرّہ ذرّہ کے شامل حال ہیں۔ دوسرے یہ کہ بنی نوع کے حقوق کی بجاآوری میں کوتاہی کرنا۔ اور ہر ایک شخص جو اپنے مذہب اور قوم سے الگ ہو یا اُس کامخالف ہو اس کی ایذا کیلئے ایک زہریلے سانپ کی طرح بن جانااور تمام انسانی حقوق کو یک دفعہ تلف کر دینا۔ ایسے انسان درحقیقت مردہ ہیں اور زندہ خدا سے بے خبر۔ زندہ ایمان لانا ہرگز ممکن نہیں جب تک انسان زندہ خدا کی تجلیات اور آیات عظیمہ سے فیضیاب نہ ہو۔ یوں تو بجز دہریہ لوگوں کے تمام دنیا کسی نہ کسی رنگ میں خدا تعالیٰ کے وجود کی قائل ہے مگر چونکہ وہ قائل ہونا صرف اپنا خود تر اشیدہ خیال ہے اور زندہ خدا کی اپنی ذاتی تجلی سے نہیں ہے اس لئے ایسے خیال سے زندہ ایمان حاصل نہیں ہوسکتا۔ جب تک خدائے تعالیٰ کی طرف سے انا الموجودکی آواز زور دار طاقتوں کے ساتھ معجزانہ رنگ میں اور خارق عادت کے طورپر سنائی نہ دے اور فعلی طور پر اس کے ساتھ دوسرے زبردست نشان نہ ہوں اُس وقت تک اُس زندہ خدا پر ایمان آنہیں سکتا۔ ایسے لوگ محض سنی سنائی باتوں کا نام خدا یا پرمیشر رکھتے ہیں اور صرف گلے پڑا ڈھول بجا رہے ہیں اور اپنی شناسائی کی حد سے زیادہ لاف و گزاف اپنا پیشہ بنا رکھا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 31

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 31

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/31/mode/1up


حقیقی خدادانی تمام اسی میں منحصر ہے کہ اس زندہ خدا تک رسائی ہو جائے کہ جو اپنے مقرب انسانوں سے نہایت صفائی سے ہم کلام ہوتا ہے اور اپنی پُر شوکت اور لذیذ کلام سے اُن کو تسلی اور سکینت بخشتا ہے اور جس طرح ایک انسان دوسرے انسان سے بولتا ہے ایسا ہی یقینی طور پر جو بکلی شک و شبہ سے پاک ہے اُن سے باتیں کرتاہے اُن کی بات سنتا ہے اور اُس کا جواب دیتاہے اور اُن کی دعاؤں کو سن کر دُعا کے قبول کرنے سے اُن کو اطلاع بخشتا ہے اور ایک طرف لذیذ اور پُرشوکت قول سے اور دوسری طرف معجزانہ فعل سے اور اپنے قوی اور زبردست نشانوں سے اُن پر ثابت کر دیتا ہے کہ میں ہی خدا ہوں۔ وہ اوّل پیشگوئی کے طورؔ پر اُن سے اپنی حمایت اور نصرت اور خاص طور کی دستگیری کے وعدے کرتا ہے اور پھر دوسری طرف اپنے وعدوں کی عظمت بڑھانے کیلئے ایک دنیا کو اُن کے مخالف کر دیتا ہے۔ اور وہ لوگ اپنی تمام طاقت اور تمام مکرو فریب اور ہر ایک قسم کے منصوبوں سے کوشش کرتے ہیں کہ خدا کے اُن وعدوں کو ٹال دیں جو اُس کے ان مقبول بندوں کی حمایت اور نصرت اور غلبہ کے بارے میں ہیں اور خدا ان تمام کوششوں کو برباد کرتا ہے۔ وہ شرارت کی تخم ریزی کرتے ہیں اور خدا اس کی جڑ باہر پھینکتا ہے ۔ وہ آگ لگاتے ہیں اور خدا اُس کو بجھا دیتا ہے۔ وہ ناخنوں تک زور لگاتے ہیں آخر خدا اُن کے منصوبوں کو اُنہی پر اُلٹا کر مارتا ہے خدا کے مقبول اور راستباز نہایت سیدھے اور سادہ طبع اور خدا تعالیٰ کے سامنے اُن بچوں کی طرح ہوتے ہیں جو ماں کی گود میں ہوں اور دنیا اُن سے دشمنی کرتی ہے کیونکہ وہ دنیا میں سے نہیں ہوتے اور طرح طرح کے مکر اور فریب اُن کی بیخ کنی کیلئے کئے جاتے ہیں۔ قومیں اُن کے ایذا دینے کیلئے متفق ہو جاتی ہیں اور تمام نااہل لوگ ایک ہی کمان سے اُن کی طرف تیر چلاتے ہیں۔ اور طرح طرح کے افترا اور تہمتیں لگائی جاتی ہیں تا کسی طرح وہ ہلاک ہو جائیں اور اُن کا نشان نہ رہے مگر آخر خدائے تعالیٰ اپنی باتوں کو پوری کرکے دکھلا دیتا ہے۔ اِسی طرح اُن کی زندگی میں یہ معاملہ ان سے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 32

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 32

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/32/mode/1up


جاری رہتا ہے کہ ایک طرف وہ مکالماتِ صحیحہ واضحہ یقینیہ سے مشرف کئے جاتے ہیں اور امور غیبیہ جن کا علم انسانوں کی طاقت سے باہر ہے اُن پر خدائے کریم و قدیر اپنے صریح کلام کے ذریعہ سے منکشف کرتا رہتا ہے اور دوسری طرف معجزانہ افعال سے جو اُن اقوال کو سچ کرکے دکھلاتے ہیں اُن کے یقین کو33کیا جاتا ہے۔ اور جس قدر انسان کی طبیعت تقاضا کرتی ہے کہ خدا کی یقینی شناخت کے لئے اس قدر معرفت چاہیئے وہ معرفت قولی اور فعلی تجلّی سے پوری کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک ذرّہ کے برابر بھی تاریکی درمیان نہیں رہتی۔ یہ خدا ہے جس کے ان قولی فعلی تجلّیات کے بعد جو ہزاروں انعامات اپنے اندر رکھتی ہیں اور نہایت قوی اثر دل پر کرتی ہیں انسان کوؔ سچا اور زندہ ایمان نصیب ہوتا ہے اور ایک سچا اور پاک تعلق خدا سے ہوکر نفسانی غلاظتیں دُور ہوجاتی ہیں۔ اور تمام کمزوریاں دُور ہوکر آسمانی روشنی کی تیز شعاعوں سے اندرونی تاریکی الوداع ہوتی ہے اور ایک عجیب تبدیلی ظہور میں آتی ہے۔

پس جومذہب اس خدا کو جس کا ان صفات سے متصف ہونا ثابت ہے پیش نہیں کرتا اور ایمان کو صرف گذشتہ قصوں کہانیوں اور ایسی باتوں تک محدود رکھتا ہے جو دیکھنے اور کہنے میں نہیں آئی ہیں وہ مذہب ہرگز سچا مذہب نہیں ہے ۔ اور ایسے فرضی خدا کی پیروی ایسی ہے کہ جیسے ایک مُردہ سے توقع رکھنا کہ وہ زندوں جیسے کام کرے گا۔ ایسے خدا کا ہونا نہ ہونا برابر ہے جو ہمیشہ تازہ طور پر اپنے وجود کو آپ ثابت نہیں کرتا گویا وہ ایک بُت ہے جو نہ بولتا ہے اور نہ سنتا ہے او ر نہ سوال کا جواب دیتاہے اور نہ اپنی قادرانہ قوت کو ایسے طور پر دکھا سکتا ہے جو ایک پکا دہریہ بھی اس میں شک نہ کرسکے۔

یاد رکھنا چاہئے کہ جیسے ہمیں روشنی بخشنے کیلئے ہر روز تازہ طور پر آفتاب نکلتا ہے او ر ہم اس قدر قصہ سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے اور نہ کچھ تسلی پاسکتے ہیں کہ ہم اندھیرے میں ہوں اور روشنی کا نام و نشان نہ ہو اور یہ کہا جائے کہ آفتاب تو ہے مگر وہ کسی پہلے زمانہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 33

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 33

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/33/mode/1up


میں طلوع کرتا تھا اور اب وہ ہمیشہ کیلئے پوشیدہ ہے ایسا ہی وہ حقیقی آفتاب جو دلوں کو روشن کرتا ہے ہرروز تازہ بتازہ طلوع کرتا ہے۔ اور اپنی قولی فعلی تجلیات سے انسان کو حصہ بخشتا ہے ۔ وہی خدا سچا ہے اوروہی مذہب سچا جو ایسے خدا کے وجود کی بشارت دیتا ہے اور ایسے خدا کو دکھلاتا ہے اُسی زندہ خدا سے نفس پاک ہوتا ہے۔

یہ اُمید مت رکھو کہ کوئی اور منصوبہ انسانی نفس کو پاک کرسکے جس طرح تاریکی کو صرف روشنی ہی دُور کرتی ہے اسی طرح گناہ کی تاریکی کا علاج فقط وہ تجلیات الٰہیہ قولی و فعلی ہیں جو معجزانہ رنگ میں پُرزور شعاعوں کے ساتھ خدا کی طرف سے کسی سعید دل پر نازل ہوتی ہیں اور اُس کو دکھا دیتی ہیں کہ خدا ہے اور تمام شکوک کی غلاظت کو دُور کر دیتی ہیںؔ اور تسلی اور اطمینان بخشتی ہیں ۔ پس اُس طاقت بالا کی زبردست کشش سے وہ سعید آسمان کی طرف اٹھایا جاتا ہے اس کے سوا جس قدر اور علاج پیش کئے جاتے ہیں سب فضول بناوٹ ہے۔ ہاں کامل طور پر پاک ہونے کیلئے صرف معرفت ہی کافی نہیں بلکہ اُس کے ساتھ پُردرد دُعاؤں کا سلسلہ جاری رہنا بھی ضروری ہے کیونکہ خدا تعالیٰ غنی بے نیاز ہے اُس کے فیوض کو اپنی طرف کھینچنے کیلئے ایسی دُعاؤں کی سخت ضرورت ہے جوگریہ اور بُکا اور صدق و صفا اور دردِ دل سے پُر ہوں۔ تم دیکھتے ہو کہ بچۂ شیر خوار اگرچہ اپنی ماں کو خوب شناخت کرتا ہے اور اُس سے محبت بھی رکھتا ہے اور ماں بھی اُس سے محبت رکھتی ہے۔ مگر پھر بھی ماں کادودھ اُترنے کیلئے شیرخوار بچوں کا رونا بہت کچھ دخل رکھتا ہے ۔ ایک طرف بچہ دردناک طور پر بھوک سے روتا ہے اور دوسری طرف اُس کے رونے کا ماں کے دل پر اثر پڑتا ہے اور دودھ اُترتاہے پس اسی طرح خدائے تعالیٰ کے سامنے ہر ایک طالب کو اپنی گریہ وزاری سے اپنی روحانی بھوک پیاس کا ثبوت دینا چاہیے تا وہ رُوحانی دودھ اُترے اور اُسے سیراب کرے۔

غرض پاک و صاف ہونے کیلئے صرف معرفت کافی نہیں بلکہ بچوں کی طرح دردناک



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 34

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 34

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/34/mode/1up


گریہ وزاری بھی ضروری ہے۔ اور نومید مت ہو اور یہ خیال مت کرو کہ ہمارا نفس گناہوں سے بہت آلودہ ہے ہماری دُعائیں کیا چیز ہیں اور کیا اثر رکھتی ہیں کیونکہ انسانی نفس جو دراصل محبتِ الٰہی کیلئے پیدا کیا گیا ہے وہ اگرچہ گناہ کی آگ سے سخت مشتعل ہو جائے پھر بھی اُس میں ایک ایسی قوتِ توبہ ہے کہ وہ اس آگ کو بجھا سکتی ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ ایک پانی کو کیسا ہی آگ سے گرم کیا جائے مگر تاہم جب آگ پر اس کو ڈالا جائے تووہ آگ کو بجھا دے گا۔

یہی ایک طریق ہے کہ جب سے خدائے تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا اسی طریق سے اُن کے دل پاک و صاف ہوتے رہے ہیں۔ یعنی بغیر اس کے جو زندہ خدا خود اپنی تجلّی قولی و فعلی سے اپنی ہستی اور اپنی طاقت اور اپنی خدائی ظاہر کرے اور اپنا رعب چمکتا ہوا دکھاوے اور کسی طریق سے انساؔ ن گناہ سے پاک نہیں ہوسکتا۔

اورمعقولی طور پر بھی یہی بات ظاہر و ثابت ہے کہ انسان فقط اُسی چیز کی قدر کرتا ہے اور اُسی کا رعب اپنے دل میں جماتا ہے جس کی عظمت اور طاقت بذریعہ معرفت تامّہ کے وہ معلوم کر لیتاہے۔ مثلاً ظاہر ہے کہ انسان اس سوراخ میں ہاتھ نہیں ڈالتا جس کی نسبت اُس کو یقین ہو کہ اس میں سانپ ہے۔ اور ایسی چیز کو ہرگز نہیں کھاتا جس کو یقین کرتا ہے کہ وہ زہر ہے۔ پھر کیا باعث کہ وہ اس طرح خدائے تعالیٰ سے نہیں ڈرتا اور ہزاروں فسق و فجور گستاخی سے کرتا ہے اور گو پیرانہ سالی تک بھی نوبت پہنچ جائے پھر بھی نہیں ڈرتا۔ اس کا یہی سبب ہے کہ وہ اُس حقیقی منتقم کے وجود اور ہستی سے بالکل بے خبر ہے جو گناہ کی سزا دے سکتا ہے۔

افسوس کہ اکثر انسانوں نے بدقسمتی سے اس اصول کی طرف توجہ نہیں کی اور ایسے بے ہودہ طریق گناہ سے پاک ہونے کیلئے اپنے دل سے تراشے ہیں کہ وہ اور بھی گناہ پر گستاخ کرتے ہیں ، مثلاً یہ خیال کہ گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب دیئے جانے پر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 35

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 35

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/35/mode/1up


ایمان لانا اور اُن کو خدا سمجھنا انسان کے تمام گناہ معاف ہو جانے کا موجب ہے۔ کیا ایسے خیال سے توقع ہوسکتی ہے کہ انسان میں سچی نفرت گناہ سے پیدا کرے۔ صاف ظاہر ہے کہ ہر ایک ضد اپنی ضد سے دُور ہوتی ہے۔ سردی کو گرمی دُور کرتی ہے اور تاریکی کے ازالہ کا علاج روشنی ہے۔ پھر یہ علاج کس قسم کا ہے کہ زید کے مصلوب ہونے سے بکر گناہ سے پاک ہوجائے۔ بلکہ یہ انسانی غلطیاں ہیں کہ جو غفلت اور دنیا پرستی کے زمانہ میں دلوں میں سما جاتی ہیں۔ اور جن پست خیالات کی وجہ سے دنیا میں بت پرستی نے رواج پایا ہے فی الحقیقت ایسے ہی نفسانی اغراض کے سبب سے یہ مذہب صلیب اور کفارہ کا عیسائیوں میں رواج پاگیا ہے۔

اصل امر یہ ہے کہ انسان کا نفس کچھ ایسا واقع ہے کہ ایسے طریق کو زیادہ پسند کرلیتا ہے جس میں کوئی محنت اور مشقت نہیں۔ مگر سچی پاکیزگی بہت سے دُکھ اور مجاہدات کو چاہتی ہے اور وہ پاک زندگی حاصل نہیں ہوسکتی جب تک انسان موت کا پیالہ نہ پی لے۔ پس جیسا کہ انسان کی عادت ہے کہ وہ تنگ اور مشکل راہوں سے پرہیز کرتا ہے اور سہل اور آسان طریق ڈھونڈتا ہے۔ اسیؔ طرح ان لوگوں کو یہ طریق صلیب جو صرف زبان کا اقرار ہے اور رُوح پر کسی مشقت کا اثر نہیں بہت پسند آگیا ہے جس کی وجہ سے خدائے تعالیٰ کی محبت ٹھنڈی ہوگئی ہے۔ اور نہیں چاہتے کہ گناہوں سے نفرت کرکے پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کریں۔ درحقیقت صلیبی اعتقاد ایک ایسا عقیدہ ہے جو اُن لوگوں کو خوش کر دیتا ہے جو سچی پاکیزگی حاصل کرنا نہیں چاہتے اور کسی ایسے نسخہ کی تلاش میں رہتے ہیں کہ گندی زندگی بھی موجود ہو اور گناہ بھی معاف ہوجائیں لہٰذا وہ باوجود بہت سی آلودگیوں کے خیال کر لیتے ہیں کہ فقط خونِ مسیح پر ایمان لانے سے گناہ سے پاک ہوگئے۔ مگر یہ پاک ہونا درحقیقت ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک پھوڑا جو پیپ سے بھرا ہوا ہو اور باہر سے چمکتا ہوا نظر آئے۔ اور اگر غور کرنے والی طبیعتیں ہوں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 36

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 36

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/36/mode/1up


تو اس صلیبی نسخہ کا غلط ہونا خود صلیب پرستوں کے حالات سے واضح ہوسکتاہے کہ وہ کہاں تک دنیا پرستی اور ہوا وہوس کو چھوڑ کر خدا ئے تعالیٰ کی محبت میں محو ہوگئے ہیں۔ جو شخص یورپ کے ممالک کی سیر کرے وہ خود دیکھ لے گا کہ دنیا کی عیّاشی اور بے قیدی اور شراب خواری اور نفس پرستی اور دوسرے فسق و فجور کس درجہ تک ان لوگوں میں پائے جاتے ہیں جو بڑے حام ئ دین کہلاتے ہیں اور جو اس ملک کے جاہل لوگوں کی طرح نہیں بلکہ تعلیم یافتہ اور مہذّب ہیں۔ سب سے زیادہ خونِ مسیح پر زور دینے والے پادری صاحبان ہیں۔ سو اکثر اُن کے شراب خواری میں جو اُمّ الخبائث ہے مبتلا ہیں بلکہ بعض کے حالات جو اخباروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں ایسے قابلِ شرم ہیں جو ناگفتہ بہ۔ چنانچہ آج ہی ہم نے ایک اخبار میں پڑھا ہے کہ ولایت سے ایک پادری صاحب پکڑا آرہا ہے جس نے لڑکیوں کے ساتھ بدفعلی کی۔ اُس پادری صاحب کانام ڈاکٹر ساندی لینڈز ہے۔ پادری صاحب مذکور بٹھنڈارہ ناگپور میں مشنری یتیم خانہ کے پرنسپل تھے۔ اگست کی بات ہے ۲۴؍ اگست کی رات کو اُن کے کمرہ میں ایک لڑکی پائی گئی۔ جواب نہ دے سکے ۔ مستعفی ہوکر چلے جانے پر معلوم ہوا کہ ستر۱۷ہ لڑکیوں سے بدفعلیاں کیں۔ اظہار پولیس میں اور بھی گُل کھلا۔ معلوم ہوا کہ ناجائز عمل جرّاحی بھی کیا یعنی حمل گرایا۔ وارنٹ نکلا ولایت میں گرفتار ہوئے۔ ہندوستان پہنچنے پر مقدمہ ہائی کورٹ بمبئی کی اجلاس ششن میں ہوگا۔ دیکھو پایونیئر واخبار عام ۸؍ فروری ۱۹۰۵ ؁ء پہلاؔ کالم۔ اور ۹؍ فروری ۱۹۰۵ ؁ء صفحہ ۶ دوسراکالم۔ اب ظاہر ہے کہ جبکہ یہ لوگ کہ جو بڑے مقدس پادری کہلاتے ہیں اور خونِ مسیح سے فیض اُٹھانے میں اوّل درجہ پر ہیں اُن کا یہ حال ہے تو دوسرے بیچارے اس نسخہ سے کیا فائدہ اُٹھائیں گے۔ سو یاد رہے کہ یہ طریق حقیقی پاکیزگی حاصل کرنے کا ہرگز نہیں ہے۔ اور وقت آتا جاتا ہے بلکہ قریب ہے کہ لوگ اس غلط طریق پر خود متنبہ ہوجائیں گے۔ طریق وہی ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔ ہر ایک شخص جو خدائے تعالیٰ کی طرف آیا ہے اِسی دروازہ سے داخل ہوا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 37

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 37

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/37/mode/1up


ہاں یہ دروازہ بہت تنگ ہے اور اس کے اندر داخل ہونے والے بہت تھوڑے ہیں کیونکہ اس دروازہ کی دہلیز موت ہے اور خدا کو دیکھ کر اُس کی راہ میں اپنی ساری قوت اور سارے وجود سے کھڑے ہو جانا اُس کی چوکھٹ ہے۔ پس بہت ہی تھوڑے ہیں جو اس دروازے میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ افسوس کہ ہمارے ملک میں عیسائی صاحبوں کو تو حضرت مسیح کے خون کے خیال نے اس دروازہ سے دُور ڈال دیا اور آریہ صاحبوں کو تناسخ کے خیال اور توبہ نہ قبول ہونے کے عقیدہ نے اس دروازہ سے محروم کردیا کیونکہ اُن کے نزدیک گناہ کے بعد بجز طرح طرح کے جونوں میں پڑنے کے اسی زندگی میں اور کوئی طریق پاک ہونے کا نہیں۔ اور تو بہ یعنی خدا تعالیٰ کی طرف ایک موت کی حالت بناکر پر صدق دل سے رجوع کرنا اور موت کی سی حالت بناکر اپنی قربانی آپ ادا کرنا اُن کے نزدیک ایک لغو خیال ہے۔ پس یہ دونوں فریق اُس حقیقی راہ سے محروم ہیں۔

آریہ صاحبوں کے لئے اور بھی مشکلات ہیں کہ اُن کیلئے خدائے تعالیٰ پر یقین کرنے کی کوئی بھی راہ کھلی نہیں۔ نہ معقولی نہ سماوی۔ معقولی اس لئے نہیں کہ اُن کے خیال کے مطابق ارواح مع اپنی تمام طاقتوں کے خود بخود ہیں اور پرکرتی یعنی اجزاء عالم مع اپنے تمام گنوں کے خود بخود ہیں تو پھر پرمیشر کے وجود پر کونسی عقلی دلیل رہی کیونکہ اگر سب کچھ خود بخود ہے تو پھر کیاوجہ کہ ان چیزوں کا جوڑ خود بخود نہیں۔ سو یہ مذہب دہریہ مذہب سے بہت نزدیک ہے۔ اور اگر خدا نے ان لوگوں کو اس غلط راہ سے توبہ نصیب نہ کی تو کسی دن سب دہریہ ہو جائیں گے۔ اسی طرح سماوی طریق سے بھی خدا تعالیٰ کی شناخت سے بے نصیب ہیں۔ کیونکہ سماوی طرؔ یق سے مراد آسمانی نشان ہیں جو خدائے تعالیٰ کے وجود پر تازہ بتازہ نشان ہوتے ہیں۔ جن کو زندہ خدا پر ایمان لانے والا آدمی مشاہدہ کرتا رہتا ہے اور یقینی طور پر اُس کا تصرف ہر ایک چیز پر دیکھتا ہے۔ سو یہ لوگ ان نشانوں سے قطعاً منکر ہیں لہٰذا خدا شناسی کے دونوں دروازے ان لوگوں پر بند ہیں۔ ہاں محض تعصّب کے طور پر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 38

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 38

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/38/mode/1up


مباحثاتِ مذہبیّہ میں بڑی سرگرمی دکھلاتے ہیں۔ اور سخت گوئی اور بدزبانی اور منہ کی تیزی میں ایک طور سے پادری صاحبوں سے بھی کچھ آگے قدم ہے۔ لیکن خدائے تعالیٰ کی معرفت اُن کو ہرگز نصیب نہیں کیونکہ اوّل تو خدا تعالیٰ عقلی طور پر اپنی خالقیت سے شناخت کیا جاتا ہے مگر اُن کے نزدیک خدائے تعالیٰ خالق نہیں ہے۔ پس مصنوعات کے لحاظ سے اُن کے پاس اُس کے وجود پر کوئی دلیل نہیں اور دوسرا طریق شناخت خدائے تعالیٰ کا آسمانی نشان ہیں مگر وہ اُن سے منکر اور قطعاً اس راہ سے بے نصیب ہیں اور صرف پرمیشر کے نام کے لفظ ہاتھ میں ہیں اور اُس کی ہستی سے بے خبر۔ افسوس یہ لوگ نہیں جانتے کہ انسان ہزار اپنی زبان سے بک بک کرے اس سے کیا فائدہ جب تک اس کو اپنے خدا کی ایسی شناخت حاصل نہ ہو جائے جس سے اُس کی سفلی زندگی پر موت آجائے۔ اور اُس کا دل خدائے تعالیٰ کی محبت سے بھر جائے اور گناہ سے اس کو نفرت ہو جائے۔

یوں تو ہر ایک شخص دعویٰ کرسکتا ہے کہ میں ایسا ہی ہوں لیکن سچے پرستاروں کے یہ نشان ہیں کہ خدائے تعالیٰ کی سچی محبت کی وجہ سے اُن میں ایک برکت پیدا ہوجاتی ہے اور خدائے تعالیٰ کی قولی اور فعلی تجلی اُن کے شامل حال ہو جاتی ہے۔ یعنی وہ خدائے تعالیٰ کے ہم کلام ہو جاتے ہیں اور خدائے تعالیٰ کے معجزانہ افعال اُن میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اور خدائے تعالیٰ بہت سے الہامات ایسے اُن پر ظاہر کرتا ہے جن میں آئندہ نصرتوں کے وعدے ہوتے ہیں اور پھر دوسرے وقت میں وہ نصرتیں ظاہر ہو جاتی ہیں اور اس طرح پر وہ اپنے خدا کو پہچان لیتے ہیں اور خاص نشانوں کے ساتھ غیر سے ممتاز ہو جاتے ہیں۔ اُن کو ایک قوتِ جذب دی جاتی ہے جس سے لوگ اُن کی طرف کھینچے جاتے ہیں۔ اور عشقِ الٰہی اُن کے منہ پر برستا ہے۔ اور اگر یہ مابہؔ الامتیاز نہ ہو تو پھر ہر ایک بدمعاش جو پوشیدہ طور پر زانی فاسق فاجر شراب خور اور پلید طبع ہو نیک کہلا سکتا ہے پھر حقیقی نیک اور اس مصنوعی نیک میں فرق کیا ہوگا۔ پس فرق کرنے کیلئے ہمیشہ سے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 39

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 39

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/39/mode/1up


یہ عادتِ الٰہی ہے کہ راستبازوں کی معجزانہ زندگی ہوتی ہے۔ او ر خدا کی نصرت اُن کے شامل حال رہتی ہے اور ایسے طور سے شامل حال ہوتی ہے کہ وہ سراسر معجزہ ہوتا ہے۔

یاد رکھناچاہئے کہ ایک راستباز کی معجزانہ زندگی زمین اورآسمان سے زیادہ تر خدائے تعالیٰ کے وجود پر دلالت کرتی ہے کیونکہ کسی نے نہیں دیکھا کہ زمین اور آسمان کو خدا نے اپنے ہاتھ سے بنایا۔ صرف اس عالم کی پُرحکمت صنعت کو دیکھ کر اور اس کی ترکیب کو ابلغ اور محکم پاکر عقل سلیم اس بات کی ضرورت سمجھتی ہے کہ ان بے مثل مصنوعات کا کوئی صانع ہوناچاہیے۔ مگر عقل اپنی معرفت میں اس حد تک نہیں پہنچتی کہ فی الواقع وہ صانع موجود بھی ہے کیونکہ اُس نے اس صانع کو بناتے نہیں دیکھا اور عقلی خدا شناسی کا تمام مدار صرف ضرورتِ صانع پر رکھا گیا ہے نہ یہ کہ اس کا ہونا مشاہدہ کیا گیا ہے لیکن راستباز کی معجزانہ زندگی واقعی طور پر اور مشاہدہ کے پیرایہ میں خدائے تعالیٰ کی ہستی کو دکھلاتی ہے کیونکہ راستباز اپنی سب ابتدائی حالت میں ایک ذرّہ بے مقدار کی طرح ہوتا ہے یا ایک رائی کے بیج کی طرح جس کو ایک کسان نے بویا اور نہایت ذلیل حالت میں پڑا ہوا ہوتا ہے۔ تب وحی کے ذریعہ سے خدا دنیا کو اطلاع دیتا ہے کہ دیکھو میں اس کو بناؤں گا۔ میں ستاروں کی طرح اُس میں چمک ڈالوں گا اورآسمان کی طرح اُس کو بلند کروں گا۔ اور ایک ذرّہ کو ایک پہاڑ کی طرح کر دکھاؤں گا۔ پھر بعد اس کے باوجود اس بات کے کہ دنیا کے تمام شریر چاہتے ہیں کہ وہ ارادۂ الٰہی معرضِ التواء میں رہے۔ اور ناخنوں تک زور لگاتے ہیں کہ وہ امر ہونے نہ پائے مگر وہ رُک نہیں سکتا جب تک پورا نہ ہو اور خدا کا ہاتھ سب روکوں کو دور کرکے اس کو پورا کرتا ہے وہ ایک گمنام کو اپنی پیشگوئی کے مطابق ایک عظیم الشان جماعت بنا دیتا ہے۔ وہ تمام مستعد لوگوں کو اس کی طرف کھینچتا ہے۔ وہ اُس گمنام کو ایسی شہرت دیتاؔ ہے کہ کبھی اُس کے باپ دادوں کو نصیب نہ ہوئی۔ وہ ہر میدان میں اس کا ہاتھ پکڑتا ہے اور ہر ایک جنگ میں اس کو فتح دیتا ہے اور ایک دنیا کو اُس کا غلام کرتا ہے اور لاکھوں انسانوں کو اس کی طرف



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 40

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 40

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/40/mode/1up


کھینچ لاتا ہے اور اُس کی تعلیم اُن کے دلوں میں بٹھا دیتا ہے۔ اور رُوح القدس سے اُن کی مدد کرتا ہے ۔ وہ اُس کے دشمنوں کا دشمن اور اس کے دوستوں کا دوست ہوجاتا ہے اور اُس کے دشمن سے وہ آپ لڑتا ہے۔ اسی لئے میں نے کہا ہے کہ راستباز کی معجزانہ زندگی آسمان و زمین سے زیادہ خدائے تعالیٰ کے وجود پر دلالت کرتی ہے کیونکہ لوگوں نے زمین و آسمان کو بچشم خود خدا کے ہاتھ سے بنتے نہیں دیکھا لیکن وہ بچشم خود دیکھ لیتے ہیں کہ خدا راستباز کے اقبال کی عمارت کو اپنے ہاتھ سے بناتا ہے۔ وہ ایک زمانہ دراز پہلے خبر دے دیتا ہے کہ میں ایسا کروں گا اور ایسا اس کو بنا دوں گا۔ اور پھر باوجود سخت روکوں اور شدید مزاحمتوں کے جو شریر انسانوں کی طرف سے ہوتی ہیں ایسا ہی کرکے دکھلا دیتا ہے۔

پس یہ نشان حق کے طالب کو حق الیقین تک پہنچاتا ہے اوروہ خدائے تعالیٰ کے وجود پر ایک قطعی دلیل ہوتی ہے۔ مگر اُن کے لئے جو خدائے تعالیٰ کے طالب ہیں اور تکبّر نہیں کرتے اور حق کو پاکر انکسار سے قبول کر لیتے ہیں۔ اس زمانہ میں بھی خدا نے ایسے نشان بہت جمع کئے ہیں۔ کاش لوگ اُن میں غور کرتے اور اپنے تئیں یقین اور معرفت کے چراغ سے روشن کرکے نجات کے لائق ٹھہرا دیتے۔ لیکن شریر انسان کو خدا کے نشانوں سے ہدایت حاصل کرنا نصیب نہیں۔ وہ روشنی کو دیکھ کر آنکھ بند کر لیتا ہے تا ایسا نہ ہو کہ روشنی اُس کی آنکھوں کو منور کرے اورراہ دکھائی دے۔ شریر آدمی ہزار نشان دیکھ کر اس سے منہ پھیر لیتا ہے اور ایک بات جس کو اپنی ہی حماقت سے سمجھ نہیں سکا بار بار پیش کرتا ہے۔ وہ شخص جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اُس پر یہ فرض نہیں ہے کہ ایسے نشان دکھائے جس سے ستارے زمین پر گریںیا آفتاب مغرب سے طلوع کرے یا بکری کو انسان بناکر دکھلا دے یا لوگوں کے روبرو آسمان پر چڑھ جائے اور ان کے روبروہی اُترے اور آسمان سے ایکؔ لکھی ہوئی کتاب لائے جس کو لوگ خود ہاتھوں میں لے کر پڑھ لیں یا اس کے تمام مکانات سونے کے بن جائیں یا اس کے ہاتھ سے لوگوں کے باپ دادے مرے ہوئے زندہ ہوکر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 41

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 41

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/41/mode/1up


قبروں سے بولتے ہوئے اور چیختے ہوئے نکلیں اور اپنے بیٹوں کو *** کریں اور نفرین کرکے کہیں کہ یہ تو حقیقت میں سچا خدا کا رسول تھا یہ غضب تم نے کیا کیا کہ اُس کے منکر ہوگئے۔ ہم بچشم خود دیکھ آئے ہیں کہ اس پر ایمان لانے والا سیدھا بہشت کی طرف جاتا ہے اور اس سے منکر رہنے والا نہایت ذلیل حالت میں دوزخ میں ڈالا جاتا ہے اور شہر میں جلسے کریں اور تمام منکروں کو اُن جلسوں میں بلائیں اور اپنی اولاد کو کہیں کہ تم جانتے ہو کہ ہم تمہارے باپ دادا ہیں اور تم جانتے ہو کہ ہم کس قدر اس شخص کے دشمن تھے لیکن جب ہم مرگئے تو اس کی دشمنی کی وجہ سے ہم دوزخ میں ڈالے گئے۔ دیکھو ہمارے بدن آگ میں جھلسے ہوئے اور سیاہ ہو رہے ہیں اور تمہارے روبرو ہم قبروں میں سے نکلے ہیں تاہم گواہی دیں کہ یہ شخص خدا کی طرف سے اور سچا نبی ہے۔ یاد رکھو کہ ایسے لیکچر کبھی مردوں نے قبروں میں سے نکل کر نہیں دیئے۔ اور کبھی اور کسی زمانہ میں ایسے جلسے نہیں ہوئے کہ چند لوگوں کے باپ دادا قبروں میں سے زندہ ہوکر نکل آئے ہوں۔ تب ایک مکان جلسہ کا مقرر ہوکر تمام شہر کے لوگ اُن مردوں کے سامنے بلائے گئے ہوں اور اُن مُردوں نے ہزاروں لوگوں کے روبرو کھڑے ہوکر بلند آواز سے یہ لیکچر دیئے ہوں کہ اے حاضرین! ہم آپ کا شکر کرتے ہیں کہ آپ ہمارا لیکچر سننے کے لئے آئے۔ آپ صاحبان جانتے ہیں اور ہمیں خوب پہچانتے ہیں کہ ہم فلاں فلاں محلہ کے رہنے والے او رفلاں فلاں شخص کے دادا پڑدادا ہیں اور چند سال ہوئے کہ ہم طاعون سے یا ہیضہ سے یا کسی اور بیماری سے فوت ہوگئے تھے اور آپ لوگ ہمارے جنازہ میں شریک تھے اور آپ لوگوں نے ہی ہمیں دفن کیا تھا یا پھونک دیا تھا پھر بعد اس کے آپ صاحبوں نے اِس بزرگ نبی کو جو ہمارے سامنے صدر نشینی کی کرسی کو زیب دے رہا ہے نہایت تحقیر سے ردّکیا اور اس کو جھوٹا خیال کیا اور اس سے چاہا کہ معجزہ کے طور پر چند مردے زندہ ہوں تب اس کی دُعا سے ہم زندہ ہوگئے جو اس وقت آپ صاحبوں کے سامنے کھڑے ہیں۔ صاحبان آنکھ کھول کر دیکھ لو کہ ہم وہی ہیں اور ہم سے ہمارے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 42

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 42

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/42/mode/1up


پورے قصے پوچھ لو۔اور اس وقت زندؔ ہ ہو کرہم چشم دید گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص درحقیقت سچا ہے اور ہم اس کے نہ ماننے کی وجہ سے دوزخ میں جلتے ہوئے آئے ہیں سو ہماری گواہی چشم دید گواہی ہے اس کو قبول کرو تا تم دوزخ سے بچ جاؤ۔ اب کیا کوئی کانشنس کوئی ضمیر کوئی نورِ قلب قبول کرتا ہے کہ ایسا لیکچر کسی مُردہ نے زندہ ہوکر دیا اور پھر لوگوں نے قبول نہ کیا۔

پس جوشخص اب بھی نہیں سمجھتا کہ نشان کس حد تک ظاہر ہوتے ہیں وہ خود مردہ ہے اگر نشانوں میں ایسے لیکچر مُردوں کی طرف سے ضروری ہیں تو پھر ایمان کا کچھ فائدہ نہیں۔ کیونکہ ایمان اُس حد تک ایمان کہلاتا ہے کہ ایک بات من وجہٍ ظاہر ہو اور من وجہٍ پوشیدہ بھی ہو یعنی ایک بار یک نظر سے اُس کا ثبوت ملتا ہو اور اگر باریک نظر سے نہ دیکھا جائے تو سرسری طور پر حقیقت پوشیدہ رہ سکتی ہو۔ لیکن جب سارا پردہ ہی کھل گیا تو کون ہے کہ ایسی کھلی بات کو قبول نہیں کرے گا۔ سو معجزات سے وہ امور خارق عادت مراد ہیں جو باریک اور منصفانہ نظر سے ثابت ہوں اور بجز مؤیّدانِ الٰہی دوسرے لوگ ایسے امور پر قادر نہ ہوسکیں اِسی وجہ سے وہ امورخارق عادت کہلاتے ہیں۔ مگر بدبخت ازلی اُن معجزانہ امور سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے جیسا کہ یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام سے کئی معجزات دیکھے مگر اُن سے کچھ فائدہ نہ اُٹھایا اور انکار کرنے کیلئے ایک دوسرا پہلو لے لیا کہ ایک شخص کی بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں جیسا کہ باراں تختوں کی پیشگوئی جو حواریوں کیلئے کی گئی تھی اُن میں سے ایک مرتد ہوگیا۔ یہودیوں کا بادشاہ ہونے کا دعویٰ بے بنیاد ثابت ہوا۔ اور پھر تاویل کی گئی کہ میری مراد اس سے آسمانی بادشاہت ہے۔ اور یہ بھی پیشگوئی حضرت مسیح نے کی تھی کہ ابھی اِس زمانہ کے لوگ زندہ ہوں گے کہ میں پھر دنیا میں آؤں گا۔ مگر یہ پیشگوئی بھی صریح طور پر جھوٹی ثابت ہوئی۔اور پھر پہلے نبیوں نے مسیح کی نسبت یہ پیشگوئی کی تھی کہ وہ نہیں آئے گا جب تک کہ الیاس دوبارہ دنیا میں نہ آجائے مگر الیاس نہ آیا۔ اور یسوع ابن مریم نے یونہی مسیح موعود ہونے کادعویٰ کردیا حالانکہ الیاس دوبارہ دنیا میں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 43

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 43

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/43/mode/1up


نہ آیا۔ اور جب پوچھا گیا تو الیاس موعود کی جگہ یوحنا یعنی یحییٰ نبی کو الیاس ٹھہرا دیا۔ تا ؔ کسی طرح مسیح موعود بن جائے حالانکہ پہلے نبیوں نے آنے والے الیاس کی نسبت ہرگز یہ تاویل نہیں کی اور خود یوحنا نبی نے الیاس سے مراد وہی الیاس مراد رکھا جودنیا سے گذر گیا تھا۔ مگر مسیح نے یعنی یسوع بن مریم نے اپنی بات بنانے کیلئے پہلے نبیوں اور تمام راستبازوں کے اجماع کے برخلاف الیاس آنے والے سے مراد یوحنا اپنے مرشد کو قرار دے دیا اور عجیب یہ کہ یوحنا اپنے الیاس ہونے سے خود منکر ہے۔ مگر تاہم یسوع ابن مریم نے زبردستی اس کو الیاس ٹھہراہی دیا۔

اب سوچنے کی بات ہے کہ یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے نشانوں سے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا اور اب تک کہتے ہیں کہ اُس سے کوئی معجزہ نہیں ہوا صرف مکر و فریب تھا۔ اِسی لئے حضرت مسیح کو کہنا پڑا کہ اس زمانہ کے حرام کار مجھ سے معجزہ مانگتے ہیں انہیں کوئی معجزہ دکھایا نہیں جائے گا۔

درحقیقت معجزات کی مثال ایسی ہے جیسے چاندنی رات کی روشنی جس کے کسی حصہ میں کچھ بادل بھی ہو مگر وہ شخص جو شب کو ر ہو جو رات کو کچھ دیکھ نہیں سکتا اُس کیلئے یہ چاندنی کچھ مفید نہیں۔ ایسا تو ہرگز نہیں ہوسکتا اور نہ کبھی ہوا کہ اِس دنیا کے معجزات اُسی رنگ سے ظاہر ہوں جس رنگ سے قیامت میں ظہور ہوگا۔ مثلاً دو تین سو مُردے زندہ ہو جائیں اور بہشتی پھل اُن کے پاس ہوں اور دوزخ کی آگ کی چنگاریاں بھی پاس رکھتے ہوں اور شہر بشہر دورہ کریں اور ایک نبی کی سچائی پر جو قوم کے درمیان ہو گواہی دیں اور لوگ اُن کو شناخت کرلیں کہ درحقیقت یہ لوگ مرچکے تھے اور اب زندہ ہوگئے ہیں اور وعظوں اور لیکچروں سے شور مچا دیں کہ درحقیقت یہ شخص جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے سچا ہے۔ سو یاد رہے کہ ایسے معجزات کبھی ظاہر نہیں ہوئے اور نہ آئندہ قیامت سے پہلے کبھی ظاہر ہوں گے۔ اور جو شخص دعویٰ کرتا ہے کہ ایسے معجزات کبھی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 44

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 44

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/44/mode/1up


ظاہر ہوچکے ہیں وہ محض بے بنیاد قصوں سے فریب خوردہ ہے اور اُس کو سنت اللہ کا علم نہیں اگر ایسے معجزات ظاہر ہوتے تو دنیا دنیا نہ رہتی اور تمام پردے کھل جاتے اور ایمان لانے کا ایک ذرّہ بھی ثواب باقی نہ رہتا۔

یاد ؔ رہے کہ معجزہ صرف حق اور باطل میں فرق دکھلانے کیلئے اہل حق کو دیا جاتا ہے اور معجزہ کی اصل غرض صرف اس قدر ہے کہ عقلمندوں اور منصفوں کے نزدیک سچے اور جھوٹے میں ایک مابہ الامتیاز قائم ہوجائے اور اُسی حد تک معجزہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو مابہ الامتیاز قائم کرنے کیلئے کافی ہو۔ اور یہ اندازہ ہر ایک زمانہ کی حاجت کے مناسبِ حال ہوتا ہے اور نیز نوعیّتِ معجزہ بھی حسبِ حال زمانہ ہی ہوتی ہے۔ یہ بات ہرگز نہیں ہے کہ ہر ایک متعصب اور جاہل اور بدطبع گو کیسا ہی مصلحتِ الہٰیّہ کے برخلاف اور قدرِ ضرورت سے بڑھ کر کوئی معجزہ مانگے تو وہ بہرحال دکھلانا ہی پڑے۔ یہ طریق جیسا کہ حکمت الہٰیّہ کے برخلاف ہے ایسا ہی انسان کی ایمانی حالت کو بھی مضر ہے کیونکہ اگر معجزات کا حلقہ ایسا وسیع کردیا جائے کہ جو کچھ قیامت کے وقت پر موقوف رکھا گیا ہے وہ سب دنیا میں ہی بذریعہ معجزہ ظاہر ہوسکے تو پھر قیامت اور دنیا میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ حالانکہ اسی فرق کی وجہ سے جن اعمال صالحہ اور عقائد صحیحہ کا جو دنیا میں اختیار کئے جائیں ثواب ملتا ہے وہی عقائد اور اعمال اگر قیامت کو اختیار کئے جائیں توایک رَتی بھی ثواب نہیں ملے گا۔ جیسا کہ تمام نبیوں کی کتابوں اور قرآن شریف میں بھی بیان فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن کسی بات کا قبول کرنا یا کوئی عمل کرنا نفع نہیں دے گا اور اُس وقت ایمان لانا محض بیکار ہوگا۔ کیونکہ ایمان اُسی حد تک ایمان کہلاتا ہے جبکہ کسی مخفی بات کو ماننا پڑے لیکن جب کہ پردہ ہی کھل گیا اور رُوحانی عالم کا دن چڑھ گیا اور ایسے امور قطعی طور پر ظاہر ہوگئے کہ خدا پر اور روزجزا پر شک کرنے کی کوئی بھی وجہ نہ رہی تو پھر کسی بات کواُس وقت ماننا جس کو دوسرے لفظوں میں ایمان کہتے ہیں محض تحصیلِ حاصل ہوگا۔ غرض



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 45

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 45

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/45/mode/1up


نشان اس درجہ پر کھلی کھلی چیز نہیں ہے جس کے ماننے کیلئے تمام دنیا بغیر اختلاف اور بغیر عذر اور بغیر چون و چرا کے مجبور ہو جائے۔ اور کسی طبیعت کے انسان کو اُس کے نشان ہونے میں کلام نہ رہے اور کسی غبی سے غبی انسان پر بھی وہ امر مشتبہ نہ رہے۔

غرض نشان اور معجزہ ہر ایک طبیعت کیلئے ایک بدیہی امر نہیں جو دیکھتے ہی ضروری التسلیم ہو بلکہ نشانوں سے وہی عقلمند اور منصف اور راستباز اور راست طبع فائدہ اٹھاتے ہیںؔ جو اپنی فراست اور دوربینی اور باریک نظر اور انصاف پسندی اور خدا ترسی اور تقویٰ شعاری سے دیکھ لیتے ہیں کہ وہ۔۔۔ ایسے امور ہیں جو دنیا کی معمولی باتوں میں سے نہیں ہیں اور نہ ایک کاذب اُن کے دکھلانے پر قادر ہوسکتا ہے اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ امور انسانی بناوٹ سے بہت دور ہیں اور بشری دسترس سے برتر ہیں اور اُن میں ایک ایسی خصوصیت اورامتیازی علامت ہے جس پر انسان کی معمولی طاقتیں اور پُرتکلف منصوبے قدرت نہیں پاسکتے اور وہ اپنے لطیف فہم اور نُورِ فراست سے اس تہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ اُن کے اندر ایک نُور ہے اور خدا کے ہاتھ کی ایک خوشبو ہے جس پر مکر اور فریب یا کسی چالاکی کا شُبہ نہیں ہوسکتا ۔ پس جس طرح سورج کی روشنی پر یقین لانے کیلئے صرف وہ روشنی ہی کافی نہیں بلکہ آنکھ کے نور کی بھی ضرورت ہے تا اُس روشنی کو دیکھ سکے اِسی طرح معجزہ کی روشنی پر یقین لانے کیلئے فقط معجزہ ہی کافی نہیں ہے بلکہ نورِ فراست کی بھی ضرورت ہے اور جب تک معجزہ دیکھنے والے کی سرشت میں فراستِ صحیحہ اور عقل سلیم کی روشنی نہ ہو تب تک اس کا قبول کرنا غیر ممکن ہے مگر بدبخت انسان جس کو یہ نورِ فراست عطا نہیں ہوا وہ ایسے معجزات سے جو صرف امتیازی حد تک ہیں تسلّی نہیں پاتا اور بار بار یہی سوال کرتا ہے کہ بجز ایسے معجزہ کے میں کسی معجزہ کو قبول نہیں کرسکتا کہ جو نمونہ قیامت ہو جائے ۔ مثلاً کوئی شخص میرے روبرو آسمان پر چڑھ جائے اور پھر روبرو ہی آسمان سے اُترے اور اپنے ساتھ کوئی ایسی کتاب لائے جو اُترنے کے وقت اس کے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 46

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 46

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/46/mode/1up


ہاتھ میں ہو۔ اور صرف اسی پر کفایت نہیں بلکہ تب مانیں گے کہ ہم اس کتاب کو ہاتھ میں لے کر دیکھ لیں اور پڑھ لیں۔ یا چاند کا ٹکڑا یا سورج کا ٹکڑا اپنے ساتھ لائے جو زمین کو روشن کرسکے۔ یا فرشتے اس کے ساتھ آسمان سے اُتریں جو فرشتوں کی طرح خارق عادت کام کرکے دکھلائیں۔ یادس بیس مردے اُس کی دُعا سے زندہ ہو جائیں او وہ شناخت کئے جائیں کہ فلاں فلاں شخص کے باپ دادا ہیں جو فلاں تاریخ مرگئے تھے اور صرف اسی قدر کافی نہیں بلکہ ساتھ اس کے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ عام شہروں میں مجلسیں منعقد کرکے لیکچر دیں۔ اور بلند آواز سے کہہ دیں کہ درحقیقت ہم مُردے ہیں جو دوبارہ زندہ ہوکر دنیا میں آئے ہیں اورؔ ہم اسلئے آئے ہیں کہ تا گواہی دیں کہ فلاں مذہب سچا ہے یا فلاں شخص جو دعویٰ کرتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں وہ سچ کہتا ہے اور ہم خدا ئے تعالیٰ کے منہ سے سن کرآئے ہیں کہ وہ سچا ہے۔

یہ وہ خودتراشیدہ معجزات ہیں جو ا کثر جاہل لوگ جو ایمان کی حقیقت سے بکلّی بے خبر ہیں مانگا کرتے ہیں۔ یا ایسے ہی اور بیہودہ خوارق جو خدا ئے تعالیٰ کی اصل منشاء سے بہت دور ہیں طلب کیا کرتے ہیں۔ جیسا کہ مدت ہوئی کہ آریوں میں سے ایک شخص لیکھرام نام نے بھی قادیان میں آکر ایسے ہی نشان مجھ سے طلب کئے تھے اور ہر چند سمجھایا گیا کہ اصل غرض نشانوں کی صرف حق او ر باطل میں امتیاز ہے اور صرف امتیاز دکھلانے کی حد تک وہ ظاہر ہوتے ہیں مگر تعصب نے اس قدر اُس کو نافہم اور غبی کررکھا تھا کہ وہ اس حقیقت کو سمجھتا ہی نہیں تھا ۔ آخر وہ نشانوں سے منکر ہونے کی وجہ سے بمقام لاہور خدا کے نشان کا ہی نشانہ ہوگیا۔ اور جیسا کہ اُس کے حق میں اُس کی مفتریانہ پیشگوئی کے مقابل پر یہ پیشگوئی میں نے کی تھی کہ وہ چھ۶ سال کے اندر مارا جائے گا ایسا ہی ظہور میں آیا۔ اور اس قضاو قدر کو جس کی نسبت پانچ برس پہلے لاکھوں انسانوں میں اعلان کیا گیا تھا کوئی روک نہ سکا۔ اور اسلام اور آریہ مذہب میں ایک امتیازی نشان ظاہر ہوگیا۔ کیونکہ میری طرف سے یہ دعویٰ تھا کہ مذہب اسلام سچا ہے۔ اور لیکھرام کی طرف سے یہ دعویٰ تھا کہ آریہ مذہب سچا ہے اور لیکھرام نے اپنے دعویٰ کی تائید میں اپنی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 47

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 47

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/47/mode/1up


کتاب میں جو اب تک موجود ہے میری نسبت یہ شائع کیا تھا کہ مجھے پرمیشر کے الہام سے معلوم ہوا ہے کہ یہ شخص تین۳ برس میں ہیضہ کی بیماری سے فوت ہوجائے گا۔ اور اس کے مقابل پر میں نے خدائے تعالیٰ سے واقعی اطلاع پاکر یہ اشتہار دیا تھا کہ لیکھرام چھ۶ برس کے اندر مارا جائے گا اور اُس کے مارے جانے کا دن اور تاریخ مقرر کردی تھی۔چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔ یہ امتیازی نشان ہے جو مذہب اسلام کی سچائی پر گواہی دیتا ہے لیکن افسوس کہ آریہ صاحبوں نے اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔

غرض سچا مذہب صرف عقل کا دریوزہ گر نہیں ہوتا کہ یہ اس کیلئے عار ہے۔ اور اس سے شبہ گذرتا ہے کہ عقلمندوں کی باتیں چُراکر لکھی گئی ہیں کیونکہ دنیا میں عقلمند تھوڑے نہیں گذرے ہیں۔ بلکہ وہ ؔ علاوہ عقلی دلائل کے مذہب کی ذاتی خاصیت بھی پیش کرتا ہے جو آسمانی نشان ہیں اور یہی سچے مذہب کی حقیقی علامت ہے ہاں یہ سچ ہے کہ جو عوام الناس اور جاہل لوگ بعض مذاہب یا اشخاص کی نسبت خود تراشیدہ کرامات اور معجزات شائع کرتے ہیں جو نہایت مبالغہ آمیز باتیں ہوتی ہیں وہ کسی مذہب کا فخر نہیں ہیں بلکہ عار اور ننگ کی جگہ ہیں۔ اور ان فرضی معجزات کے ساتھ جس قدر حضرت عیسیٰ علیہ السلام متہم کئے گئے ہیں اس کی نظیر کسی اور نبی میں نہیں پائی جاتی یہاں تک کہ بعض جاہل خیال کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ہزاروں بلکہ لاکھوں مُردے زندہ کر ڈالے تھے۔یہاں تک کہ انجیلوں میں بھی یہ مبالغہ آمیز باتیں لکھی ہیں کہ ایک مرتبہ تمام گورستان جو ہزاروں برسوں کا چلا آتا تھا سب کا سب زندہ ہوگیا تھا اور تمام مُردے زندہ ہوکر شہر میں آگئے تھے۔

اب عقلمند قیاس کرسکتا ہے کہ باوجودیکہ کروڑہا انسان زندہ ہوکر شہر میں آگئے اور اپنے بیٹوں پوتوں کو آکر تمام قصے سنائے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سچائی کی تصدیق کی مگر پھر بھی یہودی ایمان نہ لائے اور اس درجہ کی سنگ دلی کو کون باور کرے گا۔ اوردرحقیقت اگر ہزاروں مُردے زندہ کرنا حضرت عیسیٰ کا پیشہ تھا تو جیسا کہ عقل کے رو سے سمجھا جاتا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 48

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 48

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/48/mode/1up


وہ تمام مردے بہرے اور گونگے تو نہیں ہوں گے۔ اور جن لوگوں کو ایسے معجزات دکھلائے جاتے تھے کوئی اُن مُردوں میں سے اُن کا بھائی ہوگا اور کوئی باپ اور کوئی بیٹا اور کوئی ماں اورکوئی دادی اور کوئی دادا اور کوئی دوسرا قریبی اور عزیز رشتہ دار۔ اِس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے کافروں کومومن بنانے کی ایک وسیع راہ کھل گئی تھی۔ کئی مُردے یہودیوں کے رشتہ دار اُن کے ساتھ ساتھ پھرتے ہوں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کئی شہروں میں اُن کے لیکچر دلائے ہوں گے۔ایسے لیکچر نہایت پُر بہار اور شوق انگیز ہوتے ہوں گے۔ جب ایک مردہ کھڑا ہوکر حاضرین کو سناتا ہوگا کہ اے حاضرین! آپ لوگوں میں بہت ایسے اس وقت موجود ہیں جو مجھے شناخت کرتے ہیں جنہوں نے مجھے اپنے ہاتھ سے دفن کیا تھا۔ اب میں خدا کے منہ سے سن کر آیاہوں کہ عیسیٰ مسیح سچا ہے اور اُسی نے مجھے زندہ کیا تو عجب لطف ہوتاہوگا اور ظاہر ہے کہ ایسے مردوں کے لیکچروں سے یہودی قوم کے لوگوں کے دلوں پر بڑے بڑے اثر ہوتے ہوں گے۔ اورہزاروں لاکھوں یہودی ایمان لاتے ہوں گے۔ پر قرآن شریف اور انجیل سے ثابت ہے کہ یہودؔ یوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ردکر دیا تھا۔ اور اصلاح مخلوق میں تمام نبیوں سے اُن کا گرا ہوا نمبر تھا اور تقریباً تمام یہودی اُن کو ایک مکّار اور کاذب خیال کرتے تھے۔

اب عقلمند سوچے کہ کیا ایسے بزرگ اور فوق العادت معجزات کا یہی نتیجہ ہونا چاہئے تھا جبکہ ہزاروں مُردوں نے زندہ ہوکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سچائی کی گواہی بھی دیدی اور یہ بھی کہہ دیا کہ ہم بہشت کو دیکھ آئے ہیں اُس میں صرف عیسائی ہیں جو حضرت عیسیٰ کے ماننے والے ہیں اور دوزخ کو دیکھا تو اس میں یہودی ہیں جو حضرت عیسیٰ کے منکر ہیں تو ان سب باتوں کے بعد کس کی مجال تھی کہ حضرت عیسیٰ کی سچائی میں ذرہ بھی شک کرتا۔اور اگر کوئی شک کرتا تو ان کے باپ دادا جو زندہ ہوکرآئے تھے اُن کو جان سے مارتے کہ

اے ناپاک لوگو! ہماری گواہی اور پھر بھی شک۔ پس یقیناًسمجھو کہ ایسے معجزات محض بناوٹ ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 49

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 49

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/49/mode/1up


معجزہ کے نفس امر میں شک نہیں مگر وہ اسی قدر ہوتا ہے جیسا کہ آگے ہم تفصیل سے بیان کریں گے۔

اس جگہ مسلمانوں پرنہایت افسوس ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف ایسے معجزات منسوب کرتے ہیں جو قرآن شریف کی بیان کردہ سنت کے مخالف ہیں۔ اور وہ راہ چلتے ہیں جس کا آگے کوچہ ہی بند ہے۔ اور نہ صرف اسی قدر کہ حضرت عیسیٰ کی نسبت عیسائیوں کی پرانی کہانیوں پر ایمان لائے ہوئے ہیں بلکہ آئندہ کیلئے تمام دنیا سے الگ کسی وقت آسمان سے اُن کا نازل ہونا مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آئندہ آخری زمانہ میں (حالانکہ عمردنیا کے رُو سے جو سات ہزار ہے یہی آخری زمانہ ہے) حضرت عیسیٰ آسمان سے فرشتوں کے ساتھ نازل ہوں گے اور ایک بڑا تماشا ہوگا اور لاکھوں آدمیوں کا ہجوم ہوگا اور آسمان کی طرف نظر ہوگی۔اور لوگ دور سے دیکھ کرکہیں گے کہ وہ آئے وہ آئے۔ اور دمشق میں ایک سفیدمینار کے قریب اُتریں گے۔ مگر تعجب کہ وہ غریب اور عاجز انسان جو اپنی نبوت ثابت کرنے کیلئے الیاس نبی کو دوبارہ دنیا میں نہ لاسکا یہاں تک کہ صلیب پر لٹکایا گیا۔ اُس کی نسبت ایسے ایسے کرشمے بیان کئے جاتے ہیں۔اگر یہ باتیں قبول کے لائق ہیں تو پھر کیوں حضرت سید عبد القادر جیلانی کی یہ کرامت جو لوگوں میں بہت مشہور ہو رہی ہے قبول نہیں کی جاتی کہ ایک کشتی جو مع برات دریامیں ڈوب گئی تھی انہوں نے بارہ برس کے بعد نکالی تھی اور سب لوگ زندہ تھے اور نقارے اور باجے اُن کے ساتھ بج رہے تھے۔ ایساؔ ہی یہ دوسری کرامت کہ ایک مرتبہ فرشتہ ملک الموت ان کے کسی مرید کی رُوح بغیر اجازت نکال کر لے گیا تھا انہوں نے اڑ کر آسمان پر اس کو جا پکڑا اور اُس کی ٹانگ پر لاٹھی ماری اور ہڈی توڑ دی ۔ اور اُس روز کی جس قدر روحیں نکالی گئی تھیں سب چھوڑ دیں اور وہ دوبارہ زندہ ہوگئیں۔ فرشتہ روتا ہوا خدا تعالیٰ کے پاس گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عبد القادر محبوبیّت کے مقام میں ہے اس کے کام کی نسبت کوئی دست اندازی نہیں ہوگی اگر وہ تمام گذشتہ مُردے زندہ کر دیتا تب بھی اُس کا اختیار تھا۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 50

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 50

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/50/mode/1up


اب جس حالت میں ایسی مشہور شدہ کرامات کو قبول نہیں کیا گیا جن کے قبول کرنے میں چنداں حرج نہ تھا تو پھر کیوں ایسے شخص کی طرف وہ باتیں منسوب کی جاتی ہیں جو نہ صرف قرآن شریف کی منشاء کے برخلاف ہیں بلکہ عیسیٰ پرستی کے شرک کو اُس سے مدد ملتی ہے جس نے چالیس کروڑ انسانوں کو خدائے تعالیٰ کی توحید سے محروم کردیا ہے میں نہیں سمجھ سکتا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم کو اور نبیوں پر کیا زیادتی اور کیا خصوصیت ہے۔ پھر اُس کو ایک خصوصیت دینا جو شرک کی جڑ ہے کس قدر کھلی کھلی ضلالت ہے جس سے ایک بڑی قوم تباہ ہوچکی ہے ہائے افسوس کہ انہوں نے محض مصنوعی کفارہ پر بھروسہ کرکے اپنے تئیں ہلاک کیا اور یہ خیال نہ کیا کہ نفس کے آتشی دریا سے وہی پار ہوگا جو اپنی کشتی اپنے ہاتھ سے بنائے گا اور وہی مزدوری لے گا جو اپنا کام آپ کرے گا اور وہی نقصان سے بچے گا جو اپنا بوجھ آپ اُٹھائے گا یہ کیسی جہالت ہے جو ایک انسان بیدست و پاہوکر دوسرے انسان پر اپنی کامیابی کیلئے بھروسہ کرے اور کسی کی جسمانی قوت کو اپنی روحانی زندگی کیلئے مفید سمجھے۔ خدا کا قانون ہے کہ اُس نے کسی انسان کو کسی امر میں خصوصیت نہیں دی اور کوئی انسان نہیں کہہ سکتا کہ مجھ میں ایک ایسی بات ہے جو دوسرے انسانوں میں نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ایسے انسان کو واقعی طور پر معبود ٹھہرانے کیلئے بنیاد پڑ جاتی۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بعض عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یہ خصوصیت پیش کی تھی کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں توفی الفور اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی اس آیت میں جواب دیا۔333۔۱؂ یعنی ’’عیسیٰ کی مثال آدم کی مثال ہے خدا نے اس کو مٹی سے پیدا کیا پھر اُس کو کہا کہ’’ ہو جا۔ سو وہ ہوگیا‘‘ ایسا ہی عیسیٰ بن مریم، مریم کے خون سے اور مریم کی منی سے پیدا ہوا اور پھر خدا نے کہا کہ ہو جا سو ہوگیا۔ پس اتنی بات میں کون سی خدائی اور کون سی خصوصیت اسؔ میں پیدا ہوگئی۔ موسم برسات میں ہزارہا کیڑے مکوڑے بغیر ماں اور باپ کے خودبخود زمین سے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 51

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 51

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/51/mode/1up


پیدا ہوجاتے ہیں۔ کوئی اُن کو خدا نہیں ٹھہراتا۔ کوئی اُن کی پرستش نہیں کرتا۔ کوئی اُن کے آگے سر نہیں جھکاتا۔ پھر خواہ نخواہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت اتنا شور کرنا اگر جہالت نہیں تو اور کیا ہے۔ اور یہ کہنا کہ وہ اب تک زندہ ہے اور دوسرے نبی سب فوت ہوچکے یہ قرآن شریف کی مخالفت ہے۔ اللہ تعالیٰ تو قرآن شریف میں بتصریح اُن کی موت بیان فرماتا ہے پھر وہ زندہ کیونکر ہوئے اور قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ ہرگز نہیں آئیں گے۔ جیسا کہ آیت33۱؂سے یہ دونوں مطلب ثابت ہوتے ہیں ۔ کیونکہ اس تمام آیت کے اوّل آخر کی آیتوں کے ساتھ یہ معنے ہیں کہ خدا قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کہے گا کہ کیا تو نے ہی لوگوں کو کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اپنا معبود ٹھہرانا۔ تو وہ جواب دیں گے کہ جب تک میں اپنی قوم میں تھا تو میں اُن کے حالات سے مطلع تھا اور گواہ تھا پھر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر تو ہی اُن کے حالات سے واقف تھا۔ یعنی بعد وفات مجھے اُن کے حالات کی کچھ بھی خبر نہیں۔

اب اس آیت سے صریح طور پر دو باتیں ثابت ہوتی ہیں(۱) اوّل یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اِس آیت میں اقرار کرتے ہیں کہ جب تک میں اُن میں تھا میں ان کا محافظ تھا۔ اور وہ میرے روبرو بگڑے نہیں بلکہ میری وفات کے بعد بگڑے ہیں۔ پس اب اگر فرض کیاجائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب تک آسمان پر زندہ ہیں تو ساتھ ہی اقرار کرنا پڑے گا کہ اب تک عیسائی بھی بگڑے نہیں کیونکہ اس آیت میں عیسائیوں کا بگڑنا آیت33کا ایک نتیجہ ٹھہرایا گیاہے۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر موقوف رکھا گیا ہے۔ لیکن جبکہ ظاہر ہے کہ عیسائی بگڑ چکے ہیں توساتھ ہی ماننا پڑتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی فوت ہوچکے ہیں ورنہ تکذیب آیت قرآنی لازم آتی ہے۔(۲) دوسرے یہ کہ آیت میں صریح طور پر بیان فرمایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام عیسائیوں کے بگڑنے کی نسبت اپنی لاعلمی ظاہر کریں گے اورکہیں گے کہ مجھے تو اُس وقت تک ان کے حالات کی نسبت علم تھا جبکہ میں اُن میں تھا۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 52

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 52

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/52/mode/1up


اور پھر جب مجھے وفات دی گئی تب سے میں اُن کے حالات سے محض بے خبر ہوں مجھے معلوم نہیں کہ میرے پیچھے کیا ہوا۔ اب ظاہر ہے کہ یہ عذر اُن کا اس حالت میں کہ وہ قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں کسی وقت آئے ہوتے اور عیسائیوں کی ضلالت پر اؔ طلاع پاتے۔ محض دروغگوئی ٹھہرتا ہے اور اس کا جواب تو خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ ہونا چاہیے کہ اے گستاخ شخص میرے روبرو اور میری عدالت میں کیوں جھوٹ بولتا ہے اور کیوں محض دروغ کے طور پر کہتاہے کہ مجھے اُن کے بگڑنے کی کچھ بھی خبر نہیں حالانکہ تجھے معلوم ہے کہ میں نے قیامت سے پہلے دوبارہ تجھے دنیا میں بھیجا تھا اور تو نے عیسائیوں سے لڑائیاں کی تھیں اور اُن کی صلیب توڑی تھی اور اُن کے خنزیر قتل کئے تھے اور پھر میرے روبرو اتنا جھوٹ کہ گویا تجھے کچھ بھی خبر نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ ایسے عقیدے میں کہ گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے کس قدر ان کی ہتک ہے اور نعوذ باللہ اس سے وہ دروغگو ٹھہرتے ہیں۔

اور اگر کہو کہ پھر ان حدیثوں کے کیامعنے کریں جن میں لکھا ہے کہ عیسیٰ بن مریم نازل ہوگا اس کا یہ جواب ہے کہ اُسی طرح معنے کرلو جس طرح حضرت عیسیٰ نے الیاس کے دوبارہ آنے کی نسبت معنے کئے تھے۔ اور نیز حدیثوں میں صاف لکھا ہے کہ وہ عیسیٰ اسی امت میں سے ہوگا کوئی اور شخص نہیں ہوگا۔ اور یہ نہیں لکھا کہ دوبارہ آئے گا۔ بلکہ یہ لکھا ہے کہ ’’نازل ہوگا‘‘ اگر دوبارہ آنا مقصود ہوتا تو اُس جگہ رجوع کا لفظ چاہئے تھا نہ نزول کا۔ اور اگر فرض محال کے طورپر کوئی حدیث قرآن شریف سے مخالف ہوتی تو وہ رد کرنے کے لائق تھی نہ یہ کہ کسی حدیث سے قرآن شریف کو رد کیا جائے ۔ اور اس جگہ یاد رہے کہ قرآن شریف یہود ونصاریٰ کی غلطیوں اور اختلافات کو دُور کرنے کیلئے آیا ہے۔ اور قرآن شریف کی کسی آیت کے معنے کرنے کے وقت جو یہود و نصاریٰ کے متعلق ہو یہ ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ اُن میں کیا جھگڑا تھا جس کو قرآن شریف فیصلہ کرنا چاہتا ہے اب اس اصول کو مدنظررکھ کر اس آیت کے معنے کہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 53

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 53

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/53/mode/1up


بڑی آسانی سے ایک منصف مزاج سمجھ سکتا ہے کیونکہ یہود کے عقیدہ کے رُو سے جو شخص صلیب کے ذریعہ سے قتل کیاجائے وہ ملعون ہوتا ہے اور اُس کا رفع رُوحانی خدا تعالیٰ کی طرف نہیں ہوتا اور وہ شیطان کی طرف جاتا ہے۔ اب خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ حضرت عیسیٰ کا رفع روحانی خدائے تعالیٰ کی طرف ہوا یا نہ ہوا۔ سو خدا نے اوّل یہود کے اِس وہم کو مٹایا کہ حضرت عیسیٰ بذریعہ صلیب قتل ہوچکے ہیں اور فرمایا کہ یہود کا صرف یہ ایک شبہ تھا جو خدا نے اُن کے دلوں میں ڈال دیا۔ عیسیٰ بذریعہ صلیب قتل نہیں ہوا تا اس کو ملعون قرار دیا جائے بلکہ اُس کا رفع روحانی ہوا جیسے کہ اور مومنوں کا ہوتا ہے ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ کو اس فضول بحث اور فیصلہ کی ضرورت نہ تھی کہ حضرت عیسیٰ بجسم عنصری آسمان پر گیا یا نہ گیا۔کیونکہ یہود کا یہ متنازع فیہ امر نہ تھا اور یہود کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ جو شخص مصلوب ہو جائے وہ مع جسم عنصری آسمان پر نہیں جاتا کیوؔ نکہ اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ جو شخص مصلوب نہ ہو وہ مع جسم عنصری آسمان پرچلا جاتا ہے اور نہ یہود کا یہ عقیدہ ہے کہ بے ایمان اور *** آدمی مع جسم آسمان پر نہیں جاتا مگرمومن مع جسم عنصری آسمان پرچلا جاتا ہے کیونکہ موسٰی ؑ جو یہود کے نزدیک سب سے بڑا نبی تھا اُس کی نسبت بھی یہود کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ وہ مع جسم آسمان پر چلا گیا ۔ پس تمام جھگڑا تورفع روحانی کا تھا۔ یہود کی طرف سے اپنے عقیدہ کے موافق یہ بحث تھی کہ نعوذ باللہ حضرت عیسیٰ ملعون ہیں کیونکہ اُن کا رفع روحانی نہیں ہوا وجہ یہ کہ وہ صلیب کے ذریعہ سے مارے گئے پس اسی غلطی کو خدا تعالیٰ نے دُور کرنا تھا سو خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ عیسیٰ ملعون نہیں ہے بلکہ اُس کا رفع رُوحانی

اورمومنوں کی طرح ہوگیا۔

یاد رہے کہ ملعون کا لفظ مرفوع کے مقابل پر آتا ہے جبکہ مرفوع کے معنے رُوحانی طور پر مرفوع ہو۔ پس جو لوگ حضرت عیسیٰ کو بوجہ مصلوب ہونے کے ملعون ٹھہراتے ہیں اُن کے نزدیک ملعون کے معنے صرف اس قدر ہیں کہ ایسے شخص کا رفع رُوحانی نہیں ہوتا۔ عیسائیوں نے بھی اپنی غلطی سے تین دن کیلئے حضرت عیسیٰ کو ملعون مان لیا یعنی تین دن تک اُس کا رفع روحانی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 54

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 54

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/54/mode/1up


نہیں ہوا۔ اوربموجب ان کے عقیدہ کے حضرت عیسیٰ ملعون ہونے کی حالت میں تحت الثریٰ میں گئے اور ساتھ کوئی جسم نہ تھا۔ پھر مرفوع ہونے کی حالت میں کیوں جسم کی ضرورت ہوئی ۔ دونوں حالتیں ایک ہی رنگ کی ہونی چاہیئیں۔ یہ ہماری طرف سے عیسائیوں پر الزام ہے کہ وہ بھی رفع کے بارے میں غلطی میں پھنس گئے۔ وہ اب تک اس بات کے اقراری ہیں کہ صلیب کا نتیجہ توریت کی رُو سے ایک روحانی امر تھا یعنی *** ہونا جس کو دوسرے لفظوں میں عدم رفع کہتے ہیں پس بموجب اُن کے عقیدہ کے عدم رفع رُوحانی طور پر ہی ہوا۔ اس حالت میں رفع بھی روحانی ہونا چاہئے تھا تا تقابل قائم رہے۔ عیسائی صاحبان مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ملعون ہونے کی حالت میں صرف روحانی طور پر تحت الثریٰ اوردوزخ کی طرف گئے اُس وقت اُن کے ساتھ کوئی جسم نہ تھا۔ پھر جبکہ یہ حالت ہے تو پھر مرفوع ہونے کی حالت میں کیوں جسم کی ضرورت پڑی اور کیوں جسم کو ساتھ ملایا گیا۔ حالانکہ قدیم سے توریت کے ماننے والے تمام نبی اور تمام یہود کے فقیہ صلیبی *** کے یہی معنے کرتے آئے ہیں کہ روحانی طور پر رفع نہ ہو۔ اور اب بھی یہی کرتے ہیں کہ جو شخص صلیب کے ذریعہ سے مارا جائے اُس کا خداتعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوتا۔ *** کے معنے عدم رفع ہے ۔ بہرحال جبکہ خدا تعالیٰ نے یہود کا اعتراض دُور کرناتھا اور یہود اب تک عدم رفع سے مراد رُوحانی معنے لیتے ہیں یعنی یہ کہتے ہیں کہ روحانی طور پر عیسیٰ کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوا۔ اور وہ کاذب تھا۔ تو پھر خدا تعالیٰ اصل بات کو چھوڑ کر اور طرف کیوں چلا گیا۔ گویا نعوذ باللہ خدا تعالیٰ نے یہود کا اصل جھگڑا سمجھا ہی نہیں اور ایسے جج ؔ کی طرح فیصلہ کیاجو سراسر روئداد مثل کے برخلاف فیصلہ لکھ مارتا ہے۔ ایسا گمان اگر عمداً خدا تعالیٰ کی نسبت کیا جائے تو پھر کفر میں کیا شک ہے۔

پھر ماسوا اس کے ہم کہتے ہیں کہ اگرمان بھی لیا جائے کہ خدا ئے تعالیٰ نے یہود کے اصل جھگڑے کی اس جگہ پروانہ رکھ کر ایک نئی بات بیان کردی ہے جس کا بیان کرنا محض ایک فضول اور غیر ضروری امر تھا یعنی یہ کہ حضرت عیسیٰ کو مع جسم عنصری دوسرے آسمان پر بٹھایا گیا تو پھر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 55

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 55

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/55/mode/1up


اس خیال کا بطلان اس طرح پر ہوتا ہے کہ اوّل تو قرآن شریف میں کہیں نہیں لکھا کہ حضرت عیسیٰ کومع جسم عنصری دوسرے آسمان پر بٹھایا گیا بلکہ قرآن شریف کے لفظ تو یہ ہیں کہ3۔۱؂ یعنی خدا نے عیسیٰ کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ پس سوچوکہ کیا خدا دوسرے آسمان پر مجسم چیزوں کی طرح بیٹھا ہوا ہے ؟ اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف رفع ہمیشہ روحانی ہی ہوتا ہے۔ اور ایسا ہی تمام نبیوں کی تعلیم ہے خدا جسم نہیں ہے کہ تا جسمانی رفع اُس کی طرف ہو۔ تمام قرآن شریف میں یہی محاورہ ہے کہ جب کسی کی نسبت فرمایا جاتا ہے کہ خدا کی طرف وہ گیا یا خدا کی طرف اس کارفع ہوا تو اُس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ روحانی طور پر اس کا رفع ہوا۔ جیسا کہ اس آیت میں بھی یہی معنے ہیں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 33۲؂ الخ کہ اے نفسِ مطمئنہ اپنے رب کی طرف واپس آجا۔ پس کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ مع جسم عنصری آجا۔

ماسوا اس کے اس جگہ یہ سوال ہوگا کہ اگر اس جگہ رفع رُوحانی کا بیان نہیں ہے اور اس جگہ وہ جھگڑا فیصلہ نہیں کیا گیا جو یہودنے حضرت مسیح کے رفع روحانی کی نسبت انکارکیا تھا اور نعوذ باللہ ملعون قرار دیا تھا تو پھر قرآن شریف کے کس مقام میں یہود کے اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے جس کا جواب دینا بموجب وعدہ الٰہی کے ضروری تھا۔پس اس تمام بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ کے رفع کو رفع جسمانی ٹھہرانا سراسر ہٹ دھرمی اورحماقت ہے بلکہ یہ وہی رفع ہے جو ہر ایک مومن کے لئے وعدۂ الٰہی کے موافق موت کے بعد ہونا ضروری ہے اور کافر کے لئے حکم ہے کہ3۳؂یعنی اُن کیلئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔ یعنی اُن کا رفع نہیں ہوگا۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرماتا ہے 3۴؂ پس سیدھی بات کو اُلٹا دینا تقویٰ اور طہارت کے برخلاف اور ایک طور سے تحریف کلامِ الٰہی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وقت میں تمام صحابہ کا اجماع ہوچکا ہے کہ تمام نبی فوت ہوچکے ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 56

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 56

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/56/mode/1up


اورصحابہ رضی اللہ عنہم کے عہد میں یہی معنے آیت 333۱؂کے کئے گئے ۔ یعنی سب رسول فوت ہوچکے ہیں۔ پس کیا حضرؔ ت عیسیٰ رسول نہیں تھے جو فوت سے باہر رہ گئے۔ پھر باوجود اس اجماع کے فیج اعوج کے زمانہ کی تقلید کرنا دیانت سے بعید ہے۔ امام مالک کا بھی یہی مذہب تھا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے ہیں۔ پس جبکہ سلف الائمہ کا یہ مذہب ہے تو دوسروں کا بھی یہی مذہب ہوگا۔ اور جن بزرگوں نے اس حقیقت کے سمجھنے میں خطا کی وہ خطا خدا تعالیٰ کے نزدیک درگذر کے لائق ہے۔ اِس دین میں بہت سے اسرار ایسے تھے کہ درمیانی زمانہ میں پوشیدہ ہوگئے تھے مگر مسیح موعود کے وقت میں ان غلطیوں کا کھل جانا ضروری تھا کیونکہ وہ حَکَم ہوکر آیا۔اگر درمیانی زمانہ میں یہ غلطیاں نہ پڑتیں تو پھر مسیح موعود کا آنا فضول اور انتظار کرنا بھی فضول تھا، کیونکہ مسیح موعود مجدد ہے اور مجدد غلطیوں کی اصلاح کے لئے ہی آیا کرتے ہیں۔ وہ جس کا نام جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حَکَم رکھا ہے وہ کس بات کا حَکَم ہے اگر کوئی اصلاح اس کے ہاتھ سے نہ ہو۔ یہی سچ ہے مبارک وہ جو قبول کریں اور خدا سے ڈریں۔

اب پھر ہم اپنے پہلے مضمون کی طرف رجوع کرکے کہتے ہیں کہ معجزات اور کرامات جو عوام الناس نے حضرت عیسیٰ کی طرف منسوب کئے ہیں وہ سنت اللہ سے سراسر برخلاف ہیں۔ اور جیسے ایک فریق نے سرے سے انکار معجزات کا کرکے اپنے تئیں تفریط کی حد تک پہنچا دیا ہے ایسا ہی اُن کے مقابل پر دوسرے فریق نے معجزات کے بارے میں سخت غلو کرکے اپنی بات کو افراط کی حد تک پہنچا دیا ہے اور درمیانی راہ کو دونوں فریق نے ترک کر دیا ہے ظاہر ہے کہ اگر معجزات نہ ہوں تو پھر خدا تعالیٰ کے وجود پر کوئی قطعی اور یقینی علامت باقی نہیں رہتی اور اگر معجزات اس رنگ کے ہوں جس کا ابھی بیان کیا گیا ہے تو پھر ایمان کے ثمرات مفقود ہوجاتے ہیں اور ایمان ایمان نہیں رہتا۔ اور شرک تک نوبت پہنچتی ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 57

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 57

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/57/mode/1up


اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو عجیب طور پر جاہلوں کانشانہ ہوئے ہیں۔ اُن کی زندگی کے زمانہ میں تو یہود بے دین نے اُن کانام کافر اور کذّاب اور مکّار اورمُفتری رکھا اور اُن کے رفع روحانی سے انکار کیا۔ اور پھر جب وہ فوت ہوگئے تو اُن لوگوں نے جن پرانسان پرستی کی سیرت غالب تھی اُن کو خدا بنا دیا اور یہودی تو رفع روحانی سے ہی انکار کرتے تھے۔ اب بمقابل اُن کے رفع جسمانی کااعتقاد ہوا اور یہ بات مشہور کی گئی کہ وہ مع جسم آسمان پر چڑھ گئے ہیں گویا پہلے نبی تو روحانی طور پر بعدموت آسمان پر چڑھتے تھے مگر حضرت عیسیٰ زندہ ہونے کی حالت میں ہی مع جسم مع لباس مع تمام لوازم جسمانی کے آسمان پر جا بیٹھے۔ گویا یہ یہودیوں کی ضد اور انکار کا جو رفع روحانی سے منکر تھے نہایت مبالغہ کے ساتھ ایک جواب تراشا گیا اور یہ جواب سراسر نامعقول تھا کیونکہ یہودیوں کو رفعِ جسمانی سے کچھ غرض نہ تھی۔ اُن کی شریعت کا یہ مسئلہ تھا کہ جو لوگ صلیب پرمرتے ہیں وہ *** اورکافر اور بے ایمان ہوتے ہیں ۔ اُن کا رفع روحانی خداؔ ئے تعالیٰ کی طرف نہیں ہوتا اور یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ ہر ایک مومن جب مرتا ہے تو اُس کی رُوح کو فرشتے آسمان کی طرف لے جاتے ہیں اور اُس کیلئے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں لیکن کافر کی رُوح آسمان کی طرف اٹھائی نہیں جاتی۔ اور کافر ملعون ہوتا ہے اُس کی رُوح نیچے کو جاتی ہے۔ اور وہ لوگ بباعث صلیب پانے حضرت عیسیٰ اور نیز بوجہ بعض اختلافات کے اپنے فتووں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کافر ٹھہرا چکے تھے۔ کیونکہ بزعم اُن کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام بذریعہ صلیب قتل ہوگئے تھے۔ اور توریت میں یہ صاف حکم تھا کہ جو شخص بذریعہ صلیب ماراجائے وہ *** ہوتا ہے پس ان وجوہ سے انہوں نے حضرت عیسیٰ کو کافر ٹھہرایا تھا اوراُن کے رفع روحانی سے منکر ہوگئے تھے۔ پس یہودیوں کے نزدیک یہ منصوبہ ہنسی کے قابل تھا کہ گویا حضرت مسیح مع جسم آسمان پر چلے گئے۔ او ردرحقیقت یہ افترا ان لوگوں نے کیا تھا جو توریت کے علم سے ناواقف تھے اور خود فی نفسہٖ یہ خیال نہایت درجہ پر لغو تھا جس سے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 58

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 58

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/58/mode/1up


خدائے تعالیٰ پر اعتراض ہوتا تھا کیونکہ جس حالت میں حضرت مسیح علیہ السلام یہودیوں کے تمام فرقوں تک جو مختلف فرقوں میں متفرق ہوچکے تھے اپنی دعوت کو ہنوز پہنچانہیں سکے تھے اور اُن کے ہاتھ سے ایک فرقہ کو بھی ابھی ہدایت نہیں ہوئی تھی۔ ایسی صورت میں تبلیغ کے کام کو ناتمام چھوڑ کر حضرت عیسیٰ کاآسمان پر چڑھ جانا سراسر خلافِ مصلحت او راپنے فرض منصبی سے پہلو تہی کرنا تھا۔ اور خود ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ کا محض بیہودہ طور پر اُن کو آسمان پر بٹھا دینا ایک بے سود اور لغو کام ہے جو ہرگز خدائے تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا۔

غرض حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر یہ ایک تہمت ہے کہ گویا وہ مع جسم عنصری آسمان پر چلے گئے۔ سو جیسا کہ حضرت عیسیٰ کی زندگی کے زمانہ میں بھی اُن کے دشمنوں نے محض تہمت کے طور پر اُن کو کافر اور کذّاب قرار دیا ویسا ہی اُن کی تعریف میں غلو کرنے والوں نے جو نادان دوست تھے بقول شخصے کہ پیراں نپرند مریداں بپرانند اُن کو مع جسم آسمان پر چڑھا دیا اور نہ صرف اِسی قدر بلکہ اُن کو خدا بھی بنا دیا۔ اور پھر جب اور بھی زمانہ گذر گیا تو یہ عقیدہ بھی تراشا گیا کہ وہ اسی جسم عنصری کے ساتھ پھر آسمان سے اُتریں گے اور آخری دور انہی کا ہوگا اور وہی خاتم الانبیاء ہوں گے۔ غرض جس قدر جھوٹی کرامتیں اور جھوٹے معجزات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کئے گئے ہیں کسی اور نبی میں اُس کی نظیر نہیں پائی جاتی اور عجیب تر یہ کہ باوجود ان تمام فرضی معجزات کے ناکامی اور نامرادی جو مذہب کے پھیلانے میں کسی کو ہوسکتی ہے وہ سب سے اوّل نمبر پر ہیں۔ کسی اور نبی میں اس قدر نامرادی کی نظیر تلاش کرنا لاحاصل ہے مگر یاد رہے کہ اب اُن کے نام پر جو مذہب دنیا میں پھیل رہا ہے یہ ان کا مذہب نہیں ہے۔ اُن کی تعلیم میں خنزیر خوری اور تین خدا بنانے کا حکمؔ اب تک انجیلوں میں نہیں پایا جاتا۔ بلکہ یہ وہی مشرکانہ تعلیم ہے جس کی نبیوں نے مخالفت کی تھی۔ توریت کے دو۲ ہی بڑے بھاری اور ابدی حکم تھے اوّل یہ کہ انسان کو خدا نہ بنانا۔ دوسرے یہ کہ سؤر کو مت کھانا۔ سو دونوں حکم پولوس مقدس کی تعلیم سے توڑ دیئے گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 59

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 59

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/59/mode/1up


اب ہم بیان کرنا چاہتے ہیں کہ معجزہ کیا چیز ہے اور معجزہ کی کیوں ضرورت ہے۔ سو ہم اس کتاب کے پہلے باب میں معجزہ کی اصل حقیقت اور ضرورت بیان کریں گے۔ اور دوسرے باب میں اپنے دعویٰ کے مطابق اُن معجزات کے چند نمونے بیان کردیں گے اور تیسرا باب خاتمہ کا ہوگا۔ جس پر رسالہ ختم ہوگا۔

پہلا باب

معجزہ کی اصل حقیقت اور ضرورت کے بیان میں

معجزہ کی اصل حقیقت یہ ہے کہ معجزہ ایسے امر خارق عادت کو کہتے ہیں کہ فریق مخالف اُس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز آجائے خواہ وہ امر بظاہر نظر انسانی طاقتوں کے اندر ہی معلوم ہو جیسا کہ قرآن شریف کا معجزہ جو ملک عرب کے تمام باشندوں کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ پس وہ اگر چہ بنظر سرسری انسانی طاقتوں کے اندر معلوم ہوتا تھا لیکن اُس کی نظیر پیش کرنے سے عرب کے تمام باشندے عاجز آگئے ۔ پس معجزہ کی حقیقت سمجھنے کیلئے قرآن شریف کا کلام نہایت روشن مثال ہے کہ بظاہر وہ بھی ایک کلام ہے جیسا کہ انسان کا کلام ہوتا ہے لیکن وہ اپنی فصیح تقریر کے لحاظ سے او رنہایت لذیذ اور مصفّٰی اور رنگین عبارت کے لحاظ سے جو ہر جگہ حق اور حکمت کی پابندی کا التزام رکھتی ہے اور نیز روشن دلائل کے لحاظ سے جو تمام دنیا کے مخالفانہ دلائل پر غالب آگئیں اور نیززبردست پیشگوئیوں کے لحاظ سے ایک ایسا لاجواب معجزہ ہے جو باوجود گذرنے تیرہ سو برس کے اب تک کوئی مخالف اس کا مقابلہ نہیں کرسکا اور نہ کسی کو طاقت ہے جو کرے۔ قرآن شریف کو تمام دنیا کی کتابوں سے یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ معجزانہ پیشگوئیوں کو بھی معجزانہ عبارات میں جو اعلیٰ درجہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 60

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 60

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/60/mode/1up


کی بلاغت اور فصاحت سے پُر اور حق اور حکمت سے بھری ہوئی ہیں بیان فرماتا ہے۔ غرض اصلی اور بھاری مقصد معجزہ سے حق اور باطل یا صادق اور کاذب میں ایکؔ امتیاز دکھلانا ہے۔ اور ایسے امتیازی امر کا نام معجزہ یا دوسرے لفظوں میں نشان ہے۔ نشان ایک ایسا ضروری امر ہے کہ اُس کے بغیر خدائے تعالیٰ کے وجود پر بھی پورا یقین کرنا ممکن نہیں اور نہ وہ ثمرہ حاصل ہونا ممکن ہے کہ جو پورے یقین سے حاصل ہوسکتا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ مذہب کی اصلی سچائی خدائے تعالیٰ کی ہستی کی شناخت سے وابستہ ہے ۔ سچے مذہب کے ضروری اور اہم لوازم میں سے یہ امر ہے کہ اُس میں ایسے نشان پائے جائیں جو خدائے تعالیٰ کی ہستی پر قطعی اوریقینی دلالت کریں اور وہ مذہب اپنے اندر ایسی زبردست طاقت رکھتا ہو جو اپنے پیرو کا خدائے تعالیٰ کے ہاتھ سے ہاتھ ملادے۔ اور ہم بیان کرچکے ہیں کہ صرف مصنوعات پر نظر کرکے صانع کی فقط ضرورت ہی محسوس کرنا اور اُس کی واقعی ہستی پر اطلاع نہ پانا یہ کامل خدا شناسی کیلئے کافی نہیں ہے اور اسی حد تک ٹھہرنے والے کوئی سچا تعلق خدائے تعالیٰ سے حاصل نہیں کرسکتے اور نہ اپنے نفس کو جذبات نفسانیہ سے پاک کرسکتے ہیں۔ اس سے اگر کچھ سمجھا جاتا ہے تو صرف اس قدر کہ اس ترکیب محکم اور ابلغ کا کوئی صانع ہونا چاہیے نہ یہ کہ درحقیقت وہ صانع ہے بھی۔ اور ظاہر ہے کہ صرف ضرورت کو محسوس کرنا ایک قیاس ہے جو رؤیت کا قائم مقام نہیں ہوسکتا اورنہ رؤیت کے پاک نتائج اس سے پیدا ہوسکتے ہیں۔ پس جو مذہب انسان کی خدا شناسی کو صرف ہونا چاہئے کے ناقص مرحلہ تک چھوڑتا ہے وہ اس کی عملی حالت کا چارہ گر نہیں ہے۔ پس درحقیقت ایسا مذہب ایک مردہ مذہب ہے جس سے کسی پاک تبدیلی کی توقع رکھنا ایک طمعِ خام ہے۔

ظاہر ہے کہ محض عقلی دلائل مذہب کی سچائی کے لئے کامل شہادت نہیں ہوسکتے اور یہ ایسی مہر نہیں ہے کہ کوئی جعلساز اس کے بنانے پر قادر نہ ہو بلکہ یہ تو عقل کے چشم ۂ عام کی ایک گداگری متصور ہوسکتی ہے۔ پھر اس بات کاکون فیصلہ کرے کہ عقلی باتیں جو ایک



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 61

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 61

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/61/mode/1up


کتاب نے لکھیں درحقیقت وہ الہامی ہیں یا کسی اور کتاب سے چُراکر لکھی گئی ہیں۔ اور اگر فرض بھی کرلیں کہ وہ چُرائی ہوئی نہیں ہیں تو پھر بھی ہستی باری تعالیٰ پر وہ کب دلیل قاطع ہوسکتی ہیں۔ اور کب کسی طالب حق کا نفس اس بات پر پوری تسلی پاسکتا ہے کہ فقط وہی عقلی باتیں یقینی طور پر آیت خدا نما ہیں اور کب یہ اطمینان بھی ہوسکتا ہے کہ وہ باتیں بکلی غلطی سے مبرّا ہیں۔پس اگر ایک مذہب صرف چند باتوں کو عقل یا فلسفہ کی طرف منسوب کرکے اپنی سچائی کی وجہ بیان کرتا ہے اور آسمانی نشانوں اور خارق عادت امور کے دکھلانے سے قاصر ہے توایسے مذہب کا پیرو فریب خوردہ یا فریب دہندہ ہے او روہ تاریکی میں مرے گا۔

غرؔ ض محض عقلی دلائل سے تو خدائے تعالیٰ کا وجود بھی یقینی طور پر ثابت نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ کسی مذہب کی سچائی اُس سے ثابت ہوجائے۔ اور جب تک ایک مذہب اس بات کاذمہ وار نہ ہو کہ وہ خدا کی ہستی کو یقینی طورپر ثابت کرکے دکھلائے تب تک وہ مذہب کچھ چیز نہیں ہے اور بدقسمت ہے وہ انسان جو ایسے مذہب پر فریفتہ ہو۔ہر ایک وہ مذہب *** کا داغ اپنی پیشانی پر رکھتا ہے جو انسان کی معرفت کو اُس مرحلہ تک نہیں پہنچا سکتا جس سے گویا وہ خدا کو دیکھ لے۔ اور نفسانی تاریکی روحانی حالت سے بدل جائے اور خدا کے تازہ نشانوں سے تازہ ایمان حاصل ہوجائے۔اور نہ صرف لاف کے طور پر بلکہ واقعی طور پر ایک پاک زندگی مل جائے ۔ انسان کو سچی پاکیزگی حاصل کرنے کیلئے اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ اُس زندہ خدا کا اُس کو پتہ لگ جائے جو نا فرمان کو ایک دم میں ہلاک کرسکتا ہے اور جس کی رضا کے نیچے چلنا ایک نقد بہشت ہے ۔ اور جس طرح ایک مذہب کیلئے صرف عقلی طور پر اپنی عمدگی دکھلانا کافی نہیں ہے ایسا ہی ایک ظاہری راستباز کیلئے صرف یہ دعویٰ کافی نہیں ہے کہ وہ خدائے تعالیٰ کے احکام پر چلتا ہے بلکہ اس کیلئے ایک امتیازی نشان چاہیے جو اُس کی راستبازی پر گواہ ہو کیونکہ ایسا دعویٰ تو قریباً ہر ایک کرسکتا ہے کہ وہ خدائے تعالیٰ سے محبت رکھتا ہے اور اس کا دامن تمام اقسام فسق و فجورسے پاک ہے مگر ایسے دعوے پر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 62

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 62

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/62/mode/1up


تسلی کیونکر ہو کہ فی الحقیقت ایسا ہی امر واقع ہے ۔ اگر کسی میں مادۂ سخاوت ہے تو ناموری کی غرض سے بھی ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی عابد زاہد ہے تو ریا کاری بھی اس کا موجب ہوسکتی ہے۔ اور اگر فسق و فجور سے کوئی بچ گیا ہے تو تہید ستی بھی اس کا باعث ہوسکتی ہے۔ اوریہ بھی ممکن ہے کہ محض لوگوں کے لعن طعن کے خوف سے کوئی پارسا طبع بن بیٹھے اور عظمت الٰہی کا کچھ بھی اس کے دل پر اثر نہ ہو۔ پس ظاہر ہے کہ عمدہ چال چلن اگر ہو بھی تاہم حقیقی پاکیزگی پر کامل ثبوت نہیں ہوسکتا شاید درپردہ کوئی اور اعمال ہوں۔ لہٰذا حقیقی راستبازی کیلئے خدائے تعالیٰ کی شہادت ضروری ہے جو عالم الغیب ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو دنیا میں پاک ناپاک کے حالات مشتبہ ہوجاتے ہیں اور امان اُٹھ جاتا ہے اس لئے مابہ الامتیاز کی نہایت درجہ ضرورت ہے ۔ اور جس مذہب نے راستباز کیلئے کوئی مابہ الامتیاز کا خلعت عطا نہیں فرمایا یقیناًسمجھو کہ وہ مذہب ٹھیک نہیں ہے اور نور سے بالکل خالی ہے۔ خدا کی طرف سے جو کتاب ہو وہ آپ بھی اپنے اندر مابہ الامتیاز رکھتی ہے اور اپنے پیروکو بھی امتیازی نشان بخشتی ہے۔

غرض بغیر امتیازی نشان کے نہ مذہب حق اور مذہب باطل میں کوئی کھلا کھلا تفرقہ پیدا ہوسکتا ہے اورؔ نہ ایک راستباز اور مکّار کے درمیان کوئی فرق بیّن ظاہر ہوسکتا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ایک شخص دراصل بدچلن اور فاسق اورفاجر ہو لیکن اُس کی بدچلنیاں ظاہر نہ ہوں۔ پس اگر ایسی صورت میں وہ بھی راستبازی کا دعویٰ کرے جیسا کہ ایسے دعوے ہمیشہ دنیا میں پائے جاتے ہیں تو پھر خدائے تعالیٰ کی طرف سے حقیقی راستباز کیلئے کونسا ایک چمکتا ہوا نشان ہے جس سے وہ ایسے مکّاروں سے الگ کا الگ دکھائی دے اور روز روشن کی طرح شناخت کرلیا جائے۔ حالانکہ قدیم سے اور جب سے کہ دنیا کی بنیاد ڈالی گئی ہے سنت اللہ اِسی طرح پر جاری ہے اور یہی قانونِ قدرت ہے کہ تمام عمدہ اور خراب چیزوں میں ایک امتیازی نشان رکھا گیا ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ بظاہر سونا اور پیتل ہم شکل ہیں یہاں تک کہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 63

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 63

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/63/mode/1up


بعض جاہل اس سے دھوکہ بھی کھا لیتے ہیں۔ لیکن حکیم مطلق نے سونے میں ایک امتیازی نشان رکھا ہے جس کو صرّاف فی الفور شناخت کرلیتے ہیں۔ اوربہتیرے سفید اور چمکتے ہوئے پتھر ایسے ہیں جوکہ ہیرے سے بہت ہی مشابہ ہیں اور بعض نادان اُن کو ہیرا سمجھ کر ہزارہا روپیہ کانقصان اٹھا لیتے ہیں۔ لیکن صانع عالم نے ہیرے کیلئے ایک امتیازی نشان رکھا ہوا ہے جس کو ایک دانشمند جوہری شناخت کرسکتا ہے۔ ایسا ہی دنیا کے کل جواہرات اور عمدہ چیزوں کو دیکھ لو کہ اگرچہ بظاہر نظر کئی ردّی اور ادنیٰ درجہ کی چیزیں اُن سے شکل میں مل جاتی ہیں مگر ہر ایک پاک اور قابل قد ر جوہر اپنے امتیازی نشان سے اپنی خصوصیت کو ظاہر کردیتا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا۔ اور خود انسان کو دیکھو کہ اگرچہ وہ صورت میں بہت سے حیوانات سے مشابہت رکھتا ہے جیسا کہ بندر سے تاہم اُس میں ایک امتیازی نشان ہے جس کی وجہ سے ہم کسی بندر کو انسان نہیں کہہ سکتے۔ پھر جب کہ اس مادی دنیا میں جو ناپائدار اور بے ثبات ہے اور جس کا نقصان بھی بمقابل آخرت کے کچھ چیز نہیں ہے ہر ایک عمدہ اور نفیس جوہر کیلئے حکیم مطلق نے امتیازی نشان قائم کردیا ہے جس کی وجہ سے وہ جوہر بسہولت شناخت کیا جاتا ہے تو پھر مذہب جس کی غلطی جہنم تک پہنچاتی ہے اور ایسا ہی ایک راستباز اور اہل اللہ کا وجود جس کا انکار شقاوت ابدی کے گڑھے میں ڈالتا ہے کیونکر یقین کیا جائے کہ اُن کی شناخت کے لئے کوئی بھی یقینی اور قطعی نشان نہیں ۔ پس ایسے شخص سے زیادہ کون احمق او ر نادان ہے کہ جو خیال کرتا ہے کہ سچے مذہب اور سچے راستباز کیلئے کوئی امتیازی نشان خدا نے قائم نہیں کیا۔ حالانکہ خدائے تعالیٰ قرآن شریف میں آپ فرماتا ہے کہ کتاب اللہ جو مذہب کی بنیاد ہے امتیازی نشان اپنے اندر رکھتی ہے جس کی نظیر کوئی پیش نہیں کرسکتا۔ اور نیز فرماتا ہے کہ ہر ایک مومن کو فرقان عطا ہوتا ہے یعنی امتیاؔ زی نشان جس سے وہ شناخت کیا جاتاہے۔ پس یقیناًسمجھو کہ سچا مذہب اور حقیقی راستباز ضرور اپنے ساتھ امتیازی نشان رکھتا ہے اور اسی کا نام دوسرے لفظوں میں معجزہ اور کرامت اور خارق عادت امر ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 64

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 64

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/64/mode/1up


ہمارے اس قدر بیان سے ثابت ہوگیا کہ سچا مذہب ضرور اس بات کا حاجت مند ہے کہ اُس میں کوئی ایسی معجزانہ خاصیّت ہو کہ جو دوسرے مذاہب میں وہ نہ پائی جائے اور سچا راستباز ضرور اس بات کا حاجتمند ہے کہ کچھ ایسی معجزانہ تائیدات الٰہیہ اُس کے شامل حال ہوں کہ جن کی نظیر غیروں میں ہرگز نہ مل سکے تا انسان ضعیف البنیان جو ادنیٰ ادنیٰ شبہ سے ٹھوکر کھاتا ہے دولتِ قبول سے محروم نہ رہے۔ سوچ کر دیکھو کہ جس حالت میں انسانوں کی غفلت اور وہم پرستی کی یہ حالت ہے کہ باوجود یکہ خدا کے سچے مامورین سے صدہا نشان ظاہر ہوتے ہیں اور ہر ایک پہلو سے خدا اُن کی مدد فرماتا ہے پھر بھی وہ اپنی بدبختی سے شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ہزارہا نشانوں سے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھاکر طرح طرح کی بدگمانیوں میں پڑ جاتے ہیں تو پھر اس صورت میں ان کا کیا حال ہوتا کہ ایک مامورمن اللہ کیلئے آسمان سے کوئی امتیازی نشان نہ ملتا اور صرف خشک زہد اور ظاہری عبادت کے دکھلانے پرمدار ہوتا اور اس طرح بدگمانیوں کادروازہ بھی کھلا ہوتا۔ پس خدا جو کریم و رحیم ہے اُس نے نہ چاہا کہ اس کے ایک مقبول مذہب یا ایک مقبول بندہ سے انکار کرکے دنیا میں ہلاک ہوجائے۔ پس اُس نے سچے مذہب پر دائمی نشانوں کی مُہر لگادی اور سچے راستباز کواپنے خارق عادت کاموں کے ساتھ قبولیت کا نشان عطا فرمایا۔ سچ تو یہ ہے کہ خدا نے مقبول مذہب او ر مقبول بندہ کو امتیازی نشان عطا کرنے میں کوئی بھی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اور سورج سے زیادہ اُن کو چمکا کر دکھلا دیا اور وہ کام اُن کی تائید میں دکھلائے کہ جن کی نظیر دنیا میں دیکھنے سننے میں نہیں آتی۔ خدا برحق ہے لیکن اُس کا چہرہ دیکھنے کا آئینہ وہ منہ ہیں جن پر اس کے عشق کی بارشیں ہوئیں جن کے ساتھ خدا ایسا ہمکلام ہوا کہ جیسے ایک دوست دوست سے۔ وہ غلبۂ محبت سے دوئی کے نقش کو مٹا کر توحید کی کامل حقیقت تک پہنچے کیونکہ توحید صرف یہی نہیں ہے کہ الگ رہ کر خدا کو ایک جاننا۔ اس توحید کا تو شیطان بھی قائل ہے بلکہ ساتھ اس کے یہ بھی ضروری ہے کہ عملی رنگ میں یعنی محبت کے کامل جوش سے اپنی ہستی کو محو کرکے خداکی وحدت کو اپنے پر وارد کر لینایہی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 65

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 65

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/65/mode/1up


کامل توحید ہے جو مدارِ نجات ہے جس کو اہل اللہ پاتے ہیں۔ پس یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ خدا اُن میں اُترتا ہے کیونکہ خلا اپنے تئیں بالطبع پُر کرنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ اُترتا جسمانی طور سے نہیں ہے بلکہؔ اس طور سے ہے جو کیف اور کم سے بلند تر ہے۔ غرض خدا کی خاص تجلّی سے حقیقی راستبازوں میں وہ برکتیں پیدا ہو جاتی ہیں جو خدا میں ہیں۔اور اُن کی زندگی معجزانہ زندگی ہو جاتی ہے وہ بدلائے جاتے ہیں۔ اور ان کا وجود ایک نیا وجود ہو جاتا ہے جس کو دنیا دیکھ نہیں سکتی۔ پر سعید لوگ اُس کے آثار کو دیکھتے ہیں۔ چونکہ اب وہ تجلّی موجود ہے اور ایسے آثار تائیداتِ الٰہیہ کے نمایاں ہیں جو ہم میں اور ہمارے غیروں میں مابہ الامتیاز ہیں اس لئے ہم چند ایسے نشان تحریر کرکے حق کے طالبوں کو خدائے تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں جو مامورین کی نسبت سنت اللہ ہے اور شریر متعصّبوں پر خدائے تعالیٰ کی حجت پوری کرتے ہیں۔ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ الْکَرِیْمِ الْقَدِیْر۔

باب دوم

اُن نشانوں کے بیان میں جو بذریعہ اُن پیشگوئیوں کے ظاہر ہوئے جو آج سے پچیس برس پہلے براہین احمدیہ میں لکھ کر شائع کی گئی تھیں

واضح ہو کہ براہین احمدیہ میری تالیفات میں سے وہ کتاب ہے جو ۱۸۸۰ ؁ عیسوی میں یعنی ۱۲۹۷ ہجری میں چھپ کر شائع ہوئی تھی۔ اِس کتاب کی تالیف کے زمانہ میں جیسا کہ خود کتاب سے ظاہر ہوتا ہے میں ایک ایسی گمنامی کی حالت میں تھا کہ بہت کم لوگ ہوں گے کہ جو میرے وجود سے بھی واقف ہوں گے۔ غرض اس زمانہ میں مَیں اکیلا انسان تھا جس کے ساتھ کسی دوسرے کو کچھ تعلق نہ تھا اور میری زندگی ایک گوش ۂ تنہائی میں گذرتی تھی اور اسی پر مَیں راضی اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 66

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 66

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/66/mode/1up


خوش تھا کہ ناگہاں عنایت ازلی سے مجھے یہ واقعہ پیش آیا کہ یکدفعہ شام کے قریب اسی مکان میں اور ٹھیک ٹھیک اسی جگہ کہ جہاں اب ان چند سطروں کے لکھنے کے وقت میرا قدم ہے مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف سے کچھ خفیف سی غنودگی ہو کر یہ وحی ہوئی:۔

یَا اَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ۔مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی۔ اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا اُنْذِرَ اٰبَاءُ ھُمْ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلَ الْمُجْرِمِیْنَ۔ قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤمِنِیْنَ۔*

یعنی اے احمد ! خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی۔ جو کچھ تو نے چلایا تو نے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا۔ وہ خدا ہے جس نے تجھے قرآن سکھلایا یعنی اُس کے حقیقی معنوں پر تجھے اطلاع دی۔خ تاکہ تو اُن لوگوں کو ڈرائے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے۔ اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے اور تیرے انکار کی وجہ سے اُن پر حجت پوری ہو جائے۔ ان لوگوں کو کہہ دے کہ مَیں خدائے تعالیٰ کی طرف سے مامورہوکر آیا ہوں اور مَیں وہ ہوں جو سب سے پہلے ایمان لایا۔

اِس وحی کے نازل ہونے پر مجھے ایک طرف تو خدائے تعالیٰ کی بے نہایت عنایات کا


قرآن شریف کے لئے تین۳ تجلّیات ہیں۔ وہ سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ سے نازل ہوا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذریعہ سے اُس نے زمین پر اشاعت پائی اور مسیح موعود کے ذریعہ سے بہت سے پوشیدہ اسرار اس کے کھلے۔ وَلِکُلِّ اَمْرٍ وَقْتٌ مَّعْلُوْم۔ اور جیسا کہ آسمان سے نازل ہوا تھا ویسا ہی آسمان تک اس کا نور پہنچا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں اس کے تمام احکام کی تکمیل ہوئی اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے وقت میں اس کے ہر ایک پہلو کی اشاعت کی تکمیل ہوئی اور مسیح موعود کے وقت میں اس کے روحانی فضائل اور اسرار کے ظہور کی تکمیل ہوئی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 67

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 67

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/67/mode/1up


شکر ادا کرنا پڑا کہ ایک میرے جیسے انسان کو جو کوئی بھی لیاقت اپنے اندر نہیں رکھتا اِس عظیم الشان خدمت سے سرفراز فرمایا اور دوسری طرف بمجرّد اِس وحی الٰہی کے مجھے یہ فکر دامنگیر ہوا کہ ہر ایک مامور کیلئے سنتِ الٰہیہ کے موافق جماعت کا ہونا ضروری ہے تا وہ اُس کا ہاتھ بٹائیں اور اُس کے مددگار ہوں۔ اور مال کا ہونا ضروری ہے ۔ تا دینی ضرورتوں میں جو پیش آتی ہیں خرچ ہو۔ اور سنت اللہ کے موافق اعداء کا ہونا بھی ضروری ہے اور پھر اُن پرغلبہ بھی ضروری ہے تا اُن کے شر سے محفوظ رہیں اور اَمر دعوت میں تاثیر بھی ضروری ہے تا سچائی پر دلیل ہو اور تااس خدمت مفوّضہ میں ناکامی نہ ہو۔

اِن امور میں جیسا کہ تصور کیا گیا بڑی مشکلات کا سامنا نظر آیا اور بہت خوفناک حالت دکھائی دی کیونکہ جبکہ مَیں نے اپنے تئیں دیکھا تو نہایت درجہ گمنام اور اَحَدٌ مِّنَ النَّاس پایا۔ وجہ یہ کہ نہ تو مَیں کوئی خاندانی پیرزادہ اورکسی گدّی سے تعلق رکھتا تھا تا میرے پر اُن لوگوں کا اعتقاد ہوجاتا اوروہ میرے گرد جمع ہو جاتے جو میرے باپ دادا کے مرید تھے اور کام سہل ہو جاتا۔ اور نہ مَیں کسی مشہور عالم فاضل کی نسل میں سے تھا تا صدہا آبائی شاگردوں کا میرے ساتھ تعلق ہوتا۔ اور نہ مَیں کسی عالم فاضل سے باقاعدہ تعلیم یافتہ اور سند یافتہؔ تھا تا مجھے اپنے سرمایہ ء علمی پر ہی بھروسہ ہوتا۔ اور نہ مَیں کسی جگہ کا بادشاہ یا نواب یا حاکم تھا تا میرے رُعبِ حکومت سے ہزاروں لوگ میرے تابع ہو جاتے بلکہ میں ایک غریب ایک ویرانہ گاؤں کا رہنے والا اور بالکل اُن ممتاز لوگوں سے الگ تھا جو مرجع عالم ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں۔

غرض کسی قسم کی ایسی عزت اور شہرت اور ناموری مجھے حاصل نہ تھی جس پر میں نظر رکھ کر اس بات کو اپنے لئے سہل سمجھتا کہ یہ کام تبلیغِ دعوت کا مجھ سے ہو سکے گا۔ پس طبعاً یہ کام مجھے نہایت مشکل اور بظاہر صورت غیر ممکن اور محالات سے معلوم ہوا۔ اور علاوہ اس کے اور مشکلات یہ معلوم ہوئے کہ بعض امور اس دعوت میں ایسے تھے کہ ہرگز اُمید نہ تھی کہ قو م



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 68

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 68

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/68/mode/1up


اُن کو قبول کرسکے اور قوم پر تو اس قدر بھی امیدنہ تھی کہ وہ اس امر کو بھی تسلیم کرسکیں کہ بعد زمانۂ نبوت وحی غیر تشریعی کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا اور قیامت تک باقی ہے بلکہ صریح معلوم ہوتا تھا کہ اُن کی طرف سے وحی کے دعوے پر تکفیر کا انعام ملے گا۔ اور سب علماء متفق ہوکر درپئے ایذا و بیخ کنی ہو جائیں گے۔ کیونکہ اُن کے نزدیک بعد سیدنا جناب ختمی پناہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی الٰہی پر قیامت تک مہر لگ گئی ہے اور بالکل غیرممکن ہے کہ اب کسی سے مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ ہو اور اب قیامت تک اُمّتِ مرحومہ اِس قسم کے رحم سے بے نصیب کی گئی ہے کہ خدائے تعالیٰ ان کو اپنا ہمکلام کرکے اُن کی معرفت میں ترقی بخشے اور براہ راست اپنی ہستی پر اُن کو مطلع فرمائے بلکہ وہ صرف تقلیدی طورپر گلے پڑا ڈھول بجا رہے ہیں۔اور شہودی طور پر ایک ذرّہ معرفت اُن کو حاصل نہیں۔ ہاں اس قدر محض لغو طریق پر بعض کا اُن میں سے اعتقاد ہے کہ الہام تو نیک بندوں کو ہوتا ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ وہ الہام رحمانی ہے یا شیطانی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایسا الہام جو شیطان کی طرف بھی منسوب ہوسکتا ہے خدا کے ان انعامات میں شمار نہیں ہوسکتا جو انسان کے ایمان کو مفید ہوسکتے ہیں بلکہ مشتبہ ہونا اور شیطانی کلام سے مشابہ ہونا اُس کے ساتھ ایک ایسا *** کا داغ ہے جو جہنم تک پہنچا سکتا ہے۔ او راگر خدا نے کسی بندہ کے لئے33کی دُعا قبول کی ہے اور اُس کو منعمین میں داخل فرمایا ہے توضرور اپنے وعدہ کے مطابق اس رُوحانی انعام سے حصہ دیا ہے جو یقینی طورپر مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ ہے۔

غرض یہ ہی وہ امر تھا کہ اس اندھی دُنیا میں قوم کیلئے ایک جوش اور غضب دکھلانے کا محل تھا۔ پس میرے جیسے بیکس تنہا کے لئے ان تمام امور کا جمع ہونا بظاہر ناکامی کی ایک علامت تھی*۔ بلکہ ایک سخت ناکامی کا سامنا تھا کیونکہ کوئی پہلو بھی درست نہ تھا ۔ اوّل


میری دعوت کی مشکلات میں سے ایک رسالت اور وحی الٰہی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ تھا اسی کی نسبت میری گھبراہٹ ظاہر کرنے کے لئے یہ الہام ہوا تھا۔ فاجاء ہ المخاض



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 69

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 69

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/69/mode/1up


مال کی ضرورت ہوتی ہے ۔ سو اس وحی الٰہیؔ کے وقت تمام ملکیت ہماری تباہ ہوچکی تھی اور ایک بھی ایسا آدمی ساتھ نہ تھا جو مالی مدد کرسکتا۔ دوسرے مَیں کسی ایسے ممتاز خاندان میں سے نہیں تھا جو کسی پر میرا اثر پڑ سکتا۔ ہر ایک طرف سے بال و پر ٹوٹے ہوئے تھے پس جس قدر مجھے اس وحی الٰہی کے بعد سرگردانی ہوئی وہ میرے لئے ایک طبعی امر تھا اور میں اس بات کا محتاج تھا کہ میری زندگی کو قائم رکھنے کے لئے خدائے تعالیٰ عظیم الشان وعدوں سے مجھے تسلی دیتا تا میں غموں کے ہجوم سے ہلاک نہ ہو جاتا۔ پس میں کس منہ سے خداوند کریم و قدیر کا شکر کروں کہ اُس نے ایسا ہی کیا۔ اور میری بے کسی اور نہایت بے قراری کے وقت میں مجھے مبشرانہ پیشگوئیوں کے ساتھ تھام لیا اور پھر بعد اس کے اپنے تمام وعدوں کو پورا کیا۔ اگر وہ خدائے تعالیٰ کی تائیدیں اور نصرتیں بغیر سبقت پیشگوئیوں کے یونہی ظہور میں آتیں تو بخت اور اتفاق پر حمل کی جاتیں لیکن اب وہ ایسے خارقِ عادت نشان ہیں کہ اُن سے وہی انکار کرے گا جو شیطانی خصلت اپنے اندر رکھتا ہوگا۔

اور پھر اس کے بعد خدا نے اپنے اُن تمام وعدوں کو پورا کیا جو ایک زمانہ دراز پہلے پیشگوئی کے طور پر کئے تھے۔ اور طرح طرح کی تائیدیں اور طرح طرح کی نصرتیں کیں۔اور جن مشکلات کے تصور سے قریب تھا کہ میری کمر ٹوٹ جائے اور جن غموں کی وجہ سے مجھے خوف تھا کہ میں ہلا ک ہو جاؤں اُن تمام مشکلات اور تمام غموں کو دُور فرمایا اور جیسا کہ وعدہ کیا تھا


اِلٰی جذع النخلۃ۔ قال یالیتنی مِتّ قبل ھٰذا و کنت نسیًا منسیًا۔ مخاض سے مراد اس جگہ وہ امور ہیں جن سے خوفناک نتائج پیدا ہوتے ہیں اور جذع النخلۃ سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کی اولاد مگر صرف نام کے مسلمان ہیں۔ بامحاورہ ترجمہ یہ ہے کہ درد انگیز دعوت جس کا نتیجہ قوم کا جانی دشمن ہو جانا تھا اس مامور کو قوم کے لوگوں کی طرف لائی جو کھجور کی خشک شاخ یا جڑ کی مانند ہیں۔ تب اُس نے خوف کھا کر کہا کہ کاش میں اس سے پہلے مرجاتا اور بھولا بسرا ہو جاتا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 70

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 70

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/70/mode/1up


ویسا ہی ظہور میں لایا۔ اگرچہ وہ بغیر سبقت پیشگوئیوں کے بھی میری نصرت اور تائید کرسکتا تھا مگر اُس نے ایسا نہ کیا بلکہ ایسے زمانہ اور ایسی نومیدی کے وقت میں میری تائید اور نصرت کیلئے پیشگوئیاں فرمائیں کہ وہ زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس زمانہ سے مشابہ تھا جبکہ آپ مکّہ معظمہ کی گلیوں میں اکیلے پھرتے تھے اور کوئی آپ کے ساتھ نہ تھا۔اور کوئی صورت کامیابی کی ظاہر نہیں تھی۔ اسی طرح وہ پیشگوئیاں جو میرے گمنامی کے زمانہ میں کی گئیں اُس زمانہ کی نگاہ میں ہنسی کے لائق اور دُور از قیاس تھیں اور ایک دیوانہ کی بڑ سے مشابہ تھیں۔کس کو معلوم تھا کہ جیسا کہ ان پیشگوئیوں میں وعد ہ فرمایا گیا ہے سچ مچ کسی زمانہ میں ہزارہا انسان میرے پاس قادیان میں آئیں گے۔ اور کئی لاکھ انسان میری بیعت میں داخل ہو جائیں گے اور میں اکیلا نہیں رہوں گا جیسا کہ اُس زمانہ میں اکیلا تھا۔اور خدا نے گمنامی او رتنہائی کے زمانہ میں یہ خبریں دیں تا وہ ایک دانشمند اور طالب حق کی نظر میں عظیم الشان نشان ہوں اور تا سچائی کے ڈھونڈنے والے یقینِ دل سے سمجھ لیں کہ یہ کاروبار انسان کی طرف سے نہیں ہے اور نہ ممکن ہے کہ انسان کی طرف سے ہو۔ اُس زمانہ میں کہ مَیں ایک گمنام اور اکیلا اور نہایت کم درجہ کی حیثیتؔ کا انسان تھا اور اس قدر کم حیثیت تھا کہ قابل ذکر نہ تھا اور کسی ایسے ممتاز خاندان سے نہ تھا جس کی نسبت توقع ہوسکتی تھی کہ بآسانی لوگ اُس پر جمع ہو جائیں گے۔ ایسے وقت میں اور ایسی حالت میں کون انسان ایسی پیشگوئیاں کرسکتا تھا جو براہین احمدیہ میں آج سے پچیس۲۵ برس* پہلے شائع ہوچکی ہیں جن میں سے بطور نمونہ ہم ذیل میں لکھتے ہیں۔

اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَانْتَھٰی اَمْرُ الزَّمَانِ اِلَیْنَا اَلَیْسَ ھَذَا بِالْحَقّ۔

اصل میں بہت سی پیشگوئیاں براہین احمدیہ کی ایسی ہیں جن پر آج تیس۳۰ سال کی مدت گزر چکی ہے لیکن پچیس۲۵سال براہین احمدیہ میں لکھے جانے کی تاریخ ہے نہ اصل زمانہ پیشگوئی کا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 71

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 71

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/71/mode/1up



وَلَا تَیْءَسْ مِنْ رَوْحِ اللّٰہِ۔ اَلا اِنَّ رَوْحَ اللّٰہِ قَرِیْب۔اَلا اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْب۔یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق۔ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق۔ یَنْصُرُکَ اللّٰہ مِنْ عِنْدِہٖ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِی اِلَیْھِم مِّنَ السَّمَآءِ اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا ۔ یَرْفَعُ اللّٰہُ ذِکْرَکَ وَیُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ فِی الدُّنْیَاوَالْاٰخِرَۃ۔ اَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ۔ ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْءًا مَّذْکُوْرًا۔ وَبَشّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّھِمِ وَاْتلُ عَلَیْھِمْ مَا اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ۔ وَلَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْءَمْ مِّنَ النَّاسِ۔ اَصْحَابُ الصُّفُّۃ۔وَمَا اَدْرَاکَ مَا اَصْحَابُ الصُّفَّۃ تَرَی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ۔ یُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ۔ رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًایُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ ۔ اَمْلُوا۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۲۴۰ سے ۲۴۲ تک۔ ترجمہ ۔ جس وقت خدا کی مدد اور فتح آئے گی اور زمانہ ہماری طرف رجوع کرلے گااُس وقت کہا جائے گا کہ کیا یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہ تھا۔ اور خدا کی رحمت سے نومید مت ہو یعنی یہ خیال مت کر کہ میں تو ایک گمنام اور اکیلا اور احدٌ مّن النّاس آدمی ہوں۔ یہ کیوں کر ہوگا کہ میرے ساتھ ایک دنیا جمع ہو جائے گی۔ کیونکہ خدا ارادہ کرچکا ہے کہ ایسا ہی ہوگا اور اُس کی مدد قریب ہے۔اور جن راہوں سے وہ مالی مدد آئے گی اور ارادت کے خطوط آئیں گے وہ سڑکیں ٹوٹ جائیں گی اور گہری ہو جائیں گی۔ یعنی بکثرت ہر ایک قسم کا مال آئے گا اور دُور دُور سے آئے گا اور دُور دُور سے مُریدانہ خطوط آئیں گے۔ اور نیز اس قدر لوگ کثرت سے آئیں گے کہ جن راہوں پر چلیں گے اُن راہوں میں گڑھے پڑ جائیں گے۔ خدا اپنے پاس سے تیری مدد کرے گا۔ تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم خود آسمان سے الہام کریں گے۔ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ تیرے ذکر کو خدا اونچا کرے گا اور دنیا اور آخرت میں اپنی نعمت تیرے پر پوری کردے گا۔ تومجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید۔ پس وقت چلا آتا ہے کہ ؔ تیری مدد کی جائے گی۔اور دنیا جہان میں تیرے نام کو



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 72

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 72

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/72/mode/1up


شہرت دی جائے گی۔ اور تو اس سے کیوں تعجب کرتا ہے کہ خدا ایسا کرے گا ۔ کیا تیرے پر وہ وقت نہیں آیا کہ تو محض معدوم تھا اور تیرے وجود کا دنیا میں نام و نشان نہ تھا۔ پھر کیا خدا کی قدرت سے یہ بعید ہے کہ تیری ایسی تائیدیں کرے اور یہ وعدے پورے کرکے دکھلا دے۔ اور تو اُن لوگوں کو جو ایمان لائے یہ خوشخبری سنا کہ اُن کا قدم خدا کے نزدیک صدق کا قدم ہے ۔ سو اُن کو وہ وحی سنا دے جو تیری طرف تیرے رب سے ہوئی۔ اور یاد رکھ کہ وہ زمانہ آتا ہے کہ لوگ کثرت سے تیری طرف رجوع کریں گے۔ سو تیرے پر واجب ہے کہ تو اُن سے بدخلقی نہ کرے اور تجھے لازم ہے کہ تو اُن کی کثرت کو دیکھ کر تھک نہ جائے۔ اور ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اپنے وطنوں سے ہجرت کرکے تیرے حجروں میں آکرآباد ہوں گے۔ وہی ہیں جو خدا کے نزدیک اَصحابُ الصُّفّہ کہلاتے ہیں۔ اور تو جانتا ہے کہ وہ کس شان اور کس ایمان کے لوگ ہوں گے جو اَصحابُ الصُّفّہ کے نام سے موسوم ہیں وہ بہت قوی الایمان ہوں گے۔ تو دیکھے گا کہ اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوں گے وہ تیرے پردرود بھیجیں گے اور کہیں گے کہ اے ہمارے خدا ! ہم نے ایک آواز دینے والے کی آواز سنی جو ایمان کی طرف بلاتا ہے۔ سو ہم ایمان لائے ان تمام پیشگوئیوں کو تم لکھ لو کہ وقت پر واقع ہوں گی۔

ان چند سطروں میں جو پیشگوئیاں ہیں وہ اس قدر نشانوں پر مشتمل ہیں جو دس۱۰ لاکھ سے زیادہ ہوں گے اور نشان بھی ایسے کھلے کھلے ہیں جو اوّل درجہ پر خارق عادت ہیں سو ہم اوّل صفائی بیان کے لئے ان پیشگوئیوں کے اقسام بیان کرتے ہیں بعد اس کے یہ ثبوت دیں گے کہ یہ پیشگوئیاں پوری ہوگئی ہیں۔ اور درحقیقت یہ خارق عادت نشان ہیں اور اگر بہت ہی سخت گیری اور زیادہ سے زیادہ احتیاط سے بھی ان کا شمار کیا جائے تب بھی یہ نشان جو ظاہر ہوئے دس لاکھ سے زیادہ ہوں گے۔

پیشگوئیوں کے اقسام میں سے اوّل وہ پیشگوئی ہے جس کی طرف وحی الٰہی وَانْتَھٰی اَمْرُ الزَّمَانِ اِلَیْنَا میں اشارہ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مخالف لوگوں سے ہمارا جنگ ہوگا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 73

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 73

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/73/mode/1up


مخالف چاہیں گے کہ اِس سلسلہ میں ناکامی رہے اور لو گ اِس طرف رجوع نہ کریں اور نہ قبول کریں۔ پر ہم چاہیں گے کہ لوگ رجوع کریں آخر ہمارا ہی ارادہ پورا ہوگا ۔ اور لوگوں کا اِس طرف رجوع ہو جائے گا۔ اور وہ قبول کرتے جائیں گے (۲) دوسری پیشگوئیوں میں یہ خبر دی گئی ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ دُور دُور سے مالی امداد بھیجی جائے گی اور دُور دُور سے خطوط آئیں گے اور اس قدر تواتر اور کثرت سے مالیؔ مدد پہنچے گی کہ جن راہوں سے وہ مالی مدد آئے گی وہ سڑکیں گہری ہو جائیں گی۔ (۳) تیسری پیشگوئی یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ اس قدر لوگ ارادت اور اعتقاد سے قادیان میں آئیں گے کہ جن راہوں سے وہ آئیں گے وہ سڑکیں ٹوٹ جائیں گی(۴) چوتھی پیشگوئی یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ لوگ تیرے ہلاک اورتباہ کرنے کے لئے کوشش کریں گے۔ مگر ہم تیرے محافظ رہیں گے ۔(۵)پانچویں پیشگوئی یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ میں دنیا میں تجھے شہرت دوں گا اور تو دُور دُور تک مشہور ہو جائے گا اورتیری مدد کی جائے گی۔(۶) چھٹی پیشگوئی یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ اس قدر لوگ کثرت سے آئیں گے کہ قریب ہے کہ تو تھک جائے یا بباعث کثرت ازدحام اُن سے توبدخلقی کرے۔(۷) ساتویں پیشگوئی یہ ہے کہ خدا فرماتاہے کہ بہت سے لوگ اپنے اپنے وطنوں سے تیرے پاس قادیان میں ہجرت کرکے آئیں گے اور تمہارے گھروں کے کسی حصہ میں رہیں گے وہ اصحابِ صُفّہ کہلائیں گے۔

یہ سات پیشگوئیاں ہیں جن کی خبر ان کلماتِ وحی الٰہی میں دی گئی ہے اور ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس زمانہ میں یہ ساتوں پیشگوئیاں پوری ہوچکی ہیں۔ کیونکہ علماء اور پیرزادوں نے کفر کے فتوے طیارکرکے اور طرح طرح کے منصوبے تراش کرکے ناخنوں تک زور لگایا کہ تامیری طرف کوئی رجوع نہ کرے اور حیا کو بالائے طاق رکھ کر خدا تعالیٰ سے جنگ کیا اور کوئی دقیقہ مکر اور فریب اوردھوکہ دینے کا اٹھانہ رکھا۔ اور بعض نے میری نسبت جھوٹی مخبریاں کیں تا کسی طرح گورنمنٹ کو ہی افروختہ کریں اور بعض نے جاہل مسلمانوں کو افروختہ کیا تا وہ دُکھ دیتے رہیں مگر آخر کار وہ سب نامراد رہے اور یہ پودا زمین میں مخفی نہ رہ سکا اور ایک جماعت کی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 74

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 74

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/74/mode/1up


صورت پیدا ہوگئی جس کے ثابت کرنے کی کچھ ضرورت نہیں کہ بدیہی امر ہے پھر دوسری پیشگوئی یہ تھی کہ ہر طرف سے مالی امداد آئے گی یہ مالی امداد اب تک پچاس ہزار روپیہ سے زیادہ آچکی ہے۔ بلکہ مَیں یقین کرتا ہوں کہ ایک لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے اس کے ثبوت کیلئے ڈاکخانجات کے رجسٹر کافی ہیں اور پھر تیسری پیشگوئی یہ تھی کہ لوگ کثرت سے آئیں گے۔ سو اس قدر کثرت سے آئے کہ اگر ہر روزہ آمدن اورخاص وقتوں کے مجمعوں کا اندازہ لگایا جائے تو کئی لاکھ تک اُس کی تعداد پہنچتی ہے۔ چنانچہ اس واقعہ کو محکمہ پولیس کے وہ ملازم خوب جانتے ہیں جن کو اس طرف خیال رکھنے کا حکم ہے اور نیز قادیان کے تمام لوگ جانتے ہیں ۔ اور پھر چوتھی پیشگوئی یہ تھی کہ خدا فرماتا ہے کہ لوگوں کے حملوں سے ہم بچائیں گے اور تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے سو اِس کا ظہور بھی ہو چکا۔ چنانچہ ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مقدمہ میں یہ ارادہ کیا گیا تھا کہ میں پھانسی دیا جاؤں اور کرم دین جس نے ناحق بے موجب مجھ پر فوجداری مقدمے کئے اُس کا بھی یہی ارادہ تھا کہ میں کسی طرح سخت قید کی سزا پاؤں اورؔ وہ اس مقدمہ بازی میں اکیلا نہ تھا بلکہ کئی مولوی اور حاسد دنیا دار اس کے ساتھ شریک تھے اور اس کیلئے چندے ہوتے تھے۔ سو خدا نے مجھے بچا لیا اور اپنی پیشگوئیوں کوسچا کرکے دکھلا دیا ۔ پھر پانچویں پیشگوئی یہ تھی کہ خدا دنیا میں عزت کے ساتھ تجھے شہرت دے گا۔ سواس کا پورا ہونا محتاج بیان نہیں۔ چھٹی پیشگوئی یہ تھی کہ اس قدر لوگ آئیں گے کہ عنقریب ہے کہ تو اُن کی ملاقات سے تھک جائے یا کثرت مہمانداری کی وجہ سے بدخلقی کرے سواس پیشگوئی کا وقوع نہایت ظاہر ہے اور جن لوگوں کو قادیان میں آنے کا اتفاق ہوتارہا ہے وہ کثرت آمد مہمانوں کو دیکھ کر گواہی دے سکتے ہیں کہ واقعی بعض اوقات اس کثرت سے مہمان جمع ہوتے ہیں اور اس کثرت سے ملاقاتوں کی کشمکش ہوتی ہے کہ اگر یہ وصیت ہر وقت ملحوظ نہ ہو تو ممکن ہے کہ ضعف بشریت بدخلقی کی طرف مائل کر دیوے یا مہمانداری میں فتور پیدا ہو جائے۔ سب کے ساتھ خوش خلقی سے مصافحہ کرنا اور باوجود صدہا لوگوں کے اجتماع کے ہر ایک کے ساتھ پور ے اخلاق سے پیش آنا بجز خدا کی مدد کے ہر ایک کا کام نہیں۔ ساتویں پیشگوئی اُن اصحا ب الصفہ کی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 75

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 75

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/75/mode/1up


نسبت ہے جو ہجرت کرکے قادیاں میں آگئے۔ سو جس کا جی چاہے آکر دیکھ لے۔

یہ سات قسم کے نشان ہیں جن میں سے ہر ایک نشان ہزارہا نشانوں کا جامع ہے۔ مثلاً یہ پیشگوئی کہ یَأْ تِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق جس کے یہ معنے ہیں کہ ہر ایک جگہ سے اور دور دراز ملکوں سے نقد اور جنس کی امداد آئے گی اور خطوط بھی آئیں گے۔ اب اس صورت میں ہر ایک جگہ سے جواب تک کوئی روپیہ آتا ہے یا پارچات اوردوسرے ہدیے آتے ہیں یہ سب بجائے خود ایک ایک نشان ہیں۔ کیونکہ ایسے وقت میں ان تمام باتوں کی خبر دی گئی تھی جبکہ انسانی عقل اس کثرتِ مدد کو دُور از قیاس و محال سمجھتی تھی۔ ایسا ہی یہ دوسری پیشگوئی یعنی یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق جس کے یہ معنے ہیں کہ دُور دُور سے لوگ تیرے پاس آئیں گے یہاں تک کہ وہ سڑکیں ٹوٹ جائیں گی جن پر وہ چلیں گے۔ اس زمانہ میں یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی چنانچہ اب تک کئی لاکھ انسان قادیان میں آچکے ہیں اور اگر خطوط بھی اس کے ساتھ شامل کئے جائیں جن کی کثرت کی خبر بھی قبل از وقت گمنامی کی حالت میں دی گئی تھی تو شاید یہ اندازہ کروڑ تک پہنچ جائے گا مگر ہم صرف مالی مدد اور بیعت کنندوں کی آمد پرکفایت کرکے ان نشانوں کو تخمیناً دس لاکھ نشان قرار دیتے ہیں۔ بے حیا انسان کی زبان کو قابو میں لانا تو کسی نبی کیلئے ممکن نہیں ہوا لیکن وہ لوگ جو حق کے طالب ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے گمنامی کے زمانہ میں جس کو قریباً پچیس برس گذر گئے جب کہ میں کچھ بھی چیز نہ تھا اور کسی قسم کی شہرت نہ رکھتا تھا اور کسی بزرگ خاندان پیر زادگی سے نہ تھا تا رجوع خلائق سہل ہوتا۔ اس قدر کھلے طور پر آئندہ زمانہ کے عروج اور ترقیات کیؔ خبر دینا اور پھر اُن چیزوں کا اُسی طرح بعدزمانہ دراز وقوع میںآجانا کیا کسی انسان سے ہو سکتا ہے اور کیاممکن ہے کہ کوئی کذّاب اور مفتری ایسا کرسکے۔ مَیں باور نہیں کرسکتا کہ جو شخص پہلے انصاف کی نظر سے اُس زمانہ کی طرف نظر اٹھاکردیکھے جبکہ براہین احمدیہ تالیف کی گئی تھی اور ابھی شائع بھی نہیں ہوئی تھی اور ایک جوڈیشل تحقیقات کے طور سے خود موقع پر آکر دریافت کرے کہ اُس زمانہ میں مَیں کیا چیز تھا اور کس قدرخمول اور گمنامی کے زاویہ میں پڑا ہوا تھا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 76

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 76

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/76/mode/1up


اور کیسے مہجور اور مخذول کی طرح لوگوں کے تعلقات سے الگ تھا ۔ اور پھر ان پیشگوئیوں کو جو حال کے زمانہ میں پوری ہوگئیں غور سے دیکھے اور تدبّر سے اُن پر نظر ڈالے تواُس کو ان پیشگوئیوں کی سچائی پر ایسا یقین آجائے گا کہ گویا دن چڑھ جائے گا ۔ مگر بخل اور تعصب اور نفسانی کبر اور رعونت کی حالت میں کسی کو کیاغرض جو اس قدر محنت اٹھائے بلکہ وہ تو تکذیب کی راہ کو اختیار کرے گا جو بہت سہل کام ہے اور کوشش کرے گا جو کسی طرح ان نشانوں کے قبول کرنے سے محروم رہے۔


بجز فضل خداوندی چہ درمانے ضلالت را

نہ بخشد سود اعجاز ے تہیدستان قِسمت را

اگر برآسمان صدماہتاب و صدخورے تابد

نہ بیند روز روشن آنکہ گم کردہ بصارت را

تو اے دانابترس از آنکہ سوئے اوبخواہی رفت

بہ دنیا دل چہ مے بندی چہ دانی وقتِ رحلت را

مشو از بہرِدنیا سرکشِ فرمانِ احدیّت

مخراز بہرِ روزے چند اے مسکیں تو شقوت را

اگر خواہی کہ یابی در دو عالم جاہ و دولت را

خدا را باش و از دل پیش ۂ خود گیر طاعت را

غلامِ درگہش باش و بعالم بادشاہی کُن

نباشد بیم از غیرے پرستاران حضرت را

تواز دل سوئے یارِ خود بیا تا نیز یار آید

محبت مے کشدباجذبِ روحانی محبت را

خدا در نصرتِ آنکس بود کو ناصرِ دین ست

ہمیں اُفتاد آئین از ازل درگاہِ عزّت را

اگر باورنمے آید بخواں ایں واقعاتم را

کہ تابینی تو درہر مشکلم انواعِ نُصرت را

ہرآں کو یابد از درگاہ از خدمت ہمے یابد

کہ غفلت را سزائے ہست و اجرے ہست خدمت را

من اندر کارِ خود حیرانم و رازش نمے دانم

کہ من بے خدمتے دیدم چنیں نعماء وحشمت را

نہاں اندرنہاں اندر نہاں اندر نہاں ہستم

کجا باشد خبر از ماگرفتارانِ نخوت را



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 77

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 77

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/77/mode/1up


ندا ؔ ئے رحمت از درگاہِ باری بشنوم ہردم

اگر کرمے کند *** چہ وزن آں ہرزہ *** را

اگر در حلقۂ اہلِ خدا داخل شوی یانے

نوِشتیم از رہِ شفقت کہ ماموریم دعوت را

یہ پیشگوئیاں جو ابھی ہم لکھ چکے ہیں صرف براہین احمدیہ کے اُسی مقام میں مسطور نہیں ہیں بلکہ خدائے تعالیٰ نے تاکید کے طور پر اور اس اظہار کی غرض سے کہ یہ ارادہ آسمان پر قرار پاچکا ہے جابجا دوبارہ سہ بارہ براہین احمدیہ کے مختلف مقامات میں اُن کا ذکر کیا ہے۔ اور بعض اور پیشگوئیاں بھی بیان فرمائی ہیں جو ان سے الگ ہیں۔ چنانچہ ہم حق کے طالبوں کو پورے طور پر سیراب کرنے کیلئے وہ پیشگوئیاں بھی اس جگہ لکھ دیتے ہیں اور یاد رہے کہ اس جگہ صرف اسی قدر معجزہ نہیں کہ وہ پیشگوئیاں باوجود اہلِ عناد کی سخت مخالفت کے ایک مدت دراز کے بعد پوری ہوگئیں بلکہ ساتھ اس کے یہ بھی معجزہ ہے کہ جیسا کہ ابتدا میں یہ وحی الٰہی مجھے ہوئی تھی کہ جو اس رسالہ میں درج ہوچکی ہے یعنی یہ کہ یا احمد بارک اللّٰہ فیک جس کے معنے ہیں کہ اے احمد خدا تیری عمراورکام میں برکت دے گا۔ایسا ہی خدا نے مجھے موت سے محفوظ رکھا یہاں تک کہ وہ تمام پیشگوئیاں پوری کرکے دکھلا دیں اور باوجود ان تمام عوارض اور امراض کے جو مجھے لگے ہوئے ہیں جو د۲و زرد چادروں کی طرح ایک اوپر کے حصّے میں اور ایک نیچے کے بدن کے حصہ میں شامل حال ہیں جیسا کہ مسیح موعود کے لئے اخبار صحیحہ میں یہ علامت قرار دی گئی ہے مگر پھر بھی خدائے تعالیٰ نے اپنے فضل سے جیسا کہ وعدہ کیا تھا میری عمر میں برکت دی بڑی بڑی بیماریوں سے میں جاں برہوگیا۔ اور کئی دشمن بھی منصوبے کرتے رہے کہ کسی طرح میں کسی پیچ میں پڑ کر اس دارِ دنیا سے رخصت ہو جاؤں مگر وہ اپنے مکروں میں نامراد رہے اور میرے خدا کاہاتھ میرے ساتھ رہا اور اُس کی پاک وحی جس پر میں ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ خدائے تعالیٰ کی تمام کتابوں پر مجھے ہر روز تسلی دیتی رہی۔ سو یہ خدا کے نشان ہیں جن کے دیکھنے سے اُس کا چہرہ نظر آتا ہے ۔مبارک وہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 78

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 78

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/78/mode/1up


جو ان پر غور کریں اور خدا کے ساتھ لڑنے سے ڈریں۔ اگریہ کاروبار انسان کا ہوتا تو خود تباہ ہو جاتا اور اس کا یوں خاتمہ ہو جاتا جیسا کہ ایک کاغذ لپیٹ دیا جائے ۔ پر یہ سب کچھ اُس خدا کی طرف سے ہے جس نے آسمان بنائے اور زمین کو پیدا کیا۔ کیا انسان کو حق پہنچتا ہے کہ اُس پر اعتراض کرے کہ تو نے ایسا کیوں کیا۔ اور ایسا کیوں نہ کیا۔ اور کیا وہ ایسا ہے کہ اپنے کاموں سے پوچھا جائے؟ کیا انسان کا علم اس کے علم سے بڑھ کر ہے؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ نزولِ مسیح کی پیشگوئی کے کیامعنے تھے؟

ابؔ ذیل میں وہ پیشگوئیاں لکھی جاتی ہیں جو پہلی پیشگوئیوں کی تاکید اور تائید کیلئے فرمائی گئی ہیں اور وہ یہ ہیں:۔ بورکت یا احمد وکان ما بارک اللّٰہ فیک حقًّا فیک۔ شانک عجیب واجرک قریب۔ الارض والسّماء معک کما ھو معی۔ سبحان اللّٰہ تبارک وتعالٰی زاد مجدک ینقطع اٰباء ک ویبدء منک ۔ وما کان اللّٰہ لیترکک حتّٰی یمیز الخبیث من الطیّب۔ واللّٰہ غالب علٰی امرہٖ ولکن اکثر النّاس لا یعلمون ۔ اذا جاء نصر اللّٰہ والفتح وتَمَّت کلمۃ ربّک ھٰذا الذی کنتم بہ تستعجلون۔ أَردتُ ان استخلف فخلقتُ اٰدم ۔ دنٰی فتدلّٰی فکان قاب قوسین او أدنٰی ۔ یُحْیِی الدّین ویقیم الشریعۃ۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۴۸۶ سے صفحہ ۴۹۶ تک۔ ترجمہ:۔ اے احمد تجھے برکت دی گئی اور یہ برکت تیرا ہی حق تھا۔ تیری شان عجیب ہے اور تیرا اجر قریب ہے یعنی وہ تمام وعدے جو کئے گئے وہ جلد پورے ہوں گے۔ چنانچہ پورے ہوگئے۔ اور پھر فرماتا ہے کہ زمین اور آسمان تیرے ساتھ ہیں جیسا کہ وہ میرے ساتھ ہیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آئندہ بہت سی قبولیت ظاہر ہوگی اور زمین کے لوگ رجوع کریں گے اور آسمانی فرشتے ساتھ ہوں گے جیسا کہ آج کل ظہور میں آیا۔ پھر فرماتا ہے ۔ پاک ہے وہ خدا جو بہت برکتوں والا اور بہت بلند ہے اُس نے تیری بندگی کو زیادہ کیا۔ تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع ہو جائے گا اور اب سے سلسلہ تجھ سے شروع ہوگا۔اور دنیا میں تیری نسل پھیلے گی اور قوموں میں تیری شہرت ہو جائے گی۔ اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 79

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 79

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/79/mode/1up


خاندان کی عمارت کا پہلا پتھر تُو ہوگا ۔ خدا ایسا نہیں ہے کہ تجھے چھوڑ دے جب تک پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھلائے۔اور خدا اپنی ہر ایک بات پر غالب ہے مگر اکثر لوگ خدائی طاقت سے بے خبر ہیں۔ ان پیشگوئیوں میں بہت سی نسل کا وعدہ دیا جیسا کہ حضرت ابراہیم کو دیا تھا چنانچہ اس وعدہ کی بنا پر مجھے یہ چار بیٹے دیئے جواب موجود ہیں۔ اور ان پیشگوئیوں کو کہ میں تجھے نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ پاک اور پلید میں فرق نہ کرلوں اِس زمانہ میں ظاہر کردیا۔چنانچہ تم دیکھتے ہو کہ باوجود تمہاری سخت مخالفت اور مخالفانہ دعاؤں کے اُس نے مجھے نہیں چھوڑا اور ہر میدان میں وہ میراحامی رہا۔ ہر ایک پتھر جو میرے پر چلایا گیا اُس نے اپنے ہاتھوں پر لیا۔ ہر ایک تیرجو مجھے مارا گیا اُس نے وہی تیر دشمنوں کی طرف لوٹا دیا۔ میں بیکس تھا اُس نے مجھے پناہ دی۔ میں اکیلا تھا اُس نے مجھے اپنے دامن میں لے لیا۔ میں کچھ بھی چیز نہ تھا مجھے اُس نے عزت کے ساتھ شہرؔ ت دی اور لاکھوں انسانوں کو میرا اِرادتمند کردیا ۔ پھر وہ اُسی مقدس وحی میں فرماتا ہے کہ جب میری مدد تمہیں پہنچے گی اور میرے منہ کی باتیں پوری ہو جائیں گی یعنی خلق اللہ کا رجوع ہو جائے گا اور مالی نُصرتیں ظہورمیں آئیں گی تب منکروں کو کہا جائے گا کہ دیکھو کیا وہ باتیں پوری نہیں ہوگئیں جن کے بارے میں تم جلدی کرتے تھے ۔ چنانچہ آج وہ سب باتیں پوری ہوگئیں۔ اس بات کے بیان کرنے کی حاجت نہیں کہ خدا نے اپنے عہد کو یاد کرکے لاکھوں انسانوں کو میری طرف رجوع دے دیا اور وہ مالی نصرتیں کیں جو کسی کے خواب و خیال میں نہ تھیں۔ پس اے مخالفو! خدا تم پر رحم کرے اور تمہاری آنکھیں کھولے۔ ذرہ سوچوکہ کیا یہ انسانی مکر ہوسکتے ہیں۔ یہ وعدے تو براہین احمدیہ کی تصنیف کے زمانہ میں کئے گئے تھے جبکہ قوم کے سامنے ان کا ذکر کرنا بھی ہنسی کے لائق تھا اور میری حیثیت کا اس قدر بھی وزن نہ تھا جیسا کہ رائی کے دانہ کاوزن ہوتا ہے ۔ تم میں سے کون ہے کہ جومجھے اس بیان میں ملزم کرسکتاہے۔ تم میں سے کون ہے کہ یہ ثابت کرسکتا ہے کہ اُس وقت بھی ان ہزارہا لوگوں میں سے کوئی میری طرف رجوع رکھتا تھا۔میں تو براہین احمدیہ کے چھپنے کے وقت ایسا گمنام



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 80

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 80

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/80/mode/1up


شخص تھا کہ امرتسر میں ایک پادری کے مطبع میں جس کانام رجب علی تھا میری کتاب براہین احمدیہ چھپتی تھی اور میں اُس کے پروف دیکھنے کے لئے اورکتاب کے چھپوانے کے لئے اکیلا امرتسر جاتا اور اکیلا واپس آتا تھا اور کوئی مجھے آتے جاتے نہ پوچھتا کہ تو کون ہے اور نہ مجھ سے کسی کو تعارف تھا او رنہ میں کوئی حیثیت قابل تعظیم رکھتا تھا۔ میری اس حالت کے قادیاں کے آریہ بھی گواہ ہیں جن میں سے ایک شخص شرمپت نام اب تک قادیاں میں موجود ہے جو بعض دفعہ میرے ساتھ امرتسر میں پادری رجب علی کے پاس مطبع میں گیا تھا جس کے مطبع میں میری کتاب براہین احمدیہ چھپتی تھی۔ اور تمام یہ پیشگوئیاں اس کا کاتب لکھتا تھا۔ اوروہ پادری خود حیرانی سے پیشگوئیوں کو پڑھ کر باتیں کرتا تھا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ایسے معمولی انسان کی طرف ایک دنیا کا رجوع ہو جائے گا۔پر چونکہ وہ باتیں خدا کی طرف سے تھیں میری نہیں تھیں اس لئے وہ اپنے وقت میں پوری ہوگئیں اور پوری ہو رہی ہیں۔ ایک وقت میں انسانی آنکھ نے اُن سے تعجب کیا ۔ اور دوسرے وقت میں دیکھ بھی لیا۔ پھر بقیہ ترجمہ یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ارادہ کیا کہ دنیا میں اپنا ایک خلیفہ قائم کروں۔ سو میں نے اس آدم کو پیدا کیا ۔ اس وحی الٰہی میں میرا نام آدم رکھا گیا۔ کیونکہ انسانی نسل کے خراب ہوجانے کے زمانہ میں مَیں پیدا کیا گیا گویا ایسے زمانہ میں جب کہ زمین انسانوں سے خالی تھی۔ اور جیسا کہ آدم توام پیدا کیا گیا میں بھی تواؔ م ہی پیدا ہوا تھا۔ اور میرے ساتھ ایک لڑکی تھی جو مجھ سے پہلے پیدا ہوئی اور مَیں بعد میں۔یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اب میرے پر کامل انسانیت کے سلسلہ کا خاتمہ ہے اور نیز میرا نام آدم رکھنے میں اور بھی ایک اشارہ تھا جو اس دوسرے الہام میں یعنی اُس وحی الٰہی میں جو قرآنی عبارت میں مجھ کو ہوئی۔ اُس کی تفصیل یہ ہے اور وہ وحی یہ ہے: قال اِنّی جاعل فی الارض خلیفۃ ۔ قالوا اَتجعل فیھا من یفسد فیھا۔ قَالَ اِنّی اعلم ما لا تعلمون۔ یعنی میری نسبت خدا نے میرے ہی ذریعہ سے براہین احمدیہ میں خبر دی کہ میں آدم کے رنگ پر ایک خلیفہ پیدا کرتاہوں۔ تب اس خبر کو سن کر بعض مخالفوں نے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 81

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 81

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/81/mode/1up


میرے حالات کو کچھ اپنے عقائد کے برخلاف پاکر اپنے دلوں میں کہا کہ یا الٰہی کیا تُو ایسے انسان کو اپنا خلیفہ بنائے گا کہ جو ایک مفسد آدمی ہے جو ناحق قوم میں پھوٹ ڈالتا ہے اور علماء کے مسلّمات سے باہر جاتا ہے ۔ تب خدا نے جواب دیا کہ جو مجھے معلوم ہے وہ تمہیں معلوم نہیں۔ یہ خدا کا کلام ہے کہ جو مجھ پر نازل ہوا اور درحقیقت میرے اور میرے خدا کے درمیان ایسے باریک راز ہیں جن کو دنیا نہیں جانتی اور مجھے خدا سے ایک نہانی تعلق ہے جو قابل بیان نہیں۔ اور اس زمانہ کے لوگ اس سے بے خبر ہیں۔پس یہی معنے ہیں اس وحی الٰہی کے کہ قَالَ اِنّی اَعلم مالا تَعلمون۔

پھر بقیہ ترجمہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ شخص مجھ سے نزدیک ہوااور میرا قرب کامل اس نے پایا۔ اور پھر بعد اس کے ہمدردی ء خلائق کے لئے اُن کی طرف متوجہ ہوا اور مجھ میں اورمخلوق میں ایک واسطہ ہوگیا جیسا کہ دو قوسوں میں وتر ہو۔ اور اس لئے کہ وہ اس درمیانی مقام پر ہے وہ دین کو از سر نو زندہ کرے گا اور شریعت کو قائم کردے گا۔ یعنی بعض غلطیاں جو مسلمانوں میں رائج ہوگئی ہیں اور ناحق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ان غلطیوں کو منسوب کیا جاتا ہے۔ اُن سب غلطیوں کو ایک حَکَم کے منصب پر ہوکر دُور کردے گا۔ اور شریعت کو جیسا کہ ابتدا میں سیدھی تھی سیدھی کرکے دکھلا دے گا۔

پھر انہی پیشگوئیوں کے بارے میں براہین احمدیہ میں اور بھی الہام ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ نُصرتَ وقالوا لَاتَ حین مناص۔ اَمْ یقولون نحن جمیع منتصر ۔ سَیُھزم الجمع ویولون الدبر۔ وان یروا اٰیۃً یُعرضوا

ویقولوا سحر مستمر۔ قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ۔ واعلموا اَنّ اللّٰہ یحیی الارض بعد موتھا ۔ ومن کان لِلّٰہ کان اللّٰہ لہ ۔

قل ان افتریتہ فعلیّ اجرام شدید۔ یا احمدی انت مرادی ومعی غرستک کرامتک بیدی ۔ أ کاؔ ن للنّاس عجبًا ۔ قل ھو اللّٰہ عجیب ۔ لا یُسئل



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 82

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 82

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/82/mode/1up


عمّا یفعل وھم یُسْءَلون۔ وقالوا انّی لک ھٰذا ان ھٰذاالّا اختلاق۔ قل اللّٰہ ثمّ ذرھُم فِیْ خوضھم یلعبون۔ وَلا تخاطبنی فی الذین ظلموا انھم مغرقون۔یظلّ ربّک علیک ویغیثک ویرحمک۔ وان لم یعصمک الناس یعصمک اللّٰہ من عندہٖ۔ یعصمک اللہ من عندہ وان لم یعصمک الناس۔ واذیمکربک الّذی کفّر*۔ اوقدلی یاھامان۔ تبّت یدا ابی لھبٍ وتبّ ما کان لہ ان یدخل فیھا اِلّا خائفًا وَمَا اصابک فمن اللّٰہ۔ الفتنۃ ھٰھنا فاصبرکما صبر اولوا العزم۔ اَلا انّھا فتنۃ من اللّٰہ لیحبّ حبًّا جمًّا عطاءً غیر مجذوذ۔ شاتان تذبحان۔ وکلّ من علیھا فان۔ عسٰی ان تکرھوا شیءًا وھو خیرلکم واللّٰہ یعلم وانتم لا تعلمون۔ دیکھو صفحہ ۴۹۷ سے ۵۱۱ تک براہین احمدیہ جلد چہارم۔ ترجمہ: تجھے مدد دی جائے گی اور نصرت الٰہی تیرے شامل ہوگی۔ اور ایسی نصرت ہوگی کہ حقیقت راستی کھل جائے گی۔ تب مخالف لوگ کہیں گے کہ اب گریز کی جگہ نہیں۔ وہ کہیں گے کہ ہم ایک بھاری جماعت ہیں جو انتقام لے سکتے ہیں۔ پر عنقریب وہ بھاگ جائیں گے اور منہ پھیر لیں گے۔ خدا کے نشان کو دیکھ کر کہیں گے کہ یہ مکر ہے جو بہت پختہ ہیض ۔ تواُن کو کہہ دے کہ اگر خدائے تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی


یہ لفظ کفّر اور کفر دونوں قراء تیں ہیں۔ کیونکہ کافر کہنے والا بہر حال منکر بھی ہو گا اور جو شخص اس دعوے سے منکر ہے وہ بہر حال کافر ٹھہرائے گا۔ اور ھامان کا لفظ ھیمان کے لفظ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ھیمان اس کو کہتے ہیں جو کسی وادی میں اکیلا سرگردان پھرے۔ منہ

یہ آیت یعنی3 ۱؂ قرآن شریف کے اس مقام کی ہے جہاں معجزہ شقُّ القمر کا ذکر ہے۔ پس ایسی آیت کو اس موقعہ پر ذکر کرنا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس جگہ بھی کوئی قمری نشان ظاہر ہو گا۔ پس وہ نشان عجیب طور کا خسوف قمر تھا جو رمضان کے مہینہ میں ظہور میں آیا۔ بعض علماء لکھتے ہیں کہ معجزہ شقُّ القمر بھی ایک قسم کا خسوف ہی تھا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 83

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 83

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/83/mode/1up


کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے اور یقیناًسمجھو کہ خدا اس زمین کو یعنی اس زمین کے رہنے والوں کو جو مرچکے ہیں پھر زندہ کرے گا یعنی بہت سے لوگ ہدایت پائیں گے اور ایک روحانی انقلاب پیدا ہوگا۔اور بہت سے لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں گے۔ اور جو خدا کا ہو خدا اُس کے لئے ہو جاتا ہے۔ اُن کو کہہ دے کہ اگر میں نے خدا پر افترا کیا ہے تومیں نے ایک سخت گناہ کا ارتکاب کیاہے جس کی سزا مجھے ملے گی یعنی مفتری اِسی دنیا میں سزا پاتا ہے اور سرسبز نہیں ہوتا اور اُس کا تمام ساختہ پر داختہ آخر بگڑ جاتا ہے ۔مگر صادق کامیاب ہو جاتا ہے اور صدق کی جڑ پاتا ل میں ہے۔ پھرؔ فرمایا کہ اے میرے احمد ! تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے میں نے تیری بزرگی کا درخت اپنے ہاتھ سے لگایایعنی تو صادق ہے اور میری طرف سے ہے اس لئے میں تجھے لوگوں میں بہت وجاہت اور بزرگی بخشوں گا اور یہ کام خاص میرے ہاتھ سے ہوگا نہ کسی اورکے ہاتھ سے ۔ لہٰذا اس کام کو کوئی بھی زائل نہیں کرسکے گا۔ یہ آئندہ زمانہ کے لئے ایک پیشگوئی تھی جواب پوری ہوگئی۔ اور پھر فرماتا ہے کہ کیا لوگوں کو اس بات سے تعجب ہے اور خیال کرتے ہیں کہ ایسا کیونکر ہوگا۔تو تُو ان کو جواب دے کہ عجائب دکھلانا خدا کا کام ہے وہ اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا اور لوگ پوچھے جاتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ یہ مرتبہ تجھے کیونکر ملے گا۔ یہ تو تیری اپنی بناوٹ معلوم ہوتی ہے۔ کہہ نہیں یہ وعدے خداکی طرف سے ہیں اور پھر اُن کو اُن کے لہو و لعب میں چھوڑ دے یعنی جو بدگمانی کر رہے ہیں کرتے رہیں۔ آخر دیکھ لیں گے کہ یہ خدا کی باتیں ہیں یاانسان کی ۔ اور جو لوگ ظالم ہیں اور اپنے ظلم کو نہیں چھوڑتے اُن کے بارے میں مجھ سے ہمکلام مت ہو کہ میں اُن کو غرق کروں گا۔ یہ ایک نہایت خوفنا ک پیشگوئی ہے جو غرق کرنے کاوعدہ دیا گیا ہے۔ نہ معلوم کس طور سے غرق کیا جائے گا۔ آیا نوح کی قوم کی طرح یالوط کی قوم کی طرح جو شدید زلزلہ سے زمین میں غرق کئے گئے تھے۔ پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیرے پر تیراربّ اپناسایہ ڈالے گا اور تیری فریاد سنے گا اور تیرے پر رحم کرے گا اور اگرچہ لوگ تجھے بچانا نہ چاہیں مگر خدا تجھے بچائے گا۔خدا تجھے ضرور بچائے گا اگرچہ لوگ پھنسانے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 84

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 84

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/84/mode/1up


کا ارادہ کریں۔ یہ پیشگوئی اُن مقدمات کی نسبت ہے جو ڈاکٹر مارٹن کلارک اور کرم دین وغیرہ کی طرف سے بصیغہ فوجداری میرے پر ہوئے تھے اور لیکھرام کے قتل ہونے کے وقت بھی میرے پھنسانے کیلئے کوشش کی گئی تھی اور ان مقدمات میں ارادہ کیا گیا تھا کہ مجھے پھانسی دی جائے یا قید میں ڈالا جائے ۔ سو خدا ئے تعالیٰ اس پیشگوئی میں فرماتا ہے کہ میں اُن کو اُن کے ارادوں میں نامراد رکھوں گا اور ان کے حملوں سے میں تجھے ضرور بچاؤں گا ، چنانچہ چوبیس۲۴ برس کے بعد وہ سب پیشگوئیاں پوری ہوگئیں۔ اور پھر فرماتا ہے کہ اس مکر کرنے والے کے مکرکو یاد کر جو تجھے کافر ٹھہرائے گا۔اور تیرے دعوے سے منکر ہوگا وہ ایک اپنے رفیق سے استفتاء پر فتویٰ لے گا تا عوام کو اس سے افروختہ کرے۔ ہلاک ہوگئے دونوں ہاتھ ابی لہب کے جن سے وہ فتویٰ لکھا تھا۔لکھنے میں اگرچہ ایک ہاتھ کاکام ہے مگر دوسرا بھی اس کی مدد دیتا ہے۔ اور ہلاک ہونے سے یہ مراد ہے کہ وہ اپنے استفتاء کی غرض سے نامراد رہےؔ گا۔ اور پھر فرماتا ہے کہ وہ بھی ہلاک ہوگیا یعنی اُس نے گناہِ شدید کا ارتکاب کیا جو دراصل ہلاکت ہے۔اس لئے دنیا کی طرف اُس کا رُخ کردیا گیا اور حلاوتِ ایمان اُس سے جاتی رہی۔ اُس کو مناسب نہ تھا کہ اِس معاملہ میں دخل دیتا مگر ڈرتے ڈرتے یعنی اگر کچھ شک تھا تو پوشیدہ طورپر رفع کرتا اورادب سے رفع کرتا نہ یہ کہ دشمن بن کر میدان میں نکلتا۔ اور پھر فرمایا کہ جو تجھے تکلیف پہنچے گی وہ خدا کی طرف سے ہے۔ یعنی اگر خدا نہ چاہتا تو یہ فتنہ برپا کرنا اس کی مجال نہ تھا۔ اور پھر فرمایا کہ اُس وقت دنیا میں بڑا شور اُٹھے گا اور بڑا فتنہ ہوگا پس تجھ کو چاہیے کہ صبر کرے جیسا کہ اولوا لعزم پیغمبر صبر کرتے رہے۔ مگر یاد رکھ کہ یہ فتنہ اُس شخص کی طرف سے نہیں ہوگا بلکہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہوگا تاکہ وہ تجھ سے زیادہ پیارکرے۔ اور یہ پیار


اس جگہ ابی لہب کے معنے ہیں۔ آگ بھڑکنے کا باپ یعنی اس ملک میں جو تکفیر کی آگ بھڑکے گی۔ دراصل باپ اس کاوہ ہو گا جس نے یہ استفتاء لکھا۔ منہ




Ruhani Khazain Volume 21. Page: 85

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 85

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/85/mode/1up


خدا کی طرف سے وہ نعمت ہے کہ جو پھر تجھ سے چھینی نہیں جائے گی۔ اور پھر ایک اور پیشگوئی کرکے فرمایا کہ دو بکریاں ذبح کی جائیں گی۔ یعنی میاں عبد الرحمن اور مولوی عبد اللطیف جو کابل میں سنگسار کئے گئے۔ اور ہر ایک جو زمین پر ہے آخر مرے گا۔ پر ان دونوں کا ذبح کیا جانا آخر تمہارے لئے بہتری کا پھل لائے گا۔ اور ان واقعات شہادت کے مصالح جو خدا کو معلوم ہیں و ہ تمہیں معلوم نہیں۔ یعنی خدا جانتا ہے کہ ان موتوں سے اس ملک کابل میں کیا کیا بہتری پیدا ہوگی ۔ اس سے پہلی پیشگوئی اُس استفتاء کے بارے میں ہے جو مولوی محمد حسین کے ہاتھ سے اور مولوی نذیر حسین کے فتویٰ لکھنے سے ظہور میں آیا جس سے ایک دنیا میں شور اٹھا اور سب نے ہمارا تعلق چھوڑ دیااور کافر اور بے ایمان اور دجّال کہنا موجب ثواب سمجھا۔ اُس کے ساتھ جو یہ وعدہ ہے کہ خدا اس کے بعد بہت پیار کرے گا یہ رجوع خلق اللہ کی طرف اشارہ ہے کیونکہ خدا کا پیار مخلوق کے پیار کو چاہتا ہے۔ اورخدا کی رضامندی تقاضا کرتی ہے کہ دنیا کے سعید لوگ بھی راضی ہوجائیں۔ اور مؤخر الذکر پیشگوئی میں جو دو بکریوں کے ذبح کئے جانے کا ذکر ہے یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جوسرزمین کابل میں ظہور میں آیایعنی ہماری جماعت میں سے ایک شخص عبد الرحمن نام جو جوان صالح تھا اور دوسرے مولوی عبد اللطیف صاحب جو نہایت بزرگوار آدمی تھے امیر کابل کے حکم سے سنگسار کئے گئے محض اس الزام سے کہ کیوں وہ دونوں ہماری جماعت میں داخل ہوگئے اور اس واقعہ کو قریباً دو برس گذر چکے ہیں*۔ اب یہ مقام انصاف کی آنکھ سے دیکھنے کا ہے کہ کیونکر


