• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 6 ۔ حجۃ الاسلام ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
روحانی خزائن جلد 6۔ حجۃ الاسلام۔ یونی کوڈ

Ruhani Khazain Volume 6. Page: 41
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 41
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 42
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 42
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کوئی اُس پاک سے جو دل لگاوے
کرے پاک آپ کو تب اُسکو پاوے
یہ تو ہر ایک قوم کا دعویٰ ہے کہ بہتیرے ہم میں ایسے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہیں۔مگر ثبوت طلب یہ بات ہے کہ خدا تعالیٰ بھی اُن سے محبت رکھتاہے یا نہیں ۔ اور خدا تعالیٰ کی محبت یہ ہے کہ پہلے تو اُن کے دلوں پر سے پردہ اُٹھاوے جس پردہ کی وجہ سے اچھی طرح انسان خدا تعالیٰ کے وجود پر یقین نہیں رکھتا اور ایک دُھندلی سی اور تاریک معرفت کے ساتھ اس کے وجود کا قائل ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات امتحان کے وقت اسکے وجود سے ہی انکار کر بیٹھتا ہے اور یہ پردہ اُٹھا یا جانا بجز مکالمہ الہٰیہ کے اور کسی صورت سے میسر نہیں آ سکتا پس انسان حقیقی معرفت کے چشمہ میں اس دن غوطہ مارتا ہے جس دن خدا تعالیٰ اس کو مخاطب کر کے انا الموجود کی اس کو آپ بشارت دیتا ہے۔ تب انسان کی معرفت صِرف اپنے قیاسی ڈھکوسلے یا محض منقولی خیالات تک محدود نہیں رہتی بلکہ خدا تعالیٰ سے ایسا قریب ہو جاتا ہے کہ گویا اس کو دیکھتا ہے اور یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان اسی دن انسان کو نصیب ہوتا ہے کہ جب اللہ جلّ شانہٗ اپنے وجود سے آپ خبر دیتا ہے ۔ اور پھر دُوسری علامت خدا تعالیٰ کی محبت کی یہ ہے کہ اپنے پیارے بندوں کو صرف اپنے وجود کی خبر ہی نہیں دیتا بلکہ اپنی رحمت اور فضل کے آثار بھی خاص طور پر اُن پر ظاہر کرتا ہے اور وہ اس طرح پر کہ اُنکی دُعائیں جو ظاہری اُمیدوں سے زیادہ ہوں قبول فرما کر اپنے الہام اور کلام کے ذریعہ سے انکو اطلاع دے دیتا ہے تب اُن کے دل تسلّی پکڑ جاتے ہیں کہ یہ ہمارا قادر خدا ہے جو ہماری دُعائیں سُنتا اور ہم کو اطلاع دیتا اور مشکلات سے ہمیں نجات بخشتا ہے ۔ اسی روز سے نجات کا مسئلہ بھی سمجھ آتا ہے اور خدا تعالیٰ کے وجود کا بھی پتہ لگتا ہے اگرچہ جگانے اور متنبّہ کرنے کے لئے کبھی کبھی غیروں کو بھی سچی خواب آسکتی ہے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 43
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 43
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
مگر اس طریق کا مرتبہ اور شان اور رنگ اور ہے یہ خدا تعالیٰ کا مکالمہ ہے جو خاص مقربوں سے ہی ہوتا ہے اور جب مقرب انسان دُعا کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اپنی خدائی کے جلال کیساتھ اس پر تجلّی فرماتا ہے اور اپنی رُوح اُس پر نازل کرتا ہے اور اپنی محبت سے بھرے ہوئے لفظوں کے ساتھ اس کو قبولِ دُعا کی بشارت دیتا ہے اور جس کسی سے یہ مکالمہ کثرت سے وقوع میں آتا ہے اس کو نبی یا محدث کہتے ہیں اور سچے مذہب کی یہی نشانی ہے کہ اس مذہب کی تعلیم سے ایسے راستباز پیدا ہوتے رہیں جو محدث کے مرتبہ تک پہنچ جائیں جن سے خدا تعالیٰ آمنے سامنے کلام کرے اور اسلام کی حقّیت اور حقانیت کی اوّل نشانی یہی ہے کہ اس میں ہمیشہ ایسے راستباز جن سے خدا تعالیٰ ہمکلام ہو پیدا ہوتے ہیں ۔33 ۱؂ سو یہی معیار حقیقی سچے اور زندہ اور مقبول مذہب کی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ نور صرف اسلام میں ہے عیسائی مذہب اس روشنی سے بے نصیب ہے۔ اور ہماری یہ بحث جو ڈاکٹرکلارک صاحب سے ہے اس غرض اور اسی شرط سے ہے کہ اگر وہ اس مقابلہ سے انکار کریں تو یقیناًسمجھوکہ عیسائی مذہب کے بطلان کے لئے یہی دلیل ہزار دلیل سے بڑھ کر ہے کہ مردہ ہر گز زندہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور نہ اندھا سُوجاکھے کے ساتھ پورا اتر سکتا ہے ۔
والسلام علی من اتبع الھدی ۔
۵ مئی ۱۸۹۳ء ؁
خاکسار
میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 44
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 44
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بِسْمؔ اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم
نَحْمَدہٗ وَ نُصَلِّی علٰی رسولہِ الکَرِیْم
ڈاکٹر پادری کلارک صاحب کا جنگ مقدس
اور اُن کے مقابلہ کیلئے
اشتہار
واضح ہو کہ ڈاکٹر صاحب مندرج العنوان نے بذریعہ اپنے بعض خطوط کے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ علماء اسلام کے ساتھ ایک جنگ مقدس کے لئے طیاری کر رہے ہیں انہوں نے اپنے خط میں یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ جنگ ایک پورے پورے فیصلہ کی غرض سے کیا جائے گا اور یہ بھی دھمکی دی کہ اگر علماء اسلام نے اس جنگ سے مُنہ پھیر لیا یا شکست فاش کھائی تو آئندہ ان ؔ کا استحقاق نہیں ہوگا کہ مسیحی علماء کے مقابل پر کھڑے ہو سکیں یا اپنے مذہب کو سچا سمجھ سکیں یا عیسائی قوم کے سامنے دم مار سکیں۔ اور چونکہ یہ عاجزانہیں روحانی جنگوں کے لئے مامور ہو کر آیا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام پا کر یہ بھی جانتاہے کہ ہر ایک میدان میں فتح ہم کو ہے اس لئے بلا توقف ڈاکٹر صاحب کو بذریعہ خط کے اطلاع دی گئی ہے کہ ہماری عین مراد ہے کہ یہ جنگ وقوع میں آکر حق اور باطل میں کُھلا کُھلا فرق ظاہر ہوجائے اور نہ صرف اسی پر کفایت کی گئی بلکہ چند معزز دوست بطور سفیران پیغامِ جنگ ڈاکٹرصاحب کی خدمت میں بمقام امرت سر بھیجے گئے جن کے نام نامی یہ ہیں :۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 45
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 45
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
مرزا ۱خدا بخش صاحب ۔ منشی عبدالحق۲صاحب ۔ حافظ محمد یو۳سف صاحب ۔ شیخ رحمت اللہ۴ صاحب۔ مولوی ۵عبدالکریم صاحب ۔ منشی غلام۶ قادر صاحب فصیح ۔ میاں محمد۷یوسف خاں صاحب ۔ شیخ نورا۸حمدصاحب ۔ میاں محمدا کبر۹ صاحب ۔ حکیم محمد اشر۱۰ف صاحب ۔حکیم نعمت۱۱ اللہ صاحب ۔ مولوی ۱۲غلام احمدصاحب انجینئر۔ میاں محمد بخش ۱۳صاحب ۔خلیفہ نورالد۱۴ین صاحب ۔ میاں محمد اسمٰعیل۱۵ صاحب۔
تب ڈاکٹر صاحب اور میرے دوستوں میں جو میری طرف سے وکیل تھے کچھ گفتگو ہو کر بالا تفاق یہ بات قرار پائی کہ یہ مباحثہ بمقام امرت سر واقع ہو اور ڈاکٹر صاحب کیؔ طرف سے اِس جنگ کا پہلوان مسٹر عبداللہ آتھم سابق اکسٹرا اسسٹنٹ تجویز کیا گیا اور یہ بھی اُن کی طرف سے تجویز کیا گیا کہ فریقین تین تین معاون اپنے ساتھ رکھنے کے مجاز ہونگے اور ہر یک فریق کو چھ چھ دن فریق مخالف پر اعتراض کرنے کے لئے دئے گئے اس طرح پر کہ اوّل چھ روز تک ہمارا حق ہوگا کہ ہم فریق مخالف کے مذہب اور تعلیم اور عقیدہ پر اعتراض کریں مثلاً۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی الُوہیّت اور اُن کے منجّیہونے کے بارہ میں ثبوت مانگیں یا اور کوئی اعتراض جو مسیحی مذہب پر ہوسکتا ہے پیش کریں ایسا ہی فریق مخالف کا بھی حق ہوگا کہ وہ بھی چھ روز تک اسلامی تعلیم پر اعتراض کئے جائیں ۔ اور یہ بھی قرار پایا کہ مجلسی انتظام کے لئے ایک ایک صدر انجمن مقرر ہو جو فریق مخالف کے گروہ کو شور و غوغا اور ناجائز کارروائی اور دخل بیجا سے روکے اور یہ بات بھی باہم مقرّ ر اور مسلّم ہو چکی کہ ہریک فریق کے ساتھ پچاس سے زیادہ اپنی قوم کے لوگ نہیں ہونگے اور فریقین ایک سو ٹکٹ چھاپ کر پچاس پچاس اپنے اپنے آدمیوں کے حوالہ کریں گے اور بغیر دکھلانے ٹکٹ کے کوئی اندر نہیں آسکے گا اور آخر پر ڈاکٹر صاحب کی خاص درخواست سے یہ بات قرار پائی کہ یہ بحث ۲۲ مئی ۱۸۹۳ء ؁ سے شروع ہونی چاہیئے انتظام مقام مباحثہ اور تجویز مباحثہ ڈاکٹر صاحب کے متعلق رہا
