• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

سلسلہء احمدیہ ۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ ۔ جلد 1 تا 3 مکمل ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
سلسلہء احمدیہ ۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ ۔ جلد 1 ۔ یونی کوڈ

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
چند ابتدائی امور
اس رسالہ کی ضرورت :۔سلسلہ احمدیہ کے متعلق اس وقت تک بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض نہایت بلند پایہ رکھتی ہیں لیکن باوجود اس کے جماعت کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر یہ ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ سلسلہ احمدیہ کے متعلق ایک ایسا رسالہ لکھ کر شائع کیا جائے جس میں اختصار اور وضاحت کے ساتھ بانیء سلسلہ کے مختصر حالات۔ سلسلہ کی مختصر تاریخ۔سلسلہ کے مخصوص مذہبی عقائد ۔ سلسلہ کا نظام ۔ سلسلہ کی موجودہ وسعت۔سلسلہ کے مستقبل کے متعلق امیدیں وغیرہ بیان کی جائیں تا کہ اگر خدا چاہے تو یہ رسالہ دو رنگ میں مفید ہو سکے۔
اوّل :۔ وہ ان غیر احمدی اور غیر مسلم محققین کے کام آ سکے جو سلسلہ احمدیہ کے متعلق مذہبی اور علمی بحثوں میں پڑنے کے بغیر عام تاریخی رنگ میں مختصر مگر صحیح اور مستند معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
دوم :۔ وہ ان نو احمدیوں اور نو عمر پیدائشی احمدیوں کے لئے بھی مفید ہو سکے جو سلسلہ احمدیہ میں نئے نئے داخل ہونے کی وجہ سے یا اپنی کم عمری یا مطالعہ کی کمی کی وجہ سے ابھی تک سلسلہ کی اصل غرض و غایت اور اس کے مخصوص مذہبی عقاید اور اس کی تاریخ سے ناواقف ہیں۔
اس رسالہ کی بس یہی دو غرضیں ہیں لیکن جیسا کہ میں نے اوپر اشارہ کر دیا ہے میں اس رسالہ میں کسی لمبی چوڑی مذہبی بحث میں نہیں پڑوں گا بلکہ محض سادہ اور مختصر رنگ میں مذکورہ بالا عنوانوں کے ماتحت معروف اور مستند باتیں بیان کرنے پر اکتفا کی جائے گی تاکہ اگر خدا چاہے تو اس ذریعہ سے ایک غیر مسلم یا غیر احمدی یا ایک نو احمدی یا نو عمر ناواقف احمدی تحریک احمدیت کے سمجھنے اور اس کی حقیقت اور وسعت کا اندازہ کرنے میں مدد حاصل کر سکے اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس رسالہ کے لکھنے میں صداقت اور راستی پر قائم رکھے۔ اور میری تحریر میں وہ اثر پیدا کرے جو اس نے ہمیشہ سے حق و صداقت کے لئے مقدر کر رکھا ہے۔ وَاَرْجُوْ مِنْہُ خَیْرًا وَ اَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ ـ
سلسلہ احمدیہ کی غرض و غایت :۔ سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ احمدیت اس مذہبی تحریک کا نام
ہے جس کی بنیاد حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے ایک باقاعدہ جماعت کی صورت میں ۱۸۸۹ء مطابق ۱۳۰۶ھ میں خدا کے حکم سے رکھی۔ یہ خدائی حکم اپنی نوعیت میں ایسا ہی تھا جیسا کہ آج سے ساڑھے انیس سو سال قبل موسوی سلسلہ میں حضرت مسیح ناصری کے ذریعہ نازل ہوا تھا۔ مگر جیسا کہ حقیقی مسیحیت کوئی نیا مذہب نہیں تھی بلکہ صرف موسویت کی تجدید کا دوسرا نام تھی اسی طرح احمدیت بھی کسی نئے مذہب کا نام نہیں ہے اور نہ ہی بانیء سلسلہ احمدیہ کا یہ دعویٰ تھا کہ آپ کوئی نئی شریعت لائے ہیں بلکہ احمدیت کی غرض و غایت تجدید اسلام اور خدمت اسلام تک محدود ہے۔ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کا یہ دعویٰ تھا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو مسلمانوں کی بگڑی ہوئی حالت کی اصلاح اور اسلام کی خدمت کے لئے مامور کیا ہے اور اسلام کی خدمت کے مفہوم میں اسلام کے چہرہ کو گردو غبار سے صاف کرنا۔ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا انتظام کرنا۔ اسلام کو دوسرے مذاہب کے مقابل پر غالب کرنا اور اسلام میں ہو کر دنیا کے غلط عقائد و اعمال کی اصلاح کرنا شامل ہے ۔ چنانچہ آپ کی تحریروں سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کا کام چھ حصوں میں منقسم تھا۔
اوّل :۔ خالق ہستی کے متعلق مخلوق میں زندہ ایمان اور حقیقی عرفان پیدا کرنا اور خدا اور انسان کے درمیان اس تعلق کو جوڑ دینا جو انسانی پیدائش کی اصل غرض و غایت اور اسلام کا اوّلین مقصد ہے۔
دوم :۔ مخصوص طور پر مسلمانوں کی اعتقادی اور عملی اصلاح کا انتظام کرنا۔ یعنی مرور زمانہ کی وجہ سے جو جو اعتقادی اور عملی غلطیاں مسلمانوں کے اندر پیدا ہو چکی تھیں۔ انہیں خدائی منشاء کے ماتحت دُور کرنا۔
سوم :۔ موجودہ زمانہ کی وسیع ضروریات کے پیش نظر قرآن شریف کے مخفی خزانوں کو باہر نکال کر ان کی اشاعت کا انتظام کرنا۔ اس ضمن میں یہ بات قابل نوٹ ہے کہ بانیء سلسلہ احمدیہ کا یہ دعویٰ تھا جس نے اسلامی علوم میں ایک بالکل نیا دروازہ کھول دیا کہ گو قرآن شریف کے نزول کے ساتھ شریعت اپنی تکمیل کو پہنچ چکی ہے اور اس کے بعد کوئی نئی شریعت نہیں مگر جس طرح اس مادی عالم میں سے ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق نئے نئے خزانے نکلتے رہتے ہیں اسی طرح قرآن شریف سے بھی جو گویا ایک روحانی عالم ہے، ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق نئے نئے خزانے نکلتے رہیں گے اور اس طرح تکمیل شریعت کے باوجود دین کے علمی حصہ میں نمو اور ترقی کا سلسلہ جاری رہے گا۔
چہارم :۔ دنیا کے دوسرے مذاہب کے مقابل پر اسلام کو غالب کر دکھانا یعنی اسلام کے سوا دنیا میں جتنے مذاہب پائے جاتے ہیں یا جو جو خیالات اسلام کے خلاف دنیا میں قائم ہیں انہیں غلط ثابت کر کے ان کے مقابل پر اسلام کو سچا ثابت کرنا اور خصوصیت کے ساتھ صلیبی مذہب کے زور کو توڑنا جو اس زمانہ میں مادیت اور دہریت کے انتشار کا سب سے بڑا ذریعہ بن رہا ہے۔
پنجم :۔ اقوام عالم کو اس ایمان پر جمع کرنا کہ جو خبر آخری زمانہ کے متعلق مختلف مذاہب میں ایک زبردست روحانی مصلح کی آمد کے بارے میں دی گئی تھی جس کے ذریعہ ہر قو م کو اس کی گری ہوئی حالت کے بعد پھر اٹھنے کی امید دلائی گئی تھی مگر جسے غلطی سے مختلف قوموں میں علیحدہ علیحدہ مصلحوں کی آمد سمجھ لیا گیا تھا وہ اسلام میں ہو کر بانیء احمدیت کے وجود میں پوری ہوئی ہے اس لئے سب قوموں کے موعود مصلح آپ ہی ہیں اور آپ کو سب نبیوں کا بروز بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ کا یہ دعویٰ تھا کہ میں مسلمانوں کے لئے مہدی ہوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح ہوں اور ہندوئوں کے لئے کرشن ہوں وغیر ذالک ۔