یہ واقعہ شہادت اخویم مولوی عبد اللطیف صاحب مرحوم اور شیخ عبد الرحمن صاحب مرحوم ایکؔ ایسا دور از قیاس واقعہ تھا کہ جب تک وقوع میں نہ آگیا ہمارے ذہن کا اس طرف التفات نہ ہوا کہ دراصل وحی الٰہی کے یہ معنے ہیں کہ دو ہمارے صادق مرید سچ مچ ذبح کئے جائیں گے بلکہ اس حالت کو مستبعد سمجھ کر محض اجتہاد کے طور پر تاویل کی طرف میلان ہوتا رہا۔ اور تاویلی مصداق



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 86

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 86

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/86/mode/1up


ممکنؔ ہے کہ ایسے غیب کی باتیں جو نہاں در نہاں تھیں اُس شخص کی طرف منسوب ہوسکیں جو مفتری ہو۔ حالانکہ خدائے تعالیٰ اپنے کلام عزیز میں فرماتا ہے کہ ہر ایک مومن پر غیبِ کامل کے امور ظاہر نہیں کئے جاتے بلکہ محض اُن بندوں پر جواصطفائاور اجتباء کامرتبہ رکھتے ہیں ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ ایک جگہ قرآن شریف میں فرماتا ہے333 ۱؂ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے غیب پر کسی کو غالب ہونے نہیں دیتا مگر اُن لوگوں کو جو اس کے رسول اور اس کی درگاہ کے پسندیدہ ہوں۔

افسوس کا مقام ہے کہ بعض نادان مولوی اور عالم کہلاکر بعض وعید کی پیشگوئیوں کی نسبت جن میں سے بعض پوری ہوگئیں اور بعض پوری ہونے کو ہیں اعتراض پیش کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ خدائے تعالیٰ اپنے وعید کی نسبت اختیار رکھتا ہے چاہے اُس کو پورا کرے یا ملتوی کردے یہی تمام نبیوں کا مذہب ہے اور اسی پر ردّ بلا کا سلسلہ قائم کیا گیا ہے۔ کیونکہ ایک بلا جس کا خدا تعالیٰ نے کسی کی نسبت ارادہ کیا ہے خواہ وہ اُس بلا کو کسی نبی پر ظاہرکرکے پیشگوئی کے رنگ میں ظاہر فرمادے اورخواہ پوشیدہ رکھے وہ بہرحال بلا ہی ہے ۔ پس اگر وہ کسی طرح رد نہیں ہوسکتی تو پھر صدقہ اور خیرات اور دُعا کی کیوں ترغیب دی ہے۔


خیال میں گزرتے رہے کیونکہ انسان کا اپنا علم اور اپنا اجتہاد غلطی سے خالی نہیں۔ لیکن جب یہ دونوں واقعات بعینہٖ ظہور میں آگئے۔ اور دو بزرگ اس جماعت کے بڑی بے رحمی سے کابل میں شہید کئے گئے تو حق الیقین کی طرح وحی الٰہی کے معنے معلوم ہو گئے اور جب اُس وحی کی تمام عبارت کو نظر اٹھا کر دیکھا تو آنکھ کھل گئی اور عجیب ذوق پیدا ہوا اور معلوم ہوا کہ جہاں تک تصریح ممکن ہے خدا نے تصریح سے اس پیشگوئی کو بیان کر دیا ہے اور ایسے الفاظ اختیار کئے ہیں اور ایسے فقرات بیان فرمائے ہیں کہ وہ دوسرے پر صادق آہی نہیں سکتے۔ سبحان اللہ! اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کیسے اس نے ان پوشیدہ باتوں کو ایک زمانہء دراز پہلے براہین احمدیہ میں بتصریح بیان کر دیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 87

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 87

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/87/mode/1up


پھرؔ بعد اس کے اور پیشگوئیاں ہیں جو ان پیشگوئیوں کی مؤیّدہیں جن کو ہم ذیل میں لکھتے ہیں اور وہ یہ ہیں:۔ وَلا تھنوا وَلا تحزنوا الیس اللّٰہ بکاف عبدہ۔ الم تعلم انّ اللّٰہ علٰی کلّ شیءٍ قدیر۔ وان یتخذونک اِلّا ھزوا۔ أَھٰذا الّذی بعث اللّٰہ۔ قل انّما انا بشر مثلکم یوحٰی اِلیّ انّما اِلٰھُکُمْ اِلٰہ وَّاحدٌ والخَیْر کلّہٗ فی القراٰن۔ قل ان ھُدَی اللّٰہ ھوالھُدٰی ۔ رَبِّ اِنّیْ مغلوبٌ فانتصر ۔ ایلی ایلی لما سبقتنی۔ یا عبد القادراِنّی معک غرست لک بیدَی رحمتی وقدرتی۔ ونجّیناک من الغمّ وفتنّاک فتونا۔ انا بُدّک اللازم۔ اَنَا مُحْیِیْکَ نَفختُ فیک مِن لّدنِّی روح الصّدق۔ وَأَلقیت علیک محبّۃ مِّنّی وَلتصنع علٰی عینی۔ کزرع اخرج شَطْأَہٗ فَاستغلظ فاستوٰی علٰی سوقہٖ ۔ اِنّا فتحنالک فتحا مُّبِیْنًا لیغفرلک اللّٰہ ماتقدّم من ذنبک وَمَا تَأَخّر۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۱ سے ۵۱۵ تک۔ ترجمہ مع شرح۔ اور تم سست مت بنو اور غم مت کرو۔ کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں یعنی اگر تمام لوگ دشمن ہو جائیں تو خدا اپنی طرف سے نُصرت کرے گااور پھر فرمایا کہ کیا تو جانتا نہیں کہ خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے اُس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔ پس وہ قادر ہے کہ ایک تنہا گمنام کو اس قدر ترقی دے کہ لاکھوں انسان اُس کے محب اور ارادتمند ہو جائیں۔ یہ وہ پیشگوئی ہے جو پچیس برس کے بعد اس زمانہ میں پوری ہوئی۔ اور پھر فرمایا کہ ان لوگوں نے تجھے ایک ہنسی کی جگہ سمجھ رکھا ہے۔ وہ طنزًا کہتے ہیں کہ کیا یہی وہ شخص ہے جس کو خدا نے ہم میں دعوت کے لئے کھڑا کیا ان کو کہہ دے کہ مَیں تو تمہاری طرح صرف ایک بشر ہوں مجھے یہ وحی ہوتی ہے کہ تمہارا خدا ایک خدا ہے اور ہر ایک نیکی اور بھلائی قرآن میں ہے ان کو کہہ دے کہ تمہارے خیالات کیا چیز ہیں۔ ہدایت وہی ہے جو خدائے تعالیٰ براہِ راست آپ دیتا ہے ورنہ انسان اپنے غلط اجتہادات سے کتاب اللہ کے معنے بگاڑ دیتا ہے اور کچھ کا کچھ سمجھ لیتا ہے۔ وہ خدا ہی ہے جو غلطی نہیں کھاتالہٰذا ہدایت اُسی کی ہدایت ہے۔ انسانوں کے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 88

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 88

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/88/mode/1up


اپنے خیالی معنے بھروسے کے لائق نہیں ہیں۔ اور پھر فرمایا کہ یہ دعا کر کہ اے خدا میں مغلوب ہوں وہ بہت ہیں اور میں اکیلا ہوں وہ ایک گروہ ہے تو میری طرف سے مقابلہ کے لئے آپ کھڑا ہوجا۔ اے میرے خدا! اے میرے خدا! توؔ نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ یہ آئندہ زمانہ کی ابتلاؤں کی نسبت ایک پیشگوئی ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جو مخالفت کا بہت شور اُٹھے گا اور وہ گمنامی اور تنہائی کازمانہ ہوگا اور مخالفت پر ایک مخلوق تُل جائے گی اور ظاہری تزلزل دیکھ کر بشریت کے مقتضا سے خیال آئے گا کہ خدا نے اپنی نصرت کو چھوڑ دیا۔ پس خدائے تعالیٰ اس آئندہ زمانہ کو یاد دلاتا ہے کہ اُس وقت خدا دُعاؤں کو قبول کرے گا اور وہ حالت نہیں رہے گی۔ اور دلوں کو اس طرف رجوع پیدا ہو جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور بہت فتنہ کے بعد جو کافر ٹھہرانے کے فتویٰ سے اٹھا تھا آخر دل اس طرف متوجہ ہوگئے۔ پھر فرماتا ہے کہ اے عبد القادر میں تیرے ساتھ ہوں ۔ مَیں نے تیرے لئے اپنی رحمت اور قدرت کا درخت لگایا اور میں تجھ کو ہر ایک غم سے نجات دوں گا مگر اس سے پہلے کئی فتنے تیری راہ میں برپا کروں گا تا تجھے خوب جانچا جائے اور تا فتنوں کے وقتوں میں تیری استقامت ظاہر ہو۔ میں تیرا لازمی چارہ ہوں۔ اور میں تیرے دردوں کا علاج ہوں اور میں ہی ہوں جس نے تجھے زندہ کیا۔ میں نے اپنی طرف سے تجھ میں صدق کی رُوح پھونک دی۔ او ر اپنی طرف سے میں نے تجھ پر محبت ڈال دی ۔ یعنی تجھ میں ایک ایسی خاصیت رکھ دی کہ ہر ایک جو سعید ہوگا وہ تجھ سے محبت کرے گااور تیری طرف کھینچا جائے گا۔ میں نے ایسا کیا تاکہ تو میری آنکھوں کے سامنے پرورش پاوے اور میرے روبرو تیرا نشو ونما ہو۔ تو اُس بیج کی طرح ہے جو زمین میں بویا گیا اور وہ ایک چھوٹا سا دانہ تھا جو خاک میں پوشیدہ تھا۔ پھر اُس کا سبزہ نکلا اور روز بروز وہ بڑھتا گیا یہاں تک کہ وہ بہت موٹا ہوگیا اور اُ س کی ٹہنیاں پھیل گئیں اور وہ ایک پورا درخت ہوکر تنا اُس کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا۔ یہ آئندہ زمانہ کی ترقی کے لئے ایک پیشگوئی ہے اور اس میں بتلایا ہے کہ اس وقت تو تُو



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 89

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 89

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/89/mode/1up


ایک دانہ کی طرح ہے جو زمین میں بویا گیا اور خاک میں چھپ گیا۔ لیکن آئندہ یہ مقدر ہے کہ اس دانہ کا سبزہ نکلے اور وہ بڑھتا جائے گا یہاں تک کہ ایک بڑا درخت بن جائے گااور موٹا ہو جائے گااور اپنے پاؤں پر قائم ہو جائے گا جس کو کوئی آندھی نقصان پہنچا نہیں سکے گی۔یہ پیشگوئی اس زمانہ سے پچیس۲۵ برسپہلے دنیا میں شائع ہوچکی ہے ۔ اور پھر فرمایا کہ خدا تجھے ایک بڑی اور کھلی کھلی فتح دے گا تاکہ وہ تیرے پہلے گناہ بخشے اور پچھلے گناہ بھی۔ اس جگہ اس وحی الٰہی کے متعلق ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ فتح کو گناہ کے بخشنے سے کیا تعلق ہے ۔ بظاہر ان دونوں فقروں کو آپس میں کچھ جوڑ نہیں۔ لیکن درحقیقت ان دونوں فقروں کا باہم نہایت درجہ کا تعلق ہے۔ پس تشریح اُسؔ وحی الٰہی کی یہ ہے کہ اس اندھی دنیا میں جس قدر خدا کے ماموروں اور نبیوں اور رسولوں کی نسبت نکتہ چینیاں ہوتی ہیں اور جس قدر اُن کی شان اور اعمال کی نسبت اعتراض ہوتے ہیں اور بدگمانیاں ہوتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں کی جاتی ہیں وہ دنیا میں کسی کی نسبت نہیں ہوتیں اور خدا نے ایسا ہی ارادہ کیا ہے تا اُن کو بدبخت لوگوں کی نظر سے مخفی رکھے اور وہ ان کی نظر میں جائے اعتراض ٹھہر جائیں کیونکہ وہ ایک دولت عظمیٰ ہیں اوردولت عظمیٰ کو نااہلوں سے پوشیدہ رکھنا بہتر ہے۔ اِسی وجہ سے خدائے تعالیٰ اُن کو جو شقی ازلی ہیں اُس برگزیدہ گروہ کی نسبت طرح طرح کے شبہات میں ڈال دیتا ہے تا وہ دولتِ قبول سے محروم رہ جائیں۔ یہ سنت اللہ ان لوگوں کی نسبت ہے جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے امام اور رسول اور نبی ہوکر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس قدر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت دشمنانِ حق نے طر ح طرح کے اعتراض تراشے ہیں اور طرح طرح کی عیب جوئی کی ہے وہ باتیں کسی معمولی صالح کی نسبت ہرگز تراشی نہیں گئیں۔ کونسی تہمت ہے جو اُن پر نہیں لگائی گئی اور کونسی نکتہ چینی ہے جو اُن پر نہیں کی گئی۔ پس چونکہ تما م تہمتوں کا معقولی طورپر جواب دینا ایک نظری امر تھااور نظری امور کا فیصلہ مشکل ہوتاہے اور تاریک طبع لوگ اُس سے تسلی نہیں پکڑتے۔ اس لئے خدائے تعالیٰ نے نظری راہ کو اختیار نہیں کیا اور نشانوں کی راہ اختیار کی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 90

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 90

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/90/mode/1up


اور اپنے نبیوں کی بریّت کے لئے اپنے تائیدی نشانوں اور عظیم الشان نصرتوں کو کافی سمجھا۔ کیونکہ ہر ایک غبی اور پلید بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اگر وہ نعوذ باللہ ایسے ہی نفسانی آدمی اور مفتری اور ناپاک طبع ہوتے تو ممکن نہ تھا کہ اُن کی نصرت کے لئے ایسے بڑے بڑے نشان دکھلائے جاتے سو خدا تعالیٰ نے اپنی سنت قدیمہ کے موافق حصص سابقہ براہین احمدیہ میں میری نسبت بھی یہی وحی کی جو اوپر ذکر ہوچکی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ خدا بڑی بڑی فتوحات اور عظیم الشان نشان تیری تائید میں دکھلائے گا تا وہ اعتراض جو دنیا کے اندھے لوگوں نے تیرے پہلے حصہء زندگی کی نسبت یا اخیر حصہء زندگی کی نسبت کئے ہیں ان سب کا جواب پیدا ہوجائے*۔ کیونکہ عالم الاسرار کی شہادت سے بڑھ کر اور کوئی شہادت نہیں اور ذنب کا لفظ اس اعتبار سے بولا گیا ہے کہ معترض اور نکتہ چین جو حملہ کرتے ہیں وہ اپنے دلوں میں مرسلین کی نسبت ان نکتہ چینیوں کو ایک ذنب قراردے کر حملہ کرتے ہیں۔ پس اس کے یہ معنے ہوئے کہ جو ذنب تیری طرف منسوب کیا گیا ہے نہ یہ کہ حقیقت میں کوئی ذنب ہے اور خود یہ ادب سے دُور ہے کہ انسان اس وحیؔ الٰہی کے یہ معنے کرے کہ درحقیقت کوئی ذنب ہے جس کو خدائے تعالیٰ نے بخش دیا بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ جو کچھ ذنب کے نام پر اُن کی طرف

خدا نے مجھ پر ظاہر فرمایا ہے کہ آخری حصہ زندگی کا یہی ہے جو اب گذر رہا ہے جیسا کہ عربی میں وحی الٰہی یہ ہے۔ قَرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدّر وَلا نُبْقِیْ لک من المخزیاتِ ذِکرا۔ یعنی تیری اجل مقدر اب قریب ہے اور ہم تیری نسبت ایک بات بھی ایسی باقی نہیں چھوڑیں گے جو موجب رسوائی اور طعن تشنیع ہو۔ اسی بناء پر اس نے مجھے توفیق دی کہ پنجم حصہ براہین احمدیہ شائع کیا جائے۔

اور ایسا ہی خدائے عزّوجلّ نے اپنی اس وحی میں میرے قرب اجل کی طرف اشارہ فرمایا۔ تمام حوادث اور عجائبات قدرت دکھلانے کے بعد تیرا حادثہ ہو گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 91

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 91

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/91/mode/1up


منسوب کیا گیا اور اس کو شہرت دی گئی ہے اس غلط شہرت کو ایک عظیم الشان نشان سے ڈھانک دیا جائے گا۔ نادان لوگ نہیں جانتے کہ کن معنوں سے خدا اپنے مقبول بندوں کی طرف ذنب کو یعنی گناہ کو منسوب کرتا ہے کیونکہ حقیقی گناہ جو نافرمانی خدا تعالیٰ کی ہے وہ تو قبل از توبہ قابل سزا ہے نہ یہ کہ خدا تعالیٰ کو خود ہی اِس بات کا فکر پڑ جائے کہ میں کوئی ایسانشان دکھلاؤں کہ تا وہ نکتہ چینی کے خیالات اور عیب جوئی کے توہمات خود بخود مخفی اور مستور ہو جائیں اور اُن کاذکر کرنے والا ذلیل ہو جائے۔ اسی وجہ سے ائمہ اور اہل تصوف لکھتے ہیں کہ جن لغزشوں کا انبیاء علیھم السّلام کی نسبت خدائے تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے جیسا کہ آدم علیہ السلام کا دانہ کھانا۔ اگر تحقیر کی راہ سے ان کا ذکر کیا جائے تو یہ موجبِ کفر اور سلب ایمان ہے کیونکہ وہ مقبول ہیں اور دنیا جس بات کو ذنبسمجھتی ہے وہ اُس سے محفوظ ہیں اور اُن سے عداوت کرناخدائے تعالیٰ کے حملہ کا نشانہ بننا ہے جیسا کہ حدیث صحیح میں ہے ومن عَادٰی وَلِیًّا لی فقد اٰذنتہ للحرب یعنی جو شخص میرے ولی کا دشمن ہو تو میں اُس کو متنبہ کرتا ہوں کہ اب میری لڑائی کے لئے طیار ہو جا۔ غرض اہلِ اِصطفاء خدائے تعالیٰ کے بہت پیارے ہوتے ہیں اور اُس سے نہایت شدید تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کی عیب جوئی اور نکتہ چینی میں خیر نہیں ہے۔ اور ہلاکت کے لئے اس سے کوئی بھی دروازہ نزدیک تر نہیں کہ انسان اندھا بن کر محبّان اور محبوبانِ الٰہی کا دشمن ہو جائے۔

اور یاد رہے کہ مغفرت کے صرف یہی معنے نہیں کہ جو گناہ صادر ہو جائے اُس کو بخش دینا بلکہ یہ بھی معنے ہیں کہ گناہ کوحیّز قوت سے حیّز فعل کی طرف نہ آنے دینا اور ایسا خیال دل میں پیدا ہی نہ کرنا ۔ ان پیشگوئیوں میں بھی بار بار خدائے تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ایک گمنامی کی حالت کو خدائے تعالیٰ شہرت کی حالت سے بدل دے گا اور گو کتنے فتنے پیدا ہوں گے اُن سب سے خدائے تعالیٰ نجات دے گا۔ اور جیسے اوّل عیب جو اور نکتہ چین تھے آخری حصۂ عمر میں بھی ایسے ہی ہوں گے لیکن خدا ایک ایسی فتح نمایاں ظاہر کرے گا کہ ان نکتہ چینوں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 92

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 92

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/92/mode/1up


اور عیب گیروں کا منہ بند ہو جائے گا یا یہ کہ اُن کے اثر سے لوگ محفوظ رہیں گے۔ یہ انسان کا خاصہ ہے کہ ہزار نشان سے بھی اس قدر ہدایت پانے کے لئے طیار نہیں ہوتا جس قدر کہ ایک عیب گیر کی شرارت سے متاثر ہوؔ کر منکر ہونے کو طیار ہو جاتا ہے۔ اس لئے اِس وحی الٰہی میں اس پیرایہ میں ظاہر نہیں فرمایا کہ میں نشان دکھلاؤں گا بلکہ فرمایا کہ میں ایک فتح عظیم تجھ کو دوں گا یعنی کوئی ایسا نشان دکھلاؤں گا کہ جو دلوں کو فتح کرے گا اور تمہاری عظمت ظاہر کردے گا۔ اور فرمایا کہ یہ عمر کے آخری زمانہ میں ہوگا۔ پس میں زور سے کہتاہوں کہ اسی زمانہ کیلئے یہ پیشگوئی ہے۔ اور میں دیکھتا ہوں کہ نکتہ چینیاں اورعیب گیریاں حد سے بڑھ گئی ہیں پس میں امیدوار ہوں کہ عنقریب ایک بڑا نشان ظاہر ہوگا جو دلوں کو فتح کرے گا اور مُردہ دلوں کو جو بار بار مرتے ہیں پھر زندہ کردے گا۔ فالحمد لِلّٰہِ علٰی ذالک۔

پھر ان پیشگوئیوں کی تائید میں اور پیشگوئیاں حصص سابقہ براہین احمدیہ میں ہیں جوپچیس۲۵ برس کے بعد اس زمانہ میں پوری ہوئی ہیں اور وہ یہ ہیں۔الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہ فبرّأہ اللّٰہ ممّا قالوا وکان عند اللّٰہ وجیھا۔ الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہ فلمَّا تجلّٰی ربّہ للجبل جعلہ دکّا۔ واللّٰہ موھن کید الکافرین۔ الیس اللہ بکافٍ عبدہ ولنجعلہٗ اٰیۃ للناس ورحمۃً منّا وکان امرًا مقضیّا قول الحق الّذی فیہ تمترون۔ لا یُصدّق السفیہ اِلّا سیفۃ الھلاک عدوٌّلی وعدوٌّلکَ قل أَتٰی امر اللّٰہ فلا تستعجلوہ اذا جاء نصر اللّٰہ الست بربّکم قالوا بلٰی ۔ بخرام کہ وقتِ تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد۔ پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار۔ خدا تیرے سب کام درست کر دے گا۔ اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ ھو الّذی ینزل الغیث بعد ماقنطوا وینشر رحمتہ ۔یجتبی الیہ من یشاء من عبادہٖ۔ وکذالک مَنَنَّا عَلٰی یوسف لنصرف عنہ السُّوء والفحشاء ولتنذر قومًا مَّا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 93

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 93

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/93/mode/1up


اُنذر اٰباء ھم فھم غافلون۔ قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون۔ انّ مَعِی ربّی سیھدین۔ ربّ السِّجنُ احبّ الیَّ ممّا یدعوننی الیہ ربِّ نجّنی من غَمِّی۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۶ سے ۵۵۴ تک۔

ترجمہ:۔ کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے۔ پس وہ اُن تمام الزاموں سے اُس کو بَری کرے گا جو اُس پر لگائے جائیں گے اوروہ خدا کے نزدیک مرتبہ رکھتا ہے کیاخدا اپنے بندؔ ہ کے لئے کافی نہیں ہے۔ پس وہ پہاڑ کو اُس کی بریت کے لئے گواہ لائے گا اور پہاڑ پر جب اُس کی تجلی ہوگی تو وہ اُسے پارہ پارہ کردے گا اور اس نشان سے منکروں کے منصوبوں کوسست کر دے گا کیاوہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے یعنی خدا کے نشان کافی ہیں کسی اور کی گواہی کی ضرورت نہیں اور یہ پہاڑ کا پارہ پارہ کرنا لوگوں کے لئے ہم ایک نشان بنائیں گے اور یہ نشان ہماراموجب رحمت ہوگا کہ اس سے بہت لوگ فائدہ اٹھائیں گے*اور یہ امر پہلے سے مقدر تھا۔ یہ وہ سچی بات ہے جس کے ظہور سے پہلے تم شک میں مبتلا تھے۔ سفلہ آدمی تو کسی نشان کو نہیں مانتا بجز موت کے نشان کے وہ میرا اور تیرا دشمن ہے ان سفلوں کو کہہ دے کہ موت کانشان بھی آئے گا اور دنیا میں ایک مری پڑے گی۔پس تم مجھ سے جلدی مت کرو کہ یہ سب کچھ اپنے وقت پر ظاہر ہوگا۔ یہ طاعون اور زلزلہ شدید کی نسبت پیشگوئی ہے کہ جو اس زمانہ سے پچیس۲۵ برس


یاد رہے کہ براہین احمدیہ میں جو کلماتِ الٰہیہ کا ترجمہ ہے وہ بباعث قبل از وقت ہونے کے کسی جگہ مجمل ہے اور کسی جگہ معقولی رنگ کے لحاظ سے کوئی لفظ حقیقت سے پھیرا گیا ہے یعنی صرف عن الظاہرکیا گیا ،اور چونکہ اصل کلام الٰہی موجود ہے اس کے پڑھنے والوں کو چاہیے کہ کسی ایسی تاویل کی پروا نہ کریں جو پیشگوئی کے ظہور سے پہلے کی گئی ہو۔ اور اس کو اجتہادی غلطی سمجھ لیں کیونکہ پیشگوئی کی حقیقی تفسیر کا وہ وقت ہوتا ہے جس وقت میں وہ پیشگوئی ظاہر ہو۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 94

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 94

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/94/mode/1up


پہلے براہین احمدیہ میں شائع ہوچکی ہے۔ پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں ہولناک اور مہلک نشان ملک میں بھیج کر اپنے مامور اور مرسل کی مدد کروں گا تو منکرین کو کہا جائے گا کہ اب بتلاؤ کیا میں تمہارا رب ہوں یانہیں ۔ یعنی وہ دن بڑی مشکل اور مصیبت کے ہوں گے۔ اور اُن دنوں میں بڑے بڑے ہولناک نشان ظاہر ہوں گے۔ اور نشانوں کو دیکھ کر بہت سے سیہ دل اور کج طبع حق کی طرف رجوع کر لیں گے۔ اور یہ فرستادہ جو ان کے درمیان ظاہر ہوا ہے اس پر ایمان لے آئیں گے۔ پھر مجھ کو خدائے عزّوجل مذکورہ بالا وحی میں مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ تو خوشی اور نشاط کی چال سے زمین پر چل کہ اب تیرا وقت نزدیک آگیا اور محمدیوں کاپاؤں ایک بہت بلند اورمحکم منار پرپڑ گیا۔محمدیوں کے لفظ سے مراد اس سلسلہ کے مسلمان ہیں۔ ورنہ بموجب خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے جو براہین احمدیہ میں شائع ہوچکی ہے دوسرے فرقے جو مسلمان کہلاتے ہیں روز بروز تنزل پذیر ہوں گے۔ اور ایسا ہی وہ فرقے جو اسلام سے باہر ہیں جیسا کہ اس وحی الٰہی میں جو براہین احمدیہ میں مندرج ہے صریح طور پر فرمایا ہے۔ یا عیسٰی انّی متوفیک ورافعک الیَّ ومطھّرک من الّذین کفروا وجاعل الّذین اتّبعوک


یہ ؔ پیشگوئی ان لوگوں کی نسبت ہے جواس مامور و مرسل کی وحی کو انسان کا افترا یا شیطان کے وساوس خیال کرتے ہیں اور یہ نہیں مانتے کہ وہی ہمارا خدا ہے جو براہین احمدیہ کے زمانہ سے آج تک اس راقم پر اپنی وحی نازل کر رہا ہے۔ اس آیت میں خدا تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ اخیر میں ان کو منوا کر چھوڑوں گا۔ اور ان کو اقرار کرنا پڑے گا۔ وہ جو براہین احمدیہ کے زمانہ سے اخیر تک اس راقم پر وحی کرتا رہا ہے وہی اس دنیا کا خدا ہے اس کے سوائے کوئی خدا نہیں۔ اس میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے کہ کوئی بڑا نشان ظاہر ہو گا جس سے بڑے بڑے منکروں کی گردنیں جھک جائیں گی۔ منہ

یہ ؔ فقرہ سہو کاتب سے براہین میں رہ گیا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ منکروں کے ہر ایک الزام اور تہمت سے تیرا دامن پاک کر دوں گا۔ یہ کئی مرتبہ الہام ہو چکا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 95

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 95

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/95/mode/1up


فوق الذین کفر وا الٰی یوم القیامۃ۔ یعنی اے عیسیٰ مَیں تجھے وفات دوں گا۔ اور اپنی طرف اٹھاؤں گا اور تیری بریّت ظاہر کروں گا۔ اور وہ جو تیرے پیرو ہیں مَیں قیامت تک ان کو تیرے منکروں پر غالب رکھوں گا۔ اس جگہ اس وحی الٰہی میں عیسیٰ سے مراد مَیں ہوں۔ اور تابعین یعنی پیروؤں سے مراد میری جماعت ہے۔ قرآن شریف میں یہ پیشگوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت ہے اور مغلوب قوم سے مراد یہودی ہیں جو دن بدن کم ہوتے گئے ۔ پس اس آیت کو دوبارہ میرے لئے اور میری جماعت کے لئے نازل کرنا اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مقدّریوں ہے کہ وہ لوگ جو اس جماعت سے باہر ہیں وہ دن بدن کم ہوتے جائیں گے اور تمام فرقے مسلمانوں کے جو اس سلسلہ سے باہر ؔ ہیں وہ دن بدن کم ہوکر اس سلسلہ میں داخل ہوتے جائیں گے یا نابود ہوتے جائیں گے جیسا کہ یہودی گھٹتے گھٹتے یہاں تک کم ہوگئے کہ بہت ہی تھوڑے رہ گئے۔ ایسا ہی اس جماعت کے مخالفوں کاانجام ہوگا۔ اور اس جماعت کے لوگ اپنی تعداد اور قوتِ مذہب کے رُو سے سب پر غالب ہو جائیں گے۔ یہ پیشگوئی فوق العادت کے طور پر پوری ہو رہی ہے کیونکہ جب براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی شائع ہوئی تھی اُس وقت تو میری یہ حالت گمنامی کی تھی کہ ایک شخص بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ میرا پیرو تھا۔ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے تعداد اس جماعت کی کئی لاکھ تک پہنچ گئی ہے اور اس ترقی کی تیز رفتار ہے جس کا باعث وہ آفات آسمانی بھی ہیں جو اس ملک کو لقمۂ اجل بنا رہے ہیں۔ پھر بعد اس کے بقیہ وح ئ الٰہی یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں کا سردار ہے اور پھر بعد اس کے فرمایا کہ خدا تیرے سب کام درست کر دے گا۔ اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ واضح رہے کہ یہ پیشگوئیاں نہایت اعلیٰ درجہ کی ہیں کیونکہ ایسے وقت میں کی گئیں جبکہ کوئی کام بھی درست نہ تھا اور کوئی مراد حاصل نہ تھی اور اب اس زمانہ میں پچیس۲۵برس بعد اس قدر مرادیں حاصل ہوگئیں کہ جن کا شمار کرنا مشکل ہے خدا نے اس ویرانہ کو یعنی قادیان کو مجمع الدیار بنا دیا کہ ہر ایک ملک کے لوگ یہاں آکر جمع ہوتے ہیں اور وہ کام دکھلائے کہ کوئی عقل نہیں کہہ سکتی تھی کہ ایسا ظہور میں آجائے گا۔ لاکھوں انسانوں نے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 96

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 96

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/96/mode/1up


مجھے قبول کرلیا اور یہ ملک ہماری جماعت سے بھر گیا۔ اور نہ صر ف اسی قدر بلکہ ملک عرب اور شام اور مصر اور روم اور فارس اور امریکہ اور یورپ وغیرہ ممالک میں یہ تخم بویا گیا اور کئی لوگ ان ممالک سے اس سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوگئے اور امید کی جاتی ہے کہ وہ وقت آتا جاتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہ ان مذکورہ بالا ممالک کے لوگ بھی اس نور آسمانی سے پورا حصہ لیں گے۔ نادان دشمن جو مولوی کہلاتے تھے اُن کی کمریں ٹوٹ گئیں اوروہ آسمانی ارادہ کو اپنے فریبوں اور مکروں اور منصوبوں سے روک نہ سکے اور وہ اس بات سے نوامید ہوگئے کہ وہ اس سلسلہ کو معدوم کرسکیں اور جن کاموں کو وہ بگاڑنا چاہتے تھے وہ سب کام درست ہوگئے۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِک

پھر بعد اس کے خدا تعالیٰ آئندہ زمانہ کے لوگوں کی بیجا تہمتوں کی نسبت ایک خاص پیشگوئی کرکے مجھے یوسف قرار دیتا ہے ۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے : ھو الذی ینزل الغیث من بعد ما قنطوا وینشر رحمتہ یجتبی الیہ من یشاء من عبادہٖ وکذالک مننّا علٰی یوسف لنصرف عنہ السوء والفحشاء ولتنذر قومًا مّا اُنذراٰباء ھم فھم غافلون۔ قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون انّ معی ربّی سیھدین ۔ ربّ السجن احبّ الیّ ممّا یدعوننی الیہ ۔ ربّ نجّنی من غمّی۔

ان آیات کو جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۶ سے ۵۵۴ تک درج ہیں میں ابھی پہلے بھی لکھ چکا ہوں مگر صفائی بیان کے لئے دوبارہ موقع پر لکھی گئیں تا پیشگوؔ ئی کے معنی سمجھنے میں کچھ دقّت نہ ہو۔ ترجمہ اس وحی الٰہی کا یہ ہے ۔ خدا وہ خدا ہے جو بارش کو اُس وقت اُتارتا ہے۔جبکہ لوگ مینہ سے نومید ہو جاتے ہیں تب نومیدی کے بعد اپنی رحمت پھیلاتا ہے۔ اور جس بندہ کو اپنے بندوں میں سے چاہتا ہے رسالت اور نبوت کے لئے چن لیتا ہے۔ اور ہم نے اِسی طرح اس یوسف پر احسان کیا تاہم دفع کریں اور پھیر دیں اُس سے اُن بُرائی اور بے حیائی کی باتوں کو جو اُس کی نسبت بطور تہمت تراشی جائیں گی۔ یعنی خدا تعالیٰ کا کسی تہمت اور الزام کے وقت جو اُس کے نبیوں اوررسولوں کی نسبت کی جاتی ہیں یہ قانونِ قدرت ہے کہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 97

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 97

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/97/mode/1up


اوّل وہ عیب گیر اور نکتہ چین اور بدگمان لوگوں کو پورے طور پرموقعہ دیتا ہے کہ تا وہ جو چاہیں بکواس کریں اور جس طرح چاہیں کوئی تہمت لگاویں یا بہتان باندھیں۔ پس وہ لوگ بہت خوش ہوکر حملے کرتے ہیں اور اپنے حملوں پر بہت بھروسہ کرتے ہیں یہاں تک کہ صادقوں کی جماعت ایسے حملوں سے ڈرتی ہے اور انسانی کمزوری کی وجہ سے اس بات سے نومید ہو جاتے ہیں کہ بارانِ رحمت الٰہی اس مفتریانہ داغ کو دھو دے اور خدا تعالیٰ کی بھی یہی عادت ہے کہ بارانِ رحمت نازل توکرتا ہے اور اپنی رحمت کو پھیلاتا ہے لیکن اوّل کسی مدت تک لوگوں کو نومید کر دیتا ہے تا وہ لوگوں کے ایمان کی آزمائش کرے۔ پس اسی طرح خدا تعالیٰ کے نبی اور مرسل پر جو لوگ ایمان لاتے ہیں وہ آزمائے جاتے ہیں۔ شریر لوگوں کی طرف سے بہت بیجا حملے خدا تعالیٰ کے نبیوں پرہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ فاسق اور فاجر ٹھہرائے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی عادت اسی طرح پر واقعہ ہے کہ ا عتراض کرنے والوں کو اعتراض کرنے کے لئے بہت سی گنجائش دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی نکتہ چینی اورعیب گیری کی باتوں کو بہت قوی سمجھنے لگتے ہیں اور اُن پرخوش ہوتے اور اتراتے ہیں اور مومنوں کے دلوں کو ان باتوں سے بہت صدمہ پہنچتا ہے یہاں تک کہ اُن کی کمر ٹوٹتی ہے اور وہ سخت طور پر آزمائے جاتے ہیں پھر خدا تعالیٰ کی نصرت کا مینہ برستا ہے ا ور تمام افتراؤں کے ورق کو دھو ڈالتا ہے اور اپنے نبیوں کے اجتباء اور اصطفاء کے مرتبہ کو ثابت کر دیتا ہے۔ خلاصہ اس پیشگوئی کا یہ ہے کہ اسی طرح اس یوسف کی ہم بریّت ظاہر کریں گے کہ اوّل شریر لوگ بیجا تہمتیں اُس پر لگائیں گے جیسا کہ یوسف بن یعقوب پر تہمت لگائی گئی تھی لیکن آخر خدا نے ایک شخص کو اُس کی بریت کیلئے ایک گواہ ٹھہرایا اور اُس گواہی نے یوسف کو اُس تہمت سے بَری کردیا ۔ پس خدا فرماتا ہے کہ اس جگہ بھی میں ایسا ہی کروں گا۔ جیسا کہ اس نے فرمایا ۔ قل عندی شھادۃٌ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون۔ ان معی ربّی سیھدین۔ یعنی اے یوسف جو لوگ تیرے پر الزام لگاتے ہیں اُن کو کہہ دے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 98

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 98

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/98/mode/1up


کہ میں اپنی بریّت کیلئے خدا تعالیٰ کی گواہی اپنے پاس رکھتا ہوں پس کیا تم اس گواہی کو قبول کروگے یانہیں؟ اور یہ بھی ان کو کہہ دے کہ مَیں تمہاری کسی تہمت سے ملزم نہیں ہوسکتا کیونکہ میرے ساتھ میرا خدا ہے۔ وہ میری بریّت کے لئے کوئی راہ پیدا کردے گا*۔ یاد رہے کہ جب یوسف بن یعقوب پر زلیخانے بیجا الزام لگایا تھا تو اُس موقعہ پر خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے3۱؂۔یعنی زلیخا کے قریبیوں میں سے ایک شخص نے یوسف کی بریّت کی گواہی دی۔ مگر اس جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں اِس یوسف کے لئے خودگواہی دوں گا پس اس سے زیادہ اور کیا گواہی ہوگی کہ آج سے پچیس۲۵ برس پہلے خدا تعالیٰ نے ان تہمتوں کی خبر دی ہے جو ظالم اور شریر لوگ مجھ پرلگاتے ہیں۔ اور یوسف بن یعقوب کے لئے صرف ایک انسان نے گواہی دی مگر میرے لئے خدا نے پسند کیا کہ خود گواہی دے اور یوسف بن یعقوب پر تہمت لگانے کیلئے ایک عورت نے پیش دستی کی مگر میرے پر وہ لوگ تہمتیں لگاتے ہیں جو عورتوں سے بھی کمتر ہیں۔ اور 3۲؂ کے مصداق ہیں۔ پھر اس پیشگوئی کے آخری حصہ کی یہ عبارت ہے۔333۔ یعنی اے میرے رب مجھے تو قید بہتر ہے اُن باتوں سے کہ یہ عورتیں مجھ سے خواہش


یہ آیت یعنی3۳؂ جس کا یہ ترجمہ ہے کہ میرے ساتھ میرا خدا ہے۔ وہ مَخلصی کی کوئی راہ دکھلا دے گا۔ یہ قرآن شریف میں حضرت موسیٰ کے قصہ میں ہے جب کہ فرعون نے ان کا تعاقب کیا تھا اور بنی اسرائیل نے سمجھا تھا کہ اب ہم پکڑے گئے ہیں پس خدا تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے کہ ایسے کمزور اس جماعت میں بھی ہوں گے جن کی تسلی کے لئے کہا جائے گا کہ گھبراؤ مت۔ خدا تمہیں ان تہمتوں سے بریّت حاصل کرنے کے لئے کوئی راہ دکھادے گا جیسا کہ اس نے یوسف بن یعقوب کو دکھلا دی جب کہ ایک مکّارہ عورت نے پیش دستی کر کے خلاف واقعہ باتیں یوسف کی نسبت اپنے خاوند کو سنائیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 99

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 99

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/99/mode/1up


کرتی ہیں۔ خلاصہ مطلب یہ کہ اگر کوئی عورت ایسی خواہش کرے تو میں اپنے نفس کے لئے اُس امر سے قید ہونا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ یہ یوسف بن یعقوب علیہما السلام کی دُعا تھی جس دُعا کی وجہ سے وہ قید ہوگئے اور میرا بھی یہی کلمہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے آج سے پچیس۲۵ برس پہلے براہین احمدیہ میں لکھ دیا۔ صرف یہ فرق ہے کہ یوسف بن یعقوب اپنی اس دُعا کی وجہ سے قید ہوگیا ، مگر خدا نے براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۰ میں میری نسبت یہ فرمایا۔ یعصمک اللّٰہ من عندہ وان لم یعصمک النّاس ۔یعنی خدا تعالیٰ تجھے خود بچالے گا اگرچہ لوگ تیرے پھنسانے پر آمادہ ہوں ۔ سو ایسا ہی ہوا کہ مسمّی کرم دین کے فوجداری مقدمہ میں ایک ہندو مجسٹریٹ کا ارادہ تھا کہ مجھے قید کی سزا دے مگر خدا تعالیٰ نے کسی غیبی سامان سے اُس کے دل کو اس ارادہ سے روک دیا۔ اور یہ بھی ظاہر کیا کہ وہ آخر کار سزا دینے کے ارادہ سے قطعاً ناکام رہے گا۔ پس اِس اُمت کا یوسف یعنی یہ عاجز اسرائیلی یوسف سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہ عاجز قید کی دُعا کرکے بھی قید سے بچایا گیا مگر یوسف بن یعقوب قید میں ڈالا گیا۔ اور اِس اُمت کے یوسف کی بریّت کے لئے پچیس۲۵ برس پہلے ہی خدا نے آپ گواہی دے دی اور اور بھی نشان دکھلائے مگر یوسف بن یعقوب اپنی بریّت کے لئے انسانی گواہی کا محتاج ہوا۔ اوران پیشگوئیوں کی گواہی کے بعد زلزلہ شدیدہ نے بھی گواہی دی جس کی گیارہ مہینہ پہلے میں نے خبر دی تھی کیونکہ زلزلہ کی پیشگوئی کے ساتھ یہ وحی الٰہی بھی ہوئی تھی۔ قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون*۔ پس یہ دو گواہ ہوگئے اور نہ معلوم کہ بعد ان کے کتنے گواہ ہیں۔


اس جگہ پر خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون۔ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے جو انسانوں کی گواہی پر مقدّم ہے۔ وہ یہی گواہی ہے کہ خدا نے ایک مدت دراز پہلے اِن بیجا بہتانوں کی خبر دی ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 100

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 100

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/100/mode/1up


غرض وہ خدا جو بدگمانوں کے گندے خیالات کا بھی علم رکھتا ہے اُس نے مجھے یوسف قرار دے کر اور میری نسبت میری زبان سے یوسف علیہ السلام کا وہ قول نقل کرکے جو سورہ یوسف میں آچکا ہے یعنی یہ کہ333 ۔ آئندہ زمانہ کی نسبت ایک پیشگوئی کی ہے تا وہ میرے اندرونی حالات کو لوگوں پر ظاہر کرے۔ اگرچہ میں یہ عادت نہیں رکھتا اور طبعاً اس سے کراہت کرتا ہوں کہ لوگوں کے سامنے اپنی دلی پاکیزگی ظاہر کروں بلکہ یوسف کی طر ح میرا بھی یہی قول ہے کہ3333333 مگرخدا کے لطف و کرم کو میں کہاں چھپاؤں اور کیونکر میں اس کو پوشیدہ کر دوں۔اُس کے تواس قدر لطف و کرم ہیں کہ ؔ میں گن بھی نہیں سکتا۔ کیا عجیب کرم فرمائی ہے کہ ایسے زمانہ میں جبکہ بدگمانیاں نہایت درجہ تک پہنچ گئی ہیں خدا نے میرے لئے ہیبت ناک نشان دکھلائے۔ مثلاً غور کرو کہ وہ شدید زلزلہ جس کی ۳۱؍ مئی ۱۹۰۴ء کو مجھے خبردی گئی جس نے ہزارہا انسانوں کو ایک دم میں تباہ کردیا۔ اور پہاڑوں کو غاروں کی طرح بنا دیا اُس کے آنے کی کس کو خبر تھی۔ کس نجومی نے مجھ سے پہلے یہ پیشگوئی کی تھی وہ خدا ہی تھا جس نے قریباًایک برس پہلے مجھے یہ خبر دی ۔ اُسی وقت لاکھوں انسانوں میں بذریعہ اخبارات شائع کی گئی ۔ اُس نے فرمایا کہ میں نشان کے طور پر یہ زلزلہ ظاہر کروں گا تا سعید لوگوں کی آنکھ کھلے۔ مگر میرے نزدیک براہین احمدیہ کی پیشگوئیاں اس سے کم نہیں ہیں جن میں اس زلزلہ شدیدہ کی بھی خبر ہے۔ اور یہ پیشگوئی یوسف قرار دینے کی بھی ایک ایسی پیشگوئی ہے جس نے اس زمانہ کے نہایت گندہ حملوں کی آج سے پچیس۲۵ سال پہلے خبر دی ہے۔ یہ وہ ناپاک حملے ہیں جو نادان مخالفوں کے آخری ہتھیار ہیں اور بعد اس کے فیصلہ کا دن ہے۔ اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس موقعہ پرخدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون یہ اُس شہادت سے زیادہ زبردست ہے جو سورہ یوسف میں یہ آیت ہے 3۱؂ظاہر ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 101

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 101

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/101/mode/1up


کہ خدا کی شہادت اور انسان کی شہادت برابر نہیں ہوسکتی۔ پس وہ شہادت یہی شہادت ہے کہ وہ جو عالم الغیب ہے وہ پچیس۲۵ سال پہلے اس زمانہ سے مجھے یوسف قرار دے کر اس کے واقعات میرے پر منطبق کرتا ہے اور ایسی خصوصیت کے الفاظ بیان فرماتا ہے جس سے حقیقت کھلتی ہے جیسا کہ اس کا میری طرف سے یہ فرمانا کہ333۱؂ ظاہر کر رہا ہے کہ کسی آئندہ واقعہ کی طرف یہ اشارہ ہے لیکن چونکہ یوسف بھی شریر لوگوں کی بدگمانیوں سے نہیں بچ سکا تو پھر ایسے لوگوں پر مجھے بھی افسوس کرنا لاحاصل ہے جو میرے پر بدگمانی کریں۔ ہر ایک جو مجھ پر حملہ کرتا ہے وہ جلتی ہوئی آگ میں اپنا ہاتھ ڈالتا ہے کیونکہ وہ میرے پر حملہ نہیں بلکہ اُس پر حملہ ہے جس نے مجھے بھیجا ہے وہی فرماتا ہے کہ اِنِّیْ مھینٌ من اراد اھانتک۔یعنی میں اُس کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلّت چاہتا ہے ایسا شخص خدا تعالیٰ کی آنکھ سے پوشیدہ نہیں*۔ یہ مت گمان کرو کہ وہ میرے لئے نشانوں کا دکھلانا بس کردے گا ۔ نہیں بلکہ وہ نشان پر نشان دکھلائے گا اور میرے لئے اپنی وہ گواہیاں دے گا جن سے زمین بھر جائے گی۔ وہ ہولناک نشان دکھلائے گا اور رعب ناک کام کرے گا۔ اس نے مدت تک ان حالات کو دیکھا اور صبر کرتارہا مگر اب وہ اس مینہ کی طرح جو موسم پر ضرور گرجتا ہے گرجے گا اور شریر روحوں کو اپنے صاعقہ کا مزا چکھائے گا۔ وہ شریر جو اس سے نہیں ڈرتے اور شوخیوں میں حد سے بڑھ جاتے ہیں وہ اپنے ناپاک خیالات اور بُرے کاموں کو لوگوں سے چھپاتے ہیں مگر خدا اُنہیں دیکھتا ہے کیا شریر انسان خدا کے ارادوں پر غالب آسکتا ہے ؟ کیا وہ اس سے لڑکر فتح پاسکتا ہے ؟ اور یہ جو اللہ تعالیٰ نے

یہ آیت کہ3 ۲؂ بآواز بلند بتلا رہی ہے کہ فرعونی صفات لوگ اپنی بیجا تہمتوں پر فخر کریں گے مگر خدا اپنے بندہ کو نجات دے گا پھر حملہ کرنے والوں کے آگے ایک دریا ہے جس میں اُن کا خاتمہ ہو جائے گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 102

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 102

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/102/mode/1up


مجھے یوسف قرار دے کر فرمایا قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون۔جسؔ کے یہ معنے ہیں کہ ان کو کہہ دے کہ میرے پاس خداکی گواہی ہے جو انسانوں کی گواہیوں پر غالب ہے پس کیا تم اس گواہی کو مانتے ہو یا نہیں؟ اس فقرہ سے یہ مطلب ہے کہ اے شرارتیں کرنے والو اور تہمتیں لگانے والو! اگرتم خدا کی اس گواہی کوقبول نہیں کرتے جو اُس نے آج سے پچیس۲۵ سال پہلے دی تو پھر خدا کسی اور نشان سے گواہی دے گا جس سے تم ایک سخت شکنجہ میں پڑوگے تب رونااور دانت پیسنا ہوگا۔پس میں دیکھتا ہوں کہ خدا کی دوسری گواہیاں بھی شروع ہوگئیں اور مجھے خدا نے اپنے الہام سے یہ بھی خبر دی ہے کہ جو شخص تیری طرف تیر چلائے گا میں اُسی تیر سے اس کاکام تمام کروں گا۔اور اس وحی الٰہی میں جو مجھے یوسف قرار دیا گیا ہے یہ بھی ایک فقرہ ہے کہ ولتنذرقومًا ماانذر اٰباء ھم فھم غافلون۔ اس آیت کے معنے پہلی آیت کو ساتھ ملانے سے یہ ہیں کہ ہم نے اس یوسف پر احسان کیا کہ خود اس کی بریّت کی شہادت دی تاوہ بُرائی اور بے حیائی جو اس کی طرف منسوب کی جائے گی اس کو ہم اُس سے پھیر دیں اور دفع کردیں اور ہم یہ اس لئے کریں گے کہ تا انذار اور دعوت میں حرج نہ آوے کیونکہ خدا کے رسولوں اور نبیوں اور ماموروں پرجو یہ اندھی دنیا طرح طرح کے الزام لگاتی ہے اگر ان کو دفع نہ کیا جائے تواس سے دعوت اور انذار کا کام سُست ہو جاتا ہے بلکہ رُک جاتا ہے اور ان کی باتیں دلوں پر اثر نہیں کرتیں اورمعقولی رنگ کے جواب اچھی طرح دلوں کے زنگ کو دُور نہیں کر سکتے۔ پس اس سے اندیشہ ہوتاہے کہ لوگ اپنی بدگمانیوں سے ہلاک نہ ہو جائیں اور ہیزم دوزخ نہ بن جائیں۔ لہٰذا وہ خدا جو کریم اور رحیم ہے جو اپنی مخلوق کو ضائع کرنا نہیں چاہتا اپنے زبردست نشانوں کے ساتھ اپنے نبیوں کی صفائی اور اصطفاء اور اجتباء کی شہادت دیتا ہے اور جو شخص ان گواہیوں کو پاکربھی اپنی بدظنیوں سے باز نہیں آتا اُس کے ہلاک ہونے کی خدا کو کچھ بھی پروا نہیں۔ خدا اُس کادشمن ہو جاتا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 103

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 103

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/103/mode/1up


اور اس کے مقابل پر خود کھڑا ہوجاتا ہے۔ شریر انسان خیال کرتا ہے کہ میرے مکر دُنیا کے دلوں پر بُرا اثر ڈالیں گے مگر خدا کہتا ہے کہ اے احمق! کیا تیرے مکرمیرے مکر سے بڑھ کر ہیں؟ میں تیرے ہی ہاتھوں کو تیری ذلّت کا موجب کروں گا اور تجھے تیرے دوستوں کے ہی آگے رُسوا کرکے دکھلاؤں گا۔اور اس جگہ مجھے یوسف قرار دینے سے ایک اور مقصد بھی مدّنظر ہے کہ یوسف نے مصر میں پہنچ کر کئی قسم کی ذلّتیں اٹھائی تھیں جو دراصل اُس کی ترقی ء مدارج کی ایک بنیاد تھی مگر اوائل میں یوسف نادانوں کی نظر میں حقیر اور ذلیل ہوگیا تھا اور آخر خدا نے اُس کو ایسی عزّت دی کہ اُس کو اسی ملک کا بادشاہ بناکر قحط کے دنوں میں وہی لوگ غلام کی طرح اس کے بنا دیئے جو غلامی کاداغ بھی اُس کی طرف منسوب کرتے تھے پس خدا تعالیٰ مجھے یوسف قرار دے کر یہ اشارہ فرماتا ہے کہؔ اس جگہ بھی میں ایسا ہی کروں گا۔ اسلام اور غیر اسلام میں روحانی غذا کا قحط ڈال دوں گا اور روحانی زندگی کے ڈھونڈنے والے بجز اس سلسلہ کے کسی جگہ آرام نہ پائیں گے اور ہر ایک فرقہ سے آسمانی برکتیں چھین لی جائیں گی اور اسی بندۂ درگاہ پر جو بول رہا ہے ہر ایک نشان کا انعام ہوگا پس وہ لوگ جو اس روحانی موت سے بچنا چاہیں گے وہ اسی بندۂ حضرت عالی کی طرف رجوع کریں گے اور یوسف کی طرح یہ عزت مجھے اسی توہین کے عوض دی جائے گی بلکہ دی گئی جس توہین کو ان دنوں میں ناقص العقل لوگوں نے کمال تک پہنچایا ہے۔ اور گومَیں زمین کی سلطنت کے لئے نہیں آیا مگر میرے لئے آسمان پر سلطنت ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی اور مجھے خدا نے اطلاع دی ہے کہ آخر بڑے بڑے مفسد اور سرکش تجھے شناخت کرلیں گے۔ جیسا کہ فرماتا ہے ۔ یَخِرُّون عَلَی الْاَذْقان سُجَّدًا۔ ربّنا اغفرلنا اناکنا خاطئین۔ لا تثریب علیکم الیوم یغفراللّٰہ لکم وھو ارحم الرّاحمین*۔ اور میں نے کشفی طور پر

ترجمہ ۔ٹھوڑیوں پر سجدہ کرتے ہوئے گریں گے یہ کہتے ہوئے کہ خدایا ہم خطاکار تھے ہم نے گناہ کیا۔ ہمارے گناہ بخش۔ پس خدا فرمائے گا کہ تم پر کوئی سرزنش نہیں کیونکہ تم ایمان لے آئے خدا تمہارے گناہ بخش دے گا کہ وہ ارحم الراحمین ہے۔ اس جگہ بھی خدا نے لا تثریب کے لفظ کے ساتھ مجھے یوسف ہی قرار دیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 104

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 104

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/104/mode/1up


دیکھا کہ زمین نے مجھ سے کلام کیا اور کہا یا ولی اللّٰہ کُنْتُ لا اَعْرفک۔یعنی اے ولی اللہ میں اس سے پہلے تجھ کو نہیں پہچانتی تھی۔ زمین سے مراد اس جگہ اہل زمین ہیں۔ مبارک وہ جو دہشت ناک دن سے پہلے مجھ کو قبول کرے کیونکہ وہ امن میں آئے گا۔ لیکن جو شخص زبردست نشانوں کے بعد مجھے قبول کرے اُس کا ایمان رَتی بھی قیمت نہیں رکھتا۔

اکنوں ہزار عُذر بیارے گناہ را


مرشوئے کردہ رانبود زیب دخترے

پھر اور پیشگوئیاں ہیں جو مذکورہ بالا پیشگوئیوں کی تائید میں براہین احمدیہ میں مندرج ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ھو شعنا نَعْسا۔ آئی لَوْیُو۔۲؂ آئی شیل گِو یو ءِ لارج پارٹی اوف اسلام۔۲؂ ثلّۃ من الاولین وثلّۃ من الاٰخرین ۔ میں اپنی چمکار دکھاؤں گا اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤں گا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولو العزم ۔ یا داوٗد عامل بالناس رفقًا واحسانًا وامّا بنعمۃ ربّک فحدّث۔ اشکر نعمتی رئیت خدیجتی۔ انک الیوم لذوحظٍ عظیم۔ ما ودّعک ربّک وما قلٰی۔ الم نشرح لک صدرک۔ الم نجعل لک سھولۃً فی کلّ امر۔ بیت الفکر وبیت الذکر ومن دخلہ کان اٰمنا۔ مبارک و مبارک وکل امرٍ مبارک یجعل فیہ۔ یریدون ان یطفءُوا نور اللّٰہ قل اللّٰہ حافظہ۔ عنایۃ اللّٰہ حافظک۔ نحن نزّلناہ وانالہ لحافظون۔ اللہ خیر حافظا وھوارحم الراحمین۔ ویُخوّفونک من دونہ ائمّۃ الکفر۔ لا تخف انک انت الاعلٰی۔ ینصرک اللّٰہ فی مواطن۔ کتب اللّٰہ لأَغلبن انا ورسلی۔ اعمل ماشئت فانی قد غفرت لک۔ انت منّی بمنزلۃ لا یعلمھا الخلق۔ وقالوا ان ھوالّا افک افترٰی۔ وما سمعنا بھٰذا فی اٰبائنا الاولین۔ ولقد کرمنا بنی اٰدم و



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 105

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 105

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/105/mode/1up


فَضَّلنا بعضھم علٰی بعض۔ اجتبیناھم واصطفیناھم کذالک لیکون اٰیۃً للمؤمنین۔ ام حسبتم انّ اصحابَ الکھف والرقیم کانوامن اٰیاتنا عجبًا۔ قل ھو اللّٰہ عجیب ۔ کلّ یوم ھو فی شان ففھّمناھا سلیمان۔ وجحدوا بھا واستیقنتھا انفسھم ظلمًا وعلوّا۔ قل جاء کم نورٌ من اللّٰہ فلا تکفروا ان کنتم مؤمنین۔ سلام علٰی ابراھیم۔ صافیناہ ونجیناہ من الغم۔ تفردنا* بذالک ۔ فاتخذوا من مقام ابراھیم مُصلّٰی۔(دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۶ سے صفحہ ۵۶۱ تک) ترجمہ۔ اے خدا میں دُعا کرتا ہوں کہ مجھے نجات بخش اور مشکلات سے رہائی فرما۔ ہم نے نجات دے دی۔ یہ دونوں فقرے عبرانی زبان میں ہیں اور یہ ایک پیشگوئی ہے جو دُعا کی صورت میں کی گئی اور پھر دعا کا قبول ہونا ظاہر کیا گیا اور اس کاحاصل مطلب یہ ہے کہ جو موجودہ مشکلات ہیں یعنی تنہائی بیکسی ناداری کسی آئندہ زمانہ میں وہ دُور کر دی جائیں گی۔ چنانچہ پچیس۲۵ برس کے بعد یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور اس زمانہ میں ان مشکلات کا نام و نشان نہ رہا۔ اور پھر دوسری پیشگوئی انگریزی زبان میں ہے اور میں اس زبان سے واقف نہیں۔ یہ بھی ایک معجزہ ہے جو اِس زبان میں وحی الٰہی نازل ہوئی۔ ترجمہ یہ ہے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ میں تمہیں ایک بڑا گروہ اسلام کا دوں گا۔ ایک گروہ تو اُن میں سے پہلے مسلمانوں میں سے ہوگا اور دوسرا گروہ اُن لوگوں میں سے ہو گا جو دوسری قوموں میں سے ہوں گے یعنی ہندوؤں میں سے یا یورپ کے عیسائیوں میں سے یا امریکہ کے عیسائیوں میں سے یا کسی اور قوم میں سے چنانچہ ہندو مذہب کے گروہ میں سے بہت سے لوگ مشرف باسلام ہوکر

ترجمہ: یعنی سچی اور صافی اور کامل محبت جو ہم کو اس بندہ سے ہے دوسروں کو نہیں ہم اس امر میں منفرد ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ محبت بقدر معرفت ہوتی ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 106

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 106

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/106/mode/1up


ہمارے سلسلہ میں داخل ہوگئے ہیں جن میں سے ایک شیخ عبد الرحیم ہیں جو اسی جگہ قادیان میں مقیم ہیں جنہوں نے عربی کی کتابیں بھی پڑھ لی ہیں اور قرآن شریف اور کتب درسیہ حدیث وغیرہ کو پڑھ لیا ہے اورعربی میں خوب مہارت پیدا کرلی ہے۔ دوسرے شیخ فضل حق جو اس ضلع کے رئیس ہیں اور اُن کا باپ جاگیردار ہے۔ تیسرے شیخ عبد اللہ (دیوان چند) جو سالہا سال سے ڈاکٹری میں تجربہ رکھتے ہیں اور اس جگہ قادیان میں وہی کام کرتے ہیں۔ اور اس سلسلہ کے لئے اسی کام پر قادیان میں مامور ہیں اسی طرح اور کئی ہیں جو اپنے اپنے وطنوں میں جاگزؔ یں ہیں۔ ایسا ہی یورپ یا امریکہ کے قدیم عیسائیوں میں بھی تھوڑے عرصہ سے ہمارے سلسلہ کا رواج ہوتا جاتاہے چنانچہ حال میں ہی ایک معزز انگریز شہر نیویارک کا رہنے والا جو ملک یونائیٹڈ اسٹیٹ امریکہ میں ہے جس کا پہلانام ہے ایف ایل اینڈرسن نمبر ۲۰۲۔۲۰۰ ورتھ سٹریٹ۔ اور بعد اسلام اس کانام حَسن رکھا گیا ہے وہ ہماری جماعت یعنی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہے اور اُس نے اپنے ہاتھ سے چٹھی لکھ کر اپنا نام اس جماعت میں درج کرایا ہے اور ہماری کتابیں جو انگریزی میں ترجمہ شدہ ہیں پڑھتا ہے قرآن شریف کو عربی میں پڑھ لیتا ہے اور لکھ بھی سکتا ہے ایسا ہی اور کئی انگریز ان ملکوں میں اس سلسلہ کے ثناخوان ہیں اور اپنی موافقت اس سے ظاہر کرتے ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر بیکر جن کا نام ہے۔ اے جارج بیکر نمبر ۴۰۴ سیس کوئی ھینا ایونیو فلاڈلفیا امریکہ۔ میگزین ریویو آف ریلیجنز میں میرا نام اور تذکرہ پڑھ کر اپنی چٹھی میں یہ الفاظ لکھتے ہیں ’’ مجھے آپ کے امام کے خیالات کے ساتھ بالکل اتفاق ہے انہوں نے اسلام کو ٹھیک اُس شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس شکل میں حضرت نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا تھا ‘‘ اور ایک عورت امریکہ سے میری نسبت اپنے خط میں لکھتی ہے کہ ’’میں ہر وقت ان کی تصویر کو دیکھتی رہنا پسند کرتی ہوں۔ یہ تصویر بالکل مسیح کی تصویر معلوم ہوتی ہے ‘‘ اور اسی طرح ہمارے ایک دوست کی بیوی جس کا پہلا نام ایلزی بتھ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 107

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 107

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/107/mode/1up


تھا جو انگلینڈ کی باشندہ ہے اس جماعت میں داخل ہوچکی ہے۔ اسی طرح اور کئی خط امریکہ انگلینڈ روس وغیرہ ممالک سے متواتر آرہے ہیں اور وہ تمام خطوط متعصّب منکروں کے منہ بند کرنے کے لئے محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ ایک بھی ضائع نہیں کیا گیا اور دن بدن اِن ممالک میں ہمارے ساتھ تعلق پیدا کرنے کیلئے قدرتی طور پر ایک جوش پیدا ہو رہا ہے اور تعجب ہے کہ وہ خود بخود ہمارے سلسلہ سے مطلع ہوتے جاتے ہیں اور خدائے کریم و رحیم و حکیم ان کے دلوں میں ایک اُنس اور محبت اور حسن ظن پیدا کرتا جاتاہے اور صاف طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے لوگ ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے کے لئے طیاری کر رہے ہیں اور وہ اس سلسلہ کو بڑی عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جیسا کہ ایک سخت پیاسا یا سخت بھوکا جو شدت بھوک اور پیاس سے مرنے پر ہو اور یکدفعہ اُس کو پانی اور کھانا مل جائے۔ اسی طرح وہ اس سلسلہ کے ظہور سے خوشی ظاہر کرتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اِس زمانہ میں اسلام کی شکل کو تفریط اور افراط کے سیلاب نے بگاڑ دیا تھا ایک فرقہ جو محض زبان سے اسلام کا دعویٰ کرتا ہے وہ قطعاً اسلامی برکات سے منکر ہوچکا تھا اور معجزات اور پیشگوئیوں سے نہ صرف انکار بلکہ دن رات ٹھٹھا اور ہنسی کرتا تھا اور معاد کے واقعات کی اصل حقیقت نہ سمجھ کر اس سے بھی تمسخر اور انکار سے پیش آتا تھا اورعباداتِ اسلاؔ میہ سے جن سے روحانیت کے دروازے کھلتے ہیں سبکدوش ہوناچاہتا تھا غرض دہریت سے بہت قریب جا رہا تھا اور صرف نام کا مسلمان تھا۔ اور وہ امر جو اسلام اور دوسرے مذاہب میں ایسا مابہ الامتیاز ہے جوکوئی شخص اپنی طاقت سے اپنے مذہب میں وہ حصہ امتیازی نشان کا داخل کر ہی نہیں سکتا اُس سے وہ بالکل بے خبر تھا۔ یہ تو تفریط والوں کا حال تھا اور دوسرے فریق نے افراط کی راہ اختیار کرلی تھی یعنی ایسے بے اصل قصّے اور بیہودہ کہانیاں جو کتاب اللہ کے برخلاف ہیں جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ دنیا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 108

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 108

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/108/mode/1up


میں آنا اپنے مذہب کا جزو بنا دیا تھاحالانکہ خدا تعالیٰ صریح الفاظ سے قرآن شریف میں اُن کی وفات ظاہر کرتا ہے اوراحادیث نبویہ میں صراحت سے لکھا گیا ہے کہ آنے والا مسیح اِسی اُمت میں سے ہوگا۔ جیسا کہ موسٰی ؑ کے سلسلہ کا مسیح اُسی قوم میں سے تھا نہ کہ آسمان سے آیا تھا۔ پس اس تفریط اور افراط کو دُور کرنے کیلئے خدا نے یہ سلسلہ زمین پر قائم کیا جو بباعث اپنی سچائی اورخوبصورتی اور اعتدال کے ہر ایک اہل دل کو پسند آتا ہے۔غرض یہ پیشگوئی کہ ایک گروہ پرانے مسلمانوں میں سے اس سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوگا اور ایک گروہ نئے مسلمانوں میں سے یعنی یورپ اور امریکہ اور دیگر کُفّار کی قوموں میں سے اس سلسلہ کے اندر اپنے تئیں لائے گا۔ پچیس۲۵ برس بعد اُس زمانہ سے کہ جب خبر دی گئی پوری ہوئی۔ یاد رکھو کہ جیسا کہ ہم ابھی لکھ چکے ہیں عربی زبان میں اس پیشگوئی کے یہ لفظ ہیں جو وحی الٰہی نے میرے پر ظاہر کئے جو براہین احمدیہ حصص سابقہ میں آج سے پچیس۲۵ برس پہلے شائع ہو چکے ہیں۔ ثُلّۃٌ من الاوّلین وثُلّۃٌ من الاٰخرین یعنی اس سلسلہ میں داخل ہونے والے دو۲ فریق ہوں گے۔ایک پرانے مسلمان جن کا نام اولین رکھا گیا جو اب تک تین لاکھ کے قریب اس سلسلہ میں داخل ہوچکے ہیں۔ اور دوسرے نئے مسلمان جو دوسری قوموں میں سے اسلام میں داخل ہوں گے یعنی ہندوؤں اور سکھوں اور یورپ اور امریکہ کے عیسائیوں میں سے۔ اور وہ بھی ایک گروہ اس سلسلہ میں د اخل ہوچکا ہے اور ہوتے جاتے ہیں۔ اسی زمانہ کے بارہ میں جو میرا زمانہ ہے خدا تعالیٰ قرآن شریف میں خبر دیتا ہے جس کا خلاصہ ترجمہ یہ ہے کہ آخری دنوں میں طرح طرح کے مذاہب پیدا ہو جائیں گے اور ایک مذہب دوسرے مذہب پر حملہ کرے گا جیسا کہ ایک موج دوسری موج پر پڑتی ہے یعنی تعصب بہت بڑھ جائے گا اور لوگ طلب حق کو چھوڑ کر خواہ نخواہ اپنے مذاہب کی حمایت کریں گے۔ اور کینے اور تعصب ایسے حدِّاعتدال سے گذر جائیں گے کہ ایک قوم دوسری قوم کو نگل لیناچاہے گی تب انہیں دنوں میں آسمان سے ایک فرقہ کی بنیاد ڈالی جائے گی اور خدا اپنے مُنہ سے اُس فرقہ کی حمایت کے لئے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 109

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 109

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/109/mode/1up


ایک کرناء بجائے گا اور اس کرناء کی آواز سے ہر ایک سعیدؔ اس فرقہ کی طرف کھچا آئے گا بجز اُن لوگوں کے جو شقی ازلی ہیں جو دوزخ کے بھرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ قرآن شریف کے اس میں الفاظ یہ ہیں 3 ۱؂۔ اوریہ بات کہ وہ نفخ کیا ہوگا۔ اور اس کی کیفیت کیا ہوگی اس کی تفصیل وقتاً فوقتاً خود ظاہر ہوتی جائے گی۔ مجملاً صرف اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ استعدادوں کو جنبش دینے کے لئے کچھ آسمانی کارروائی ظہور میں آئے گی اور ہولناک نشان ظاہر ہوں گے تب سعید لوگ جاگ اٹھیں گے کہ یہ کیا ہوا چاہتا ہے کیا یہ وہی زمانہ نہیں جو قریب قیامت ہے جس کی نبیوں نے خبر دی ہے ۔ اور کیا یہ وہی انسان نہیں جس کی نسبت اطلاع دی گئی تھی کہ اس امت میں سے وہ مسیح ہوکر آئے گا جو عیسیٰ بن مریم کہلائے گا تب جس کے دل میں ایک ذرا بھی سعادت اور رشد کا مادہ ہے خدا تعالیٰ کے غضبناک نشانوں کو دیکھ کر ڈرے گا اور طاقت بالا اُس کو کھینچ کر حق کی طرف لے آئے گی اور اُس کے تمام تعصب اور کینے یوں جل جائیں گے جیسا کہ ایک خشک تِنکا بھڑکتی ہوئی آگ میں پڑ کر بھسم ہو جاتا ہے غرض اُس وقت ہر ایک رشید خدا کی آواز سن لے گا۔ اور اس کی طرف کھینچا جائے گا اور دیکھ لے گا کہ اب زمین اور آسمان دوسرے رنگ میں ہیں نہ وہ زمین ہے اور نہ وہ آسمان۔ جیسا کہ مجھے پہلے اس سے ایک کشفی رنگ میں دکھلایا گیا تھا کہ میں نے ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنایا ایسا ہی عنقریب ہونے والا ہے اور کشفی رنگ میں یہ بنانا میری طرف منسوب کیا گیا کیونکہ خدا نے اس زمانہ کے لئے مجھے بھیجا ہے۔ لہٰذا اس نئے آسمان اور نئی زمین کا میں ہی موجب ہوا اور ایسے استعارات خدا کی کلام میں بہت ہیں لیکن اس جگہ شاید بعض نادانوں کو یہ اشکال پیش آوے کہ اگرچہ یہ تو صحیح مسلم اور بخاری میں آچکا ہے کہ آنے والامسیح اسی امت میں سے ہوگا اور قرآن شریف میں بھی سورہ ء نور میں مِنْکُمْ کا لفظ اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہر ایک خلیفہ اسی اُمت میں سے ہوگا اور آیت33۲؂ بھی اسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس سے ظاہر ہے کہ کوئی امر غیر معمولی نہیں ہوگا بلکہ جس طرح صدر زمانہ اسلام میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 110

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 110

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/110/mode/1up


مثیل موسیٰ ہیں جیسا کہ آیت3 ۱؂سے ظاہر ہے ایسا ہی آخر زمانہ اسلام میں دونوں سلسلوں موسوی اورمحمدی کا اوّل اور آخرمیں تطابق پورا کرنے کیلئے مثیل عیسیٰ کی ضرورت تھی جس کی نسبت حدیث بخاری اِمَامَکُمْ مِنْکُم اور حدیث مسلم اَمَّکُمْ مِنْکَم وضاحت سے خبر دے رہی ہیں۔مگر اسی امت میں سے عیسیٰ بننے والا ابن مریم کیونکر کہلا سکے وہ تو مریم کا بیٹا نہیں ہے حالانکہ حدیثوں میں ابن مریم کا لفظ آیا ہے۔ پس یاد رہے کہ یہ وسوسہ جو نادانوں کے دلوؔ ں کو پکڑتا ہے قرآن شریف میں سورۂ تحریم میں اِس شبہ کاازالہ کردیا گیا ہے جیسا کہ سورۃ تحریم میں اس امت کے بعض افراد کومریم سے مشابہت دی گئی ہے اور پھر اس میں عیسیٰ کی روح کے نفخ کا ذکر کیا گیا ہے جس میں صریح اشارہ کیا گیا ہے کہ اس امت میں سے کوئی فرد اوّل مریم کے درجہ پر ہوگا اور پھر اس مریم میں نفخ روح کیا جائے گا تب وہ اس درجہ سے منتقل ہوکر ابن مریم کہلائے گا۔ اور اگر کوئی مجھ سے سوال کرے کہ اگر یہی سچ ہے تو پھر تمہارے الہامات میں بھی اس کی طرف کوئی اشارہ ہونا چاہئے تھا۔ اس کے جواب میں مَیں کہتا ہوں کہ آج سے پچیس۲۵ برس پہلے یہی تصریح میری کتاب براہین احمدیہ حصص سابقہ میں موجود ہے اور نہ صرف اشارہ بلکہ پور ی وضاحت سے کتاب براہین احمدیہ حصص سابقہ میں ایک لطیف استعارہ کے رنگ میں مجھے ابن مریم ٹھہرایا گیا ہے چاہیے کہ اوّل وہ کتاب ہاتھ میں لے لو اور پھر دیکھو کہ اس کی اوائل میں اوّل میرا نام خدا تعالیٰ نے مریم رکھا ہے اور فرمایا ہے یا مریم اسکن انت وزوجک الجنۃ۔ یعنی اے مریم تواور تیری دوست جنت میں داخل ہو۔ پھر آگے چل کر کئی صفحوں کے بعد جو ایک مدت پیچھے لکھے گئے تھے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے یا مریم نفختُ فیک من لدنی روح الصدق۔ یعنی اے مریم میں نے تجھ میں صدق کی روح پھونک دی۔ پس یہ رُوح پھونکنا گویا روحانی حمل تھا کیونکہ اس جگہ وہی الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو مریم صدیقہ کی نسبت استعمال کئے گئے تھے جب مریم صدیقہ میں روح پھونکی گئی تھی تو اس کے یہی معنے تھے کہ اس کو حمل ہوگیا تھا جس حمل سے عیسیٰ پیدا ہوا۔ پس اس جگہ بھی اسی طرح فرمایا کہ تجھ میں رُوح پھونکی گئی گویا یہ ایک روحانی حمل تھا ۔ پھر آگے چل کر آخر کتاب میں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 111

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 111

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/111/mode/1up


مجھے عیسیٰ کرکے پکارا گیا ۔ کیونکہ بعد نفخ ربانی مریمی حالت عیسیٰ بننے کیلئے مستعد ہوئی جس کو استعارہ کے رنگ میں حمل قرار دیا گیا۔ پھر آخر اُسی مریمی حالت سے عیسیٰ پیدا ہوگیا۔ اسی رمز کیلئے کتاب کے آخر میں میرانام عیسیٰ رکھا گیااور کتاب کے اوّل میں مریم نام رکھا گیا۔ اب شرم اور حیا اور انصاف اور تقویٰ کی آنکھ سے اوّل سورۂ تحریم میں اس آیت پر غور کرو جس میں بعض افراد اس امت کو مریم سے نسبت دی گئی ہے اور پھر مریم میں نفخ روح کاذکر کیا گیا ہے جو اس حمل کی طرف اشارہ کرتا ہے جس سے عیسیٰ پیدا ہونے والا ہے۔ پھر بعد اس کے براہین احمدیہ حصص سابقہ کے یہ تمام مقامات پڑھو اور خدا تعالیٰ سے ڈرکر خوف کرو کہ کس طرح اُس نے پہلے میرانام مریم رکھا اور پھر مریم میں نفخِ رُوح کا ذکر کیا اور آخر کتاب میں اسی مریم کے رُوحانی حمل سے مجھے عیسیٰ بنا دیا۔ اگر یہ کاروبار انسان کاہوتا تو ہرگز انسان کی قدرت نہ تھی کہ دعوے سے ایکؔ زمانہ دراز پہلے یہ لطیف معارف پیش بندی کے طور پراپنی کتاب میں داخل کردیتا۔ تم خود گواہ ہوکہ اُس وقت اور اُس زمانہ میں مجھے اس آیت پر اطلاع بھی نہ تھی کہ میں اس طرح پرعیسیٰ مسیح بنایا جاؤں گا بلکہ میں بھی تمہاری طرح بشریت کے محدود علم کی وجہ سے یہی اعتقاد رکھتا تھا کہ عیسیٰ بن مریم آسمان سے نازل ہوگا۔ اور باوجود اس بات کے کہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور جو قرآن شریف کی آیتیں پیشگوئی کے طور پر حضرت عیسیٰ کی طرف منسوب تھیں وہ سب آیتیں میری طرف منسوب کردیں اور یہ بھی فرما دیا کہ تمہارے آنے کی خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے مگر پھر بھی میں متنبہ نہ ہوا اور براہین احمدیہ حصص سابقہ میں مَیں نے وہی غلط عقیدہ اپنی رائے کے طو ر پر لکھ دیا او ر شائع کردیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔ اور میری آنکھیں اُس وقت تک بالکل بند رہیں جب تک کہ خدا نے بار بار کھول کر مجھ کو نہ سمجھا یا کہ عیسیٰ بن مریم اسرائیلی توفوت ہوچکاہے اوروہ واپس نہیں آئے گا اس زمانہ اور اس امت کے لئے تو ہی عیسیٰ بن مریم ہے۔ یہ میری غلط رائے جو براہین احمدیہ حصص سابقہ میں درج ہوگئی یہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک نشان تھا اور میری سادگی اورعدم بناوٹ پر گواہ تھا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 112

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 112

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/112/mode/1up


مگر اب میں اس سخت دل قوم کا کیا علاج کروں کہ نہ قسم کو مانتے ہیں نہ نشانوں پر ایمان لاتے ہیں اور نہ خدا تعالیٰ کی ہدایتوں پرغور کرتے ہیں۔ آسمان نے بھی نشان دکھلائے او رزمین نے بھی۔ مگر ان کی آنکھیں بند ہیں اب نہ معلوم خدا انہیں کیادکھلائے گا۔

اِس جگہ یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ نے میرانام عیسیٰ ہی نہیں رکھا بلکہ ابتدا سے انتہا تک جس قدر انبیاء علیھم السّلام کے نام تھے وہ سب میرے نام رکھ دیئے ہیں۔ چنانچہ براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میرانام آدم رکھا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اردتُ اَن استخلف فخلقتُ اٰدم دیکھو براہین احمدیہ حصص سابقہ صفحہ ۴۹۲۔ پھر دوسری جگہ فرماتا ہے سبحان الذی اسری بعبدہ لیلًا خلق اٰدم فاکرمہ۔ دیکھو براہین احمدیہ حصص سابقہ صفحہ ۵۰۴ دونوں فقروں کے معنے یہ ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ بناؤں سو میں نے آدم کو پیدا کیا یعنی اس عاجز کو۔ پھر فرمایا پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ کو ایک ہی رات میں تمام سیر کرا دیا۔ پیدا کیا اِس آدم کو ۔ پھر اس کو بزرگی دی۔ ایک ہی رات میں سیر کرانے سے مقصد یہ ہے کہ اس کی تمام تکمیل ایک ہی رات میں کردی اور صرف چار پہر میں اس کے سلوک کو کمال تک پہنچایا اور خدا نے جو میرانام آدم رکھا اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں عام طور پر بنی آدم کی روحانیت پر موؔ ت آگئی تھی پس خدا نے نئی زندگی کے سلسلہ کا مجھے آدم ٹھہرایا اور اس مختصر فقرہ میں یہ پیشگوئی پوشیدہ ہے کہ جیساکہ آدم کی نسل تمام دنیا میں پھیل گئی ایسا ہی میری یہ روحانی نسل اور نیز ظاہری نسل بھی تمام دنیامیں پھیلے گی۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جیساکہ فرشتوں نے آدم کے خلیفہ بنانے پر اعتراض کیا اور خدا تعالیٰ نے اس اعتراض کو رد کرکے کہا کہ آدم کے حالا ت جو مجھے معلوم ہیں وہ تمہیں معلوم نہیں یہی واقعہ میرے پر صادق آتا ہے کیونکہ براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں یہ وحی الٰہی درج ہے کہ لوگ میری نسبت ایسے ہی اعتراض کریں گے جیسے کہ آدم علیہ السلام پر کئے گئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وان یتخذونک اِلا ھزوًا أھٰذا الذی بعث اللّٰہ۔ جاھل اومجنون۔ یعنی تجھے لوگ ہنسی کی جگہ بنا لیں گے اور کہیں گے کہ کیا یہی شخص خدا نے مبعوث فرمایا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 113

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 113

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/113/mode/1up


یہ تو جاہل ہے یا دیوانہ ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ انہیں حصص براہین احمدیہ میں فرماتا ہے۔ انتَ منّی بمنزلۃٍ لا یعلمھا الخلق ۔ یعنی تیرا میرے نزدیک وہ مقام ہے جس کو دنیا نہیں جانتی۔ یہ جواب اِسی قسم کا ہے جیسا کہ آدم کی نسبت قرآن شریف میں ہے۔3 3۱؂ بلکہ یہی آیتیں بعینہٖ اگرچہ براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں نہیں مگر دوسری کتابوں میں میری نسبت بھی وحی الٰہی ہوکر شائع ہوچکی ہیں۔ تیسری آدم سے مجھے یہ بھی مناسبت ہے کہ آدم توام کے طور پر پیدا ہوا اور میں بھی توام پیدا ہوا۔ پہلے لڑکی پیدا ہوئی بعدہٗ میں۔ اور باایں ہمہ میں اپنے والد کیلئے خاتم الولد تھا۔ میرے بعد کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا۔ اور میں جمعہ کے روز پیدا ہوا تھااو ر آدم کا حواسے پہلے پیدا ہونا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ وہ سلسلہ دنیا کا مبدء ہے۔ اور میرا اپنی توام ہمشیرہ سے بعد میں پیدا ہونا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ میں دنیاکے سلسلہ کے خاتمہ پر آیا ہوں۔ چنانچہ چھٹے ہزار کے آخر میں میری پیدائش ہے اور قمری حساب کی رو سے اب ساتواں ہزار جاتا ہے۔

اسی طرح براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں خدا تعالیٰ نے میرا نام نوح بھی رکھا ہے اور میری نسبت فرمایا ہے۔ ولا تخاطبنی فی الّذین ظلموا اِنّھم مُغْرقون۔ یعنی میری آنکھوں کے سامنے کشتی بنا اور ظالموں کی شفاعت کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کر کہ میں ان کو غرق کروں گا۔ خدا نے نوح کے زمانہ میں ظالموں کو قریباً ایک ہزار سال تک مہلت دی تھی اور اب بھی خیر القرون کی تین صدیوں کو علیحدہ رکھ کر ہزار برس ہی ہو جاتا ہے۔ اس حساب سے اب یہ زمانہ اُس وقت پر آپہنچتا ہے جبکہؔ نوح کی قوم عذاب سے ہلاک کی گئی تھی اور خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا۔ اصنع الفلک باعیننا ووحینا۔ انّ الذین یبایعونک انما یبایعون اللّٰہ ید اللّٰہ فوق ایدیھم ۔یعنی میری آنکھوں کے روبرو اور میرے حکم سے کشتی بنا۔ وہ لوگ جو تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ نہ تجھ سے بلکہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ یہ خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے۔ یہی بیعت کی کشتی ہے جو انسانوں کی جان اور ایمان بچانے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 114

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 114

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/114/mode/1up


کے لئے ہے ۔ لیکن بیعت سے مراد وہ بیعت نہیں جو صرف زبان سے ہوتی ہے اور دل اس سے غافل بلکہ روگردان ہے۔ بیعت کے معنے بیچ دینے کے ہیں۔ پس جو شخص درحقیقت اپنی جان اور مال اور آبرو کو اس راہ میں بیچتا نہیں مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ خدا کے نزدیک بیعت میں داخل نہیں بلکہ مَیں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک ظاہری بیعت کرنے والے بہت ایسے ہیں کہ نیک ظنی کا مادہ بھی ہنوز اُن میں کامل نہیں اور ایک کمزور بچہ کی طرح ہر ایک ابتلا کے وقت ٹھوکر کھاتے ہیں۔ اور بعض بدقسمت ایسے ہیں کہ شریر لوگوں کی باتوں سے جلد متاثر ہوجاتے ہیں اور بدگمانی کی طرف ایسے دوڑتے ہیں جیسے کتامُردار کی طرف ۔ پس میں کیونکر کہوں کہ وہ حقیقی طور پر بیعت میں داخل ہیں مجھے وقتاً فوقتاً ایسے آدمیوں کا علم بھی دیا جاتا ہے مگر اذن نہیں دیا جاتا کہ ان کو مطلع کروں۔ کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے۔ پس مقام خوف ہے۔

اسی طرح براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام ابراہیم بھی رکھا گیا ہے جیسا کہ فرمایا۔ سلام علیک یا ابراھیم (دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۸) یعنی اے ابراہیم تجھ پر سلام ۔ ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے بہت برکتیں دی تھیں اور وہ ہمیشہ دشمنوں کے حملوں سے سلامت رہا۔ پس میرا نام ابراہیم رکھ کر خدا تعالیٰ یہ اشارہ کرتا ہے کہ ایسا ہی اس ابراہیم کو برکتیں دی جائیں گی اور مخالف اس کو کچھ ضرر نہیں پہنچا سکیں گے۔ جیسا کہ اسی براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں اللہ تعالیٰ مجھے مخاطب کرکے فرماتا ہے بورکت یا احمد وکان ما بارک اللّٰہ فیک حقًّا فیک یعنی اے احمد تجھے مبارک کیا گیا اور یہ تیرا ہی حق تھا۔ اور انہیں حصص سابقہ براہین احمدیہ میں اللہ تعالیٰ ایک جگہ مجھے مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ میں تجھے اس قدر برکت دوں گا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور جس طرح ابراہیم سے خدا نے خاندان شروع کیا اسی طرح اللہ تعالیٰ براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میری نسبت فرماتا ہے۔ سبحان اللّٰہ زاد مجدک ینقطع اٰبا ء ک و یبد ء منک۔ یعنی خدا پاک ہے جس نے تیریؔ بزرگی کو



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 115

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 115

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/115/mode/1up


زیادہ کیا۔ وہ تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع کردے گا اور ابتداء خاندان کا تجھ سے کرے گا۔ اور ابراہیم سے خدا کی محبت ایسی صاف تھی جو اُس نے اس کی حفاظت کے لئے بڑے بڑے کام دکھلائے اور غم کے وقت اُس نے ابراہیم کو خود تسلی دی۔ ایسا ہی اللہ تعالیٰ براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام ابراہیم رکھ کر فرماتا ہے۔ سلام علٰی ابراھیم صافیناہ ونجّیناہ من الغمّ تفرّدنا بذالک صفحہ ۵۶۱۔ یعنی اس ابراہیم پر سلام ۔ ہماری اس سے محبت صافی ہے جس میں کوئی کدورت نہیں اور ہم اس کو غم سے نجات دیں گے۔ یہ محبت ہم سے ہی مخصوص ہے کوئی دوسرا اس کا ایسامحب نہیں۔ اور پھر ایک اور جگہ براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام ابراہیم رکھا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے ۔ یا ابراھیم أَعرضْ عن ھٰذا اِنَّہ عمل غیر صالح۔ ا نما انت مذکّروما انت علیھم بمصیطر ۔ صفحہ۵۱۰۔ یعنی اے ابراہیم اس شخص سے الگ ہو جا یہ اچھا آدمی نہیں ہے اور تیرا کام یاد دلانا ہے تو ان پر داروغہ تو نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بعض اپنی قوم کے لوگوں سے اور قریب رشتوں سے قطع تعلق کرنا پڑا تھا پس میری نسبت یہ پیشگوئی تھی کہ تمہیں بھی بعض قوم کے قریب لوگوں سے قطع تعلق کرنا پڑے گا چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔ پھر ایک اور جگہ براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام ابراہیم رکھا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے و نظرنا الیک وقلنا یا نارکونی بردًا و سلامًا علٰی ابراھیم۔ دیکھو صفحہ ۲۴۰۔ یعنی ہم نے اس ابراہیم کی طرف نظر کی اور کہا کہ اے آگ ابراہیم کیلئے ٹھنڈی اور سلامتی ہو جا۔ یہ آئندہ زمانہ کے لئے ایک پیشگوئی ہے۔ اور جہاں تک اس وقت میرا خیال ہے یہ ان خوفناک مقدمات کیلئے بشارت ہے جن میں جان اور عزت کے تلف ہونے کا اندیشہ تھا جیسا کہ ڈاکٹر مارٹن کلارک کا میرے پر استغاثہ اقدام قتل اور کرم دین کا مقدمہ اور آگ سے مراد اس جگہ وہ آگ ہے جوحکام کے غضب اور اشتعال سے پیدا ہوتی ہے اور حاصل مطلب یہ ہے کہ ہم غضب اور اشتعال کی آگ کو ٹھنڈی کردیں گے اور سلامتی سے مَخلصی ہوگی۔ اور اسی طرح براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام یوسف بھی رکھا گیا ہے۔ اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 116

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 116

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/116/mode/1up


مشابہت کی تفصیل پہلے گذر چکی ہے۔ ایسا ہی براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرانام موسیٰ رکھا گیا ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ تلطّف بالناس وترحّم علیھم انت فیھم بمنزلۃ موسٰی واصبر علٰی مایقولون(دیکھو صفحہ ۵۰۸ براہین احمدیہ حصص سابقہ) یعنی لوگوں سے لطف اور مدارات سے پیش آ۔ تو اُن میں موسیٰ کی طرح ہے اور اُن کی دلآزار باتوں پر صبر کرتا رہ۔ یعنی موسیٰ بڑا حلیم تھا اور ہمیشہ بنیؔ اسرائیل آئے دن مرتد ہوتے تھے اور موسیٰ پر حملے کرتے اور بعض اوقات کئی بیہودہ الزام اس پر لگاتے تھے مگر موسیٰ ہمیشہ صبر کرتا تھا اور ان کاشفیع تھا۔ موسیٰ ان کو ایک جلتے ہوئے تنور سے نکال لایا اور فرعون کے ہاتھ سے نجات دی اور موسیٰ نے فرعون کے سامنے بڑے بڑے ہولناک معجزے دکھائے۔ پس اس نام کے رکھنے میں یہ پیشگوئی بھی ہے کہ ایسا ہی اس جگہ بھی ہوگا۔ اسی طرح خدا نے براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میرانام داؤد بھی رکھا جس کی تفصیل عنقریب اپنے موقع پر آئے گی۔ ایسا ہی براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں خدا تعالیٰ نے میرا نام سلیمان بھی رکھا اور اسکی تفصیل بھی عنقریب آئے گی۔ ایسا ہی براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں خدا تعالیٰ نے میرا نام احمد اور محمد بھی رکھا اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم نبوت ہیں ویساہی یہ عاجز خاتم ولایت ہے۔ اور بعد اس کے میری نسبت براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں یہ بھی فرمایا۔ جری اللّٰہ فی حُلَلِ الانبیاء یعنی رسولِ خدا تمام گذشتہ انبیاء علیھم السلام کے پیرائیوں میں، اس وحی الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے لے کر اخیر تک جس قدر انبیائعلیھم السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آئے ہیں خواہ وہ اسرائیلی ہیں یا غیر اسرائیلی ان سب کے خاص واقعات یا خاص صفات میں سے اِس عاجز کو کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ایک بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے خواص یا واقعات میں سے اس عاجز کو حصہ نہیں دیا گیا۔ ہر ایک نبی کی فطرت کانقش میری فطرت میں ہے اسی پر خدا نے مجھے اطلاع دی اور اس میں یہ بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ تمام انبیائعلیھم السلام کے جانی دشمن



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 117

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 117

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/117/mode/1up


اور سخت مخالف جو عناد میں حد سے بڑھ گئے تھے جن کو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کیا گیا اس زمانہ کے اکثر لوگ بھی اُن سے مشابہ ہیں اگر وہ توبہ نہ کریں ۔ غرض اس وحی الٰہی میں یہ جتلانا منظور ہے کہ یہ زمانہ جامع کمالاتِ اخیار و کمالات اشرار ہے اور اگر خدا تعالیٰ رحم نہ کرے تو اس زمانہ کے شریر تمام گذشتہ عذابوں کے مستحق ہیں یعنی اس زمانہ میں تمام گذشتہ عذاب جمع ہوسکتے ہیں اور جیسا کہ پہلی امتوں میں کوئی قوم طاعون سے مری کوئی قوم صاعقہ سے اور کوئی قوم زلزلہ سے اور کوئی قوم پانی کے طوفان سے اور کوئی قوم آندھی کے طوفان سے اور کوئی قوم خسف سے۔ اسی طرح اس زمانہ کے لوگوں کو ایسے عذابوں سے ڈرنا چاہیے اگر وہ اپنی اصلاح نہ کریں کیونکہ اکثر لوگوں میں یہ تمام مواد موجود ہیں محض حلم الٰہی نے مہلت دے رکھی ہے۔ اور یہ فقرہ کہ جری اللّٰہ فی حُلَلِ الانبیاء بہت تفصیل کے لائق ہے جس کا یہ پنجم حصہ براہین متحمل نہیں ہوسکتا صرف اس قدر اِجمالاً کافی ہے کہ ہر ایک گذشتہ نبی کی عادت اور خاصیت اور واقعات میں سے کچھ مجھ میں ہے اور جو کچھ خدا تعالیٰ نے گذشتہ نبیوں کے ساتھ رنگا رنگ طرؔ یقوں میں نصرت اور تائید کے معاملات کئے ہیں اُن معاملات کی نظیر بھی میرے ساتھ ظاہر کی گئی ہے اور کی جائے گی اور یہ امر صرف اسرائیلی نبیوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ کُل دنیا میں جو نبی گذرے ہیں ان کی مثالیں اور ان کے واقعات میرے ساتھ اور میرے اندر موجود ہیں۔ اور ہندوؤں میں جو ایک نبی گذرا ہے جس کا نام کرشن تھاوہ بھی اس میں داخل ہے افسوس کہ جیسے داؤد نبی پر شریر لوگوں نے فسق و فجور کی تہمتیں لگائیں ایسی ہی تہمتیں کرشن پر بھی لگائی گئی ہیں اور جیسا کہ داؤد خدا تعالیٰ کا پہلوان اور بڑا بہادر تھا اور خدا اس سے پیار کرتا تھا ویسا ہی آریہ ورت میں کرشن تھا ۔ پس یہ کہنادرست ہے کہ آریہ ورت کا داؤد کرشن ہی تھا اور اسرائیلی نبیوں کا کرشن داؤد ہی تھا اور یہ بالکل صحیح ہے کہ ہم کہیں کہ داؤد کرشن تھا یاکرشن داؤد تھا۔ کیونکہ زمانہ اپنے اندر ایک گردشِ دَوری رکھتا ہے۔ اور نیک ہوں یا بد ہوں بار بار دنیا میں ان کے امثال پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اور اس زمانہ میں خدا نے چاہا کہ جس قدر نیک اور راستباز مقدس نبی گذر چکے ہیں ایک ہی شخص کے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 118

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 118

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/118/mode/1up


وجود میں ان کے نمونے ظاہر کئے جائیں سو وہ میں ہوں ۔ اسی طرح اس زمانہ میں تمام بدوں کے نمونے بھی ظاہرہوئے فرعون ہو یا وہ یہود ہوں جنہوں نے حضرت مسیح کو صلیب پر چڑھایا یا ابوجہل ہو سب کی مثالیں اِس وقت موجود ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یا جوج ماجوج کے ذکر کے وقت اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

اسی طرح خدا تعالیٰ نے میرا نام ذوالقرنین بھی رکھا کیونکہ خدا تعالیٰ کی میری نسبت یہ وحی مقدّس کہ جری اللّٰہ فی حُلَلِ الانبیاء۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا کارسول تمام نبیوں کے پیرائیوں میں یہ چاہتی ہے کہ مجھ میں ذوالقرنین کے بھی صفات ہوں کیونکہ سورہ ء کہف سے ثابت ہے کہ ذوالقرنین بھی صاحب وحی تھا۔ خدا تعالیٰ نے اس کی نسبت فرمایا ہے 3۔۱؂پس اس وحی الٰہی کی رُو سے کہ جری اللّٰہ فی حُلَلِ الانبیاء۔ اِس اُمت کے لئے ذوالقرنین مَیں ہوں۔ اور قرآن شریف میں مثالی طور پر میری نسبت پیشگوئی موجود ہے مگر اُن کے لئے جو فراست رکھتے ہیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ذوالقرنین وہ ہوتا ہے جو د۲و صدیوں کو پانے والا ہو۔ اور میری نسبت یہ عجیب بات ہے کہ اس زمانہ کے لوگوں نے جس قدر اپنے اپنے طور پر صدیوں کی تقسیم کر رکھی ہے ان تمام تقسیموں کے لحاظ سے جب دیکھا جائے تو ظاہرہوگا کہ میں نے ہرایک قوم کی دو۲ صدیوں کو پالیا ہے ۔ میری عمراس وقت تخمیناً ۶۷سال ہے پس ظاہر ہے کہ اس حساب سے جیسا کہ میں نے دو۲ ہجری صدیوں کو پالیا ہے۔ ایسا ہی دو۲ عیسائی صدیوں کو بھی پالیا ہے اور ایسا ہی دو۲ ہندی صدیوں کو بھی جن کا سن بکرماجیت سے شروع ہوتا ہے اور میں نے جہاں تک ممکن تھا قدیم زمانہ کے تمام مماؔ لک شرقی اور غربی کی مقرر شدہ صدیوں کا ملاحظہ کیا ہے کوئی قوم ایسی نہیں جس کی مقرر کردہ صدیوں میں سے دو۲ صدئیں میں نے نہ پائی ہوں۔ اور بعض احادیث میں بھی آچکا ہے کہ آنے والے مسیح کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ وہ ذوالقرنین ہوگا۔ غرض بموجب نص وحی الٰہی کے مَیں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 119

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 119

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/119/mode/1up


ذوالقرنین ہوں اور جو کچھ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کی ان آیتوں کی نسبت جو سورہ ء کہف میں ذوالقرنین کے قِصّہ کے بارے میں ہیں میرے پر پیشگوئی کے رنگ میں معنی کھولے ہیں۔ مَیں ذیل میں ان کو بیان کرتا ہوں مگر یاد رہے کہ پہلے معنوں سے انکار نہیں ہے وہ گذشتہ سے متعلق ہیں اور یہ آئندہ کے متعلق ۔ اور قرآن شریف صرف قصہ گو کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کے ہر ایک قصہ کے نیچے ایک پیشگوئی ہے۔ اور ذوالقرنین کا قِصّہ مسیح موعود کے زمانہ کیلئے ایک پیشگوئی اپنے اندر رکھتا ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف کی عبارت یہ ہے3۱؂ *یعنی یہ لوگ تجھ سے ذوالقرنین کاحال دریافت کرتے ہیں۔ ان کو کہو کہ میں ابھی تھوڑا سا تذکرہ ذوالقرنین کا تم کو سناؤں گا اور پھر بعد اس کے فرمایا۔33۲ ؂ یعنی ہم اس کو یعنی مسیح موعود کو جو ذوالقرنین بھی کہلائے گا روئے زمین پر ایسا مستحکم کریں گے کہ کوئی اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ اور ہم ہر طرح سے سازو سامان اس کو دے دیں گے۔اور اُس کی کارروائیوں کو سہل اور آسان کرد یں گے۔ یاد رہے کہ یہ وحی براہین احمدیہ حصص سابقہ میں بھی میری نسبت ہوئی ہے جیسا کہ اللہ فرماتا ہے الم نجعل لک سھولۃً فی کلّ امرٍیعنی کیا ہم نے ہر ایک امر میں تیر ے لئے آسانی نہیں کردی۔ یعنی کیا ہم نے تمام وہ سامان تیر ے لئے میسر نہیں کر دیئے جو تبلیغ اور اشاعت حق کے لئے ضروری تھے۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ اس نے میرے لئے وہ سامان تبلیغ اوراشاعت حق کے میسر کر دیئے جو کسی نبی کے وقت میں موجود نہ تھے۔ تمام قوموں کی آمد و رفت کی راہیں کھولی گئیں۔ طے مسافرت کے لئے وہ آسانیاں کردی گئیں کہ برسوں کی راہیں دنوں میں طے ہونے لگیں اور خبر رسانی کے وہ ذریعے


یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ذو القرنین کا ذکر صرف گزشتہ زمانہ سے وابستہ نہیں بلکہ آئندہ زمانہ میں بھی ایک ذوالقرنین آنے والا ہے اور گزشتہ کا ذکر تو ایک تھوڑی سی بات ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 120

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 120

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/120/mode/1up


پیدا ہوئے کہ ہزاروں کو س کی خبریں چند منٹوں میں آنے لگیں۔ ہر ایک قوم کی وہ کتابیں شائع ہوئیں جو مخفی اور مستور تھیں۔ اور ہر ایک چیز کے بہم پہنچانے کے لئے ایک سبب پیدا کیا گیا۔ کتابوں کے لکھنے میں جو جو دقتیں تھیں وہ چھاپہ خانوں سے دفع اور دور ہوگئیں یہاں تک کہ ایسی ایسی مشینیں نکلی ہیں کہ ان کے ذریعہ سے دس دن میں کسی مضمون کو اس کثرت سے چھاپ سکتے ہیں کہ پہلے زمانوں میں د۱۰س سال میں بھی وہ مضمون قید تحریر میں نہیں آسکتا تھا اور پھر ان کے شائع کرنے کے اس قدر حیرت انگیز سامان نکل آئے ہیں کہ ایک تحریر صرف چالیس دن میں تمام دنیا کی آبادی میں شائعؔ ہوسکتی ہے اور اس زمانہ سے پہلے ایک شخص بشرطیکہ اس کی عمر بھی لمبی ہو سو برس تک بھی اس وسیع اشاعت پر قادر نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر بعد اس کے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے3333333333۱؂۔ یعنی جب ذو القرنین کو جو مسیح موعود ہے ہر ایک طرح کے سامان دیئے جائیں گے۔ پس وہ ایک سامان کے پیچھے پڑے گا ۔ یعنی وہ مغربی ممالک کی اصلاح کے لئے کمر باندھے گا اور وہ دیکھے گا کہ آفتاب صداقت اور حقانیت ایک کیچڑ کے چشمہ میں غروب ہوگیا اور اس غلیظ چشمہ اور تاریکی کے پاس ایک قوم کو پائے گا جو مغربی قوم کہلائے گی یعنی مغربی ممالک میں عیسائیت کے مذہب والوں کو نہایت تاریکی میں مشاہدہ کرے گا۔ نہ اُن کے مقابل پر آفتاب ہوگا جس سے وہ روشنی پا سکیں اور نہ اُن کے پاس پانی صاف ہوگا جس کو وہ پیویں یعنی ان کی علمی و عملی حالت نہایت خراب ہوگی اور وہ روحانی روشنی اور روحانی پانی سے بے نصیب ہوں گے۔ تب ہم ذوالقرنین یعنی مسیح موعود کو کہیں گے کہ تیرے اختیار میں ہے چاہے تو اِن کو عذاب دے یعنی عذاب نازل ہونے کے لئے بددُعا کرے (جیسا کہ احادیث صحیحہ میں مروی ہے) یا اُن کے ساتھ حسن سلوک



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 121

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 121

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/121/mode/1up


کا شیوہ اختیار کرے تب ذوالقرنین یعنی مسیح موعود جو اب دے گا کہ ہم اُسی کو سزا دلانا چاہتے ہیں جو ظالم ہو۔ وہ دنیا میں بھی ہماری بد دُعا سے سزا یاب ہو گا اور پھر آخرت میں سخت عذاب دیکھے گا۔ لیکن جو شخص سچائی سے منہ نہیں پھیرے گا اور نیک عمل کرے گا اس کو نیک بدلہ دیا جائے گا اور اس کو انہیں کاموں کی بجاآوری کا حکم ہوگا جو سہل ہیں اور آسانی سے ہوسکتے ہیں ۔ غرض یہ مسیح موعود کے حق میں پیشگوئی ہے کہ وہ ایسے وقت میں آئے گاجبکہ مغربی ممالک کے لوگ نہایت تاریکی میں پڑے ہوں گے اور آفتابِ صداقت اُن کے سامنے سے بالکل ڈوب جائے گا اور ایک گندے اور بدبودارچشمہ میں ڈوبے گا یعنی بجائے سچائی کے بدبو دار عقائد اور اعمال اُن میں پھیلے ہوئے ہوں گے۔ اور وہی ان کا پانی ہوگا جس کو وہ پیتے ہوں گے۔ اور روشنی کانام و نشان نہیں ہوگاتاریکی میں پڑے ہوں گے اور ظاہر ہے کہ یہی حالت عیسائی مذہب کی آج کل ہے جیسا کہ قرآن شریف نے ظاہر فرمایا ہے اور عیسائیت کا بھاری مرکز ممالک مغربیہ ہیں۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔3333333۱؂یعنی پھر ذوالقرنین جو ؔ مسیح موعود ہے جس کو ہر ایک سامان عطا کیا جائے گا ایک اور سامان کے پیچھے پڑے گا یعنی ممالک مشرقیہ کے لوگوں کی حالت پر نظر ڈالے گا اور وہ جگہ جس سے سچائی کاآفتاب نکلتاہے اس کو ایسا پائے گا کہ ایک ایسی نادان قوم پرآفتاب نکلا ہے جن کے پاس دھوپ سے بچنے کے لئے کوئی بھی سامان نہیں یعنی وہ لوگ ظاہر پرستی اور افراط کی دھوپ سے جلتے ہوں گے اور حقیقت سے بے خبر ہوں گے اور ذوالقرنین یعنی مسیح موعود کے پاس حقیقی راحت کا سامان سب کچھ ہوگا جس کو ہم خوب جانتے ہیں مگر وہ لوگ قبول نہیں کریں گے اور وہ لوگ افراط کی دھوپ سے بچنے کے لئے کچھ بھی پناہ نہیں رکھتے ہوں گے۔ نہ گھر نہ سایہ دار درخت نہ کپڑے جو گرمی سے بچا سکیں اس لئے آفتاب صداقت جو طلوع کرے گا اُن کی ہلاکت کا موجب ہو جائے گا۔ یہ اُن لوگوں کے لئے ایک مثال ہے جو آفتاب ہدایت کی روشنی تو اُن کے سامنے موجود ہے اور اُس گروہ کی طرح نہیں ہیں جن کا آفتاب غروب ہو چکا ہے لیکن ان لوگوں کو اس آفتاب ہدایت سے بجز اس کے کوئی فائدہ نہیں کہ دھوپ سے چمڑا اُن کا جل جائے اوررنگ سیاہ ہو جائے اور آنکھوں کی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 122

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 122

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/122/mode/1up


روشنی بھی جاتی رہے۔*اس تقسیم سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح موعود کا اپنے فرض منصبی کے ادا کرنے کے لئے تین قسم کا دورہ ہوگا۔ اوّ۱ل اس قوم پر نظر ڈالے گا جو آفتاب ہدایت کو کھو بیٹھے ہیں اور ایک تاریکی اور کیچڑ کے چشمہ میں بیٹھے ہیں۔ دو۲سرا دورہ اس کا ان لوگوں پر ہوگا جو ننگ دھڑنگ آفتاب کے سامنے بیٹھے ہیں۔ یعنی ادب سے اور حیا سے اور تواضع سے اور نیک ظن سے کام نہیں لیتے نرے ظاہر پرست ہیں گویا آفتاب کے ساتھ لڑنا چاہتے ہیں سو وہ بھی فیض آفتاب سے بے نصیب ہیں اور ان کو آفتاب سے بجز جلنے کے اور کوئی حصہ نہیں۔ یہ ان مسلمانوں کی طرف اشارہ ہے جن میں مسیح موعود ظاہر تو ہوا مگر وہ انکار اور مقابلہ سے پیش آئے اور حیا اور ادب اورحسن ظن سے کام نہ لیا اس لئے سعادت سے محروم رہ گئے بعد اس کے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے ۔


اس جگہ خدا تعالیٰ کو یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ مسیح موعود کے وقت تین گروہ ہوں گے۔ ایک گروہ تفریط کی راہ لے گا۔ جو روشنی کو بالکل کھو بیٹھے گا۔ اور دوسرا گروہ افراط کی راہ اختیار کرے گا جو تواضع اور انکسار اور فروتنی سے روشنی سے فائدہ نہیں اٹھائے گا بلکہ خیرہ طبع ہو کر مقابلہ کرنے والے کی طرح روحانی دھوپ کے سامنے محض برہنہ ہونے کی حالت میں کھڑا ہو گا۔ مگر تیسرا گروہ میانہ حالت میں ہو گا۔ وہ مسیح موعود سے چاہیں گے کہ کسی طرح یاجوج ماجوج کے حملوں سے بچ جائیں اور یاجوج ماجوج اجیج کے لفظ سے نکلا ہے۔ یعنی وہ قوم جو آگ کے استعمال کرنے میں ماہر ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 123

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 123

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/123/mode/1up


پھر ذوالقرنین یعنی مسیح موعود ایک اور سامان کے پیچھے پڑے گا۔ اور جب وہ ایک ایسے موقعہ پر پہنچے گا یعنی جب وہ ایک ایسانازک زمانہ پائے گا جس کو بین السدّین کہنا چاہیئے یعنی دو پہاڑوں کے بیچ مطلب یہ کہ ایسا وقت پائے گا جب کہ دو طرفہ خوف میں لوگ پڑے ہوں گے اور ضلالت کی طاقت حکومت کی طاقت کے ساتھ مل کر خوفناک نظارہ دکھائے گی تو ان دونوں طاقتوں کے ماتحت ایک قوم کو پائے گا جو اُس کی بات کو مشکل سے سمجھیں گے یعنی غلط خیالات میں مبتلا ہوں گے اور بباعث غلط عقائد مشکل سے اُس ہدایت کو سمجھیں گے جو وہ پیش کرے گا لیکن آخر کار سمجھ لیں گے اور ہدایت پالیں گے اور یہ تیسری قوم ہے جو مسیح موعود کی ہدایات سے فیض یاب ہوں گے تب وہ اس کو کہیں گے کہ اے ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج نے زمین پر فساد مچا رکھا ہے پس اگر آپ کی مرضی ہو تو ہم آپ کے لئے چندہ جمع کردیں تا آپ ہم میں اور ان میں کوئی روک بنادیں۔ وہ جواب میں کہے گا کہ جس بات پر خدا نے مجھے قدرت بخشی ہے وہ تمہارے چندوں سے بہتر ہے ہاں اگر تم نے کچھ مدد کرنی ہو تو اپنی طاقت کے موافق کرو تا میں تم مَیں اور ان میں ایک دیوار کھینچ دوں۔ یعنی ایسے طور پر اُن پر حجت پوری کروں کہ وہ کوئی طعن تشنیع اور اعتراض کا تم پرحملہ نہ کرسکیں۔ لوہے کی سلیں مجھے لادو تا آمد و رفت کی راہوں کو بند کیا جائے یعنی اپنے تئیں میری تعلیم اور دلائل پر مضبوطی سے قائم کرو اور پوری استقامت اختیار کرو اور اس طرح پر خود لوہے کی سِل بن کر مخالفانہ حملوں کو روکو اور پھر سلوں میں آگ پھونکو جب تک کہ وہ خود آگ بن جائیں۔ یعنی محبت الٰہی اس قدر اپنے اندر بھڑکاؤ کہ خود الٰہی رنگ اختیار کرو۔ یاد رکھنا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ سے کمال محبت کی یہی علامت ہے کہ محب میں ظلی طور پر الٰہی صفات پیدا ہو جائیں۔ اور جب تک ایسا ظہور میں نہ آوے تب تک دعوی ئ محبت جھوٹ ہے۔ محبت کاملہ کی مثال بعینہٖ لوہے کی وہ حالت ہے جب کہ وہ آگ میں ڈالا جائے اور اس قدر آگ اُس میں اثر کرے کہ وہ خود آگ بن جائے۔ پس اگرچہ وہ اپنی اصلیت میں لوہا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 124

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 124

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/124/mode/1up


آگ نہیں ہے مگر چونکہ آگ نہایت درجہ اس پر غلبہ کر گئی ہے اس لئے آگ کے صفات اُس سے ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ آگ کی طرح جلا سکتا ہے ۔ آگ کی طرح اس میں روشنی ہے ۔ پس محبت الٰہیہ کی حقیقت یہی ہے کہ انسان اس رنگ سے رنگین ہو جائے اور اگر اسلام اس حقیقت تک پہنچانہ سکتا تو وہ کچھ چیز نہ تھا لیکن اسلام اس حقیقت تک پہنچاتا ہے ۔اوّلؔ انسان کو چاہیئے کہ لوہے کی طرح اپنی استقامت اور ایمانی مضبوطی میں بن جائے کیونکہ اگر ایمانی حالت خس و خاشاک کی طرح ہے تو آگ اُس کو چھوتے ہی بھسم کردے گی۔ پھر کیونکر وہ آگ کا مظہر بن سکتا ہے۔افسوس بعض نادانوں نے عبودیّت کے اُس تعلق کو جو ربوبیّت کے ساتھ ہے جس سے ظلّی طور پر صفاتِ الٰہیہ بندہ میں پیدا ہوتے ہیں نہ سمجھ کر میری اس وحی من اللہ پراعتراض کیاہے کہ اِنَّما امرک اذا اردتَ شیءًا ان تقول لہ کُنْ فیکون۔ یعنی تیری یہ بات ہے کہ جب تو ایک بات کو کہے کہ ہو جاتو وہ ہو جاتی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو میرے پر نازل ہوا یہ میری طرف سے نہیں ہے اور اس کی تصدیق اکابر صوفیہ اسلام کر چکے ہیں جیسا کہ سید عبد القادر جیلانی ؓ نے بھی فتوح الغیب میں یہی لکھا ہے اور عجیب تر یہ کہ سید عبد القادر جیلانی ؓ نے بھی یہی آیت پیش کی ہے۔ افسوس لوگوں نے صرف رسمی ایمان پر کفایت کرلی ہے اور پوری معرفت کی طلب ان کے نزدیک کفر ہے اور خیال کرتے ہیں کہ یہی ہمارے لئے کافی ہے حالانکہ وہ کچھ بھی چیز نہیں اور اس سے منکر ہیں کہ کسی سے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کامکالمہ مخاطبہ یقینی اور واقعی طور پر ہوسکتا ہے۔ ہاں اس قدر اُن کا خیال ہے کہ دلوں میں القاتو ہوتا ہے مگر نہیں معلوم کہ وہ القاشیطانی ہے یارحمانی ہے اور نہیں سمجھتے کہ ایسے القاسے ایمانی حالت کو فائدہ کیاہوا اور کونسی ترقی ہوئی بلکہ ایسا القاتو ایک سخت ابتلا ہے جس میں معصیت کااندیشہ یا ایمان جانے کا خطرہ ہے کیونکہ اگر ایسی مشتبہ وحی میں جو نہیں معلوم شیطان سے ہے یا رحمان سے ہے کسی کو تاکیدی حکم ہو کہ یہ کام کر تو اگر اس نے وہ کام نہ کیا اس خیال سے کہ شاید یہ شیطان نے حکم دیا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 125

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 125

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/125/mode/1up


اور دراصل وہ خدا کا حکم تھا تو یہ انحراف موجب معصیت ہوا۔ اور اگر اُس حکم کو بجا لایا اور اصل میں شیطان کی طرف سے وہ حکم تھا تو اس سے ایمان گیا ۔ پس ایسے الہام پانے والوں سے وہ لوگ اچھے رہے جو ایسے خطرناک الہامات سے جن میں شیطان بھی حصہ دار ہوسکتا ہے۔ محروم ہیں۔ ایسے عقیدہ کی حالت میں عقل بھی کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی ممکن ہے کہ کوئی الہام الٰہی ایسا ہو جیساکہ موسیٰ علیہ السلام کی ماں کا تھا جس کی تعمیل میں اس کے بچہ کی جان خطرہ میں پڑتی تھی یا جیسا کہ خضر علیہ السلام کا الہام تھا جس نے بظاہر حال ایک نفس زکیہ کا ناحق خون کیا اورچونکہ ایسے امور بظاہر شریعت کے برخلاف ہیں اس لئے شیطانی دخل کے احتمال سے کون ان پر عمل کرے گا اورؔ بوجہ عدم تعمیل معصیت میں گرے گا۔ اور ممکن ہے کہ شیطان لعین کوئی ایساحکم دے کہ بظاہر شریعت کے مخالف معلوم نہ ہو اور دراصل بہت فتنہ اور تباہی کا موجب ہو یا پوشیدہ طورپر ایسے امور ہوں جو موجب سلبِ ایمان ہوں۔پس ایسے مکالمہ مخاطبہ سے فائدہ کیا ہوا۔

پھر آیاتِ متذکرہ بالا کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذوالقرنین یعنی مسیح موعود اس قوم کو جو یاجوج ماجوج سے ڈرتی ہے کہے گا کہ مجھے تانبا لادو کہ مَیں اس کو پگھلا کر اُس دیوار پر انڈیل دوں گا۔ پھر بعد اس کے یاجوج ماجوج طاقت نہیں رکھیں گے کہ ایسی دیوار پر چڑھ سکیں یا اس میں سوراخ کرسکیں۔ یاد رہے کہ لوہا اگرچہ بہت دیر تک آگ میں رہ کر آگ کی صورت اختیار کرلیتا ہے مگر مشکل سے پگھلتا ہے مگر تانبا جلد پگھل جاتا ہے اور سالک کے لئے خدا تعالیٰ کی راہ میں پگھلنا بھی ضروری ہے ۔ پس یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایسے مستعد دل اور نرم طبیعتیں لاؤ کہ جو خدا تعالیٰ کے نشانوں کو دیکھ کر پگھل جائیں کیونکہ سخت دلوں پر خدا تعالیٰ کے نشان کچھ اثر نہیں کرتے لیکن انسان شیطانی حملے سے تب محفوظ ہوتا ہے کہ اول استقامت میں لوہے کی طرح ہو



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 126

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 126

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/126/mode/1up


اور پھر وہ لوہا خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ سے آگ کی صورت پکڑ لے اور پھر دل پگھل کر اس لوہے پر پڑ ے اور اس کو منتشر اور پراگندہ ہونے سے تھام لے ۔ سلوک تمام ہونے کے لئے یہ تین ہی شرطیں ہیں جو شیطانی حملوں سے محفوظ رہنے کیلئے سدِّ سکندری ہیں اور شیطانی رُوح اس دیوار پر چڑھ نہیں سکتی اورنہ اس میں سوراخ کرسکتی ہے۔ اور پھر فرمایا کہ یہ خدا کی رحمت سے ہوگا اور اس کاہاتھ یہ سب کچھ کرے گا۔ انسانی منصوبوں کا اس میں دخل نہیں ہوگا۔ اور جب قیامت کے دن نزدیک آجائیں گے تو پھر دوبارہ فتنہ برپا ہو جائے گا یہ خدا کا وعدہ ہے اور پھر فرمایا کہ ذوالقرنین کے زمانہ میں جو مسیح موعود ہے ہر ایک قوم اپنے مذہب کی حمایت میں اُٹھے گی اور جس طرح ایک موج دوسری موج پر پڑتی ہے ایک دوسرے پر حملہ کریں گے اتنے میں آسمان پر قرناء پھونکی جائے گی یعنی آسمان کا خدا مسیح موعود کو مبعوث فرماکر ایک تیسری قوم پیدا کر دے گا اور ان کی مددکے لئے بڑے بڑے نشان دکھلائے گا یہاں تک کہ تمام سعید لوگوں کو ایک مذہب پر یعنی اسلام پر جمع کردے گا۔ اور وہ مسیح کی آواز سنیں گے اور اس کی طرف دوڑیں گے تب ایک ہی چوپان اور ایک ہی گلہ ہوگا اوروہ دن بڑے سخت ہوں گے۔ اور خدا ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اپنا چہرہ ظاہر کردے گا۔ اور جو لوگ کفر پر اصرار کرتے ہیں وہ اسی دنیا میں بباعث طرح طرح کی بلاؤں کے دوزخ کامنہ دیکھ لیں گے۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کی آنکھیں میری کلام سے پردہ میں تھیں اور جن کے کان میرے حکم کو سن نہیں سکتے تھے کیا ان منکروں نے یہ گمان کیا تھا کہ یہ امر سہل ہے کہ عاجز بندوں کو خدا بنا دیا جائے اور میں معطل ہو جاؤں اس لئے ہم ان کی ضیافت کے لئے اِسی دنیا میں جہنم کو نمودار کردیں گے۔ یعنی بڑے بڑے ہولناک نشان ظاہر ہوں گے اور یہ سب نشان اس کے مسیح موعود کی سچائی پر گواہی دیں گے ۔ اُس کریم کے فضل کو دیکھو کہ یہ انعامات اِس مُشتِ خاک پر ہیں جس کو مخالف کافر اور دجّال کہتے ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 127

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 127

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/127/mode/1up


اےؔ خدا اے کارساز و عیب پوش و کِردگار

اے مرے پیارے مرے محسن مرے پروردگار

کس طرح تیرا کروں اے ذوالمنن شکر و سپاس

وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار

بدگمانوں سے بچایا مجھ کو خود بن کر گواہ

کردیا دشمن کو اک حملہ سے مغلوب اور خوار

کام جو کرتے ہیں تیری رہ میں پاتے ہیں جزا

مجھ سے کیا دیکھا کہ یہ لطف و کرم ہے بار بار

تیرے کاموں سے مجھے حیرت ہے اے میرے کریم

کس عمل پر مجھ کو دی ہے خلعتِ قرب وجوار

کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں

ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار

یہ سراسر فضل و احساں ہے کہ میں آیا پسند

ورنہ درگہ میں تیری کچھ کم نہ تھے خدمت گذار

دوستی کا دم جو بھرتے تھے وہ سب دشمن ہوئے

پر نہ چھوڑا ساتھ تو نے اے میرے حاجت برار

اے مرے یارِ یگانہ اے مری جاں کی پنہ

بس ہے تو میرے لئے مجھ کو نہیں تجھ بن بکار

میں تو مرکر خاک ہوتا گرنہ ہوتا تیرا لطف

پھر خدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار

اے فدا ہو تیری راہ میں میراجسم و جان و دل

میں نہیں پاتا کہ تجھ سا کوئی کرتا ہو پیار

ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے

گود میں تیری رہا میں مثلِ طفلِ شیر خوار

نسلِ انساں میں نہیں دیکھی وفا جو تجھ میں ہے

تیرے بن دیکھا نہیں کوئی بھی یارِ غمگسار

لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول

میں تو نالائق بھی ہوکر پاگیا درگہ میں بار

اس قدر مجھ پر ہوئیں تیری عنایات و کرم

جن کا مشکل ہے کہ تاروزِ قیامت ہو شمار

آسماں میرے لئے تو نے بنایا اِک گواہ

چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار

تو نے طاعوں کو بھی بھیجا میری نصرت کے لئے

تا وہ پورے ہوں نشاں جو ہیں سچائی کا مدار

ہوگئے بیکار سب حیلے جب آئی وہ بلا

ساری تدبیروں کا خاکہ اُڑ گیا مثلِ غبار

سرزمین ہند میں ایسی ہے شہرت مجھ کو دی

جیسے ہووے برق کا اک دم میں ہرجا انتشار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 128

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 128

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/128/mode/1up


پھرؔ دوبارہ ہے اُتارا تو نے آدم کو یہاں

تا وہ نخلِ راستی اس ملک میں لاوے ثمار

لوگ سَو بک بک کریں پر تیرے مقصد اور ہیں

تیری باتوں کے فرشتے بھی نہیں ہیں راز دار

ہاتھ میں تیرے ہے ہرخسران و نفع و عُسرویُسر

تو ہی کرتا ہے کسی کو بے نوا یا بختیار

جس کو چاہے تختِ شاہی پر بٹھا دیتا ہے تو

جس کو چاہے تخت سے نیچے گرا دے کر کے خوار

میں بھی ہوں تیرے نشانوں سے جہاں میں اک نشاں

جس کو تو نے کردیا ہے قوم و دیں کا افتخار

فانیوں کی جاہ و حشمت پر بلا آوے ہزار

سلطنت تیری ہے جو رہتی ہے دائم برقرار

عزت و ذلّت یہ تیرے حکم پر موقوف ہیں

تیرے فرماں سے خزاں آتی ہے اور بادِ بہار

میرے جیسے کو جہاں میں تو نے روشن کردیا

کون جانے اے مرے مالک ترے بھیدوں کی سار

تیرے اے میرے مُربی کیا عجائب کام ہیں

گرچہ بھاگیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار

ابتدا سے گوشۂ خلوت رہا مجھ کو پسند

شہرتوں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار

پر مجھے تو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا

میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ و بار

اس میں میرا جرم کیا جب مجھ کو یہ فرماں ملا

کون ہوں تا رد کروں حکمِ شہِ ذِی الاقتدار

اب تو جو فرماں ملا اُس کا ادا کرنا ہے کام

گرچہ میں ہوں بس ضعیف و ناتواں و دل فگار

دعوتِ ہر ہرزہ گو کچھ خدمتِ آساں نہیں

ہر قدم میں کوہِ ماراں ہرگذر میں دشتِ خار

چرخ تک پہنچے ہیں میرے نعرہ ہائے روز و شب

پر نہیں پہنچی دلوں تک جاہلوں کے یہ پکار

قبضۂ تقدیر میں دل ہیں اگر چاہے خدا

پھیردے میری طرف آجائیں پھر بے اختیار

گر کرے مُعجز نمائی ایک دم میں نرم ہو

وہ دلِ سنگیں جو ہووے مثلِ سنگ کوہسار

ہائے میری قوم نے تکذیب کرکے کیا لیا

زلزلوں سے ہوگئے صدہا مساکن مثلِ غار

شرط تقویٰ تھی کہ وہ کرتے نظر اس وقت پر

شرط یہ بھی تھی کہ کرتے صبر کچھ دن اور قرار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 129

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 129

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/129/mode/1up


کیا ؔ وہ سارے مرحلے طے کرچکے تھے علم کے

کیا نہ تھی آنکھوں کے آگے کوئی رہ تاریک و تار

دل میں جو ارماں تھے وہ دل میں ہمارے رہ گئے

دشمن جاں بن گئے جن پر نظر تھی باربار

ایسے کچھ بگڑے کہ اب بننا نظر آتا نہیں

آہ کیا سمجھے تھے ہم اور کیا ہوا ہے آشکار

کس کے آگے ہم کہیں اِس دردِ دل کا ماجرا

اُن کو ہے ملنے سے نفرت بات سننا درکنار

کیا کروں کیونکر کروں مَیں اپنی جاں زیرو زبر

کس طرح میری طرف دیکھیں جو رکھتے ہیں نقار

اِس قدر ظاہر ہوئے ہیں فضل حق سے معجزات

دیکھنے سے جن کے شیطاں بھی ہوا ہے دلفگار

پر نہیں اکثر مخالف لوگوں کو شرم و حیا

دیکھ کر سو سو نشاں پھر بھی ہے توہیں کاروبار

صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں

اِک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوف کردگار

دن چڑھا ہے دشمنانِ دیں کا ہم پر رات ہے

اے مرے سورج نکل باہر کہ میں ہوں بیقرار

اے مرے پیارے فدا ہو تجھ پہ ہر ذرّہ مرا

پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہار

کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں یہ کس کا شورہے

خاک میں ہوگا یہ سرگر تو نہ آیا بن کے یار

فضل کے ہاتھوں سے اب اِسوقت کر میری مدد

کشتیِ ء اسلام تا ہو جائے اس طوفاں سے پار

میرے سُقم و عَیب سے اب کیجئے قطعِ نظر

تا نہ خوش ہو دشمنِ دیں جس پہ ہے *** کی مار

میرے زخموں پر لگا مرہم کہ میں رنجور ہوں

میری فریادوں کو سن میں ہو گیا زار و نزار

دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضُعفِ دینِ مصطفی

مجھ کو کر اے میرے سلطاں کامیاب و کامگار

کیا سُلائے گا مجھے تو خاک میں قبل از مراد

یہ تو تیرے پر نہیں امید اے میرے حصار

یا الٰہی فضل کر اسلام پر اور خود بچا

اس شکستہ ناؤ کے بندوں کے اب سن لے پکار

قوم میں فسق و فجور و معصیت کا زور ہے

چھا رہا ہے ابرِ یاس اور رات ہے تاریک و تار

ایک عالم مرگیا ہے تیرے پانی کے بغیر

پھیر دے اب میرے مولیٰ اس طرف دریا کی دھار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 130

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 130

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/130/mode/1up


ابؔ نہیں ہیں ہوش اپنے اِن مصائب میں بجا

رحم کر بندوں پہ اپنے تا وہ ہوویں رستگار

کس طرح نپٹیں کوئی تدبیر کچھ بنتی نہیں

بے طرح پھیلی ہیں یہ آفات ہر سو ہر کنار

ڈوبنے کو ہے یہ کشتی آمرے اے ناخدا

آگیا اِس قوم پر وقتِ خزاں اندر بہار

نورِ دل جاتا رہا اور عقل موٹی ہوگئی

اپنی کج رائی پہ ہردل کر رہا ہے اعتبار

جس کو ہم نے قطرۂ صافی تھا سمجھا اور تقی

غور سے دیکھا تو کیڑے اُس میں بھی پائے ہزار

دوربینِ معرفت سے گند نکلا ہر طرف

اس وبا نے کھالئے ہر شاخِ ایمان کے ثمار

اے خدا بن تیرے ہو یہ آبپاشی کس طرح

جل گیا ہے باغِ تقویٰ دیں کی ہے اب اک مزار

تیرے ہاتھوں سے مرے پیارے اگر کچھ ہو تو ہو

ورنہ فتنہ کا قدم بڑھتا ہے ہر دم سیل وار

اِک نشاں دکھلا کہ اب دیں ہوگیاہے بے نشاں

اِک نظر کر اس طرف تا کچھ نظر آوے بہار

کیا کہوں دنیا کے لوگوں کی کہ کیسے سوگئے

کسقدر ہے حق سے نفرت اور ناحق سے پیار

عقل پر پردے پڑے سوسو نشاں کو دیکھ کر

نور سے ہوکر الگ چاہا کہ ہوویں اہلِ نار

گر نہ ہوتی بدگمانی کفر بھی ہوتا فنا

اُس کا ہووے ستیاناس اِس سے بگڑے ہوشیار

بدگمانی سے تو رائی کے بھی بنتے ہیں پہاڑ

پَرکے اک ریشہ سے ہوجاتی ہے کوّوں کی قطار

حد سے کیوں بڑھتے ہو لوگو کچھ کرو خوفِ خدا

کیا نہیں تم دیکھتے نصرت خدا کی بار بار

کیا خدا نے اتقیا کی عون و نصرت چھوڑ دی

ایک فاسق اور کافر سے وہ کیوں کرتا ہے پیار

ایک بدکردار کی تائید میں اتنے نشاں

کیوں دکھاتا ہے وہ کیا ہے بدکنوں کا رشتہ دار

کیا بدلتا ہے وہ اب اس سنت و قانون کو

جس کا تھا پابند وہ از ابتدائے روزگار

آنکھ گر پھوٹی تو کیا کانوں میں بھی کچھ پڑ گیا

کیا خدا دھوکے میں ہے اور تم ہو میرے راز دار

جس کے دعویٰ کی سراسر افترا پر ہے بِنا

اُس کی یہ تائید ہو پھر جھوٹ سچ میں کیا نکھار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 131

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 131

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/131/mode/1up


کیاؔ خدا بھولا رہا تم کو حقیقت مل گئی

کیا رہا وہ بے خبر اور تم نے دیکھا حالِ زار

بدگمانی نے تمہیں مجنون و اندھا کردیا

ورنہ تھے میری صداقت پر براہیں بیشمار

جہل کی تاریکیاں اور سوء ظن کی تند باد

جب اکٹھے ہوں تو پھر ایماں اُڑے جیسے غبار

زہر کے پینے سے کیا انجام جز موت و فنا

بدگمانی زہر ہے اس سے بچو اے دیں شعار

کانٹے اپنی راہ میں بوتے ہیں ایسے بدگمان

جن کی عادت میں نہیں شرم و شکیب و اصطبار

یہ غلط کاری بشر کی بدنصیبی کی ہے جڑ

پر مقدر کو بدل دینا ہے کس کے اختیار

سخت جاں ہیں ہم کسی کے بغض کی پروا نہیں

دل قوی رکھتے ہیں ہم دردوں کی ہے ہم کو سہار

جو خدا کا ہے اُسے للکارنا اچھا نہیں

ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبۂ زار و نزار

ہے سرِرہ پر مرے وہ خود کھڑا مولیٰ کریم

پس نہ بیٹھو میری رہ میں اے شریرانِ دیار

سنت اللہ ہے کہ وہ خود فرق کو دکھلائے ہے

تا عیاں ہو کون پاک اور کون ہے مُردار خوار

مجھ کو پردے میں نظرآتا ہے اِک میرا معیں

تیغ کو کھینچے ہوئے اُس پر جو کرتا ہے وہ وار

دشمنِ غافل اگر دیکھے وہ بازو وہ سلاح

ہوش ہو جائیں خطا اور بھول جائے سب نقار

اس جہاں کا کیا کوئی داور نہیں اور داد گر

پھر شریرالنفس ظالم کو کہاں جائے فرار

کیوں عجب کرتے ہو گر میں آگیا ہوکر مسیح

خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ بادِ بہار

آسمان پر دعوتِ حق کیلئے اک جوش ہے

ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اُتار

آرہا ہے اس طرف احرارِ یورپ کا مزاج

نبض پھر چلنے لگی مردوں کی ناگہ زندہ وار

کہتے ہیں تثلیث کو اب اہل دانش الوداع

پھر ہوئے ہیں چشمۂ توحید پر از جاں نثار

باغ میں ملّت کے ہے کوئی گل رعنا کھلا

آئی ہے بادِ صبا گلزار سے مستانہ وار

آرہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے

گو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اُس کا انتظار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 132

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 132

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/132/mode/1up


ہر ؔ طرف ہر ملک میں ہے بت پرستی کا زوال

کچھ نہیں انساں پرستی کو کوئی عزّ و وقار

آسماں سے ہے چلی توحیدِ خالق کی ہوا

دل ہمارے ساتھ ہیں گو مُنہ کریں بک بک ہزار

اسمعوا۔صوت السّما جاء المسیح جاء المسیح

نیز بشنو از زمیں آمد امامِ کامگار

آسماں بارد نشان الوقت مے گوید زمیں

ایں دو شاہد از پئے من نعرہ زن چوں بیقرار

اب اِسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے

وقت ہے جلد آؤ اے آوارگانِ دشتِ خار

اِک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا

پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار

اے مکذّب کوئی اس تکذیب کا ہے انتہا

کب تلک تو خوئے شیطاں کو کرے گا اختیار

ملّت احمد کی مالک نے جو ڈالی تھی بِنا

آج پوری ہو رہی ہے اے عزیزانِ دیار

گلشنِ احمد بنا ہے مسکنِ بادِ صبا

جس کی تحریکوں سے سنتا ہے بشر گفتارِ یار

ورنہ وہ ملّت وہ رہ وہ رسم وہ دیں چیز کیا

سایہ افگن جس پہ نور حق نہیں خورشید وار

دیکھ کر لوگوں کے کینے دل مرا خوں ہو گیا

قصد کرتے ہیں کہ ہو پامال درِّ شاہوار

ہم تو ہر دم چڑھ رہے ہیں اک بلندی کی طرف

وہ بلاتے ہیں کہ ہو جائیں نہاں ہم زیرِ غار

نُورِ دل جاتا رہا اِک رسم دیں کی رَہ گئی

پھر بھی کہتے ہیں کہ کوئی مصلحِ دیں کیا بکار

راگ وہ گاتے ہیں جس کو آسماں گاتا نہیں

وہ ارادے ہیں کہ جو ہیں برخلافِ شہریار

ہائے مارِ آستیں وہ بن گئے دیں کے لئے

وہ تو فربہ ہو گئے پر دیں ہوا زار و نزار

اِن غموں سے دوستو خم ہو گئی میری کمر

میں تو مرجاتا اگر ہوتا نہ فضل کردگار

اِس تپش کو میری وہ جانے کہ رکھتا ہے تپش

اِس اَلَم کو میرے وہ سمجھے کہ ہے وہ دِلفگار

کون روتا ہے کہ جس سے آسماں بھی رو پڑا

مہر و ماہ کی آنکھ غم سے ہوگئی تاریک و تار

مفتری کہتے ہوئے ان کو حیا آتی نہیں

کیسے عالِم ہیں کہ اُس عالَم سے ہیں یہ برکنار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 133

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 133

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/133/mode/1up


غیرؔ کیا جانے کہ دلبر سے ہمیں کیا جوڑ ہے

وہ ہمارا ہو گیا اس کے ہوئے ہم جاں نثار

میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں

نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بیشمار

اِک شجر ہوں جس کو داؤدی صفت کے پھل لگے

میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار

پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب

گر نہ ہوتا نام احمد جس پہ میرا سب مدار

دشمنوں! ہم اس کی رہ میں مر رہے ہیں ہر گھڑی

کیا کرو گے تم ہماری نیستی کا انتظار

سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں

اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار

کیا کروں تعریف حُسنِ یار کی اور کیا لکھوں

اک ادا سے ہو گیا میں سیلِ نفسِ دوں سے پار

اس قدر عرفاں بڑھا میرا کہ کافر ہو گیا

آنکھ میں اس کی کہ ہے وہ دور تر از صحنِ یار

اُس رُخِ روشن سے میری آنکھ بھی روشن ہوئی

ہو گئے اسرار اس دلبر کے مجھ پر آشکار

قوم کے لوگو! اِدھر آؤ کہ نکلا آفتاب

وادئ ظلمت میں کیا بیٹھے ہو تم لیل و نہار

کیا تماشا ہے کہ میں کافر ہوں تم مومن ہوئے

پھر بھی اس کافر کا حامی ہے وہ مقبولوں کا یار

کیا اچنبھی بات ہے کافر کی کرتا ہے مدد

وہ خدا جو چاہیئے تھا مومنوں کا دوستدار

اہلِ تقویٰ تھا کرم دیں بھی تمہاری آنکھ میں

جس نے ناحق ظلم کی رہ سے کیا تھا مجھ پہ وار

بے معاون مَیں نہ تھا تھی نُصرتِ حق میرے ساتھ

فتح کی دیتی تھی وحیِ حق بشارت بار بار

پر مجھے اُس نے نہ دیکھا آنکھ اُس کی بند تھی

پھر سزا پاکر لگایا سرمۂ دُنبالہ دار

نام بھی کذّاب اس کا دفتروں میں رہ گیا

اب مٹا سکتا نہیں یہ نام تا روزِ شمار

اب کہو کس کی ہوئی نُصرت جنابِ پاک سے

کیوں تمہارا متقی پکڑا گیا ہو کر کے خوار

پھر اِدھر بھی کچھ نظر کرنا خدا کے خوف سے

کیسے میرے یار نے مجھ کو بچایا بار بار

قتل کی ٹھانی شریروں نے چلائے تیرِ مکر

بن گئے شیطاں کے چیلے اور نسلِ ہونہار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 134

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 134

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/134/mode/1up


پھرؔ لگایا ناخنوں تک زور بن کر اک گروہ

پر نہ آیا کوئی بھی منصوبہ اُن کو ساز وار

ہم نگہ میں اُن کی دجّال اور بے ایماں ہوئے

آتشِ تکفیر کے اُڑتے رہے پیہم شرار

اب ذرہ سوچو دیانت سے کہ یہ کیا بات ہے

ہاتھ کس کا ہے کہ ردّ کرتا ہے وہ دشمن کا وار

کیوں نہیں تم سوچتے کیسے ہیں یہ پردے پڑے

دل میں اُٹھتا ہے مرے رہ رہ کے اب سَوسَو بخار

یہ اگر انساں کا ہوتا کاروبار اے ناقصاں

ایسے کاذب کے لئے کافی تھا وہ پروردگار

کچھ نہ تھی حاجت تمہاری نے تمہارے مکر کی

خود مجھے نابود کرتا وہ جہاں کا شہریار

پاک و برتر ہے وہ جھوٹوں کا نہیں ہوتا نصیر

ورنہ اُٹھ جائے اماں پھر سچے ہوویں شرمسار

اس قدر نصرت کہاں ہوتی ہے اک کذّاب کی

کیا تمہیں کچھ ڈر نہیں ہے کرتے ہو بڑھ بڑھ کے وار

ہے کوئی کاذب جہاں میں لاؤ لوگو کچھ نظیر

میرے جیسی جس کی تائیدیں ہوئی ہوں بار بار

آفتابِ صُبْح نکلا اب بھی سوتے ہیں یہ لوگ

دن سے ہیں بیزار اور راتوں سے وہ کرتے ہیں پیار

روشنی سے بغض اور ظلمت پہ وہ قربان ہیں

ایسے بھی شپر نہ ہوں گے گرچہ تم ڈھونڈو ہزار

سر پہ اک سورج چمکتا ہے مگر آنکھیں ہیں بند

مرتے ہیں بن آب وہ اور درپہ نہرِ خوشگوار

طرفہ کیفیت ہے اُن لوگوں کی جو منکرہوئے

یوں تو ہر دم مشغلہ ہے گالیاں لیل و نہار

پر اگر پوچھیں کہ ایسے کاذبوں کے نام لو

جن کی نصرت سالہا سے کررہا ہو کردگار

مردہ ہو جاتے ہیں اس کا کچھ نہیں دیتے جواب

زرد ہو جاتا ہے منہ جیسے کوئی ہو سوگوار

اُن کی قسمت میں نہیں دیں کے لئے کوئی گھڑی

ہوگئے مفتونِ دنیا دیکھ کر اُس کا سنگار

جی چُرانا راستی سے کیا یہ دیں کا کام ہے

کیا یہی ہے زہد و تقویٰ کیا یہی راہ خیار

کیا قسم کھائی ہے یا کچھ پیچ قسمت میں پڑا

روزِ روشن چھوڑ کر ہیں عاشقِ شب ہائے تار

انبیاء کے طور پر حجت ہوئی اُن پر تمام

اُن کے جو حملے ہیں اُن میں سب نبی ہیں حصہ دار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 135

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 135

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/135/mode/1up


میرؔ ی نسبت جو کہیں کِیں سے وہ سب پر آتا ہے

چھوڑ دیں گے کیا وہ سب کو کفر کرکے اختیار

مجھ کو کافر کہہ کے اپنے کفر پر کرتے ہیں مہر

یہ تو ہے سب شکل اُن کی ہم تو ہیں آئینہ وار

ساٹھ سے ہیں کچھ برس میرے زیادہ اس گھڑی

سال ہے اب تیسواں دعوے پہ از روئے شمار

تھا برس چالیس کا مَیں اس مسافر خانہ میں

جبکہ میں نے وحیِ ربّانی سے پایا افتخار

اس قدر یہ زندگی کیا افترا میں کٹ گئی

پھر عجب تر یہ کہ نصرت کے ہوئے جاری بحار

ہر قدم میں میرے مولیٰ نے دیئے مجھ کو نشاں

ہر عدو پر حجتِ حق کی پڑی ہے ذوالفقار

نعمتیں وہ دیں مرے مولیٰ نے اپنے فضل سے

جن سے ہیں معنی ءِ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ آشکار

سایہ بھی ہو جائے ہے اوقاتِ ظلمت میں جدا

پر رہا وہ ہر اندھیرے میں رفیق و غمگسار

اس قدر نصرت تو کاذب کی نہیں ہوتی کبھی

گر نہیں باور نظیریں اس کی تم لاؤ دو چار

پھر اگر ناچار ہو اس سے کہ دو کوئی نظیر

اُس مہمین سے ڈرو جو بادشاہ ہر دو دار

یہ کہاں سے سن لیا تم نے کہ تم آزاد ہو

کچھ نہیں تم پر عقوبت گو کرو عصیاں ہزار

نَعْرۂِ اِنَّا ظَلَمْنَا سنتِ ابرار ہے

زہر منہ کی مت دکھاؤ تم نہیں ہو نسلِ مار

جسم کو مَل مَل کے دھونا یہ تو کچھ مشکل نہیں

دل کو جو دھووے وہی ہے پاک نزدِ کردگار

اپنے ایماں کو ذرا پردہ اُٹھاکردیکھنا

مجھ کو کافر کہتے کہتے خود نہ ہوں از اہلِ نار

گرحیا ہو سوچ کر دیکھیں کہ یہ کیا راز ہے

وہ مری ذلّت کو چاہیں پا رہا ہوں مَیں وقار

کیا بگاڑا اپنے مکروں سے ہمارا آج تک

اژدہا بن بن کے آئے ہوگئے پھر سُوسَمار

اے فقیہو عالمو مجھ کو سمجھ آتا نہیں

یہ نشانِ صدق پاکر پھر یہ کیں اور یہ نقار

صدق کو جب پایا اصحابِ رسول اللہ نے

اُس پہ مال و جان و تن بڑھ بڑھ کے کرتے تھے نثار

پھر عجب یہ علم۔ یہ تنقیدِ آثار و حدیث

دیکھ کر سَوسَو نشاں پھر کررہے ہو تم فرار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 136

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 136

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/136/mode/1up


بحثؔ کرنا تم سے کیا حاصل اگر تم میں نہیں

رُوحِ انصاف و خدا ترسی کہ ہے دیں کا مدار

کیامجھے تم چھوڑتے ہو جاہِ دنیا کے لئے

جاہِ دنیا کب تلک دُنیا ہے خود ناپائیدار

کون درپردہ مجھے دیتا ہے ہر میدان میں فتح

کون ہے جو تم کو ہر دم کررہا ہے شرمسار

تم تو کہتے تھے کہ یہ نابود ہو جائے گا جلد

یہ ہمارے ہاتھ کے نیچے ہے اِک اَدنیٰ شکار

بات پھر یہ کیا ہوئی کس نے مری تائید کی

خائب و خاسر رہے تم۔ ہوگیا مَیں کامگار

اِک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا

قادیاں بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا زیرِ غار

کوئی بھی واقف نہ تھا مجھ سے نہ میرا معتقد

لیکن اب دیکھو کہ چرچا کس قدر ہے ہر کنار

اُس زمانہ میں خدا نے دی تھی شہرت کی خبر

جوکہ اب پوری ہوئی بعد از مرورِ روزگار

کھول کر دیکھو براہیں جوکہ ہے میری کتاب

اُس میں ہے یہ پیشگوئی پڑھ لو اُس کو ایک بار

اب ذرہ سوچو کہ کیا یہ آدمی کا کام ہے

اِس قدر امر نہاں پر کس بشر کو اقتدار

قدرتِ رحمان و مکرِ آدمی میں فرق ہے

جو نہ سمجھے وہ غبی از فرق تا پا ہے حمار

سوچ لو اے سوچنے والو کہ اب بھی وقت ہے

راہِ حرماں چھوڑ دو رحمت کے ہو امیدوار

سوچ لو یہ ہاتھ کس کا تھا کہ میرے ساتھ تھا

کس کے فرماں سے میں مقصد پاگیا اور تم ہو خوار

یہ بھی کچھ ایماں ہے یارو ہم کو سمجھائے کوئی

جس کا ہر میداں میں پھل حرماں ہے اور ذلّت کی مار

غل مچاتے ہیں کہ یہ کافر ہے اور دجّال ہے

میں توخود رکھتاہوں اُن کے دیں سے اور ایماں سے عار

گریہی دیں ہے جو ہے اُن کی خصائل سے عیاں

مَیں تو اِک کوڑی کو بھی لیتا نہیں ہوں زینہار

جان و دل سے ہم نثارِ ملّتِ اسلام ہیں

لیک دیں وہ رہ نہیں جس پر چلیں اہلِ نقار

واہ رے جوشِ جہالت خوب دکھلائے ہیں رنگ

جھوٹ کی تائید میں حملے کریں دیوانہ وار

نازمت کر اپنے ایماں پر کہ یہ ایماں نہیں

اس کو ہیرامت گماں کر ہے یہ سنگِ کوہسار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 137

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 137

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/137/mode/1up


پیٹناؔ ہوگا دو ہاتھوں سے کہ ہے ہے مرگئے

جب کہ ایماں کے تمہارے گند ہوں گے آشکار

ہے یہ گھر گرنے پہ اے مغرور لے جلدی خبر

تانہ دب جائیں ترے اہل و عیال و رشتہ دار

یہ عجب بدقسمتی ہے کس قدر دعوت ہوئی

پر اُترتا ہی نہیں ہے جامِ غفلت کا خُمار

ہوش میں آتے نہیں سو سو طرح کوشش ہوئی

ایسے کچھ سوئے کہ پھر ہوتے نہیں ہیں ہوشیار

دن بُرے آئے اکٹھے ہوگئے قحط و وبا

اب تلک توبہ نہیں اب دیکھئے انجام کار

ہے غضب کہتے ہیں اب وحیِ خدا مفقود ہے

اب قیامت تک ہے اِس اُمت کا قصوں پر مدار

یہ عقیدہ برخلافِ گفتۂِ دادار ہے

پر اُتارے کون برسوں کا گلے سے اپنے ہار

وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم

اب بھی اُس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار

گوہرِ وحیِ خدا کیوں توڑتا ہے ہوش کر

اِک یہی دیں کے لئے ہے جائے عزّ و افتخار

یہ وہ گُل ہے جس کا ثانی باغ میں کوئی نہیں

یہ وہ خوشبو ہے کہ قرباں اس پہ ہو مشکِ تتار

یہ وہ ہے مفتاح جس سے آسماں کے درکھلیں

یہ وہ آئینہ ہے جس سے دیکھ لیں روئے نگار

بس یہی ہتھیار ہے جس سے ہماری فتح ہے

بس یہی اِک قصر ہے جو عافیت کا ہے حصار

ہے خدا دانی کا آلہ بھی یہی اسلام میں

محض قصوں سے نہ ہو کوئی بشر طوفاں سے پار

ہے یہی وحیِ خدا عرفانِ مولیٰ کا نشاں

جس کو یہ کامل ملے اُس کو ملے وہ دوستدار

واہ رے باغِ محبت موت جس کی رہ گذر

وصلِ یار اُس کا ثمر۔ پر ارد گرد اُس کے ہیں خار

ایسے دل پر داغِ *** ہے ازل سے تا ابد

جو نہیں اس کی طلب میں بیخود و دیوانہ وار

پر جو دنیا کے بنے کیڑے وہ کیا ڈھونڈیں اُسے

دیں اُسے ملتا ہے جو دیں کیلئے ہو بیقرار

ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج

جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار

یاد وہ دن جب کہ کہتے تھے یہ سب ارکانِ دیں

مہدئ موعودِ حق اب جلد ہوگا آشکار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 138

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 138

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/138/mode/1up


کون تھا جس کی تمنّا یہ نہ تھی اک جوش سے

کون تھا جس کو نہ تھا اُس آنے والے سے پیار

پھرؔ وہ دن جب آگئے اور چودھویں آئی صدی

سب سے اوّل ہوگئے منکر یہی دیں کے منار

پھر دوبارہ آگئی احبار میں رسمِ یہود

پھر مسیحِ وقت کے دشمن ہوئے یہ جُبّہ دار

تھا نوشتوں میں یہی از ابتدا تا انتہا

پھر مٹے کیونکر کہ ہے تقدیر نَے نقشِ جدار

میں تو آیا اس جہاں میں ابنِ مریم کی طرح

میں نہیں مامور از بہرِ جہاد و کارزار

پر اگر آتا کوئی جیسی انہیں امید تھی

اور کرتا جنگ اور دیتا غنیمت بے شمار

ایسے مہدی کے لئے میداں کھلا تھا قوم میں

پھر تو اس پر جمع ہوتے ایک دم میں صد ہزار

پر یہ تھا رحم خداوندی کہ مَیں ظاہر ہوا

آگ آتی گرنہ میں آتا تو پھر جاتا قرار

آگ بھی پھر آگئی جب دیکھ کر اتنے نشاں

قوم نے مجھ کو کہا کذّاب ہے اور بدشعار

ہے یقیں یہ آگ کچھ مدت تلک جاتی نہیں

ہاں مگر توبہ کریں با صد نیاز و انکسار

یہ نہیں اِک اتفاقی امر تا ہوتا علاج

ہے خدا کے حکم سے یہ سب تباہی اور تبار

وہ خدا جس نے بنایا آدمی اور دیں دیا

وہ نہیں راضی کہ بے دینی ہو ان کا کاروبار

بے خدا بے زہد و تقویٰ بے دیانت بے صفا

بَنْ ہے یہ دنیائے دوں طاعوں کرے اُس میں شکار

صیدِ طاعوں مت بنو پورے بنو تم متقی

یہ جو ایماں ہے زباں کا۔کچھ نہیں آتا بکار

موت سے گر خود ہو بے ڈر کچھ کر و بچوں پہ رحم

امن کی رہ پر چلو بَنْ کو کرو مت اختیار

بَنْ کے رہنے والو تم ہرگز نہیں ہو آدمی

کوئی ہے روبہ کوئی خنزیر اور کوئی ہے مار

ان دلوں کو خود بدل دے اے مرے قادر خدا

تُو تو ربّ العالمیں ہے اور سب کا شہریار

تیرے آگے محو یا اثبات نا ممکن نہیں

جوڑنا یا توڑنا یہ کام تیرے اختیار

ٹوٹے کاموں کو بناوے جب نگاہِ فضل ہو

پھر بناکر توڑ دے اک دم میں کردے تارتار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 139

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 139

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/139/mode/1up


توہی بگڑی کو بناوے توڑدے جب بن چکا

تیرے بھیدوں کو نہ پاوے سو کرے کوئی بچار

جبؔ کوئی دل ظلمت عصیاں میں ہووے مبتلا

تیرے بن روشن نہ ہووے گو چڑھے سورج ہزار

اس جہاں میں خواہشِ آزادگی بے سود ہے

اِک تری قیدِ محبت ہے جو کردے رستگار

دل جو خالی ہو گدازِ عشق سے وہ دل ہے کیا

دل وہ ہے جس کو نہیں بے دلبرِ یکتا قرار

فقر کی منزل کا ہے اوّل قدم نفیِ وجود

پس کرو اس نفس کو زیرو زبر از بہرِ یار

تلخ ہوتا ہے ثمر جب تک کہ ہو وہ ناتمام

اس طرح ایماں بھی ہے جب تک نہ ہو کامل پیار

تیرے مُنہ کی بھوک نے دل کو کیا زیروزبر

اے مرے فردوسِ اعلیٰ اب گِرا مجھ پر ثمار

اے خدا اے چارہ سازِ درد ہم کو خود بچا

اے مرے زخموں کے مرہم دیکھ میرا دلفگار

باغ میں تیری محبت کے عجب دیکھے ہیں پھل

ملتے ہیں مشکل سے ایسے سیب اور ایسے انار

تیرے بن اے میری جاں یہ زندگی کیا خاک ہے

ایسے جینے سے تو بہتر مرکے ہو جانا غبار

گر نہ ہو تیری عنایت سب عبادت ہیچ ہے

فضل پر تیرے ہے سب جہدوعمل کا انحصار

جن پہ ہے تیری عنایت وہ بدی سے دور ہیں

رہ میں حق کی قوتیں اُن کی چلیں بن کر قطار

چھٹ گئے شیطاں سے جوتھے تیری اُلفت کے اسیر

جو ہوئے تیرے لئے بے برگ وبَر۔پائی بہار

سب پیاسوں سے نکوتر تیرے منہ کی ہے پیاس

جس کا دل اس سے ہے بریاں پاگیا وہ آبشار

جس کو تیری دھن لگی آخر وہ تجھ کو جاملا

جس کو بے چینی ہے یہ وہ پاگیا آخر قرار

عاشقی کی ہے علامت گریہ و دامانِ دشت

کیا مبارک آنکھ جو تیرے لئے ہو اشکبار

تیری درگہ میں نہیں رہتا کوئی بھی بے نصیب

شرط رہ پر صبر ہے اور ترکِ نامِ اضطرار

میں تو تیرے حکم سے آیا مگر افسوس ہے

چل رہی ہے وہ ہوا جو رخنہ اندازِ بہار

جیفۂ دنیا پہ یکسر گِر گئے دنیا کے لوگ

زندگی کیاخاک اُن کی جوکہ ہیں مُردار خوار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 140

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 140

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/140/mode/1up


دیں کو دے کر ہاتھ سے دنیا بھی آخر جاتی ہے

کوئی آسودہ نہیں بن عاشق و شیدائے یار

رنگؔ تقویٰ سے کوئی رنگت نہیں ہے خوب تر

ہے یہی ایماں کا زیور ہے یہی دیں کا سنگار

سو چڑھے سورج نہیں بن رُوئے دلبر روشنی

یہ جہاں بے وصلِ دلبر ہے شب تاریک و تار

اے مرے پیارے جہاں میں تو ہی ہے اک بے نظیر

جو ترے مجنوں حقیقت میں وہی ہیں ہوشیار

اس جہاں کو چھوڑنا ہے تیرے دیوانوں کاکام

نقد پالیتے ہیں وہ اور دوسرے امیدوار

کون ہے جس کے عمل ہوں پاک بے انوارِ عشق

کون کرتا ہے وفا بن اس کے جس کا دِل فگار

غیر ہوکر غیر پر مرنا کسی کو کیا غرض

کون دیوانہ بنے اس راہ میں لیل و نہار

کون چھوڑے خواب شیریں کون چھوڑے اکل و شرب

کون لے خارِ مغیلاں چھوڑ کر پھولوں کے ہار

عشق ہے جس سے ہوں طے یہ سارے جنگل پُر خطر

عشق ہے جو سرجھکاوے زیرِ تیغِ آب دار

پر ہزار افسوس دنیا کی طرف ہیں جھک گئے

وہ جو کہتے تھے کہ ہے یہ خانہ ءِ ناپائدار

جس کو دیکھو آجکل وہ شوخیوں میں طاق ہے

آہ رحلت کر گئے وہ سب جو تھے تقویٰ شعار

ممبروں پر اُن کے سارا گالیوں کا وعظ ہے

مجلسوں میں اُن کی ہردم سبّ و غیبت کاروبار

جس طرف دیکھو یہی دُنیا ہی مقصد ہوگئی

ہر طرف اس کے لئے رغبت دلائیں بار بار

ایک کانٹا بھی اگر دیں کے لئے اُن کو لگے

چیخ کر اس سے وہ بھاگیں شیر سے جیسے حمار

ہر زماں شکوہ زباں پر ہے اگر ناکام ہیں

دیں کی کچھ پروا نہیں دنیا کے غم میں سوگوار

لوگ کچھ باتیں کریں میری تو باتیں اور ہیں

میں فدائے یار ہوں گو تیغ کھینچے صد ہزار

اے مرے پیارے بتا تو کس طرح خوشنود ہو

نیک دن ہوگا وہی جب تجھ پہ ہوویں ہم نثار

جس طرح تو دور ہے لوگوں سے میں بھی دور ہوں

ہے نہیں کوئی بھی جو ہو میرے دل کا راز دار

نیک ظن کرنا طریقِ صالحانِ قوم ہے

لیک سو پردے میں ہوں اُن سے۔ نہیں ہوں آشکار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 141

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 141

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/141/mode/1up


بے خبر دونوں ہیں جو کہتے ہیں بد یا نیک مرد

میرے باطن کی نہیں ان کو خبر اک ذرّہ وار

ابنؔ مریم ہوں مگر اُترا نہیں مَیں چَرخ سے

نیز مہدی ہوں مگر بے تیغ اور بے کار زار

ملک سے مجھ کو نہیں مطلب نہ جنگوں سے ہے کام

کام میرا ہے دلوں کو فتح کرنا نَے دیار

تاج و تختِ ہند قَیصر کو مبارک ہو مدام

اُن کی شاہی میں مَیں پاتا ہوں رفاہِ روزگار

مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جُدا

مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار

ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیاکریں

آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نِقار

ملکِ روحانی کی شاہی کی نہیں کوئی نظیر

گو بہت دنیا میں گذرے ہیں امیر و تاجدار

داغِ *** ہے طلب کرنا زمیں کا عزّوجاہ

جس کا جی چاہے کرے اس داغ سے وہ تن فگار

کام کیاعزت سے ہم کو شہرتوں سے کیاغرض

گر وہ ذلّت سے ہو راضی اس پہ سو عزّت نثار

ہم اُسی کے ہوگئے ہیں جو ہمارا ہوگیا

چھوڑ کر دنیاءِ دوں کو ہم نے پایا وہ نگار

دیکھتا ہوں اپنے دل کو عرشِ ربّ العالمیں

قرب اتنا بڑھ گیا جس سے ہے اُترا مجھ میں یار

دوستی بھی ہے عجب جس سے ہوں آخر د۲و سَتِی

آملی اُلفت سے اُلفت ہوکے دو دل پر سوار

دیکھ لو میل و محبت میں عجب تاثیر ہے

ایک دل کرتا ہے جھک کر دوسرے دل کو شکار

کوئی رہ نزدیک تر راہِ محبت سے نہیں

طے کریں اس راہ سے سالک ہزاروں دشتِ خار

اس کے پانے کا یہی اے دوستو اک راز ہے

کیمیا ہے جس سے ہاتھ آجائے گا زر بے شمار

تیر تاثیرِ محبت کا خطا جاتا نہیں

تیر اندازو! نہ ہونا سست اس میں زینہار

ہے یہی اک آگ تا تم کو بچاوے آگ سے

ہے یہی پانی کہ نکلیں جس سے صدہا آبشار

اِس سے خود آکر ملے گا تم سے وہ یارِ ازل

اس سے تم عرفانِ حق سے پہنو گے پھولوں کے ہار

وہ کتابِ پاک و برتر جس کا فرقاں نام ہے

وہ یہی دیتی ہے طالب کو بشارت بار بار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 142

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 142

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/142/mode/1up


جن کو ہے انکارِ اس سے سخت ناداں ہیں وہ لوگ

آدمی کیونکر کہیں جب اُن میں ہے حُمقِ حمار

کیاؔ یہی اسلام کا ہے دوسرے دینوں پہ فخر

کردیا قصّوں پہ سارا ختم دیں کا کاروبار

مغزِ فرقانِ مطہرّ کیا یہی ہے زُہد خشک

کیا یہی چوہا ہے نکلا کھود کر یہ کوہسار

گریہی اسلام ہے بس ہو گئی اُمّت ہلاک

کس طرح رہ مل سکے جب دیں ہی ہوتاریک و تار

منہ کو اپنے کیوں بگاڑا نااُمیدوں کی طرح

فیض کے در کھل رہے ہیں اپنے دامن کو پسار

کس طرح کے تم بشر ہو دیکھتے ہو صد نشاں

پھر وہی ضدّ و تعصّب اور وہی کین و نقار

بات سب پوری ہوئی پر تم وہی ناقص رہے

باغ میں ہوکر بھی قسمت میں نہیں دیں کے ثمار

دیکھ لو وہ ساری باتیں کیسی پوری ہوگئیں

جن کا ہونا تھا بعید از عقل و فہم و افتکار

اُس زمانہ میں ذرہ سوچو کہ میں کیاچیز تھا

جس زمانہ میں براہیں کا دیا تھا اشتہار

پھر ذرہ سوچو کہ اب چرچا مرا کیسا ہوا

کس طرح سرعت سے شہرت ہوگئی درہر دیار

جانتا تھا کون کیا عزت تھی پبلک میں مجھے

کس جماعت کی تھی مجھ سے کچھ ارادت یا پیار

تھے رجوعِ خلق کے اسباب مال و علم و حکم

خاندانِ فقر بھی تھا باعثِ عزّ و وقار

لیک ان چاروں سے میں محروم تھا اور بے نصیب

ایک انساں تھا کہ خارج از حساب و از شمار

پھر رکھایا نام کافر ہوگیا مطعونِ خلق

کُفر کے فتووں نے مجھ کو کر دیا بے اعتبار

اس پہ بھی میرے خدا نے یاد کرکے اپنا قول

مرجع عالم بنایا مجھ کو اور دین کا مدار

سارے منصوبے جو تھے میری تباہی کے لئے

کر دیئے اُس نے تبہ جیسے کہ ہو گرد و غبار

سوچ کر دیکھو کہ کیا یہ آدمی کا کام ہے

کوئی بتلائے نظیر اس کی اگر کرنا ہے وار

مکر انساں کو مٹا دیتا ہے انسانِ دِگر

پر خدا کا کام کب بگڑے کسی سے زینہار

مفتری ہوتا ہے آخر اس جہاں میں رُوسیہ

جلد تر ہوتا ہے برہم افترا کا کاروبار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 143

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 143

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/143/mode/1up


افترا کی ایسی دُم لمبی نہیں ہوتی کبھی

جو ہو مثلِ مدتِ فخر الرسل فخر الخیار

حسرؔ توں سے میرا دل پُر ہے کہ کیوں منکر ہو تم

یہ گھٹا اب جھوم جھوم آتی ہے دل پر بار بار

یہ عجب آنکھیں ہیں سورج بھی نظر آتا نہیں

کچھ نہیں چھوڑا حسد نے عقل اور سوچ اور بچار

قوم کی بدقسمتی اِس سرکشی سے کھل گئی

پر وہی ہوتا ہے جو تقدیر سے پایا قرار

قوم میں ایسے بھی پاتا ہوں جو ہیں دُنیا کے کرم

مقصد اُن کی زیست کا ہے شہوت و خمر و قمار

مکر کے بل چل رہی ہے اُن کی گاڑی روز و شب

نفس و شیطاں نے اُٹھایا ہے انہیں جیسے کہار

دیں کے کاموں میں تو اُن کے لڑکھڑاتے ہیں قدم

لیک دُنیا کے لئے ہیں نوجوان و ہوشیار

حلّتُ و حُرمت کی کچھ پروا نہیں باقی رہی

ٹھونس کر مُردار پیٹوں میں نہیں لیتے ڈکار

لافِ زہد و راستی اور پاپ دل میں ہے بھرا

ہے زباں میں سب شرف اور نیچ دل جیسے چمار

اے عزیزو کب تلک چل سکتی ہے کاغذ کی ناؤ

ایک دن ہے غرق ہونا باد و چشمِ اشکبار

جاودانی زندگی ہے موت کے اندر نہاں

گلشنِ دلبرکی راہ ہے وادی ءِ غربت کے خار

اے خدا کمزور ہیں ہم اپنے ہاتھوں سے اُٹھا

ناتواں ہم ہیں ہمارا خود اُٹھالے سارا بار

تیری عظمت کے کرشمے دیکھتا ہوں ہر گھڑی

تیری قدرت دیکھ کر دیکھا جہاں کو مُردہ وار

کام دکھلائے جو تو نے میری نصرت کے لئے

پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے ہر زماں وہ کاروبار

کس طرح تو نے سچائی کو مری ثابت کیا

میں ترے قرباں مری جاں تیرے کاموں پر نثار

ہے عجب اک خاصیت تیرے جمال و حسن میں

جس نے اک چمکار سے مجھ کو کیا دیوانہ وار

اے مرے پیارے ضلالت میں پڑی ہے میری قوم

تیری قدرت سے نہیں کچھ دُور گر پائیں سُدھار

مجھ کو کافر کہتے ہیں میں بھی انہیں مومن کہوں

گر نہ ہو پرہیز کرنا جھوٹ سے دیں کا شعار

مجھ پہ اے واعظ نظر کی یار نے تجھ پر نہ کی

حیف اُس ایماں پہ جس سے کفر بہتر لاکھ بار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 144