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 46
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 46
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اور وہی اس کے ذمّہ ؔ دار ہوئے ۔ اور بعد طے ہونے ان تمام مراتب کے ڈاکٹر صاحب اور اخویم مولوی عبدالکریم صاحب کی اس تحریر پر دستخط ہوگئے جس میں یہ شرائط بہ تفصیل لکھے گئے تھے اور یہ قرار پایا کہ ۱۵ مئی ۱۸۹۳ء ؁تک فریقین ان شرائط مباحثہ کو شائع کر دیں اور پھر میرے دوست قادیان میں پہنچے اور چونکہ ڈاکٹر صاحب نے اس مباحثہ کا نام جنگ مقدس رکھا ہے اس لئے ان کی خدمت میں بتاریخ ۲۵ ؍اپریل ۱۸۹۳ء ؁ کو لکھا گیا کہ وہ شرائط جو میرے دوستوں نے قبول کئے ہیں وہ مجھے بھی قبول ہیں لیکن یہ بات پہلے سے تجویز ہوجانا ضروری ہے کہ اس جنگ مقدس کا فریقین پر اثر کیا ہوگا۔ اور کیونکر کُھلے کُھلے طور پر سمجھا جائیگاکہ درحقیقت فلاں فریق کو شکست آگئی ہے کیونکہ سالہاسال کے تجربہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ معقولی اور منقولی بحثوں میں گو کیسی ہی صفائی سے ایک فریق غالب آجائے مگر دوسرے فریق کے لوگ کبھی قائل نہیں ہوتے کہ وہ درحقیقت مغلوب ہوگئے ہیں بلکہ مباحثات کے شائع کرنے کے وقت اپنی تحریرات پر حاشیئے چڑھا چڑھا کر یہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اپنا ہی غالب رہنا ثابت ہو اور اگر صرف اسی قدر منقولی بحث ہو تو ایک عقلمند پیشگوئی کر سکتا ہے کہ یہ مباحثہ بھی انہیں مباحثات کی مانند ہوگا جو ابتک پادری صاحبوں اور علماء اسلام میں ہوتے رہے ہیں بلکہ اگر غور سے دیکھا ؔ جائے تو ایسے مباحثہ میں کوئی بھی نئی بات معلوم نہیں ہوتی پادری صاحبوں کی طرف سے وُہی معمولی اعتراضات ہوں گے کہ مثلاََ اسلام زور شمشیر سے پھیلا ہے اسلام میں کژت ازدواج کی تعلیم ہے ۔ اسلام کا بہشت ایک جسمانی بہشت ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ایسا ہی ہماری طرف سے بھی وہی معمولی جواب ہونگے کہ اسلام نے تلوار اُٹھانے میں سبقت نہیں کی اور اسلام نے صرف بوقت ضرورت امن قائم کرنے کی حد تک تلوار اُٹھائی ہے اور اسلام نے عورتوں اور بچّوں اور راہبوں کے قتل کرنے کیلئے حکم نہیں دیا بلکہ جنہوں نے سبقت کر کے اسلام پر تلوار کھینچی وہ تلوار سے ہی مارے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 47
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 47
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
گئے۔ اور تلوار کی لڑائیوں میں سب سے بڑھ کر توریت کی تعلیم ہے جس کی رو سے بیشمار عورتیں اور بچّے بھی قتل کئے گئے جس خدا کی نظر میں وہ بے رحمی اور سختی کی لڑائیاں بُری نہیں تھیں بلکہ اُس کے حکم سے تھیں تو پھر نہایت بے انصافی ہوگی کہ وہی خدا اسلام کی ان لڑائیوں سے ناراض ہو جو مظلوم ہونے کی حالت میں یا امن قائم کرنے کی غرض سے خداتعالیٰ کے پاک
نبی صلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَ سَلّم
کو کرنی پڑی تھیں ایسا ہی کثرت ازدواج کے اعتراض میں ہماری طرف سے وہی معمولی جواب ہوگا کہ اسلام سے پہلے اکثر قوموں میں کثرت ازدواج کی سینکڑوںؔ اور ہزاروں تک نوبت پہنچ گئی تھی اور اسلام نے تعداد ازدواج کو کم کیا ہے نہ زیادہ ۔ بلکہ یہ قرآن میں ہی ایک فضیلت خاص ہے کہ اس نے ازدواج کی بے حدی اور بے قیدی کو رد کر دیا ہے ۔ اور کیا وہ اسرائیلی قوم کے مقدس نبی جنہوں نے سَو سَو بیوی کی بلکہ بعض نے سات سو تک نوبت پہنچائی وہ اخیر عمر تک حرامکاری میں مبتلا رہے اور کیا اُن کی اولاد جن میں سے بعض راستباز بلکہ نبی بھی تھے ناجائز طریق کی اولاد سمجھی جاتی ہے ۔ ایسا ہی بہشت کی نسبت بھی وہی معمولی جواب ہوگا کہ مسلمانوں کا بہشت صرف جسمانی بہشت نہیں بلکہ دیدار الٰہی کا گھر ہے اور دونوں قسم کی سعادتوں روحا نی اور جسمانی کی جگہ ہے ہاں عیسائی صاحبوں کا دوزخ محض جسمانی ہے ۔
لیکن اس جگہ سوال تو یہ ہے کہ ان مباحثات کا نتیجہ کیا ہوگاکیا امید رکھ سکتے ہیں کہ عیسائی صاحبان مسلمانوں کے ان جوابات کو جو سراسر حق اور انصاف پر مبنی ہیں قبول کر لیں گے یا ایک انسان کے خدا بنانے کیلئے صرف معجزات کافی سمجھے جائیں گے یا بائیبل کی وہ عبارتیں جن میں علاوہ حضرت مسیح کے ذکر کے کہیں یہ لکھا ہے کہ تم سب خدا کے بیٹے ہواور کہیں یہ کہ تم اس کی بیٹیاں ہو اور کہیں یہ کہ تم سب خدا ہو ظاہر پر محمول قرار دئے جائیں گے اور جب ایسا ہونا ممکن نہیں تو میں نہیںؔ سمجھ سکتا کہ اس بحث کا عمدہ نتیجہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 48
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 48
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
جس کے لئے ۱۲ دن امرتسر میں ٹھہرنا ضروری ہے کیا ہوگا ۔
ان وجوہات کے خیال سے ڈاکٹر صاحب کو بذریعہ خط رجسٹرڈ یہ صلاح دی گئی تھی کہ مناسب ہے کہ چھ دن کے بعد یعنی جب فریقین اپنے اپنے چھ دن پورے کر لیں تو ان میں مباہلہ بھی ہو اور وہ صرف اس قدر کافی ہے کہ فریقین اپنے مذہب کی تائید کے لئے خداتعالیٰ سے آسمانی نشان چاہیں اور ان نشانوں کے ظہور کے لئے ایک سال کی میعاد قائم ہو پھر جس فریق کی تائید میں کوئی آسمانی نشان ظاہر ہو جو انسانی طاقتوں سے بڑھ کر ہو جس کا مقابلہ فریق مخالف سے نہ ہوسکے تو لازم ہوگا کہ فریق مغلوب اس فریق کا مذہب اختیار کرلے جس کو خداتعالیٰ نے اپنے آسمانی نشان کے ساتھ غالب کیا ہے اور مذہب اختیار کرنے سے اگر انکار کرے تو واجب ہوگا کہ اپنی نصف جائداد اس سچے مذہب کی امداد کی غرض سے فریق غالب کے حوالہ کردے یہ ایسی صورت ہے کہ اس سے حق اور باطل میں بکلی فرق ہو جائے گا کیونکہ جب ایک خارق نشان کے مقابل پر ایک فریق بالمقابل نشان دکھلانے سے بکلّی عاجز رہا تو فریق نشان دکھلانے والے کا غالب ہونا بکلی کھل جائے گا اور تمام بحثیں ختم ہو جائیں گی اور حق ظاہر ہو جائیگا لیکن ایک ہفتہ سے زیادہ گذرتا ہے جو آج تک جو ۳ ؍مئی ۱۸۹۳ء ؁ہے ڈاکٹر صاحب نے اس خط کا کچھ بھی جواب نہیں دیا لہٰذاؔ اس اشتہار کے ذریعہ سے
ڈاکٹر صاحب اور انکے تمام گروہ کی خدمت میں التماس ہے کہ جس حالت میں انہوں نے اس مباحثہ کا نام جنگ مقدس رکھا ہے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں قطعی فیصلہ ہوجائے اور یہ بات کھل جائے کہ سچااور قادر خدا کس کا خدا ہے تو پھر معمولی بحثوں سے یہ اُمید رکھنا طمع خام ہے اگر یہ ارادہ نیک نیتی سے ہے تو اس سے بہتر اور کوئی بھی طریق نہیں کہ اب آسمانی مدد کے ساتھ صدق اور کذب کو آزمایا جائے اور میں نے اس طریق کو بدل و جان منظور کرلیا ہے اور وہ طریق بحث جو منقولی اور معقولی طور پر قرار پایا ہے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 49
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 49
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
گو میرے نزدیک چنداں ضروری نہیں مگر تاہم وہ بھی مجھے منظور ہے لیکن ساتھ اسکے یہ ضروریات سے ہوگا کہ ہر یک چھ دن کی میعاد کے ختم ہونیکے بعد بطور متذکرہ بالا مجھ میں اور فریق مخالف میں مباہلہ واقع ہو گا اور یہ اقرار فریقین پہلے سے شائع کردیں کہ ہم مباہلہ کریں گے ۔ یعنی اس طور سے دعا کرینگے کہ اے ہمارے خُدا اگر ہم دجل پر ہیں توفریق مخالف کے نشان سے ہماری ذلّت ظاہر کراوراگر ہم حق پر ہیں تو ہماری تائید میں نشان آسمانی ظاہر کر کے فریق مخالف کی ذلّت ظاہر فرما اور اس دُعا کے وقت دونوں فریق آمین کہیں گے اور ایک سال تک اسکی میعاد ہوگی اور فریق مغلوب کی سزا وہ ہوگی جو اوپر بیان ہو چکی ہے ۔