ششم :۔ دنیا میں اسلام اور احمدیت کی تعلیم کے ماتحت ایک ایسے جدید نظام کو قائم کرنا جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے لحاظ سے بہترین بنیاد پر قائم ہو تا کہ یہ نظام آہستہ آہستہ وسیع ہو کر ساری دنیا پر چھا جاوے۔ یعنی ایک ایسی جماعت قائم کرنا جو ایک طرف تو خدا تعالیٰ کے متعلق زندہ ایمان اور حقیقی عرفان پر قائم ہو اور دوسری طرف وہ افراد اور اقوام کے باہمی تعلقات کا بھی بہترین نمونہ ہو اور یہ جماعت اسلام کی طرح بین الاقوام بنیاد پر قائم ہو کر آہستہ آہستہ دنیا کی ساری جماعتوں اور سارے نظاموں پر غالب آجائے۔ مگر بایں ہمہ مختلف قوموں کے لئے ان کی اپنی اپنی مخصوص تہذیب میں بھی جہاں تک کہ وہ وسیع اسلامی تعلیم و تمدن کے ساتھ نہیں ٹکراتی نموّ اور ترقی کا رستہ کھلا رہے۔
یہ وہ چھ اہم مقاصد تھے جو بانیء سلسلہ احمدیہ نے اپنی بعثت کی غرض و غایت کے متعلق بیان کئے ہیںاور احمدیت کی ساری تاریخ انہی چھ نکتوں کے اردگرد گھومتی ہے۔
بانیء سلسلہ احمدیہ کے خاندانی حالات
بانیئسلسلہ احمدیہ پنجاب کے ایک مشہور مغل خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو فارسی الاصل تھا اور شاہان مغلیہ سے لے کر اس وقت تک اپنے علاقہ میں اپنی وجاہت اور عزت اور اثر کی وجہ سے ممتاز رہا ہے۔ خاندان کی ابتداء یوں بیان کی جاتی ہے کہ ۱۵۳۰ء میں یا اس کے قریب جبکہ شاہنشاہ بابر کا زمانہ تھا ایک شخص مرزا ہادی بیگ نامی جو امیر تیمور کے چچا حاجی برلاس کی نسل میں سے تھا اور ایک با اثر اور علم دوست رئیس تھا اپنے چند عزیزوں اور خدمت گاروں کے ساتھ اپنے وطن سے نکل کر ہندوستان کی طرف آیا اور پنجاب میں لاہور سے قریباً ستر میل شمال مشرق کی طرف بڑھ کر دریائے بیاس کے قریب ایک جنگل میں اپنے کیمپ کی بنیاد رکھی۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ مرزا ہادی بیگ کو دہلی کی شاہی حکومت کی طرف سے اس علاقہ کا قاضی یعنی حاکم اعلیٰ مقرر کر دیا گیا۔ چونکہ مرزاہادی بیگ نے اپنے کیمپ کا نام اسلام پور رکھا تھا اس لئے وہ آہستہ آہستہ ملک کے محاورہ کے مطابق اسلام پور قاضیاں کہلانے لگا۔ اور پھر مرور زمانہ اور کثرت استعمال سے اسلام پور کا لفظ گر گیا اور صرف قاضیاں رہ گیا جو بالآخر بگڑ کر قادیان بن گیا اور اب یہی اس قصبہ کا نام ہے جس میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب پیدا ہوئے۔
مرزا ہادی بیگ کو قادیان کے ارد گرد بہت سے دیہات بطور جاگیر عطا ہوئے تھے جن پر ان کی ایک رنگ میں حکومت قائم تھی اور اس علاقہ کی قضا کے ساتھ مل کر انہیں ایک بہت وسیع اثر حاصل ہو گیا تھا۔ ان کے بعد ان کی اولاد بھی شاہی احکام کے ماتحت اس علاقہ کی رئیس اور حکمران رہی اور اس خاندان کے افراد دربار مغلیہ میں ہمیشہ عزت کی نظر سے دیکھے جاتے رہے۔ چنانچہ مرزا فیض محمد صاحب جو بانیئسلسلہ احمدیہکے والد کے پڑدادا تھے انہیں دہلی کے شاہنشاہ فرخ سیر نے ۱۷۱۶ء میں ہفت ہزاری کا عہدہ عطا کر کے عضدالدولہ کا خطاب دیا تھا۔ ہفت ہزاری کے عہدے کا یہ مطلب تھا کہ وہ خود اپنے طور پر سات ہزار نوجوانوں کی فوج رکھ سکتے تھے اور تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ یہ منصب ایسا تھا کہ اس زمانہ میں بہت ہی کم لوگوں کو عطا ہوتا تھا۔ اسی طرح مرزا فیض محمد صاحب کے فرزند مرزا گل محمد صاحب کے متعلق بھی خاندانی ریکارڈ سے پتہ لگتا ہے کہ دہلی کے دربار میں ان کی بہت عزت تھی اور بادشاہ وقت کے ساتھ ان کی خط و کتابت رہتی تھی اور ان کے عہد میں ایک دفعہ دربار دہلی کا وزیر غیاث الدولہ بھی قادیان آیا تھا اور ان کے مختصر مگر سنجیدہ اور بارعب دربار کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا تھا۔ مرزا گل محمد صاحب ایک نہایت متقی اور پارسا انسان تھے اور اپنے علاقہ میں بطور ایک ولی کے شہرت رکھتے تھے اور اس نیکی اور ولایت کے ساتھ ساتھ وہ ایک اعلیٰ درجہ کے مدبر اور جرنیل بھی تھے۔
مرزا گل محمد صاحب نے ایک لمبا زمانہ پایا۔ ان کے آخری ایام میں جبکہ مغلیہ سلطنت بہت کمزور ہو گئی پنجاب میں سکھوں نے طوائف الملوکی اختیار کر کے زور پکڑ لیا اور ان کا سب سے زیادہ زور پنجاب کے وسطی حصہ میں تھا جس میں قادیان واقع ہے۔ اس وقت بانیئسلسلہ احمدیہکے بزرگوں کو نہایت سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور قادیان کی چھوٹی سی ریاست جو اس وقت تک قریباً آزاد ہو کر خود مختار ہو چکی تھی چاروں طرف سے سکھوں کے حملہ کا شکار ہونے لگی اور گو مرزا گل محمد صاحب نے اپنی ہمت اور قابلیت کے ساتھ سکھوں کو غالب نہیں ہونے دیا مگر پھر بھی جدی ریاست کے بعض دیہات ان کے قبضہ سے نکل گئے۔ لیکن ان کے بعد ان کے لڑکے مرزا عطا محمد صاحب کے زمانہ میں سکھ بہت زور پکڑ گئے ۔ حتیّٰ کہ وہ دن آیا کہ اس خاندان کو مغلوب ہو کر قادیان سے نکلنا پڑا۔ یہ واقعہ غالباً ۱۸۰۲ء کا ہے جبکہ سکھوں کی ایک مشہور جنگجو پارٹی نے جو رام گڑھیہ مسل کہلاتی تھی قادیان پر جو اس وقت ایک قلعہ کی صورت میں تھا قبضہ حاصل کیا۔ اس وقت اس خاندان پر سخت تباہی آئی اور وہ اسرائیلی قوم کی طرح اسیروں کی مانند پکڑے گئے اور ان کاسب مال و متاع لوٹ لیا گیا اور کئی مسجدیں اور مکانات مسمار کئے گئے اور باغات ویران کر دئیے گئے اور ایک قیمتی کتب خانہ بھی جلا دیا گیا اور مرزا عطا محمد صاحب کو جو بانیئسلسلہ احمدیہ کے دادا تھے کئی سال تک ایک قریب کی ریاست میں جلاوطنی کی زندگی گزارنی پڑی اور آخر اسی غریب الوطنی کی حالت میں ان کی وفات ہوئی۔
ان کے بعد بانیئسلسلہ احمدیہ کے والد مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو بھی اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں بڑی تلخی کا سامنا رہا اور بالآخر جبکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے متفرق سکھ رئوساء کو زیر کر کے پنجاب میں ایک واحد سکھ حکومت قائم کی تو اس وقت مہاراجہ کی اجازت سے مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اپنے وطن قادیان میں واپس آگئے۔ مگر اس عرصہ میں جدی ریاست کے سب گائوں جو اس وقت بھی اسّی(۸۰) سے اوپر تھے قبضہ سے نکل چکے تھے اور صرف قادیان اور اس کے اردگرد کے چند دیہات پر حقوق تسلیم کئے گئے۔ قادیان میں واپس آنے کے بعد مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے جو ایک نہایت ماہر طبیب ہونے کے علاوہ ایک بہت بارعب اور بہادراور خود دار انسان تھے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی خواہش پر پنجاب کی سکھ حکومت کے ماتحت ایک فوجی عہدہ قبول کیا اور مہاراجہ کی زندگی میں اور اس کے کئی سال بعد تک نہایت نمایاں خدمات سر انجام دیں اور جب ۱۸۴۸ء میں مرکزی سکھ حکومت کے خلاف پنجاب کے بعض حصوں میں بغاوت کا جھنڈا بلند ہوا تو مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے حکومت وقت کا ساتھ دیا اور اس کی طرف سے ہو کر باغیوں کے قلع قمع میں حصہ لیا۔