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 144

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/144/mode/1up


روضۂ آدم کہ تھا وہ نامکمل اب تلک

میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ و بار

وہ ؔ خدا جس نے نبی کو تھا زرِ خالص دیا

زیورِ دیں کو بناتا ہے وہ اب مثلِ سُنار

وہ دکھاتا ہے کہ دیں میں کچھ نہیں اکراہ وجبر

دیں تو خود کھینچے ہے دل مثلِ بُتِ سیمیں عذار

پس یہی ہے رمز جو اُس نے کیا منع از جہاد

تا اٹھا وے دیں کی راہ سے جو اُٹھا تھا اِک غبار

تا دکھاوے منکروں کو دیں کی ذاتی خوبیاں

جن سے ہوں شرمندہ جو اسلام پر کرتے ہیں وار

کہتے ہیں یورپ کے ناداں یہ نبی کامل نہیں

وحشیوں میں دیں کو پھیلانا یہ کیا مشکل تھا کار

پر بنانا آدمی وحشی کو ہے اِک معجزہ

معنی ءِ رازِ نبوت ہے اسی سے آشکار

نور لائے آسماں سے خود بھی وہ اِک نور تھے

قوم وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیاجائے عار

روشنی میں مہرِ تاباں کی بھلا کیا فرق ہو

گرچہ نکلے روم کی سرحد سے یا از زنگبار

اے مرے پیارو شکیب و صبر کی عادت کرو

وہ اگر پھیلائیں بدبو تم بنو مشکِ تتار

نفس کو مارو کہ اس جیسا کوئی دشمن نہیں

چپکے چپکے کرتا ہے پیدا وہ سامانِ دمار

جس نے نفسِ دُوں کو ہمت کرکے زیرِ پاکیا

چیز کیا ہیں اُس کے آگے رستم و اسفندیار

گالیاں سن کر دُعا دو پا کے دکھ آرام دو

کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار

تم نہ گھبراؤ اگر وہ گالیاں دیں ہرگھڑی

چھوڑ دو اُن کو کہ چھپوائیں وہ ایسے اشتہار

چپ رہو تم دیکھ کر اُن کے رسالوں میں ستم

دم نہ مارو گر وہ ماریں اور کردیں حالِ زار

دیکھ کر لوگوں کا جوش و غیظ مت کچھ غم کرو

شدتِ گرمی کا ہے محتاج بارانِ بہار

افترا اُن کی نگاہوں میں ہمارا کام ہے

یہ خیال اللہ اکبر کس قدر ہے نابکار

خیر خواہی میں جہاں کی خوں کیا ہم نے جگر

جنگ بھی تھی صلح کی نیت سے اور کیں سے فرار

پاک دل پر بدگمانی۔ہے یہ شقوت کا نشاں

اب تو آنکھیں بند ہیں دیکھیں گے پھر انجام کار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 145

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 145

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/145/mode/1up


جب کہ کہتے ہیں کہ کاذب پھولتے پھلتے نہیں

پھر مجھے کہتے ہیں کاذب دیکھ کر میرے ثمار

کیا ؔ تمہاری آنکھ سب کچھ دیکھ کر اندھی ہوئی

کچھ تو اُس دن سے ڈرو یارو کہ ہے روزِ شمار

آنکھ رکھتے ہو ذرہ سوچو کہ یہ کیا راز ہے

کس طرح ممکن کہ وہ قدّوس ہو کاذب کا یار

یہ کرم مجھ پر ہے کیوں کوئی تو اس میں بات ہے

بے سبب ہرگز نہیں یہ کاروبارِ کِردگار

مجھ کو خود اُس نے دیا ہے چشمہِ ء توحید پاک

تا لگاوے از سرِ نو باغِ دیں میں لالہ زار

دوش پر میرے وہ چادر ہے کہ دی اُس یار نے

پھر اگر قدرت ہے اے منکر تو یہ چادر اُتار

خیرگی سے بدگمانی اس قدر اچھی نہیں

اِن دنوں میں جب کہ ہے شورِ قیامت آشکار

ایک طوفاں ہے خدا کے قہر کا اب جوش پر

نوح کی کشتی میں جو بیٹھے وہی ہو رستگار

صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے

ہیں درندے ہر طرف مَیں عافیت کا ہوں حصار

پشتی ءِ دیوارِ دیں اور مامنِ اسلام ہوں

نارسا ہے دستِ دشمن تا بفرقِ ایں جدار

جاہلوں میں اس قدر کیوں بدگمانی بڑھ گئی

کچھ بُرے آئے ہیں دن یا پڑ گئی *** کی مار

کچھ تو سمجھیں بات کو یہ دل میں ارماں ہی رہا

واہ رے شیطاں عجب اُن کو کیا اپنا شکار

اے کہ ہر دم بدگمانی تیرا کاروبار ہے

دوسری قوت کہاں گم ہوگئی اے ہوشیار

میں اگر کاذب ہوں کذّابوں کی دیکھوں گا سزا

پر اگر صادق ہوں پھر کیا عذر ہے روزِ شمار

اس تعصب پر نظر کرنا کہ مَیں اسلام پر

ہوں فدا۔ پھر بھی مجھے کہتے ہیں کافر باربار

مَیں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر

میں وہ ہوں نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار

ہائے وہ تقویٰ جو کہتے تھے کہاں مخفی ہوئی

ساربانِ نفس دوں نے کس طرف پھیری مہار

کام جو دکھلائے اُس خلّاق نے میرے لئے

کیا وہ کرسکتا ہے جو ہو مفتری شیطاں کا یار

میں نے روتے روتے دامن کر دیا تر درد سے

اب تلک تم میں وہی خشکی رہی باحالِ زار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 146

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 146

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/146/mode/1up


ہائے یہ کیا ہوگیا عقلوں پہ کیا پتھر پڑے

ہوگیا آنکھوں کے آگے اُن کے دن تاریک و تار

یا ؔ کسی مخفی گناہ سے شامتِ اعمال ہے

جس سے عقلیں ہوگئیں بیکار اور ۔اک مُردہ وار

گردنوں پر اُن کی ہے سب عام لوگوں کا گناہ

جن کے وعظوں سے جہاں کے آگیا دل میں غبار

ایسے کچھ سوئے کہ پھر جاگے نہیں ہیں اب تلک

ایسے کچھ بھولے کہ پھر نسیاں ہوا گردن کا ہار

نوعِ انساں میں بدی کا تخم بونا ظلم ہے

وہ بدی آتی ہے اُس پر جو ہو اُس کا کاشتکار

چھوڑ کر فرقاں کو آثارِ مخالف پر جمے

سر پہ مسلم اور بخاری کے دیا ناحق کا بار

جبکہ ہے امکان کذب و کجروی اخبار میں

پھر حماقت ہے کہ رکھیں سب انہی پر انحصار

جبکہ ہم نے نور حق دیکھا ہے اپنی آنکھ سے

جب کہ خود وحی خدا نے دی خبر یہ بار بار

پھر یقیں کو چھوڑ کر ہم کیوں گمانوں پر چلیں

خود کہو رویت ہے بہتر یا نقولِ پُر غبار

تفرقہ اسلام میں نقلوں کی کثرت سے ہوا

جس سے ظاہر ہے کہ راہ نقل ہے بے اعتبار

نقل کی تھی اک خطا کاری مسیحا کی حیات

جس سے دیں نصرانیت کا ہوگیا خدمت گذار

صد ہزاراں آفتیں نازل ہوئیں اسلام پر

ہوگئے شیطاں کے چیلے گردنِ دیں پر سوار

موتِ عیسیٰ کی شہادت دی خدا نے صاف صاف

پھر احادیثِ مخالف رکھتی ہیں کیا اعتبار

گر گُماں صحت کا ہو پھر قابلِ تاویل ہیں

کیاحدیثوں کے لئے فرقاں پہ کرسکتے ہو وار

وہ خدا جس نے نشانوں سے مجھے تمغہ دیا

اب بھی وہ تائید فرقاں کر رہا ہے بار بار

سر کو پیٹو! آسماں سے اب کوئی آتا نہیں

عمرِ دنیا سے بھی اب ہے آگیا ہفتم* ہزار

کتب سابقہ اور احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے کہ عمر دنیا کی حضرت آدم علیہ السلام سے سات ہزار برس تک ہے اِسی کی طرف قرآن شریف اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ33 ۱؂۔ یعنی خدا کا ایک دن تمہارے ہزار برس کے برابر ہے۔ اور خدا تعالیٰ نے میرے دل پر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 147

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 147

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/147/mode/1up


اُس کے آتے آتے دیں کا ہوگیا قصّہ تمام

کیا وہ تب آئے گا جب دیکھے گا اِس دیں کا مزار

کشتی ءِ اسلام بے لطفِ خدا اب غرق ہے

اے جنوں کچھ کام کر بیکار ہیں عقلوں کے وار

مجھ کو دے اک فوق عادت اے خدا جوش و تپش

جس سے ہوجاؤں میں غم میں دیں کے اِک دیوانہ وار

وہ لگادے آگ میرے دل میں ملّت کے لئے

شعلے پہنچیں جس کے ہردم آسماں تک بیشمار

اےؔ خدا تیرے لئے ہر ذرّہ ہو میرا فدا

مجھ کو دکھلادے بہارِ دیں کہ مَیں ہوں اشکبار

خاکساری کو ہماری دیکھ اے دانائے راز

کام تیرا کام ہے ہم ہوگئے اب بیقرار

اِک کرم کر پھیر دے لوگوں کو فرقاں کی طرف

نیز دے توفیق تا وہ کچھ کریں سوچ اور بچار

ایک فرقاں ہے جو شک اور ریب سے وہ پاک ہے

بعد اس کے ظنِّ غالب کو ہیں کرتے اختیار

پھر یہ نقلیں بھی اگر میری طرف سے پیش ہوں

تنگ ہو جائے مخالف پر مجالِ کار زار

باغ مرجھایا ہوا تھا گر گئے تھے سب ثمر

میں خدا کا فضل لایا پھر ہوئے پیدا ثمار

مرہمِ عیسیٰ نے دی تھی محض عیسیٰ کو شفا

میری مرہم سے شفا پائے گا ہر ملک و دیار

جھانکتے تھے نور کو وہ روزنِ دیوار سے

لیک جب در کھل گئے پھر ہوگئے شپّر شعار

وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے

اب مَیں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار

پر ہوئے دیں کے لئے یہ لوگ مارِ آستیں

دشمنوں کو خوش کیا اور ہوگیا آزردہ یار

یہ الہام کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ تک حضرت آدمؑ سے اسی قدر مدت بحساب قمری گذری تھی جو اِس سورۃ کے حروف کی تعداد سے بحساب ابجد معلوم ہوتی ہے۔ اور اس کے رو سے حضرت آدمؑ سے اب ساتواں ہزار بحساب قمری ہے جو دنیا کے خاتمہ پر دلالت کرتا ہے اور یہ حساب جو سورۃوالعصر کے حروف کے اعداد کے نکالنے سے معلوم ہوتا ہے۔ یہود و نصاریٰ کے حساب سے قریباً تمام و کمال ملتا ہے صرف قمری اور شمسی حساب کو ملحوظ رکھ لینا چاہیے۔ اور ان کی کتابوں سے پایا جاتا ہے جو مسیح موعود کا چھٹے ہزار میں آنا ضروری ہے اور کئی برس ہو گئے کہ چھٹا ہزار گزر گیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 148

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 148

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/148/mode/1up


غل مچاتے ہیں کہ یہ کافر ہے اور دجّال ہے

پاک کو ناپاک سمجھے ہوگئے مردار خوار

گو وہ کافر کہہ کے ہم سے دُور تر ہیں جاپڑے

اُن کے غم میں ہم تو پھر بھی ہیں حزین و دلفگار

ہم نے یہ مانا کہ اُن کے دل ہیں پتھر ہوگئے

پھر بھی پتھر سے نکل سکتی ہے دینداری کی نار

کیسے ہی وہ سخت دل ہوں ہم نہیں ہیں نا امید

آیتِ لَا تَیْءَسُوْا رکھتی ہے دل کو استوار

پیشہ ہے رونا ہمارا پیش ربِّ ذُوالمِنَن

یہ شجر آخر کبھی اس نہر سے لائیں گے بار

جن میں آیا ہے مسیح وقت وہ منکر ہوئے

مرگئے تھے اس تمنا میں خواصِ ہر دیار

مَیں نہیں کہتا کہ میری جاں ہے سب سے پاک تر

میں نہیں کہتا کہ یہ میرے عمل کے ہیں ثمار

میں نہیں رکھتا تھا اس دعوے سے اِک ذرّہ خبر

کھول کر دیکھو براہیں کو کہ تا ہو اعتبار

گرکہے کوئی کہ یہ منصب تھا شایانِ قریش

وہ خدا سے پوچھ لے میرا نہیں یہ کاروبار

مجھؔ کو بس ہے وہ خدا عہدوں کی کچھ پروا نہیں

ہوسکے تو خود بنو مہدی بحکمِ کِردگار

افترا *** ہے اور ہر مفتری ملعون ہے

پھر لعیں وہ بھی ہے جو صادق سے رکھتا ہے نقار

تشنہ بیٹھے ہو کنارِ جوئے شیریں حیف ہے

سر زمینِ ہند میں چلتی ہے نہرِ خوشگوار

ان نشا*نوں کو ذرہ سوچو کہ کس کے کام ہیں

کیا ضرورت ہے کہ دکھلاؤ غضب دیوانہ وار

مفت میں ملزم خداکے مت بنو اے منکرو

یہ خدا کا ہے نہ ہے یہ مفتری کا کاروبار

اب تک کئی ہزار خدا تعالیٰ کے نشان میرے ہاتھ پر ظاہر ہو چکے ہیں۔ زمین نے بھی میرے لئے نشان دکھلائے اور آسمان نے بھی۔اور دوستوں میں بھی ظاہر ہوئے اور دشمنوں میں بھی جن کے کئی لاکھ انسان گواہ ہیں۔ اور ان نشانوں کو اگر تفصیلاً جُدا جُدا شمار کیا جائے تو قریباً وہ سارے نشان دس لاکھ تک پہنچتے ہیں۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِک۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 149

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 149

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/149/mode/1up


یہ فتوحاتِ نمایاں یہ تواتر سے نشاں

کیا یہ ممکن ہیں بشر سے کیا یہ مکّاروں کا کار

ایسی سرعت سے یہ شہرت ناگہاں سالوں کے بعد

کیا نہیں ثابت یہ کرتی صدقِ قولِ کردگار

کچھ تو سوچو ہوش کرکے کیا یہ معمولی ہے بات

جس کا چرچا کر رہا ہے ہر بشر اور ہر دیار

مٹ گئے حیلے تمہارے ہوگئی حجت تمام

اب کہو کس پر ہوئی اے منکرو *** کی مار

بندۂ درگاہ ہوں اور بندگی سے کام ہے

کچھ نہیں ہے فتح سے مطلب نہ دل میں خوفِ ہار

مت کرو بک بک بہت ۔ اُس کی دلوں پر ہے نظر

دیکھتا ہے پاکی ءِ دل کو نہ باتوں کی سنوار

کیسے پتھر پڑ گئے ہَے ہَے تمہاری عقل پر

دیں ہے مُنہ میں گرگ کے۔ تم گرگ کے خود پاسدار

ہر طرف سے پڑ رہے ہیں دینِ احمد پر تبر

کیا نہیں تم دیکھتے قوموں کو اور اُن کے وہ وار

کون سی آنکھیں جو اس کو دیکھ کر روتی نہیں

کون سے دل ہیں جو اس غم سے نہیں ہیں بیقرار

کھا رہا ہے دیں طمانچے ہاتھ سے قوموں کے آج

اِک تزلزل میں پڑا اسلام کا عالی منار

یہ مصیبت کیا نہیں پہنچی خدا کے عرش تک

کیا یہ شمس الدّیں نہاں ہو جائے گا اب زیرِغار

جنگ روحانی ہے اب اِس خادم و شیطان کا

دل گھٹا جاتا ہے یاربّ سخت ہے یہ کارزار

ہر نبیء وقت نے اس جنگ کی دی تھی خبر

کر گئے وہ سب دعائیں بادو چشمِ اشکبار

اے خدا شیطاں پہ مجھ کو فتح دے رحمت کے ساتھ

وہ اکٹھی کر رہا ہے اپنی فوجیں بے شمار

جنگؔ یہ بڑھ کر ہے جنگِ روس اور جاپان سے

میں غریب اور ہے مقابل پر حریفِ نامدار

دل نکل جاتا ہے قابو سے یہ مشکل سوچ کر

اے مری جاں کی پنہ فوجِ ملائک کو اُتار

بستر راحت کہاں ان فکر کے ایاّم میں

غم سے ہردن ہو رہا ہے بد تراز شب ہائے تار

لشکر شیطاں کے نرغے میں جہاں ہے گھِر گیا

بات مشکل ہوگئی قدرت دکھا اے میرے یار

نسلِ انساں سے مدد اب مانگنا بے کار ہے

اب ہماری ہے تری درگاہ میں یاربّ پکار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 150

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 150

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/150/mode/1up


کیوں کریں گے وہ مدد اُن کو مدد سے کیا غرض

ہم تو کافر ہوچکے اُن کی نظر میں بار بار

پر مجھے رہ رہ کے آتا ہے تعجب قوم سے

کیوں نہیں وہ دیکھتے جو ہو رہا ہے آشکار

شکر لِلّٰہ میری بھی آہیں نہیں خالی گئیں

کچھ بنیں طاعوں کی صورت کچھ زلازل کے بخار

اِک۱ طرف طاعون خونی کھا رہا ہے ملک کو

ہو رہے ہیں صدہزاراں آدمی اس کا شکار

دوسر۲ ے منگل کے دن آیا تھا ایسا زلزلہ

جس سے اِک محشر کا عالم تھا بصد شوروپکار

ایک ہی دم میں ہزاروں اس جہاں سے چل دیئے

جس قدر گھر گر گئے اُن کا کروں کیونکر شمار

یا تو وہ عالی مکاں تھے زینت و زیبِ جلوس

یا ہوئے اِک ڈھیر اینٹوں کے پُر از گرد و غبار

حشر جس کو کہتے ہیں اِک دم میں برپا ہوگیا

ہر طرف میں مرگ کی آواز تھی اور اضطرار

دب گئے نیچے پہاڑوں کے کئی دیہات و شہر

مرگئے لاکھوں بشر اور ہوگئے دُنیا سے پار

اِس نشاں کو دیکھ کر پھر بھی نہیں ہیں نرم دل

پس خدا جانے کہ اب کس حشر کاہے انتظار

وہ جو کہلاتے تھے صوفی کِیں میں سب سے بڑھ گئے

کیا یہی عادت تھی شیخِ غزنوی کی یادگار

کہتے ہیں لوگوں کو ہم بھی زُبدۃُ الابرار ہیں

پڑتی ہے ہم پر بھی کچھ کچھ وحیِ رحماں کی پھوار

پر وہی نا فہم ملہم اَوّلُ الاعدا ہوئے

آگیا چرخِ بریں سے اُن کو تکفیروں کا تار

سب نشاں بیکار اُن کے بغض کے آگے ہوئے

ہو گیا تیرِ تعصّب ان کے دل میں وار پار

دیکھتےؔ ہرگز نہیں قُدرت کو اُس ستّار کی

گو سناویں اُن کو وہ اپنی بجاتے ہیں ستار

صوفیا اب ہیچ ہے تیری طرح تیری تراہ

آسماں سے آگئی میری شہادت بار بار

قدرتِ حق ہے کہ تم بھی میرے دشمن ہوگئے

یا محبت کے وہ دن تھے یا ہوا ایسا نقار

دھو دیئے دل سے وہ سارے صحبتِ دیریں کے رنگ

پھول بَن کر ایک مدت تک ہوئے آخر کو خار

جس قدر نقدِ تعارف تھا وہ کھو بیٹھے تمام

آہ کیا یہ دل میں گذرا ۔ہوں میں اس سے دلفگار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 151

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 151

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/151/mode/1up


آسماں پر شور ہے پر کچھ نہیں تم کو خبر

دن تو روشن تھا مگر ہے بڑھ گئی گرد و غبار

اِک نشاں ہے آنے والا آج سے کچھ دن کے بعد

جس سے گردش کھائیں گے دیہات و شہر اور مرغزار

آئے گا قہر خدا سے خلق پر اِک انقلاب

اِک برہنہ سے نہ یہ ہوگا کہ تا باندھے ازار

یک بیک اِک زلزلہ سے سخت جنبش کھائیں گے*

کیا بشر اور کیا شجر اور کیا حجر اور کیا بحار

اِک جھپک میں یہ زمیں ہو جائے گی زیرو زبر

نالیاں خوں کی چلیں گی جیسے آبِ رودبار

رات جو رکھتے تھے پوشاکیں برنگِ یاسمن

صبح کردے گی انہیں مثلِ درختانِ چنار

خدا تعالیٰ کی وحی میں زلزلہ کا بار بار لفظ ہے۔ اور فرمایا کہ ایسا زلزلہ ہو گا جو نمونۂ قیامت ہو گا بلکہ قیامت کا زلزلہ اس کو کہنا چاہیئے جس کی طرف سورۃ3۱؂ اشارہ کرتی ہے لیکن میں ابھی تک اس زلزلہ کے لفظ کو قطعی یقین کے ساتھ ظاہر پر جما نہیں سکتا۔ ممکن ہے یہ معمولی زلزلہ نہ ہو بلکہ کوئی اور شدید آفت ہو جو قیامت کا نظارہ دکھادے جس کی نظیر کبھی اس زمانہ نے نہ دیکھی ہو اور جانوں اور عمارتوں پر سخت تباہی آوے۔ ہاں اگر ایسا فوق العادت نشان ظاہر نہ ہو اور لوگ کھلے طور پر اپنی اصلاح بھی نہ کریں تو اس صورت میں مَیں کاذب ٹھہروں گا۔مگر میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ یہ شدید آفت جس کو خدا تعالیٰ نے زلزلہ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے صرف اختلافِ مذہب پر کوئی اثر نہیں رکھتی اور نہ ہندو یا عیسائی ہونے کی وجہ سے کسی پر عذاب آسکتا ہے اور نہ اس وجہ سے آسکتا ہے کہ کوئی میری بیعت میں داخل نہیں یہ سب لوگ اس تشویش سے محفوظ ہیں۔ ہاں جو شخص خواہ کسی مذہب کا پابند ہو جرائم پیشہ ہونا اپنی عادت رکھے اور فسق و فجور میں غرق ہو اور زانی، خونی، چور، ظالم اور ناحق کے طور پر بد اندیش، بد زبان اور بدچلن ہو اس کو اس سے ڈرنا چاہیئے اور اگر توبہ کرے تو اس کو بھی کچھ غم نہیں اور مخلوق کے نیک کردار اور نیک چلن ہونے سے یہ عذاب ٹل سکتا ہے قطعی نہیں ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 152

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 152

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/152/mode/1up


ہوش اُڑ جائیں گے انساں کے پرندوں کے حواس

بھولیں گے نغموں کو اپنے سب کبوتر اور ہزار

ہر مسافر پر وہ ساعت سخت ہے اور وہ گھڑی

راہ کو بھولیں گے ہوکر مست و بیخود راہوار

خون سے مردوں کے کوہستان کے آبِ رواں

سرخ ہو جائیں گے جیسے ہو شرابِ انجبار

مضمحل ہو جائیں گے اس خوف سے سب جنّ وانس

زار بھی ہوگا تو ہوگا اُس گھڑی باحالِ زار

اِک نمونہ قہر کا ہوگا وہ ربّانی نشاں

آسماں حملے کرے گا کھینچ کر اپنی کٹار

ہاں نہ کر جلدی سے انکار اے سفیہِ ناشناس

اِس پہ ہے میری سچائی کا سبھی دارومدار

وحی حق کی بات ہے ہوکر رہے گی بے خطا

کچھ دنوں کر صبر ہوکر متقی اور بُردبار

یہ گماں مت کر کہ یہ سب بدگمانی ہے معاف

قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا اُدھار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 153

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 153

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/153/mode/1up



(ضمیمہؔ براہین احمدیہ حصہ پنجم)


نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم

اے یار ازل بس است روئے تو مرا

بہتر زِ ہزار خلد کوئے تو مرا

از مصلحتے دگر طرف بینم لیک

ہر لحظہ نگاہِ ہست سوئے تو مرا

بر عزتِ من اگر کسے حملہ کند

صبر است طریق ہمچو خوئے تو مرا

من چیستم و چہ عزتم ہست مگر

جنگ است زِ بہرِ آبروئے تو مرا

ایک صاحب محمد اکرام اللہ نام نے روزانہ پیسہ اخبار مورخہ۲۲ ؍ مئی ۱۹۰۵ء میں میرے ان اشتہارات کی نسبت جن میں اوّ۔۱ل دفعہ اور دو۔۲م دفعہ کے زلزلہ کی نسبت پیشگوئیاں ہیں کچھ اعتراض شائع کئے ہیں اور میرے خیال میں وہ اعتراضات صرف تعصب کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ ناسمجھی اور نہایت محدود واقفیت بھی ان کا موجب ہے ۔ قوم کی حالت پر اسی وجہ سے مجھے رونا آتا ہے کہ اعتراض کرنے کے وقت کچھ تدبّر نہیں کرتے اور جنون کی طرح ایک جوش پیدا ہو جاتاہے یا خود نمائی کی وجہ سے یہ شوق دامن گیر ہوتا ہے کہ کسی طرح معترض بن کر ہمیں بھی اوّل درجہ کے مخالفوں میں جگہ مل جائے اور یا کم سے کم لائق اور اہلِ علم متصور ہوں مگر بجائے لائق کہلانے کے خود اپنے ہاتھ سے اپنی پردہ دری کرتے ہیں۔ اب اہل انصاف اعتراضات کو سنیں اور ان کے جوابات پر غور کرکے دیکھیں کہ کیا ایسے اعتراضات کوئی منصف مزاج جس کو کچھ بھی عقل اور دین سے حصہ ملا ہے کرسکتا ہے۔ افسوس کہ یہ لوگ اوّل خود دھوکا کھاتے ہیں اور پھر لوگوں کو دھوکے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ اور اس جاہلیت کا سارا باعث وہ جلا ہوا تعصب ہے کہ جو جہنم کی آگ اپنے اندر رکھتا ہے۔

خلاصہ اعتراض اوّ۔۱ل قولہ۔اب ہم مرزا صاحب کے قول سے ثابت کرتے ہیں کہ زلزلہ کی پیشگوئی کوئی قابلِ وقعت چیز نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی کتاب ازالہ اوہام میں خود لکھتے ہیں کہ زلزلہ کی پیشگوئی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 154

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 154

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/154/mode/1up


قابل وقعت چیز نہیں بلکہ مہمل اور ناقابلِ التفات ہے۔ الجواب۔ واضح ہو کہ معترض نے اسؔ جگہ وہ میری عبارت پیش کی ہے کہ جو میں نے انجیل متی کی ایک پیشگوئی پر جو حضرت مسیح کی طرف منسوب کی جاتی ہے ازالہ اوہام میں لکھی ہے ۔ اور اس جگہ کافی ہوگا کہ وہی عبارت زلزلہ کی نسبت جو انجیل متی میں حضرت مسیح کے نام پر مندرج ہے جس کو میں نے ازالہ اوہام میں نقل کیا ہے پبلک کے سامنے پیش کردی جائے اور پھر وہ عبارتیں جو میری پیشگوئیوں میں دونوں زلزلوں کی نسبت بذریعہ اشتہارات شائع ہوچکی ہیں بالمقابل اس جگہ لکھ دی جائیں تا ناظرین خود سمجھ لیں کہ کیا ان دونوں پیشگوئیوں کی ایک ہی صورت ہے یا ان میں کچھ فرق بھی ہے اور کیا میری پیشگوئی میں بھی زلزلہ کی نسبت صرف معمولی الفاظ ہیں جو ہر ایک زلزلہ پر صادق آسکتے ہیں جیسا کہ انجیل متی کے الفاظ ہیں یا میری پیشگوئی فوق العادت زلزلہ کی خبر دیتی ہے۔اور اس جگہ اس بات کاذکر کرنا بھی بے موقعہ نہ ہوگا کہ جس سرزمین میں حضرت مسیح تھے یعنی ملک شام میں اُس ملک کی قدیم سے ایسی صورت ہے کہ ہمیشہ اس میں زلزلے آیا کرتے ہیں جیسا کہ کشمیر میں اور ہمیشہ طاعون بھی اُس ملک میں آیا کرتی ہے پس اُس ملک کے لئے یہ اعجوبہ نہیں ہے کہ اُس میں زلزلہ آوے یا طاعون پیدا ہو بلکہ کوئی بڑا زلزلہ آنا بھی عجیب بات نہیں ہے حضرت مسیح کی پیدائش سے بھی پہلے اس میں زلزلے آچکے ہیں اور ان کی زندگی میں بھی ہمیشہ سخت اور نرم زلزلے آتے رہے ہیں۔ پھر معمولی بات کی نسبت پیشگوئی کیا ہوگی؟ مگر ہم آگے چل کر بیان کریں گے کہ یہ زلزلہ جس کی پیشگوئی میں نے کی تھی اس ملک کے لئے کوئی معمولی بات نہ تھی بلکہ ایک انہونی اور فوق العادت بات تھی جس کو تمام ملک کے رہنے والوں نے فوق العادت قرار دیا بلکہ نمونہ قیامت سمجھا اور تمام محقق انگریزوں نے بھی یہی گواہی دی اور تاریخ پنجاب بھی یہی شہادت دیتی ہے اور نیز پرانی عمارتیں جو قریباً سولہ۱۶۰۰ سو برس سے محفوظ چلی آئیں بزبان حال یہی شہادت دے رہی ہیں مگر سب کو معلوم ہے کہ ملک شام میں تو اِس کثرت سے زلزلے آتے ہیں کہ جب وہ پیشگوئی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 155

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 155

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/155/mode/1up


حضرت مسیح کی لکھی گئی تو غالباً اس وقت بھی کوئی زلزلہ آرہا ہوگا۔

اب ہم ذیل میں وہ پیشگوئی لکھتے ہیں جو زلزلہ آنے کی نسبت انجیل متی میں لکھی گئی ہے جس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کیا گیاہے اور وہ یہ ہے ۔ قوم قوم پر اور بادشاہت بادشاؔ ہت پر چڑھ آوے گی اور کال اور مری پڑے گی اور جگہ جگہ بھونچال آویں گے ۔ دیکھو انجیل متی باب ۲۴۔ یہی پیشگوئی ہے جس کی نسبت میں نے ازالہ اوہام میں وہ عبارت لکھی ہے جو معترض نے اخبار مذکور کے صفحہ پا۵نچ کالم اوّل سطرچھبیس۲۶ میں درج کی ہے اور وہ یہ ہے۔ کیا یہ بھی کچھ پیشگوئیاں ہیں کہ زلزلے آئیں گے مری پڑے گی لڑائیاں ہوں گی قحط پڑیں گے۔ معترض صاحب میری اس عبارت کو لکھ کر اس سے یہ بات نکالتے ہیں کہ گویامیں نے یہ اقرار کیاہے کہ زلزلہ کی نسبت پیشگوئی کرنا کوئی قابل وقعت چیز نہیں اور ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس عبارت سے میرا یہ مدّعا نہیں ہے جو معترض نے سمجھا ہے بلکہ یہ غرض ہے کہ معمولی طور پر ایک بات کو پیش کرنا جس میں کوئی اعجوبہ نہیں اور جس میں کوئی فوق العادت امرنہیں پیشگوئی کے مفہوم میں داخل نہیں ہوسکتا۔ مثلاً اگر کوئی پیشگوئی کرے کہ برسات کے دنوں میں کچھ نہ کچھ بارشیں ہوں گی تو یہ پیشگوئی نہیں کہلا سکتی کیونکہ عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ برسات کے مہینوں میں کچھ نہ کچھ بارشیں ہو جایا کرتی ہیں۔ ہاں اگر کوئی یہ پیشگوئی کرے کہ اب کی دفعہ برسات کے دنوں میں اس قدر بارشیں ہوں گی کہ زمین میں سے چشمے جاری ہوجائیں گے اور کوئیں پُر ہوکر نہروں کی طرح بہنے لگیں گے اور گذشتہ سو برس میں ایسی بارش کی کوئی نظیر نہیں ہوگی تو اس کانام ضرور ایک امر خارق عادت اور پیشگوئی رکھا جائے گا سو اسی اصول کے لحاظ سے میں نے انجیل متی باب۲۴ کی پیشگوئی پر اعتراض کیا تھا کہ صرف اتنا کہہ دینا کہ زلزلے آئیں گے خاص کر اس ملک میں جس میں ہمیشہ زلزلے آیاکرتے ہیں بلکہ سخت زلزلے بھی آتے ہیں یہ کوئی ایسی خبر نہیں ہے جس کانام پیشگوئی رکھا جائے یا اس کو ایک امر خارق عادت ٹھہرایا جائے۔ اب دیکھنا چاہیئے کہ کیااُن ہرسہ اشتہارات میں بھی جو میں نے زلزلہ کی نسبت پیشگوئی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 156

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 156

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/156/mode/1up


کے طور پر ملک میں شائع کئے ایسی ہی معمولی خبر پائی جاتی ہے جس میں کوئی امر خارق عادت نہیں۔ اگر درحقیقت ایسا ہی ہے تو پھر زلزلہ کی نسبت میری پیشگوئی بھی ایک معمولی بات ہوگی۔ زلزلہ کی نسبت میرے اشتہارات کے الفاظ یہ ہیں۔ یکم مئی ۱۹۰۴ ؁ء میں مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی ہوئی تھی جس کو میں نے اخبار الحکم اور البدرؔ میں شائع کرادیا تھا۔ عفت الدّیار محلّھا ومقامھا۔ یعنی اس ملک کاایک حصہ مٹ جائے گا۔ اس کی وہ عمارتیں جو عارضی سکونت کی جگہ ہیں اور وہ عمارتیں جو مستقل سکونت کی جگہ ہیں دونوں نابود ہوجائیں گی ان کا نام و نشان نہیں رہے گا۔ اور الدیارپر جو الف لام ہے وہ دلالت کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کے علم میں اس ملک میں سے وہ خاص خاص جگہ ہیں جن پر یہ تباہی آئے گی اور وہ خاص حصہ ملک کے مکانات ہیں جو زمین سے برابر ہو جائیں گے۔ یہ کس قدر فوق العادت پیشگوئی ہے اور کس شدومد سے اس میں آئندہ واقعہ کاذکر ہے جس کی سولہ ۱۶۰۰سو برس تک بھی اس ملک میں نظیر نہیں پائی جاتی۔ چنانچہ انگریزی اخباروں کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ بڑے بڑے طبقات الارض کے محقق اس ملک کی نسبت یہ فوق العادت واقعہ قرار دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ یورپ کے بڑے بڑے محققوں کی شہادت سے شائع ہوچکا ہے کہ سولہ سو برس تک بھی پنجاب میں اس زلزلہ کی نظیر نہیں پائی جاتی اور تمام اخباریں اس مضمون سے بھری پڑی ہیں کہ یہ زلزلہ نمونہ قیامت تھا۔ پس جبکہ اُس وحی الٰہی میں جو میرے پر ہوئی یہ فوق العادت مضمون ہے کہ اس حادثہ سے عمارتیں نابود ہوجائیں گی اور ایک حصہ اِس ملک کا تباہ ہو جائے گا تو پھر نہایت افسوس ہے کہ ایسی عظیم الشان پیشگوئی کو جو ایک ملک کے تباہ ہونے کی خبر دیتی ہے انجیل کی ایک معمولی خبر کے برابر ٹھہرایا جائے جوزلزلے آئیں گے اور وہ بھی اُس ملک میں جو زلزلوں کا گھر ہے کیا کسی پیشگوئی کے اِس سے زیادہ الفاظ ڈرانے والے ہوسکتے ہیں۔ ہر ایک منصف مزاج خود سوچ لے کہ کیا اس ملک پنجاب کے لئے زلزلہ کی پیشگوئی کے الفاظ اس سے زیادہ فوق العادت ہوسکتے ہیں جو وحی ربّانی عفت الدّیار محلّھا و مقامھا میں پائے جاتے ہیں۔ جس کے یہ معنے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 157

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 157

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/157/mode/1up


ہیں کہ ایک حصہ ملک کا ایسا تباہ ہو جائے گا کہ اس کی عمارتیں سب نابود ہو جائیں گی نہ سرائیں باقی رہیں گی نہ مستقل سکونت کی جگہ۔ اس جگہ ادنیٰ عربی دان بھی الدیار کے الف لام کو ذہن میں رکھ کر سمجھ سکتا ہے کہ الدیار سے ایک حصہ اس ملک کا مراد ہے اور عفت کے لفظ سے یہی مطلب ہے کہ اس حصہ ملک کے سب مکانات گر جائیں گے نابود ہو جائیں گے نا پدید ہو جائیں گے۔*

پسؔ کوئی مجھ کو سمجھا وے کہ اس ملک کے لئے ایساواقعہ پہلے اس سے کب پیش آیا تھا ورنہ ایمانداری سے بعید ہے کہ انسان بے حیا ہوکر جھوٹ بولے اور اس خدا کا خوف نہ کرے جس کا ہاتھ ہر ایک وقت سزا دینے پر قادر ہے ۔ اور پھر اشتہار الوصیت میں جو ۲۷؍ فروری ۱۹۰۵ ؁ء میں زلزلہ سے پہلے شائع کیا گیا تھا یہ عبارت درج ہے۔ اِس وقت جو آدھی رات کے بعد چا۴ر بج چکے ہیں بطور کشف میں نے دیکھا ہے کہ دردناک موتوں سے عجیب طور پر شورِ قیامت برپا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی الہام ہوا کہ موتا موتی لگ رہی ہے اب سوچو کہ کیا ایک آئندہ واقعہ کی ان الفاظ سے پیشگوئی کرنا کہ وہ نمونہ قیامت ہوگا۔ اور شورِ قیامت اس سے برپا ہوگا وہ پیشگوئی اس پیشگوئی سے مساوی ہوسکتی ہے جومعمولی الفاظ میں کہا جائے جو زلزلے آویں گے۔ خاص کر شام جیسے ملک میں جو اکثر زلزلوں اور طاعون کی جگہ ہے اگر خدا تعالیٰ کا خوف ہو تو خدائے تعالیٰ کی پیشگوئی کے انکار میں اس قدر دلیری کیونکر ہو۔ یہ میرے پر حملہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ پر حملہ ہے جس کاوہ کلام ہے اور یہ کہنا کہ عَفَتِ الدِّیار محلّھا و مقامھایہ لبید بن ربیعہکے ایک بیت کا پہلا مصرعہ ہے

اگر کسی کو ان معنوں میں شک ہو تو اسے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ کسی مخالف عربی دان کو قسم دے کر پوچھ لے کہ کیا اس الہام عَفَتِ الدّیار میں عمارتوں کا گرنا۔ نابود ہو جانا اور ایسے مکانات کا گِرنا جو عارضی آمد و رفت کے لئے مقرر ہوتے ہیں جیسا کہ دھرم سالہ اور کانگڑہ کے پہاڑ کی لاٹاں والی کا مندر یا دائمی بودوباش کے مکانات کا گِرنا ثابت نہیں ہوتا؟ ظاہر ہے کہ ایسے کھلے طور پر ثابت ہوتا ہے جس سے آگے توضیح کی ضرورت نہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 158

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 158

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/158/mode/1up


یہ بھی خدا تعالیٰ پر گستاخانہ حملہ ہے وہ ہر ایک شخص کے قول کاوارث ہے لبید ہویاکوئی اور ہو۔ اُسی کی توفیق سے شعر بھی بنتا ہے۔ پس اگر اس نے ایک شخص کے کلام کو لے کر بطور وحی القا کردیا تو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ اور اگر یہ اعتراض ہوسکتا ہے تو پھر اس بات کا کیاجواب ہے کہ قرآن شریف میں جو یہ آیت ہے فتبارک اللّٰہ احسن الخالقین۔یہ بھی دراصل ایک انسان کا کلام تھا۔ یعنی عبد اللہ بن ابی سرح کا جو ابتداء میں قرآن شریف کی بعض آیات کا کاتب بھی تھا پھر مرتد ہوگیا وہی کلام اس کا بغیر کمی بیشی کے فرقان مجید میں نازل ہوگیا اور یہ وحی الٰہی کہ عفت الدیار محلھا و مقامھا اس کے حروف قرآن شریف کی آیت موصوفہ کے حروف سے بھی زیادہ نہیں ہیں ۔ یعنی3 ۱؂سے بلکہ اس کے اکیس۲۱ حرف ہیں مگر آیت قرآنی کے بائیس۲۲ حرف ۔ پھر معترض کا اس وحی الٰہی پر یہ کہاوت سنانا کہ ’’ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا۔ بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘*اُس کو ذرا سوچنا چاہیےے کہ اُس نے درحقیقت قرآن شریف پر حملہؔ کرکے اپنی عاقبت درست کرلی ہے۔ اور قرآن شریف میں صرف یہی وحی نہیں جو اس بات کانمونہ ہو جو وہ پہلے انسانی کلام تھا اور پھر اُس سے خدا تعالیٰ کی وحی کا توارد ہوا بلکہ بہت سے ایسے نمونے پیش ہوسکتے ہیں جہاں انسانی کلام سے خدا تعالیٰ کے کلام کا توارد ہوا جیسا کہ قرآن شریف کوبہت جگہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کلام سے توارد ہوا ہے جس سے علماء بے خبر نہیں ہیں۔ اور جن کی ایک بڑی فہرست پیش ہوسکتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معترض دراصل قرآن شریف سے منکر ہے ورنہ ایسا گستاخی او ر بے ادبی کا کلمہ ہرگز اس کے منہ پرنہ آتا۔ کیا کوئی مومن ایسا اعتراض کسی پر کرسکتا ہے؟ کہ وہ اعتراض بعینہٖ قرآن شریف پر آتا ہو۔ نعوذ باللہ ہرگز نہیں۔

اگرچہ گناہ ہزاروں قسم کے ہوتے ہیں مگر نہایت درجہ کا *** وہ شخص ہے جو خدا تعالیٰ کے پاک کلام پر اعتراض کرے۔ جاہل جلدی سے اور گستاخی سے اور خوش ہو کر خدا تعالیٰ کے کلام پر اعتراض کرتا ہے اور اس قدوس سے لڑتا ہے مگر وہ مر جاتا تو اس سے بہتر تھا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 159

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 159

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/159/mode/1up


پھر معترض کا پیشگوئی عفت الدیار پر ایک یہ بھی اعتراض ہے کہ عفت کا لفظ جو ماضی کا صیغہ ہے اس کا ترجمہ مضارع کے معنوں میں کیا گیا ہے حالانکہ اس کا ترجمہ ماضی کے معنوں میں کرنا چاہئے تھا۔ اس اعتراض کے ساتھ معترض نے بہت شوخی دکھلائی ہے۔ گویا مخالفانہ حملہ میں اس کو بھاری کامیابی ہوئی ہے۔ اب ہم اس کی کس کس دھوکا دہی کو ظاہر کریں جس شخص نے کافیہ یا ہدایت النحو بھی پڑھی ہوگی۔ وہ خوب جانتا ہے کہ ماضی مضارع کے معنوں پر بھی آجاتی ہے بلکہ ایسے مقامات میں جبکہ آنے والا واقعہ متکلم کی نگاہ میں یقینی الوقوع ہو* مضارع کو ماضی کے صیغہ پر لاتے ہیں تااس امر کا یقینی الوقوع ہونا ظاہر ہو۔ اور قرآن شریف میں اس کی بہت نظیریں ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔33 ۱؂ اور جیساکہ فرماتا ہے 333۲؂۔ 3اورجیساکہ فرماتاہے33333اورجیساکہ فرماتاہے۵؂ اور جیسا کہ فرماتا ہے۶؂

اور جیسا کہ فرماتا ہے 3۷؂ اور جیسا کہ فرماتا ہے۔۸؂اب معترض صاحب

مثلاً جس شخص کو بہت سی زہر قاتل دی گئی ہو وہ کہتا ہے کہ میں تو مر گیا۔ اور ظاہر ہے کہ مر گیا ماضی کا صیغہ ہے مضارع کا صیغہ نہیں ہے۔ اس سے مطلب اس کا یہ ہوتا ہے کہ میں مر جاؤں گا۔ اور مثلاً ایک وکیل جس کو ایک قوی اور کھلی کھلی نظیر فیصلہ چیف کورٹ کی اپنے مؤکل کے حق میں مل گئی ہے وہ خوش ہو کر کہتا ہے کہ بس اب ہم نے فتح پا لی حالانکہ مقدمہ ابھی زیر تجویز ہے کوئی فیصلہ نہیں لکھا گیا۔ پس مطلب اس کا یہ ہوتا ہے کہ ہم یقیناًفتح پا لیں گے اسی لئے وہ مضارع کی جگہ ماضی کا صیغہ استعمال کرتا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 160

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 160

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/160/mode/1up


فرما دیں کہ کیا یہ قرآنی آیات ماضی کے صیغے ہیں یا مضارع کے اور اگر ماضی کے صیغے ہیں تو ان کے معنے اس جگہ مضارع کے ہیں یا ماضی کے۔ جھوٹ بولنے کی سزا تو اس قدر کافی ہے کہ آپ کاحملہ صرف میرے پر حملہ نہیں بلکہ یہ تو قرآن شریف پر بھی حملہ ہوگیا گویا وہ صرف ونحو جو آپ کو معلوم ہے خدا کو معلوم نہیں۔ اسی وجہ سے خدا نے جابجا غلطیاں کھائیں اور مضارع کی جگہ ماضی کو لکھ دیا۔

پھر اس کے ساتھ آپ کا ایک اور اعتراض بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس پیشگوئی یعنی عفت الدیار محلھا ومقامھا میں زلزلہ کا لفظ کہاں ہے۔ افسوس اس معترض کو یہ معلوم نہیں کہ مقصود بالذات تو پیشگوئی کا اسی قدر مفہوم ہے جو الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے غرض تو صرف اتنی ہے کہ ایک حصہ ملک پر بڑی تباہی آئے گی ۔ اس جگہ دانا خود سمجھ سکتا ہے کہ مکانات کا تباہ ہونا بذریعہ زلزلہ ہی ہوا کرتا ہے ۔ ہاں ممکن ہے کہ یہ عظیم الشان ملک کی تباہی اور شہروں اور مکانات کا نابود ہوجانا کسی اور ذریعہ سے ظہور میں آوے مگر تب بھی بہرحال یہ پیشگوئی سچی ثابت ہوگی۔ اورچونکہ سنّت اللہ کے موافق اس تباہی کو زلزلہ پر دلالتِ التزامی ہے اس لئے اس کاذکرکرنا ضروری نہ تھا لیکن چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ بعض کم فہم جن کی فطرت نادانی اور تعصب کی معجون ہے ایسااعتراض بھی کریں گے اس لئے اُس نے زلزلہ کا لفظ بھی بتصریح لکھ دیا۔ دیکھو پرچہ الحکم مورخہ۲۴؍دسمبر۱۹۰۳ء اور اگرچہ یہ پیشگوئی زلزلہ کی پیشگوئی سے الگ کرکے جو اس سے پہلے شائع ہوچکی ہے صرف اس قدر بتاتی ہے کہ اس ملک کے بعض حصے تباہ ہو جائیں گے اور سخت تباہی آئے گی اور عمارات نابود ہو جائیں گی اور بستیاں کالعدم ہو جائیں گی۔ اور یہ نہیں بتلاؔ تی کہ کس خاص ذریعہ سے یہ تباہیاں وقوع میںآئیں گی۔ لیکن جو شخص سوچے گا کہ شہر اور بستیاں کس ذریعہ سے زمین میں دھنسا کرتی ہیں اوریک دفعہ عمارتیں کیونکر گر جاتی ہیں اور اس پیشگوئی کے ساتھ اس پیشگوئی کو بھی پڑھے گا جو اسی پرچہ میں پانچ۵ ماہ پہلے شائع ہوچکی ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 161

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 161

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/161/mode/1up


جس کے یہ لفظ ہیں کہ زلزلہ کا دھکا وہ ایسا اعتراض کرنے سے حیا کرے گا کہ پیشگوئی میں زلزلہ کا ذکر نہیں۔ ہاں ہم یہ اب بھی کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں استعارات بھی ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3 ۱؂لہٰذا ممکن تھا کہ زلزلہ سے مراد اور کوئی عظیم الشان آفت ہوتی جو پورے طورپر زلزلہ کا رنگ اپنے اندر رکھتی۔ مگر ظاہر عبارت بہ نسبت تاویل کے زیادہ حق رکھتی ہے پس دراصل اس پیشگوئی کا حلقہ وسیع تھا لیکن خدا تعالیٰ نے دشمنوں کامنہ کالا کرنے کے لئے ظاہر الفاظ کی رو سے بھی اس کو پورا کردیا۔ اور ممکن ہے کہ بعد اس کے بعض حصے اس پیشگوئی کے کسی اور رنگ میں بھی ظاہر ہوں لیکن بہرحال وہ امر خارقِ عادت ہوگا جس کی نسبت یہ پیشگوئی ہے چنانچہ یہی زلزلہ جس نے اس قدر پنجاب میں نقصان پہنچایا اس کی نسبت تحقیقات کی رو سے سول ملٹری گزٹ وغیرہ اخبارات میں شائع ہوچکا ہے اور یہ امر ثابت ہوچکا ہے کہ سولہ سو برس تک اس ملک پنجاب میں ایسا کوئی زلزلہ نہیں آیا۔ پس یہ پیشگوئی بلا شبہ اوّل درجہ کی خارق عادت امر کی خبر دیتی ہے۔ اور ممکن ہے کہ اس کے بعد بھی کچھ ایسے حوادث مختلف اسبابِ طبعیہ سے ظاہر ہوں جو ایسی تباہیوں کے موجب ہو جائیں جو خارقِ عادت ہوں پس اگر اس پیشگوئی کے کسی حصہ میں زلزلہ کا ذکر بھی نہ ہوتا تب بھی یہ عظیم الشان نشان تھا کیونکہ مقصود تو اس پیشگوئی میں ایک خارقِ عادت تباہی مکانوں اور جگہوں کی ہے جو بے مثل ہے زلزلہ سے ہو یا کسی اور وجہ سے پس جب کہ یہ شہادت مل چکی کہ سولہ سو برس تک اس تباہی کی ملک پنجاب میں نظیر نہیں پائی جاتی تو یہ پیشگوئی ایک معمولی امر نہ رہا جو صرف انسانی اٹکل سے ہوسکتا ہے پھر جبکہ اسؔ پیشگوئی کے

اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ جو شخص اس جہان میں اندھا ہے وہ دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا یعنی جس کو خدا کا دیدار اِس جگہ نہیں اُس جگہ بھی نہیں۔ اس آیت کے یہ معنے نہیں ہیں کہ جو بیچارے جسمانی طور پر اس جہان میں اندھے ہیں وہ دوسرے جہان میں بھی اندھے ہی ہوں گے۔ پس یہ استعارہ ہے کہ جاہل کا نام اندھا رکھا گیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 162

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 162

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/162/mode/1up


پہلے حصہ میں جو ۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۳ء ؁ میں اُسی اخبار الحکم میں درج ہوئی ہے صاف اور صریح لفظوں میں زلزلہ کا ذکر بھی شائع ہوچکا ہے تو ایسے معترض کی عقل پر ہنسیں یاروویں جو کہتا ہے جو زلزلہ کی کوئی پیشگوئی نہیں کی۔

اب یاد رہے کہ وحی الٰہی یعنی عفت الدیار محلھا ومقامھایہ وہ کلام ہے جو آج سے تیرہ سو برس پہلے خدا تعالیٰ نے لبید بن ربیعۃ العامریکے دل میں ڈالا تھا جو اُس کے اس قصیدہ کااوّل مصرع ہے جو سبعہ مُعلّقہ کا چوتھا قصیدہ ہے اور لبید نے زمانہ اسلام کا پایا تھا اور مشرف باسلام ہوگیا تھا اور صحابہ رضی اللّٰہ عنھم میں داخل تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کے کلام کو یہ عزّت دی کہ جو آخری زمانہ کی نسبت ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی کہ ایسی ایسی تباہیاں ہوں گی جن سے ایک ملک تباہ ہوگا وہ اُسی کے مصرع کے الفاظ میں بطور وحی فرمائی گئی جو اس کے منہ سے نکلی تھی۔ پس یہ تعجب سخت نادانی ہے کہ ایک کلام جو مسلمان کے منہ سے نکلا ہے وہ کیوں وحی الٰہی میں داخل ہوا۔ کیونکہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کرچکے ہیں وہ کلام جو عبدا للہ بن ابی سرح کے منہ سے نکلا تھا یعنی3۱؂ وہی قرآن شریف میں نازل ہوا جس کی وجہ سے عبد اللہ بن ابی سرح مرتد ہوکر مکہ کی طرف بھاگ گیا*۔ پس جب کہ خدا تعالیٰ کے کلام کا ایک مرتد کے کلام سے توارد ہوا تو اس سے کیوں تعجب کرناچاہیے کہ لبید جیسے صحابی بزرگوار کے کلام سے اس کے کلام کا توارد ہوجائے ۔ خدا تعالیٰ جیسے ہرایک چیز کا وارث ہے ہر ایک پاک کلام کا بھی وارث ہے اور ہر ایک پاک کلام اُسی کی توفیق سے مُنہ سے نکلتا ہے۔پس اگر ایسا کلام بطور وحی نازل ہو جائے تو اس بارے میں وہی شخص شک کرے گا جس کو اسلام میں شک ہو۔ اور لبید کے فضائل میں سے ایک یہ بھی تھا جو اس نے نہ صرف



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 163

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 163

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/163/mode/1up


آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا بلکہ زمانہ ترقیات اسلام کا خوب دیکھا اور ۴۱ ہجری میں ایک سو ستاو۱۵۷ن برس کی عمر پاکر فوت ہوا۔ اِسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کلام سے بھی کئی مرتبہ قرآن شریف کا توارد ہوا جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔ قال قال عمروَاؔ فَقْت رَبِّیْ فِیْ اَرْبَعٍ یعنی چارباتیں جو میرے منہ سے نکلیں وہی خدا تعالیٰ نے فرمائیں اور اگر ہم اس امت مرحومہ کے اولیاء کرام کا ذکر کریں کہ کس قدر دوسروں کے کلام بطور الہام اُن کے دلوں پر القا ہوئے اور بعض کو مثنوی رومی کے اشعار بطور الہام منجانب اللہ دل پر ڈالے گئے تو یہ بیان ایک علیحدہ رسالہ کو چاہتا ہے۔اور میں جانتا ہوں کہ جس شخص کو ایک ذرا واقفیت بھی اس کوچہ سے ہوگی وہ کبھی اس بات کو مُنہ پر نہیں لائے گا کہ خدا کے کلام کو انسان کے کلام سے توارد نہیں ہوسکتا بلکہ ہر ایک شخص جو کسی قدر علم شریعت سے حصہ رکھتا ہے وہ ایسے کلمہ کو موجبِ کفر سمجھے گا کیونکہ اس عقیدہ سے قرآن شریف سے انکار کرنا لازم آتا ہے۔ اس جگہ ایک اشکال بھی ہے اور ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس اشکال کو بھی حل کردیں۔ وہ یہ ہے کہ اگر یہ جائزہے کہ کسی انسان کے کلام سے خدا کے کلام کا توارد ہو تو ایسا ہونا قرآن شریف کے معجزہ ہونے میں قدح پیدا کرتا ہے لیکن جیسا کہ صاحب تفسیر کبیر اور دوسرے مفسروں نے لکھا ہے کوئی جائے اشکال نہیں کیونکہ اس قدر قلیل کلام پر اعجاز کی بنا نہیں ورنہ قرآن شریف کے کلمات بھی وہی ہیں جو اور عربوں کے منہ سے نکلتے تھے اعجازی صورت کے پیداہونے کے لئے ضروری ہے کہ خدا کا کلام کم سے کم اس سورۃ کے برابر ہو جو سب سے چھوٹی سورۃ قرآن شریف میں ہے یا کم سے کم دس آیتیں ہوں کیونکہ اسی قدر کو قرآن شریف نے معجزہ ٹھہرایا ہے۔ مگر مَیں کہتا ہوں کہ اگر کسی شخص کا کلام خدا کے کلام میں بطور وحی کے داخل ہوجائے تو وہ بہرحال اعجاز کا رنگ پکڑ سکتا ہے۔ مثلاً یہی وحی الٰہی یعنی عَفَتِ الدّیار محلّھا و مقامھا جب لبید ر ضی اللہ عنہ کے مُنہ سے شعر کے طور پر نکلی تو یہ معجزہ نہ تھی۔ لیکن جب وحی کے طور پر ظاہر ہوئی تو اب معجزہ ہوگئی ۔کیونکہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 164

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 164

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/164/mode/1up


لبید ایک واقعہ گذشتہ کے حالات پیش کرتا ہے جن کا بیان کرنا انسانی قدرت کے اندر داخل ہے لیکن اب خدا تعالیٰ لبید کے کلام سے اپنی وحی کا توارد کرکے ایک واقعہ عظیمہ آئندہ کی خبر دیتا ہے جو انسانی طاقتوں سے باہرہے پس وہی کلام جب لبید کی طرف منسوب کیا جائے تو معجزہ نہیں ہے لیکن جب خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جائے تو بلاشبہ معجزؔ ہ ہے ۔ آج سے ایک سال پہلے اس بات کو کون جانتا تھا کہ ایک حصہ اس ملک کا زلزلہ شدیدہ کے سبب سے تباہ اورویران ہو جائے گا یہ کس کو خبر تھی کہ اس قدر شہر اور دیہات یک دفعہ زمین میں دھنس کر تمام عمارتیں نابود ہو جائیں گی اور اُس زمین کی ایسی صورت ہو جائے گی کہ گویا اس میں کبھی کوئی عمارت نہ تھی پس اسی بات کا نام تو معجزہ ہے کہ کوئی ایسی بات ظہور میں آوے جو پہلے اس سے کسی کے خیال و گمان میں نہ تھی اور امکانی طور پر بھی اس کی طرف کسی کاخیال نہ تھا۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اس ملک کے رہنے والوں نے اس زلزلہ شدیدہ کو بڑے تعجب کی نظر سے دیکھا ہے اور اس کو ایک غیر معمولی اور انہونی بات اور نمونہ قیامت قرار دیا ہے اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ محققان یورپ نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ اس ملک کی تاریخ پر سولہ سو بر۱۶۰۰س تک نظر ڈال کر ثابت ہوتا ہے کہ پہلے اس سے ایساخوفناک اور تباہی ڈالنے والا زلزلہ اس ملک میں کبھی نہیں آیا۔ پس جس وحی نے ایک زمانہ دراز پہلے ایسے غیر معمولی واقعہ کی خبر دی کیاوہ خبر معجزہ نہیں ہے؟ کیا وہ انسانی طاقتوں کے اندر داخل ہے*۔ جس ملک کے لوگوں نے بلکہ ان کے باپ دادوں نے

معترض صاحب نے جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں پیسہ اخبار میں یہ اعتراض شائع کیا ہے کہ پیشگوئی عفت الدیار محلھا و مقامھا میں زلزلہ کا کہاں ذکر ہے حالانکہ زلزلہ کا ذکر اس پیشگوئی سے پا۵نچ ماہ پہلے اُسی اخبار میں شائع ہو چکا ہے۔ اور یہ پیشگوئی اسی زلزلہ کی صفات کا بیان ہے۔ ہمارے مخالفین کی یہ دیانت اور امانت اور یہ عقل اور یہ فہم ہے۔ کیا ان لوگوں میں کوئی بھی ایسا انسان نہیں کہ خلوت میں اس شخص کو ملامت کرے اور اس کو گو شمالی کرے کہ ایسا دھوکا پبلک کو کیوں دیا حالانکہ اس کو خوب معلوم تھا کہ پرچہ الحکم ۲۴؍دسمبر۱۹۰۳ ؁ء میں زلزلہ کی پیشگوئی صاف لفظوں میں موجود ہے جس کے ہیبت ناک نتائج الہام عفت الدیار میں ذکر کئے گئے ہیں اور یہ دونوں پیشگوئیاں ان کے ظہور سے ایک سال پہلے شائع کی گئی ہیں بلکہ زلزلہ کی پیشگوئی صریح اور صاف لفظوں میں مواہب الرحمن صفحہ ۸۶ میں بھی موجود ہے جس کو شائع کئے اڑھائی برس ہو چکے ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 165

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 165

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/165/mode/1up


بھی قریباً دو ہزا*ر بر س تک ایک واقعہ کو نہ دیکھا ہو نہ سنا ہو اور نہ انؔ کے خیال و گمان میں ہو کہ ایسا واقعہ ہونے والا ہے یاامکان میں ہے پھر اگر کوئی پیشگوئی ایسے واقعہ کی خبر دے اور وہ واقعہ بعینہٖ ظہور میں آجائے تو وہ خبر نہ صرف معجزہ کہلائے گی بلکہ اوّل درجہ کا معجزہ ہوگا۔

پھر ہم اصل مطلب کی طرف رجوع کرکے لکھتے ہیں کہ معترض صاحب نے ایک عظیم الشان پیشگوئی کی عظمت دُور کرنے کے لئے اور اس کو تمام لوگوں کی نظر میں خفیف ٹھہرانے کیلئے انجیل کی اُس بے معنی پیشگوئی سے اس کو مشابہت دی ہے جس میں محض معمولی الفاظ میں لکھا ہے کہ زلزلے آویں گے۔ لیکن جو شخص ذرا آنکھ کھول کر میرے اشتہارات کی عبارت کو پڑھے گا اس کو افسوس سے کہنا پڑے گا کہ ناحق معترض نے روز روشن پر پردہ ڈالنا چاہا ہے اور ایک بھاری خیانت سے کام لیا ہے۔ اُس نے میرے اشتہارات کو پڑھ لیا ہے اور اس کو خوب علم تھا کہ میری پیشگوئی کے الفاظ جو زلزلہ کی نسبت بیان کئے گئے ہیں وہ انجیل کے الفاظ کی طرح سُست اور معمولی نہیں ہیں تاہم اس نے دانستہ ہٹ دھرمی کو اختیار کرلیا۔ کس کو معلوم نہیں کہ عربی الہام یعنی عفت الدیارمحلھاومقامھاایک ایسی چونکا دینے والی خبر پیشگوئی کے طور پر بیان کرتاہے جس سے بدنوں پر لرزہ پڑ جائے کیا یہ ایک معمولی بات ہے کہ شہر اور دیہات زمین میں دھنس جائیں گے اور اُردو میں تصریح کی گئی ہے کہ وہ زلزلہ کا دھکا ہوگا۔ دیکھو اخبار الحکم صفحہ ۱۵ کالم ۲ مورخہ ۲۴ دسمبر ۱۹۰۳ء اور پھر ۱۹۰۱ء میں جو رسالہ آمین شائع کیا گیا تھا اس میں لکھا گیا ہے کہ وہ ایسا حادثہ ہوگا کہ اس سے قیامت یاد آجائے گی اور ضالحکم ۲۴ ؍مارچ ۱۹۰۴ ؁ء

اخبار سول ملٹری گزٹ میں یہ امر تحقیقات شدہ شائع کیا گیا ہے کہ ہندوؤں کا مندر جو کانگڑہ میں زلزلہ سے نابود ہو گیا ہے دو ہزار برس سے یہ مندر چلا آتا تھا۔ پس اگر ایسا زلزلہ پہلے اس سے آیا ہوتا تو یہ عمارتیں پہلے سے ہی نابود ہو جاتیں۔منہ

ایسا ہی میری کتاب ’’مواہب الرحمن‘‘ مطبوعہ ۱۹۰۲ ء میں ایک سخت زلزلہ کی خبر ہے جس سے عمارتیں گریں گی اور اس میں نہ صرف عمارتوں کے گرنے کا ذکر ہے بلکہ صاف لفظوں میں زلزلہ کا ذکر ہے۔ دیکھو مواہب الرحمن صفحہ ۸۶۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 166

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 166

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/166/mode/1up


میں شائع کیا گیا ہے کہ مکذّبوں کو ایک نشان دکھایا جائے گا۔ اور پھر اشتہار الانذاز میں لکھا ہے کہ آنے والا زلزلہ قیامت خیز زلزلہ ہوگا۔ پھر النداء میں لکھا ہے کہ آنے والے زلزلہ سے زمین زیروزبر ہو جائے گی۔ پھر اسی میں لکھا ہے کہ یہ عظیم الشان حادثہ محشر کے حادثہ کو یاد دلائے گا۔ اور پھر اسی میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تیرے لئے زمین پر اُتروں گا تا اپنے نشان دکھلاؤں ہم تیرے لئے زلزلہ کا نشان دکھلائیں گے۔ اور وہ عمارتیں جنؔ کو غافل انسان بناتے ہیں یا آئندہ بنائیں گے گرادیں گے اور میں وہ نشان ظاہر کروں گاجس سے زمین کانپ اٹھے گی تب وہ روز دنیا کے لئے ایک ماتم کا دن ہوگا پھر اس اشتہار میں جس کی سرخی ہے ’’زلزلہ کی خبر بارسوم‘‘۔ آنیوالے زلزلہ کی نسبت یہ عبارت لکھی ہے کہ درحقیقت یہ سچ ہے اور بالکل سچ ہے کہ وہ زلزلہ اس ملک پر آنے والا ہے جو پہلے کسی آنکھ نے نہیں دیکھا۔ اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی دل میں گذرا۔ اب ایماناً کہو کہ انجیل میں زلزلہ کے بارے میں اس قسم کی عبارتیں کہاں ہیں اور اگر ہیں تو وہ پیش کرنی چاہئیں ورنہ خدا تعالیٰ سے خوف کرکے اس حق پوشی سے باز آناچاہئے۔

قولہ۔ترجمہ میں زلزلہ کا لفظ بھی داخل کردیا تاکہ جاہل لوگ یہ سمجھیں کہ الہام میں زلزلہ کا لفظ بھی موجود ہے۔

اقول۔ اے اندھے صاحب پیشگوئی کے مجموعی الفاظ یہ ہیں۔’’ زلزلہ کا دھکّا عفت الدیار محلھا و مقامھا ‘‘۔ دیکھو اخبارالحکم ۱۹۰۳ء و ۱۹۰۴ء ان دونوں کے معنے یہ ہوئے کہ ایک زلزلہ کا دھکّا لگے گا اور اس دھکّا سے ایک حصہ اس ملک کا تباہ ہو جائے گا۔ اور عمارتیں گر جائیں گی اور نابود ہو جائیں گی۔ اب بتلاؤ کہ کیا ہم نے جاہلوں کو دھوکا دیا ہے*۔

جیسا کہ ہم ابھی لکھ چکے ہیں میری کتاب مواہب الرحمن میں بھی جو ۱۹۰۲ء میں چھپ کر شائع ہو گئی تھی صریح لفظوں میں یہ پیشگوئی ہے اور زلزلہ کا نام لے کر ذکر موجود ہے۔ پھر اس حالت میں جاہل تو وہ لوگ ہیں کہ جو اتنی تصریح اور توضیح کے بعد بھی سمجھتے ہیں کہ زلزلہ کا کہاں ذکر ہے ان کو چاہیے کہ آنکھیں کھول کر اخبار الحکم ۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۳ء کو پڑھیں اور رسالہ آمین



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 167

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 167

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/167/mode/1up


یا آپ جاہلوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اور کیا ہم نے جھوٹ بولا ہے یا آپ جھوٹ بولتے ہیں؟ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ اخبار الحکم موجود ہے۔ اس کے دونوں پرچوں کو دیکھ لو اور یہ اخبار زلزلہ موعودہ سے ایک سال پہلے ملک میں شائع ہوچکی ہے۔ گورنمنٹ میں بھی پہنچ چکی ہے اب بتلاؤ کس تعصب نے آپ کو اس جھوٹ پر آمادہ کیا جو آپ دعویٰ کر بیٹھے جو زلزلہ کا ذکر پیشگوئی میں موجود ہی نہیں ہے۔

قولہ۔ یہ الہام ۳۱؍ مئی ۱۹۰۲ء ؁ کے الحکم کے۱؂ صفحہ کالم ۴ پر موجود ہے اور اس کے سامنے صاف طور پر جلی قلم سے لکھا ہوا ہے۔ متعلق طاعون۔

اقول۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہ زلزلہ بھی طاعون کا ایک ضمیمہ ہے اور اس سے متعلق ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار فرما دیا ہے کہ زلزلہ اور طاعون دونوں تیری تائید کے لئے ہیںؔ پس زلزلہ درحقیقت طاعون سے ایک تعلق رکھتا ہے کیونکہ طاعون بھی میرے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نشان ہے اور ایسا ہی زلزلہ بھی۔ پس اسی وجہ سے دونوں کو باہم تعلق ہے اور دونوں ایک ہی امر کے مؤیّد ہیں۔ اور اگر یہ وہم دل میں پیدا ہو کہ اس فقرہ سے مراد درحقیقت طاعون ہی ہے تو یہ وہم درحقیقت فاسد ہے کیونکہ جو چیز کسی چیز سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ درحقیقت اس کاعین نہیں ہوسکتی ماسوا اس کے قرینہ قویہ اس جگہ موجود ہے کہ اس فقرہ سے مراد درحقیقت طاعون نہیں ہے یعنی جب کہ پہلے اس سے یہ الہام موجودہے کہ زلزلہ کا دھکّاتو پھر ذرہ انصاف اور عقل کو دخل دے کر خود سوچ لینا چاہیئے کہ عمارتوں کا گرنا اور بستیوں کا معدوم ہونا کیا یہ طاعون کی صفات میں سے ہوسکتا ہے بلکہ یہ تو زلزلہ کی صفات میں سے ہے اس قدر مُنہ زوری ایک پرہیز گار انسان میں نہیں ہوسکتی کہ جو معنے ایک عبارت کے الفاظ سے پیدا ہوسکتے ہیں

کوپڑھیں جو ۱۹۰۱ ء میں شائع ہوا تھا اور پھر مواہب الرحمن کے صفحہ ۸۶ کو پڑھیں جو ۱۹۰۲ء میں شائع ہوئی تھی اور پھر اپنی ایمانی حالت پر روویں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 168

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 168

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/168/mode/1up


اور جو اس کے سیاق اور سباق سے مترشح ہو رہے ہیں اور جو معنے واقعہ کے ظہور سے کھل گئے ہیں اور انسانی کانشنس نے قبول کرلیا ہے کہ جوکچھ ظاہر ہوا ہے وہ وہی ہے جو عفت الدیار کے الہام سے نکلتا ہے پھر اس کے انکار پر اصرار کرے اگر فرض بھی کرلیں کہ خود ملہم نے اپنے اجتہاد کی غلطی سے اس حادثہ کو جو عفت الدیار کے الہام سے ظاہر ہوتاہے طاعون ہی سمجھ لیا تھا تو اس کی یہ غلطی کہ قبل از وقوع ہے مخالف کے لئے کوئی حجت نہیں۔ دنیا میں کوئی ایسا نبی یا رسول نہیں گذرا جس نے اپنی کسی پیشگوئی میں اجتہا دی غلطی نہ کی ہو تو کیا وہ پیشگوئی آپ کے نزدیک خدا تعالیٰ کا ایک نشان نہ ہو گا اگر یہی کفر دل میں ہے تو دبی زبان سے کیوں کہتے ہو پورے طور پر اسلام پر کیوں حملہ نہیں کرتے کیا کسی ایک نبی کا نام بھی لے سکتے ہو جس نے کبھی اجتہادی طور پر اپنی کسی پیشگوئی کے معنے کرنے میں غلطی نہیں کھائی ۔ تو پھر بتلاؤ کہ اگر فرض بھی کرلیں کہ لفظ متعلق کے معنے بعینہٖ طاعون ہے تو کیا یہ حملہ تمام انبیاء پر نہیں۔ عفت الدیارکے الہامی فقرہ پر نظر ڈال کر صاف ظاہر ہے کہ اس فقرہ سے مرا ؔ د یہ ہے کہ وہ ایسا حادثہ ہوگا کہ ایک حصہ ملک کی عمارتیں اس سے گر جائیں گی۔ اور نابود ہو جائیں گی۔ اور ظاہرہے کہ طاعون کا عمارتوں پر کچھ اثر نہیں ہوتا۔ پس اگر ایڈیٹر اخبار الحکم نے ایسا لکھ بھی دیا کہ یہ فقرہ طاعون سے متعلق ہے اور تعلّق سے وہ معنے سمجھے جائیں جو معترض نے کئے ہیں تو غایت مافی الباب یہ کہا جائے گا کہ ایڈیٹر الحکم نے ایسا لکھنے میں غلطی کی۔ اور ایسی غلطی خود انبیاء علیھم السلام سے پیشگوئیوں کے سمجھنے میں بعض دفعہ ہوتی رہی ہے۔ جیسا کہ ذھب وھلی کی حدیث بخاری میں موجود ہے اور اس کے لفظ یہ ہیں۔ قال ابو موسٰی عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم رئیت فی المنام انّی اھاجرمن مکۃ الٰی ارض بھا نخل فذھب وھلی الٰی انھا الیمامۃ اوھجر فاذا ھی المد ینۃ یثرب (بخاری جلد ثانی باب ہجرۃالنّبی صلّی اللّٰہ علیہ و سلم

واصحابہ الی المدینہ*) یعنی ابو موسیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 169

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 169

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/169/mode/1up


آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے مکّہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کی ہے جس میں کھجوروں کے درخت ہیں۔ پس میرا خیال اِس طرف گیا کہ وہ زمین یمامہ یا زمین ہجر ہے مگر وہ مدنیہ نکلا یعنی یثرب۔ اب دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کی رؤیا وحی ہے اور جن کا اجتہاد سب اجتہادوں سے اسلم اور اقویٰ اور اصح ہے اپنی رؤیا کی یہ تعبیر کی تھی کہ یمامہ یا ہجر کی طرف ہجرت ہوگی ۔ مگر وہ تعبیر صحیح نہ نکلی۔ پس کیا یہ پیشگوئی آپ کے نزدیک پیشگوئی نہیں ہے؟ اور کیا آپ طیار ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایک حملہ کردیں ۔ پس جب کہ اجتہادی غلطی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک ہیں تو پھر آ پ کا یہ کیا ایمان ہے کہ تعصب کے جوش میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی بھی کچھ پروا نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ سے کچھ شرم نہیں ۔ اور پھر سچے منصف بن کر اور خدا ترسی کا دھیان رکھ کر عفت الدیار کے الفاظ کی طرف دیکھنا چاہیئے کہ اس کے الفاظ طاعون پر صادق آتے ہیں یا زلزلہ پر۔ کیا یہ ایمانداری ہے کہ جب کہ واقعہ موعودہ کے ظہور نے عفت الدیار کے معنوں کو خود کھول دیا پھر بھی اس سے مراد طاعون ہی سمجھیں۔ اس پیشگوئی کے الفاظ صاف طور پر پکار رہے ہیں کہ ؔ وہ ایک حادثہ ہے جس سے عمارتیں گر جائیں گی اور ایک حصہ ملک کی بستیوں کا نابود ہو جائے گا۔ اگر آپ عربی نہیں جانتے تو کسی عربی دان سے پوچھ لیں کہ عفت الدیار محلھا و مقامھا کے کیامعنے ہیں اور اگر کسی پر اعتبار نہ ہو تو اس مصرع کے معنے جو شارح نے لکھے ہیں وہ دیکھ لیں اوروہ معنے یہ ہیں اِنْدَرَسَتْ دِیَارُ الْاَحْبَابِ وَانْمَحٰی مَاکَانَ مِنْھَا لِلْحَوْلِ وَمَا کَانَ لِلْاِئقَامَۃِ (دیکھومعلّقہ چہارم شرح مصرع اوّل) یعنی دوستوں کی بستیاں اور اُن کے گھر نابود ہوگئے اور وہ عمارتیں نابود ہوگئیں جو چند روزہ اقامت کے لئے تھیں جیسے سرائے یا قوموں کی زیارت گاہیں۔ اور وہ عمارتیں بھی نابود ہوگئیں جو مستقل سکونت کی تھیں۔ اب بتلاؤ یہ معنے طاعون پر کیونکر صادق آسکتے ہیں اور طاعون کو عمارتوں کے گرنے سے کیا تعلق ہے۔ ان معنوں میں اورخدا تعالیٰ کی وحی کے معنوں میں صرف ماضی اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 170

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 170

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/170/mode/1up


مضارع کا فرق ہے یعنی لبید نے اس جگہ ماضی کے معنے ملحوظ رکھے اور خدا تعالیٰ کے کلام میں اس جگہ استقبال کے معنے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ ایک حصہ ملک کی عمارتیں اور بستیاں نابود ہو جائیں گی۔ نہ عارضی سکونتیں باقی رہیں گی نہ مستقل سکونتیں۔ اب بتلاؤ کہ کیا یہ معنے طاعون پر صادق آسکتے ہیں؟ اب ہٹ دھرمی کرنا کیا فائدہ۔ ناحق کی ضد دوہی قسم کے آدمی کیا کرتے ہیں یا سخت احمق یا سخت بے ایمان اور متعصّب ۔ پھر اگر آپ وہی اعتراض پیش کریں جس کا پہلے بھی جواب دیا گیا ہے یعنی یہ کہ یہ ماضی کا صیغہ ہے اور لبید رضی اللہ عنہ نے ماضی کے معنوں پر استعمال کیا ہے تو اس کا جواب پہلے بھی گذر چکا ہے کہ اب یہ کلام لبید کا نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے ۔ خدا تعالیٰ نے جابجا قرآن شریف میں عظیم الشان پیشگوئیوں کو ماضی کے لفظ سے بیان کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے333 ۱؂* اب ذرہ کچھ انصاف کو کام میں لاکر جواب دو کہ اس پیشگوئی کے الفاظ ماضی کے صیغہ میں ہیں یا مضارع کے صیغہ میں ۔عقل مند کے لئے تو یہ ایک سخت ندامت کاموقعہ ہے بلکہ ایسی غلطی مرنے کی جگہ ہوجاتی ہے جب کہ ایک شخص باوجود دعوے علم ایکؔ بدیہی امر کا انکار کرے۔ مگرمیں سمجھ نہیں سکتا کہ ان جوابات کے پرکھنے کے بعد آپ کی کیاحالت ہوگی۔ انسان کو ایسا طریق اختیار کرنے سے کیا فائدہ جس سے ایک طرف حق کو ترک کرکے خدا تعالیٰ کو ناراض کرے اور دوسری طرف ناحق پر ضد کرکے شرمندگی اور رُسوائی اُٹھاوے اور خدا تعالیٰ کی کلام میں جو اکثر پیشگوئیوں کو ماضی کے صیغہ میں بیان کیا گیا ہے اس کی اصل فلاسفی یہ ہے کہ ہر ایک واقعہ جو زمین پر ہونے والا ہے وہ پہلے ہی آسمان پر ہوچکتا ہے۔ پس آسمان کے لحاظ سے گویا وہ واقعہ

بائبل میں بھی بہت جگہ آئندہ واقعات کو ماضی کے صیغہ میں بیان کیا گیا ہے جیسا کہ یہ فقرہ بابل گِر پڑا،گِر پڑا۔ دیکھو یسعیاہ باب ۲۱ آیت۵*۔ اور جیسا کہ یہ فقرہ۔ ہائے نبو پر کہ وہ ویران ہو گیا۔ قریتیم رُسوا ہوا۔ دیکھو یرمیاہ باب ۴۸۔ آیت ۱۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 171

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 171

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/171/mode/1up


زمانہ ماضی سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی بناء پر یہ امر ہے کہ عام لوگوں کو بھی جو صدہا سچی خوابیں آتی ہیں تو ان خوابوں میں بھی آئندہ ہونے والی بات کو ماضی کے طور پر بتلایا جاتا ہے ۔ مثلاً کسی کے گھر میں جو لڑکا پیدا ہوتا ہے تو دکھلایا جاتا ہے کہ لڑکا پیدا ہوگیا یا لڑکی پیدا ہوگئی یا ایسی چیز اس کو مل گئی جس کی تعبیر لڑکا ہے۔ اور پیشگوئیوں کو ماضی کے لفظ پر لانا اور پھر مضارع کے معنوں پر استعمال کرنا نہ صرف قرآن شریف میں ہے بلکہ پہلی کتابوں میں بھی یہ محاورہ شائع متعارف ہے اور ایک بچہ بھی انکار نہیں کرسکتا۔ اور حدیثوں میں بھی بکثرت یہ محاورہ موجود ہے۔ عن انس رضی اللّٰہ عنہ قال، قال النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلم خربت خیبر۔ انا اذا نزلنا بساحۃ قوم فساء صباح المنذرین۔ خیبر پر فتح پانے سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خیبر خراب ہوگیااور ہم جب کسی قوم کے صحن میں اُتریں پس اس قوم کی نا مبارک صبح ہے جو ڈرائی گئی ۔ پس آپ نے اس جگہ ماضی کا صیغہ استعمال کیا۔ اور مقصود یہ تھا کہ آئندہ خراب ہوگا۔

غرض یہ ایک پیشگوئی تھی جو ماضی کے صیغہ میں کی گئی تھی اور دراصل مضارع کے معنے رکھتی تھی یعنی استقبال کے ۔ پس اسی طرح یہ بھی ایک پیشگوئی ہے یعنی عفت الدیار محلھا ومقامھا جو ماضی کے صیغہ میں ہے اور معنی استقبال کے رکھتی ہے اور جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں الدیارسے مراد ایک حصہ ملک کا ہے جیسا کہ الف لام اس پر دلالت کرتا ہے اسی وجہ سے لبید رضی اللہ عنہ نے بھی الدیار سے مراد عام طور پر دیار مراد نہیں لی بلکہ دیارِ احباب مرادلی ہے اور اس جگہ یعنی خدا کی کلام میں جو عفت الدیار محلھا و مقامھا ہے محل سے مراد ہندوؤں کی قدیم زیارت گاہیں ہیں یعنی ؔ وہ مندرہیں جو قدیم زمانہ سے دھرم سالہ اور کانگڑہ میں موجود تھے جن کی بنیاد کا زمانہ کم سے کم سولہ سو برس ثابت ہے اور مقام سے مراد وہ عمارتیں ہیں جو دائمی سکونت کے لئے اس نواح میں بنائی گئی تھیں اور خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی میں یہ خبر دی تھی کہ وہ مندر یعنی بُت خانے بھی گر جائیں گے جن کا گرنا اشاعت توحید



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 172

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 172

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/172/mode/1up


کے لئے بطور ارہاص کے ہے۔ اور دوسری عمارتیں بھی گر جائیں گی۔ چنانچہ ایساہی وقوع میں آیا پس جب کہ ظاہر الفاظ کے رو سے پیشگوئی ظہور میں آگئی تو اب اس سے انکار کرنا جھک مارنا ہے ظاہر الفاظ حق رکھتے ہیں کہ معنی کرنے میں اُن کی رعایت ہو اور صَرف عن الظاہر اس وقت سراسر حماقت ہے جب کہ ظاہری صورت میں پیشگوئی کے الفاظ پورے ہو جائیں۔ اگر یہ فقرہ انسان کا افترا ہوتا یعنی یہ فقرہ کہ عفت الدیار محلھا و مقامھا اور اس سے مرادطاعون ہوتی تو ایسا مفتری کبھی یہ فقرہ استعمال نہ کر سکتا کیونکہ اس کو عقل منع کرتی کہ طاعون کی نسبت وہ لفظ استعمال کرے جو طاعون پر صادق نہیں آسکتے کیونکہ طاعون سے عمارتیں نہیں گرتیں اور اگر اجتہاد کے طور پر قبل از وقت صحیح معنے نہ کئے گئے تو اس کانام اجتہادی غلطی ہے اور بعد از وقت جب حقیقت کھل گئی تب صحیح معنوں کو نہ ماننا اس کانام شرارت اور بے ایمانی اور ہٹ دھرمی ہے۔

قولہ۔ ہم تو آپ سے وہ الہام پوچھتے ہیں جس میں آپ نے یہ خبر دی ہو کہ زلزلہ آئے گا لیکن ایسا الہام آپ قیامت تک پیش نہیں کرسکتے۔

اقول۔ میں کہتا ہوں کہ جس قیامت کو آپ دُور سمجھتے تھے وہ قیامت تو آپ پر آگئی۔دیکھو اخبار الحکم صفحہ ۱۵ کالم نمبر ۲ مورخہ ۲۴ دسمبر ۱۹۰۳ء ؁ جس میں تصریح کردی گئی ہے کہ زلزلہ کا دھکّاآئے گا اور پھر پا۵نچ ماہ بعد ۳۱ مئی ۱۹۰۴ء میں اس دھکا کی عظمت اور قوت اس وحی الٰہی میں بیان فرمائی گئی ہے یعنی یہ کہ عفت الدیار محلھا و مقامھا جس کے یہ معنے ہیں کہ وہ ایسا دھکّا ہوگا جس سے اس ملک پنجاب کی ایک حصہ کی بستیاں تباہ ہو جائیں گی۔ اور عمارتوں کا نام و نشان نہیں رہے گا۔ خواہ وہ عارضی سکونتیں تھیں جیسا کہ دھرم سالہ اورکانگڑہ میں ہندوؤں کے پوجا کے مندر تھے اورخواہ مستقل سکونتیں تھیں جیسا کہ دھرم سالہ اور کانگڑہ وغیرہ کی مستقل سکونتوں کی جگہ تھیں۔ اب آپ فرمایئے کہ وہ قیامت جس کو آپ بہت دُور سمجھتے تھے اورکہتے تھے کہ ایسا الہام تم قیامت تک پیش



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 173

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 173

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/173/mode/1up


نہیں کرسکتے وہ قیامت آپ پر آگئی یا نہیں؟ ہر یک سمجھ سکتا ہے کہ اُس قیامت نےؔ ضرور آپ کو پکڑ لیا۔ کیونکہ جس زلزلہ کی پیشگوئی سے آپ منکر ہیں اس کا صریح طورپر ذکر ۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۳ء ؁ کے اخبار الحکم کے صفحہ ۱۵ کالم نمبر ۲ میں موجود ہے ۔ ذرا آنکھیں کھولو اور پڑھ لو اور کسی چپنی میں پانی ڈال کر ڈوب مرو۔ پس یہی زلزلہ مذکورہ بالا ہے جس کی صفات ظاہرکرنے کے لئے وحی الٰہی عفت الدیارپہلی وحی کے بعد نازل ہوئی۔ تو کیا اب تک آپ پر قیامت نہ آئی؟ اگر کہو کہ قیامت کو تو لوگ مر جائیں گے اور میں اب تک زندہ موجود ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ درحقیقت آپ ذلّت کی موت سے مرچکے ہیں اور یہ جسمانی زندگی روحانی موت کے بعد کچھ چیز نہیں۔ کیا وہ شخص بھی زندہ کہلا سکتا ہے جس نے بڑے زور و شور سے یہ دعویٰ کیا تھا کہ پیشگوئی میں ہرگز زلزلہ کا ذکر نہیں اور بڑے گھمنڈ سے اس بات پر اصرار کیا تھا کہ قیامت تک تم ایسی پیشگوئی پیش نہیں کرسکتے جس میں زلزلہ کاذکر ہو اور پھر اس کو دکھلایا گیا کہ وہ پیشگوئی موجود ہے جس میں صریح الفاظ میں زلزلہ کا ذکر ہے جو عفت الدیارکے الہام سے بھی پانچ۵ ماہ پہلے الحکم میں شائع ہوچکی ہے اور الہام عفت الدیار محلھا و مقامھا اُسی زلزلہ مذکورہ کی عظمت بیان کرتا ہے کہ وہ ایسا ہوگا اس لئے اس میں دوبارہ زلزلہ کا لفظ لانے کی ضرورت نہ تھی۔

اب بتلاؤکہ ایسی زندگی بھی کیا خاک زندگی ہے کہ ایک بات کا قیامت تک نہ ہونے کا دعویٰ کیا اور وہ بغل میں سے ہی نکل آئی ؂


بمردی کہ تا زیستن مرد را

بہ از زندگانی بترکِ حیا

جہنم کزو داد فرقان خبر

بسوزد درو کاذبِ بدگہر

جو شخص اندھا اور مردہ نہ ہو سمجھ سکتا ہے کہ جس قدر اس پیشگوئی کے لئے صفائی اور قوتِ بیان چاہیئے وہ سب اوّل درجہ پر اس پیشگوئی میں موجود ہے بلکہ اس سے بڑھ کر اور اس سے انکار ایک ایسی ہٹ دھرمی ہے جس سے صریح سمجھا جاتاہے کہ ایسے شخص کو خدا پر ایمان



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 174

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 174

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/174/mode/1up


ہی نہیں۔ اور یہ کچھ نیا طریق نہیں۔ پہلے زمانوں میں بھی وہ لوگ جن کو حق کو قبول کرناکسی طرح منظور نہ تھا یہی طریق اختیار کرتے آئے ہیں۔

شاید آپ تعصّب کے جوش سے یہ بھی اعتراض کردیں کہ خداتعالیٰ نے زلزلہ کے آنے کی پانچ ماہ پہلے خبردی جو الحکم ۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۳ء ؁ کو شائع ہوئی اور پھر زلزلہ کی شدت کی نشانیاں اور اس کا ہولناؔ ک نتیجہ پانچ ماہ بعدبذریعہ اپنی وحی کے بیان کیا۔ یکجا کیوں بیان نہ کیا۔ لیکن اگر آپ ایسااعتراض کریں تو یہ اعتراض بھی نیا نہیں ہوگا بلکہ یہ وہی اعتراض ہے جو آج سے تیرہ سو برس پہلے ابوجہل ملعون اور ابو لہب ملعون نے قرآن شریف پر کرکے کہا تھا۔33۔ ۱؂ سو ایسا اعتراض تَشابَہَتِ الْقُلُوب میں داخل ہوگا جس سے ایک مسلمان کو پرہیز کرناچاہیئے۔

قولہ۔ آپ نے اس الہام میں یہ بھی نہیں بتایا کہ زلزلہ سے مراد کیاہے۔

اقول۔ ظاہر وحی الٰہی میں زلزلہ کا لفظ ہے مگر ایسا زلزلہ جو نمونہ قیامت ہوگا بلکہ قیامت کا

زلزلہ ہوگا اور یہ کہ اس سے ہزارہا مکان گر یں گے کئی بستیاں نابود ہو جائیں گی اور اس کی نظیر پہلے زمانہ میں نہیں پائی جائے گی۔ اور ناگہانی طور پرہزارہا آدمی مر جائیں گے اور ایسا واقعہ ہوگا جو پہلے کسی آنکھ نے دیکھا نہیں ہوگا۔ پس اس صورت میں مکانوں کا گرنا اور ہزاروں لوگوں کا یک دفعہ مرجانااور ایک خارق عادت امر ظاہر ہونا اصل مقصود پیشگوئی ہے۔ اور اگرچہ ظاہر الفاظ پیشگوئی سے زلزلہ سے مراد بلا شبہ زلزلہ ہی سمجھا جاتا ہے مگر خدا تعالیٰ کے کلام کے ساتھ ادب اسی بات کو چاہتا ہے کہ ہم اصل مقصود کو جو ایک خارق عادت امر ہے اور معجزہ ہے مدِّنظر رکھیں اور زلزلہ کی کیفیت میں دخل نہ دیں کہ وہ کس طرح کا ہوگا اور کس رنگ کا ہوگا۔ گو ظاہر الفاظ یہی ظاہر کرتے ہیں کہ وہ زلزلہ ہی ہوگا کیونکہ ممکن ہے کہ وہ کوئی اور آفت شدید ہو جس کی نظیر پہلے دنیا میں نہیں دیکھی گئی۔ اور زلزلہ کی کیفیت اور خاصیت اپنے اندر رکھتی ہو مثلاً



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 175

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 175

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/175/mode/1up


خسف کی صورت پر ہو اور کوئی زلزلہ محسوس نہ ہو اور زمین تہ و بالا ہو جائے یا کوئی اور خارقِ عادت آفت ظہور پذیر ہو جس کی طرف انسانی علم نے کبھی سبقت نہیں کی۔ پس بہرحال وہ معجزہ ہے۔ ہاں اگر وہ شدید آفت ظاہر نہ ہوئی جو دنیا میں ایک زلزلہ ڈال دے گی جو وحی الٰہی کے ظاہر الفاظ کی رو سے زلزلہ کے رنگ میں ہوگی یا کوئی معمولی امر ظہور میں آیا جس کو دنیا ہمیشہ دیکھتی ہے جو خارق عادت اور غیر معمولی نہیں اور جو سچ مچ قیامت کانمونہ نہیں اور یا وہ حادثہ میری زندگی میں ظاہر نہ ہوا۔ تو بیشک نقارہ بجاکر میری تکذیب کرو اور مجھے جھوٹا سمجھو۔ غرض تو اس حادثہ عظمیٰ سے یہ ہے جو نمونہ قیامت ہوگا اور دنیا کو ایک آن میں تباہ کرجائے گا۔ اور ہزاروں انسانوں کو ہماری جماعت میں داخل کرے گا۔

قوؔ لہ۔ آ پ نے موقع دیکھ کر براہین احمدیہ کی عبارتوں کو بھی زلزلہ پر چسپاں کیا۔ حالانکہ ان عبارتوں میں زلزلہ کا ذکر نہیں۔

اقول۔ یہ اسی طرح کا اعتراض ہے جو اس زمانہ میں متعصب پادری قرآن شریف کی اس پیشگوئی پر کرتے ہیں۔3۱؂ اور کہتے ہیں کہ موقع دیکھ کریہ پیشگوئی اپنی اٹکل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ بنائی اور رومی سلطنت کے غلبہ کی محض اس خیال سے پیشگوئی کی کہ رومی طاقت دراصل بڑھی ہوئی تھی جنگی سامان پورے تھے۔ فوج تجربہ کار بہادر تھی اور ایرانی سلطنت کی حالت اس کے برعکس تھی اس لئے موجودہ حالات کو دیکھ کر پیشگوئی کردی۔ پس مجھے تعجب ہے کہ پادریوں کی عادت اور خصلت کہاں سے آپ میں آگئی۔ ظالم طبع پادری قرآن شریف کی تمام پیشگوئیوں پر یہی اعتراض کرتے ہیں جو آپ نے کیا۔ توبہ کرو ایسا نہ ہو کہ اس مشابہت سے بڑھ کر کوئی اور ترقی کرلو اور اپنے اعتراض کو ذرا آنکھ کھول کر دیکھو کہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۵۷ میں یہ پیشگوئی ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنی چمکار دکھاؤ ں گا اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 176

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 176

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/176/mode/1up


ظاہر کردے گا۔ فلمّا تجلّٰی ربّہ للجبل جعلہ دکّا۔ قوۃ الرحمن لِعُبَیْدِ اللّٰہِ الصَّمد عربی الہام کا ترجمہ یہ ہے کہ جب خدا پہاڑ پر تجلی کرے گا تو اُسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے گا۔ خدا ایسا کرے گا تا اپنے بندہ کی سچائی ظاہر کرے۔

اب سوچ کر دیکھو کہ میں نے اس میں اپنی طرف سے کیا بنایا۔ اس جگہ خدا تعالیٰ خود ایک چمکار دکھانے کا وعدہ کرتاہے۔ جیسا کہ کوہ طور پرموسیٰ کے لئے چمکار ظاہرہوئی اور ایک ایسی قدرت نمائی کا وعدہ کرتا ہے جو خارق عادت اور میری رفعت کاموجب ہوگی۔ اور پھر تیسری دفعہ یہ وعدہ فرماتا ہے کہ خدا بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا۔ اور پھر آخر میں اس زور آور حملہ اور اپنی چمکار اوراپنی قدرت نمائی کی شرح کرتا ہے جس کا اوپر ذکر کیا ہے اور فرماتا ہے کہ خدا ایک خاص پہاڑ پر تجلی کرے گا اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرؔ دے گا۔ اب اگر آپ کی آنکھ تعصب سے کچھ دیکھ نہیں سکتی تو کسی اور منصف مزاج سے پوچھ لو کہ اس الہامی عبارت میں کسی عظیم الشان نشان کاوعدہ دیا گیا ہے یا خاص ہماری بناوٹ ہے اور اگروعدہ ہے تو کیا پیشگوئی کے الفاظ سے یہی نکلتا ہے کہ نشان کے طور پر پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے گا یا کچھ اور نکلتا ہے ۔ رہا یہ اعتراض کہ اس وقت ہمارے ذہن کا اس طرف انتقال نہ ہوا کہ درحقیقت پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا یہ ایسی ہی صورت ہے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن کا اس طرف انتقال نہ ہوا کہ جو ہجرت کی جگہ کشفی طور پر دکھائی گئی کہ وہ مدینہ ہے، یمامہ یاہجر نہیں ہے۔ اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ذہن کا اس طرف انتقال نہ ہوا کہ حدیبیہ والے سفر میں مکہ کے اندر نہیں جاسکیں گے اور نہ طواف خانہ کعبہ کرسکیں گے۔ پس اگر آپ کے ایسے ہی اعتراض ہیں جو اس زمانہ کے نابکار کفار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں پر کرتے ہیں تو مجھے تو یہ فکر پڑگئی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ کسی دن آپ اسلام سے ہی ہاتھ دھوئیں۔

اب یاد رہے کہ خدا تعالیٰ نے پیشگوئی متذکرہ بالا میں جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۵۷ میں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 177

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 177

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/177/mode/1up


موجود ہے ایک صریح اشارہ کے ساتھ زلزلہ کا ذکر کردیا ہے کیونکہ آیت33۱؂

اس موقع کی آیت ہے جب کہ خدا تعالیٰ نے کوہِ طور پر ایک زلزلہ ڈال کر اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا جیسا کہ یہ بیان مفصل توریت میں موجود ہے پس اس صورت میں آپ کی اس حرکت کا نام تعصب رکھیں یا نادانی رکھیں؟ جو آپ کہتے ہیں کہ ان عبارتوں میں کہیں زلزلہ کا ذکر نہیں۔بندہ ء خدا اگر زلزلہ کا ذکر نہیں تو تمہیں اس بات سے بھی انکار کرنا چاہیئے کہ کوہِ طور بھی زلزلہ سے ٹکرے ٹکڑے ہوگیا تھا۔

قولہ۔عفت الدیارکے مصرع کے یہ معنے ہیں کہ زمانہ گذشتہ میں مکان برباد ہوگئے تھے۔

اقول۔ الحمد للہ! یہ تو آپ نے مان لیا کہ عفت الدیار محلھا و مقامھاکے یہی معنی ہیں کہ مکانات گر جانا اور برباد ہو جانا۔ باقی رہا یہ کہ آپ عفت کے لفظ کو ماضی کے معنوں تک محدود رکھتے ہیں۔ اس خیال کے ردمیں ہم قرآن شریف کے نظائر پیش کرچکے ہیں بلکہ اس کے لئے تو تمام عربؔ کے باشندے ہمارے گواہ ہیں۔ اب بتلاؤ کیا اب بھی یہ پیشگوئی خارق عادت ہے یا نہیں اگر یہ کہو کہ اس میں کوئی وقت نہیں بتلایا گیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جن پیشگوئیوں میں خدا تعالیٰ کو یہ منظور ہوتا ہے کہ ان کا وقت مخفی رکھا جائے اُن میں وہ ہرگز نہیں بتلاتا کہ فلاں وقت وہ پیشگوئی پوری ہوگی۔ پس جب کہ خدا تعالیٰ صاف لفظوں میں فرماتا ہے کہ زلزلہ کی پیشگوئی ایسے وقت میں ظاہر ہوگی جب کہ کسی کو خبر نہیں ہوگی اور ناگہانی طور پر وہ حادثہ ظہور میں آئے گا۔ تو پھر اس حادثہ کا وقت بتلانا اپنے ہی قول کی مخالفت ہے۔ دیکھو اشتہارالنداء صفحہ ۱۴۔اور اگر کہو کہ پھر تعیّن کے بغیر پیشگوئی میں خصوصیت کیا ہوئی۔ یوں تو کبھی کبھی دنیا پر کوئی حادثہ آجاتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تعیّن کافی ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ میری زندگی میں میری تصدیق کے لئے یہ حادثہ آئے گا اور اس وقت کے کروڑہا لوگ زندہ ہوں گے جو یہ حادثہ دیکھ لیں گے اور حادثہ ایسا ہوگا کہ اس ملک میں پہلے زمانوں میں اس کی نظیر نہیں ہوگی۔ پس یہ تعیین کافی ہے کہ وہ قیامت خیز زلزلہ میری



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 178

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 178

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/178/mode/1up


زندگی میں اور اکثر مخالفوں کی زندگی میں آئے گا۔ اور یاد رکھو کہ تمہاری طرح مخالفین مکہ نے بھی

مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُکہہ کر وقت کی تخصیص چاہی تھی۔اور ان کو وقت نہیں بتلایاگیا تھا۔

قولہ۔ جو اخبار اسلامی معاملات سے ہمدردی رکھتے ہیں ان کو چاہیئے کہ اس مضمون کو اپنے جرائد میں نقل کرکے لوگوں کو آگاہ کردیں کہ یہ اشتہار جھوٹے ہیں۔ مرزا نے کوئی پیشگوئی نہیں کی تھی۔

اقول۔ اب اس کا کیا جواب دیا جائے بجز اس کے کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ رہا یہ کہ اخبارات تکذیب کامضمون چھاپ دیں تو اس کی اُس قادر کو کچھ پروا نہیں جس نے مجھے بھیجا ہے ۔ دنیاکے کیڑے آسمانی ارادوں میں کون سا حرج ڈال سکتے ہیں۔ پہلے اس سے ابوجہل علیہ اللعنۃ نے عرب کی تمام قوموں کو اُکسایا تھا کہ یہ شخص (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) جھوٹا دعویٰ کرتا ہے اور جاہل لوگوں کو اپنے ساتھ جمع کر لیا تھا۔ پھر سوچو کہ اس کاانجام کیا ہوا۔ کیاخدا تعالیٰ کا ارادہ اُس کی شرارتوں سے رُک گیا تھا بلکہ اس بدقسمت کا خدا تعالیٰ نے بدر کی لڑائی میں فیصلہ کردؔ یا اور خدا تعالیٰ کے سچے نبی کادین تمام دنیا میں پھیل گیا۔ اِسی طرح میں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی اخبار اس ارادہ کو جو آسمان پر کیا گیا ہے روک نہیں سکتا۔ خدا کا غضب انسان کے غضب سے بڑھ کر ہے۔ یہ میرے پر حملہ نہیں بلکہ اس خدا پر حملہ ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ۔ وہ چاہتا ہے کہ زمین کو گناہ سے صاف کرے اور پھر اُن دنوں کو دوبارہ لاوے جو صدق اورر استبازی اور توحید کے دن ہیں۔ مگر وہ دل جو دنیا سے پیار کرتے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ ایسے دن آویں۔ اے نادان کیا تو خدا سے مقابلہ کرے گا۔ کیا تیری طاقت میں ہے کہ تو اُس سے لڑائی کرسکے ۔ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو تیرے مقابلہ کی کیا حاجت تھی اس کے تباہ کرنے کے لئے خدا کافی تھا۔ مگر قریباًپچیس۲۵ برس سے یہ سلسلہ چلا آتا ہے اور ہرروز ترقی پر ہے۔ اور خدا نے اپنے پاک وعدوں کے موافق اس کو فوق العادت ترقی دی ہے اور ضرور ہے کہ قبل اس کے جو یہ دنیا ختم ہو جائے خدا کامل درجہ پر اس سلسلہ کو ترقی دے خدا نے میری تصدیق کے لئے ہزارہا نشان دکھائے جن کے لاکھوں انسان گواہ ہیں ۔ زمین



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 179

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 179

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/179/mode/1up


سے بھی نشان ظاہر ہوئے۔ اور آسمان سے بھی اور دوستوں میں بھی اور دشمنوں میں بھی اور کوئی مہینہ شاذ و نادر اس سے خالی جاتا ہوگاکہ کوئی نشان ظاہر نہ ہو۔ اور اب بھی فوق العادت نشان کا وعدہ ہے جس کانام قیامت خیز زلزلہ رکھا گیا ہے جو دنیا کو وہ ہاتھ دکھائے گا جس کو کبھی دنیا نے دیکھانہیں ہوگا۔ پس اگر خدا کاخوف ہے تو کیوں کچھ عرصہ تک صبر نہیں کیا جاتا۔ یہ زلزلہ محض اس لئے ہوگا کہ تا خدا صادق کے صدق کو ظاہر کرے اور انسانوں کو موقع دے کہ وہ راستی کو ایک چمکتے ہوئے نشان کے ساتھ دیکھ لیں اگرچہ اس کے بعد ایمان لانا کچھ بہت قابلِ عزت نہیں ہوگا۔ مگر تاہم قبول کرنے والے اس رحمت سے حصہ لیں گے جو ایمان داروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

قولہ: کیااحمد بیگ کی لڑکی کا قصہ مرزائی الہامات کی رونق کو دُور نہیں کرتا؟

اقول۔ اے معترض صاحب ! کیا پہلے بیہودہ اعتراضات کی ندامت آپ کے لئے کچھ تھوڑی تھی کہ اس لغو اعتراض کی ندامت کا بھی آپ نے حصہ لے لیا۔ اب آپ کان کھول کر سنیئے کہ اس پیشگوؔ ئی کے دو حصہ تھے اور دونوں شرطی تھے۔ ایک حصہ شرطی طور پر احمد بیگ کی وفات کے متعلق تھا ۔ یعنی اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ اگر وہ خدا تعالیٰ کی قرارداد شرطوں کا پابند نہ ہو تو تین برس پورے ہونے سے پہلے ہی فوت ہو جائے گا۔ اور نہ صرف وہی بلکہ اس کے ساتھ اور کئی موتیں اس کے اقارب کی ہوں گی ۔ پس چونکہ وہ شوخی کی راہ سے کسی شرط کا پابند نہ ہوسکا اس لئے خدا نے اس کو میعاد پوری ہونے سے پہلے ہی اس جہان سے اُٹھا دیا اور کئی موتیں اور بھی ساتھ ہوئیں ۔ مگر دوسراحصہ پیشگوئی کا جو احمد بیگ کے داماد کی نسبت تھا اُس میں اس وجہ سے تاخیرڈال دی گئی کہ باقی ماندہ لوگوں نے شرط کے مضمون سے اپنے دلوں میں خوف پیدا کیا اور بہت ڈرے اور یہ بات ہرایک کی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اگر دو شخص کی موت کی نسبت کوئی پیشگوئی ہو۔ اور ایک اُن میں سے میعاد کے اندر مر جائے تو طبعاً دوسرے کے دل میں خوف پیدا ہو جاتا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 180

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 180

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/180/mode/1up


پس یہ تو ضروری امر تھا کہ احمد بیگ کے داماد کا گروہ احمد بیگ کی موت کو دیکھ کر اپنے دلوں میں بہت ڈرتا۔ سو خدا نے اپنے وعدہ کے موافق جب ان لوگوں کا خوف دیکھا تو داماد کی وفات کے متعلق جو پیشگوئی تھی اس میں تا خیر ڈال دی۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسا کہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم اور پنڈت لیکھرام کی نسبت جو پیشگوئی وفات کی تھی اُس میں ظہور میں آیا۔ کیونکہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم نے وفات کی پیشگوئی سُن کر بہت خوف ظاہر کیا اس لئے اس کی موت میں تاخیر ڈال دی گئی۔ اور مقرر شدہ دنوں سے کچھ مہینے زیادہ زندہ رہا۔ لیکن لیکھرام نے پیشگوئی کو سن کر بہت شوخی ظاہر کی اور بدگوئی میں حد سے زیادہ بڑھ گیا اس لئے وہ اصلی میعاد سے بھی پہلے ہی اس جہان سے اٹھایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی پیشگوئیاں جو خدا کے رسول کرتے ہیں جن میں کسی کی موت یا اور بلا کی خبر ہوتی ہے وہ وعید کی پیشگوئیاں کہلاتی ہیں۔ اور سنت اللہ ہے کہ خواہ اُن میں کوئی شرط ہو یا نہ ہو وہ تو بہ استغفار سے ٹل سکتی ہیں یا اُن میں تاخیرڈال دی جاتی ہے جیسا کہ یونس نبی کی پیشگوئی میں وقوع میں آیا۔ اور یونس نبی نے جو اپنی قوم کے لئے چالیس۴۰ دن تک عذاب آنے کا وعد ہ کیا تھاوہ قطعی وعدہ تھا۔ اُس میں ایمان لانے یا ڈرنے کی کوئی شرط نہ تھی۔ مگر باوجود اس کے جب قوم نے تضرع اور زاری اختیار کیؔ تو خدا تعالیٰ نے اس عذاب کو ٹال دیا۔ تمام انبیاء علیہم السلام کے اتفاق سے یہ تسلیم شدہ عقیدہ ہے کہ ہر ایک بلا جو خدا تعالیٰ کسی بندہ پر نازل کرنا ارادہ کرتا ہے وہ بلا صدقہ اور خیرات اور توبہ او راستغفار اوردعا سے دفع ہوسکتی ہے پس اگر وہ بلا جس کانازل کرناارادہ کیا گیا ہے کسی نبی اور رسول اور مامورمن اللہ کو اُس سے اطلاع دی جائے تو وہ وعید کی پیشگوئی کہلاتی ہے۔ اورچونکہ وہ بلا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق توبہ و استغفار اور صدقہ خیرات اور دُعا و تضرّع سے دفع ہوسکتی ہے۔ یااس میں تاخیر پڑسکتی ہے۔ اور اگر وہ بلاجو پیشگوئی کے رنگ میں ظاہر کی گئی ہے صدقہ خیرات وغیرہ سے دُور نہ ہوسکے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 181

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 181

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/181/mode/1up


توخدا تعالیٰ کی تمام کتابیں اس سے باطل ٹھہر یں گی۔ اور تمام نظام دین کا اس سے درہم برہم ہو جائے گا۔معترض نے اسلام پر یہ سخت حملہ کیاہے اور نہ صرف اسلام پر بلکہ تمام نبیوں پر یہ حملہ ہے اور اگر عمدًایہ حملہ نہیں کیا تو اسلام اور شریعت سے سخت ناواقفیت اُس کی ثابت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں سے ایمانداروں کو متنبہ رہنا چاہیئے کہ میرے پر حملہ کرنے سے ان کا ارادہ صرف میرے پر حملہ نہیں ہے بلکہ دین اسلام کی اُن کو کچھ پروا نہیں اور اسلام کے وہ چھپے دشمن ہیں۔خدا تعالیٰ اپنے دین کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔

اس ناسمجھ کو یہ بھی توخبر نہیں کہ جیسے خدا تعالیٰ نے اپنے اخلاق میں یہ داخل رکھا ہے کہ وہ وعید کی پیشگوئی کو توبہ واستغفار اور دُعا اور صدقہ سے ٹال دیتا ہے اسی طرح انسان کو بھی اُس نے یہی اخلاق سکھائے ہیں جیسا کہ قرآن شریف اور حدیث سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جو منافقین نے محض خباثت سے خلاف واقعہ تہمت لگائی تھی اس تذکرہ میں بعض سادہ لوح صحابہ بھی شریک ہوگئے تھے۔ ایک صحابی ایسے تھے کہ وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر سے د ووقتہ روٹی کھاتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان کی اس خطا پر قسم کھائی تھی اور وعید کے طور پر عہد کر لیا تھا کہ میں اس بے جا حرکت کی سزا میں اس کو کبھی روٹی نہ دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی تھی33 3 ۱؂ تب حضرت ابوبکر نے اپنے اس عہد کو توڑ دیا اور بدستور روٹی لگادی ۔ اسی بناء پر اسلامی اخلاق میں یہ داخل ہے کہ اگر وعید کے طور پر کوئی عہد کیا جائےؔ تو اُس کاتوڑنا حُسنِ اخلاق میں داخل ہے۔ مثلاً اگر کوئی اپنے خدمتگار کی نسبت قسم کھائے کہ میں اس کو ضرور پچا۵۰س جوتے ماروں گا تو اس کی توبہ اور تضرع پرمعاف کرنا سنت اسلام ہے تا تخلق باخلاق اللّٰہ ہو جائے مگر وعدہ کا تخلف جائز نہیں ترکِ وعدہ پر باز پُرس ہوگی مگر ترکِ وعید پر نہیں۔

قولہ: اور پیشگوئیوں کاحال اس سے بھی زیادہ ابتر ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 182

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 182

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/182/mode/1up


اقول۔ اے متعصب نادان! تجھے کب اتفاق ہوا ہے کہ تو میری پیشگوئیوں کو غور سے دیکھتا اور اُن سب پراطلاع پاتا۔ اور تجھے کب اتفاق ہوا کہ میری صحبت میں رہتا اور میرے نشانوں کو بچشم خود دیکھتا۔ میں تجھے کس سے مشابہت دوں۔ تو اُس اندھے سے مشابہ ہے جو سورج کے وجود سے انکار کرتاہے اور اپنی نابینائی کی طرف نہیں دیکھتا۔ ہرایک واقف حال سمجھ سکتا ہے کہ کیا میری پیشگوئیوں کاحال ابتر ہے یا تیرے ایمان کاہی حال ابتر ہے۔ عقلمندوں کے لئے تیرے اعتراضات کا یہی نمونہ کافی ہے کہ جو بات تمام انبیاء کے نزدیک مسلّم ہے اور تمام فرقہ ہائے اسلام کے نزدیک مسلّم ہے وہی بات تیرے نزدیک جائے اعتراض ہے۔ ہائے افسوس کیا یہی لوگ اسلام کے لیڈر بننا چاہتے ہیں جن کو خدا کی تعلیم اور اسلام کے عقیدہ کی بھی خبر نہیں اِنّا لِلّٰہ وَاِنّا اِلَیْہ راجِعُوْن۔

اے ظالم معترض کیا اسی سرمایہ پر قلم اٹھایا تھا؟گو تعصب کا جوش تھا مگر اپنی جہالت کو دکھلانا کیا ضرور تھا۔ ہر ایک بات سراسر جھوٹ ہر ایک شبہ محض شیطانی وسوسہ۔اس علم اور واقفیت کے ساتھ تیرے دل میں کیوں گدگدی اُٹھی کہ خدا تعالیٰ کی پاک وحی پر اعتراض کرے اگر تم خاموش رہتے تو بہتر تھا۔ ناحق گناہ خریدا اور زبان کے ذریعہ سے اپنی پوشیدہ نادانی پر سب کو مطلع کردیا اور پبلک میں اپنی رُسوائی کرائی اور اپنی حالت پر شیخ سعدی علیہ الرحمۃ کی وہ مثل صادق کرلی جو بوستان میں ہے اور وہ یہ ہے :-

یکے نیک خلق و خَلَق پوش بود

کہ در مصر یک چند خاموش بود

جہانے برو بود از صدق جمع

چو پروانہ ہا وقتِ شب گرد شمع

شبےؔ در دِل خویش اندیشہ کرد

کہ پوشیدہ زیر زبان است مَرد

اگر ماند فطنت نہان در سرم

چہ دانند مردم کہ دانش وَرم

سخن گفت و دشمن بدانست و دوست

کہ درمصر ناداں تر از وے ہموست



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 183

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 183

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/183/mode/1up


حضورش پریشاں شدد کارزشت

سفر کرد و بر طاقِ مسجد نوشت

در آئینہ گر روئے خود دیدمے

بہ بیدانشی پردہ ندریدمے

اب میں محمد اکرام اللہ خان صاحب شاہجہان پوری کے ان اعتراضات کا جواب لکھ چکا جو روزانہ پیسہ اخبار مؤرخہ ۲۲ مئی ۱۹۰۵ء ؁ کے صفحہ ۵ میں چھپے ہیں۔ لیکن بعد اس کے میرے دوست مولوی عبد الکریم صاحب کے نام ایک صاحب نے جنہوں نے اپنا نام اپنے خط میں ظاہر نہیں کیا ایک خط بھیجا ہے اور اس میں خدا تعالیٰ کاواسطہ ڈال کر چند اعتراضات کاجواب مانگا ہے جو انہیں پیشگوئیوں کے متعلق ہیں۔ اگرچہ ان اعتراضات کاجواب کافی طور پر اسی حصہ براہین میں آچکا ہے لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کاواسطہ دے کر معترض صاحب کی درخواست ہے اس لئے ہم تکرار کلام کی کچھ پروا نہ رکھ کر محض لِلّٰہ صاحب موصوف کے اعتراضات کا جواب برعایت اختصار ذیل میں دیتے ہیں۔

قولہ:عفت الدیارمحلّھا و مقامھا کا فقرہ جسے جناب مقدس مرزا صاحب اپنا الہام و وحی فرما رہے ہیں ایک پرانے شاعر کا مصرع ہے ۔کیا کسی نبی کو کبھی ایسی وحی ہوئی جس کے الفاظ حرفاً حرفاً وہی ہوں جو اس نبی سے پہلے کسی آدمی کی زبان سے نکل چکے ہوں۔ اگر آپ یہ ثابت کرسکیں تو دوسرا اعتراض یہ ہوگا کہ اس صورت میں خدا کے قول اور بندہ کے قول میں فرق کیا ہوگا۔

اقول۔ اس بارہ میں ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ اورنبیوں کو تلاش کرنا کچھ ضروری نہیں خود ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض ایسے فقرے وحی الٰہی کے نازل ہو چکے ہیں جو پہلے وہ کسی آدمی کے منہ سے نکلے تھے۔ جیسا کہ یہ فقرہ وحی فرقانی یعنی3۔۱؂ یہ فقرہ پہلےؔ عبد اللہ بن ابی سرح کی زبان سے نکلا تھا۔ اور وہی فقرہ وحی قرآنی میں نازل ہوا۔دیکھو تفسیر کبیر الجزء السادس صفحہ ۲۷۶ مطبوعہ مصر۔ اصل عبارت یہ ہے۔ روی الکلبی عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنھما۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 184

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 184

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/184/mode/1up


ان عبداللّٰہ بن سعد بن ابی سرح کان یکتب ھذہ الاٰیات لرسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فلما انتھی الٰی قولہ تعالٰی خلقًا اٰخرعجب من ذالک فقال فتبارک اللّٰہ احسن الخالقین ۔ فقال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم اُکتب فھٰکذا نزلت، فشکّ عبد اللّٰہ وقال ان کان محمد صادقًا فیما یقول فانہ یوحٰی اِلیَّ کما یوحٰی الیہ وان کان کاذبًا فلا خیر فی دینہ فھرب الٰی مکّۃ فقیل انہ مات علی الکفر وقیل انہ اسلم یوم الفتح۔ ترجمہ یہ ہے کہ کلبی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ عبد اللہ ابن ابی سرح قرآن شریف کی آیات لکھا کرتا تھا۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے روبرو جیسی آیت نازل ہوتی تھی اُس سے لکھواتے تھے۔ پس جب وہ آیت لکھوائی گئی جو خلقاً اٰخر تک ختم ہوتی ہے تو عبد اللہ اس آیت سے تعجب میں پڑ گیا۔ اور عبد اللہ نے کہا فتبارک اللّٰہ احسن الخالقین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی لکھ لے کیونکہ خدا نے بھی یہی فقرہ جو تیرے منہ سے نکلا ہے یعنی فتبارک اللّٰہ احسن الخالقین نازل کردیا ہے۔ پس عبد اللہ شک میں پڑ گیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو میری زبان کا کلمہ ہے وہی خدا کا کلمہ ہوگیا۔ اور اُس نے کہا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے میں صادق ہے تو مجھے بھی وہی وحی ہوتی ہے جو اُسے ہوتی ہے اور اگر کاذب ہے تو اس کے دین میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔ پھر وہ مکّہ کی طرف بھاگ گیا ۔ پس ایک روایت یہ ہے کہ وہ کفر پر مرگیا اور ایک یہ بھی روایت ہے کہ وہ فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوگیا۔

اب دیکھو عبد اللہ ابن ابی سرح کے کلام سے خدا تعالیٰ کے کلام کا توارد ہوا یعنی عبد اللہ کے مُنہ سے بھی یہ فقرہ نکلا تھا فتبارک اللّٰہ احسن الخالقیناور خدا تعالیٰ کی وحی میں بھی یہی آیا۔ اور اگر کہو کہ پھر خدا تعالیٰ کے کلام اور انسان کے کلام میں مابہ الامتیاز کیا ہوا؟ تو اوّل تو ہم اس کا یہی جواب دیتے ہیں کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے آپ قرآن شریف میں فرمایا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 185

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 185

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/185/mode/1up


مابہ الامتیاز قائم کرنے کے لئے ؔ ضروری ہے کہ وہ کلام جو غیر کا کلام کہلاتا ہے قرآنی سورتوں میں سے کسی سورت کے برابر ہو۔ کیونکہ اعجاز کیلئے اسی قدر معتبر سمجھا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ 3۱؂ یہ نہیں فرمایا کہ فَاْتُوْا بِآ یَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ یا فَاْتُوْا بِکَلِمَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ۔اور درحقیقت یہ سچ ہے کہ خدا کے کلمات علیحدہ علیحدہ تو وہی کلمات ہیں جو کفار کی زبان پر بھی جاری تھے۔ پھر رنگینی عبارت اور نظم کلام اور دیگر لوازم کے لحاظ سے وہی کلمات بحیثیت مجموعی ایک معجزہ کے رنگ میں ہوگئے اور جو معجزہ خدا تعالیٰ کے افعال میں پایا جاتا ہے اس کی بھی یہی شان ہے یعنی وہ بھی اپنی حیثیت مجموعی سے معجزہ بنتا ہے جیسا کہ کلام اپنی حیثیت مجموعی سے معجزہ بنتا ہے۔ ہاں خدا تعالیٰ کے منہ سے جو چھوٹے چھوٹے فقرے نکلتے ہیں وہ اپنے مطالب عالیہ کے لحاظ سے جو اُن کے اندر ہوتے ہیں انسانی فقرات سے امتیاز کلّی رکھتے ہیں۔ یہ امر دیگر ہے کہ انسان ان کے پوشیدہ حقائق معارف تک نہ پہنچے مگر ضرور ان کے اندر انوارِ مخفیہ ہوتے ہیں جو ان کلمات کی رُوح ہوتے ہیں۔ جیسا کہ یہی کلمہ 3۲ ؂ اپنی گذشتہ آیات کے ساتھ تعلق کی وجہ سے ایک امتیازی رنگ اپنے اندر رکھتا ہے۔ یعنی اس قسم کی روحانی فلاسفی اس کے اندر بھری ہوئی ہے کہ وہ بجائے خود ایک معجزہ ہے جس کی نظیر انسانی کلام میں نہیں ملتی۔

تفصیل اس کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس سورۃ کے ابتدا میں جو سورۃ المؤمنون ہے جس میں یہ آیت 3 ہے اس بات کو بیان فرمایا ہے کہ کیونکر انسان مراتب سِتّہ کو طے کرکے جو اس کی تکمیل کے لئے ضروری ہیں اپنے کمال روحانی اور جسمانی کو پہنچتا ہے ۔ سو خدا نے دونوں قسم کی ترقیات کو چھ۶ چھ۶ مرتبہ پر تقسیم کیاہے اورمرتبہ ششم کو کمال ترقی کا مرتبہ قرار دیا ہے اور یہ مطابقت روحانی اور جسمانی وجود کی ترقیات کی ایسے خارقِ عادت طور پر دکھلائی ہے کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے کبھی کسی انسان کے ذہن نے اس نکتہ معرفت کی طرف سبقت نہیں کی۔ اور اگرکوئی دعوے کرے کہ سبقت کی ہے تو



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 186

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 186

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/186/mode/1up


یہ بار ثبوت اُس کی گردن پر ہوگا کہ یہ پاک فلاسفی کسی انسان کی کتاب میں سے دکھلاوے اور یہ یاد رہے کہ وہ ایسا ہرگز ثابت نہیں کرسکے گا۔ پس بدیہی طور پر یہ معجزہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے وہ عمیقؔ مناسبت جو روحانی اور جسمانی وجود کی اُن ترقیات میں ہے جو وجود کامل کے مرتبہ تک پیش آتی ہیں ان آیات مبارکہ میں ظاہر کردی ہے جس سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ ظاہری اور باطنی صنعت ایک ہی ہاتھ سے ظہور پذیر ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کاہاتھ ہے۔

بعض نادانوں نے یہ بھی اعتراض کیا تھا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے نطفہ کی حالت سے لے کر اخیر تک جسمانی وجود کا قرآن شریف میں نقشہ کھینچا ہے یہ نقشہ اس زمانہ کی جدید تحقیقات طبی کی رُو سے صحیح نہیں ہے۔ لیکن اُن کی حماقت ہے کہ ان آیات کے معنی انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ گویا خدا تعالیٰ رحم کے اندر انسانی وجود کو اس طرح بناتا ہے کہ پہلے بکلّی ایک عضو سے فراغت کرلیتا ہے پھر دوسرا بناتا ہے ۔ یہ آیات الٰہیہ کا منشا نہیں ہے بلکہ جیسا کہ ہم نے بچشم خود ملاحظہ کر لیا ہے اور مُضغہ سے لے کر ہرایک حالت کے بچے کو دیکھ لیا ہے۔ خالق حقیقی رحم کے اندر تمام اعضاء اندرونی و بیرونی کو ایک ہی زمانہ میں بناتا ہے یعنی ایک ہی وقت میں سب بنتے ہیں تاخیر تقدیم نہیں۔ البتہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ پہلے تمام وجود انسان کا ایک جما ہوا خون ہوتاہے اور پھر سارے کا سارا ایک ہی وقت میں مُضغہ بن جاتا ہے اور پھر ایک ہی وقت میں کچھ حصہ اس کا اپنے اپنے موقعہ پر ہڈیاں بن جاتا ہے اور پھر ایک ہی وقت میں اس تمام مجموعہ پر ایک زائد گوشت چڑھ جاتا ہے جو تمام بدن کی کھال کہلاتی ہے جس سے خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔ اور اس مرتبہ پر جسمانی بناوٹ تمام ہو جاتی ہے اور پھر جان پڑ جاتی ہے ۔ یہ وہ تمام حالتیں ہیں جو ہم نے بچشم خود دیکھ لی ہیں۔

اب ہم روحانی مراتب ستّہ کاذیل میں ذکر کرتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ (۱)3(۲)3(۳) 3۱؂ (۴)333 333(۵)3(۶) 3 3۱؂اورؔ ان کے مقابل جسمانی ترقیات کے مراتب بھی چھ قرار دیئے ہیں جیسا کہ وہ ان آیات کے بعد فرماتا ہے:۔(۱)3(۲)33(۳) 3 (۴)3 (۵)3(۶)3۲؂



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 187

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 187

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/187/mode/1up


جیسا کہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں ظاہر ہے کہ پہلامرتبہ روحانی ترقی کا یہ ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے یعنی 3 یعنی وہ مومن نجات پاگئے جو اپنی نماز اور یاد الٰہی میں خشوع اور فروتنی اختیار کرتے ہیں اور رقّت اور گدازش سے ذکر الٰہی میں مشغول ہوتے ہیں۔ اس کے مقابل پر پہلا مرتبہ جسمانی نشو و نما کا جو اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے یہ ہے یعنی 3 یعنی پھر ہم نے انسان کو نطفہ بنایا اور وہ نطفہ ایک محفوظ جگہ میں رکھا۔ سو خدا تعالیٰ نے آدم کی پیدائش کے بعد پہلا مرتبہ انسانی وجود کا جسمانی رنگ میں نطفہ کو قرار دیا ہے اور ظاہر ہے کہ نطفہ ایک ایسا تخم ہے جو اجمالی طور پر مجموعہ ان تمام قویٰ اور صفات اوراعضاء اندرونی اور بیرونی اور تمام نقش و نگار کا ہوتا ہے جو پانچویں درجہ پر مفصل طور پر ظاہر ہو جاتے ہیں اور چھٹے درجہ پراتم اور اکمل طور پر اُن کا ظہور* ہوتا ہے اور با ایں ہمہ نطفہ باقی تمام درجات سے زیادہ تر معرضِ خطر میں ہے۔ کیونکہ ابھی

درجات سے مراد وہ درجے ہیں جو ابھی ذکر کئے گئے ہیں۔ پانچواں درجہ وہ ہے جب قدرت صانع مطلق سے انسانی قالب تمام و کمال رحم میں تیار ہو جاتا ہے۔ اور ہڈیوں پر ایک خوشنما گوشت چڑھ جاتا ہے۔ اور چھٹا درجہ وہ ہے جب اس قالب میں جان پڑ جاتی ہے۔ اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے انسان کے روحانی وجود کا پہلا مرتبہ حالتِ خشوع اور عجز و نیاز اور سوز و گداز ہے اور درحقیقت وہ بھی اجمالی طور پر مجموعہ اُن تمام امور کا ہے جو بعد میں کھلے طور پر انسان کے روحانی وجود میں نمایاں ہوتے ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 188

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 188

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/188/mode/1up


وہ اُس تخم کی طرح ہے جس نے ہنوز زمین سے کوئی تعلق نہیں پکڑا۔ اور ابھی وہ رحم کی کشش سے بہرہ ور نہیں ہوا ممکن ہے کہ وہ اندام نہانی میں پڑ کر ضائع ہو جائے جیسا کہ تخم بعض اوقات پتھریلی زمین پر پڑ کر ضائع ہو جاتا ہے۔ اور ممکن ہے کہ وہ نطفہ بِذاتہاناقص ہو یعنی اپنے اندر ہی کچھ نقص رکھتا ہو اور قابل نشوونما نہ ہو۔ اور یہ استعداد اُس میں نہ ہو کہ رحم اس کو اپنی طرف جذب کرلے اور صرف ایک مُردہ کی طرح ہو جس میں کچھ حرکت نہ ہو۔ جیساؔ کہ ایک بوسیدہ تخم زمین میں بویا جائے۔ اور گو زمین عمدہ ہو مگر تاہم تخم بوجہ اپنے ذاتی نقص کے قابلِ نشو و نما نہیں ہوتا اور ممکن ہے کہ بعض اور عوارض کی وجہ سے جن کی تفصیل کی ضرورت نہیں نطفہ رحم میں تعلق پذیر نہ ہوسکے اور رحم اس کو اپنی کشش سے محروم رکھے ۔ جیسا کہ تخم بعض اوقات پیروں کے نیچے کچلا جاتا ہے یا پرندے اس کو چُگ جاتے ہیں یا کسی اور حادثہ سے تلف ہو جاتا ہے۔

یہی صفات مومن کے روحانی وجود کے اوّل مرتبہ کے ہیں اور اوّل مرتبہ مومن کے روحانی وجود کا وہ خشوع اور رقت اور سوز و گداز کی حالت ہے جو نماز اور یاد الٰہی میں مومن کو میسر آتی ہے یعنی گدازش اور رقت اور فروتنی اور عجز و نیاز اور روح کا انکسار اور ایک تڑپ اور قلق اور تپش اپنے اندر پیدا کرنا۔ اور ایک خوف کی حالت اپنے پر وارد کرکے خدائے عزّوجلّ کی طرف دل کوجھکانا جیسا کہ اِس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے3 3۔ یعنی وہ مومن مراد پاگئے جو اپنی نماز میں اور ہر ایک طور کی یادِ الٰہی میں فروتنی اور عجزونیاز اختیار کرتے ہیں۔ اور رقت اور سوزوگداز اور قلق اور کرب اور دلی جوش سے اپنے ربّ کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں۔ یہ خشوع کی حالت جس کی تعریف کا اوپر اشارہ کیا گیا ہے روحانی وجود کی طیّاری کے لئے پہلا مرتبہ ہے یا یوں کہو کہ وہ پہلا تخم ہے جو عبودیت کی زمین میں بویا جاتا ہے اور وہ اجمالی طور پر ان تمام قویٰ اور صفات اور اعضاء اور تمام نقش و نگار اور حسن و جمال اور خط و خال اور شمائل روحانیہ پر مشتمل ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 189

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 189

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/189/mode/1up


جو پانچویں اور چھٹے درجہ میں انسانِ کامل کیلئے نمودار طور پر ظاہر ہوتے اور اپنے دلکش پیرایہ میں تجلی فرماتے ہیں * اور چونکہ وہ نطفہ کی طرح روحانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے اس لئے وہ آیت قرآنی میںؔ نطفہ کی طرح پہلے مرتبہ پر رکھا گیا ہے اور نطفہ کے مقابل پر دکھلایا گیا ہے تا وہ لوگ جو قرآن شریف میں غور کرتے ہیں سمجھ لیں کہ نمازمیں خشوع کی حالت روحانی وجود کے لئے ایک نطفہ ہے او ر نطفہ کی طرح روحانی طور پر انسان کامل کے تمام قویٰ اور صفات اور تمام نقش و نگار اس میں مخفی ہیں۔ اور جیسا کہ نطفہ اُس وقت تک معرضِ خطر میں ہے جب تک کہ رحم سے تعلق نہ پکڑے۔ ایسا ہی روحانی وجود کی یہ ابتدائی حالت یعنی خشوع کی حالت اُس وقت تک خطرہ سے خالی نہیں جب تک کہ رحیم خدا سے تعلق نہ پکڑلے۔ یاد رہے کہ جب خدا تعالیٰ کا فیضان بغیر توسط کسی عمل کے ہو تو وہ رحمانیت کی صفت سے ہوتا ہے جیسا کہ جو کچھ خدا نے زمین و آسمان وغیرہ انسان کے لئے بنائے یا خود انسان کو بنایا یہ سب فیضِ رحمانیت سے ظہور میں آیا لیکن جب کوئی فیض کسی عمل اور عبادت اور مجاہدہ اور ریاضت کے عوض میں ہو وہ رحیمیت کا فیض کہلاتا ہے ۔ یہی سنت اللہ بنی آدم کے لئے جاری ہے پس جب کہ انسان نماز اور یاد الٰہی میں خشوع کی حالت اختیار کرتا ہے تب اپنے تئیں رحیمیت کے فیضان کے لئے مستعد بناتا ہے ۔ سو نطفہ میں اور روحانی وجود کے پہلے مرتبہ میں جو حالت خشوع ہے صرف فرق یہ ہے کہ نطفہ رحم کی کشش کا محتاج ہوتا ہے اور یہ رحیم کی کشش کی طرف احتیاج رکھتا ہے اور جیسا کہ نطفہ کے لئے ممکن ہے کہ وہ رحم کی کشش سے پہلے ہی ضائع ہوجائے۔

پانچواں درجہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں وہ ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے یعنی33333۔۱؂ اور چھٹا درجہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں وہ ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے یعنی333۔۲؂ اور یہ پانچواں درجہ جسمانی درجات کے پنجم درجہ کے مقابل پر ہوتا ہے جس کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے یعنی3۳؂اور چھٹا درجہ جسمانی درجات کے ششم درجہ کے مقابل پر پڑا ہے جس کی طر ف یہ آیت اشارہ کرتی ہے33۔۴؂ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 190

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 190

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/190/mode/1up


ایسا ہی رُوحانی وجود کے پہلے مرتبہ کے لئے یعنی حالت خشوع کے لئے ممکن ہے کہ وہ رحیم کی کشش اور تعلق سے پہلے ہی بربادہو جائے۔ جیسا کہ بہت سے لوگ ابتدائی حالت میں اپنی نمازوں میں روتے اور وجد کرتے اور نعرے مارتے اور خدا کی محبت میں طرح طرح کی دیوانگی ظاہر کرتے ہیں اور طرح طرح کی عاشقانہ حالت دکھلاتے ہیں اور چونکہ اس ذات ذوالفضل سے جس کانام رحیم ہے کوئی تعلق پیدا نہیں ہوتا اور نہ اُس کی خاص تجلی کے جذبہ سے اُس کی طرف کھنچے جاتے ہیں اس لئے ان کا وہ تمام سوزوگداز اور تمام وہ حالتِ خشوع بے بنیاد ہوتی ہے اور بسااوقات ان کا قدم پھسل جاتا ہے یہاں تک کہ پہلی حالت سے بھی بدتر حالت میں جا پڑتے ہیں۔ پس یہ عجیب دلچسپ مطابقت ہے کہ جیسا کہ نطفہ جسمانی وجود کا اوّل مرتبہ ہے اور جب تک رحم کی کشش اُس کی دستگیری نہ کرے وہ کچھ چیز ہی نہیں ایساہی حالتِ خشوع روحانی وجود کا اوّل مرتبہ ہے اور جب تک رحیم خدا کی کششؔ اُسکی دستگیری نہ کرے وہ حالتِ خشوع کچھ بھی چیز نہیں۔ اِسی لئے ہزارہا ایسے لوگوں کو پاؤگے کہ اپنی عمر کے کسی حصہ میں یادِ الٰہی اور نماز میں حالت خشوع سے لذّت اٹھاتے اور وجد کرتے اور روتے تھے اور پھر کسی ایسی *** نے اُن کو پکڑ لیا کہ یک مرتبہ نفسانی امور کی طرف گر گئے اور دنیا اور دنیا کی خواہشوں کے جذبات سے وہ تمام حالت کھو بیٹھے۔ یہ نہایت خوف کا مقام ہے کہ اکثر وہ حالتِ خشوع رحیمیت کے تعلق سے پہلے ہی ضائع ہو جاتی ہے اور قبل اس کے کہ رحیم خدا کی کشش اس میں کچھ کام کرے وہ حالت برباد اور نابود ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں وہ حالت جو روحانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے اس نطفہ سے مشابہت رکھتی ہے کہ جو رِحم سے تعلق پکڑنے سے پہلے ہی ضائع ہو جاتا ہے۔ غرض روحانی وجود کا پہلا مرتبہ جو حالتِ خشوع ہے اور جسمانی وجود کا پہلامرتبہ جو نطفہ ہے باہم اس بات میں تشابہ رکھتے ہیں کہ جسمانی وجود کا پہلا مرتبہ یعنی نطفہ بغیر کششِ رحم کے ہیچ ہے اور روحانی وجود کا پہلا مرتبہ یعنی حالتِ خشوع بغیر جذبِ رحیم کے ہیچ اور جیسا کہ دنیا میں ہزارہا نطفے تباہ ہوتے ہیں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 191

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 191

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/191/mode/1up


اور نطفہ ہونے کی حالت میں ہی ضائع ہو جاتے ہیں اوررحم سے تعلق نہیں پکڑتے۔ ایسا ہی دنیا میں ہزارہا خشوع کی حالتیں ایسی ہیں کہ رحیم خدا سے تعلق نہیں پکڑتیں اور ضائع جاتی ہیں۔ ہزارہا جاہل اپنے چند روزہ خشوع اور وجد اور گریہ وزاری پر خوش ہوکر خیال کرتے ہیں کہ ہم ولی ہوگئے غوث ہوگئے قطب ہوگئے اور ابدال میں داخل ہوگئے اور خدارسیدہ ہوگئے حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں ہنوز ایک نطفہ ہے۔ابھی تو نام خدا ہے غنچہ صبا تو چُھو بھی نہیں گئی ہے۔ افسوس کہ انہیں خام خیالیوں سے ایک دنیا ہلاک ہوگئی۔ اور یاد رہے کہ یہ روحانی حالت کا پہلا مرتبہ جو حالتِ خشوع ہے طرح طرح کے اسباب سے ضائع ہوسکتا ہے جیسا کہ نطفہ جو جسمانی حالت کا پہلا مرتبہ ہے انواع اقسام کے حوادث سے تلف ہو سکتاہے منجملہ ان کے ذاتی نقص بھی ہے۔ مثلاً اس خشوع میں کوئی مشرکانہ ملونی ہے یا کسی بدعت کی آمیزش ہے یا اور لغویات کا ساتھ اشتراک ہے۔مثلاً نفسانی خواہشیں اور نفسانی ناپاک جذبات بجائے خود زور مار رہے ہیں یا سفلی تعلقات نے دل کو پکڑ رکھا ہے یا جیفۂ دنیاکی لغو خواہشوں نے زیر کردیا ہے پس ان تمام ناپاک عوارض کے ساتھ حالت خشوع اس لائق نہیں ٹھہرؔ تی کہ رحیم خدا اس سے تعلق پکڑ جائے جیسا کہ اس نطفہ سے رحم تعلق نہیں پکڑ سکتا جو اپنے اندر کسی قسم کا نقص رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو جوگیوں کی حالت خشوع اور عیسائی پادریوں کی حالت انکسار ان کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتی اور گو وہ سوزوگداز میں اس قدر ترقی کریں کہ اپنے جسم کو بھی ساتھ ہی استخوان بے پوست کردیں تب بھی رحیم خدا اُن سے تعلق نہیں کرتا کیونکہ اُن کی حالت خشوع میں ایک ذاتی نقص ہے اور ایسا ہی وہ بدعتی فقیراسلام کے جو قرآن شریف کی پیروی چھوڑ کر ہزاروں بدعات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بھنگ چرس اور شراب پینے سے بھی شرم نہیں کرتے اور دوسرے فسق و فجور بھی اُن کے لئے شیر مادر ہوتے ہیں چونکہ وہ ایسی حالت رکھتے ہیں کہ رحیم خدا سے اور اُس کے تعلق سے کچھ مناسبت نہیں رکھتے بلکہ رحیم خدا کے نزدیک وہ تمام حالتیں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 192

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 192

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/192/mode/1up


مکروہ ہیں اس لئے وہ باوجود اپنے طور کے وجد اور رقص اور اشعار خوانی اور سرود وغیرہ کے رحیم خدا کے تعلق سے سخت بے نصیب ہوتے ہیں اور اُس نطفہ کی طرح ہوتے ہیں جو آتشک کی بیماری یاجذام کے عارضہ سے جل جائے اور اس قابل نہ رہے کہ رحم اس سے تعلق پکڑ سکے پس رحم اور رحیم کا تعلق یا عدم تعلق ایک ہی بنا پر ہے صرف روحانی اور جسمانی عوارض کا فرق ہے۔ اور جیسا کہ نطفہ بعض اپنے ذاتی عوارض کی رُو سے اس لائق نہیں رہتا کہ رحم اس سے تعلق پکڑ سکے اور اس کو اپنی طرف کھینچ سکے ایساہی حالت خشوع جو نطفہ کے درجہ پر ہے بعض اپنے عوارض ذاتیہ کی وجہ سے جیسے تکبر اور عُجب اور ریایا اور کسی قسم کی ضلالت کی وجہ سے یا شرک سے اس لائق نہیں رہتی کہ رحیم خدا اس سے تعلق پکڑ سکے پس نطفہ کی طرح تمام فضیلت روحانی وجود کے اوّل مرتبہ کی جو حالت خشوع ہے رحیم خدا کے ساتھ حقیقی تعلق پیدا کرنے سے وابستہ ہے جیسا کہ تمام فضیلت نطفہ کی رحم کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے وابستہ ہے پس اگر اس حالت خشوع کو اس رحیم خدا کے ساتھ حقیقی تعلق نہیں اورنہ حقیقی تعلق پیداہوسکتاہے تو وہ حالت اُس گندے نطفہ کی طرح ہے جس کو رحم کے ساتھ حقیقی تعلق پیدا نہیں ہو سکتا اور یاد رکھنا چاہیئے کہ نماز اور یاد الٰہی میں جو کبھی انسان کو حالتِ خشوع میسر آتی ہے اور وجد اور ذوق پیدا ہوجاتا ہے یا لذّت محسوس ہوتی ہے یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ؔ اس انسان کو رحیم خدا سے حقیقی تعلق ہے جیسا کہ اگر نطفہ اندام نہانی کے اندر داخل ہوجائے اور لذّت بھی محسوس ہو تو اس سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اُس نطفہ کورحم سے تعلق ہوگیا ہے بلکہ تعلق کے لئے علیحدہ آثار اور علامات ہیں۔ پس یاد الٰہی میں ذوق شوق جس کو دوسرے لفظوں میں حالتِ خشوع کہتے ہیں نطفہ کی اُس حالت سے مشابہ ہے جب وہ ایک صورتِ انزال پکڑ کر اندام نہانی کے اندر گر جاتا ہے اور اِس میں کیا شک ہے کہ وہ جسمانی عالم میں ایک کمال لذّت کا وقت ہوتا ہے لیکن تاہم فقط اُس قطرہ منی کا اندر گرنا اس بات کو مستلزم نہیں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 193

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 193

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/193/mode/1up


کہ رِحم سے اُس نطفہ کا تعلق بھی ہو جائے اوروہ رحم کی طرف کھینچا جائے۔ پس ایسا ہی روحانی ذوق شوق اور حا لتِ خشوع اس بات کو مستلزم نہیں کہ رحیم خدا سے ایسے شخص کا تعلق ہو جائے اوراس کی طرف کھینچا جائے۔ بلکہ جیسا کہ نطفہ کبھی حرامکاری کے طور پر کسی رنڈی کے اندام نہانی میں پڑتا ہے تواس میں بھی وہی لذّت نطفہ ڈالنے والے کو حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اپنی بیوی کے ساتھ۔ پس ایسا ہی بُت پرستوں اور مخلوق پرستوں کا خشوع و خضوع اور حالتِ ذوق اور شوق رنڈی بازوں سے مشابہ ہے یعنی خشوع اور خضوع مشرکوں اور اُن لوگوں کا جو محض اغراض دنیویہ کی بنا پر خدا تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اس نطفہ سے مشابہت رکھتا ہے جو حرامکار عورتوں کے اندام نہانی میں جاکرباعثِ لذّت ہوتا ہے۔ بہرحال جیسا کہ نطفہ میں تعلق پکڑنے کی استعداد ہے حالتِ خشوع میں بھی تعلق پکڑنے کی استعداد ہے مگر صرف حا لتِ خشوع اور رِقّت اور سوز اس بات پر دلیل نہیں ہے کہ وہ تعلق ہوبھی گیا ہے جیسا کہ نطفہ کی صورت میں جو اس روحانی صورت کے مقابل پر ہی مشاہدہ ظاہر کر رہا ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے صحبت کرے اور منی عورت کے اندام نہانی میں داخل ہوجائے اور اس کو اس فعل سے کمال لذّت حاصل ہو تو یہ لذّت اس بات پر دلالت نہیں کرے گی کہ حمل ضرور ہوگیا ہے ۔ پس ایساہی خشوع اور سوز و گدازکی حالت گو وہ کیسی ہی لذّت اور سرور کے ساتھ ہو خدا سے تعلق پکڑنے کے لئے کوئی لازمی علامت نہیں ہے*۔ یعنی کسی شخص میں نماز اور یاد الٰہی کی حالت میں خشوع اور سوزو گداز اور گریہ وزاری پیدا ہونا لازمی طور پر اس بات کو

ابتدائی حالت میں خشوع اور رِقّت کے ساتھ ہر طرح کے لغو کام جمع ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ بچہ میں رونے کی عادت بہت ہوتی ہے اور بات بات میں ڈر جاتااور خشوع اور انکسار اختیار کرتا ہے مگر باایں ہمہ بچپن کے زمانہ میں طبعاً انسان بہت سے لغویات میں مبتلا ہوتا ہے اور سب سے پہلے لغو باتوں اور لغو کاموں کی طرف ہی رغبت کرتا ہے اور اکثر لغو حرکات اور لغو طور پر کودنا اور اچھلنا ہی اس کو پسند آتا ہے جس میں بسا اوقات اپنے جسم کو بھی کوئی صدمہ پہنچا دیتا ہے اس سے ظاہر ہے کہ انسان کی زندگی کی راہ میں فطرتاً پہلے لغویات ہی آتے ہیں اور بغیر اس مرتبہ کے طے کرنے کے دوسرے مرتبہ تک وہ پہنچ ہی نہیں سکتا۔ پس طبعاً پہلا زینہ بلوغ کا بچپن کے لغویات سے پرہیز کرنا ہے سواس سے ثابت ہے کہ سب سے پہلا تعلق انسانی سرشت کو لغویات سے ہی ہوتا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 194

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 194

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/194/mode/1up


مستلزم نہیں کہ اس شخص کو خدا سے تعلقؔ بھی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ سب حالات کسی شخص میں موجود ہوں مگر ابھی اس کو خدا تعالیٰ سے تعلق نہ ہو۔ جیسا کہ مشاہدہ صریحہ اس بات پر گواہ ہے کہ بہت سے لوگ پندو نصیحت کی مجلسوں اور وعظ و تذکیر کی محفلوں یا نماز اور یاد الٰہی کی حالت میں خوب روتے اور وجد کرتے اور نعرے مارتے اور سوز و گداز ظاہر کرتے ہیں اور آنسو اُن کے رخساروں پر پانی کی طرح رواں ہو جاتے ہیں بلکہ بعض کا رونا تو مُنہ پر رکھا ہوا ہوتاہے۔ ایک بات سنی اور وہیں رو دیا۔ مگر تاہم لغویات سے وہ کنارہ کش نہیں ہوتے اور بہت سے لغو کام اور لغو باتیں اور لغو سیروتماشے اُن کے گلے کاہار ہوجاتے ہیں۔ جن سے سمجھا جاتا ہے کہ کچھ بھی اُن کو خداتعالیٰ سے تعلق نہیں اور نہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت کچھ اُن کے دلوں میں ہے۔ پس یہ عجیب تماشا ہے کہ ایسے گندے نفسوں کے ساتھ بھی خشوع اورسوزوگداز کی حالت جمع ہوجاتی ہے۔ اور یہ عبرت کا مقام ہے اور اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مجردخشوع اور گریہ وزاری کہ جو بغیر ترک لغویات ہو کچھ فخر کرنے کی جگہ نہیں اور نہ یہ قرب الٰہی اور تعلق باللہ کی کوئی علامت ہے۔ بہت سے ایسے فقیر مَیں نے بچشم خود دیکھے ہیں اور ایسا ہی بعض دوسرے لوگ بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ کسی دردناک شعر کے پڑھنے یا دردناک نظارہ دیکھنے یا دردناک قصہ کے سننے سے اس جلدی سے ان کے آنسو گرنے شروع ہوجاتے ہیں جیسا کہ بعض بادل اس قدر جلدی سے اپنے موٹے موٹے قطرے برساتے ہیں کہ باہر سونے والوں کو رات کے وقت فرصت نہیں دیتے کہ اپنا بستر بغیر تر ہونے کے اندر لے جاسکیں لیکن مَیں اپنی ذاتی شہادت سے گواہی دیتا ہوں کہ اکثر ایسے شخص میں نے بڑے مکّاربلکہ دنیاداروں سے آگے بڑھے ہوئے پائے ہیں اور بعض کو میں نے ایسے خبیث طبع اور بد دیانت اور ہر پہلو سے بدمعاش پایا ہے کہ مجھے اُن کی گریہ وزاری کی عادت اور خشوع وخضوع کی خصلت دیکھ کر اس بات سے کراہت آتی ہے کہ کسی مجلس میں ایسی رقت اور سوز و گداز ظاہر کروں۔ ہاں کسی زمانہ میں خصوصیت کے ساتھ یہ نیک بندوں کی علامت تھی مگر اب تو اکثر یہ پیرایہ مکّاروں اور فریب دہ لوگوں کا ہوگیا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 195

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 195

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/195/mode/1up


سبز کپڑے ۔ بال سرکے لمبے۔ ہاتھ میں تسبیح۔ آنکھوں سے دمبدم آنسوؔ جاری ۔ لبوں میں کچھ حرکت گویا ہر وقت ذکر الٰہی زبان پر جاری ہے۔ اور ساتھ اس کے بدعت کی پابندی۔ یہ علامتیں اپنے فقر کی ظاہر کرتے ہیں۔ مگر دلِ مجذوم محبتِ الٰہی سے محروم۔ اِلّاماشاء اللہ۔ راستباز لوگ میری اس تحریر سے مستثنیٰ ہیں جن کی ہر ایک بات بطور جوش اور حال کے ہوتی ہے نہ بطور تکلّف اور قَال کے، بہرحال یہ تو ثابت ہے کہ گریہ وزاری اور خشوع اور خضوع نیک بندوں کے لئے کوئی مخصوص علامت نہیں بلکہ یہ بھی انسان کے اندر ایک قوت ہے جو محل اور بے محل دونوں صورتوں میں حرکت کرتی ہے۔ انسان بعض اوقات ایک فرضی قصہ پڑھتا ہے اور جانتا ہے کہ یہ فرضی اور ایک ناول کی قسم ہے مگر تاہم جب اس کے ایک دردناک موقعہ پر پہنچتا ہے تو اس کا دل اپنے قابو سے نکل جاتا ہے اور بے اختیار آنسوجاری ہوتے ہیں جو تھمتے نہیں۔ ایسے دردناک قصے یہاں تک مؤثر پائے گئے ہیں کہ بعض وقت خود ایک انسان ایک پُرسوز قصہ بیان کرنا شروع کرتا ہے اور جب بیان کرتے کرتے اس کے ایک پُردرد موقعہ پر پہنچتا ہے تو آپ ہی چشم پُر آب ہو جاتا ہے اور اس کی آواز بھی ایک رونے والے شخص کے رنگ میں ہو جاتی ہے آخر اس کارونا اچھل پڑتا ہے اور جو رونے کے اندر ایک قسم کی سرور اور لذّت ہے وہ اس کو حاصل ہو جاتی ہے اور اس کو خوب معلوم ہوتا ہے کہ جس بنا پر وہ روتا ہے وہ بنا ہی غلط اور ایک فرضی قصہ ہے ۔ پس کیوں اور کیاوجہ کہ ایسا ہوتا ہے اس کی یہی وجہ ہے کہ سوز و گداز اور گریہ وزاری کی قوت جو انسان کے اندر موجود ہے اُس کو ایک واقعہ کے صحیح یاغلط ہونے سے کچھ کام نہیں بلکہ جب اس کے لئے ایسے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں جو اس قوت کو حرکت دینے کے قابل ہوتے ہیں تو خواہ نخواہ وہ رقّت حرکت میں آجاتی ہے اور ایک قسم کا سرور اور لذّت ایسے انسان کو پہنچ جاتا ہے گو وہ مومن ہو یاکافر ۔ اسی وجہ سے غیر مشروع مجالس میں بھی جو طرح طرح کی بدعات پر مشتمل ہوتی ہیں بے قید لوگ جو فقیروں کے لباس میں اپنے تئیں ظاہر کرتے ہیں مختلف قسم کی کافیوں اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 196

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 196

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/196/mode/1up


شعروں کے سننے اورسُرود کی تاثیر سے رقص اور وجد اور گریہ وزاری شروع کر دیتے ہیں اور اپنے رنگ میں لذّت اُٹھاتے ہیں۔ اور خیال کرتے ہیں کہ ہم خدا کو مل گئے ہیں۔ مگر یہ لذّت اُس لذّت سے مشابہ ہے جو ایک زانی کو حرامکار عورت سے ہوتی ہے۔

اورؔ پھر ایک اور مشابہت خشوع اور نطفہ میں ہے اور وہ یہ کہ جب ایک شخص کا نطفہ اس کی بیوی یا کسی اور عورت کے اندر داخل ہوتا ہے تو اس نطفہ کا اندام نہانی کے اندر داخل ہونا اور انزال کی صورت پکڑ کر رواں ہو جانا بعینہٖ رونے کی صورت پر ہوتا ہے جیسا کہ خشوع کی حالت کا نتیجہ بھی رونا ہی ہوتا ہے اور جیسے بے اختیار نطفہ اُچھل کر صورت انزال اختیار کرتا ہے۔ یہی صورت کمال خشوع کے وقت میں رونے کی ہوتی ہے کہ رونا آنکھوں سے اُچھلتا ہے اور جیسی انزال کی لذّت کبھی حلال طور پر ہوتی ہے جب کہ اپنی بیوی سے انسان صحبت کرتاہے اور کبھی حرام طور پر جب کہ انسان کسی حرام کار عورت سے صحبت کرتاہے۔ یہی صورت خشوع اور سوزو گداز اور گریہ وزاری کی ہے یعنی کبھی خشوع اورسوزوگداز محض خدائے واحد لاشریک کے لئے ہوتاہے جس کے ساتھ کسی بدعت اور شرک کا رنگ نہیں ہوتا۔ پس وہ لذّت سوزوگداز کی ایک لذّت حلال ہوتی ہے مگر کبھی خشوع اور سوزوگداز اور اسکی لذّت بدعات کی آمیزش سے یا مخلوق کی پرستش اوربتوں اور دیویوں کی پوجا میں بھی حاصل ہوتی ہے مگر وہ لذّت حرامکاری کے جماع سے مشابہ ہوتی ہے۔ غرض مجردخشوع اور سوزوگداز اور گریہ وزاری اور اس کی لذّتیں تعلق باللہ کو مستلزم نہیں بلکہ جیسا کہ بہت سے ایسے نطفے ہیں جو ضائع جاتے ہیں اور رحم اُن کو قبول نہیں کرتا۔ ایسا ہی بہت سے خشوع اور تضرع اورزاری ہیں جومحض آنکھوں کو کھونا ہے اوررحیم خدا ان کو قبول نہیں کرتا۔ غرض حالتِ خشوع کو جوروحانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے نطفہ ہونے کی حالت سے جو جسمانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے ایک کھلی کھلی مشابہت ہے جس کو ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں اور یہ مشابہت کوئی معمولی امر نہیں ہے بلکہ صانع قدیم جلّ شانہٗ کے خاص ارادہ سے ان دونوں میں اکمل اور اتم مشابہت ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی کتاب میں بھی لکھا گیا ہے کہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 197

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 197

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/197/mode/1up


دوسرے جہان میں بھی یہ دونوں لذّتیں ہوں گی۔ مگر مشابہت میں اس قدر ترقی کر جائیں گی کہ ایک ہی ہو جائیں گی یعنی اُس جہان میں جو ایک شخص اپنی بیوی سے محبت اور اختلاط کرے گا وہ اس بات میں فرق نہیں کر سکے گا کہ وہ اپنی بیوی سے محبت اور اختلاط کرتا ہے یامحبت الٰہیہ کے دریائے بے پایاں میں غرق ہے اور واصلانِ حضرتِ عزت پر اِسی جہان میں یہ کیفیت طاری ہو ؔ جاتی ہے جو اہلِ دنیا اور محجوبوں کے لئے ایک امر فوق الفہم ہے۔

اب ہم یہ تو بیان کرچکے کہ روحانی وجود کا پہلا مرتبہ جو حالتِ خشوع ہے جسمانی وجود کے پہلے مرتبہ سے جو نطفہ ہے مشابہت تام رکھتا ہے۔ اس کے بعد یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ روحانی وجود کا دوسرا مرتبہ بھی جسمانی وجود کے دوسرے مرتبہ سے مشابہ اور مماثل ہے۔ اِس کی تفصیل یہ ہے جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ رُوحانی وجود کا دوسرا مرتبہ وہ ہے جو اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا گیا ہے یعنی 3۔۱؂ یعنی مومن وہ ہیں جو لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو حرکتوں اور لغو مجلسوں اور لغو صحبتوں اور لغو تعلقات سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔ اور اس کے مقابل پرجسمانی وجود کا دوسرا مرتبہ وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے کلام عزیزمیں عَلَقَہ کے نام سے موسوم فرمایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے 3۲؂ یعنی پھر ہم نے نطفہ کو عَلَقَہ بنایا۔ یعنی ہم نے اُس کو لغو طور پر ضائع ہونے سے بچاکر رحم کی تاثیر اور تعلق سے عَلَقَہ بنا دیا۔ اس سے پہلے وہ معرض خطر میں تھا اور کچھ معلوم نہ تھا کہ وہ انسانی وجود بنے یا ضائع جائے۔ لیکن وہ رحم کے تعلق کے بعد ضائع ہونے سے محفوظ ہوگیا اور اس میں ایک تغیر پیدا ہوگیا جو پہلے نہ تھا۔ یعنی وہ ایک جمے ہوئے خون کی صورت میں ہوگیا۔ اور قوام بھی غلیظ ہوگیا اور رحم سے اس کا ایک علاقہ ہوگیااس لئے اس کانام عَلَقَہ رکھا گیا اور ایسی عورت حاملہ کہلانے کی مستحق ہوگئی ۔ اور بوجہ اس علاقہ کے رحم اس کا سرپرست بن گیا اور اس کے زیر سایہ نطفہ کا نشو ونما ہونے لگا۔ مگر اس حالت میں نطفہ نے کچھ زیادہ پاکیزگی حاصل نہیں کی۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 198

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 198

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/198/mode/1up


صرف ایک خون جما ہوا بن گیا اور رحم کے تعلق کی وجہ سے ضائع ہونے سے بچ گیا اور جس طرح اورصورتوں میں ایک نطفہ لغو طور پر پھیلتا اور بیہودہ طور پر اندر سے بہ نکلتااورکپڑوں کو پلید کرتا تھا اب اس تعلق کی وجہ سے بیکار جانے سے محفوظ رہ گیا۔ لیکن ہنوز وہ ایک جما ہوا خون تھا جس نے ابھی نجاست خفیفہ کی آلودگی سے پاکی حاصل نہیں کی تھی۔ اگر رحم سے یہ تعلق اس کا پیدا نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ اندام نہانی میں داخل ہوکر بھی رحم میں قرار نہ پاسکتا اور باہر کی طرف بہ جاتا۔ مگر رحم کی قوت مدبّرہ نے اپنے خاص جذب سے اُس کو تھام لیا اور پھر ایکؔ جمے ہوئے خون کی شکل پر بنا دیا۔ تب جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں اس تعلق کی وجہ سے علقہ کہلایا اور اس سے پہلے رحم نے اُس پر کوئی اپنا خاص اثر ظاہر نہیں کیا تھا اور اسی اثر نے اس کو ضائع ہونے سے روکا اور اسی اثر سے نطفہ کی طرح اُس میں رقّت بھی باقی نہ رہی یعنی اس کا قوام رکیک اور پتلا نہ رہا بلکہ کسی قدر گاڑھا ہوگیا۔

اور اس علقہ کے مقابل پر جو جسمانی وجود کادوسرا مرتبہ ہے روحانی وجود کادوسرا مرتبہ وہ ہے جس کا ابھی ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں جس کی طرف قرآن شریف کی یہ آیت اشارہ کرتی ہے 3یعنی رہائی یافتہ مومن وہ لوگ ہیں جو لغوکاموں اور لغو باتوں اور لغو حرکتوں اور لغو مجلسوں اور لغو صحبتوں سے اور لغو تعلقات سے اور لغو جوشوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں اور ایمان ان کا اس درجہ تک پہنچ جاتا ہے کہ اس قدر کنارہ کشی اُن پر سہل ہو جاتی ہے کیونکہ بوجہ ترق ئ ایمان کے کسی قدر تعلق اُن کا خدائے رحیم سے ہوجاتاہے جیسا کہعلقہ ہونے کی حالت میں جب نطفہ کا تعلق کسی قدر رحم سے ہو جاتاہے تو وہ لغو طور پر گر جانے یا بہ جانے یا اور طور پر ضائع ہوجانے سے امن میں آجاتاہے اِلَّاماشاء اللّٰہ ۔ سو روحانی وجود کے اس مرتبہ دوم میں خدائے رحیم سے تعلق بعینہٖ اُس تعلق سے مشابہ ہوتا ہے جو جسمانی وجود کے دوسرے مرتبہ پر علقہ کو



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 199

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 199

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/199/mode/1up


رحم سے تعلق ہو جاتاہے اور جیسا کہ قبل ظہور دوسرے مرتبہ وجودروحانی کے لغو تعلقات اورلغوشغلوں سے رہائی پانا غیر ممکن ہوتا ہے اور صرف وجود روحانی کا پہلا مرتبہ یعنی خشوع اور عجزونیاز کی حالت اکثر برباد بھی چلی جاتی ہے اور انجام بد ہوتا ہے۔ ایسا ہی نطفہ بھی جو جسمانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے علقہ بننے کی حالت سے پہلے بسا اوقات صدہا مرتبہ لغو طور پر ضائع ہوجاتا ہے پھر جب ارادہ الٰہی اس بات کے متعلق ہوتا ہے کہ لغو طور پر ضائع ہونے سے اس کو بچائے تو اُس کے امر اور اذن سے وہی نطفہ رحم میں علقہ بن جاتا ہے تب وہ وجود جسمانی کا دوسرا مرتبہ کہلاتا ہے غرض دوسرامرتبہ روحانی وجود کا جو تمام لغو باتوں اور تمام کاموں سے پرہیز کرنا اور لغو باتوں اور لغو تعلقات اور لغو جوشوں سے کنارہ کش ہونا ہے یہ مرتبہ بھی اسی وقت میسّر آتا ہے کہ جب خدائے رحیم سے انسان کا تعلق پیدا ہو جائے۔ کیونکہ یہ تعلق میں ہی طاقت اور قوتؔ ہے کہ دوسرے تعلق کو توڑتا ہے اور ضائع ہونے سے بچاتا ہے اور گو انسان کو اپنی نماز میں حالت خشوع میسر آجائے جو روحانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے پھر بھی وہ خشوع لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو جوشوں سے روک نہیں سکتا۔ جب تک کہ خدا سے وہ تعلق نہ ہو جو روحانی وجود کے دوسرے مرتبہ پر ہوتا ہے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ گو ایک انسان اپنی بیوی سے ہر روز کئی دفعہ صحبت کرے تاہم وہ نطفہ ضائع ہونے سے رُک نہیں سکتا جب تک کہ رحم سے اس کا تعلق پیدا نہ ہو جائے۔

پس خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ 3 اس کے یہی معنے ہیں کہ مومن وہی ہیں جو لغو تعلقات سے اپنے تئیں الگ کرتے ہیں اور لغو تعلقات سے اپنے تئیں الگ کرنا خدا تعالیٰ کے تعلق کا موجب ہے*۔ گویا لغو باتوں سے دل کو

لغو تعلقات سے الگ ہونا خدا تعالیٰ کے تعلق کا اس لئے موجب ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں آیات میں اَفْلَحَ کے لفظ کے ساتھ وعدہ فرمایا ہے کہ جو شخص خدا کی طلب میں کوئی کام



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 200

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 200

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/200/mode/1up


چھڑانا خدا سے دل کو لگا لینا ہے کیونکہ انسان تعبّد ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اور طبعی طور پر اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت موجود ہے پس اسی وجہ سے انسان کی روح کو خداتعالیٰ سے ایک تعلق ازلی ہے۔ جیسا کہ آیت33۱؂ سے ظاہر ہوتا ہے اوروہ تعلق جو انسان کو رحیمیّت کے پرتوہ کے نیچے آکر یعنی عبادات کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے حاصل ہوتا ہے جس تعلق کا پہلا مرتبہ یہ ہے کہ خدا پر ایمان لاکر ہر ایک لغو بات اور لغو کام اور لغو مجلس اور لغو حرکت اور لغو تعلق اور لغو جوش سے کنارہ کشی کی جائے۔ وہ اُسی ازلی تعلق کو مُکمن قوت سے حیّزِفعل میں لانا ہے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اور جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں انسان کے روحانی وجود کا پہلا مرتبہ جو نماز اور یاد الٰہی میں حالتِ خشوع اور رقّت اور سوز و گداز ہے یہ مرتبہ اپنی ذات میں صرف اطلاق کی حیثیت رکھتا ہے یعنی نفس خشوع کے لئے یہ لازمی امر نہیں ہے کہ ترکِ لغویات بھی ساتھ ہی ہو یا اس سے بڑھ کر کوئی اخلاقِ فاضلہ اور عاداتِ مہذبہ ساتھ ہوں بلکہ ممکن ہے کہ جو شخص نماز میں خشوع اور رقّت و سوز اور گریہ وزاری اختیار کرتا ہے خواہ اس قدر کہ دوسرے پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے ہنوز لغوباتوں اور لغو کاموں اور لغو حرکتوں اور لغو مجلسوں اور لغو تعلقوں اور لغو نفسانی جوشوں سے اس کا دل پاک نہ ہو یعنی ممکن ہے کہ ہنوز معاصی سے ؔ اس کورُستگاری نہ ہو کیونکہ خشوع کی حالت کا