اور اگر یہ سوال ہو کہ اگر ایک سال کے عرصہ میں دونوں طرف سے کوئی نشان ظاہر نہ ہو یادؔ ونوں طرف سے ظاہر ہو تو پھر کیونکر فیصلہ ہوگا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ راقم اس صورت میں بھی اپنے تئیں مغلوب سمجھے گا اور ایسی سزا کے لائق ٹھہرے گا جو بیان ہو چکی ہے چونکہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں اور فتح پانے کی بشارت پا چکا ہوں ۔ پس اگر کوئی عیسائی صاحب میرے مقابل آسمانی نشان دکھلاویں یا میں ایک سال تک دکھلا نہ سکوں تو میرا باطل پر ہونا کھل گیا اور اللہ جلّ شانہٗ کی قسم ہے کہ مجھے صاف طور پر اللہ جلّ شانہٗنے اپنے الہام سے فرمادیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام بلاتفاوت ایسا ہی انسان تھا جس طرح اور انسان ہیں مگر خداتعالیٰ کا سچا نبی اور اُس کا مرسل اور برگزیدہ ہے اور مجھ کو یہ بھی فرمایا کہ جو مسیح کو دیا گیا وہ بمتابعت نبی علیہ السلام تجھ کو دیا گیا ہے اور تو مسیح موعود ہے اور تیرے ساتھ ایک نورانی حربہ ہے جو ظلمت کو پاش پاش کرے گا اور یکسر الصلیب کا مصداق ہو گا پس جبکہ یہ بات ہے تو میری سچائی کے لئے یہ ضروری ہے کہ میری طرف سے بعد مباہلہ ایک سال کے اندر ضرور نشان ظاہر ہو اور اگر نشان ظاہر نہ ہوتو پھر میں خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں اور نہ صرف وہی سزا بلکہ موت کی سزا کے لائق ہوں سو آج میں ان تمام باتوں کو قبول کر کے اشتہار دیتا ہوں ۔ اب بعد شائع ہونے اس اشتہار کے مناسب
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 50
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 50
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اور واجب ہے کہ ڈاکٹر صاحب بھی اس قدر اشتہار دے دیں کہ اگر بعد مباہلہ مرزاؔ غلام احمد کی تائید میں ایک سال کے اندر کوئی نشان ظاہر ہوجائے جس کے مقابل پر اسی سال کے اندر ہم نشان دکھلانے سے عاجز آجائیں تو بلا توقف دین اسلام قبول کر لیں گے ورنہ اپنی تمام جائداد کا نصف حصہ دین اسلام کی امداد کی غرض سے فریق غالب کو دے دیں گے ۔ اور آئندہ اسلام کے مقابل پرکبھی کھڑے نہیں ہونگے ۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت سوچ لیویں کہ میں نے اپنی نسبت بہت زیادہ سخت شرائط رکھی ہیں اور انکی نسبت شرطیں نرم رکھی گئی ہیں ۔ یعنی اگر میرے مقابل پر وہ نشان دکھلائیں اور میں بھی دکھلاؤ ں تب بھی بموجب اس شرط کے وہی سچے قرار پائیں گے۔ اور اگر نہ میں نشان دکھلا سکوں اور نہ وہ ایک سال تک نشان دکھلا سکیں تب بھی وہی سچے قرار پائیں گے ۔ اور میں صرف اس حالت میں سچا قرار پاؤں گا کہ میری طرف سے ایک سال کے اندر ایسا نشان ظاہر ہو جس کے مقابلہ سے ڈاکٹر صاحب عاجز رہیں اور اگر ڈاکٹر صاحب بعد اشاعت اس اشتہار کے ایسے مضمون کا اشتہار بالمقابل شائع نہ کریں تو پھر صریح ان کی گریز متصور ہو گی ااور ہم پھر بھی انکی منقولی و معقولی بحث کے لئے حاضر ہو سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اس بارے میں یعنی نشان نمائی کے امر میں اپنا اور اپنی قوم کا اسلام کے مقابل پر عاجز ہونا شائع کر دیں یعنی یہ لکھدیں کہ یہ اسلام ہی کی شان ہے کہ اس سے آسمانی نشان ظاہر ہوں اور عیسائی مذہب ان برکات سے خالی ہے ۔ میںؔ نے سنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے دوستوں کے روبرو یہ بھی فرمایا تھا کہ ہم مباحثہ تو کریں گے مگر یہ مباحثہ فرقہ احمدیہ سے ہوگا نہ مسلمانانِ جنڈیالہ سے سو ڈاکٹر صاحب کو واضح رہے کہ فرقہ احمدیہ ہی سچے مسلمان ہیں جو خداتعالیٰ کے کلام میں انسان کی رائے کو نہیں ملاتے اور حضرت مسیح کا درجہ اسی قدر مانتے ہیں جو قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے ۔
والسّلام علٰی من اتبع الھُدٰی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 51
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 51
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
میاں بٹالوی صاحب کی اطلاع کے لئے
اشتھار
واضح ہو کہ شیخ بٹالوی صاحب کی خدمت میں وہ اشتہار جس میں بالمقابل عربی تفسیر لکھنے کے لئے ان کو دعوت کی گئی تھی بتاریخ یکم اپریل ۱۸۹۳ء ؁ ؁ ؁پہنچایا گیا تھا چنانچہ مرزا خدا بخش صاحب جو اشتہار لیکر لاہور گئے تھے یہ پیغام لائے کہ بٹالوی صاحب نے وعدہ کر لیا ہے جو یکم اپریل سے دو ہفتہ تک جواب چھاپ کر بھیج دیں گے سو دو ہفتہ تک انتظار جواب رہا اور کوئی جواب نہ آیا پھر دوبارہ اُن کو یاد دلایا گیا تو انہوں نے بذریعہ اپنے خط کے جو میرے اشتہار میں چھپ گیا ہے یہ جواب دیا کہ ؔ ہم اپریل کے اندر اندر جواب چھاپ کر روانہ کرینگے چنانچہ اب اپریل بھی گذر گیا اور بٹالوی صاحب نے دو وعدے کر کے تخلف وعدہ کیا ہم ان پر کوئی الزام نہیں لگاتے مگر انہیںآپ شرم کرنی چاہیئے کہ وہ آپ تو دوسروں کا نام بلا تحقیق کاذب اور وعدہ شکن رکھتے ہیں اور اپنے وعدوں کا کچھ بھی پاس نہیں کرتے تعجب کہ یہ جواب صرف ہاں یا نہیں سے ہو سکتا تھا مگر انہوں نے ایک مہینہ گذاردیا اور یہ مہینہ ہمارا صرف انتظاری میں ضائع ہوا اب ہمیں بھی دو ضروری کام پیش آگئے ایک ڈاکٹر کلارک صاحب کے ساتھ مباحثہ دوسری ایک ضروری رسالہ کا تالیف کرنا جو
تائید اسلام کے لئے بہت جلد امریکہ میں بھیجا جائے گا جس کا یہ مطلب ہوگاکہ دُنیا میں سچا اور زندہ مذہب صرف اسلام ہے اس لئے میاں بٹالوی صاحب کو مطلع کیا جاتا ہے کہ اگر ان دونوں کاموں کی تکمیل کے پہلے آپ کا جواب آیا تو ناچار کوئی دوسری تاریخ آپ کے مقابلہ کے لئے شائع کی جائے گی جو ان دونوں کاموں سے فراغت کے بعد ہوگی ۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 52
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 52
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
مسٹر عبد اللہ آتھم کے خط کاجواب
آج اس اشتہار کے لکھنے سے ابھی میں فارغ ہوا تھا کہ مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کا خط بذریعہ ڈاکؔ مجھ کو ملا یہ خط اُس خط کا جواب ہے جو میں نے مباحثہ مذکورہ بالا کے متعلق صاحب موصوف اور نیز ڈاکٹر کلارک صاحب کی طرف لکھا تھا ۔ سو اب اس کا بھی جواب ذیل میں بطور قولہ اور اقول کے لکھتا ہوں ۔
قولہ ۔ ہم اس امر کے قائل نہیں ہیں کہ تعلیمات قدیم کیلئے معجزہ جدید کی کچھ بھی ضرورت ہے اس لئے ہم معجزہ کے لئے نہ کچھ حاجت اور نہ استطاعت اپنے اندر دیکھتے ہیں ۔
اقول ۔ صاحبِ من میں نے معجزہ کا لفظ اپنے خط میں استعمال نہیں کیا بیشک معجزہ دکھلانا نبی اور مرسل من اللہ کا کام ہے نہ ہر یک انسان کا لیکن اس بات کو تو آپ مانتے اور جانتے ہیں کہ ہر ایک درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور ایمانداری کے پھلوں کا ذکر جیسا کہ قرآن کریم میں ہے انجیل شریف میں بھی ہے مجھے اُمید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہو ں گے اس لئے طول کلام کی ضرورت نہیں ۔ مگر میں دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا ایمانداری کے پھل دکھلانے کی بھی آپ کو استطاعت نہیں ۔
قولہ ۔ بہرکیف اگر جناب کسی معجزہ کے دکھلانے پر آمادہ ہیں تو ہم اسکے دیکھنے سے آنکھیں بند نہ کرینگے اور جس قدر اصلاح اپنی غلطی کی آپ کے معجزہ سے کر سکتے ہیں اس ؔ کو اپنا فرض عین سمجھیں گے ۔
اقول ۔ بیشک یہ آپ کا مقولہ انصاف پر مبنی ہے اور کسی کے مُنہ سے یہ کامل طور پر نکل نہیں سکتا جب تک اُس کو انصاف کا خیال نہ ہو لیکن اس جگہ یہ آپ کا فقرہ کہ جس قدر اصلاح اپنی غلطی کی ہم آپ کے معجزہ سے کر سکتے ہیں اس کو اپنا فرض عین سمجھیں گے تشریح طلب ہے یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیاہے کہ تا یہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 53
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 53