اس کے بعد پنجاب میں جلد ہی سکھوں کی حکومت کا خاتمہ ہوکر انگریزوں کا تسلط قائم ہو گیا حکومت کی اس تبدیلی کے نتیجہ میں اس خاندان کو پھر ایک سخت دھکا لگا یعنی نہ صرف خاندانی جاگیر کا باقیماندہ حصہ ضبط ہو گیا بلکہ بہت سے مالکانہ حقوق بھی ہاتھ سے جاتے رہے اور گو سرکار انگریزی نے ضبط شدہ جاگیر کے بدلے میں خفیف سی نقد پنشن منظور کی مگر اس پنشن کو اس جاگیر سے جو ضبط کی گئی تھی کوئی نسبت نہیں تھی۔ تاہم مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے اپنے قدیم اصول کے ماتحت کہ ملک کی قائم شدہ حکومت کے ساتھ بہر حال تعاون کرنا چاہئے اور کسی صورت میں امن کارستہ نہیں چھوڑنا چاہئے نئی حکومت کے ساتھ پوری طرح تعاون کیا اور جب ۱۸۵۷ء میں غدر کا مشہور واقعہ پیش آیا تو بانیء سلسلہ احمدیہ کے والد نے باوجود تنگ حالی کے اور باوجود حکومت انگریزی کی طرف سے زخم خوردہ ہونے کے اپنی گرہ سے پچاس سوار مع ان کے گھوڑوں اور سازوسامان کے حکومت کی امداد کے لئے پیش کئے جن میں بہت سے خود مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے عزیزوں میں سے تھے چنانچہ بانیء سلسلہ احمدیہ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب بھی جو ۱۸۸۳ء میں فوت ہوئے ان نوجوانوں میں شامل تھے ۔ ان بے لوث خدمات کو جنرل نکلسن اور کئی دوسرے ذمہ دار انگریز افسروں نے اپنی چٹھیوں میں شکر و امتنان کے جذبات کے ساتھ تسلیم کیا اور اس سلوک سے شرمندہ ہو کر جو الحاق کے وقت انگریزی حکومت اس خاندان سے کر چکی تھی اس بات کا بار بار وعدہ کیا کہ جلد ہی کوئی مناسب موقعہ آنے پر خاندان کی پا بحالی کا انتظام کیا جائے گا مگر یہ وعدے آج تک شرمندہ ایفاء نہیں ہوئے ۔ باوجود اس کے بانیئسلسلہ احمدیہنے جس زور دار رنگ میں حکومتِ وقت کے ساتھ وفاداری کی تعلیم دی ہے وہ آپ کی اس پاک ذہنیت کی بین دلیل ہے کہ اصول کے مقابلہ پر ذاتی مفاد کو خیال میں نہیں لانا چاہئے۔ علاوہ ازیں اس عرصہ میں بانیئسلسلہ احمدیہ کے اثر کے ماتحت آپ کا خاندان دنیا داری کے رستہ سے ہٹ کر اس دینی مسلک کو اختیار کر چکا ہے جس میں اس کی نظر سوائے خدا کے اور کسی طرف نہیں اٹھتی اور وہ کسی ایسے دنیوی مال و جاہ کے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں جو اسے خدا کے رستہ کو چھوڑ کر حاصل ہو۔
مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے جن کے ساتھ علاقہ کے بڑے بڑے انگریز افسروں کے ذاتی اور دوستانہ تعلقات تھے اور وہ ہمیشہ گورنر جنرل کے دربار میں بزمرہ کرسی نشین رئوساء کے بلائے جاتے تھے قریباً اسّی سال کی عمر میں ۱۸۷۶ء میں وفات پائی اور فی الجملہ یہی وہ تاریخ ہے جس سے بانیئسلسلہ احمدیہ کی پبلک زندگی کا آغاز ہوتا ہے جسے ہم مختصر طور پر اگلے باب میں بیان کریں گے ۱ ؎
بانیء سلسلہ احمدیہ کے ذاتی سوانح