کرے گا وہ بقدر محنت کشی اور بقدر اپنی سعی کے خدا کو پائے گا۔ اور اس سے تعلق پیدا کرلے گا۔ پس جو شخص خدا کا تعلق حاصل کرنے کے لئے لغو کام چھوڑتا ہے اس کو اس وعدہ کے موافق جو لفظ افلح میں ہے ایک خفیف سا تعلق خدا تعالیٰ سے ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جو اس نے کام کیا ہے وہ بھی بڑا بھاری کام نہیں صرف ایک خفیف تعلق کو جو اس کو لغویات سے تھا چھوڑ دیا ہے اور یاد رہے کہ جیسا کہ لفظ افلح اول آیت میں موجود ہے یعنی اس آیت میں کہ3۔3۲؂ یہی لفظ عطف کے طور پر تمام آئندہ آیتوں سے وعدہ کے طور پر متعلق ہے۔ پس یہ آیت کہ3۳؂ یہی معنی رکھتی ہے کہقد أفلح المؤمنون الذین ھم عن اللغو معرضون اور افلاح یعنی افلح کا لفظ ہریک مرتبہ ایمان پر ایک خاص معنی رکھتا ہے اور ایک خاص تعلّق کا وعدہ دیتا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 201

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 201

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/201/mode/1up


کبھی کبھی دل پر وارد ہونا یا نماز میں ذوق اور سرور حاصل ہونا یہ اور چیز ہے اور طہارتِ نفس اور چیز۔ اور گو کسی سالک کا خشوع اورعجز و نیاز اور سوزوگداز بدعت اور شرک کی آمیزش سے پاک بھی ہوتا ہم ایسا آدمی جس کا وجود روحانی ابھی مرتبہ دوم تک نہیں پہنچا ابھی صرف قبل ۂ روحانی کا قصد کر رہا ہے اور راہ میں سرگردان ہے اور ہنوز اُس کی راہ میں طرح طرح کے دشت و بیابان اورخارستان اور کوہستان اور بحرِ عظیم پُر طوفان اور درندگان دشمن ایمان و دشمن جان قدم قدم پر بیٹھے ہیں تاوقتیکہ وجود روحانی کے دوسرے مرتبہ تک نہ پہنچ جائے۔

یاد رہے کہ خشوع اورعجزو نیاز کی حالت کو یہ بات ہرگز لازم نہیں ہے کہ خدا سے سچا تعلق ہو جائے بلکہ بسا اوقات شریر لوگوں کو بھی کوئی نمونہ قہر الٰہی دیکھ کر خشوع پیدا ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ سے ان کو کچھ بھی تعلق نہیں ہوتا اور نہ لغو کاموں سے ابھی رہائی ہوتی ہے ۔ مثلاً وہ زلزلہ جو چار ۴ اپریل۱۹۰۵ء ؁ کو آیا تھا اُس کے آنے کے وقت لاکھوں دلوں میں ایسا خشوع اور سوز و گداز ہوا تھا کہ بجز خدا کے نام لینے اور رونے کے اور کوئی کام نہ تھا یہاں تک کہ دہریوں کو بھی اپنا دہریہ پن بھول گیا تھا۔ اور پھر جب وہ وقت جاتا رہا اور زمین ٹھہر گئی تو حالتِ خشوع نابود ہوگئی یہاں تک کہ میں نے سنا ہے کہ بعض دہریوں نے جو اس وقت خدا کے قائل ہوگئے تھے بڑی بے حیائی اور دلیری سے کہا کہ ہمیں غلطی لگ گئی تھی کہ ہم زلزلہ کے رعب میں آگئے ورنہ خدا نہیں ہے ۔ غرض جیسا کہ ہم بار بار لکھ چکے ہیں خشوع کی حالت کے ساتھ بہت گند جمع ہو سکتے ہیں البتہ وہ تمام آئندہ کمالات کے لئے تخم کی طرح ہے مگر اسی حالت کو کمال سمجھنا اپنے نفس کو دھوکہ دینا ہے۔ بلکہ بعد اس کے ایک اور مرتبہ ہے جس کی تلاش مومن کو کرنی چاہئے اور کبھی آرام نہیں لینا چاہئے اور سست نہیں ہونا چاہئے جب تک وہ رتبہ حاصل نہ ہو جائے اور وہ وہی مرتبہ ہے جس کو کلامِ الٰہی نے ان الفاظ سے بیان فرمایا ہے 3۱؂ یعنی مومن صرف وہی لوگ نہیں ہیں جو نماز میں خشوع اختیار کرتے اور سوز و گداز ظاہر کرتے ہیں بلکہ ان سے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 202

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 202

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/202/mode/1up


بڑھؔ کر وہ مومن ہیں کہ جو باوجود خشوع اور سوز و گداز کے تمام لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو تعلقوں سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں اور اپنی خشوع کی حالت کو بیہودہ کاموں اور لغو باتوں کے ساتھ ملاکر ضائع اور برباد ہونے نہیں دیتے اور طبعاً تمام لغو یات سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں اور بیہودہ باتوں اور بیہودہ کاموں سے ایک کراہت اُن کے دلوں میں پیدا ہوجاتی ہے اور یہ اس بات پر دلیل ہوتی ہے کہ ان کو خدا تعالیٰ سے کچھ تعلق ہوگیا ہے کیونکہ ایک طرف سے انسان تب ہی منہ پھیرتا ہے جب دوسری طرف اس کا تعلق ہو جاتا ہے۔ پس دنیا کی لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو سیروتماشا اور لغو صحبتوں سے واقعی طور پر اُسی وقت انسان کا دل ٹھنڈا ہوتا ہے جب دل کا خدائے رحیم سے تعلق ہو جائے اور دل پر اس کی عظمت اور ہیبت غالب آجائے۔ ایسا ہی نطفہ بھی اسی وقت لغو طورپر ضائع ہو جانے سے محفوظ ہوتا ہے جب رحم سے اس کا تعلق ہو جائے اور رحم کا اثر اس پر غالب آجائے اور اس تعلق کے وقت نطفہ کا نام علقہ ہو جاتا ہے۔ پس اسی طرح روحانی وجود کا دوسرا مرتبہ بھی جو مومن کا مُعرض عن اللغوہونا ہے روحانی طور پر علقہ ہے کیونکہ اسی مرتبہ پر مومن کے دل پر ہیبت اور عظمت الٰہی وارد ہوکر اس کو لغو باتوں اور لغو کاموں سے چھڑاتی ہے اور ہیبت اور عظمتِ الٰہی سے متاثر ہوکر ہمیشہ کے لئے لغو باتوں اور لغو کاموں کو چھوڑ دینا یہی وہ حالت ہے جس کو دوسرے لفظوں میں تعلق باللہ کہتے ہیں لیکن یہ تعلق جو صرف لغو یات کے ترک کرنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے یہ ایک خفیف تعلق ہے کیونکہ اس مرتبہ پر مومن صرف لغویات سے تعلق توڑتا ہے لیکن نفس کی ضروری چیزوں سے اور ایسی باتوں سے جن پر معیشت کی آسودگی کاحصہ ہے ابھی اس کے دل کا تعلق ہوتا ہے اس لئے ہنوز ایک حصہ پلیدی کااس کے اندر رہتاہے۔ اِسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے وجودِروحانی کے اس مرتبہ کو علقہ سے مشابہت دی ہے اور علقہ خون جما ہوا ہوتا ہے جس میں بباعث خون ہونے کے ایک حصہ پلیدی کا باقی ہوتا ہے اور اس مرتبہ میں یہ نقص اس لئے رہ جاتا ہے کہ ایسے لوگ پورے طور پر خدا تعالیٰ سے ڈرتے نہیں اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 203

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 203

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/203/mode/1up


پورے طور پر ان کے دلوں میں حضرت عزّت جلّ شَانہٗ کی عظمت اور ہیبت نہیں بیٹھی اس لئے صرف نکمی اور لغو باتوں کے چھوڑنے پر قادر ہوسکتے ہیں نہ اور باتوں پر ۔ پس ناچاؔ ر اس قدر پلیدی اُن کے نفوس ناقصہ میں رہ جاتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے ایک خفیف سا تعلق پیدا کرکے لغویات سے توکنارہ کش ہو جاتے ہیں لیکن وہ ان کاموں کو چھوڑ نہیں سکتے جن کا چھوڑنا نفس پر بہت بھاری ہے یعنی وہ خدا تعالیٰ کے لئے ان چیزوں کو چھوڑ نہیں سکتے جو نفسانی لذّات کے لئے لوازم ضروریہ ہیں اِس بیان سے ظاہر ہے کہ محض لغویات سے منہ پھیرنا ایسا امر نہیں ہے جو بہت قابلِ تحسین ہو بلکہ یہ مومن کی ایک ادنیٰ حالت ہے ہاں خشوع کی حالت سے ایک درجہ ترقی پر ہے۔

اور جسمانی وجود کے تیسرے درجہ کے مقابل پر روحانی وجود کا تیسرا درجہ واقع ہوا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ جسمانی وجود کا تیسرا مرتبہ یہ ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے3 3۱؂یعنی پھر بعد اس کے ہم نے علقہ کو بوٹی بنایا۔یہ وہ مرتبہ ہے جس میں وجود جسمانی انسان کا ناپاکی سے باہر آتا ہے اور پہلے سے اس میں کسی قدر شدت اور صلابت بھی پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ نطفہ اور خون جما ہوا جو علقہ ہے وہ دونوں ایک نجاستِ خفیفہ اپنے اندر رکھتے ہیں اور اپنے قوام کے رو سے بھی بہ نسبت مضغہ کے نرم اور رقیق ہیں مگر مضغہ جو ایک گوشت کا ٹکڑہ ہوتا ہے پاک حالت اپنے اندر پیدا کرتا ہے اور بہ نسبت نطفہ اور علقہ کے قوام میں بھی ایک حد تک سختی پیدا کرلیتا ہے۔ یہی حالت روحانی وجود کے تیسرے درجہ کی ہے اور روحانی وجود کا تیسرا درجہ وہ ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے۔3۲؂ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ وہ مومن کہ جو پہلی دو حالتوں سے بڑھ کر قدم رکھتا ہے وہ صرف بیہودہ اور لغو باتوں سے ہی کنارہ کش نہیں ہوتا بلکہ بخل کی پلیدی کو دُور کرنے کے لئے جو طبعاً ہر ایک انسان کے اندر ہوتی ہے زکوٰۃ بھی دیتا ہے یعنی خدا کی راہ میں ایک حصہ اپنے مال کا خرچ کرتا ہے۔ زکوٰۃ کا نام اسی لئے زکوٰۃ ہے کہ انسان اس کی بجا آوری سے یعنی اپنے مال کو جو اس کو بہت پیارا ہے لِلّٰہ دینے سے بخل کی پلیدی سے پاک ہوجاتا ہے۔ اور جب بخل کی پلیدی جس سے انسان طبعاً بہت تعلق رکھتا ہے انسان کے اندر سے نکل جاتی ہے تو وہ کسی حد تک پاک بن کر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 204

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 204

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/204/mode/1up


خدا سے جو اپنی ذات میںؔ پاک ہے ایک مناسبت پیدا کرلیتا ہے ؂

کوئی اُس پاک سے جو دل لگاوے کرے پاک آپ کو تب اُس کو پاوے

اور یہ مرتبہ پہلی دو حالتوں میں پایا نہیں جاتا۔ کیونکہ صرف خشوع اورعجز و نیاز یا صرف لغو باتوں کو ترک کرنا ایسے انسان سے بھی ہوسکتا ہے جس میں ہنوز بخل کی پلیدی موجود ہے لیکن جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے اپنے اس مال عزیز کو ترک کرتا ہے جس پر اس کی زندگی کامدار اور معیشت کا انحصار ہے اور جو محنت اور تکلیف اور عرقریزی سے کمایا گیا ہے تب بخل کی پلیدی اس کے اندر سے نکل جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ایمان میں بھی ایک شدت اور صلابت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ دونوں حالتیں مذکورہ بالا جو پہلے اس سے ہوتی ہیں اُن میں یہ پاکیزگی حاصل نہیں ہوتی بلکہ ایک چھپی ہوئی پلیدی ان کے اندر رہتی ہے ۔ اس میں حکمت یہی ہے کہ لغویات سے منہ پھیرنے میں صرف ترکِ شر ہے اور شر بھی ایسی جس کی زندگی اور بقاکے لئے کچھ ضرورت نہیں اور نفس پر اس کے ترک کرنے میں کوئی مشکل نہیں لیکن اپنا محنت سے کمایا ہوا مال محض خدا کی خوشنودی کے لئے دینا یہ کسبِ خیر ہے جس سے وہ نفس کی ناپاکی جو سب ناپاکیوں سے بدتر ہے یعنی بخل دُور ہوتا ہے لہٰذا یہ ایمانی حالت کا تیسرا درجہ ہے جو پہلے دو درجوں سے اشرف اور افضل ہے اور اس کے مقابل پرجسمانی وجود کے تیار ہونے میں مضغہ کا درجہ ہے جو پہلے دو درجوں نطفہ اور علقہ سے فضیلت میں بڑھ کر ہے اور پاکی میں خصوصیت رکھتا ہے کیونکہ نطفہ اور علقہ دونوں نجاست خفیفہ سے ملوث ہیں مگر مضغہ پاک حالت میں ہے اور جس طرح رحم میں مضغہ کو بہ نسبت نطفہ اور علقہ کے ایک ترقی یافتہ حالت اور پاکیزگی پیدا ہو جاتی ہے اور بہ نسبت نطفہ اور علقہ کے رحم سے اس کا تعلق بھی زیادہ ہو جاتا ہے اور شدت اور صلابت بھی زیادہ ہو جاتی ہے یہی حالت وجود روحانی کی مرتبہ سوم کی ہے جس کی تعریف خدا تعالیٰ نے یہ فرمائی ہے3۱؂ یعنی مومن وہ ہیں جو اپنے نفس کو بخل سے پاک



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 205

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 205

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/205/mode/1up


کرنے کے لئے اپنا عزیز مال خدا کی راہ میں دیتے ہیں اور اس فعل کو وہ آپ اپنی مرضی سے اختیار کرتے ہیں۔ پس وجود رُوحانی کی اس مرتبہ سوم میں وہی تین۳ خوبیاں پائی جاتی ہیں جو وجود جسمانی کے مرتبہ سوم میں یعنی مضغہ ہونے کی حالت میں پائی جاتی ہیں۔ کیونکہ یہ حالت جو بخل سے پاکؔ ہونے کے لئے اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنا اور اپنی محنت سے حاصل کردہ سرمایہ محض لِلّٰہ دوسرے کو دینا بہ نسبت اس حالت کے جو محض لغو باتوں اور لغو کاموں سے پرہیز کرنا ہے ایک ترقی یافتہ حالت ہے اور اس میں صریح اور بدیہی طورپر بخل کی پلیدی سے پاکیزگی حاصل ہوتی ہے اور خدائے رحیم سے تعلق بڑھتا ہے کیونکہ اپنے مال عزیز کو خدا کے لئے چھوڑنا بہ نسبت لغو باتوں کے چھوڑنے کے زیادہ تر نفس پر بھاری ہے اس لئے اس زیادہ تکلیف اٹھانے کے کام سے خدا سے تعلق بھی زیادہ ہو جاتا ہے اور بباعث ایک مشقت کا کام بجالانے کے ایمانی شدت اور صلابت بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔

اب اس کے بعد روحانی وجود کا چوتھا درجہ وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا ہے 3۱؂یعنی تیسرے درجہ سے بڑھ کرمومن وہ ہیں جو اپنے تئیں نفسانی جذبات اور شہوات ممنوعہ سے بچاتے ہیں۔ یہ درجہ تیسرے درجہ سے اس لئے بڑھ کر ہے کہ تیسرے درجہ کا مومن تو صرف مال کو جو اُس کے نفس کو نہایت پیارا اورعزیز ہے خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتا ہے لیکن چوتھے۴ درجہ کا مومن وہ چیز خدا تعالیٰ کی راہ میں نثار کرتا ہے جو مال سے بھی زیادہ پیاری اور محبوب ہے یعنی شہوات نفسانیہ۔ کیونکہ انسان کو اپنی شہواتِ نفسانیہ سے اس قدر محبت ہے کہ وہ اپنی شہوات کے پورا کرنے کے لئے اپنے مال عزیز کو پانی کی طرح خرچ کرتا ہے اور ہزارہا روپیہ شہوات کے پورا کرنے کے لئے برباد کر دیتا ہے اور شہوات کے حاصل کرنے کے لئے مال کو کچھ بھی چیز نہیں سمجھتا۔ جیسا کہ دیکھا جاتا ہے ایسے نجس طبع اور بخیل لوگ جو ایک محتاج بھوکے اور ننگے کو بباعث سخت بخل کے ایک پیسہ بھی دے نہیں سکتے شہوات نفسانیہ کے جوش میں بازاری عورتوں کو ہزارہا روپیہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 206

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 206

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/206/mode/1up


دے کر اپنا گھر ویران کر لیتے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ سیلاب شہوت ایسا تُنداور تیز ہے کہ بخل جیسی نجاست کو بھی بہالے جاتا ہے ۔ اس لئے یہ بدیہی امر ہے کہ بہ نسبت اس قوت ایمانی کے جس کے ذریعہ سے بخل دور ہوتا ہے اور انسان اپنا عزیز مال خدا کے لئے دیتا ہے یہ قوتِ ایمانی جس کے ذریعہ سے انسان شہواتِ نفسانیہ کے طوفان سے بچتا ہے نہایت زبردست اور شیطان کا مقابلہ کرنے میں نہایت سخت اور نہایت دیرپا ہے کیونکہ اس کا کام یہ ہے کہ نفسِ امّارہ جیسے پرانے اژدہا کو اؔ پنے پیروں کے نیچے کچل ڈالتی ہے۔ اور بخل تو شہوات نفسانیہ کے پورا کرنے کے جوش میں اور نیز ریااور نمود کے وقتوں میں بھی دُورہو سکتا ہے مگر یہ طوفان جو نفسانی شہوات کے غلبہ سے پیدا ہوتا ہے ۔ یہ نہایت سخت اور دیرپا طوفان ہے جو کسی طرح بجز رحم خداوندی کے دور ہوہی نہیں سکتا اور جس طرح جسمانی وجود کے تمام اعضاء میں سے ہڈی نہایت سخت ہے اور اس کی عمر بھی بہت لمبی ہے اسی طرح اس طوفان کے دور کرنے والی قوتِ ایمانی نہایت سخت اور عمر بھی لمبی رکھتی ہے تا ایسے دشمن کا دیر تک مقابلہ کرکے پامال کرسکے اور وہ بھی خدا تعالیٰ کے رحم سے کیونکہ شہواتِ نفسانیہ کا طوفان ایک ایسا ہولناک اور پُرآشوب طوفان ہے کہ بجز خاص رحم حضرت احدیت کے فرو نہیں ہوسکتا۔ اسی وجہ سے حضرت یوسف کو کہنا پڑا 33۱؂یعنی میں اپنے نفس کو بَری نہیں کرتا نفس نہایت درجہ بدی کا حکم دینے والا ہے اور اس کے حملہ سے مَخلصی غیر ممکن ہے مگر یہ کہ خود خدا تعالیٰ رحم فرماوے۔ اس آیت میں جیسا کہ فقرہ 3ہے طوفان نوح کے ذکر کے وقت بھی اسی کے مشابہ الفاظ ہیں کیونکہ وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 33۲؂ پس یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ طوفان شہواتِ نفسانیہ اپنی عظمت اور ہیبت میں نوح کے طوفان سے مشابہ ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 207

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 207

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/207/mode/1up


اور اس درجہ روحانی کے مقابل پر جو وجودِ روحانی کا چو۴ تھادرجہ ہے جسمانی وجود کا درجہ

چہارم ہے جس کے بارے میں قرآن شریف میں یہ آیت ہے3۱؂ یعنی پھرہم نے مُضغہ سے ہڈیاں بنائیں۔ اور ظاہرہے کہ ہڈیوں میں بہ نسبت مضغہ یعنی بوٹی کے زیادہ صلابت اور سختی پیدا ہو جاتی ہے اور نیز ہڈی بہ نسبت مضغہ کے بہت دیرپا ہے اور ہزاروں برس تک اس کانشان رہ سکتا ہے پس وجود روحانی کے درجہ چہارم اور وجود جسمانی کے درجہ چہارم میں مشابہت ظاہر ہے کیونکہ وجود روحانی کے درجہ چہارم میں بہ نسبت وجود روحانی کے درجہ سوم کے ایمانی شدّت اور صلابت زیادہ ہے اور خدا ئے رحیم سے تعلق بھی زیادہ۔ ایسا ہی وجود جسماؔ نی کے درجہ چہارم میں جو استخوان کا پیدا ہونا ہے بہ نسبت درجہ سوم وجود جسمانی کے جو محض مضغہ یعنی بوٹی ہے جسمانی طور پر شدت اور صلابت زیادہ ہے اور رحم سے تعلق بھی زیادہ۔

پھر چہارم درجہ کے بعد پانچوا۵ں درجہ وجود روحانی کا وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا ہے3۔۲؂ یعنی پانچویں درجہ کے مومن جو چوتھے درجہ سے بڑھ گئے ہیں وہ ہیں جو صرف اپنے نفس میں یہی کمال نہیں رکھتے جو نفسِ امّارہ کی شہوات پر غالب آگئے ہیں اور اس کے جذبات پر اُن کو فتح عظیم حاصل ہوگئی ہے بلکہ وہ حتی الوسع خدا اوراس کی مخلوق کی تمام امانتوں اور تمام عہدوں کے ہر ایک پہلو کا لحاظ رکھ کر تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جہاں تک طاقت ہے اس راہ پر چلتے ہیں۔ خدا کے عہدوں سے مراد وہ ایمانی عہد ہیں جو بیعت اور ایمان لانے کے وقت مومن سے لئے جاتے ہیں جیسے شرک نہ کرنا خونِ ناحق نہ کرنا وغیرہ۔

لفظ رَاعُوْنَ جو اس آیت میں آیا ہے جس کے معنے ہیں رعایت رکھنے والے۔ یہ لفظ عرب کے محاورہ کے موافق اُس جگہ بولا جاتا ہے جہاں کوئی شخص اپنی قوت اور طاقت کے مطابق



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 208

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 208

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/208/mode/1up


کسی امر کی باریک راہ پر چلنا اختیار کرتا ہے اور اس امر کے تمام دقائق بجا لانا چاہتا ہے اور کوئی پہلو اس کا چھوڑنا نہیں چاہتا۔ پس اس آیت کا حاصل مطلب یہ ہوا کہ وہ مومن جو وجودِ روحانی کے پنجم درجہ پر ہیں حتی الوسع اپنی موجودہ طاقت کے موافق تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارتے ہیں اور کوئی پہلو تقویٰ کا جو امانتوں یا عہد کے متعلق ہے خالی چھوڑنا نہیں چاہتے اور سب کی رعایت رکھنا اُن کا ملحوظِ نظر ہوتا ہے اور اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ موٹے طور پر اپنے تئیں امین اور صادق العہد قرار دے دیں بلکہ ڈرتے رہتے ہیں کہ درپردہ اُن سے کوئی خیانت ظہور پذیر نہ ہو۔ پس طاقت کے موافق اپنے تمام معاملات میں توجہ سے غور کرتے رہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ اندرونی طور پر اُن میں کوئی نقص اور خرابی ہو اور اسی رعایت کا نام دوسرے لفظوں میں تقویٰ ہے۔

خلاصہ مطلب یہ کہ وہ مومن جو وجود رُوحانی میں پنجم درجہ پر ہیں وہ اپنے معاملات میںؔ خواہ خدا کے ساتھ ہیں خواہ مخلوق کے ساتھ بے قید اور خلیع الرسن نہیں ہوتے بلکہ اس خوف سے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک کسی اعتراض کے نیچے نہ آجاویں اپنی امانتوں اور عہدوں میں دُور دُور کا خیال رکھ لیتے ہیں اور ہمیشہ اپنی امانتوں اور عہدوں کی پڑتال کرتے رہتے ہیں اور تقویٰ کی دُوربین سے اس کی اندرونی کیفیت کو دیکھتے رہتے ہیں تا ایسا نہ ہو کہ درپردہ اُن کی امانتوں اور عہدوں میں کچھ فتور ہو اور جو امانتیں خدا تعالیٰ کی اُن کے پاس ہیں جیسے تمام قویٰ اور تمام اعضاء اور جان اور مال اور عزت وغیرہ ان کو حتی الوسع اپنی بپابندی تقویٰ بہت احتیاط سے اپنے اپنے محل پر استعمال کرتے رہتے ہیں اور جو عہد ایمان لانے کے وقت خدا تعالیٰ سے کیا ہے کمال صدق سے حتی المقدور اس کے پورا کرنے کے لئے کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایسا ہی جو امانتیں مخلوق کی اُن کے پاس ہوں یا ایسی چیزیں جو امانتوں کے حکم میں ہوں اُن سب میں تابمقدور تقویٰ کی پابندی سے کاربند ہوتے ہیں۔ اگر کوئی تنازع واقع ہو تو تقویٰ کو مدّنظر رکھ کر اس کا فیصلہ کرتے ہیں گو اس فیصلہ میں نقصان اٹھالیں۔ یہ درجہ چوتھے درجہ سے اس لئے بڑھ کر ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 209

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 209

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/209/mode/1up


کہ اس میں حتی الوسع تمام اعمال میں تقویٰ کی باریک راہوں سے کام لینا پڑتا ہے اور حتی الوسع جمیع امور میں ہر ایک قدم تقویٰ کی رعایت سے اٹھانا پڑتا ہے مگر چوتھا درجہ صرف ایک ہی موٹی بات ہے اور وہ یہ کہ زنا سے اور بدکاریوں سے پرہیز کرنا اور ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ زنا ایک بہت بے حیائی کا کام ہے اور اس کا مرتکب شہواتِ نفس سے اندھا ہو کر ایسا ناپاک کام کرتا ہے جو انسانی نسل کے حلال سِلسلہ میں حرام کو ملا دیتا ہے اور تضیع نسل کا موجب ہوتا ہے۔ اِسی وجہ سے شریعت نے اس کو ایسا بھاری گناہ قرار دیا ہے کہ اِسی دنیا میں ایسے انسان کے لئے حدِ شرعی مقرر ہے۔ پس ظاہر ہے کہ مومن کی تکمیل کے لئے صرف یہی کافی نہیں کہ وہ زنا سے پرہیز کرے کیونکہ زنا نہایت درجہ مفسد طبع اور بے حیا انسانوں کا کام ہے اور یہ ایک ایسا موٹا گناہ ہے جو جاہل سے جاہل اس کو بُرا سمجھتا ہے اور اس پر بجز کسی بے ایمان کے کوئی بھی دلیری نہیں کر سکتا۔ پس اِس کا ترک کرنا ایک معمولی شرافت ہے کوئی بڑے کمال کی بات نہیں لیکن انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔* تقویٰ کی باریک راہیں رُوحانی خوبصوؔ رتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں ض کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قویٰ اور اعضاء ہیں

ایمان کے لئے خشوع کی حالت مثل بیج کے ہے اور پھر لغو باتوں کے چھوڑنے سے ایمان اپنا نرم نرم سبزہ نکالتا ہے اور پھر اپنا مال بطور زکوٰۃ دینے سے ایمانی درخت کی ٹہنیاں نکل آتی ہیں جو اس کو کسی قدر مضبوط کرتی ہیں اور پھر شہواتِ نفسانیہ کا مقابلہ کرنے سے ان ٹہنیوں میں خوب مضبوطی اور سختی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر اپنے عہد اور امانتوں کی تمام شاخوں کی محافظت کرنے سے درخت ایمان کاا پنے مضبوط تنہ پر کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر پھل لانے کے وقت ایک اور طاقت کا فیضان اس پر ہوتا ہے کیونکہ اس طاقت سے پہلے نہ درخت کو پھل لگ سکتا ہے نہ پھول۔ وہی طاقت روحانی پیدائش کے مرتبہ ششم میں خلق آخر کہلاتی ہے اور اسی مرتبہ ششم پر انسانی کمالات کے پھل اور پھول ظاہر ہونے شروع ہوتے ہیں اور انسانی درخت کی روحانی شاخیں نہ صرف مکمل ہو جاتی ہیں بلکہ اپنے پھل بھی دیتی ہیں۔ منہ

ایمانی عہدوں سے مراد وہ عہد ہیں جو انسان بیعت اور ایمان لانے کے وقت ان کا اقرار کرتا ہے جیسے یہ کہ وہ خون نہیں کرے گا۔ چوری نہیں کرے گا۔ جھوٹی گواہی نہیں دے گا۔ خدا سے کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گا اور اسلام اور پیروی نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر مرے گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 210

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 210

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/210/mode/1up


جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں۔ ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محلِ ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق عباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے جو انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے۔ چنانچہ لِبَاسُ التَّقوٰی قرآن شریف کا لفظ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقوٰی سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کاربند ہو جائے۔

یہ تو وجودِ روحانی کا پانچواں درجہ ہے اور اس کے مقابل پر جسمانی وجود کا پانچوا۵ں درجہ وہ ہے جس کا اس آیت کریمہ میں ذکر ہے3۔۱؂ یعنی پھر ہم نے ہڈیوں پر گوشت مڑھ دیا اور جسمانی بناوٹ کی کسی قدر خوبصورتی دکھلا دی۔ یہ عجیب مطابقت ہے کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے ایک جگہ روحانی طور پر تقویٰ کو لباس قرار دیا ہے ایسا ہی کَسَوْنَا کا لفظ جو کسوت سے نکلا ہے وہ بھی بتلا رہا ہے کہ جو گوشت ہڈیوں پر مڑھا جاتا ہے وہ بھی ایک لباس ہے جو ہڈیوں پر پہنایا جاتا ہے۔ پس یہ دونوں لفظ دلالت کر رہے ہیں کہ جیسی خوبصورتی کا لباس تقویٰ پہناتی ہے ایسا ہی وہ کسوت جو ہڈیوں پر چڑھائی جاتی ہے ہڈیوں کے لئے ایک خوبصورتی کا پیرایہ بخشتی ہے۔ وہاں لباس کا لفظ ہے اور یہاں کسوت کا اور دونوں کے معنے ایک ہیں اور نص قرآنی بآواز بلند پکار رہی ہے کہ دونوں کا مقصد خوبصورتی ہے اور جیسا کہ انسان کی رُوح پر سے اگر تقویٰ کا لباس اتار دیا جائے تو روحانی بدشکلی اس کی ظاہر ہو جاتی ہے۔ اسیؔ طرح اگر وہ گوشت و پوست جو حکیم مطلق نے انسان کی ہڈیوں پر مڑھا ہے اگر ہڈیوں پر سے اتار دیا جائے تو انسان کی جسمانی شکل



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 211

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 211

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/211/mode/1up


نہایت مکروہ نکل آتی ہے مگر اس درجہ پنجم میں خواہ درجہ پنجم وجود جسمانی کا ہے اور خواہ درجہ پنجم وجود روحانی کا ہے کامل خوبصورتی پیدا نہیں ہوتی۔ کیونکہ ابھی رُوح کا اُس پر فیضان نہیں ہوا۔ یہ امر مشہود و محسوس ہے کہ ایک انسان گو کیسا ہی خوبصورت ہو جب وہ مر جاتا ہے اور اُس کی رُوح اس کے اندر سے نکل جاتی ہے تو ساتھ ہی اس حُسن میں بھی فرق آ جاتا ہے جو اُس کو قدرتِ قادر نے عطا کیا تھا۔ حالانکہ تمام اعضاء اور تمام نقوش موجود ہوتے ہیں مگر صرف ایک رُوح کے نکلنے سے انسانی قالب کا گھر ایک ویران اور سُنسان سا معلوم ہوتا ہے اور آب و تاب کا نشان نہیں رہتا۔ یہی حالت رُوحانی وجود کے پانچویں درجہ کی ہے کیونکہ یہ امر بھی مشہود و محسوس ہے کہ جب تک کسی مومن میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس رُوح کا فیضان نہ ہو جو وجود رُوحانی کے چھٹے درجہ پر ملتی ہے اور ایک فوق العادت طاقت اور زندگی بخشتی ہے تب تک خدا کی امانتوں کے ادا کرنے اور اُن کے ٹھیک طور پر استعمال کرنے اور صدق کے ساتھ اس کا ایمانی عہد پورا کرنے اور ایسا ہی مخلوق کے حقوق اور عہدوں کے ادا کرنے میں وہ آب و تاب تقویٰ پیدا نہیں ہوتی جس کا حُسن اور خوبی دلوں کو اپنی طرف کھینچے اور جس کی ہر ایک ادا فوق العادت اور اعجاز کے رنگ میں معلوم ہو بلکہ قبل اس رُوح کے تقویٰ کے ساتھ تکلّف اور بناوٹ کی ایک ملونی رہتی ہے کیونکہ اس میں وہ رُوح نہیں ہوتی جو حُسنِ روحانی کی آب و تاب دکھلا سکے اور یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ ایسے مومن کا قدم جو ابھی اس رُوح سے خالی ہے پورے طور پر نیکی پر قائم نہیں رہ سکتا بلکہ جیسا کہ ایک ہَوا کے دھکّا سے مُردہ کا کوئی عضو حرکت کر سکتا ہے اور جب ہوا دُور ہو جائے تو پھر مُردہ اپنی حالت پر آجاتا ہے ایسا ہی وجود رُوحانی کے پنجم درجہ کی حالت ہوتی ہے کیونکہ صرف عارضی طور پر خدا تعالیٰ کی نسیمِ رحمت اس کو نیک کاموں کی طرف جنبش دیتی رہتی ہے اور اس طرح تقویٰ کے کام اُس سے صادر ہوتے ہیں۔ لیکن ابھی نیکی کی رُوح اس کے اندر آباد نہیں ہوتی اس لئے وہ حسنِ معاملہ اس میں پیدا نہیں ہوتا جو اس رُوح کے داخلؔ ہونے کے بعد اپنا جلوہ دکھلاتا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 212

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 212

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/212/mode/1up


غرض پنجم مرتبہ وجود روحانی کا گو ایک ناقص مرتبہ حُسن تقویٰ کا حاصل کر لیتا ہے مگر کمال اس حُسن کا وجودِ روحانی کے درجہ ششم پر ہی ظاہر ہوتا ہے جب کہ خدا تعالیٰ کی اپنی محبتِ ذاتیہ روحانی وجود کے لئے ایک رُوح کی طرح ہو کر انسان کے دل پر نازل ہوتی اور تمام نقصانوں کا تدارک کرتی ہے اور انسان محض اپنی قوتوں کے ساتھ کبھی کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ رُوح خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل نہ ہو۔ جیسا کہ حافظ شیرازی نے فرمایا ہے

مابدان منزلِ عالی نتوانیم رسید ہاں مگر لطف تو چوں پیش نہد گامے چند

پھر درجہ پنجم کے بعد چھٹا درجہ وجود روحانی کا وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اِس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا ہے3۱؂یعنی چھٹے۶ درجہ کے مومن جو پانچویں درجہ سے بڑھ گئے ہیں وہ ہیں جو اپنی نمازوں پر آپ محافظ اور نگہبان ہیں یعنی وہ کسی دوسرے کی تذکیر اور یاد دہانی کے محتاج نہیں رہے بلکہ کچھ ایسا تعلّق ان کو خدا سے پیدا ہو گیا ہے اور خدا کی یاد کچھ اس قسم کی محبوب طبع اور مدارِ آرام اور مدارِ زندگی ان کے لئے ہو گئی ہے کہ وہ ہر وقت اس کی نگہبانی میں لگے رہتے ہیں اور ہر دم ان کا یادِ الٰہی میں گذرتا ہے اور نہیں چاہتے کہ ایک دم بھی خدا کے ذکر سے الگ ہوں۔

اب ظاہر ہے کہ انسان اسی چیز کی محافظت اور نگہبانی میں تمام تر کوشش کر کے ہر دم لگا رہتا ہے جس کے گم ہونے میں اپنی ہلاکت اور تباہی دیکھتا ہے جیسا کہ ایک مسافر جو ایک بیابان بے آب و دانہ میں سفر کر رہا ہے جس کے صد ہا کوس تک پانی اور روٹی ملنے کی کوئی امید نہیں وہ اپنے پانی اور روٹی کی جو ساتھ رکھتا ہے بہت محافظت کرتا ہے اور اپنی جان کے برابر اس کو سمجھتا ہے کیونکہ وہ یقین رکھتا ہے کہ اس کے ضائع ہونے میں اس کی موت ہے۔ پس وہ لوگ جو اُس مسافر کی طرح اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں اور گو مال کا نقصان ہو یا عزت کا نقصان ہو یا نماز کی وجہ سے کوئی ناراض ہو جائے نماز کو نہیں چھوڑتے اور اس کے ضائع ہونے کے اندیشہ میں سخت بے تاب ہوتے اور پیچ و تاب کھاتے گویا مر ہی جاتے ہیں اور نہیں چاہتے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 213

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 213

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/213/mode/1up


کہ ایک دم بھی یادِ الٰہیؔ سے الگ ہوں۔ وہ درحقیقت نماز اور یاد الٰہی کو اپنی ایک ضروری غذا سمجھتے ہیں جس پر ان کی زندگی کا مدار ہے اور یہ حالت اس وقت پیدا ہوتی ہے کہ جب خدا تعالیٰ اُن سے محبت کرتا ہے اور اس کی محبتِ ذاتیہ کا ایک افروختہ شعلہ جس کو روحانی وجود کے لئے ایک رُوح کہنا چاہیئے اُن کے دل پر نازل ہوتا ہے اور ان کو حیاتِ ثانی بخش دیتا ہے اور وہ رُوح ان کے تمام وجود روحانی کو روشنی اور زندگی بخشتی ہے۔ تب وہ نہ کسی تکلّف اور بناوٹ سے خدا کی یاد میں لگے رہتے ہیں بلکہ وہ خدا جس نے جسمانی طور پر انسان کی زندگی روٹی اور پانی پر موقوف رکھی ہے وہ ان کی رُوحانی زندگی کو جس سے وہ پیار کرتے ہیں اپنی یاد کی غذا سے وابستہ کر دیتا ہے۔ اس لئے وہ اس روٹی اور پانی کو جسمانی روٹی اور پانی سے زیادہ چاہتے ہیں۔ اور اس کے ضائع ہونے سے ڈرتے ہیں اور یہ اس رُوح کا اثر ہوتا ہے جو ایک شعلہ کی طرح اُن میں ڈالی جاتی ہے۔ جس سے عشقِ الٰہی کی کامل مستی اُن میں پیدا ہو جاتی ہے اس لئے وہ یاد الٰہی سے ایک دم الگ ہونا نہیں چاہتے۔وہ اس کے لئے دکھ اُٹھاتے اورمصائب دیکھتے ہیں مگراس سے ایک لحظہ بھی جداہونانہیں چاہتے اور پاس انفاس کرتے ہیں۔ اور اپنی نمازوں کے محافظ اور نگہبان رہتے ہیں۔ اور یہ اَمر اُن کے لئے طبعی ہے کیونکہ درحقیقت خدا نے اپنی محبت سے بھری ہوئی یاد کو جس کو دوسرے لفظوں میں نماز کہتے ہیں ان کے لئے ایک ضروری غذا مقرر کر دیا ہے اور اپنی محبتِ ذاتیہ سے اُن پر تجلّی فرما کر یاد الٰہی کی ایک دلکش لذّت ان کو عطا کی ہے۔ پس اس وجہ سے یاد الٰہی جان کی طرح بلکہ جان سے بڑھ کر ان کو عزیز ہو گئی ہے اور خدا کی ذاتی محبت ایک نئی رُوح ہے جو شعلہ کی طرح ان کے دلوں پر پڑتی ہے اور ان کی نماز اور یادِ الٰہی کو ایک غذا کی طرح ان کے لئے بنا دیتی ہے۔ پس وہ یقین رکھتے ہیں کہ اُن کی زندگی روٹی اور پانی سے نہیں بلکہ نماز اور یاد الٰہی سے جیتے ہیں۔

غرض محبت سے بھری ہوئی یاد الٰہی جس کا نام نماز ہے وہ درحقیقت ان کی غذا ہو جاتی ہے جس کے بغیر وہ جی ہی نہیں سکتے اور جس کی محافظت اور نگہبانی بعینہٖ اس مسافر کی طرح وہ کرتے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 214

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 214

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/214/mode/1up


رہتے ہیں جو ایک دشت بے آب و دانہ میں اپنی چند روٹیوں کی محافظت کرتا ہے جو اس کے پاس ہیں اور اپنے کسی قدر پانی کو جان کے ساتھ رکھتا ہے جو اس کی مشک میں ہے۔ واہب مطلق نے انسان کی روحاؔ نی ترقیات کے لئے یہ بھی ایک مرتبہ رکھا ہوا ہے جو محبت ذاتی اور عشق کے غلبہ اور استیلا کا آخری مرتبہ ہے اور درحقیقت اس مرتبہ پر انسان کے لئے محبت سے بھری ہوئی یاد الٰہی جس کا شرعی اصطلاح میں نماز نام ہے غذا کے قائم مقام ہو جاتی ہے بلکہ وہ بار بار جسمانی رُوح کو بھی اس غذا پر فدا کرنا چاہتا ہے وہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا جیسا کہ مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی اور خدا سے علیحدہ ایک دم بھی بسر کرنا اپنی موت سمجھتا ہے۔ اور اس کی رُوح آستانہ الٰہی پر ہر وقت سجدہ میں رہتی ہے اور تمام آرام اُس کا خدا ہی میں ہو جاتا ہے اور اس کو یقین ہوتا ہے کہ مَیں اگر ایک طرفۃالعین بھی یاد الٰہی سے الگ ہوا تو بس میں مرا۔ اور جس طرح روٹی سے جسم میں تازگی اور آنکھ اور کان وغیرہ اعضاء کی قوتوں میں توانائی آجاتی ہے۔ اِسی طرح اس مرتبہ پر یاد الٰہی جو عشق اور محبت کے جوش سے ہوتی ہے مومن کی روحانی قوتوں کو ترقی دیتی ہے یعنی آنکھ میں قوتِ کشف نہایت صاف اور لطیف طور پر پیدا ہو جاتی ہے اور کان خدا تعالیٰ کے کلام کو سُنتے ہیں اور زبان پروہ کلام نہایت لذیذ اور اجلٰی اور اصفٰی طور پر جاری ہو جاتا ہے اور رؤیاءِ صادقہ بکثرت ہوتے ہیں۔*

بہت سے نادان اس وہم میں گرفتار ہیں کہ ہمیں بھی بعض اوقات سچی خواب آجاتی ہے یا سچا الہام ہو جاتا ہے تو ہم میں اور ایسے اعلیٰ مرتبہ کے لوگوں میں فرق کیا ہوا اور ان عالی مرتبہ لوگوں کی کیا خصوصیت باقی رہی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس قدر طاقت خواب دیکھنے یا الہام کی اس غرض سے عام لوگوں کی فطرت میں رکھی گئی ہے کہ تا ان کے پاس بھی ان باریک باتوں کا کسی قدر نمونہ ہو جو اس جہان سے وراء الوراء باتیں ہیں۔ اور اس طرح پر وہ اپنے پاس ایک نمونہ دیکھ کر دولتِ قبول سے محروم نہ رہیں اور ان پر اتمام حجت ہو جائے۔ ورنہ اگر انسانوں کی یہ حالت ہوتی کہ وحی اور رؤیا صادقہ کی حقیقت سے وہ بالکل بے خبر ہوتے تو بجز انکار کے کیا کر سکتے تھے اور اس حالت میں کسی قدر معذور تھے۔ پھرجبکہ باوجود موجود ہونے اس نمونے کے زمانہ حال کے فلسفی اب تک وحی اور رؤیاصادقہ کا انکار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 215

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 215

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/215/mode/1up


جو فلق صبح کی طرح ظہور میں آ جاتے ہیں اور بباعث علاقہ صافیہ محبت جو حضرت عزت سے ہوتا ہے مبشر خوابوں سے بہت سا حصہ اُن کو ملتا ہے۔ یہی وہ مرتبہ ہے جس مرتبہ پر مومن کو محسوس ہوتا ہے کہ خدا کی محبت اس کے لئے روٹی اور پانی کا کام دیتی ہے۔ یہ نئی پیدائش اس وقت ہوتی ہے جب پہلےؔ روحانی قالب تمام تیار ہو چکتا ہے۔ اور پھر وہ رُوح جو محبتِ ذاتیہ الٰہیہ کا ایک شعلہ ہے ایسی مومن کے دل پر آ پڑتا ہے اور یک دفعہ طاقت بالا نشیمن بشریت سے بلند تر اُس کو لے جاتی ہے۔ اور یہ مرتبہ وہ ہے جس کو روحانی طور پر خَلقِ آخر کہتے ہیں۔ اس مرتبہ پر خدا تعالیٰ اپنی ذاتی محبت کا ایک افروختہ شعلہ جس کو دوسرے لفظوں میں روح کہتے ہیں مومن کے دل پر نازل کرتا ہے اور اس سے تمام تاریکیوں اور آلائشوں اور کمزوریوں کو دُور کر دیتا ہے۔ اور اس رُوح کے پھونکنے کے ساتھ ہی وہ حُسن جو ادنیٰ مرتبہ پر تھا کمال کو پہنچ جاتا ہے اور ایک روحانی آب و تاب پیدا ہو جاتی ہے اور گندی زندگی کی کبودگی بکلّی دُور ہو جاتی ہے اور مومن اپنے اندر محسوس کر لیتا ہے کہ ایک نئی رُوح اس کے اندر داخل ہو گئی ہے جو پہلے نہیں تھی۔ اُس رُوح کے ملنے سے ایک عجیب سکینت اور اطمینان مومن کو حاصل ہو جاتی ہے اور محبتِ ذاتیہ ایک فوّارہ کی طرح جوش مارتی اور عبودیت کے پودہ کی آبپاشی کرتی ہے اور وہ آگ جو پہلے ایک معمولی گرمی کی حد تک تھی اس درجہ پر وہ تمام و کمال افروختہ ہو جاتی ہے اور انسانی وجود کے تمام خس وخاشاک کو جلا کر الوہیت کا قبضہ اس پر کر دیتی ہے۔ اور وہ آگ تمام اعضاء پر احاطہ کر لیتی ہے۔ تب اُس لوہے کی مانند جو نہایت درجہ آگ میں

کرتے ہیں تو اس وقت عام لوگوں کا کیا حال ہوتا جب کہ ان کے پاس کوئی بھی نمونہ نہ ہوتا۔ اور یہ خیال کہ ہمیں بھی بعض اوقات سچی خوابیں آجاتی ہیں یا کوئی سچے الہام ہو جاتے ہیں اس سے رسولوں اور نبیوں کی عظمت میں کوئی فرق نہیں آتا کیونکہ ایسے لوگوں کے رؤیا اور الہام شکوک اور شبہات کے دُخان سے خالی نہیں ہوتے اور باایں ہمہ مقدار میں بھی کم ہوتے ہیں۔ پس جیسا کہ ایک مفلس ایک پیسہ کے ساتھ ایک بادشاہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور نہیں کہہ سکتا کہ میرے پاس بھی مال ہے اور اس کے پاس بھی ایسا ہی یہ مقابلہ بھی ہیچ اور سراسر حماقت ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 216

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 216

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/216/mode/1up


تپایا جائے یہاں تک کہ سُرخ ہو جائے اور آگ کے رنگ پر ہو جائے۔ اس مومن سے اُلوہیت کے آثار اور افعال ظاہر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ لوہا بھی اس درجہ پر آگ کے آثار اور افعال ظاہر کرتا ہے مگر یہ نہیں کہ وہ مومن خدا ہو گیا ہے بلکہ محبتِ الٰہیہ کا کچھ ایسا ہی خاصہ ہے جو اپنے رنگ میں ظاہر وجود کو لے آتی ہے اور باطن میں عبودیت اور اس کا ضعف موجود ہوتا ہے۔ اس درجہ پر مومن کی روٹی خدا ہوتا ہے جس کے کھانے پر اس کی زندگی موقوف ہے اور مومن کا پانی بھی خدا ہوتا ہے جس کے پینے سے وہ موت سے بچ جاتا ہے۔ اور اس کی ٹھنڈی ہوا بھی خدا ہی ہوتا ہے جس سے اس کے دل کو راحت پہنچتی ہے۔ اور اس مقام پر استعارہ کے رنگ میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ خدا اس مرتبہ کے مومن کے اندر داخل ہوتا اور اس کے رگ و ریشہ میں سرایت کرتا اور اس کے دل کو اپنا تخت گاہ بنا لیتا ہے۔ تب وہ اپنی رُوح سے نہیں بلکہ خدا کی رُوح سے دیکھتا اور خدا کی رُوح سے سُنتا اور خدا کی رُوحؔ سے بولتااور خدا کی رُوح سے چلتا اور خدا کی رُوح سے دشمنوں پر حملہ کرتا ہے کیونکہ وہ اس مرتبہ پر نیستی اور استہلاک کے مقام میں ہوتا ہے اور خدا کی رُوح اس پر اپنی محبتِ ذاتیہ کے ساتھ تجلّی فرما کر حیاتِ ثانی اس کو بخشتی ہے ۔ پس اس وقت روحانی طور پر اس پر یہ آیت صادق آتی ہے۔33۔۱؂

یہ تو وجود روحانی کا مرتبہ ششم ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اور اس کے مقابل پر جسمانی پیدائش کا مرتبہ ششم ہے اور اس جسمانی مرتبہ کے لئے بھی وہی آیت ہے جو روحانی مرتبہ کے لئے اوپر ذکر ہو چکی ہے یعنی3۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جب ہم ایک پیدائش کو طیار کر چکے تو بعد اس کے ہم نے ایک اور پیدائش سے انسان کو پیدا کیا۔ اَور کے لفظ سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ وہ ایسی فوق الفہم پیدائش ہے جس کا سمجھنا انسان کی عقل سے بالاتر ہے اور اُس کے فہم سے بہت دُور یعنی رُوح جو قالب کی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 217

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 217

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/217/mode/1up


طیاری کے بعد جسم میں ڈالی جاتی ہے وہ ہم نے انسان میں روحانی اور جسمانی دونوں طور پر ڈال دی جو مجہول الکنہ ہے اور جس کی نسبت تمام فلسفی اور اس مادی دنیا کے تمام مقلّد حیران ہیں کہ وہ کیا چیز ہے۔ اور جب کہ حقیقت تک اُن کو راہ نہ ملی تو اپنی اٹکل سے ہر ایک نے تُکیں لگائیں۔کسی نے روح کے وجود سے ہی انکار کیا۔ اور کسی نے اس کو قدیم اور غیر مخلوق سمجھا۔ پس اللہ تعالیٰ اس جگہ فرماتا ہے کہ ’’ روح ‘‘ بھی خدا کی پیدائش ہے مگر دنیا کے فہم سے بالا تر ہے اور جیسا کہ اس دنیا کے فلاسفر اس رُوح سے بے خبر ہیں جو وجود جسمانی کے چھٹے مرتبہ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے جسم پر فائض ہوتی ہے ویسا ہی وہ لوگ اس رُوح سے بھی بے علم رہے کہ جو وجود رُوحانی کے چھٹے مرتبہ پر مومن صادق کو خدا تعالیٰ سے ملتی ہے اور اس بارے میں بھی مختلف راہیں اختیار کیں۔ بہتوں نے ایسے لوگوں کی پوجا شروع کر دی جن کو وہ رُوح بھی دی گئی تھی اور ان کو قدیم اور غیر مخلوق اور خدا سمجھ لیا اور بہتوں نے اس سے انکار کر دیا کہ اس مرتبہ کے لوگ بھی ہوتے ہیں اور ایسی رُوح بھی انسان کو ملتی ہے۔

لیکنؔ اس بات کو بہت جلد ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جب کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور خدا نے زمین کے تمام پرند و چرند پر اس کو بزرگی دے کر اور سب پر حکومت بخش کر اور عقل و فہم عنایت فرما کر اور اپنی معرفت کی ایک پیاس لگا کر اپنے ان تمام افعال سے جتلا دیا ہے کہ انسان خدا کی محبت اور عشق کے لئے پیدا کیا گیا ہے تو پھر اس سے کیوں انکار کیا جائے کہ انسان محبتِ ذاتیہ کے مقام تک پہنچ کر اس درجہ تک پہنچ جائے کہ اس کی محبت پرخدا کی محبت ایک رُوح کی طرح وارد ہو کر تمام کمزوریاں اس کی دُور کر دے۔ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وجود رُوحانی کے ششم مرتبہ کے بارے میں فرمایا ہے ۔33۱؂ایسا ہی دائمی حضور اور سوز و گداز اور عبودیت انسان سے سرزد ہو اور اس طرح پر وہ اپنے وجود کی علّتِ غائی کو پورا کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے 333۲؂ یعنی مَیں نے پرستش کے لئے ہی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 218

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 218

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/218/mode/1up


جِنّ و اِنس کو پیدا کیا ہے۔ ہاں یہ پرستش اور حضرت عزّت کے سامنے دائمی حضور کے ساتھ کھڑا ہونا بجز محبتِ ذاتیہ کے ممکن نہیں۔ اور محبت سے مرا د یک طرفہ محبت نہیں بلکہ خالق اور مخلوق کی دونوں محبتیں مراد ہیں تا بجلی کی آگ کی طرح جو مرنے والے انسان پر گرتی ہے اور جو اُس وقت اس انسان کے اندر سے نکلتی ہے بشریت کی کمزوریوں کو جلا دیں اور دونوں مل کر تمام رُوحانی وجود پر قبضہ کر لیں۔

یہی وہ کامل صورت ہے جس میں انسان ان امانتوں اور عہد کو جن کا ذکر وجود روحانی کے مرتبہ پنجم میں تحریر ہے کامل طور پر اپنے اپنے موقع پر ادا کر سکتا ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ مرتبہ پنجم میں انسان صرف تقویٰ کے لحاظ سے خدا اور مخلوق کی امانتوں اور عہد کا لحاظ رکھتا ہے اور اس مرتبہ پر محبت ذاتی کے تقاضا سے جو خدا کے ساتھ اس کو ہو گئی ہے جس کی وجہ سے خدا کی مخلوق کی محبت بھی اُس میں جوش زن ہو گئی ہے اور اس رُوح کے تقاضا سے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس پر نازل ہوتی ہے ان تمام حقوق کو طبعاً بوجہ احسن ادا کرتا ہے اور اس صورت میں وہ حسن باطنی جو حسنِ ظاہری کے مقابل پر ہے بوجہ احسن اس کو نصیب ہو جاتا ہے کیونکہ وجود روحاؔ نی کے مرتبہ پنجم میں تو ابھی وہ رُوح انسان میں داخل نہیں ہوئی تھی جو محبتِ ذاتیہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے جلوۂ حُسن بھی ابھی کمال پر نہیں تھا مگر رُوح کے داخل ہونے کے بعد وہ حسن کمال کو پہنچ جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مُردہ خوبصورت اور زندہ خوبصورت یکساں آب و تاب نہیں رکھتے۔

جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں انسان کی پیدائش میں دو قسم کے حُسن ہیں۔ ایک حُسنِ معاملہ اور وہ یہ کہ انسان خدا تعالیٰ کی تمام امانتوں اور عہد کے ادا کرنے میں یہ رعایت رکھے کہ کوئی امر حتی الوسع اُن کے متعلق فوت نہ ہو۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں رَاعُون کا لفظ اِسی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایسا ہی لازم ہے کہ انسان مخلوق کی امانتوں اور عہد کی نسبت بھی یہی لحاظ رکھے یعنی حقوق اللہ اور حقوق عباد میں تقویٰ سے کام لے۔ یہ حُسنِ معاملہ ہے یا یُوں کہو کہ روحانی خوبصورتی ہے جو درجہ پنجم وجود روحانی میں نمایاں ہوتی ہے مگر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 219

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 219

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/219/mode/1up


ہنوز پورے طور پر چمکتی نہیں اور وجودرُوحانی کے درجہ ششم میں بوجہ کامل ہونے پیدائش اور رُوح کے داخل ہو جانے کے یہ خوبصورتی اپنی تمام آب و تاب دکھلا دیتی ہے۔ اور یاد رہے کہ مرتبہ ششم وجود روحانی میں رُوح سے مراد وہ محبتِ ذاتیہ الٰہیہ ہے جو انسان کی محبتِ ذاتیہ پر ایک شعلہ کی طرح پڑتی اور تمام اندرونی تاریکی دُور کرتی اور روحانی زندگی بخشتی ہے اور اس کے لوازم میں سے رُوح القدس کی تائید بھی کامل طور پر ہے۔

دوسر۲ا حُسن انسان کی پیدائش میں حُسنِ بشرہ ہے۔ اور یہ دونوں حُسن اگرچہ رُوحانی اور جسمانی پیدائش درجہ پنجم میں نمودار ہو جاتے ہیں لیکن آب و تاب اُن کی فیضانِ رُوح کے بعد ظاہر ہوتی ہے اور جیسا کہ جسمانی وجود کی رُوح جسمانی قالب طیار ہونے کے بعد جسم میں داخل ہوتی ہے ایسا ہی روحانی وجود کی رُوح روحانی قالب طیار ہونے کے بعد انسان کے رُوحانی وجود میں داخل ہوتی ہے۔ یعنی اُس وقت جب کہ انسان شریعت کا تمام جُوااپنی گردن پر لے لیتا ہے اور مشقت اور مجاہدہ کے ساتھ تمام حدودِ الٰہیہ کے قبول کرنے کے لئے طیار ہوتا ہے اور ورزش شریعت اور بجا آوری احکامِ کتاب اللہ سے اس لائق ہو جاتا ہے کہ خُدا کی روحانیت اس کی طرف توجہ فرماوے اور سب سے زیادہ یہ کہ اپنی محبتِ ذاتیہ سے ؔ اپنے تئیں خدا تعالیٰ کی محبتِ ذاتیہ کا مستحق ٹھہرالیتا ہے جو برف کی طرح سفید اور شہد کی طرح شیریں ہے۔ اور جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں وجود رُوحانی خشوع کی حالت سے شروع ہوتا ہے اور روحانی نشو و نما کے چھٹے۶ مرتبہ پر یعنی اس مرتبہ پر کہ جب کہ رُوحانی قالب کے کامل ہونے کے بعد محبتِ ذاتیہ الٰہیہ کا شعلہ انسان کے دل پر ایک رُوح کی طرح پڑتا ہے اور دائمی حضور کی حالت اس کو بخش دیتا ہے کمال کو پہنچتا ہے اور تبھی روحانی حُسن اپنا پورا جلوہ دکھاتا ہے۔ لیکن یہ حُسن جو روحانی حُسنِ ہے جس کو حُسنِ معاملہ کے ساتھ موسوم کر سکتے ہیں یہ وہ حُسن ہے جو اپنی قوی کششوں کے ساتھ حُسنِ بشرہ سے بہت بڑھ کر ہے۔ کیونکہ حُسنِ بشرہ صرف ایک یا دو شخص کے فانی عشق کا موجب ہو گا جو جلد



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 220

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 220

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/220/mode/1up


زوال پذیر ہو جائے گا اور اس کی کشش نہایت کمزور ہو گی۔ لیکن وہ روحانی حُسن جس کو حُسنِ معاملہ سے موسوم کیا گیا ہے وہ اپنی کششوں میں ایسا سخت اور زبردست ہے کہ ایک دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور زمین و آسمان کا ذرّہ ذرّہ اس کی طرف کھنچا جاتا ہے اور قبولیت دُعا کی بھی درحقیقت فلاسفی یہی ہے کہ جب ایسا رُوحانی حُسن والا انسان جس میں محبتِ الٰہیہ کی رُوح داخل ہو جاتی ہے جب کسی غیر ممکن اور نہایت مشکل امر کے لئے دُعا کرتا ہے اور اُس دُعا پر پورا پورا زور دیتا ہے تو چونکہ وہ اپنی ذات میں حُسنِ رُوحانی رکھتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے امر اور اذن سے اس عالم کا ذرّہ ذرّہ اس کی طرف کھینچا جاتا ہے۔ پس ایسے اسباب جمع ہو جاتے ہیں جو اس کی کامیابی کے لئے کافی ہوں۔ تجربہ اور خدا تعالیٰ کی پاک کتاب سے ثابت ہے کہ دنیا کے ہر ایک ذرّہ کو طبعاً ایسے شخص کے ساتھ ایک عشق ہوتا ہے اور اُس کی دُعائیں اُن تمام ذرّات کو ایسا اپنی طرف کھینچتی ہیں جیسا کہ آہن رُبا لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ پس غیر معمولی باتیں جن کا ذکر کسی علمِ طبعی اور فلسفہ میں نہیں اس کشش کے باعث ظاہر ہو جاتی ہیں۔ اور وہ کشش طبعی ہوتی ہے۔ جب سے کہ صانع مطلق نے عالمِ اجسام کو ذرّات سے ترکیب دی ہے ہر ایک ذرّے میں وہ کشش رکھی ہے اور ہر ایک ذرّہ رُوحانی حُسن کا عاشق صادق ہے اور ایسا ہی ہر ایک سعید رُوح بھی۔ کیونکہ وہ حُسن تجلّی گاہِ حق ہے۔ وہی حُسن تھا جس کے لئے فرمایا گیا أُ33۱؂اور اب بھی بہتیرے ابلیس ہیں جو اِس حُسن کو شناخت نہیں کرتے مگر وہ حسنؔ بڑے بڑے کام دکھلاتا رہا ہے۔

نوح میں وہی حُسن تھا جس کی پاس خاطر حضرت عزت جلّ شانہٗ کو منظور ہوئی اور تمام منکروں کو پانی کے عذاب سے ہلاک کیا گیا۔ پھر اس کے بعد موسیٰ بھی وہی حُسن رُوحانی لے کر آیا جس نے چند روز تکلیفیں اٹھا کر آخر فرعون کا بیڑا غرق کیا۔ پھر سب کے بعد سیّد الانبیاء وخیرالوریٰ مولانا و سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم ایک عظیم الشان روحانی حُسن لے کر آئے جس کی تعریف میں یہی آیت کریمہ کافی ہے۔3۲؂یعنی وہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 221

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 221

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/221/mode/1up


نبی جنابِ الٰہی سے بہت نزدیک چلا گیا۔ اور پھر مخلوق کی طرف جُھکا اور اس طرح پر دونوں حقوں کو جو حق اللہ اور حق العباد ہے ادا کر دیا۔ اور دونوں قسم کا حُسن رُوحانی ظاہر کیا۔ اور دونوں قوسوں میں وتر کی طرح ہو گیا۔ یعنی دونوں قوسوں میں جو ایک درمیانی خط کی طرح ہو اور اس طرح اس کا وجود واقع ہوا جیسے یہ ۔


اس حُسن کو ناپاک طبع اور اندھے لوگوں نے نہ دیکھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔ 3۱؂یعنی تیری طرف وہ دیکھتے ہیں مگر تو انہیں دکھائی نہیں دیتا۔ آخر وہ سب اندھے ہلاک ہو گئے۔

اس جگہ بعض جاہل کہتے ہیں کہ کیوں کامل لوگوں کی بعض دُعائیں منظور نہیں ہوتیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اُن کی تجلّی حُسن کو خدا تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھا ہوا ہے۔ پس جس جگہ یہ تجلی عظیم ظاہر ہو جاتی ہے اور کسی معاملہ میں اُن کا حُسن جوش میں آتا ہے اور اپنی چمک دکھلاتا ہے تب اس چمک کی طرف ذرّاتِ عالم کھنچے جاتے ہیں اور غیر ممکن باتیں وقوع میں آتی ہیں جن کو دوسرے لفظوں میں معجزہ کہتے ہیں۔ مگر یہ جوشِ روحانی ہمیشہ اور ہر جگہ ظہور میں نہیں آتا اور تحریکات خارجیہ کا محتاج ہوتا ہے۔ یہ اس لئے کہ جیسا کہ خدائے کریم بے نیاز ہے اس نے اپنے برگزیدوں میں بھی بے نیازی کی صفت رکھ دی ہے۔ سو وہ خدا کی طرح سخت بے نیاز ہوتے ہیں اور جب تک کوئی پوری خاکساری اور اخلاص کے ساتھ اُن کے رحم کے لئے ایک تحریک پیدا نہ کرے وہ قوت اُن کی جوش نہیں مارتی اور عجیب تر یہ کہ وہ لوگ تمام دنیا سے زیادہ تر رحم کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ مگر اُس کی تحریک اُن کے اختیار میںؔ نہیں ہوتی گو وہ بارہا چاہتے بھی ہیں کہ وہ قوت ظہور میں آوے مگر بجز ارادہ الٰہیہ کے ظاہر نہیں ہوتی۔ بالخصوص وہ منکروں اور منافقوں اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 222

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 222

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/222/mode/1up


سُست اعتقاد لوگوں کی کچھ بھی پروا نہیں رکھتے اور ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح اُن کو سمجھتے ہیں اور وہ بے نیازی ان کی ایک ایسی شان رکھتی ہے جیسا کہ ایک معشوق نہایت خوبصورت برقع میں اپناچہرہ چھپائے رکھے۔ اور اِسی بے نیازی کا ایک شعبہ یہ ہے کہ جب کوئی شریر انسان اُن پر بدظنی کرے تو بسا اوقات بے نیازی کے جوش سے اُس بدظنی کو اور بھی بڑھا دیتے ہیں۔ کیونکہ تخلّق باخلاق اللّٰہ رکھتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔3۱؂ جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ کوئی معجزہ اُن سے ظاہر ہو تو اُن کے دلوں میں ایک جوش پیدا کر دیتا ہے اور ایک امر کے حصول کے لئے سخت کرب اور قلق اُن کے دلوں میں پیدا ہو جاتا ہے تب وہ بے نیازی کا برقع اپنے مُنہ پر سے اُتار لیتے ہیں اور وہ حُسن اُن کا جو بجز خدا تعالیٰ کے کوئی نہیں دیکھتا وہ آسمان کے فرشتوں پر اورذرّہ ذرّہ پر نمودار ہو جاتا ہے۔ اور اُن کا مُنہ پر سے برقع اٹھانا یہ ہے کہ وہ اپنے کامل صدق اور صفا کے ساتھ اور اِس رُوحانی حُسن کے ساتھ جس کی وجہ سے وہ خدا کے محبوب ہو گئے ہیں اس خدا کی طرف ایک ایسا خارق عادت رجوع کرتے ہیں اور ایک ایسے اقبال علی اللہ کی اُن میں حالت پیدا ہو جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کی فوق العادت رحمت کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور ساتھ ہی ذرّہ ذرّہ اس عالم کا کھنچا چلا آتا ہے۔ اور اُن کی عاشقانہ حرارت کی گرمی آسمان پر جمع ہوتی اور بادلوں کی طرح فرشتوں کو بھی اپنا چہرہ دکھا دیتی ہے اور اُن کی دردیں جو رعد کی خاصیت اپنے اندر رکھتی ہیں ایک سخت شور ملاءِ اعلیٰ میں ڈال دیتی ہیں تب خدا تعالیٰ کی قدرت سے وہ بادل پیدا ہو جاتے ہیں جن سے رحمتِ الٰہی کا وہ مینہ برستا ہے جس کی وہ خواہش کرتے ہیں۔ اُن کی روحانیت جب اپنے پورے سوز و گداز کے ساتھ کسی عقدہ کشائی کے لئے توجہ کرتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ کیونکہ وہ لوگ بباعث اس کے جو خدا سے ذاتی محبت رکھتے ہیں محبوبانِ الٰہی میں داخل ہوتے ہیں۔ تب ہر ایک چیز جو خدا تعالیٰ کے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 223

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 223

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/223/mode/1up


زیرِ حکم ہے۔ اُن کی مدد کے لئے جوش مارتی ہے * اور رحمتِ الٰہی محض اُن کی مراد پوری کرنے کے لئے ایکؔ خلق جدید کے لئے تیار ہو جاتی ہے۔ اور وہ امور ظاہر ہوتے ہیں جو اہل دنیا کی نظر میں غیر ممکن معلوم ہوتے ہیں اور جن سے سفلی علوم محض نا آشنا ہیں۔ ایسے لوگوں کو خدا تو نہیں کہہ سکتے مگر قرب اور علاقہ محبت اُن کا کچھ ایسا صدق اور صفا کے ساتھ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے گویا خدا اُن میں اُتر آتا ہے۔ اور آدم کی طرح خدائی رُوح اُن میں پُھونکی جاتی ہے مگر یہ نہیں کہ وہ خدا ہیں لیکن درمیان میں کچھ ایسا تعلق ہے جیسا کہ لوہے کو جب کہ سخت طور پر آگ سے افروختہ ہو جائے اور آگ کا رنگ اُس میں پیدا ہو جائے آگ سے تعلق ہوتا ہے۔ اس صورت میں تمام چیزیں جو خدا تعالیٰ کے زیرِ حکم ہیں اُن کے زیر حکم ہو جاتی ہیں۔ اور آسمان کے ستارے اور سورج اور چاند سے لے کر زمین کے سمندروں اور ہوا اور آگ تک اُن کی آواز کو سُنتے اور ان کو شناخت کرتے اور اُن کی خدمت میں لگے رہتے ہیں اور ہر ایک چیز طبعاً اُن سے پیار کرتی ہے اور عاشقِ صادق کی طرح اُن کی طرف کھنچی جاتی ہے۔ بجز شریر انسانوں کے جو شیطان کا اوتار ہیں۔ عشق مجازی تو ایک منحوس عشق ہے کہ ایک طرف پیدا ہوتا اور ایک طرف مر جاتا ہے۔ اور نیز اس کی بنا اُس حُسن پر ہے جو قابلِ زوال ہے۔ اور نیز اُس حُسن کے اثر کے نیچے آنے والے بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ مگر یہ کیا حیرت انگیز نظارہ ہے کہ وہ حسن روحانی جو حُسن معاملہ اور صدق و صفا اور محبتِ الٰہیہ کی تجلّی کے بعد انسان میں پیدا ہوتا ہے اس میں ایک عالمگیر کشش پائی جاتی ہے وہ مستعد دلوں کو اس طرح اپنی طرف کھینچ لیتا ہے کہ جیسے شہد چیونٹیوں کو۔ اور نہ صرف انسان بلکہ عالم کا ذرّہ ذرّہ اس کی کشش سے متاثر ہوتا ہے۔ صادق المحبت انسان جو سچی محبت خدا تعالیٰ سے رکھتا ہے وہ وہ یوسف ہے جس کے لئے ذرّہ ذرّہ اس عالم کا زلیخا صفت ہے۔ اور ابھی حسن اُس کا اس عالم میں ظاہر نہیں کیونکہ یہ عالم اس کی برداشت نہیں کرتا۔ خدا تعالیٰ

کافر اور دشمن بھی ایک قسم کی ان کی مدد کرتے ہیں کہ ایذاء اور ظلم کے ساتھ ان کے دل کو دکھ دیتے اور ان کی روحانیت کو جوش میں لاتے ہیں ؂ تا دل مرد خدا نا مد بدرد ہیچ قومے را خدا رسوا نہ کرد ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 224

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 224

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/224/mode/1up


اپنی پاک کتاب میں جو فرقان مجید ہے فرماتا ہے کہ مومنوں کا نور اُن کے چہروں پر دوڑتا ہے۔ اور مومن اس حُسن سے شناخت کیا جاتا ہے جس کا نام دوسرے لفظوں میں نور ہے۔

اور مجھے ایک دفعہ عالمِ کشف میں پنجابی زبان میں اِسی علامت کے بارہ میں یہ موزوں فقرہ سُنایا گیا۔ ’’عِشق الٰہی وَسّے مُنہ پر ولیاں ایہہ نشانی‘‘ مومن کا نور جس کا قرآن شریف میں ذکر ؔ کیا گیا ہے وہ وہی روحانی حُسن و جمال ہے جو مومن کو وجود رُوحانی کے مرتبہ ششم پر کامل طور پر عطا کیا جاتا ہے۔ جسمانی حُسن کا ایک شخص یا دو شخص خریدار ہوتے ہیں مگر یہ عجیب حُسن ہے جس کے خریدار کروڑ ہا رُوحیں ہو جاتی ہیں۔ اِسی روحانی حُسن کی بنا پر بعض نے سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ* کی نعت میں یہ شعر کہے ہیں اور اُن کو ایک نہایت درجہ حسین اور خوبصورت قرار دیا ہے اور وہ اشعار یہ ہیں ؂

آن تُرکِ عجم چون زِ مئےِ عشق طرب کرد

غارت گر یئے کوفہ و بغداد و حلب کرد

صد لالہ رُخے بود بصد حُسنِ شگفتہ

نازان ہمہ را زِیر قدم کرد عجب کرد


فطرتًا بعض طبائع کو بعض طبائع سے مناسبت ہوتی ہے۔ اسی طرح میری روح اور سید عبد القادر کی روح کو خمیر فطرت سے باہم ایک مناسبت ہے جس پر کشوفِ صحیحہ صریحہ سے مجھ کو اطلاع ملی ہے۔ اس بات پر تیس۳۰ برس کے قریب زمانہ گزر گیا ہے کہ جب ایک رات مجھے خدا نے اطلاع دی کہ اُس نے مجھے اپنے لئے اختیار کر لیا ہے۔ تب یہ عجیب اتفاق ہوا کہ اُسی رات ایک بڑھیا کو خواب آئی جس کی عمر قریباً اسی۸۰ برس کی تھی اور اُس نے صبح مجھ کو آکر کہا کہ میں نے رات سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا ہے اور ساتھ ان کے ایک اور بزرگ تھے اور دونوں سبزپوش تھے اور رات کے پچھلے حصہ کا وقت تھا۔ دوسرا بزرگ عمر میں اُن سے کچھ چھوٹا تھا۔ پہلے انہوں نے ہماری جامع مسجد میں نماز پڑھی اور پھر مسجد کے باہر کے صحن میں نکل آئے اور میں اُن کے پاس کھڑی تھی اتنے میں مشرق کی طرف سے ایک چمکتا ہوا ستارہ نکلا تب اس ستارہ کو دیکھ کر سید عبد القادر بہت خوش ہوئے اور ستارہ کی طرف مخاطب ہو کر کہا السلام علیکم اور ایسا ہی ان کے رفیق نے السلام علیکم کہا۔ اور وہ ستارہ میں تھا۔ المؤمن یَرٰی و یُرٰی لہ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 225

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 225

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/225/mode/1up


اور شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے بھی اس بارہ میں ایک شعر کہا ہے جو حُسنِ روحانی پر بہت منطبق ہوتا ہے اور وہ یہ ہے

صورت گر دیبائے چیں رو صورتِ زیباش بین

یا صورتے برکش چنیں یا توبہ کن صورت گری

اب یہ بھی یاد رہے کہ بندہ تو حُسنِ معاملہ دکھلا کر اپنے صدق سے بھری ہوئی محبت ظاہر کرتا ہے مگر خدا تعالیٰ اس کے مقابلہ پر حد ہی کر دیتا ہے اس کی تیز رفتار کے مقابل پر برق کی طرح اس کی طرف دوڑتا چلا آتا ہے اور زمین و آسمان سے اس کے لئے نشان ظاہر کرتا ہے اور اس کے دوستوں کا دوست اور اس کے دشمنوں کا دشمن بن جاتا ہے اور اگر پچاس کروڑ انسان بھی اُس کی مخالفت پر کھڑا ہو تو ان کو ایسا ذلیل اور بے دست و پا کر دیتا ہے جیسا کہ ایک مرا ہوا کیڑا۔ اور محض ایک شخص کی خاطر کے لئے ایک دنیا کو ہلاک کر دیتا ہے اور اپنی زمین و آسمان کو اس کے خادم بنا دیتا ہے اور اس کے کلام میں برکت ڈال دیتا ہے اور اس کے تمام درو دیوار پر نور کی بارش کرتا ہے اور اُس کی پوشاک اور اُس کی خوراک میں اور اس مٹی میں بھی جس پر اس کا قدم پڑتا ہے ایک برکت رکھ دیتا ہے اور اس کو نامراد ہلاک نہیں کرتا۔ اور ہر ایک اعتراض جو اس پر ہو اُس کا آپ جواب دیتا ہے۔ وہ اُس کی آنکھیں ہو جاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے اور اُس کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتا ہے اور اُس کی زبان ہو جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے اور اُس کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے اور اُس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جن سے وہ دشمنوں پر حملہ کرتا ہے۔ وہ اُس کے دشمنوں کے مقابل پر آپ نکلتا ہے اور شریروں پر جو اُس کو دُکھ دیتے ہیں آپؔ تلوار کھینچتا ہے۔ ہر میدان میں اس کو فتح دیتا ہے اور اپنی قضاء و قدر کے پوشیدہ راز اس کو بتلاتا ہے۔ غرض پہلا خریدار اس کے رُوحانی حُسن و جمال کا جو حُسنِ معاملہ اور محبتِ ذاتیہ کے بعد پیدا ہوتا ہے خدا ہی ہے۔ پس کیا ہی بدقسمت وہ لوگ ہیں جو ایسا زمانہ پاویں اور ایسا سورج اُن پر طلوع کرے اور وہ تاریکی میں بیٹھے رہیں۔

بعض نادان یہ اعتراض بار بار پیش کرتے ہیں کہ محبوبانِ الٰہی کی یہ علامت ہے کہ ہر ایک



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 226

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 226

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/226/mode/1up


دُعا اُن کی سُنی جاتی ہے۔ اور جس میں یہ علامت نہیں پائی جاتی وہ محبوبانِ الٰہی میں سے نہیں ہے*۔مگر افسوس کہ یہ لوگ مُنہ سے تو ایک بات نکال لیتے ہیں مگر اعتراض کرنے کے وقت یہ نہیں سوچتے کہ ایسے جاہلانہ اعتراض خدا تعالیٰ کے تمام نبیوں اور رسولوں پر وارد ہوتے ہیں۔ مثلاً ہر ایک نبی کی یہ مراد تھی کہ تمام کفّار ان کے زمانہ کے جو ان کی مخالفت پر کھڑے تھے مسلمان ہو جائیں۔ مگر یہ مراد اُن کی پوری نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے فرمایا۔3۱؂ یعنی ’’کیا تو اِس غم سے اپنے تئیں ہلاک کر دے گا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے۔‘‘

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کفار کے ایمان لانے کے لئے اس قدر جانکاہی اور سوز و گداز سے دُعا کرتے تھے کہ اندیشہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس غم سے خود ہلاک نہ ہو جاویں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان لوگوں کے لئے اس قدر غم نہ کر اور اس قدر اپنے دل کو دردوں کا نشانہ مت بنا کیونکہ یہ لوگ ایمان لانے سے لاپروا ہیں اور ان کے اغراض اور مقاصد اَور ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ اے نبی (علیہ السلام) ! جس قدر تو عقد ہمت اور کامل توجہ اور سوز و گداز اور اپنی رُوح کو مشقت میں ڈالنے سے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے دُعا کرتا ہے تیری دعاؤں کے پُر تاثیر ہونے میں کچھ کمی نہیں ہے لیکن شرط قبولیت دُعا یہ ہے کہ جس کے حق میں دعا کی جاتی ہے سخت متعصب اور لاپروا اور گندی فطرت کا انسان نہ ہو ورنہ دُعا قبول نہیں ہو گی اور جہاں تک مجھے خدا تعالیٰ نے دعاؤں کے بارے میں علم دیا ہے وہ یہؔ ہے کہ دُعا کے قبول ہونے کے لئے تین شرطیں ہیں۔

یاد رہے کہ مومن کے ساتھ خدا تعالیٰ دوستانہ معاملہ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ کبھی تو وہ مومن کے ارادہ کو پورا کرے اور کبھی مومن اس کے ارادہ پر راضی ہو جائے۔ پس ایک جگہ تو مومن کو مخاطب کر کے فرماتا ہے3۲؂ یعنی دعا کرو کہ میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ اس جگہ تو مومن کی خواہش پوری کرنا چاہتا ہے۔ اور دوسری جگہ اپنی خواہش مومن سے منوانا چاہتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے3333333 ۳؂ افسوس کہ نادان آدمی صرف ایک پہلو کو دیکھتا ہے اور دونوں پہلوؤں پر نظر نہیں ڈالتا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 227

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 227

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/227/mode/1up


اوّل۔ دُعا کرنے والا کامل درجہ پر متقی ہو کیونکہ خدا تعالیٰ کا مقبول وہی بندہ ہوتا ہے جس کا شعار تقویٰ ہو اور جس نے تقویٰ کی باریک راہوں کو مضبوط پکڑا ہو اور جو امین اور متقی اور صادق العہد ہونے کی وجہ سے منظور نظر الٰہی ہو۔ اور محبتِ ذاتیہ الٰہیہ سے معمور اور پُر ہو۔

دوسری شرط یہ ہے کہ اس کی عقدِ ہمت اور توجہ اس قدر ہو کہ گویا ایک شخص کے زندہ کرنے کے لئے ہلاک ہو جائے اور ایک شخص کو قبر سے باہر نکالنے کے لئے آپ گور میں داخل ہو۔ اس میں راز یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنے مقبول بندے اس سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں جیسا کہ ایک خوبصورت بچہ جو ایک ہی ہو اس کی ماں کو پیارا ہوتا ہے۔ پس جب کہ خدائے کریم و رحیم دیکھتا ہے کہ ایک مقبول و محبوب اُس کا ایک شخص کی جان بچانے کے لئے روحانی مشقتوں اور تضرعات اور مجاہدات کی وجہ سے اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ قریب ہے کہ اُس کی جان نکل جائے تو اُس کو علاقۂ محبت کی وجہ سے ناگوار گذرتا ہے کہ اسی حال میں اُس کو ہلاک کر دے۔ تب اس کے لئے اس دوسرے شخص کا گناہ بخش دیتا ہے جس کے لئے وہ پکڑا گیا تھا پس اگر وہ کسی مہلک بیماری میں گرفتار ہے یا اور کسی بلا میں اسیر و لاچار ہے تو اپنی قدرت سے ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جس سے رہائی ہو جائے اور بسا اوقات اُس کا ارادہ ایک شخص کے قطعی طور پر ہلاک کرنے یا برباد کرنے پر قرار یافتہ ہوتا ہے لیکن جب ایک مصیبت زدہ کی خوش قسمتی سے ایسا شخص پُر درد تضرعات کے ساتھ درمیان میں آ پڑتا ہے جس کو حضرت عزت میں وجاہت ہے تو وہ مِثل مقدمہ جو سزا دینے کے لئے مکمل اور مرتب ہو چکی ہے چاک کرنی پڑتی ہے کیونکہ اب بات اغیار سے یار کی طرف منتقل ہو جاتی ہے اور یہ کیونکر ہو سکے کہ خدا اپنے سچے دوستوں کو عذاب دے۔

۳۔تیسری شرط استجابتِ دُعا کے لئے ایک ایسی شرط ہے جو تمام شرطوں سے مشکل تر ہے کیونکہ اس کا پورا کرنا خدا کے مقبول بندوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اُس شخص کے ہاتھ میں ہے جو دعا کرانا چاہتاؔ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ نہایت صدق اور کامل اعتقاد اور کامل یقین اور کامل ارادت اور کامل غلامی کے ساتھ دُعا کا خواہاں ہو اور یہ دل میں فیصلہ کر لے کہ اگر دُعا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 228

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 228

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/228/mode/1up


قبول بھی نہ ہو تاہم اس کے اعتقاد اور ارادت میں فرق نہیں آئے گا۔ اور دُعا کرانا آزمائش کے طور پر نہ ہو بلکہ سچے اعتقاد کے طور پر ہو اور نہایت نیاز مندی سے اس کے دروازے پر گرے اور جہاں تک اس کے لئے ممکن ہے مال سے خدمت سے ہر ایک طور کی اطاعت سے ایسا قرب پیدا کرے کہ اس کے دل کے اندر داخل ہو جائے اور باایں ہمہ نہایت درجہ پر نیک ظن ہو اور اُس کو نہایت درجہ کا متقی سمجھے اور اس کی مقدس شان کے بر خلاف ایک خیال بھی دل میں لانا کفر خیال کرے اور اس قسم کی طرح طرح کی جاں نثاری دکھلا کر سچے اعتقاد کو اُس پر ثابت اور روشن کر دے اور اس کی مثل دنیا میں کسی کو بھی نہ سمجھے اور جان سے مال سے آبرو سے اُس پر فدا ہو جائے۔ اور کوئی کلمہ کسر شان کا کسی پہلو سے اس کی نسبت زبان پر نہ لائے اور نہ دل میں۔ اور اس بات کو اس کی نظر میں بپایۂ ثبوت پہنچا دے کہ درحقیقت وہ ایسا ہی معتقد اور مرید ہے اور باایں ہمہ صبر سے انتظار کرے اور اگر پچاس دفعہ بھی اپنے کام میں نامراد رہے پھر بھی اعتقاد اور یقین میں سُست نہ ہو۔ کیونکہ یہ قوم سخت نازک دل ہوتی ہے اور اُن کی فراست چہرہ کو دیکھ کر پہچان سکتی ہے کہ یہ شخص کس درجہ کا اخلاص رکھتا ہے اور یہ قوم باوجود نرم دل ہونے کے نہایت بے نیاز ہوتی ہے۔ اُن کے دل خدا نے ایسے بے نیاز پیدا کئے ہیں کہ متکبّر اور خود غرض اور منافق طبع انسان کی کچھ پروا نہیں کرتے۔ اس قوم سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو اس قدر غلامانہ اطاعت اُن کی اختیار کرتے ہیں کہ گویا مر ہی جاتے ہیں۔ مگر وہ شخص جو قدم قدم پر بد ظنی کرتا ہے اور دل میں کوئی اعتراض رکھتا ہے اور پوری محبت اور ارادت نہیں رکھتا وہ بجائے فائدہ کے ہلاک ہوتا ہے۔

اب ہم اس تقریر کے بعد کہتے ہیں کہ یہ جو اللہ تعالیٰ نے مومن کے وجود روحانی کے مراتب سِتّہ بیان کر کے ان کے مقابل پر وجودِ جسمانی کے مراتبِ سِتّہ دکھلائے ہیں یہ ایک علمی معجزہ ہے اور جس قدر کتابیں دنیا میں کُتب سماوی کہلاتی ہیں یا جن حکیموں نے نفسؔ اور الٰہیات کے بارے میں تحریریں کی ہیں اور یا جن لوگوں نے صوفیوں کی طرز پر معارف



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 229

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 229

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/229/mode/1up


کی باتیں لکھی ہیں کسی کا ذہن ان میں سے اس بات کی طرف سبقت نہیں لے گیا کہ یہ مقابلہ جسمانی اور روحانی وجود کا دکھلاتا۔ اگر کوئی شخص میرے اس دعوے سے منکر ہو اور اس کا گمان ہو کہ یہ مقابلہ روحانی اور جسمانی کِسی اَور نے بھی دکھلایا ہے تو اس پر واجب ہے کہ اس علمی معجزہ کی نظیر کسی اَور کتاب میں سے پیش کر کے دکھلاوے۔ اور مَیں نے تو توریت اور انجیل اور ہندوؤں کے وید کو بھی دیکھا ہے۔ مگر مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس قسم کا علمی معجزہ میں نے بجز قرآن شریف کے کسی کتاب میں نہ پایا۔ اور صرف اِسی معجزہ پر حصر نہیں بلکہ تمام قرآن شریف ایسے ہی علمی معجزات سے پُر ہے جن پر ایک عقل مند نظر ڈال کر سمجھ سکتا ہے کہ یہ اُسی خدائے قادرِ مطلق کا کلا م ہے جس کی قدرتیں زمین و آسمان کی مصنوعات میں ظاہر ہیں۔ وہی خدا جو اپنی باتوں اور کاموں میں بے مثل و مانند ہے پھر جب ہم ایک طرف ایسے ایسے معجزات قرآن شریف میں پاتے ہیں اور دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اُمیّت کو دیکھتے ہیں اور اس بات کو اپنے تصور میں لاتے ہیں کہ آپ نے ایک حرف بھی کسی اُستاد سے نہیں پڑھا تھا اور نہ آپ نے طبعی اور فلسفہ سے کچھ حاصل کیا تھا بلکہ آپ ایک ایسی قوم میں پیدا ہوئے تھے کہ جو سب کی سب اُمی اور ناخواندہ تھی اور ایک وحشیانہ زندگی رکھتی تھی اور باایں ہمہ آپ نے والدین کی تربیت کا زمانہ بھی نہیں پایا تھا۔ تو ان سب باتوں کو مجموعی نظر کے ساتھ دیکھنے سے قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے پر ایک ایسی چمکتی ہوئی بصیرت ہمیں ملتی ہے اور اس کا علمی معجزہ ہونا ایسے یقین کے ساتھ ہمارے دل میں بھر جاتا ہے کہ گویا ہم اس کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کو دیکھ لیتے ہیں۔ غرض جب کہ بدیہی طور پر ثابت ہے کہ سورۃ المؤمنون کی یہ تمام آیات جو ابتدائے سورۃ سے لے کر آیت3۱؂ تک ہیں علمی معجزہ ہیں۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ آیت3 علمی معجزہ کی ایک جزو ہے اور بباعث معجزہ کے جزو ہونے کے معجزہ میں داخل ہے اور یہی ثابت کرنا تھا۔

اورؔ یاد رہے کہ یہ علمی معجزہ مذکورہ بالا ایک ایسی صاف اور کھلی کھلی اور روشن اور بدیہی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 230

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 230

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/230/mode/1up


سچائی ہے کہ اب خدا تعالیٰ کی کلام کی رہبری اور یاد دہانی کے بعد عقل بھی اپنے معقولی علوم میں بہت فخر کے ساتھ اس کو داخل کرنے کے لئے طیار ہے۔

کیونکہ عندالعقل یہ بات ظاہر ہے کہ سب سے پہلے جو ایک سعید الفطرت آدمی کے نفس کو خدا تعالیٰ کی طرف اس کی طلب میں ایک حرکت پیدا ہوتی ہے۔ وہ خشوع اور انکسار ہے اور خشوع سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے لئے فروتنی اور تواضع اور تضرع کی حالت اختیار کی جائے اور جو اس کے مقابل پر اخلاقِ ردّیہ ہیں جیسے تکبّر اور عُجب اور ریا اور لاپروائی اور بے نیازی ان سب کو خدا تعالیٰ کے خوف سے چھوڑ دیا جائے اور یہ بات بدیہی ہے کہ جب تک انسان اپنے اخلاق ردّیہ کو نہیں چھوڑتا اس وقت تک اُن اخلاق کے مقابل پر جو اخلاق فاضلہ ہیں جو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں اُن کو قبول نہیں کر سکتا کیونکہ دو ضدّیں ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ اِسی کی طرف اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ سورۂ بقرہ کی ابتدا میں اس نے فرمایا۔3۱؂ یعنی قرآن شریف ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے جو متقی ہیں۔ یعنی وہ لوگ جو تکبّر نہیں کرتے اور خشوع اور انکسار سے خدا تعالیٰ کے کلام میں غور کرتے ہیں وہی ہیں جو آخر کو ہدایت پاتے ہیں۔ اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ ان آیات میں چھ۶ جگہ اَفلَحَ کا لفظ ہے۔ پہلی آیت میں صریح طور پر جیسا کہ فرمایا ہے33۲؂ اور بعد کی آیتوں میں عطف کے ذریعہ سے معلوم ہوتا ہے ۔ اور اَفلَح کے لُغت میں یہ معنے ہیں اُصِیْرَ اِلَی الفَلَاحِ یعنی فوز مرام کی طرف پھیرا گیا اور حرکت دیا گیا۔ پس ان معنوں کی رُو سے مومن کا نماز میں خشوع اختیار کرنا فوزِ مرام کے لئے پہلی حرکت ہے جس کے ساتھ تکبّر اور عُجب وغیرہ چھوڑنا پڑتا ہے۔ اور اس میں فوزِ مرام یہ ہے کہ انسان کا نفس خشوع کی سیرت اختیار کر کے خدائے تعالیٰ سے تعلق پکڑنے کے لئے مستعد اور طیار ہو جاتا ہے۔

دوسرؔ ا کام مومن کا یعنی وہ کام جس سے دوسرے مرتبہ تک قوّتِ ایمانی پہنچتی ہے اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 231

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 231

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/231/mode/1up


پہلے کی نسبت ایمان کچھ قوی ہو جاتا ہے عقلِ سلیم کے نزدیک یہ ہے کہ مومن اپنے دل کو جو خشوع کے مرتبہ تک پہنچ چکا ہے لغو خیالات اور لغو شغلوں سے پاک کرے کیونکہ جب تک مومن یہ ادنیٰ قوت حاصل نہ کر لے کہ خدا کے لئے لغو باتوں اور لغو کاموں کو ترک کر سکے جو کچھ بھی مشکل نہیں اور صرف گناہ بے لذّت ہے اُس وقت تک یہ طمع خام ہے کہ مومن ایسے کاموں سے دست بردار ہو سکے جن سے دست بردار ہونا نفس پر بہت بھاری ہے اور جن کے ارتکاب میں نفس کو کوئی فائدہ یا لذّت ہے۔ پس اِس سے ثابت ہے کہ پہلے درجہ کے بعد کہ ترکِ تکبّر ہے دوسرا درجہ ترکِ لغویات ہے۔ اور اس درجہ پر وعدہ جو لفظ اَفْلَحَ سے کیا گیا ہے یعنی فوزِ مرام اس طرح پر پورا ہوتا ہے کہ مومن کا تعلق جب لغو کاموں اور لغو شغلوں سے ٹوٹ جاتا ہے تو ایک خفیف سا تعلق خدا تعالیٰ سے اس کو ہو جاتا ہے اور قوت ایمانی بھی پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی ہے اور خفیف تعلق اس لئے ہم نے کہا کہ لغویات سے تعلق بھی خفیف ہی ہوتا ہے پس خفیف تعلق چھوڑنے سے خفیف تعلق ہی ملتا ہے۔

پھر تیسرا کام مومن کا جس سے تیسرے درجے تک قوتِ ایمانی پہنچ جاتی ہے عقل سلیم کے نزدیک یہ ہے کہ وہ صرف لغو کاموں اور لغو باتوں کو ہی خدا تعالیٰ کے لئے نہیں چھوڑتا بلکہ اپنا عزیز مال بھی خدا تعالیٰ کے لئے چھوڑتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ لغو کاموں کے چھوڑنے کی نسبت مال کا چھوڑنا نفس پر زیادہ بھاری ہے کیونکہ وہ محنت سے کمایا ہوا اور ایک کارآمد چیز ہوتی ہے۔ جس پر خوش زندگی اور آرام کا مدار ہے اس لئے مال کا خدا کے لئے چھوڑنا بہ نسبت لغو کاموں کے چھوڑنے کے قوتِ ایمانی کو زیادہ چاہتا ہے اور لفظ اَفْلَحَ کا جو آیات میں وعدہ ہے اس کے اس جگہ یہ معنی ہوں گے کہ دوسرے درجہ کی نسبت اس مرتبہ میں قوت ایمانی اور تعلق بھی خدا تعالیٰ سے زیادہ ہو جاتی ہے اور نفس کی پاکیزگی اس سے پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ اپنے ہاتھ سے اپنامحنت سے کمایا ہوا مال محض خدا کے خوف سے نکالنا بجز نفس کی پاکیزگی کے ممکن نہیں۔

پھر ؔ چوتھا کام مومن کا جس سے چوتھے درجہ تک قوت ایمانی پہنچ جاتی ہے عقلِ سلیم کے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 232

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 232

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/232/mode/1up


نزدیک یہ ہے کہ وہ صرف مال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں ترک نہیں کرتا بلکہ وہ چیز جس سے وہ مال سے بھی بڑھ کر پیار کرتا ہے یعنی شہوات نفسانیہ اُن کا وہ حصہ جو حرام کے طور پر ہے چھوڑ دیتا ہے ہم بیان کر چکے ہیں کہ ہر ایک انسان اپنی شہواتِ نفسانیہ کو طبعاً مال سے عزیزتر سمجھتا ہے اور مال کو ان کی راہ میں فدا کرتا ہے۔ پس بلا شبہ مال کے چھوڑنے سے خدا کے لئے شہوات کو چھوڑنا بہت بھاری ہے اور لفظ اَفْلَحَ جو اس آیت سے بھی تعلق رکھتا ہے اُس کے اِس جگہ یہ معنی ہیں کہ جیسے شہواتِ نفسانیہ سے انسان کو طبعاً شدید تعلق ہوتا ہے ایسا ہی ان کے چھوڑنے کے بعد وہی شدید تعلق خدا تعالیٰ سے ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جو شخص کوئی چیز خدا تعالیٰ کی راہ میں کھوتا ہے اُس سے بہتر پا لیتا ہے ۔ ؂

لُطفِ او ترک طالبان نہ کند کس بہ کارِ رہش زیان نہ کند

ہر کہ آن راہ جُست یافتہ است تافت آن رو کہ سرنتافتہ است

پھر پانچواں کام مومن کا جس سے پانچویں درجہ تک قوتِ ایمانی پہنچ جاتی ہے عند العقل یہ ہے کہ صرف ترک شہواتِ نفس ہی نہ کرے بلکہ خدا کی راہ میں خود نفس کو ہی ترک کر دے اور اس کے فدا کرنے پر طیار رہے۔ یعنی نفس جو خدا کی امانت ہے اسی مالک کو واپس دیدے اور نفس سے صرف اس قدر تعلق رکھے جیسا کہ ایک امانت سے تعلق ہوتا ہے اور دقائق تقویٰ ایسے طور پر پوری کرے کہ گویا اپنے نفس* اَور مال اور تمام چیزوں کو خدا کی راہ میں وقف کر چکا ہے۔ اِسی طرف یہ آیت اشارہ فرماتی ہے3۱؂ پس جبکہ انسان کے جان و مال اور تمام قسم کے آرام خدا کی امانت ہے جس کو واپس دینا امین ہونے کے لئے شرط ہے لہٰذا ترکِ نفس وغیرہ کے یہی معنے ہیں کہ یہ امانت خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر کے اس طور سے

جیسا کہ نفس خدا تعالیٰ کی امانت ہے ایسا ہی مال بھی خدا تعالیٰ کی امانت ہے۔ پس جو شخص صرف اپنے مال میں سے زکوٰۃ دیتا ہے وہ مال کو اپنا مال سمجھتا ہے مگر جو شخص مال کو خدا تعالیٰ کی امانت سمجھتا ہے وہ اپنے تمام مال کو خدا تعالیٰ کا مال جانتا ہے اور ہر ایک وقت خدا کی راہ میں دیتا ہے گو کوئی زکوٰۃ اس پر واجب نہ ہو۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 233

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 233

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/233/mode/1up


یہ قربانی ادا کر دے اور دوسرے یہ کہ جو خدا تعالیٰ کے ساتھ ایمان کے وقت اس کا عہد تھا اور جو عہد اور امانتیں مخلوق کی اس کی گردن پر ہیں اُن سب کو ایسے طور سے تقویٰ کی رعایت سے بجا لاوے کہ وہ بھی ایک سچی قربانی ہو جاوے کیونکہ دقائقِ تقویٰ کو انتہا تک پہنچانا یہ بھی ایک قسم کی موت ہے۔ اور ؔ لفظاَفْلَحَکا جو اس آیت سے بھی تعلق رکھتا ہے اِس کے اس جگہ یہ معنے ہیں کہ جب اس درجہ کا مومن خدا تعالیٰ کی راہ میں بذلِ نفس کرتا ہے اور تمام دقائقِ تقویٰ بجا لاتا ہے۔ تب حضرتِ احدیت سے انوارِ الٰہیہ اُس کے وجود پر محیط ہو کر روحانی خوبصورتی اُس کو بخشتے ہیں جیسے کہ گوشت ہڈیوں پر چڑھ کر ان کو خوبصورت بنا دیتا ہے اور جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں اِن دونوں حالتوں کا نام خدا تعالیٰ نے لباس ہی رکھا ہے۔ تقویٰ کا نام بھی لباس ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔3۱؂اور جو گوشت ہڈیوں پر چڑھتا ہے وہ بھی لباس ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 3۲؂کیونکہ کَسَوْت جس سے کَسَونَا کا لفظ نکلا ہے لباس کو ہی کہتے ہیں۔

اب یاد رہے کہ منتہا سلوک کا پنجم درجہ ہے۔ اور جب پنجم درجہ کی حالت اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے تو اس کے بعد چھٹا درجہ ہے جو محض ایک موہبت کے طور پر ہے اور جو بغیر کسب اور کوشش کے مومن کو عطا ہوتا ہے اور کسب کا اس میں ذرّہ دخل نہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ جیسے مومن خدا کی راہ میں اپنی رُوح کھوتا ہے ایک رُوح اس کو عطا کی جاتی ہے۔ کیونکہ ابتدا سے یہ وعدہ ہے کہ جو کوئی خداتعالیٰ کی راہ میں کچھ کھوئے گا وہ اُسے پائے گا۔ اس لئے رُوح کو کھونے والے رُوح کو پاتے ہیں ۔ پس چونکہ مومن اپنی محبتِ ذاتیہ سے خدا کی راہ میں اپنی جان وقف کرتا ہے اس لئے خدا کی محبت ذاتیہ کی رُوح کو پاتا ہے جس کے ساتھ رُوح القدس شامل ہوتا ہے۔ خدا کی محبتِ ذاتیہ ایک رُوح ہے اور رُوح کا کام مومن کے اندر کرتی ہے اس لئے وہ خود رُوح ہے اور رُوح القدس اس سے جُدا نہیں۔ کیونکہ اس محبت اور رُوح القدس میں کبھی انفکاک ہو ہی نہیں سکتا۔ اِسی وجہ سے ہم نے اکثر جگہ صرف محبتِ ذاتیہ الٰہیہ کا ذکر کیا ہے اور رُوح القدس کا نام نہیں لیا کیونکہ ان کا باہم تلازم ہے اور جب رُوح



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 234

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 234

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/234/mode/1up


کسی مومن پر نازل ہوتی ہے تو تمام بوجھ عبادات کا اس کے سر پرسے ساقط ہو جاتا ہے اور اُس میں ایک ایسی قوت اور لذت آ جاتی ہے جو وہ قوت تکلّف سے نہیں بلکہ طبعی جوش سے یادِاؔ لٰہی اُس سے کراتی ہے اور عاشقانہ جوش اُس کو بخشتی ہے۔ پس ایسا مومن جبرائیل علیہ السلام کی طرح ہر وقت آستانہ الٰہی کے آگے حاضر رہتا ہے اور حضرت عزت کی دائمی ہمسائیگی اس کے نصیب ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ اِس درجہ کے بارے میں فرماتا ہے 3 3۱؂ یعنی مومن کامل وہ لوگ ہیں کہ ایسا دائمی حضور اُن کو میّسر آتا ہے کہ ہمیشہ وہ اپنی نماز کے آپ نگہبان رہتے ہیں۔ یہ اس حالت کی طرف اشارہ ہے کہ اس درجہ کا مومن اپنی رُوحانی بقا کے لئے نماز کو ایک ضروری چیز سمجھتا ہے اور اس کو اپنی غذا قرار دیتا ہے جس کے بغیر وہ جی ہی نہیں سکتا۔ یہ درجہ بغیر اس رُوح کے حاصل نہیں ہو سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مومن پر نازل ہوتی ہے کیونکہ جب کہ مومن خدا تعالیٰ کے لئے اپنی جان کو ترک کر دیتا ہے تو ایک دوسری جان پانے کا مستحق ہوتا ہے۔

اِس تمام تقریر سے ثابت ہے کہ یہ مراتبِ سِتّہ عقلِ سلیم کے نزدیک اُس مومن کی راہ میں پڑے ہیں جو اپنے وجود روحانی کو کمال تک پہنچانا چاہتا ہے اور ہر ایک انسان تھوڑے سے غور کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ ضرور مومن پر اس کے سلوک کے وقت چھ۶ حالتیں آتی ہیں۔ وجہ یہ کہ جب تک انسان خدا تعالیٰ سے کامل تعلّق نہیں پکڑتا تب تک اُس کا نفس ناقص پانچ خراب حالتوں سے پیار کرتا ہے اور ہر ایک حالت کا پیار دُور کرنے کے لئے ایک ایسے سبب کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس پیار پر غالب آ جائے۔ اور نیا پیار پہلے پیار کا علاقہ توڑ دے۔

چنانچہ پہلی حالت جس سے وہ پیار کرتا ہے یہ ہے کہ وہ ایک غفلت میں پڑا ہوتا ہے اور اس کو بالکل خدا تعالیٰ سے بُعد اور دُوری ہوتی ہے اور نفس ایک کفر کے رنگ میں ہوتا ہے اور غفلت کے پردے تکبّر اور لاپروائی اور سنگدلی کی طرف اس کو کھینچتے ہیں اور خشوع اور خضوع اور تواضع اور فروتنی اور انکسار کا نام و نشان اس میں نہیں ہوتا اور اسی اپنی حالت سے وہ محبت کرتا ہے اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 235

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 235

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/235/mode/1up


اس کو اپنے لئے بہتر سمجھتا ہے اور پھر جب عنایتِ الٰہیہ اس کی اصلاح کی طرف توجہ کرتی ہے تو کسی واقعہ کے پیدا ہونے سے یا کسی آفت کے نازل ہونے سے خدا تعالیٰ کیؔ عظمت اور ہیبت اور جبروت کا اس کے دل پر اثر پڑتا ہے اور اس اثر سے اُس پر ایک حالت خشوع پیدا ہو جاتی ہے جو اُس کے تکبّر اور گردن کشی اور غفلت کی عادت کو کالعدم کر دیتی ہے اور اس سے علاقہ محبت توڑ دیتی ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو ہر وقت دنیا میں مشاہدہ میں آتی رہتی ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ جب ہیبتِ الٰہی کا تازیانہ کسی خوفناک لباس میں نازل ہوتا ہے تو بڑے بڑے شریروں کی گردن جُھکا دیتا ہے اور خوابِ غفلت سے جگا کر خشوع اور خضوع کی حالت بنا دیتا ہے یہ وہ پہلا مرتبہ رجوع الی اللہ کا ہے جو عظمت اور ہیبت الٰہی کے مشاہدہ کے بعد یا کسی اور طور سے ایک سعید الفطرت کو حاصل ہو جاتا ہے اور گو وہ پہلے اپنی غافلانہ اور بے قید زندگی سے محبت ہی رکھتا تھا۔ مگر جب مخالف اثر اُس پہلے اثر سے قوی تر پیدا ہوتا ہے تو اس حالت کو بہر حال چھوڑنا پڑتا ہے۔

پھر اس کے بعد دوسری حالت یہ ہے کہ ایسے مومن کو خدا تعالیٰ کی طرف کچھ رجوع تو ہوجاتا ہے مگر اس رجوع کے ساتھ لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو شغلوں کی پلیدی لگی رہتی ہے جس سے وہ اُنس اور محبت رکھتا ہے۔ ہاں کبھی نماز میں خشوع کے حالات بھی اس سے ظہور میں آتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف لغو حرکات بھی اس کے لازمِ حال رہتی ہیں اور لغو تعلقات اور لغو مجلسیں اور لغو ہنسی ٹھٹھا اس کے گلے کا ہار رہتا ہے۔ گویا وہ دو رنگ رکھتا ہے کبھی کچھ کبھی کچھ ؂

واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر مے کنند چوں بخلوت مے روند آن کارِ دیگر مے کنند

پھر جب عنایتِ الٰہیہ اس کو ضائع کرنا نہیں چاہتی تو پھر ایک اَور جلوہ عظمت اور ہیبت اور جبروتِ الٰہی کا اُس کے دل پر نازل ہوتا ہے جو پہلے جلوہ سے زیادہ تیز ہوتا ہے اور قوّتِ ایمانی اُس سے تیز ہو جاتی ہے اور ایک آگ کی طرح مومن کے دل پرپڑ کر تمام خیالات لغو اس کے ایک دم میں بھسم کر دیتی ہے۔ اور یہ جلوہ عظمت اور جبروتِ الٰہی کا اس قدر حضرتِ عزت کی محبت



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 236

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 236

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/236/mode/1up


اُس کے دل میں پیدا کرتا ہے کہ لغو کاموں اور لغو شغلوں کی محبت پر غالب آ جاتا ہے اور ان کو دفع اور دُور کر کے اُن کی جگہ لے لیتا ہے۔ اور تمام بیہودہ شغلوں سے دل کو سرد کر دیتا ہے تب لغو کاموں سے دل کو ایک کراہت پیدا ہو جاتی ہے۔

پھر ؔ لغو شغلوں اورلغو کاموں کے دُور ہونے کے بعد ایک تیسر۳ی خراب حالت مومن میں باقی رہ جاتی ہے جس سے وہ دوسری حالت کی نسبت بہت محبت رکھتا ہے یعنی طبعاً مال کی محبت اس کے دل میں ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنی زندگی اور آرام کا مدار مال کو ہی سمجھتا ہے اور نیز اس کے حاصل ہونے کاذریعہ صرف اپنی محنت اور مشقت خیال کرتا ہے۔ پس اس وجہ سے اس پر خداتعالیٰ کی راہ میں مال کا چھوڑنا بہت بھاری اور تلخ ہوتا ہے۔

پھر جب عنایتِ الٰہیہ اس ورطۂ عظیمہ سے اُس کو نکالنا چاہتی ہے تو راز قیتِ الٰہیہ کا علم اُس کو عطا کیا جاتا ہے اور توکّل کا بیج اُس میں بویا جاتا ہے اور ساتھ اس کے ہیبتِ الٰہیہ بھی کام کرتی ہے اور دونوں تجلّیات جمالی اور جلالی اُس کے دل کو اپنے قابو میں لے آتی ہیں۔تب مال کی محبت بھی دل میں سے بھاگ جاتی ہے اور مال دینے والے کی محبت کا تخم دل میں بویا جاتا ہے اور ایمان قوی کیا جاتا ہے۔ اور یہ قوتِ ایمانی درجہ سوم کی قوت سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ کیونکہ اس جگہ مومن صرف لغو باتوں کو ہی ترک نہیں کرتا بلکہ اُس مال کو ترک کرتا ہے جس پر اپنی خوش زندگی کا سارا مدار سمجھتا ہے ۔ اور اگر اس کے ایمان کو قوّتِ توکّل عطا نہ کی جاتی اور رازقِ حقیقی کی طرف آنکھ کا دروازہ نہ کھولا جاتا تو ہر گز ممکن نہ تھا کہ بخل کی بیماری دُور ہو سکتی۔ پس یہ قوتِ ایمانی نہ صرف لغو کاموں سے چھڑاتی ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے رازق ہونے پر ایک قوی ایمان پیدا کر دیتی ہے۔ اور نورِ توکّل دل میں ڈال دیتی ہے۔ تب مال جو ایک پارۂ جگر سمجھا جاتا ہے بہت آسانی اور شرح صدر سے مومن اس کو خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتا ہے اور وہ ضعف جو بخل کی حالت میں نومیدی سے پیدا ہوتا ہے۔ اب خدا تعالیٰ پر بہت سی امیدیں ہو کر وہ تمام ضعف جاتا رہتا ہے۔ اور مال دینے والے کی محبت مال کی محبت سے زیادہ ہو جاتی ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 237

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 237

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/237/mode/1up


پھر بعد اس کے چوتھی حالت ہے جس سے نفسِ امّارہ بہت ہی پیار کرتا ہے اور جو تیسری حالت سے بدتر ہے کیونکہ تیسری حالت میں تو صرف مال کا اپنے ہاتھ سے چھوڑنا ہے۔ مگر چوتھی حالت میں نفس امّارہ کی شہواتِ محرّمہ کو چھوڑنا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ مال کا چھوڑنا بہ نسبت شہوات کے چھوڑنے کےؔ انسان پر طبعاً سہل ہوتا ہے۔ اس لئے یہ حالت بہ نسبت حالات گذشتہ کے بہت شدید اور خطرناک ہے اور فطرتاً انسان کو شہوات نفسانیہ کا تعلق بہ نسبت مال کے تعلق کے بہت پیارا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مال کو جو اُس کے نزدیک مدارِ آسائش ہے بڑی خوشی سے شہوات نفسانیہ کی راہ میں فدا کر دیتا ہے۔ اور اس حالت کے خوفناک جوش کی شہادت میں یہ آیت کافی ہے۔3۱؂ یعنی یہ ایسا مُنہ زور جوش ہے جو اِس کا فرو ہونا کسی برہانِ قوی کا محتاج ہے۔ پس ظاہر ہے کہ درجہ چہارم پر قوّتِ ایمانی بہ نسبت درجہ سوم کے بہت قوی اور زبردست ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت اور جبروت کا مشاہدہ بھی پہلے کی نسبت اُس میں زیادہ ہوتا ہے اور نہ صرف اس قدر بلکہ یہ بھی اس میں نہایت ضروری ہے کہ جس لذّت ممنوعہ کو دُور کیا گیا ہے اس کے عوض میں روحانی طور پر کوئی لذّت بھی حاصل ہو۔ اور جیسا کہ بخل کے دُور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی رازقیت پر قوی ایمان درکار ہے۔ اور خالی جیب ہونے کی حالت میں ایک قوی توکّل کی ضرورت ہے تا بخل بھی دُور ہو اور غیبی فتوح پر اُمید بھی پیدا ہو جائے۔ ایسا ہی شہوات ناپاک نفسانیہ کے دُور کرنے کے لئے اور آتشِ شہوت سے مخلصی پانے کے لئے اس آگ کے وجود پر قوی ایمان ضروری ہے جو جسم اور رُوح دونوں کو عذاب شدید میں ڈالتی ہے اور نیز ساتھ اس کے اُس رُوحانی لذّت کی ضرورت ہے جو ان کثیف لذّتوں سے بے نیاز اور مستغنی کر دیتی ہے۔ جو شخص شہوات نفسانیہ محرّمہ کے پنجہ میں اسیر ہے وہ ایک اژدہا کے مُنہ میں ہے جو نہایت خطرناک زہر رکھتا ہے۔ پس اس سے ظاہر ہے کہ جیسا کہ لغو حرکات کی بیماری سے بخل کی بیماری بڑھ کر ہے اِسی طرح بخل کی بیماری کے مقابل پر شہوات نفسانیہ محرّمہ کے پنجہ میں اسیر ہونا سب بَلاؤں سے زیادہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 238

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 238

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/238/mode/1up


بلا ہے جو خدائے تعالیٰ کے ایک خاص رحم کی محتاج ہے اور جب خدا تعالیٰ کسی کو اس بلا سے نجات دینا چاہتا ہے تو اپنی عظمت اور ہیبت اور جبروت کی ایسی تجلّی اس پر کرتا ہے جس سے شہواتِ نفسانیہ محرّمہ پارہ پارہ ہو جاتی ہیں اور پھر جمالی رنگ میں اپنی لطیف محبت کا ذوق اس کے دل میں ڈالتا ہے اور جس طرح شیر خوار بچہ دودھ چھوؔ ڑنے کے بعد صرف ایک رات تلخی میں گذارتا ہے بعد اس کے اس دودھ کو ایسا فراموش کر دیتا ہے کہ چھاتیوں کے سامنے بھی اگر اس کے مُنہ کو رکھا جائے تب بھی دودھ پینے سے نفرت کرتا ہے۔ یہی نفرت شہواتِ محرّمہ نفسانیہ سے اُس راستباز کو ہو جاتی ہے جس کو نفسانی دودھ چھڑا کر ایک روحانی غذا اس کے عوض میں دی جاتی ہے۔

پھر چوتھی حالت کے بعد پانچویں حالت ہے جس کے مفاسد سے نہایت سخت اور شدید محبت نفسِ امّارہ کو ہے۔ کیونکہ اس مرتبہ پر صرف ایک لڑائی باقی رہ جاتی ہے اور وہ وقت قریب آجاتا ہے کہ حضرت عزّت جلّ شانہٗکے فرشتے اس وجود کی تمام آبادی کو فتح کر لیں اور اُس پر اپنا پورا تصرّف اور دخل کر لیں اور تمام نفسانی سِلسلہ کو درہم برہم کر دیں۔ اور نفسانی قویٰ کے قریہ کو ویران کردیں۔ اور اس کے نمبر داروں کو ذلیل اور پست کر کے دکھلا دیں اور پہلی سلطنت پر ایک تباہی ڈال دیں۔ اور انقلاب سلطنت پر ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔3333333۱؂ اور یہ مومن کے لئے ایک آخری امتحان اور آخری جنگ ہے جس پر اُس کے تمام مراتب سلوک ختم ہو جاتے ہیں اور اس کا سِلسلہ ترقیات جو کسب اور کوشش سے ہے انتہا تک پہنچ جاتا ہے۔ اور انسانی کوششیں اپنے اَخیر نقطہ تک منزل طے کر لیتی ہیں۔ پھر بعد اس کے صرف موہبت اور فضل کا کام باقی رہ جاتا ہے جو خلق آخر کے متعلق ہے۔ اور یہ پانچو۵یں حالت چوتھی۴ حالت سے مشکل تر ہے کیونکہ چوتھی حالت میں تو صرف مومن کا کام یہ ہے کہ شہوات محرّمہ نفسانیہ کو ترک کرے مگر پانچویں حالت میں مومن کا کام یہ ہے کہ نفس کو بھی ترک کر دے اور اس کو خدا تعالیٰ کی امانت سمجھ کر خدا تعالیٰ کی طرف واپس کرے اور خدا کے کاموں میں اپنے نفس کو وقف کر کے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 239

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 239

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/239/mode/1up


اس سے خدمت لے اور خدا کی راہ میں بذل نفس کرنے کا ارادہ رکھے اور اپنے نفس کی نفی وجود کے لئے کوشش کرے۔ کیونکہ جب تک نفس کا وجود باقی ہے گناہ کرنے کے لئے جذبات بھی باقی ہیں جو تقویٰ کے بر خلاف ہیں۔ اور نیز جب تک وجود نفس باقی ہے ممکن نہیں کہ انسان تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مار سکے یا پورے طور پر خدا کی امانتوں اور عہدوں یا مخلوق کی امانتوں اور عہدوں کو ادا کر سکے۔ لیکن جیسا کہ بخل بغیر توکّل اور خدا کی رازقیت پر ایماؔ ن لانے کے ترک نہیں ہو سکتا اور شہوات نفسانیہ محرّمہ بغیر استیلاء ہیبت اور عظمتِ الٰہی اور لذاتِ روحانیہ کے چھوٹ نہیں سکتیں ایسا ہی یہ مرتبہ عظمیٰ کہ ترکِ نفس کر کے تمام امانتیں خدا تعالیٰ کی اس کو واپس دی جائیں کبھی حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ ایک تیز آندھی عشقِ الٰہی کی چل کر کسی کو اس کی راہ میں دیوانہ نہ بنا دے۔ یہ تو درحقیقت عشقِ الٰہی کے مستوں اور دیوانوں کے کام ہیں دنیا کے عقلمندوں کے کام نہیں ؂

آسماں بار امانت نتو انست کشید قرعۂ فال بنام من دیوانہ زدند

اسی کی طرف اللہ تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے۔333333ہم نے اپنی امانت کو جو امانت کی طرح واپس دینی چاہیئے تمام زمین و آسمان کی مخلوق پر پیش کیا۔ پس سب نے اُس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈرے کہ امانت کے لینے سے کوئی خرابی پیدا نہ ہو مگر انسان نے اس امانت کو اپنے سرپر اٹھا لیا کیونکہ وہ ظلوم اور جہول تھا۔ یہ دونوں لفظ انسان کے لئے محل مدح میں ہیں نہ محل مذمت میں اور ان کے معنے یہ ہیں کہ انسان کی فطرت میں ایک صفت تھی کہ وہ خدا کے لئے اپنے نفس پر ظلم اور سختی کر سکتا تھا۔ اور ایسا خدا تعالیٰ کی طرف جُھک سکتا تھا کہ اپنے نفس کو فراموش کر دے اس لئے اُس نے منظور کیا کہ اپنے تمام وجود کو امانت کی طرح پاوے اور پھر خدا کی راہ میں خرچ کر دے۔

اوراس پانچویں مرتبہ کے لئے یہ جواللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے 3 3۲؂ یعنی مومن وہ ہیں جو اپنی امانتوں اور عہدوں کی رعایت رکھتے ہیں یعنی ادائے امانت



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 240

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 240

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/240/mode/1up


اور ایفائے عہد کے بارے میں کوئی دقیقہ تقویٰ اور احتیاط کا باقی نہیں چھوڑتے۔ یہ اس امانت کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کا نفس اور اس کے تمام قویٰ اور آنکھ کی بینائی اور کانوں کی شنوائی اور زبان کی گویائی اور ہاتھوں پَیروں کی قوّت یہ سب خدا تعالیٰ کی امانتیں ہیں جو اُس نے دی ہیں اور جس وقت وہ چاہے اپنی امانتوں کو واپس لے سکتا ہے۔ پس ان تمام امانتوں کا رعایت رکھنا یہ ہے کہ باریک در باریک تقویٰ کیؔ پابندی سے خدا تعالیٰ کی خدمت میں نفس اور اُس کے تمام قویٰ اور جسم اور اس کے تمام قویٰ اور جوارح کو لگایا جائے اِس طرح پر کہ گویا یہ تمام چیزیں اُس کی نہیں بلکہ خدا کی ہو جائیں اور اُس کی مرضی سے نہیں بلکہ خدا کی مرضی کے موافق ان تمام قویٰ اور اعضاء کا حرکت اور سکون ہو اور اس کا ارادہ کچھ بھی نہ رہے بلکہ خدا کا ارادہ اُن میں کام کرے اور خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں اس کا نفس ایسا ہو جیسا کہ مُردہ زندہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اور یہ خود رائی سے بے دخل ہو اور خدا تعالیٰ کا پورا تصّرف اس کے وجود پر ہو جائے یہاں تک کہ اُسی سے دیکھے اور اُسی سے سُنے اور اُسی سے بولے اور اُسی سے حرکت یا سکون کرے اور نفس کی دقیق دردقیق آلائشیں جو کسی خوردبین سے بھی نظر نہیں آ سکتیں دُور ہو کر فقط رُوح رہ جائے۔ غرض مہیمنت خدا کی اس پر احاطہ کر لے اور اپنے وجود سے اس کو کھو دے اور اُس کی حکومت اپنے وجود پر کچھ نہ رہے اور سب حکومت خدا کی ہو جائے اور نفسانی جوش سب مفقود ہو جائیں اور الوہیت کے ارادے اُس کے وجود میں جوش زن ہو جائیں۔ پہلی حکومت بالکل اُٹھ جائے اور دوسری حکومت دل میں قائم ہو اور نفسانیت کا گھر ویران ہو اور اُس جگہ پر حضرت عزّت کے خیمے لگائے جائیں اور ہیبت اور جبروت الٰہی تمام اُن پودوں کو جن کی آب پاشی گندے چشمۂ نفس سے ہوتی تھی اس پلید جگہ سے اکھیڑ کر رضا جوئی حضرتِ عزّت کی پاک زمین میں لگا دئے جائیں اور تمام آرزوئیں اور تمام ارادے اور تمام خواہشیں خدا میں ہو جائیں اور نفسِ امّارہ کی تمام عمارتیں منہدم کر کے خاک میں ملا دی جائیں اور ایک ایسا پاک محل تقدس اور تطہّر کا دل میں طیار کیا جاوے جس میں حضرت عزّت نازل ہو سکے اور اس کی رُوح اس میں آباد ہو سکے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 241

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 241

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/241/mode/1up


اس قدر تکمیل کے بعد کہا جائے گا کہ وہ امانتیں جو منعم حقیقی نے انسان کو دی تھیں وہ واپس کی گئیں۔ تب ایسے شخص پر یہ آیت صادق آئے گی 3333۱؂ اس درجہ پر صرف ایک قالب تیار ہوتا ہے اور تجلّی الٰہی کی رُوح جس سے مراد محبتِ ذاتیہ حضرت عزّت ہے بعد اس کے مع رُوح القدس ایسے مومن کے اندر داخل ہوتی اور نئی حیات اُس کو بخشتی ہے اورؔ ایک نئی قوت اس کو عطا کی جاتی ہے اور اگرچہ یہ سب کچھ رُوح کے اثر سے ہی ہوتا ہے لیکن ہنوز رُوح مومن سے صرف ایک تعلّق رکھتی ہے اور ابھی مومن کے دل کے اندر آباد نہیں ہوتی۔

پھر بعد اس کے وجودرُوحانی کا مرتبہ ششم ہے یہ وہی مرتبہ ہے جس میں مومن کی محبتِ ذاتیہ اپنے کمال کو پہنچ کر اللہ جلّ شانہٗکی محبتِ ذاتیہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے تب خدا تعالیٰ کی وہ محبت ذاتی مومن کے اندر داخل ہوتی ہے اور اس پر احاطہ کرتی ہے جس سے ایک نئی اور فوق العادت طاقت مومن کو ملتی ہے اور وہ ایمانی طاقت ایمان میں ایک ایسی زندگی پیدا کرتی ہے جیسے ایک قالبِ بے جان میں رُوح داخل ہو جاتی ہے بلکہ وہ مومن میں داخل ہوکر درحقیقت ایک رُوح کا کام کرتی ہے۔ تمام قویٰ میں اس سے ایک نُور پیدا ہوتا ہے۔ اور رُوح القدس کی تائید ایسے مومن کے شامل حال ہوتی ہے کہ وہ باتیں اور وہ علوم جو انسانی طاقت سے برتر ہیں وہ اس درجہ کے مومن پر کھولے جاتے ہیں اور اس درجہ کا مومن ایمانی ترقیات کے تمام مراتب طے کر کے ان ظلّی کمالات کی وجہ سے جو حضرت عزت کے کمالات سے اُس کو ملتے ہیں آسمان پر خلیفۃاللہ کا لقب پاتا ہے کیونکہ جیسا کہ ایک شخص جب آئینہ کے مقابل پر کھڑا ہوتا ہے تو تمام نقوش اس کے مُنہ کے نہایت صفائی سے آئینہ میں منعکس ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی اس درجہ کا مومن جو نہ صرف ترک نفس کرتا ہے بلکہ نفی ء وجود اور ترکِ نفس کے کام کو اس درجہ کے کمال تک پہنچاتا ہے کہ اس کے وجود میں سے کچھ بھی نہیں رہتا اور صرف آئینہ کے رنگ میں ہو جاتا ہے۔ تب ذاتِ الٰہی کے تمام نقوش اور تمام



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 242

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 242

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/242/mode/1up


اخلاق اس میں مندرج ہو جاتے ہیں اور جیسا کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ آئینہ جو ایک سامنے کھڑے ہونے والے مُنہ کے تمام نقوش اپنے اندر لے کر اس مُنہ کا خلیفہ ہو جاتا ہے اسی طرح ایک مومن بھی ظلّی طور پر اخلاق اور صفاتِ الٰہیہ کو اپنے اندر لے کر خلافت کا درجہ اپنے اندر حاصل کرتا ہے اور ظلّی طور پر الٰہی صورت کا مظہر ہو جاتا ہے اور جیسا کہ خدا غیب الغیب ہے اور اپنی ذات میں وراء الوراء ہے ایسا ہی یہ مومن کامل اپنی ذات میں غیب الغیب اور وراء الوراء ہوتا ہے۔ دنیا اس کی حقیقت تک پہنچ نہیں سکتی۔ کیوؔ نکہ وہ دنیا کے دائرہ سے بہت ہی دُور چلا جاتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ خدا جو غیر متبدل اور حیّ و قیّوم ہے وہ مومن کامل کی اُس پاک تبدیلی کے بعد جب کہ مومن خدا کے لئے اپنا وجود بالکل کھو دیتا ہے اور ایک نیا چولا پاک تبدیلی کا پہن کر اُس میں سے اپنا سر نکالتا ہے۔ تب خدا بھی اس کے لئے اپنی ذات میں ایک تبدیلی کرتا ہے مگر یہ نہیں کہ خدا کی ازلی ابدی صفات میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے۔ نہیں بلکہ وہ قدیم سے اور ازل سے غیر متبدل ہے۔ لیکن یہ صرف مومن کامل کے لئے جلوۂ قدرت ہوتا ہے اور ایک تبدیلی جس کی ہم کُنہ نہیں سمجھ سکتے مومن کی تبدیلی کے ساتھ خدا میں بھی ظہور میں آجاتی ہے مگر اس طرح پر کہ اُس کی غیر متبدل ذات پر کوئی گرد و غبار حدوث کا نہیں بیٹھتا۔ وہ اسی طرح غیر متبدل ہوتا ہے جس طرح وہ قدیم سے ہے لیکن یہ تبدیلی جو مومن کی تبدیلی کے وقت ہوتی ہے یہ اس قسم کی ہے جیسا کہ لکھا ہے کہ جب مومن خدائے تعالیٰ کی طرف حرکت کرتا ہے تو خدا اس کی نسبت تیز حرکت کے ساتھ اُس کی طرف آتا ہے اور ظاہر ہے کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ تبدیلیوں سے پاک ہے ایسا ہی وہ حرکتوں سے بھی پاک ہے۔ لیکن یہ تمام الفا ظ استعارہ کے رنگ میں بولے جاتے ہیں اور بولنے کی اس لئے ضرورت پڑتی ہے کہ تجربہ شہادت دیتا ہے کہ جیسے ایک مومن خدائے تعالیٰ کی راہ میں نیستی اور فنا اور اِستہلاک کر کے اپنے تئیں ایک نیا وجود بناتا ہے اس کی ان تبدیلیوں کے مقابل پر خدا بھی اس کے لئے ایک نیا ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ وہ معاملات کرتا ہے جو دوسرے کے ساتھ کبھی نہیں کرتا۔ اور اس کو اپنے ملکوت اور اسرار کاوہ سَیر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 243

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 243

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/243/mode/1up


کراتا ہے جو دوسرے کو ہر گز نہیں دکھلاتا۔ اور اس کے لئے وہ کام اپنے ظاہر کرتا ہے جو دوسروں کے لئے ایسے کام کبھی ظاہر نہیں کرتا۔ اور اس قدر اس کی نصرت اور مدد کرتا ہے کہ لوگوں کو تعجب میں ڈالتا ہے۔ اس کے لئے خوارق دکھلاتا ہے اور معجزات ظاہر کرتا اور ہر ایک پہلو سے اس کو غالب کر دیتا ہے اور اس کی ذات میں ایک قوتِ کشش رکھ دیتا ہے جس سے ایک جہان اُس کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے اور وہی باقی رہ جاتے ہیں جن پر شقاوتِ ازلی غالب ہے۔

پس اِن تمام باتوں سے ظاہر ہے کہ مومن کامل کی پاک تبدیلی کے ساتھ خدا تعالیٰ بھیؔ ایک نئی صورت کی تجلّی سے اُس پر ظاہر ہوتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اُس نے انسان کو اپنے لئے پیدا کیا ہے کیونکہ جب انسان خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا شروع کرے تو اُسی دن سے بلکہ اُسی گھڑی سے بلکہ اُسی دم سے خدا تعالیٰ کا رجوع اُس کی طرف شروع ہو جاتا ہے۔ اور وہ اُس کا متولّی اور متکفّل اور حامی اور ناصر بن جاتا ہے۔ اور اگر ایک طرف تمام دنیا ہو اور ایک طرف مومنِ کامل تو آخر غلبہ اُسی کو ہوتا ہے کیونکہ خدا اپنی محبت میں صادق ہے اور اپنے وعدوں میں پورا۔ وہ اس کو جو درحقیقت اُس کا ہو جاتا ہے ہر گز ضائع نہیں کرتا۔ ایسا مومن آگ میں ڈالا جاتا ہے اور گلزار میں سے نکلتا ہے۔ وہ ایک گرداب میں دھکیل دیا جاتا ہے اور ایک خوشنما باغ میں سے نمودار ہو جاتا ہے۔ دشمن اس کے لئے بہت منصوبے کرتے اور اس کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن خدا ان کے تمام مکروں اور منصوبوں کو پاش پاش کر دیتا ہے کیونکہ وہ اس کے ہر قدم کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لئے آخر اُس کی ذلّت چاہنے والے ذلّت کی مار سے مرتے ہیں اور نامرادی اُن کا انجام ہوتا ہے۔ لیکن وہ جو اپنے تمام دل اور تمام جان اور تمام ہمّت کے ساتھ خدا کا ہو گیا ہے وہ نامراد ہر گز نہیں مرتا اور اُس کی عمر میں برکت دی جاتی ہے اور ضرور ہے کہ وہ جیتا رہے جب تک اپنے کاموں کو پورا کر لے۔ تمام برکتیں اخلاص میں ہیں اور تمام اخلاص خدا کی رضا جوئی میں اور تمام خدا کی رضا جوئی اپنی رضا کے چھوڑنے میں۔ یہی موت ہے جس کے بعد زندگی ہے مبارک وہ جو اس زندگی میں سے حصّہ لے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 244

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 244

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/244/mode/1up


اب واضح ہو کہ جہاں تک ہم نے سورۃ المؤمنون کی آیات ممدوحہ بالا کے معجزہ ہونے کی نسبت لکھنا تھا وہ سب ہم لکھ چکے اور بخوبی ثابت کر چکے کہ سورۃ موصوفہ کی ابتدا میں مومن کے وجود رُوحانی کے چھ۶ مراتب قرار دیئے ہیں اور مرتبہ ششم خلق آخر کا رکھا ہے۔ یہی مراتبِ ستّہ سورۃ موصوفہ بالا میں جسمانی پیدائش کے بارہ میں بعد ذکر پیدائش روحانی بیان فرمائے گئے ہیں۔ اور یہ ایک علمی اعجاز ہے۔ اور یہ علمی نکتہ قرآن شریف سے پہلے کسی کتاب میں مذکور نہیں ہے۔ پس ان آیات کا آخری حصہ یعنی 3۱؂بلاشبہ ایک ؔ علمی معجزہ کی جڑ ہے کیونکہ وہ ایک اعجازی موقعہ پر چسپاں کیا گیا ہے۔ اور انسان کے لئے یہ بات ممکن نہیں کہ اپنے بیان میں ایسی اعجازی صورت پیدا کرے اور پھر اس پر آیت 3 چسپاں کرے۔ اور اگر کوئی کہے کہ اِس پر کیا دلیل ہے کہ آیات مذکورہ بالا میں جو مقابلہ انسان کے مراتب پیدائش روحانی اور پیدائش جسمانی میں دکھلایا گیا ہے وہ علمی معجزہ ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ معجزہ اس کو کہتے ہیں کہ کوئی انسان اس کے مثل بنانے پر قادر نہ ہو سکے یا گذشتہ زمانہ میں قادر نہ ہو سکا ہو اور نہ بعد میں قادر ہونے کا ثبوت ہو۔ پس ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ یہ بیان انسانی پیدائش کی دقیق فلاسفی کا جو قرآن شریف میں مندرج ہے یہ ایک ایسا بے مثل و مانند بیان ہے کہ اس کی نظیر پہلے اس سے کسی کتاب میں نہیں پائی جاتی۔ نہ اس زمانہ میں ہم نے سُنا کہ کسی ایسے شخص کو جو قرآن شریف کا علم نہیں رکھتا اس فلاسفی کے بیان کرنے میں قرآن شریف سے توارد ہوا ہو۔ اور جب کہ قرآن شریف اپنے جمیع معارف اور نشانوں اور فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے معجزہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور یہ آیات قرآن شریف کا ایک حصّہ ہیں جو دعویٰ اعجاز میں داخل ہے پس اس کا بے مثل و مانند ثابت ہونا باوجود دعویٰ اعجاز اور طلبِ مقابلہ کے بلاشبہ معجزہ ہے۔ اور معترض کے بقیہ اعتراضات کا جواب ذیل میں لکھا جاتا ہے۔

قولہ۔ عفت الدیار محلھا و مقامھا ایک پُرانے شاعر کا مصرع ہے۔ کیا کسی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 245

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 245

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/245/mode/1up


نبی کو کبھی ایسی وحی ہوئی جس کے الفاظ حرفاً حرفاً وہی ہوں جو اس نبی سے پہلے کسی آدمی کی زبان سے نکل چکے ہوں۔

اقول۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں ایسی وحی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ہوئی تھی۔ یعنی فتبارک اللّٰہ احسن الخالقین۔ یہ وہ فقرہ ہے جو عبداللہ ابن ابی سرح کے مُنہ سے نکلا تھا اور بعینہٖ یہی وحی الٰہی ہوئی تھی۔ اور اسی ابتلا سے عبداللہ بدقسمت مرتد ہو گیا تھا۔ پس ایسا اعتراض عبد اللہ مرتد کے خیالات کی پیروی ہے جس سے پرہیز کرنا چاہیئے تھا۔ اور یہ فقرؔ ہ یعنی عفت الدیار محلّھا و مقامھا یہ لبید رضی اللہ عنہ جو صحابی تھے اُن کے شعر کا پہلا مصرع ہے۔ پورا شعر یہ ہے ؂

عفت الدیار محلّھا و مقامھا

بِمنًی تأبّد غولھا فرجامھا

اِس کے یہ معنے ہیں کہ میرے پیاروں کے گھر منہدم ہو گئے۔ اُن عمارتوں کا نام و نشان نہ رہا جو عارضی سکونت کی عمارتیں تھیں اور نہ وہ عمارتیں رہیں جو مستقل سکونت کی عمارتیں تھیں۔ دونوں قسم کی عمارتیں نابود ہو گئیں اور وہ عمارتیں منٰی میں واقع تھیں جو نجد کی زمین میں ہے۔ منٰی دو ہیں۔ ایک منٰی مکّہ اور ایک منٰی نجد۔ اس جگہ منٰی نجد مراد ہے۔ اور پھر شاعر کہتا ہے کہ اُس سَرزمین کے دو شہر جن میں سے ایک کا نامغَول تھا اور دوسرے کا نام رَجَام تھا یہ ایسے منہدم ہو کر نابود ہو گئے اور زمین سے ہموار ہو گئے کہ اب اِ ن شہروں کی جگہ ایک جنگل پڑا ہے جہاں وحشی جانور ہرن وغیرہ رہتے ہیں۔ یہ معنی اس عربی لفظ کے ہیں یعنی تَأَبَّدَ کے جو شعر میں موجود ہے تَأَبَّدَ کا لفظ اَوَابِد سے لیا گیا ہے اوراَوَابِد جنگلی جانوروں ہرن وغیرہ کو کہتے ہیں۔ اور اَوَابِدکا لفظ اَبَد سے لیا گیا ہے۔ اس کے معنے ہیں ہمیشہ جینے والے۔ چونکہ ہرن وغیرہ اکثر اپنی موت سے نہیں مرتے بلکہ شکار کئے جاتے ہیں اور دوسرے کے ذریعہ سے ان کی موت آتی ہے اس لئے ان کا نام اوابد رکھا گیا۔

قولہ ۔ اگر انسان کے قول سے خدا کا بھی توارد ہو سکتا ہے تو خدا کے قول اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 246

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 246

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/246/mode/1up


بندے کے قول میں فرق کیا ہوا؟

اقول۔ ابھی ہم بیان کر چکے ہیں کہ قرآن شریف ان معنوں سے معجزہ ہے کہ کسی انسان کی عبارت کو قرآن شریف کی ایک لمبی عبارت کے ساتھ جو دس آیت سے کم نہ ہو توارد نہیں ہو سکتا اور اس قدر عبارت قرآن شریف کی اس درجہ فصاحت بلاغت اور دیگر معارف اور حقائق اپنے اندر رکھتی ہے جو انسانی طاقتیں اس کی مثل پیش نہیں کر سکتیں اس لئے عبارتِ قرآنی اِس شرط کے ساتھ کہ دس آیت کی مقدار سے کم نہ ہو معجزہ ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں اس کی تصریح موجود ہے۔ مگرؔ ایک فقرہ جو زیادہ سے زیادہ ایک آیت یا دو آیت کے برابر ہو اس قدر فقرہ میں انسان کے کلام کا خدا کے کلام سے بظاہر توارد ہو سکتا ہے مگر پھر بھی اندرونی طور پر خدا کی کلام میں بعض پوشیدہ معارف اور ایک قسم کا نور ہوتا ہے اور نیز معجزہ میں سے ایک حصہ اس میں مخفی ہوتا ہے۔ جیسا کہ انسان اور ہرن میں مابہ الامتیاز مجموعی حالت پر نظر ڈال کر ظاہر ہے لیکن تاہم ہرن کی آنکھ انسان کی آنکھ سے مشابہ ہے مگر پھر بھی انسان کی آنکھ میں بعض وہ قوتیں ہیں جو ہرن کی آنکھ میں ہر گز نہیں۔

قولہ۔ جب عفت الدیار محلّھا و مقامھا کا الہام شائع ہوا تب اُس کے ذیل میں لکھا گیا تھا کہ متعلق طاعون۔ لیکن اب بتایا جاتا ہے کہ زلزلہ کے متعلق ہے۔

اقول۔ عفت الدیار کے عذاب کا طاعون سے تعلق رکھنا اس کو عین طاعون نہیں بنا سکتا ما سوا اس کے یہ قول کہ عفت الدیار کے فقرہ کو طاعون سے تعلّق ہے یہ انسان کی عبارت ہے۔ اعتراض تب ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ کی وحی میں یہ لفظ ہوتا۔ خدا تعالیٰ کی وحی تو صاف کہتی ہے کہ یہ زلزلہ کے متعلق ہے۔ دیکھو وہ الہام جو اُسی اخبار الحکم میں دسمبر ۱۹۰۳ء کے اخیر میں شائع ہوا جس کی یہ عبارت ہے کہ ’’ زلزلہ کا دھکّا ‘‘۔ پھر پانچ ماہ بعد اسی پہلے الہام کی اسی اخبار کے پرچہ ۳۱؍ مئی ۱۹۰۴ء میں دوسرے الہام نے یہ تصریح کی کہ عفت الدیار محلھا و مقامھا۔ افسوس یہ کیسا زمانہ آ گیا کہ دو ۲ جگہ ایک ہی اخبار میں خدا کا کلام موجود ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 247

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 247

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/247/mode/1up


اور ایک کلام دوسرے کی تشریح کرتا ہے۔ اس کی طرف کوئی نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا اور انسانی الفاظ کو پیش کرتے ہیں جس کی غلطی کا الہام الٰہی ذمہ وار نہیں۔ مسلمانوں کی اولاد کہلا کر اس قدر تعصّب۔ خدا جانے اس کا وبال آئندہ کیا ہو گا۔

ماسوا اس کے ہمیں اس بات سے انکار نہیں ہے کہ پیش از وقت کسی پیشگوئی کی پوری حقیقت نہیں کھلتی اور ممکن ہے کہ انسانی تشریح میں غلطی بھی ہو جائے اسی لئے کوئی نبی دُنیا میں ایسا نہیں گذرا جس نے اپنی کسی پیشگوئی کے معنے کرنے میں کبھی غلطی نہ کھائی ہو لیکن اگر قبل از وقت اجتہادی طور پر کوئی نبی اپنی پیشگوئی کے معنے کرنے میں کسی طور کی غلطی کھاوے تو اس پیشگوئی کی شان اور عزّت میں فرق نہیں آئے گا۔ کیونکہ ربّانی پیشگوئی ایک خارؔ ق عادت اور انسانی نظر سے بلند اور انسانی خیالات سے برتر ہے۔ کیا آپ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ فرق آ جاتا ہے اگر یہی حال ہے تو مَیں ایک لمبی فہرست ایسی پیشگوئیوں کی آپ کو دے سکتا ہوں جن کے سمجھنے میں اولوالعزم نبیوں نے غلطی کھائی تھی۔ مگر مَیں یقین رکھتا ہوں کہ آپ بعد اس کے ایسا اعتراض ہر گز نہیں کریں گے اور متنبہ ہو جائیں گے کہ یہ اعتراض کہاں تک پہنچتا ہے صاف ظاہر ہے کہ جب پیشگوئی ظہور میں آ جائے اور اپنے ظہور سے اپنے معنے آپ کھول دے اور اُن معنوں کو پیشگوئی کے الفاظ کے آگے رکھ کر بدیہی طور پر معلوم ہو کہ وہی سچے ہیں تو پھر ان میں نکتہ چینی کرنا ایمانداری نہیں ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ الہام مذکورہ بالا کے یہی معنے ہیں کہ ایک حصۂ ملک کی عمارتیں گر جائیں گی۔ پس اس صورت میں یہ الہام اپنے ظاہری معنوں کے رُو سے طاعون پر کیونکر صادق آسکتا ہے۔ اور جس حالت میں ایک حادثہ سے عمارتیں گِر گئیں تو وہی حادثہ مصداق اس پیشگوئی کا ہو گا۔ کیا طاعون میں بھی عمارتیں گِرا کرتی ہیں۔ پھر ماسوا اس کے اس پیشگوئی سے پہلے الہام میں جو صرف پانچ ماہ پہلے اسی اخبار میں شائع ہو چکا تھا صاف طور پر زلزلہ کا لفظ موجود ہے اور الہامی لفظ یہ ہیں کہ ’’ زلزلہ کا دھکّا ‘‘۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ اُسی اخبار میں ایک آنے والے زلزلہ کی خبر دی گئی ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 248

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 248

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/248/mode/1up


اب آپ خود منصف ہو کر سوچ لیں کہ الہام عفت الدیار محلّھا و مقامھا اپنے لفظی معنوں کے رُو سے اس زلزلہ کی پیشگوئی پر چسپاں ہوتا ہے جو پہلے اس سے ذکر بھی کیا گیا یا طاعون پر ماسوا اِس کے زلزلہ کی پیشگوئی کا اس فقرہ سے یعنی عفت الدیار کی پیشگوئی سے جیسا کہ معنوں کی رُو سے تعلق ہے ایسا ہی قُرب زمانی کی رُو سے بھی تعلق ہے اور وہ یہ کہ عفت الدیارکے الہام سے پانچ ماہ پہلے صریح الفاظ میں زلزلہ کا الہام ہو چکا ہے اور دونوں پیشگوئیاں ایک دوسرے کے بعد شائع ہو چکی ہیں۔ یعنی پہلے ’’ زلزلہ کا دھکّا ‘‘ اور پھر عفت الدیار محلّھا و مقامھا اور ان دونوں کے اندر طاعون کا کوئی ذکر نہیں۔

قولہ۔ اگر الہام عفت الدیار الخ کی نسبت قطعی طور پر علم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ زلزلہ کے متعلق ہےؔ تو پھر ایسے الہام سے فائدہ کیا ہوا۔

اقول۔ افسوس آپ کو سنّت اللہ کی کچھ بھی خبر نہیں۔نبی کے لئے کسی پیشگوئی کے کسی خاص پہلو کا قطعی علم ہونا کہ ضرور اِسی پہلو پر ظاہر ہو گی ضروری نہیں پیشگوئی میں اس بات کا ہونا تو ضروری ہے کہ اس کا مفہوم خارق عادت ہو اور انسانی قوت یا مکر و فریب اس کا مقابلہ نہ کر سکے مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر ایک پہلو سے اس پیشگوئی کی حقیقت ظاہر کی جائے۔توریت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ایک ضروری پیشگوئی محض گول مول ہے کہ ایک نبی موسیٰ کی مانند بنی اسرائیل میں سے اُن کے بھائیوں میں سے آئے گا۔*اور کہیں کھول کر نہ بتلایا کہ بنی اسماعیل میں سے آئے گا۔ اور اس کا یہ نام اور اس کے باپ کا یہ نام ہو گا۔ اور مکّہ میں پیدا ہو گا اور اتنی مدت بعد آئے گا۔ اس لئے یہود کو اس پیشگوئی سے کچھ بھی فائدہ نہ ہوا۔ اور اسی غلطی سے لاکھوںیہود جہنم میں جا پڑے حالانکہ قرآن شریف نے اسی پیشگوئی کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا ہے۔333333۱؂ اور یہود کہتے ہیں کہ

توریت میں بعض جگہ بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ وہ تم میں سے ہی آئے گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 249

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 249

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/249/mode/1up


مثیل موسیٰ یسوعا نبی تھا جو موسیٰ کے فوت ہونے کے بعد اس کا جانشین ہوا۔ اور عیسائی کہتے ہیں کہ مثیل موسیٰ عیسیٰ ہے کیونکہ وہ بھی موسیٰ کی طرح منجّی ہو کر آیا ہے۔ اب بتلاؤ کہ توریت کی ایسی پیشگوئی کا جس نے کوئی صاف فیصلہ نہ کیا ، کیا فائدہ ہوا؟ جس نبی علیہ السلام کی نسبت پیشگوئی تھی نہ یہود اس کو شناخت کر سکے نہ عیسائی اور دونوں گروہ سعادت قبول سے محروم رہے مگر وہ وحی الٰہی جو میرے پر نازل ہوئی یعنی عفت الدیار محلّھا و مقامھا یہ جیسا کہ تمہارا خیال ہے مبہم نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے اسی اخبار میں یہ الہام موجود ہے کہ ’’زلزلہ کا دھکّا‘‘۔ پھر بعد اس کے یہ دوسری وحی کہعفت الدیار محلّھا و مقامھا اسی زلزلہ کی صفات بیان کرتی ہے جس کا پہلے اسی اخبار میں ذکر ہو چکا ہے۔ اور یہ پیشگوئی طاعون پر کسی طرح صادق نہیں آ سکتی۔ اور یہ دونوں وحی ایک ہی اخبار میں صرف پانچ ماہ کے فاصلہ کے ساتھ موجود ہیں یعنی الحکم میں۔ ابؔ بتلاؤ کہ کیا یہ ہٹ دھرمی ہے یا نہیں کہ ایسی عظیم الشان پیشگوئی کو جو دو مرتبہ ایک ہی اخبار میں صریح زلزلہ کا نام اور اس کے صفات بیان کر کے اس عظیم الشان حادثہ کی خبر دیتی ہے نکمی اور لغو قرار دی جائے اور اگر یہی بات ہے تو پھر آپ کا اسلام پر قائم رہنا ہی مشکل ہے معتبر تفسیروں میں لکھا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی3۱؂ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھ کو معلوم نہیں کہ یہ پیشگوئی کس موقعہ کے متعلق ہے۔ اور پھر جب بدر کی لڑائی میں فتح عظیم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ اب معلوم ہوا کہ اسی فتح عظیم کی یہ پیشگوئی خبر دیتی تھی اور ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ مجھ کو ایک خوشۂ انگور دیا گیا کہ یہ ابو جہل کے لئے ہے اور مَیں حیران تھا کہ ابو جہل کا ایسا خبیث مادہ ہے کہ وہ بہشت میں داخل ہونے کے لائق نہیں۔ اور کچھ بھی اس کے معنی سمجھ نہ آئے۔ آخر وہ پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ ابو جہل کا بیٹا عکرمہ مسلمان ہو گیا اور ایک مرتبہ آپ نے ایک وحی الٰہی کے مطابق مدینہ سے مکہ کی طرف ایک طول طویل سفر کیا۔ اور وحی الٰہی میں یہ بشارت دی گئی تھی کہ مکّہ کے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 250

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 250

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/250/mode/1up


اندر داخل ہوں گے اور خانہ کعبہ کا طواف کریں گے۔ اور وقت نہیں بتایا گیا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے محض اجتہاد کی بناء پر اُس سفر کی تکلیف اٹھائی۔ اور وہ اجتہاد صحیح نہ نکلا اور مکّہ میں داخل نہ ہو سکے سو اس جگہ پیشگوئی کے سمجھنے میں غلطی ہوئی جس سے بعض صحابہ ابتلا میں پڑ گئے۔

ایسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا نے خبر دی تھی کہ تو بادشاہ ہو گا۔ انہوں نے اِس وحی الٰہی سے دنیا کی بادشاہی سمجھ لی۔ اور اسی بنا پر حضرت عیسیٰ نے اپنے حواریوں کو حکم دیا کہ اپنے کپڑے بیچ کر ہتھیار خرید لو مگر آخر معلوم ہوا کہ یہ حضرت عیسیٰ کی غلط فہمی تھی اور بادشاہت سے مراد آسمانی بادشاہت تھی نہ زمین کی بادشاہت۔ اصل بات یہ ہے کہ پیغمبر بھی بشر ہی ہوتا ہے اور اس کے لئے یہ نقص کی بات نہیں کہ کسی اپنے اجتہاد میں غلطی کھاوے۔ ہاں وہ غلطی پر قائم نہیں رکھا جا سکتا اور کسی وقت اپنی غلطی پر ضرور متنبہ کیا جاتا ہے۔ اور نبی کی پیشگوئی کو ہمیشہ اس کے خارق عادت مفہوم کی رُو سے دیکھنا چاہیئے اور اگر کسی خاص پہلو پر پیشگوئی کا ظہور نہ ؔ ہو اور کسی دوسرے پہلو پر ظاہر ہو جائے اور اصل امر جو اس پیشگوئی کا خارق عادت ہونا ہے وہ دوسرے پہلو میں بھی پایا جائے۔ اور واقعہ کے ظہور کے بعد ہر ایک عقلمند کو سمجھ آجائے کہ یہی صحیح معنے پیشگوئی کے ہیں جو واقعہ نے اپنے ظہور سے آپ کھول دیئے ہیں تو اس پیشگوئی کی عظمت اور وقعت میں کچھ بھی فرق نہیں آتا۔ اور اس پر ناحق نکتہ چینی کرنا شرارت اور بے ایمانی اور ہٹ دھرمی ہوتی ہے۔

قولہ۔ ایک گول بات کہہ دینی کہ کوئی آفت آنے والی ہے لیکن اس کی کیفیت نہ بتانی کہ کیا آفت ہے اور کب آنے والی ہے پیشگوئی نہیں بلکہ تمسخر ہے اور ہر ایک شخص ایسا کہہ سکتا ہے۔

اقول۔ بجز اس کے کیا کہیں کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ ایسے مخالف کو چاہیئے کہ اتنا ہی کہہ دے کہ ایسی آفت نہیں آئے گی۔ اور پھر آپ خود سوچ لیں کہ یہ پیشگوئی گول مول کیسے ہوئی۔ جب کہ صریح اس میں زلزلہ کا نام بھی موجود ہے اور یہ بھی موجود ہے کہ اُس میں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 251

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 251

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/251/mode/1up


ایک حصہ ملک کا نابود ہو جائے گا۔ اور یہ بھی موجود ہے کہ وہ میری زندگی میں آئے گا۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی پیشگوئی ہے کہ وہ ان کے لئے نمونہ قیامت ہو گا جن پر یہ زلزلہ آئے گا۔ اور اگر یہ گول مول ہے تو پھر کھلی کھلی پیشگوئی کس کو کہتے ہیں؟ اور یہ کہنا کہ اُس میں وقت نہیں بتایا گیا یہ صرف آپ اسلام پر نہیں بلکہ تمام آسمانی کتابوں پر حملہ کرتے ہیں۔ قرآن شریف میں اکثر ایسی ہی پیشگوئیاں ہیں جن میں کوئی وقت نہیں بتایا گیا۔ توریت میں بخت نصر اور طیطوس رومی کی نسبت جو پیشگوئی تھی اس میں کونسا وقت بتایا گیا تھا۔ ایسا ہی توریت میں جو مثیلِ موسیٰ کے آنے کی نسبت پیشگوئی تھی اُس میں کس وقت کی قید لگائی گئی تھی۔ اور انجیل کی پیشگوئیاں جو زلزلوں اور لڑائیوں کے بارہ میں ہیں کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اُن میں کسی وقت کا پتہ دیا گیا ہے۔ اور پھر وہ پیشگوئی جو مسیح موعود کے آنے کے بارہ میں ہے جس میں آپ لوگ حضرت عیسیٰ بن مریم کو دوبارہ زمین پر لانا چاہتے ہیں اس میں کس وقت کی خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو خبر دے رکھی ہے تا دور سے آنے والے کے لئے چند قدم استقبال کی نیت سے آپ آگے قدم اٹھاویں اور اگر ؔ زیادہ نہیں تو کُرّہ زمہریر تک ہی پیشوائی کریں اور لحاف وغیرہ ساتھ لے لیں۔ کاش آپ لوگوں نے سوچا ہوتا کہ ایسے اعتراض صرف میرے پر نہیں یہ تو سب اعتراض آپ کے اسلام پر اور نعوذ باللہ قرآن شریف پر پڑتے ہیں بلکہ یہ تو تمام ابنیاء گذشتہ پر حملہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب ایک پیشگوئی فی نفسہٖ خارق عادت ہو یا کسی ایسے غیب پر مشتمل ہو جس کا علم انسانی طاقت سے بالا تر ہے۔ اور پیشگوئی میں صاف طور پر یہ دعویٰ ہو کہ ایسا واقعہ اس ملک میں صدہا سال تک کبھی ظہور میں نہیں آیا۔ اور دراصل ظہور میں نہ آیا ہو اور پھر وہ واقعہ اپنے دعوے کے موافق ظہور میں آ جائے تو پھر ایسی خارق عادت پیشگوئی پر اعتراض کرنا بے ایمانوں کا کام ہے جن کو خدا کی اور سچائی کی پروا نہیں اور ایسے بدقسمت ہمیشہ شقاوتِ قلبی کی وجہ سے ہر ایک نبی پر اعتراض کرتے رہے ہیں۔ بھلا آپ ہی بتلاویں کہ اِس زلزلہ کی نسبت جس مدّوشدّ سے پیشگوئی میں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 252

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 252

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/252/mode/1up


خبر دی گئی ہے۔ کیا آپ دو ہزار برس تک اس ملک میں اس کی کوئی نظیر پیش کر سکتے ہیں؟ اور یاد رہے کہ یہ صرف ایک پیشگوئی نہیں بلکہ بار بار میری معرفت میرے خدا نے براہین احمدیہ حصص سابقین میں اس کی خبر دی ہے۔ مواہب الرحمن میں اس کی خبر موجود ہے۔ رسالہ آمین میں اس کی خبر موجود ہے اور اخبار الحکم کے کئی پرچوں میں مختلف الہامات میں اس کی خبر موجود ہے۔ پھر بھی آپ کے نزدیک یہ پیشگوئی گول مول ہے۔ اب اس کا کیا علاج اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ۔ جن بے جا حملوں کا اسلام پر کرنا غیر مذاہب والوں کا کام تھا اب خود مسلمان وہ حملے کرتے ہیں۔ اگر حمایتِ دین نصیب نہیں تھی تو کم سے کم سوچ کر حملہ کرتے مفت کی رُوسیاہی اور آخر حملہ میں جھوٹے نکلنا کیا یہ دین داری ہے؟ ع

یکے برسر شاخ وبُن مے بُرید

اگر اسلامی نور دل میں ہوتا تو خود بخود سمجھ جاتے بلکہ دوسروں کو جواب دیتے۔

قولہ۔ جناب مقدّس مرزا صاحب نے دوبارہ زلزلہ آنے کی خبر دی ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ مجھے علم نہیں دیا گیا کہ وہ کوئی زلزلہ ہے یا کوئی اور شدید آفت ہے۔ اور مجھے علم نہیں دیا گیا کہ ایسا حادثہ کب ہو گا۔

اقولؔ ۔ میری اس تقریر پر کوئی اعتراض عائد نہیں ہو سکتا کیونکہ قرآن شریف میں جو عربوں کے لئے ایک عذاب کا وعدہ دیا گیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس عذاب کی کوئی تصریح نہیں کی کہ کس طرح کا عذاب ہو گا اور کِس قسم کا ہو گا صرف یہ فرمایا ہے کہ خدا قادر ہے کہ وہ عذاب آسمان سے نازل کرے یا زمین سے بھیجے یا کافروں کو مسلمانوں کی تلوار کا مزہ چکھا دے۔ اب ان آیات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خود اقرار کرتے ہیں کہ مجھے علم نہیں دیا گیا کہ وہ کس قسم کا عذاب ہو گا۔ اور جب پُوچھا گیا کہ وہ عذاب کب آئے گا تو آپ نے کوئی تاریخ نہ بتلائی۔ جیسا کہ قرآن شریف میں فرمایا ہے۔3



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 253

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 253

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/253/mode/1up


یعنی کافر پوچھتے ہیں کہ یہ دعویٰ پورا کب ہو گا اگر تم سچے ہو تو تاریخ عذاب بتاؤ۔ ان کو کہہ دے مجھے کوئی تاریخ معلوم نہیں یہ علم خدا کو ہے۔ مَیں تو صرف ڈرانے والا ہوں۔ اور پھر کافروں نے مکررًا عذاب کی تاریخ پوچھی تو یہ جواب ملا۔3۱؂ یعنی ان کو کہہ دے کہ مَیں نہیں جانتا کہ عذاب قریب ہے یا دُور ہے۔ اب اے سُننے والو! یاد رکھو کہ یہ بات سچ ہے اور بالکل سچ ہے اور اس کے ماننے کے بغیر چارہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں کبھی ظاہر پر پوری ہوتی ہیں اور کبھی استعارہ کے رنگ میں۔ پس کسی نبی یا رسول کو یہ حوصلہ نہیں کہ ہر جگہ اور ہر پیشگوئی میں یہ دعویٰ کر دے کہ اس طور پر یہ پیشگوئی پوری ہو گی۔ ہاں البتہ جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں اس امر کا دعویٰ کرنانبی کا حق ہے کہ وہ پیشگوئی جس کو وہ بیان کرتا ہے خارق عادت ہے یا انسانی علم سے وراء الوراء ہے۔ اگر پنجاب میں ہر صدی میں بھی ایسا زلزلہ آ جایا کرتا جیسا کہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کو آیا تو اس صورت میں بھی یہ پیشگوئی کچھ بھی چیز نہ ہوتی۔ کیونکہ تمام لوگ اس بات کے کہنے کا حق رکھتے تھے کہ ہمیشہ پنجاب میں ایسے زلزلے آتے ہیں یہ کوئی اَنہونی بات نہیں ہے۔ لیکن جب کہ گذشتہ زلزلہ اس خارق عادت طور سے ظاہر ہوا جس خارق عادت طور سے پیشگوئی نے بیان کیا تھا تو پھر سب اعتراض فضول ہو گئے۔ ایسا ہی آئندہ زلزلہ کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی ہے وہ کوئی معمولی پیشگوئی نہیں اگر وہ آخر کو معمولی بات نکلی یا میری زندگی میں اُس کاؔ ظہور نہ ہوا تو مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں مجھے خدا تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ وہ آفت جس کا نام اس نے زلزلہ رکھا ہے نمونۂ قیامت ہو گا اور پہلے سے بڑھ کر اس کا ظہور ہو گا۔ اِس میں کچھ شک نہیں کہ اِس آئندہ کی پیشگوئی میں بھی پہلی پیشگوئی کی طرح بار بار زلزلہ کا لفظ ہی آیا ہے اور کوئی لفظ نہیں آیا۔ اور ظاہری معنوں کا بہ نسبت تاویلی معنوں کے زیادہ حق ہے لیکن جیسا کہ تمام انبیاء ادبِ ربوبیّت اور ادب وسعتِ علم باری ملحوظ رکھتے رہے ہیں اُس اَدب کے لحاظ سے اور سنّت اللہ کو مدّنظر رکھ کر یہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 254

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 254

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/254/mode/1up


کہنا پڑتا ہے کہ اگرچہ بظاہرلفظ زلزلہ کا آیا ہے مگر ممکن ہے کہ وہ کوئی اور آفت ہو جو زلزلہ کا رنگ اپنے اندر رکھتی ہو مگر نہایت شدید آفت ہو جو پہلے سے بھی زیادہ تباہی ڈالنے والی ہو جس کا سخت اثر مکانات پر بھی پڑے۔* اور یہ پیشگوئی تاریخ اور وقت نہ لکھنے سے باطل نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے ساتھ اس قدر اور تصریحات ہیں جو تاریخ اور وقت لکھنے سے مُستغنی کرتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ زلزلہ تیری ہی زندگی میں آئے گا اور اس زلزلے کے آنے سے تیرے لئے فتح نمایاں ہو گی اور ایک مخلوق کثیر تیری جماعت میں داخل ہو جا ئے گی۔ اور تیرے لئے وہ آسمانی نشان ہو گا۔ تیری تائید کے لئے خدا خود اُترے گا اور اپنے عجائب کام دکھلائے گا جو کبھی دنیا نے نہیں دیکھے۔ اور دور دور سے لوگ آئیں گے اور تیری جماعت میں داخل ہوں گے۔ اور وہ زلزلہ پہلے زلزلہ سے بڑھ کر ہو گا اور اس میں قیامت کے آثار ظاہر ہوں گے اور دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرے گا۔ اور خدا فرماتا ہے کہ مَیں اُس وقت آؤں گا کہ جب دل سخت ہو جائیں گے اور زلزلہ آنے کے خیال سے لوگ اطمینان حاصل کر لیں گے۔ اور خدا فرماتا ہے کہ مَیں مخفی طور پر آؤں گا اور مَیں ایسے وقت میں آؤں گا کہ کسی کو بھی اطلاع نہیں ہو گی۔ یعنی لوگ اپنے دنیا کے کاروبار میں سرگرمی اور اطمینان سے مشغول ہوں گے کہ یکدفعہ وہ آفت نازل ہو جائے گی اور اس سے پہلے لوگ تسلّی کر بیٹھے ہوں گے کہ زلزلہ نہیں آئے گا اور اپنے تئیں بے خطر اور امن میں سمجھ لیا ہو گا تب یکدفعہ یہ آفت

مسیح موعود کے بارے میں جو یہودیوں کو پیشگوئی کے طور پر خبر دی گئی تھی کہ وہ نہیں آئے گا جب تک کہ الیاس نبی دوبارہ آسمان سے نازل نہ ہو لے۔ لیکن آسمان سے تو کوئی نازل نہ ہوا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعویٰ کر دیا کہ وہ مسیح موعود مَیں ہوں اور الیاس نبی سے مراد یحییٰ نبی ہے جو مجھ سے پہلے آچکا۔ پس الیاس نبی کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی جس کے یہود منتظر تھے اور اب تک منتظر ہیں حضرت یحییٰ کے ظہور سے بطور استعارہ پوری ہو گئی ۔ اس سے ظاہر ہے کہ پیشگوئیوں میں کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ صَرف عَنِ الظَّاہرکر کے استعارہ کے رنگ میں اپنے وعدہ کو پورا کر دیتا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 255

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 255

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/255/mode/1up


اُن کے سروں پر ٹوٹے گی۔ مگر خدا فرماتا ہے کہ وہ بہار کے دن ہوں گے۔ آفتا ب بہار کی صبح میں نمودار ہو گا اورؔ خزاں کی شام میں غروب کرے گا۔ تب کئی گھروں میں ماتم پڑے گا کیونکہ انہوں نے وقت کو شناخت نہ کیا۔ علم غیب تک کسی نجومی اور کسی طبقات الارض کے علم کے مدعی کو رسائی نہیں اور کسی کو معلوم نہیں کہ کل کیا ہو گا مگر خدا جس نے یہ سب کچھ پیدا کیا ہے وہ اپنی مخلوقات کی تہ سے واقف ہے۔

قولہ۔ جس حالت میں قرآن شریف میں دونوں زلزلوں کی خبر ہے پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ شاید وہ زلزلہ ہے یا کوئی اور آفت ہے۔