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
پیغام خلق اللہ کو پہنچاوے کہ دُنیا کے تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اورخداتعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دارالنجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لا الٰہ الّا اللّٰہ محمّد رسول اللّٰہ ہے وبس ۔اب کیا آپ اس بات پر طیار اور مستعد ہیں کہ نشان دیکھنے کے بعد اس مذہب کو قبول کر لیں گے ۔ آپ کا فقرہ مذکورہ بالا مجھے اُمید دلاتا ہے کہ آپ اس سے انکار نہیں کریں گے پس اگر آپ مستعد ہیں تو چند سطریں تین اخباروں یعنی نور افشاں اور منشور محمدی اور کسی آریہ کے اخبار میں چھپوادیں کہ ہم خداتعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگر اس مباحثہ کے بعد جس کی تاریخ ۲۲ ؍مئی ۱۸۹۳ء ؁ قرار پائی ہے ۔ مرزاغلام احمدکی خداتعالیٰ مدد کرے اور کوئی ایسا نشان اس کی تائید میں خداتعالیٰ ظاہر فرماوے کہ جو اُس نے قبل از وقت بتلادیا ہو اور جیسا کہ اس نے بتلایا ہو وہ پورا بھی ہو جاوے توؔ ہم اس نشان کے دیکھنے کے بعد بلاتوقف مسلمان ہو جائیں گے اور ہم یہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اس نشان کو بغیر کسی قسم کی بیہودہ نکتہ چینی کے قبول کر لیں گے اور کسی حالت میں وہ نشان نامعتبر اور قابل اعتراض نہیں سمجھا جائے گا بغیر اس صورت کے کہ ایسا ہی نشان اسی برس کے اندر ہم بھی دکھلادیں مثلاََ اگر نشان کے طور پر یہ پیشگوئی ہو کہ فلاں وقت کسی خاص فرد پر یا ایک گروہ پر فلاں حادثہ وارد ہوگا اور وہ پیشگوئی اس میعاد میں پوری ہوجائے تو بغیر اس کے کہ اس کی نظیر اپنی طرف سے پیش کریں بہر حال قبول کرنی پڑے گی۔ اور اگر ہم نشان دیکھنے کے بعد دین اسلام اختیار نہ کریں اور نہ اس کے مقابل پر اسی برس کے اندر اسی کی مانند کوئی خارق عادت نشان دکھلا سکیں تو عہد شکنی کے تاوان میں نصف جائداد اپنی امداد اسلام کے لئے اس کے حوالہ کریں گے اور اگر ہم دوسری شق پر بھی عمل نہ کریں اور عہد کو توڑدیں اور اس عہد شکنی کے بعد کوئی قہری نشان ہماری نسبت مرزا غلام احمد شائع کرنا چاہے تو ہماری
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 54
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 54
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
طرف سے مجاز ہوگا کہ عام طور پر اخباروں کے ذریعہ سے یا اپنے رسائل مطبوعہ میں اسکوشائع کرے فقط یہ تحریرآپ کی طرف سے بقید نام و مذہب و ولدیت و سکونت ہو اور فریقین کے پچاس پچاس معزز اور معتبر گواہوں کی شہادت اُس پر ثبت ہو تب تین اخباروں میں اس کو آپ شائع کراؔ دیں ۔ جبکہ آپ کا منشاء اظہار حق ہے اور یہ معیار آپ کے اور ہمارے مذہب کے موافق ہے تو اب برائے خدا اس کے قبول کرنے میں توقف نہ کریں اب بہر حال وہ وقت آگیا ہے کہ خداتعالیٰ سچّے مذہب کے انوار اور برکات ظاہر کرے اور دُنیا کو ایک ہی مذہب پر کردیوے سو اگر آپ دل کو قوی کر کے سب سے پہلے اس راہ میں قدم ماریں اور پھر اپنے عہد کو بھی صدق اور جوانمردی کے ساتھ پورا کریں تو خداتعالیٰ کے نزدیک صادق ٹھہریں گے اور آپکی راستبازی کا یہ ہمیشہ کے لئے ایک نشان رہے گا ۔
اور اگر آپ یہ فرماویں کہ ہم تو یہ سب باتیں کر گذریں گے اور کسی نشان کے دیکھنے کے بعد اسلام قبول کر لیں گے یا دوسری شرائط متذکرہ بالا بجالائیں گے اور یہ عہد پہلے ہی سے تین اخباروں میں چھپوا بھی دیں گے لیکن اگر تم ہی جُھوٹے نکلے اور کوئی نشان دکھلا نہ سکے تو تمہیں کیاسزا ہوگی تو میں اس کے جواب میں حسب منشاء توریت سزائے موت اپنے لئے قبول کرتا ہوں اور اگر یہ خلاف قانون ہو تو کل جائداد اپنی آپکو دُوں گا ۔ جس طرح چاہیں پہلے مجھ سے تسلّی کرالیں ۔
قولہ ۔ لیکن یہ جناب کو یاد رہے کہ معجزہ ہم اُسی کو جانیں گے جو ساتھ تحدّی مدعی معجزہ کے بظہور آوے اور کہ مصدق کسی امر ممکن کا ہو ۔
اقوؔ ل ۔ اس سے مجھے اتفاق ہے اور تحدی اسی بات کا نام ہے کہ مثلاََ ایک شخص منجانب اللہ ہونے کا دعویٰ کر کے اپنے دعوے کی تصدیق کے لئے کوئی ایسی پیشگوئی کرے جو انسان کی طاقت سے بالا تر ہو اور وہ پیشگوئی سچّی نکلے تو وہ حسب منشاء
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 55
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 55
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/55/mode/1up
توریت استثناء ۱۸-۱۸ سچا ٹھہرے گا ہاں یہ سچ ہے کہ ایسا نشان کسی امر ممکن کا مصدق ہونا چاہئے ورنہ یہ تو جائز نہیں کہ کوئی انسان مثلاً یہ کہے کہ میں خدا ہوں اور اپنی خدائی کے ثبوت میں کوئی پیشگوئی کرے اور وہ پیشگوئی پوری ہو جائے تو پھر وہ خدا مانا جاوے۔
لیکن میں اس جگہ آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ جب اس عاجز نے ملہم اور مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا تو ۱۸۸۸ ؁ء میں مرزا امام الدین نے جس کو آپ خوب جانتے ہیں چشمہ نور امرت سر میں میرے مقابل پر اشتہار چھپوا کر مجھ سے نشان طلب کیا تھا تب بطور نشان نمائی ایک پیشگوئی کی گئی تھی جو نور افشاں ۱۰ مئی ۱۸۸۸ ؁ء میں شائع ہوگئی تھی جس کا مفصل ذکر اس اخبار میں اور نیز میری کتاب آئینہ کمالات کے صفحہ ۲۷۹،۲۸۰ میں موجود ہے اور وہ پیشگوئی ۳۰ ستمبر ۱۸۹۲ ؁ء کو اپنی میعاد کے اندر پوری ہوگئی۔ سو اب بطور آزمائش آپ کے انصاف کے آپ سے پوچھتا ہوں کہ یہ نشان ہے یا نہیں اور اگر نشان نہیں تو اس کی کیا وجہ ہے اور اگر نشان ہے اور آپ نے اس کو دیکھ بھی لیا اور نہ صرف نور افشاں ۱۰ مئی ۱۸۸۸ ؁ء میں بلکہ میرے اشتہار مجریہ ۱۰ جولائی ۱۸۸۸ ؁ء میں بقیدؔ میعاد یہ شائع بھی ہو چکا ہے تو آپ فرماویں کہ آپ کا اس وقت فرض عین ہے یا نہیں کہ اس نشان سے بھی فائدہ اٹھاویں اور اپنی غلطی کی اصلاح کریں اور براہ مہربانی مجھ کو اطلاع دیں کہ کیا اصلاح کی اور کس قدر عیسائی اصول سے آپ دست بردار ہو گئے کیونکہ یہ نشان تو کچھ پرانا نہیں ابھی کل کی بات ہے کہ نور افشاں اور میرے اشتہار ۱۰ جولائی ۱۸۸۸ ؁ء میں شائع ہوا تھا اور آپ کے یہ تمام شرائط کے موافق ہے میرے نزدیک آپ کے انصاف کا یہ ایک معیار ہے اگر آپ نے اس نشان کو مان لیا اور حسب اقرار اپنے اپنی غلطی کی بھی اصلاح کی تو مجھے پختہ یقین ہوگا کہ اب آئندہ بھی آپ اپنی بڑی اصلاح کے لئے مستعد ہیں اس نشان کا اس قدر تو آپ پر اثر ضرور ہونا چاہئے کہ کم سے کم آپ یہ اقرار اپنا شائع
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 56
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 56
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/56/mode/1up
کردیں کہ اگرچہ ابھی قطعی طور پر نہیں مگر ظن غالب کے طور پر دین اسلام ہی مجھے سچا معلوم ہوتا ہے کیونکہ تحدّی کے طور پر اس کی تائید کے بارہ میں جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ پوری ہوگئی آپ جانتے ہیں کہ امام الدین دین اسلام سے منکر اور ایک دہریہ آدمی ہے اور اس نے اشتہار کے ذریعہ سے دین اسلام کی سچائی اور اس عاجز کے ملہم ہونے کے بارے میں ایک نشان طلب کیا تھا جس کو خداتعالیٰ نے نزدیک کی راہ سے اسی کے عزیزوں پر ڈال کر اس پر اتمام حجت کی۔ آپ اس نشان کے رد یا قبول کے بارے ؔ میں ضرور جواب دیں ورنہ ہمارا یہ ایک پہلا قرضہ ہے جو آپ کے ذمّے رہے گا۔
قولہ۔ مباہلات بھی از قسم معجزات ہی ہیں مگر ہم بروئے تعلیم انجیل کسی کے لئے *** نہیں مانگ سکتے۔ جناب صاحب اختیار ہیں جو چاہیں مانگیں اور انتظار جواب ایک سال تک کریں۔
اقول۔ صاحب من مبا ہلہ میں دوسرے پر *** ڈالنا ضروری نہیں بلکہ اتنا کہنا کافی ہوتا ہے کہ مثلاً ایک عیسائی کہے کہ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ درحقیقت حضرت مسیح خدا ہیں اور قرآن خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں اور اگر میں اس بیان میں کاذب ہوں تو خداتعالیٰ میرے پر *** کرے۔ سو یہ صورت مباہلہ انجیل کے مخالف نہیں بلکہ عین موافق ہے آپ غور سے انجیل کو پڑھیں۔