نام اور ولادت :۔ جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے بانیء سلسلہ احمدیہ کا نام مرزا غلام احمد تھا یعنی آپ کا اصل نام غلام احمد تھا اور مرزا کا لفظ نسلی امتیاز کے اظہار کے لئے استعمال ہوتا تھا جیسا کہ ہر شخص جو مغل قوم سے تعلق رکھتا ہے مرزا کہلاتا ہے۔ لیکن اختصار کے طور پر آپ بعض اوقات صرف احمد کا نام بھی استعمال فرما لیتے تھے چنانچہ لوگوں سے بیعت لیتے وقت آپ ہمیشہ احمد کا نام استعمال کرتے تھے اور ان خدائی الہاموں میں بھی جو آپ کو ہوئے آپ کو متعدد جگہ احمد کے نام سے پکارا گیا ہے۔
آپ کی صحیح تاریخ پیدائش ایک عرصہ تک غیر معلوم رہی کیونکہ وہ سکھ حکومت کا زمانہ تھا جبکہ پیدائش وغیرہ کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا تھا اور حالات کی پراگندگی کی وجہ سے خاندان میں بھی تاریخ ولادت محفوظ نہیں رہ سکی۔ لیکن حال ہی میں بعض تحریرات اور روایات کی بناء پر یہ اندازہ لگایا گیا ہے جو غالباً درست ہے کہ آپ ۱۳؍ فروری ۱۸۳۵ء مطابق ۱۴؍ شوال ۱۲۵۰ھ بروز جمعہ بوقت نماز فجر پیدا ہوئے تھے۔ اس طرح آپ کی ولادت اور خاندا ن کی نسبتی بحالی کا زمانہ قریباً مل جاتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آپ کی پیدائش توام صورت میں ہوئی تھی مگر جو لڑکی آپ کے ساتھ پیدا ہوئی تھی وہ بہت جلد فوت ہو گئی ۔ اس وقعہ کی طرف اشارہ کر کے آپ بعض اوقات فرماتے تھے کہ اس طرح خداتعالیٰ نے مجھ سے مادہ انثیت کلی طور پر جُدا کر دیا اور آپ کے اعلیٰ مردانہ صفات اپنے کمال کو پہنچ گئے۔ آپ کے توام پیدا ہونے میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ اس سے وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو بعض اسلامی نوشتوں میں کی گئی تھی کہ مہدی موعود توام صورت میں پیدا ہو گا۔ ۱؎
بچپن اور ابتدائی تعلیم :۔ حضرت مرزا غلام احمد صاحب جنہیں میں اس رسالہ میں آپ کے
دعویٰ کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود کے نام سے یاد کروں گا بچپن سے ہی کسی قدر خلوت پسند اور سوچنے والی طبیعت رکھتے تھے اور دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر زیادہ کھیلنے کودنے کی عادت نہیں تھی تاہم اعتدال کے ساتھ اور مناسب حد تک آپ ورزش اور تفریح میں بھی حصہ لیتے تھے چنانچہ روایات سے پتہ لگتا ہے کہ آپ نے بچپن میں تیرنا سیکھا تھا اور کبھی کبھی قادیان کے کچے تالابوں میں تیرا کرتے تھے۔ اسی طرح آپ نے اوائل عمر میں گھوڑے کی سواری بھی سیکھی تھی اور اس فن میں اچھے ماہر تھے کبھی کبھی غلیل سے شکار بھی کھیلا کرتے تھے ۔ مگر آپ کی زیادہ ورزش پیدل چلنا تھا جو آخری عمر تک قائم رہی۔ آپ کئی کئی میل تک سیر کے لئے جایا کرتے تھے اور خوب تیز چلا کرتے تھے۔ صحت کی درستی کے خیال سے کبھی کبھی موگریوں کی ورزش بھی کیا کرتے تھے اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی کی روایت ہے کہ میں نے ایک دفعہ آپ کو آخر عمر میں بھی موگریاں پھیرتے دیکھا ہے۔ مگر یہ ساری باتیں صرف صحت کی درستی کی غرض سے تھیں ورنہ آپ نے کبھی بھی ان باتوں میں ایسے رنگ میں حصہ نہیں لیا جس سے انہماک کی صورت نظر آئے یا وقت ضائع ہو۔ بلکہ ایام طفولیت میں بھی آپ کی طبیعت دینی امور کی طرف بہت راغب تھی چنانچہ بعض روایات سے پتہ لگتا ہے کہ آپ اپنے کھیل کود کے زمانہ میں بھی اپنے ساتھ کے بچوں سے کہا کرتے تھے کہ ’’دعا کرو کہ خدا مجھے نماز کا شوق نصیب کرے‘‘ اور دوسرے بچوں کو بھی نیکی کی نصیحت کیا کرتے تھے۔