اقول۔ مَیں نے تو بار بار کہہ دیا کہ ظاہر الفاظ قرآن شریف کے اور اس وحیِ الٰہی کے جو مجھ پر ہوئی زلزلہ کی ہی خبر دیتے ہیں لیکن سنّت اللہ ہمیں مجبور کرتی ہے کہ تاویلی احتمال بھی پیشِ نظر رہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ایک قوم کے لئے ایک جگہ فرماتا ہے۔3۱؂ یعنی اُن پر سخت زلزلہ آیا حالانکہ اُن پر کوئی زلزلہ نہیں آیا تھا۔ پس دوسری آفت کا نام اس جگہ زلزلہ رکھا گیا۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے33۲؂ یعنی جو شخص اِس دنیا میں اندھا ہو گا وہ دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا یہ بھی ایک پیشگوئی ہے مگر اس کے وہ معنے نہیں ہیں جو ظاہر الفاظ سے سمجھے جاتے ہیں۔ وسعتِ علم الٰہی پر ایمان رکھنا اور اپنے علم کو اس کے برابر نہ ٹھہرانا انبیاء اور رسولوں کی صفت ہے۔ قرآن شریف میں بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو کافروں پر فتح پانے کا وعدہ دیا گیا تھا۔ مگر جب بدر کی لڑائی شروع ہوئی جو اسلام کی پہلی لڑائی تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے رونا اور دُعا کرنا شروع کیا اور دُعا کرتے کرتے یہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مُنہ سے نکلے اَللّٰھم اِن اھلکتَ ھٰذہ العِصابۃ فَلن تُعبد فِی الاَرضِ أَبَدًا یعنی اے میرے خدا ! اگر آج تو نے اس جماعت کو (جو صرف تین سو تیرہ آدمی تھے) ہلاک کر دیا تو پھر قیامت تک کوئی تیری بندگی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 256

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 256

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/256/mode/1up


نہیں کرے گا۔ اِن الفاظ کو جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مُنہ سے سُنا تو عرض کی یا رسول اللہ !صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس قدر بے قرار کیوں ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے تو آپ کو پختہ وعدہ دے رکھا ہے کہؔ مَیں فتح دونگا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ سچ ہے مگر اُس کی بے نیازی پر میری نظر ہے۔ یعنی کسی وعدہ کا پورا کرنا خدا تعالیٰ پر حق واجب نہیں ہے۔ اب سمجھنا چاہیئے کہ جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے طریقِ ادب ربوبیت کو اس حد تک ملحوظ رکھا تو پھر اس مسلّم عقیدہ جمیع ابنیاء علیہم السلام سے کیوں مُنہ پھیر لیا جائے کہ کبھی خدا تعالیٰ کی پیشگوئی ظاہر الفاظ پر پوری ہوتی ہے اور کبھی بطریق استعارہ اور مجاز پوری ہو جاتی ہے۔ اور اس عقیدہ کا مقابلہ نادانی ہے۔ اور یہ کہناکہ جس پیشگوئی کے نہ ظاہر الفاظ پر بھروسہ ہے اور نہ اس کا وقت بتایا گیا وہ پیشگوئی کیسے ہوئی؟ یہ سفلی زندگی کا خیال ہے اور اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایسے شخص کو سنّت اللہ کی کچھ بھی خبر نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جب ایک پیشگوئی کوئی عظمت اور قوت اور خارق عادت خبر اپنے اندر رکھتی ہو اور خدا کا ہاتھ صریح طور پر اس میں وقتِ ظہور نظر آ جائے تو خود دل اس کو قبول کر لیتے ہیں اور کوئی شخص تاریخ وغیرہ کا ذکر نہیں کرتا۔ دراصل یہ جھگڑا اور یہ اعتراض قبل از وقت ہے۔ وہ وقت تو آنے دو بعد میں اعتراض کرنا۔ قبل از وقت واویلا اچھا نہیں ظہور کے وقت پیشگوئی خود بتا دے گی کہ وہ معمولی بات ہے یا غیر معمولی۔

قولہ۔ جب کہ بقول آپ کے قرآن شریف میں بھی د۲و زلزلوں کی خبر ہے تو اب تو آنے والی آفت کے زلزلہ ہونے میں شک کی جگہ نہ رہی۔

اقول۔ قرآن شریف میں یہ آیت ہے۔33۱؂ یعنی اس دن زمین ایک سخت اضطرابی حرکت کرے گی اور زمین میں ایک سخت اور شدید اضطراب پیدا ہو گا اور اس کے بعد ایک اور اضطراب زمین میں پیدا ہو گا جو پہلے کے بعد ظہور میں آئے گا۔ اِن آیتوں کے ظاہر الفاظ میں زلزلہ کا کوئی ذکر نہیں کیونکہ لُغت میں رجفان اضطراب شدید کو کہتے ہیں۔ چنانچہ بولا جاتا ہے رَجَفَ الشَّیْ ءُ یعنی اِضْطَرَبَ اِضْطِرَابًا شَدِیْدًا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 257

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 257

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/257/mode/1up


مگر چونکہ زمین کا اضطراب اکثر کر کے زلزلہ سے ہی ہوتا ہے اس لئے ہم نے اس جگہ ظن غالب کے طور پر زلزلہ کے معنے کئے ہیں۔ ورنہ ممکن ہے کہ یہ اضطراب کسی اور حادثہ کی وجہ سے ہو زلزلہ کی وجہ سے نہ ہو یا اس اضطراب سے کوئیؔ اور آفت مراد ہو۔ پس اس جگہ بھی وہی بات قائم رہی جو پہلے ہم بیان کر چکے ہیں۔ یعنی یہ آیت بھی زلزلہ پر قطعیۃ الدّلالت نہیں۔ اگرچہ ظن غالب یہی ہے کہ اس جگہ تَرجف الرَّاجفۃ سے زلزلہ ہی مراد ہے۔ واللّٰہ اعلم۔ ہم نے کب اور کس وقت اپنی پیشگوئیوں کے الفاظ کے یہ معنے کئے ہیں کہ ان سے مراد زلزلہ نہیں ہے بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ اکثر اور اغلب طور پر زلزلہ کے لفظ سے مراد زلزلہ ہی ہے مگر ممکن ہے کہ قدیم سنّت اللہ کے موافق ان الفاظ سے کوئی اور ایسی شدید اور خارق عادت اور سخت تباہی ڈالنے والی آفت مراد ہو جو زلزلہ کا رنگ اور خاصیّت اپنے اندر رکھتی ہو۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کے کلام میں استعارات بھی اکثر پائے جاتے ہیں جن سے اہلِ علم کو انکار نہیں مگر ظاہر الفاظ کا سب سے پہلا حق ہے۔ اور ظاہر الفاظ ان پیشگوئیوں کے زلزلہ پر ہی دلالت کرتے ہیں۔

معترض صاحب نے یہ بار بار سوال کیا ہے کہ پیشگوئی کرنے والے نے نہ زلزلہ کے لفظ کو قطعی طور پر زلزلہ ہی قرار دیا ہے اور نہ وقت بتایا ہے پھر اس صور ت میں یہ پیشگوئی کیا ہوئی؟ یوں تو قیامت تک کوئی نہ کوئی حادثہ آ جائے گا اور سہل ہو گا کہ اسی کو اپنی پیشگوئی قرار دے دیں۔

تعجب کہ ہم بار بار کہے جاتے ہیں کہ ظن غالب کے طور پر زلزلہ سے مراد ہماری پیشگوئیوں میں زلزلہ ہی ہے اور اگر وہ نہ ہو تو ایسی خارق عادت آفت مراد ہے جو زلزلہ سے شدید مناسبت رکھتی ہو اور پورے طور پر زلزلہ کا رنگ اس کے اندر موجود ہو پھر بھی معترض صاحب کی اس قدر الفاظ سے تسلّی نہیں ہوتی۔ مجھے معلوم نہیں کہ ایسے توہمات کے ساتھ ان کی اسلام پر کیونکر تسلّی ہو گئی ہے۔ ہر ایک کو معلوم ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی پیشگوئیوں کے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 258

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 258

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/258/mode/1up


بارے میں اس قدر کافی سمجھا گیا ہے کہ وہ خارق عادت اور انسانی طاقتوں سے بالا تر ہوں یا یہ کہ کسی ایسے غیب پر مشتمل ہوں جو انسانی پیش بینی سے بلند تر ہو۔ جب ایک پیشگوئی خارق عادت کے طور پر بیان کی جائے جس کے بیان کرنے کے وقت کسی عقل اور فہم کو یہ خیال نہ ہو کہ ایسا امر ہونے والا ہے اور صریح وہ ایک غیر معمولی بات ہو جس کی گذشتہ صدہا سال میں کوئی نظیر نہ پائی جائے اور نہ آئندہ اس کے ظہور کے لئے آثار ظاہر ہوں اور وہ پیشگوئی سچی نکلے تو عقلِ سلیم حکم دیتی ہے کہ ایسی پیشگوئی ضرور منجانب اللہ سمجھیؔ جائے گی ورنہ تمام نبیوں کی پیشگوئیوں سے انکار کرنا پڑے گا۔ اب ذرہ کان کھول کر سُن لو کہ آئندہ زلزلہ کی نسبت جو میری پیشگوئی ہے اُس کو ایسا خیال کرنا کہ اُس کے ظہور کی کوئی بھی حد مقرر نہیں کی گئی یہ خیال سراسر غلط ہے کہ جو محض قلّتِ تدبّر اور کثرتِ تعصّب اور جلد بازی سے پیدا ہوا ہے۔ کیونکہ بار بار وحیِ الٰہی نے مجھے اطلاع دی ہے کہ وہ پیشگوئی میری زندگی میں اور میرے ہی ملک میں اور میرے ہی فائدہ کے لئے ظہور میں آئے گی۔ اور اگر وہ صرف معمولی بات ہو جس کی نظیریں آگے پیچھے صد ہا موجود ہوں اور اگر کوئی ایسا خارق عادت امر نہ ہو جو قیامت کے آثار ظاہر کرے تو پھر مَیں خود اقرار کرتا ہوں کہ اس کو پیشگوئی مت سمجھو۔ اس کو بقول اپنے تمسخر ہی سمجھ لو۔ اب میری عمر ستّر۷۰برس کے قریب ہے اور تیس ۳۰برس کی مدت گذر گئی کہ خدا تعالیٰ نے مجھے صریح لفظوں میں اطلاع دی تھی کہ تیری عمر اسّی۸۰ برس کی ہو گی اور یا یہ کہ پا۵نچ چھ۶ سال زیادہ یا پا۵نچ چھ۶ سال کم۔ پس اس صورت میں اگر خدا تعالیٰ نے اس آفت شدیدہ کے ظہور میں بہت ہی تاخیر ڈال دی تو زیادہ سے زیادہ سولہ۱۶ سال ہیں اس سے زیادہ نہیں کیونکہ ضرور ہے کہ یہ حادثہ میری زندگی میں ظہور میں آ جائے۔*

خدا تعالیٰ کا الہام ایک یہ بھی ہے۔’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زلزلہ موعودہ کے وقت بہار کے دن ہوں گے۔ اور جیسا کہ بعض الہامات سے سمجھا جاتا ہے غالباً وہ صبح کا وقت ہو گا یا اس کے قریب اور غالباً وہ وقت نزدیک ہے جب کہ وہ پیشگوئی ظہور میں آجائے اور ممکن ہے کہ خدا اس میں کچھ تاخیر ڈال دے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 259

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 259

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/259/mode/1up


لیکن پیشگوئی کا مطلب یہ نہیں کہ پورے سو۱۶لہ سال تک ظہور اس پیشگوئی کا معرض التوا میں رہے گا بلکہ ممکن ہے کہ آج سے ایک دو سال تک یا اس سے بھی پہلے یہ پیشگوئی ظہور میں آجائے۔ اور نہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ میری عمر اسّی۸۰ سال سے ضرور زیادہ ہو جائے گی بلکہ اس بارے میں جو فقرہ وحی الٰہی میں درج ہے اس میں مخفی طور پر ایک امید دلائی گئی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ چاہے تواسّی۸۰ برس سے بھی عمر کچھ زیادہ ہو سکتی ہے اور جو ظاہر الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں وہ تو چُہتر۷۴اور چھیا۸۶سی کے اندر اندر عمر کی تعیین کرتے ہیں۔ بہرحال یہ میرے پر تہمت ہے کہ مَیں نے اس پیشگوئی کے زمانہ کی کوئی بھی تعیین نہیں کی۔ اور خدا تعالیٰ بار بار اپنی وحی میں فرما رہا ہے کہ ہم تیرے لئے یہ نشان دکھلائیں گے۔ اور ان کو کہہ دے کہ یہ نشان میری سچائی کا گواہ ہو گا۔ مَیں تیرے لئے اُتروں گا اور تیرے لئے اپنے نشان دکھلاؤں گا۔ مَیں اُس وقت تیرے پاس اپنی فوجیں لے کر آؤں گا جب کہ کسی کو خبر نہیں ہو گی اور اس وقت کو کوئی نہیں جانتا مگر خدا۔اور جیسا کہ موسیٰ کے زمانہ میں ہوا کہ فرعون اور ہامانؔ اُس وقت تک دھوکا میں رہے جب تک کہ رودنیل کے طوفان نے ان کو پکڑا ایسا ہی اب بھی ہو گا۔ اور پھر فرمایا کہ تو میری آنکھوں کے سامنے کشتی طیار کر اور ظالم لوگوں کی سفارش مت کر۔ اور اُن کا شفیع مت بَن کہ مَیں اُن سب کو غرق کروں گا۔ ایسا ہی اور صریح الہاماتِ الٰہی ہیں اور سب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ پیشگوئی میری زندگی میں اور میرے ہی زمانہ میں ظہور میں آئے گی اور اس کی یہ حدّ ہے جو معیّن اور مقرر ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کر سکتی۔ مگر نہیں معلوم کہ وہ مہینوں کے بعد ظہور میں آئے گی یا ہفتوں کے بعد یا برسوں کے بعد۔ بہر حال وہ سولہ۱۶ سال سے تجاوز نہیں کرے گی۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسا کہ استنباط آیاتِ قرآنی سے معلوم ہوتا ہے کہ دُنیا کی عمر حضرت آدم سے لے کر سات۷۰۰۰ ہزار سال ہے۔ اور اس میں سے ہمارے زمانہ تک چھ ہزا۶۰۰۰ر برس گذر چکے ہیں۔ جیسا کہ اعداد سورۃ والعصر سے معلوم ہوتا ہے۔ اور بموجب حساب قمری کے اب ہم ساتویں ہزار میں ہیں۔ اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 260

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 260

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/260/mode/1up


جو مسیح موعود چھٹے ہزار کے اخیر پر قائم ہونا تھا وہ قائم ہو چکا ہے۔*اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ قیامت کی گھڑی معلوم نہیں اس کے یہ معنے نہیں کہ خدا نے قیامت کے بارے میں انسان کو کوئی اجمالی علم بھی نہیں دیا ورنہ قیامت کے علامات بھی بیان کرنا ایک لغو کام ہو جاتا ہے کیونکہ جس چیز کو خدا تعالیٰ اس طرح پر مخفی رکھنا چاہتا ہے اُس کے علامات بیان کرنے کی بھی کیا ضرورت ہے۔ بلکہ ایسی آیات سے مطلب یہ ہے کہ ؔ قیامت کی خاص گھڑی تو کسی کو معلوم نہیں مگر خدا نے حمل کے دنوں کی طرح انسانوں کو اس قدر علم دے دیا ہے کہ ساتویں ہزار کے گذرنے تک اِس زمین کے باشندوں پر قیامت آجائے گی۔ اِس کی ایسی ہی مثال ہے

خدا نے آدم کو چھٹے دن بروز جمعہ بوقت عصر پیدا کیا۔ توریت اور قرآن اور احادیث سے یہی ثابت ہے اور خدانے انسانوں کے لئے سات ۷ دن مقرر کئے ہیں۔ اور اِن دنوں کے مقابل پر خدا کا ہر ایک دن ہزار سال کا ہے اور اس کی رو سے استنباط کیا گیا ہے کہ آدم سے عمردنیا کی سات ہزار سال ہے اور چھٹا ہزار جو چھٹے دن کے مقابل پر ہے وہ آدمِ ثانی کے ظہور کا دن ہے۔ یعنی مقدریوں ہے کہ چھٹے ہزار کے اندر دینداری کی روح دنیا سے مفقود ہو جائے گی اور لوگ سخت غافل اور بے دین ہو جائیں گے۔ تب انسان کے روحانی سلسلہ کو قائم کرنے کے لئے مسیح موعود آئے گا۔ اور وہ پہلے آدم کی طرح ہزار ششم کے اخیر میں جو خدا کا چھٹا دن ہے ظاہر ہو گا۔ چنانچہ وہ ظاہر ہو چکا اور وہ وہی ہے جو اس وقت اس تحریر کی رو سے تبلیغ حق کر رہا ہے۔ میرا نام آدم رکھنے سے اس جگہ یہ مقصود ہے کہ نوع انسان کافر دکامل آدم سے ہی شروع ہوا اور آدم سے ہی ختم ہوا۔ کیونکہ اس عالم کی وضع دَوری ہے اور دائرہ کاکمال اسی میں ہے کہ جس نقطہ سے شروع ہوا ہے اُسی نقطہ پر ختم ہوجائے۔ پس خاتم الخلفاء کا آدم نام رکھنا ضروری تھا اور اسی وجہ سے جیسا کہ آدم توام پیداہواتھا میری پیدائش بھی توام ہے اور جس طرح آدم جمعہ کے روز پیدا ہوا تھا میں بھی جمعہ کے دن ہی پیدا ہوا تھا اور جس طرح آدم کی نسبت فرشتوں نے اعتراض کیا میری نسبت بھی وہ وحی الٰہی نازل ہوئی جو یہ ہے ۔ قالوا ا تجعل فیھا من یفسد فیھا۔ قال انی اعلم ما لا تعلمون۔ اور جس طرح آدم کے لئے سجدہ کا حکم ہوا۔ میری نسبت بھی وحی الٰہی میں یہ پیشگوئی ہے۔ یَخِرُّون علی الاذقان سُجَّدًا ربّنا اغْفِرلنا اِنّا کُنّا خاطئین۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 261

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 261

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/261/mode/1up


کہ ہر ایک انسان کا بچہ جو پیٹ میں ہو نو۹ ماہ دس۱۰ دن تک ضرور پیدا ہو جاتا ہے لیکن تاہم اُس کے پیدا ہونے کی گھڑی خاص معلوم نہیں۔ اِسی طرح قیامت بھی سات ہزار برس تک آ جائے گی۔ مگر اُس کے آنے کی گھڑی خاص معلوم نہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ سات ہزار پورا ہونے کے بعد دو۲ تین۳ صدیاں بطور کسور کے زیادہ ہو جائیں جو شمار میں نہیں آ سکتیں۔

اور معترض کا یہ دوسرا اعتراض کہ یہ دعویٰ نہیں کیا گیا کہ درحقیقت زلزلہ ہے۔ یہ اعتراض بھی قلّتِ فہم سے ناشی ہوا ہے کیونکہ ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ ظاہر الفاظ وحی سے زلزلہ ہی معلوم ہوتا ہے اور اَغلب اکثر یہی ہے کہ وہ زلزلہ ہے اور پہلا زلزلہ اس پر شہادت بھی دیتا ہے اور قرآن شریف کی یہ آیت بھی اس کی مؤید ہے کہ33۔۱؂ * مگر تاہم خدا تعالیٰ کی کتابیں بھی اِس طرف ہمیں توجہ دلاتی ہیں کہ کبھی ایسی پیشگوئیاں استعارہ کے طور پر بھی پوری ہوتی ہیں مگر خارق عادت ہونے کا رنگ اور غیر معمولی حادثہ ہونے کا رنگ اُن میں باقی رہتا ہے اور ہماری رائے تو یہی ہے کہ سو۱۰۰ میں سے نوّے ۹۰ وجوہ تو یہی بتلاتی ہیں کہ حقیقت میں وہ زلزلہ ہے نہ اور کچھ۔ کیونکہ اس میں زمین کی جنبش اور عمارتوں کے منہدم ہونے کا بھی ذکر ہے یہ تو ہمارا اجتہاد ہے اور بعد اس کے خدا تعالیٰ کے اسرار مخفی کو خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے اور ممکن ہے کہ آگے چل کر وہ اس سے زیادہ ہم پر کھول دے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

اور آپ کا یہ کہنا کہ حضرت عیسیٰ نے اپنی پیشگوئیوں میں جن زلزلوں کا ذکر کیا تھا اُن کی انہوں نے کوئی تاویل نہیں کی اس لئے وہ پیشگوئیاں ایک تعیّن اپنے اندر رکھتی ہیں۔ یہ آپ کا عجیب قول ہے اور عجیب رائے۔ ظاہر ہے کہ ان پیشگوئیوں میں حضرت عیسیٰ نے کسی ہولناک اور مہلک اور خارق عادت زلزلہ کا ذکر نہیں کیا۔ جس ملک میں حضرت عیسیٰ

اُس دن زمین سخت حرکت اضطرابی کرے گی۔ اور اس کے بعد ایک اور حرکت اضطرابی ہو گی یعنی قیامت کے نزدیک دو۲ سخت زلزلے آئیں گے۔ پہلے کے بعد دوسرا زلزلہ آئے گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 262

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 262

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/262/mode/1up


رہتے تھے اس ملک میں تو شاذ و نادر کوئی ایسا سال گذرتا ہو گا کہ زلزلہ نہ آتا ہو۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ اس ملک میں ہمیشہ زلزلے آتے رہے ہیں اورؔ سخت زلزلے بھی آتے رہے ہیں حضرت عیسیٰ نے اپنی زندگی میں جب وہ اُس ملک میں تھے اور ابھی کشمیر کی طرف سفر نہیں کیا تھا* کئی زلزلے خود دیکھے ہوں گے۔ پس مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ ان معمولی حوادث کا نام پیشگوئی کیوں رکھا جائے۔ پس جس تمسخر کو آپ نے میری پیشگوئیوں میں تلاش کرنا چاہا اور نامراد رہے اگر آپ حضرت عیسیٰ کی ان پیشگوئیوں میں تلاش کرتے تو بغیر کسی محنت کے فی الفور آپ کو مِل جاتا۔ اور یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ نے زلزلہ کا نام زلزلہ ہی رکھا کوئی تاویل نہیں کی۔ کیا آپ مجھے حضرت عیسیٰ کا کوئی ایسا فقرہ دکھلا سکتے ہیں جس میں لکھا ہو کہ اِن پیشگوئیوں میں زلزلے سے مراد در حقیقت زلزلہ ہے کوئی استعارہ نہیں۔ اور بغیر حضرت عیسیٰ کی

ہم ثابت کر چکے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کا زندہ آسمان پر جانا محض گپ ہے بلکہ وہ صلیب سے بچ کر پوشیدہ طور پر ایران اور افغانستان کا سیر کرتے ہوئے کشمیر میں پہنچے اور ایک لمبی عمر وہاں بسر کی۔ آخر فوت ہو کر سری نگر محلہ خانیار میں مدفون ہوئے اور اب تک آپ کی وہیں قبر ہے۔یُزَارُ وَ یُتَبَرَّکُ بِہٖ اور صلیب پر آپ فوت نہیں ہوئے۔ کچھ زخم بدن پر آئے تھے جن کا مرہم عیسیٰ کے ساتھ علاج کیا گیا تھا۔ اور اس مرہم کا نام اسی وجہ سے مرہم عیسیٰ رکھا گیا ۔ منہ

جس طرح ہمارے سید و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اُحد کی لڑائی میں مجروح ہوئے تھے اور کئی زخم تلواروں کے پیشانی مبارک پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو آئے تھے اور سر تا پا خون سے آلود ہو گئے تھے اسی طرح بلکہ اس سے بہت کم حضرت عیسیٰ کو صلیب پر زخم آئے تھے پھر نہ معلوم نادان لوگوں کو حضرت عیسیٰ سے کیسی مشرکانہ محبت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زخم تو قبول کر لیتے ہیں مگر حضرت عیسیٰ کا مجروح اور زخمی ہونا ان کی شان سے بلند تر سمجھتے ہیں اور شور ڈالتے ہیں کہ ان کی نسبت ایسا کیوں کہتے ہو اور ان کو تمام دنیا سے الگ ایک خصوصیت دینا چاہتے ہیں۔ وہی آسمان پر چڑھ کر پھر زمین پر اترنے والے۔ وہی اس قدر لمبی عمر پانے والے۔ مگر خدا نے ان کو پیدائش میں بھی اکیلا نہیں رکھا بلکہ کئی حقیقی بھائی اور کئی حقیقی بہنیں ان کی ایک ہی ماں سے تھیں۔ مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم صرف اکیلے تھے۔ نہ کوئی دوسرا بھائی تھا نہ بہن۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 263

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 263

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/263/mode/1up


سند کے صرف آپ کا قول کیونکر قبول کیا جائے کیونکہ حضرت عیسیٰ کی پیشگوئیوں پر نظر ڈال کر ثابت ہو چکا ہے کہ وہ سب کی سب استعارہ کے رنگ میں ہیں جیسا کہ حضرت عیسیٰ نے دعویٰ کیا تھا کہ میںیہود کا بادشاہ ہوں اور اس دعویٰ پر روم کی گورنمنٹ میں مُخبری ہوئی کہ یہود تو سلطنت رومیہ کے ماتحت ہیں مگر یہ شخص دعویٰ کرتا ہے کہ یہود میری رعایا ہیں اور مَیں ان کا بادشاہ ہوں۔ اس پر جب گورنمنٹ رومی نے جواب طلب کیا تو آپ نے فرمایا کہ میری بادشاہی اس جہان کی نہیں بلکہ بادشاہی سے مراد آسمان کی بادشاہت ہے۔ اب دیکھئے کہ ابتدا میں خود حضرت عیسیٰ کا خیال تھا کہ مجھے زمین کی بادشاہت ملے گی اور اسی خیال پر ہتھیار بھی خریدے گئے تھے مگر آخر کار وہ آسمان کی بادشاہت نکلی۔ پس کیا بعید ہے کہ زلزلہ سے مراد بھی اُن کی کوئی آسمانی امر ہی ہو۔ ورنہ زمین شام میں تو ہمیشہ زلزلے آتے ہی ہیں ایسی زمین کے متعلق زلزلہ کی پیشگوئی کرنا ایک مخالف کی نظر میں تمسخر کی جگہ ہے۔ ایساؔ ہی حضرت عیسیٰ نے فرمایا تھا کہ میرے باراں۱۲ حواری باراں۱۲ تختوں پر بہشت میں بیٹھیں گے۔ یہ پیشگوئی بھی انجیل میں موجود ہے مگر ایک اُن حواریوں میں سے یعنی یہودااسکریوطی مرتد ہو کر مر گیا۔ اب بتلاؤ باراں۱۲ تختوں کی پیشگوئی کس طرح صحیح ہو سکتی ہے اگر کوئی جوڑ توڑ آپ کر سکتے ہیں تو ہمیں بھی سمجھا دیں ہم ممنون ہوں گے یہاں تو کسی استعارہ کی بھی کچھ پیش نہیں جاتی۔ ایسا ہی حضرت عیسیٰ نے فرمایا تھا کہ اس زمانہ کے لوگ ابھی گذر نہیں جائیں گے کہ میں واپس آؤں گا۔ پس جو لوگ ان کو آسمان پر چڑھائے بیٹھے ہیں کیا نصاریٰ اور کیا مسلمان۔ اس بات کا جواب اُن کے ذمہ ہے کہ اُنیس۹ ۱ صدیاں تو گذر گئیں مگر ابھی تک حضرت عیسیٰ واپس نہیں آئے اور اُنیس۹ ۱ صدیوں تک جو لوگ عمریں پوری کر چکے تھے وہ سب خاک میں مل گئے لیکن اب تک کسی نے حضرت عیسیٰ کو آسمان سے اُترتے نہ دیکھا۔ پھر وہ وعدہ کہاں گیا کہ اس زمانہ کے لوگ ابھی زندہ ہوں گے کہ مَیں واپس آ جاؤں گا۔ غرض ایسی پیشگوئیوں پر جس نے ناز کرنا ہے بیشک کرے ہم تو قرآن شریف



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 264

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 264

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/264/mode/1up


کے فرمودہ کے مطابق حضرت عیسیٰ کو سچا نبی مانتے ہیں ورنہ اس انجیل کی رُو سے (جو موجود ہے) اُن کی نبوت کی بھی خیر نہیں۔ عیسائی تو ان کی خدائی کو روتے ہیں مگر ہمیں ان کی نبوت ہی ثابت کرنا بجز ذریعہ قرآن شریف کے ایک غیر ممکن امر معلوم ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ عیسائی صاحبوں نے انجیل کی کچھ ایسی ہڈی پسلی توڑی ہے کہ اب اُس کی بُری بھلی بات کا کچھ بھی اعتماد نہیں رہا لیکن تحریف کے قبول کرنے کے بعد بھی حضرت عیسیٰ کی زلزلہ والی پیشگوئی مسلمانوں کے نزدیک سرے سے قابلِ اعتماد نہیں۔ کیونکہ قرآن شریف میں حضرت عیسیٰ کی اس پیشگوئی کا کچھ بھی ذکر نہیں۔ پس کیونکر اور کس ذریعہ سے اس کو صحیح مان لیا جائے۔ افسوس کہ جس قدر آپ نے میری پیشگوئیوں کے ردّ میں ہاتھ پَیر مارے ہیں اور خدا ترسی کو چھوڑ کر ناخنوں تک کوشش کی ہے کہ کسی طرح پبلک کی نظر میں اِن پیشگوئیوں کو آپ خفیف ثابت کر دیں یہ گناہِ بے لذّت آپ نے مُفت میں خرید لیااگر دلائل کے توڑنے میں کچھ کامیابی ہوتی تو اور نہیں تو عیسائیوں کی نظر میں ہی آپ قابلِ تحسین ٹھہرتے۔ خاموشی میں بھی ایک سعادت تھی زبان کھول کر کیا لیا اور آپ نے میرے پر یہ حملہ نہیں کیا ہے بلکہ اُس خدا پر حملہ کیا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ افسوس کہ صرف سختؔ دلی اور شہرت کی خواہش نے اکثر لوگوں کو میرے مخالف کھڑا کیا ہے ورنہ میرے دعویٰ اور میرے دلائل کا سمجھنا کچھ مشکل نہ تھا۔ ہزار ہا نشان اب تک ظاہر ہو چکے اور زمین و آسمان نے بھی گواہی دی۔ مگر جن کے دلوں پر مُہریں ہیں وہ مخالفت سے باز نہ آئے۔ انہوں نے خدا سے ایک عذاب مانگا ہے جو وقت پر آئے گا۔ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کا مقابلہ کر رہے ہیں اگر وہ اس سے پہلے مر جاتے تو اُن کے لئے بہتر تھا مگر تعصب اور خود بینی کی شراب نے ان کو مست کر رکھا ہے اور وہ دن آتے ہیں کہ خدا اُن کو ہوش میں لائے گا۔

اب ہم چند شبہات مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کو جو انہوں نے پرچہ پیسہ اخبار ۱۹؍ جون ۱۹۰۵ء ؁ میں چھپوائے ہیں اس جگہ رفع دفع کرتے ہیں۔اور وہ یہ ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 265

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 265

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/265/mode/1up


قولہ۔ وہ لکھتا ہے (یعنی یہ عاجز) کہ مَیں نے براہین احمدیہ میں اس زلزلہ کی خبر دی تھی اور لکھا تھا کہ پہاڑ پھٹ جائیں گے۔ یہ ایسا جھوٹ ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔

اقول۔ کیا آپ کو اس بات میں کچھ شک ہے کہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۶ میں یہ عبارت موجود ہے فلمّا تجلّٰی ربّہ للجبل جعلہ دکًّا۔ واللّٰہ موھن کید الکافرین ولنجعلہٗ اٰیۃً للناس و رحمۃً منّا و کان اَمْرًا مَّقْضِیًّا یعنی جب اس عاجز کا ربّ ایک پہاڑ مخصوص پر تجلّی کرے گا تو اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ اور خدا منکروں کے مکر کو سُست کر دے گا اور ہم پہاڑ کے اس واقعہ کو لوگوں کے لئے ایک نشان بنائیں گے اور مومنوں کے لئے یہ رحمت کا موجب ہو گا اور یہ امر ابتداء سے فیصلہ شدہ تھا یعنی پہلے نبیوں نے خبر دی تھی کہ مسیح موعود کے وقت میں ایسے ہولناک زلزلے آئیں گے۔ ایسا ہی پھر مَیں پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کو اس بات میں کچھ شک ہے کہ براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۷ میں اسی واقعہ کے متعلق یہ دوسری وحی الٰہی ہے فلمّا تجلّی ربّہٗ للجبل جعلہٗ دکًّا۔ قوۃ الرحمٰن لعُبید اللّٰہ الصمد۔ (ترجمہ) جب اس کا (یعنی اس عاجز کا) ربّ پہاڑ پر تجلّی کرے گا تو اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا یہ خدا کی قوت سے ہو گا اپنے بندہ کی تائید میں یعنی اس کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے۔

اب جب کہ یہ دونوں عبارتیں براہین احمدیہ میں موجود ہیں اور اُن میں صریح لفظوں میں یہ وعدہ بھیؔ ہے کہ خدا نشان دکھائے گا اور نُصرت اور تائید کرے گا۔ پھر اس بارے میں جو کچھ اشتہار میں لکھا گیا سفید جھوٹ کیونکر ہو گیا۔ کیا پہاڑ کے پھٹ جانے کو زلزلہ پر دلالت التزامی نہیں؟ اور کیا صاف طرح پر اس جگہ یہ وعدہ نہیں کہ ہم پہاڑ کے پھٹ جانے کو اپنے اس بندہ کے لئے نشان بنائیں گے اور یہ واقعہ تائید اور نصرتِ الٰہی پر دلالت کرے گا اور کیا تصریح کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی اور الفاظ ہو سکتے ہیں جو صفحہ ۵۱۶ میں فرمایا گیا ولنجعلہ اٰیۃ للنّاس یعنی ہم پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کا واقعہ لوگوں کے لئے ایک نشان بنائیں گے۔ایسا ہی اس سے بڑھ کر اور کیا تصریح ہو سکتی ہے جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۵۷ میں کی گئی ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 266

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 266

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/266/mode/1up


کیونکہ پہلے پہاڑ کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا وعدہ کیا اور پھر فرمایا قوّۃ الرحمٰن لِعُبَید اللّٰہ الصمد ۔یعنی یہ خدا کی قوّت سے ہو گا۔ اُس کے بندہ کی تائید اور نُصرت کے لئے جس شخص نے اب بھی باوجود اِن تصریحات کے ایسی واضح پیشگوئی کو سفید جھوٹ سمجھا ہے اس کی نسبت بجز اس کے کیا کہیں کہ خود اُس کی آنکھیں سفید ہو گئی ہیں کہ روز روشن کو وہ رات خیال کرتا ہے۔ علاوہ اس کے جس موقعہ پر قرآن شریف میں یہ آیت ہے وہ موقعہ بھی تو زلزلہ پر ہی دلالت کرتا ہے کیونکہ اب تک توریت سے ثابت ہو تا ہے کہ جب کہ حضرت موسیٰ کو کرشمۂ قدرت دکھلانے کے لئے پہاڑ پھٹا تھا اس وقت بھی زلزلہ ہی آیا تھا۔ اس قدر شہادتوں کے بعد بھی اگر کوئی نہیں مانتا تو دو۲ حال سے خالی نہیں۔ یا تو اس کے حواس میں خلل ہے اور آنکھ کی بینائی میں قصور اور یا سخت تعصّب کے پردہ نے اس کو اس توفیق سے محروم کر دیا ہے کہ وہ نُور کو دیکھ کر پھر اس کو قبول کر سکے۔ ماسوائے اس کے ہر ایک عقلمند جانتا ہے کہ پہاڑ کا پھٹ جانا بھی مستلزم زلزلہ ہے اور اس واقعہ کو زلزلہ پر قطعی اور ضروری دلالت ہے تو پھر کیونکر مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ زلزلہ کا اس جگہ کچھ بھی ذکر نہیں۔ کیا پہاڑ زلزلہ کے بغیر بھی پھٹا کرتے ہیں؟ مولوی صاحب کی عقل پر یہ کیسے پتھر پڑ گئے کہ کھلی کھلی بات اُن کو سمجھ نہیں آتی۔ستّر۷۰برس تک پہنچ کر پھر طفولیّت کی سادہ لوحی ظاہر ہونے لگی۔ پھر ساتھ اس کے جب کہ یہ بھی موجود ہے کہ اس واقعہ کو ہم نشان بنائیں گے اور اس مامور کی اس سے تائید اور نصرت کریں گے تو بجز ایسے شخص کے کہ اس کے دل پر شقاوت کا زنگ جم گیا ہو۔ کون اس بات سے انکاؔ ر کر سکتا ہے کہ یہ پہاڑ کا پھٹنا جس کا براہین احمدیہ میں ذکر ہے کوئی ایسا واقعہ ہے جس کو خدا اپنے مامور کے لئے نشان بنائے گا۔ جیسا کہ اُسی جگہ بطور وعدہ اُس نے فرمایا ہے ولنجعلہ اٰیَۃً لِّلنّاس۔ یعنی ہم اس کو لوگوں کے لئے نشان بنائیں گے۔

قولہ۔ گورنمنٹ اور پبلک براہین احمدیہ کے صفحات مذکورہ کو ملاحظہ کریں کیا یہ عبارت کہیں پائی جاتی ہے۔ اس دھوکا بازی اور جعلسازی کی کوئی انتہا نہیں۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 267

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 267

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/267/mode/1up


ا قول۔ اِس دلیری اور شوخی اور مُنہ زوری کے مقابل پر ہم بجز اس کے کیا لکھ سکتے ہیں کہلعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ بندۂ خدا آخر کبھی مرنا ہے۔ کبھی تو اُس گھڑی کا خیال کرو جب جان کندن کا غرغرہ شروع ہو گا۔ کیا یہ دونوں عربی عبارتیں جن کا مَیں نے اپنے اشتہار میں حوالہ دیا ہے براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۶ اور ۵۵۷ میں موجود نہیں ہیں اِس قدر جھوٹ اور یہ عمر۔ براہین احمدیہ دنیا میں پھیل چکی ہے صرف آپ کی بغل میں نہیں۔ پھر اس شوخی اور شرارت سے فائدہ کیا۔کیا یہ سچ نہیں کہ ان آیتوں میں پہاڑ پھٹ جانے کا ذکر ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ اسی الہام میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم پہاڑ کا پھٹ جانا لوگوں کے لئے نشان بنائیں گے اور بعض کے لئے یہ نشان رحمت کا موجب ہو گا اور کیا یہ سچ نہیں کہ ان الہامات میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نشان اپنے بندہ کی تائید اور نصرت کے لئے ظاہر کریں گے؟ اور کیا یہ سچ نہیں کہ جو الہام صفحہ ۵۵۷ براہین احمدیہ میں عربی میں ہے اس کے سر پر اردو میں یہ الہام ہے۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُ س کی سچائی ظاہر کر دے گا۔* کیا ان تمام عبارتوں کو یکجائی نظر سے دیکھنے سے ثابت نہیں ہوتا کہ پہاڑ کا پھٹنا جو براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے اس کے ساتھ ہی کتاب موصوف میں یہ بھی لکھ دیا گیا ہے کہ یہ ایک پیشگوئی ہے۔ ہاں

خداتعالیٰ کی پہلی کتابوں میں بعض پیشگوئیاں اسی پیشگوئی کے ہم معنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت ہیں جن میں لکھا ہے کہ یہودی ان کو قبول نہیں کریں گے۔ جیسا کہ انجیل میں بھی انہیں پیشگوئیوں کے حوالہ سے لکھا ہے کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونہ کا سرا ہوا۔ یعنی اسرائیلی نبیوں کا خاتم الانبیاء ہوا۔ سو انہیں پیشگوئی کے مطابق یہ پیشگوئی ہے۔ کیونکہ خدا فرماتا ہے کہ لوگوں نے تو اُس کو قبول نہ کیا مگر میں قبول کروں گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دوں گا۔ سو ضروری ہے کہ یہ دنیا ختم نہ ہو جب تک یہ تمام باتیں ظہور میں آجائیں۔ اور جیسا کہ انجیل میں ہے کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونہ کا سرا ہوا۔ اِسی طرح خدا نے مجھے فرمایا کہ وہ تو تجھے رد کرتے ہیں مگر میں تجھے خاتم الخلفاء بناؤں گا۔ اس بارے میں وحی الٰہی کئی مختلف عبارتوں میں ہے اگر سب لکھی جائیں تو طول ہوگا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 268

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 268

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/268/mode/1up


اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ قبل از وقت ہم براہین احمدیہ کی اس پیشگوئی کو متعیّن نہیں کر سکے کہ کس پہلو پر یہ ظاہر ہو گی۔ اور یہ ایک ایسا امر ہے جس میں تمام انبیاء شریک ہیں مگر مَیں نے نہ براہین احمدیہ میں اور نہ کسی اور کتاب میں اس بات سے انکار کیا ہے کہ یہ پیشگوؔ ئی ہے اور کیونکر انکار کر سکتا وہاں تو صاف صفحہ ۵۱۶ براہین احمدیہ میں لکھا ہے ولنجعلہ اٰیۃً لِّلنّاس و رحمۃً منّاکہ ہم پہاڑ کا پھٹ جانا لوگوں کے لئے ایک نشان بنائیں گے۔ اور پھر صفحہ ۵۵۷ میں صاف لکھا ہے قوّۃ الرحمٰن لعُبَید اللّٰہ الصمد یعنی پہاڑ کا پھٹ جانا خدا کی قوت سے ہوگا اپنے بندہ کی تائید کے لئے۔ پس اس جگہ بجز کسی شریر خبیث آدمی کے جس کو ایمان اور خدا اور روز جزاء کی کچھ بھی پروا نہ ہو کون اس بات کا انکار کر سکتا ہے کہ یہ پیشگوئی ہے اور اس میں ایک نشان کا وعدہ ہے۔ اور جب کہ خدا تعالیٰ نے اس کا نام نشان رکھا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ کسی وقت ہم اس کو لوگوں کے فائدہ کے لئے ظاہر کریں گے اور پھر کس کی مجال ہے کہ وہ کہے کہ یہ نشان نہیں اور یہ پیشگوئی نہیں۔ اور ہمارا یہ اقرار کہ ہم براہین احمدیہ کے زمانہ میں اس پیشگوئی کو کسی پہلو پر متعیّن نہیں کر سکتے اس سے مخالف کو کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا کیونکہ نبی کے لئے قبل از وقت ہر ایک پیشگوئی کا متعیّن کرنا ضروری نہیں اور یہ بحث اسی کتاب میں ہم پہلے بہت کر چکے ہیں ضرورت نہیں کہ ہم بار بار اس کو لکھیں۔ اگر در خانہ کس است حرفے بس است۔

قولہ۔ ان تینوں فقروں میں کرشن قادیانی نے جھوٹ بولا ہے ۔ یعنی ایک فقرہ گذشتہ بالا جس کا جواب ہو چکا ہے اور دوسرے یہ کہنا کہ زلزلہ سے پیچھے بار بار خیال آیا کہ مَیں نے بڑا گناہ کیا * کہ جیسا کہ شائع کرنے کا حق تھا زلزلہ کی پیشگوئی کو شائع نہ کیا۔ اور تیسرے یہ کہنا کہ اگرچہ مَیں اس وقت جانتا تھا کہ میرا لکھنا دلوں کو ایک واجبی احتیاط کی طرف مصروف نہیں کرے گا تاہم اس غم نے میرے دل کو گھیرا کہ جو خبر مجھ کو خدائے علیم و حکیم سے ملی تھی اُس کی مَیں نے پورے طور سے اشاعت نہ کی۔

مولوی محمد حسین صاحب نے اس میرے فقرہ پر بہت خوشی سے بغلیں بجائی ہیں کہ مجھے بار بار خیال آیا کہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 269

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 269

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/269/mode/1up


ا قول۔ بدظنی ایسی چیز ہے کہ اُس کا کوئی علاج نہیں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر ایک شخص کو اِس بات کا علم دیا جائے کہ فلاں تباہی کسی گروہ پر آنے والی ہے اور وہ اس قوم کو اُس تباہی سے جیسا کہ چاہیئے متنبہ نہ کر سکے اور ساتھ ہی اس کو یہ بھی یقین ہو کہ میرا کہنا نہ کہنا ان کو برابر ہو گا مگر پھر بھی اس تباہی کے بعد ضرور اس کے دل کو صدمہ پہنچے گا کہ کاش وہ لوگ میری آواز کو سُنتے اور بچ جاتے۔ مَیں خیال کرتا ہوں کہ یہ خاصیّت ہر ایک دل میں ہے۔مگر ممکن ہے کہ اس زماؔ نہ کے بعض مولویوں کے دل ایسے ہوں کہ خدا نے یہ خاصیّت ان میں سے سلب کر لی ہو۔ اور اگریہ وہم گذرے کہ کیونکر یقین کریں کہ صاحبِ الہام کو یقین ہو گیا تھا کہ الہام عفت الدیار محلّھاو مقامھا سے مراد زلزلہ ہے۔ اس کا جواب ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ یہ ایک ایسا صاف الہام ہے کہ اس کے معنوں پر اطلاع پانے سے ایک بچہ کو بھی یقین ہو سکتا ہے کہ یہ ایک سخت حادثہ کی پیشگوئی ہے جس کا اثر عمارتوں پر ہو گا۔ اور اس سے ایک سال پا۵نچ مہینے پہلے الحکم اخبار میں


میں نے بہت بڑا گناہ کیا۔ مولوی کہلا کر ان کو یہ معلوم نہیں کہ انسان کا کمالِ معرفت اسی میں ہے کہ انسان اپنے رب جلیل کے آگے ہر ایک وقت اپنے تئیں قصور وار ٹھہراوے یہ نبیوں کی سنت ہے وہ شیطان ہے جو خداتعالیٰ کے سامنے انکسار اختیار نہ کرے نبی جو روتے چِلّاتے نعرے مارتے رہے۔ یہ سوز و گداز اسی وجہ سے تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم نے گناہ کیا کہ جیسا کہ حق تبلیغ کا تھا ہم سے ادا نہ ہو سکا۔ اپنے آقا و مولیٰ کے سامنے تمام سعادت اِسی میں ہے کہ اِس قصور کا اقرار کریں۔ چنانچہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی تمام استغفار اسی بنا پر ہے کہ آپ بہت ہی ڈرتے تھے کہ جو خدمت مجھے سپرد کی گئی ہے یعنی تبلیغ کی خدمت اور خدا کی راہ میں جانفشانی کی خدمت اس کو جیسا کہ اس کا حق تھا میں ادا نہیں کر سکا۔ اور اس خدمت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے برابر کسی نے ادا نہیں کیا۔ مگر خوفِ عظمت اور ہیبت الٰہی آپ کے دل میں حد سے زیادہ تھا۔ اسی لئے دوام استغفار آپ کا شغل تھا۔ توریت میں بھی ہے’’تب موسیٰ نے جلدی سے زمین پر سر جھکایا اور بولا کہ اے خداوند ۔۔۔ ہمارے گناہ اور خطائیں معاف کر‘‘ خروج ۳۴-۹۔ ساؤل نبی کہتا ہے۔ ’’میں نے گناہ کیاکہ میں نے خداوند کے فرمان کو ٹال دیا‘‘۔ دیکھو ا۔سموئیل ۱۵-۲۵۔ داؤد نبی خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ میں نے تیرا گناہ کیا۔ دیکھو زبور۔ ۵۱-۳۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 270

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 270

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/270/mode/1up


یعنی اخیر دسمبر ۱۹۰۳ء ؁ کے پرچہ میں صاف لفظوں میں زلزلہ کی پیشگوئی موجود ہے۔ اور پھر مواہب الرحمٰن مطبوعہ ۱۹۰۲ء ؁ میں بھی یہی زلزلہ کی پیشگوئی موجود ہے۔ اور پھر رسالہ آمین مطبوعہ۱۹۰۱ء ؁ میں بھی یہی زلزلہ کی پیشگوئی موجود ہے۔ پھر باوجود اس قدر تواتر کے کیونکر کوئی عقلمند خیال کر سکتا ہے کہ ہم اس پیشگوئی سے بالکل بے خبر تھے۔ ہاں مَیں جیسا کہ میرا مذہب ہے بار بار یہ بھی کہہ چکا ہوں کہ پیشگوئیوں میں قطعی طور پر یہ دعویٰ نہیں ہو سکتا کہ ضرور ان کا ایک ہی خاص پہلو پر ظہور ہو گا ممکن ہے کہ خدائے علیم و حکیم کوئی دوسرا پہلو اُن کے ظہور کے لئے اختیار کرے جس میں وہی عظمت اور قوّت اور ہولناک صورت پائی جائے جس پر پیشگوئی دلالت کرتی ہو۔

پھر جب کہ مجھ کو پیشگوئی عفت الدیار محلھا و مقامھا کی عظمت اور شدت پر پورا پورا یقین تھا اور مَیں اس کو پورے ایمان سے خدا تعالیٰ کا کلام سمجھتا تھا اور اس کے ظہور نے مجھ پر کھول دیا تھا کہ جیسا کہ پیشگوئی کے ظاہری الفاظ تھے اسی طرح وہ وقوع میں بھی آ گئی تو کیا وہ وقت نہیں تھا کہ بنی نوع کے لئے میری ہمدردی جو ش مارتی اور مَیں کوشش کرتا کہ آئندہ زلزلہ سے بچنے کے لئے لوگ توبہ اور استغفار اور کسی احسن انتظام کی طرف متوجہ ہوں ۔ کیا مَیں نے یہ بُرا کام کیا کہ جس بلا کا مجھے یقین دیا گیا تھا اس بَلا سے بچنے کے لئے مَیں نے لوگوں کو مطلع کر دیا۔ اور کیا انسان میں یہ طبعی امر نہیں ہے کہ کسی بَلا پر اطلاع پا کر بنی نوع کی ہمدردی کے لئے اس کا دل جوش مارتا ہے۔ ہاں بعض قصّاب طبع لوگ ہوتے ہیں کہ ان کو دوسرے کے درد اور مصیبت کی کچھ بھی پروا نہیں ہوتی۔ سو مَیں ایسے لوگوں کو انسان نہیں سمجھتا۔

قولہؔ ۔ لہٰذا اُس سے (یعنی مجھ سے) یہ حماقت عمل میں آئی جو اپنے تئیں ایک بڑے گناہ کا مرتکب مان لیا جس سے اپنے اصلی دعویٰ نبوت کی جڑ کاٹ دی۔

اقول۔ یہودیوں کی طرح آپ جس قدر چاہیں تحریف کریں ہم آپ کو کیا کہہ سکتے ہیں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 271

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 271

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/271/mode/1up


ورنہ جو لوگ خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں وہ باوجود نبی اور رسول ہونے کے اقرار رکھتے ہیں کہ جیسا کہ حق تبلیغ کا تھا ادا نہ کر سکے۔* اور اسی کو وہ گناہِ عظیم خیال کرتے ہیں اور اسی خیال سے وہ نعرے مارتے اور روتے اور درد سے بھر جاتے ہیں اور دائم الاستغفار رہتے ہیں مگر خشک مولوی جن کے دامن میں بجز ہڈیوں کے کچھ نہیں وہ اس روحانیت کو کیا جانتے ہیں۔ بے گناہ ہونے کی اطمینان کسی نبی نے بھی ظاہر نہیں کی۔ جو دنیا میں افضل الرسل اور خاتم الرسل گذرا ہے اس کے مُنہ سے بھی یہی نکلا ربنا اغفرلنا ذنوبنا و باعد بیننا و بین خطایانا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ فرماتے تھے کہ سورۃہود نے مجھے بوڑھا کر دیا۔ اور آپ سب سے زیادہ استغفار پڑھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ مَیں دن میں ستر۷۰ مرتبہ استغفار کرتا ہوں اور خدا تعالیٰ نے آپ کے حق میں فرمایا333333۔۱؂یہ سورۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قُرب زمانۂ وفات میں نازل ہوئی تھی اور اس میں اللہ تعالیٰ زور دے کر اپنی نصرت اور تائید اور تکمیل مقاصد دین کی خبر دیتا ہے کہ اب تو اے نبی خدا کی تسبیح اور تمجید کر اور خدا سے مغفرت چاہ وہ توّاب ہے اس موقعہ پر مغفرت کا ذکر کرنا یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ اب کام تبلیغ ختم ہو گیا خدا سے دُعا کر کہ اگر خدمتِ تبلیغ کے دقائق میں کوئی فروگذاشت ہوئی ہو تو خدا اُس کو بخش دے۔ موسیٰ بھی توریت میں اپنے قصوروں کو یاد کر کے روتا ہے اور جس کو عیسائیوں نے خدا بنا رکھا ہے کسی نے اس کو کہا۔ کہ اے نیک اُستاد۔ تو اُس نے جواب دیا کہ تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے نیک کوئی نہیں مگر خدا۔ یہی تمام اولیاء کا شعار رہا ہے۔ سب نے استغفار کو اپنا شعار قرار دیا ہے بجز شیطان کے ؂

فرس کشتہ چنداں کہ شب راندہ اند سحر گہ خروشاں کہ وا ماندہ اند

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں ما عبدناک حقّ عبادتک یعنی اے ہمارے خدا جو حق تیری پرستش کا تھا ہم سے ادا نہیں ہو سکا۔ کیا آپ اس جگہ یہ اعتراض کریں گے کہ جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود عبادت کرنے میں قاصرتھے تو دوسروں کو کیوں نصیحت کرتے تھے۔ افسوس۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 272

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 272

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/272/mode/1up


قوؔ لہ۔ وہ (یعنی یہ عاجز) براہین احمدیہ کی پیشگوئی کو سچا بنانے اور اس پر زلزلہ کا رنگ چڑھانے اور اس ذریعہ سے اپنی غیب دانی اور نبوت کا سکّہ جمانے کی غرض سے اس بات کا مدعی ہو گیا ہے کہ براہین احمدیہ کی پیشگوئی سے مجھے بہت صفائی سے خدا کی طرف سے یہ خبر مل چکی تھی کہ اِس سے زلزلہ مراد ہے تاہم مَیں نے قوم کی بدگوئی اور بدظنّی کے خوف سے اُس کو چھپایا اور عربی کا ترجمہ اردو میں کر کے شائع نہ کیا۔ اور مَیں اس فعل سے خدا کے گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا اور پچیس۲۵ برس تک اِسی گناہ پر قائم اور مُصِر رہا۔

اقول۔ مولوی صاحب آج آپ نے تحریف کرنے میں یہودیوں کے بھی کان کاٹے۔ مولوی کہلانا اور اس قدر صریح عبارت کے معنے بیان کرنے میں عمداً خیانت کرنا کیا یہ ان لوگوں کا کام ہو سکتا ہے جو یوم الحساب پر ایمان لاتے ہیں۔ مَیں نے اپنے اشتہار میں کب اور کہاں لکھا ہے کہ مَیں پچیس۲۵ برس تک اس گناہ پر قائم اور مُصِر رہا کہ براہین احمدیہ کے عربی الہام کا ترجمہ شائع نہ کیا۔ براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۶ اور صفحہ ۵۵۷ کھول کر دیکھو دونوں مقام میں عربی الہامات کا ترجمہ موجود ہے۔ پھر مَیں کیونکر کہہ سکتا تھا کہ مَیں نے عربی الہام کا ترجمہ اردو میں کر کے شائع نہ کیا اور پچیس۲۵ برس تک اِسی گناہ پر قائم اور مُصِر رہا۔ کیا کوئی عقلمند باور کر سکتا ہے کہ باوجود یکہ ان دونوں الہامات کا جو صفحہ ۵۱۶ اور صفحہ ۵۵۷ براہین احمدیہ میں درج ہیں ساتھ ہی ترجمہ اردو میں لکھا ہوا ہے۔ پھر مَیں اشتہار میں یہ لکھتا کہ ان الہامات کا ترجمہ براہین احمدیہ میں مَیں نے نہیں لکھا۔ بلکہ یہ ذکر تو میرے اشتہار ۱۱؍مئی ۱۹۰۵ء ؁ میں اس عربی الہام کے متعلق تھا جو الحکم ۳۱؍ مئی ۱۹۰۴ء میں بغیر ترجمہ کے شائع کیا گیا تھا یعنی الہام عفت الدیار محلّھا و مقامھا جس کا ترجمہ اردو میں نہیں لکھا گیا تھا۔ مولوی صاحب نے اس غرض سے یہ تحریف کی تا میرے پر یہ الزام قائم کریں کہ گویا مَیں نے عمداًپچیس۲۵ برس تک براہین احمدیہ کے عربی الہام کا ترجمہ نہ کیا اور مخفی رکھا۔

ماسوا اس کے زلزلہ کے متعلق تو براہین احمدیہ میں دو۲ پیشگوئیاں تھیں۔ ایک



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 273

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 273

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/273/mode/1up


صفحہؔ ۵۱۶ میں درج تھی اور دوسری صفحہ ۵۵۷ میں درج تھی۔ اور میرے اشتہار ۱۱؍مئی ۱۹۰۵ء میں صرف ایک پیشگوئی کی نسبت لکھا ہے کہ اس کا ترجمہ اردو میں نہیں ہوا۔ پس اگر اس جگہ اشتہار ۱۱؍مئی ۱۹۰۵ء ؁ میں براہین احمدیہ کی وہ دو۲ پیشگوئیاں مراد ہیں تو اس میں یہ عبارت نہیں ہونی چاہیئے تھی کہ عربی پیشگوئی کا ترجمہ بھی نہیں ہوا تھا۔ بلکہ یہ عبارت ہونی چاہیئے تھی کہ عربی دو پیشگوئیوں کا ترجمہ بھی نہیں ہوا تھا۔ اور پھر بھی ایسا لکھنا جھوٹ ہوتا کیونکہ دونوں عربی پیشگوئیوں کا ترجمہ براہین احمدیہ میں موجود ہے جو شخص چاہے دیکھ لے۔

پھر علاوہ اس کے وہ اشتہار مورخہ ۱۱؍ مئی ۱۹۰۵ء ؁ جس پر مولوی صاحب یہ نکتہ چینی کرتے ہیں ابھی دنیا سے گم نہیں ہو گیا بہتوں کے پاس موجود ہو گا۔ اس کی اصل عبارت یہ ہے اُس زلزلہ کے بعد مجھے بار بار خیال آیا کہ مَیں نے بڑا گناہ کیا کہ جیسا کہ حق شائع کرنے کا تھا اس پیشگوئی کو شائع نہ کیا کیونکہ وہ پیشگوئی صرف اردو کے دو۲ اخبار اور دو۲ رسالوں میں شائع ہوئی تھی اور یہ بھی فروگذاشت ہوئی تھی کہ عربی پیشگوئی کا ترجمہ بھی نہیں ہوا تھا۔ اب صاف ظاہر ہے کہ براہین احمدیہ کی عربی پیشگوئیاں جو صفحہ ۵۱۶ اور صفحہ ۵۵۷ میں درج ہیں نہ اردو دو۲ اخباروں میں شائع ہوئیں اور نہ ان کا ترجمہ کرنا رہ گیا اور نہ کسی اور رسالہ میں ان کا ذکر ہوا بلکہوہ پیشگوئی جو دو۲ اردو اخباروں میں درج ہوئی تھی اور جس کا عربی سے اردو میں ترجمہ نہیں ہوا تھا وہ یہی پیشگوئی عفت الدیار محلّھا و مقامھا ہے۔ کیونکہ وہ علاوہ دو۲ اخباروں کے جن میں سے ایک الحکم ۳۱؍ مئی ۱۹۰۵ء ؁ ہے دو۲ رسالوں میں بھی درج ہو چکی تھی یعنی اُس کو مولوی محمد علی صاحب ایم۔اے نے اپنے دونوں رسالوں میں ۲۰؍ مارچ ۱۹۰۴ء کو شائع کر دیا تھا۔ چنانچہ حاشیہ میں ان کا اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا نوٹ درج ہے۔ * اب ذرا آنکھ کھول کر

سیّدی! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ یہ الہام عفت الدیار محلھا و مقامھا۔ مارچ کے دونوں رسالوں میں شائع ہو چکا تھا اور رسالہ کے صفحہ ۱۲۶ میں درج ہے۔ اسی الہام کو پڑھ کر اور پھر زلزلہ کی خبر اخباروں میں پڑھ کر چارلس سورائٹ عبد الحق نے جو اس وقت نیوزی لینڈ میں تھا خط لکھا تھا۔ جس میں زلزلہ کے ذریعہ سے اس الہام کے پورا ہونے پر بہت ہی خوشی کا اظہار کیا تھا۔ (محمد علی)



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 274

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 274

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/274/mode/1up


اولؔ آپ مولوی صاحب موصوف کے نوٹ کو پڑھ لیں اورپھر ندامت میں غرق ہو جائیں اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ بندۂ خدا اس قدر چالاکی تو وہ یہود بھی نہیں کرتے ہوں گے جن کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے3۱؂ پ ۶ ۷۔پھر آپ نے اپنی مولویّت کا یہ نمونہ کیسا دکھلایا؟ مَیں نہیں خیال کر سکتا کہ آپ ایسے نادان تھے جنہوں نے کمال سادہ لوحی سے عبارت کے سمجھنے میں غلطی کھائی۔ آپ براہین احمدیہ کا ریویو لکھ چکے تھے۔ اور آپ کو خوب معلوم تھا کہ براہین احمدیہ کے وہ عربی الہامات جن کا مَیں نے اپنے اشتہار میں ذکر کیا ہے وہ بغیر ترجمہ کے نہیں لکھے گئے اور آپ کو خوب معلوم تھا کہ براہین احمدیہ کے اِن عربی الہامات کا ذکر نہ تو ہمارے سِلسلہ کے اِن دو۲ اخباروں الحکم اور البدر میں کیا گیا ہے اور نہ ایسے دو۲ رسالے ہمارے سِلسلہ میں کسی نے تالیف کئے جن میں براہین احمدیہ کے ان الہامات کا کچھ ذکر ہو۔ پھر جب کہ براہین احمدیہ کے ان الہاماتِ عربیہ کا براہین احمدیہ میں ترجمہ موجود ہے اور نہ کسی اخبار اور نہ کسی رسالہ میں ان کا ذکر ہے اور نہ وہ صرف ایک پیشگوئی ہے تا اشتہار ۱۱؍مئی ۱۹۰۵ء ؁ کی یہ عبارت اس پر منطبق ہو سکے کہ عربی پیشگوئی کا ترجمہ بھی نہیں ہوا تھا بلکہ وہ دو پیشگوئیاں ہیں تو اس صورت میں شرعاً آپ سے مطالبہ ہے کہ آپ نے اس قدر جھوٹ کیوں بولا؟ شائد جو کرم دین کے مقدمہ میں میرے مقابل پر مولویوں نے دروغ مصلحت آمیز کے جواز کا فتویٰ دیا تھا اس پر آپ نے بھی عمل کیا۔ بہر حال آپ بتلاؤ کہ کیوں آپ نے وہ ذکر جو الہام عفت الدّیار محلّھا و مقامھا کی نسبت تھا براہین احمدیہ کے اُن دو۲ عربی الہاموں پر مڑھ دیا جو صفحہ ۵۱۶ اور صفحہ ۵۵۷ براہین احمدیہ میں موجود ہے کیا آپ لوگوں کی یہی مولویانہ حیثیت میں دیانت اور امانت ہے کہ آپ نے ایسا افترا کیا اور کچھ بھی خدا تعالیٰ کا خوف آپ کے دل میں نہ آیا۔ اور صرف اِسی پر بس نہیں بلکہ آپ محض شرارت اور چالاکی سے اپنے اس مضمون میں اپنی طرف سے ایک عبارت لکھتے ہیں اور پھر پبلک پر یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ گویا وہ عبارت جو آپ نے میری طرف منسوب



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 275

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 275

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/275/mode/1up


کی ہے درحقیقت میرے ہی قلم سے نکلی ہے۔ چنانچہ وہ عبارت جو آپ نے محض جعلسازی سے میری طرف منسوب کر دی ہے وہ یہ ہے۔ ’’براہین احمدیہ کیؔ پیشگوئی سے مجھے بہت صفائی سے خدا کی طرف سے یہ خبر مل چکی تھی کہ اس سے زلزلہ مراد ہے تاہم مَیں نے قوم کی بدگوئی اور بدظنی کے خوف سے اُس کو چھپایا اور عربی کا ترجمہ اردو میں کر کے شائع نہ کیا۔ اور مَیں اس فعل سے خدا کے گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا۔ اور پچیس۲۵ برس تک اِسی گناہ پر قائم اور مُصِر رہا‘‘۔اے مفتری نابکار کیا اب بھی ہم نہ کہیں کہ جھوٹے پر خدا کی ***۔ جس نے آپ عبارت بنا کر میری طرف منسوب کر دی۔ اے سخت دل ظالم تجھے مولوی کہلا کر شرم نہ آئی کہ تُو نے ناحق اس قدر میرے پر جھوٹ بولا۔ کیا تُو دکھلا سکتا ہے کہ میرے اشتہار ۱۱؍ مئی ۱۹۰۵ء میں یا کسی اور اشتہار میں یا کسی رسالہ میں یہ عبارت موجود ہے جو تُو نے لکھی ! لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔

اِس جگہ اُن لوگوں کو متنبہ رہنا چاہیئے کہ جو ایسے لوگوں کو مولوی اور دیانتدار سمجھ کر اُن کے قول پر عمل کرنے کو طیار ہوتے ہیں۔ یہ حال ہے ان لوگوں کی دیانت کا اور جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔ اس لئے مولوی صاحب موصوف کا یہ بیان بھی تناقض سے بھرا ہوا ہے۔ چنانچہ وہ اخبار مذکور کے صفحہ پا۵نچ کالم تیسر۳ے میں پندرھو۱۵یں سطر و چوبیسو۲۴یں سطر میں میرے اشتہار کی عبارت یہ لکھتے ہیں کہ ’’ مَیں نے براہین احمدیہ میں اِس زلزلہ کی خبر دی تھی اور اگرچہ اُس وقت اس خارق عادت بات کی طرف ذہن منتقل نہ ہو سکا لیکن اب اِن پیشگوئیوں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ آنے والے زلزلہ کی نسبت تھیں جو اُس وقت نظر سے مخفی رہ گئیں‘‘۔

اب ناظرین خود دیکھ لیں کہ اس عبارت مذکورہ بالا کا یہی مطلب ہے کہ اُس زمانہ میں کہ براہین احمدیہ کے لکھنے کا زمانہ تھا ذہن اس طرف منتقل نہ ہو سکا کہ زلزلہ سے مُراد درحقیقت زلزلہ ہے اور یہ امر اُس وقت نظر سے مخفی رہا اور اب پچیس۲۵ برس



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 276

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 276

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/276/mode/1up


کے بعد جب زلزلہ ظہور میں آگیا تو اب معلوم ہوا کہ وہ براہین احمدیہ کی پیشگوئیاں آئندہ آنے والے زلزلہ کی نسبت پیشگوئیاں تھیں۔

یہ تو میری طرف سے انہوں نے اقرار لکھا ہے اور یہ بالکل صحیح ہے کیونکہ مَیں نے اپنے اشتہار النداء من وحی السّمآء میں جو اپریل ۱۹۰۵ء ؁ کو شائع ہوا تھا درحقیقت یہ عبارت اشتہار کے صفحہؔ ۷ مطبوعہ نول کشور پریس لاہور میں لکھی ہے چنانچہ پوری عبارت یہ ہے۔ ’’ یاد رہے کہ ان دونوں زلزلوں کا ذکر میری کتاب براہین احمدیہ میں بھی موجود ہے جو آج سے پچیس۲۵ برس پہلے اکثر ممالک میں شائع کی گئی تھی۔ اگرچہ اس وقت اس خارق عادت بات کی طرف ذہن منتقل نہ ہو سکا۔ لیکن اب ان پیشگوئیوں پر نظر ڈالنے سے بدیہی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ آئندہ آنے والے زلزلوں کی نسبت پیشگوئیاں تھیں جو اُس وقت نظر سے مخفی رہ گئیں‘‘۔

اب ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ مَیں نے اس اشتہار میں صاف طور پر لکھ دیا ہے کہ میرا اس وقت سے پہلے جب کہ زلزلہ ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء ؁ ظہور میں آ گیا اس بات کی طرف ذہن منتقل نہیں ہوا تھا کہ جیسا کہ ظاہر الفاظ پہاڑ کے پھٹ جانے سے سمجھا جاتا ہے درحقیقت براہین احمدیہ کے ان الہامات سے زلزلہ ہی مراد ہے اور اس پر ایک دلیل بھی ہے کہ براہین احمدیہ میں جو اِن دونوں الہامات کا ترجمہ کیا گیا ہے اُس میں بھی ظاہر الفاظ کی رُو سے ترجمہ نہیں ہوا۔ غرض میں نے اس اشتہار ۲۱؍اپریل ۱۹۰۵ ؁ء میں جو ۴؍اپریل ۱۹۰۵ ؁ء کے بعد لکھاتھا صاف اقرار کر دیا کہ مَیں پچیس۲۵ برس تک براہین احمدیہ کے دونوں موقعہ کے الہام کو جو فلمّا تجلّٰی ربّہٗ للجبلہے خاص زلزلہ کے لئے متعیّن نہ کر سکا۔ مگر ۴ ؍اپریل ۱۹۰۵ ؁ء کے زلزلہ کے بعد کھل گیا کہ وہ اسی زلزلہ کے متعلق تھا۔ یہ تو وہ امر ہے جو میرے اشتہار ۲۱؍ اپریل ۱۹۰۵ء ؁ سے ثابت ہوتا ہے۔

اب اس اشتہار کے برخلاف جو دعویٰ محض افترااور جعلسازی سے مولوی محمد حسین صاحب نے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 277

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 277

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/277/mode/1up


میری طرف منسوب کیا ہے اور اپنی طرف سے ایک عبارت بنا کر میری طرف منسوب کی ہے وہ عبارت پھر ہم دوبارہ لکھ دیتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے ’’ براہین احمدیہ کی پیشگوئی سے مجھے بہت صفائی سے خدا کی طرف سے یہ خبر مل چکی تھی کہ اس سے زلزلہ مراد ہے تاہم مَیں نے قوم کی بدگوئی اور بدظنّی کے خوف سے اس کو چھپایا۔ اور عربی کا ترجمہ اُردو میں کر کے شائع نہ کیا۔ اور مَیں اس فعل سے خدا کے گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا اور پچیس۲۵ برس تک اِسی گناہ پر قائم اور مُصر رہا‘‘۔

ابؔ ناظرین انصافاً فرماویں کہ کیا یہ بیان جو مولوی صاحب موصوف نے میری طرف منسوب کیا ہے یہ میرے اشتہار ۲۱؍ اپریل ۱۹۰۵ء ؁ کی عبارت کے مخالف ہے یا نہیں جس کو ابھی مَیں نے نقل کر دیا ہے کیونکہ مَیں اشتہار مذکور میں صاف طور پر لکھ چکا ہوں کہ اُس اشتہار سے پہلے جو براہین احمدیہ سے پچیس۲۵ برس بعد مَیں نے ۱۱ ؍مئی ۱۹۰۵ء ؁ کو شائع کیا ہے اس بات کی طرف ذہن منتقل نہیں ہوا تھا کہ زلزلہ سے مراد درحقیقت ظاہری طور پر زلزلہ ہے بلکہ پچیس۲۵ برس بعد زلزلہ کے آنے پر ان الہامات کے معنے کھلے۔

پس جب کہ یہ دونوں بیانات متناقض ہیں اور مَیں اُن میں سے صرف ایک بیان کو قبول کرتا ہوں جو مولوی صاحب کے اس مضمون میں بھی انہیں کے ہاتھ سے درج ہو چکا ہے۔ یعنی یہ کہ مَیں پچیس۲۵ برس تک براہین احمدیہ کے الہام صفحہ ۵۱۶ اور صفحہ ۵۵۷ کو کسی ایک پہلو پر متعیّن نہ کر سکا تو اس میں کیا شک ہے کہ دوسرا بیان اُس وقت تک محض مولوی صاحب کا افترا سمجھا جائے گا جب تک کہ وہ میری کسی کتاب یا اشتہار میں سے یہ ثابت کر کے نہ دکھلا دیں کہ یہ عبارت مذکورہ مَیں نے کسی جگہ لکھی ہے اور یا کسی جگہ مَیں نے یہ لکھا ہے کہ پچیس۲۵ برس تک اس گناہ پر قائم اور مُصِر رہا کہ باوجود یکہ براہین احمدیہ کے زمانہ سے قطعی علم زلزلہ کے متعلق مجھے ہو چکا تھا پھر مَیں نے اس خبر کو مخفی رکھا۔

اب اے ناظرین برائے خدا اپنی موت کو یاد کر کے ایماناً مجھے بتلاؤ کہ جو شخص اس قدر افتراکرتا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 278

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 278

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/278/mode/1up


اور جھوٹی عبارتیں بنا کر میری طرف منسوب کرتا ہے کیا وہ کسی سرزنش اور تعزیر شرعی کے لائق ہے یا نہیں۔ بیّنوا توجروا۔ اور یہ بھی محض لِلّٰہ فرماویں کہ کیا ایسا شخص جو اس طرح کی شوخی سے جعلسازی کرتا ہے اس لائق ہے کہ آئندہ اس کو مولوی کے نام سے پکارا جائے۔ اور کیا مناسب نہیں کہ ایک مجلس علماء مقرر کر کے اس کو بلایا جاوے اور اس سے پوچھا جاوے کہ یہ فرضی عبارت جو میری طرف اُس نے منسوب کی ہے مَیں نے کس کتاب یا رسالہ میں اس کو لکھا ہے۔ مولوی کہلا کر یہ افترا اور یہ تحریف اور یہ خیانت اور یہ جھوٹ اور یہ دلیری اور یہ شوخی اِن باتوں کا تصوؔ ر کر کے بدن کانپتا ہے۔ کیا مجھے کافر اور بے ایمان کہنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ حدیث جس میں کہ لکھا ہے کہ آخری زمانہ کے اکثر مولوی یہودیوں کے مولویوں سے مشابہت پیدا کر لیں گے یاد نہیں رکھتے بلکہ اس سے بڑھ کر بعض حدیثوں میں یہ بھی آیا ہے کہ اس قدر مشابہت پیدا کریں گے کہ اگر کسی یہودی نے ماں سے بھی زنا کیا ہو گا تو وہ بھی کر لیں گے۔*

آخری زمانہ کے وہ علماء جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہود اس امت کے قرار دیا ہے وہ بالخصوص اسی قسم کے مولوی ہیں جو مسیح موعود کے مخالف اور جانی دشمن اور اس کی تباہی کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور اس کو کافراور بے ایمان اور دجال کہتے ہیں اور اگر ان کے لیے ممکن ہو تو اس کو صلیب دینے کے لئے طیار ہیں کیونکہ یہود کے فقیہ اور فریسی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اسی طرح پیش آئے تھے اور ان کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جو علماء اس قسم کے نہیں ہیں ان کو ہم اس امت کے یہودی نہیں کہہ سکتے بلکہ جو لوگ حضرت عیسیٰ کے دشمنوں کی طرح مجھے دجال اور کافر اور بے ایمان کہتے ہیں وہی یہودی ہیں اور میں ان کو یہودی نہیں کہتا بلکہ خدا تعالیٰ کا کلام ان کو یہودی کہتا ہے اور یہ تو امر مجبوری ہے جس حالت میں درحقیقت مَیں سچا ہوں نہ کافر نہ دجال نہ بے ایمان ہوں۔ پس جو شخص سچے مسیح کو ایسے الفاظ سے یاد کرتا ہے۔ اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم یہودی قراردیتے ہیں۔اگرمولوی ابوسعیدمحمدحسین صاحب مجھے بے ایمان کافردجّال قرار نہیں دیتے اور واجب القتل نہیں سمجھتے تو ہم ان کو یہودی نہیں کہتے اور اگر وہ مجھے ان الفاظ سے یاد کرتے ہیں اور خدا جانتا ہے کہ میں سچا مسیح موعود ہوں تو اس صورت میں وہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث کا مصداق بن کر اپنے تئیں یہودی بناتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ تم کیوں عیسیٰ بنے۔ اس کا یہی جواب ہے کہ آپ لوگوں کے طفیل سے۔ اگر آپ یہودی نہ بنتے تو میرا نام یہ نہ ہوتا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 279

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 279

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/279/mode/1up


اور باوجود اس کے کہ بٹالوی صاحب نے اس قدر جھوٹ بول کر اور خیانت اور تحریف کر کے مجھے دُکھ دیا ہے پھر بھی اگر وہ میری کسی کتاب میں وہ عبارت جو انہوں نے میری طرف منسوب کی ہے اور لکھا ہے کہ گویا میں پچیس۲۵ برس تک اسی گناہ پر قائم اور مُصِر رہا دکھلا دیں تو مَیں نقد پچاس۵۰ روپیہ اُن کو دے سکتا ہوں۔ ورنہ میری طرف سے یہ کلمہ کافی ہے لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔

قولہ۔ کسی سچّے نبی یا ملہم کے نشان نہیں ہیں کہ جس بات کی تبلیغ کا خدا اُس کو حکم دے وہ دانستہ اور عمداً پچیس۲۵ برس تک چھپائے رکھے اور اُس کی تبلیغ نہ کرے۔

اقول۔ اس افترا کا جواب گذر گیا اور مَیں بیان کر چکا ہوں کہ مَیں نے کسی اشتہار میں یہ دعویٰ نہیں کیا کہ براہین احمدیہ کی یہ دو۲ پیشگوئیاں جو لکھی گئی ہیں یعنی فلّما تجلّی ربّہ للجبل جعلہٗ دکًّا اُن کے اصل منشاء کی طرف اسی زمانہ میں میرا ذہن منتقل ہو گیا تھا بلکہ بار بار لکھ چکا ہوں کہ پچیس۲۵ برس کے بعد ان معنوں کی حقیقت کھلی۔ اور اگر پہلے سے میرے پر حقیقت کھلتی تو پھر اس الہام کے اس ترجمہ میں جو براہین احمدیہ میں لکھا گیا کیوں غلطی وقوع میں آتی۔

پھر اس نادان مولوی کے اِس قول پر مجھے تعجب آتا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ سچے نبی یا ملہم کا یہ نشان نہیں ہے کہ جس بات کی تبلیغ کا خدا اس کو حکم دے وہ دانستہ اور عمداً پچیس۲۵ برس تک اس کو چھپائے رکھے۔ اس نادان کو اب تک یہ بھی معلوم نہیں کہ تبلیغ الٰہی احکام کے متعلق ہوتی ہے نہ ایسی پیشگوئیوں کے متعلق۔ جن کی اشاعت کے لئے ملہم مامور بھی نہیں بلکہ اختیار رکھتا ہے چاہے ان کو شائع کرے یا نہ کرے۔ ماسوا اس کے جب کہ اس پیشگوئی کی حقیقت ابھیؔ میرے پر نہیں کھلی تھی تو اس بات کے لئے میں مکلّف نہ تھا کہ اس کے معنے اور مقصد لوگوں پر ظاہر کرتا اور جس قدر اجتہادی طور پر میرے خیال میں گذرا مَیں نے ترجمہ ان پیشگوئیوں کا براہین احمدیہ میں شائع کر دیا۔ پس مَیں نے تبلیغ میں کونسا قصور کیا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 280

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 280

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/280/mode/1up


3۱؂ اگر یہ بات ہوتی کہ براہین احمدیہ کی اُن پیشگوئیوں کی وہ حقیقت جو ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء ؁ کے زلزلہ کے بعد میرے پر کھل گئی براہین احمدیہ کی اشاعت کے زمانہ میں ہی مجھے معلوم ہوتی تو اگرچہ مَیں اس کی اشاعت کے لئے مامور نہ تھا تا ہم میں نوع انسان کی ہمدردی کے لئے جہاں تک مجھ سے ممکن ہوتا اس کی اصل حقیقت سے لوگوں کو اطلاع دیتا۔

قولہ ۔ یہ عجیب عذر گناہ بدتر از گناہ ہے کہ پیشگوئیوں کے معنے سمجھنے میں عوام تو عوام ابنیاء علیہم السلام بھی اجتہاد کے وقت غلطی کر بیٹھتے ہیں۔

ا قول۔ انہیں باتوں سے تو آپ کا خیانت پیشہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔ مَیں خوب جانتا ہوں کہ آپ شیر خوار بچہ نہیں آپ علم حدیث سے ایسے جاہل نہیں جن کو اوّل نمبر کے جاہل کہنا چاہیئے۔ آپ ایسے مجنون نہیں جن کے حواس بالکل قائم نہیں ہوتے۔ تو پھر یہ خیانت ہے یا کوئی اور بات ہے کہ آپ اس سے انکار کرتے ہیں کہ ابنیاء علیہم السلام سے کوئی غلطی اجتہادی طور پر نہیں ہو سکتی سب جانتے ہیں کہ بیشک غلطی ہو سکتی ہے۔ مگر وہ ہمیشہ اس غلطی پر قائم نہیں رکھے جا سکتے۔ مَیں اس بارے میں اسی ضمیمہ میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں ۔ اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔

قولہ۔ کسی پیشگوئی کے جھوٹے ہونے کا الزام جب آپ پر قائم ہوتا ہے تو اس الزام کو اسی اصول سے اٹھا دیا جاتا ہے۔

ا قول۔ اے مولوی صاحب خدا آپ کو ہدایت کرے اور وہ دن لاوے کہ آپ کی آنکھیں کھلیں۔ آپ اس شخص کی طرح جس کی گردن کے پیچھے بہت بڑا پھوڑا ہو اور اس وجہ سے وہ ہمیشہ زمین کی طرف جھکا رہے آسمان کی طرف نظر نہ اٹھا سکے آسمانی انوار سے محروم ہیں اور اُن سے کچھ فائدہ نہیں اُٹھاتے۔ اب تک دس ہز۱۰۰۰۰ار سے بھی زیادہ خدا تعالیٰ میری تائید میں نشان ظاہر کر ؔ چکا ہے جو روز روشن کی طرح پورے ہو گئے ہیں مگر آپ کے نزدیک ہر ایک پیشگوئی جھوٹی نکلتی رہی ہے اور گویا میں جھوٹ کو سچ بنانے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 281

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 281

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/281/mode/1up


کے لئے تاویلیں کرتارہا ہوں۔ اب اس جگہ بھی میں بجز اس کے کیا کہوں کہلعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ جو شخص میری صحبت میں چالیس دن بھی رہتا ہے وہ کوئی نہ کوئی خدا تعالیٰ کا نشان دیکھ لیتا ہے۔ اسی وجہ سے ہزار ہا بندگانِ خدا ا س طرف جُھک گئے ہیں اور باوجود آپ کے بُغض اور بُخل اور ہمیشہ کی یاوہ گوئی کے ایک عالم ہماری طرف آگیا ہے اور آتا جاتا ہے اور آپ کے مُنہ کی پھونکوں سے کچھ بھی بگڑ نہ سکا۔ آسمان میں خدا نے میرے لئے خسوف کسوف کیا مگر آپ کے نزدیک وہ حدیث غلط ہے۔ اور مَیں چودھویں صدی کے سر پر آیا اور بفضلہ تعالیٰ محدثین کی شرط قرار داد کے مطابق چہارم حصّہ صدی تک میری زندگی پہنچ گئی مگر آپ کے نزدیک یہ حدیث بھی غلط۔ اور لکھا تھا کہ مسیح موعود کے وقت میں طاعون پڑے گی اور سخت پڑے گی مگر آپ کے نزدیک یہ حدیث بھی غلط۔ اور لکھا تھا کہ اُس وقت آفتاب میں ایک نشان ظاہر ہوگا۔ چنانچہ اب تک ظاہر ہے اور دُور بین سے دیکھا جاتا ہے مگر آپ کے نزدیک یہ حدیث بھی غلط۔ اور حدیث میں آیا تھا کہ اُن دنوں ستارہ ذوالسنین طلوع کرے گا چنانچہ مدت ہوئی کہ اُس ستارہ کا طلوع ہو چکا مگر آپ کے نزدیک یہ حدیث بھی غلط ۔ اور لکھا تھا کہ وہ مسیح موعود اِسی امت میں سے ہو گا۔ اور دمشق سے مشرق کی طرف وہ مبعوث ہو گا مگر آپ کے نزدیک یہ حدیث بھی غلط۔ اور لکھا تھا کہ مسیح موعود کے وقت میں اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گی اور اِس میں یہ بھی اشارہ تھا کہ اُس زمانہ میں مدینہ کی طرف سے مکّہ تک ریل کی سواری جاری ہو جائے گی مگر آپ کے نزدیک یہ حدیث بھی غلط۔ پس جب کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیثیں آپ کے نزدیک غلط ہیں تو میری پیشگوئیوں کو غلط کہنے کے وقت آپ کیوں شرم کرنے لگے۔ *

بلکہ حدیث اور میری پیشگوئیوں کا ذکر تو الگ رہا آپ تو مسلمان کہلا کر قرآن شریف سے ہی مُنہ پھیرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ عیسیٰ فوت ہو گیا ہے اور آپ نے اس کو زندہ قرار دے کر

یہ بھی بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ اس زمانہ میں لوگ حج کرنے سے روکے جائیں گے مگر یہ سب حدیثیں آپ کے نزدیک غلط ہیں کیونکہ ان سے میرے دعویٰ کا ثبوت ملتا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 282

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 282

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/282/mode/1up


آسمان کے کسی حجرہ میں بٹھا رکھا ہے کیا خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرؔ ف سے نہیں فرمایا3۔۱؂ کیااس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ مجھے وفات دینے کے بعد تُو ہی اُن پررقیب تھا۔ اور کیا ان تمام آیات پر نظر ڈالنے سے صریح طور پر ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عیسیٰ خدا تعالیٰ کے سوال کا یہ جواب دیتے ہیں کہ مَیں جب تک اپنی امّت میں تھا مَیں اُن کے اعمال کا گواہ تھا اور اُن کے حالات کا علم رکھتا تھا پھر جب تُونے مجھے وفات دے دی تو بعد اس کے تُو ہی اُن کا رقیب اور محافظ تھا۔ پس کیا اِن آیات کا بدیہی طور پر یہ خاص مطلب نہیں ہے کہ میر ی اُمت میری زندگی میں نہیں بگڑی بلکہ میری وفات کے بعد بگڑی۔ اور بعد وفات مجھے معلوم نہیں کہ ان کا کیا حال ہوا اور کیا مذہب اختیار کیا۔ پس خدا تعالیٰ کے اس کلام سے ظاہر ہے کہ اگر فرض کیا جائے کہ حضرت عیسیٰ اب تک زندہ ہیں تو ساتھ ہی یہ بھی فرض کرنا پڑے گا کہ عیسائی بھی اب تک بگڑے نہیں اور سچے مذہب پر قائم ہیں۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ اپنی امّت کا صراط مستقیم پر ہونا اپنی زندگی تک وابستہ کرتے ہیں اور اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ مَیں نے یہ تعلیم دی ہے کہ مجھے اور میری ماں کو خُدا کر کے مانا کرو اور جناب الٰہی میں عرض کرتے ہیں کہ جب تک مَیں اپنی امت میں تھا مَیں نے وہی تعلیم اُن کو دی جس کی تُونے مجھے ہدایت دی تھی اور جب تو نے مجھے وفات دے دی تو بعد کے حالات کا مجھے کچھ علم نہیں۔ اور ان آیات سے صاف طور پر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ دوبارہ دنیامیں نہیں آئیں گے ورنہ لازم آتا ہے کہ قیامت کے دن وہ خداتعالیٰ کے سامنے جھوٹ بولیں گے کیونکہ اگر وہ قیامت سے پہلے دنیا میں دوبارہ آئے ہوتے تو اِس صورت میں اُن کا یہ کہنا کہ مجھے کچھ علم نہیں کہ میری اُمت نے میرے بعد کیا عقیدہ اختیار کیا صریح جھوٹ ٹھہرتا ہے۔ کیونکہ جو شخص دوبارہ دنیا میں آوے اور بچشمِ خود دیکھ جاوے کہ اس کی اُمت بگڑ چکی ہے اور نہ صرف ایک دن بلکہ برابر چالیس۴۰ برس تک اُن کے کفر کی حالت دیکھتارہے وہ کیونکر قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے سامنے کہہ سکتا ہے کہ اپنی امت کی حالت سے محض بے خبر ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ آپ کایہ عقیدہ کہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 283

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 283

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/283/mode/1up


حضرت عیسیٰ زندہ ہیں اور پھر دوبارہ زمین پر نازل ہوں گے۔ صاف اور صریح طور پر نصوصِ صریحہ قرآن شریف کے برخلاف ہے مگرؔ پھر بھی آپ اس عقیدہ کو نہیں چھوڑتے پس اس صورت میں آپ پر کیا افسوس کروں کہ آپ میرے صدہا نشانوں کو دیکھ کر اُن سے منکر ہوئے جاتے ہیں اور جس طرح ایک شخص کو مٹی کھانے کی عادت ہو جاتی ہے وہ باوجود پیش کئے جانے عُمدہ غذاؤں کے پھر بھی مٹی کھانے کی طرف ہی رغبت کرتا ہے۔ یہی حال آپ کا ہو رہا ہے۔ یہ بھی جھوٹ ہے کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ حدیثوں کی رو سے ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ سمجھتے ہیں۔ صحیح بخاری جس کو آپ اصحّ الکتب بعد کتاب اللّٰہ قرار دیتے ہیں اس میں تو صاف لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے معراج کی رات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اُن مُردہ رُوحوں میں دیکھا جو اِس جہان سے گذر چکی ہیں بلکہ حضرت یحیٰی کے پاس جو فوت ہو چکے ہیں اُن کا مقام پایا۔ اب بندۂ خدا کچھ تو خدا تعالیٰ کا خوف کرنا چاہیئے۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر قبض رُوح کے یونہی جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے تو اُن کو رُوحوں سے کیا تعلق تھا جو موت کے بعد دوسرے جہان میں پہنچ چکی ہیں اُن کے لئے تو کوئی علیحدہ مکان یا کمرہ چاہیئے تھا جس میں جسمانی زندگی بسر کرتے نہ کہ عالمِ فانی کے رہنے والوں کے پاس چلے جاتے جو موت کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ پس یہ کس قدر جھوٹ ہے جو آپ کے گلے کا ہار ہو رہا ہے جو ایسے شخص کو آپ زندہ قرار دیتے ہیں جو اُنیس سو ۱۹۰۰ برس سے فوت ہو چکا ہے۔ جب تک خدا تعالیٰ نے اس بھید کو نہیں کھولا تھا تب تک تو ہر ایک معذور تھا۔ اب جب کہ حَکَم آ گیا اور حقیقت کھل گئی اور قرآن شریف کی رو سے حضرت عیسیٰ کی موت ثابت ہو گئی اور حدیثوں کی رُو سے مُردہ رُوحوں میں اُن کی بود و باش پر گواہی مل گئی اور خدا کے قول سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے یعنی رؤیت سے حضرت عیسیٰ کا وفات پانا بپایہ ء ثبوت پہنچ گیا بلکہ مسلم اور صحیح بخاری کی حدیث سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ آنے والا مسیح اِسی امت میں سے ہو گا اور اس مسیح نے بھی بحیثیت حَکَم ہونے کے قرآن شریف اور ان احادیث



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 284

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 284

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/284/mode/1up


کے مطابق گواہی دی تو اب بھی نہ ماننا۔ بتلاؤ یہ ایمانداری ہے یا بے ایمانی۔ پھر ایسے آدمی پر افسوس کیا کریں کہ وہ ہمارے نشانوں کو نہیں مانتا جب کہ اس نے نہ خدا کے قول کو مانا اور نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کو قبول کیا اورؔ نہ چاہا کہ خدا تعالیٰ سے خوف کر کے اپنی غلطی کو چھوڑ دے۔ تو ایسا آدمی اگر میرے پر افترا کرے تو مجھے کیوں افسوس کرنا چاہیئے۔ ایک کی غلطی دوسرے کے لئے سند نہیں ہو سکتی۔ اگر فیج اعوج کے زمانہ میں ایسا خیال دلوں میں ہو گیا تھا کہ حضرت عیسیٰ زندہ آسمان پرچلے گئے ہیں تو وہ قابلِ سند نہیں ہے۔ خیر القرون کے زمانہ میں اس خیال کا نام و نشان نہ تھا ورنہ صحابہ رضی اللہ عنہم اس بات پر کیوں راضی ہو جاتے کہ سب انبیاء علیہم السلا م فوت ہو چکے ہیں۔ اسلام میں سب سے پہلا اجماع یہی تھا کہ تمام نبی فوت ہو گئے ہیں کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو بعض صحابہ کا یہ بھی خیال تھا کہ آپ فوت نہیں ہوئے اور پھر دنیا میں واپس آئیں گے اور منافقوں کی ناک اور کان کاٹیں گے۔ تو اُس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سب کو مسجد نبوی میں جمع کیا اور یہ آیت پڑھی 33 ۔۱؂ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ایک نبی ہیں اور تمام انبیاء گذشتہ پہلے ان سے فوت ہو چکے ہیں۔ تب صحابہ جو سب کے سب موجود تھے رضی اللہ عنہم سمجھ گئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بے شک فوت ہو گئے اور انہوں نے یقین کر لیا کہ کوئی نبی بھی زندہ نہیں۔ اور کسی نے اعتراض نہ کیا کہ حضرت عیسیٰ اس آیت کے مفہوم سے باہر ہیں اور وہ اب تک زندہ ہیں۔ اور کیا ممکن تھا کہ عاشقانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر راضی ہو سکتے کہ ان کا نبی تو چھوٹی سی عمر میں فوت ہو گیا اور عیسیٰ چھ سو۶۰۰ برسوں سے زندہ چلا آتا ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا بلکہ وہ تو اس خیال سے زندہ ہی مر جاتے پس اسی وجہ سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان سب کے سامنے یہ آیت پڑھ کر ان کو تسلّی دی 33۲؂۔ اور اس آیت نے ایسا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 285

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 285

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/285/mode/1up


اثر صحابہ کے دل پر کیا کہ وہ مدینہ کے بازاروں میں یہ آیت پڑھتے پھرتے تھے گویا اُسی دن وہ نازل ہوئی تھی۔ اور اسلام میں یہ اجماع تمام اجماعوں سے پہلا تھا کہ تمام نبی فوت ہو چکے ہیں۔ مگر اے مولوی صاحب !! آپ کو صحابہ کے اس اجماع سے کیا غرض۔ آپ کا مذہب تو تعصّب ہے نہ کہ اسلام۔

مذہب اسلام ایسے باطل عقیدوں سے دن بدن تباہ ہوتا جا تا ہے مگر آپ لو گؔ خوش ہیں ؂ رونقِ دیں عقائدت بُردہ دشمناں شاد و یار آزردہ

معلوم ہوتا ہے کہ اس اجماع سے پہلے جو تمام انبیاء علیہم السلام کی وفات پر ہوا بعض نادان صحابی جن کو درایت سے کچھ حصہ نہ تھا وہ ابھی اس عقیدہ سے بے خبر تھے کہ کل انبیاء فوت ہو چکے ہیں اور اسی وجہ سے صدیق رضی اللہ عنہ کو اس آیت کے سُنانے کی ضرورت پڑی اور اس آیت کے سُننے کے بعد سب نے یقین کر لیا کہ تمام گذشتہ لوگ داخلِ قبور ہو چکے ہیں اِسی وجہ سے حسّان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ چند شعر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرثیہ میں بنائے جس میں اُس نے اسی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ یہ ہیں ؂

کنت السّواد لناظری

فعمی علیک الناظر

من شاء بعدک فلیمت

فعلیک کنت احاذر

(ترجمہ) تو میری آنکھوں کی پتلی تھا پس مَیں تو تیرے مرنے سے اندھا ہو گیا۔ اب بعد تیرے جو شخص چاہے مرے (عیسیٰ ہو یا موسیٰ ہو) مجھے تو تیرے ہی مرنے کا خوف تھا۔ جزاہ اللّٰہ خیرالجزاء محبت اِسی کا نام ہے۔ *

حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کا اس امت پر اتنا بڑا احسان ہے کہ اس کا شکر نہیں ہو سکتا اگر وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو مسجد نبوی میں اکٹھے کر کے یہ آیت نہ سناتے کہ تمام گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں تو یہ امت ہلاک ہو جاتی۔ کیونکہ ایسی صورت میں اس زمانے کے مفسد علماء یہی کہتے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا بھی یہی مذہب تھا کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں۔ مگر اب صدیق اکبر کی آیت ممدوحہ پیش کرنے سے اس بات پر کل صحابہ کا اجماع ہو چکا کہ کل گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں بلکہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 286

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 286

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/286/mode/1up


اور اگر ایک ذرّہ انصاف ہو تو معلوم ہو گا کہ خود حضرت مسیح علیہ السلام اس عقیدہ کے مخالف تھے کہ کوئی آسمان پر جا کر پھر دنیا میں آتا ہے اِسی لئے جب اُن سے الیاس نبی کے دوبارہ آنے کے بارہ میں یہودیوں نے پوچھا اور کتابیں دکھلائیں کہ لکھا ہے کہ الیاس دوبارہ دنیا میں آئے گا تب بعد الیاس آنے کے وہ مسیح موعود آئے گا جس کے آنے کا یہود کو وعدہ دیا گیا تھا اور بتلایا گیا تھا کہ وہ ان کا خاتم الانبیاء ہو گا تو عیسیٰ علیہ السلام نے یہ اعتراض سُن کر فرمایا کہ یوحنانبی جو تم میں موجود ہے اور مجھ سے پہلے آ چکا ہے یہی الیاس ہے جس نے قبول کرنا ہو قبول کرے۔ اور یہ قول آپ کا یہود کو بہت ہی بُرا معلوم ہوا۔ اور اُن کو کافر اور بدعتی اور اجماع اُمّت کے برخلاف ایک بات کہنے والا قرار دیا۔ چنانچہ ایک کتاب جو حال میں ایک بڑے یہودی فاضل نے تالیف کی ہے جو میرے پاس موجود ہے۔ اُس میں وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کے لئے بڑا شور ڈالتا ہے اور اُن کو وہ نعوذ باللہ کذّاب اور کافر اور ملحد کہتا ہے اور لوگوں کے سامنے اس بات کا اپیل کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تم خود منصف ہو کر سوچو کہ جس حالت میں خدا نے اپنی کتاب میں یہؔ خبر دی تھی جیسا کہ صحیفہ ملاکی میں لکھا ہے ۔ جس کی صحت اور منجانب اللہ ہونے کا

اُس اجماع پر شعر بنائے گئے۔ ابو بکر کی روح پر خدا تعالیٰ ہزاروں رحمتوں کی بارش کرے اُس نے تمام روحوں کو ہلاکت سے بچالیا اور اس اِجماع میں تمام صحابہ شریک تھے۔ ایک فرد بھی ان میں سے باہر نہ تھا۔ اور یہ صحابہ کا پہلا اجماع تھا اور نہایت قابل شکر کارروائی تھی۔ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ اور مسیح موعود کی باہم ایک مشابہت ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ قرآن شریف میں دونوں کی نسبت یہ تھا کہ جب ایک خوف کی حالت اسلام پر طاری ہو گی اور سلسلہ مرتد ہونے کا شروع ہو گا تب ان کا ظہور ہو گا سو حضرت ابوبکر اور مسیح موعود کے وقت میں ایسا ہی ہوا۔ یعنی حضرت ابو بکرکے وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد صد ہا جاہل عرب مرتد ہو گئے تھے۔ اور صرف دو۲ مسجدیں باقی تھیں جن میں نماز پڑھی جاتی تھی۔ حضرت ابو بکر نے دوبارہ ان کو اسلام پر قائم کیاایسا ہی مسیح موعود کے وقت میں کئی لاکھ انسان اسلام سے مرتد ہو کر عیسائی بن گئے اور یہ دونوں حالات قرآن شریف میں مذکور ہیں یعنی پیشگوئی کے طور پر ان کا ذکر ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 287

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 287

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/287/mode/1up


اس شخص کو اقرار ہے کہ یہودیوں کا مسیح موعود نہیں آئے گا جب تک کہ الیاس نبی دوبارہ دنیا میں آسمان سے نازل ہو کر نہ آوے۔ اور معلوم ہے کہ اب تک الیاس نبی آسمان سے نازل نہیں ہوا جس کا نازل ہونا مسیح موعود سے پہلے ضروری ہے تو ہم کیونکر اس کو سچا مسیح موعود سمجھ لیں۔ کیا ہم اپنے ایمان کو ضائع کر دیں یا توریت سے روگردان ہو جائیں کیا کریں۔ اور جب کہ کھلے کھلے لفظوں میں ملاکی نبی نے خدا تعالیٰ سے وحی پاکرہمیں خبر دی ہے کہ ضرور ہے کہ مسیح موعود یہودیوں میں پیدا نہ ہو جب تک کہ خدا کے وعدہ کے موافق الیاس نبی دوبارہ دنیا میں نہ آوے تو پھر یہ شخص یہودیوں کا مسیح موعود کیونکر ہو سکتا ہے۔*اور جب کہ ایسی

یہودیوں کا یہ مذہب ہے کہ مسیح دو ہیں(۱) ایک وہ مسیح جو پہلے آنے والا ہے جس کے لئے یہ شرط ہے کہ اس سے پہلے الیاس دوبارہ دنیا میں آئے گا۔ یہی مسیح تھا جس کی نسبت حضرت عیسیٰ نے دعویٰ کیا کہ وہ میں ہوں مگر یہودی فاضلوں نے اس دعوے کو قبول نہ کیا اور کہا کہ یہ دعویٰ نصوصِ صریحہ کتاب اللہ کے مخالف ہے۔وجہ یہ کہ جیسا کہ خدا کی کتاب بتلاتی ہے الیاس دوبارہ آسمان سے زمین پر نہیں آیا۔حضرت عیسیٰ نے باربارکہاکہ ایسی عبارتیں استعارہ کے رنگ میں ہوتی ہیں اور الیاس سے مراد اس جگہ یحییٰ یعنی یوحنا نبی ہے مگر چونکہ یہودی سخت ظاہر پرست تھے انہوں نے اس تاویل کو قبول نہ کیا اور اب تک اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ کو قبول نہیں کرتے اور بہت توہین کرتے ہیں (۲) دوسرا مسیح جس کی یہودیوں کو انتظار ہے وہ ہے جس کی نسبت ان کا عقیدہ ہے کہ وہ چھٹے ہزار کے اخیر میں آئے گا اس لئے آج کل نہایت اضطراب یہودیوں میں ہے کیونکہ قمری حساب کی رو سے چھٹا ہزار آدم سے ختم ہو گیا اور اب ساتواں ہزار چل رہا ہے مگر وہ مسیح موعود اب تک نہیں آیا۔ عیسائیوں کے محققین کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ آمد ثانی ان کے مسیح کی چھٹے ہزار کے آخر میں ہو گی۔ اب وہ بھی نومیدی میں پڑگئے کیونکہ چھٹے ہزارکاخاتمہ ہوگیاآخرانہوں نے نومید ہو کر یہ رائے ظاہر کی ہے کہ کلیسیا کو ہی مسیح سمجھ لو اور آنے والے سے ہاتھ دھو بیٹھو۔ غرض یہودیوں کے نزدیک مسیح دو۲ ہیں اور آخری مسیح موعود جو چھٹے ہزار کے آخر میں آنے والا تھا وہ ان کے نزدیک پہلے مسیح سے بہت افضل اور صاحب اقبال ہے مگر وہ تو دونوں مسیحوں سے محروم رہے نہ وہ ملا نہ وہ ملا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 288

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 288

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/288/mode/1up


تصریح اور وضاحت سے الیاس نبی کے دوبارہ آنے کی قبل از مسیح موعود ہمیں خبر ملی ہے جس کی کوئی تاویل نہیں ہو سکتی تو پھر اگر ہم تکلّف سے صَرف عَنِ الظَّاہر کر کے اس پیشگوئی کی کچھ تاویل کر دیں تو یہ سخت بے ایمانی ہو گی۔ ہمیں خدا نے اپنی کتاب میں یہ تو نہیں بتلایا کہ مسیح موعود سے پہلے الیاس نبی کا کوئی مثیل آئے گا بلکہ اُس نے تو صاف طور پر ہمیں خبر دے دی ہے کہ خود الیاس ہی دوبارہ آسمان سے نازل ہو جائے گا تو پھر ایسی صریح خبر سے ہمؔ کیونکر انکار کر دیں اور پھر آخر مضمون میں لکھتا ہے کہ اگر خدا نے قیامت کے دن ہم سے پوچھا کہ تم نے اس شخص یعنی یسوع بن مریم کو کیوں قبول نہ کیا اور کیوں اُس پر ایمان نہ لائے تو ہم ملاکی نبی کی کتاب اُس کے سامنے پیش کر دیں گے۔

غرض یہ عقیدہ قدیم سے یہود کا ہے کہ اُن کا سچا مسیح موعود جو پہلا مسیح موعود ہے تبھی آئے گا جب پہلے اس سے الیاس نبی دوبارہ دنیا میں آجائے گا مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اُن کی ایک نہ سُنی اور ان کو یہی سُنائی کہ اس آنے والے سے مراد یوحنا نبی ہے۔ یہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا فیصلہ ہے جس کے برخلاف آپ لوگوں نے شور مچا رکھا ہے۔ کیا الیاس نبی دوبارہ دنیا میں آگیا تا حضرت عیسیٰ بھی دوبارہ آ جائیں۔ بلکہ اگر کسی شخص کا دوبارہ دنیا میں آنا جائز ہے تو اس سے حضرت عیسیٰ سچے نبی ٹھہر نہیں سکتے اور ان کی نبوت باطل ہوتی ہے کیونکہ اس صورت میں ماننا پڑتا ہے کہ انہوں نے ناحق اپنی بات بنانے کے لئے یحيٰ نبی کو الیاس بنا دیا ورنہ الیاس ابھی آسمان سے نازل نہیں ہوا تھا۔ کیا عقلمند کے لئے الیاس نبی کے دوبارہ آنے کا قصّہ جس کی وجہ سے کئی لاکھ یہودی حضرت عیسیٰ کو ردّ کر کے واصلِ جہنّم ہو گئے عبرت کا مقام نہیں؟

جب کہ الیاس نبی جس کا آسمان سے نازل ہونا حضرت عیسیٰ کے دعویٰ کی سچائی کے لئے ایک علامت مقرر کی گئی تھی آسمان سے ناز ل نہ ہوا تو اب وہی راہ اس زمانہ کے مسلمان کیوں اختیار کرتے ہیں جس کی وجہ سے پہلے اِس سے یہودی کافر ہو گئے۔ اگر آسمان سے نازل ہونا سنّت اللہ میں داخل ہوتا تو الیاس کی راہ میں کون سے پتھر پڑ گئے تھے کہ باوجودیکہ خدا تعالیٰ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 289

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 289

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/289/mode/1up


کی کتاب میں اس کے نازل ہونے کا وعدہ تھا پھر بھی نازل نہ ہو سکا اور حضرت عیسیٰ کو یہودیوں کے مقابل پر شرمندگی اٹھانی پڑی اور آخر یحيٰنبی کو الیاس نبی کا مثیل ٹھہرا کر یہودیوں کے بکواس سے پیچھا چھڑایا۔

خیال کرنا چاہیئے کہ کس قدر عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کی اس حجت بازی سے دُکھ پہنچتا ہو گا جب کہ وہ بار بار کہتے تھے کہ تُو کس طرح سچا مسیح موعود ہو سکتا ہے جب کہ تجھ میں مسیح موعود کے علامات نہیں پائے جاتے کیونکہ خدا کی کتاب صاف لفظوں میں کہتی ہے کہ مسیح موعود نہیں آئے گا جب تک پہلےؔ اس سے الیاس نبی دوبارہ دنیا میں نہ آ جائے۔ اِس حجت میں بظاہر یہودی سچے تھے کیونکہ الیاس آسمان سے نازل نہیں ہوا تھا اور نہ اب تک آسمان سے نازل ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر یہودیوں نے شرارتوں اور گستاخیوں میں دلیری کی اس کی یہی وجہ تھی کہ ظاہر الفاظ کتاب اللہ کے لحاظ سے جو مسیح موعود کی علامت تھی وہ علامت حضرت مسیح میں پائی نہ گئی اور حضرت مسیح اپنے دل میں سمجھ چکے تھے کہ میرا جواب صرف تاویلی ہے جس کو یہود قبول نہیں کریں گے اس لئے انہوں نے نرم لفظوں میں کہا کہ جو الیاس دوبارہ دنیامیں آنا تھا وہ یہی یحيٰ بن زکریا ہے چاہو تو قبول کرو۔ ایسا ہی آسمان پر چڑھنے اور اُترنے کا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے معجزہ مانگا گیا تھا جس کا قرآن شریف میں ذکر ہے۔ آخر اُن کو صاف جواب دیا گیا اور خدا تعالیٰ نے فرمایا33۱؂اور عیسائیوں کو یہودی اب تک تنگ کیا کرتے ہیں کہ اگر عیسیٰ حقیقت میں مسیح موعود تھاتو کیوں الیاس نبی پہلے اس سے نازل نہ ہوا۔ عیسائی ہمیشہ اس اعتراض سے لاجواب رہتے ہیں اور ان کے سامنے بات نہیں کر سکتے۔

سو ہمارے مخالفوں کو الیاس نبی کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی سے سبق حاصل کرنا چاہیئے ایسا نہ ہو کہ یہودیوں کی طرح ان کا انجام ہو۔ مگر مماثلت پوری کرنے کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ جیسا کہ اُن سے پہلے یہودیوں نے حضرت الیاس کے دوبارہ آنے کے بارہ میں حضرت عیسیٰ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 290

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 290

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/290/mode/1up


سے بہت جھگڑا کیا تھا اور اُن کو بے دین اور کافر اور ملحد ٹھہرایا تھا اِسی طرح حضرت عیسیٰ کے دوبارہ آنے میں ان لوگوں کا مجھ سے بھی جھگڑا ہوتا۔ یہ نادان سمجھتے نہیں کہ جس شخص کے دوبارہ آنے کے لئے روتے اور مجھے گالیاں نکالتے ہیں وہی میرے دعویٰ کی اُن پر ڈگری کرتا ہے کیونکہ بعینہٖ اس بیان کے مطابق جو حضرت عیسیٰ کے دوبارہ آنے کے بارہ میں مَیں ان لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ یہی بیان حضرت عیسیٰ کا یہودیوں کے سامنے تھا۔ اور جس طرح خدا نے میرا نام عیسیٰ رکھا ہے اِسی طرح خدا نے یحییٰ نبی کا نام الیاس رکھ دیا تھا۔ اور یہی نظیر جو مذکور ہو چکی ہے ایک ایماندار کے لئے تسلّی بخش ہے۔ اور خدا بھی توفرماتا ہے۔33۱؂اور یہودی تو ایک درجہ تک معذور بھی تھے کیونکہ یہودیوں کے زمانہ میں ابھی کسی انسان کے دوبارہ آنے میں خدا تعالیٰ کی کتابوں میں فیصلہ نہیں ہواؔ تھا مگر اب تو فیصلہ ہو چکاکیا الیاس نبی ملاکی نبی کی پیشگوئی کے مطابق دوبارہ دنیا میں آ گیا تا یہ لوگ بھی حضرت عیسیٰ کے دوبارہ آنے کی امید رکھیں۔ اور صحیح حدیثوں میں تو دوبارہ آنے کا کوئی لفظ بھی نہیں صرف نزول کا لفظ ہے جو محض اجلال اوراکرام کے لئے آتا ہے۔ ہر ایک عزیز مہمان کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ جب وہ تشریف لائیں گے تو ہمارے ہاں اُتریں گے تو کیا اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ آسمان سے واپس آئیں گے واپس آنے کے لئے عربی زبان میں رجوع کا لفظ ہے نہ نزول کا۔ بڑا افسوس ہے کہ ناحق یہ عقیدہ جو عیسائی مذہب کو مدد دیتا ہے مسلمان کہلانے والوں کے گلے کا ہار ہو گیا۔

ہمارے مخالف سخت شرمندہ اور لاجواب ہو کر آخر کو یہ عذر پیش کر دیتے ہیں کہ ہمارے بزرگ ایسا ہی کہتے چلے آئے ہیں۔ نہیں سوچتے کہ وہ بزرگ معصوم نہ تھے بلکہ جیسا کہ یہودیوں کے بزرگوں نے پیشگوئیوں کے سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ان بزرگوں نے بھی ٹھوکر کھا لی اور خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت سے ایسا ہی ایک غلط عقیدہ اُن میں شائع ہو گیا جیسا کہ یہود میں یہ عقیدہ شائع ہو گیا تھا کہ الیاس نبی دوبارہ آسمان سے نازل ہو گا اور یہود کے بزرگ بڑی محبت اور شوق سے الیاس نبی کے دوبارہ آنے کے منتظر تھے اُن کی نظموں اور نثروں میں بڑے درد اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 291

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 291

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/291/mode/1up


وجد سے انتظار کی اُمیدیں پائی جاتی ہیں اور تمہارے بزرگ تو معصوم نہ تھے مگر اُن میں باوجود اس کے کہ اُن میں نبی اور خدا سے وحی پانے والے بھی تھے سب غلطی میں مبتلا رہے اور یہ عقدہ سربستہ رہا کہ الیاس نبی کے دوبارہ آنے سے کوئی اور نبی مراد ہے۔ نہ یہ کہ درحقیقت الیاس ہی نازل ہو گا۔ اور اس وقت تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے کسی نبی یا ولی کو یہ راز سربستہ سمجھ نہ آیا کہ الیاس کے دوبارہ آنے سے مراد یحییٰ نبی ہے نہ کہ درحقیقت الیاس۔ پس یہ کوئی نئی بات نہیں کہ اس ا مّت کے بعض بزرگ کسی ایک بات کے سمجھنے میں دھوکہ کھاویں۔ اور عجیب تر یہ کہ اس مسئلہ میں بھی ان بزرگوں کا اتفاق نہیں۔ بہت سے ایسے علماء گذرے ہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ کی وفات کے قائل ہیں۔ ان میں سے حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ بھی ہیں جیسا کہ لکھتے ہیں۔ قد اختلف فی عیسٰی علیہ السلام ھل ھو حیّ ؔ او میّت و قال مالک مات ۔یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا اور مالک رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ وہ مر گیا ہے۔ اور محی الدین ابن العربی صاحب اپنی ایک کتاب میں جو ان کی آخری کتاب ہے لکھتے ہیں کہ عیسیٰ تو آئے گا مگر بروزی طور پر یعنی کوئی اور شخص اس امت کا عیسیٰ کی صفت پر آجائے گا صوفیوں کا یہ مقرر شدہ مسئلہ ہے کہ بعض کاملین اسی طرح پر دوبارہ دنیا میں آ جاتے ہیں کہ اُن کی روحانیت کسی اور پر تجلّی کرتی ہے اور اس وجہ سے وہ دوسرا شخص گویا پہلا شخص ہی ہو جاتا ہے۔ ہندوؤں میں بھی ایسا ہی اصول ہے اور ایسے آدمی کا نام وہ اوتار رکھتے ہیں۔

اور یہ خیال کہ کوئی زندہ آدمی آسمان پر چلا گیا اور یا گُم ہو گیا یہ بھی ایک پُرانا خیال پایا جاتا ہے جس کے پہلے وقتوں میں کچھ اور معنے تھے اور پھر جاہلوں نے سمجھ لیا کہ درحقیقت کوئی شخص مع جسم آسمان پر چلا جاتا ہے اور پھر آتا ہے۔ سیّد احمد صاحب بریلوی کی نسبت بھی کچھ ایسے ہی خیالات اُن کے گروہ کے لوگوں میں آج تک شائع ہیں۔ گویا وہ بھی حضرت عیسیٰ کی طرح پھر آئیں گے۔ اور اگرچہ وہ پہلی آمد میں حضرت عیسیٰ کی طرح ناکام رہے مگر دوسری مرتبہ خوب تلوار چلائیں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ بڑے بڑے دعوے کر کے پھر ناکام اور نامراد دنیا سے چلے گئے اُن کی پردہ پوشی کے لئے یہ باتیں بنائی گئیں۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 292

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 292

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/292/mode/1up


ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کوئی اعتقاد نہیں رکھتا کہ آپ بھی پھر آئیں گے کیونکہ آنجناب نے اپنی آمد اوّل میں ہی کافروں کو وہ ہاتھ دکھائے جو اب تک یاد کرتے ہیں اور پوری کامیابی کے ساتھ آپ کا انتقال ہوا۔

اور معلوم ہوتا ہے کہ ابن العربی صاحب نے آخر عمر میں اپنے پہلے اقوال سے رجوع کر لیا تھا۔ اس لئے ان کا آخری بیان پہلے بیان سے متناقض ہے۔ ایسا ہی بعض اور فرقے صوفیوں کے کھلے طور پر حضرت عیسیٰ کی وفات کے قائل ہیں۔ اور ہم ابھی بیان کر چکے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے وقت صحابہ رضی اللہ عنہم کا اسی پر اجماع ہو گیا تھا جو انبیاء گذشتہ جن میں حضرت عیسیٰؔ بھی شامل ہیں فوت ہو چکے ہیں۔ اُن میں سے ایک بھی زندہ نہیں پھر جیسے جیسے مذہب اسلام میں جہالت اور بدعات پھیلتی گئیں یہ بدعت بھی دین کا ایک جزو ہو گئی کہ حضرت عیسیٰ مُردہ ارواح کی جماعت میں سے نکل کر پھر دنیا میں واپس آئیں گے۔ اِس عقیدہ نے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے کیونکہ تمام دنیا میں سے صرف ایک ہی انسان کو یہ خصوصیت دی ہے کہ وہ آسمان پر مع جسم چلا گیا اور کسی زمانہ میں مع جسم واپس آئے گا۔ یہ عقیدہ حضرت عیسیٰ کو خدا بنانے کی پہلی اینٹ ہے کیونکہ ان کو ایک خصوصیت دی گئی ہے جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔ خدا جلد یہ داغ اسلام کے چہرہ سے دُور کرے۔ آمین

بالآخر میں مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب کو محض حسبۃً لِلّٰہ نصیحت کرتا ہوں کہ آپ آخر عمر تک پہنچ گئے ہیں۔ اب خدا تعالیٰ کے مقابل پر بیہودہ چالاکیوں کو چھوڑ دیں۔ آپ نے بہت زور لگایا ہر ایک قسم کا مکر کیا اور نور کے بُجھانے کے لئے قابل شرم منصوبوں سے کام لیا مگر انجام کار نامراد رہے۔ اگر میں مفتری ہوتا تو آپ کا کہیں نہ کہیں ہاتھ پڑ جاتا اور میں کب کا تباہ ہو جاتا۔ ایسا آدمی جو ہر روز خدا پر جھوٹ بولتا ہے اور آپ ہی ایک بات تراشتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ یہ خدا کی وحی ہے جو مجھ کو ہوئی ہے۔ ایسا بدذات انسان تو کُتّوں اور سؤروں اور بندروں سے بدتر ہوتا ہے پھر کب ممکن ہے کہ خدا اس کی حمایت کرے۔ اگر یہ کاروبار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 293

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 293

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/293/mode/1up


انسان کا ہوتا اور خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو اس کا نام ونشان نہ رہتا۔ پچیس۲۵ برس بلکہ اس سے بھی زیادہ مدّت گذر گئی جب میں نے دعویٰ کیا تھا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور اگرچہ اس دعویٰ پر ایک دنیا کو مخالفت کا جوش رہا۔ مگر اے مولوی صاحب آپ نے تو میری ایذا ء میں کوئی دقیقہ کوشش کا اٹھا نہ رکھا اور آپ نہ صرف پبلک کو بلکہ ہمیشہ گورنمنٹ انگریزی کو بھی دھوکا دیتے رہے کہ یہ شخص مفتری اور گورنمنٹ کا بدخواہ ہے اور خون جیسے سنگین مقدمے میرے پر کئے گئے اور آپ ایسے مقدمات کے ثابت کرانے کے لئے خود گواہ بن کر کچہری میں حاضر ہوئے۔ اور میرے پر کفر کے فتوے لکھائے اور مجھ سے لوگوں کو بیزار کرنا چاہا۔ یہ اُس زمانہ کی بات ہے جب کہ میرے ساتھ صرف چند آدمی تھے اورؔ آپ کی مخالفانہ کوششوں کے بعد کئی لاکھ آدمی میرے ساتھ ہو گئے۔ اگر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا تو میرے تباہ کرنے کے لئے آپ کی کوششوں کی ضرورت نہ تھی۔ میں خود اپنے افترا اور شامتِ اعمال سے تباہ ہو جاتا۔ یہ بات عقلِ سلیم قبول نہیں کر سکتی کہ ایک مفتری کو ایک ایسی لمبی مہلت دی جائے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانۂ بعثت سے بھی زیادہ ہو کیونکہ اِس طرح پر امان اُٹھ جاتا ہے اور کوئی مابہ الامتیاز صادق اور کاذب میں قائم نہیں رہتا۔ بھلا اس بات کا تو جواب دو کہ جب سے میں نے دعویٰ کیا ہے کس قدر مقدمے میرے خلاف فوجداری میں اٹھائے گئے اور کوشش کی گئی کہ مجھے ماخوذ کرائیں اور آپ نے ایسے مقدمات کی تائید میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ مگر کیا کسی مقدمہ میں آپ یا آپ کا گروہ فتح یاب بھی ہوا؟ اگر مَیں صادق نہ ہوتا تو کیا وجہ کہ ہر ایک جگہ اور ہر ایک موقعہ میں خدا تعالیٰ کاذب کی ہی حمایت کرتا رہا اور جو صادق کہلاتے تھے ہر ایک میدان میں اُن کا مُنہ کالا ہوتا رہا۔ بد دعائیں کرتے کرتے سجدوں میں اُن کی ناک گھس گئی مگر دن بدن خدا میری مدد کرتا رہا اور میرے مقابل پر ان کی کوئی دُعا قبول نہ ہوئی اور آپ کا تو اب تک شیوہ رہا ہے کہ بار بار خلاف واقعہ باتیں میری نسبت اپنے رسالوں اور نیز اخباروں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 294

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 294

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/294/mode/1up


میں درج کرا کر گورنمنٹ انگریزی کو اُکساتے اور میرے پر بدظن کرنا چاہتے ہیں۔ ایسی شرارتوں سے کیا ہو سکتا ہے۔ آپ یاد رکھیں کہ ان شرارتوں میں آپ ہمیشہ نامراد رہیں گے۔ کوئی امر زمین پر نہیں ہو سکتا جب تک آسمان پر قرار نہ پاوے۔

اور اس گورنمنٹ محسن کی نسبت میرے دل میں کوئی بد اِرادہ نہیں ہے۔ میں جوان تھا اور اب بوڑھا ہو گیا ۔ قدیم سے میں نے اپنی بہت سی کتابوں میں بار بار یہی شائع کیا ہے کہ اس گورنمنٹ کے ہمارے سر پر احسان ہیں کہ اس کے زیر سایہ ہم آزادی سے اپنی خدمت تبلیغ پوری کرتے ہیں۔ اور آپ جانتے ہیں کہ ظاہری اسباب کی رُو سے آپ کے رہنے کے لئے اور بھی ملک ہیں اور اگر آپ اس ملک کو چھوڑ کر مکّہ میں یا مدینہ میں یا قسطنطنیہ میں چلے جائیں تو سب ممالک آپ کے مذہب اور مشرب کے موافق ہیں۔ لیکن اگر مَیں جاؤں تو میں دیکھتا ہوں کہؔ وہ سب لوگ میرے لئے بطور درندوں کے ہیں اِلَّا ما شاء اللّٰہ۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کا میرے پر احسان ہے کہ ایسی گورنمنٹ کے زیر سایہ مجھے مبعوث فرمایا ہے جس کا مسلک دلآزاری نہیں اور اپنی رعایا کو امن دیتی ہے مگر باوجود اس کے میں صرف ایک ہی ذات پر توکّل رکھتا ہوں اور اُسی کے پوشیدہ تصرّفات میں سے جانتا ہوں کہ اُس نے اِس گورنمنٹ کو میری نسبت مہربان بنا رکھا ہے اور کسی شریر مخبر کی پیش چلنے نہیں دی اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ قبل اس کے جومَیں اس دنیا سے گذر جاؤں۔ مَیں اپنے اُس حقیقی آقا کے سوا دوسرے کا محتاج نہیں ہوں گا اور وہ ہر ایک دشمن سے مجھے اپنی پناہ میں رکھے گا۔ فَالحمد للّٰہ اوّلًا

و اٰخرًا و ظاہرًا و باطنًا ھو ولیّ فی الدّنیا والاٰخرۃ وھو نعم المولٰی و نعم النّصیر۔ اور مَیںیقین رکھتا ہوں کہ وہ میری مدد کرے گا اور وہ مجھے ہر گز ہر گز ضائع نہیں کرے گا۔ اگر تمام دنیا میری مخالفت میں درندوں سے بدتر ہو جائے تب بھی وہ میری حمایت کرے گا۔ مَیں نامرادی کے ساتھ ہر گز قبر میں نہیں اُتروں گا کیونکہ میرا خدا میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے اور مَیں اس کے ساتھ ہوں۔ میرے اندرون کا جو اُس کو علم ہے کسی کو بھی علم



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 295

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 295

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/295/mode/1up


نہیں۔ اگر سب لوگ مجھے چھوڑ دیں تو خدا ایک اور قوم پیدا کرے گا جو میرے رفیق ہوں گے۔ نادان مخالف خیال کرتا ہے کہ میرے مکروں اور منصوبوں سے یہ بات بگڑ جائے گی اور سِلسلہ درہم برہم ہو جائے گا مگر یہ نادان نہیں جانتا کہ جو آسمان پر قرار پا چکا ہے زمین کی طاقت میں نہیں کہ اس کو محو کر سکے۔ میرے خدا کے آگے زمین و آسمان کانپتے ہیں۔ خدا وہی ہے جو میرے پر اپنی پاک وحی نازل کرتا ہے اور غیب کے اسرار سے مجھے اطلاع دیتا ہے۔ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں۔ اور ضروری ہے کہ وہ اس سِلسلہ کو چلاوے اور بڑھاوے اور ترقی دے جب تک وہ پاک اور پلید میں فرق کر کے نہ دکھلادے۔ ہر ایک مخالف کو چاہیئے کہ جہاں تک ممکن ہو اِس سِلسلہ کے نابود کرنے کے لئے کوشش کرے اورناخنوں تک زور لگاوے اور پھر دیکھے کہ انجام کار وہ غالب ہوا یا خدا۔ پہلے اس سے ابوجہل اور ابولہب اور ان کے رفیقوں نے حق کے نابود کرنے کے لئے کیا کیا زور لگاؔ ئے تھے مگر اب وہ کہاں ہیں۔ وہ فرعون جو موسیٰ کو ہلاک کرنا چاہتا تھا اب اس کا کچھ پتہ ہے ۔پس یقیناًسمجھو کہ صادق ضائع نہیں ہو سکتاوہ فرشتوں کی فوج کے اندر پھرتا ہے۔ بدقسمت وہ جو اُس کو شناخت نہ کرے۔

آپ سوچیں کہ آپ کے وہ مجدّد صاحب کہاں گئے جن کو آپ نے مجدّد کا خطاب دیا تھا اگر آسمان میں اُن کا یہ خطاب ہوتا تو وہ اپنے قول کے موافق جس کو انہوں نے حجج الکرامہ میں شائع کیا ہے اِس صدی سے پچیس۲۵ برس تک زندہ رہتے مگر وہ تو صدی کے سر پر ہی فوت ہو گئے اور جس کو آپ کاذب کہتے ہیں اس نے قریباً صدی کا چہارم حصہ پا لیا ہے۔

مَیں آپ کو محض لِلّٰہ پھر دوبارہ یاد دلاتا ہوں کہ یُوں تو ہر ایک نبی کا مخالف یہی دعویٰ کرتا ہے کہ اُس نبی سے کوئی معجزہ ظاہر نہیں ہوا اور نہ کوئی پیشگوئی اُس کی پوری ہوئی جیسا کہ ہم یہودیوں کی کتابوں میں حضرت عیسیٰ کی نسبت دیکھتے ہیں۔ اور یہی ہم عیسائیوں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 296

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 296

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/296/mode/1up


کی کتابوں میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت لکھا ہوا پاتے ہیں۔ مگر میں آپ کو نیک صلاح دیتا ہوں کہ درندگی کا طریق چھوڑ کر اب بھی آپ میری نسبت تحقیقات کر لیں۔ اوّل منقولی طور پر مجھ سے ثبوت لے لیں کہ کیا یہ ضروری نہیں کہ اس اُمّت کا مسیح اِسی امت میں سے ہونا چاہیئے اور پھر دوسرے یہ دیکھ لیں کہ کس قدر میرے دعویٰ کی تائید میں مجھ سے نشان ظاہر ہوئے ہیں اور جو کچھ کہا جاتا ہے کہ فلاں پیشگوئی پوری نہ ہوئی۔ یہ محض*افتراہے بلکہ تمام پیشگوئیاں پوری ہو گئیں اور میری کسی پیشگوئی پر کوئی ایسا اعتراض نہیں ہو سکتا جو پہلے نبیوں کی پیشگوئیوں پر جاہل اور بے ایمان لوگ نہیں کر چکے۔

اگر خدا تعالیٰ کا خوف ہو تو آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ میرے ساتھ آپ کا مقابلہ تقویٰ سے بعید ہے کیونکہ آپ لوگوں کی دستاویز صرف وہ حدیثیں ہیں جن میں سے کچھ موضوع اور کچھ ضعیف اور کچھ ان میں سے ایسی ہیں جن کے معنے آپ لوگ سمجھتے نہیں۔ مگر آپ کے مقابل پر میرا دعویٰ علیٰ وجہِ البصیرت ہے اور جس وحی نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور آنے والا مسیح موعود یہی عاجز ہے اُس پر مَیں ایسا ہی ایمان رکھتا ہوں جیسا کہ مَیں قرآن شرؔ یف پر ایمان رکھتا ہوں۔ اور یہ ایمان صرف حُسنِ اعتقاد سے نہیں

جس حالت میں قرآن شریف یعنی آیت فلمّا توفّیتنیسے حضرت عیسیٰ کی وفات ثابت ہے اور صحیح بخاری میں ابن عباس سے مُتوفّیک کے یہ معنے لکھے ہیں کہ مُمِیتک اور شاہ ولی اللہ صاحب بھی فوز الکبیر میں متوفیککے معنے مُمِیتک لکھتے ہیں اور قرآن شریف سے ثابت ہے کہ رَفع توفّی کے بعد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3 ۱؂یہ نہیں فرماتا کہ یا عیسٰی انّی رافعک الیَّ ومتوفّیک۔ اور اپنی طرف سے قرآن شریف کے لفظوں کو ان کے مواضع سے پھیرنا اس آیت کا مصداق بننا ہے کہ3۲؂ اور کوئی حدیث صحیح ثابت نہیں ہوئی کہ جو اجازت دیتی ہو کہ اس آیت میں رافعک پہلے ہے اور مُتوفّیک بعد میں۔ اس صورت میں حضرت عیسیٰ کی وفات سب طرح سے ثابت ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ آنے والا عیسیٰ اُمّتی ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ اِمَامُکُمْ مِنْکُم اور مسلم میں ہے کہ اَمّکُمْ مِنْکُمْ ۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 297

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 297

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/297/mode/1up


بلکہ وحی الٰہی کی روشنی نے جو آفتاب کی طرح میرے پر چمکی ہے یہ ایمان مجھے عطا فرمایا ہے۔ جس یقین کو خدا نے خارق عادت نشانوں کے تواتر اور معارف یقینیہ کی کثرت سے اور ہر روزہ یقینی مکالمہ اورمخاطبہ سے انتہا تک پہنچا دیا ہے اس کو میں کیونکر اپنے دل میں سے باہر نکال دوں۔ کیا میں اس نعمتِ معرفت اور علم صحیح کو ردّ کر دوں جو مجھ کو دیا گیا ہے۔ یا وہ آسمانی نشان جو مجھے دکھائے جاتے ہیں مَیں اُن سے مُنہ پھیر لوں یا میں اپنے آقا اور اپنے مالک کے حکم سے سرکش ہو جاؤں کیا کروں مجھے ایسی حالت سے ہزار دفعہ مرنا بہتر ہے کہ وہ جو اپنے حسن و جمال کے ساتھ میرے پر ظاہر ہواہے میں اس سے برگشتہ ہو جاؤں۔ یہ دنیا کی زندگی کب تک اور یہ دنیا کے لوگ مجھ سے کیا وفاداری کریں گے تا میں ان کے لئے اُس یارِ عزیز کو چھوڑ دوں۔ مَیں خوب جانتا ہوں کہ میرے مخالفوں کے ہاتھ میں محض ایک پوست ہے جس میں کیڑا لگ گیا ہے۔ وہ مجھے کہتے ہیں کہ مَیں مغز کو چھوڑ دوں اور ایسے پوست کو میں بھی اختیار کر لوں۔ مجھے ڈراتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں۔ لیکن مجھے اُسی عزیز کی قسم ہے جس کو مَیں نے شناخت کر لیا ہے کہ مَیں ان لوگوں کی دھمکیوں کو کچھ بھی چیز نہیں سمجھتا۔ مجھے اس کے ساتھ غم بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ دوسرے کے ساتھ خوشی ہو مجھے اس کے ساتھ موت بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ اُس کو چھوڑ کر لمبی عمر ہو۔ جس طرح آپ لوگ دن کو دیکھ کر اُس کو رات نہیں کہہ سکتے۔ اِسی طرح وہ نور جو مجھ کو دکھایا گیا میں اس کو تاریکی نہیں خیال کر سکتا۔ اور جب کہ آپ اپنے اِن عقائد کو چھوڑ نہیں سکتے جو صرف شکوک اور توہمات کا مجموعہ ہے تو میں کیونکر اُس راہ کو چھوڑ سکتا ہوں جس پر ہزار آفتاب چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ کیا مَیں مجنون یا دیوانہ ہوں کہ اُس حالت میں جب کہ خدا تعالیٰ نے مجھے روشن نشانوں کے ساتھ حق دکھا دیا ہے پھر بھی مَیں حق کو قبول نہ کروں۔ مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہزارہا نشان میرے اطمینان کے لئے میرے پر ظاہر ہوئے ہیں جن میں سے بعض کو مَیں نے لوگوں کو بتایا اور بعض کو بتایا بھی نہیں اور مَیں نے دیکھا کہ یہ نشان



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 298

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 298

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/298/mode/1up


خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ اور کوئی دوسرا بجز اُس وحدہٗ لا شریک کے اُن پر قادر نہیں۔

اورؔ مجھ کو ماسواء اس کے علمِ قرآن دیا گیا اور احادیث کے صحیح معنے میرے پر کھولے گئے۔ پھر مَیں ایسی روشن راہ کو چھوڑ کر ہلاکت کی راہ کیوں اختیار کروں؟ جو کچھ مَیں کہتا ہوں علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں۔ اور جو کچھ آپ لوگ کہتے ہیں وہ صرف ظنّ ہے۔ 33۱؂ اور اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے ایک اندھا ایک اونچی نیچی زمین میں تاریکی میں چلتا ہے اور نہیں جانتا کہ کہاں قدم پڑتا ہے۔ سو مَیں اس روشنی کو چھوڑ کر جو مجھ کو دی گئی ہے تاریکی کو کیونکر لے لوں۔ جب کہ مَیں دیکھتا ہوں کہ خدا میری دُعائیں سنتا اور بڑے بڑے نشان میرے لئے ظاہر کرتا اور مجھ سے ہمکلام ہوتا اور اپنے غیب کے اسرار پر مجھے اطلاع دیتا ہے اور دشمنوں کے مقابل پر اپنے قوی ہاتھ کے ساتھ میری مدد کرتا ہے اور ہر میدان میں مجھے فتح بخشتا ہے اور قرآن شریف کے معارف اور حقائق کا مجھے علم دیتا ہے تو مَیں ایسے قادر اور غالب خدا کو چھوڑ کر اس کی جگہ کس کو قبول کر لوں۔

مَیں اپنے پورے یقین سے جانتا ہوں کہ خدا وہی قادر خدا ہے جس نے میرے پر تجلّی فرمائی اور اپنے وجود سے اور اپنے کلام اور اپنے کام سے مجھے اطلاع دی۔ اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ وہ قدرتیں جو مَیں اس سے دیکھتا ہوں ۔اور وہ علم غیب جو میرے پر ظاہر کرتا ہے۔ اور وہ قوی ہاتھ جس سے مَیں ہر خطرناک موقعہ پر مدد پاتا ہوں وہ اُسی کامل اور سچے خدا کی صفات ہیں جس نے آدم کو پیدا کیا اور جو نوح پر ظاہر ہوا اور طوفان کا معجزہ دکھلایا۔ وہ وہی ہے جس نے موسیٰ کو مدد دی جب کہ فرعون اس کو ہلاک کرنے کو تھا۔ وہ وہی ہے جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سیّد الرسل کو کافروں اور مشرکوں کے منصوبوں سے بچا کر فتح کامل عطا فرمائی۔ اُسی نے اس آخری زمانہ میں میرے پر تجلّی فرمائی۔

بعض نادان جو خبیث اور بد ذات ہیں کہتے ہیں کہ وہ شیطان ہو گا جو تم پر ظاہر ہوا لعنۃ اللّٰہ علیھم الٰی یوم القیامۃ۔ یہ نادان نہیں جانتے کہ شیطان سب پر غالب نہیں مگر وہ خدا جو اپنے کلام اور کام کےؔ ساتھ میرے پر ظاہر ہوا وہ سب پر غالب ہے کوئی ہے جو اس کا مقابلہ کرے۔ مخالف مُردے ہیں اور دشمن مرے ہوئے کیڑے ہیں کوئی نہیں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 299

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 299

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/299/mode/1up


جو اُن قدرتوں کا مقابلہ کر سکے جو اُس کے کلام اور کام کے ذریعہ سے میرے پر ظاہر ہوتی ہیں وہ تمام صفتوں اور کامل قدرتوں کے ساتھ موصوف ہے نہ زمین میں نہ آسمان میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ جو ہر روز میرے پر ظاہر ہوتا اور اپنی قدرتیں مجھے دکھلاتا اوراپنے عمیق در عمیق بھید میرے پر ظاہر فرماتا ہے اگر اُس کے سوا زمین میں یا آسمان میں کوئی اور بھی خدا ہے تو تم اُس کا ثبوت دو۔ مگر تم ہر گز ثبوت نہیں دے سکتے۔ مَیں دیکھ رہا ہوں کہ اس کے سوا کوئی خدا نہیں وہی ایک ہے جس نے زمین و آسمان بنائے جب کہ وہ میرے پر آفتاب کی طرح چمک رہا ہے اور اس نے مجھے کامل بصیرت بخشی اور اپنی قدرتیں دکھلا کر اور مجھے سچا علم عطا فرما کر اپنے وجود پر مجھے علم دے دیا ہے تو میں کیونکر اس کو چھوڑ سکتا ہوں۔ میرے لئے جان کا چھوڑنا اس سے زیادہ آسان ہے کہ مَیں اس خد اکو چھوڑ دوں جس نے میرے پر تجلّی فرمائی۔

اندھا دشمن یونہی بکواس کرتا ہے اُس کو خدا کی خبر نہیں۔ اس کا دل مجذوم ہے اور آنکھیں بینائی سے محروم۔ ان لوگوں کا علم صرف اِس حد تک ہے کہ ظنّیات کا بُت پوج رہے ہیں جو کچھ ہے اُن کے نزدیک ۔۔۔ یہی بُت ہے، اس سے آگے اُن کی قسمت میں کچھ نہیں۔ اُس خدا سے جو اپنی تازہ قدرتوں سے پہچانا جاتا ہے یہ لوگ محض محروم ہیں اور اُس اندھے کی طرح کہ آگے قدم رکھتا ہے اور نہیں جانتا کہ آگے نشیب ہے یا فراز اور پاک زمین ہے یا نجاست ان لوگوں کی رفتار ہے۔

اور یہ لوگ نادانی سے ایک پہلو پر زور دیتے ہیں اور دوسرا پہلو فراموش کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ عیسیٰ نازل ہو گا اور وہ امّتی بن جائے گا۔ پس ان کے قول اور خدا کے قول میں فرق یہ ہے کہ یہ لوگ تو عیسیٰ کو اُمتّی بناتے ہیں اور خدا اُمتی کو عیسیٰ بناتا ہے۔ پس یہ* ایسا فرق نہیں تھا جس کی غلطی دور نہ ہو سکے۔ جب کہ خدا تعالیٰ کی قدرت ایک اُمّتی کو عیسیٰ بنا سکتی تھی

نہیں سوچتے کہ جس حالت میں تم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام اُمّتی رکھ دیا پھر اگر خدا تعالیٰ ایک اُمّتی کا نام عیسیٰ رکھ دے تو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ کیا حدیث امامکم منکم کے یہی معنے نہیں کہ آنے والا عیسیٰ اے اُمّتی لوگو! تم میں سے ہے نہ کسی اور قوم میں سے ۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 300

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 300

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/300/mode/1up



اورؔ اس طرح پر اِس اُمّت کی بزرگی بنی اسرائیل پر ظاہر ہو سکتی تھی تو پھر کیا ضرور تھا کہ عیسیٰ بن مریم کو آسمان سے اُتارا جائے اور خدا کے وعدہ کے برخلاف کیا جائے (کہ کوئی گیا ہوا دوبارہ دنیا میں آ نہیں سکتا)*حضرت عیسیٰ بنی اسرائیل کا آخری خلیفہ تھا۔ پس ایک اُمّتی کو عیسیٰ قرار دینا اِس کے یہ معنی تھے کہ وہ بھی اس امت کا آخری خلیفہ ہو گا اور یہود اس اُمّت کے اس پر بھی حملے کریں گے اور اس کو قبول نہ کریں گے۔ مگر ایک پیغمبر کواُمّتی قرار دینے میں کونسی حکمت ہے؟یوں تو قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر ایک نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں داخل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے 3۱؂ پس اس طرح تمام انبیاء علیہم السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اُمّت ہوئے اور پھر حضرت عیسیٰ کواُمّتی بنانے کے کیا معنے ہیں؟ اور کونسی خصوصیّت؟ کیا وہ اپنے پہلے ایمان سے برگشتہ ہو گئے تھے جو تمام نبیوں کے ساتھ لائے تھے تا نعوذ باللہ یہ سزا دی گئی کہ زمین پر اُتار کر دوبارہ تجدید ایمان کرا ئی جائے مگر دوسرے نبیوں کے لئے وہی پہلا ایمان کافی رہا۔ کیا ایسی کچی باتیں اسلام سے تمسخر ہے یا نہیں؟

بات صاف تھی کہ جس طرح یہود کے سِلسلہ خلافت کے خاتمہ پر عیسیٰ آیا تھا جس کو انہوں نے ردّ کیا اور قبول نہ کیا اسی طرح مقدر تھا کہ اسلام کے سلسلہ خلافت کے آخر پر ایک خلیفہ پیدا ہو گا جس کو مسلمان ردّ کریں گے اور قبول نہ کریں گے۔ اور اس وجہ سے وہ عیسیٰ

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔33۲؂ یعنی تم زمین پر ہی زندگی بسر کرو گے اور زمین پر ہی مرو گے اور زمین سے ہی نکالے جاؤ گے۔ پھر یہ کیونکر ممکن تھا کہ ایک شخص صد ہا برس تک آسمان پر زندگی بسر کرے اور خدا فرماتا ہے۔3۳؂ کہ تمہارے قرار کی جگہ زمین ہی رہے گی۔ پھر کیونکر ہو سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی قرار گاہ صد ہا برس سے آسمان ہواور خدا فرماتا ہے 3۴؂ یعنی زمین کو ہم نے ایسا بنایا ہے کہ ہر ایک کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے اور ہر ایک جسم کو اپنے قبضہ میں رکھتی ہے۔ پھر یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ زمین کے قبضہ سے باہرچلے گئے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 301

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 301

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/301/mode/1up


کہلائے گا کہ وہ خاتم الخلفاء ہے اور نیز عیسیٰ کی طرح ردّ کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ اِس مشابہت کے اظہار کے لئے براہین احمدیہ میں خود فرماتا ہے۔ ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا‘‘۔ پس بات تو ایک معمولی تھی۔ ہر ایک شخص ایسی مشابہت کے وقت ایک شخص کا ایسا نام رکھ دیتا ہے۔ خواہ مخواہ بات کا بتنگڑ بنایا گیا۔

اگر ہمارے مخالف اپنا عقیدہ صرف اس حد تک رکھتے کہ عیسیٰ مسیح آئے گا تو ضرور مگر انجیل کیؔ تعلیم پر قائم ہو گا۔ وہ مسلمانوں کے حلال حرام کا پابند نہ ہو گا اور اپنے طور کی نماز بھی علیحدہ پڑھے گا۔ اور بجائے قرآن شریف کے انجیل کو نماز میں پڑھے گااور اپنے تئیں مستقل طور پر پیغمبر سمجھتا ہو گا نہ اُمّتی۔ غرض ایسا شعار ظاہر نہیں کرے گا جس سے اُس کواُمّتی کہا جائے بلکہ وہ توریت اور انجیل کا پابند اور اسی راہ کا متبع ہو گا تو اس صورت میں تنقیح طلب یہ امر ٹھہرتا ہے کہ کیا ایسا شخص دوبارہ آ کر اسلام کے لئے مفید ٹھہر سکتا ہے؟ جو اپنی عملی حالتوں سے دکھلاتا ہے کہ وہ اسلام سے بالکل الگ اور اُس کا مخالف ہے اور صاف ظاہر ہے کہ ایسے انسان کا آنا مسلمانوں کے لئے اچھا نہیں کیونکہ جب کہ وہ اتنے مرتبہ کا آدمی ہو کر شعارِ اسلام سے بکلّی اپنے تئیں مخالف ظاہر کرے گا اور اس طرح نماز نہیں پڑھے گا جو مسلمان پڑھتے ہیں اور بجائے قرآن شریف کے لوگوں کو انجیل سُنائے گا اور وہ چیزیں کھائے گا جو مسلمان کھاتے نہیں اور شراب پیئے گا۔ تب بلا شبہ ایسے شخص کا وجود اسلام کے لئے بڑے فتنہ کا موجب ہو گا اور قریب ہو گا کہ اُس میں اور مسلمانوں میں کچھ دنگا فساد ہو جائے اور ایسا خطرناک وجود مسلمانوں کے لئے ایک ٹھوکر کا باعث ہو گا اور تعجب نہیں کہ عیسائی ہونے شروع ہو جائیں۔

لیکن اگر عیسیٰ آتے ہی سیدھے دل سے لَا اِلٰہ اِلّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ پڑھ لے گا اور پابند اس نماز کا ہوگا جو مسلمان پڑھتے ہیں اور اس روزہ کا پابند جو مسلمانوں کو سکھایا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 302

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 302

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/302/mode/1up


گیا اور ہر ایک حرام حلال میں اسلام پر چلے گا۔ پس اس صورت میں کیا شک ہے کہ اس حالت میں اپنے تئیں اُمّتی قرار دے دے گا۔ کیونکہ اُمّتیوں کے سروں پر کچھ سینگ تو نہیں ہوتے جب اُمّت ہونے کے سارے اعمال بجا لائے تواُمّتی بن گئے۔ غرض جب عیسیٰ علیہ السلام کو تعلیم توریت چھڑا کراُمّتی بنایا گیا تو پھر اِس صورت میں تنقیح طلب یہ امر ہو گا کہ وہ عیسیٰ جو یہود کے انبیاء کا خاتم الخلفاء تھا پھر اُسی کواُمّتی بنا کر محمدی دین کا خاتم الخلفاء بنایا ۔ کیا اس سے وہ حکمتِ الٰہیہ پوری ہو سکتی ہے جس کا ارادہ کیا گیا ہے۔

اور یہ بات عقلمندوں پر ظاہر ہے کہ بنی اسمٰعیل میں خدا تعالیٰ نے بمقابل بنی اسرائیل کے ایکؔ سِلسلہ قائم کر کے یہ چاہا کہ ہر ایک طور سے اس سلسلہ کو اسرائیلی سِلسلہ سے مشابہ اور مماثل کرے۔ پس اُس نے اِسی ارادہ سے ہمارے سیّد و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو مثیل موسیٰ بنایا جیسا کہ وہ فرماتا ہے 33333 ۱؂ یعنی ہم نے اِس رسول کو اُس رسول کی مانند بھیجا جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا۔ اور پھر آخر سلسلہ میںیہ ضرور تھا کہ خاتم الخلفاء اس امت کا عیسیٰ کا مثیل ہو جو عیسیٰ کی طرح چودھویں صدی میں مثیل موسیٰ کے بعد ظاہر ہو کیونکہ موسیٰ کے سِلسلہ کا آخری خلیفہ عیسیٰ تھا جو چودہ سو۱۴۰۰ برس بعد اس کے ظاہر ہوا اور پھر اسرائیلی سِلسلہ کے وہ یہود تھے جنہوں نے عیسیٰ کو قبول نہ کیا اس لئے خدا کے کلام نے یہ بھی وعدہ دیا کہ اس اُمت میں بھی آخری زمانہ میں جو مسیح موعود کا زمانہ ہو گا یہود سیرت پیدا ہو جائیں گے۔

اب جب کہ ظاہر ہے کہ مثیل موسیٰ عین موسیٰ نہیں اور آخری زمانہ کے یہود سیرت عین یہود نہیں تو پھر کیا وجہ کہ آنے والا وہی عیسیٰ اُتر آیا جو پہلے گذر چکا تھا۔ ایسا سمجھنا تو کتاب اللہ کے بر خلاف ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ بعض گروہ اس اُمت کے انبیاء بنی اسرائیل کے قدم پر چلیں گے اور بعض افراد اِس اُمت کے اُن یہودیوں کے قدم پر چلیں گے جنہوں نے حضرت عیسیٰ کو قبول نہیں کیا تھا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 303

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 303

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/303/mode/1up


اور صلیب دینا چاہا تھا جو مغضوب علیہم قرار پائیں گے۔ اسی واسطے خدا تعالیٰ نے پنجوقتہ نماز میں بھی یہی دُعا سکھلائی جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ فاتحہ میں یہ تعلیم فرماتا ہے۔3333 ۔۱؂ پس3سے مراد انبیاء یہود ہیں اور33سے مراد وہ یہود ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ کو قبول نہیں کیا تھا۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ اس امت میں ایسے یہود سیرت بھی ہونے والے ہیں جو حضرت عیسیٰ کے وقت تھے۔ پس ضرور ہے کہ ان کے ساتھ اِسی اُمت میں سے ایک عیسیٰ بھی ہو جس کے انکار سے وہ اُس قسم کے یہودی بن جائیں گے جو 33ہیں۔ اب وہ لوگ جو مجھ کو ملامت کرتے ہیں کہ تُو نے اپنے تئیں عیسیٰ کیوں بنایا درحقیقت یہ ملامت اُن کی طرف ہی رجوع کرتی ہے کیونکہ اگر وہ یہود نہ بنتے تو مَیں بھی عیسیٰ نہ بنتا۔ مگر ضرور تھا کہؔ خدا کا کلام پورا ہوتا۔ عجیب نادان ہیں۔ یہود بننے کے لئے آپ طیار ہیں مگر عیسیٰ کو باہر سے لاتے ہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ اسمٰعیلی سِلسلہ کی عمارت بالکل اسرائیلی سِلسلہ کے مطابق بنائی گئی ہے۔ یہی حکمت ہے کہ اس سِلسلہ کا عیسیٰ بھی خاندان بنی اسمٰعیل میں سے نہیں ہے کیونکہ مسیح بھی بنی اسرائیل سے نہیں آیا تھا۔ وجہ یہ کہ بنی اسرائیل میں کوئی اُس کا باپ نہ تھا صرف ماں اسرائیلی تھی یہی مشابہت اس جگہ موجود ہے۔ میں بیان کر چکا ہوں کہ میری بعض اُمّہات سادات میں سے تھیں اور خدا کی وحی نے بھی یہی مجھ پر ظاہر کیا اور جس طرح حضرت عیسیٰ نے باپ کے ذریعہ سے رُوح حاصل نہیں کی تھی اِسی طرح میں نے بھی علم اور معرفت کی رُوح کسی روحانی باپ سے یعنی اُستاد سے حاصل نہیں کی پس ان تمام باتوں میں مجھ میں اور حضرت عیسیٰ میں شدید مشابہت ہے۔ لہٰذا خدا تعالیٰ نے اسرائیلی سِلسلہ کے مقابل پر اسمٰعیلی سِلسلہ قائم کر کے عیسیٰ بننے کے لئے مجھے چُن لیا۔ صدرِ سِلسلہ اسلام میں حضرت سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جن کا نام



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 304

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 304

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/304/mode/1up


موسیٰ رکھا گیا جن کے ماں باپ دونوں قریش تھے۔ اور آخر سِلسلہ میں یہ عاجز ہے جو فقط ماں کے لحاظ سے قریش ہے جس کا نام عیسیٰ رکھا گیا۔

مردمِ نا اہل گو یندم کہ چوں عیسیٰ شدی

بشنو از من ایں جوابِ شاں کہ اے قومِ حسود

چوں شمارا شد یہود اندر کتابِ پاک نام

پس خدا عیسیٰ مرا کرد است از بہرِ یہود

ورنہ از روئے حقیقت تخمِ ایشاں نیستید

نیز ہم من ابن مریم نیستم اندر وُجود

گر نہ بودندے شما۔ مارا نبودے ہم اثر

از شما شد ہم ظہورم پس زِ غوغاہا چہ سُود

ہرچہ بود از نیک و بد در دینِ اسرائیلیاں

آں ہمہ در ملّت احمد نقوشِ خود نمود

قومِ مادر ہر قدم ماند بقومِ موسوی

بعض زیشاں صالحان و بعض دیگر چوں غدود

چونکہ موسیٰ شد نبی ء ما۔ کہ صدرِ دینِ ماست

لاجرم عیسیٰ شدم آخر ازاں ربّ ودود

نیز ہم اینجا یہودِ بد گہر پیدا شدند

تا بیا زا رند عیسیٰ را چو آں قومے کہ بود

الغرؔ ض آں ذوالمنن در ہر صلاح و ہر فساد

ہمچو اسرائیلیاں بر قوم ما ہر در کشود

چوں خدا نامِ رسولِ پاک ما موسیٰ نہاد

نام شد بوجہل را فرعون چوں کینش فزود

پس در اوّل چوں کلیم آمد بحکمِ کردگار

ہم پئے تکمیل عیسیٰ را در آخر شد ورُود

بعد ازیں روتا فتن از مقتضائے شقوت است

ورنہ ایں گفتارِ ما ہر شک و شبہت را ربود

پس چہ حاصل تیر ہا انداختن برصادقاں

ہر کہ از بد باز ناید نار را گردد و قُود

خلاصہ یہ کہ مَیں حق پر ہوں اور نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کے موافق میرا دعویٰ ہے اور ہزارہا نشان میری سچائی کے گواہ ہیں۔ اور آئندہ بھی طالبِ حق کے لئے نشانوں کا دروازہ بند نہیں اور جو کچھ مخالفوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ فلاں پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ یہ اُن کی نابینائی ہے۔ ورنہ سب پیشگوئیاں پوری ہو چکی ہیں اور بعض پوری ہونے والی ہیں۔ ہاں چونکہ اُن کی نظر تعصّب کے گرد و غبار کی وجہ سے موٹی ہے اس لئے وہ پیشگوئیاں جو بہت کھلی کھلی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 305

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 305

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/305/mode/1up


ہیں اُن کو وہ ماننی پڑتی ہیں اور جو پیشگوئیاں کسی قدر دقّتِ نظر کی محتاج ہیں وہ اُن کے نزدیک گویا پوری نہیں ہوئیں لیکن ایسی پیشگوئی شایددس ہز۱۰۰۰۰ار میں سے ایک ہو۔ پس کس قدر *** کا داغ اس دل پر ہے کہ دس ہزار پیشگوئی سے کچھ فائدہ نہیں اٹھاتا۔ اور بار بار ایک کُتّے کی طرح عَوعَو کرتا ہے کہ فلاں پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور نہ صرف اسی قدر بلکہ سخت بے حیائی سے ساتھ اس کے گالیاں بھی دیتا ہے۔ ایسا انسان اگر کسی پہلے نبی کے وقت میں بھی ہوتا تو کیا اس کو قبول کر لیتا ہر گز نہیں۔ کیونکہ ہر ایک نبی کی کوئی نہ کوئی پیشگوئی کافروں پر مشتبہ رہی ہے۔

اے نادان! اوّل تعصّب کا پردہ اپنی آنکھ پر سے اُٹھا۔ تب تجھے معلوم ہو جائے گا کہ سب پیشگوئیاں پوری ہو گئیں۔ خدا تعالیٰ کی نصرت ایک تُند اور تیز دریا کی طرح مخالفوں پر حملہ کر رہی ہے پر افسوس کہ ان لوگوں کو کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔ زمین نے نشان دکھلائے اور آسمان نے بھی۔ اور دوستوں میں بھی نشان ظاہر ہوئے ہیں اور دشمنوں میں بھی۔ مگر اندھے لوگوں کے نزدیک ابھی کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا۔ لیکن خدا اس کام کو ناتمام نہیں چھوڑے گا جب تک وہ پاک اور پلیدؔ میں فرق کر کے نہ دکھلاوے۔

مخالف چاہتے ہیں کہ میں نابود ہو جاؤں اور ان کا کوئی ایسا داؤ چل جائے کہ میرا نام ونشان نہ رہے مگر وہ ان خواہشوں میں نامراد رہیں گے اور نامرادی سے مریں گے اور بہتیرے اُن میں سے ہمارے دیکھتے دیکھتے مر گئے اور قبروں میں حسرتیں لے گئے مگر خدا تمام میری مرادیں پوری کرے گا۔ یہ نادان نہیں جانتے کہ جب میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے اس جنگ میں مشغول ہوں تو میں کیوں ضائع ہونے لگا اور کون ہے جو مجھے نقصان پہنچا سکے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ جب کوئی کسی کا ہو جاتا ہے تو اُس کو بھی اُس کا ہونا ہی پڑتا ہے۔

بعض یہ کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ سچ ہے کہ صحیح بخاری اور مسلم میں یہ لکھا ہے کہ آنے والا عیسیٰ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 306

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 306

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/306/mode/1up


اِسی امت میں سے ہو گا۔ لیکن صحیح مسلم میں صریح لفظوں میں اس کا نام نبی اللہ رکھا ہے۔ پھر کیونکر ہم مان لیں کہ وہ اِسی امت میں سے ہو گا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام بد قسمتی دھوکہ سے پیدا ہوئی ہے کہ نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی۔ نبی کے معنے صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہواور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہو۔ شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو۔ پس ایک امّتی کو ایسا نبی قرار دینے سے کوئی محذور لازم نہیں آتابالخصوص اس حالت میں کہ وہ امّتی اپنے اسی نبی متبوع سے فیض پانے والا ہو بلکہ فساد اس حالت میں لازم آتا ہے کہ اس اُمت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد قیامت تک مکالماتِ الٰہیہ سے بے نصیب قرار دیا جائے۔ وہ دین ۔ دین نہیں ہے اور نہ وہ نبی، نبی ہے جس کی متابعت سے انسان خدا تعالیٰ سے اس قدر نزدیک نہیں ہو سکتا کہ مکالماتِ الٰہیہ سے مشرف ہو سکے۔ وہ دین *** اور قابلِ نفرت ہے جو یہ سکھلاتا ہے کہ صرف چند منقولی باتوں پر انسانی ترقیات کا انحصار ہے اور وحیِ الٰہی آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے اور خدائے حیّ و قیّوم کیؔ آواز سُننے اور اُس کے مکالمات سے قطعی نومیدی ہے اور اگر کوئی آواز بھی غیب سے کسی کے کان تک پہنچتی ہے تو وہ ایسی مشتبہ آواز ہے کہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ خدا کی آواز ہے یا شیطان کی۔ سو ایسا دین بہ نسبت اس کے کہ اُس کو رحمانی کہیں۔ شیطانی کہلانے کا زیادہ مستحق ہوتا ہے۔ دین وہ ہے جو تاریکی سے نکالتا اور نور میں داخل کرتا ہے اور انسان کی خدا شناسی کو صرف قصّوں تک محدود نہیں رکھتا بلکہ ایک معرفت کی روشنی اس کو عطا کرتا ہے۔ سو سچے دین کا متبع اگر خود نفسِ امّارہ کے حجاب میں نہ ہو۔ خدا تعالیٰ کے کلام کو سُن سکتا ہے۔ سو ایک امّتی کو اس طرح کا نبی بنانا سچے دین کی ایک لازمی نشانی ہے۔

اور اگر نبی کے یہ معنے ہیں کہ اُس پر شریعت نازل ہو یعنی وہ نئی شریعت لانے والا ہو



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 307

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 307

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/307/mode/1up


تو یہ معنے حضرت عیسیٰ پر بھی صادق نہیں آئیں گے کیونکہ وہ شریعت محمدیہ کو منسوخ نہیں کر سکتے۔ اُن پر کوئی ایسی وحی نازل نہیں ہو سکتی جو قرآن شریف کو منسوخ کرے بلکہ ان کے دوبارہ لانے سے یہ وہم گذرتا ہے کہ شاید ان کے ذریعہ سے شریعت اسلامیہ میں کچھ تبدیل و ترمیم کیا جائے گا۔ ورنہ اگر نبی کے صرف یہ معنے کئے جائیں کہ اللہ جلّ شانہ اس سے مکالمہ و مخاطبہ رکھتا ہے اور بعض اسرار غیب کے اُس پر ظاہر کرتا ہے تو اگر ایک امّتی ایسا نبی ہو جائے تو اس میں حرج کیا ہے خصوصاً جب کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اکثر جگہ یہ امید دلائی ہے کہ ایک اُمّتی شرف مکالمہ الٰہیہ سے مشرف ہو سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کو اپنے اولیاء سے مکالمات اور مخاطبات ہوتے ہیں بلکہ اسی نعمت کے حاصل کرنے کے لئے سورۃ فاتحہ میں جو پنج۵ وقت فریضہ نماز میں پڑھی جاتی ہے یہی دعا سکھلائی گئی ہے 33 تو کسی امّتی کو اس نعمت کے حاصل ہونے سے کیوں انکار کیا جاتا ہے۔ کیا سورۃ فاتحہ میں وہ نعمت جو خدا تعالیٰ سے مانگی گئی ہے جو نبیوں کو دی گئی تھی وہ درہم و دینار ہیں۔ ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ کی نعمت ملی تھی جس کے ذریعہ سے اُن کی معرفت حق الیقین کے مرتبہ تک پہنچ گئی تھی۔ اور گفتار کی تجلّی دیدار کے قائم مقام ہو گئی تھی۔ پس یہ جوؔ دُعا کی جاتی ہے کہ اے خدا وند وہ راہ ہمیں دکھا جس سے ہم بھی اُس نعمت کے وارث ہو جائیں اس کے بجز اس کے اور کیا معنے ہیں کہ ہمیں بھی شرف مکالمہ اور مخاطبہ بخش۔

بعض جاہل اس جگہ کہتے ہیں کہ اس دُعا کے صرف یہ معنے ہیں کہ ہمارے ایمان قوی کر اور اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرما اور وہ کام ہم سے کرا جس سے تُو راضی ہو جائے۔ مگر یہ نادان نہیں جانتے کہ ایمان کا قوی ہونایااعمال صالحہ کا بجا لانا اور خداتعالیٰ کی مرضی کے موافق قدم اٹھانا یہ تمام باتیں معرفت کاملہ کا نتیجہ ہیں ۔ جس دل کو خدا تعالیٰ کی معرفت میں سے کچھ حصّہ نہیں ملا وہ دل ایمان قوی اور اعمال صالحہ سے بھی بے نصیب ہے۔ معرفت سے ہی خدا تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا ہوتا ہے۔ اور معرفت سے ہی خدا تعالیٰ کی محبت دل میں جوش



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 308

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 308

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/308/mode/1up


مارتی ہے۔ جیسا کہ دنیا میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ ہر ایک چیز کا خوف یا محبت معرفت سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ اگر اندھیرے میں ایک شیر ببر تمہارے پاس کھڑا ہو اور تم کو اس کاعلم نہ ہو کہ یہ شیر ہے بلکہ یہ خیال ہو کہ یہ ایک بکراہے تو تمہیں کچھ بھی اس کا خوف نہیں ہو گا اور جبھی کہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ یہ تو شیر ہے تو تم بے حواس ہو کر اس جگہ سے بھاگ جاؤ گے۔ ایسا ہی اگر تم ایک ہیرے کو جو ایک جنگل میں پڑا ہوا ہے جو کئی لاکھ روپیہ قیمت رکھتا ہے محض ایک پتھر کا ٹکڑا سمجھو گے تو اس کی تم کچھ بھی پروا نہیں کرو گے۔ لیکن اگر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ اس شان اور عظمت کا ہیرا ہے تب تو تم اس کی محبت میں دیوانہ ہو جاؤ گے اور جہاں تک تم سے ممکن ہو گا اس کے حاصل کرنے کے لئے کوشش کرو گے۔ پس معلوم ہوا کہ تمام محبت اور خوف معرفت پر موقوف ہے۔ انسان اس سوراخ میں ہاتھ نہیں ڈال سکتا جس کی نسبت اُس کو معلوم ہو جائے کہ اُس کے اندر ایک زہریلا سانپ ہے اور نہ اُس مکان کو چھوڑ سکتا ہے جس کی نسبت اُس کو یقین ہو جائے کہ اُ س کے نیچے ایک بڑا بھاری خزانہ مدفون ہے۔ اب چونکہ تمام مدار خوف اور محبت کا معرفت پر ہے اس لئے خدا تعالیٰ کی طرف بھی پورے طور پر اس وقت انسان جُھک سکتا ہے جب کہ اس کی معرفت ہو۔ اوّل اُس کے وجود کا پتہ لگے اور پھر اُس کی خوبیاں اور اُس کی کامل قدرتیں ظاہر ہوں اور اس قسم کی معرؔ فت کب میسّر آسکتی ہے بجز اس کے کہ کسی کو خدا تعالیٰ کا شرفِ مکالمہ اور مخاطبہ حاصل ہو اور پھر اعلام الٰہی سے اس بات پر یقین آ جائے کہ وہ عالم الغیب ہے اور ایسا قادر ہے کہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ سو اصلی نعمت (جس پر قوتِ ایمان اور اعمال صالحہ موقوف ہیں) خدا تعالیٰ کا مکالمہ اور مخاطبہ ہے جس کے ذریعہ سے اوّل اُس کا پتہ لگتا ہے اور پھر اُس کی قدرتوں سے اطلاع ملتی ہے اور پھر اس اطلاع کے موافق انسان ان قدرتوں کو بچشمِ خود دیکھ لیتا ہے۔ یہی وہ نعمت ہے جو انبیاء علیہم السلام کو دی گئی تھی اور پھر اس امّت کو حکم ہوا کہ اس نعمت کو تم مجھ سے مانگو کہ مَیں تمہیں بھی دوں گا۔ پس جس کے دل میں یہ پیاس