ماسوا اس کے میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ اگر آپ نشان نمائی کے مقابلہ سے عاجز ہیں تو پھر یک طرفہ اس عاجز کی طرف سے سہی۔ مجھ کو بسروچشم منظور ہے آپ اقرارنامہ اپنا حسب نمونہ مرقومہ بالا شائع کریں۔ اور جس وقت آپ فرماویں میں بلاتوقف امرتسر حاضر ہو جاؤں گا۔ یہ تو مجھ کو پہلے ہی سے معلوم ہے کہ عیسائی مذہب اسی دن سے تاریکی میں پڑا ہوا ہے جب سے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو خداتعالیٰ کی جگہ دی گئی اور جب کہؔ حضرات عیسائیوں نے ایک سچے اور کامل
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 57
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 57
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/57/mode/1up
اور مقدس نبی افضل الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلمکا انکار کیا۔ اس لئے میں یقیناً جانتا ہوں کہ حضرات عیسائی صاحبوں میں سے یہ طاقت کسی میں بھی نہیں کہ اسلام کے زندہ نوروں کا مقابلہ کر سکیں میں دیکھتا ہوں کہ وہ نجات اور حیات ابدی جس کا ذکر عیسائی صاحبوں کی زبان پر ہے وہ اہل اسلام کے کامل افراد میں سورج کی طرح چمک رہی ہے اسلام میں یہ ایک زبردست خاصیّت ہے کہ وہ ظلمت سے نکال کر اپنے نور میں داخل کرتا ہے جس نور کی برکت سے مومن میں کھلے کھلے آثار قبولیت پیدا ہو جاتے ہیں اور خداتعالیٰ کا شرف مکالمہ میسر آجاتا ہے اور خداتعالیٰ اپنی محبت کی نشانیاں اس میں ظاہر کر دیتا ہے سو میں زور سے اور دعوے سے کہتا ہوں کہ ایمانی زندگی صرف کامل مسلمان کو ہی ملتی ہے۔ اور یہی اسلام کی سچائی کی نشانی ہے۔
اب آپ کے خط کا ضروری جواب ہو چکا اور یہ اشتہار ایک رسالہ کی صورت پر مرتب کر کے آپ کی خدمت میں اور نیز ڈاکٹر کلارک صاحب کی خدمت میں بذریعہ رجسٹری روانہ کرتا ہوں اب میری طرف سے حجت پوری ہو چکی۔ آئندہ آپ کو اختیار ہے۔
والسلام علی من اتبع الھدی
راقم خاکسار
میرزا غلام احمد
از قادیان ضلع گورداسپور
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 58
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 58
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/58/mode/1up
شیخؔ محمد حسین بٹالوی کی نسبت ایک پیشین گوئی
شیخ محمد حسین ابو سعید کی آجکل ایک نازک حالت ہے۔ یہ شخص اس عاجز کو کافر سمجھتا ہے اور نہ صرف کافر بلکہ اس کے کفر نامہ میں کئی بزرگوں نے اس عاجز کی نسبت اکفر کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ اپنے بوڑھے استاد نذیر حسین دہلوی کو بھی اس نے اسی بلا میں ڈال دیا ہے سبحان اللہ ایک شخص اللہ جلّ شانہ اور اس کے رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلّم پر ایمان رکھتا ہے اور پابند صوم و صلوٰۃاور اہل قبلہ میں سے ہے اور تمام عملی باتوں میں ایک ذرہ بھی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کا مخالف نہیں اس کو میاں بٹالوی صرف اس وجہ سے کافر بلکہ اکفر اور ہمیشہ جہنم میں رہنے والا قرار دیتا ہے کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کو بموجب نص بین قرآن کریم ؂ فوت شدہ سمجھتا ہے۔ اور بموجب پیشین گوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمکہ مسیح موعود اسی امت میں سے ہوگا اپنے متواتر الہامات اور قطع۲؂ نشانوں کی بناء پر اپنے تئیں مسیح موعود ظاہر کرتا ہے۔ اور میاں بٹالوی بطور افتراء کے یہ بھی کہتا ہے کہ گویا یہ عاجز ملائک کا منکر اور معراج نبوی کا انکاری اور نبوت کا مدعی اور معجزات کو بھی نہیں مانتا۔ سبحان اللہ کافر ٹھہرانے کے لئے اس بیچارے نے کیا کچھ افتراء کئے ہیں۔ انہیں غموں میں مر رہا ہے کہ کسی طرح ایک مسلمان کوؔ تمام خلق اللہ کافر سمجھ لے۔ بلکہ عیسائیوں اور یہودیوں سے بھی کفر میں بڑھ کر قرار دیوے۔ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ اب اس شخص کا بہت ہی ُ برا حال ہے۔ اگر کسی کے منہ سے نکل جائے کہ میاں کیوں کلمہ گوؤں کو کافر بناتے ہوکچھ خدا سے ڈرو تو دیوانہ کی طرح اس کے گرد ہو جاتا ہے اور بہت سی گالیاں اس عاجز کو نکال کر کہتا ہے کہ وہ ضرور کافر اور سب کافروں سے بدتر ہے۔ ہم اس کے خیر خواہوں سے ملتجی ہیں کہ اس نازک وقت میں ضرور اس کے حق میں دعا کریں۔ اب کشتی اس کی ایک ایسے گرداب میں ہے جس
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 59
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 59
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/59/mode/1up
سے جان بر ہونا بظاہر محال معلوم ہوتا ہے۔ و انی رأ یت ان ھٰذا الرّجل یؤمن بایمانی قبل موتہ ورأیت کانہ ترک قول التکفیر و تاب۔ و ھذہ رؤیای و ارجو ان یجعلھا ربی حقا۔ والسلام علٰی من اتبع الہدٰی۔
راقم خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۴ مئی ۱۸۹۳ء
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نحمدہٗ و نستعینہٗ و نصلی علٰی رسولہ الکریم
حضرت جناب فیض مآب مجدد الوقت فاضل اجل حامی دین رسول حضرت غلام احمدصاحب
از طرف محمد بخش السلام علیکم۔ گذارش یہ ہے کہ کچھ عرصہ سے قصبہ جنڈیالہ کے عیسائیوں نے بہت شور و شر مچایا ہوا ہے بلکہ آج بتاریخ ا۱؍اپریل ۱۸۹۳ ؁ء عیسائیان جنڈیالہ نے معرفت ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب امرتسر بنام فدوی بذریعہ رجسٹری ایک خط ارسال کیا ہے جس کی نقل خط ہذا کی دوسری طرف واسطے ملاحظہ کے پیش خدمت ہے۔ عیسائیوں نے بڑے زور و شور سے لکھا ہے کہ اہل اسلام جنڈیالہ اپنے علماء و دیگر بزرگان دین کو موجود کر کے ایک جلسہ کریں اور دین حق کی تحقیقاتؔ کی جائے۔ ورنہ آئندہ سوال کرنے سے خاموشی اختیار کریں اس لئے خدمت بابرکت میں عرض ہے کہ چونکہ اہل اسلام جنڈیالہ اکثر کمزور اور مسکین ہیں اس لئے خدمت شریف عالی میں ملتمس ہوں کہ آنجناب ِ للہ اہل اسلام جنڈیالہ کو امداد فرماؤ۔ ورنہ اہل اسلام پر دھبہ آجائے گا۔ و نیز عیسائیوں کے خط کو ملاحظہ فرما کر یہ تحریر فرماویں کہ ان کو جواب خط کا کیا لکھا جاوے۔ جیسا آنجناب ارشاد فرماویں۔ ویسا عمل کیا جاوے۔ فقط۔
جواب طلب ضروری
راقم
محمد بخش پاندھا مکتب دیسی قصبہ جنڈیالہ ضلع و تحصیل امرتسر ۱۱ ؍اپریل ۱۸۹۳ ؁ء
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 60
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 60
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/60/mode/1up
وہ خط جو ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب نے محمدبخش پاندہ کو لکھا
بخدمت شریف میاں محمد بخش صاحب و جملہ شرکاء اہل اسلام جنڈیالہ