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 309

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 309

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/309/mode/1up


لگا دی گئی ہے کہ اس نعمت کو پاوے بیشک اس کو وہ نعمت ملے گی۔

لیکن وہ لوگ جو خدا تعالیٰ سے لا پروا ہیں خدا تعالیٰ اُن سے لا پروا ہے۔ خدا تعالیٰ کا مکالمہ اور مخاطبہ یہی تو ایک جڑ ہے معرفت کی اور تمام برکات کا سرچشمہ ہے اگر اس امّت پر یہ دروازہ بند ہوتا تو سعادت کے تمام دروازے بند ہوتے مگر مکالمات اور مخاطبات الٰہیہ سے اُس قسم کے کلمات مراد نہیں ہیں جن کی نسبت خود مُلہم متردّد ہو کہ آیا وہ شیطانی ہیں یا رحمانی۔ ایسے بے برکت کلمات جن میں شیطان بھی شریک ہو سکتا ہے شیطانی ہی سمجھنے چاہئیں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کے روشن اور بابرکت اور لذیذ کلمات شیطان کے کلمات سے مشابہ نہیں ہو سکتے اور جن دلوں میں بباعث طہارتِ کاملہ شیطان کا کچھ حصہ نہیں رہتا اُن کی وحی میں بھی شیطان کا کچھ حصہ نہیں رہتااور شیطان انہیں نجس دلوں پر اُترتا ہے جو شیطان کی طرح اپنے اندر ناپاکی رکھتے ہیں۔ پاک نفسوں پر پاک کا کلام نازل ہوتا ہے اور پلید نفسوں پر پلید کا۔

اور اگر ایک انسان اپنے الہام میں متحیّر ہے اور نہیں جانتا کہ وہ شیطان کی طرف سے ہے یا خدا کی طرف سے۔ایسے شخص کا الہام اُس کے لئے آفتِ جان ہے کیونکہ ممکن ہے کہ وہ اُس الہام کی بنا پر کسی نیک کو بد قرار دے حالانکہ وہ الہام شیطان کی طرف سے ہو اور ممکن ہے کہ کسی بد کو نیک قرار دے حالانکہ وہ سراسر شیطانی تعلیم ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک امر کو جو الہام کے ذریعہ سے اسؔ کو معلوم ہوا ہے خدا کا امر سمجھ کر بجا لاوے حالانکہ وہ شیطان نے حکم دیا ہو۔ اور اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ایک حکم شیطان کا حُکم سمجھ کر ترک کر دے حالانکہ وہ خدا تعالیٰ کا حُکم ہو۔

صاف ظاہر ہے کہ بجز ایک قطعی فیصلہ کے یعنی بجز اس امر کے کہ دل اس یقین سے پُر ہو کہ درحقیقت یہ خدا کا حکم ہے اس کے کرنے کے لئے پوری استقامت حاصل نہیں ہو سکتی خصوصاً بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ ظاہر شرع کو اُن پر کچھ اعتراض بھی ہوتا ہے جیسا کہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 310

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 310

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/310/mode/1up


خِضر کے کام پر ظاہر شرع کو سراپا اعتراض تھا۔ نبیوں کی تمام شریعتوں میں سے کسی شریعت میں یہ حکم نہیں کہ ایک بے گناہ بچہ کو قتل کر دو۔ پس اگر خضر کو یہ یقین نہ ہوتا کہ یہ وحی خدا کی طرف سے ہے تو وہ کبھی قتل نہ کرتا اور اگرموسیٰ کی ماں کو یقین نہ ہوتا کہ اس کی وحی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے تو کبھی اپنے بچہ کو دریا میں نہ ڈالتی۔

اب ظاہر ہے کہ ایسا الہام کس طرح فخر کے لائق ہو سکتا اور کس طرح اس کے ضرر سے انسان امن میں رہ سکتا ہے جس کی نسبت کبھی تو اس کا یہ خیال ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور کبھی یہ خیال ہے کہ شیطان کی طرف سے ہے۔ ایسا الہام تو آفتِ جان اور آفتِ ایمان ہے بلکہ ایک بَلا ہے جس سے کبھی نہ کبھی وہ ہلاک ہو سکتا ہے۔ خدا تعالیٰ ایسا نہیں ہے کہ اپنے اُن بندوں کو جو تعلّقاتِ نفس امّارہ سے الگ ہو کر محض اس کے ہو جاتے ہیں اور اُس کی محبت کی آگ سے تمام ماسوا اللہ کو جلا دیتے ہیں وہ اپنے ایسے بندوں کو شیطان کے پنجہ میں گرفتار کرے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ جس طرح روشنی اور تاریکی میں فرق ہے اِسی طرح شیطانی وساوس اور خدا تعالیٰ کی پاک وحی میں فرق ہے۔

بعض خشک ملاؤں کو یہاں تک انکار میں غلوّ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ مکالماتِ الٰہیہ کا دروازہ ہی بند ہے اور اس بد قسمت امّت کے یہ نصیب ہی نہیں کہ یہ نعمت حاصل کر کے اپنے ایمان کو کامل کرے اور پھر کشش ایمانی سے اعمال صالحہ کو بجا لاوے۔

ایسے خیالات کا یہ جواب ہے کہ اگر یہ امت درحقیقت ایسی ہی بد بخت اور اندھی اورؔ شرّالامم ہے تو خدا نے کیوں اس کا نام خیر الامم رکھابلکہ سچ بات یہ ہے کہ وہی لوگ احمق اور نادان ہیں کہ جو ایسے خیالات رکھتے ہیں ورنہ جس طرح خدا تعالیٰ نے اِس امّت کو وہ دُعا سکھلائی ہے جو سورۃ فاتحہ میں ہے۔ ساتھ ہی اُس نے یہ ارادہ بھی فرمایا ہے کہ اس امّت کو وہ نعمت عطا بھی کرے جو نبیوں کو دی گئی تھی یعنی مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ جو سرچشمہ تمام نعمتوں کا ہے۔ کیا خدا تعالیٰ نے وہ دُعا سکھلا کر صرف دھوکا ہی دیا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 311

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 311

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/311/mode/1up


اور ایسی ناکارہ اور ذلیل امّت میں کیا خیر ہو سکتی ہے جو بنی اسرائیل کی عورتوں سے بھی گئی گذری ہے۔

ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کی ماں اور حضرت عیسیٰ کی ماں دونوں عورتیں تھیں اور بقول ہمارے مخالفین کے نبیّہ نہیں تھیں تا ہم خدا تعالیٰ کے یقینی مکالمات اور مخاطبات ان کو نصیب تھے اور اب اگر اس امت کا ایک شخص اس قدر طہارتِ نفس میں کامل ہو کہ ابراہیم کا دل پیدا کر لے اور اتنا خدا تعالیٰ کا تابعدار ہو جو تمام نفسانی چولا پھینک دے اور اتنا خدا تعالیٰ کی محبت میں محو ہو کہ اپنے وجود سے فنا ہو جائے تب بھی وہ باوجود اس قدر تبدیلی کے موسیٰ کی ماں کی طرح بھی وحی الٰہی نہیں پا سکتا کیا کوئی عقلمند خدا تعالیٰ کی طرف ایسا بخل منسوب کر سکتا ہے۔ اب ہم بجز اس کے کیا کہیں کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔

اصل بات یہ ہے کہ جب ایسے لوگ سراسر دنیا کے کیڑے ہو گئے اور اسلام کا شعار صرف پگڑی اور ڈاڑھی اور ختنہ اور زبان سے چند اقرار اور رسمی نماز روزہ رہ گیا تو خدا تعالیٰ نے ان کے دلوں کو مسخ کر دیا اور ہزار ہا تاریکی کے پردے آنکھوں کے آگے آ گئے اور دل مرگئے اور کوئی زندہ نمونہ روحانی حیات کا اُن کے ہاتھ میں نہ رہا ناچار ان کو مکالماتِ الٰہیہ سے انکار کرنا پڑااور یہ انکار درحقیقت اسلام سے انکار ہے لیکن چونکہ دل مر چکے ہیں اس لئے یہ لوگ محسوس نہیں کرتے کہ ہم کس حالت میں پڑے ہیں۔

یہ نادان نہیں جانتے کہ اگر یہی حالت ہے تو پھر اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق کیا رہا۔ یوں تو برہمو سماج والے بھی خدا تعالیٰ کو وحدہٗ لاشریک کہتے ہیں اور تناسخ کے بھی قائل نہیں اورؔ کوئی شرک نہیں کرتے اور روزِ جزا سزا کو بھی مانتے ہیں اور کلمہ لَا الٰہ الّا اللّٰہ کے بھی اقراری ہیں۔ پھر جب کہ ان تمام باتوں میں برہمو شریک ہیں تو ایسی صورت میں کہ مسلمانوں کی ترقیات بھی اسی حد تک ہیں ان میں اور برہموؤں میں کیا فرق ہے۔ پس اگر مذہب اسلام نعوذ باللہ کوئی امتیازی نعمت عطا نہیں کرتا اور انسانی خیالات تک ہی منتہی ہوتا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 312

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 312

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/312/mode/1up


تو اس صورت میں وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مذہب نہیں ٹھہر سکتا۔ بھلا ایک شخص اسلام کے ہر ایک پاک عقیدہ کے موافق اپنا عقیدہ رکھتا ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو مفتری سمجھتا ہے جیسا کہ برہمو سماج والے سمجھتے ہیں تو اس خیال کے مسلمان اس کے آگے اپنے مذہب کا مابہ الامتیاز کیا پیش کر سکتے ہیں جو صرف قصے کہانیاں نہ ہوں بلکہ ایک ایسی مشہود و محسوس نعمت ہو جو ان کو دی گئی اور اُن کے غیر کو نہیں دی گئی۔ پس اے بد بخت اور بد قسمت قوم ! وہ وہی نعمت ہے جو مکالمات اور مخاطباتِ الٰہیہ ہیں جن کے ذریعہ سے علومِ غیب حاصل ہوتے اور خدا کی تائیدی قدرتیں ظہور میں آتی ہیں اور خدا کی وہ نصرتیں جن پر وحی الٰہی کی مہر ہوتی ہے ظاہر ہوتی ہیں اور وہ لوگ اُس مُہر سے شناخت کئے جاتے ہیں۔ اس کے سوا کوئی مابہ الامتیاز نہیں۔ اور جب تم خود مانتے ہو جو خدا دعاؤں کو سُنتا ہے۔ پس اے سُست ایمانو! اور دلوں کے اندھو! جب کہ وہ سُن سکتا ہے تو کیا وہ بول نہیں سکتا؟اور جب کہ سُننے میں اس کی کوئی ہتکِ عزّت نہیں تو پھر اپنے بندوں کے ساتھ بولنے سے کیوں اُس کی ہتک عزّت ہو گئی؟ ورنہ یہ اعتقاد رکھو کہ جیسا کہ کچھ مدّت سے الہام الٰہی پر مہر لگ گئی ہے ویسا ہی اُسی مدّت سے خدا کی شنوائی پر بھی مہر لگ گئی ہے۔ اور اب خدا نعوذ باللہ صُمٌّ بُکْمٌ میں داخل ہے۔ کیا کوئی عقلمند اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ اس زمانہ میں خُدا سُنتا تو ہے مگر بولتا نہیں۔ پھر بعد اس کے یہ سوال ہو گا کہ کیوں نہیں بولتا۔ کیا زبان پر کوئی مرض لاحق ہو گئی ہے مگر کان مرض سے محفوظ ہیں۔ جب کہ وہی بندے ہیں اور وہی خدا ہے اور تکمیلِ ایمان کے لئے وہی حاجتیں ہیں بلکہ اس زمانہ میں جو دلوں پر دہریّت غالب ہو گئی ہے بولنے کی اسی قدر ضرورت تھی جس قدر سُننے کی۔ تو پھر کیا وجہ کہ سُننے کی صفت تو اب تک ہے مگر بولنے کی صفت معطّل ہو گئی ہے۔

افسوؔ س کہ چودھویں صدی میں سے بھی بائیس۲۲ برس گذر گئے اور ہمارے دعوے کا زمانہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 313

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 313

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/313/mode/1up


اس قدر لمبا ہو گیا کہ جو لوگ میرے دعویٰ کے ابتدائی زمانہ میں ابھی پیٹ میں تھے اُن کی اولاد بھی جوان ہو گئی۔ مگر آپ لوگوں کو ابھی سمجھ نہ آیا کہ میں صادق ہوں۔ بار بار یہی کہتے ہیں کہ ہم تم کو اس وجہ سے نہیں مانتے کہ ہماری حدیثوں میں لکھا ہے کہ تیس۳۰ دجّال آئیں گے۔

اے بد قسمت قوم! کیا تمہارے حصہ میں دجّال ہی رہ گئے۔ تم ہر ایک طرف سے اس طرح تباہ کئے گئے جس طرح ایک کھیتی کو رات کے وقت کسی اجنبی کے مویشی تباہ کر دیتے ہیں۔ تمہاری اندرونی حالتیں بھی بہت خراب ہو گئیں اور بیرونی حملے بھی انتہا کو پہنچ گئے۔ صدی کے سر پر جو مجدّد آیا کرتے تھے وہ بات شائد نعوذ باللّٰہ خدا کو بھول گئی کہ اب کی دفعہ اگر صدی کے سر پر بھی آیا تو بقول تمہارے ایک دجّال آیا۔ تم خاک میں مل گئے مگر خدا نے تمہاری خبر نہ لی۔ تم بدعات میں ڈوب گئے مگر خدا نے تمہاری دستگیری نہ کی۔ تم میں سے روحانیت جاتی رہی صدق و صفا کی بُو نہ رہی۔ سچ کہو اب تم میں روحانیت کہاں ہے خدا کے تعلقات کے نشان کہاں۔ دین تمہارے نزدیک کیا ہے صرف زبان کی چالاکی اور شرارت آمیز جھگڑے اور تعصب کے جوش اور اندھوں کی طرح حملے۔ خدا کی طرف سے ایک ستارہ نکلا مگر تم نے اس کو شناخت نہ کیا اور تم نے تاریکی کو اختیار کیا اس لئے خدا نے تمہیں تاریکی میں ہی چھوڑ دیا۔

اب اس صورت میں تم میں اور غیر قوموں میں فرق کیا ہے۔ کیا ایک اندھا اندھوں میں بیٹھ کر کہہ سکتا ہے کہ تمہاری حالت سے میری حالت بہتر ہے۔

اے نادان قوم ! مَیں تمہیں کس سے مشابہت دوں۔ تم اُن بد قسمتوں سے مشابہ ہو جن کے گھر کے قریب ایک فیّاض نے ایک باغ لگایا اور اُس میں ہر ایک قسم کا پھلدار درخت نصب کیا اور اس کے اندر ایک شیریں نہر چھوڑ دی جس کا پانی نہایت میٹھا تھا۔ اور اُس باغ میں بڑے بڑے سایہ دار درخت لگائے جو ہزاروں انسانوں کو دھوپ سے بچا سکتے تھے تب اُس قوم کی اُس فیّاض نے دعوت کی جو دھوپ میں جل رہی تھی اور کوئی سایہ نہ تھا۔ اورؔ نہ کوئی پھل تھااور نہ پانی تھا تا وہ سایہ میں بیٹھیں اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 314

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 314

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/314/mode/1up


پھل کھاویں اور پانی پئیں۔ لیکن اس بد بخت قوم نے اس دعوت کو ردّ کیا اور اُس دُھوپ میں شدّتِ گرمی اور پیاس اور بھوک سے مر گئے۔ اس لئے خدا فرماتا ہے کہ اُن کی جگہ میں دوسری قوم کو لاؤں گا جو ان درختوں کے ٹھنڈے سایہ میں بیٹھے گی اور ان پھلوں کو کھائے گی اور اس خوشگوار پانی کو پیئے گی۔ خدا نے مثال کے طور پر قرآن شریف میں خوب فرمایا کہ ذوالقرنین نے ایک قوم کو دھوپ میں جلتے ہوئے پایا اور اُن میں اور آفتاب میں کوئی اوٹ نہ تھی اور اس قوم نے ذوالقرنین سے کوئی مدد نہ چاہی۔ اس لئے وہ اُسی بَلا میں مبتلا رہی۔ لیکن ذوالقرنین کو ایک دوسری قوم ملی جنہوں نے ذوالقرنین سے دشمن سے بچنے کے لئے مدد چاہی۔ سو ایک دیوار اُن کے لئے بنائی گئی اس لئے وہ دشمن کی دست بُرد سے بچ گئے۔

سو مَیں سچ مچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف کی آئندہ پیشگوئی کے مطابق وہ ذوالقرنین مَیں ہوں جس نے ہر ایک قوم کی صدی کو پایا۔ اور دھوپ میں جلنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں میں سے مجھے قبول نہیں کیا۔ اور کیچڑ کے چشمے اور تاریکی میں بیٹھنے والے عیسائی ہیں جنہوں نے آفتاب کو نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ اور وہ قوم جن کے لئے دیوار بنائی گئی وہ میری جماعت ہے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہی ہیں جن کا دین دشمنوں کے دست بُرد سے بچے گا ہر ایک بنیاد جو سُست ہے اس کو شرک اور دہریت کھاتی جائے گی۔ مگر اس جماعت کی بڑی عمر ہو گی اور شیطان اُن پر غالب نہیں آئے گا۔ اور شیطانی گروہ اُن پر غلبہ نہیں کرے گا۔ اُن کی حجت تلوار سے زیادہ تیز اور نیزہ سے زیادہ اندر گھسنے والی ہو گی اور وہ قیامت تک ہر ایک مذہب پر غالب آتے رہیں گے۔

ہائے افسوس ان نادانوں پر جنہوں نے مجھے شناخت نہ کیا۔ وہ کیسی تیرہ و تاریک آنکھیں تھیں جو سچائی کے نور کو دیکھ نہ سکیں۔ میں اُن کو نظر نہیں آ سکتا کیونکہ تعصّب نے ان کی آنکھوں کو تاریک کر دیا۔ دلوں پر زنگ ہے اور آنکھوں پر پردے۔ اگر وہ سچی تلاش میں لگ جائیں اورؔ اپنے دلوں کو کینہ سے پاک کر دیں۔ دن کو روزے رکھیں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 315

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 315

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/315/mode/1up


اور راتوں کو اُٹھ کر نماز میں دعائیں کریں اور روئیں اور نعرے ماریں تو اُمید ہے کہ خدائے کریم ان پرظاہر کر دے کہ میں کون ہوں چاہیئے کہ خدا کے استغناء ذاتی سے ڈریں۔

جب یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول نہ کیااور تعصّب اور کینہ سے باز نہ آئے تو خدا نے اُن کے دلوں پر مہر یں لگا دیں اور باوجود اس کے کہ صدہا اُن میں فقیہ اور فریسی تھے اور توریت کے عالم اور فاضل تھے تا ہم وہ نہ حقیقت کو سمجھ سکے اور نہ خدا نے کسی خواب یا الہام کے ذریعہ سے اُن پر حق ظاہر کیا۔ پس چونکہ اِس اُمّت کا بھی انہیں کے قدم پر قدم ہے اس لئے ان کی ہر گز آنکھ نہیں کُھل سکتی۔ اور نہ وہ مجھے شناخت کر سکتے ہیں جب تک کہ سچا تقویٰ اُن کے نصیب نہ ہو۔ مُنہ کی فضولیوں پر خدا راضی نہیں ہوتااس کی دلوں پر نظر ہے ہر ایک جو اپنی کسی خیانت کو چھپاتا ہے وہ اس کی عمیق نظر سے چُھپا نہیں سکتا۔ متقی وہی ہے جو خدا کی شہادتوں سے متّقی ثابت ہو کیونکہ متّقی خدا کی کنارِ عاطفت میں ایسا ہوتا ہے جیسا کہ ایک پیارا بچہ اپنی ماں کی گود میں۔ دنیا اس کو ہلاک کرنے کے لئے اُس پر ٹوٹ پڑتی ہے اور درو دیوار اس پر نیش زنی کرتے ہیں۔ لیکن خدا اُس کو بچا لیتا ہے۔ اور جیسا کہ سُورج جب نکلتا ہے تو کُھلی کُھلی کرنیں اُس کی زمین پر گرتی ہیں۔ ایسا ہی خدا تعالیٰ کی تائیدیں اور نصرتیں کُھلے طورپر متّقی کے شامل حال ہوتی ہیں۔ وہ اُس کے دشمنوں کا دشمن ہو جاتا ہے اور ان کی آنکھوں کے سامنے متّقی کو عزّت دیتا ہے جس کی ذلّت وہ چاہتے تھے۔ وہ نہ ضائع ہوتا اور نہ برباد ہوتا ہے جب تک کہ اپنا کام پورا نہ کرلے اور اُس کی مخالفت ایک تیز تلوار کی دھار پر ہاتھ مارنا ہے۔


تریٰ نصر ربّی کیف یأتی و یظھرٗ

و یسعٰی الینا کل من ھو یُبصرٗ

میرے خدا کی مدد کو تو دیکھتا ہے کیونکر آ رہی اور ظاہر ہو رہی ہے

اور ہر ایک جو آنکھیں رکھتا ہے ہماری طرف دوڑتا چلا آتا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 316

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 316

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/316/mode/1up


اتعلم مفتریًا کمثلی مؤیّدًا

و یقطع ربی کلما لا یثمرٗ

کیا تُو کسی ایسے مفتری کو جانتا ہے، جو میری طرح مؤیّد بتائید الٰہی ہو

اور میرے خدا کی یہ عادت ہے ، کہ ہر ایک شاخ کوجو پھل نہیں لاتی وہ کاٹ دیتا ہے

تقولون کذّاب و قد لاح صدقنا

بآیٍ تجلّت لیس فیھا تکدّرٗ

تم کہتے ہو کہ یہ شخص جھوٹا ہے حالانکہ میرا صدق ظاہر ہو چُکا

اُن نشانوں کے ساتھ صدق ظاہر ہوا کہ جن میں کوئی کدورت نہیں

و ھل یستوی ضوْءً ا نھارٌ و لیلۃٌ

فکیف کذوبٌ و الصدوق المُطھّرٗ

اور کیا دن اور رات روشنی میں برابر ہو سکتے ہیں

پس کیونکر ایک جھوٹااور وہ سچا جو پاک کیا گیا ہے برابر ہو جائیں گے

ففکّر و لا تعجل علینا تعصّبًا

و ان کنت لا تخشٰی فکذّب و زوّرٗ

پس سوچ اور جلدی سے ہم پر حملہ مت کر

اور اگر تُو نہیں ڈرتا پس دروغ آرائی سے تکذیب کر

و کفّر و ما التکفیر منک ببدعۃٍ

کمثلک قال السا بقون فدمّروا

اور مجھے کافر کہہ اور کافر کہنا تیری طرف سے کوئی بدعت نہیں

تیری طرح پہلے منکر بھی کافر کہتے رہے ہیں اور آخر ہلاک کئے گئے

و ھٰذا ھو الوقت الذی لک نافع

فتب قبل وقتٍ فیہ تُدعٰی و تحضرٗ

اور یہی وقت ہے جو تجھے نفع دے سکتا ہے

پس اس وقت سے پہلے توبہ کر جس میں تو بلایا جائے اور حاضر کیا جائے

و قد کبّدت شمس الھدٰی و امورنا

انارت کیأْ قوت و انت تُعفّرٗ

اور آفتاب ہدایت سمت الرأس پر آ گیا اور ہمارے کام

یاقوت کی طرح چمک اٹھے اور تو ان کو خاک آلودہ کرنا چاہتا ہے

و لو لا ثلٰث فیک تغلی لجئتنی

فمنھن جھل ثم کبر مثوّرٗ

اور اگر تین خصلتیں تجھ میں جوش نہ مارتیں تو تُو میری طرف آ جاتا

ان میں سے ایک تو جہالت ہے اور دوسری تکبّر جو جوش مار رہا ہے

و اٰخر اخلاقٍ یبیدک سمّھا

ھوالخوف من قومٍ بحُمقٍ تنفّروا

اور تیسرا خلق جس کی زہر تجھ کو ہلاک کر رہی ہے

وہ اُس قوم سے خوف ہے جو بوجہ اپنی حماقت کے نفرت کرتے ہیں

و من کان یخشی اللہ لا یخشی الورٰی

ھوالشجرۃالطوبٰی ینُورویُثمرٗ

اور جو شخص خدا سے ڈرتا ہے وہ لوگوں سے نہیں ڈرتا

وہ درخت طوبیٰ ہے پھول لاتا اور پھل لاتا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 317

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 317

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/317/mode/1up


و من کان باللّٰہ المھیمن مؤمنًا

علٰی نائبات الدھر لا یتفکّرٗ

اور جو شخص خدائے مہیمن پر ایمان لاتا ہے

وہ زمانہ کے حوادث سے کچھ متفکر نہیں ہوتا

سلامٌ علٰی قومٍ رؤا نَور دوحتی

فراق نواظر ھم وللقطف شمّروا

اور اس قوم پر سلام جس نے میرے درخت کا محض ایک شگوفہ دیکھا

اور وہ شگوفہ ان کو اچھا معلوم ہوا اور پھلوں کے توڑنے کے لئے طیار ہو گئے

فایّ غبی انت یا ابن تصلّفٍ

تریٰ ثمراتی کلھا ثم تُقصِرٗ

پس اے لاف و گزاف کے بیٹے! تُو کیسا غبی ہے

کہ میرے تمام پھلوں کو تُو دیکھتا ہے اور پھر کوتاہی کرتا ہے

سیھد یک ربّی بعد غیٍّ و شِقوۃٍ

و ذٰلک من وحی ا تانی فاُخبرٗ

عنقریب خدا تجھے گمراہی کے بعد ہدایت دے گا

اور یہ مجھے خدا تعالیٰ کی وحی سے معلوم ہوا ہے پس مَیں خبر کرتا ہوں

و نحن علمنا المنتھٰی من ولیّنا

فَقرّت بہ عَیْنِی و کنت اُذکّرٗ

اور تیرا انجام کام مجھے اپنے دوست خدا تعالیٰ سے معلوم ہوا

پس اس سے میری آنکھ کو ٹھنڈک پہنچی اور مَیں یاد دلاتا رہا

وَ وَاللّٰہ لَا انسٰی زَمانَ تعلّق

و لیس فؤادی مثل ارضٍ تحجّرٗ

اور بخدا مَیں تعلّق کے زمانہ کو بھولتا نہیں

اور میرا دل ایسا نہیں جیسا کہ زمین پتھریلی ہوتی ہے

اریٰ غیظ نفسی لاثبات لغلیہٖ

کموجٍ من الرجّاف یعلو و یحدرٗ

اور مَیں اپنے غصّہ کو دیکھتا ہوں کہ اس کو کچھ ثبات نہیں

وہ دریا کی اس موج کی طرح ہے، جو ایک دم میں چڑھتی اور اُترتی ہے

اذا احسن الانسان بعد اساء ۃٍ

فننسی الاساء ۃ و المحاسن نَذکرٗ

جب انسان بدی کے بعد نیکی کرے

پس ہم بدی کو بھلا دیتے ہیں اور نیکیوں کو یاد رکھتے ہیں

و ان قلتُ مُرًّا فی کلامٍ لطالما

رأیتُ أَذًی منکم و قلبی مکسّرٌ

اور اگر مَیں نے کسی کلام میں کچھ تلخ کہا ہے

تو مَیں ایک زمانہ دراز تم سے دُکھ اٹھاتا رہا اور دل میرا چُور چُور ہے

و ما جئتکم الّامن اللہ ذی العُلٰی

و ما قلتُ الّاکلّما کنتُ اُؤمرٗ

اور مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں اپنی طرف سے نہیں

اور مَیں نے وہی کہا ہے جو خدا نے فرمایا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 318

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 318

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/318/mode/1up


وان شاء لم اُبعَث مقام ابن مریم

ولِلّٰہِ فی اقدارہٖ ما یُحیّرٗ

اور اگر خدا چاہتا تو مَیں ابن مریم کی جگہ مبعوث نہ ہوتا

اور خدا کے اپنے قضاء و قدر میں ایسے ایسے امور ہیں جو حیران کر دیتے ہیں

و لایُسئلُ الرحمٰن عن امرٍ قضٰی

ویسئل قومٌ ضلّ عمّا تخیّروا

اور خدا اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا

اور وہ قوم جو گمراہ ہو جائے وہ پُوچھی جاتی ہے، کہ کیوں ایسا کام کیا

کذٰلک عادتہٗ جرت فی قضاۂٖ

فیختار ما یُعمی عیونا و یَأْطَرٗ

اسی طرح اس کی عادت اپنے ارادہ میں جاری ہے

پس وہ ایسے امور اختیار کرتا ہے، جن سے آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں اور ٹیڑھی کر دیتا ہے

و ما کان لی ان اترک الحق خیفۃً

جوادٌ لنا عند الوغٰی یَتَمَطَّرٗ

اور مَیں ایسا نہیں ہوں کہ حق کو ڈر کر چھوڑ دوں

ہمارا وہ گھوڑا ہے جو جنگ کے وقت جلدی سے چلتا ہے

و قالوا اذا ماالحرب طال زمانھا

لنا الفتح فانظر کیف دُقّوا و کُسّروا

اور جب ایک لڑائی لمبی ہو گئی تو وہ کہنے لگے

کہ فتح ہماری ہے پس دیکھ کس طرح وہ پیسے گئے

و ما ان رَأَینا فی المیادین فتحھم

و من غرّہ حولٌ رأیناہ یُدبرٗ

اور ہم نے میدانوں میں اُن کی فتح نہیں دیکھی

اور جس کو کسی طاقت نے مغرور کیا ہم نے اس کو پیٹھ پھیرتے دیکھا

رَأَ ینا عنایۃ حِبّنا عند اُثرۃٍ

و کل صدیقٍ فی الشدائد یُخبرٗ

ہم نے اپنے دوست کی عنایت کو سختی کے وقت دیکھا

اور ہر ایک دوست سختیوں کے وقت آزمایا جاتا ہے

أَری النفس لا تدری لغوبًا بسبُلہ

و ما اَن أَرَاھَا عند خوف تأَخّرٗ

مَیں اپنے نفس کو دیکھتا ہوں کہ اُس کی راہوں میں رُکتا نہیں

اور مَیں نہیں دیکھتا کہ وہ خوف کے وقت پیچھے ہٹے

و اِنّی نسیت الھمّ والغمّ والبلا

اذا جاء نی نصرٌ ووحی یُبشرٗ

اور مَیں نے ھمّ اور غم اور بلا کو بھلا دیا

جب اس کی مدد اور وحی بشارت دینے والی میرے پاس آئی

و اِنّا بِفضل اللّٰہ نطوی شعابنا

علٰی ھاجراتٍ مثل ریح تُصَرْصِرٗ

اور ہم خدا کے فضل سے اپنی راہ طے کر رہے ہیں

ایسی اونٹنیوں پر جو تیز ہَوا کی طرح چلتی ہیں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 319

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 319

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/319/mode/1up


لھن قوائم کالجبال کأَنّھا

سفائن فی بحر المعارف تمخرٗ

اُن اونٹنیوں کے پَیر پہاڑوں کی طرح ہیں گویا وہ

کشتیاں ہیں جو معرفت کے دریا میں تیرتی ہیں

تَدلّت علینا الشمس شمس المعارف

فکنا بضوء الشمس نمشي و ننظرٗ

معارف کا سورج ہماری طرف جُھک گیا

پس ہم سورج کی روشنی کے ساتھ چلتے اور دیکھتے ہیں

رأینا مراداتٍ تعسّر نیلھا

ترجّز غیثٌ بعد مکثٍ یحذّرٗ

ہم نے وہ مرادیں پائیں جن کا پانا مشکل تھا

آہستہ آہستہ بادل نے ہماری طرف حرکت کی بعد اُس دیر کے جو ڈراتی تھی

علیٰ ھٰذہ نیف و عشرین حجۃً

اذا اختارنی ربّی فکنت اُبشّرٗ

اس بات پر بیس برس اور کئی سال اوپر گذر گئے

جب کہ خدا نے مجھے چُن لیا اور مجھے بشارت ملنے لگی

فقال سیأْتیک الأُناس و نصرتی

و من کل فجٍّ یأتینّ وتُنصرٗ

پس اس نے کہا کہ لوگ تیری طرف آئیں گے اور تیری مدد کریں گے

اور ہر ایک راہ سے لوگ تیری طرف آئیں گے اور تو مدد دیا جائے گا

فتلک الوفود النازلون بدارنا

ھو الوعد من ربّی و ان شئت فاذکرٗ

پس یہ گروہ در گروہ لوگ جو ہمارے گھر میں اُترتے رہے ہیں

یہ وہی وعدہ خدا کا ہے اور اگر تُو چاہے تو یاد کر

و ان کنت فی ریبٍ و لا تؤمنَن بہٖ

و تحسبُ کذبًا ما اقول و اسطرٗ

اور اگر تو شک میں ہے اور اس پر ایمان نہیں لاتا

اور تو میری بات اور تحریر کو جھوٹ سمجھتا ہے

فاِنّا کتبنا فی البراھین کلّہ

امورٌ علیھا کنت من قبل تعثرٗ

پس ہم نے یہ سب الہامات براہین احمدیہ میں لکھ دیئے ہیں

یہ وہ امور ہیں جن پر تو پہلے سے اطلاع رکھتا ہے

فلا تتبع أَھواء نفسٍ مُبِیدۃٍ

و لا تختر الزّوراءَ عمدًا فتخسرٗ

پس نفس ہلاک کرنے والے کا پیرو مت بن

اور ٹیڑھی راہ کو اختیار مت کر پس تو نقصان اٹھائے گا

أَتعلم ھیْنًا عَثْرَۃ اللّٰہ ذِی العُلٰی

و اِنّ حسامَ اللّٰہ بالمَسّ یبترٗ

کیا تُو خدا سے جنگ کرنا سہل سمجھتا ہے جو بلند ہے

اور خدا کی تلوار چُھونے کے ساتھ ہی قتل کر دیتی ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 320

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 320

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/320/mode/1up


وَ اِن کنت أَزمعتَ النِّضال تَھوّرًا

فنأتی کما یأْتی لصید غَضنفرٗ

اور اگر تُو نے لڑنے کا ہی قصد کر لیا ہے

تو ہم اس طرح آئیں گے جیسا کہ شکار کے لئے شیر آتا ہے

لنا اُثرۃٌ فِی ا للّٰہ مَورٌ مُعبّد

اذا ما اُمرنا منہ لا نتأخّرٗ

اور ہمارے لئے ناخوشحالی خدا کی راہ میں ایک مستعمل راہ ہے

جب ہم کو حکم ہو جائے تو ہم تاخیر نہیں کرتے

انترک قول اللہ خوفًا من الوریٰ

انخشٰی لئام الحیِّ جبنًا و نحذرٗ

کیا لوگوں کے خوف سے خدا کے قول کو ہم ترک کر دیں

کیا ہم بُزدل ہو کر لئیم لوگوں کے قبیلہ سے ڈریں

یری اللّٰہ بادیھم و تحت ادیمھم

ولو من عیون الخلق یُخفٰی و یُستر

خدا ان کے باہر اور اندر کو خوب جانتا ہے

اگرچہ لوگوں کی آنکھوں سے وہ حالات پوشیدہ کئے جائیں

فلا تذھبَن عیناک نحو عمائمٍ

و ما تحتھا الّا رء وس تُزوّرٗ

پس نہ ہوکہ تُو ان کی پگڑیوں کو دیکھے

اُن کے نیچے ایسے سر ہیں جو فریب کر رہے ہیں

أَتطلب دنیا ھم و تبلٰی ریاضھا

و تنسٰی ریاضًا لیس فیھا تغیّرٗ

کیا تُو ان کی دنیا کو چاہتا ہے اور وہ باغ خراب و خستہ ہو جائیں گے

کیا تُو اُن باغوں کو فراموش کرتا ہے، جن میں تغیر نہیں آئے گا

و انت تظنّ بی الظنون تغیّظًا

وَ اِنّی بریءٌ من امورٍ تصوّرٗ

اور تُو اپنے غصّہ سے کئی بد گمانیاں میرے پر کرتا ہے

اور مَیں ان باتوں سے پاک ہوں جو تیرے تصور میں ہیں

نزلتُ بحرّ الدار دار مھیمن

و تاللّٰہ انّک لا ترانی و تھذرٗ

مَیں اپنے خدا کے گھر کی وسط میں داخل ہوں

اور بخدا تُو مجھے دیکھتا نہیں اور یونہی بکواس کرتا ہے

أَنَا اللیث لا أَخشی الحمیر و صوتھم

و کیف و ھم صیدی و للصید اَزء رٗ

میں شیر ہوں اور گدھوں کی آواز سے نہیں ڈرتا

اور کیونکر ڈروں وہ تو میرے شکار ہیں اور شکار کے لئے مَیں نعرے مارتا ہوں

أَ تُذعِرنی بالفانیات جھالۃً

و اِنّ اذی الدنیا یمرّ و یَطمرٗ

کیا تُو مجھے فانی چیزوں سے ڈراتا ہے یہ تو جہالت ہے

اور بہ تحقیق دنیا کا دُکھ گذر جاتا ہے اور ناپدید ہو جاتا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 321

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 321

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/321/mode/1up


و لسنا علی الاعقاب موتٌ یردّنا

ولو فی سبیل اللّٰہ نُدمٰی و نُنحرٗ

اور ہم ایسے نہیں ہیں کہ کوئی موت ہمیں خدا کی راہ سے ہٹا دے

اور اگرچہ خدا کی راہ میں ہم مجروح ہو جائیں یا ذبح کئے جائیں

تنکّر وجہ الجاھلین تغیّظًا

اذا اُعثروا من موت عیسٰی و اُخبروا

جاہلوں کا مُنہ بگڑ گیا مارے غصّہ کے

جب ان کو حضرت عیسیٰ کے مرنے کی خبر دی گئی

و قالوا کذوبٌ کافرٌ یتبع الھوٰی

و حثّوا علٰی قتلی عوامًا و عَیّروا

اور انہوں نے کہا کہ جھوٹا کافر ہے ہوائے نفسانی کی پیروی کرتا ہے

اور میرے قتل کے لئے عوام کو اُٹھایا اور سرزنش کی

فضاقت علینا الارض من شرّ حزبھم

و لو لا ید المولٰی لکنّا نُتَبَّرٗ

پس ان کے گروہ کی شرارت سے زمین ہم پر تنگ ہو گئی

اور اگر خدا تعالیٰ کا ہاتھ نہ ہوتا تو ہم ہلاک ہو جاتے

فلم یُغن عنھم مکرھم حِیْن أَشرقت

شموس عنایات القدیر فادبروا

پس اُن کے مکر نے ان کو کچھ فائدہ نہ دیا جب کہ

خدا کی مہربانیوں کے آفتاب چمکے اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے

رجَعنا و قد رُدّت الیھم رماحہم

قَضَی الأَمرَ حِبٌّ لایُبَاریہ منکرٗ

ہم واپس آئے اور ان کے نیزے انہیں کی طرف واپس کئے گئے

اُس دوست نے فیصلہ کر دیا جس کا کوئی منکر مقابلہ نہیں کر سکتا

من الضغن و الشحناء یھذون کُلّھم

و اَمری مبینٌ واضح لو تفکّروا

کینہ اور دشمنی سے تمام وہ بکواس کر رہے ہیں

اور میری بات روشن اور واضح ہے اگر وہ سوچیں

و اصل التنازع و التخالف بیننا

رخیمٌ قلیلٌ ثُمَّ باللّغو یُکثر*

اور ہم میں اور ان میں جو اختلاف ہے دراصل

وہ مختصر اور تھوڑا ہے پھر وہ لغو خیالات کے ساتھ اس کو بڑھا دیتے ہیں


* اصل التنازع فی عیسٰی علیہ السلام اعنی فی انّہ ھل ھو حَیّ او میت فذٰلک امر واضح لقوم یتفکرون قال اللہ تعالٰی33۱؂ فقدّم التوفّی علی الرفع کما انتم تقرء ون۔ فھٰذا حکم اللّٰہ۔ و من لم یحکم بما انزل اللّٰہ فاولٰٓئک ھم الکافرون۔ و لا ینبغی لاحدٍ ان یَّحرّف کلم اللّٰہ عن مواضعھا وقد لعن اللّٰہ المحرفین کما انتم تعلمون۔ثمّ الشاھد الثانی قولہ تعالٰی33۲؂ فطوبٰی لقومٍ یتدبّرون۔ ثم الشاھد الثالِث من القراٰن قولہ تعالٰی33۳؂ فبأیّ حدیثٍ بعدہٗ تؤمنون۔ولقد رأی عیسٰی نبیّناصلی اللّٰہ علیہ وسلم لیلۃ المعراج فی الاموات ثم انتم تکفرون۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 322

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 322

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/322/mode/1up


جنحنا لسلمٍ شائقین لسلمھم

و جئنا بمُرّانٍ اذا ما تشذّروا

ہم صلح کے لئے جُھک گئے اُن کی صلح کے شوق میں

اور ہم نیزہ کے ساتھ نکلے جب وہ لڑنے کے لئے طیار ہوئے

اری اللّٰہ اٰیاتٍ و لٰکن نفوسھم

نفوسٌ معوّجۃ کنارٍ تسعّرٗ

خدا نے کئی نشان دکھائے مگر اُن کے نفس

ایک ٹیڑھے نفس ہیں اور آگ کی طرح ہیں جو افروختہ ہوتی ہے

و لسنا نحب تضاغنا عند سلمھم

و مَن جاء نا سلمًا فانا نُوقّرٗ

اور اگر وہ صلح چاہیں تو ہم جنگ پسند نہیں کرتے

اور اگر کوئی صلح کا طالب ہو کر آوے تو ہم اس کی عزت کرتے ہیں

و من ھرنا فنعافہ بجزاۂٖ

و مَن جاء نا سلمًا فبالسلم نَحضرٗ

اور جو ہم سے کراہت کرے ہم اس سے کراہت کرتے ہیں

اورجو صلح کے ساتھ ہمارے پاس آئے پس ہم صلح کے ساتھ آتے ہیں

و کان عدوی بعضھم فی مساء ھم

فاضحوا بایمانٍ و رُشْدٍ وابصروا

اور بعض ان کے اپنی شام کے وقت میرے دشمن تھے

پھر دن چڑھتے ہی ایمان اور رُشد ان کو نصیب ہوا اور دیکھنے لگے

و قد زادنی فی العلم و الحلم جھلھم

و سکّنتُ نفسی عند غیظ یکرّرٗ

ان کے جہل نے میرا علم اور حلم زیادہ کر دیا

اور ان کے غصہ سے میرا جوش نفس تھم گیا وہ غصہ جو بار بار کیا جاتا ہے

و اعجبنی غیظ العِدا و جنونھم

أَرَاھم کقومٍ من غبوقٍ تخمروا

اور دشمنوں کے غصّہ اورجنون نے مجھے تعجب میں ڈال دیا

مَیں ان کو اُس قوم کی طرح دیکھتا ہوں جو رات کو شراب پی کر چور ہوتے ہیں

تبصر عدوی ھل تری من مزوّرٍ

یؤیّدہ ربّی کمثلی و ینصرٗ

اے میرے دشمن خوب غور سے نگاہ کر کیا کوئی ایسا فریبی ہے

جس کی میری طرح خدا تعالیٰ تائید اور مدد کرتا ہو

تبصّر و انّ العمر لیس بدائمٍ

کلانا و ان طال الزمان سیندر

آنکھ کھول کہ عمر ہمیشہ نہیں رہے گی

اور ہر ایک ہم میں سے اگرچہ زمانہ لمبا ہو جائے ایک دن مرے گا

فمالک لا تخشی الحسیب و نارہ

و مالک تختار الجحیم و تُؤثرٗ

پس تجھے کیا ہو گیا کہ تو خدائی محاسب سے نہیں ڈرتا

اور تجھے کیا ہو گیا کہ جہنم کو اختیار کر رہا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 323

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 323

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/323/mode/1up


أَتجعل تکفیری لکفرک مُوجبًا

و لا تتّقی یومًا الی القبر یَھصِرٗ

کیا تُو میری تکفیر کو اپنے کفر کا موجب کرتا ہے

اور اُس دن سے نہیں ڈرتا جو قبر کی طرف کھینچے گا

اذا بُغتَ فی الدنیا من العیش باردًا

فمالک لا تبغی المعادَ و تَنترٗ

اور جب کہ تُو دنیا کی زندگی میں آرام چاہتاہے

پس تجھے کیا ہو گیا کہ آخرت کا آرام نہیں چاہتا اور سُست ہو جاتا ہے

فان کنت جوعان الھدی فتحرّنا

الا اننا نقری الضیوف و ننحرٗ

پس اگر تُو ہدایت کا بھوکا ہے تو ہماری طرف قصد کر

ہم مہمانوں کی دعوت کرتے ہیں اور ان کے لئے ذبح کرتے ہیں

إِذَا أَشرقت شمس الھدی و ضیاء ھا

تجلّٰی فلیس الفخران صرت تُبصرٗ

جب ہدایت کا سورج چمکا اور اس کی روشنی کھل گئی

تو پھر یہ فخر کی بات نہیں کہ تُو دیکھنے لگے

و لو کان خوف اللہ مثقال ذرۃٍ

لو افیتنی والسَیلَ بالصدقِ تعبرٗ

اور اگر ذرّہ کے موافق خدا تعالیٰ کا خوف ہوتا تو

تُو میرے پاس آتا اور اپنے صدق کے ساتھ سیلاب کو اپنے نفس سے دُور کرتا

بلَمَّاعۃٍ قَفرٍ رضیت جھالۃً

و تسعٰی لفانیۃٍ و فی الدین تُقصِرٗ

زمین سراب جو سبزہ سے خالی ہے اُس سے تُو خوش ہو گیا

اور فانی دنیا کے لئے تُو دوڑ رہا ہے، اور دین میں تُو کوتاہی کرتا ہے

أَ۔ثَرْتَ غبارًا للاناس لیحسبوا

وجودی مُضِلًّا للورٰی ولیَکفروا

تُونے لوگوں کے لئے ایک غبار اٹھایا

تامیرے وجود کو گمراہ کرنے والا خیال کریں اور منکرہوجائیں

فاَلْھَمَ لی ربّی قلوبًا لیرجعوا

الیّ فصرنا مرجع الخلق فانظرٗ

پس میرے خدا نے دلوں میں الہام کیا تا وہ میری طرف رجوع کریں

پس ہم مرجع خلائق ہو گئے سو تُو دیکھ لے

کبَیْتٍ اذا طاف المُلبّون حولہ

اُزارُ ولی تؤذی النفوس و تُنْحَرٗ

پس جس طرح خانہ کعبہ کا لوگ طواف کرتے ہیں

مَیں زیارت کیا جاتا ہوں اور میری جماعت کے لوگ میرے لئے دُکھ دیئے جاتے اور ذبح کئے جاتے ہیں

تریدون توھینی و ربّی یُعزّنی

تریدون تحقیری و ربّی یُوقّرٗ

تم میری اہانت چاہتے ہو اور میرا خدا مجھے عزّت دیتا ہے

اور تم میری تحقیر چاہتے ہو اور میرا خدا میری بزرگی ظاہر کرتا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 324

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 324

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/324/mode/1up


أَ تبغی بمکرک ذلّتی و ھلاکتی

فذٰلک قصدٌلستَ فیہ مظفّرٗ

کیا تُو اپنے مکر کے ساتھ میری ذلّت اور ہلاکت چاہتا ہے

پس یہ وہ قصد ہے جس میں تُو کامیاب نہیں ہو گا

فدع ایّھا المجنون جھدًا مضیّعا

کمثلی نخیلٌ باسق لایُبعکَرٗ

پس اے دیوانہ اس بیہودہ کوشش کو جانے دے

میرے جیسی بلند کھجور کاٹی نہیں جائے گی

أَ۔تکفر باللّٰہ الجلیل و قدرہ

أَتحسب کالشیطان انّک اَقدرٗ

کیا تو خدا اور اس کی قدرت سے انکار کرتا ہے

کیا تُو شیطان کی طرح سمجھتا ہے کہ تُو زیادہ قادر ہے

تسبّ و ما ادری علٰی ما تسبّنی

أَتطلب ثَأْرًا ثَأْرَجدٍّ مُدمّرٗ

تو مجھے گالیاں دیتا ہے اور مَیں نہیں جانتا کہ کیوں دیتا ہے

کیا میں نے تیری کسی جدّ کا خون کیا ہے جس کا پاداش تُو لینا چاہتا ہے

ترانی بفضل اللہ مرجع عالمٍ

و ھل عند قفر من حمامٍ یُھدّرٗ

اورتُو مجھے دیکھتا ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کے فضل سے مخلوق کا مرجع ہوں

اور کیا ایک ویرانہ زمین میں کبوتر خوش آوازی سے گاتا ہے

و لا یستوی عبد شقی و مقبل

لحاک الحسیبُ تری القبول و تنکرٗ

اور ایک محروم اور مقبول دونوں برابر نہیں ہو سکتے

خدا تجھے ملامت کرے تو قبولیت کو دیکھتا ہے، اور پھر منکر ہوتا ہے

و انت الذی قلّبت کل جریمۃٍ

عَلَیَّ کَأَنّی شرّ ناسٍ و أَفجرٗ

اور تُوتو وہ ہے جس نے تمام جرائم میرے پر اُلٹا دیئے

گویا مَیں بدترین مخلوقات اور سب سے زیادہ بدکار ہوں

فمالک لا تخشی الحسیب و قھرہ

و این تقاۃٌ تدّعی یا مُزوّرٗ

پس تجھے کیا ہو گیا کہ تُو خدائے محاسب کے قہر سے نہیں ڈرتا

اور تیری تقویٰ کہاں گئی جس کا تُو دعویٰ کرتا تھا

و انّکَ ان عادیتنی لا تضرّنی

و ان صِرتَ ذِئبًا او بغیظٍ تنمّرٗ

اور اگر تُو دشمنی کرے تو مجھے نقصان نہیں پہنچا سکے گا

اگرچہ تُو بھیڑیا ہو جائے یا چیتا بن جائے

وماالدّھر الّا تارتان فمنھما

لک التارۃ الاولٰی باخریٰ نؤَزّرٗ

اور زمانہ کے لئے صرف دو نوبتیں ہیں

سو پہلی نوبت تیری ہے اور دوسری ہماری جس میں ہمیں مدد دی جائے گی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 325

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 325

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/325/mode/1up


و ما النفس یا مسکین الّا ودیعۃٌ

و لا بُدّ یومًا ان تُردّ و تحضرٗ

اور اے مسکین جان تو ایک امانت ہے

اور ایک دن ضرور ہے کہ تُو واپس کیا جائے اور حاضر کیا جائے

أَتبغی الحیاۃ و لا ترید ثمارھا

و ما ھی الّا لعنۃٌ لو تفکّرٗ

کیا تو زندگی چاہتا ہے اور اُس کے پھل نہیں چاہتا

اور بغیر پھل کے زندگی ایک *** ہے اگر تُو سوچے

اغرّتک دنیاک الدنیّۃ زینۃً

حذارِ من الموت الذی ھو یبدرٗ

کیا تیری ذلیل دنیا نے تجھے مغرور کر دیا

اس موت سے ڈر جو یکدفعہ تیرے پر وارد ہو گی

تُرید ھوانی کل یومٍ ولیلۃ

و تبغی لوجہٍ مشرقٍ لَو یُغبّرٗ

ہر ایک دن اور رات تُو میری ذلّت چاہتا ہے

اور روشن مُنہ کے لئے تو چاہتا ہے، کہ وہ غبار آلودہ ہو جائے

و انّا و انتم لا نغیب من الذی

یَرَی کلما ننوی و ما نتصوّرٗ

اور ہم اور تم اس ذات سے پوشیدہ نہیں ہیں

جو ہمارے وہ تمام خیالات دیکھتا ہے جو ہمارے دل میں ہیں۔

و ما المَرء اِلّا کالحباب وجودہ

فان شئتَ نَم فالموت کالصبح یُسفرٗ

اور انسان تو محض بلبلہ کی طرح اس کا وجود ہے

پس اگر چاہے تو سو جا پس موت صبح کی طرح ظاہر ہو جائے گی

لدی النخل و الرّمان تنقف حنظلًا

فایّ غبیّ منک فی الدّھر اکبرٗ

تُو کھجور اور انار کو چھوڑ کر حنظل کو توڑ رہا ہے

پس تجھ سے زیادہ بدبخت اور کون ہو گا

و این ضیاء الصدق ان کنت صادقًا

و کل صدوقٍ بالعلامات یظھرٗ

اور صدق کی روشنی کہاں ہے اگر تُو صادق ہے

اور ہر ایک صادق علامات سے ظاہر ہوتا ہے

اتؤذی عباداللّٰہ یا عابد الھَوَی

و لا تتّقی ربًّا علیمًا و تجسرٗ

کیا تو خدا کے بندوں کو اے بندۂ ہَوا دُکھ دیتا ہے

اور خدائے علیم سے نہیں ڈرتا اور دلیری کرتا ہے

اولٰئک قومٌ قد تولّٰی امورھم

قدیرٌ یُوالیھم ویھدی و ینصرٗ

یہ ایک قوم ہے کہ ان کے کاموں کا متولّی

ایک قادر ہے جو اُن سے دوستی رکھتا ہے اورا نہیں ہدایت کرتا ہے اور مدد دیتا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 326

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 326

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/326/mode/1up


و تااللّٰہ للایّام دَورٌ و نوبۃٌ

فجئنا بایّام الھدی و نُذکّرٗ

اور بخدا دنوں کے لئے ایک دَور اور نوبت ہے

پس ہم ہدایت کے دنوں میں آئے اور ہدایت کی راہ یاد دلاتے ہیں

ترٰی بدعات الغیّ و النَقْعَ ساطعًا

و ما انا الّا غیث فضلٍ فاَمطُرٗ

تُوگمراہی کی بدعات کو اور گرد بر انگیختہ کو دیکھتا ہے

اور مَیں فضل کا مینہ ہوں جو برس رہا ہوں

و لستُ بفظٍّ کاھرٍ غیر انّنی

اذا استنفرا لا عداءُ بالکَھرِ اَنفِرٗ

اور مَیں بد زبان اور تُرش رو نہیں ہوں مگر مَیں

جس وقت دشمن تُرش روئی کے ساتھ مجھ سے نفرت کرتے ہیں تو مَیں بھی نفرت کرتا ہوں

رأینا الأَعاصیر الشدیدۃ والأَذٰی

وصرنا کوحشٍ عند قومٍ یُکَفّرٗ

ہم نے سخت آندھیاں دیکھیں اور دُکھ دیکھا

اور ہم کافر کہنے والوں کی نظر میں وحشی جانوروں کی طرح ٹھہرے

و ما نحذر الأَمر الذی ھو واقع

من اللّٰہ مولانا ولو کان خنجرٗ

اور ہم اُس امر سے نہیں ڈرتے کہ وہ واقع ہونے والا ہے

ہمارے خدا وند کی طرف سے اور اگرچہ وہ تلوار ہو

کفی اللہ علمًا بالعباد و سِرّھم

فلا تقف ظنًّا لستَ فیہ تبصّرٗ

بندوں کے بھیدوں کا علم خاص خدا کو ہے

پس تُو ایسے ظن کی پیروی مت کر جس میں تجھے بصیرت نہیں

و ما کنتَ فی ایذاء نفسی مُقصّرًا

تمنّیتَ عند جدارنا لو تسوّرٗ

اور تُو نے میرے ایذاء دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی

تو نے میری دیوار کے پاس تمنّا کی کہ تو دیوار سے جست کر کے چلا جاوے

و واللّٰہ اِن اُجعَل علیک مسلّطًا

فاِنّ یدِی عمّا یجازیک تُقصِرٗ

اور بخدا اگر مَیں تیرے پر مسلّط کیا جاؤں

تو میرا ہاتھ تجھے سزا دینے سے قاصر رہے گا

و واللّٰہ لی فی باطن القلب مُضمَرٌ

سریرۃ اِشفاق و لو انت تُنکِرٗ

اور بخدا میرے دل میں پوشیدہ ہے

خصلت ہمدردی کی اگرچہ تو انکار کرے

أَتَتْنِیْ أمورٌ منک قد شَقّ وقعھا

علیّ و لا کالسّیف بل ھی أَبھرٗ

بعض باتیں تیری میرے تک پہنچی ہیں جو میرے پر بہت گراں گذریں

نہ تلوار کی طرح بلکہ کاٹنے میں اس سے بھی زیادہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 327

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 327

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/327/mode/1up


و ما کان لی ان اترک الحق خیفۃً

انا المنذر العُریان لِلّٰہ اُنذرٗ

اور مَیں وہ نہیں ہوں کہ جو حق کو ڈر کر چھوڑ دوں

مَیں ایک برہنہ طور پر ڈرانے والا ہوں اور محض خدا کے لئے ڈراتا ہوں

و ان کنت تزرینا فنبغی لک الھُدٰی

صبرنا و ان تُغری العدا او تھتّرٗ

اور اگر تو ہماری عیب جوئی کرتا ہے تو ہم تیرے لئے ہدایت چاہتے ہیں

اور ہم صبر کرتے ہیں اگرچہ تو دشمنوں کو ہم پر اکساوے یا ہماری بے آبروئی کرے۔

و ان کنت منّی تشتکی فی مقالۃٍ

فما ھو اِلّا دون سیفٍ تُشھّرٗ

اور اگر تُو مجھ سے کسی کلام کے بارے میں رنجیدہ ہے

تو وہ اس تلوار سے کمتر ہے جو تُو کھینچ رہا ہے

فلا تجز عَن من کلمۃٍ قلتَ ضعفھا

و انّک للایذاء بالسوء تجھرٗ

پس ایسے کلمہ سے جزع مت کر جو اس سے دو چند تُو کہہ چکا ہے

اور تُو ایذاء کے لئے کھلے کھلے طور پر ستاتا ہے

اضیف الینا مِن عمایاتِ قومنا

فساد و کفر و افتراءٌ مُجعثرٗ

ہماری طرف قوم کی نابینائی سے منسوب کیا گیا

فساد اور کفر اور افتراء جو اکٹھا کیا گیا تھا

کَأَنَّا جعلنا عادۃً کل لیلۃٍ

نُرقّع ثوب الافتراء و نَنشرٗ

گویا ہم نے یہ عادت کر رکھی ہے کہ ہر ایک رات

ہم افتراء کا کپڑا پیوند کرتے ہیں اور پھر اس کو پھیلادیتے ہیں اور شہرت دے دیتے ہیں

صبرنا علٰی ایذاء ھم و عُواء ھم

و کلّ خفیٍّ فی العواقب یظھرٗ

ہم نے ان کی ایذاء اور بکواس پر صبر کیا

اور ہر ایک پوشیدہ امر انجام کار ظاہر ہو جاتا ہے

عجبتُ لِاَعْدَاءِی یصولون کلھم

و لو کان منھم جاھلٌ أَوْ مزوّرٗ

مجھے دشمنوں سے تعجب آتا ہے کہ سب میرے پر حملہ کر رہے ہیں

اگرچہ ان میں سے کوئی جاہل ہو یا دروغ کو آراستہ کرنے والا ہو

و ھل یصقل الایمان او یکشف العمٰی

أَقَاویلُ قومٍ لیس معھم تطھّرٗ

اور کیا ایمان کو صیقل کر سکتے ہیں یا نابینائی کو دُور کر سکتے ہیں

ایسی قوم کے اقوال جن کے ساتھ پاکیزگی نہیں

یفرّون منّی و الظنونُ تعفّنت

و ما اَن اری اھل النھٰی یستنفرٗ

مجھ سے وہ لوگ بھاگتے ہیں اور ان کے ظن سڑ گئے

اور مَیں عقلمند کو نہیں دیکھتا جو مجھ سے نفرت کرے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 328

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 328

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/328/mode/1up


و اوذِیتُ من عُمی و لکن کمثلھم

تعامٰی عنادًا من رأیناہ ینظرٗ

اور مَیں نے اندھوں سے دُکھ اٹھایا مگر ان کی طرح

وہ شخص بھی بناوٹ سے اندھا ہو گیا جس کو ہم جانتے ہیں جو سوجاکھا ہے

تری الارض والاموال مبلغ ھَمِّھم

و زرعًا و دین اللہ نبتٌ مُشَرشَرٗ

تو دیکھے گا کہ ان کی انتہائی مراد زمین اور مال اور کھیتی ہے

اور خدا کا دین اُس بُوٹی کی طرح ہو گیا ہے، جس کو اوپر سے مویشی کھالیں

و تدری الیھودَ و ما رؤا فی مآلھم

کذالک فیھم سنّۃٌ لا تغیّرٗ

اور تُو یہود کو جانتا ہے اور یہ کہ ان کا کیا حال ہوا

اِسی طرح اس قوم میں خدا کی سنّت ہے جو بدلی نہیں جائے گی

أَرَی کل یومٍ فی الفجور زیادۃً

یقِلّ صلاح الناس و الفسق یکثرٗ

مَیں ہر ایک روز بدکاریوں میں زیادتی دیکھتا ہوں

صلاحیت کم ہے اور فسق بڑھتا جاتا ہے

أَرَی کلّھم مُستأْنسین بظلمۃٍ

و فسقٍ و عن دارالعفاف تقتروا

مَیں اُن کو دیکھتا ہوں کہ ظلمت کے ساتھ مانوس ہو گئے ہیں

اور فسق کے ساتھ مانوس ہیں اور عفت سے دُور ہو رہے ہیں

شعرتُ لھم لمّا رأیت مزیۃً

لھم فی ضلال و اعتسافٍ تخیّروا

مَیں نے ان کے لئے نظم میں یہ باتیں لکھیں جب کہ مَیں نے

اُن میں گمراہی اور حد سے بڑھنے میں زیادتی دیکھی

یریدون ان اُعفٰی و اُفنٰی و اُبتر

و ما ھو الّا ھَرّ کلبٍ فیھطرٗ

چاہتے ہیں کہ مَیں مٹا دیا جاؤں اورفناکیاجاؤں اور کاٹ دیا جاؤں

مگر یہ صرف ایک کُتّے کی آواز ہے جو آخر ہلاک کیا جاتاہے

و من کان نجمًا کیف یخفٰی بریقہ

و من صار بدرًا لا محالۃ یبھرٗ

اور جو ستارہ ہو اس کی روشنی کیونکر چُھپ سکے

اور جو بدر بن گیا وہ غالب آجائے گا

و انّی ببرھانٍ قویٍّ دعوتُھم

و انّی من الرحمٰن حَکَمٌ مُغَذْمِرٗ

اور مَیں نے ایک قوی حجت کے ساتھ اُن کو بلایا ہے

اور مَیں خدا کی طرف سے اختلاف کا فیصلہ کرنے والا آیا ہوں

و قد جئتُ فی بدر المئین لیعلموا

کما لی و نوری ثم ھم لم یَبْصُرُوا

اور میں ان کے پاس چودھویں صدی میں آیاجو صدیوں کی بدر ہے

تا کہ وہ میرا کمال اور میرا نور جان لیں۔ پھر وہ نہیں دیکھتے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 329

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 329

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/329/mode/1up


أَلالَیت شعری ھل رؤامن تجسّسٍ

من الکذب فی امری فکیف تصوّرٗ

کاش انہیں سمجھ ہوتی کیا انہوں نے تجسّس کے بعد

میرے کام میں کچھ جھوٹ ثابت کیا پس کیونکر تصوّر کر لیا

و اِنّ الوَرَی من کلّ فجٍ یجیئنی

و یسعٰی الینا کلّ من کان یُبصرٗ

اور مخلوق ہر ایک راہ سے میرے پاس آ رہی ہے

اور ہر ایک دیکھنے والا میری طرف دوڑ رہا ہے

و کم من عبادٍ اٰثرونی بصدقھم

علی النفس حتّٰی خُوّ فوا ثمّ دُمّروا

بہت سے بندے ایسے ہیں جنہوں نے اپنی جان پر مجھ کو اختیار کر لیا

یہاں تک کہ ڈرائے گئے پھر قتل کئے گئے

و من حزبنا عبداللطیف فانّہ

أَرَی نور صدقٍ منہ خلق تھکّرو*ا

اور ہمارے گروہ میں سے مولوی عبداللطیف ہیں کیونکہ اُس نے

اپنے صدق کا نور ایسا دکھلایا کہ اُس کے صدق سے لوگ حیران ہو گئے


عبداللطیف جن کا شعر میں ذکر ہُوا ہے وہ صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کے نام سے موسوم ہیں اور ملک کابل میں اُن کو شاہزادہ مولوی عبداللطیف بھی کہتے ہیں۔ یہ ایک بڑے خاندان کے رئیس اور صاحبِ علم و فضل وکمال تھے۔ اور پچاس ہز۵۰۰۰۰ار کے قریب ان کے متبعین اور شاگرد اور مرید تھے۔ علمِ حدیث کی تُخم ریزی اور اشاعت اُس ملک میں مولوی صاحب موصوف کے ذریعہ سے بہت سی ہوئی تھی۔ اور باوجود اس قدر علم اور فضل اور کمال کے جس کی وجہ سے و ہ ان ملکوں میں لاثانی شمار کئے جاتے تھے۔ انکسار اور فروتنی اُن کے مزاج میں اس قدر تھی کہ گویا عُجب اور تکّبر کی قوت ہی اُن میں پیدا نہیں ہوئی تھی درحقیقت سرزمینِ کابل میں (جو سخت دلی اور بے مہری اور تکبر اور نخوت میں مشہور ہے) ایسے بے نفس اور متواضع اور راستباز انسان کا وجود خارق عادت امر ہے۔

غرض سعادت ازلی مولوی صاحب ممدوح کو کشاں کشاں قادیان میں لے آئی اور چونکہ وہ ایک انسان روشن ضمیر اور بے نفس اور فراست صحیحہ سے پورا حصہ رکھتا تھا۔ اور علمِ حدیث اور علمِ قرآن سے ایک وہبی طاقت ان کو نصیب تھی اور کئی رؤیائے صالحہ بھی وہ میرے بارے میں دیکھ چکے تھے اس ؔ لئے چہرہ دیکھتے ہی مجھے انہوں نے قبول کر لیا اور کمال انشراح سے میرے دعوی ئ مسیح موعود ہونے پر ایمان لائے اور جان نثاری کی شرط پر بیعت کی۔ اور ایک ہی صحبت میں ایسے ہو گئے کہ گویا سالہا سال سے میری صحبت میں تھے اور نہ صرف اس قدر بلکہ الہام الٰہی کا سلسلہ بھی اُن پر جاری ہو گیا اور

واقعات صحیحہ اُن پر وارد ہونے لگے اور ان کا دل ماسوا اللہ کے بقایا سے بکلّی دھویا گیا۔ پھر وہ اس جگہ سے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 330

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 330

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/330/mode/1up


جزی اللّٰہ عَنّادائمًا ذٰلکَ الفتٰی

قضٰی نحبہ لِلّٰہ فاذکر و فکّرٗ

خدا ہم سے اس جوان کو بدلہ دے

وہ اپنی جان خدا کی راہ میں دے چکا پس سوچ اور فکر کر

عباد یکون کمُبسراتٍ وجودھم

اذا ما اتوا فالغیث یأتی و یمطرٗ

یہ وہ بندے ہیں کہ مان سون ہوا کی طرح ان کا وجود ہوتا ہے

جب آتے ہیں پس ساتھ ہی بارش رحمت کی آتی ہے

أَتَعلم اَبْدَالًا سواھم فانھم

رمُوا بالحجارۃِ فاستقاموا و اَجمروا

کیا تو ان کے سوا کوئی اور لوگ ابدال جانتا ہے کیونکہ وہ لوگ

وہ لوگ ہیں جن پر پتھر چلائے گئے پس انہوں نے استقامت اختیار کی اور ان کی جمعیت باطنی بحال رہی

معرفت اور محبت الٰہیہ سے معمور ہو کر واپس اپنے وطن کی طرف گئے اور ان کے گھر پہنچنے پر امیر کابل کے پاس مخبری کی گئی کہ وہ قادیان گئے اور بیعت کر کے آئے ہیں اور اب اعتقاد رکھتے ہیں کہ مسیح موعود اور مہدی معہود جو آنے والا تھا وہی اُن کا مرشد ہے اس مخبری پر مصالح ملکی کی بنا پر مولوی صاحب موصوف گرفتار کئے گئے اور ایک بڑا زنجیر اُن کے پاؤں میں ڈالا گیا اور کابل کے علماء نے فتویٰ دیا کہ اگر یہ شخص توبہ نہ کرے تو واجب القتل ہے اور سر زمین کابل کے مولویوں سے ان کی بحث کرائی گئی اور ہر ایک بات میں مولویوں کو انہوں نے لاجواب کیااور پھر یہ عذر اٹھایا گیا کہ یہ شخص جہاد کا بھی منکر ہے۔ اور یہ اعتراض سچ تھا۔ کیونکہ میری تعلیم یہی ہے کہ یہ وقت تلوار چلانے کا وقت نہیں بلکہ اس زمانہ میں پُر زور تقریروں اور دلائل ساطعہ اورحجج باہرہ اور دعاؤں کے ساتھ جہاد کرنا چاہیئے۔ غرض اس آخری اعتراض میں مولوی صاحب موصوف ملزم ٹھہر گئے امیر کابل نے کئی مرتبہ فہمائش کی کہ آپ صرف اس شخص کی بیعت سے دست بردار ہوؔ جائیں جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتااور مسئلہ جہاد بالسیف کا مخالف ہے۔ تو پھر آپ بَری ہیں بلکہ آپ کی عزت اور عظمت اور بھی کی جائے گی مگر مولوی صاحب نے قبول نہ کیا اور کہا کہ مَیں نے آج ایمان کو اپنی جان پر مقدم کر لیا ہے اور مَیں جانتا ہوں کہ جس کی مَیں نے بیعت کی ہے وہ سچا ہے اور روئے زمین پر اُس جیسا دوسرا نہیں۔ اور پھر جب اُن کی توبہ سے نومیدی ہوئی تو بڑی بے رحمی سے سنگسار کئے گئے۔ دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ آج تک ان کی قبر میں سے مشک کی خوشبو آتی ہے۔ رحمہ اللّٰہ و أَدخلہ فی جنانہ۔ جب وہ پکڑے گئے تو کہا گیا کہ اولاد اور بیوی سے ملاقات کر لو۔ فرمایا کہ مجھے کچھ ضرورت نہیں۔ ان کے بارے میں خاص ایک رسالہ چھپ چکاہے۔ رضی اللّٰہ عنہ۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 331

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 331

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/331/mode/1up


تجلّی علیھم ربھم ربُّ ما بدا

فَفرّوا الی النور القدیم و اَبدروا

اُن پر ان کا خدا متجلّی ہُوا جو تمام مخلوقات کا خدا ہے

پس وہ نور قدیم کی طرف جلدی سے بھاگے

تَرَاھُمْ تفیض دموعھم من صَبابۃٍ

و فی القلب نیرانٌ و رأسٌ مُغبّرٗ

تو دیکھے گا ان کو کہ ان کے آنسو جاری ہیں غلبہ محبتِ الٰہی سے

اور دل میں طرح طرح کی آگ ہے اور سر پر غبار ہے

انارت بنور الاتقاءِ وجوھھم

فتعرفھم عیناک لو لا التکدرٗ

تقویٰ کے نور کے ساتھ اُن کے منہ روشن ہو گئے

پس تیری آنکھیں ان کو پہچان لیں گی اگر کدورت لا حق حال نہ ہو

یُمِیلُون قلب الخلق نحو نفوسھم

بنا ظرۃٍ تصبو الیھا الخوا طرٗ

لوگوں کے دل اپنی طرف مائل کر دیتے ہیں

اُس آنکھ کے ساتھ کہ اس کی طرف دل میل کرتے ہیں

کانّ حیات القومِ تحت حیاتھم

بھم زرع دین اللّٰہ یبدو و یَجدرٗ

گویا قوم کی زندگی ان کی زندگی کے نیچے ہے

ان کے ساتھ دین کا کھیت ظاہر ہوتا اور اپنا سبزہ نکالتاہے

و ان کنت تبغی زَورھم زُربخلّۃ

وجوہٌ من الاغیار تخفٰی و تُسترٗ

پس اگر تُو ان کو دیکھنا چاہتا ہے تو دوستی کے ساتھ دیکھ

وہ ایسے مُنہ ہیں جو غیروں سے چھپائے جاتے ہیں

کذٰلک طلعت شمسنافی ستارۃٍ

فقلتُ امکثی حتّٰی اُنِیرَ و اَبھرٗ

اسی طرح ہمارا سورج پردہ میں چڑھا

پس میں نے سورج کو کہا کہ ٹھہر جا جب تک میں روشن ہو جاؤں اور دوسری روشنیوں پر غالب ہو جاؤں

و لسنا بمستورٍ علٰی عین طالب

یرانا الذی یأتی ویرنو و ینظرٗ

اور ہم ڈھونڈنے والے کی آنکھ سے پوشیدہ نہیں ہیں

ہمیں وہ شخص دیکھ لے گا جو آئے گا اور نظر کرنے میں طریق مداومت اختیار کرے گا

و لا جبَر اِن تکفر و ان کنت مؤمنًا

فحسبک ما قال الکتاب المطھرٗ

اور اگر تُو انکار کرے تو تیرے پر کوئی جبر نہیں

اور اگر تُو ایمان لاوے تو ایمان کے لئے تجھے کتاب اللہ کافی ہے

و واللّٰہ لا انسٰی ھمومًا لقیتُھا

بتکفیر قومی حین اٰذوا و کَفّروا

اور بخدا مَیں ان غموں کو نہیں بھولتا جو مَیں نے دیکھے

بباعث تکفیر قوم کے جب کہ انہوں نے مجھے دُکھ دیا اور کافر ٹھہرایا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 332

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 332

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/332/mode/1up


علٰی صادقٍ فَأْسٌ من الظلم وَ الْاَذَی

فکیف کذوبٌ من ید اللّٰہ یَسترٗ

صادق پر ظلم اور ایذاء کا تبر چل رہا ہے

پس کیونکر جھوٹا خدا کے ہاتھ سے چُھپ جائے گا

علٰی موت عیسٰی صار قومی کحیّۃٍ

وکم من سمومٍ اخرجوھا و اظھروا

عیسیٰ کی موت پر میری قوم سانپ کی طرح ہو گئی

اور بہت سی زہریں نکالیں اور ظاہر کیں

توفّی عیسٰی ثم بَعدَ وفاتہٖ

عرا الموتُ عقل جماعتٍ ما تفکّروا

عیسیٰ مر گیا اور بعد اس کے

اس جماعت کی عقل پر موت آگئی جنہوں نے فکر نہیں کیا

و لو انّ انسانًا یطیر الی السّما

لکان رسول اللّٰہ اولٰی و اَجدرٗ

اور اگر کوئی انسان آسمان کی طرف پرواز کر سکتا ہے

تو اس بات کے لئے ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم زیادہ لائق تھے

اتترک قول اللّٰہ قولا مصرحًا

و اِنّ کتاب اللّٰہ اَھدٰی وَ اَنورٗ

کیا خدا کے قول کو تُو ترک کرتا ہے

اورخدا کا کلام بہت ہدایت دینے والا اور بہت روشن ہے

فدَع ذکر اخبارٍ تُخالف قولہ

و ایّ حدیثٍ بعدہ یُستَأثرٗ

پس ان اخبار کا ذکر چھوڑ دے جو اس کے قول کے مخالف ہیں

اور کون سی حدیث خدا کا کلام چھوڑ کر اختیار کرنے کے لائق ہے

ودع عنک کبرًا مھلکًا وَ اتَّقِ الرَّدَی

و اِنّ تقاۃ المرء تنجی و تثمرٗ

اور تکّبر ہلاک کرنے والے کو چھوڑ دے

بہ تحقیق انسان کی تقوٰی نجات دیتی اور پھل لاتی ہے

أَتصبح کالخفّاش اَعمٰی و ما تَرَی

و امّا لدی اللیل البھیم فتُبصرٗ

کیا تو صبح کو اُلّو کی طرح اندھا ہو جاتا ہے

اور اندھیری رات میں دیکھنے لگتا ہے

اذا ما وجدت الحق بعد ضلالۃٍ

فما البر اِلّا ترک ما کنت تؤثرٗ

جب تُو نے گمراہی کے بعد حق پا لیا

تو نیکی اسی میں ہے کہ جو کچھ پہلے تو نے اختیار کر رکھا تھا وہ چھوڑ دے

و لا تبغ حَرَزات النفوس و ھتکھم

و ھل انت اِلّا دودۃٌ یا مزّوِرٗ

اور تو برگزیدہ انسانوں کی موت اور ہتک عزّت کا خواہاں مت بن

اور تُو کیا چیز ہے صرف ایک کیڑا۔ اے دروغ آراستہ کرنے والے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 333

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 333

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/333/mode/1up


و لو انّ قومی آنسونی لَأَ فْلَحُوا

مِنَ الذُلّ فی الدّنیا و فی الدّین عُزّروا

اور اگر میری قوم مجھے دیکھ لیتی تو نجات پا لیتی

دنیا کی ذلّت سے اور آخرت میں عزّت دی جاتی

و لٰکن قلوبٌ بالیھود تشابھت

و ھٰذا ھو النبأ الذی جآء فاذکروا

مگر بعض دل یہودیوں کی طرح ہو گئے

اور یہ وہی خبر ہے جو آچکی ہے۔ پس یاد کرو

فصِرْتُ لھم عیسٰی اذا ما تھوّدوا

و ھٰذا کفٰی مِنّی لقومٍ تفکّروا

پس جب وہ یہودی بن گئے تو مَیں ان کے لئے عیسیٰ بن گیا

اور اس قدر بیان میری طرف سے کافی ہے ان کے لئے جو سوچتے ہیں

و قد تَمّ وَعْدُ نبیّنا فی حدیثہٖ

اذا جاء ھم منھم اِمَامٌ یُذَکِّرٗ

اور بہ تحقیق ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ جو حدیث میں تھا پورا ہو گیا

جب کہ مسلمانوں میں اُنہیں میں سے ایک امام آیا جو نصیحت کرتا اور یاد دلاتا ہے

اباروا عوام الناس من سمّ منطقٍ

و جاء وا ببھتان علینا و زَوّروا

باتوں کے زہر سے لوگوں کو ہلاک کر دیا

اور ہم پر بہتان لگائے اور جھوٹ بولا

یقولون ما لا یفعلون خیانَۃً

یخالف فی الحالاتِ بیتٌ و منبرٗ

وہ کہتے ہیں جو کرتے نہیں اور روحانیت کے

حالات کی رُو سے ان کے گھر اور ان کے منبر میں بڑا فرق ہے

الا رُبّ قوّالِ یُسِرّک قولہ

ولو تنظرنّ الوجہ ساء ک منظرُ

کئی بہت باتیں کرنے والے ایسے ہیں کہ ان کی بات تجھے اچھی معلوم ہو گی

مگر جب تُو ان کا مُنہ دیکھے گا تو تجھے وہ بُرا معلوم ہو گا

تری العین ما ھو ظاہرٌ غیر کاتم

و ما تنظر العینان ما ھو یُسترٗ

آنکھ صرف اس کو دیکھتی ہے جو ظاہر ہے پوشیدہ نہیں

اور پوشیدہ چیز کو آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں

و فیھم و ان قیل اھتدینا غوایۃ

و کبر بہٖ ینمو الضلال و یثمرٗ

اور ان میں اگرچہ وہ کہیں کہ ہم ہدایت پا گئے ایک گمراہی ہے

اور تکّبر ہے جس کے ساتھ گمراہی نشو ونما پاتی اور پھل لاتی ہے

اناسٌ اضا عوا دینھم مِن رعونۃ

و اَھواءَ دنیاھم علی الدینِ اٰثروا

وہ ایسے لوگ ہیں کہ انہوں نے تکبّر سے دین کو ضائع کیا

اور دنیا کی خواہشوں کو دین پر اختیار کر لیا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 334

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 334

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/334/mode/1up


تأَلّم قلبی من أَعاصیر جھلھم

ففی الصدر حُزّازٌ و فی القلب خنجرٗ

اُن کی جہالت کی آندھیوں سے میرا دل درد ناک ہو گیا

پس سینہ میں ایک سوزش اور خلش ہے، اور دل میں تلوار ہے

لھم سَلَفٌ قد اخطأ وا فی بیانھم

فھم اٰثروا آثارھم و تخیّروا

ان کے ایسے بزرگ ہیں جنہوں نے اپنے بیان میں خطا کی

پس انہوں نے ان کے آثار کو اختیار کر لیا

ھممنا بخیرٍ ثم ذُقنا جفاء ھم

و جئنا بعدلٍ ثم للظلم شَمّروا

ہم نے نیکی کا قصد کیا مگر ان سے ظلم دیکھا

اور ہم عدل کے ساتھ آئے اور انہوں نے ظلم کرنا شروع کیا

و جدنا الافاعِیّ المبیدۃ دونھم

و لا مثلھم شرّ العقارب تابرٗ

ہم نے ہلاک کرنے والے سانپ اُن سے کم درجہ پر دیکھے

اور نہ ان کی طرح بدترین عقارب نیش زنی کرتا ہے

و مَا نحن اِلّا کالفتیل مذلّۃ

باعینھم بل منہ ادنٰی و احقرٗ

اور ہم ایک ریشۂ خرما کی طرح ان کی نظر میں ہیں

بلکہ اس سے بھی زیادہ حقیر اور ذلیل

فنشکوا الی اللّٰہ القدیر تضرّعًا

و مَن مثلُہ عندالمصائب ینصرٗ

پس ہم خدائے قادر کی طرف تضرع کے ساتھ شکوہ لے جاتے ہیں

اور اس کی طرح کون مصیبتوں کے وقت مدد کرتا ہے

رمٰی کل من عادا الیّ سھامہ

فَأَصبحت أَمْشی کالوحید و اُکفَرٗ

ہر ایک دشمن نے میری طرف اپنے تیر چلائے

پس میں اکیلا رہ گیا اور کافر قرار دیا گیا

حُسینٌ دفاہ القوم فی دشت کربلا

و کَلّمنی ظلمًا حُسینٌ اٰخرٗ

ایک حُسین وہ تھا جس کو دشمنوں نے کربلا میں قتل کیا

اور ایک وہ حسین ہے جس نے مجھ کو محض ظلم سے مجروح کیا

ایا راشقی قد کنتَ تمدح منطقی

و تُثنی علیّ باُلفۃٍ و تُوقِّرٗ

اے میرے پر تیر چلانے والے ایک زمانہ وہ تھا جو تُو میری باتوں کی تعریف کرتا تھا

اور محبت کے ساتھ میری تعریف کرتا تھا اور میری عزت کرتا تھا

و لِلّٰہ دَرّک حین قَرّظتَ مخلصًا

کتابی وصرتَ لکلِّ ضالٍّ مُخفّرٗ

اور تُو نے کیا خوب میری کتاب

براہین احمدیہ کا اخلاص سے ریویو لکھا تھااور ہر ایک گمراہ کے لئے رہنما ہو گیا تھا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 335

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 335

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/335/mode/1up


وانت الذی قد قال فی تقریظہٖ

کمثل المؤلف لیس فینا غضنفرٗ

اور تو وہی ہے جس نے اپنے ریویو میں لکھا تھا

کہ اس مؤلف کی طرح ہم میں کوئی بھی دین کی راہ میں شیر نہیں

عرفتَ مقامی ثم أَنکرتَ مُدبرًا

فما الجھل بعد العلم ان کنتَ تشعرٗ

تُو نے میرے مقام کو شناخت کیا پھر منکر ہو گیا

پس یہ کیسا جہل ہے جو علم کے بعد دیدہ و دانستہ وقوع میں آیا

کمثلک مع علمٍ بحالی۔ و فطنۃٍ

عجبتُ لہٗ یبغی الھدٰی ثم یاطرٗ*

تیرے جیسا آدمی میرے حال سے واقف اور دانا

تعجب ہے کہ وہ ہدایت پر آ کر پھر راہِ راست چھوڑ دے

قَطعتَ ودادًا قد غرسناہ فی الصبا

و لیس فؤادی فی الوداد یقصِّرٗ

تُو نے اُس دوستی کو کاٹ دیا جس کا درخت ہم نے ایّامِ کودکی میں لگایا تھا

مگر میرے دل نے دوستی میں کوئی کوتاہی نہیں کی

علٰی غیر شیءٍ قُلتَ ما قلت عُجلۃً

کسی بات پر تُو نے نہیں کہا جو کچھ کہا جلدی سے

وَ واللّٰہ انّی صادقٌ لا اُزوّرٗ

اور بخدا مَیں سچا ہوں مَیں نے جھوٹ نہیں بولا


مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب نے اپنے رسالہ اشاعت السنۃمیں جہاں اس بات کا میری نسبت اقرار کیا ہے کہ مَیں اس زمانہ میں دین کی حمایت میں منفرد ہوں اور دین اسلام کی راہ میں فدا ہوں اور خدا کی راہ میں ایک بے بدل شجاع ہوں۔ ساتھ ہی اپنی نسبت یہ بھی اقرارکردیا ہے کہ مجھ سے زیادہ اس شخص کے اندرونی حالات کا کوئی بھی واقف نہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 336

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 336

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/336/mode/1up


موؔ لوی سیّد محمد عبدالواحد صاحب کے بعض

شبہات کا اِزالہ*

قولہ۔ آیت کریمہ3میں یہ شبہ باقی ہے کہ ما صلبوہ کے اگر یہ معنے ہیں کہ صلیب کے ذریعہ سے یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہلاک نہیں کیا تھا تو اس تقدیر میں ما قتلوہ کا لفظ جو اُس پر مقدّم ہے محض بیکار ہو جاتا ہے۔ اور اگر یہ کہا جاوے کہ ما قتلوہ کے لفظ کو اس لئے بڑھایا گیا ہے تا کہ دلالت کرے اس بات پر کہ بہ نیّت قتل ٹانگیں ان کی نہیں توڑی گئیں تھیں تو بر تقدیر تسلیم اس بات کے بھی لفظ ما قتلوہ کا بعد لفظ ماصلبوہکے واقع ہونا چاہئیے تھا کیونکہ ٹانگیں بعد صلیب سے اتارے جانے کے توڑی جاتی ہیں۔ پس وجہ تقدیمما قتلوہ کی اوپر ما صلبوہ کے کیا ہے؟ ارشاد فرماویں۔

اقول۔ یاد رہے کہ قرآن شریف کی یہ آیتیں ہیں جن میں مذکورہ بالا ذکر ہے۔33333333333۱؂الجزو نمبر۶سورۃ النساء ترجمہ۔ اور ان کا (یعنی یہود کا ) یہ کہنا کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کو قتل کر دیا ہے حالانکہ نہ انہوں نے اس کو قتل کیا اور نہ صلیب دیا بلکہ یہ امر اُن پر مشتبہ ہو گیا۔ اور جو لوگ عیسیٰ کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں ( یعنی عیسائی کہتے ہیں کہ عیسیٰ زندہ آسمان پر اٹھایاگیا اور یہودی کہتے ہیں کہ ہم نے اس کو ہلاک کر دیا) یہ دونوں گروہ محض شک میں پڑے ہوئے ہیں حقیقت حال کی


یہ مولوی صاحب مقام برہمن بڑیہ ضلع ٹپارہ ملک بنگالہ میں مدرس سکول و قاضی ہیں۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 337

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 337

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/337/mode/1up


اُن کو کچھ بھی خبر نہیں اور صحیح علم اُن کو حاصل نہیں محض اٹکلوں کی پَیروی کرتے ہیں۔ یعنیؔ نہ عیسیٰ آسمان پر گیا جیسا کہ عیسائیوں کا خیال ہے اور نہ یہودیوں کے ہاتھوں سے ہلاک کیا گیا جیسا کہ یہودیوں کا گمان ہے بلکہ صحیح بات ایک تیسری بات ہے کہ وہ مَخلصی پا کر ایک دوسرے ملک میں چلا گیااور خود یہودی یقین نہیں رکھتے کہ انہوں نے اس کو قتل کر دیابلکہ خدا نے اُس کو اپنی طرف اُٹھا لیا اور خدا غالب اور حکمتوں والا ہے۔*

اب ظاہر ہے کہ ان آیات کے سر پر یہ قول یہودیوں کی طرف سے منقول ہے کہ33یعنی ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کیا۔ سو جس قول کو خدا تعالیٰ نے یہودیوں کی طرف سے بیان فرمایا ہے ضرور تھا کہ پہلے اسی کو ردّکیا جاتا اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے قتلوا کے لفظ کو صلبوا کے لفظ پر مقدّم بیان کیا۔ کیونکہ جو دعویٰ اس مقام میں یہودیوں کی طرف سے بیان کیا گیا ہے وہ تو یہی ہے کہ3۔

پھر بعد اس کے یہ بھی معلوم ہو کہ حضرت عیسیٰ کے ہلاک کرنے کے بارے میں کہ کس طرح ان کو ہلاک کیا یہودیوں کے مذہب قدیم سے دو۲ ہیں۔ ایک فرقہ تو کہتا ہے کہ تلوار کے ساتھ پہلے ان کو قتل کیا گیا تھااورپھر ان کی لاش کو لوگوں کی عبرت کے لئے صلیب پر یا درخت پر لٹکایا گیا۔ اور دوسرا فرقہ یہ کہتا ہے کہ اُن کو صلیب دیا گیا تھا اور پھر بعد صلیب ان کو قتل کیا گیا۔ اور یہ دونوں فرقے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں موجود تھے اور اب بھی موجود ہیں۔ پس چونکہ ہلاک کرنے کے وسائل میں یہودیوں کو اختلاف تھا۔ بعض ان کی ہلاکت کا ذریعہ اوّل قتل قرار دے کر پھر صلیب کے قائل تھے اور بعض صلیب کو قتل پر مقدم

یہودیوں کا یہ کہنا کہ ہم نے عیسیٰ کو قتل کر دیا اس قول سے یہودیوں کا مطلب یہ تھا کہ عیسیٰ کا مومنوں کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوا کیونکہ توریت میں لکھا ہے کہ جھوٹا پیغمبر قتل کیا جاتا ہے۔ پس خدا نے اس کا جواب دیاکہ عیسیٰ قتل نہیں ہوا بلکہ ایمانداروں کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف اس کا رفع ہوا۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 338

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 338

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/338/mode/1up


سمجھتے تھے اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ دونوں فرقوں کا رد کر دے۔ مگر چونکہ جس فرقہ کی تحریک سے یہ آیات نازل ہوئی ہیں وہ وہی ہیں جو قبل از صلیب قتل کا عقیدہ رکھتے تھے اس لئے قتل کے گمان کا ازالہ پہلے کر دیا گیا اور صلیب کے خیال کا ازالہ بعد میں۔

افسوس کہ یہ شبہات دلوں میں اسی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ عموماً اکثر مسلمانوں کو نہ یہودیوں کے فرقوں اور ان کے عقیدہ سے پوری واقفیت ہے اور نہ عیسائیوں کے عقیدوں کی پوری اطلاع ہے۔ لہٰذا مَیں مناسب دیکھتا ہوں کہ اس جگہ مَیں یہودیوں کی ایکؔ پُرانی کتاب میں سے جوقریباًانیس سوبرس کی تالیف ہے اور اس جگہ ہمارے پاس موجود ہے ان کے اس عقیدہ کی نسبت جو حضرت مسیح کے قتل کرنے کے بارے میں ایک فرقہ ان کا رکھتا ہے بیان کر دوں۔ اور یاد رہے کہ اس کتاب کا نام تولیدُوت یشوع ہے جو ایک قدیم زمانہ کی ایک عبرانی کتاب مصنفہ بعض علماء یہود ہے۔ چنانچہ اس کتاب کے صفحہ ۳۱ میں لکھا ہے۔ ’’ پھر وہ (یعنی یہودی لوگ ) یسوع کو باہر سزا کے میدان میں لے گئے اور اس کو سنگسار کر کے مار ڈالا اور جب وہ مر گیا تب اس کو کاٹھ پر لٹکا دیا تا کہ اس کی لاش کو جانور کھائیں اور اس طرح مردہ کی ذلّت ہو۔ اس قول کی تائید انجیل کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جہاں لکھا ہے کہ ’’ یسوع جسے تم نے قتل کر کے کاٹھ پر لٹکایا ‘‘۔ دیکھو اعمال باب ۵ آیت ۳۰۔*

یہودی فاضل جو اب تک موجود ہیں اور بمبئی اور کلکتہ میں بھی پائے جاتے ہیں عیسائیوں کے اِس قول پر کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر چلے گئے بڑا ٹھٹھا اور ہنسی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ لوگ کیسے نادان ہیں جنہوں نے اصل بات کو سمجھا نہیں۔ کیونکہ قدیم یہودیوں کا تو یہ دعویٰ تھا کہ جو شخص صلیب دیا جائے وہ بے دین ہوتا ہے اور اس کی رُوح آسمان پر اٹھائی نہیں جاتی۔ اس دعویٰ کے رد کرنے کے لئے عیسائیوں نے یہ بات بنائی کہ گویا حضرت عیسیٰ مع جسم آسمان پر چلے گئے ہیں تا وہ داغ جو مصلوب ہونے سے حضرت عیسیٰ پر لگتاتھا وہ دُور کر دیں مگر اس منصوبہ میں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 339

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 339

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/339/mode/1up


انجیل کے اس فقرہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے قتل کیا پھر کاٹھ پر لٹکایا*۔ اور یاد رہے کہ جیسا کہ پادریوں کی عادت ہے انجیلوں کے بعض اردو ترجمہ میں اس فقرہ کو بدلا کر لکھ دیا گیا ہے مگر انگریزی انجیلوں میں اب تک وہی فقرہ ہے جو ابھی ہم نے نقل کیا ہے۔ بہر حال یہ ثابت شدہ امر ہے کہؔ یہودیوں کے حضرت عیسیٰ کے ہلاک کرنے کے بارے میں دو مذہب ہیں۔


انہوں نے نہایت نادانی ظاہر کی کیونکہ یہودیوں کا یہ توعقیدہ نہیں کہ جو شخص مع جسم آسمان پر نہ جاوے وہ بے دین اور کافر ہوتا ہے اور اس کی نجات نہیں ہوتی۔ کیونکہ بموجب عقیدہ یہودیوں کے حضرت موسیٰ بھی مع جسم آسمان پر نہیں گئے۔ یہودیوں کی حجت تو یہ تھی کہ بموجب حکم توریت کے جو شخص کاٹھ پر لٹکایا جائے اس کی رُوح آسمان پر اُٹھائی نہیں جاتی کیونکہ صلیب جرائم پیشہ لوگوں کے ہلاک کرنے کا آلہ ؔ ہے۔ پس خدا اس سے پاک تر ہے کہ ایک مطہر اور راستباز مومن کو صلیب کے ذریعہ ہلاک کرے سو توریت میں یہی حکم لکھ دیا گیا کہ جو شخص صلیب کے ذریعہ سے مارا جائے وہ مومن نہیں اور اس کی رُوح خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائی نہیں جاتی یعنی رفع الی اللہ نہیں ہوتا اور جب کہ مسیح صلیب کے ذریعہ سے ہلاک ہو گیا تو اس سے نعوذ باللہ بقول یہود ثابت ہو گیا کہ وہ ایمان دار نہ تھا۔ اور اس کی رُوح خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائی نہیں گئی۔ پس اس کے مقابل پر یہ کہنا کہ مسیح مع جسم آسمان پر چلا گیا یہ حماقت ہے اور ایسے بیہودہ جواب سے یہودیوں کا اعتراض بدستور قائم رہتا ہے کیونکہ ان کا اعتراض رفع روحانی کے متعلق ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف رفع ہو نہ رفع جسمانی کے متعلق جو آسمان کی طرف ہو۔ اور قرآن شریف جو اختلاف نصاریٰ اور یہود کا فیصلہ کرنے والا ہے اس نے اپنے فیصلہ میں یہی فرمایا کہ3۱؂ یعنی خدا نے عیسیٰ کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ اور ظاہر ہے کہ خدا کی طرف رُوح اٹھائی جاتی ہے نہ جسم۔ خدا نے یہ تو نہیں فرمایا کہ بل رفعہ اللّٰہ الی السماء بلکہ فرمایا کہ 3 اور اِسؔ مقام میں خدا تعالیٰ کا صرف یہ کام تھا جو یہودیوں کا اعتراض



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 340

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 340

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/340/mode/1up


جن میں سے ایک یہ ہے کہ اوّل قتل کیا اور پھر صلیب دیا۔ پس اِس مذہب کا بھی ردکرنا ضروری تھااور ایسے خیال کے لوگوں کا پہلی آیت میں ذکر بھی ہے۔ یعنی اس آیت میں کہ33۱؂ پس جب کہ دعویٰ یہ تھا کہ ہم نے عیسیٰ کو قتل کیا۔تو ضرور تھا کہ پہلے اسی دعویٰ کو ردکیا جاتا۔ لیکن خدا تعالیٰ نے ردکو مکمل کرنے کے لئے دوسرے فرقہ کا بھی اس جگہ ردکر دیا جو کہتے تھے کہ ہم نے پہلے صلیب دیاہے۔ پس اس کے ردکے لئے

دُور کرتا جو رفع رُوحانی کے انکار میں ہے اور نیز عیسائیوں کی غلطی کو دُور فرماتا۔*پس خدا تعالیٰ نے ایک ایسا جامع لفظ فرمایا جس سے دونوں فریق کی غلطی کو ثابت کر دیا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ قول کہ 3۔ صرف یہی ثابت نہیں کرتا کہ مسیح کا رفع روحانی خدا تعالیٰ کی طرف ہو گیا

اگر خدا تعالیٰ کی ان آیات میں یعنی3میں صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مع جسم عنصری دوسر۲ے یا چو۴تھے آسمان پر پہنچائے گئے تھے تو ہمیں کوئی بتلائے کہ یہودیوں کے اس اعتراض کا کن آیات میں جواب ہے جو وہ کہتے ہیں جومومنوں کی طرح حضرت عیسیٰ کا رفع روحانی خدا تعالیٰ کی طرف نہیں ہوا۔ یہ تو نعوذ باللہ قرآن شریف کی ہتک ہے کہ اعتراض تو یہودیوں کا کوئی اَور تھا اور جواب کوئی اَور دیا گیا۔ گویا خدا تعالیٰ نے یہودیوں کا منشاء نہیں سمجھا۔ یہودی تو اس بارے میں حضرت عیسیٰ سے کوئی خصوصیت کا معجزہ نہیں چاہتے تھے۔ ان کا تو یہی اعتراض تھا کہ عام مومنوں کی طرح اُن کا رفع نہیں ہوا۔ اور ان کا جواب تو صرف ان الفاظ سے دینا چاہیئے تھا کہ ان کا رفع خدا تعالیٰ کی طرف ہو گیا ہے۔ پس اگر ممدوحہ بالا آیت کا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ آسمان پر بٹھانے کا مطلب ہے تو یہ یہودیوں کے اعتراض کا جواب نہیں ہے۔ قرآن شریف کی نسبت یہ خیال کہ سوال دیگر اور جواب دیگر ایسا خیال تو کفر تک پہنچ جاتا ہے جب کہ قرآن شریف کا یہ بھی منصب ہے کہ یہود کی اُن غلط تہمتوں کو دُور کرے جو حضرت عیسیٰ پر انہوں نے لگائی تھیں تو منجملہ ان تہمتوں کے یہ بھی یہود کی ایک تہمت تھی کہ وہ حضرت عیسیٰ کے رفع روحانی کے منکر تھے اور اس طور سے نعوذ باللہ ان کو کافر ٹھہراتے تھے۔ پس قرآن شریف کا فرض تھا کہ اس تہمت سے اُن کو بری کرتا۔ سو اگر ان آیتوں میں اس نے حضرت عیسیٰ کو اس تہمت سے بری نہیں کیا تو قرآن شریف میں سے اور ایسی آیتیں پیش کرنی چاہئیں جن میں اس نے اس تہمت سے حضرت عیسیٰ کو بری کر دیا ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 341

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 341

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/341/mode/1up


ما صلبوہ فرما دیا۔ اور بعد اس کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا333 ۔ ترجمہ :۔یعنی عیسیٰ نہ قتل کیا گیا اور نہ صلیب دیا گیا بلکہ ان لوگوں پر حقیقت حال مشتبہ کی گئی۔ اور یہود ونصاریٰ جو مسیح کے قتل یا رفع روحانی میں اختلاف رکھتے ہیں محض شک میں مبتلا ہیں۔ اُن میں سے کسی کو بھی علمِ صحیح حاصل نہیں محض ظنّوں اور شکوک میں گرفتار ہیں اور


اور وہ مومن ہے بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ آسمان کی طرف اس کا رفع نہیں ہُوا کیونکہ خدا تعالیٰ جو تجسّم اور جہات اور احتیاج مکان سے پاک ہے اس کی طرف رفع ہونا صاف بتلا رہا ہے کہ وہ جسمانی رفع نہیں بلکہ جس طرح اور تمام مومنوں کی رُوحیں اُس کی طرف جاتی ہیں۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رُوح بھی اُس کی طرف گئی۔ ہر ایک ذی علم جانتا ہے کہ قرآن شریف اور احادیث سے ثابت ہے کہ جب مومن فوت ہوتا ہے اس کی رُوح خدا کی طرف جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔333 یعنی اے رُوح اطمینان یافتہ اپنے رب کی طرف واپس چلی آ وہ ؔ تجھ سے راضی اور تو اُس سے راضی۔ اور میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میرے بہشت میں داخل ہو جا۔ اور یہی یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ مومن کی رُوح کا رفع خدا تعالیٰ کی طرف ہوتا ہے اور بے دین اور کافر کا رفع خداتعالیٰ کی طرف نہیں ہوتا اور وہ نعوذ باللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کافر اور بے دین سمجھتے تھے کہ اس شخص نے خدا پر افتراء کیا ہے اور یہ سچا نبی نہیں ہے۔اوراگرسچاہوتاتواُس کے آنے سے پہلے الیاس نبی دوبارہ دنیامیںآتا۔اسی لئے وہ لوگ یہی عقیدہ رکھتے تھے اور اب تک رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی رُوح مومنوں کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف نہیں گئی بلکہ نعوذ باللہ شیطان کی طرف گئی۔ اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہود کو جھوٹا ٹھہرایا اور ساتھ ہی عیسائیوں کو بھی دروغ گو قرار دیا۔ یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بڑے بڑے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 342

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 342

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/342/mode/1up


وہ خود یقین نہیں رکھتے کہ سچ مچ عیسیٰ کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ عیسائیوں میں بعض فرقے اس بات کے قائل ہیں کہ مسیح کی آمد ثانی الیاس نبی کی طرح بروزی طور پر ہے یعنی یہ عقیدہ بالکل غلط ہے کہ مسیح زندہ آسمان پر بیٹھا ہے بلکہ درحقیقت وہ فوت ہو چکا ہے اور یہ جو وعدہ ہے کہ آخری زمانہ میں مسیح دوبارہ آئے گا اس آمد ثانی سے مراد ایک ایسے آدمی کا آنا ہے کہ جو عیسیٰ مسیح کی خُو اور خُلق پر ہو گا نہ یہ کہ عیسیٰ خود آ جائے گا۔ چنانچہ کتاب ’’ نیو لائف آف جیزس ‘‘ جلد اوّل صفحہ ۴۱۰ مصنّفہ ڈی ایف سٹراس میں اس کے متعلق ایک عبارت ہے جس کو مَیں اپنی کتاب ’’ تحفہ گولڑویہ‘‘ کے صفحہ ۱۲۷ میں درج کر چکا ہوں اور اس جگہ اس کے ترجمہ پر کفایت کی جاتی ہے۔ اور وہ یہ ہے :۔

’’ اگر چہ صلیب کے وقت ہاتھ اور پاؤں دونوں پرمیخیں ماری جائیں پھر بھی بہت تھوڑا خون انسان کے بدن سے نکلتا ہے اس واسطے صلیب پر لوگ رفتہ رفتہ اعضاء پر زور پڑنے کے سبب تشنج میں گرفتار ہو کر مر جاتے ہیں یا بھوک سے مر جاتے ہیں۔ پس اگر فرض بھی کر لیا جاوے کہؔ قریب چھ۶ گھنٹہ صلیب پر رہنے کے بعد یسوع جب اتارا گیا تو وہ مرا ہوا تھا۔ تب بھی نہایت ہی اغلب بات یہ ہے کہ وہ صرف ایک موت کی سی بیہوشی تھی۔ اور جب شفا دینے والی مَرہمیں اور


افتراء کئے ہیں۔ ایک جگہ طالمود میں جویہودیوں کی حدیثوں کی کتاب ہے لکھا ہے کہ یسوع کی لاش کو جب دفن کیا گیاتو ایک باغبان نے جس کا نام یہودا اسکریوطی تھا لاش کو قبر سے نکال کر ایک جگہ پانی کے روکنے کے واسطے بطور بندھ کے رکھ دیا۔ یسوع کے شاگردوں نے جب قبر کو خالی پایا تو شور مچا دیا کہ وہ مع جسم آسمان پر چلا گیا تب وہ لاش ملکہ ہَیلنیا کے رو برو سب کو دکھائی گئی اور یسوع کے شاگرد سخت شرمندہ ہوئے(لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین)دیکھو جیوئش انسا ئیکلو پیڈیا صفحہ ۱۷۲ جلد نمبر۷۔یہ انسا ئیکلو پیڈیا یہودیوں کی ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 343

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 343

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/343/mode/1up


نہایت خوشبودار دوائیاں مل کر اُسے غار کی ٹھنڈی جگہ میں رکھا گیا تو اُس کی بیہوشی دُور ہوئی۔ اس دعویٰ کی دلیل میں عمومًا یوسفس کا واقعہ پیش کیا جاتا ہے جہاں یوسفس نے لکھا ہے کہ مَیں ایک دفعہ ایک فوجی کام سے واپس آ رہا تھاتو راستہ میں مَیں نے دیکھا کہ کئی ایک یہودی قیدی صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں ان میں سے مَیں نے پہچانا کہ تین میرے واقف تھے۔ پس ٹیٹس(حاکم وقت)سے اُن کے اتار لینے کی اجازت حاصل کی اور ان کو فوراً اتار کر اُن کی خبر گیری کی تو ایک بالآخر تندرست ہو گیا پرباقی دو۲ مر گئے۔ ‘‘

اور کتاب ’’ماڈرن دوٹ اینڈ کرسچن بیلیف‘‘کے صفحہ ۴۵۵و ۴۵۷و ۳۴۷ میں انگریزی میں ایک عبارت ہے جس کو ہم اپنی کتاب ’’ تحفہ گولڑویہ ‘‘ کے صفحہ ۱۳۸ میں لکھ چکے ہیں۔ ترجمہ اسؔ کا ذیل میں لکھا جاتا ہے اور وہ یہ ہے:۔

’’ شلیر میخر اور نیز قدیم محققین کا یہ مذہب تھا کہ یسوع صلیب پر نہیں مرا بلکہ ایک ظاہر اً موت کی سی حالت ہو گئی تھی اور قبر سے نکلنے کے بعد کچھ مُدّت تک اپنے حواریوں کے ساتھ پھرتا رہا اور پھر دوسری یعنی اصلی موت کے واسطے کسی علیحدگی کے مقام کی طرف روانہ ہو گیا‘‘۔

اور یسعیانبی کی کتاب باب ۵۳ میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اپنی دعا بھی جو انجیل میں موجود ہے یہی ظاہر کر رہی ہے جیسا کہ اُس میں لکھا ہے۔ دَعَا بِدُ مُوْعٍ جَارِیَۃٍ وعَبَرَاتٍ مُتَحَدِّرَۃٍ فَسُمِعَ لِتَقْوَاہُ۔ یعنی عیسیٰ نے بہت گریہ و زاری سے دُعا کی اور اُس کے آنسو اُس کے رخساروں پر پڑتے تھے پس بوجہ اُس کے تقویٰ کے وہ دُعا منظور ہو گئی۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 344

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 344

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/344/mode/1up


اور کرئیر ڈلا سیرا جنوبی اٹلی کے سب سے مشہور اخبار نے مندرجہ ذیل عجیب خبر شائع کی ہے ’’۱۳۔ جولائی ۱۸۷۹ ؁ء کو یروشلم میں ایک بوڑھا راہب مسمی کور مرا جو اپنی زندگی میں ایک ولی مشہور تھا۔ اُس کے پیچھے اس کی کچھ جائیداد رہی۔ اور گورنر نے اس کے رشتہ داروں کو تلاش کر کے اُن کے حوالے دو لاکھ فرینک (ایک لاکھ پونے اُنیس ہزار روپیہ) کئے جو مختلف ملکوں کے سکّوں میں تھے۔ اور اس غار میں سے ملے جہاں وہ راہب بہت عرصہ سے رہتا تھا۔ روپیہ کے ساتھ بعض کاغذات بھی ان رشتہ داروں کو ملے جن کو وہ پڑھ نہ سکتے تھے۔ چند عبرانی زبان کے فاضلوں کو ان کاغذات کے دیکھنے کا موقعہ ملا تو ان کو یہ عجیب بات معلوم ہوئی کہ یہ کاغذات بہت ہی پُرانی عبرانی زبان میں تھے۔ جب ان کو پڑھا گیا تو اُن میں یہ عبارت تھی۔ ’’ پطرس ماہی گیر یسوع مریم کے بیٹے کا خادم اس طرح پر لوگوں کو خدا تعالیٰ کے نام میں اور اس کی مرضی کے مطابق خطاب کرتا ہے۔ ‘‘ اور یہ خط اس طرح ختم ہوتا ہے۔

’’ مَیں پطرس ماہی گیر نے یسوع کے نام میں اور اپنی عمر کے نوّے سال میں یہ محبت کے الفاظ اپنے آقا اور مولیٰ یسوع مسیح مریم کے بیٹے کی موت کے تین عید فسح بعد (یعنی تین سال بعد) خدا ؔ وند کے مقدس گھر کے نزدیک بولیر کے مقام میں لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ‘‘

ان فاضلوں نے نتیجہ نکالا ہے کہ یہ نسخہ پطرس کے وقت کا چلا آتا ہے۔ لنڈن بائیبل سوسائٹی کی بھی یہی رائے ہے اور ان کا اچھی طرح امتحان کرانے کے بعد بائیبل سوسائٹی اب ان کے عوض چار لاکھ لیرا (دو لاکھ ساڑھے سینتیس ہزار روپیہ) مالکوں کو دے کر کاغذات کو لینا چاہتی ہے۔

یسوع ابن مریم کی دعا۔ ان دونوں پر سلام ہو۔ اُس نے کہا۔ اے میرے خدا مَیں اس قابل نہیں کہ اس چیز پر غالب آ سکوں جس کو مَیں بُرا سمجھتا ہوں۔ نہ مَیں نے اس نیکی کو حاصل کیا ہے جس کی مجھے خواہش تھی مگر دوسرے لوگ اپنے اجر کو اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں اور مَیں نہیں۔ لیکن میری بڑائی میرے کام میں ہے۔ مجھ سے زیادہ بُری حالت میں کوئی شخص نہیں ہے۔ اے خدا جو سب سے بلند تر ہے میرے گناہ معاف کر۔ اے خدا ایسا نہ کر کہ مَیں اپنے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 345

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 345

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/345/mode/1up


دشمنوں کے لئے الزام کا سبب ہوں۔ نہ مجھے اپنے دوستوں کی نظر میں حقیر ٹھہرا اور ایسا نہ ہو کہ میرا تقویٰ مجھے مصائب میں ڈالے۔ ایسا نہ کر کہ یہی دنیا میری بڑی خوشی کی جگہ یا میرا بڑا مقصد ہو اور ایسے شخص کو مجھ پر مسلط نہ کر جو مجھ پر رحم نہ کرے۔ اے خدا جو بڑے رحم والا ہے اپنے رحم کی خاطر ایسا ہی کر۔ تُو ان سب پر رحم کرتا ہے جو تیرے رحم کے حاجت مند ہیں۔

قولہ۔ آیت کریمہ 3 میں یہ شبہ باقی ہے کہ لفظ بل فقرہ رفعہ اللّٰہ الیہ کو ما قتلوہ یقینًا کے ساتھ ایک خاص ربط بخشتا ہے جس سے ان دونوں واقعات کا باہم اِتّصال سمجھا جاتا ہے۔ پس یہ بظاہر مقتضی اِس بات کا ہے کہ واقع رفع کا زمانہ واقع قتل کے زمانہ کے ساتھ متحد و متصل ہو۔ اور دونوں زمانوں میں کچھ فاصلہ نہ ہو۔ حالانکہ حضرت کے بیان مبارک کے مطابق واقع رفع کے زمانہ اور واقع قتل کے زمانہ میں بہت فاصلہ اور ایک دُور دراز مدت ہے۔ اس تقدیر میں اگر آیت قرآن شریف کی اس طرح ہوتی کہ ما قتلوہ یقیناًبل خلّصہ اللّٰہ من ایدیھم حیًّا ثُمّ رفعہ الیہ تب البتہ یہ معنے ظاہر ہوتے۔

اقول۔ یہ شبہ صرف سرسری خیال سے آپ کے دل میں پیدا ہوا ہے ورنہ اگر اصل واقعات آپ کے ملحوظ خاطر ہوتے تو یہ شبہ ہر گز پیدا نہ ہو سکتا۔ اصل بات تو یہ تھی کہ توریت کی رُو سے یہودیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اگر نبوت کا دعویٰ کرنے والا مقتول ہو جائے تو وہ مفتری ہوتا ہے سچا نبی نہیں ہوتا۔ اور اگر کوئی صلیب دیا جائے تو وہ *** ہوتا ہے اور اس کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوتاہے۔ اور یہودیوں کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت یہ خیال تھا کہ وہ قتل بھی کئے گئے اور صلیب بھی دیئے گئے۔ بعض کہتے ہیں پہلے قتل کر کے پھر صلیب پر لٹکائے گئے اور بعض کہتے ہیں کہ پہلے صلیب دے کر پھر ان کو قتل کیا گیا۔ پس اِن وجوہ سے یہودی لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع رُوحانی کے منکر تھے اور اب تک منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ قتل کئے گئے اور صلیب دیئے گئے۔ اس لئے ان کا خدا تعالیٰ کی طرف



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 346

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 346

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/346/mode/1up


مومنوں کی طرح رفع نہیں ہوا۔ یہودیوں کا یہ اعتقاد ہے کہ کافر کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوتا مگر مومن مرنے کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف اٹھایا جاتا ہے۔ اور ان کے زُعم میں حضرت عیسیٰ مصلوب ہو کر نعوذ باللہ کافر اور *** ہو گئے۔ اس لئے وہ خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائے نہیں گئے۔ یہ امر تھا جس کا قرآن شریف نے فیصلہ کرنا تھا۔ پس خدا تعالیٰ نے اِن آیات سے جو اوپر ذکر ہو چکی ہیں یہ فیصلہ کر دیا۔ چنانچہ آیت3 ۱؂ اِسی فیصلہ کو ظاہر کرتی ہے کیونکہ رفع الی اللّٰہ یہودیوں اور اسلام کے عقیدہ کے موافق اس موت کو کہتے ہیں جو ایمانداری کی حالت میں ہو اور رُوح خداتعالیٰ کی طرف جاوے اور قتل اور صلیب کے اعتقاد سے یہودیوں کا منشا یہ تھا کہ مرنے کے وقت رُوح خداتعالیٰ کی طرف نہیں گئی۔ پس یہودیوں کے دعوٰئے قتل اور صلیب کا یہی جواب تھا جو خدا نے دیا۔ اور دوسرے لفظوں میں ماحصل آیت کا یہ ہے کہ یہودی قتل اور صلیب کا عذر پیش کر کے کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کی رُوح کا خداتعالیٰ کی طرف مرنے کے وقت رفع نہیں ہوا۔ اور خدا تعالیٰ جواب میں کہتا ہے کہ بلکہ عیسیٰ کی رُوح کا خدا تعالیٰ کی طرف مرنے کے وقت رفع ہو گیا ہے۔ پس تفسیر عبارت کی یہ ہے بل رفعہ اللّٰہ الیہ عند موتہٖ۔ چونکہ رفع الی اللّٰہ موت کے وقت ہی ہوتا ہے بلکہ ایمان کی حالت میں جو موت ہو اُس ؔ کا نام رفع الی اللہ ہے۔ پس گویا یہودی یہ کہتے تھے کہ مات عیسٰی کافرًا غیر مرفوع الی اللّٰہ اور خدا تعالیٰ نے یہ جواب دیا ہے بل مات مؤمنًا مرفوعًا الی اللّٰہ۔ سو بل کا لفظ اس جگہ غیر محل نہیں بلکہ عین محاورۂ زبان عرب کے مطابق ہے۔ یہودیوں کی یہ غلطی تھی کہ وہ خیال کرتے تھے کہ گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام درحقیقت مصلوب ہو گئے ہیں اس لئے وہ ایک غلطی سے دوسری غلطی میں پڑ گئے کہ موت کے وقت ان کے رفع الی اللہ سے انکار کر دیا۔ لیکن خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ ہر گز مقتول اور مصلوب نہیں ہوئے اور موت کے وقت ان کا رفع خدا تعالیٰ کی طرف ہوا ہے۔ پس اس طرزِ کلام میں کوئی اشکال نہیں اور بل کا لفظ ہر گز ہر گز اِن معنوں کی رُو سے غیر محل پر نہیں بلکہ جس حالت میں باتفاق یہود و اہلِ اسلام رفع الی اللّٰہ کہتے ہی اس کو ہیں کہ مرنے کے بعد انسان کی رُوح خدا تعالیٰ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 347

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 347

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/347/mode/1up


کی طرف جائے تو اس صورت میں اس مقام میں کسی دوسرے معنوں کی گنجائش ہی نہیں۔

اور یہ بھی یاد رہے کہ جس زمانہ کی نسبت قرآن شریف کا یہ بیان ہے کہ عیسیٰ مقتول اور مصلوب نہیں ہوا اسی زمانہ کی نسبت یہ بھی بیان ہے کہ اُس کا مرنے کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف رفع ہوا ہے پس بل کا لفظ اس جگہ اِتّصال زَمانی کے لئے ہے نہ اِتّصال آنی کے لئے۔ پس خلاصہ مفہوم آیت کا یہ ہے کہ اُس زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام مقتول اور مصلوب نہیں ہوئے بلکہ طبعی موت کے بعد اُن کا رفع الی اللّٰہ ہوا۔ جیسا کہ قرآن شریف میں وعدہ تھا کہ333۱؂اور توفّی طبعی موت دینے کو کہتے ہیں۔ جیسا کہ صاحبِ کشّاف نے اس آیت کی تفسیر میں یعنی تفسیر انّی متوفّیک میں لکھا ہے انّی ممیتک حتف انفک۔ قرآن شریف کی یہ آیت یعنی333تمام جھگڑے کا فیصلہ کرتی ہے کیونکہ ہمارے مخالف یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع زندگی کی حالت میں ہوا اور خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ موت کے بعد رفع ہوا۔ پس افسوس ہے اُس قوم پر کہ جو نص صریح کتاب اللہ کے مخالف دعویٰ کرتے ہیں اور قرآن شریف اور تمام پہلی کتابیں اور تمام حدیثیں بیان کر رہی ہیں کہ موت کے بعد وہی رفع ہوتاہے جس کو رفع روحانی کہتے ہیں جو ہر ایک مومن کے لئے بعد موت ضروری ہے۔ بعض متعصب اس جگہ لاجواب ہو کر کہتےؔ ہیں کہ آیت کو اِس طرح پڑھنا چاہیئے کہیٰعِیْسٰی اِنِّیْ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُتَوَفِّیْکَ ۔ گویا خدا تعالیٰ سے یہ غلطی ہو گئی کہ اس نے متوفّیک کو رافعک پر مقدّم کر دیا اور یہ فرمایا کہ یا عیسٰی انّی متوفّیک و رافعک الیّ۔ حالانکہ کہنا یہ تھا کہ یا عیسیٰ انّی رافعک الیّ و متوفّیک ہائے افسوس! تعصّب کس قدر سخت بلا ہے کہ اس کی حمایت کے لئے کتاب اللہ کی تحریف کرتے ہیں۔ یہ عمل تحریف وہی پلید عمل ہے جس سے یہودی *** کہلائے اور ان کی صورتیں مسخ کی گئیں۔ اب یہ لوگ قرآن شریف کی تحریف پر آمادہ ہیں۔ اور اگر یہ وعدہ نہ ہوتا کہ3۲؂توان لوگوں سے یہ امید تھی کہ بجائے آیت



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 348

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 348

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/348/mode/1up


انّی متوفّیک و رافعک الیّ کے اس طرح قرآن شریف میں لکھ دیتے کہ یا عیسٰی اِنِّی رافعک الیّ و متوفّیک مگر اس طرح کی تحریف بھی غیر ممکن تھی۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس آیت میں چار وعدے فرمائے ہیں۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔3۔ 3۔33۔333۔ یہ چار وعدے جن پر نمبر لگا دیئے گئے۔اور جیسا کہ احادیثِ صحیحہ اور خود قرآن شریف سے ثابت ہے وعدہ مطھّرک من الّذین کفروا جو وعدہ رفع کے بعد تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پورا ہو گیا کیونکہ آپ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دامن کو ان بیجا تہمتوں سے پاک کیا جو یہود اور نصاریٰ نے اُن پر لگائی تھیں۔ اسی طرح یہ چوتھا وعدہ یعنی333 اسلام کے غلبہ اور شوکت سے پورا ہو گیا۔ پس اگر متوفّیک کے لفظ کو متاخر کیا جائے اور لفظ رافعک الیّ مقدم کیا جائے۔ جیسا کہ ہمارے مخالف چاہتے ہیں تو اس صورت میں فقرہ رافعک الیّ فقرہ مطھّرک سے پہلے نہیں آ سکتا کیونکہ فقرہ مطھّرک کا وعدہ پورا ہو چکا ہے اور بموجب قول ہمارے مخالفوں کے متوفیک کا وعدہ ابھی پورا نہیں ہوا اور اِسی طرح یہ فقرہ متوفّیک وعدہ 333کے پہلے بھی نہیں آ سکتا کیونکہ وہ وعدہ بھی پورا ہو چکا ہے اور قیامت کے دن تک اس کا دامن لمبا ہے۔ پس اس صورت میں توفّی کا لفظ اگر آیت کے سر پر سے اٹھاؔ دیا جائے تو اس کو کسی دوسرے مقام میں قیامت سے پہلے رکھنے کی کوئی جگہ نہیں۔ سو اس سے تو یہ لازِم آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے بعد مریں گے اور پہلے مرنے سے یہ ترتیب مانع ہے۔ اب دیکھنا چاہیئے کہ قرآن شریف کی یہ کرامت ہے کہ ہمارے مخالف یہودیوں کی طرح قرآن شریف کی تحریف پر آمادہ تو ہوئے مگر قادر نہیں ہو سکے اور کوئی جگہ نظر نہیں آتی جہاں فقرہ رَافِعُک کو اپنے مقام سے اُٹھا کر اُس جگہ رکھا جائے۔ ہر ایک جگہ کی خانہ پُری ایسے طور سے ہو چکی ہے کہ دست اندازی کی گنجائش نہیں اور دراصل یہی ایک



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 349

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 349

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/349/mode/1up


آیت یعنی آیت33طالب حق کے لئے کافی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ رفع جس پر ہمارے مخالفوں نے شور مچا رکھا ہے وہ موت کے بعد ہے نہ موت سے پہلے کیونکہ خدا کی گواہی سے یہ بات ثابت ہے۔ اور خدا کی گواہی کو قبول نہ کرنا ایماندار کا کام نہیں اور جب کہ بموجب نصِ قرآن رفع موت کے بعد ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ یہ وہی رفع ہے جس کا ہر ایک ایماندار کے لئے مرنے کے بعد خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے۔

عجیب بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے توفقرہ رافعک الیّ کو فقرہ متوفّیک کے بعد بیان فرمایا ہے اور یہ لوگ فقرہ رافعک کو مقدم کرتے ہیں اور فقرہ متوفّیک کو بعد میں لاتے ہیں تا کسی طرح حضرت عیسیٰ زندہ آسمان پر بٹھائے جائیں۔ پس اس صورت میں یہودی لوگ تحریف کرنے میں کیا خصوصیت رکھتے ہیں ماسوا اس کے اگر اسی طرح یہودیوں کی طرح ان لوگوں کو اپنے اختیار سے قرآن شریف کو پیش و پس کرنے کا اختیار ہے تو پھر قرآن شریف کی خیر نہیں۔ بھلا کوئی ایسی حدیث تو پیش کریں جس میں ان کو یہ اجازت دی گئی ہو کہ فقرہ رافعک الیّ پہلے پڑھ لیا کرو۔ اور فقرہ متوفّیک بعد میں۔ اور اگر قرآن اور حدیث سے ایسی اجازت ثابت نہیں ہوتی تو پھر اُس *** سے کیوں نہیں ڈرتے جو پہلے اُن سے یہودیوں کے حصہ میں آ چکی ہے۔

قولہ۔ آپ کے بیان کے مطابق حضرت عیسیٰ صلیب سے نجات پا کر کشمیر کی طرف چلے گئے تھے۔ پس اوّل تو اُس زمانہ میں کشمیر تک پہنچنا کچھ آسان امر نہ تھا۔ خصوصاً خفیہ طور پر اور پھر یہ اعتراض ہے کہ حواری اُن کے پاس کیوں جمع نہ ہوئے اور حضرت عیسیٰ زندہ درگور کی طرح مخفی رہے۔

اقول۔ جس خدا نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کشمیر کی طرف جانے کی ہدایت کی تھی وہی ان کا رہنما ہو گیا تھا۔ پس نبی کے لئے یہ کیا تعجب کی بات ہے کہ کس طرح وہ کشمیر پہنچ گیا اور اگر ایساہی تعجب کرنا ہے تو ایک بے دین اس بات سے بھی تعجب کر سکتا ہے کہ کیونکر ہمارے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 350

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 350

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/350/mode/1up


نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے وقت باوجود اس کے کہ کفّار عین غار ثور کے سر پر پہنچ گئے تھے پھر اُن کی آنکھوں سے پوشیدہ رہے۔ پس ایسے اعتراضات کا یہی جواب ہے کہ خدا کا خاص فضل جو خارق عادت طور پر نبیوں کے شامل حال ہوتا ہے ان کو بچاتا اور اُن کی رہنمائی کرتا ہے۔ رہی یہ بات کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کشمیر میں گئے تھے تو حواری اُن کے پاس کیوں نہ پہنچے تو اِس کا یہ جواب ہے کہ عدمِ علم سے عدم شَے لازم نہیں آتا۔ آپ کو کس طرح معلوم ہوا کہ نہیں پہنچے ۔ہاں چونکہ وہ سفر پوشیدہ طور پر تھا*جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر ہجرت کے وقت پوشیدہ طور پر تھا۔ اس لئے وہ سفر ایک بڑے قافلہ کے ساتھ مناسب نہیں سمجھا گیا تھا جیسا کہ ظاہر ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی تو صرف حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ساتھ تھے اور اُس وقت بھی دو سو ۲۰۰ کوس کا فاصلہ کر کے مدینہ میں جانا سہل امر نہ تھا۔ اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو سا۶۰ٹھ ستّر۷۰ آدمی اپنے ساتھ لے جا سکتے تھے مگر آپ نے صرف ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنا رفیق بنایا۔ پس انبیاء کے اسرارمیں دخل دینا ایک بیجا دخل ہے۔ اور یہ کس طرح معلوم ہوا کہ بعد میں بھی حواری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ملنے کے لئے ملک ہند میں نہیں آئے بلکہ عیسائی اس بات کے خود قائل ہیں کہ بعض حواری اُن دنوں میں ملک ہند میں


انبیاء علیہم السلام کی نسبت یہ بھی ایک سنّت اللہ ہے کہ وہ اپنے ملک سے ہجرت کرتے ہیں۔ جیسا کہ یہ ذکر صحیح بخاری میں بھی موجود ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی مصر سے کنعان کی طرف ہجرت کی تھی۔ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مکّہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ پس ضرور تھا کہ حضرت عیسیٰ بھی اِس سنّت کو ادا کرتے۔ سو انہوں نے واقعہ صلیب کے بعد کشمیر کی طرف ہجرت کی۔ انجیل میں بھی اِس ہجرت کی طرف اشارہ ہے کہ نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں۔ اس جگہ نبی سے مراد انہوں نے اپنے وجود کو لیا ہے۔ پس اس جگہ عیسائیوں کے لئے شرم کی جگہ ہے کہ وہ ان کو نبی نہیں بلکہ خدا قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ نبی وہ ہوتا ہے جو خدا سے الہام پاتا ہے۔ پس خدا اور نبی کا الگ الگ ہونا ضروری ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 351

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 351

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/351/mode/1up


ضرور آئے تھے اور دھوما حواری کا مدراس میں آنا اور اب تک مدراس میں ہر سال اُس کی یادگار میں عیسائیوں کا ایک اجتماع میلہ کی طرح ہونا یہ ایسا امر ہے کہ کسی واقف کار پر پوشیدہ نہیں۔ بلکہ ہم لوگ جس قبر کو سری نگر کشمیر میں حضرت عیسیٰ کی قبر کہتے ہیں عیسائیوں کے بڑے بڑے پادری خیال کرتے ہیں کہ وہ کسی حواری کی قبر ہے۔ حالانکہ صاحب قبر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مَیں نبی ہوں اور شاہزادہ ہوں اور میرے پر انجیل نازل ہوئی تھی اورکشمیر کی پُرانی تاریخی کتابیں جو ہمارے ہاتھ آئیں اُن میں لکھا ہے کہ یہ ایک نبی بنی اسرائیل میں سے تھا جو شاہزادہنبی کہلاتا تھا۔ اورؔ اپنے ملک سے کشمیر میں ہجرت کر کے آیا تھا۔ اور ان کتابوں میں جو تاریخ آمد لکھی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بات پر اب ہمارے زمانہ میں اُنیس سو۱۹۰۰ برسگزر گئے جب یہ نبی کشمیر میں آیا تھا۔ اور ہم عیسائیوں کو اس طرح ملزم کرتے ہیں کہ جب کہ تمہیں اقرار ہے کہ صاحب اِس قبر کا جو سری نگر محلہ خانیار میں مدفون ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حواری تھا مگر اُس کی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ نبی تھا اور شاہزادہ تھا اور اُس پر انجیل نازل ہوئی تھی تو اِس صورت میں وہ حواری کیونکر ہو گیا۔ کیا کوئی حواری کہہ سکتا ہے کہ مَیں شاہزادہ ہوں اور نبی ہوں اور میرے پر انجیل نازل ہوئی ہے۔ پس کچھ شک نہیں کہ یہ قبر جو کشمیر میں ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے۔ اور جو لوگ اُن کو آسمان میں بٹھاتے ہیں اُن کو واضح رہے کہ وہ کشمیر میں یعنی سری نگر محلہ خانیار میں سوئے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے اصحابِ کہف کو مدّت تک چھپایا تھا ایسے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی چھپا رکھا اور اخیر میں ہم پر حقیقت کھول دی۔ خدا تعالیٰ کے کاموں میں ایسے ہزار ہا نمونے ہیں اور خدا تعالیٰ کی عادت نہیں ہے کہ کسی کو مع جسم آسمان پر بٹھا وے۔

قولہ۔ احادیث میں نازل ہونے والے عیسیٰ کو نبی اللہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ تو کیا قرآن اور حدیث سے ثابت ہو سکتا ہے کہ محدّث کو بھی نبی کہا گیا ہے۔

اقول۔ عربی اور عبرانی زبان میں نبی کے معنے صرف پیشگوئی کرنے والے کے ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 352

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 352

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/352/mode/1up


جو خدا تعالیٰ سے الہام پا کر پیشگوئی کرے۔ پس جب کہ قرآن شریف کی رُو سے ایسی نبوت کا دروازہ بند نہیں ہے جو بتوسط فیض و اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی انسان کو خدا تعالیٰ سے شرفِ مکالمہ اور مخاطبہ حاصل ہو اور وہ بذریعہ وحی الٰہی کے مخفی امور پر اطلاع پاوے تو پھر ایسے نبی اس اُمت میں کیوں نہیں ہوں گے۔ اِس پر کیا دلیل ہے۔ ہمارا مذہب نہیں ہے کہ ایسی نبوت پر مہر لگ گئی ہے۔ صرف اُس نبوت کا دروازہ بند ہے جو احکامِ شریعتِ جدیدہ ساتھ رکھتی ہو یا ایسا دعویٰ ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے الگ ہو کر دعویٰ کیا جائے لیکن ایسا شخص جو ایک طرف اُس کو خدا تعالیٰ اُس کی وحی میں امّتی بھی قرار دیتا ہے پھر دوسری طرف اس کا نام نبی بھی رکھتا ہے۔ یہ دعویٰ قرآن شریف کے احکام کے مخالف نہیں ہے کیونکہ یہ نبوت بباعث امّتی ہونے کے دراؔ صل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ظلّ ہے کوئی مستقل نبوت نہیں ہے۔ اور اگر آپ پورے طور پر حدیثوں پر غور کرتے تو یہ اعتراض آپ کے دل میں ہر گز پیدا نہ ہوتا۔ آپ فرماتے ہیں کہ عیسیٰ نازل ہونے والے کو حدیثوں میں نبی اللہ کہا گیا ہے مَیں کہتا ہوں کہ اُسی عیسیٰ نازل ہونے والے کو حدیثوں میں اُمّتی بھی تو کہا گیا ہے۔* کیا آپ قرآن شریف یا حدیثوں سے بتلا سکتے ہیں کہ عیسیٰ ابن مریم جو رسول گذرا ہے اُس کا نام کسی جگہ امّتی بھی رکھا گیا ہے پس صاف ظاہر ہے کہ یہ عیسیٰ جو اُمّتی بھی کہلاتا ہے اور نبی بھی کہلاتا ہے یہ عیسیٰ اور ہے وہ عیسیٰ نہیں ہے جو بنی اسرائیل میں گذرا ہے جو ایک مستقل نبی تھا جس پر انجیل نازل ہوئی اُس کو آپ کیونکر اُمّتی بنا سکتے ہیں۔ صحیح بخاری میں جہاں آنے والے عیسیٰ کا نام اُمّتی رکھا گیا ہے اس کا حلیہ بھی بر خلاف پہلے عیسیٰ کے قرار دیا ہے۔ ہاں اگر آنے والے عیسیٰ کی نسبت

اُمّتی اس شخص کو کہتے ہیں جو بغیر پیروی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی طرح اپنے کمال کو نہیں پہنچ سکتا پس کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت یہ گمان ہو سکتا ہے کہ وہ اُس وقت تک ناقص ہی رہیں گے جب تک دوبارہ دنیا میں آ کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں داخل نہیں ہوں گے اور آ پ کی پیروی نہیں کریں گے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 353

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 353

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/353/mode/1up


حدیثوں میں صرف نبی کا لفظ استعمال پاتا اور امّتی اس کا نام نہ رکھا جاتا تو دھوکا لگ سکتا تھا۔ مگر اب تو صحیح بخاری میں آنے والا عیسیٰ کی نسبت صاف لکھا ہے کہ امامکم منکم یعنی اے اُمّتیو! آنے والا عیسیٰ بھی صرف ایک اُمّتی ہے نہ اور کچھ۔ ایسا ہی صحیح مسلم میں بھی اُس کی نسبت یہ لفظ ہیں کہ امّکم منکم یعنی وہ عیسیٰ تمہارا امام ہو گا اور تم میں سے ہو گا یعنی ایک فرد اُمّت میں سے ہو گا۔

اب جب کہ ان حدیثوں سے ثابت ہے کہ آنے والا عیسیٰ امّتی ہے تو کلام الٰہی میں اس کا نام نبی رکھنا اُن معنوں سے نہیں ہے جو ایک مستقل نبی کے لئے مستعمل ہوتے ہیں بلکہ اس جگہ صرف یہ مقصود ہے کہ خدا تعالیٰ اس سے مکالمہ مخاطبہ کرے گا اور غیب کی باتیں اس پر ظاہر کرے گا اس لئے باوجود امّتی ہونے کے وہ نبی بھی کہلائے گا اور اگر یہ کہا جائے کہ اس اُمّت پر قیامت تک دروازہ مکالمہ مخاطبہ اور وحیِ الٰہی کا بند ہے تو پھر اس صورت میں کوئی امّتی نبی کیونکر کہلا سکتا ہے کیونکہ نبی کے لئے ضروری ہے کہ خدا اس سے ہمکلام ہو تو اس کایہ جواب ہے کہ اس اُمت پر یہ دروازہ ہر گز بند نہیں ہے اور اگر اس امت پر یہ دروازہ بند ہوتا تو یہ امّت ایک مُردہ اُمّت ہوتی اور خدا تعالیٰ سے دُور اور مہجور ہوتی۔ اور اگر یہ دروازہ اس اُمت پر بند ہوتا تو کیوں قرآن میں یہ دُعا سکھلائی جاتی کہ33اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خاتم الانبیاء فرمایا گیا ہے اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ آپ کے بعد دروازہ مکالمات و مخاطبات الٰہیہ کا بند ہے۔ اگر یہ معنے ہوتے تو یہ اُمت ایک *** امت ہوتی جو شیطان کی طرح ہمیشہ سے خدا تعالیٰ سے دُور و مہجور ہوتی بلکہ یہ معنے ہیں کہ براہِ راست خدا تعالیٰ سے فیضِ وحی پانا بند ہے اور یہ نعمت بغیر اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کو ملنا محال اور ممتنع ہے اور یہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فخر ہے کہ اُن کی اتباع میں یہ برکت ہے کہ جب ایک شخص پورے طور پر آپ کی پیروی کرنے والا ہو تو وہ خدا تعالیٰ کے مکالمات اور مخاطبات سے مشرف ہو جائے۔ ایسا نبی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 354

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 354

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/354/mode/1up


کیا عزت اور کیا مَرتبت اور کیا تاثیر اور کیا قُوّت قدسیہ اپنی ذات میں رکھتا ہے جس کی پیروی کے دعویٰ کرنے والے صرف اندھے اور نابینا ہوں۔ اور خدا تعالیٰ اپنے مکالمات و مخاطبات سے اُن کی آنکھیں نہ کھولے۔ یہ کس قدر لغو اور باطل عقیدہ ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وحی الٰہی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ہے اور آئندہ کو قیامت تک اس کی کوئی بھی امید نہیں۔ صرف قصّوں کی پوجا کرو پس کیا ایسا مذہب کچھ مذہب ہو سکتا ہے جس میں براہ راست خدا تعالیٰ کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتاجو کچھ ہیں قصّے ہیں۔ اور کوئی اگرچہ اس کی راہ میں اپنی جان بھی فدا کرے اُس کی رضا جوئی میں فنا ہو جائے اور ہر ایک چیز پر اُس کو اختیار کرلے تب بھی وہ اس پر اپنی شناخت کا دروازہ نہیں کھولتا اور مکالمات اور مخاطبات سے اس کو مشرف نہیں کرتا۔

میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس زمانہ میں مجھ سے زیادہ بیزار ایسے مذہب سے اور کوئی نہ ہو گا۔میں ایسے مذہب کا نام شیطانی مذہب رکھتا ہوں نہ کہ رحمانی۔ اورمیں یقین رکھتا ہوں کہ ایسا مذہب جہنم کی طرف لے جاتا ہے اور اندھا رکھتااور اندھا ہی مارتا اور اندھا ہی قبر میں لے جاتا ہے۔ مگر میں ساتھ ہی خدائے کریم و رحیم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اسلام ایسا مذہب نہیں بلکہ دنیا میں صرف اسلام ہی یہ خوبی اپنے اندر رکھتا ہے کہ وہ بشرط سچی اور کامل اتباع ہمارے سیّد و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکالماتِ الٰہیہ سے مشرف کرتا ہے۔ اسی وجہ سے تو حدیث میں آیا ہے کہ علماء امّتی کانبیاءِ بنی اسرائیل یعنیؔ میری اُمت کے علماء ربّانی بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں۔ اس حدیث میں بھی علماء ربّانی کو ایک طرف اُمتّی کہا اور دوسری طرف نبیوں سے مشابہت دی ہے۔

اور خود ظاہر ہے کہ جب کہ خدا تعالیٰ قدیم سے اپنے بندوں کے ساتھ ہمکلام ہوتا آیا ہے یہاں تک کہ بنی اسرائیل میں عورتوں کو بھی خدا تعالیٰ کے مکالمہ اور مخاطبہ کا شرف حاصل ہوا ہے جیسے حضرت موسیٰ کی ماں اور مریم صدیقہ کو۔تو پھر یہ امّت کیسی بدقسمت اور بے نصیب ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 355

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 355

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/355/mode/1up


کہ اس کے مرد بنی اسرائیل کی عورتوں کی طرح بھی نہیں۔ کیا گمان ہو سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ سنتا توہے مگر بولتا نہیں۔ اگر غریب بندوں کی دعائیں سننے میں اُس کی کچھ ہتکِ عزت نہیں تو بولنے میں کیوں ہتک عزت ہے۔

یاد رہے کہ خدا تعالیٰ کے صفات کبھی معطل نہیں ہوتے۔ پس جیسا کہ وہ ہمیشہ سنتا رہے گا ایسا ہی وہ ہمیشہ بولتا بھی رہے گا۔ اس دلیل سے زیادہ تر صاف اور کونسی دلیل ہو سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے سُننے کی طرح بولنے کا سِلسلہ بھی کبھی ختم نہیں ہو گا۔ اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک گروہ ہمیشہ ایسا رہے گا جن سے خدا تعالیٰ مکالمات و مخاطبات کرتا رہے گا۔ اور مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ نبی کے نام پر اکثر لوگ کیوں چِڑ جاتے ہیں جس حالت میں یہ ثابت ہو گیا ہے کہ آنے والا مسیح اسی اُمّت میں سے ہو گاپھر اگر خدا تعالیٰ نے اس کا نام نبی رکھ دیا تو حرج کیا ہوا۔ ایسے لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ اِسی کا نام امّتی بھی تو رکھا گیا ہے اور اُمّتیوں کی تمام صفات اس میں رکھی گئی ہیں۔ پس یہ مرکّب نام ایک الگ نام ہے اور کبھی حضرت عیسیٰ اسرائیلی اس نام سے موسوم نہیں ہوئے اور مجھے خدا تعالیٰ نے میری وحی میں بار بار اُمّتی کر کے بھی پکارا ہے اور نبی کر کے بھی پکارا ہے۔ اور اِن دونوں ناموں کے سُننے سے میرے دل میں نہایت لذّت پیدا ہوتی ہے۔ اور میں شکر کرتا ہوں کہ اس مرکب نام سے مجھے عزت دی گئی۔ اور اس مرکب نام کے رکھنے میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ تا عیسائیوں پر ایک سرزنش کا تازیانہ لگے کہ تم عیسیٰ بن مریم کو خدا بناتے ہو۔ مگر ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس درجہ کا نبی ہے کہ اُس کی اُمّت کا ایک فرد نبی ہو سکتا ہے اور عیسیٰ کہلا سکتا ہے۔ حالانکہ وہ اُمّتی ہے۔

قولہ۔ مہدی موعود کی صفت میں جو بعض احادیث میں من وُلد فاطمۃ واقع ہے اور بعض میں من عترتی اور بعض میں من اھل بیتی بھی واقع ہے اور یہ بھی واقع ہے کہ یواطئُ اسمہ اسمی و اسم ابیہ اسم ابی۔ پس اِ ن میں سے ہر ایک کی کیا توجیہ ہے بیان فرماویں۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 356

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 356

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/356/mode/1up


ا قول۔ میرا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ مَیں وہ مہدی ہوں جو مصداق من ولد فاطمۃ۔ و من عترتی وغیرہ ہے بلکہ میرا دعویٰ تو مسیح موعود ہونے کا ہے۔ اور مسیح موعود کے لئے کسی محدث کا قول نہیں کہ وہ بنی فاطمہ وغیرہ میں سے ہو گا۔ ہاں ساتھ اس کے جیسا کہ تمام محدثین کہتے ہیں مَیں بھی کہتا ہوں کہ مہدی موعود کے بارے میں جس قدر حدیثیں ہیں تمام مجروح اور مخدوش ہیں اور ایک بھی اُن میں سے صحیح نہیں۔ اور جس قدر افترا ان حدیثوں میں ہوا ہے کسی اور حدیث میں ایسا افترا نہیں ہوا۔ خلفاء عباسی وغیرہ کے عہد میں خلیفوں کو اس بات کا بہت شوق تھا کہ اپنے تئیں مہدی موعود قرار دیں۔ پس اس وجہ سے بعض حدیثوں میں مہدی کو بنی عباس میں سے قرار دیا اور بعض میں بنی فاطمہ میں سے اور بعض حدیثوں میں یہ بھی ہے کہ رجل من اُمّتی کہ وہ ایک آدمی میری اُمّت میں سے ہو گا۔ مگر دراصل یہ تمام حدیثیں کسی اعتبار کے لائق نہیں یہ صرف میرا ہی قول نہیں بلکہ بڑے بڑے علماء اہل سنّت یہی کہتے چلے آئے ہیں۔ اوران حدیثوں کے مقابل پر یہ حدیث بہت صحیح ہے جو ابن ماجہ نے لکھی ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ لا مھدی الّا عیسٰی یعنی اورکوئی مہدی نہیں صرف عیسیٰ ہی مہدی ہے جو آنے والا ہے۔

قولہ۔ پیشین گوئیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جس میں علماء نے بھی تاویل کی ہے اکثر ایسی پائی جاتی ہیں جو بطور رؤیا کے منکشف ہوئی ہیں۔ الخ

ا قول۔اس اعتراض کو مَیں نہیں سمجھ سکا اس لئے جواب سے مجبوری ہے۔

قولہ۔ اہل ظاہر تو چشم باطن نہیں رکھتے اس لئے ان لوگوں کا حضرت مسیح موعود کو نہ پہچاننا کچھ تعجب نہیں۔ مگر جو لوگ اہل اللہ و اہلِ باطن ہیں ان لوگوں کو تو حضرت کو بذریعہ الہام وغیرہ پہچاؔ ننا ضروری ہے۔ جیسا کہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی مرحوم رسالہ تذکرۃ المعاد میں امام مہدی موعود کے حال میں لکھتے ہیں کہ ابدال از شام و عصائب از عراق آمدہ باوے بیعت کنند۔

ا قول۔یہ تمام اقوال اُس بناپر ہیں کہ مہدی موعود بنی فاطمہ سے یا بنی عباس سے آئے گا اور ابدال اور قطب اس کی بیعت کریں گے مگر مَیں ابھی لکھ چکا ہوں کہ اکابر محدثین کا یہی مذہب ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 357

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 357

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/357/mode/1up


کہ مہدی کی حدیثیں سب مجروح اور مخدوش بلکہ اکثر موضوع ہیں اور ایک ذرّہ ان کا اعتبار نہیں بعض اَئمہ نے ان حدیثوں کے ابطال کے لئے خاص کتابیں لکھی ہیں اور بڑے زور سے ان کو ردّ کیا ہے اور جب کہ یہ حال ہے کہ خود مہدی کا آنا ہی معرضِ شک اور شبہ میں ہے تو پھر ابدال کا بیعت کرنا کب ایک یقینی امر ہو سکتا ہے۔ جب اصل ہی صحیح نہیں تو فروع کب صحیح ٹھہر سکتے ہیں۔ ماسوا اس کے ابدال کے سر پر سینگ تو نہیں ہوتے۔ جو لوگ اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کر لیتے ہیں وہی خدا تعالیٰ کے نزدیک ابدال کہلاتے ہیں۔ اگر آپ ہی پاک تبدیلی پیدا کر لیں اور لوگوں کی *** ملامت سے لاپروا ہو کر حق پر فدا ہو جائیں تو پھر آپ ہی ابدال میں داخل ہیں۔

میری جماعت میں اکثرایسے لوگ ہیں جنہوں نے اس سِلسلہ کے لئے بہت دُکھ اٹھائے ہیں اور بہت ذلتیں اٹھائی ہیں اور جان دینے تک فرق نہیں کیا۔ کیا وہ ابدال نہیں ہیں شیخ عبدالرحمن۔ امیر عبدالرحمن کے سامنے اس سِلسلہ کے لئے گلا گھونٹ کر مارا گیا۔ اور اُس نے ایک بکری کی طرح اپنے تئیں ذبح کرا لیا کیا وہ ابدال میں داخل نہ تھا؟ ایسا ہی مولوی صاحبزادہ عبداللطیف جو محدث اور فقیہ اور سر آمدِ علماء کابل تھے اس سِلسلہ کے لئے سنگسار کئے گئے اور بار بار سمجھایا گیا کہ اس شخص کی بیعت چھوڑ دو پہلے سے زیادہ عزت ہو گی۔ لیکن انہوں نے مرنا قبول کیا اور بیوی اور چھوٹے چھوٹے بچوں کی بھی کچھ پروا نہ کی اور چا۴۰ لیس دن تک پتھروں میں اُن کی لاش پڑی رہی ۔کیا وہ ابدال میں سے نہ تھے؟ اور ابھی مَیں خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہوں اور اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے وعدے ہیں معلوم نہیں کس قدر اور کن کن ملکوں سے پاک دل لوگ میری جماعت میں داخل ہوں گے ماسوا اس کے مسیح موعود کی نسبت تو آثار میں یہ لکھا ہے کہ علماء اس کو قبول نہیں کریںؔ گے کسی ابدال کی بیعت کا ذکر بھی نہیں۔

قولہ۔ چونکہ حضرت کی اب تک کوئی ایسی تاثیر روشن طور پر ظہور میں نہیں آئی ہے اور دو تین لاکھ آدمی کا حضرت کے سِلسلہ میں داخل ہونا گویا دریا میں سے ایک قطرہ ہے۔ پس اگر تاثیر بیّن کے ظہور تک کوئی بغیر انکار کے داخل سِلسلہ ہونے میں توقّف اور تاخیر کرے تو یہ جائز ہو گا یا نہیں؟



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 358

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 358

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/358/mode/1up


ا قول۔ توقف اور تاخیر بھی ایک قسم انکار کی ہے۔ اور رہی یہ بات کہ اب تک بہت سے ایمان نہیں لائے۔ یہ دلیل اس بات کی نہیں ہو سکتی کہ دعویٰ ثابت نہیں۔ اگر کوئی مامور دلائل اور نشان اپنے ساتھ رکھتا ہے تو کسی کے ایمان نہ لانے سے اس کا دعویٰ کمزور نہیں ہو سکتا۔ ماسوا اس کے یہ بھی دیکھنا چاہئیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک جو لوگ سچے دل سے ایمان لائے تھے وہ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نہ تھے۔ پس کیا ان کی کمی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت مشتبہ ہو سکتی ہے؟

اصل بات یہ ہے کہ نبیء برحق کی حقّانیت کے لئے ایمان لانے والوں کی کثرت شرط نہیں ہے۔ ہاں دلائل قاطعہ سے اتمام حجت شرط ہے۔ پس اس جگہ منہاج نبوت کی رُو سے اتمام حجت ہو چکا ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق دو مرتبہ ملک میں کسوف خسوف ہو گیا جو مسیح موعود کے ظہور کی نشانی تھی۔ اسی طرح ایک نئی سواری جس کی طرف قرآن شریف اور حدیثوں میں اشارہ تھا وہ بھی ظہور میں آ گئی یعنی سواریء ریل۔جو اونٹوں کے قائم مقام ہو گئی۔ جیسا کہ قرآن شریف میں ہے۔3۱؂ یعنی وہ آخری زمانہ جب اونٹنیاں بے کار کی جائیں گی۔ اورجیسا کہ حدیث مسلم میں مسیح موعود کے ظہور کے علامات میں سے ہے ولیترکن القلاص فلا یُسعٰی علیھا۔ یعنی تب اونٹنیاں بے کار ہو جائیں گی اور اُن پر کوئی سوار نہ ہو گا سو ظاہر ہے کہ وہ زمانہ آ گیا۔ اور یہ بھی لکھا گیا تھا کہ اُس زمانہ میں زلزلے آئیں گے۔ سو وہ زلزے بھی لوگوں نے دیکھ لئے اور جو باقی ہیں وہ بھی دیکھ لیں گے۔ اور لکھا گیا تھا کہ آدم علیہ السلام سے ہزار ششم کے اخیر پر وہ مسیح موعود پیدا ہو گا۔ سو اسی وقت میں میری پیدائش ہوئی ہے۔ ایسا ہی قرآن شریف نے اس طرف اشارہ کیاتھا کہ وہ مسیح موعود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح چودھویں صدی میں ظاہر ہو گا۔*سو میرا ظہور چودھویں صدی میں ہوا ۔یعنیؔ جیسا کہ حضرت

اگرچہ عیسائیوں نے غلطی سے یہ لکھاہے کہ یسوع مسیح حضرت موسیٰ کے بعد پندرھویں صدی میں ظاہر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 359

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 359

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/359/mode/1up


عیسیٰ علیہ السلام حضرت موسٰی ؑ سے چودھویں صدی میں پیدا ہوئے تھے۔ مَیں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے چودھویں صدی میں ظاہر ہوا ہوں اور اس آخری زمانہ کی نسبت خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ خبریں بھی دی تھیں کہ کتابیں اور رسالے بہت سے دنیا میں شائع ہو جائیں گے اور قوموں کی باہمی ملاقات کے لئے راہیں کھل جائیں گی۔ اور دریاؤں میں سے بکثرت نہریں نکلیں گی۔ اور بہت سی نئی کانیں پیدا ہو جائیں گی۔ اور لوگوں میں مذہبی امور میں بہت سے تنازعات پیدا ہوں گے۔ اور ایک قوم دوسری قوم پر حملہ کرے گی۔ اور اسی اثناء میں آسمان سے ایک صُور پھونکی جائے گی۔ یعنی خدا تعالیٰ مسیح موعود کو بھیج کر اشاعت دین کے لئے ایک تجلّی فرمائے گا۔ تب دین اسلام کی طرف ہر ایک ملک میں سعید الفطرت لوگوں کو ایک رغبت پیدا ہو جائے گی۔ اور جس حد تک خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے تمام زمین کے سعید لوگوں کو اسلام پر جمع کرے گا۔ تب آخر ہو گا۔ سو یہ تمام باتیں ظہور میں آگئیں۔ ایسا ہی احادیثِ صحیحہ میں آیا تھا کہ وہ مسیح موعود صدی کے سر پر آئے گا۔ اور وہ چودھویں صدی کا مجدّد ہو گا۔ سو یہ تمام علامات بھی اس زمانہ میں پوری ہو گئیں۔ اور لکھا تھا کہ وہ اپنی پیدائش کی رُو سے دو صدیوں میں اشتراک رکھے گا۔ اور دو نام پائے گا۔ اور اُس کی

ہوا تھا مگر یہ انہوں نے غلطی کی ہے۔ یہودیوں کی تاریخ سے بالاتفاق ثابت ہے کہ یسوع یعنی حضرت عیسیٰ موسیٰ کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا تھا اور وہی قول صحیح ہے اگرچہ مشابہت کے ثابت کرنے کے لئے پوری مطابقت ضروری نہیں ہوا کرتی جیسا کہ اگر کسی آدمی کو کہیں کہ یہ شیر ہے تویہ ضروری نہیں کہ شیر کی طرح اس کے پنجے اور کھال ہواور دُم بھی ہو اور آواز بھی شیر کی طرح رکھتا ہو بلکہ ایک شخص کو دوسرے کا مثیل ٹھہرانے میں ایک حد تک مشابہت کافی ہوتی ہے۔ پس اگر عیسائیوں کا قول قبول کر لیں کہ حضرت عیسیٰ حضرت موسیٰ سے پندرھویں صدی میں ہوئے تھے تا ہم مضائقہ نہیں کیونکہ چودھویں اور پندرھویں صدی باہم ملحق ہیں اور اس قدر فرق زمانہ کا مشابہت میں کچھ حرج نہیں ڈالتا مگر ہم اس جگہ یہودیوں کے قول کو ترجیح دیتے ہیں جو کہتے ہیں کہ یسوع یعنی حضرت عیسیٰ حضرت موسیٰ کے بعد عین چودھویں صدی میں مدعئ نبوت ہوا تھا کیونکہ ان کے ہاتھ میں جو عبرانی توریت ہے وہ بہ نسبت عیسائیوں کے تراجم کے صحیح ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 360

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 360

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/360/mode/1up


پیدائش دو خاندن سے اشتراک رکھے گی۔ اور چو۴ تھیدو گو نہ صفت یہ کہ پیدائش میں بھی جوڑے کے طور پر پیدا ہو گا۔ سو یہ سب نشانیاں ظاہر ہو گئیں کیونکہ دو صدیوں سے اشتراک رکھنا یعنی ذوالقرنین ہونا میری نسبت ایسا ثابت ہے کہ کسی قوم کی مقرر کردہ صدی ایسی نہیں ہے جس میں میری پیدائش اس قوم کی دو صدیوں پر مشتمل نہیں۔ اِسی طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے دو نام مَیں نے پائے۔ ایک میرا نام اُمّتی رکھا گیا جیسا کہ میرے نام غلام احمدؐ سے ظاہر ہے۔ دوسرے میرا نام ظلّی طور پر نبی رکھا گیا۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے حصص سابقہ براہین احمدیہ میں میرا نام احمد رکھا۔ اور اسی نام سے بار بار مجھ کو پکارا اور یہ اسی بات کی طرف اشارہ تھا کہ مَیں ظلّی طور پر نبی ہوں۔ *پس مَیں اُمّتی بھی ہوں اور ظلّی طور پر نبی بھی ہوں۔ اِسی کی طرف وہ وحی الٰہی بھی اشارہ کرتی ہے جو حصص سابقہ براہین احمدیہ میں ہے۔ کُلّ برکۃٍ من محمدٍ صلی اللّٰہ علیہ و سلم فتبارک من علّم و تعلّم۔ یعنی ہر ایک برکت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے۔ پسؔ بہت برکت والا وہ انسان ہے جس نے تعلیم کی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور پھر بعد اس کے بہت برکت والا وہ ہے جس نے تعلیم پائی یعنی یہ عاجز۔ پس اتباع کامل کی وجہ سے میرا نام امتی ہوا۔ اور پورا عکس نبوت حاصل کرنے سے میرا نام نبی ہو گیا۔ پس اس طرح پر مجھے دو نام حاصل ہوئے۔ جو لوگ بار بار اعتراض کرتے ہیں کہ صحیح مسلم میں آنے والے عیسیٰ کا نام نبی رکھا گیا ہے اُن پر لازم ہے کہ یہ ہمارا بیان توجہ سے پڑھیں کیونکہ جس مسلم میں آنے والے عیسیٰ کا نام نبی رکھا گیا ہے اُسی مسلم میں آنے والے عیسیٰ کا نام امّتی بھی رکھا گیا ہے۔ اور


کوئی شخص اس جگہ نبی ہونے کے لفظ سے دھوکا نہ کھاوے۔ مَیں بار بار لکھ چکا ہوں کہ یہ وہ نبوت نہیں ہے جو ایک مستقل نبوت کہلاتی ہے کوئی مستقل نبی اُمّتی نہیں کہلا سکتا۔ مگر مَیں اُمّتی ہوں۔ پس یہ صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اعزازی نام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے حاصل ہوا تا حضرت عیسیٰ سے تکمیل مشابہت ہو۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 361

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 361

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/361/mode/1up


نہ صرف حدیثوں میں بلکہ قرآن شریف سے بھی یہی مستنبط ہوتا ہے کیونکہ سورۂ تحریم میں صریح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ بعض افراد اس امت کا نام مریم رکھا گیا ہے اور پھر پوری اتباع شریعت کی وجہ سے اس مریم میں خداتعالیٰ کی طرف سے رُوح پُھونکی گئی اور رُوح پھونکنے کے بعد اس مریم سے عیسیٰ پیدا ہو گیا۔ اور اِسی بنا پر خدا تعالیٰ نے میرا نام عیسیٰ بن مریم رکھا کیونکہ ایک زمانہ میرے پر صرف مریمی حالت کا گذرا۔ اور پھر جب وہ مریمی حالت خدا تعالیٰ کو پسند آ گئی تو پھر مجھ میں اُس کی طرف سے ایک رُوح پُھونکی گئی۔ اس رُوح پُھونکنے کے بعد میں مریمی حالت سے ترقی کر کے عیسیٰ بن گیا۔ جیسا کہ میری کتاب براہین احمدیہ حصص سابقہ میں مفصّل اس بات کا تذکرہ موجود ہے۔ کیونکہ براہین احمدیہ حصص سابقہ میں اول میرا نام مریم رکھا گیا۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ یا مریم اسکن انت و زوجک الجنّۃ۔ یعنی اے مریم! تو اور وہ جو تیرا رفیق ہے دونوں بہشت میں داخل ہو جاؤ۔ اور پھر اسی براہین احمدیہ میں مجھے مریم کا خطاب دے کر فرمایا ہے۔ نَفختُ فیکِ من روح الصدق یعنی اے مریم! مَیں نے تجھ میں صدق کی رُوح پھونک دی۔ پس استعارہ کے رنگ میں رُوح کا پھونکنا اُس حمل سے مشابہ تھا جو مریم صدیقہ کو ہوا تھا۔ اور پھر اس حمل کے بعد آخر کتاب میں میرا نام عیسیٰ رکھ دیا۔ جیسا کہ فرمایا کہ یا عیسٰی انّی متوفّیک و رافعک الیّ۔ یعنی اے عیسیٰ مَیں تجھے وفات دوں گا اور مومنوں کی طرح میں تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا۔ اور اس طرح پر مَیں خدا کی کتاب میں عیسیٰ بن مریم کہلایا۔ چونکہ مریم ایک اُمّتی فرد ہے اور عیسیٰ ایک نبی ہے۔پس میرا نام مریم اور عیسیٰ رکھنے سے یہ ظاہر کیا گیا کہ مَیں اُمّتی بھی ہوں اور نبی بھی۔ مگر وہ نبی جو اتباع کی برکت سے ظلّی طور پر خدا تعالیٰ کے نزدیک نبیؔ ہے اور میرا عیسیٰ بن مریم ہونا وہی امر ہے جس پر نادان اعتراض کرتے ہیں کہ حدیثوں میں تو آنے والے عیسیٰ کا نام عیسیٰ بن مریم رکھا گیا ہے مگر یہ شخص تو ابن مریم نہیں ہے۔ اور اس کی والدہ کا نام مریم نہ تھااور نہیں جانتے کہ جیسا کہ سورۂ تحریم میں وعدہ تھا میرا نام پہلے مریم رکھا گیا اور پھر خدا کے فضل نے مجھ میں نفخ رُوح کیایعنی اپنی ایک خاص تجلّی سے اُس مریمی حالت سے ایک دوسری حالت پیدا کی اور اس کا نام عیسیٰ رکھا۔ اور چونکہ وہ حالت



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 362

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 362

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/362/mode/1up


مریمی حالت سے پیدا ہوئی۔ اس لئے خدا نے مجھے عیسیٰ بن مریم کے نام سے پکارا۔ پس اس طرح پر مَیں عیسیٰ بن مریم بن گیا۔ غرض اس جگہ مریم سے مراد وہ مریم نہیں ہے جوحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ماں تھی بلکہ خدا نے ایک روحانی مشابہت کے لحاظ سے جو مریم اُمّ عیسیٰ کے ساتھ مجھے حاصل تھی۔ میرا نام براہین احمدیہ حصص سابقہ میں مریم رکھ دیا۔ پھر ایک دوسری تجلّی میرے پر فرما کر اُس کو نفخ رُوح سے مشابہت دی۔ اور پھر جب وہ رُوح معرض ظہور اور بروز میں آئی تو اس رُوح کے لحاظ سے میرا نام عیسیٰ رکھا۔ پس اسی لحاظ سے مجھے عیسیٰ بن مریم کے نام سے موسوم کیا گیا۔

اس جگہ اس نکتہ کو بھی سمجھ لینا چاہیئے کہ قرآن شریف میں یہ آیت یعنی3 33 ۱؂ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں تھی۔ مگر براہین احمدیہ حصص سابقہ میں یہ آیت میرے حق میں نازل کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسا کہ حضرت عیسیٰ پر کفر کا فتویٰ لگا کر ان کی نسبت یہود کا یہی عقیدہ تھا کہ ان کی رُوح خدا کی طرف نہیں اٹھائی گئی۔ یہی عقیدہ مخالفین قوم کا میرے حق میں ہے یعنی وہ کہتے ہیں کہ یہ شخص کافر ہے اِس کی رُوح خدا تعالیٰ کی طرف نہیں اٹھائی جائے گی۔ اُن کے رد کے لئے خدا تعالیٰ مجھے فرماتا ہے کہ بعد موت مَیں تیری رُوح اپنی طرف اٹھاؤں گا اور یہ جو فرمایا اِنّی متوفّیکاِس میں ایک اَور پیشگوئی مخفی ہے اور وہ یہ ہے کہ توفّی زبان عرب میں اس قسم کی موت دینے کو کہتے ہیں جو طبعی موت ہو بذریعہ قتل یا صلیب نہ ہو۔ جیسا کہ علّامہ زمخشری نے اپنی تفسیر کشّاف میں زیر آیت یا عیسٰی انّی متوفّیک یہ تفسیر لکھی ہے انّی ممیتک حتف انفک۔ یعنی میں تجھے طبعی موت کے ساتھ ماروں گا۔ پس چونکہ خدا تعالیٰ جانتاؔ تھا کہ میرے قتل اور صلیب کے لئے بھی وہ کوشش کی جائے گی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے کی گئی۔ اس لئے اُس نے بطور پیشگوئی مجھے بھی مخاطب کر کے یہی فرمایا کہ یا عیسٰی انّی متوفیک اس میں یہی اشارہ تھا کہ مَیں قتل اور صلیب سے بچاؤں گا اور ظاہر ہے کہ میرے قتل اور صلیب کے لئے بہت کوششیں ہوئیں۔ جیسا کہ میرے قتل کے لئے علماء قوم نے فتوے دیئے۔ اور ایک جھوٹا مقدمہ پھانسی دلانے کے لئے میرے پر بنایا گیا جس میں مستغیث پادری ڈاکٹر مارٹن کلارک تھا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 363

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 363

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/363/mode/1up


اور منجملہ گواہوں کے مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی تھے۔ اور الزام یہ تھا کہ اس شخص نے عبدالمجید نام ایک شخص کو ڈاکٹر مارٹن کلارک کے قتل کے لئے بھیجا تھا۔ چنانچہ شہادتیں برخلاف میرے پورے طور پر گذر گئیں مگر خدا نے مجھے مقدمہ سے پہلے ہی اطلاع دی تھی کہ ایسا مقدمہ ہو گا۔ اور مَیں تجھے بچاؤں گااور وہ وحی الٰہی قریباً سا۶۰ٹھ یا ستّر۷۰ یااسّی۸۰ آدمی کو قبل ازمقدمہ سُنائی گئی تھی۔ چنانچہ خدا نے مجھے اپنی پاک وحی کے مطابق اس جھوٹے الزام سے عزّت کے ساتھ نجات دی۔ پس وہ تمام کوشش میرے پھانسی دلانے کے لئے تھی جیسا کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے کی تھی۔

اور عجیب بات یہ ہے کہ جیسا پیلا طوس رومی نے (جو اُس نواح کا گورنر تھا جہاں حضرت مسیح تھے ) یہودیوں کو کہا تھا کہ مَیں اس شخص یعنی عیسیٰ کا کوئی گناہ نہیں دیکھتا جس کی وجہ سے اس کو صلیب دوں۔ ایسا ہی اس حاکم نے جس کی عدالت میں میرے پر مقدمہ قتل دائر تھا جس کا نام ڈگلس تھا اور ہمارے ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا ۔مجھے مخاطب کر کے کہا کہ مَیں آپ پر کوئی الزام قتل کا نہیں لگاتا۔ اور عجیب تر یہ ہے کہ جس طرح حضرت عیسیٰ کے ساتھ ایک چور بھی صلیب دیا گیا تھا۔ جس دن میری نسبت یہ خون کا مقدمہ فیصل ہوا۔ اُسی دن اُسی عدالت میں ایک مکتی فوج کا عیسائی چور بھی پیش ہوا۔ جس نے کچھ روپیہ چُرایا تھا۔ غرض میری نسبت خداتعالیٰ کا یہ فرمانا کہ 33یہ ایک پیشگوئی تھی جس میں یہ اشارہ کیا گیا تھا کہ حضرت عیسیٰ کی طرح میرے قتل کے لئے بھی کچھ منصوبے بنائے جائیں گے۔ اور ان منصوبوں میں دشمن نامراد رہیں گے۔

تیسر۳ؔ ا امر جو مجھے دو پر مشتمل کرتا ہے میری قومی حالت ہے ۔ اور جیسا کہ ظاہر طور پر سُنا گیا ہے مَیں باپ کے لحاظ سے قوم کا مغل ہوں مگر بعض دادیاں میری سادات میں سے تھیں۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 364

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 364

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/364/mode/1up


لیکن خدا تعالیٰ مجھے باپ کے لحاظ سے فارسی النسل قرار دیتا ہے اور ماں کے لحاظ سے مجھے فاطمی ٹھہراتا ہے اور وہی حق ہے جو وہ کہتا ہے۔ اور چوتھا۴ امر جو مجھے دو۲ پر مشتمل کرتا ہے وہ یہ ہے کہ مَیں جوڑا پیدا ہوا تھا۔ ایک میرے ساتھ لڑکی تھی جو مجھ سے پہلے پیدا ہوئی تھی۔

پھر ہم اپنے پہلے مقصد کی طرف رجوع کر کے کہتے ہیں کہ یہ بالکل غلط اور دھوکا کھانا ہے کہ حدیثوں میں مسیح موعود کے بارے میں نبی کا نام دیکھ کر یہ سمجھا جائے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں کیونکہ اِنہیں حدیثوں میں اگرچہ آنے والے عیسیٰ کا نام نبی رکھا گیا ہے مگر اُس کے ساتھ ایک ایسی شرط لگا دی گئی ہے کہ اس شرط کے لحاظ سے ممکن ہی نہیں کہ اس نبی سے مراد حضرت عیسیٰ اسرائیلی ہوں کیونکہ باوجود نبی نام رکھنے کے اس عیسیٰ کو اُنہیں حدیثوں میں اُمّتی بھی قرار دیا ہے۔ اور جو شخص اُمّتیکی حقیقت پر نظرِ غور ڈالے گا وہ ببداہت سمجھ لے گا کہ حضرت عیسیٰ کو اُمّتیقرار دینا ایک کفر ہے کیونکہ اُمّتی اُس کو کہتے ہیں جو بغیر اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور بغیر اتباع قرآن شریف محض ناقص اور گمراہ اور بے دین ہو اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور قرآن شریف کی پیروی سے اُس کو ایمان اور کمال نصیب ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ایسا خیال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کرنا کفر ہے کیونکہ گو وہ اپنے درجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیسے ہی کم ہوں مگر نہیں کہہ سکتے کہ جب تک وہ دوبارہ دنیا میں آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں داخل نہ ہوں تب تک نعوذ باللہ وہ گمراہ اور بے دین ہیں یا وہ ناقص ہیں اور ان کی معرفت ناتمام ہے۔ پس مَیں اپنے مخالفوں کو یقیناًکہتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ اُمّتیہر گز نہیں ہیں۔ گو وہ بلکہ تمام انبیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر ایمان رکھتے تھے مگر وہ ان ہدایتوں کے پَیرو تھے جو اُن پر نازل ہوئی تھیں۔ اور براہِ راست خدا نے اُن پر تجلّی فرمائی تھی یہ ہر گز نہیں تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پَیروی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی تعلیم سے وہ نبی بنے تھے یا وہ اُمّتیکہلاتے۔ اُن کو خدا تعالیٰ نے الگ کتابیں دی تھیں اورؔ ان کو ہدایت تھی کہ اُن کتابوں پر عمل کریں اور کراویں۔ جیسا کہ قرآن شریف اِس پر گواہ ہے۔ پس اس بدیہی شہادت کی رُو سے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 365

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 365

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/365/mode/1up


حضرت عیسیٰ مسیح موعود کیونکر ٹھہر سکتے ہیں پس چونکہ وہ اُمّتی نہیں اس لئے وہ اُس قسم کے نبی بھی نہیں ہو سکتے جس کا امّتی ہونا ضروری ہے۔ ایسا ہی خدا تعالیٰ نے میرے لئے صد ہا نشان دکھائے۔ جن میں کچھ اس حصہ براہین احمدیہ میں بھی درج ہیں۔

قولہ۔ حضرت کی عمر شریف اس وقت کس قدر ہے؟ اور حضرت جو بشارت دیتے ہیں کہ حضرت کے ذریعہ سے اسلام نہایت ترقی کرے گا کیا وہ ترقی حضرت کی حین حیات میں وقوع میں آئے گی یا کیا؟ اس کی تشریح کا امیدوار ہوں۔

ا قول۔ عمر کا اصل اندازہ تو خدا تعالیٰ کو معلوم ہے مگر جہاں تک مجھے معلوم ہے اب اس وقت تک جو سن ہجری ۱۳۲۳ ؁ ہے میری عمر ستّر۷۰ برس کے قریب ہے واللّٰہ اعلم۔ اور مَیں نہیں کہہ سکتا کہ پورے طور پر ترقی اسلام کی میری زندگی میں ہو گی یا میرے بعد میں۔ ہاں مَیں خیال کرتا ہوں کہ پوری ترقی دین کی کسی نبی کی حین حیات میں نہیں ہوئی بلکہ انبیاء کا یہ کام تھا کہ انہوں نے ترقی کا کسی قدر نمونہ دکھلا دیا اور پھر بعد اُن کے ترقیاں ظہور میں آئیں۔ جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لئے اور ہر ایک اسود و احمر کے لئے مبعوث ہوئے تھے مگر آپ کی حیات میں احمر یعنی یورپ کی قوم کو تو اسلام سے کچھ بھی حصہ نہ ملا ایک بھی مسلمان نہیں ہوا۔ اور جو اسود تھے اُن میں سے صرف جزیرہ ء عرب میں اسلام پھیلااور مکّہ کی فتح کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔ سو مَیں خیال کرتا ہوں کہ میری نسبت بھی ایسا ہی ہو گا۔ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بار بار یہ وحی قرآنی ہو چکی ہے333 اس سے مجھے یہی امید ہے کہ کوئی حصّہ کامیابی کا میری زندگی میں ظہور میں آئے گا۔

قولہ۔ احادیث میں کسی جاندار کی تصویر کھینچنے میں سخت وعید آئی ہے مگر حضور کی عکسی تصویریں جو شائع کی گئی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اس کو جائز رکھتے ہیں۔

ا قول۔ مَیں اس بات کا سخت مخالف ہوں کہ کوئی میری تصویر کھینچے اور اس کو بُت پرستوں کی طرح

اپنےؔ پاس رکھے یا شائع کرے۔ مَیں نے ہر گز ایسا حکم نہیں دیا کہ کوئی ایسا کرے اور مجھ سے زیادہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 366

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 366

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/366/mode/1up


بُت پرستی اور تصویر پرستی کا کوئی دشمن نہیں ہو گا۔ لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ آج کل یورپ کے لوگ جس شخص کی تالیف کو دیکھنا چاہیں اوّل خواہشمند ہوتے ہیں جواُس کی تصویر دیکھیں کیونکہ یورپ کے ملک میں فراست کے علم کو بہت ترقی ہے۔ اور اکثر اُن کی محض تصویر کو دیکھ کر شناخت کر سکتے ہیں کہ ایسا مدعی صادق ہے یا کاذب۔ اور وہ لوگ بباعث ہزار ہا کوس کے فاصلہ کے مجھ تک پہنچ نہیں سکتے اور نہ میرا چہرہ دیکھ سکتے ہیں لہٰذا اُس ملک کے اہلِ فراست بذریعہ تصویر میرے اندرونی حالات میں غور کرتے ہیں۔ کئی ایسے لوگ ہیں جو انہوں نے یورپ یا امریکہ سے میری طرف چٹھیاں لکھی ہیں اور اپنی چٹھیوں میں تحریر کیا ہے کہ ہم نے آپ کی تصویر کو غور سے دیکھا اور علمِ فراست کے ذریعہ سے ہمیں ماننا پڑا کہ جس کی یہ تصویر ہے وہ کاذب نہیں ہے۔ اور ایک امریکہ کی عورت نے میری تصویر کو دیکھ کر کہا کہ یہ یسوع یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی تصویر ہے۔ پس اس غرض سے اور اس حد تک مَیں نے اس طریق کے جاری ہونے میں مصلحتاً خاموشی اختیار کی۔ وانّما الاعمال بالنّیات۔ اور میرا مذہب یہ نہیں ہے کہ تصویر کی حرمت قطعی ہے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ فرقہ جِنّ حضرت سلیمان کے لئے تصویریں بناتے تھے اور بنی اسرائیل کے پاس مدّت تک انبیاء کی تصویریں رہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی تصویر تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ کی تصویر ایک پارچہ ریشمی پر جبرائیل علیہ السلام نے دکھلائی تھی۔ اور پانی میں بعض پتھروں پر جانوروں کی تصویریں قدرتی طور پر چھپ جاتی ہیں۔ اور یہ آلہ جس کے ذریعہ سے اب تصویر لی جاتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایجاد نہیں ہوا تھااور یہ نہایت ضروری آلہ ہے جس کے ذریعہ سے بعض امراض کی تشخیص ہو سکتی ہے ایک اور آلہ تصویر کا نکلا ہے جس کے ذریعہ سے انسان کی تمام ہڈیوں کی تصویر کھینچی جاتی ہے اور وَجعُ المَفَاصِل و نَقرس وغیرہ امراض کی تشخیص کے لئے اس آلہ کے ذریعہ سے تصویر کھینچتے ہیں اور مرض کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ ایسا ہی فوٹو کے ذریعہ سے بہت سے علمی فوائد ظہور میں آئے ہیں۔ چنانچہ بعض انگریزوں نے فوٹو کے ذریعہ سے دنیا کے کل جانداروں یہاں تک کہ طرح طرح کی ٹڈؔ یوں کی تصویریں اور ہر ایک قسم کے پرند اور چرند کی تصویریں اپنی کتابوں میں چھاپ دی ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 367

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 367

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/367/mode/1up


جس سے علمی ترقی ہوئی ہے۔ پس کیا گمان ہو سکتا ہے کہ وہ خدا جو علم کی ترغیب دیتا ہے وہ ایسے آلہ کا استعمال کرنا حرام قرار دے جس کے ذریعہ سے بڑے بڑے مشکل امراض کی تشخیص ہوتی ہے اور اہلِ فراست کے لئے ہدایت پانے کا ایک ذریعہ ہو جاتا ہے۔ یہ تمام جہالتیں ہیں جو پھیل گئی ہیں۔ ہمارے ملک کے مولوی چہرہ شاہی سکّہ کے روپیہ اور دونّیاں اور چونّیاں اور اٹھنّیاں اپنی جیبوں اور گھروں میں سے کیوں باہر نہیں پھینکتے۔ کیا اُن سکّوں پر تصویریں نہیں ،افسوس کہ یہ لوگ ناحق خلاف معقول باتیں کر کے مخالفوں کو اسلام پر ہنسی کا موقع دیتے ہیں۔ اسلام نے تمام لغو کام اور ایسے کام جو شرک کے مؤید ہیں حرام کئے ہیں نہ ایسے کام جو انسانی علم کو ترقی دیتے اور امراض کی شناخت کا ذریعہ ٹھہرتے اور اہلِ فراست کو ہدایت سے قریب کر دیتے ہیں۔ لیکن باایں ہمہ مَیں ہر گز پسند نہیں کرتا کہ میری جماعت کے لوگ بغیر ایسی ضرورت کے جو کہ مُضطر کرتی ہے وہ میرے فوٹو کو عام طور پر شائع کرنا اپنا کسب اور پیشہ بنا لیں۔ کیونکہ اِسی طرح رفتہ رفتہ بدعات پیدا ہو جاتی ہیں اور شرک تک پہنچتی ہیں۔ اس لئے مَیں اپنی جماعت کو اس جگہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں تک اُن کے لئے ممکن ہو ایسے کاموں سے دستکش رہیں۔بعض صاحبوں کے مَیں نے کارڈ دیکھے ہیں اور ان کی پُشت کے کنارہ پر اپنی تصویر دیکھی ہے۔ مَیں ایسی اشاعت کا سخت مخالف ہوں اور مَیں نہیں چاہتا کہ کوئی شخص ہماری جماعت میں سے ایسے کام کا مرتکب ہو۔ ایک صحیح اور مفید غرض کے لئے کام کرنا اور امر ہے اور ہندوؤں کی طرح جو اپنے بزرگوں کی تصویریں جا بجا در و دیوار پر نصب کرتے ہیں یہ اور بات ہے ۔ ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے لغو کام منجر بشرک ہو جاتے ہیں اور بڑی بڑی خرابیاں ان سے پیدا ہوتی ہیں جیسا کہ ہندوؤں اور نصاریٰ میں پیدا ہو گئیں اورمیں اُمید رکھتا ہوں کہ جو شخص میرے نصائح کو عظمت اور عزّت کی نظر سے دیکھتا ہے اور میرا سچا پَیرو ہے وہ اِس حُکم کے بعد ایسے کاموں سے دستکش رہے گا ورنہ وہ میری ہدأیتوں کے برخلاف اپنے تئیں چلاتا ہے اور شریعت کی راہ میں گستاخی سے قدم رکھتا ہے۔

بعضؔ ایسے لوگوں نے جن کو نہ دین کی کچھ خبر ہے اور نہ میرے حالات سے کچھ اطلاع۔ محض



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 368

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 368

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/368/mode/1up


بخل اور ناسمجھی کی راہ سے ایسے اعتراض بھی میری نسبت شائع کئے ہیں۔ جن سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو بس یہی کہ وہ لوگ جس قدر اپنی دنیا کے فراہم کرنے کے لئے اور دنیوی منصب اور عہدے پانے کے لئے کوشش کرتے ہیں اُس کا ہزارم حصہ بھی دین کی طرف اُن کی توجہ نہیں اُن کے اعتراضات سُن کر نہایت درجہ کی حیرت پیدا ہوتی ہے کہ یہ لوگ مسلمان کہلا کر اسلام سے بالکل بے خبر ہیں۔

بھلا غور کرنا چاہیئے کہ یہ اعتراضات اُن کے کس قسم کے ہیں۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک منصوبہ ہے جو روپیہ جمع کرنے کے لئے بنایا گیا ہے اور اس کے معاون تنخواہیں پاتے ہیں۔ اب وہ شخص جو دل میں کچھ خدا تعالیٰ کا خوف رکھتا ہے سوچ لے کہ کیا یہ وہی بدظنّی نہیں جو قدیم سے دلوں کے اندھے انبیاء علیہم السلام پر کرتے آئے ہیں۔ فرعون نے حضرت موسیٰ پر بھی بدظنّی کی اور اپنے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ اس شخص کا اصل مطلب یہ ہے کہ تم لوگوں کو زمین سے بے دخل کر کے خود قابض ہو جائے ایسا ہی یہودیوں نے حضرت عیسیٰ کی نسبت یہی رائے قائم کی کہ یہ شخص مکّار ہے اور نبوت کے بہانہ سے ہم لوگوں پر حکومت کرنا چاہتا ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کُفّارِ قریش نے بھی یہی بدظنّی کی۔جیسا کہ قرآن شریف میں اُن کا مقولہ یہ لکھا ہے 33 ۱؂۔ یعنی اس دعویٰ میں تو کوئی نفسانی مطلب ہے۔ سو ایسے اعتراض کرنے والوں پر ہم کیا افسوس کریں۔ وہ پہلے منکرین کی عادت دکھلا رہے ہیں۔ طالبِ حق کی یہ عادت ہونی چاہیئے کہ وہ دعویٰ کو غور سے دیکھے اور دلائل پر دلی انصاف سے نظر ڈالے اور وہ بات منہ پر لاوے جو عقل اور خدا ترسی اور انصاف کا مقتضا ہے نہ یہ کہ قبل از تحقیق یہ کہنا شروع کر دے کہ یہ سب کچھ مال کمانے کے لئے ایک مکر بنایا گیا ہے۔

پھر ایک یہ بھی اُن کا اعتراض ہے کہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں۔ اس اعتراض کے جواب میں تو صرف اس قدر لکھنا کافی ہے کہلعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ اگر وہ میری کتابوں کو غورؔ سے دیکھتے یا میری جماعت کے اہلِ علم اور واقفیت سے دریافت کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ کئی ہزار پیشگوئی اب تک پوری ہو چکی ہے اور ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے صرف ایک دو گواہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 369

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 369

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/369/mode/1up


نہیں بلکہ ہزار ہا انسان گواہ ہیں۔ ناحق کی تکذیب سے کیا فائدہ۔ کیا ایسی باتوں سے حضرت عیسیٰ کا دوبارہ آنا قریب قیاس ہو جائے گا؟ حضرت عیسیٰ کے دوبارہ آنے سے تو ہاتھ دھو بیٹھنا چاہیئے ہر ایک مخالف یقین رکھے کہ اپنے وقت پر وہ جان کندن کی حالت تک پہنچے گا اور مرے گا مگر حضرت عیسیٰ کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا۔ یہ بھی میری پیشگوئی ہے جس کی سچائی کا ہر ایک مخالف اپنے مرنے کے وقت گواہ ہو گا۔ جس قدر مولوی اور مُلّاں ہیں اور ہر ایک اہلِ عناد جو میرے مخالف کچھ لکھتا ہے وہ سب یاد رکھیں کہ اس اُمید سے وہ نامراد مریں گے کہ حضرت عیسیٰ کو وہ آسمان سے اُترتے دیکھ لیں۔ وہ ہر گز اُن کو اُترتے نہیں دیکھیں گے یہاں تک کہ بیمار ہو کر غرغرہ کی حالت تک پہنچ جائیں گے اور نہایت تلخی سے اِس دنیا کو چھوڑیں گے۔ کیا یہ پیشگوئی نہیں؟ کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ پوری نہیں ہو گی؟ ضرور پوری ہوگی پھر اگر اُن کی اولاد ہو گی تو وہ بھی یاد رکھیں کہ اسی طرح وہ بھی نامراد مریں گے اور کوئی شخص آسمان سے نہیں اُترے گا۔ اور پھر اگر اولاد کی اولاد ہو گی تو وہ بھی اس نامرادی سے حصہ لیں گے۔ اور کوئی اِن میں سے حضرت عیسیٰ کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا۔

اور بعض نادان کہتے ہیں کہ احمد بیگ کے داماد کی نسبت پیشگوئی پوری نہیں ہوئی وہ نہیں سمجھتے کہ یہ پیشگوئی بھی عبداللہ آتھم کے متعلق کی پیشگوئی کی طرح شرطی تھی اور اس میں خدا تعالیٰ کی وحی اُس کی منکوحہ کی نانی کو مخاطب کر کے یہ تھی توبی توبی فانّ البلاء علٰی عقبک یعنی اے عورت توبہ توبہ کر کہ تیری لڑکی کی لڑکی پر بلا آنے والی ہے۔ سو جب خود احمد بیگ اِس پیشگوئی کے مطابق جس کی یہ پیشگوئی ایک شاخ ہے میعاد کے اندر فوت ہو گیا تو جیسا کہ انسانی سرشت کا خاصہ ہے سب متعلقین کے دلوں میں خوف پیدا ہوا اور وہ ڈرے اور تضرع کیا۔ اس لئے خدا نے اس پیشگوئی کے ظہور میں تاخیر ڈال دی۔ اورؔ یہ توشرطی پیشگوئی تھی جیسا کہ عبد اللہ آتھم کی موت کی نسبت بھی شرطی پیشگوئی تھی جس کی وفات پر قریباً گیارا۱۱ں برس گذر گئے۔ مگر یونس نبی نے جواپنی قوم کے ہلاک ہونے کی نسبت پیشگوئی کی تھی۔ اُس میں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 370

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 370

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/370/mode/1up


تو کوئی شرط نہ تھی۔ مگر وہ قوم بھی توبہ و استغفار سے بچ گئی۔ ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ وعید کی پیشگوئیاں توبہ و استغفار سے تاخیر پذیر ہو سکتی ہیں بلکہ منسوخ ہو سکتی ہیں ۔ جیسا کہ یونس ؑ کی قوم کی نسبت جو ہلاک کرنے کا وعدہ تھا صِرف توبہ سے ٹل گیا۔ مگر افسوس اس زمانہ کے یہ لوگ کیسے اندھے ہیں کہ بار بار ان کو کتاب اللہ کے موافق جواب دیا جاتا ہے اور پھر نہیں سمجھتے۔ کیا ان کے نزدیک یونس نبی سچا نبی نہیں تھا؟ جس کی پیشگوئی بغیر کسی شرط کے تھی اور قطعی پیشگوئی تھی کہ چالیس دن میں اُس کی قوم عذاب سے ہلاک کی جائے گی مگر وہ قوم ہلاک نہ ہوئی۔ مگر اس جگہ تو ایسا اعتراض آتا نہ تھا جیسا کہ حضرت یونس کی پیشگوئی پر آتا تھا۔ اس جگہ تو عبداللہ آتھم اور احمد بیگ اور اُس کے داماد کی موت کی نسبت شرطی پیشگوئیاں تھی۔تعجب ہے کہ چا۴ر پیشگوئیوں میں سے تین پیشگوئیاں پوری ہو چکیں۔ اور عبد اللہ آتھم اور احمد بیگ اور لیکھرام مُدّت ہوئی کہ پیشگوئیوں کے مطابق اس جہاں سے گذر گئے پھر بھی یہ لوگ اعتراض سے باز نہیں آتے۔

اور یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ احمد بیگ کی لڑکی کے لئے طرح طرح کی امید دینے سے کیوں کوشش کی گئی۔نہیں سمجھتے کہ وہ کوشش اِسی غرض سے تھی کہ وہ تقدیر اس طور سے ملتوی ہو جائے اور وہ عذاب ٹل جائے۔یہی کوشش عبداللہ آتھم اور لیکھرام سے بھی کی گئی تھی۔ یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ کسی پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے کوئی جائز کوشش کرنا حرام ہے۔ ذرہ غور سے اور حیا سے سوچو کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن شریف میں یہ وعدہ نہیں دیا گیا تھا کہ عرب کی بُت پرستی نابود ہو گی اور بجائے بُت پرستی کے اسلام قائم ہو گا۔ اور وہ دن آئے گا کہ خانہ کعبہ کی کنجیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہوں گی۔ جس کو چاہیں گے دیں گے۔ اور خدا یہ سب کچھ آپ کرے گا مگر پھربھی اسلام کی اشاعت کے لئے ایسی کوشش ہوئی جس کی تفصیل کی ضرورت نہیں بلکہ حدیث صحیح میں ہے کہ اگر کوئی خواب دیکھے اور اس کی کوشش سے وہ خواب پوری ہو سکے تو اس رؤیا کو اپنی کوشش سے پوری کر لینا چاہیئے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 371

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 371

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/371/mode/1up


جواؔ ب شبہات الخطاب الملیح فی تحقیق المہدی و المسیح

جو

مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کے خرافات کا مجموعہ ہے

ض

اس رسالہ میں جہاں تک مؤلف سے ہو سکا میری تکذیب کے لئے بہت ہاتھ پَیر مارے ہیں اور اپنے خیال کو قوت دینے کے لئے بہت سی خلاف واقعہ باتوں سے کام لیا ہے۔ یہ کتاب سراسر کچی اور بے اصل اور لغو خیالات اور مفتریات سے پُر ہے۔ اور مَیں جانتا ہوں کہ اس کے ردّ کی کچھ بھی ضرورت نہیں اور ایسا شخص جو قرآن شریف اور حدیث کا کچھ علم رکھتا ہے اس کے لئے اس بات کی حاجت نہیں کہ اس کا ردّ لکھا جائے۔ مگر چونکہ مَیں نے سُنا ہے کہ مولوی رشید احمد صاحب کے مرید سہارنپور کے نواح میں اس رسالہ کو بہت عزت سے دیکھتے ہیں اور محض اس خیال سے کہ یہ تحریر ان کی ایّام زندگی کی یادگار ہے بہت محبت سے اس کو پڑھتے ہیں اس لئے مَیں نے مناسب سمجھا کہ ایسے لوگوں کو دھوکہ سے بچانے کے لئے ان چند ضروری اعتراضات کا جواب دیا جائے جن کی وجہ سے اس نواح کے جاہل اور بے علم ورطۂ ضلالت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اور اس رسالہ مجموعۂ اباطیل پر ناز کرتے ہیں۔

لیکن مَیں اس جگہ حق کے طالبوں پر ایک سیدھی راہ کھولنے کے لئے مناسب سمجھتا ہوں کہ جو اصل مسئلہ مابہ النزاع ہے پہلے اس کا کچھ تذکرہ کیا جائے۔ سو وہ یہ ہے کہ ہمارے مخالف جن میں مولوی رشید احمد بھی داخل ہیں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہوئے اور وہ کسی غرض کے لئے زندہ مع جسم عنصری آسمان پر چلے گئے ہیں*اور کسی وقت

معبّرین نے لکھا ہے کہ جو شخص خواب میں یہ دیکھے کہ وہ زندہ مع جسم عنصری آسمان پر چلا گیا ہے اُس کی یہی تعبیر ہو گی کہ وہ اپنی طبعی موت سے مرے گا۔ یعنی مخالفوں کے ارادۂ قتل سے امن میں رہے گا۔ پس کچھ تعجب نہیں کہ ایسی خواب حضرت عیسیٰ نے بھی دیکھی ہو اور پھر نادان لوگوں نے خواب کی تعبیر پر نظر نہ رکھ کر سچ مُچ آسمان پر مع جسم عنصری جانا سمجھ لیا ہو۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 372

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 372

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/372/mode/1up


قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں نازل ہوں گے مگر نہیں بتلاتے کہ وہ کونسی غرض تھی جس کے لئے وہ آسمان پر اٹھائے گئے کیا صِرف یہودیوں کے ہاتھ سے جان بچانا منظور تھا یا کوئی اور بات تھی؟ اور نہیں بتلا سکتے کہ اب تک جو دو ہزار برس کے قریب ہو چکا کیوں وہ آسمان پر ہیں۔ کیا ابھی تک یہودیوں کے مواخذہ کا کچھؔ دھڑکا دل میں باقی ہے؟ اور نہیں بتلا سکتے کہ کیوں ان کو یہ خصوصیت دی گئی کہ برخلاف جمیع انبیاء کے وہ اتنی مدت تک کہ اب دو ہزار برس کے قریب پہنچ گئے آسمان پر ہیں۔ اور پھر کسی وقت مطابق پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمین پر نازل ہوں گے اور نہیں بتلا سکتے کہ ایسے رفع جسمانی اور پھر نزول میں مصلحت الٰہی کیا تھی؟ کیا یہودیوں کے پکڑنے کا اندیشہ یا کچھ اَور۔ اور نہیں بتلا سکتے کہ ایسے شخص کو یہ صعود اور نزول کی خصوصیت کیوں دی گئی جس کی نسبت اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ وہ خدا بنایا جائے گا۔ اور چالیس کروڑ مخلوق محض اس کی طرف یہ خوارق منسوب ہونے کی وجہ سے اس کو خدا کا بیٹا بلکہ خدا مانیں گے۔ اور یہ لوگ اگرچہ بڑے زور سے کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ مرے نہیں بلکہ زندہ ہیں مگر نہیں بتلا سکتے کہ برخلاف سُنت اللہ کی کس نص صریح قرآن شریف سے ان کی زندگی ثابت ہے۔ مگر وہ عقیدہ جس پر خدا تعالیٰ نے علیٰ وجہ البصیرت مجھ کو قائم کیا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مثل دیگر انسانوں کے انسانی عمر پاکر فوت ہو گئے ہیں اور آسمان پر مع جسم عنصری چڑھ جانا اور پھر کسی وقت مع جسم عنصری زمین پر نازل ہونا یہ سب اُن پر تہمتیں ہیں۔قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَل:33۔۱؂

پس اصل مسئلہ جو طے ہونے اور فیصلہ ہونے کے لائق ہے وہ یہی ہے کہ کیا یہ سچ ہے کہ برخلاف عادت اللہ درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام مع جسم عنصری آسمان پر چڑھ گئے تھے اور اگر بہ نصوص صریحہ بیّنہ قرآن شریف سے ثابت ہو جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام درحقیقت آسمان پر مع جسم عنصری اٹھائے گئے تھے تو پھر اُن کے نازل ہونے کے بارے میں کسی بحث کی ضرورت نہیں کیونکہ جو شخص مع جسم عنصری آسمان پر جائے گا اُس کا واپس آنا بموجب نصِ قرآنی ضروری ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 373

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 373

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/373/mode/1up


پس اگر حضرت عیسیٰ مع جسم آسمان پر چلے گئے ہیں تو واپس آنے میں کیا شک ہے وجہ یہ کہ اگر دوبارہ زمین پر آنے کے لئے کسی اور کام کی غرض سے ان کی کچھ ضرورت نہ ہو مگر پھر بھی مرنے کے لئے اُن کا آنا ضرور ہو گا کیونکہ آسمان پر کوئی قبروں کی جگہ نہیں۔ا ور نصِ صریح قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر ایک انسان زمین پر ہی مرے گا اور زمین میں ہی دفن کیا جائے گا اور زمین سے ہی نکالا جائے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔333۔۱؂ البتہ یہ ممکن ہے کہ آسمان سے بیمار ہو کر آویں یا راہ میں بیمار ہو جائیں اور پھر زمین پر آ کر مر جائیں۔ اور یہ ہم نے اس لئے کہا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ آنے والا عیسیٰ زعفرانی رنگ کی دو چادروں میں نازل ہو گا۔ اور تمام معبّرین کے اتفاق سے تعبیر کی رو سے زرد رنگ چادر سے بیماری مراد ہوتی ہے۔

اور میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ مَیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود ہوں۔ احادیث میں میرے جسمانی علامات میں سے یہ دو علامتیں بھی لکھی گئی ہیں کیونکہ زردرنگ چادر سے بیماری مراد ہے اور جیسا کہ مسیح موعود کی نسبت حدیثوں میں دو زرد رنگ چادروں کا ذکر ہے ایسے ہی میرے لاحق حال دو بیماریاں ہیں۔ ایک بیماری بدن کے اوپر کے حصہ میں ہے جو اوپر کی چادر ہے اور وہ دورانِ سر ہے جس کی شدّت کی وجہ سے بعض وقت میں زمین پر گر جاتا ہوں اور دل کا دورانِ خون کم ہو جاتا ہے اور ہولناک صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور دوسری بیماری بدن کے نیچے کے حصہ میں ہے جو مجھے کثرت پیشاب کی مرض ہے جس کو ذیابیطس بھی کہتے ہیں۔ اورمعمولی طور پر مجھ کوہر روزہ پیشاب بکثرت آتا ہے اور پندر۱۵ہ یا بیس۲۰ دفعہ تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ اور بعض اوقات قریب سو۱۰۰ دفعہ کے دن رات میں آتا ہے اور اس سے بھی ضعف بہت ہو جاتا ہے سو یہ زرد رنگ کی دو چادریں ہیں جو میرے حصہ میں آ گئی ہیں۔ اور جو لوگ مجھے قبول نہیں کرتے اُن کو تو بہرحال ماننا پڑے گا کہ حضرت عیسیٰ نزول کے وقت آسمان سے یہ تحفہ لائیں گے جو دو۲ بیماریاں اُن کو لاحق ہوں گی۔ ایک بدن کے اوپر کے حصہ میں اور دوسری بدن کے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 374

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 374

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/374/mode/1up


نیچے کے حصہ میں ہو گی۔

اور اگر کوئی یہ کہے کہ ان چادروں سے اصلی چادریں ہی مراد ہیں تو گویا اس کا یہ مطلب ہو گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے وقت ہندوؤں کے جوگیوں کی طرح زرد رنگ کی دو چادروں میں نازل ہوں گے۔ مگر یہ معنے ان معنوں کے برخلاف ہیں جو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مکاشفات کی نسبت کئے ہیں۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں میں دو۲ کڑے دیکھے تھے اور اس کی تعبیر دو۲ جھوٹے نبی فرمایا تھا۔ اور گائیاں ذبح ہوتی دیکھی تھیں اور اُس کی تعبیر اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کی شہادت فرمائی تھی۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک بڑا پیراہن دیکھا تھا اور اس کی تعبیر تقویٰ کی تھی۔ پس اس حدیث میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّتِ قدیم کے موافق کیوں دو زرد چادروں کی وہ تعبیر نہ کی جائے جو بالاتفاق اسلام کے تمام اکابر معبّروں نے کی ہے جن میں سے ایک بھی اس تعبیر کے مخالف نہیں۔ اور وہ یہی تعبیر ہے کہ دو۲ زرد چادروں سے دو۲ بیماریاں مراد ہیں۔ اور مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ میرا تجربہ بھی یہی ہے اور بہت سے مرتبہ جس کا میں شمار نہیں کر سکتا مجھے رؤیا میں اپنی نسبت یا کسی دوسرے کی نسبت جب کبھی معلوم ہوا کہ زرد چادر بدن پر ہے تو اس سے بیمار ہونا ہی ظہور میں آیا ہے۔ پس یہ ظلم ہے کہ جیسا کہ مُتَوَفِّیْک کے لفظ کے معنے حضرت عیسیٰ کی نسبت سارے جہان کے برخلاف کئے جاتے ہیں ایسا ہی دو۲ زرد چادروں کی نسبت بھی وہ معنے کئے جائیں کہ جو برخلاف بیان کردہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم و اصحاب رضی اللہ عنہم و تابعین و تبع تابعین و ائمہ اَہل بیت ہوں۔

اب خلاصہ کلام یہ کہ اس مقام میں نہایت ضروری بحث یہ ہے کہ آیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام درحقیقت فوت ہو گئے یا نہیں کیونکہ اگر یہ بات ثابت ہے کہ وہ مع جسم عنصری زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں تو پھر جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں ۔ بہرحال ان کا زمین پر آنا مہدی کی شمولیت کے لئے یا صرف مرنے کے لئے ضروری ہے ۔ یہی اصل بحث ہے جس کے طے ہونے سے تمام جھگڑا طے ہوجاتا ہے اور جس فریق کے ہاتھ میں دلائل قویّہ حیات یا موت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہیں وہی فریق



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 375

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 375

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/375/mode/1up


سچ پر ہے۔ اور پھر اس بحث کے طے ہونے کے بعد دوسری فروعی بحثیں غیر ضروری ہوجاتی ہیں بلکہ فریق مغلوب کے دوسرے عذرات خود بخودرد ہوجاتے ہیں ۔ سو طالب حق کے لئے نہایت ضروری یہی مسئلہ ہے جس پر اُسے پوری توجہ کے ساتھ غور کرنا لازم ہے ۔

اس جگہ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ قرآن شریف نے صریح لفظوں میں حضرت عیسیٰؔ علیہ السلام کی وفات کا بیان فرمایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صریح لفظوں میں حضرت عیسیٰ کا ان ارواح میں داخل ہونا بیان فرمادیا ہے جو اس دنیا سے گذر چکی ہیں۔ اور اصحاب رضی اللہ عنہم نے کھلے کھلے اجماع کے ساتھ اس فیصلہ پر اتفاق کر لیا ہے کہ تمام نبی فوت ہوچکے ہیں۔* پھر بھی ہمارے مخالف بار بار حضرت عیسیٰ کی حیات کو پیش کرتے ہیں۔ قرآن شریف

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم کو آپ کی وفات سے سخت صدمہ گذرا تھا اور اسی صدمہ کی وجہ سے حضرت عمرؓ نے بعض منافقوں کے کلمات سن کر فرمایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور منافقوں کے ناک اور کان کاٹیں گے ۔ پس چونکہ یہ خیال غلط تھا اس لئے اول حضرت ابوبکر صدیق حضرت عائشہ صدیقہ کے گھر آئے اور آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے مُنہ پر سے چادر اٹھاکر پیشانی مبارک کو بوسہ دیا ۔ اور کہا ۔ اَنْتَ طَیِّبٌ حَیًّا و مَیِّتًا لَنْ یَّجْمَعَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْمَوْتَیْنِ اِلَّا مَوْتَتَکَ الْاُوْلٰی۔ یعنی تو زندہ اور میّت ہونے کی حالت میں پاک ہے خدا تعالیٰ ہرگز تیرے پرد۲و موتیں جمع نہیں کرے گا مگر پہلی موت ۔ اس قول سے مطلب یہی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں واپس نہیں آئیں گے اور پھر تمام اصحاب رضی اللّٰہ عنھم کو مسجد نبوی میں جمع کیا۔اورحسن اتفاق سے اس دن تمام صحابہؓ جو زندہ تھے مدینہ میں موجود تھے پس سب کو جمع کر کے حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے منبر پر چڑھؔ کر یہ آیت پڑھی۔33333۱؂ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف نبی ہیں اور پہلے اس سے سب نبی فوت ہوچکے ہیں ۔ پس کیا اگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوجائیں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 376

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 376

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/376/mode/1up


کو چھوڑتے ہیں ۔ حدیث کو چھوڑتے ہیں صحابہ کے اجماع کو چھوڑتے ہیں اور اپنے باپ دادوں کی غلطی کو مضبوط پکڑتے ہیں ۔ اور ایک ذرّہ اُن کے پاس اِس بات کا ثبوت نہیں کہ حضرت عیسیٰ فوت نہیں ہوئے ۔ اور آخری زمانہ میں دوبارہ دنیا میں آئیں گے ۔ صرف وہ حسد ان کو مخالفت پر آمادہ کر رہا ہے کہ جو ہمیشہ بوجہ معاصرت خود پسند لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوجایا کرتا ہے ۔ اگر بفرض محال یہ امر بھی درمیان ہوتا جو میرے دلائل کے مقابل پر حضرت عیسیٰ کی حیات پر ان کے پاس قرآن شریف یاحدیث کی رو سے کچھ دلائل ہوتے تب بھی تقوؔ یٰ کا تقاضا یہ ہونا چاہیئے تھا کہ


یا قتل کئے جائیں تو تم لوگ دین کو چھوڑ دو گے ؟ یہ پہلا اجماع تھا جو صحابہ رضی اللّٰہ عنھم میں ہوا۔ جس سے ثابت ہواکہ کل نبی فوت ہوچکے ہیں جن میں حضرت عیسیٰ بھی داخل ہیں ۔ اور یہ کہنا کہ خَلَتْ کے معنوں میں زندہ آسمان پر جانا بھی داخل ہے یہ سراسر ہٹ دھرمی ہے ۔ کیونکہ عرب کی تمام لُغت دیکھنے سے کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ زندہ آسمان پر جانے کے لئے بھی خلت کا لفظ آسکتا ہے ۔ ماسوا اِس کے اس جگہ اللہ تعالیٰ نے خلت کے معنے دوسرے فقرہ میں خود بیان فرمادیئے ہیں ۔ کیونکہ فرمایا۔3۔پس خلت کے معنے دو صورتوں میں محدود کر دئیے ۔ ایک یہ کہ طبعی موت سے مرنا دوسرے قتل کئے جانا ۔ ورنہ تشریح یوں ہونی چاہیئے تھی ۔ اَفَإِن مَّات او قتل او رفع الی السّماء مع جسمہ العنصری۔ یعنی اگر مر جائے یا قتل کیا جائے یا مع جسم آسمان پر اٹھادیا جائے ۔ یہ تو بلاغت کے برخلاف ہے کہ جس قدر معنوں پر خلت کا لفظ بقول مخالفین مشتمل تھا ۔ ان میں سے صرف دو معنے لئے اور تیسرے کا ذکر تک نہ کیا ۔ ماسوا اس کے اصل مطلب حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کا یہ تھا کہ دوسری مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہیں آئیں گے ۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر بوسہ دینے کے وقت حضرت ابوبکر نے اس کی تصریح بھی کر دی تھی تو بہرحال مخالف کو ماننا پڑے گا کہ کسی طرح حضرت عیسیٰ دنیا میں نہیں آسکتے گوبفرض محال زندہ ہوں۔ ورنہ غرض استدلال باطل ہوجائے گی ۔ اور یہ صحابہ کا اجماع وہ چیز ہے جس سے انکار نہیں ہوسکتا ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 377

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 377

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/377/mode/1up


وہ لوگ ایسے شخص کے مقابل پر جو عین ضرورت کے زمانہ میں اور عین صدی کے سر پر آیا ہے اور قوی نشانوں سے اپنا دعویٰ ثابت کرتاہے کچھ حیا اور شرم کرتے کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کا نام تو حَکَم نہیں رکھا تا مسیح موعود کے مقابل پر اپنی بات کو اور اپنے قول کو وہ ترجیح دیں ۔ بلکہ مسیح موعود کا نامحَکَم رکھا ہے ۔ پس شرط تقویٰ یہ تھی کہ اگر کچھ دلائل ظنّیہ اُن کے ہاتھ ہوتے بھی تب بھی ایسے شخص کے مقابل پر جو دلائل شرعیہ یقینیہ پیش کرتا ہے اور آسمانی نشان دکھلاتا ہے اپنے دلائل کو چھوڑ دیتے ۔ مگر افسوس کہ وہ لوگ یہودیوں کے قدم پر قدم رکھتے ہیں اور محض جھوٹ کی حمایت کرتے ہیں ۔ میں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے حَکَم ہو کر آیا ہوں مگر وہ میرے پر حَکَم بننا چاہتے ہیں ۔

اب ہم اس بات کے لکھنے کے لئے متوجہ ہوتے ہیں کہ فی الواقع حضرت عیسیٰؔ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں اور ان کی حیات کا عقیدہ قرآن شریف اور احادیث صحیحہ کے مخالف ہے ۔

سو یاد رہے کہ قرآن شریف صاف لفظوں میں بلند آواز سے فرمارہا ہے کہ عیسیٰ اپنی طبعی موت سے فوت ہوگیا ہے ۔ جیسا کہ ایک جگہ تو اللہ تعالیٰ وعدہ کے طور پر یہ فرماتا ہے333۱؂ اور دوسری آیت میں اس وعدے کے پورا ہونے کی طرف اشارہ فرماتا ہے ۔ جیسا کہ اس کا یہ قول ہے3333۔۲؂ پہلی آیت کے یہ معنے ہیں کہ اے عیسیٰ !میں تجھے طبعی موت دوں گا۔*یعنی قتل اور صلیب


معلوم رہے کہ زبان عرب میں لفظ توفّی صِرف موت دینے کو نہیں کہتے بلکہ طبعی موت دینے کو کہتے ہیں جو بذریعہ قتل و صلیب یا دیگر خارجی عوارض سے نہ ہو ۔اسی لئے صاحبِ کشّاف نے جو علّامہ لسانِ عرب ہے اس مقام میں تفسیر اِنّی متوفّیک میں لکھا ہے کہ اِنِّیْ مُمِیْتُکَ حَتْفَ اَنْفِک یعنی میں تجھے طبعی موت دوں گا ۔ اسی بناء پر لسان العرب اور تاج العروس میں لکھا ہے ۔ توفّی المیّت استیفاء مُدّ تہ التی وفیت لہ و عدّد ایّامہ و شھورہ و اَعوامہ فی الدنیا۔ یعنی مرنے والے کی توفی سے مراد یہ ہے کہ اس کی طبعی زندگی کے تمام دن اور مہینے اور برس پورے کئے جائیں اور یہ صورت اُسی حالت میں ہوتی ہے جب طبعی موت ہو بذریعہ قتل نہ ہو ۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 378

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 378

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/378/mode/1up


کے ذریعہ سے تُو ہلاک نہیں کیا جائے گا اور میں تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا ۔ پس یہ آیت تو بطور ایک وعدہ کے تھی۔اور دوسری آیت ممدوحہ بالا میں اس وعدہ کے ایفاء کی طرف اشارہ ہے جس کا ترجمہ مع تشریح یہ ہے کہ یہود خود یقیناًاعتقاد نہیں رکھتے کہ انہوں نے عیسیٰ کو قتل کیا ہے اور جب قتل ثابت نہیں تو پھر موت طبعی ثابت ہے جو ہر ایک انسان کے لئے ضروری ہے ۔ پس اس صورت میں جس امر کو یہودیوں نے اپنے خیال میں حضرت عیسیٰ کے رَفع اِلی اللّٰہ کے لئے مانع ٹھہرایا تھا یعنی قتل اور صلیب وہ مانع باطل ہوا اور خدانے اپنے وعدہ کے موافق ان کو اپنی طرف اٹھا لیا ۔

اورؔ اس جگہ اس بات پر ضد کرنا بے فائدہ ہے کہ توفّی کے معنے مارنا نہیں۔* کیونکہ اس بات پر تمام اَئمہ لغتِ عرب اتفاق رکھتے ہیں کہ جب ایک عَلَم پر یعنی کسی شخص کا نام لے کر توفّی کا لفظ اُس پر استعمال کیا جائے مثلاًکہا جائے توفّی اللّٰہ زیدًا تو اس کے یہی معنے ہونگے کہ خدا نے زید کو مار دیا ۔ اسی وجہ سے اَئمہ لغت ایسے موقع پر دوسرے معنے لکھتے ہی نہیں۔ صرف وفات دینا لکھتے ہیں ۔ چنانچہ لسان العرب میں ہمارے بیان کے مطابق یہ فقرہ ہے توفّی فلان و توفّہ اللّٰہ اذا قبض نفسہ و فی الصّحاح اذا قبض روحہ ۔ یعنی جب یہ بولا جائے گا کہ توفّی فلان یا یہ کہا جائے گا توفّہ اللّٰہ تو اس کے صرف یہی معنے ہونگے کہ فلاں شخص مر گیا اور

صحیح بخاری میں بھی جو بعد کتاب اللہ اصحّ الکتب کہلاتی ہے توفّی کے معنے مارنا ہی لکھاہے کیونکہ حضرت ابن عباس سے آیت33کی نسبت یہ روایت لکھی ہے کہ اِنّی مُمِیْتُک۔ اور امام بخاری نے بھی اپنایہی مذہب ظاہر کیا ہے ۔ کیونکہ وہ اس کی تائید کے لئے ایک اورحدیث لایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جیسا کہ عیسیٰ قیامت کو کہے گا کہ جو لوگ میری اُمّت میں سے بگڑ گئے ہیں وہ میری موت کے بعد بگڑے ہیں مَیں بھی یہی کہوں گاکہ جو لوگ میری اُمّت میں سے بگڑے ہیں وہ میری موت کے بعد بگڑے ہیں ۔ پس ایسی صورت میں جو توفی کے لفظ کا فاعل خدا اور کوئی نام لے کر مفعول بہٖ ہو ضرور مارنا ہی معنے ہوتے ہیں جس سے انکار کی کوئی صورت نہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 379

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 379

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/379/mode/1up


خدا نے اُس کو مار دیا ۔ اِس مقام میں تاج العروس میں یہ فقرہ لکھا ہے ۔ تُوُفِّیَ فَلانٌ اذا مات یعنی تُوُفِّیَ فَلانٌ اس شخص کی نسبت کہا جائے گا ۔ جب وہ مرجائے گا ۔ دوسرا فقرہ تاج العروس میں یہ لکھا ہے تَوَفَّاہُ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ :اِذَا قَبَضَ نَفْسَہٗ یعنی یہ فقرہ کہ تَوَفَّاہُ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ اس مقام میں بولا جائے گا۔ جب خدا کسی کی روح قبض کرے گا ۔ اور صحاح میں لکھا ہے تَوَفَّہُ اللّٰہُ قَبَضَ رُوْحَہ یعنی اس فقرہ تَوَفَّہُ اللّٰہ کے یہ معنے ہیں کہ فلاں شخص کی روح کو خدا تعالیٰ نے قبض کر لیا ہے ۔ اور میں نے جہاں تک ممکن تھا صحاح ستّہ اور دوسری احادیث نبویہ پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام اور صحابہؓ کے کلام اور تابعین کے کلام اور تبع تابعین کے کلام میں کوئی ایک نظیر بھی ایسی نہیں پائی جاتی جس سے یہ ثابت ہو کہ کسی عَلَم پر توفّی کا لفظ آیا ہو یعنی کسی شخص کا نام لے کر توفّی کا لفظ اس کی نسبت استعمال کیا گیا ہو اور خدا فاعل اور وہ شخص مفعول بہٖ ٹھہرایا گیا ہو اور ایسی صورت میں اس فقرہ کے معنے بجز وفات دینے کے کوئی اور کئے گئے ہوں بلکہ ہر ایک مقام میں جب نام لے کر کسی شخص کی نسبت توفّی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور اس جگہ خدا فاعل اور وہ شخص مفعول بہٖہے جس کا نام لیا گیا ہے تو اس سے یہی معنے مراد لئے گئے ہیں کہ وہ فوت ہوگیا ہے ۔ چنانچہ ایسی نظیریں مجھے تین سو۳۰۰ سے بھی زیادہ احادیث میں ملیں ۔ جن سے ثابت ہوا کہ جہاں کہیں توفّیکے لفظ کا خداؔ فاعل ہو اور وہ شخص مفعول بہٖ ہو جس کا نام لیا گیا ہے تو اس جگہ صرف مار دینے کے معنے ہیں نہ اورکچھ۔مگر باوجود تمام تر تلاش کے ایک بھی ایسی حدیث مجھے نہ ملی جس میں توفّی کے فعل کا خدا فاعل ہو اور مفعول بہٖ عَلَم ہو یعنی نام لے کر کسی شخص کو مفعول بہٖ ٹھہرایا گیا ہو اور اس جگہ بجز مارنے کے کوئی اور معنے ہوں ۔

اسی طرح جب قرآن شریف پر اول سے آخر تک نظر ڈالی گئی تو اس سے بھی یہی ثابت ہوا جیسا کہ آیت3 ۱؂اور آیت333۲؂وغیرہ آیات سے ثابت ہے اور پھر مَیں نے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 380

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 380

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/380/mode/1up


عرب کے دیوانوں کی محض اِسی غرض سے سیر کی اور جاہلیت اور اسلامی زمانہ کے اشعار بڑے غور سے دیکھے اور بہت سا وقت ان کے دیکھنے میں خرچ ہوا مگر میں نے ان میں بھی ایک نظیر ایسی نہ پائی کہ جب خدا توفّی کے لفظ کا فاعل ہو اور ایک عَلَم مفعول بہٖ ہو یعنی کوئی شخص اس کا نام لیکر مفعول بہ ٹھہرایا گیا ہو تو ایسی صورت میں بجز مار دینے کے کوئی اور معنے ہوں بعد اس کے میں نے اکثر عرب کے اہل علم اور اہل فضل و کمال سے دریافت کیا تو ان کی زبانی بھی یہی معلوم ہوا کہ آج کے دنوں تک تمام عرب کی سر زمین میں یہی محاورہ جاری و ساری ہے کہ جب ایک شخص دوسرے شخص کی نسبت بیان کرتا ہے کہ توفّی اللّٰہ فلانا تو اس کے معنے قطعی اور یقینی طور پر یہی سمجھے جاتے ہیں کہ فلاں شخص کو خدا تعالیٰ نے مار دیا ۔ اور جب ایک عرب کو دوسرے عرب کی طرف سے خط آتا ہے اور اس میں مثلاً یہ لکھا ہوا ہوتا ہے کہ توفّی اللّٰہ زیدًاتو اس کا یہی مطلب سمجھا جاتا ہے کہ خدا نے زید کو مار دیا ۔ پس اس قدر تحقیق کے بعد جو حق الیقین تک پہنچ گئی ہے یہ امر فیصلہ ہو گیا ہے اور امور مشہودہ محسوسہ کے درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ ایک شخص جس کی نسبت اس طور سے لفظ توفّی استعمال کیا جائے ۔ اس کے یہی معنے ہوں گے کہ وہ شخص وفات پا گیا ہے نہ اورکچھ اور چونکہ اسی طور سے لفظ توفّی قرآن شریف میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت دو۲ مقام میں استعمال پایا ہے ۔ پس قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہوا کہ درحقیقت حضرت عیسیٰ وفات پا چکے ہیں اور ان کا رفع وہی ہے جو ؔ روحانی رفع ہوتا ہے ۔ اور ان کی وفات بذریعہ قتل اور صلیب کے نہیں ہوئی ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں خبر دی ہے ۔ بلکہ وہ اپنی طبعی موت سے وفات پاگئے ہیں ۔

اور لسان العرب اور دیگر کتبِ لُغت سے ظاہر ہے کہ اصل معنی توفی کے یہی ہیں کہ طبعی موت سے کسی کو مارا جائے اور ہم بیان کرچکے ہیں کہ زبانِ عرب کا ایک



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 381

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 381

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/381/mode/1up


بے مثل امام جس کے مقابل پر کسی کو چون و چرا کی گنجائش نہیں یعنی علّامہ زمخشری* آیت 3کے یہی معنے کرتا ہے کہ اِنّی مُمِیتک حَتف اَنفک ۔ یعنی اے عیسیٰ ! مَیں تجھے طبعی موت ماروں گا ۔حتف لغت عرب میں موت کو کہتے ہیں اور انف کہتے ہیں ناک کو ۔ اور عربوں میں قدیم سے یہ عقیدہ چلا آتا ہے کہ انسان کی جان ناک کی راہ سے نکلتی ہے۔ اس لئے طبعی موت کا نام انہوں نے حتف انف رکھ دیا۔ اور عربی زبان میں توفّی کے لفظ کا اصل استعمال طبعی موت کے محل پر ہوتا ہے اورجہاں کوئی شخص قتل کے ذریعہ سے ہلاک ہو وہاں قتل کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور یہ ایسا محاورہ ہے کہ جو کسی عربی دان پر پوشیدہ نہیں ۔ ہاں یہ عرب کے لوگوں کا قاعدہ ہے کہ کبھی ایسے لفظ کو کہ جو اپنی اصل وضع میں استعمال اس کی کسی خاص محل کے لئے ہوتا ہے ایک قرینہ قائم کر کے کسی غیر محل پر بھی مستعمل کر دیتے ہیں یعنی استعمال اس کا وسیع کر دیتے ہیں ۔ اور جب ایسا قرینہ موجود نہ ہو تو پھر ضروری ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں وہ لفظ اپنی اصل وضع پر استعماؔ ل پاوے ۔ سو اس جگہ جو علامہ امام زمخشری نے زیر آیت3یہ لکھا ہے کہ اِنّی متو۱؂فیک حتف انفک یعنی اے عیسیٰ میں تجھے تیری طبعی موت سے ماروں گا ۔ ان معنوں کے کرنے میں علّامہ موصوف نے صرف لفظ توفیکی اصل وضع استعمال پر نظر نہیں رکھی بلکہ مقابل پر اس آیت کو دیکھ کر کہ ماقتلوہ یقیناًاور اس آیت کو دیکھ کر کہ ما قتلوہ و ماصلبوہ اس بات پرقرینہ قویہ پایا کہ اس جگہ لفظ متوفّیک

واضح رہے کہ اس جگہ جو ہم نے زمخشری کو علّامہ اور امام کے نام سے یاد کیا ہے وہ محض باعتبارمتبحر فنّ لُغت کے ہے کیونکہ اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ شخص زبان عرب کی لُغَات اور ان کے استعمال کے محل اور مقام اور ان کے الفاظ فصیح اور غیر فصیح اور لُغت جیّد اور لُغت ردّی اور مترادف الفاظ کے فروق اور خصوصیتیں اور اُن کی ترکیبات اور اُنکے الفاظِ قدیم اور مستحدث اور قواعدِ لطیفہ صرف و نحو و بلاغت سے خوب ماہر اور ان سب باتوں میں امام اور علّامہ ء وقت تھا نہ کہ اور کسی بات میں ۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 382

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 382

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/382/mode/1up


کااستعمال اپنی اصل وضع پر ضروری اور واجب ہے ۔ یعنی اس جگہ اس کے یہ معنے ہیں کہ اے عیسیٰ میں تجھے تیری طبعی موت سے ماروں گا ۔ اسی وجہ سے اس نے آیت3 کی یہ تفسیر کی کہ اِنِّی مُمِیتک حتف انفک یعنی میں تجھے طبعی موت سے ماروں گا*۔ پس امام زمخشری کی نظرعمیق نہایت قابل تعریف ہے کہ انہوں نے لفظ توفّی کے صِرف اصل وضعِ استعمال پر حَصر نہیں رکھا بلکہ بالمقابل قرآن شریف کی ان آیتوں پر نظر ڈال کر کہ عیسیٰ قتل نہیں کیا گیا اور نہ صلیب دیا گیا اصل وضع لفظ کے مطابق مُتوفّیک کی تفسیر کردی ۔ اور ایسی تفسیر بجز ماہر فَنّ علم لُغت کے ہر ایک نہیں کر سکتا ۔ یاد رہے کہ علّامہ امام زمخشری لسان العرب کا مسلّم عالم ہے اور اس فن میں اسکے آگے تمام مابعد آنے والوں کاسرِ تسلیم خم ہے ۔ اور کتبِ لُغت کے لکھنے والے اس کے قول کو سند میں لاتے ہیں ۔ جیسا کہ صاحب تاج العروس بھی جابجا اس کے قول کی سند پیش کرتا ہے ۔

اب ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ جب کہ آیت3۱؂ اور آیت333۲؂ صرف توفّی کے لفظ کی توضیح کے لئے بیان فرمائی گئی ہے کوئی نیا مضمون نہیں ہے بلکہ صرف یہ تشریح مطلوب ہے کہ جیساکہ لفظ3میں یہ وعدہ تھا کہ عیسیٰ کو اس کی طبعی موت سے مارا جائے گا ۔ ایسا ہی وہ طبعی موت سے مرگیا ۔ نہ کسی نے قتل کیا اور نہ کسی نے صلیب دیا۔ پس یہ خیال بھی جو یہود کے دل میں پیدا ہوا تھا جو عیسیٰ نعوذباللہ *** ہے اور اس کا روحانی رفع نہیں ہوا ساتھ ہی باطل ہو گیا۔ کیونکہ اس خیال کی تمام بِنَا صرف قتل اور صلیب پر تھی اور اسی سے یہ نتیجہ نکالا گیا تھا کہ نعوؔ ذ باللہ حضرت عیسیٰ ملعون اورراندہ درگاہِ الٰہی ہیں

چونکہ یہودیوں کے عقیدہ کے موافق کسی نبی کا رفع روحانی طبعی موت پر موقوف ہے اور قتل اور صلیب رفع روحانی کا مانع ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے اوّل یہود کے ردّکے لئے یہ ذکر فرمایا کہ عیسیٰ کے لئے طبعی موت ہوگی اور پھر چونکہ رفع روحانی طبعی موت کاایک نتیجہ ہے اس لئے لفظ متوفّیک کے بعد رافعک الیّ لکھ دیا ۔ تا یہودیوں کے خیالات کا پورا ردّ ہوجائے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 383

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 383

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/383/mode/1up


جن کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوا ۔ پس چونکہ متوفّیک کے لفظ کے ساتھ خدا تعالیٰ نے یہ شہادت دی کہ عیسیٰ اپنی طبعی موت سے مرا ہے اور پھر خدا نے اسی پر اکتفانہ کی بلکہمتوفّیک کے لفظ کا جو اصل منشاء تھا یعنی طبعی موت سے مرنا اس منشاء کی آیت ماقتلوہ و ما صلبوہ اور آیت وما قتلوہ یقینًاکے ساتھ پورے طور پر تشریح کر دی ۔ کیونکہ جس شخص کی موت قتل وغیرہ خارجی ذریعوں سے نہیں ہوئی اس کی نسبت یہی سمجھا جائے گا کہ وہ طبعی موت سے مرا ہے ۔ پس اس میں کچھ شک نہیں کہ فقرہ وما قتلوہ وما صلبوہ، متوفّیک کے لفظ کے لئے بطور تشریح واقع ہوا ہے ۔ اور جب قتل اور صلیب کی نفی ثابت ہوئی تو بموجب اس قول کے کہ اذا فات الشرط فات المشروط، رفع الی اللّٰہ حضرت عیسیٰ کا ثابت ہو گیا اور یہی مطلوب تھا۔

اور پھر ہم اپنی پہلی کلام کی طرف عود کر کے کہتے ہیں کہ یہ امر ثابت شدہ ہے کہ جس جگہ کسی کلام میں توفّی کے لفظ میں خدا تعالیٰ فاعل ہو اور کوئی شخص نام لے کر اس فاعل کا مفعول بہٖ قرار دیا جائے ایسے فقرہ کے ہمیشہ یہ معنے ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اس شخص کو مار دیا ہے یامارے گا کوئی اور معنے ہر گز نہیں ہوتے ۔ اور میں نے مدت ہوئی کہ اسی ثابت شدہ امر پر ایک اشتہار دیا تھا کہ جو شخص اس کے بر خلاف کسی حدیث یا دیوان مستند عرب سے کوئی ایسا فقرہ پیش کرے گا جس میں باوجود اس کے کہ توفّی کے لفظ کا خدا فاعل ہو اور کوئی عَلَم مفعول بہٖ ہو یعنی کوئی ایسا شخص مفعول بہٖ ہو جس کا نام لیا گیا ہو ۔ مگر باوجود اس امر کے اس جگہ وفات دینے کے معنے نہ ہوں تو اس قدر اس کو انعام دوں گا ۔اس اشتہار کا آج تک کسی نے جواب نہیں دیا ۔ اب پھر اتمام حجت کے لئے دو سو روپیہ نقد کا اشتہار دیتا ہوں کہ اگر کوئی ہمارامخالف ہمارے اس بیان کو یقینی اور قطعی نہیں سمجھتا تو وہ احادیث صحیحہ نبویہ یا قدیم شاعروں کے اقوال میں سے جو مستند ہوں اور جو عرب کے اہل زبان اور اپنے فن میں مسلّم ہوں ۔ کوئی ایکؔ فقرہ پیش کرے جس میں توفّی کے لفظ کا خدا فاعل ہو اور مفعول بہٖ کوئی عَلَم ہو جیسے زید اور بکر اور خالد وغیرہ اور اس فقرہ کے معنے ببداہت کوئی اور ہوں وفات دینے کے معنی نہ ہوں تو ایسی صورت میں مَیں ایسے شخص کو



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 384

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 384

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/384/mode/1up


مبلغ دو سو روپیہ نقد دوں گا ۔ ایسے شخص کو صرف یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ حدیث جس کو وہ پیش کرتاہے وہ حدیث صحیح نبوی ہے یا گذشتہ عرب کے شاعروں میں سے کسی ایسے شاعر کا قول ہے جو علم محاوراتِ عرب میں مسلّم الکمال ہے اور یہ ثبوت دینا بھی ضروری ہوگا کہ قطعی طور پر اس حدیث یا اس شعر سے ہمارے دعویٰ کے مخالف معنے نکلتے ہیں اور اِن معنوں سے جو ہم لیتے ہیں وہ مضمون فاسد ہوتا ہے ۔ یعنی وہ حدیث یا وہ شعر ان معنوں پر قطعیۃ الدلالت ہے۔ کیونکہ اگر اُس حدیث یا اُس شعرمیں ہمارے معنوں کا بھی احتمال ہے تو ایسی حدیث یا ایسا شعر ہر گز پیش کرنے کے لائق نہ ہوگا ۔ کیونکہ کسی فقرہ کو بطور نظیر پیش کرنے کے لئے اُس مخالف مضمون کا قطعیۃ الدلالت ہونا شرط ہے ۔وجہ یہ کہ جس حالت میں صد ہا نظائر قطعیۃ الدلالت سے ثابت ہو چکا ہے کہ توفّی کا لفظ اس صورت میں کہ خدا تعالیٰ اس کا فاعل اور کوئی عَلَم یعنی کوئی نام لے کر انسان اس کا مفعول بہٖ ہو بجز وفات دینے اس مفعول بہٖ کے کسی دوسرے معنوں پر آ ہی نہیں سکتا تو پھر ان نظائر متواترہ کثیرہ کے بر خلاف جو شخص دعویٰ کرتا ہے ۔ یہ بار ثبوت اس کی گردن پر ہے کہ وہ ایسی کوئی صریح نظیر جو قطعیۃ الدلالت ہو برخلاف ہمارے دعویٰ کے پیش کرے ۔33333۔۱؂

پھر دوسری پختہ اور قطعی دلیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر خدا تعالیٰ کا یہ قول ہے بل رفعہ اللّٰہ الیہ۔ کیونکہ قرآن شریف اور احادیث کی تتبع سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رفع الی اللّٰہ جو رفعہ اللّٰہ الیہکے فقرہ سے ظاہر ہے بجز موت کی حالت کے کسی حالت کی نسبت بولا نہیں جاتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے 3333333۔۲؂ یعنی اے نفسِ مطمئنہ جو خدا سے آرام یافتہ ہے اپنے خدا کی طرف واپس چلا آ اس حالت میں کہ خدا تجھ سے راضی اور تو خدا سے راضی اور میرے بندوں میں داخل ہوجا اور میرے بہشت میں داخل ہو جا ۔

اب ظاہر ہے کہ یہ مقولہ اللّٰہ جلّ شانہ کاکہ خداکی طرف واپس چلا آ کوئی اہل اسلام میں سے اس کے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 385

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 385

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/385/mode/1up


یہ معنے نہیں کرتا کہ زندہ مع جسم عنصری آسمان پر جا بیٹھ ۔ بلکہ آیت 333کے معنے موت ہی لئے جاتے ہیں ۔ پس جب خدا تعالیٰ کی طرف واپس جانا بموجب نص صریح قرآن شریف کے موت ہے تو پھر خدا کی طرف اٹھائے جانا جیسا کہ آیت بل رفعہ اللّٰہ الیہ سے ظاہر ہوتا ہے کیوں موت نہیں۔*یہ تو انصاف اور عقل اور تقویٰ کے برخلاف ہے کہ جومعنے نصوص قرآنیہ سے ثابت اور متحقق ہوتے ہیں اُن کو ترک کیا جائے ۔ اور جن معنوں اور جس محاورہ کی اپنے پاس کوئی بھی دلیل نہیں اس پہلو کو اختیار کیا جائے۔ کیا کوئی بتلا سکتا ہے کہ رفع الی اللّٰہ کے زبان عرب اور محاورہ ء عرب میں بجز وفات دیئے جانے کے کوئی اور بھی معنے ہیں ؟ ہاں اس وفات سے ایسی وفات

ایسا ہی بہت سی اور آیتیں قرآن شریف کی ہیں جن سے ببداہت یہی معلوم ہوتا ہے کہ رفع الی اللّٰہ اور رجوع الی اللّٰہ کے الفاظ ہمیشہ فوت ہی کے لئے آیا کرتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔ 333۔۱؂ یعنی وہ فرشتہ تمہیں وفات دیگا جو تم پر مُؤکّل ہے اور پھر تم اپنے رب کی طرف واپس کئے جاؤ گے ۔ اور جیسا کہ ایک دوسری جگہ فرقان حمیدمیں فرماتا ہے33یعنی ہر نفس موت کا مزا چکھے گا اور پھر ہماری طرف واپس کئے جاؤ گے ۔ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے3۔ ۳؂ یعنی ہم نے اس کو یعنی اس نبی کو عالی مرتبہ کی جگہ اٹھا لیا۔ اس آیت کی تشریح یہ ہے کہ جو لوگ بعد موت خدا تعا لیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں ان کے لئے کئی مراتب ہوتے ہیں سو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اس نبی کو بعد اٹھانے کے یعنی وفات دینے کے اس جگہ عالی مرتبہ دیا۔ نواب صدیق حسن خاں اپنی تفسیر فتح البیان میں لکھتے ہیں کہ اس جگہ رفع سے مراد رفع روحانی ہے جو موت کے بعد ہوتاہے ۔ ورنہ یہ محذور لازم آتا ہے کہ وہ نبی مرنے کے لئے زمین پر آوے ۔ افسوس ان لوگوں کو آیتؔ اِنّی متوفّیک ورافعک الیّ میں یہ معنے بھول جاتے ہیں حالانکہ اس آیت میں پہلے مُتوفّیک کا لفظ موجود ہے اور بعد میں رافعک ۔ پس صِرف لفظ رافعک میں معنے موت لے سکتے ہیں تو متوفّیک اور رافعک کے معنے کیوں موت نہیں ہیں ؟ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 386

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 386

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/386/mode/1up


مراد ہے جس کے بعد روح خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائی جاتی ہے ۔ جیسے مومنوں کی وفات ہوتی ہے ۔ یہی محاورہ خدا تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں موجود ہے ۔

اور آیت ممدوحہ بالا میں جو فرمایا ہے فادخلی فی عبادی جس کے معنے پہلے فقرہ کے ساتھ ملانے سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف واپس آجا اور پھر خدا کے بندوں میں داخل ہوجا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی شخص گذشتہ ارواح میں داخل نہیں ہوسکتا جب تک وفات نہ پا لے ۔ پس جب کہ بموجب نصِ قرآن شریف کے گذشتہ ارواح میں داخل ہونا بجز مرنے کے ممتنع اور محال ہے تو پھر کیونکرحضرت عیسیٰ بغیر فوت ہونے کے حضرت یحییٰ کے پاس دوسرے آسمان میں جابیٹھے ۔

اس جگہ یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ آیت ممدوحہ بالا میں خدا تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے وادخلی جنتی جس کے معنے اس فقرہ کو تمام آیت کے ساتھ ملانے سے یہ ہوتے ہیں کہ’’ اے نفس آرام یافتہ اپنے خدا کی طرف واپس آجا تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی اور میرے بندوں میں داخل ہوجا اور ؔ میرے بہشت میں داخل ہوجا ‘‘ پس جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مشاہدہ سے جو معراج کی رات میں آپ کو ہوا یہ ثابت ہے کہ قرآن شریف کی اس آیت کے مطابق نبیوں اور رسولوں کی روحیں جو دنیا سے گذر چکی ہیں وہ عالم ثانی میں ایک ایسی جماعت کی طرح ہیں جو بلاتوقف پچھلی فوت ہونے والے پہلوں کے گروہ میں جا ملتی ہیں اور ان میں داخل ہوجاتی ہیں ۔ جیسا کہ آیت فادخلی فی عبادیکا منشاء ہے۔ پھر آخری فقرہ ان آیات کا یعنی وادخلی جنّتی بھی یہی چاہتا ہے کہ وہ تمام عباد اللہ بلا توقف بہشت میں داخل ہوں اور جیساکہ آیت فی عبادیکا مفہوم کوئی مترقب اَمر نہیں جو دُور دراز زمانہ کے بعد ظہور میں آوے بلکہ راستبازوں کے مرنے کے ساتھ ہی بلا توقف اُس کاظہورہوتاہے یعنی ایک جماعت جوبعدمیں مرتی ہے پہلوں میں بلاتوقف جا ملتی ہے ۔ پس اسی طرح لازم آتا ہے کہ دوسرا فقرہ آیت کا یعنی وادخلی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 387

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 387

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/387/mode/1up


جنّتی وہ بھی بلا توقّف ظہور میں آتا ہو ۔ یعنی ہر ایک شخص جو طیّب اور طاہر مومنوں میں سے مرے وہ بھی بلا توقف بہشت میں داخل ہوجائے ۔ اور یہی بات حق ہے جیسا کہ قرآن شریف کے دوسرے مقامات*میں بھی اس کی تشریح ہے۔


اس جگہ بظاہر یہ اعتراض لازم آتا ہے کہ جب کہ ہر ایک مومن طیّب اور طاہر جن کی گردن پر کوئی بوجھ گناہ اور معاصی کا نہیں بلا توقف بہشت میں داخل ہوجاتے ہیں تو اِس صورت میں حشر اجساد اور اس کے تمام لوازم متعلقہ سے انکار لازم آتا ہے ۔ کیونکہ جب کہ بہشت میں داخل ہوچکے تو پھر بموجب آیت 3۱؂ اُن کا بہشت سے نکلنا ممتنع ہے ۔ پس اس سے تمام کارخانہ حشر اجساد و واقعات معاد کا باطل ہوا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا عقیدہ جو مومنین مطہّرین بلاتوقف بہشت میں داخل ہوجاتے ہیں یہ میری طرف سے نہیں بلکہ یہی عقیدہ ہے جس کی قرآن شریف نے تعلیم دی ہے ۔ اور دوسری تعلیم جو قرآن شریف میں ہے جو حشر اجساد ہوگا اور مردے زندہ ہوں گے وہ بھی حق ہے اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں صرف فرق یہ ہے کہ یہ بہشت میں داخل ہونا صرف اجمالی رنگ میں ہے اور اس صورت میں جو مومنوں کو مرنے کے بعد بلا توقف اجسام دیئے جاتے ہیں وہ اجسام ابھی ناقص ہیں مگر حشر اجساد کا دن تجلی ء اعظم کا دن ہے اور اُس دن کامل اجسام ملیں گے اور بہشتیوں کا تعلق کسی حالت میں بہشت سے الگ نہیں ہوگا ۔ مِنْ وَجْہٍ وہ بہشت میں ہوں گے اور مِنْ وَجْہٍ خدا تعالیٰ کے سامنے آئیں گے ۔ کیا وہ شہداء جو سبز چڑیوں کی طرح بہشت میں پھل کھاتے ہیں کیا وہ چڑیاں بہشت سے باہر نکل کر خدا کے سامنے پیش نہیں ہوں گی ؟ فتدبّر ۔ منہ

جنت میں داخل ہونے کے لئے جسم ضروری ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ جسم عنصری ہو بلکہ ایسا جسم چاہیئے کہ جو عنصری نہ ہو ۔ کیونکہ جنت کے پھل وغیرہ بھی عنصری نہیں بلکہ وہ خلق جدید ہے اس لئے جسم بھی خلق جدید ہوگا جو پہلے جسم کے مغائر ہوگا ۔ مگر مومنوں کے لئے مرنے کے بعد جسم کا ملنا ضروری ہے اور اس پر نہ صرف جنتی کا لفظ دلالت کرتا ہے بلکہ معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کی صرف روحیں نہیں دیکھیں بلکہ سب کے جسم دیکھے اور حضرت عیسیٰ کا جسم ان سے الگ طور کا نہ تھا ۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 388

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 388

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/388/mode/1up


منجملہؔ ان کے ایک وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔3۱؂ یعنی کہا گیا کہ تو بہشت میں داخل ہوجا ۔ ایسا ہی اور بہت سے مقامات ہیں جن کا لکھنا موجب تطویل ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ارواح طیّبین مطہّرین کے بمجرد فوت ہونے کے بہشت میں داخل ہو جاتے ہیں ۔ ایسا ہی بہت سی احادیث سے یہی مطلب ثابت ہوتا ہے اور ارواحِ شہداء کا بہشت کے میوے کھانا یہ توایسی مشہور حدیثیں ہیں کہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہیں اور خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے ۔333یعنی جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں مارے جاتے ہیں ان کی نسبت یہ گمان مت کرو کہ وہ مُردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں خدا تعالیٰ سے اُن کو رزق ملتا ہے ۔ اور کتب سابقہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے پس جب کہ ارواح طیبّین مطہّرین کا بہشت میں داخل ہونا ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ بہشت وہ مقام ہے جس میں انواع اقسام کی جسمانی نعماء بھی ہوں گی اور طرح طرح کے میوے ہوں گے اور بہشت میں داخل ہونے کے یہی معنے ہیں کہ وہ نعمتیں کھاوے اس صورت میں صرف روح کا بہشت میں داخل ہونا بے معنے اور بے سود ہے۔ کیا وہ بہشت میں داخل ہو کر ایک محروم کی طرح بیٹھی رہے گی اور بہشت کی نعمتوں سے فائدہ نہیں اٹھائے گی ؟ پس آیت وادخلی جنّتی صاف بتلا رہی ہے کہ مومن کو مرنے کے بعد ایک جسم ملتا ہے۔* اسی وجہ سے تمام

واضح رہے کہ عیسائیوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ یسوع مسیح یعنی عیسیٰ جسم عنصری کے ساتھ نہیں اٹھایا گیا بلکہ مرنے کے بعد اُس کو ایک جلالی جسم ملاتھا ۔ سو افسوس بلکہ سخت افسوس کہ فیج اعوج کے مسلمان جو قرونِ ثلاثہ کے بعد پیدا ہوئے نہ تو وہ اس مسئلہ کے بارے میں صحابہ رضی اللّٰہ عنھم کا عقیدہ رکھتے ہیں کیونکہ تمام صحابہؓ کا اس بات پر اجماع ہوگیا تھا کہ تمام گذشتہ انبیاء فوت ہوچکے ہیں جن میں حضرت عیسیٰ بھی داخل ہیں۔ اور نہ یہ لوگ اس مسئلہ میں یہودیوں کے ساتھ اتفاق رکھتے ہیں کیونکہ یہودی نعوذ باللہ حضرت عیسیٰ کو *** ٹھہرا کر صرف ان کے رفع روحانی کے منکر ہیں جو بعد موت



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 389

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 389

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/389/mode/1up


اَئمہ اور اکابرمتصوّفین اس بات کے قائل ہیں کہ مومن جو طیّب اور مطہّر ہوتے ہیں وہ بمجرد فوت ہونے کے ایک پاک اور نورانی جسم پاتے ہیں جس کے ذریعہ سے وہ نعماءِ جنت سے لذّت اٹھاتے ہیں ۔ اور بہشت کو صرف شہیدوں کے لئے مخصوص کرنا ایک ظلم ہے بلکہ ایک کفر ہے کیا کوئی

مومن کے لئے ضروری ہے ۔ کیونکہ کاٹھ پر لٹکائے جانے کا نتیجہ صرف رفع روحانی سے محروم رہنا اور *** بننا ہے نہ اور کچھ ۔ اور نہ یہ لوگ اس مسئلہ میں عیسائیوں کے ساتھ اتفاق رکھتے ہیں کیونکہ عیسائی حضرت عیسیٰ کے رفع جسم کے تو قائل ہیں مگر ان لوگوں کی طرح جسم عنصری کے رفع کے قائل نہیں بلکہ جلالی جسم کے رفع کے قائل ہیں جو بزعم ان کے بعد موت حضرت عیسیٰ کو ملا ۔ سو ہم اس بات سے منکر نہیں ہوسکتے کہ بعد موت حضرت عیسیٰ کو جلالی جسم ملا ہو جو ؔ خاکی جسم نہیں ہے کیونکہ وہ ہر ایک مومن راستباز کو بعد موت ملتا ہے جیسا کہ آیت وَادخلی جنّتی اس پر شاہد ہے ۔ کیونکہ مجرد روح بہشت میں داخل ہونے کے لائق نہیں ۔ پس اس میں حضرت عیسیٰ کی کوئی خصوصیت نہیں۔ہاں عیسائیوں کی یہ غلطی ہے کہ جو عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ جلالی جسم صلیبی موت کے بعد حضرت عیسیٰ کو ملا تھا ۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ صلیب پر ہر گز نہیں مرے ورنہ وہ نعوذ باللہ اپنے لئے یونس نبی کی مثال پیش کرنے میں دروغ گو ٹھہرتے ہیں اور نیز *** کے مفہوم کے مصداق بنتے ہیں ۔ کیونکہ ملعون وہ ہوتا ہے جس کا دل شیطان کی طرح خدا سے برگشتہ ہوجائے اور وہ خدا کا دشمن اور خدا اس کا دشمن ہوجائے اور شیطان کی طرح راندہ درگاہ الٰہی ہو کر خدا کا سرکش ہوجائے تو کیا ہم یہ مفہوم حضرت عیسیٰ ؑ کی نسبت تجویز کر سکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں ۔ اور کیا کوئی عیسائی یہ گستاخی کر سکتا ہے کہ صلیب پانے کے بعد حضرت عیسیٰ خدا سے برگشتہ ہوگئے تھے اور شیطان سے تعلقات پیدا کرلئے تھے ۔ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے *** کا یہی مفہوم قراؔ ر دیا گیاہے جس پر تمام قوموں کو اتفاق ہے ۔ مگر افسوس عیسائیوں نے کبھی اس مفہوم پر غور نہیں کی ورنہ ہزار بیزاری سے اس مذہب کو ترک کرتے ۔ ماسوا اس کے جن واقعات کو انجیلوں نے پیش کیا ہے اُن سے ظاہر ہے کہ صلیب سے رہائی پانے کے بعد صرف خاکی جسم حضرت عیسیٰ کا مشاہدہ کیا گیا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 390

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 390

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/390/mode/1up


سچا مومن یہ گستاخی کا کلمہ زبان پر لا سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو ابھی تک بہشت سے باہر ہیں جن کے روضہ کے نیچے بہشت ہے مگر وہ لوگ جنہوں نے آپ کے ذریعہ سے ایمان اور تقویٰ کا مرتبہ حاصل کیا وہ شہید ہونے کی وجہ سے بہشت میں داخل ہیں اور بہشتی میوے کھارہے ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ جس نے خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان کو وقف کر دیا وہ شہید ہو چکا۔ پس اس صورت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اول الشہداء ہیں ۔سو جب کہ یہ بات ثابت ہے تو ہم بھی کہتے ہیں کہ مسیح بھی مع جسم آسمان پر اٹھایا گیا( مگر اُس جسم کے ساتھ جو اِس عنصری جسم سے الگ ہے ) اور ؔ پھر خدا تعالیٰ کے بندوں میں داخل ہوا اور بہشت میں داخل ہوا ۔ اس صورت میں ہمارے اور ہمارے مخالفوں کی نزاع صرف لفظی نزاع نکلی ۔ اب جب کہ اس صورت میں رفع مع جسم ثابت ہوا تو اس کے بعد کیا ضرورت اور حاجت ہے کہ ایک مسلّم سنت اللہ سے جو تمام انبیاء کی نسبت ایک پاک جسم عطا کرنے کی ہے مُنہ پھیر کر حضرت عیسیٰ کو مع خاکی جسم کے آسمان پر اٹھایا جائے اور اگر یہ اعتقادہو کہ ان کو بھی بعد موت ایک نورانی جسم ملا تھا جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحيٰعلیہ السلام و غیرہ انبیاء کو جسم ملا تھا اور اُسی جسم کے ساتھ وہ خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائے گئے تھے تو ہم کب اس سے انکار کرتے ہیں۔ اس قسم کے جسم کے ساتھ حضرت مسیح علیہ السلام کا آسمان پر جانا ہمیں بدل و جان منظور ہے ۔ ع چشم ماروشن ودلِ ماشاد ۔

اور اگرچہ آیات ممدوحہ بالا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر نصوصِ صریحہ قطعیہ ہیں مگر تاہم اگر قرآن شریف کو غور سے دیکھا جائے تومعلوم ہوگا کہ اور بھی بہت سی ایسی آیات ہیں


جیسا کہ جب دھوما حواری نے شک کیا کہ کیونکر عیسیٰ صلیب سے رہائی پا کر آگیا تو حضرت عیسیٰ نے ثبوت دینے کے لئے اپنے زخم اس کو دکھلائے اور دھوما نے اُن زخموں میں انگلی ڈالی ۔ پس کیا ممکن ہے کہ جلالی جسم میں بھی زخم موجود رہے اور کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جلالی جسم بھی ملا پھر بھی زخموں سے رہائی نہ ہوئی ۔ بلکہ جلالی جسم وہ تھا جو کشمیر میں وفات پانے کے بعد ملا۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 391

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 391

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/391/mode/1up


جن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ منجملہ ان کے یہ آیت ہے۔33333۔ یعنی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم محض ایک رسول ہیں اور ان سے پہلے سب رسول فوت ہوچکے ہیں ۔ پس کیا اگر وہ فوت ہو گئے یا قتل کئے گئے تو تم دین اسلام کو چھوڑ دو گے ۔ اور جیسا کہ ابھی میں بیان کر چکا ہوں یہ صحیح نہیں ہے کہ خلت کا لفظ اور تمام نبیوں کے لئے تو وفات دینے کے لئے آتا ہے مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ان معنوں پر آتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو مع جسم عنصری آسمان پر اٹھا لیا ۔ یہ دعویٰ سراسر بے دلیل ہے ۔ اس پر کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی ۔ بلکہ جہاں جہاں قرآن شریف میں خلت کا لفظ آیا ہے وفات کے معنوں پر ہی آیا ہے اور کوئی شخص قرآن شریف سے ایک بھی ایسی نظیر پیش نہیں کرسکتاکہ ان معنوں پر آیا ہو کہ کوئی شخص مع جسم عنصری آسمان پر اٹھایا گیا ۔ ماسوا اس کے جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں خدا تعالیٰ نے انہیں آیات میں خلت کے لفظ کی خود تشریح فرمادی ہے اورؔ خلت کے مفہوم کو صرف موت اور قتل میں محدود کر دیا ہے ۔ یہی آیت شریفہ ہے جس کی رو سے صحابہ رضی اللّٰہ عنھمکا اس بات پر اجماع ہوگیا تھا کہ تمام نبی اور رسول فوت ہو چکے ہیں اور کوئی ان میں سے دنیا میں واپس آنے والا نہیں بلکہ اس اجماع کی اصل غرض یہی تھی کہ دنیا میں واپس آنا کسی کے لئے ممکن نہیں اور اس اجماع سے اس خیال کا ازالہ مطلوب تھا کہ جو حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دل میں آیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پھر دنیا میں واپس آئیں گے اور منافقوں کے ناک اور کان کاٹیں گے ۔ اِس صورت میں ظاہر ہے کہ اگر اسلام میں کسی نبی کادنیا میں واپس آنا تسلیم کیا جاتا تو اس آیت کے پڑھنے سے حضرت عمررضی اللہ عنہ کے خیال کا ازالہ غیر ممکن ہوتا اور ایسی صورت میںآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی کسرِ شان تھی ۔ بلکہ ایسی صورت میں حضرت ابوبکرکا اس آیت کو پڑھنا ہی بے محل تھا۔ غرض یہ آیت بھی وہ عالی شان آیت ہے کہ جو



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 392

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 392

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/392/mode/1up


حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا بلند آواز سے اعلان کرتی ہے ۔ فالحمد للہ علٰی ذالک ۔

پھر ایک اور آیت ہے جس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔333333۱؂ الجزونمبر۶ع۱۰ یعنی عیسیٰ مسیح ایک رسول ہے۔ پہلے اُس سے سب رسول فوت ہو چکے ہیں اور ماں اس کی ایک عورت راستباز تھی اور دونوں جب زندہ تھے روٹی کھایا کرتے تھے ۔

اِس آیت میں اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدائی کا ابطال کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ پہلے اس سے سب رسول فوت ہوچکے ہیں۔اور پھر باوجود اس کے یہ خیال کہ مسیح زندہ آسمان پر بیٹھا ہے باطل ہے۔ پس کس طرح اس دلیل سے اس کی خدائی ثابت کی جاتی ہے کیونکہ یہ دلیل ہی فاسد ہے بلکہ حق یہ ہے کہ موت نے کسی کو نہیں چھوڑا سب مر گئے ۔ دوسری دلیل اس کی عبودیت پر یہ ہے کہ اس کی ماں تھی جس سے وہ پیدا ہوا اور خدا کی کوئی ماں نہیں ۔ تیسرؔ ی دلیل اس کی عبودیت پر یہ ہے کہ جب وہ اور اس کی ماں زندہ تھے دونوں روٹی کھایا کرتے تھے۔ اورخدا روٹی کھانے سے پاک ہے ۔ یعنی روٹی بدل ما یتحلّل ہوتی ہے اور خدا اس سے بلند تر ہے کہ اس میں تحلیل پانے کی صفت ہو۔ مگر مسیح روٹی کھاتا رہتا تھا ۔ پس اگر وہ خدا ہے تو کیا خدا کا وجود بھی تحلیل پاتا رہتا ہے ؟ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ طبعی تحقیقات کی رو سے انسان کا بدن تین برس تک بالکل بدل جاتا ہے اور پہلے اجزاء تحلیل ہو کر دوسرے اجزاء ان کے قائم مقام پیدا ہو جاتے ہیں مگر خدا میں یہ نقص ہر گز نہیں۔ یہ دلیل ہے جس کو خدا تعالیٰ حضرت عیسیٰ کے انسان ہونے پر لایا ہے ۔

مگر افسوس ان لوگوں پر کہ جو حضرت عیسیٰ کو آسمان پر پہنچا کر پھر اعتقاد رکھتے ہیں کہ اُن کے وجود میں انسانوں کی طرح یہ خاصیت نہیں کہ سلسلہ تحلیل کا ان میں جاری رہے اور بغیر اس کے جو بذریعہ غذا بدل مایتحلّل اُن کو ملتا ہو اُن کا وجود فنا سے بچا ہوا ہوگا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 393

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 393

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/393/mode/1up


اِس طرح پر وہ خدا کی اس برہان اور دلیل کو توڑنا چاہتے ہیں جو آیت ممدوحہ بالا میں اس نے قائم کی ہے ۔ یعنی خدا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے انسان ہونے کی یہ دلیل دیتا ہے کہ اور انسانوں کی طرح وہ بھی محتاج غذا تھا اور بغیر غذا کے اس کا بدن قائم نہیں رہ سکتا تھا بلکہ بدل مایتحلّل کی ضرورت تھی ۔ لیکن یہ لوگ جو حضرت عیسیٰ کو مع جسم عنصری آسمان پر پہنچاتے ہیں وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کا وجود بغیر غذا کے قائم رہ سکتا ہے تو گویا وہ برخلاف منشاء اللہ تعالیٰ کے حضرت عیسیٰ کی خدائی کی ایک دلیل پیش کرتے ہیں ۔ شرم کی جگہ ہے کہ جس دلیل کو خدا نے اس غرض سے پیش کیا ہے کہ تا حضرت عیسیٰ کی انسانیت ثابت ہو یہ لوگ اُس دلیل کی بے عزتی کرتے ہیں۔ کیونکہ جس بات سے خدا تعالیٰ انکار کرتا ہے کہ وہ بات مسیح میں موجو د نہیں تا اس کو خدا ٹھہرایا جائے یہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ بات اُس میں موجود ہے پس یہ خدا کی اس حجت کاملہ کی بے عزتی ہے جو حضرت عیسیٰ کے انسان ہونے کے لئے وہ پیش کرتا ہے ۔ اگر یہ بات سچ ہے کہ حضرت عیسیٰ باوجود جسم عنصری کے روٹی کھانے کے محتاج نہیں اورؔ ان کا بدن خدا کے وجود کی طرح خودبخود قائم رہ سکتا ہے تو یہ تواُن کی خدائی کی ایک دلیل ہے جو قدیم سے عیسائی پیش کیا کرتے ہیں اور اس کے جواب میں یہ کہنا کافی نہیں کہ زمین پر تو وہ روٹی کھایا کرتے تھے گو وہ آسمان پر نہیں کھاتے کیونکہ مخالف کہہ سکتا ہے کہ زمین پر وہ محض اپنے اختیار سے کھاتے تھے انسانوں کی طرح روٹی کے محتاج نہ تھے اور اگر محتاج ہوتے تو آسمان پر بھی ضرور محتاج ہوتے مجھے بار بار اس قوم پر افسوس آتا ہے کہ خدا تو حضرت مسیح کا روٹی کھانا ان کی انسانیت پر دلیل لاوے اور یہ لوگ اعتقاد رکھیں کہ گو حضرت مسیح نے زمین پرتیس۳۰ برس روٹی کھائی مگر آسمان پراُنیس ۱۹۰۰سو برس سے بغیر روٹی کھانے کے جیتے ہیں ۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 394

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 394

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/394/mode/1up


اور پھر ایک اور دلیل حضرت عیسیٰ کی وفات پر قرآن شریف کی یہ آیت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔33۔(ترجمہ ) تم (اے بنی آدم ) زمین میں ہی زندگی بسر کروگے اور زمین میں ہی مروگے اور زمین میں سے ہی نکالے جاؤ گے ۔ پس باجود اس قدر نص صریح کے کیونکر ممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بجائے زمین پر رہنے کے قریباً دو ہزار برس یا اس سے بھی زیادہ کسی نامعلوم مدت تک آسمان پر رہیں ایسی صورت میں تو قرآن شریف کا ابطال لازم آتا ہے ۔

اور پھر ایک اور دلیل حضرت عیسیٰ کی وفات پر قرآن شریف کی یہ آیت ہے ۔333( ترجمہ ) اور تمہاری قرار گاہ زمین ہی ہوگی اور موت کے دنوں تک تم زمین پر ہی اپنے آرام کی چیزیں حاصل کروگے ۔ یہ آیت بھی آیت ممدوحہ بالا کے ہم معنے ہے ۔ پس کس طرح ممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ زمین پر جو انسانوں کے رہنے کی جگہ ہے صرف تینتیس۳۳ برس تک زندگی بسر کریں مگر آسمان پر جو انسانوں کے رہنے کی جگہ نہیں دو۲ ہزار برس تک یا اس سے بھی زیادہ کسی نا معلوم مدت تک سکونت اختیار کر رکھیں۔ اس سے تو

جیساکہ ہم بیان کر چکے ہیں حضرت عیسیٰ کا خود اپنا ایک اقرار ہے جو ان کی وفات پر شاہد ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے اس سوال کے جواب میں کہ اے عیسیٰ کیا تو نے ہی لوگوں کو تعلیم دی تھی کہ مجھ کو اور میری ماں کو خدا کر کے مانو یہ جواب دیتے ہیں جو قرآن شریف میں مندرج ہے یعنی یہ آیت3333یعنی میں تو اس زمانہ تک ان پر گواہ تھا جب تک میں ان کے درمیان تھا اور جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر ان کا محافظ تو ہی تھا۔ اس جواب میں حضرت عیسیٰ عیسائیوں کی ہدایت کو اپنی زندگی سے وابستہ کرتے ہیں ۔ پس اگر حضرت عیسیٰ اب تک زندہ ہیں تو اس سے لازم آتا ہے کہ عیسائی حق پرہیں اور اس آیت 33 سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ قبل از قیامت دوبارہ دنیا میں نہیں آئیں گے ورنہ نعوذ باللّٰہ یہ لازم آتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے جھوٹ بولیں گے کہ مجھے اپنی امت کے بگڑنے کی کچھ بھی اطلاع نہیں ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 395

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 395

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/395/mode/1up


شبہ پڑے گا کہ وہ انسان نہیں ہیں ۔ خاص کر اس صورت میں کہ ایسے فوق الانسانیت خواص دکھلانے میں کوئیؔ دوسرا انسان ان کا شریک نہیں ۔

اور پھر ایک اور دلیل حضرت عیسیٰ کی وفات پر قرآن شریف کی یہ آیت ہے ۔33333(ترجمہ )یعنی خدا وہ خدا ہے جس نے تمہیں ضعف سے پیدا کیا پھر ضعف کے بعد قوت دے دی۔ پھر قوت کے بعد ضعف اور پیرانہ سالی دی ۔ اب ظاہر ہے کہ یہ آیت تمام انسانوں کے لئے ہے یہاں تک کہ تمام انبیاء علیھم السّلام اس میں داخل ہیں ۔ اور خود ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو نبیوں کے سردار ہیں وہ بھی اس سے باہر نہیں ۔ آپ پر بھی پیرانہ سالی کے علامات ظاہر ہو گئے تھے اور چند بال سفید ریش مبارک میں آگئے تھے ۔ اور آپ خود اپنی آخری عمر میں آثار پیرانہ سالی کے ضعف کے اپنے اندر محسوس کرتے تھے ۔ لیکن بقول ہمارے مخالفین کے حضرت عیسیٰ اس سے بھی باہر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک خصوصیت ان کی ہے جو فوق العادت ہے اور یہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدائی پر ایک دلیل ہے ۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدائی پر صرف ایک دلیل نہیں بلکہ پانچ۵ دلیلیں ہیں جوبزعم نصاریٰ اور عقیدہ ہماری قوم کے مخالفوں کے اس جگہ موجود ہیں جن کا ابطال بغیر اُس خصوصیت کے توڑنے کے ممکن نہیں کیونکہ جس حالت میں حضرت عیسیٰ ہی اپنی ذات میں یہ خصوصیت رکھتے ہیں کہ وہ مع جسم عنصری آسمان پر چلے گئے کوئی دوسرا انسان ان کا شریک نہیں ۔ اور پھر دوسر۲ی یہ خصوصیت بھی رکھتے ہیں کہ صد ہا سال تک بغیر آب و دانہ کے آسمان پر زندہ رہنے والے وہی ٹھہرے جس میں ان کا کوئی دوسرا انسان شریک نہیں ۔ اور پھر تیسر۳ ی یہ خصوصیت رکھتے ہیں کہ آسمان پر اتنی مدت تک پیرانہ سالی اور ضعف سے محفوظ رہنے والے وہی ٹھہرے جس میں ان کا کوئی آدمی شریک نہیں ۔ اور پھر چو۴ تھی یہ خصوصیت رکھتے ہیں کہ مدت دراز کے بعد آسمان سے مع ملائک نازل ہونے والے وہی ٹھہرے جس میں ان کا ایک بشر بھی شریک نہیں ۔ اب سوچنا چاہیئے کہ یہ چار۴ خصوصیتیں جو محض ان کی ذات میں تسلیم کی جاتی ہیں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 396

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 396

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/396/mode/1up


اور ان میں وہ وحدہٗ لا شریک خیال کئے جاتے ہیں ۔ کس قدر یہ عقیدہ لوگوں کے لئے موجب ابتلاؔ ہو سکتا ہے ۔* اور خدا بنانے والوں کے لئے کس قدر وجوہات ملتے ہیں جو خود مسلمانوں کے اقرار سے ثابت شدہ امور ہیں ۔ پس اگر خدانے حضرت عیسیٰ کو وفات شدہ قرار دے کر ان تمام


ماسوا اس کے ہمارے مخالف مسلمان بد قسمتی اور جہالت کی وجہ سے ایک پانچو۵یں خصوصیت بھی حضرت عیسیٰ کے لئے قائم کرتے ہیں ۔ اور وہ یہ کہ تمام انبیاء میں سے مسِ شیطان سے بھی وہی پاک ہیں اور کوئی نبی پاک نہیں ۔ اور پھر چھٹی خصوصیت یہ کہ روح القدس ہمیشہ ان کے ساتھ رہتا تھا مگر کسی دوسرے نبی کے ساتھ ایسی دائمی رفاقت روح القدس نے نہیں کی ۔ مگر یہ ان لوگوں کی تمام غلطیاں ہیں ۔ وہ نہیں سمجھتے کہ ہر ایک نبی مسِ شیطان سے پاک ہوتا ہے لیکن خدا نے جو اس جگہ اپنے رسول کے فرمودہ کے ذریعہ سے حضرت عیسیٰ کا مع اس کی والدہ کے مسِ شیطان سے پاک ہونا ذکر فرمایا اس میں حکمت یہ ہے کہ نعوذ باللہ یہود نامسعود حضرت مریم صدیقہ کو ایک زانیہ عورت خیال کرتے تھے اور حضرت عیسیٰ کو ایک ولد الزنا سمجھتے تھے اور خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ ان الزاموں سے ان کی بریّت کرے ۔ پس اس طرح اس نے ان کی بریّت کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ وہ دونوں مسِ شیطان سے پاک ہیں یعنی زنا ایک شیطانی فعل ہے اور عیسیٰ اور مریم اس شیطانی فعل سے محفوظ ہیں ۔ یہ مطلب نہیں کہ صرف وہ محفوظ ہیں اور دوسرے نبی آلودہ ہیں ۔ اسی طرح یہودیوں کا خیال تھا کہ ؔ بوجہ ناجائز ولادت کے حضرت عیسیٰ کا رفیق شیطان ہے،اور یہی توریت کی رو سے انکا عقیدہ تھا ۔ پس اُن کے ردّ میں روح القدس کی رفاقت بیان فرمائی گئی۔

اور یہ بھی صحیح نہیں کہ عیسیٰ میں ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ ان کا تولّد روح القدس کے سایہ سے ہوا ۔ کیونکہ قرآن شریف اور توریت کی رو سے یہ بات قرار پا چکی ہے کہ بعض انسان شیطان کے سایہ سے پیدا ہوتے ہیں اور ان میں شیطانی خصلتیں ہوتی ہیں اور بعض انسان روح القدس کے سایہ سے پیدا ہوتے ہیں اور ان میں پاک خصلتیں ہوتی ہیں اور وہ لوگ جو ولد الحرام ہوں وہ شیطان کے سایہ سے ہی رحم مادر میں وجود پکڑتے ہیں ۔ پس اس بات کا ردکرنا ضروری تھا کہ حضرت عیسیٰ کی ولادت ناجائز نہیں ۔ لہٰذا اُس کی نسبت روح القدس کے سایہ کا انجیل میں بھی ذکر کیا گیا تا معلوم ہو کہ وہ شیطان کے سایہ سے پیدا نہیں ہوئے اور ان کی ولادت ناجائز نہیں ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 397

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 397

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/397/mode/1up


خصوصیتوں کو رد نہیں کر دیا تو پھر دوسرا طریق رد کا یہ تھا کہ خدا تعالیٰ چندایسی نظیریں پیش کرتا جس سے معلوم ہوتا کہ ان خوارق میں بعض اور انسان بھی اس کے شریک ہیں ۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے بے پدر ہونے میں حضرت آدمؑ کی نظیر پیش کردی تھی ۔ مگر جب کہ خدا تعالیٰ نے نہ حضرت عیسیٰ کو فوت شدہ قرار دیا اور نہ ان تمام خصوصیتوں کو توڑا تو اس صورت میں گویاخدا تعالیٰ عیسائیوں کی حجت کے سامنے لاجواب ہوگیا ۔ اور اگر کہو کہ ہم یہ بھی تو کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ آخری زمانہ میں آکر ایک مدت کے بعد فوت ہوجائیں گے تو اس بات کو عیسائی قبول نہیں کرتے ۔ وہ تمہارے اقرارات سے تمہیں ملزم کرتے ہیں ۔ اور ان پر واجب نہیں ہے کہ تمہارے دعوٰی بے دلیل کو مان لیں ۔ کیونکہ جب حضرت عیسیٰ قیامت کے دن تک زندہ رہیں اور سب خدائی کی علامتیں احیاء موتٰے وغیرہ ان میں موجود ہوں تو ممکن ہے کہؔ موت سے بچ رہیں اور عیسائیوں کا تو یہی عقیدہ ہے کہ وہ آسمان سے نازل ہو کر نہیں مریں گے بلکہ بحیثیت خدا ہونے کے لوگوں کوجزا سزا دیں گے ۔ اور جس حالت میں تمہارے اپنے اقرار سے یہ چار۴ خصوصیتیں حضرت عیسیٰ میں ثابت ہیں تو عیسائی تو اس صورت میں آپ لوگوں پر سوار ہو جائیں گے کیونکہ ان کے نزدیک یہ چار۴ خصوصیتیں حضرت عیسیٰ کے خدا بنانے کے لئے کافی ہیں اور خداتعالیٰ کی مصلحت سے بعید ہے کہ وہ ایسے شخص کو یہ چار۴ خصوصیتیں عطا کرے جس کو چالیس کروڑ انسان خدا بنارہاہے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کی خصوصیت کے بارے میں صرف ایک بات پیش کی تھی کہ وہ بغیر باپ پیدا ہوا ہے تو خدا تعالیٰ نے فی الفور اس کا جواب دیا اور فرمایا ۔333۔یعنی خدا تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی مثال ہے خدا نے اس کو مٹی سے بنایا پھر کہا کہ ہو جا پس وہ زندہ جیتا جاگتا ہوگیا۔ یعنی عیسیٰ علیہ السلام کا بے باپ ہونا کوئی امر خاص اس کے لئے نہیں تا خدا ہونا اس کا لازم لاوے ۔ آدم کے باپ اور ماں دونوں نہیں ۔ پس جس حالت میں خدا تعالیٰ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 398

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 398

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/398/mode/1up


کی غیرت نے یہ تقاضا کیا کہ حضرت عیسیٰ میں بے پدر ہوؔ نے کی خصوصیت نہ رہے تا ان کی خدائی کے لئے کوئی دلیل نہ ٹھہرائی جائے ۔ تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ میں چار فوق العادت خصوصیتیں قبول کر لی ہوں۔ ہاں اگر خدانے ان خصوصیتوں کے توڑنے کے لئے کچھ نظیریں پیش کی ہیں تو وہ نظیریں پیش کرنی چاہیئیں ورنہ ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ عیسائیوں کے دعویٰ کا جواب نہیں دے سکا ۔ کیونکہ یہ بھی ایسی خصوصیتیں ہیں جو عیسائی پیش کیا کرتے ہیں اور ان خصوصیتوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدائی کی دلیل ٹھہراتے ہیں ۔ پس جب کہ خدا تعالیٰ نے ان چار خصوصیتوں کو آدم کی پیدائش کی طرح کوئی نظیر پیش کرکے نہیں توڑا تو اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے عیسائیوں کے دعویٰ کو مان لیا ہے ۔ اور اگر توڑا ہے اور ان چارخصوصیتوں کی کوئی نظیر پیش کی ہے تو قرآن شریف میں سے وہ آیات پیش کرو ۔

اور منجملہ ان آیات کے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر صریح دلالت کرتی ہیں یہ آیت قرآن شریف کی ہے۔33333۔یعنی جو لوگ بغیر اللہ کے پرستش کئے جاتے ہیں وہ کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتے بلکہ آپ پیدا شدہ ہیں اور وہ سب لوگ مر چکے ہیں زندہ نہیں ہیں ۔ اور نہیں جانتے کہ کب اٹھائے جائیں گے ۔ پس اس مقام پر غور سے دیکھنا چاہیئے کہ یہ آیتیں کس قدر صراحت سے حضرت مسیح اور ان تمام انسانوں کی وفات کو ظاہر کر رہی ہیں جن کو یہود اور نصاریٰ اور بعض فرقے عرب کے اپنے معبود ٹھہراتے تھے ۔ اور ان سے دعائیں مانگتے تھے ۔ یاد رکھویہ خدا کا بیان ہے اور خدا تعالیٰ اس بات سے پاک اور بلند تر ہے کہ خلاف واقعہ باتیں کہے ۔ پس جس حالت میں وہ صاف اور صریح لفظوں میں فرماتا ہے کہ جس قدر انسان مختلف فرقوں میں پوجا کئے جاتے ہیں اور خدا بنائے گئے ہیں وہ سب مر چکے ہیں ایک بھی ان میں سے زندہ نہیں ہے ۔ تو پھر کس قدر سرکشی اور نافرمانی اور خداکے حکم کی مخالفت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ سمجھاؔ جائے ۔ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 399

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 399

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/399/mode/1up


اُن لوگوں میں سے نہیں ہیں جن کو خدا بنایا گیا ہے یا جن کواپنی مشکل کشائی کے لئے پکارا جاتا ہے بلکہ وہ ان سب لوگوں سے اول نمبر پر ہیں ۔ کیونکہ جس اصرار اور غلو کے ساتھ حضرت عیسیٰ کے خدا بنانے کے لئے چالیس کروڑ انسان کوشش کر رہا ہے اس کی نظیر کسی اور فرقہ میں ہر گز نہیں پائی جاتی ۔

یہ تمام آیات جو ہم نے اس جگہ لکھی ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں ۔ اور پھر جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث طیّبہ کی طرف دیکھتے ہیں تو ان سے بھی یہی مطلب ثابت ہوتا ہے صرف فرق یہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے اقوال سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر گواہی دیتا ہے او ر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رؤیت سے حضرت مسیح کی موت پر شہادت دیتے ہیں ۔ سو خدا تعالیٰ نے اپنے قول سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل سے یعنی رؤیت سے اس بات پرمہر لگا دی کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوچکے ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رؤیت سے یہ گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے معراج کی رات میں حضرت عیسیٰ کو آسمان پر ان گذشتہ نبیوں میں دیکھا ہے جو اس دنیا سے گذر چکے ہیں اور دوسرے عالم میں پہنچ گئے ہیں اور صرف اِسی قدر نہیں بلکہ جس قسم کے دوسرے انبیاء علیہم السلام کے جسم دیکھے اسی قسم کا جسم حضرت عیسیٰ کا دیکھا اور ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ ایسا سمجھنا غلطی ہے کہ پہلے انبیاء علیہم السلام جو اِس دنیا سے گذر چکے ہیں اُن کی صرف آسمان پر روحیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ نورانی اور جلالی اجسام ہیں جن اجسام کے ساتھ وہ مرنے کے بعد دنیا میں سے اٹھائے گئے جیسا کہ آیت 33۱؂اس بات پر نصِ صریح ہے ۔ کیونکہ بہشت میں داخل ہونے کے لئے جسم کی ضرورت ہے اور قرآن شریف جابجا تصریح سے فرماتا ہے کہ جو لوگ بہشت میں داخل ہوں گے ان کے ساتھ جسم بھی ہوں گے کوئی مجرد رُوح بہشت میں داخل نہیں ہوگی۔پس آیت33۱؂اس بات کے لئے نص صریح ہے کہ ہر ایک را ستباز جو مرنے کے بعد بہشت میں داخل ہوتا ہے اس ؔ کو مرنے کے بعد ضرور ایک جسم ملتاہے پھر دوسری شہادت جسم ملنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیت ہے کیونکہ آپ نے معراج کی رات میں آسمان میں صرف انبیاء کی روحیں نہیں دیکھیں بلکہ ان کے اجسام بھی دیکھے ۔ اور حضرت مسیح کا کوئی نرالا جسم نہیں دیکھا بلکہ جیسے تمام انبیاء کے جسم دیکھے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 400

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 400

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/400/mode/1up


ویسا ہی حضرت مسیح کابھی جسم دیکھا ۔ پس اگر انسان ناحق باطل پرستی پر ضد نہ کرے تو اس کے لئے اس بات کا سمجھنا بہت ہی سہل ہے کہ حضرت عیسیٰ جس جسم کے ساتھ اٹھائے گئے وہ عنصری جسم نہ تھا بلکہ وہ جسم تھا جو مرنے کے بعد ہر ایک مومن کو ملتا ہے ۔ کیونکہ عنصری جسم کے لئے خود اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے کہ وہ آسمان پر جاوے ۔ جیسا کہ وہ فرماتاہے333۔ترجمہ۔یعنی کیا ہم نے زمین کو ایسے طور سے نہیں بنایا کہ وہ انسانوں کے اجسام کو زندہ اور مردہ ہونے کی حالت میں اپنی طرف کھینچ رہی ہے کسی جسم کو نہیں چھوڑتی کہ وہ آسمان پر جاوے ۔

اور پھر دوسری جگہ فرماتا ہے33۔ یعنی جب کافروں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان پر چڑھنے کی درخواست کی کہ یہ معجزہ دکھلادیں کہ مع جسم عنصری آسمان پر چڑھ جائیں تو ان کو یہ جواب ملا کہ33الخ۔ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا خدا اس بات سے پاک ہے کہ اپنے عہد اور وعدہ کے برخلاف کرے ۔ وہ پہلے کہہ چکا ہے کہ کوئی جسم عنصری آسمان پر نہیں جائے گا ۔ جیسا کہ فرمایا ۔333اورجیساکہ فرمایا 333 اور جیسا کہ فرمایا33۔پس یہ عرب کے کفار کی شرارت تھی کہ وہ لوگ برخلاف وعدہ و عہد الٰہی معجزہ مانگتے تھے اور خوب جانتے تھے کہ ایسا معجزہ دکھایا نہیں جائے گاکیونکہ یہ خدا تعالیٰ کے اس قول کے برخلاف ہے جو گذر چکا ہے ۔ اور خدا تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اپنے عہد کو توڑے ۔ اور پھر فرمایا کہ ان کو کہہ دے کہ میں تو ایک بشر ہوں اور خدا تعالیٰ فرماچکا ہے کہ بشر کے لئے ممتنع ہے کہ اس کا جسم خاکی آسمان پر جائے ہاں پاک لوگ دوسرے جسم کے ساتھ آسمان پر جا ؔ سکتے ہیں جیسا کہ تمام نبیوں اور رسولوں اور مومنوں کی روحیں وفات کے بعد آسمان پر جاتی ہیں اور انہیں کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے3۔ یعنی مومنوں کے لئے آسمان کے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 401

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 401

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/401/mode/1up


دروازے کھولے جائیں گے ۔ یاد رہے کہ اگر صرف روحیں ہوتیں تو اُن کے لئے لھم کی ضمیر نہ آتی ۔ پس یہ قرینہ قویّہ اس بات پر ہے کہ بعد موت جو مومنوں کا رفع ہوتا ہے وہ مع جسم ہوتا ہے مگر یہ جسم خاکی نہیں ہے بلکہ مومن کی روح کو ایک اور جسم ملتا ہے جو پاک اور نورانی ہوتا ہے اور اس دکھ اور عیب سے محفوظ ہوتا ہے جو عنصری جسم کے لوازم میں سے ہے یعنی وہ ارضی غذاؤں کا محتاج نہیں ہوتا ۔ اور نہ زمینی پانی کا حاجت مند ہوتا ہے اور وہ تمام لوگ جن کو خدا تعالیٰ کی ہمسائیگی میں جگہ دی جاتی ہے ایسا ہی جسم پاتے ہیں ۔ اور ہم ایمان رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے بھی وفات کے بعد ایسا ہی جسم پایا تھا اور اسی جسم کے ساتھ وہ خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائے گئے تھے۔

بعض نادان اس جگہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جس حالت میں قرآن شریف کی یہ آیت کہ33اورآیت333صاف طور پربتلا رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے حضور میں یہ عذر پیش کریں گے کہ میری وفات کے بعد لوگ بگڑے ہیں نہ میری زندگی میں تو اس پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اگر یہ عقیدہ صحیح ہے کہ حضرت عیسیٰ صلیب سے بچ کر کشمیر کی طرف چلے گئے تھے اور کشمیر میں ۸۷ برس عمر بسر کی تھی تو پھر یہ کہنا کہ میری وفات کے بعد لوگ بگڑ گئے صحیح نہیں ہوگا بلکہ یہ کہنا چاہیئے تھا کہ میرے کشمیر کے سفر کے بعد لوگ بگڑے ہیں کیونکہ وفات تو صلیب کے واقعہ سے ستاسی۸۷ برس بعد ہوئی ۔

پس یاد رہے کہ ایسا وسوسہ صرف قلت تدبّر کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ورنہ کشمیر کا سفر اس فقرہ کی ضد نہیں کیونکہ مادمت فیھم کے یہ معنے ہیں کہ جب تک میں اپنی امت میں تھا جو میرے پر ایمان لائے تھے یہ معنے نہیں کہ جب تک میں اُن کی زمین میں تھاکیونکہ ہم قبول کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ زمین شام میں سے ہجرت کر کے کشمیر کی طرف چلے گئے تھے۔مگرؔ ہم یہ قبول نہیں کرتے کہ حضرت عیسیٰ کی والدہ اور آپ کے حواری پیچھے رہ گئے تھے بلکہ تاریخ کی رو سے ثابت ہے کہ حواری بھی کچھ تو حضرت عیسیٰ کے ساتھ اور کچھ بعد میں آپ کو آملے تھے جیسا کہ دھوما حواری حضرت عیسیٰ کے ساتھ آیا تھا باقی حواری بعد میںآگئے تھے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 402

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 402

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/402/mode/1up


اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی رفاقت کے لئے صرف ایک ہی شخص اختیار کیا تھا یعنی دھوما کو جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے وقت صرف حضرت ابوبکر کو اختیار کیا تھا۔ کیونکہ سلطنت رومی حضرت عیسیٰ کو باغی قرار دے چکی تھی اور اسی جرم سے پیلا طوس بھی قیصر کے حکم سے قتل کیا گیا تھاکیونکہ وہ در پردہ حضرت عیسیٰ کا حامی تھا اور اس کی عورت بھی حضرت عیسیٰ کی مرید تھی ۔ پس ضرور تھا کہ حضرت عیسیٰ اس ملک سے پوشیدہ طور پر نکلتے کوئی قافلہ ساتھ نہ لیتے اس لئے انہوں نے اس سفر میں صرف دھوما حواری کو ساتھ لیا جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے سفر میں صرف ابو بکر کو ساتھ لیا تھا اور جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی اصحاب مختلف راہوں سے مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا پہنچے تھے ۔ ایسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری مختلف راہوں سے مختلف وقتوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں جا پہنچے تھے۔ اور جب تک حضرت عیسیٰ ان میں رہے جیسا کہ آیت3۱؂کا منشاء ہے وہ سب لوگ توحید پر قائم رہے بعد وفات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ان لوگوں کی اولاد بگڑ گئی ۔ یہ معلوم نہیں کہ کس پشت میں یہ خرابی پیدا ہوئی ۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ تیسری صدی تک دین عیسائی اپنی اصلیت پر تھا بہرحال معلوم ہوتاہے کہ حضرت عیسیٰ کی وفات کے بعدوہ تمام لوگ پھر اپنے وطن کی طرف چلے آئے کیونکہ ایسا اتفاق ہو گیا کہ قیصر روم عیسائی ہو گیاپھر بے وطنی میں رہنا لا حاصل تھا ۔

اور اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کشمیر کی طرف سفر کرنا ایسا امر نہیں ہے کہ جو بے دلیل ہو ، بلکہ بڑے بڑے دلائل سے یہ امر ثابت کیا گیا ہے ۔ یہاں تک کہؔ خودلفظ کشمیربھی اس پردلیل ہے کیونکہ لفظ کشمیر وہ لفظ ہے جس کو کشمیری زبان میں کشیر کہتے ہیں ۔ ہر ایک کشمیری اس کو کشیر بولتا ہے ۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ دراصل یہ لفظ عبرانی ہے کہ جو کاف اور اشیر کے لفظ سے مرکب ہے اور اشیر عبرانی زبان میں شام کے ملک کو کہتے ہیں اور کاف مماثلت کے لئے آتا ہے ۔ پس صورت اس لفظ کی کَاَشِیْر تھی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 403

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 403

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/403/mode/1up


یعنی کاف الگ اور اَشِیر الگ۔ جس کے معنے تھے مانند ملک شام یعنی شام کے ملک کی طرح اور چونکہ یہ ملک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہجرت گاہ تھا اور وہ سرد ملک کے رہنے والے تھے اس لئے خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو تسلی دینے کے لئے اِس ملک کا نام کَاَشِیْر رکھ دیا۔ جس کے معنے ہیں اَشِیر کے ملک کی طرح ۔پھر کثرت استعمال سے الف ساقط ہو گیا ۔ اورکشیر رہ گیا۔ پھر بعد اس کے غیر قوموں نے جو کشیر کے باشندے نہ تھے اور نہ اِس ملک کی زبان رکھتے تھے ایک میم اِس میں زیادہ کر کے کشمیر بنا دیا۔ مگر یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ کشمیری زبان میں اب تک کشیر ہی بولا جاتا اور لکھا جاتا ہے ۔

ما سوا اس کے کشمیر کے ملک میں اور بہت سی چیزوں کے اب تک عبرانی نام پائے جاتے ہیں بلکہ بعض پہاڑوں پر نبیوں کے نام استعمال پاگئے ہیں جن سے سمجھا جاتا ہے کہ عبرانی قوم کسی زمانہ میں ضروراس جگہ آباد رہ چکی ہے جیسا کہ سلیمان نبی کے نام سے ایک پہاڑ کشمیر میں موجود ہے اور ہم اس مدعا کے ثابت کرنے کے لئے ایک لمبی فہرست اپنی بعض کتابوں میں شائع کر چکے ہیں جو عبرانی الفاظ اور اسرائیلی نبیوں کے نام پر مشتمل ہے جو کشمیر میں اب تک پائے جاتے ہیں ۔ اور کشمیر کی تاریخی کتابیں جو ہم نے بڑی محنت سے جمع کی ہیں جو ہمارے پاس موجود ہیں ان سے بھی مفصلاً یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک زمانہ میں جو اس وقت شمار کی رو سے دو ہزار برس کے قریب گذر گیا ہے ایک اسرائیلی نبی کشمیر میں آیا تھا جو بنی اسرائیل میں سے تھاا ور شاہزادہ نبی کہلاتا تھا ۔اس کی قبر محلہ خان یار میں ہے جو یوز آسف کی قبر کر کے مشہور ہے ۔ اب ظاہر ہے کہ یہ کتابیں تو میری پیدائش سے بہت پہلے کشمیر میں شائع ہوچکی ہیں ۔ پس کیونکر کوئی خیال کر سکتا ہے کہ کشمیریوں نے افترا کے طور پر یہ کتابیں لکھی تھیں ۔ ان لوگوں کو اس افترا کی کیا ؔ ضرورت تھی اور کس غرض کے لئے انہوں نے ایسا افترا کیا ؟ اورعجیب تر یہ کہ وہ لوگ اب تک اپنی کمال سادہ لوحی سے دوسرے مسلمانوں کی طرح یہی اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر مع جسم عنصری چلے گئے تھے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 404

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 404

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/404/mode/1up


اور پھر باوجود اس اعتقاد کے پورے یقین سے اس با ت کو جانتے ہیں کہ ایک اسرائیلی نبی کشمیر میں آیا تھا کہ جو اپنے تئیں شہزادہ نبی کر کے مشہور کرتا تھا ۔ اور ان کی کتابیں بتلاتی ہیں کہ شمار کی رو سے اس زمانہ کو اب انیس سو برس سے کچھ زیادہ برس گذر گئے ہیں ۔ اس جگہ کشمیریوں کی سادہ لوحی سے ہمیں یہ فائدہ حاصل ہواہے کہ اگر وہ اس بات کا علم رکھتے کہ شاہزادہ نبی بنی اسرائیل میں کون تھاا ور وہ نبی کون ہے جس کو اب انیس سو برس گذر گئے تو وہ کبھی ہمیں یہ کتابیں نہ دکھلاتے ۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ ہم نے ان کی سادہ لوحی سے بڑا فائدہ اٹھایا۔ ماسوا اس کے وہ لوگ شہزادہ نبی کا نام یوز آسف بیان کرتے ہیں یہ لفظ صریح معلوم ہوتا ہے ، کہ یسوع آسف کا بگڑا ہوا ہے ۔ آسف عبرانی زبان میں اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو قوم کو تلاش کرنیوالاہوچونکہ حضرت عیسیٰ اپنی اس قوم کو تلاش کرتے کرتے جو بعض فرقے یہودیوں میں سے گم تھے کشمیر میں پہنچے تھے اس لئے انہوں نے اپنا نام یسوع آسف رکھا تھا اور یوز آسف کی کتاب میں صریح لکھا ہے کہ یوز آسف پر خدا تعالیٰ کی طرف سے انجیل اتری تھی ۔ پس باوجود اس قدر دلائل واضحہ کے کیونکر اس بات سے انکار کیا جائے کہ یوز آسف دراصل حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہے ورنہ یہ بارثبوت ہمارے مخالفوں کی گردن پر ہے کہ وہ کون شخص ہے جو اپنے تئیں شاہزادہ نبی ظاہر کرتاتھا جس کا زمانہ حضرت عیسیٰ کے زمانہ سے بالکل مطابق ہے اور یہ پتہ بھی ملا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ کشمیر میں آئے تو اس زمانہ کے بدھ مذہب والوں نے اپنی پُستکوں میں ان کا کچھ ذکر کیا ہے ۔

ایک اور قوی دلیل اس بات پر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ333۔ یعنی ہم نے عیسیٰ اور اس کی ماں کو ایک ایسے ٹیلے پرپناہ دی جو آرام کی جگہ تھی اور ہر ایک دشمن کی دست درازی سے دور تھی اورؔ پانی اُس کا بہت خوشگوار تھا ۔

یاد رہے کہ اوٰی کا لفظ عربی زبان میں اس جگہ بولا جاتا ہے جب ایک مصیبت کے بعد کسی شخص کو پناہ دیتے ہیں ایسی جگہ میں جو دارالامان ہوتا ہے پس وہ دارالامان ملک شام



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 405

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 405

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/405/mode/1up


نہیں ہو سکتاکیونکہ ملک شام قیصر روم کی عملداری میں تھا ۔ اور حضرت عیسیٰ قیصر کے باغی قرار پا چکے تھے ۔ پس وہ کشمیر ہی تھا جو شام کے ملک سے مشابہ تھا اور قرار کی جگہ تھی۔ یعنی امن کی جگہ تھی یعنی قیصر روم کو اس سے کچھ تعلق نہ تھا۔

اس جگہ بعض آدمی ایک اور اعتراض پیش کیا کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جس حالت میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ سلسلہ محمدیہ سلسلہ موسویہ کے مقابل پر قائم کیا گیا ہے اور ہر ایک حسن و قبح میں یہ سلسلہ سلسلہ ء موسویہ کی مثال اپنے اندر رکھتا ہے تو اِس صورت میں لازم تھاکہ جیسا کہ قرآن شریف میںآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مثیل موسیٰ رکھا گیا ہے آخری خلیفہ کا نام پیشگوئیوں میں مثیل عیسیٰ رکھا جاتا ۔ حالا نکہ انجیل اور نیز احادیثِ نبویہ میں سلسلہ خلافت کے آخری زمانہ میں آنے والے کا نام عیسیٰ ابن مریم رکھا گیا ہے مثیل عیسیٰ نہیں رکھا ۔

اِس وہم کا جواب یہ ہے کہ ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ صدر اسلام اورآخر اسلام کے خلیفہ کے بارے میں اسی طرز سے بیان کرتا جس طرز سے خدا تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں بیان کیا گیا تھا ۔ سو یہ امر کسی پر پوشیدہ نہیں کہ توریت میں جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت پیشگوئی ہے وہ انہیں الفاظ میں ہے کہ ’’ خدا تعالیٰ تمہارے بھائیوں میں سے موسیٰ کی مانند ایک نبی قائم کرے گا ‘‘ اُس مقام میں یہ نہیں لکھا کہ خدا موسیٰ کو بھیجے گا ۔ پس ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بارے میں توریت کے مطابق بیان فرماتا تاتوریت اور قرآن شریف میں اختلاف پیدا نہ ہوتا۔ پس اِسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا۔3333۔۱؂ یعنی ہم نے اُسی نبی کی مانند تمہاؔ ری طرف یہ رسول بھیجا ہے کہ جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا ۔

لیکن آخری خلیفہ کے بارے میں جس کا نام عیسیٰ رکھا گیا ہے انجیل میں یہ نہیں خبر دی گئی کہ آخری زمانہ میں مثیل عیسیٰ آئے گا بلکہ یہ لکھا ہے کہ عیسیٰ آئے گا ۔ پس ضرور تھا کہ انجیل کی پیشگوئی کے مطابق اسلام کے آخری خلیفہ کا نام عیسیٰ رکھا جاتا تا انجیل اور احادیث نبویہ میں اختلاف پیدا نہ ہوتا۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 406

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 406

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/406/mode/1up


ہاں اس جگہ ایک طالب حق کا یہ حق ضرور ہے کہ وہ یہ سوال پیش کرے کہ اس میں کیا حکمت اور مصلحت تھی کہ توریت میںآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف مثیل موسیٰ کرکے بیان کیا گیا لیکن انجیل میں خود عیسیٰ کرکے ہی بیان کر دیا گیا ۔ اور کیوں جائز نہیں کہ عیسیٰ سے مراد درحقیقت عیسیٰ ہی ہو اور وہی دوبارہ آنے والا ہو ۔

اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو کسی طرح دوبارہ نہیں آسکتے کیونکہ وہ وفات پا گئے اور اُن کا وفات پا جانا اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں صریح لفظوں میں بیان فرمادیاہے اور پھرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس جماعت میں آسمان پر بیٹھے ہوئے دیکھ لیاجو اس جہان سے گذر چکے ہیں ۔ پھر تیسری شہادت یہ کہ تمام اصحاب رضی اللّٰہ عنھم کے اجماع سے تمام نبیوں کا فوت ہوجانا ثابت ہوگیا ۔ پھر بعد اس کے عقل سلیم کی شہادت ہے جو شہاداتِ ثلاثہ مذکورہ کی مؤیّد ہے کیونکہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے عقل نے اس واقعہ کی کوئی نظیر نہیں دیکھی اور کوئی نبی آج تک نہ کبھی مع جسم عنصری آسمان پر گیا اور نہ واپس آیا، پس چار شہادتیں باہم مل کر قطعی فیصلہ دیتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اور ان کا زندہ آسمان پر مع جسم عنصری جانا اور اب تک زندہ ہونا اور پھر کسی وقت مع جسم عنصری زمین پر آنا یہ سب ان پر تہمتیں ہیں ۔ افسوس کہ اسلام بُت پرستی سے بہت دور تھالیکن آخر کار اسلام میں بھی بُت پرستی کے رنگ میں یہ عقیدہ پیدا ہوگیا کہ حضرت عیسیٰ کو ایسی خصوصیتیں دی گئیں جو دوسرے نبیوں میں نہیں پائی جاتیں۔خداتعالیٰ مسلماؔ نوں کو اس قسم کی بُت پرستی سے رہائی بخشے ۔ عیسیٰ کی موت میں اسلام کی زندگی ہے اور عیسیٰ کی زندگی میں اسلام کی موت ہے ۔ خدا وہ دن لاوے کہ غافل مسلمانوں کی نظر اس راہ راست پر پڑے ۔ آمین

اب خلاصہ کلام یہ کہ جبکہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات قطعی طور پر ثابت ہے تو پھر یہ گمان ببداہت باطل ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے ۔ رہاسوال مذکورہ کے اِس حصہ کا جواب کہ ایک اُمّتی کا عیسیٰ نام رکھنے میں کیا مصلحت تھی اور کیوں انجیل



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 407

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 407

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/407/mode/1up


اور احادیث نبویہ میں اس کا نام عیسیٰ رکھا گیا ۔ اور کیوں مثیل موسیٰ کی طرح اس جگہ بھی مثیل عیسیٰ کے لفظ سے یاد نہ کیا گیا ۔

اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ ایک عظیم واقعہ میں جو اسرائیلی عیسیٰ پر وارد ہو چکا تھا اِس اُمّت کے آخری خلیفہ کو شریک کرے اور وہ اس واقعہ میں اس حالت میں شریک ہو سکتا تھا کہ جب اس کا نام عیسیٰ رکھا جائے اور چونکہ خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ دونوں سلسلوں کی مطابقت دکھلاوے اس لئے اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مثیل موسیٰ رکھا کیونکہ حضرت موسیٰ کو جو فرعون کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا تھاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں اُس واقعہ کی مشابہت اسی صورت میں نمایاں ہوسکتی تھی کہ جب آپ کو مثیل موسیٰ کر کے پکارا جاتا ۔ مگر جو واقعہ حضرت عیسیٰ کو پیش آیا تھا وہ اس امت کے آخری خلیفہ میں اس صورت میں متحقق ہو سکتا تھا کہ جب اُس کا نام عیسیٰ رکھا جاتا کیونکہ اُس عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں نے صرف اِس وجہ سے قبول نہیں کیا تھا کہ ملا کی نبی کی کتاب میں یہ لکھا گیا تھا کہ جب تک الیاس نبی دوبارہ دنیا میں نہیں آئے گاتب تک وہ عیسیٰ ظاہر نہیں ہوگالیکن الیاس نبی دوبارہ دنیامیں نہ آیا اور یوحنا یعنی حضرت یحییٰ کو ہی الیاس قرار دیا گیا ۔ اس لئے یہود نے حضرت عیسیٰ کو قبول نہ کیا ۔ پس خدا تعالیٰ کی تقدیر میں مماثلت پوری کرنے کے لئے یہ قرار پایا تھا کہ آخری زمانہ میں بعض اِسی امّت کے لوگ ان یہودیوں کی طرح ہوجائیں گے ۔ جنہوؔ ں نے الیاس آنے والے کی حقیقت کو نہ سمجھ کر حضرت عیسیٰ کی نبوت اورسچائی سے انکار کیا تھا ۔ پس ایسے یہودیوں کے لئے کسی ایسی پیشگوئی کی ضرورت تھی جس میں کسی گذشتہ نبی کی آمد کا ذکر ہوتا جیسا کہ الیاس کی نسبت پیشگوئی تھی اور تقدیر الٰہی میں قرار پاچکا تھا کہ ایسے یہودی اس امت میں بھی پیدا ہوں گے ۔ پس اس لئے میرا نام عیسیٰ رکھاگیا جیسا کہ حضرت یحییٰ کانام الیاس رکھا گیا تھا ۔ چنانچہ آیت3۱؂میں اسی کی طرف اشارہ ہے پس عیسیٰ کی آمد کی پیشگوئی اِس امّت کے لئے ایسی ہی تھی جیسا کہ یہودیوں کے لئے حضرت یحییٰ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 408

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 408

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/408/mode/1up


کی آمد کی پیشگوئی ۔ غرض یہ نمونہ قائم کرنے کے لئے میرا نام عیسیٰ رکھا گیا ۔ اور نہ صرف اس قدر بلکہ اس عیسیٰ کے مکذّب جو اس امّت میں ہونے والے تھے ان کا نام یہودرکھاگیاچنانچہ آیت3میں انہیںیہودیوں کی طرف اشارہ ہے ۔ یعنی وہ یہودی جو اس امّت کے عیسیٰ سے منکر ہیں جو ان یہودیوں کے مشابہ ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ کو قبول نہیں کیا تھا ۔ پس اس طور سے کامل درجہ پر مشابہت ثابت ہوگئی کہ جس طرح وہ یہودی جو الیاس نبی کی دوبارہ آمد کے منتظر تھے حضرت عیسیٰ پر محض اس عذر سے کہ الیاس دوبارہ دنیا میں نہیں آیا ایمان نہ لائے ۔ اِسی طرح یہ لوگ اِس اُمّت کے عیسیٰ پر محض اِس عذر سے ایمان نہ لائے کہ وہ اسرائیلی عیسیٰ دوبارہ دنیا میں نہیں آیا ۔ پس ان یہودیوں میں جو حضرت عیسیٰ پر ایمان نہیں لائے تھے اس وجہ سے کہ الیاس دوبارہ دنیا میں نہیں آیا اور ان یہودیوں میں جو حضرت عیسیٰ کی دوبارہ آمد کے منتظر ہیں مشابہت ثابت ہوگئی اور یہی خدا تعالیٰ کا مقصد تھا۔ اور جیسا کہ اسرائیلی یہودیوں اور ان یہودیوں میں مشابہت ثابت ہوگئی اسی طرح اسرائیلی عیسیٰ اور اس عیسیٰ میں جو مَیں ہوں مشابہت بدرجہ ء کمال پہنچ گئی کیونکہ وہ عیسیٰ اسی وجہ سے یہودیوں کی نظر سے ردّ کیا گیا کہ ایک نبی دوبارہ دنیا میں نہیں آیااِسی طرح یہ عیسیٰ جو میں ہوں ان یہودیوں کی نگاہ میں رد کیا گیا ہے کہ ایک نبی دوبارہ دنیا میں نہیں آیا ۔ اور صاف ظاہر ہے کہ جن لوگوں کو احادیث نبویہ اس امت کے یہودی ٹھہراتی ہیں جن کی طرف آیت3بھی اشارہ کرتی ہے وہ اصل یہودی نہیںؔ ہیں بلکہ اِسی اُمّت کے لوگ ہیں جن کا نام یہودی رکھاگیا ہے ۔ اِسی طرح وہ عیسیٰ بھی اصل عیسیٰ نہیں ہے جو بنی اسرائیل میں سے ایک نبی تھا بلکہ وہ بھی اِسی اُمّت میں سے ہے اور یہ خدا تعالیٰ کی اس رحمت اور فضل سے بعید ہے جو اِس اُمّت کے شامل حال رکھتا ہے کہ وہ اِس اُمّت کو یہودی کا خطاب تو دے بلکہ ان یہودیوں کا خطاب دے جنہوں نے الیاس نبی کے دوبارہ آنے کی حجت پیش کرکے حضرت عیسیٰ کو کافر اور کذّاب ٹھہرایا تھا لیکن اِس اُمّت کے کسی فرد کو عیسیٰ کا خطاب نہ دے تو کیا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 409

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 409

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/409/mode/1up


اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا ہے کہ یہ اُمّت خدا تعالیٰ کے نزدیک کچھ ایسی بدبخت اور بدقسمت ہے کہ اس کی نظر میں شریر اور نافرمان یہودیوں کا خطاب تو پا سکتی ہے مگر اس امّت میں ایک فرد بھی ایسا نہیں کہ عیسیٰ کا خطاب پاوے پس یہی حکمت تھی کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ نے اس امّت کے بعض افراد کا نام یہودی رکھ دیا اور دوسری طرف ایک فرد کا نام عیسیٰ بھی رکھ دیا ۔

بعض لوگ محض نادانی سے یا نہایت درجہ کے تعصّب اور دھوکا دینے کی غرض سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی پر اس آیت کو بطور دلیل لاتے ہیں کہ33333اور اس سے یہ معنے نکالنا چاہتے ہیں کہ اس وقت تک حضرت عیسیٰ فوت نہیں ہوں گے جب تک کل اہل کتاب اُن پر ایمان نہ لے آویں ۔ لیکن ایسے معنے وہی کرے گا جس کو فہم قرآن سے پورا حصہ نہیں ہے ۔ یاجودیانت کے طریق سے دور ہے ۔ کیونکہ ایسے معنے کرنے سے قرآن شریف کی ایک پیشگوئی باطل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے33اورپھر دوسری جگہ فرماتا ہے ۔ 333۔ان آیتوں کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے قیامت تک یہود اور نصاریٰ میں دشمنی اور عداوت ڈال دی ہے پس اگرؔ آیت ممدوحہ بالا کے یہ معنے ہیں کہ قیامت سے پہلے تمام یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پرایمان لے آئیں گے تو اس سے لازم آتا ہے کہ کسی وقت یہودونصاریٰ کا بغض باہمی دور بھی ہوجائے گا اور یہودی مذہب کا تخم زمین پر نہیں رہے گاحالانکہ قرآن شریف کی اِن آیات سے اور کئی اور آیات سے ثابت ہوتاہے کہ یہودی مذہب قیامت تک رہے گا ۔ ہاں ذلت اور مَسکنت ان کے شامل حال ہوگی اور وہ دوسری طاقتوں کی پناہ میں زندگی بسر کریں گے ۔ پس آیت ممدوحہ بالا کاصحیح ترجمہ یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو اہل کتاب میں سے ہے وہ اپنی موت سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یا حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آویں گے۔ غرض موتہٖ کی ضمیر اہل کتاب کی طرف پھرتی ہے نہ حضرت عیسیٰ کی طرف اسی وجہ سے اس آیت کی دوسری قراء ت میں مَوتھم واقع ہے۔اگر حضرت عیسیٰ کی طرف



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 410

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 410

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/410/mode/1up


یہ ضمیر پھرتی تو دوسری قراء ت میں موتھم کیوں ہوتا ؟ دیکھو تفسیر ثنائی کہ اس میں بڑے زور سے ہمارے اس بیان کی تصدیق موجود ہے اور اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہی معنے ہیں مگر صاحب تفسیر لکھتا ہے کہ ’’ ابوہریرہ فہم قرآن میں ناقص ہے اور اس کی درایت پر محدثین کو اعتراض ہے ۔ ابوہریرہ میں نقل کرنے کامادہ تھا اور درایت اور فہم سے بہت ہی کم حصہ رکھتا تھا۔اور میں کہتا ہوں کہ اگر ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایسے معنے کئے ہیں تو یہ اس کی غلطی ہے جیسا کہ اور کئی مقام میں محدثین نے ثابت کیا ہے کہ جو امور فہم اور درایت کے متعلق ہیں اکثر ابوہریرہؓ اُن کے سمجھنے میں ٹھوکر کھاتاہے اور غلطی کرتا ہے ۔ یہ مسلّم امر ہے کہ ایک صحابی کی رائے شرعی حجت نہیں ہوسکتی ۔ شرعی حجت صرف اجماع صحابہؓ ہے ۔ سو ہم بیان کرچکے ہیں کہ اس بات پر اجماع صحابہ ہوچکا ہے کہ تمام انبیاء فوت ہوچکے ہیں ۔

اور یاد رکھنا چاہیئے کہ جبکہ آیت قبل موتہٖ کی دوسری قراء ت قبل موتھم موؔ جود ہے، جو بموجب اصول محدثین کے حکم صحیح حدیث کا رکھتی ہے یعنی ایسی حدیث جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے تو اس صورت میں محض ابوہریرہ کا اپنا قول رد کرنے کے لائق ہے کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ کے مقابل پر ہیچ اور لغو ہے اور اُس پر اصرار کرنا کفر تک پہنچا سکتا ہے ۔ اور پھر صرف اسی قدر نہیں بلکہ ابوہریرہ کے قول سے قرآن شریف کا باطل ہونا لازم آتا ہے کیونکہ قرآن شریف تو جابجا فرماتا ہے کہ یہود و نصاریٰ قیامت تک رہیں گے ان کا بکلی استیصال نہیں ہوگا۔اور ابوہریرہ کہتا ہے کہ یہود کا استیصال بکلی ہوجائے گا اور یہ سراسر مخالف قرآن شریف ہے ۔ جو شخص قرآن شریف پر ایمان لاتا ہے اس کو چاہیئے کہ ابوہریرہ کے قول کو ایک ردّی متاع کی طرح پھینک دے بلکہ چونکہ قراء ت ثانی حسب اصول محدثین حدیث صحیح کا حکم رکھتی ہے اور اس جگہ آیت قبل موتہٖکی دوسری قراء ت قبل موتھم موجود ہے جس کو حدیث صحیح سمجھنا چاہیئے ۔ اس صورت میں ابوہریرہ کا قول قرآن اور حدیث دونوں کے مخالف ہے۔ فلا شکّ انّہ باطل و من تبعہ فانّہ مفسد بطّال ۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 411

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 411

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/411/mode/1up


بڑا اہم مطلب جو اس خاتمہ میں لکھنے کے لئے پیش نظر ہے وہ یہ ہے کہ گذشتہ چا۴ر حصوں میں جو جو امور یا جوجو الہام مجمل بیان کئے گئے ہیں یا جن پیشگوئیوں کا ان حصوں میں ذکر ہو چکا ہے اور وہ اس زمانہ میں ظہور میں نہیں آئیں مگر بعد میں رفتہ رفتہ ظہور میں آگئیں ان سب امور کے ظہور اور وقوع کا اس خاتمہ میں ذکر کیا جائے اور جن امور کی بعد میں حقیقت کھل گئی اس حقیقت کو بیان کیا جائے ۔ پس یہ حصہ پنجم درحقیقت پہلے حصوں کے لئے بطور شرح کے ہے اور ایسی شرح کرنا میرے اختیار سے باہر تھا جب تک خدا تعالیٰ تمام سامان اپنے ہاتھ سے میسر نہ کرتا ۔ کیونکہ حصص سابقہ کی الہامی پیشگوئیوں میں بہت سے نشانوں کے ظاہر ہونے کا وعدہ دیا گیا ہے ۔ اور یہ بھی وعدہ ہے کہ خدا تعالیٰ اس عاجز کو قرآن شریف کے حقائق اور معارف سکھلائے گااور انہیں حصوں میں میرا نام مریم اور عیسیٰ اور موسیٰ اور آدم غرض تمام انبیاء کا نام رکھا گیا ہے۔ اور یہ راز بھی معلوم نہ تھا کہ کیوں رکھا گیااور ان تمام امور کا سمجھنا بجز الٰہی طاقت کے میرے لئے غیر ممکن تھا ۔ خاص کر آسمانی نشانوں کا ظاہر کرنا تو وہ امر ہے جو بدیہی طور پر بشری قوت سے بالا تر اور بلند تر ہے ۔ اور ان تمام امور کے ظاہر ہونے کے لئے خدا تعالیٰ کے ارادہ نے ایک وقت مقدّر کر رکھا تھا اور کتاب کے پنجم۵ حصہ کا لکھنا انہیں امور کی شرح پر موقوف۔ پس اس صورت میں کیونکر ممکن تھا کہ بغیر ظہور ان امور کے جو حصص سابقہ کے لئے بطور شرح کے تھے پنجم حصہ لکھا جاتا ۔ کیونکہ وہی امور تو پنجم حصہ کے لئے نفس مضمون تھے اور جب مدت التواؔ پر چوبیسو۲۴اں سال آیا تو عنایت الٰہی کی نسیمِ رحمت



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 412

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 412

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/412/mode/1up


نے تمام وہ امور جو براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں مخفی اور مستور تھے اُن پر ہر ایک پہلو سے روشنی ڈال دی ۔ ایک طرف وہ موعودہ پیشگوئیاں جن کے ظہور کی انتظار تھی کافی طور پر ظہور میں آگئیں اور دوسری طرف قرآنی حقائق اور معارف جو معرفت کو کامل کرتے تھے بخوبی کھل گئے اور ساتھ اس کے اسماء الانبیاء کا راز بھی جو پہلے چار حصوں میں سر بستہ تھا یعنی وہ نبیوں کے اسماء جو میری طرف منسوب کئے گئے تھے ان کی حقیقت بھی کماحقّہٗ منکشف ہوگئی یعنی یہ راز بھی کہ خدا تعالیٰ نے تمام انبیائعلیھم السّلام کا نام براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام کیوں رکھ دیا ہے ۔ اور نیز یہ راز بھی کہ اخیرج پر بنی اسرائیل کے خاتم الانبیاء کا نام جو عیسیٰ ہے اور اسلام کے خاتم الانبیاء کا نام جو احمد اور محمدہے(صلی اللہ علیہ وسلم) یہ دونوں نام بھی میرے نام کیوں رکھ دئیے ؟ ان تمام چھپی ہوئی حقیقتوں کا بھی انکشاف ہوگیا ۔ اور میرا نام آسمان پر عیسیٰ وغیرہ ہونا وہ راز تھا جس کو اسی طرح خدا تعالیٰ نے صد ہا سال تک مخفی رکھاتھاجیسا کہ اصحاب کہف کو مخفی رکھا تھا ۔ اور ضرور تھا کہ وہ تمام راز سر بستہ رہیں جب تک کہ وہ زمانہ آجائے جو ابتدا سے مقدر تھا۔ اور جب وہ زمانہ آگیا اور یہ تمام باتیں پوری ہوگئیں تو وقت آگیا کہ پنجم حصہ لکھا جائے ۔ پس اِسی بات نے براہین احمدیہ کی تکمیل کو تیئیس۲۳ برس تک معرضِ التوا میں رکھا تھا۔یہ خدا کے اسرار ہیں جن پر انسان بجز اُس کے مطلع کرنے کے اطلاع نہیں پاسکتا ۔ ہر ایک انسان جو اس پنجم حصہ کو پڑھے گا وہ اس بات کے لئے مجبور ہو گا کہ یہ اقرار کرے کہ اگر ان پیشگوئیوں اور دوسرے اسرار کے کھلنے سے پہلے پنجم حصہ لکھا جاتا تو وہ گذشتہ حصوں کی حقیقت دکھلانے کے لئے ہر گز آئینہ نہ ٹھہر سکتا بلکہ اس کا لکھنا محض بے ربط اور بے تعلق ہوتا ۔ پس وہ خدا جو حکیم اور عالم الغیب ہے اور ہر ایک کام اس کا اوقات سے وابستہ ہے اس نے یہی پسند کیا کہ اوّل وہ تمام پیشگوئیاں اور تمام حقیقتیں ظاہر ہوجائیں جو حصص سابقہ کے وقت میں ابھی ظاہر نہیں ہوئی تھیں پھر بعد میں پنجم حصہ لکھا جائے تا وہ ان تمام امور کے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 413

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 413

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/413/mode/1up


ظاہر اور کامل ہونے کی اطلاؔ ع دے جو پہلے مخفی اور مستور تھے اور درحقیقت اس کتاب کے پہلے حصے جس قدر تحریرپر ختم ہوچکے ہیں ان کے لئے ایک ایسی حالتِ منتظرہ باقی تھی جو بجز اس طرز کے پنجم حصہ کے پوری نہیں ہو سکتی تھی۔ کیونکہ ان چار حصوں میں ایک بڑا حصہ پیشگوئیوں کا ہے جن میں خبر دی گئی ہے کہ آئندہ خدا ایسے ایسے امور کو ظاہر کرے گا ۔ اور جب تک وہ پیشگوئیاں پوری نہ ہو جاتیں تو کیونکر کوئی سمجھ سکتا تھا کہ وہ تمام الہام جن میں یہ پیشگوئیاں لکھی گئیں وہ خدا کی طرف سے ہیں اور اسی وجہ سے تمام مخالف ان پیشگوئیوں کے مکذّب رہے اور خدا نہیں چاہتا تھا کہ اُس کی پیشگوئیوں کو تکذیب کی نظر سے دیکھا جائے اور خود یہ بات محققانہ طرز سے دور تھی کہ ابھی گذشتہ حصوں کی سچائی کا ثبوت نہ دیا جائے اور ایک غیر متعلق پنجم حصہ لکھا جائے ۔ پس ضرور تھا کہ قضاء و قدر ربّانی ا س عاجز کو پنجم حصہ کے لکھنے سے اُس مدت دراز تک روکے رکھے جب تک کہ وہ تمام پیشگوئیاں اور دوسرے امور ظہور میں آجائیں کہ جو پہلے چار حصوں میں مخفی اور مستور تھے ۔ سو اَلحمد لِلّٰہ وَالمنّۃ اس مدت میں کہ جو پوری تیئیس۲۳ سال تھی وہ سب باتیں ظہور میں آگئیں اور یہ سب سامان خدا نے آپ میسّر کردیااور علاوہ ظہور نشانوں کے خدا تعالیٰ کی کشفی تجلّیات نے حقیقت اسلام کی اور نیز بہت سے مشکل مقامات قرآن شریف کے میرے پر کھول دئیے۔ورنہ میری طاقت سے باہر تھا کہ میں ان دقائق عالیہ کو خود بخود معلوم کر سکتا ۔ لیکن اس سامان کے پیدا ہونے کے بعدمیں اس لائق ہو گیا کہ پنجم حصہ میں پہلے چار حصوں کے ان مقامات کی شرح لکھوں کہ جو اس گذشتہ زمانہ میں مَیں لکھ نہیں سکتا تھا ۔ پس میں نے اس پورے سامان کے بعد ارادہ کیا کہ اوّل اس خاتمہ میں اسلام کی حقیقت لکھوں کہ اسلام کیا چیز ہے ؟ اور بعد میں قرآن شریف کی اعلےٰ اور کامل تعلیم کا اُس کی آیات کے حوالہ سے کچھ بیان کروں۔ اور یہ ظاہر کروں کہ درحقیقت تمام آیات قرآنی کے لئے اسلام کا مفہوم بطور مرکز کے ہے اورتمام آیاتِ قرآنی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 414

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 414

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/414/mode/1up


اسی کے گرد گھوم رہی ہیں ۔ اور پھر بعد اس کے ان نشانوں کا ذکر کروں جن کا میرے ہاتھ پر ظاہر ہونا براؔ ہین احمدیہ کے پہلے حصوں میں وعدہ تھا جو اتباع قرآن شریف کا ایک نتیجہ ہیں ۔ اور سب کے بعد ان الہامات کی تشریح لکھوں جن میں میرا نام خدا تعالیٰ نے عیسیٰ رکھا ہے یا دوسرے نبیوں کے نام سے مجھے موسوم کیا ہے یا ایسا ہی اور بعض الہامی فقرے جوتشریح کے لائق ہیں بیان فرمائے ہیں ۔ پس مذکورہ بالا ضرورتوں کے لحاظ سے اس خاتمہ کو چار فصلوں پر منقسم کیا گیا ہے ۔

فصل اوّل ۔ اسلام کی حقیقت کے بیان میں ۔

فصل دوم ۔ قرآن شریف کی اعلیٰ اور کامل تعلیم کے بیان میں ۔

فصل سوم ۔ ان نشانوں کے بیان میں جن کے ظہور کا براہین احمدیہ میں وعدہ تھا اورخدا نے میرے ہاتھ پر وہ ظاہر فرمائے ۔

فصل چہارم ۔ ان الہامات کی تشریح میں جن میں میرا نام عیسیٰ رکھاہے یا دوسرے نبیوں کے نام سے مجھے موسوم کیا ہے یا ایسا ہی اور بعض الہامی فقرے جو تشریح کے لائق ہیں بیان فرمائے ہیں ۔ اب انشاء اللہ اسی تشریح سے فصول اربعہ کا ذیل میں ذکر ہوگا ۔ وَ مَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ

رَبِّ اَنْطِقْنَا بِالْحَقِّ وَ اکْشِفْ عَلَیْنَا الْحَقَّ وَاھْدِنَا اِلٰی حَقٍّ مُّبِیْنٍ۔

اٰمین ثُمَّ اٰمین۵ط



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 415

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 415

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/415/mode/1up


ذیلؔ میں وہ متفرق یادداشتیں دی جاتی ہیں

جو

حضرت اقدس نے اِس مضمون کے متعلق لکھی تھیں اور آپ کے

مسودات سے دستیاب ہوئیں


آیاتِ قرآن شریف جو اس مضمون میں انشاء اللہ لکھی جائیں گی۔

33۔صفحہ۵۶*

3333۔اگر تم ظاہر کرو خیرات کو تو وہ اچھا ہے۔ اور اگر تم خیرات کو چھپاؤ تو وہ بہت ہی اچھا ہے۔ ایسی خیرات تمہاری برائیاں دُور کرے گی۔صفحہ۶۰

3333333۔صفحہ ۶۱

33

33۔تاکہ ان کا بھلا ہو۔صفحہ ۳۷۔ سورۃ البقرۃ الجزو نمبر ۲ ۔ چاہئے کہ میرے حکموں کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لاویں تاکہ ان کا بھلا ہو۔

33۔ صفحہ۴۱۔الجزو نمبر ۲ سورۃ البقرۃ۔ تم محبت سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ خدا کو یاد کرو۔ جیسا کہ تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 416

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 416

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/416/mode/1up


صفحہ ۴۲ ۔الجزو نمبر ۲ البقرہ۔ بعض ایسے ہیں کہ اپنے نفسوں کو خدا کی راہ میں بیچ دیتے ہیں۔ تا کسی طرح وہ راضی ہو۔

33

3۔ صفحہ۴۳۔ اے ایمان والو! خدا کی راہ میں اپنی گردن ڈال دو۔ اور شیطانی راہوں کو ؔ اختیار مت کرو کہ شیطان تمہارا دشمن ہے۔ اِس جگہ شیطان سے مراد وہی لوگ ہیں جو بدی کی تعلیم دیتے ہیں۔

3۔ صفحہ ۴۶

33۔صفحہ ۵۸ ۔33333۔ صفحہ ۵۸

قرآن شریف میں یہ خاص خوبی ہے کہ اس کی اخلاقی تعلیم تمام دُنیا کے لئے ہے مگر انجیل کی اخلاقی تعلیم صرف یہود کے لئے ہے۔


اس بیان میں کہ قرآن شریف دوسری امتوں کے نیکوں کی بھی تعریف کرتا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 417

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 417

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/417/mode/1up


333o33333۔۶؂ صفحہ ۸۵

33333333333333۔۱؂ صفحہ ۸۷

33 3۲؂ صفحہ۱۱۴ ۔سورۃالنساء

333333۔۳؂

صفحہ ۱۱۵ ۔سورۃ النساء

(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ یہودی اور مسلمان میں اس کے متعلق ہے)

33333۔۴؂ صفحہ۱۲۱

اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے

33333۔سورۃ النساء۔ صفحہ ۱۲۳۔الجزو نمبر ۵

33 ۔صفحہ ۱۲۳سورۃ النساء

333صفحہ ۱۳۰ رکوع ۱۸ ۔سورۃ النساء۔الجزو نمبر ۵

3 صفحہ۱۳۰ ۔رکوع ۱۹ ۔سورۃ النساء

الجزو نمبر ۵۔سورۃ النساء۔ صفحہ ۱۳۶



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 418

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 418

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/418/mode/1up


3۔۱؂ صفحہ ۱۳۲

3 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 333۔۲؂صفحہ۲۷۔سورۃالبقرۃ۔333۔۳؂ صفحہ۲۷سورۃالبقرۃ

اگر وہ ایسا ایمان لائیں جیسا کہ تم ایمان لائے تو وہ ہدایت پاچکے اور اگر ایسا ایمان نہ لاویں تو پھر وہ ایسی قوم ہے جو مخالفت چھوڑنا نہیں چاہتی اور صلح کی خواہاں نہیں۔

3333۔صفحہ ۱۳۷ ۔ سورۃالنساء۔جزونمبر۶

3333333۔صفحہ ۱۳۵ سورۃالنساء

333۔ صفحہ ۱۳۳

33 3۔ صفحہ ۱۳۵ ۔سورۃ النساء

۔صفحہ۱۳۹۔سورۃالنساء الجزونمبر۶


333صفحہ ۱۴۱

333333صفحہ ۱۴۳ سورۃالمائدہ الجزو نمبر ۶ ۔33۔

333333صفحہ ۱۶۱۔سورۃ المائدہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 419

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 419

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/419/mode/1up


33۔صفحہ۱۹۹

الانعام۔ الجزو نمبر ۸ الٰی صفحہ ۲۰۸

33 ۔۔۔۔۔۔۔33333۔

33333333333

نہیں نکلتی کھیتی اس کی مگر تھوڑی صفحہ ۲۰۹ ۔سورۃالاعراف۔ الجزو نمبر ۸

3333سورۃ الاعراف۔ صفحہ ۲۱۵

اور ہم نے کسی بستی میں کوئی رسول نہیں بھیجا مگر ہم نے ان کو انکار کی حالت میں قحط اور وبا کے ساتھ پکڑاتا اس طرح پر وہ عاجزی کریں۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 420

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 420

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/420/mode/1up


3333صفحہ ۲۱۵ ۔سورۃالاعراف۔ الجزو نمبر ۹

33333صفحہ ۲۱۵۔ الاعراف

3333

33صفحہ ۲۱۵

33333333333333

صفحہ ۲۲۵۔الاعراف۔ الجزو نمبر ۹

یہ نبی اُن باتوں کے لئے حکم دیتا ہے جو خلاف عقل نہیں ہیں اور ان باتوں سے منع کرتا ہے جن سے عقل بھی منع کرتی ہے۔ اور پاک چیزوں کو حلال کرتا ہے اور ناپاک کو حرام ٹھہراتا ہے اور قوموں کے سر پرسے وہ بوجھ اتارتا ہے جس کے نیچے وہ دبی ہوئی تھیں اور ان گردنوں کے طوقوں سے وہ رہائی بخشتا ہے جن کی وجہ سے گردنیں سیدھی نہیں ہوسکتی تھیں۔ پس جو لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور اپنی شمولیت کے ساتھ اس کو قوت دیں گے۔ اور اس کی مدد کریں گے اور اس نور کی پیروی کریں گے جو اس کے ساتھ اُتارا گیا وہ دنیا اور آخرت کی مشکلات سے نجات پائیں گے۔

33صفحہ ۲۲۵۔الاعراف۔ الجزو نمبر ۹

33۔صفحہ ۲۲۸

اورؔ جو لوگ محکم پکڑتے ہیں کتاب کو اور نماز کو قائم کرتے ہیں اُن کے ہم اجر ضائع نہیں کرتے۔

3صفحہ ۲۲۹۔ رُوحوں کے قویٰ جن میں خدا تعالیٰ کا عشق پیدا ہوا ہے بزبان حال گواہی دے رہے ہیں جو وہ خدا کے ہاتھ سے نکلے ہیں۔

پس اگر یہ سوال پیش ہو کہ ہم کس طرح قرآن شریف پر ایمان لاویں کیونکہ دونوں تعلیموں میں تناقض درمیان ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کوئی تناقض نہیں وید کی شرتیوں کی ہزارہا طور پر تفسیریں کی گئی ہیں اور منجملہ ان کے ایک تفسیر وہ بھی ہے جو قرآن کے مطابق ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 421

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 421

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/421/mode/1up


جو شخص خدا سے نہیں ڈرتا وہ ایک حق الامر کے بارے میں ایسا مقابلہ سے پیش آتا ہے کہ گویا اس کو موت کی طرف کھینچنا چاہتے ہیں اور وہ اپنی جان بچا رہا ہے۔

333صفحہ ۲۳۹۔الانفال۔نمبر۹ 3 (ترجمہ) اے ایمان والو! اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو تم میں اور تمہارے غیر میں خدا ایک فرق رکھ دے گا اور تمہیں پاک کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور تمہارا خدا صاحب فضل بزرگ ہے۔

یادداشت۔ دین مذہب صرف زبانی قصہ نہیں بلکہ جس طرح سونا اپنی علامتوں سے شناخت کیا جاتا ہے اسی طرح سچے مذہب کا پابند اپنی روشنی سے ظاہر ہوجاتا ہے۔

خدا ہلاک کرتا ہے اس شخص کو جو دلیل کے ساتھ ہلاک ہوچکا اور زندہ رکھتا ہے اُس شخص کو جو دلیل کے ساتھ زندہ ہے۔

33

3صفحہ۲۴۴۔الانفال ۔نمبر۱۰۔ اور اگر مخالف لوگ صلح کے واسطے جھکیں تو تم بھی جھک جاؤ اور خدا پر توکل کرو ۔

33

3۔صفحہ ۲۴۴ ۔سورۃالانفال

اور اگر صلح کے وقت دل میں دغا رکھیں تو اُس دغا کے تدارک کے لئے خدا تجھے کافی ہے۔

33

3333

سورۃالتوبہ۔صفحہ ۲۵۰ ۔الجزو نمبر ۱۰



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 422

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 422

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/422/mode/1up


۔ صفحہ ۲۵۲۔سورۃالتوبہ ۔الجزو نمبر ۱۰


33۔صفحہ ۲۶۸ التوبہ نمبر۱۰

33333۔صفحہ ۲۷۱۔سورۃالتوبہ۔ الجزو نمبر ۱ ۱۔

(ترجمہ) ۔ وہ لوگ خوش وقت ہیں جو سب کچھ چھوڑ کر خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں اور خدا کی پرستش میں مشغول ہوتے ہیں اور خدا کی تعریف میں لگے رہتے ہیں ۔ اور خداکی راہ میں منادی کے لئے دنیا میں پھرتے ہیں اور خداکے آگے جھکے رہتے ہیں ۔ اور سجدہ کرتے ہیں۔ وہی مومن ہیں جن کو نجات کی خوشخبری دی گئی ہے ۔

خدا نے اپنے قانون قدرت میں مصائب کو پانچ قسم پر منقسم کیا ہے ۔ یعنی آثار مصیبت کے جو خوف دلاتے ہیں ۔ اور پھر مصیبت کے اندر قدم رکھنا ۔ اور پھر ایسی حالت جب نومیدی ...... پیدا ہوتی ہے ۔ اور پھر زمانہ تاریک مصیبت کا ۔ اور پھر صبح رحمت الٰہی کی یہ پانچ وقت ہیں جن کے نمونہ پانچ نمازیں ہیں ۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 423

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 423

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/423/mode/1up


33۔333۔

33 ئ

ذیلؔ میں چند اعتراضات اور چند حقائق درج کئے جاتے ہیں جو حضورعلیہ السلام کی یادداشتوں میں جو مضمون کے متعلق آپ نے لکھی ہوئی تھیں ملے ہیں ۔ ان اعتراضات کو رد کرنے کا اور ان حقائق پر بموجب تعلیم قرآن روشنی ڈالنے کا آپ کا ارادہ تھا

ایسا ہی بعض امور بدھ کی ایک کتاب سے لئے معلوم ہوتے ہیں جواُن دنوں

آپ کے زیر مطالعہ تھی۔ جس کے متعلق آپ کچھ لکھنا چاہتے تھے ۔

(۱) جتنی الہامی کتابیں ہیں ان میں کونسی ایسی نئی بات ہے جو پہلے معلوم نہ تھی ۔

(۲) کس ایسی سائنس کے عقدہ کو نبیوں نے حل کیا جو پہلے ................ لَایَنْحَلْ تھا ۔

(۳) نبیوں نے روح کی کیفیت و ماہیت کچھ نہیں بتلائی اور نہ آئندہ زندگی کا کچھ حال

بتلایا نہ خدا کا ہی مفصل حال بیان کر سکے ۔

فن طبعی میں نیند کو اسباب طبعیہ میں رکھا ہے ۔ لیکن انبیاء نے بیان کیا ہے کہ نیند کے اور

اسباب تھے ۔ اَمَنَۃً نُّعَاسًا ۔

(۴) سابقہ مغالطوں کو رفع نہیں کیا۔اور نہ پیچیدہ مسائل کو سلجھایا ۔ بلکہ اَور بھی الجھن میں

ڈال دیا۔

(۵) بدھ کی تعلیم اخلاقی سب سے اعلیٰ ہے ۔

(۶) جس چیز سے انسان پیار کرتا ہے اس سے اگر جدا کیا جائے تو یہی اس کے لئے ایک

عذاب ہو جاتاہے ۔

(۷) اور جس چیز سے اگرپیار کرے اگر وہ میسر آ جائے تو یہی اس کی راحت کا موجب ہو جاتا

ہے ۔3۔

(۸) خواہش کا نابود کرنا ذریعہ نجات ہے ۔

(۹) دنیا میں کبھی علم صحیح سے نجات ملتی ہے اور کبھی عمل صحیح سے نجات ملتی ہے اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 424

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 424

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/424/mode/1up


کبھی قول صحیح سے نجات ملتی ہے اور کبھی فعل صحیح سے نجات ملتی ہے۔ اور

کبھی بنی نوع سے معاملہ پاک موجب نجات ہوجاتا ہے اور کبھی خدا سے معاملہ نیک دردو دکھ چُھڑاتا ہے ۔ اور کبھی ایک درد دُوسری دردوں کے لئے کفارہ ہوجاتی ہے ۔

(۱۰)ؔ سچ کہو جھوٹ نہ بولو ۔ بیہودہ باتوں سے پر ہیز کرو ۔ اور اپنے فعل یا اپنے قول سے کسی کو

نقصان مت پہنچاؤ ۔ اپنی زندگی کو پاک رکھو غیبت نہ کرو ۔ اور کسی پر بہتان مت

لگاؤ۔ نفسانی شہوات اپنے پر غالب نہ ہونے دو ۔ کینہ اور حسد سے پر ہیز کرو ۔ بغض

سے اپنا دل صاف رکھو ۔ اپنے دشمنوں سے بھی وہ معاملہ نہ کرو جو تم اپنے لئے پسند نہیں

کرتے ۔ ایسی نصیحتیں دوسروں کو مت کرو جن کے تم پابند نہیں ۔ معرفت کی ترقی میں

لگے رہو۔ جہل سے دل کو پاک کرو ۔ جلدی سے کسی پر اعتراض مت کرو ۔

نفرت کرنے سے نفرت رفع نہیں ہوتی بلکہ اور بھی بڑھتی ہے ۔ محبت نفرت کو ٹھنڈا کر کے

رفع کر دیتی ہے۔

33۔ یعنی دلوں کی پاکیزگی سچی قربانی ہے ۔ گوشت اور خون سچی قربانی نہیں ۔ جس جگہ عام لوگ جانوروں کی قربانی کر تے ہیں خاص لوگ دلوں کو ذبح کرتے ہیں ۔

مگر خدانے یہ قربانیاں بھی بند نہیں کیں تا معلوم ہو کہ ان قربانیوں کا بھی انسان سے تعلق ہے۔

خدا نے بہشت کی خوبیاں اس پیرایہ میں بیان کی ہیں جوعرب کے لوگوں کو چیزیں دل پسند تھیں وہی بیان کردی ہیں تا اس طرح پر ان کے دل اس طرف مائل ہوجائیں ۔ اور دراصل وہ چیزیں اور ہیں یہی چیزیں نہیں ۔ مگر ضرور تھا کہ ایسا بیان کیا جاتا تا کہ دل مائل کئے جائیں ۔ 3۔

وہ جو اپنی نفسانی خواہشات کے پورا کرنے میں لگا رہتا ہے وہ سراسر اپنی بیخ کنی کرتا ہے لیکن وہ جو سچے راستہ پر چلتا ہے اس کا نہ صرف بدن بلکہ روح بھی نجات کو پہنچے گی ۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 425

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 425

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/425/mode/1up


وہ جو اپنی نفسانی خواہشات کے پوراکرنے میں لگا رہتا ہے وہ سراسر اپنی بیخ کنی کرتا ہے اور نہ صرف جسم کو ہلاکت میں ڈالتاہے ۔ بلکہ روح کو بھی ہلاک کرتا ہے ۔ مگر وہ جو راہ راست پر چلتا ہے اور نفسانی جذبات کاپیرو نہیں ہوتا ۔ وہ نہ صرف اپنے بدن کو ہلاکت سے بچاتا ہے بلکہؔ اپنی روح کو بھی نجات تک پہنچا دیتا ہے ۔ 33 ۔

ایک گاؤں میں سو۰ ۱۰ گھر تھے اور صرف ایک گھر میں چراغ جلتا تھا ۔ تب جب لوگوں کو معلوم ہوا تو وہ اپنے اپنے چراغ لے کر آئے اور سب نے اُس چراغ سے اپنے چراغ روشن کئے ۔ اِسی طرح ایک روشنی سے کثرت ہوسکتی ہے ۔ اِسی طرف اللہ تعالیٰ اشارہ کر کے فرما تا ہے ۔3۔

انسان تو اپنی جان کا بھی مالک نہیں چہ جائیکہ وہ دولت کا مالک ہو ۔ ایک چمچہ شربت کا مزہ نہیں پا سکتا اگرچہ کئی بار اس میں پڑتا ہے ۔ شیرینی ہاتھوں کے ذریعہ سے منہ تک پہنچتی ہے لیکن ہاتھ شیرینی کا مزہ نہیں پا سکتے ۔ اسی طرح جس کو خدانے حواس نہیں دئیے وہ ذریعہ بن کر بھی کچھ فائدہ نہیں اٹھاتا۔33۔333۔

ایک بڑی لذّت چھوٹی لذّت سے غنی کر دیتی ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔33 .............. 3۔

(۱) ایمان بیج ہے (۲) نیک کام مینہ ہے (۳)مجاہدات ہل ہیں جو جسمانی اور ظاہری طور پر کئے جاتے ہیں ۔ نفس مرتاض بیل ہے جو نفس لوّامہ ہے ۔ شریعت اس کے چلانے کے لئے ڈنڈا ہے اور وہ اناج جو اس سے پیدا ہوتا ہے وہ دائمی زندگی ہے ۔

ذات سے خارج وہ ہوتا ہے جو نیک صفات سے خالی ہو کیونکہ انسان کی نیک صفات ہی اُس کی ذات ہے ۔ اپنے دل کے جذبات کو سمجھنے والے بہت کم ہوتے ہیں ۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 426

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 426

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/426/mode/1up


وہ جن چیزوں میں اپنی خوشحالی دیکھتے ہیں درحقیقت وہ خوشحالی کا موجب نہیں ہوتیں ۔

جو شخص بدی کے مقابل پر بدی نہیں کرتا اور معاف کرتا ہے وہ بلا شبہ تعریف کے لائق ہے۔ مگر اس سے زیادہ وہ شخص تعریف کے لائق ہے جو عفو یا انتقام کا مقید نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہو کر مناسب وقت کام کرتا ہے ۔ کیونکہ خدا بھی ہر ایک کے مناسب حال کام کرتا ہے جو سزا کے لائق ہے اس کو سزا دیتا ہے جو معافی کے لائق ہے اس کو معافی دیتا ہے ۔333۔

دنیا میں دو فرقے بہت ہیں ۔ ایک تو وہ جو عدل کو پسند کرتے ہیں۔ اور دوسرے وہ جو احسان کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں ۔ اور تیسرا فرقہ وہ ہے جو سچی ہمدردی اس قدر ان پر غالب آجاتی ہے کہ وہ عدل اور احسان کا پابند نہیں رہتا ۔ بلکہ سچی ہمدردی کی رہنمائی سے مناسب وقت عمل کرتا ہے ۔ جیسا کہ ماں اپنے بچہ کے ساتھ سلوک کرتی ہے کہ شیریں اور لذیذ غذائیں بھی اس کو اور پھر مناسب وقت پر تلخ دوا بھی دیتی ہے اور دونوں حالتوں میں اس کی.................................................................