جناب من۔ بعد سلام کے واضح رائے شریف ہو کہ چونکہ ان دنوں میں قصبہ جنڈیالہ میں مسیحیوں اور اہل اسلام کے درمیان دینی چرچے بہت ہوتے ہیں اور چند صاحبان آپ کے ہم مذہب دین عیسوی پر حرف لاتے ہیں اور کئی ایک سوال و جواب کرتے اور کرنا چاہتے ہیں۔ اور نیز اسی طرح سے مسیحوں نے بھی دین محمدی کے حق میں کئی تحقیقاتیں کرلی ہیں اور مبالغہ ازحد ہو چلا ہے لہٰذا راقم رقیمہ ھٰذا کی دانست میں طریقہ بہتر اور مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک جلسہ عام کیا جائے جس میں صاحبان اہل اسلام معہ علماء و دیگر بزرگان دین کے جن پر کہ ان کی تسلّی ہو موجود ہوں۔ اور اسی طرح سے مسیحیوں کی طرف سے بھی کوئی صاحب اعتبار پیش کئے جاویں تاکہ جو باہمی تنازعہ ان دنوں میں ہو رہے ہیں خوب فیصل کئے جاویں اور نیکی اور بدی اور حق اور خلاف ثابت ہوویں۔ لہٰذا چونکہ اہل اسلام جنڈیالہ کے درمیان آپ صاحبِ ہمّت گنے جاتے ہیں ہم آپ کی خدمت میں از طرف مسیحان جنڈیالہ التماس کرتے ہیں کہ آپ خواہ خود یا اپنے ہم مذہبوں سےؔ مصلحت کر کے ایک وقت مقرر کریں اور جس کسی بزرگ پر آپ کی تسلّی ہو اُسے طلب کریں اور ہم بھی وقت معیّن پر محفل شریف میں کسی اپنے کو پیش کریں گے کہ جلسہ اور فیصلہ امورات مذکورہ بالا کا بخوبی ہو جاوے اور خداوند صراط المتقسیم سب کو حاصل کرے۔ ہم کسی ضد یا فساد یا مخالفت کی رو سے اس جلسہ کے درپئے نہیں ہیں۔ مگر فقط اس بنا سے کہ جو باتیں راست برحق اور پسندیدہ ہیں سب صاحبان پر خوب ظاہر ہوں۔ دیگر التماس یہ ہے کہ اگر صاحبان اہل اسلام ایسے مباحثہ میں شریک نہ ہونا چاہیں تو آئندہ کو اپنے اسپ کلام کو میدان گفتگو میں جولانی نہ دیں اور وقت منادی یا دیگر موقعوں پر حجت بے بنیاد و لا حاصل سے باز آکر خاموشی اختیار کریں۔ از راہ مہربانی اس خط کا جواب جلدی عنایت فرماویں تاکہ اگر آپ ہماری اس دعوت کو قبول کریں تو جلسہ کا اور
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 61
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 61
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/61/mode/1up
ان مضامین کا جن کی بابت مباحثہ ہونا ہے معقول انتظام کیا جائے۔ فقط زیادہ سلام۔ یہ نقل بطور اصل کے ہے۔
الراقم مسیحان جنڈیالہ مارٹن کلارک امرتسر۔ دستخط انگریزی میں ہیں
نقل خط جو مرزا غلام احمد صاحب کی طرف سے مسیحان جنڈیالہ کی طرف
۱۳ ؍مئی ۱۸۹۳ء کو رجسٹری کر کے بھیجا گیا
بسم اللہ الرحمن الرحیم - بخدمت مسیحان جنڈیالہ
بعد ماوجب۔ آج میں نے آپ صاحبوں کی وہ تحریر جو آپ نے میاں محمد بخش صاحب کو بھیجی تھی اول سے آخر تک پڑھی۔ جو کچھ آپ صاحبوں نے سوچا ہے مجھے اس سے اتفاق رائے ہے۔ بلکہ درحقیقت میںؔ اس مضمون کے پڑھنے سے ایسا خوش ہوا کہ میں اس مختصر خط میں اس کی کیفیت بیان نہیں کر سکتا۔ یہ بات سچ اور بالکل سچ ہے کہ یہ روز کے جھگڑے اچھے نہیں اور ان سے دن بدن عداوتیں بڑھتی ہیں اور فریقین کی عافیت اور آسودگی میں خلل پڑتا ہے۔ اور یہ بات تو ایک معمولی سی ہے اور اس سے بڑھ کر نہایت ضروری اور قابل ذکر یہ بات ہے کہ جس حالت میں دونوں فریق مرنے والے اور دنیا کو چھوڑنے والے ہیں تو پھر اگر باقاعدہ بحث کر کے اظہار حق نہ کریں تو اپنے نفسوں اور دوسروں پر ظلم کرتے ہیں۔ اب میں دیکھتا ہوں کہ جنڈیالہ کے مسلمانوں کا ہم سے کچھ زیادہ حق نہیں بلکہ جس حالت میں خداوند کریم اور رحیم نے اس عاجز کو انہیں کاموں کے لئے بھیجا ہے تو ایک سخت گناہ ہوگا کہ ایسے موقعہ پر خاموش رہوں۔ اس لئے میں آپ لوگوں کو اطلاع دیتا ہوں کہ اس کام کے لئے میں ہی حاضر ہوں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ فریقین کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کو اپنا اپنا مذہب بہت سے نشانوں کے ساتھ خداتعالیٰ سے ملا ہے۔ اور یہ بھی فریقین کو اقرار ہے کہ زندہ مذہب وہی ہو سکتا ہے کہ جن دلائل پر اس کی صحت کی بنیاد ہے وہ دلائل بطور قصّہ کے نہ ہوں بلکہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 62
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 62
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/62/mode/1up
دلائل ہی کے رنگ میں اب بھی موجود اور نمایاں ہوں۔ مثلاً اگر کسی کتاب میں بیان کیا گیا ہو کہ فلاں نبی نے بطور معجزہ ایسے ایسے بیماروں کو اچھا کیا تھا تو یہ اور اس قسم کے اور امور اس زمانہ کے لوگوں کے لئے ایک قطعی اور یقینی دلیل نہیں ٹھہر سکتی بلکہ ایک خبر ہے جو منکر کی نظر میں صدق اور کذب دونوں کا احتمال رکھتی ہے۔ بلکہ منکر ایسی خبروں کو صرف ایک قصّہ سمجھے گا۔ اسی وجہ سے یورپ کے فلاسفر مسیح کے معجزات سے جو انجیل میں مندرج ہیں کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتے بلکہ اس پر قہقہہ مار کر ہنستے ہیں۔ پس جبکہ یہ بات ہے تو یہ نہایت آسان مناظرہ ہےؔ ۔ اور وہ یہ ہے کہ اہل اسلام کا کوئی فرد اس تعلیم اور علامات کے موافق جو کامل مسلمان ہونے کے لئے قرآن کریم میں موجود ہیں۔ اپنے نفس کو ثابت کرے اور اگر نہ کر سکے تو دروغ گو ہے نہ مسلمان۔ اور ایسا ہی عیسائی صاحبوں میں سے ایک فرد اس تعلیم اور علامات کے موافق جو انجیل شریف میں موجود ہیں اپنے نفس کو ثابت کر کے دکھلائے۔ اور اگر وہ ثابت نہ کر سکے تو وہ دروغ گو ہے نہ عیسائی۔ جس حالت میں دونوں فریق کا یہ دعویٰ ہے کہ جس نور کو ان کے انبیاء لائے تھے وہ نور فقط لازمی نہیں تھا بلکہ متعدی تھا تو پھر جس مذہب میں یہ نور متعدی ثابت ہوگا اسی کی نسبت عقل تجویز کرے گی کہ یہی مذہب زندہ اور سچا ہے۔ کیونکہ اگر ہم ایک مذہب کے ذریعہ سے وہ زندگی اور پاک نور معہ اس کی تمام علامتوں کے حاصل نہیں کر سکتے جو اس کی نسبت بیان کیا جاتا ہے تو ایسا مذہب بجز لاف گزاف کے زیادہ نہیں۔ اگر ہم فرض کر لیں کہ کوئی نبی پاک تھا مگر ہم میں سے کسی کو بھی پاک نہیں کر سکتا۔ اور صاحب خوارق تھا مگر کسی کو صاحب خوارق نہیں بنا سکتا اور الہام یافتہ تھا مگر ہم میں سے کسی کو ملہم نہیں بنا سکتا تو ایسے نبی سے ہمیں کیا فائدہ۔ مگر الحمد للّٰہ و المنّۃکہ ہمارا سید و رسول خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلّم ایسا نہیں تھا اس نے ایک جہان کو وہ نور حسب مراتب استعداد بخشا کہ جو اس کو ملا تھا۔ اور اپنے نورانی نشانوں سے وہ شناخت کیا گیا۔ وہ ہمیشہ کے لئے نور تھا جو بھیجا گیا۔ اور اس سے پہلے کوئی ہمیشہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 63
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 63
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/63/mode/1up
کیلئے نور نہیں آیا۔ اگر وہ نہ آتا اور نہ اس نے بتلایا ہوتا تو حضرت مسیح کے نبی ہونے پر ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں تھی۔ کیونکہ اس کا مذہب مرگیا اور اس کا نور بے نشان ہوگیا اور کوئی وارث نہ رہا جو اس کو کچھ نور دیا گیا ہو۔ اب دنیا میں زندہ مذہب صرف اسلام ہے اورؔ اس عاجز نے اپنے ذاتی تجارب سے دیکھ لیا اور پرکھ لیا کہ دونوں قسم کے نور اسلام اور قرآن میں اب بھی ایسے ہی تازہ بتازہ موجود ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے وقت موجود تھے اور ہم ان کے دکھلانے کے لئے ذ ّ مہ دار ہیں۔ اگر کسی کو مقابلہ کی طاقت ہے تو ہم سے خط و کتابت کرے۔ والسّلام علٰی من اتبع الہدیٰ۔
بالآخر یہ بھی واضح رہے کہ اس عاجز کے مقابلہ پر جو صاحب کھڑے ہوں وہ کوئی بزرگ نامی اور معزز انگریز پادری صاحبوں میں سے ہونے چاہئیں کیونکہ جو بات اس مقابلہ اور مباحثہ سے مقصود ہے اور جس کا اثر عوام پر ڈالنا مدنظر ہے وہ اسی امر پر موقوف ہے کہ فریقین اپنی اپنی قوم کے خواص میں سے ہوں۔ ہاں بطور تنزل اور اتمام حجت مجھے یہ بھی منظور ہے کہ اس مقابلہ کیلئے پادری عماد الدین صاحب یا پادری ٹھاکر داس صاحب یا مسٹر عبداللہ آتھم صاحب عیسائیوں کی طرف سے منتخب ہوں اور پھر ان کے اسماء کسی اخبار کے ذریعہ سے شائع کر کے ایک پرچہ اس عاجز کی طرف بھی بھیجا جائے اور اس کے بھیجنے کے بعد یہ عاجز بھی اپنے مقابلہ کا اشتہار دے دے گا۔ اور ایک پرچہ صاحب مقابلہ کی طرف بھیج دے گا۔ مگر واضح رہے کہ یوں تو ایک مدت دراز سے مسلمانوں اور عیسائیوں کا جھگڑا چلا آتا ہے اور تب سے مباحثات ہوئے اور فریقین کی طرف سے بکثرت کتابیں لکھی گئیں اور درحقیقت علمائے اسلام نے بہ تمامتر صفائی سے ثابت کر دیا کہ جو کچھ قرآن کریم پر اعتراض کئے گئے ہیں وہ دوسرے رنگ میں توریت پر اعتراض ہیں اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی شان میں نکتہ چینی ہوئی وہ دوسرے پیرایہ میں تمام انبیاء کی شان میں نکتہ چینی ہے جسؔ سے حضرت مسیح بھی باہر نہیں۔ بلکہ ایسی نکتہ چینیوں کی بناء پر خداتعالیٰ بھی مورد اعتراض ٹھہرتا ہے۔ سو یہ بحث زندہ مذہب یا مردہ مذہب کی تنقیح کے بارہ میں ہوگی اور دیکھا جاوے گا کہ جن روحانی علامات کا مذہب اور کتاب نے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 64