میرے بیان میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہوگا جو گورنمنٹ انگریزی کے بر خلاف ہو ۔ اور ہم اس گورنمنٹ کے شکر گذار ہیں کیونکہ ہم نے اس سے امن اور آرام پایا ہے ۔ میں اپنے دعویٰ کی نسبت اس قدر بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کے انتخاب سے بھیجا گیا ہوں تا میں مغالطوں کو رفع کروں اور پیچیدہ مسائل کو صاف کردوں اور اسلام کی روشنی دوسری قوموں کو دکھلاؤں ۔ اور یاد رہے کہ جیسا کہ ہمارے مخالف ایک مکروہ صورت اسلام کی دکھلارہے ہیں ۔ یہ صورت اسلام کی نہیں ہے بلکہ وہ ایک ایسا چمکتا ہوا ہیرا ہے جس کا ہر ایک گوشہ چمک رہا ہے اور جیسا کہ ایک بڑے محل میں بہت سے چراغ ہوں اور کوئی چراغ کسی دریچہ سے نظر آوے اور کوئی کسی کونہ سے ۔ یہی حال



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 427

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 427

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/427/mode/1up


اسلام کا ہے کہ اُس کی آسمانی روشنی صرف ایک ہی طرف سے نظر نہیں آتی بلکہ ہر ایک طرف سے اس کے ابدی چراغ نمایاں ہیں ۔اُس کی تعلیم بجائے خود ایک چراغ ہے اوراس کی قوت روحانی بجائے خودایک چراغ ہے اور اس کے ساتھ جو خدا کی نصرت کے نشان ہیں وہ ہر ایک نشان چراغ ہے ۔ا ور جو شخص اس کی سچائی کے اظہار کے لئے خدا کی طرف سے آتا ہے وہ بھی ایک چراغ ہوتا ہے ۔ میرا بڑا حصہ عمر کا مختلف قوموں کی کتابوں کے دیکھنے میں گذرا ہے مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں نے کسی دوسرے مذہب کی کسی تعلیم کو خواہ اس کا عقائد کا حصہ اور خواہ اخلاقی حصہ اور خواہ تدبیر منزلی اور سیاست مدنی کا حصہ اور خواہ اعمال صالحہ کی تقسیم کا حصہ ہو قرآن شریف کے بیان کے ہم پہلو نہیں پایاا ور یہ قول میرا اس لئے نہیں کہ میں ایک شخص مسلمان ہوں بلکہ سچائی مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں یہ گواہی دوں اور یہ میری گواہی بے وقت نہیں بلکہ ایسے وقت میں ہے جب کہ دنیا میں مذاہب کی کُشتی شروع ہے۔ مجھے خبر دی گئی ہے کہ اس کُشتی میں آخرکار اسلام کو غلبہ ہے ۔ میں زمین کی باتیں نہیں کہتاکیونکہ میں زمین سے نہیں ہوں بلکہ میں وہی کہتا ہوں جو خدا نے میرے مُنہ میں ڈالا ہے زمین کے لوگ خیال کرتے ہوں گے کہ شاید انجام کار عیسائی مذہب دنیا میں پھیل جائے یا بدھ مذؔ ہب تمام دنیا پر حاوی ہوجائے مگر وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں ۔ یاد رہے کہ زمین پر کوئی بات ظہور میں نہیں آتی جب تک وہ بات آسمان پر قرار نہ پائے ۔ سو آسمان کا خدا مجھے بتلاتا ہے کہ آخر اسلام کا مذہب دلوں کو فتح کرے گا ۔ اس مذہبی جنگ میں مجھے حکم ہے کہ میں حکم کے طالبوں کو ڈراؤں۔ اور میری مثال اس شخص کی ہے جو ایک خطرناک ڈاکوؤں کے گروہ کی خبر دیتا ہے جو ایک گاؤں کی غفلت کی حالت میں اس پر ڈاکہ مارنا چاہتے ہیں۔ پس جو شخص اُس کی سنتا ہے وہ اپنا مال اُن ڈاکوؤں کی دستبرد سے بچا لیتا ہے اور جو نہیں سنتا وہ غارت کیا جاتا ہے ۔ ہمارے وقت میں دو قسم کے ڈاکو ہیں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 428

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 428

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/428/mode/1up


کچھ تو باہر کی راہ سے آتے ہیں اور کچھ اندر کی راہ سے ۔ اور وہی مارا جاتا ہے جو اپنے مال کو محفوظ جگہ میں نہیں رکھتا ۔ اس زمانہ میں ایمانی مال کے بچانے کے لئے محفوظ جگہ یہ ہے کہ اسلام کی خوبیوں کا علم ہو ۔ اسلام کی قوت روحانی کا علم ہو ۔ اسلام کے زندہ معجزات کا علم ہو اور اس شخص کا علم ہو جو اسلامی بھیڑوں کے لئے بطور گلہ بان مقرر کیا جائے ۔ کیونکہ پرانا بھیڑیا اب تک زندہ ہے وہ مرا نہیں ہے ۔ وہ جس بھیڑ کو اُس کے چرانے والے سے دور دیکھے گا وہ ضرور اس کو لے جائے گا ۔

اے بند گانِ خدا !آپ لوگ جانتے ہیں کہ جب امساک باراں ہوتا ہے اور ایک مدت تک مینہ نہیں برستا تواس کا آخری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئیں بھی خشک ہونے شروع ہوجاتے ہیں ۔ پس جس طرح جسمانی طور پر آسمانی پانی بھی زمین کے پانیوں میں جوش پیدا کرتا ہے اِسی طرح روحانی طور پر جو آسمانی پانی ہے (یعنی خدا کی وحی )وہی سفلی عقلوں کو تازگی بخشتا ہے ۔ سو یہ زمانہ بھی اس روحانی پانی کا محتاج تھا ۔

میں اپنے دعویٰ کی نسبت اس قدر بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مَیں عین ضرورت کے وقت خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں ۔ جبکہ اس زمانہ میں بہتوں نے یہود کا رنگ پکڑا۔ اور نہ صرف تقویٰ اور طہارت کو چھوڑا بلکہ ان یہود کی طرح جو حضرت عیسیٰ کے وقت میں تھے سچائی کے دشمن ہوگئے تب بالمقابل خدا نے میرانام مسیح رکھ دیا۔ نہ صرف یہ ہے کہ میں اس زمانہ کے لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہوں بلکہ خود زمانے نے مجھے بُلایا ہے ۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 21. Page: 429

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 429

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


انڈیکس

روحانی خزائن جلدنمبر۲۱


مرتبہ:مکرم فہیم احمدخالد صاحب

زیر نگرانی

سید عبدالحی




آیات قرانیہ ۳

احادیث نبویہ ﷺ ۸

الہاماتحضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔۔۔۔۔۔ ۹

مضامین ۱۱

اسماء ۳۰

مقامات ۴۲

کتابیات ۴۴




Ruhani Khazain Volume 21. Page: 430

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 430

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 431

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 431

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



آیات قرآنیہ

الفاتحۃ

اھدنا الصراط المستقیم ۔۔۔ (۶،۷)

۶۸،۳۰۳،۳۰۷،۳۷۳

البقرۃ

فی قلوبھم مرض فزادھم اللّٰہ مرضا(۱۱) ۲۲۲

صم بکم عم فھم لا ی،رجعون(۱۹) ۴۲۵

وان کنتم فی ریب مما انزلنا علی عبدنا(۲۴) ۱۸۵

وان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودھا

الناس والحجارۃ(۲۵) ۱۸۵

قال انی اعلم ما لاتعلمون ۱۱۳

اسجدوا لاٰدم فسجدوا الا ابلیس(۳۵) ۲۲۰

ولم فی الارض مستقر ومتاع الی حین (۳۷) ۳۰۰ح،۳۹۴،۴۰۰

بلٰی من اسلم وجھہ للّٰہ وھومحسن(۱۱۳) ۲۹

قولوا اٰمنا باللّٰہ وما انزل الینا۔۔۔(۱۳۷) ۴۱۸

فان اٰمنوا بمثل ما اٰمنتم بہ فقد اھتدوا(۱۳۸) ۸۱۴

واذا سألک عبادی عنی فانی قریب (۱۸۷) ۴۱۵

فاذکروا اللّٰہ کذکرکم اٰباء کم

او اشد ذکرا(۲۰۱) ۴۱۵

ومن الناس من یشری نفسہ۔۔۔(۲۰۸) ۴۱۶

یاایھا الذین امنوا ادخلوا فی السلم کافۃ۔۔۔(۲۰۹) ۴۱۶

لاتجعلوا اللّٰہ عرضۃ لایمانکم(۲۲۵) ۴۱۵

لااکراہ فی الدین قد تبین الرشد

من الغی(۲۵۷) ۴۱۵

یاایھا الذین اٰمنوا لا تبطلوا صدقاتکم

بالمن والاذی (۲۶۵) ۴۱۶

ان تبدوا الصدقات فنعما ھی(۲۷۲) ۴۱۵

الذین ینفقون اموالھم باللیل والنھار۔۔۔(۲۷۵) ۴۱۵

لایکلف اللّٰہ نفسا الا وسعہا(۴۸۷) ۲۸۰

ٰال عمران

قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ (۳۲)

۴۱۹

ان مثل عیسٰی عنداللّٰہ کمثل آدم۔۔۔(۶۰) ۵۰،۳۹۷

لتؤمنن بہ ولتنصرنہ (۸۲) ۳۰۰

لیسوا سواء من اھل الکتاب

امۃ قائمۃ۔۔۔(۱۱۴،۱۱۵) ۴۱۶

یاایھا الذین امنوا لاتتخذوا بطانۃ من دونکم (۱۱۹) ۴۱۶

ما محمد الا رسول قد خلت من

قبلہ الرسل۔۔۔(۱۴۵) ۲۸۴،۳۲۱ح،۳۷۵،۳۹۱

النساء

الم تر الی الذین یزکون انفسھم (۵۰) ۴۱۷

ان اللّٰہ یامرکم ان تؤدوا الامانات الی اھلھا (۵۹)

۴۱۷

من یشفع شفاعۃ حسنۃ یکن لہ نصیب منھا(۸۶)

۴۱۷

ومن قتل مؤمنا متعمدا فجزاء ہ جھنم(۹۴) ۴۱۷

ومن احسن دینا ممن اسلم وجھہ للّٰہ (۱۲۶) ۴۱۷



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 432

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 432

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


والصلح خیر(۱۲۹) ۴۱۷

یا ایھا الذین اٰمنوا اٰمنوا باللّٰہ ورسولہ (۱۳۷)۴۱۷

وقد نزل علیکم فی الکتاب ان اذا سمعتم

اٰیات اللّٰہ۔۔۔(۱۴۱) ۴۱۸

مایفعل اللّٰہ بعذابکم ان شکرتم واٰمنتم۔۔۔(۱۴۸) ۴۱۸

ان الذین یکفرون باللّٰہ ورسلہ۔۔۔(۱۵۱،۱۵۲) ۴۱۸

ماقتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لھم۔۔۔(۱۵۸،۱۵۹) ۵۲،۳۳۶

رسلا مبشرین و منذرین (۱۶۶) ۴۱۸

وان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ(۱۶۰) ۴۰۹

المائدۃ

الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی

ورضیت لکم الاسلام دینا(۴) ۴،۵،۴۱۸

یحرفون الکلم عن مواضعہ(۱۴) ۴۲۲

فاغرینا بینھم العداوۃ والبغضاء۔۔۔(۱۵) ۴۰۹

والقینا بینھم العداوۃ والبغضاء الی یوم القیامۃ(۶۵)

۴۰۹

یاایھا الذین امنوا کونوا قوامین بالقسط(۹۰)

۴۱۷،۴۱۸

یاایھا الذین امنوا انما الخمر والمیسر والانصاب

والازلام رجس (۹۱) ۴۱۹

ماالمسیح بن مریم الا رسول ۔۔۔(۷۶) ۳۹۲

واذ قال اللّٰہ یا عیسی انت قلت للناس۔۔۔(۱۱۷) ۱۵۹

وکنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم فلما

توفیتنی۔۔۔(۱۱۸) ۵۱،۲۸۲،۳۲۱ح،۳۹۴ح،۴۰۱

قال اللّٰہ ھذا یوم ینفع الصادقین صدقھم (۱۲۰) ۱۵۹

الانعام

ومن اظلم ممن افتری علی اللّٰہ کذبا(۲۲) ۴۲۲

ولوتری اذ وقفوا علی النار(۲۸) ۱۵۹

ولوتری اذ وقفوا علی ربھم۔۔۔(۳۱) ۱۵۹

اللّٰہ اعلم حیث یجعل رسالتہ (۱۲۵) ۴۲۵

قل ان صلا تی ونسکی ومحیای ومماتی للّٰہ رب العالمین (۱۶۳) ۴۱۹

الاعراف

فیھا تحیون وفیھا تموتون ومنھا تخرجون(۲۶) ۳۰۰ح،۳۹۴،۴۰۰

ونادی اصحاب الجنۃ اصحاب النار۔۔۔(۴۵)

۱۵۹

وھوالذی یرسل الریاح بشرا بین یدی رحمتہ(۵۸)

۴۱۹

وماارسلنا فی قریۃ من نبی الا اخذنا اھلھا

بالباساء۔۔۔(۹۵) ۳۱۹

ولو ان اھل القری امنوا واتقوا (۹۷) ۴۱۹

افامن اھل القری ان یاتیھم باسنا۔۔۔(۹۸،۹۹)

۴۱۹،۴۲۰

یامرھم بالعروف وینھاھم عن المنکر(۱۵۸) ۴۲۰

قل یا ایھا الناس انی رسول اللّٰہ الیکم جمیعا(۱۵۹)

۴۲۰

والذین یمسکون بالکتاب واقاموا الصلٰوۃ (۱۷۱)

۴۲۰

الست بربکم قالوا بلی(۱۷۳) ۳۹۵

ینظرون وھم لا یبصرون(۱۹۹) ۲۲۱



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 433

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 433

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


الانفال

یاایھا الذین اٰمنوا ان تتقوا اللّٰہ یجعل لکم

فرقانا(۳۰) ۴۲۱

ان اولیاء ہ الا المتقون(۳۵) ۴۲۱

وان جنحوا للسلم فاجنح لھا(۶۲) ۴۲۱

وان یریدوا ان یخدعوک فان حسبک اللّٰہ (۶۳)

۴۲۱

التوبۃ

الا تقاتلون قوما نکتثوا ایمانھم۔۔۔(۱۳) ۴۲۱

قل ان کان اٰباؤکم وابناؤکم واخوانکم۔۔۔(۲۴) ۴۲۲

التائبون العابدون الحامدون۔۔۔(۱۱۲) ۹

یونس

واما نرینک بعض الذی نعدھم او نتوفینک (۴۷)

۳۷۹

ھود

لا عاصم الیوم من امر اللّٰہ الا من رحم(۴۴) ۲۰۶

یوسف

ولقد ھمت بہ وھم بھا لولا ان راٰ برھان ربہ(۲۵) ۲۳۷

شھد شاھد من اھھا(۲۷) ۹۸،۱۱۰

ان کیدکن عظیم(۲۹) ۹۸

رب السجن احب الیّ مما یدعوننی الیہ(۳۴) ۱۰۰

وما ابرئ نفسی ان النفس لامارۃ بالسوء۔۔۔(۵۴) ۱۰۰،۲۰۶

توفنی مسلما والحقنی بالصالحین(۱۰۲) ۳۷۹

الرعد

الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب(۲۹) ۴۲۵

الحجر

ونزعنا ما فی صدورھم منہ غل اخوانا علی سرر

متقابلین(۴۸) ۱۵۹

وما ھم منھا بمخرجین(۴۹) ۳۸۷ح

النحل

والذین یدعون من دون اللّٰہ لایخلقون

شیءًا۔۔۔(۲۱،۲۲) ۲۹۸

ان اللّٰہ یامر بالعدل والاحسان۔۔۔(۹۱) ۴۱۸

بنی اسرائیل

من کان فی ھذہ اعمٰی فھو فی الاخرۃ اعمٰی (۷۳) ۱۶۱،۱۵۵

قل سبحان ربی ھل کنت الا بشرًا رسولا(۹۴) ۲۰۹،۳۷۲،۴۰۰

الکھف

ویسئلونک عن ذی القرنین قل ساتلوا علیکم منہ

ذکرا(۸۴) ۱۱۹

فاتبع سببا۔۔۔من امرنا یسا(۸۶تا۸۹) ۱۲۰

ثم اتبع سببا حتی اذا بلغ مطلع

الشمس۔۔۔(۹۰،۹۱) ۱۲۱

ثم اتبع سببا حتی اذا بلغ بین السدین۔۔۔(۹۲،۹۳) ۱۲۲

ونفخ فی الصور فجمعناھم جمعا(۱۰۰) ۱۰۹

مریم

ورفعناہ مکانا علیا(۵۸) ۳۸۵

طٰہٰ

منھا خلقناکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم

تارۃ اخری(۵۶) ۳۷۳



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 434

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 434

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


الانبیاء

فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون(۸) ۲۹۰

متی ھذا الوعد (۳۹) ۱۷۸

الحج

لن ینال اللّٰہ لحومھا ولا دماء ھا ولکن ینالہ

التقویٰ منکم(۳۸) ۴۲۴

ان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون(۴۸)

۱۴۶ح

المؤمنون

قد افلح المؤمنون۔۔۔ علی صلواتھم

یحافظون(۲تا ۱۰) ۱۸۷،۱۸۸،۱۸۹ح،۲۰۰۱۹۹،۲۰۳،

۲۰۴،۲۰۵،۲۰۷، ۲۳۰،۲۳۲،۲۳۹،۲۴۰

ثم جعلناہ نطفۃ فی قرارمکین۔۔۔ فتبارک اللّٰہ

احسن الخالقین(۱۴،۱۵) ۱۸۷،۱۹۷،۲۱۶

واٰوینھما الی ربوۃ ذات قرار ومعین(۵۱) ۴۰۴

النور

فلیعفوا ولیصفحوا الا تحبون ان یغفراللّٰہ لکم

واللّٰہ غفور رحیم (۲۳) ۱۸۱

کما استخلف الذین من قبلھم (۲۶) ۱۰۹

وصل علیھم ان صلاتک سکن لھم(۱۰۳) ۴۲۲

الفرقان

لولا نزل علیہ القرآن جملۃ واحدۃ (۳۳) ۱۷۴

الشعراء

لعلک باخع نفسک ان یکونوا مومنین(۴) ۲۲۶

ان معی ربی سیھدین(۶۳) ۹۸ح

النمل

ان الملوک اذا دخلوا قریۃ افسدوھا۔۔۔(۳۵)

۲۳۸

العنکبوت

کل نفس ذائقۃ الموت ثم الینا ترجعون(۵۸)

۳۸۵ح

الروم

الم۔ غلبت الروم فی ادنی الارض۔۔۔(۲تا۴) ۱۷۵

اللّٰہ الذی خلقکم من ضعف ثم جعل من بعد

ضعف قوۃ۔۔۔(۵۵) ۳۹۵

السجدۃ

قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم۔۔۔(۱۲)

۳۸۵

الاحزاب

وزلزلوا زلزالا شدیدا(۱۲) ۲۵۵

وداعیا الی اللّٰہ باذنہ وسراجا منیرا(۴۷) ۴۲۵

انا عرضنا الامانۃ علی السموات والارض والجبال۔۔۔ (۷۳) ۲۳۹

سبا

وحیل بینھم وبین ما یشتھون(۵۵) ۴۲۳

یٰس

قیل ادخل الجنۃ۔۔۔(۲۷) ۳۸۸

ونفخ فی الصور فاذا ھم من الاجداث الٰی ربھم ینسلون(۵۲) ۱۵۹

صٓ

ان ھذا لشیء یراد(۸) ۳۶۸

مفتحۃ لھم الابواب(۵۱) ۴۰۰

الشوری

جزاء سیءۃ سیءۃ مثلھا فمن عفا واصلح

فاجرہ علی اللّٰہ(۴۱) ۴۲۶



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 435

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 435

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


محمد

مثل الجنۃ التی وعد المتقون(۱۶) ۴۲۴

الذاریات

ماخلقت الجن والانس الا لیعبدون(۵۷) ۲۱۷

النجم

دنی فتدلی فکان قاب قوسین او ادنی(۵۳) ۲۲۰

القمر

سیھزم الجمع ویولون الدبر(۴۶) ۲۴۹

الرحمن

الرحمن علم القرآن(۲،۳) ۷

الصف

یاایھا الذین لم تقولون مالا تفعلون(۳،۴) ۴۲۲

الملک

ویقولون متی ھذا الوعد ان کنتم صدقین۔ قل انما العلم عنداللّٰہ وانما انا نذیر مبین(۲۶،۲۷) ۲۵۲

الجن

قل ان ادری ا قریب ما توعدون(۲۵) ۲۵۳

لایظھر علی غیبہ احدا ۔۔۔(۲۷،۲۸) ۸۶

المزمل

انا ارسلنا الیکم رسولا شاھدًا علیکم کما ارسلنا الی فرعون رسولا(۱۶) ۱۱۰،۲۴۸،۳۰۲،۴۰۵

النازعات

یوم ترجف الراجفۃ تتبعھا الرادفۃ (۷،۸) ۲۵۶،۲۶۱

التکویر

واذا العشار عطلت(۵) ۳۵۸

الفجر

یاایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک

راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی(۲۸تا۳۱) ۲۵۲

الشمس

قد افلح من زکھا وقد خاب من دسھا(۹۱) ۴۱۹

اللھب

تبت یدا ابی لھب وتب۔۔۔ماکسب(۲،۳) ۱۵۹



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 436

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 436

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


احادیث نبویہﷺ

(بترتیب حروف تہجی )

اللھم ان اھلکت ھذہ العصابۃ فلن تعبد فی الارض

۲۵۵

المومن یَریٰ ویُریٰ لہ ۲۲۴ح

خربت خیبر اذا نزلنا بساحۃ قوم فساء صباح المنذرین ۱۷۱

رئیت فی المنام انی اھاجر من مکۃ الی ارض بھا نخل فذھب وھلی الی انھا الیمامۃ او ہجر فاذا

ھی المدینۃ یثرب ۱۶۸

ربنا اغفرلنا ذنوبنا و باعد بیننا وبین خطایانا ۲۷۱

لا مھدی الا عیسی ۳۵۶

ما عبدناک حق عبادتک ۲۷۱ح

من عادی ولیا لی وقد اٰذنتہ للحرب ۹۱

احادیث بالمعنی

حدیث صحیح میں ہے کہ اگر کوئی خواب دیکھے اور اس کی

کوشش سے وہ خواب پوری ہو سکے تو اس رؤیا کو اپنی

کوشش سے پورا کر لینا چاہئے ۳۷۰

احادیث صحیحہ میں صراحت سے لکھا ہے کہ وہ آنے والا مسیح اسی امت میں سے ہوگا ۱۰۸

؂ دو عضو اپنے جو کوئی ڈر کے بچائے گا

سیدھا خدا کے فضل سے جنت میں جائے گا

وہ اک زبان ہے عضو نہانی ہے دوسرا

یہ ہے حدیث سیدنا سیدالوریٰ ۱۹

ان من اھل الکتاب میں قبل موتہٖ کی دوسری قرأت

قبل موتھم کو حدیث صحیح سمجھنا چاہئے ۴۱۰

احادیث صحیحہ میں آیا تھا کہ وہ مسیح موعود صدی کے سر پر آئے گا اور وہ چودھویں صدی کا مجدد ہو گا ۳۵۹

بعض احادیث میں بھی آچکا ہے کہ آنے والے مسیح کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ ذوالقرنین ہوگا ۱۱۸

احادیث میں مذکور مسیح موعود کی علامات جو پوری ہوئیں ۲۸۱

احادیث سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا ثبوت ۳۹۹

ان حدیثوں کا مفہوم جن میں عیسیٰ بن مریم کے نازل ہونے کا ذکر ہے ۵۲

اکابر محدثین کا یہی مذہب ہے کہ مہدی کی حدیثیں سب مجروح اور مخدوش بلکہ اکثر موضوع ہیں ۳۵۶، ۳۵۷



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 437

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 437

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام

عربی الہامات

اذا جاء نصراللہ والفتح وانتھی امر الزمان الینا ۷۰

الرحمن علم القرآن ۷

اردت ان استخلف فخلقت آدم ۱۱۲

اصنع الفلک باعیننا ووحینا ۱۱۳

الم نجعل لک سھولۃ فی کل امر ۱۱۹

الیس اللہ بکاف عبدہ ۹۳

الیس ھذا بالحق ۷۰

انت منی بمنزلۃ لا یعلمھا الخلق ۱۱۳

انما امرک اذا اردت شیئا ان تقول لہ کن

فیکون ۱۲۴

انی مھین من اراد اھانتک ۱۰۱

بورکت یا احمد و کان ما بارک اللہ فیک حقا فیک ۱۱۴

بورکت یا احمد۔۔۔ یحی الدین ۷۸

تلطف بالناس وترحم علیھم ۱۱۶

توبی توبی فان البلاء علی عقبک ۳۶۹

ثلۃ من الاولین وثلۃ من الاخرین ۱۰۸

جری اللہ فی حلل الانبیاء ۱۱۶،۱۱۷، ۱۱۸

رب السجن احب الی مما یدعوننی الیہ ۹۸، ۱۰۱، ۷

سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا ۱۱۲

سبحان اللہ زاد مجدک ینقطع ابائک ویبدء منک ۱۱۴

سلام علی ابراہیم ۱۱۴

عفت الدیار محلھا ومقامھا ۱۵۸، ۱۶۰،۱۶۲،۱۶۳،

۱۶۵،۱۶۶،۱۷۱،۱۷۲،۲۴۸،۲۴۹،۲۶۹،

۲۷۰،۲۷۲،۲۷۳،۲۷۴

فاجاۂ المخاض الی جذع النخلۃ ۶۸ح

فلما تجلّٰی ربہ للجبل جعلہ دکاً ۱۷۶، ۲۵۶، ۲۷۹

لعبید اللہ الصمد ۱۷۶، ۲۶۵

قال انی جاعل فی الارض خلیفۃ۔۔۔ ۸۰

قالوا اتجعل فیھا من یفسد فیھا قال انی اعلم ما لاتعلمون ۸۰، ۲۶۰ح

قرب اجلک المقدر۔۔۔ ۹۰ح

قل عندی شھادۃ من اللہ فھل انتم مومنون ۹۷، ۹۹،

۱۰۰، ۱۰۲

کل برکۃ من محمد صلی اللہ علیہ وسلم فتبارک من علم وتعلم ۳۶۰

نصرت و قالوا لات حین مناص۔۔۔ ۸۱

واما نرینک بعض الذی نعدھم۔۔۔ ۳۶۵

وانتھی امر الزمان الینا ۷۲

وان یتخذوک الا ھزوًا اھذا الذی بعث اللہ جاھل او مجنون ۱۱۲

ولاتخاطبنی فی الذین ظلموا انھم مغرقون ۱۱۳

ولاتھنوا ولاتحزنوا ۸۷

ولتنذر قوماً ماانذر اٰباؤھم فھم غافلون ۱۰۲



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 438

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 438

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


ونظرنا الیک وقلنا یانار کونی بردًا وسلاما علی ابراھیم ۱۱۵

ھوالذی ینزل الغیث من بعد ما قنطوا ۹۶

یاابراھیم اعرض عن ھذا۔۔۔ ۱۱۵

انما انت مذکر وما انت علیھم بمصیطر ۱۱۵

یا احمد بارک اللہ فیک ۶۶،۷۷

یا احمدی انت مرادی و معی غرست کرامتک

بیدی ۸۱

یاتیک من کل فج عمیق ۷۵

یاتون من کل فج عمیق ۷۵

یا عیسی انی متوفیک ورافعک الی ۹۴،۳۶۱، ۳۶۳

یا مریم اسکن انت وزوجک الجنۃ ۱۱۰، ۳۶۱

یا مریم نفخت فیک من لدنی روح الصدق ۱۱۰

یا ولی اللہ کنت لااعرفک ۱۰۴

یخرون علی الاذقان سجدًا ربنا اغفرلنا انا کنا خاطئین ۱۰۳، ۲۶۰ح

یغفراللہ لکم و ھو ارحم الراحمین ۱۰۳

یعصمک اللہ من عندہ و ان لم یعصمک الناس ۹۹

اردو الہاما ت

تما م حوادث اور عجائبات قدرت دکھلانے کے بعد تیرا

حادثہ ہو گا ۹۰ح

پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی ۲۵۸ح

دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زورآور حملوں سے اس کی سچائی

ظاہر کر دے گا ۲۶۷، ۳۰۱

زلزلہ کا دھکا ۱۶۱، ۱۶۶، ۲۴۶، ۲۴۷

عشق الٰہی منہ پر وسے ولیاں ایہہ نشانی ۲۲۴

موتا موتی لگ رہی ہے ۱۵۷

میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا ۱۷۵

ًُمیں تجھے اس قدر برکت دوں گا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں

سے برکت ڈھونڈیں گے ۱۱۴

میں تیرے لئے زمین پر اتروں گا تا اپنے نشان دکھلاؤں ۱۶۶

وہ تو تجھے رد کرتے ہیں مگر میں تجھے خاتم الخلفاء بناؤں گا ۲۶۷ح

عبرانی میں الہام

ھو شعنا نعسا۔۔۔ ۱۰۴



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 439

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 439

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



مضامین


آ

آخری زمانہ

آخری زمانہ کے اخبار وعلامات از قرآن مجید ۳۵۹

آخری زمانہ کے وہ علماء جن کو آنحضرت ﷺ نے اس امت کے یہود قرار دیا ہے ۲۷۸

آریہ دھرم

آریوں کے نزدیک خداتعالیٰ خالق نہیں ۳۸

آریوں کے نزدیک مادہ کے پرکرتی(یعنی اجزائے مادہ)

مع اپنی تمام صفات کے ازلی اور قدیم ہیں ۳۷

آریوں پر خدا تعالیٰ پر یقین کرنے کی کوئی راہ کھلی نہیں

کیونکہ ان کے نزدیک مادہ اور ارواح اپنی تمام طاقتوں

کے ساتھ خود بخود ہیں ۳۷

یہ مذہب دہریہ مذہب سے بہت قریب ہے ۳۷

آریوں کو تناسخ کے خیال اور توبہ قبول نہ ہونے کے عقیدہ

نے پاکیزگی نفس کے حقیقی طریقوں سے دور کر دیا ہے ۳۷

لیکھرام کا پیشگوئی کے مطابق مارا جانا اسلام اور آریہ مذہب

میں ایک امتیازی نشان تھا ۴۶

آریہ ورت

آریہ ورت کا داؤد کرشن تھا ۱۱۷

آگ

اللہ تعالیٰ کی محبت اور خوف کی آگ جب بھڑکتی ہے تو گناہ

کے خس وخاشاک کو جلا کر بھسم کر دیتی ہے ۷

آتش شہوت سے مخلصی پانے کے لئے اس آگ کے وجود پر

قوی ایمان کی ضرورت ہے جو جسم اور روح دونوں کو

عذاب شدید میں ڈالتی ہے ۳۳۷

الف

ابدال

جو لوگ اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کر لیتے ہیں وہی

خدا کے نزدیک ابدال کہلاتے ہیں ۳۵۷

میری جماعت میں وہ لوگ جنہوں نے اس سلسلہ کے لئے

بہت دکھ اٹھائے ہیں اور بہت ذلتیں اٹھائیں ہیں اور جان

دینے تک فرق نہیں کیا یقیناًوہ ابدال ہی ہیں۔ ۳۵۷

حضرت مولوی عبدالرحمن اور صاحبزادہ عبداللطیف

شہداء کابل ابدال ہیں ۳۵۷

اجتہاد

آنحضرت ﷺکا اجتہاد سب اجتہادوں سے اسلم

اور اقویٰ اور اصح ہے ۱۶۹

انسان کا اپنا علم اور اپنا اجتہاد غلطی سے خالی نہیں ۸۶ح

دنیا میں کوئی ایسا نبی اور رسول نہیں گذرا جس نے اپنی کسی

پیشگوئی میں اجتہادی غلطی نہ کی ہو ۱۶۸

انبیاء علیہم السلام سے بے شک غلطی ہو سکتی ہے مگر وہ

ہمیشہ اس غلطی پر قائم نہیں رکھے جا سکتے ۲۸۰

اگر قبل از وقت اجتہادی طور پر کوئی نبی اپنی پیشگوئی کے

معنے کرنے میں کسی طور کی غلطی کھائے تو اس پیشگوئی کی

شان اور عزت میں فرق نہیں آئے گا ۲۴۷

پیغمبر بشر ہی ہوتا ہے اور اس کیلئے یہ نقص کی بات نہیں کہ کسی

اپنے اجتہاد میں غلطی کھائے۔ ہاں وہ قائم نہیں رکھا جاتا ۲۵۰

پیشگوئیوں کو سمجھنے میں اجتہادی خطاء کی مثالیں

آنحضرت ﷺ کا ہجرت مدینہ اور حدیبیہ والے سفر

کے بارہ میں ا جتہاد ۱۷۶



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 440

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 440

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


ذہب وہلی کی حدیث سے آنحضرت ﷺ کی

اجتہادی غلطی کا استنباط ۱۶۸ تا ۱۶۹

اجماع

یہ مسلم امر ہے کہ ایک صحابی کی رائے شرعی حجت نہیں

ہو سکتی۔ شرعی حجت صرف اجماع صحابہ ہے ۴۱۰

اسلام میں سب سے پہلا اجماع یہی تھا کہ تمام نبی فوت

ہو چکے ہیں ۲۸۴

صحابہ رضی اللہ عنہ کے وقت میں تمام صحابہ کا اجماع ہو چکا

تھا کہ تمام نبی فوت ہو چکے ہیں ۳۷۵

اس اجماع میں تمام صحابہ شریک تھے ایک فرد بھی ان میں

سے باہر نہ تھا۔ یہ صحابہ کا پہلا اجماع تھا ۲۸۶

اخلاص

تمام برکتیں اخلاص میں ہیں اور تمام اخلاص خدا کی رضاجوئی میں اور تمام خدا کی رضاجوئی اپنی رضا کے چھوڑنے میں ہے ۲۴۳

اذن

مجھے وقتا فوقتا ایسے آدمیوں (کمزور مبایعین) کا علم دیا جاتا ہے مگر اذن نہیں دیا جاتا کہ ان کو مطلع کروں ۱۱۴

ارتداد

ارتداد کے دو بڑے زمانے۔

ابوبکرؓ اور مسیح موعود کے زمانے میں ۲۸۶ح

ارہاص

۱۹۰۵ء میں زلزلہ سے کانگڑہ کے سولہ سو سالہ پرانے مندر کا گرنا اشاعت توحید کے لئے بطور ارہاص تھا ۱۷۱

استاد

استاد روحانی باپ ہوتا ہے ۳۰۳

مسیح موعود نے علم و معرفت کسی استاد سے حاصل نہیں کی ۳۰۳

استغفار

سب انبیاء و اولیاء نے استغفار کو اپنا شعار قرار دیاہے ۲۷۱

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کا استغفار اور

اس کی حقیقت ۲۶۹

استقامت

اپنے تئیں میری تعلیم اور دلائل پر مضبوطی سے قائم کرو اور پوری استقامت اختیار کرو ۱۲۳

انسان کو چاہئے کہ لوہے کی طرح اپنی استقامت اور ایمانی مضبوطی میں بن جائے ۱۲۴

انسان شیطانی حملے سے تب محفوظ ہوتا ہے کہ استقامت میں لوہے کی طرح ہو ۱۲۵

اِسریٰ

ایک ہی رات میں کرانے سے مقصد یہ ہے کہ اس کی تمام تکمیل ایک ہی رات میں کر دی اور صرف چار پہر میں اس کے سلوک کو کمال تک پہنچایا ۱۱۲

اسلام

اسلام کے دو حصے ۔

خدا کی رضاجوئی اور بنی نوع سے نیکی کرنا ۲۹

درحقیقت تمام آیات قرآنی کے لئے اسلام کا مفہوم بطور

مرکز کے ہے ۴۱۳

اسلام انسان کو محبت الٰہیہ سے رنگین کرنے کی صلاحیت

رکھتا ہے ۱۲۴

اسلام خدادانی اور خداترسی کا ایسا ذریعہ ہے جس کی نظیر کبھی اور کسی زمانہ میں نہیں پائی گئی ۲۵

عقائد و تعلیم کا اکمل اور جامع ہونا اسلام کے منجانب اللہ

ہونے کا ثبوت ہے ۴



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 441

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 441

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


زندہ معجزات و برکات صرف اسلام میں موجود ہیں اور یہ

اس کے منجانب اللہ ہونے کا ثبوت ہے ۶

اسلام تعلیم کی رو سے ہر ایک مذہب کو فتح کرنے والا ہے ۵

اسلام کا مابہ الامتیاز۔ مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ ۳۱۲

دنیا میں صرف اسلام ہی یہ خوبی رکھتا ہے کہ وہ بشرط سچی اور کامل اتباع ہمارے سیدومولیٰ آنحضرت ﷺ مکالمات الٰہیہ سے مشرف کرتا ہے ۳۵۴

اسلام ایسا بابرکت اور خدا نما مذہب ہے کہ اس کی سچی پیروی

سے اسی جہان میں انسان خدا کو دیکھ سکتا ہے ۲۵

اس زمانہ میں اسلام کی شکل کو تفریط اور افراط کے سیلاب نے بگاڑ دیاہے ۱۰۷

جب اسلام کا شعار صرف چند ظاہری امور اور رسمی نماز روزہ

رہ گیا تو خداتعالیٰ نے ان کے دلوں کو مسخ کر دیا ۳۱۱

اسلام میں سب سے پہلا اجماع یہی تھا کہ تمام نبی فوت

ہو گئے ۲۸۴

خیرالقرون میں حیات عیسیٰ کے خیال کا نام ونشان نہ تھا ۲۸۴

حیات مسیح کے عقیدہ نے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ۲۹۲

عیسیٰ کی موت میں اسلام کی زندگی ہے اور عیسیٰ کی زندگی میں اسلام کی موت ہے ۴۰۶

اس زمانہ میں ایمانی مال کے بچانے کے لئے اسلام کی جملہ خوبیوں اور اس شخص کا علم ہونا ضروری ہے جو اسلامی بھیڑوں کے لئے بطور گلہ بان مقرر کیا جائے ۴۲۸

اسلام کا آخری خلیفہ مسیح موعود ہے ۴۰۵

لیکھرام کی موت کا نشان مذہب اسلام کی سچائی کی گواہی

دیتا ہے ۴۷

مسیح موعود کے ذریعہ خدا تعالیٰ تمام سعید لوگوں کو ایک مذہب

یعنی اسلام پر جمع کرے گا ۱۲۶

مجھے خبر دی گئی ہے کہ مذاہب کی ُ کشتی میں آخرکار اسلام کو

غلبہ ہو گا ۴۲۷

عیسیٰ علیہ السلام سے چوتھا وعدہ ’’جاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا‘‘ اسلام کے غلبہ سے پورا ہو گیا ۳۴۸

آسمان کا خدا مجھے بتلاتا ہے کہ آخرکار اسلام کا مذہب دلوں کو

فتح کرے گا (نہ کہ عیسائی یا بدھ مذہب) ۴۲۷

اصحاب الصفہ

خدا فرماتا ہے کہ بہت سے لوگ اپنے اپنے وطنوں سے تیرے پاس قادیان میں ہجرت کر کے آئیں گے اور تمہارے گھروں کے کسی حصہ میں رہیں گے وہ اصحاب الصفہ کہلائیں گے ۷۳

اعراض

اعراض کی دو شکلیں

۱۔ اعراض صوری ۔ ایک شخص خداتعالیٰ کے کلام سے بالکل

منکر ہو ۳۰

۲۔ اعراض معنوی۔ بظاہر منکر تونہ ہو لیکن رسم اور عادت وغیرہ کے نیچے دب کر کلام اللہ کی کچھ پروا نہ کرے ۳۰

افتراء

یہ خدائے عادل اور قدوس کی عادت کے برخلاف ہے کہ وہ

ایک مفتری کو تیئس برس تک مہلت دے۔ ۱۰

مفتری کو لمبی مہلت دینے سے صادق اور کاذب کے درمیان مابہ الامتیاز قائم نہیں رہتا ۲۹۳

اللہ تعالیٰ مفتری کی نصرت نہیں کرتا ۱۳۰

القاء

القاء کے متعلق شیطانی ہونے کا شبہ ایمان کے لئے خطرہ

ہے ۱۲۴



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 442

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 442

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/442/mode/1up


اللہ تعالیٰ

معرفت و شناخت

انسان کی روح کو خداتعالیٰ سے ایک تعلق ازلی ہے ۲۰۰

مذہب کی اصلی سچائی خدائے تعالیٰ کی ہستی کی شناخت سے وابستہ ہے ۶۰

جب تک خدائے تعالیٰ کی طرف سے انا الموجود کی آواز زوردار طاقتوں کے سنائی نہ دے اور فعلی طور پر اس کے ساتھ دوسرے زبردست نشان نہ ہوں اُس وقت تک اُس زندہ خدا

پر ایمان آنہیں سکتا۔ ۳۰

خدا کی معرفت خدا کے ذریعہ سے ہی میسر آسکتی ہے اور خداکو

خدا کے ساتھ ہی شناخت کرسکتے ہیں۔ اورخدا اپنی حجت آپ

ہی پوری کرسکتا ہے ۷

خدائے تعالیٰ پر یقین کرنے کی دو راہیں۔ معقولی اورسماوی ۳۷

خداتعالیٰ کی ہستی پر معقولی دلیل۔ کائنات کی پرحکمت

صنعت اور ابلغ ترکیب ۳۹

وہ خدا جو حکیم اور عالم الغیب ہے اس کا ہر ایک کام اوقات

سے وابستہ ہے ۴۱۲

خدا تعالیٰ عقلی طور پر اپنی خالقیت سے شناخت کیا جاتا ہے۔

دوسرا طریق خداتعالیٰ کا آسمانی نشان ہے ۳۸

معجزات نہ ہوں تو پھر خداتعالیٰ کے وجود پر کوئی قطعی اور یقینی علامت نہیں رہتی ۵۶

خداتعالیٰ کے نشانات کے ذریعہ سے خداتعالیٰ کا چہرہ نظر

آتا ہے ۷۷

خداتعالیٰ اپنے زبردست نشانوں کے ساتھ اپنے نبیوں

کی صفائی اور اصطفاء کی شہادت دیتا ہے ۱۰۲

خداتعالیٰ کی نصرت راستبازوں کے شامل حال رہتی ہے ۳۹

خدا کی خاص تجلی سے راستبازوں میں وہ برکتیں پیدا ہو

جاتی ہیں جو خدا میں ہیں ۶۵

خدا برحق ہے لیکن اس کا چہرہ دیکھنے کا آئینہ وہ منہ ہیں جن

پر اس کے عشق کی بارشیں ہوئیں ۶۴

راستباز کی معجزانہ زندگی آسمان و زمین سے زیادہ خداتعالیٰ کے وجود پر دلالت کرتی ہے ۴۰

خداتعالیٰ کا پانا اور اس کا دریافت کرنا گناہ سے روکتا ہے ۲۷

وہ تجلیات الہیہ قولی و فعلی جو معجزانہ رنگ میں کسی سعید دل

پر نازل ہوتی ہیں وہ دکھا دیتی ہیں کہ خدا ہے ۳۳

جب تک خدا اپنی قولی و فعلی تجلیات سے اپنی ہستی ظاہر نہ کرے اس وقت تک انسان گناہ سے پاک نہیں ہو سکتا ۳۴

اللہ تعالیٰ کے وجود پر بعض عقلی دلائل کامل خداشناسی اور

تزکیہ نفس کے لئے کافی نہیں ۶۰

اپنی ہستی کو محو کر کے خدا کی وحدت کو اپنے اوپر وارد کر لینا

ہی کامل توحید ہے ۶۴

اگر خدا کا ارادہ انسان کے ارادہ کے مطابق نہ ہو تو انسان ہزار جدوجہد کرے اپنے ارادہ کو پورا نہیں کر سکتا ۳

صفات الٰہیہ

خداتعالیٰ کی صفات کبھی معطل نہیں ہوتیں۔ پس جیسا کہ وہ

ہمیشہ سنتا رہے گا ایسا ہی وہ ہمیشہ بولتا بھی رہے گا ۳۵۵

اللہ تعالیٰ قدیم ہے اور ازل سے غیرمتبدل ہے لیکن ایک تبدیلی جس کی ہم کنہہ نہیں سمجھ سکتے مومن کی تبدیلی کے ساتھ خدا میں بھی ظہور میں آجاتی ہے ۲۴۲

وہ خدا سچا ہے جس کی صفات محض قصے نہیں بلکہ وہ ہمیشہ صادر ہوتی رہتی ہیں ۳۳

وہ قادر ہے کہ ایک تنہاگمنام کو اس قدر ترقی دے کہ لاکھوں

انسان اس کے محب اور ارادتمند ہو جائیں ۱۳۳

خداتعالیٰ غنی اور بے نیاز ہے۔ اس کے فیوض کو اپنی طرف کھینچنے

کے لئے ایسی دعاؤں کی سخت ضرورت ہے جو گریہ و بکا اور

صدق وصفا اور درددل سے پر ہوں ۳۳



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 443

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 443

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/443/mode/1up


اللہ تعالیٰ کی بے نیازی پر نظر رکھتے ہوئے آنحضرت ﷺ

کا باوجود فتح کی بشارات کے بدر کے موقع پر گریہ و زاری

سے دعا کرنا ۲۵۶

خداتعالیٰ کی عادت اسی طرح ہے کہ(مامورین پر) اعتراض کرنے والوں کو اعتراض کرنے کیلئے بہت سی گنجائش دیتا ہے ۹۷

امانت

مومن حتی الوسع خدا اور اس کی مخلوق کی تمام امانتوں کے ہر ایک پہلو کا لحاظ رکھتے ہیں ۲۰۷

خدا تعالیٰ کی امانتوں کی رعایت رکھنے سے مراد ۲۴۰

انسان کی جان ومال اور تمام جسم کے آرام خداتعالیٰ کی امانتیں ہیں جن کو واپس دینا امین ہونے کی شرط ہے ۲۳۲

مومن اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ موٹے طور پر اپنے تئیں امین اور صادق العہد قرار دیں بلکہ ڈرتے رہتے ہیں کہ درپردہ ان سے کوئی خیانت ظہور پذیر نہ ہو ۲۰۸

امت محمدیہ

قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر ایک نبی آنحضرت ﷺ کی امت میں داخل ہے ۳۰۰

امت محمدیہ میں تباہی اس وقت پیدا ہوئی جب قرآن کریم کی تعلیم سے اعراض کیا گیا ۲۹

امت محمدیہ کی امت موسویہ سے مماثلت ۴۰۷

بعض گروہ اس امت کے انبیاء بنی اسرائیل کے قدم پر اور

بعض افراد یہودیوں کے قدم پر چلیں گے ۳۰۲

سورۃ تحریم میں اس امت کے بعض افراد کو مریم سے مشابہت

دی گئی ہے ۱۱۰

احادیث نبویہ میں صراحت سے لکھا گیا ہے کہ آنے والا مسیح

اسی امت میں سے ہوگا ۲۸۳

سورۃ نور میں منکم کا لفظ اشارہ کرتا ہے کہ ہر ایک خلیفہ اسی

امت میں سے ہو گا ۱۰۹

امامکم منکم کے یہی معنی ہیں کہ آنے والا عیسیٰ اسی امت کے افراد میں سے ہو گا ۲۹۹ح

لوگ عیسیٰ کو امتی بناتے ہیں اور خدا امتی کو عیسیٰ بناتا ہے ۲۹۹

ضرور تھا کہ اس امت کا خاتم الخلفاء عیسیٰ کا مثیل ہو ۳۰۲

ایک امتی کا عیسیٰ نام رکھنے میں حکمت ۴۰۷، ۴۰۸

امتی وہ ہے جسے صرف آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کی پیروی کے طفیل ایمان اور کمال نصیب ہو ۳۶۴

قرآن شریف میں اکثر جگہ یہ امید دلائی گئی ہے کہ ایک امتی شرف مکالمہ الٰہیہ سے مشرف ہو سکتا ہے ۳۰۷

حضرت عیسیٰ کو امتی قرار دینا ایک کفر ہے ۳۲۴

انسان

انسان کی روح کو خداتعالیٰ سے ایک تعلق ازلی ہے ۲۰۰

انسان تعبد ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور طبعی طور پر اس کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت موجود ہے ۲۰۰

انسانی نفس محبت الٰہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے ۲۱۷

انسان کی روحانی اور جسمانی پیدائش کے مراتب ستہ ۱۸۵

جب انسان خداتعالیٰ کی طرف رجوع کرنا شروع کرے تو اسی دم سے خداتعالیٰ کا رجوع اس کی طرف شروع ہو جاتا ہے ۲۴۳

انسانی وجود کے مراتب ستہ ۲۳۰ تا ۲۳۴

جب تک انسان پر خدائی تجلیات کا ظہور نہ ہو وہ گناہ سے پاک نہیں ہو سکتا ۳۴

خداکا قانون ہے کہ اس نے کسی انسان کو کسی امر میں خصوصیت نہیں دی ۵۰



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 444

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 444

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/444/mode/1up


انسان فقط اسی چیز کی قدر کرتا ہے جس کی عظمت و طاقت کی

پوری معرفت رکھتا ہو ۳۴

انسان کی سچی پاکیزگی بہت سے دکھ اور مجاہدات کو چاہتی ہے ۳۵

ظلوم اور جہول کے الفاظ انسان کیلئے محل مدح میں آئے

ہیں نہ محل مذمت میں ۲۳۹

ان کے معنے یہ ہیں کہ انسان کی فطرت میں یہ صفت تھی کہ

وہ خدا کے لئے اپنے نفس پر ظلم اور سختی کر سکتا ہے ۲۳۹

تین برس تک انسان کا پہلا جسم تحلیل ہو کر نیا جسم پیدا ہو جاتا

ہے ۳۹۲

انفاق فی سبیل اللہ

انفاق فی سبیل اللہ سے بخل کی پلیدی نکل جاتی ہے اور ایمان

میں شدت اور صلابت پیدا ہوجاتی ہے ۲۰۴

نفس کی پاکیزگی کے بغیر مال کا خدا کی راہ میں نکالا جاناممکن نہیں۔ ۲۳۱

انکسار

وہ شیطان ہے جو خدا کے سامنے انکسار اختیار نہ کرے ۲۶۹

؂ کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار ۱۴۴

ایمان

ایمان کا قوی ہونا یا اعمال صالحہ بجا لانا یہ معرفت تامہ کا

نتیجہ ہے ۳۰۷

زندہ ایمان کے لئے زندہ خدا کی تجلیات ضروری ہیں ۳۰

ان لوگوں کا ایمان کچھ بھی نہیں جو خدا کی تازہ برکات اور تازہ معجزات کے دیکھنے سے محروم ہیں ۷

ایمان اس حد تک ایمان کہلاتا ہے کہ ایک بات من وجہ

ظاہر اور من وجہ پوشیدہ ہو ۴۲

قیامت کے دن ایمان لانا بے کار ہوگا ۴۴

ایمان کے نتیجے میں لغویات سے کنارہ کشی آسان ہوجاتی

ہے ۱۹۸

ایمان بیج ہے۔ نیکی مینہ ہے، مجاہدات ہل ہیں، نفس مرتاض

بیل ہے، شریعت اس کے چلانے کے لئے ڈنڈا ہے اور جو

اناج اس سے پیدا ہوتا ہے وہ دائمی زندگی ہے ۴۲۵

اس کی پاک وحی پر میں ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ

خداتعالیٰ کی تمام کتابوں پر ۷۷

ب

بت پرستی

بت پرستی پست خیالات کی وجہ سے دنیا میں رواج پا گئی ہے ۳۵

؂ ہر طرف ملک میں ہے بت پرستی کا زوال ۱۳۲

بخل

نفس کی ایسی ناپاکی جو ناپاکیوں سے بدتر ہے ۲۰۴

بخل کی پلیدی خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے سے نکل

جاتی ہے ۲۰۳

مومن اپنے نفس کو بخل سے پاک کرنے کے لئے اپنا عزیز مال خدا کی راہ میں دیتے ہیں ۲۰۵

بخل کے دور کرنے کے لئے خداتعالیٰ کی رزاقیت پر قوی

ایمان درکار ہے اور خالی جیب ہونے کی حالت میں ایک

قوی توکل کی ضرورت ہے ۲۳۷

بدظنی

انبیاء کے متعلق ان کے مخالفین کی بدظنیاں ۳۶۸

بد ظنی کے بارے میں اشعار

جو لوگ بدگمانی کو شیوہ بناتے ہیں

تقوی کی راہ سے وہ بہت دور جاتے ہیں

تم دیکھ کر بھی بد کو بچو بدگمان سے

ڈرتے رہو عقاب خدائے جہان سے ۱۸ ،۱۹

گر نہ ہوتی بدگمانی کفر بھی ہوتا فنا

اس کا ہووے ستیاناس اس سے بگڑے ہوشیار ۱۲۹

بدھ مذہب

عیسائی مذہب یا بدھ مذہب نہیں بلکہ اسلام کا مذہب آخرکار دلوں کو فتح کرے گا ۴۲۷



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 445

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 445

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/445/mode/1up


حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ نوٹس جو حضور نے بدھ مذہب کی کسی کتاب کو پڑھ کر لئے تھے ۴۲۳ تا ۴۲۵

بدھ مذہب کی پستکوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کشمیر

میں آنے کا کچھ ذکر ملتا ہے ۴۰۴

برہموسماج

برہموسماج والے بھی خداتعالی کو وحدہ لا شریک کہتے ہیں ۔۔۔روزجزا سزا کو بھی مانتے ہیں اور کلمہ لاالہ الااللہ کے بھی اقراری ہیں ۳۱۱

بروز

صوفیوں کا یہ مقرر شدہ مسئلہ ہے کہ بعض کاملین اس طر ح پر دوبارہ دنیا میں آجاتے ہیں کہ ان کی روحانیت کسی اور پر تجلی کرتی ہے اور اس وجہ سے وہ دوسرا شخص پہلا شخص ہی ہوجاتا ہے ۲۹۱

حضرت محی الدین ابن عربی نے لکھا ہے کہ عیسیٰ تو آئے گا مگر بروزی طور پریعنی کوئی اور شخص اس امت کا عیسیٰ کی صفت پر آئے گا ۲۱۹

عیسائیوں میں بعض فرقے اس بات کے قائل ہیں کہ مسیح کی

آمد ثانی الیاس نبی کی طرح بروزی طور پر ہے ۳۴۲

ہندوؤں میں بھی ایسا ہی اصول ہے اور وہ ایسے آدمی کا نام

اوتار رکھتے ہیں ۲۹۱

بنی اسرائیل

بنی اسرائیل کے پاس مدت تک انبیاء کی تصویریں رہیں

جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی تصویر تھی ۳۶۶

بنی اسرائیل میں عورتوں کو بھی خداتعالیٰ کے مکالمہ و مخاطبہ کا شرف حاصل ہوا ہے جیسے حضرت موسیٰ کی ماں اور مریم صدیقہ کو ۳۵۴

بیعت

بیعت صرف زبانی اقرار کا نام نہیں بلکہ بیعت کے معنے اپنی جان اور مال اور آبرو کو اس راہ میں بیچ دینا ہے ۱۱۴

پ

پاکیزگی

میں طبعاً اس سے کراہت کرتا ہوں کہ لوگوں کے سامنے اپنی

دلی پاکیزگی ظاہر کروں ۱۰۰

سچی پاکیزگی بہت سے دکھ اور مجاہدات کو چاہتی ہے ۳۵

پاک و صاف ہونے کے لئے صرف معرفت کافی نہیں بلکہ

بچوں کی طرح دردناک گریہ وزاری بھی ضروری ہے ۳۳

پیشگوئی؍پیشگوئیاں

قرآن شریف زبردست پیشگوئیوں کے لحاظ سے لاجواب

معجزہ ہے ۵۹

پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے جائز کوشش کرنا سنت ہے ۳۷۰

پیشگوئیوں کی اشاعت کے لئے ملہم مامور نہیں ہوتا ۲۷۹

خداتعالیٰ کی پیشگوئیاں کبھی ظاہری طور پر پوری ہوتی ہیں

اور کبھی استعارہ کے رنگ میں ۲۵۳

میری کسی پیشگوئی پر کوئی ایسا اعتراض نہیں ہو سکتا جو پہلے

نبیوں کی پیشگوئیوں پر نہیں ہو چکا ۲۹۶

عفت الدیار محلھا ومقامھا پر اعتراضات اور ان کے جواب ۱۵۳ تا ۲۴۶

دنیا میں کوئی ایسا نبی یا رسول نہیں گزرا جس نے اپنی کسی پیشگوئی میں اجتہادی غلطی نہ کی ہو ۱۶۸

پیش از وقت کسی پیشگوئی کی پوری حقیقت نہیں کھلتی ۲۴۷

وعیدی پیشگوئیاں استغفار سے ٹل سکتی ہیں ۸۰

یونس نبی کی پیشگوئی قطعی ہونے کے باوجود قوم کی تضرع

اور دعا سے ٹل گئی ۱۸۰

پیشگوئی متعلق احمدبیگ و محمدی بیگم پر اعتراضات ۱۷۹ تا ۱۸۱، ۳۶۹

پیشگوئی متعلق مرزا احمدبیگ شرطی تھی ۳۶۹



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 446

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 446

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/446/mode/1up


احمدبیگ کے متعلق پیشگوئی کے دو حصے تھے اور دونوں

شرطی تھے ۱۷۹ تا ۱۸۰

پیشگوئیوں میں ابہام ۲۴۸، ۲۴۹

ہر ایک نبی کی کوئی نہ کوئی پیشگوئی کافروں پر مشتبہ رہی ہے ۲۰۵

پیشگوئیوں میں اکثر وقت کی تعیین نہیں ہوتی ۲۵۱

مخالفین مکہ نے متٰی ہذا الوعد کہہ کر وقت کی تعیین

چاہی تھی مگر ان کو وقت نہیں بتلایا گیا ۱۷۸

زلزلہ کی پیشگوئی کے وقت کی تعیین ۲۵۹

پیشگوئی کی حقیقی تفسیر کا وقت وہ ہوتا ہے جب وہ پیشگوئی

ظاہر ہو ۹۳ح

ت

تبلیغ

تبلیغ الٰہی احکام کے متعلق ہوتی ہے نہ کہ پیشگوئیوں کے

متعلق ۲۷۹

انبیاء کو حق تبلیغ ادا کرنے درد ۲۶۹ح

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں سامان تبلیغ و اشاعت حق پہلے کسی نبی کے زمانہ میں میسر نہ تھے ۱۹۹

تزکیہ نفس

تزکیہ نفس کسی انسانی منصوبہ سے نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لئے زندہ خدا کی زندہ تجلیات قولی و فعلی ہی واحد علاج ہے ۳۳

نفسانی غلاظتیں اللہ تعالیٰ سے سچے اور پاک تعلق کے ذریعہ

دور ہو تی ہیں ۳۲

کامل طور پر پاک ہونے کے لئے صرف معرفت ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ پردرد دعاؤں کا سلسلہ جاری رہنا بھی

ضروری ہے ۳۳

تصویر (فوٹو)

میں اس بات کا سخت مخالف ہوں کہ کوئی میری تصویر کھینچے اور اس کو بت پرستوں کی طرح اپنے پاس رکھے یا شائع کرے ۳۶۵

میں ہرگز پسند نہیں کرتا کہ میری جماعت کے لوگ بغیر ایسی ضرورت کے جو کہ مضطر کرتی ہے وہ میرے فوٹو کو عام طور پر

شائع کرنا اپنا کسب اور پیشہ بنا لیں ۳۶۷

میرا یہ مذہب نہیں ہے کہ تصویر کی حرمت قطعی ہے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ فرقہء جن حضرت سلیمان کے لئے تصویریں بناتے تھے ۳۶۶

فوٹو کے ذریعہ سے بہت سے علمی فوائد ظہور میں آتے ہیں ۳۶۶

تعبیر رؤیا

آنحضرت صلعم کی تین رؤیا اور ان کی تعبیر ۳۴۷

معبرین نے لکھا ہے کہ جو شخص خواب میں یہ دیکھے کہ وہ زندہ

مع جسم عنصری آسمان پر چلا گیا ہے اس کی تعبیر یہ ہو گی کہ وہ

اپنی طبعی موت سے مرے گا ۳۷۱

تمام معبرین کے اتفاق سے تعبیر کی رو سے زرد رنگ کی چادر

سے مراد بیماری ہوتی ہے ۳۷۳

مجھے رؤیا میں اپنی نسبت یا کسی دوسرے کی نسبت جب کبھی

معلوم ہوا ہے کہ زرد چادر جسم پر ہے تو اس سے بیمار ہونا ہی ظہور میں آیا ہے ۳۷۴

تعلق باللہ

انسان کی روح کو خداتعالیٰ سے ایک تعلق ازلی ہے ۲۰۰

ہیبت اور عظمت الٰہی سے متاثر ہو کر ہمیشہ کے لئے لغوباتوں

اور لغو کاموں کو چھوڑ دینا تعلق باللہ کہلاتا ہے ۲۰۲

مجرد خشوع اور گریہ و زاری کہ جو بغیر ترک لغویات ہو قرب الٰہی اور تعلق باللہ کی علامت نہیں ۱۹۴

لغو تعلقات سے اپنے تئیں الگ کرنا خداتعالیٰ سے تعلق کا

باعث ہے ۲۰۲



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 447

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 447

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/447/mode/1up


تقویٰ

تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے ۲۱۰

؂تقویٰ یہی ہے یاروکہ نخوت کو چھوڑ دو ۱۷

روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا

ہوتی ہے ۲۱۰

متقی وہی ہے جو خدا کی شہادتوں سے متقی ثابت ہو ۳۱۵

حضرت مسیح موعود کی شناخت کے لئے سچا تقویٰ ہونا

شرط ہے ۳۱۵

توارد

اس سوال کا جواب کہ انسان کے قول سے خدا کا بھی توارد ہو سکتا ہے تو خدا کے قول اور بندے کے قول میں فرق کیا ہوا؟ ۴۲۶

اس اشکال کا جواب کہ اگر انسان اور خدا کے کلام میں توارد

ہو سکتا ہے تو ایسا ہونا قرآن شریف کے معجزہ ہونے میں

قدح پیدا کرتا ہے ۱۶۳

بہت سے ایسے نمونے پیش ہو سکتے ہیں جہاں انسانی کلام سے خداتعالیٰ کے کلام کا توارد ہوا ۱۵۷

جبکہ خداتعالیٰ کے کلام کا ایک مرتد کے کلام سے توارد ہو تو اس سے کیوں تعجب کرنا چاہئے کہ لبید جیسے صحابی بزرگوار کے کلام سے اس کے کلام کا توارد ہو جائے ۱۶۲

توبہ

ایک موت کی حالت بنا کر صدق دل سے خداتعالیٰ کی

طرف رجوع کرنا توبہ کہلاتا ہے ۳۷

نفس اگرچہ گناہ کی آگ سے سخت مشتعل ہو جائے پھر بھی

اس میں ایک قوت توبہ ہے کہ وہ اس آگ کو بجھا سکتی ہے ۳۴

جرائم پیشہ بھی اگر توبہ کرے تو وہ عذاب سے بچ سکتا ہے ۱۵۱ح

توبہ نہ قبول ہونے کے عقیدہ نے آریوں کو پاکیزگی نفس

کے حقیقی طریقوں کو اختیار کرنے سے محروم کر دیا ہے ۳۷

وعیدی پیشگوئیاں توبہ و استغفار سے ٹل سکتی ہیں ۱۸۰

یونس کی قوم توبہ و استغفار سے بچ گئی ۳۷۰

توحید

اپنی ہستی کو محو کر کے خدا کی وحدت کو اپنے اوپر وارد کر لینا

ہی کامل توحید ہے ۶۴

۱۹۰۵ء میں زلزلہ سے کانگڑہ کے سولہ سو سالہ پرانے مندر کا گرنا اشاعت توحید کے لئے بطور ارہاص تھا ۱۷۱

ج

جماعت احمدیہ

سنت الہیہ کے موافق ہر ایک مامور کیلئے جماعت کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اس کا ہاتھ بٹائیں اور اس کے مددگار ہوں ۶۷

خداتعالیٰ مسیح موعود کے ذریعہ تمام سعید لوگوں کو ایک مذہب

یعنی اسلام پر جمع کر دے گا ۱۲۶

اب تک تین لاکھ کے قریب اس سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیں ۱۰۸

خدا فرماتا ہے کہ بہت سے لوگ اپنے اپنے وطنوں سے تیرے پاس قادیان میں ہجرت کر کے آئیں گے اور تمہارے گھروں کے کسی حصہ میں رہیں گے وہ اصحاب الصفہ کہلائیں گے ۷۳

وہ لوگ جو اس جماعت سے باہر ہیں کم ہوتے جائیں گے

اور اس سلسلہ میں داخل ہوتے جائیں گے ۹۵

اس جماعت کے لوگ اپنی تعداد اور قوت مذہب کی رو سے

سب پر غالب ہوجائیں گے ۹۵

جماعت کو مخالفین کے سخت رویہ پر صبر اور دعا کی تلقین ۱۴۴

احباب جماعت کو مسیح موعود علیہ السلام کے فوٹو کے شائع

کرنے کے بارے میں نصیحت ۳۶۷

مجھے وقتا فوقتا ایسے آدمیوں (کمزور مبایعین) کا علم دیا جاتا ہے مگر اذن نہیں دیا جاتا کہ ان کو مطلع کروں ۱۱۴



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 448

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 448

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/448/mode/1up


جنت

جنت خلق جدید ہے ۳۸۷ح

بہشت وہ مقام ہے جس میں انواع و اقسام کی جسمانی نعماء

بھی ہوں گی ۳۸۸

بہشت میں داخل ہونے کے لئے جسم کی ضرورت ہے ۳۹۹

مجرد روح بہشت میں داخل ہونے کے لائق نہیں ۳۸۹ح

صرف روح کا بہشت میں داخل ہونا بے معنی اور بے سود ہے ۳۸۸

طیب و طاہر مومن مرنے کے ساتھ ہی بلاتوقف بہشت میں داخل ہوجاتے ہیں ۳۸۷

اس اعتراض کا جواب کہ اگر مومن مرنے کے بعد بلاتوقف جنت میں داخل ہو جاتا ہے تو حشر الاجساد کا انکار لازم

آتا ہے ۳۸۷ح

ح

حسن

انسان کی پیدائش میں دو قسم کے حسن ہیں حسن معاملہ

اور حسن بشرہ ۲۱۸ تا ۲۲۰

حسن روحانی جو حسن معاملہ اور صدق و صفا اور محبت الہیہ

کی تجلی کے بعد انسان میں پیدا ہوتا ہے اس میں ایک

عالمگیر کشش پائی جاتی ہے ۲۲۳

حشر اجساد

حشر اجساد کا دن تجلی اعظم کا دن ہے ۳۸۷

حق الیقین

راستباز کی معجزانہ زندگی کا نشان حق کے طالب کو حق الیقین

تک پہنچاتا ہے ۴۰

حواری

عیسائی خود اس بات کے قائل ہیں کہ بعض حواری ملک ہند

میں ضرور آئے تھے ۳۵۰

تاریخ کی رو سے ثابت ہے کہ کچھ حواری حضرت عیسیٰ کے

ساتھ اور کچھ بعد میں آپ کے ساتھ کشمیر میں آملے تھے ۴۰۱

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری مختلف راہوں سے مختلف وقتوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے ۴۰۲

خ

خاتم الانبیاء

خاتم الانبیاء کے یہ معنی ہیں کہ براہ راست خداتعالیٰ سے

فیض وحی پانا بند ہے اور یہ نعمت بغیر اتباع آنحضرت ﷺ

کے کسی کو ملنا محال ہے ۲۵۲

عیسی بن مریم اسرائیلی نبیوں کا خاتم الانبیاء ہوا ۲۶۷ح

خاتم الولایت

جیسا کہ آنحضرت ﷺ خاتم نبوت ہیں ایسے ہی حضرت

مسیح موعود خاتم الولایت ہیں ۱۱۶

خاتم الخلفاء

حضرت مسیح موعود علیہ السلام خاتم الخلفاء ہیں ۲۶۷ح

خاتم الولد

حضرت مسیح موعود اپنے والد کے لئے خاتم الولد ہیں ۱۱۳

خشوع

خشوع پہلا تخم ہے جو عبودیت کی زمین پر بویا جاتا ہے ۱۸۸

خشوع و رقت انسان کو فیضان رحیمیت کیلئے مستعد بناتا ہے ۱۸۹

خشوع تمام کمالات کے لئے تخم کی طرح ہے مگر اسی حالت کو کمال سمجھنا اپنے نفس کو دھوکا دینا ہے ۲۰۱

خشوع کی حالت اس وقت تک خطرہ سے خالی نہیں جب تک

کہ رحیم خدا سے تعلق نہ پکڑ لے ۱۸۹

مجرد خشوع بغیر ترک لغویات کے قرب الٰہی اور تعلق باللہ کی علامت نہیں ہے ۱۹۴

بسااوقات شریر لوگوں کو بھی کوئی نمونہ قہرالٰہی کا دیکھ کر خشوع

پیدا ہوجاتا ہے ۲۰۱



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 449

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 449

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/449/mode/1up


بت پرستوں اور مخلوق پرستوں کا خشوع وخضوع ۱۹۳

خط، خطوط

دور دور سے مریدانہ خطوط آنے کی پیشگوئی ۷۱

مسیح موعود علیہ السلام کو لاکھوں خطوط موصول ہوئے ۷۵

کئی خطوط امریکہ، انگلیڈ روس وغیرہ سے متواتر آرہے ہیں ۱۰۷

خلق؍ اخلاق

قرآن شریف کی اخلاقی تعلیم تمام دنیا کے لئے ہے مگر انجیل کی اخلاقی تعلیم صرف یہود کے لئے ہے ۴۱۶

جب تک انسان اخلاق ردیہ کو نہیں چھوڑتا تب تک وہ اخلاق فاضلہ کو قبول نہیں کر سکتا ۲۳۰

اخلاق فاضلہ خداتعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں ۲۳۰

اسلامی اخلاق میں یہ داخل ہے کہ اگر وعید کے طور پر کوئی عہد کیا جائے تو اس کا توڑنا حسن اخلاق میں شامل ہے ۱۸۱

خلیفۃ اللہ

وجود روحانی کے مرتبہ ششم میں مومن خلیفۃ اللہ کا لقب پاتا ہے ۲۴۱

مومن بھی ظلی طور پر اخلاق ا ور صفات الہیہ کو اپنے اندر

لے کر خلافت کا درجہ اپنے اندر حاصل کرتا ہے ۴۳۲

اسلام کے سلسلہ خلافت کے آخر پر ایک خلیفہ پیدا ہو گا جو

خاتم الخلفاء ہو گا ۳۰۰

سورۂ نور میں منکم کا لفظ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہریک

خلیفہ اسی امت میں سے ہوگا ۱۰۹

اسلام کا آخری خلیفہ مسیح موعود ہوگا ۴۰۵

د،ذ

دعا

کامل طور پر پاک ہونے کے لئے صرف معرفت کافی نہیں

بلکہ پردرد دعاؤں کا سلسلہ جاری رہنا بھی ضروری ہے ۳۳

باوجود فتوحات کی مسلسل بشارتوں کے آنحضرت ﷺ کا

جنگ بدرکے موقع پر گریہ و زاری سے دعا کرنا ۲۵۵

محبوبان الٰہی کی ہر دعا نہیں سنی جاتی ۲۲۶

کیوں کامل لوگوں کی بعض دعائیں منظور نہیں ہوتیں ۲۲۱

صدقہ و خیرات اور دعا سے ردّ بلا ممکن ہے ۱۸۰

بزرگوں اور مقربین سے دعا کرانے والوں کو کن امور کا خیال رکھنا چاہئے ۲۸۸

دلیل

خداہلاک کرتا ہے اس کو جو دلیل کے ساتھ ہلاک ہو چکا

اور اسے زندہ رکھتا ہے جو دلیل کے ساتھ زندہ ہے ۴۲۱

محض عقلی دلائل سے تو خداتعالیٰ کا وجود بھی یقینی طور پر ثابت

نہیں ہو سکتا ۶۱

محض عقلی دلائل مذہب کی سچائی کے لئے شہادت نہیں رکھتے ۶۰

دنیا

اس دنیا کی عمر حضرت آدم علیہ السلام سے سات ہزار برس

ہے ۱۴۶ح، ۲۵۹

حضرت مسیح موعودؑ کی پیدائش چھٹے ہزار سال کے آخر پر ہے ۱۱۳

دہریت

ہرایک بنیاد جو سست ہے اس کو شرک اور دہریت کھاتی جائے

گی ۳۱۴

آریہ دھرم دہریت سے بہت قریب ہے ۳۷

۱۹۰۵ء کے زلزلہ کے موقع پر بعض دہریہ بھی خدا کے قائل

ہو گئے ۲۰۱

ذوالسنین

احادیث میں ستارہ ذوالسنین کے طلوع ہونے کی پیشگوئی جو پوری ہوئی ۲۸۱

ر

راستباز

خدا کی خاص تجلی سے راستبازوں میں وہ برکتیں پیدا ہو جاتی ہیں جو خدا میں ہیں ۴۵



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 450

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 450

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/450/mode/1up


خدا راستباز کے اقبال کی عمارت کو اپنے ہاتھ سے بناتا ہے ۴۰

راستباز کی معجزانہ زندگی خداتعالیٰ کے وجود پر دلالت کرتی ہے ۳۹

راستباز کی معجزانہ زندگی آسمان و زمین سے زیادہ خداتعالیٰ کے وجود پر دلالت کرتی ہے ۴۰

رفع (نیز دیکھئے نزول اور عیسیٰ کے عنوانات)

رفع الی اللہ بجز موت کی حالت کے کسی حالت نسبت نہیں بولا جاتا ۳۸۴

رفع الی اللہ یہودیوں اور اسلام کے عقیدہ کے موافق اس

موت کو کہتے ہیں ہیں جو ایمانداری کی حالت میں ہو ۳۴۶

خداتعالیٰ کی طرف رفع ہمیشہ روحانی ہی ہوتا ہے ۵۵

قرآن شریف اور احادیث سے ثابت ہے کہ جب مومن

فوت ہوتا ہے تو اس کی روح خدا کی طرف جاتی ہے ۳۴۷

یہود کی شریعت کا یہ مسئلہ تھا کہ جو لوگ صلیب پر مرتے ہیں

ان کا رفع روحانی خداتعالیٰ کی طرف نہیں ہوتا

عیسائی بھی رفع کے بارہ میں غلطی میں پھنس گئے ۵۴

روح

روح بھی خدا کی پیدائش ہے مگر دنیا کے فہم سے بالاتر ہے ۲۱۷

روح مجہول الکنہ ہے جس کی نسبت تمام فلسفی اور اس مادی دنیا کے عقلاء حیران ہیں کہ وہ کیا چیز ہے؟ ۲۱۷

روحانیت کے مراتب ستہ ۱۱۸ تا ۲۱۲

رؤیا

مومن کو آخری درجہ پر رؤیائے صادقہ بکثرت ہوتے ہیں جو

فلق صبح کی طرح ظہور میں آجاتے ہیں ۲۱۴

حدیث صحیح میں ہے کہ اگر کوئی خواب دیکھے اور اس کی کوشش

سے وہ خواب پوری ہو سکے تو اس رؤیا کو اپنی کوشش سے پوری

کر لینا چاہئے ۳۷۰

مجھے رؤیا میں اپنی نسبت یا کسی اور کی نسبت جب کبھی معلوم ہوا کہ زرد چادر بدن پر ہے تو اس سے بیمار ہونا ہی ظہور میں آیا ہے ۳۷۴

ایک بڑھیا کی تیس برس قبل کی خواب جس میں مسیح موعود علیہ السلام کی روح کو سیدعبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ کی روح سے مناسبت دی گئی ہے ۲۲۴ح

ریل

ایک نئی سواری جس کی طرف قرآن شریف اور حدیثوں میں اشارہ تھا ظہور میں آگئی ۳۵۸

ز

زکوٰۃ

زکوٰۃ کا نام اسی لئے زکوٰۃ ہے کہ اس کی بجاآوری سے انسان بخل کی پلیدی سے پاک ہو جاتا ہے ۲۰۳

سچی پاکیزگی بہت سے مجاہدات چاہتی ہے ۳۵

زلزلہ

مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی متعلق زلزلہ ۱۵۱

۳۱مئی ۱۹۰۴ء کو جس زلزلہ کی خبر دی گئی کسی نجومی نے اس

سے قبل اس کی خبر نہیں دی تھی ۱۰۰

پنجاب کا زلزلہ جو پیشگوئی کے مطابق آیا ۱۵۶

زلزلہ ۳ ؍اپریل ۱۹۰۵ء۔ اس زلزلہ سے بعض دہریے بھی

خدا کے قائل ہو گئے ۲۰۱

زمانہ

زمانہ اپنے اندر ایک گردشی دوری رکھتا ہے، نیک ہوں یا بد ،

بار بار ان کے امثال پیدا ہوتے رہتے ہیں ۱۱۷

زمین

زمین کسی جسم کو نہیں چھوڑتی کہ وہ آسمان پر جائے ۴۰۰

ہر ایک انسان زمین پر ہی مرے گا اور زمین میں ہی دفن

کیا جائے گا اور زمین سے ہی نکالا جائے گا ۳۷۳

کس طرح ممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ زمین پر جو انسانوں کے رہنے کی جگہ ہے صرف تینتیس برس تک زندگی گزاریں مگر

آسمان پر جو انسانوں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے دو ہزار برس

تک سکونت اختیار کر رکھیں ۳۹۴



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 451

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 451

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/451/mode/1up


زنا

زنا انسانی نسل کے حلال سلسلہ میں حرام کو ملا دیتا ہے اور

تضیع نسل کا موجب بنتا ہے ۲۰۹

س،ش

سلوک

سلوک کے تمام ہونے کے لئے تین شرطیں ۱۲۶

سلوک کے لئے خدا تعالیٰ کی راہ میں پگھلنا بھی ضروری ہے ۱۵۲

مومن کے لئے نفس کو ترک کرنا ایک آخری امتحان ہے جس پر اس کے تمام مراتب سلوک کے ختم ہو جاتے ہیں ۲۳۸

شفاعت

شفاعت کی حقیقت ۲۲۷

موسیٰ بنی اسرائیل کا شفیع تھا ۱۱۶

شہید

جس نے خداتعالیٰ کی راہ میں اپنی جان کو وقف کر دیا وہ شہید

ہو چکا ۳۹۰

شہداء سبز چڑیوں کی طرح بہشت میں پھل کھاتے ہیں ۳۸۷ح

شیطان

محض توحید کا تو شیطان بھی قائل ہے ۶۴

شیطان سب پر غالب نہیں ۲۹۸

حضرت عیسیٰ کا مس شیطان سے پاک ہونا خصوصیت نہیں

صرف یہود کے الزام کا رد ہے ۳۹۶ح

ص،ظ

صحابہ

یہ مسلم امر ہے کہ ایک صحابی کی رائے شرعی حجت نہیں ہو سکتی۔ شرعی حجت صرف اجماع ہے ۴۱۰

آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد سب صحابہ کا اجماع

ہوا کہ تمام نبی بلااستثناء وفات پا چکے ہیں ۲۸۴

حسن اتفاق سے آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت

تقریبا تمام زندہ صحابہ جو مدینہ میں موجود تھے اکٹھے جمع ہوگئے تھے ۳۷۵ح

صدقہ و خیرات

صدقہ و خیرات اور دعا سے ردّ بلا ہوتی ہے ۸۶

بلا اور وعیدی پیشگوئیاں توبہ و استغفار اور صدقہ و خیرات

سے دفع ہو سکتی ہیں ۱۸۰

صوفیاء

بعض فرقے صوفیوں کے کھلے طور پر حضرت عیسیٰ کی

وفات کے قائل ہیں ۲۹۲

صوفیوں کا یہ مقرر شدہ مسئلہ ہے کہ بعض کاملین اس طرح پر دوبارہ دنیا میں آتے ہیں کہ ان کی روحانیت کسی اور پر تجلی

کرتی ہے ۲۹۱

صلیب

یہود کی شریعت کا یہ مسئلہ تھا کہ جو لوگ صلیب پر مر جاتے

ہیں ان کا رفع نہیں ہوتا اور وہ *** ہوتے ہیں ۵۴، ۵۷

قرآن کا فیصلہ کہ عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر نہیں مارے گئے ۵۳

ٌظلوم و جہول

یہ دونوں لفظ انسان کیلئے محل مدح میں ہیں نہ محل مذمت میں ۲۳۹

ان کے معنے یہ ہیں کہ انسان کی فطرت میں یہ صفت تھی کہ

وہ خدا کے لئے اپنے نفس پر ظلم اور سختی کر سکتا ہے ۲۳۹

ع

عذاب

محض ہندو یا عیسائی ہونے کی وجہ سے کسی پر عذاب نہیں آتا، عذاب کی اصل وجہ فسق وفجور ہے ۱۵۱ح



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 452

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 452

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/452/mode/1up


مخلوق کے نیک کردار اور نیک چلن ہونے کی وجہ سے

عذاب ٹل سکتا ہے ۱۵۱ح

عقل

خدا کی وحی سفلی عقلوں کو تازگی بخشتی ہے ۴۲۸

سچا مذہب صرف عقل کا دریوزہ گر نہیں ہوتا کہ یہ اس کے

لئے عار ہے ۴۷

ایک مذہب کی سچائی کے لئے صرف عقلی دلائل کافی نہیں

بلکہ آسمانی نشانات کا ظہور بھی ضروری ہے ۶۱

عقل اور معقولی علوم کے ذریعہ انسان کے روحانی وجود کے مراتب ستہ کا اثبات ۲۳۰ تا ۲۳۴

علم

انسان کا اپنا علم اور اجتہاد غلطی سے خالی نہیں ۸۹ح

یورپ کے ممالک میں فراست کے علم کو بہت ترقی ہوئی ہے اور اکثر ان کے محض تصویر دیکھ کر شناخت کر سکتے ہیں کہ ایسا مدعی صادق ہے یا کاذب ۳۶۶

علماء

مسیح موعود کی نسبت آثار میں لکھا ہے کہ علماء اس کو قبول نہیں کریں گے اور اکثر مولوی یہودیوں کے مولویوں سے مشابہت پیدا کر لیں گے ۲۷۸

عیسائیت

مورخ لکھتے ہیں کہ تیسری صدی تک دین عیسائی اپنی

اصلیت پر تھا ۴۰۲

ان لوگوں نے جن پر انسان پرستی کی سیرت غالب تھی عیسیٰ

کو خدا بنادیا ۵۷

صلیبی عقیدہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو ان لوگوں کو خوش کرتا ہے

جو کسی ایسے نسخہ کی تلاش میں رہتے ہیں کہ گندی زندگی بھی

موجود ہو اور گناہ بھی معاف ہو جائیں ۳۵

مغربی ممالک میں عیسائیت کی خراب روحانی حالت کی وجہ

سے پیشگوئی سورۃ کہف کے مطابق مسیح موعود مغربی ممالک

کی اصلاح کے لئے کمر باندھے گا ۱۲۰

اکثر پادری ام الخبائث یعنی شراب خوری میں مبتلا ہیں ۳۶

؂ کہتے ہیں تثلیث کو اب اہل دانش الوداع ۱۳۱

ف،ق

فطرت انسانی

طبعی طور پر انسان کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت موجود ہے ۲۰۰

انسان کی فطرت میں ایک صفت تھی کہ وہ خدا کے لئے اپنے نفس پر ظلم اور سختی کر سکتا ہے ۲۳۹

فطرت انسانی میں فرشتوں سے زیادہ قرب پانے اور شیطان سے زیادہ قعر مذلت میں گرنے کی استعدادیں ہیں ۲۶

ہر ایک نبی کی فطرت کا نقش میری فطرت میں ہے ۱۱۶

قبر مسیح

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر سرینگر محلہ خانیار میں ہے ۲۶۲ح

صاحب قبر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میں نبی ہوں اور شاہزادہ ہوں اور میرے پر انجیل نازل ہوئی تھی ۳۵۱

قرآن شریف

قرآن کا معجزہ عرب کے تمام باشندوں کے سامنے پیش کیا گیا لیکن اس کی نظیر پیش کرنے سے عرب کے تمام باشندے عاجز آگئے ۵۹

قرآن علمی معجزات سے بھرا ہوا ہے۔ یہ اس کے منجانب اللہ ہونے کا ثبوت ہے ۲۲۹

انسان کے جسمانی اور روحانی وجود کے مراتب ستہ کا بیان ایسا علمی معجزہ ہے جو بجز قرآن کسی آسمانی کتاب میں نہیں ۲۲۹

خدا کے کلمات علیحدہ علیحدہ تو وہی کلمات ہیں جو کفار کی زبان پر بھی جاری تھے مگر رنگینی عبارت اور نظم کلام اور دیگر لوازم کے لحاظ سے وہی کلمات بحیثیت مجموعی ایک معجزہ کے رنگ میں ہو گئے ۱۸۵



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 453

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 453

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/453/mode/1up


قرآن شریف کی اخلاقی تعلیم تمام دنیا کے لئے ہے مگر انجیل کی اخلاقی تعلیم صرف یہود کے لئے ہے ۴۱۶

قرآن کریم خداتعالیٰ کی ہستی پر زندہ ایمان عطا کرتا ہے ۲۵، ۲۶

قرآن شریف دوسری امتوں کے نیکوں کی بھی تعریف کرتا ہے ۴۱۷

آیات قرآنی میں تقدیم و تاخیر کرنا تحریف ہے ۳۴۷

قضاء وقدر

قضاء وقدر درحقیقت ایک ایسی چیز ہے جس کے احاطہ سے

باہر نکلنا انسان کے اختیار میں نہیں ہے ۳

قیامت

قیامت (حضرت آدم سے )سات ہزار برس تک آجائے گی ۳۶۱

یہ بھی ممکن ہے کہ سات ہزار پورا ہونے کے بعد دو تین صدیاں بطور کسور کے زیادہ ہو جائیں جو شمار میں نہیں آسکتیں ۳۶۱

قیامت کے دن ایمان لانا یا کوئی عمل کرنا فائدہ نہ دے گا ۴۴

ک،گ

کیمرہ

اس کے ذریعہ سے بڑے بڑے مشکل امراض کی تشخیص ہوتی ہے اور اہل فراست کے لئے ہدایت پانے کا ذریعہ ہے ۳۶۷

گناہ

کوئی طریق ایسا نہیں جو گناہ سے پاک کر سکے بجز اس کامل معرفت کے جو کامل محبت اور کامل خوف پیدا کرتی ہے ۷

انسانی نفس اگرچہ گناہ کی آگ سے سخت مشتعل ہو جائے پھر بھی اس میں ایک ایسی قوت توبہ ہے کہ وہ اس آگ کو بجھا سکتی ہے ۳۴

گناہ سے سچی نفرت مسیح کے صلیب دیئے جانے اور اس کو

خدا ماننے نہیں پیدا ہو سکتی ۳۵

انبیاء کے لئے ذنب(گناہ) کے استعمال کا مطلب ۹۰

انبیاء بنی اسرائیل کا اعتراف گناہ ۲۶۹ح

م

محبت؍ محبت الٰہی

محبت بقدر معرفت ہوتی ہے ۱۰۵ح

محبت نفرت کو ٹھنڈا کر کے رفع کر دیتی ہے ۴۲۴

انسانی نفس دراصل محبت الٰہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے ۳۴

محبت سے مراد یکطرفہ محبت نہیں بلکہ خالق اور مخلوق کی دونوں محبتیں مراد ہیں ۲۱۸

خداتعالیٰ سے کمال محبت کی یہی علامت ہے کہ محب میں ظلی طور پر الٰہی صفات پیدا ہوجائیں ۱۲۳

مذہب

سچا مذہب ہزارہا آثار و انوار اپنے اندر رکھتا ہے ۶

سچا مذہب صرف عقل کا دریوزہ گر نہیں ہوتا بلکہ وہ مذہب کی

ذاتی خاصیت بھی پیش کرتا ہے جو آسمانی نشان ہیں ۴۷

مذہب کی اصلی سچائی خداتعالیٰ کی ہستی کی شناخت ہے ۶۰

وہ مذہب ہرگز سچا نہیں ہو سکتا جو خداتعالیٰ کو ان صفات سے متصف نہ قرار دے جن کے ذریعہ اس پر زندہ ایمان پیدا ہوتاہے ۳۲

وہ مذہب کس کام کا مذہب ہے جو زندہ خدا کا پرستار نہیں ۲۸

مذہب صرف زبانی قصہ نہیں بلکہ جس طرح سونا اپنی علامتوں سے شناخت کیا جاتا ہے اسی طرح سچے مذہب کا

پابند اپنی روشنی سے ظاہر ہوجاتا ہے ۴۲۱

خداتعالیٰ کی قدرتوں کو محض ماضی کے قصوں میں بیان کرنے والے مذاہب فسق وفجور پر دلیری پیدا کرتے ہیں ۲۷

مذہب کے نام پر خشک جھگڑے کرنا اور اندرونی بدکاریوں کی اصلاح نہ کرنا مذہب نہیں ۲۸

اصل بدخواہ مذہب اور قوم کے وہ بدکردار لوگ ہوتے ہیں

جو سچی پاکیزگی کی کچھ پروا نہیں کرتے اور صرف انسانی

جوشوں کا نام مذہب رکھتے ہیں ۲۹



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 454

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 454

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/454/mode/1up


آخری دنوں میں طرح طرح کے مذہب پیدا ہو جائیں

گے اور ایک مذہب دوسرے مذہب پر حملہ کرے گا ۱۰۸

آخرکار اسلام کا مذہب دلوں کو فتح کرے گا ۴۲۷

مسلمان

مسلمانوں کی موجودہ حالت ۱۲۹، ۱۳۰

اس زمانہ کے مسلمان افراط و تفریط میں مبتلا ہیں ۱۰۷

موجودہ مسلمانوں کی حالت ذوالقرنین کی اس قوم کے مشابہ ہے جن کے اور سورج کے درمیان کوئی اوٹ نہ تھی اور انہوں نے ذوالقرنین سے کوئی مدد نہ چاہی ۳۱۴

شہودی طور پر ایک ذرہ معرفت ان کو حاصل نہیں ۶۸

مسلمان حضرت عیسیٰ کی طرف ایسے معجزات منسوب کرتے ہیں جو قرآن شریف کی بیان کردہ سنت کے مخالف ہیں ۴۹

موجودہ مسلمانوں کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی چھ خصوصیات جو انہیں فوق البشر قرار دیتی ہیں ۳۹۵

مسیح موعود کی نسبت آثار میں لکھا ہے کہ علماء اس کو قبول نہیں کریں گے اور اکثر مولوی یہودیوں کے مولویوں سے مشابہت پیدا کر لیں گے ۲۷۸

تمام فرقے مسلمانوں کے جو اس سلسلہ سے باہر ہیں وہ

دن بدن کم ہو کر اس سلسلہ میں داخل ہوتے جائیں گے ۹۵

معجزہ

معجزہ کی اصل حقیقت اور ضرورت ۵۹ تا ۶۵

معجزہ اس امر خارق عادت کو کہتے ہیں کہ فریق مخالف اس کی

نظیر پیش کرنے سے عاجز آجائے خواہ وہ امر بظاہر نظر انسانی طاقتوں کے اندر ہی معلوم ہو ۵۹

معجزہ یہ ہے کہ کوئی ایسی بات ظہور میں آجائے جو پہلے اس

سے کسی کے خیال و گمان میں نہ تھی اور امکانی طور پر بھی اس

کی طرف کسی کا خیال نہ تھا ۱۶۴

اگر معجزات نہ ہوں تو پھر خداتعالیٰ کے وجود پر قطعی اور یقینی علامت باقی نہیں رہتی ۵۶

زندہ معجزات و برکات مذہب کے منجانب اللہ ہونے کا ثبوت ہیں ۵

زندہ برکات و معجزات سے سوائے اسلام کے دوسرے مذہب بکلی محروم ہیں ۵

ان لوگوں کا ایمان کچھ بھی چیز نہیں جو خداتعالیٰ کی تازہ برکات

اور تازہ معجزات کے دیکھنے سے محروم ہیں ۷

معجزات کی مثال ایسی ہی ہے جیسے چاندنی رات کی روشنی جس کے کسی حصہ میں کچھ بادل بھی ہو ۴۳

معجزات اور نشانوں کا لکھنا انسان کے اختیار میں نہیں ۶

لیکھرام نے قادیان آکر غیرمعقول معجزات دکھلانے کا

مطالبہ کیا ۴۶

یہودیوں نے حضرت مسیح سے کئی معجزات دیکھے مگر ان سے

کچھ فائدہ نہ اٹھایا ۴۲

معجزات سے فائدہ حاصل کرنے والے لوگ ۴۵

معراج

معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے

حضرت عیسیٰ کو ان مردہ روحوں میں دیکھا جو اس جہان

سے گزر چکی ہیں ۲۸۳، ۲۹۹، ۳۲۱ح

معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے

انبیاء کی صرف روحیں نہیں بلکہ سب کے جسم دیکھے

اور حضرت عیسیٰ کا جسم ان سے الگ طور کا نہ تھا ۳۸۷ح

معرفت الٰہی

تمام محبت اور خوف معرفت پر موقوف ہے ۳۰۸

محبت بقدر معرفت ہوتی ہے ۱۰۵ح

انسان کی فطرت میں معرفت کی پیاس لگا دی گئی ہے ۲۱۷

خدا کی معرفت خدا کے ذریعہ سے ہی میسر آسکتی ہے ۷



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 455

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 455

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/455/mode/1up


معرفت الہیہ کاملہ مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ سے ہی حاصل

ہو سکتی ہے ۳۰۷

ایمان کا قوی ہونا یا اعمال صالحہ بجا لانا اور خداتعالیٰ کی مرضی

کے موافق قدم اٹھانا یہ تمام باتیں معرفت کاملہ کا نتیجہ ہیں ۳۰۱

موجودہ مسلمانوں کو شہودی طور پر ایک ذرہ معرفت

حاصل نہیں ۶۸

آریوں کو خداتعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں ۳۸

مغرب

اہل مغرب کی روحانی حالت ۱۲۰

مسیح موعود اہل مغرب کی اصلاح کے لئے کمر باندھے گا ۱۲۰

مومن

مومن وہ ہیں جو اپنی امانتوں اور عہدوں کی رعایت رکھتے ہیں ۲۴۰

مومن وہ ہیں جو اپنے نفس کو بخل سے پاک کرنے کے لئے

اپنا عزیز مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ۲۰۵

مومن اپنے معاملات میں خواہ خدا کے ساتھ ہوں خواہ مخلوق

کے ساتھ بے قید اور خلیع الرسن نہیں ہوتے ۲۰۸

مومن طبعاً تمام لغویات سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں ۱۹۹، ۲۰۲

مومن کامل اپنی ذات میں غیب الغیب اور وراء الوراء ہوتا ہے۔ دنیا اس کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتی ۲۴۲

ہر ایک مومن کو فرقان عطا ہوتا ہے یعنی امتیازی نشان جس

سے وہ شناخت کیا جاتا ہے ۶۳

اگر ایک طرف تمام دنیا ہو اور ایک طرف مومن کامل تو آخر

غلبہ اسی کو ہوتا ہے ۲۴۳

مومن کا موت کے بعد رفع روحانی ضروری ہے ۵۵

مومنین آزمائے جاتے ہیں ۹۷

ن

نبوت

انبیاء کے اسرار میں دخل دینا ایک بے جا دخل ہے ۳۵۰

عربی اور عبرانی میں نبی کے معنے صرف پیشگوئی کرنے والے

کے ہیں جو خداتعالیٰ سے الہام پا کر پیشگوئی کرے ۳۱۵، ۳۵۲

نبی کے معنے صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا

ہو اور شرف مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہو ۳۰۶

شریعت کا لانا نبی کے لئے ضروری نہیں اور نہ ضروری ہے

کہ وہ صاحب شریعت کا متبع نہ ہو ۳۰۶

قرآن کریم سے ثابت ہے کہ ہر ایک نبی آنحضرت ﷺ

کی امت میں داخل ہے ۳۵۰

انبیاء علیہم السلام کی نسبت یہ بھی ایک سنت اللہ ہے کہ وہ

اپنے ملک سے ہجرت کرتے ہیں ۳۵۰ح

خداتعالیٰ کے حضور اپنے تئیں قصوروار ٹھہرانا نبیوں کی

سنت ہے ۲۶۹ح

کوئی نبی آج تک نہ کبھی مع جسم عنصری آسمان پر گیا اور

نہ واپس آیا ۴۰۶

ہر نبی کی کوئی نہ کوئی پیشگوئی کافروں پر مشتبہ رہی ہے ۳۰۵

کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی کسی پیشگوئی

کے معنے کرنے میں کبھی غلطی نہ کھائی ہو ۲۴۷

انبیاء علیہم السلام سے بے شک غلطی ہو سکتی ہے مگر وہ ہمیشہ

غلطی پر قائم نہیں رکھے جاتے ۲۸۰

نبی برحق کی حقانیت کے لئے ایمان لانے والوں کی کثرت

شرط نہیں ، ہاں دلائل قاطعہ سے اتمام حجت شرط ہے ۳۵۸

ہر نبی کی یہ مراد تھی کہ تمام کفار ان کے زمانہ کے مسلمان

ہو جائیں مگر یہ مراد ان کی پوری نہ ہوئی ۲۲۶

پوری ترقی دین کی کسی نبی کی حین حیات میں نہیں ہوئی بلکہ

انبیاء کا یہ کام تھا کہ انہوں نے ترقی کا کسی قدر نمونہ دکھلایا

اور پھر بعد میں ان کی ترقیاں ظہور میں آئیں ۶۳۵



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 456

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 456

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/456/mode/1up


شریر لوگوں کی طرف سے نبیوں پر بہت سے بے جا حملے ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ فاسق وفاجر ٹھہرائے جاتے ہیں ۹۷

اسماء الانبیاء کا راز جو براہین احمدیہ کے پہلے چار حصوں میں سربستہ تھا ان کی حقیقت بھی منکشف ہو گئی ۴۱۲

نزول(نیز دیکھئے رفع اور عیسی بن مریم)

واپس آنے کے لئے عربی زبان میں رجوع کا لفظ ہے

نہ نزول کا ۲۹۰

مسیح موعود کے لئے نزول کا لفظ ہے جو محض اجلال اور

اکرام کے لئے آتا ہے ۲۹۰

عیسیٰ بن مریم کے نازل ہونے والی احادیث کے وہی

معنے لینے چاہئیں جو حضرت عیسیٰ نے الیاس کے دوبارہ

آنے کی نسبت بیان کئے تھے ۵۲

نشان(نیزدیکھئے معجزہ کا عنوان)

نشان ایک ایسا ضروری امر ہے کہ اس کے بغیر خداتعالیٰ

کے وجود پر پورا یقین کرنا ممکن نہیں ۶۰

بغیرامتیازی نشان کے نہ مذہب حق اور مذہب باطل میں کوئی کھلاکھلاتفرقہ پیدا ہوسکتا ہے اور نہ ایک راستباز اور مکار کے درمیان کوئی فرق بین ظاہر ہو سکتا ہے ۶۲

خدا نے مقبول مذہب اور مقبول بندہ کو امتیازی نشان عطا

کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۶۴

نشان اس درجہ کھلی کھلی چیز نہیں جس کے ماننے کیلئے تمام دنیا بغیراختلاف اور بغیرعذر اور بغیرچون و چرا کے مجبور ہو جائے ۴۵

وہ شخص جو خداتعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اس پر یہ فرض نہیں کہ

وہ ایسے نشان دکھائے جیسے ستارے زمین پر گریں یا آفتاب

مغرب سے طلوع کرے یا بکری کو انسان بنا کر دکھاوے ۴۰

طالب حق کے لئے نشان کا دروازہ بند نہیں ۳۰۴

کوئی مہینہ شاذونادر خالی جاتا ہو گا کہ کوئی نشان ظاہر نہ ہو ۷۲

اگر بہت ہی سخت گیری اور زیادہ سے زیادہ احتیاط سے بھی

شمار کیا جائے تب بھی جو نشان ظاہر ہوئے دس لاکھ سے

زیادہ ہوں گے ۷۲

؂ آسماں بارد نشاں الوقت می گوید زمیں ۱۳۲

؂ اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کردگار ۱۲۹

؂ میں بھی ہوں تیرے نشانوں سے جہاں میں اک نشاں ۱۲۸

نماز

اول درجہ مومن کے روحانی وجود کا وہ خشوع وخضوع ہے

جو نماز اور ذکرالٰہی میں مومن کو میسر آتا ہے ۱۸۸

نماز میں ذوق اور سرور حاصل ہونا اور چیز ہے اور

طہارت نفس اور چیز ۱۹۳

پانچ وقت کی نمازیں پانچ مختلف زمانوں کی عکاسی کرتی ہیں ۴۲۲

و،ی

وحی (نیز دیکھیں الہام اور مکالمہ مخاطبہ)


خدا کی وحی سفلی عقلوں کو تازگی بخشتی ہے ۴۲۸

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیا وحی ہے ۱۶۹

موجودہ مسلمانوں کے وحی والہام کے متعلق نظریات ۶۸

یہ کس قدر لغو اور باطل عقیدہ ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ بعد آنحضرت ﷺ وحی الٰہی کا دروازہ ہمیشہ کے ئے بند ہے ۳۵۴

اس سوال کا جواب کہ کسی نبی کو ایسی وحی ہو جس کے الفاظ پہلے کسی آدمی کی زبان سے نکل چکے ہوں ۲۴۵

یہود

قرآن شریف کا یہ بھی منصب ہے کہ یہود کی ان تہمتوں کو

دور کرے جو حضرت عیسیٰ پر انہوں نے لگائی تھیں ۳۴۰ح



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 457

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 457

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/457/mode/1up


یہود کے ہاتھ میں جو عبرانی توریت ہے وہ بہ نسبت عیسائیوں کے تراجم کے صحیح ہے ۳۵۹ح

یہود نے الیاس کے آنے کی حقیقت نہ سمجھ کر حضرت عیسیٰ کی نبوت اور سچائی سے انکار کیا تھا ۴۰۷

یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام سے کئی معجزات دیکھے

مگر ان سے کچھ فائدہ نہ اٹھایا ۴۲

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق یہود کا تمام جھگڑا

رفع روحانی کا تھا ۵۳

یہودیوں کے عقیدہ کے موافق کسی نبی کا رفع روحانی طبعی موت

پر موقوف ہے اور قتل اور صلیب رفع روحانی کا مانع ہے ۳۸۲ح

توریت میں مثیل موسیٰ کی پیشگوئی کے مبہم ہونے کی وجہ سے لاکھوں یہودی جہنم میں جا پڑے ۲۴۸

جب یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول نہ کیا

تو خدا نے ان کے دلوں پر مہریں لگا دیں ۳۱۵

قرآن کریم کی پیشگوئی کہ ہم نے قیامت تک یہود اور

نصاریٰ میں دشمنی اور عداوت ڈال دی ہے ۴۰۹

یہودی مذہب قیامت تک رہے گا ہاں ذلت و مسکنت ان

کے شامل حال ہو گی اور دوسری طاقتوں کی پناہ میں زندگی

بسر کریں گے ۴۰۹



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 458

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 458

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/458/mode/1up


اسماء

آ

آدم علیہ السلام

آدم بروز جمعہ بوقت عصر پیدا ہوا اور توام پیدا ہوا ۲۶۰ح

آدم کے توام پیدا ہونے کی حکمت ۱۱۳

آدم کو چھ ہزار برس گزر چکے ہیں ۲۵۹

مسیح بن باپ پیدا ہونے کی خصوصیت میں آدم کے

مشابہ ہے ۵۰

خداتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بے پدر ہونے

میں حضرت آدم کی نظیر پیش کی ۳۹۷

مسیح موعودؑ کا نام آدم رکھا گیا ۸۰،۱۱۲

آدم توام پیدا کئے گئے اور مسیح موعود بھی توام پیدا ہوئے ۸۰

آدم اور مسیح موعود کے توام پیدا ہونے کی حکمت ۱۱۳

چھٹا ہزار آدم ثانی (مسیح موعود) کے ظہور کا دن ہے ۲۶۰ح

الف

ابراہیم

مسیح موعود کا نام ’’ابراہیم‘‘ ۱۱۴

ابن عباسؓ

صحیح بخاری میں ابن عباسؓؓ سے آیت انی متوفّیک

کی نسبت یہ روایت لکھی ہے کہ انی ممیتک ۳۷۸ح

ابن ماجہ

یہ حدیث بہت صحیح ہے جو ابن ماجہ نے لکھی ہے کہ

لامہدی الا عیسٰی ۳۵۶

ابوبکر رضی اللہ عنہ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر آپ کا آیت وما محمد الا رسول ۔۔۔کی تلاوت کرنا ۲۸۴،۳۷۵ح

حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کا اس امت پر بہت بڑا احسان ہے۔ اگر وہ تمام صحابہ کو مسجد نبوی میں اکٹھا کر کے یہ آیت نہ سناتے کہ گزشتہ تمام نبی فوت ہو چکے ہیں تو یہ امت ہلاک ہو جاتی ۲۸۵ح

حضرت ابوبکرؓ کے وقت میں تمام صحابہ کا اجماع ہو چکا ہے

کہ تمام نبی فوت ہو چکے ہیں ۵۵

آیت فلیعفوا ولیصفحوا کے نازل ہونے پر

حضرت ابوبکرؓ کا اپنے عہد کو توڑنے کا واقعہ ۱۸۱

جنگ بدر کے موقع پر آنحضور ﷺ کی گریہ وزاری اور

حضرت ابوبکرؓ کی آپ سے التماس ۲۵۶

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر حضور کے منہ سے

چادر ہٹا کر آپ کا فرمانا انت طیّب حیّا و میّتا لن یجمع اللہ علیک الموتتین الا الموتۃ الاولی ۳۷۵ح

ابوجہل

ابوجہل کے لئے خوشہ انگور دینے کی تعبیر عکرمہ کے اسلام لانے کے رنگ میں پوری ہوئی ۲۴۹

ابولہب

ہلاک ہو گئے دونوں ہاتھ ابی لہب کے جن سے فتوی لکھا گیا ۸۴

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

حضرت ابوہریرہؓ کے نزدیک ان من اھل الکتاب کی تفسیر (بحوالہ تفسیر ثنائی) ۴۱۰



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 459

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 459

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/459/mode/1up


کئی مقام میں محدثین نے ثابت کیا ہے کہ جو امور فہم و

درایت سے متعلق ہیں اکثر ابوہریرہؓ نے ان کے سمجھنے

میں ٹھوکر کھائی ہے ۴۱۰

احمد بیگ مرزا

احمد بیگ کے متعلق یہ پیشگوئی تھی کہ اگر وہ خداتعالیٰ کی قراردادہ شرطوں کا پابند نہ ہو تو تین برس پورے سے پہلے ہی فوت ہو جائے گا ۱۷۹ ، ۱۸۰

خود احمد بیگ پیشگوئی کے مطابق میعاد کے اندر فوت ہو گیا جس کی وجہ سے اس کے لواحقین میں خوف اور تضرع پیدا ہوا اور اس بناء پر پیشگوئی کے دوسرے حصہ میں تاخیر ڈال دی گئی ۳۶۹

احمد بیگ کی مثال لیکھرام سے اور اس کے داماد کی مثال ڈپٹی عبداللہ آتھم سے ۱۸۰

اسماعیل

اسماعیلی سلسلہ کی عمارت بالکل اسرائیلی سلسلہ کے مطابق ہے۔ یہی حکمت ہے کہ اس سلسلہ کا عیسیٰ بھی بنی اسماعیل میں سے نہیں کیونکہ مسیح بھی بنی اسرائیل میں سے نہیں تھا ۳۰۳

الیاس

حضرت عیسٰی نے الیاس یعنی ایلیاکے دوبارہ آنے سے یحییٰ کا

آنا مراد لیا ۲۸۶

الیاس نبی کے دوبارہ آنے کا قصہ جس کی وجہ سے کئی لاکھ

یہودی حضرت عیسیٰ کو ردّ کر کے واصل جہنم ہو گئے عقلمندوں

کیلئے عبرت کا مقام ہے ۲۸۸

ایف ۔ ایل۔ اینڈرسن

نیویارک امریکہ کے احمدی۔ آپ کا اسلامی نام حسن رکھا گیا ۱۰۶

اے جارج بیکر

فلاڈیلفیا کے رہنے والے۔ آپ نے اپنے خط میں حضور کے خیالات کے ساتھ اتفاق کیا ۱۰۶

ایلزبتھ

انگلستان کی رہنے والی خاتون جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں احمدی ہو گئی تھیں ۱۰۶

پ،ث

پطرس

یسوع مسیح کا شاگرد جس کا عبرانی میں لکھا ہوا خط انیسویں صدی کے آخر میں یروشلم سے دریافت ہوا ۳۴۴

پولوس

پولوس کا انجیل کی تعلیم سے انحراف ۸۷

پیلاطوس

فلسطین کا رومی گورنر جس نے مسیح علیہ السلام کو یہود کے الزامات سے بری قرار دیا تھا ۳۶۳

سلطنت رومی حضرت عیسیٰ کو باغی قرار دے چکی تھی اور اسی جرم سے پیلاطوس بھی قیصر کے حکم سے قتل کیا گیا تھا ۴۰۲

کپتان ڈگلس ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی پیلاطوس سے مشابہت ۳۶۳

ثناء اللہ پانی پتی۔ قاضی

اپنے رسالہ ’’تذکرۃ المعاد‘‘ میں امام مہدی کے بارے

میں لکھتے ہیں کہ ’’ابدال از شام و عصائب از عراق آمدہ

بادے بیعت کنند‘‘ ۳۵۶

آپ کی تفسیر جو تفسیر مظہری کے نام سے مشہور ہے میں

آیت ’’ان من اھل الکتاب ‘‘ کے ذکر میں ابوہریرہؓ

کی رائے کا رد اور مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر کی تصدیق ۴۱۰

چ،ح،خ


چارلس سورائٹ (عبدالحق)

انہوں نے عفت الدیار محلھا ومقامھا پڑھ کر اس الہام کے پورا ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے خط لکھا ۳۷۳



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 460

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 460

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/460/mode/1up


حافظ شیرازی

حافظ شیرازی کے ایک شعر کا ذکر ۲۱۲

حسن

ایف ایل اینڈرسن نیویارک امریکہ کے عیسائی تھے جو

حضور علیہ السلام کے دست مبارک پر اسلام لائے اور

آپ کا اسلامی نام حسن رکھا گیا ۱۰۶

حسین امام رضی اللہ عنہ

حسین دفاہ القوم فی دشت کربلا ۳۳۵

خضر

خضر کا الہام ۱۲۵

خضر کے کام پر ظاہر شرع کو سراپا اعتراض تھا ۳۱۰

د،ڈ،ذ

داؤد علیہ السلام

داؤد اور کرشن علیہ السلام کی باہمی مشابہتیں ۱۱۷

خداتعالیٰ کے حضور حضرت داؤد کا اعتراف گناہ ۲۶۹ح

دھوما (تھوما) حواری

حضرت عیسی کو دھوما حواری کو واقعہ صلیب کے بعد اپنے

زخم دکھانا ۳۹۰

حضرت عیسیٰ نے اپنی رفاقت کے لئے صرف ایک ہی شخص

یعنی دھوما کو اختیار کیا ۴۰۲

دھوما حواری کا مدراس آنا ۳۵۱

دیوان چند

حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر اسلام قبول کرنا۔

آپ کا اسلامی نام شیخ عبداللہ رکھا گیا ۱۰۶

ڈی۔ ایف۔ سٹراس

مصنف کتاب"New Life of Jesus" ۳۴۲

ڈگلس

مارٹن کلارک کے مقدمہ قتل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بری کرنے والے ضلع گوداسپور کے ڈپٹی کمشنر ۳۶۳

ذوالقرنین

ذوالقرنین وہ ہوتا ہے جو دو صدیوں کو پانے والا ہو ۱۱۸

ذوالقرنین صاحب وحی تھا ۱۱۸

سورۂ کہف میں ذوالقرنین کے ذکر میں تانبے کا ذکر

اور اس سے مراد ۱۲۵

تبلیذوالقرنین کا قصہ مسیح موعود کے زمانہ کے لئے ایک پیشگوئی اپنے اندر رکھتا ہے ۱۱۹

مسیح موعود اس امت کے لئے ذوالقرنین ہے ۱۱۸

قرآن شریف کی آئندہ پیشگوئی کے مطابق وہ ذوالقرنین میں ہوں جس نے ہر ایک قوم کی صدی کو پایا ۳۱۴

ر،ز

رجب علی (پادری)

امرتسر میں اس پریس کا مالک جہاں براہین احمدیہ کی کتابت اور چھپوائی ہوئی ۸۰

رشید احمدگنگوہی مولوی

مصنف رسالہ الخطاب الملیح فی تحقیق المہدی والمسیح

(یہ رسالہ اس نے حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف لکھا) ۳۷۱

زمخشری (صاحب تفسیر الکشاف) علامہ

زبان عرب کا بے مثل امام جس کے مقابل پر کسی کو

چون و چرا کی گنجائش نہیں ۳۸۱

امام زمخشری کی نظر عمیق نہایت قابل تعریف ہے ۳۸۲

امام زمخشری کا آیت یاعیسیٰ انی متوفیک کے معنے

انی ممیتک حتف انفککرنا ۳۶۲، ۳۷۷، ۳۸۱



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 461

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 461

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/461/mode/1up


س،ش ص

سانی لینڈز ڈاکٹر

بٹھنڈا اور ناگپور کے مشنری یتیم خانوں کے پرنسپل تھے۔

اخلاقی جرائم کے ارتکاب پر مستعفی ہوئے ۳۶

ساؤل

ساؤل نبی کا خداتعالیٰ کے حضور اعتراف گناہ ۲۶۹ح

سعدی ۔ مصلح الدین شیخ

شیخ سعدی علیہ الرحمہ کا ایک شعر حسن روحانی کے متعلق ۲۲۵

بوستان سے شیخ سعدی کی ایک منظوم کہانی ۱۸۲

سلیمان علیہ السلام

مسیح موعود کا نام بھی سلیمان رکھا گیا ۱۱۶

سلیمان نبی کے نام سے ایک پہاڑ کشمیر میں موجود ہے ۴۰۳

سیداحمدبریلوی

سیداحمدبریلوی کی نسبت بھی آسمان پر جانے اور دوبارہ آنے کے خیالات کچھ لوگوں میں پائے جاتے ہیں ۲۹۱

شرمپت لالہ

لالہ شرمپت کا براہین احمدیہ کی طباعت کے زمانہ میں بعض دفعہ حضور کے ساتھ امرتسر جانا ۸۰

شیلر میخر

عیسائی ماہر دینیات جس کا عقیدہ تھا کہ یسوع مسیح نے

صلیب پر جان نہیں دی بلکہ بے ہوشی کی حالت میں اتار کر

ان کا علاج کیا گیا ۳۴۳

صدیق حسن خان نواب

ورفعناہ مکانا علیا کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس جگہ

رفع سے مراد رفع روحانی ہے جو موت کے بعد ہوتا ہے ۳۸۵ح

نواب صدیق حسن خان کے نزدیک مسیح موعود کے ظہور کی

یہی صدی ہے ۲۹۵

ع،غ

عائشہ رضی اللہ عنہا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جبرائیل علیہ السلام نے

حضرت عائشہ کی تصویر ایک پارچہ ریشمی پر دکھائی تھی ۳۶۶

عبدالحمید

اس کے متعلق پادری مارٹن کلارک کا کہنا تھا کہ اسے مرزا صاحب نے میرے قتل پر مامور کیا تھا ۲۶۳

عبدالرحمن شہید شیخ رضی اللہ عنہ

امیرکابل کے سامنے گلا گھونٹ کر آپ کو شہید کر دیا گیا ۳۵۷

عبدالرحیم شیخ رضی اللہ عنہ

ہندوؤں میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوئے ۱۰۶

عبدالقادر جیلانی سید رضی اللہ عنہ

سیدعبدالقادر جیلانی کی تعریف میں اشعار ۲۲۴

آپ کی دو کرامات جو مشہور ہیں ۴۹

آپ نے ظلی طور پر بندہ میں صفات الٰہیہ کے پیدا ہونے کی حقیقت بیان کی ہے ۱۲۴

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سیدعبدالقادر کی روح کو خمیرفطرت سے ایک مناسبت ۲۲۴ آؒ الہام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام عبدالقادر رکھا گیا ۸۷

عبدالکریم مولوی رضی اللہ عنہ

آپ کے نام ایک شخص نے خدا کا واسطہ دے کر حضرت

مسیح موعود علیہ السلام کی بعض پیشگوئیوں پر جواب مانگا ۱۸۳

عبداللہ شیخ رضی اللہ عنہ

سابق نام دیوان چند۔ آپ ہندوؤں میں سے اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ

پر مشرف باسلام ہوئے ۱۰۶



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 462

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 462

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/462/mode/1up


عبداللہ آتھم ڈپٹی

اس نے وفات کی پیشگوئی سن کر بہت خوف ظاہر کیا اس

لئے اس کی موت میں تاخیر ڈال دی گئی ۱۸۰

آتھم کی مثال احمد بیگ کے داماد سے ۱۸۰

عبداللہ بن ابی سرح

ابتداء میں قرآن شریف کی بعض آیات کا کاتب تھا پھر

مرتد ہوگیا ۱۸۵

ارتداد کی وجہ ۱۶۲، ۱۸۳، ۱۸۴،۲۴۵

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ

صحیح بخاری میں ابن عباس سے متوفیک کے معنے

ممیتک لکھے ہیں ۲۹۶ح

عبداللطیف شہید صاحبزادہ

آپ ابدال میں سے تھے ۳۵۷

صاحب وحی و الہام تھے۔ علم حدیث و علم قرآن سے ایک

وہبی طاقت ان کو نصیب تھی ۳۲۹ح

پچاس ہزار کے قریب ان کے متبعین اور شاگرد اور

مرید تھے ۳۲۹ح

سرزمین کابل سے ایسے بے نفس متواضع اور راستباز انسان کا وجود خارق عادت امر ہے ۳۲۹ح

علم حدیث کی تخمریزی اور اشاعت اس ملک میں

مولوی صاحب موصوف کے ذریعہ بہت سی ہوئی تھی ۳۲۹ح

چالیس دن تک پتھروں میں ان کی لاش پڑی رہی ۳۵۷

دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ آج تک ان کی قبر میں سے خوشبو آتی ہے ۳۳۰ح

عکرمہ بن ابی جہل

کشف میں ابوجہل کو انگورکا خوشہ دینے کی تعبیر عکرمہ کے

مسلمان ہونے کے رنگ میں پوری ہوئی ۲۴۹

عمررضی اللہ عنہ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں حضرت عمر کا

ایک بڑا پیرہن دیکھا تھا اور اس کی تعبیر تقوی تھی ۳۷۴

قرآن شریف کو بہت جگہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کلام

سے توارد ہوا ہے ۱۵۸، ۱۶۳

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے صدمہ کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بعض منافقوں کے کلمات سن کر

فرمایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ آئیں گے اور منافقوں کا ناک اور کان کاٹیں گے ۳۷۵ح

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر اجماع اس خیال کا ازالہ مطلوب تھا کہ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں آیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پھر دنیا میں واپس آئیں گے ۳۹۱

عیسی بن مریم علیہ السلام

یہودیوں کی تاریخ سے ثابت ہے کہ یسوع (حضرت عیسیٰ) موسیٰ کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوئے ۲۵۹ح

مسیح بنی اسرائیل میں سے نہیں آیا تھا ۳۰۳

حضرت عیسیٰ کے کئی حقیقی بھائی اور کئی حقیقی بہنیں ان کی ایک ہی ماں سے تھیں ۴۰۲ح

سلطنت رومی حضرت عیسیٰ کو باغی قرار دے چکی تھی ۴۰۲

قرآن شریف اور انجیل سے ثابت ہے کہ یہودیوں نے

حضرت عیسیٰ کو رد کر دیا تھا ۴۸

قرآن شریف کا یہ بھی منصب ہے کہ یہود کی ان تہمتوں کو

دور کرے جو حضرت عیسیٰ پر انہوں نے لگائی تھیں ۳۴۰ح

یہود نے الیاس کے آنے کی حقیقت نہ سمجھ کر حضرت عیسیٰ کی نبوت اور سچائی سے انکار کیا تھا ۴۰۷

یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام سے کئی معجزات دیکھے

مگر ان سے کچھ فائدہ نہ اٹھایا ۴۲



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 463

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 463

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/463/mode/1up


عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں نے صرف اس وجہ سے قبول نہیں کیا

تھا کہ ملاکی نبی کی کتاب میں یہ لکھا گیا تھا کہ جب تک الیاس نبی دوبارہ دنیا میں نہیں آئے گا تب تک وہ عیسیٰ ظاہر نہیں ہوگا ۴۰۷

جس طرح آنحضرت ﷺ احد کی لڑائی میں مجروح ہوئے تھے اس سے بہت کم حضرت عیسیٰ کو صلیب پر زخم آئے تھے ۲۶۲ح

حضرت عیسیٰ کو ہلاک کرنے کے بارے میں یہودیوں کے مذہب قدیم سے دو ہیں

۱۔تلوار سے قتل کر کے صلیب پر لٹکانا

۲۔ صلیب دے کر ان کو قتل کرنا ۲۳۷

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بعض یہود کا خیال ہے

کہ پہلے انہیں سنگسار کر کے مارا گیا پھر کاٹھ پر لٹکایا گیا ۳۳۸

صلیب سے زندہ اترنے کے متعلق بعض مفکرین کی آراء ۳۴۲

ہجرت

انجیل میں مسیح کی ہجرت کی طرف اشارہ ۳۵۰ح

حضرت عیسیٰ کی کشمیر کی طرف ہجرت اور سری نگر محلہ خان یار

میں آپ کی قبر ۲۶۲ح

بدھ مذہب کی پستکوں میں حضرت عیسیٰ کے کشمیر آنے کا ذکر ۴۰۱

یوزآسف یسوع آسف کا بگڑا ہوا ہے۔ آسف عبرانی زبان

میں اس شخص کو کہتے ہیں جو قوم کو تلاش کرنے والا ہو ۴۰۴

اس سوال کا جواب کہ حواری حضرت عیسیٰ کے پاس کشمیر میں کیوں نہ پہنچے ۳۵۰

تاریخ کی رو سے ثابت ہے کہ کچھ حواری حضرت عیسیٰ کے

ساتھ اور کچھ بعد میں آپ کے ساتھ کشمیر میں آملے تھے ۴۰۱

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری مختلف راہوں سے مختلف وقتوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے ۴۰۲

حضرت عیسیٰ کا اپنی رفاقت کے لئے ایک ہی شخص یعنی دھوما (تھوما) حواری کو اختیار کرنا ۴۰۲

رفع عیسیٰ

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق یہود کا تمام جھگڑا

رفع روحانی کا تھا ۵۳

قرآن کریم میں زمین کی جو صفات بیان ہوئی ہیں ان کی

رو سے عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر جانا ناممکن ہے ۳۰۰ح

قرآن شریف میں کہیں نہیں لکھا کہ حضرت عیسیٰ کو مع

جسم عنصری دوسرے آسمان پر بٹھایا گیا ۵۵

تبلیغ کے کام کو ناتمام چھوڑ کر حضرت عیسیٰ کا آسمان پر چڑھ جانا سراسر خلاف مصلحت اور اپنے فرض منصبی سے پہلو تہی کرنا تھا ۵۸

نورانی جسم کے ساتھ حضرت عیسیٰ کا آسمان پر جانا بدل وجان منظور ہے ۳۹۰

رفع جسمانی کے عقیدہ سے یہود کا اعتراض دور نہیں ہوتا

قرآن کریم نے اصل اعتراض کا جواب دیا ہے ۲۳۹ح

نزول عیسیٰ

اگر عیسیٰ بن مریم کا دوبارہ آنا مقصود ہوتا تو نزول کی بجائے رجوع کا لفظ استعمال ہوتا ۵۲

حضرت عیسیٰ کے دوبارہ دنیا میں آنے کے عقیدہ سے ان کی ہتک لازم آتی ہے اور ان کی نبوت باطل ٹھہرتی ہے ۵۲ ، ۲۸۸

عیسائیوں میں سے بعض فرقے اس بات کے قائل ہیں کہ

مسیح کی آمد ثانی الیاس نبی کی طرح بروزی طور پر ہے ۳۴۲

کوئی مخالف حضرت عیسیٰ کو آسمان سے اترتے ہوئے نہیں

دیکھے گا ۳۶۹

وفات مسیح علیہ السلام

عیسیٰ علیہ السلام کی وفات قرآن کریم کی رو سے ۱۰۸، ۲۸۲

عالم ارواح میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حضرت یحییٰ

ٰ کے پاس دوسرے آسمان پر بیٹھنا آپ کے وفات یافتہ

ہونے کی دلیل ہے ۳۸۶



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 464

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 464

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/464/mode/1up


وفات عیسیٰ علیہ السلام پر دلائل ۳۲۱ح، ۳۹۱ تا ۴۰۳، ۴۰۶

توفی کے معنوں کے متعلق دو سو روپے کا انعامی چیلنج ۳۸۳

اسلام میں سب سے پہلا اجماع یہی تھا کہ تمام نبی فوت

ہو گئے ہیں ۲۸۴، ۳۷۶ح

امام مالک کا بھی یہی مذہب تھا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو گئے ہیں ۵۶

بعض فرقے صوفیوں کے کھلے طور پر حضرت عیسیٰ کی وفات

کے قائل ہیں ۲۹۲

انجیل میں مسیح کی دعا سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے

مسیح کو صلیب پر مرنے سے بچا لیا ۳۴۳

حضرت عیسیٰ کی پیشگوئیاں

آپ کی بہت سی پیشگوئیاں جو بظاہر پوری نہ ہوئیں ۳۶۳

یہودیوں کی نگاہ میں عیسیٰ علیہ السلام کی جو پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں ۴۲، ۴۳

بعض پیشگوئیاں جن کا حقیقی مفہوم سمجھنے میں حضرت عیسیٰ

نے غلطی کی ۲۵۰

حضرت مسیح کا زلزلوں کے متعلق غیرمعین اور عمومی پیشگوئی کرنا قابل التفات نہیں ۱۵۴

مزعومہ امتیازی خصوصیات

موجودہ مسلمانوں کے نزدیک حضرت عیسیٰ کی چھ خصوصیات جو انہیں فوق البشر ہستی ثابت کرتی ہیں ۳۹۵ تا ۳۹۶

معجزات اور کرامات جو عوام الناس نے حضرت عیسیٰ کی طرف منسوب کئے ہیں وہ سنت اللہ کے سراسر برخلاف ہیں ۵۶

فرضی معجزات کے ساتھ جس قدر حضرت عیسیٰ علیہ السلام متہم کئے گئے اس کی نظیر کسی اور نبی میں نہیں پائی جاتی ۴۷

حضرت عیسیٰ کو غیرمعمولی خصوصیات کا حامل قرار دینا بت پرستی کے مترادف ہے ۴۰۶

روح القدس سے دائمی رفاقت کا مفہوم ۳۹۶ح

غلام احمد قادیانی مرزا

مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام

جمعہ کے دن آپ کی پیدائش ۱۱۳، ۲۶۰ح

توام پیدائش ہوئی ۲۶۹ح، ۳۶۴

جیسا کہ آدم توام پیدا کیا گیا میں بھی توام ہی پیدا ہوا تھا ۸۰

آدم اور مسیح موعود کے توام پیدا ہونے کی حکمت ۱۱۳

میں اپنے والد کے لئے خاتم الولد تھا میرے بعد کوئی بچہ

پیدا نہیں ہوا ۱۱۳

میں زمین کی سلطنت کے لئے نہیں بلکہ آسمان کی سلطنت

کے لئے آیا ہوں ۱۰۳

دو زرد چادروں میں ملبوس ہو کر نازل ہونے مراد

دو بیماریاں ۷۷، ۳۷۳

بہت سی نسل کا وعدہ دیا گیا جیسا کہ حضرت ابراہیم کو دیا

گیا تھا ۷۹

لکھا گیا تھا کہ آدم علیہ السلام سے ہزار ششم کے اخیر پر وہ

مسیح موعود پیدا ہو گا ۳۵۸

مجھے وقتاً فوقتاً ایسے آدمیوں (کمزور مبایعین) کا علم دیا جاتا ہے مگر اذن نہیں دیا جاتا کہ ان کو مطلع کروں ۱۱۴

اس سوال کا جواب کہ مسیح موعود کا نام قرآن شریف اور اناجیل میں عیسی بن مریم کیوں رکھا گیا ۵۰۴

مسیح موعود مجدد ہے ۵۶

مسیح موعود کے ذریعہ ایک روحانی انقلاب پیدا ہو گا اور بہت

سے لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں گے ۸۳

میں خداتعالیٰ کی طرف سے حکم ہو کر آیا ہوں ۳۷۷

مسیح موعود سب غلطیوں کو ایک حَکم کے منصب پر ہو کر دور کرے گا ۸۱

مجھے خداتعالیٰ نے میری وحی میں بار بار امتی کر کے بھی پکارا ہے ۳۵۵

حدیثوں میں صاف لکھا ہے وہ عیسیٰ اسی امت میں سے ہو گا ۵۲

ایک امتی کا عیسیٰ نام رکھنے کی مصلحت ۴۰۷



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 465

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 465

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/465/mode/1up


خداتعالیٰ نے میرا نام عیسیٰ ہی نہیں رکھا بلکہ ابتداء سے انتہاء تک جس قدر انبیاء کے نام تھے وہ سب میرے نام رکھ دیئے ۱۱۲

میرا نام آسمان پر عیسیٰ وغیرہ ہونا وہ راز تھا جس کو اسی طرح خداتعالیٰ نے صدہا سال تک مخفی رکھا جیسا کہ اصحاب کہف

کو مخفی رکھا تھا ۴۱۲

ایک نبی بھی ایسا نہیں گزرا جس کے خواص یا واقعات میں

سے اس عاجز کو حصہ نہیں دیا گیا ۱۱۶

ہر ایک نبی کی فطرت کا نقش میری فطرت میں ہے ۱۱۶

میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں

نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار ۱۳۳

مسیح موعودؑ کا نام ’’آدم‘‘ ۸۰، ۱۱۲، ۱۱۳، ۱۲۸، ۱۳۳ ۲۶۰ح

مسیح موعودؑ کا نام ’’نوح‘‘ ۱۱۳

مسیح موعودؑ کا نام ’’ابراہیم‘‘ ۱۱۴، ۱۳۳

مسیح موعودؑ کا نام ’’یعقوب‘‘ ۱۳۳

مسیح موعودؑ کا نام ’’یوسف‘‘ ۹۷، ۹۸، ۹۹، ۱۰۳، ۱۱۵

مسیح موعودؑ کا نام ’’موسیٰ‘‘ ۱۱۶، ۱۳۳

مسیح موعودؑ کا نام ’’داؤد‘‘ ۱۱۶

مسیح موعودؑ کا نام ’’سلیمان‘‘ ۱۱۶

مسیح موعودؑ کا نام ’’ذوالقرنین‘‘ ۱۱۸، ۱۲۰، ۳۱۴، ۳۶۰

مسیح موعودؑ کا نام ’’مریم‘‘ ۳۶۲

مسیح موعودؑ کا نام ’’عیسیٰ بن مریم‘‘ ۱۱۰، ۱۳۸، ۱۴۱، ۲۷۸ح،

۲۹۰، ۳۰۰، ۳۰۳، ۳۰۴، ۳۱۸، ۳۳۳،

۳۶۱، ۳۶۶، ۴۰۵، ۴۰۷

مسیح موعودؑ کا نام ’’احمد‘‘ ۱۱۶، ۳۶۰

مسیح موعودؑ کا نام ’’عبدالقادر‘‘ ۸۸، ۱۱۶، ۳۶۰، ۲۲۴

مسیح موعود کا مقام ۸۰، ۸۱، ۸۳، ۱۱۶، ۱۴۴، ۱۴۵، ۴۲۷

مسیح موعود کے فرائض منصبی ۱۲۰، ۱۲۲، ۳۵۹، ۴۲۶

مسیح موعود کا علم و معرفت ۷، ۵۶، ۶۶، ۶۷، ۱۱۱، ۲۹۸،

۳۰۳، ۴۱۱، ۴۱۲

مسیح موعود کے دلائل صداقت ۱۰، ۱۹، ۲۱، ۱۱۹، ۳۹۳، ۲۹۴،

۳۲۳، ۳۳۵ح، ۳۵۸

حضرت مسیح موعود کے نشانات ۸، ۷۳، ۱۲۶، ۱۶۰، ۱۵۴، ۱۷۹،

۲۷۳، ۲۸۱

سارے نشان دس لاکھ تک پہنچتے ہیں ۷۲، ۱۸۴

کوئی مہینہ شاذونادر خالی جاتا ہو گا کہ کوئی نشان ظاہر نہ ہو ۷۲

اگر بہت ہی سخت گیری اور زیادہ سے زیادہ احتیاط سے بھی

شمار کیا جائے تب بھی جو نشان ظاہر ہوئے دس لاکھ سے

زیادہ ہوں گے ۷۲

؂ آسماں بارد نشاں الوقت می گوید زمیں ۱۳۲

؂ اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کردگار ۱۲۹

؂ میں بھی ہوں تیرے نشانوں سے جہاں میں اک نشاں ۱۲۸

مسیح موعود کی نسبت آثار میں لکھا ہے کہ علماء اس کو قبول نہیں کریں گے اور اکثر مولوی یہودیوں کے مولویوں سے مشابہت پیدا کر لیں گے ۲۷۸

مخالفت اور اس کا انجام ۸۴، ۱۰۱تا ۱۰۳، ۲۶۴، ۲۹۷، ۳۱۵،

۳۵۷، ۳۶۲،

ایک نصیحت کرنے والے امام (مسیح موعود علیہ السلام) کی آمد سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ جو حدیث میں تھا پورا ہو گیا ۳۳۳

ف،ک

فارقلیط

عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ فارقلیط کامل تعلیم لائے گا ۵

فرعون

فرعون نے حضرت موسیٰ پر بھی بدظنی کی ۳۶۸

فضل حق شیخ رضی اللہ عنہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر ہندوؤں میں سے مشرف باسلام ہوئے ۱۰۶



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 466

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 466

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/466/mode/1up


کرشن علیہ السلام

ہندوؤں میں ایک نبی گزرا ہے جس کا نام کرشن تھا ۱۷۷

کرشن اور داؤد علیہ السلام کی باہمی مشابہت ۱۱۷

مسیح موعود میں کرشن کی صفات ۱۷۷

کرم دین

اس نے ناحق بے موجب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر فوجداری مقدمے کئے ۷۵

اس مقدمہ میں ایک ہندومجسٹریٹ کا ارادہ تھا کہ قید کی سزا دے مگر خداتعالیٰ نے کسی غیبی سامان سے اس کے دل کو اس ارادہ سے روک دیا ۹۹، ۸۴

کرم دین کے مقدمہ میں مولویوں نے دروغ مصلحت آمیز

کے جواز کا فتوی دیا تھا ۲۷۴

کور

یروشلم کا راہب جس کی جائداد میں سے ایک عبرانی خط بھی

ملا جو پطرس کا لکھا ہوا ہے ۳۴۴

ل،م

لبید بن ربیعہ رضی اللہ عنہ شاعر اسلامی

اس نے نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا بلکہ

زمانہ ترقیات اسلام کا بھی خوب دیکھااور ۴۱ہجری میں

ایک سو ستاون برس کی عمر پا کر فوت ہوا ۱۶۳

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام عفت الدیار محلھا ومقامھا لبیدؓ کا مصرع ہے ۱۸۵

اس سے کیوں تعجب کرنا چاہئے کہ لبید جیسے صحابی بزرگوار

کے کلام سے خدا کے کلام کا توارد ہوجائے ۱۶۲

لیکھرام

لیکھرام کے قتل کا واقعہ اسلام اور آریہ مذہب میں ایک

امتیازی نشان تھا ۴۶

لیکھرام نے پیشگوئی سن کر بہت شوخی ظاہر کی اور بدگوئی میں حد سے زیادہ بڑھ گیا اس لئے وہ اصلی میعاد سے پہلے اٹھا لیا گیا ۴۶

لیکھرام کی مثال احمدبیگ سے ۱۸۰

لیکھرام کے قتل ہونے کے وقت بھی میرے پھنسانے کی کوشش کی گئی ۸۴

مارٹن کلارک ڈاکٹر پادری

اس نے مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اقدام قتل کا

مقدمہ کیا ۷۴،۸۴، ۳۶۳

محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم

ہزارہادروداُس نبی معصوم پر جس کے وسیلہ سے ہم اس پاک مذہب میں داخل ہوئے ۲۵

توریت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشگوئی ۲۴۸

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لئے اور ہر ایک

اسود و احمر کے لئے مبعوث ہوئے تھے ۳۶۵

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم ایک عظیم الشان روحانی حُسن لے کر آئے ۲۰۰

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم نبوت ہیں ۱۱۶

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خاتم الانبیاء فرمایا گیا ہے

اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ آپ کے بعد دروازہ مکالمات و مخاطبات الٰہیہ کا بند ہے ۳۵۳

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور کامل اتباع انسان کو مکالمات الٰہیہ سے مشرف کر دیتی ہے ۳۵۴

ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس درجہ کا نبی ہے کہ اُس کی اُمت کا ایک فرد نبی ہو سکتا ہے اور عیسیٰ کہلا سکتا ہے ۳۵۵

خاتم الانبیاء کے یہ معنے ہیں کہ براہِ راست خدا تعالیٰ سے فیضِ وحی پانا بند ہے اور یہ نعمت بغیر اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کو ملنا محال اور ممتنع ہے ۳۵۳



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 467

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 467

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/467/mode/1up


اسلام کے خاتم الانبیاء کا نام احمد اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم



ہے ۴۱۵

قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر ایک نبی آنحضرت

صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں داخل ہے ۳۰۰

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ ہیں ۱۱۰،۲۰۳،۴۰۵،۴۰۷

جب یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول نہ کیا

اور تعصّب اور کینہ سے باز نہ آئے تو خدا نے اُن کے دلوں پر مہریں لگا دیں ۳۱۵

حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کا و عدہ مطھرک من الذین کفروا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پورا ہوگیا ۳۴۸

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے وقت باوجود اس کے

کہ کفّار عین غار ثور کے سر پر پہنچ گئے تھے پھر اُن کی آنکھوں

سے پوشیدہ رہے۔ ۳۵۰

آپ کی صداقت کی دلیل کہ اُ مّی ہونے کے باوجود قرآن

جیسی معارف اور علوم سے پر کتاب لائے ۲۲۹

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں اس کے تمام احکام

کی تکمیل ہوئی ۶۶ح

آپ کا طریق ادب ربوبیت کو ملحوظ رکھ کر فتح کی بشارت ہونے کے باوجود بدر کے میدان میں گریہ وزاری سے دعا کرنا ۲۵۶

جو دنیا میں افضل الرسل اور خاتم الرسل گزرا ہے اس کے منہ

سے بھی یہی نکلا ربنااغفرلنا ذنوبنا ۲۷۱

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی کم مائیگی

کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں ما عبدناک حق عبادتک ۲۷۱ح

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے معراج کی رات حضرت عیسیٰ

علیہ السلام کو اُن مُردہ رُوحوں میں دیکھا جو اِس جہان سے گذر چکی ہیں ۲۸۳

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو نبیوں کے سردار ہیں ۔ آپ پر

بھی پیرانہ سالی کے علامات ظاہر ہو گئے تھے ۳۹۵

جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو بعض صحابہ کا

یہ بھی خیال تھا کہ آپ فوت نہیں ہوئے اور پھر دنیا میں

واپس آئیں گے ۲۸۴

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم کو آپ کی وفات سے سخت صدمہ گذرا تھا ۳۷۵

اگر کوئی انسان آسمان کی طرف پرواز کر سکتا ہے تو اس بات

کیلئے ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم زیادہ لائق تھے ۳۳۲

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پوری کامیابی کے ساتھ

انتقال ہوا ۲۹۲

جس نے خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان کو وقف کر دیا وہ شہید ہوچکا۔ پس اس صورت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم

اول الشہداء ہیں ۳۹۰

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت

حسان بن ثابت کے اشعار ۲۸۵

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد صد ہا جاہل عرب مرتد ہو گئے تھے ۲۸۶ح

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک جو لوگ سچّے دل سے ایمان لائے تھے وہ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نہ تھے ۳۵۸

یہ بات عقلِ سلیم قبول نہیں کر سکتی کہ ایک مفتری کو ایک ایسی

لمبی مہلت دی جائے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے

زمانۂ بعثت سے بھی زیادہ ہو ۲۹۳

اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سیّد الرسل کو کافروں

اور مشرکوں کے منصوبوں سے بچا کر فتح کامل عطا فرمائی ۲۹۸

مسیح موعودکی آمد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ

جو حدیث میں تھا پورا ہو گیا ۳۳۳



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 468

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 468

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/468/mode/1up


محمداکرام اللہ

انہوں نے روزنامہ پیسہ اخبار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زلزلوں سے متعلق پیشگوئیوں پر اپنی ناسمجھی کی بناء پر کچھ اعتراضات کئے تھے حضور نے ضمیمہ براہین میں ان کا جواب دیا ہے ۱۵۳

محمدحسین بٹالوی ابوسعیدمولوی

اپنے رسالہ میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ حضور اس زمانہ میں دین کی حمایت میں منفرد ہیں ۳۳۵ح

اس نے مولوی نذیرحسین سے حضور کے خلاف فتوی تکفیر

دلوایا اور اسے سارے ہندوستان میں شائع کیا ۸۵

محمدحسین ابولہب ہے کیونکہ استفتاء لکھ کر اس نے دراصل

آگ کو بھڑکایا ہے ۸۴ح

حضور کے خلاف پادری ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مشہور

مقدمہ قتل میں مستغیث کی طرف سے گواہ بنا ۳۶۳

مولوی محمدحسین کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصائح ۲۹۲

محمدعبدالواحد سید

مسئلہ وفات مسیح پر حضور نے ضمیمہ براہین احمدیہ میں آپ کے بعض شبہات کا ازالہ فرمایا ہے ۲۳۶ تا ۳۷۰

محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ

انہوں نے اپنی آخری کتاب میں لکھا ہے کہ عیسیٰ تو آئے گا

مگر بروزی طور یعنی کوئی اور شخص اس امت کا عیسیٰ کی صفت

پر آئے گا ۲۹۱

مریم علیہا السلام

سورۂ تحریم میں اس امت کے بعض افراد کو مریم سے

مشابہت دی گئی ہے ۱۱۰

جب مریم میں روح پھونکی گئی تھی تو اس کے یہی معنے تھے کہ

اس کو حمل ہو گیا تھا جس حمل سے عیسیٰ پیدا ہوا ۱۱۰

خدا نے ایک روحانی مشابہت کے لحاظ سے میرا نام مریم

رکھا ۱۱۰، ۳۶۲

اس امت سے کوئی فرد اول مریم کے درجہ پر ہو گا اور پھر اس

مریم میں نفخ روح کیا جائے گا ۱۱۰

ملاکی نبی

صحیفہ ملاکی میں لکھا ہے کہ یہودیوں کا مسیح موعود نہیں آئے گا

جب تک کہ الیاس نبی دوبارہ دنیا میں آسمان سے نازل ہو کر

نہ آئے ۲۸۷

موسیٰ علیہ السلام

آپ کی والدہ کو الہام ۱۲۵

موسیٰ بڑا حلیم تھا، ہمیشہ صبر کرتا تھا اور بنی اسرائیل کا شفیع تھا ۱۱۶

خداتعالیٰ کے حضور اعتراف گناہ ۲۶۹ح

حضرت موسیٰ کو کرشمہ قدرت دکھلانے کے لئے پہاڑ پھٹا تھا

تو اس وقت بھی زلزلہ آیا تھا ۲۶۶

مثیل موسیٰ کے متعلق یہود اور عیسائیوں کا اعتقاد ۲۴۹

مسیح موعود کا نام موسیٰ بھی رکھا گیا ۱۶۶

نذیر حسین دہلوی مولوی

مولوی محمدحسین بٹالوی کے استفتاء پر انہوں نے حضور کے

خلاف فتویٰ کفر دیا ۸۵

ن،و،ہ،ی

نوح علیہ السلام

خدتعالیٰ نے مسیح موعود کا نام نوح بھی رکھا ہے ۱۱۳

خدا نے نوح کے زمانہ میں ظالموں کو قریباً ایک ہزار سال

مہلت دی ۱۱۳

ولی اللہ شاہ محدث دہلوی

انہوں نے متوفیک کے معنے ممیتک کے کئے ہیں ۲۹۶



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 469

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 469

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/469/mode/1up


ہامان

ہامان کا لفظ ہیمان کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے معنے ہیں جو کسی وادی میں اکیلا سرگردان پھرے ۸۲ح

یحییٰ

جس طرح خدا نے میرا نام عیسیٰ رکھا اسی طرح خدا نے یحییٰ

کا نام الیاس رکھ دیا تھا ۲۹۰

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یحییٰ کی بعثت کو الیاس کا دوبارہ دنیا میں آسمان سے نازل ہونا قرار دیا ۲۸۶

الیاس نبی کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی حضرت یحییٰ علیہ السلام کے ظہور سے پوری ہو گئی ۲۵۴ح

یشوعا

یہود کہتے ہیں کہ مثیل موسیٰ یشوعا نبی تھا جو موسیٰ کے فوت

ہونے کے بعد اس کا جانشین ہوا ۲۵۹

یوزآسف

یہ لفظ یسوع آسف کا بگڑا ہوا ہے۔ آسف عبرانی زبان میں

اس شخص کو کہتے ہیں جو قوم کو تلاش کرنے والا ہو ۲۰۴

یوزآسف کی کتاب میں صریح لکھا ہے کہ اس پر خداتعالیٰ کی طرف سے انجیل اتری تھی ۴۰۴

محلہ خان یار کشمیر میں یوزآسف یا شہزادہ نبی کی قبر

حضرت عیسیٰ کی قبر ہے ۴۰۳

یوسف علیہ السلام

یوسف بھی شریر لوگوں کی بدگمانیوں سے نہیں بچ سکا ۱۰۱

یوسف پر زلیخا کے لگائے ہوئے الزامات سے بریت ۹۸

مسیح موعود کا نام بھی یوسف رکھا گیا ۱۱۵

؂ آرہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے

گو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اس کا انتظار ۱۳۱

یونس علیہ السلام

یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ و دعا سے ان پر عذاب کی

قطعی پیشگوئی بھی ٹل گئی ۱۸۰، ۳۷۰



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 470

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 470

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/470/mode/1up


مقامات

ا،ب،پ

افغانستان

حضرت عیسیٰ علیہ السلام صیلب سے بچ کر پوشیدہ طور پر ایران

اور افغانستان کا سفر کرتے ہوئے کشمیر پہنچے ۲۶۲ح

امریکہ

امریکہ کے احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ۱۰۶

یورپ اور امریکہ کے لوگ ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے

تیاری کر رہے ہیں اور اس سلسلہ کو بڑی عظمت کی نگاہ سے

دیکھتے ہیں ۱۰۷

امریکہ کے عیسائیوں میں ایک بڑا گروہ احمدیت میں

داخل ہو گا ۱۰۵

ایران

حضرت عیسیٰ صلیب سے بچ کر پوشیدہ طور پر ایران اور

افغانستان کے راستے کشمیر پہنچے ۲۶۲ح

خدتعالیٰ مجھے باپ کے لحاظ سے فارسی الاصل اور ماں کے

لحاظ سے فاطمی ٹھہراتا ہے ۳۶۴

بدر

غزوہ بدر کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گریہ و زاری ۲۵۵

برہمن بڑیہ ضلع ٹپرا ملک بنگال

یہاں کے قاضی اور مدرس مولوی سید محمد عبدالواحد کے بعض

شبہات اور ان کے جواب ۳۴۲

پنجاب

پنجاب کی تاریخ کی شہادت کہ مسیح موعود کی پیشگوئی کے

مطابق آنے والا زلزلہ فوق العادت تھا ۱۵۴

سو لہ سو برس تک پنجاب میں اس زلزلہ کی نظیر نہیں ۱۵۶،۱۶۱

ح،خ

حدیبیہ

حدیبیہ کا سفر پیشگوئی کے سمجھنے میں غلطی کی بنا پر تھا ۲۵۰

خیبر

خیبر پر فتح پانے سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے

فرمایا تھا کہخربت خیبر خیبر خراب ہوگیا ۱۷۱

د،ر

دھرم سالہ

دھرم سالہ اور کانگڑہ کے مندر جو الہام عفت الدیار کے

مطابق زلزلہ سے تباہ ہوئے ۱۵۷ح

رجام

نجد کا ایک شہر جس کا ذکر لبید رضی اللہ عنہ کے قصیدہ میں ہے ۲۴۵

س،ش

سری نگر

سری نگر محلہ خان یار میں حضرت عیسیٰ کی قبر ہے ۲۶۲ح

سہارن پور

سہارنپور کے نواح میں مولوی رشید احمد گنگوہی کے مرید

ان کے رسالہ کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۳۷۱ ، ۴۱۰

شام

عبرانی زبان میں ملک شام کو اشیر کہتے ہیں ۴۰۲

اس ملک میں ہمیشہ سے زلزلے آیا کرتے ہیں ۱۵۴

غ،ق،ک

غول

نجد کا ایک شہر جس کا ذکر لبید رضی اللہ عنہ کے قصید میں ہے ۲۴۵



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 471

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 471

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/471/mode/1up


قادیان

لوگ ارادت اور اعتقاد سے قادیان میں آئیں گے اور

جن راہوں سے آئیں گے وہ سڑکیں ٹوٹ جائیں گی ۷۳

بہت سے لوگ اپنے اپنے وطنوں سے تیرے پاس قادیان

میں ہجرت کر کے آئیں گے ۷۳

اب تک کئی لاکھ انسان قادیان میں آچکے ہیں ۷۵

خدا نے اس ویرانہ یعنی قادیان کو مجمع البحار بنایا کہ

ہر ایک ملک کے لوگ یہاں آکر جمع ہوتے ہیں ۹۵

کابل

خداجانتا ہے (دوشہداء کی) ان موتوں سے اس ملک کابل

میں کیا کیا بہتری پیدا ہوگی ۸۵

سرزمین کابل سخت دلی اور بے مہری اور تکبر اور نخوت

میں مشہور ہے ۳۲۹ح

کانگڑہ

کانگڑہ میں ہندوؤں کا مندر جو زلزلہ سے تباہ ہو گیا دو ہزار سال

پرانا تھا ۱۵۷ح، ۱۶۵ح

کشمیر

یہ لفظ دراصل عبرانی ہے جو ک اور اشیر کے لفظ سے مرکب

ہے۔ اشیر عبرانی زبان میں شام کے ملک کو کہتے ہیں

یعنی شام کے ملک کی طرح ۴۰۲

کشمیر زبان میں یہ اب تک کشیر ہی بولا اور لکھا جاتا ہے ۴۰۳

حضرت عیسیٰ صلیب سے بچ کر ایران و افغانستان کا سیر کرتے ہوئے کشمیر میں پہنچے اور ایک لمبی عمر وہاں بسر کی۔ آخر فوت

ہو کر سری نگر محلہ خانیار میں مدفون ہوئے ۲۶۲ٗ

کشمیر کے ملک میں بہت سی چیزوں کے نام ابھی تک عبرانی

میں پائے جاتے ہیں ۴۰۳

سلیمان نبی کے نام سے ایک پہاڑ کشمیر میں موجود ہے ۴۰۳

ل،م،ن،ہ،ی

لاہور

لاہور کا نولکشور پریس ۔اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اشتہار شائع ہوا ۲۷۶

مدراس

مدراس میں تھوما حواری کا آنا اور ان کی قبر پر ہر سال

عیسائیوں کا اجتماع ہونا ۲۸۱

منیٰ

منیٰ دو ہیں ایک منیٰ مکہ اور ایک منیٰ نجد میں ہے ۲۴۵

ھجر (عرب کا ایک قصبہ)

ایک رؤیا کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال تھا کہ

یمامہ یا ہجر کی طرف ہجرت ہو گی ۱۶۹

یمامہ

ایک رؤیا کی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال تھا کہ یمامہ کی طرف ہجرت ہو گی ۱۶۹

یورپ

احمر سے مراد اہل یورپ ہیں ۳۶۵

یورپ اور امریکہ کے لوگ ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں ۱۰۷

یورپ کے عیسائیوں میں سے ایک گروہ احمدیت میں شامل

ہوگا ۱۰۵

؂ آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج ۱۳۱

سورۃ کہف کی پیشگوئی کہ مسیح موعود مغربی ممالک

(یورپ و امریکہ) کی اصلاح کے لئے کمر باندھے گا ۱۲۰



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 472

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 472

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/472/mode/1up


ازالہ اوہام (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام

ازالہ اوہام میں حضور نے تحریر فرمایا کہ زلزلہ کی پیشگوئی

قابل وقعت چیز نہیں بلکہ مہمل اور ناقابل التفات ہے

اور پھر زلزلوں کی پیشگوئیاں کی ہیں اس سوال کا جواب ۱۵۴

اشاعۃ السنہ

مولوی ابوسعید محمدحسین بٹالوی کا رسالہ جس میں انہوں نے براہین احمدیہ پر انتہائی عظیم الشان تعریفی ریویو لکھا ۳۳۵ح

انجیل

انجیل کا دعویٰ کامل اور جامع تعلیم کا نہیں ۴،۵

قرآن شریف کی اخلاقی تعلیم تمام دنیا کے لئے ہے مگر انجیل

کی اخلاقی تعلیم صرف یہود کے لئے ہے ۴۱۶

خنزیرخوری اور تین خدا بنانے کا حکم اب تک انجیلوں

میں نہیں پایا جاتا ۵۸

اعمال باب ۵ آیت ۳۰ کا ترجمہ اردو انجیلوں میں بدلا

گیا ہے ۳۳۹

انجیل میں موجود حضرت عیسیٰ کی دعا سے ظاہر کرتی ہے کہ

اللہ تعالیٰ نے انہیں صلیب پر مرنے سے بچا لیا ۳۴۳

انجیل میں بھی مسیح کی ہجرت کی طرف اشارہ ہے ۳۵۰ح

انجیل میں زلزلوں اور لڑائیوں کے متعلق پیشگوئیوں میں

وقت اور زمانہ کی کوئی تعیین نہیں ۲۵۱

انجیل میں موجود بہت سی پیشگوئیاں جو پوری نہیں ہوئیں ۲۶۳

موجودہ اناجیل سے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت بھی

ثابت نہیں ہوتی ۲۶۴

یوز آسف کی کتاب میں صریح لکھا ہے کہ اس پر خداتعالیٰ کی طرف سے انجیل اتری تھی ۴۰۴

انجیل میں فارقلیط کے آنے کی پیشگوئی ۵

انجیل میں حضرت مسیح کے معجزہ مانگنے پر حضرت مسیح کا یہود کو جواب ۴۳

صلیب کے موقع پر حضرت مسیح کی دعا ۳۴۳

بخاری صحیح

صحیح بخاری میں بھی جو بعدکتاب اللہ اصح الکتب کہلاتی ہے

توفی کے معنی مارنا ہی لکھے ہیں ۳۷۸ح

صحیح بخاری میں صاف لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے معراج

کی رات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مردہ روحوں میں دیکھا ۲۸۳

صحیح بخاری او مسلم میں ہے کہ آنے والا مسیح اسی امت میں

سے ہو گا ۱۰۹، ۱۱۰

بخاری باب الہجرۃ کی حدیث ذھب وھلی سے

اجتہادی غلطی کا استنباط ۱۶۸

براہین احمدیہ (پہلے چار حصے)

(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

امرتسر کے پادری رجب علی کے پریس میں چھپی۔ حضور خود اکیلے پروف پڑھتے اور طباعت کے لئے امرتسر تشریف

لے جاتے ۸۰

براہین احمدیہ حصہ پنجم(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

پہلے حصوں سے تقریباً تیئس برس مکمل ہونے پر اس کی

اشاعت ہوئی ۳

اس التوا میں ایک یہ حکمت تھی کہ تا وہ تمام امور ظاہر ہو جائیں جن کی نسبت براہین احمدیہ کے پہلے حصوں میں پیشگوئیاں

ہیں ۸

ممکن نہ تھا کہ بغیرظہور ان امور کے جو حصص سابقہ کے بطور

شرح کے تھے پنجم حصہ لکھا جاتا کیونکہ وہی امور تو پنجم حصہ

کے لئے نفس مضمون تھے ۴۱۱



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 473

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 473

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/473/mode/1up


دوسرا سبب اس التوا کا یہ تھا کہ تا ان لوگوں کے دلی خیالات

ظاہر ہو جائیں جو بدگمانی کے مرض میں مبتلا تھے ۹

اس میں دو قسم کے دلائل اسلام کی حقانیت کے لکھے گئے ہیں(تعلیم کا اکمل وجامع ہونا اور زندہ برکات و معجزات) ۷

کتاب کا ایک نام ’’نصرۃ الحق‘‘ اور اس کی وجہ تسمیہ ۸

پچاس سے پانچ پر اکتفاء کی وجہ ۹

بوستان

بوستان سے ایک منظوم مثال کہ زبان بعض دفعہ پوشیدہ

نادانی پر سب کو مطلع کر دیتی ہے ۱۸۲

پیسہ( اخبار)

اس کے ایک پرچہ میں حضور کی زلزلہ کی پیشگوئیوں پر

اعتراضات ۱۵۳

زلزلہ پنجاب کی پیشگوئی کا اس اخبار میں شائع ہونا ۱۶۴

اخبار میں مولوی محمدحسین بٹالوی کے بعض اعتراضات ۲۶۴

تاج العروس

عربی زبان کی مشہور لغت جس میں توفی کے معنی موت

لکھے ہیں ۳۷۷ح

تذکرۃ المعادمصنفہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی

اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ

ابدال از شام و عصائب از عراق آمدہ باوے بیعت کنند ۳۵۶

تفسیرثنائی(مرتبہ مولوی ثناء اللہ پانی پتی)

تفسیر ثنائی میں آیت ’’ان من اھل الکتاب‘‘ کی تفسیر میں

مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر کی تصدیق ۴۱۰

تفسیر فتح البیان از نواب صدیق حسن خان

رفعناہ مکانا علیا کے متعلق لکھا ہے کہ اس مراد رفع روحانی ہے جو موت کے بعد ہوتا ہے ۲۹۶ح

تفسیر کبیر(فخرالدین رازی)

صاحب تفسیر کبیر نے لکھا ہے کہ انسان اور الٰہی کلام کے توارد

سے قرآن شریف کے اعجاز پرکوئی قدح وارد نہیں ہوتا ۱۶۳

تفسیر الکشاف(علامہ زمخشری)

علامہ زمخشری نے متوفیک کے معنے ممیتک حتف انفک لکھے ہیں ۳۷۷ح، ۳۴۷ و ۳۶۲

توریت

توریت کامل نہیں ۴

یہودیوں کے ہاتھ میں جو عبرانی توریت ہے وہ بہ نسبت عیسائیوں کے تراجم کے صحیح ہے ۳۵۹ح

توریت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت پیشگوئی

۲۴۸، ۴۰۵،

توریت میں بخت نصر اور طیطوس رومی کی نسبت جو پیشگوئی تھی اس کا زمانہ معین نہیں بتلایا گیا ۲۵۱

توریت میں یہ صاف حکم تھا کہ جو شخص بذریعہ صلیب مارا جائے وہ *** ہوتا ہے ۷۵

توریت کی رو سے یہودیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اگر نبوت کا دعویٰ کرنے والا مقتول ہو جائے تو وہ مفتری ہوتا ہے اور اگر وہ صلیب دیا جائے تو وہ *** ہوتا ہے ۳۴۵

تولیدوت یشوع

عبرانی زبان میں علماء یہود کی انیس سو سال قبل کی ایک تصنیف جس میں یہ ذکر ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو پہلے سنگسار کر کے مار

ڈالا گیا اور بعد میں کاٹھ پر لٹکایا گیا ۳۳۸

جیوش انسائیکلوپیڈیا ۳۴۲ح

الخطاب الملیح فی تحقیق المہدی والمسیح

مولوی رشیداحمدگنگوہی کی تصنیف جو انہوں نے حضرت

مسیح موعود علیہ السلام کی تکذیب میں لکھی اور حضور نے

اس کے شبہات کا جواب دیا ۳۷۱ تا ۴۱۰



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 474

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- انڈیکس: صفحہ 474

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/474/mode/1up


رسالہ آمین (فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام

مطبوعہ ۱۹۰۱ء جس میں زلزلہ کی پیشگوئی بھی ہے ۱۶۵، ۱۶۶

ریویو آف ریلیجنز (رسالہ)

فلاڈیلفیا امریکہ کے ڈاکٹر اے جارج بیکر نے ریویو میں حضور علیہ السلام کا نام اور تذکرہ پڑھ کر لکھا کہ مجھے آپ کے خیالات سے بالکل اتفاق ہے ۱۰۶

سبعہ معلقہ

سبعہ معلقہ کا چوتھا قصیدہ لبید بن ربیعہ العامری کا ہے۔ اسی کا ایک مصرعہ مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا ۱۶۲

سول اینڈ ملٹری گزٹ

لاہور کا انگریزی اخبار جس میں زلزلہ کانگڑہ کے متعلق محققین طبقات الارض کے مضامین شائع ہوئے کہ گزشتہ سولہ سو سال میں پنجاب میں ایسا زلزلہ نہیں آیا ۱۶۱، ۱۶۵ح

طالمود

یہود کی حدیث کی کتاب ۳۴۲ح

ماڈرن تھاٹ انیڈ کرسچن بیلیف

(Modern Thought and Christian Belief)

اس میں ذکر ہے کہ قدیم محققین کا یہ مذہب تھا کہ یسوع نے صلیب پر جان نہیں دی ۳۴۳

مسلم صحیح

مسلم و صحیح بخاری کی حدیث سے یہ ثابت ہے کہ آنے والا

مسیح اسی امت میں سے ہو گا ۳۶۰، ۲۸۳

مسلم میں آنے والے عیسیٰ کا نام نبی رکھا گیا ہے ۳۶۰

یرمیاہ

یرمیاہ۱؍۴۸ عہد نامہ قدیم میں ماضی کا استعمال مضارع کے معنوں میں ۱۷۰ح

یسعیاہ

(یسعیاہ۵؍۲۱ عہدنامہ قدیم میں) ماضی کا استعمال مضارع

کے معنوں میں ۱۷۰ح
 
Top