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 64
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/64/mode/1up
دعویٰ کیا ہے وہ اب بھی اس میں پائی جاتی ہیں کہ نہیں۔ اور مناسب ہوگا کہ مقام بحث لاہور یا امرتسر مقرر ہوا ور فریقین کے علماء کے مجمع میں یہ بحث ہو۔
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
امرتسرؔ میڈیکل مشن۔ ۱۸؍ اپریل ۱۸۹۳ء
جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیان سلامت
تسلیم۔ عنایت نامہ آں صاحب کا وارد ہوا۔ بعد مطالعہ طبیعت شاد ہوئی۔ خاص اس بات سے کہ جنڈیالہ کے اہل اسلام کو آپ جیسے لائق و فائق ملے لیکن چونکہ ہمارا دعویٰ نہ آپ سے پر جنڈیالہ کے محمدیوں سے ہے۔ ہم آپ کی دعوت قبول کرنے میں قاصر ہیں۔ ان کی طرف ہم نے خط لکھا ہوا ہے اور تاحال جواب کے منتظرہیں۔ اگر ان کی مدد آپ کو قبول ہے تو مناسب و باقاعدہ طریقہ تو یہ ہے کہ آپ خود انہیں خطوط لکھیں جو آپ کے ارادے مہربانی کے ہیں ان پر ظاہر کریں اگر وہ آپ کو تسلیم کر کے اس جنگ مقدس کیلئے اپنی طرف سے پیش کریں تو ہمارا کچھ عذر نہیں بلکہ عین خوشی ہے چونکہ آپ روشن ضمیر و صاحب کار آزمودہ ہیں یہ آپ سے مخفی نہ ہوگا کہ اس خاص بحث کیلئے آپ کو قبول کرنا یا نہ کرنا ہمارا اختیار نہیں بلکہ جنڈیالہ کے اہل اسلام کا۔ لہٰذا انہیں سے آپ فیصلہ کرلیں بعدازاں ہم بھی حاضر ہیں۔ آپ کے اور انکے فیصلہ کرنے ہی کی دیری ہے۔ زیادہ سلام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مشفق مہربان پادری صاحب
بعد ما وجب یہ وقت کیا مبارک وقت ہے کہ میں آپ کے اس مقدس جنگ کے لئے طیار ہو کر
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 65
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 65
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/65/mode/1up
جسؔ کا آپ نے اپنے خط میں ذکر فرمایا ہے اپنے چند عزیز دوست بطور سفیر منتخب کر کے آپ کی خدمت میں روانہ کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ اس پاک جنگ کے لئے آپ مجھے مقابلہ پر منظور فرماویں گے جب آپ کا پہلا خط جو جنڈیالہ کے بعض مسلمانوں کے نام تھا مجھ کو ملا اور میں نے یہ عبارتیں پڑھیں کہ کوئی ہے کہ ہمارا مقابلہ کرے تو میری روح اسی وقت بول اٹھی کہ ہاں میں ہوں جس کے ہاتھ پر خداتعالیٰ مسلمانوں کو فتح دے گا اور سچائی کو ظاہر کرے گا۔ وہ حق جو مجھ کو ملا ہے اور وہ آفتاب جس نے ہم میں طلوع کیا ہے وہ اب پوشیدہ رہنا نہیں چاہتا میں دیکھتا ہوں کہ اب وہ زوردار شعاعوں کے ساتھ نکلے گا اور دلوں پر اپنا ہاتھ ڈالے گا اور اپنی طرف کھینچ لائے گا لیکن اس کے نکلنے کیلئے کوئی تقریب چاہئے تھی سو آپ صاحبوں کا مسلمانوں کو مقابلہ کیلئے بلانا نہایت مبارک اور نیک تقریب ہے مجھے امید نہیں کہ آپ اس بات پر ضد کریں کہ ہمیں تو جنڈیالہ کے مسلمانوں سے کام ہے نہ کسی اور سے۔ آپ جانتے ہیں کہ جنڈیالہ میں کوئی مشہور اور نامی فاضل نہیں اور یہ آپ کی شان سے بھی بعید ہوگا کہ آپ عوام سے الجھتے پھریں اور اس عاجز کا حال آپ پر مخفی نہیں کہ آپ صاحبوں کے مقابلہ کے لئے دس برس کا پیاسا ہے اور کئی ہزار خط اردو انگریزی اسی پیاس کے جوش سے آپ جیسے معزز پادری صاحبان کی خدمت میں روانہ کر چکا ہوں اور پھر جب کچھ جواب نہ آیا تو آخر ناامید ہوکر بیٹھ گیا چنانچہ بطور نمونہ ان خطوں میں سے کچھ روانہ بھی کرتا ہوں۔ تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ آپ کی اسؔ توجہ کا اول مستحق میں ہی ہوں۔ اور سوائے اس کے اگر میں کاذب ہوں تو ہر ایک سزا بھگتنے کیلئے تیار ہوں میں پورے دس سال سے میدان میں کھڑا ہوں جنڈیالہ میں میری دانست میں ایک بھی نہیں جو میدان کا سپاہی تصور کیا جاوے اس لئے بادب مکلف ہوں کہ اگر یہ امر مطلوب ہے کہ یہ روز کے قصے طے ہو جائیں اور جس مذہب کے ساتھ خدا ہے اور جو لوگ سچے خدا پر ایمان لا رہے ہیں ان کے کچھ امتیازی انوار ظاہر ہوں تو اس عاجز سے مقابلہ کیا جائے۔ آپ لوگوں کا یہ ایک بڑا دعویٰ ہے کہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 66
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 66
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/66/mode/1up
حضرت مسیح علیہ السلام درحقیقت خدا تھے اور وہی خالق ارض و سما تھے۔ اور ہمارا یہ بیان ہے کہ وہ سچے نبی ضرور تھے رسول تھے۔ خداتعالیٰ کے پیارے تھے مگر خدا نہیں تھے سو انہیں امور کے حقیقی فیصلہ کیلئے یہ مقابلہ ہوگا مجھ کو خداتعالیٰ نے براہ راست اطلاع دی ہے کہ جس تعلیم کو قرآن لایا ہے وہی سچائی کی راہ ہے اسی پاک توحید کو ہر یک نبی نے اپنی امت تک پہنچایا ہے مگر رفتہ رفتہ لوگ بگڑ گئے اور خداتعالیٰ کی جگہ انسانوں کو دے دی۔ غرض یہی امر ہے جس پر بحث ہوگی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ وقت آگیا ہے کہ خداتعالیٰ کی غیرت اپنا کام دکھلائے گی اور میں امید رکھتا ہوں کہ اس مقابلہ سے ایک دنیا کیلئے مفید اور اثر انداز نتیجے نکلیں گے اور کچھ تعجب نہیں کہ اب کل دنیا یا ایک بڑا بھاری حصہ اس کا ایک ہی مذہب قبول کرلے جو سچا اور زندہ مذہب ہو اور جن کے ساتھ ساتھ خداتعالیٰ کی مہربانی کا بادل ہو۔ چاہئے کہ یہ بحث صرف زمین تک محدود نہ رہے بلکہ آسمان بھی اس کے ساتھ شامل ہو اور مقابلہ صرف اس بات میں ہو کہ روحانی زندگی اور آسمانی قبولیت اور روشن ضمیری کس مذہب میں ہے اور میں اور میرا مقابل اپنی اپنی کتاب کی تاثیریں اپنے اپنےؔ نفس میں ثابت کریں۔ ہاں اگر یہ چاہیں کہ معقولی طور پر بھی ان دونوں عقیدوں کا بعد اس کے تصفیہ ہو جائے تو یہ بھی بہتر ہے مگر اس سے پہلے روحانی اور آسمانی آزمائش ضرور چاہئے۔ والسّلام علٰی من اتبع الھدٰی
خاکسار غلام احمد قادیان ضلع گورداسپور۔ ۲۳؍ اپریل ۱۸۹۳ء
امرت سر (۲۴ ؍اپریل ۱۸۹۳ء) ترجمہ چٹھی ڈاکٹر کلارک صاحب
بخدمت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان
جناب من۔ مولوی عبدالکریم صاحب بمعیت معزز سفارت یہاں پہنچے اور مجھے آپ کا دستی خط دیا۔ جناب نے جو مسلمانوں کی طرف سے مجھے مقابلہ کیلئے دعوت کی ہے اس کو میں بخوشی قبول کرتا ہوں آپ کی سفارت نے آپ کی طرف سے مباحثہ اور شرائط ضروریہ کا فیصلہ کرلیا ہے اور
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 67
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 67
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/67/mode/1up
میں یقین کرتا ہوں کہ جناب کو بھی وہ انتظام اور شرائط منظور ہوں گے اس لئے مہربانی کر کے اپنی فرصت میں مجھے اطلاع بخشیں کہ آپ ان شرائط کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔
آپ کا تابعدار:۔ایچ مارٹن کلارک ایم ڈی سی ایم (اڈنبرا) ایم۔ آر۔ اے۔ ایس۔ سی۔ ایم۔ ایس
شرائط انتظام مباحثہ قرار یافتہ مابین عیسائیاں و مسلماناں
(ترجمہ از انگریزی)
( ۱) یہ مباحثہ امرتسر میں ہوگا (۲) ہر ایک جانب میں صرف پچاس اشخاص حاضر ہوں گے۔ پچا۱س ٹکٹ مرزا غلام احمد صاحب عیسائیوں کو دیں گے اور پچاس ٹکٹ ڈاکٹر کلارک صاحب مرزاصاحب کو مسلمانوں کے لئے دیں گے۔ عیسائیو۲ں کے ٹکٹ مسلمان جمع کریں گے اور مسلمانوں کے عیسائی۔۳۔ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسلمانوں کی طرف سے اور ڈپٹی عبداللہ آتھم خاں صاحبؔ عیسائیوں کی طرف سے مقابلہ میں آئیں گے۔ ۴۔ سوائے ان صاحبوں کے اور کسی صاحب کو بولنے کی اجازت نہ ہوگی۔ ہاں یہ صاحب تین شخصوں کو بطور معاون منتخب کر سکتے ہیں مگر ان کو بولنے کا اختیار نہ ہوگا۔ ۵۔ مخالف جانب صحیح صحیح نوٹ بغرض اشاعت لیتے رہیں گے۔ ۶۔کوئی صاحب کسی جانب سے ایک گھنٹہ سے زیادہ نہ بول سکیں گے۔ ۷۔ انتظامی معاملات میں صدر انجمن کا فیصلہ ناطق مانا جائے گا۔ ۸۔ دو صدر انجمن ہوں گے یعنی ایک ایک ہر طرف سے جو اس وقت مقرر کئے جائیں گے۔ ۹۔ جائے مباحثہ کا تقرر ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب کے اختیار میں ہوگا۔ ۱۰۔ وقت مباحثہ ۶ بجے صبح سے ۱۱ بجے صبح تک ہوگا۔ ۱۱۔ کل وقت مباحثہ دو زمانوں پر منقسم ہوگا۔ (ا) ۶ دن یعنی روز پیر مئی ۲۲ سے ۲۷ مئی تک ہوگا اور اس وقت میں مرزاصاحب کو اختیار ہوگا کہ اپنا یہ دعویٰ پیش کریں کہ ہر ایک مذہب کی صداقت زندہ نشانات سے ثابت کرنی چاہئے جیسے کہ انہوں نے اپنی چٹھی ۴؍ اپریل ۱۸۹۳ء موسومہ ڈاکٹر کلارک صاحب میں ظاہر کیا ہے۔ ۱۲۔ پھر دوسرا سوال اٹھایا جائے گا۔ پہلے مسئلہ الوھیت مسیح پر۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 68
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 68
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/68/mode/1up
اور پھر مرزا صاحب کو اختیار ہوگا کہ کوئی اور سوال جو چاہیں پیش کریں مگر چھ دن کے اندر اندر۔ ۱۳۔ دوسرا زمانہ بھی ۶ دن کا ہوگا یعنی مئی ۲۹ سے جون ۳ تک۔ (اگرؔ اس قدر ضرورت ہوئی) اس زمانہ میں مسٹر عبداللہ آتھم خاں صاحب کو اختیار ہوگا کہ اپنے سوالات بہ تفصیل ذیل پیش کریں:۔
(ا۱) رحم بلامبادلہ (ب۲) جبر اور قدر
(ج۳) ایمان بالجبر (د۴) قرآن کے خدائی کلام ہونے کا ثبوت
(س۵) اس بات کا ثبوت کہ محمد صاحب (صلی اللہ علیہ وآلہ ٖوسلم) رسول اللہ ہیں۔ وہ اور سوال بھی کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ ۶ دن سے زیادہ نہ ہوجائے۔
(۱۴) ٹکٹ ۱۵ مئی تک جاری ہوجانے چاہئیں۔ وہ ٹکٹ مفصلہ ذیل نمونہ کے ہوں گے۔
(۱۵) عیسائیوں اور ڈپٹی عبداللہ آتھم خاں صاحب کی طرف سے یہ قواعد واجب الاطاعت اور یہ صحیح تحریر مانی گئی۔
’’بطور شہادت َ میں (جس کے دستخط نیچے درج ہیں) مسٹر عبداللہ آتھم خاں صاحب کی طرف سے دستخط کرتا ہوں اور مذکورہ بالا شرائط میں سے کسی شرط کا توڑنا فریق توڑنے والے کی طرف سے ایک اقرار گریز خیال کیا جائے گا۔‘‘
(۱۶) تقریروں پر صاحبان صدر اور تقریر کنندگان اپنے اپنے دستخط ان کی صحت کے ثبوت میں ثبت کریں گے۔
دستخط
ہنری کلارک ایم۔ ڈی وغیرہ
امرتسر۔ اپریل ۲۴ ۔۱۸۹۳ء ؁
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 69
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 69
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/69/mode/1up
نموؔ نہ ٹکٹ نمونہ ٹکٹ
مباحثہ مابین ڈپٹی عبداللہ آتھم خانصاحب مباحثہ مابین ڈپٹی عبداللہ(آتھم) خانصاحب
امرتسری اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی امرتسری اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی
ٹکٹ داخلہ عیسائیوں کے لئے ٹکٹ داخلہ فریق مسلمانوں کے لئے
داخل کرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کو داخل کرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ کو
نمبر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دستخط مرزا صاحب نمبر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دستخط ڈاکٹر کلارک صاحب
امرتسر ۲۴ - ۴ - ۱۸۹۳ء
رجسٹرڈ خط جو ۲۵ ؍اپریل کو پادری صاحب کے ۲۴ ؍اپریل کے خط کے جواب میں بھیجا گیا
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم مشفق مہربان پادری صاحب سلامت
بعد ماوجب میں نے آپ کی چٹھی کو اول سے آخر تک سنا میں ان تمام شرائط کو منظور کرتا ہوں جن پر آپ کے اور میرے دوستوں کے دستخط ہوچکے ہیں لیکن سب سے پہلے یہ بات تصفیہ پاجانی چاہئے کہ اس مباحثہ اور مقابلہ سے علت غائی کیا ہے کیا یہ انہیں معمولی مباحثات کی طرح ایک مباحثہ ہوگا جو سالہائے دراز سے عیسائیوں اور مسلمانوں میں پنجاب اور ہندوستان میں ہورہے ہیں جن کا ماحصل یہ ہے کہ مسلمان تو اپنے خیال میں یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہم نے عیسائیوں کو ہریک بات میں شکست دی ہے اور عیسائی اپنے گھر میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ مسلمان لاجواب ہوگئے ہیں اگر اسی قدر ہے تو یہ بالکل بے فائدہ اور تحصیل حاصل ہے اور بجز اس بات کے اس کا آخری نتیجہ کچھ نظر نہیں آتا کہ چند روز بحث مباحثہ کا شورو غوغا ہوکر پھر ہریک فضول گو کو اپنی ہی طرف کا غلبہ ثابت کرنے کے لئے باتیں بنانے کا موقعہ ملتا رہے مگر میں یہ چاہتا ہوں کہ حق کھل جائے اور ایک دنیا کو سچائی نظر آجائے اگر فی الحقیقت حضرت مسیح علیہ السلام خدا ہی ہیں۔ اور وہی ربّ العالمین اور خالق السموات والارض ہے۔ تو بے شک ہم لوگ کافر کیا اکفر ہیں۔ اور بے شک اس صورت میں دین اسلام حق پر نہیں ہے لیکن اگر حضرت
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 70
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- حُجۃُ الالسلام: صفحہ 70
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/70/mode/1up
مسیحؔ علیہ السلام صرف ایک بندہ خداتعالیٰ کا نبی اور مخلوقیت کی تمام کمزوریاں اپنے اندر رکھتا ہے تو پھر یہ عیسائی صاحبوں کا ظلم عظیم اور کفر کبیر ہے کہ ایک عاجز بندہ کو خدا بتا رہے ہیں اور اس حالت میں قرآن کے کلام اللہ ہونے میں اس سے بڑھ کر اور کوئی عمدہ دلیل نہیں کہ اس نے نابود شدہ توحید کو پھر قائم کیا اور جو اصلاح ایک سچی کتاب کو کرنی چاہئے تھی وہ کر دکھائی اور ایسے وقت میں آیا جس وقت میں اس کے آنے کی ضرورت تھی۔ یوں تو یہ مسئلہ بہت ہی صاف تھا کہ خدا کیا ہے اور اس کی صفات کیسی ہونی چاہئے۔ مگر چونکہ اب عیسائی صاحبوں کو یہ مسئلہ سمجھ میں نہیں آتا اور معقولی و منقولی بحثوں نے اس ملک ہندوستان میں کچھ ایسا ان کو فائدہ نہیں بخشا اس لئے ضرور ہو کہ اب طرز بحث بدل لی جائے سو میری دانست میں اس سے انسب طریق اور کوئی نہیں کہ ایک روحانی مقابلہ مباہلہ کے طور پر کیا جائے اور وہ یہ کہ اول سے اسی طرح ہر چھ دن تک مباحثہ ہو جس مباحثہ کو میرے دوست قبول کرچکے ہیں اور پھر ساتویں دن مباہلہ اور فریقین مباہلہ میں یہ دعا کریں مثلاً فریق عیسائی یہ کہے کہ وہ عیسیٰ مسیح ناصری جس پر میں ایمان لاتا ہوں وہی خدا ہے اور قرآن انسان کا افترا ہے خداتعالیٰ کی کتاب نہیں اور اگر میں اس بات میں سچا نہیں تو میرے پر ایک سال کے اندر کوئی ایسا عذاب نازل ہو جس سے میری رسوائی ظاہر ہو جائے اور ایسا ہی یہ عاجز دعا کرے گا کہ اے کامل اور بزرگ خدا میں جانتا ہوں کہ درحقیقت عیسیٰ مسیح ناصری تیرا بندہ اور تیرا رسول ہے خدا ہرگز نہیں اور قرآن کریم تیری پاک کتاب اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تیرا پیارا اور برگزیدہ رسول ہے اور اگر میں اس بات میں سچا نہیں تو میرے پر ایک سال کے اندر کوئی ایسا عذاب نازل کر جس سے میری رسوائی ظاہر ہو جائے اور اے خدا میری رسوائی کے لئے یہ بات کافی ہوگی کہ ایک برس کے اندر تیری طرف سے میری تائید میں کوئی ایسا نشان ظاہر نہ ہو جس کے مقابلہ سے تمام مخالف عاجز رہیں اور واجب ہوگا کہ فریقین کے دستخط سے یہ تحریر چند اخبار میں شائع ہوجائے کہ جو شخص ایک سال کے اندر مورد غضب الٰہی ثابت ہوجائے اور یا یہ کہ ایک فریق کی تائید میں کچھ ایسے نشان آسمانی ظاہر ہوں کہ دوسرے فریق کی تائید میں ظاہر و ثابت نہ ہو سکیں تو ایسی صورت میں فریق مغلوب یا تو فریق غالب کا مذہب اختیار کرے اور یا اپنی کل جائیدا د کا نصف حصہ اس مذہب کی تائید کے لئے فریق غالب کو دیدے جس کی سچائی ثابت ہو۔
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
 
Last edited:
Top