جب آپ تعلیم کی عمر کو پہنچے تو جیسا کہ اس زمانہ میں شرفاء میں دستور تھا آپ کے والد صاحب نے آپ کی تعلیم کے لئے بعض اساتذہ کو گھر پر تعلیم دینے کے لئے مقرر فرمایا۔ مگر بہتر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے سوانح کا یہ حصہ خود آپ کے الفاظ میں بیان کیا جائے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’ میری تعلیم اس طرح ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا۔ اور جب میری عمر قریباً دس برس کی ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم میں خداتعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ برس کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا نام گل علی شاہ تھا۔ ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لئے مقرر کیا تھا اور ان آخرالذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کوجہاں تک خدا نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے۔ اور ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا۔ ۱؎
شباب :۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے ابھی بچپن سے قدم باہر نکالا ہی تھا اور جوانی کا آغاز تھا کہ آپ کی شادی ہو گئی ۔مشرقی طریق کے مطابق اس عمر کی شادی میں زیادہ تر والدین کے انتخاب کا دخل ہوتا ہے اور موجودہ صورت میں بھی یہی ہوا اور گو بحیثیت مجموعی مشرقی ممالک کی شادیاں مغربی ممالک کی شادیوں کی نسبت حقیقۃً زیادہ کامیاب اور زیادہ خوشی کا باعث ہوتی ہیں مگر استثناء ہر جگہ چلتا ہے اور شاید موجودہ صورت میں خدا کا یہ بھی منشاء تھا کہ اس کے ہونے والے مسیح کی شادی خود اس کے اپنے انتخاب کے ماتحت ہو اس لئے یہ شادی کامیاب ثابت نہیں ہوئی۔ آپ کی یہ زوجہ جن کا نام حرمت بی بی تھا آپ کے اپنے عزیزوں میں سے تھیں اور ان کے بطن سے دو لڑکے بھی پیدا ہوئے مگر چونکہ خاوند بیوی کے مزاج اور میلانات میں انتہائی درجہ کی دوری تھی یعنی حضرت مسیح موعود ؑ دینی امور میں غرق اور دنیا سے بیزار تھے اور بیوی دین کی طرف سے غافل اور دنیا میں منہمک تھیں اس لئے باوجود اس کے کہ ظاہری حقوق کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود ؑ نے شوہری کا حق پوری طرح ادا کیا یہ رشتہ کامیاب ثابت نہیں ہوا اور ان دو بچوں کی ولادت کے بعد خاوند بیوی میں عملاً علیحدگی رہی اور بالآخر جدائی تک نوبت پہنچی۔
حضرت مسیح موعود کی زندگی کا یہ زمانہ بھی مطالعہ کے انہماک میں گزرا ۔ آپ کے وقت کا اکثر حصہ کتب کے مطالعہ میں گزرتا تھا اور سب سے زیادہ انہماک آپ کو قرآن شریف کے مطالعہ میں تھا حتیّٰ کہ بعض دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اس زمانہ میں ہم نے آپ کو جب بھی دیکھا قرآن پڑھتے دیکھا ۔ آپ کا مطالعہ سرسری اور سطحی رنگ کا نہیں ہوتا تھا بلکہ اپنے اندر ایسا انہماک رکھتا تھا کہ گویا آپ معانی کی گہرائیوں میں دھسے چلے جاتے ہیں۔ زمانۂ ماموریت کے متعلق جبکہ دوسرے کاموں کی کثرت کی وجہ سے مطالعہ کا شغل لازماً کم ہو گیا تھا ایک شخص کا بیان ہے کہ میں نے ایک دفعہ آپ کو قادیان سے بٹالہ تک بیل گاڑی میں سفر کرتے دیکھا ۔ ۱؎ آپ نے قادیان سے نکلتے ہی قرآن شریف کھول کر سامنے رکھ لیا اور بٹالہ پہنچنے تک جس میں بیل گاڑی کے ذریعہ کم و بیش پانچ گھنٹے لگے ہوں گے آپ نے قرآن شریف کا ورق نہیں الٹا اور انہی سات آیتوں کے مطالعہ میں پانچ گھنٹے خرچ کر دئیے۔ اس سے آپ کے زمانۂ شباب کے مطالعہ کی محویت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ خود آپ کا اپنا بیان ہے کہ اس زمانہ میں مجھے مطالعہ میں اس قدر انہماک تھا کہ بسا اوقات میرے والد صاحب میری صحت کے متعلق فکرمند ہو کر مجھے مطالعہ سے روک دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ میں شاید اس شغف میں اپنی جان کھو بیٹھوں گا۔
آپ کے والد صاحب نے اس محویت کو دیکھا تو آپ کی صحت سے خائف ہو کر نیز آپ کے مستقبل کو دنیادارانہ رنگ میں اچھا بنانے کی غرض سے آپ پر زور دینا شروع کیا کہ یا تو کوئی ملازمت قبول کر لیں اور یا خاندانی زمینداری کے کام میں لگ جائیں۔ آپ نے بہت ٹالا اور ہر رنگ میں معذرت کی کہ میں اس میدان کا آدمی نہیں ہوں مگر بالآخر والد کا دبائو غالب آیا اور آپ نے باپ کی فرمانبرداری کو فرض سمجھتے ہوئے زمینداری کام کی نگرانی میں ان کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا اور والد کی ہدایت کے مطابق ان مقدمات کی پیروی میں مصروف ہو گئے جو ان ایام میں خاندانی جائیداد کے متعلق کثرت سے پیش آرہے تھے ۔ یہ زمانہ آپ کے لئے بہت تلخ زمانہ تھا کیونکہ آپ کو اپنی خواہش اور اپنے طبعی میلان کے خلاف ایک ایسے دنیوی کام میں مصروف ہونا پڑا تھا جو بدقسمتی سے ہندوستان میں بہت مخرب اخلاق ہو رہا تھا۔
اس کے بعد یعنی ۱۸۶۴ء میں یا اس کے قریب آپ کو اپنے والد کی خواہش کے مطابق کچھ عرصہ کے لئے سیالکوٹ کے دفتر ضلع میں سرکاری ملازمت بھی اختیار کرنی پڑی۔ یہ نیا ماحول خفیف تغیر کے ساتھ قریباً قریباً وہی ماحول تھا جو مقدمات کی پیروی میں گزر چکا تھا۔ مگر خدا کو اپنے ہونے والے مسیح کو یہ سب نظارے دکھانے منظور تھے تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ دنیا کس رنگ میں بس رہی ہے۔ سیالکوٹ میں آپ کم و بیش چار سال ملازم رہے۔ اس زمانہ کے متعلق دوست و دشمن سب کی متفقہ شہادت ہے کہ آپ نے دینی اور اخلاقی لحاظ سے ہر رنگ میں اعلیٰ نمونہ دکھایا جس کی وجہ سے وہ سب لوگ جن کے ساتھ آپ کا واسطہ پڑا آپ کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ چنانچہ ان ایام میں سیالکوٹ میں ایک انگریز پادری مسٹربٹلر ایم ۔ اے رہتے تھے وہ حضرت مسیح موعود ؑ سے مل کر اور آپ کے خیالات سن کر اور اخلاق دیکھ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ باوجود شدید مذہبی اختلاف کے وہ آپ کو خاص طور پرعزت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ چنانچہ جب وہ واپس وطن جانے لگے تو حضرت مسیح موعود ؑ کی آخری ملاقات کے لئے خود چل کر ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں آئے اور ڈپٹی کمشنر کے دریافت کرنے پر کہ کیسے تشریف لائے ہوکہنے لگے کہ وطن جا رہا ہوں اور مرزا صاحب سے آخری ملاقات کرنے آیا ہوں۔ چنانچہ سیدھے حضرت مسیح موعود ؑ کے پاس چلے گئے اور تھوڑی دیر تک آپ کے پاس بیٹھ کر رخصت ہوئے۔ مگر جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے خود حضرت مسیح موعود ؑ کے لئے یہ ملازمت کا زمانہ اور اس سے پہلے مقدمات کی پیروی کا زمانہ نہایت دو بھر تھا چنانچہ اس زمانہ کے متعلق آپ لکھتے ہیں :۔
’’ میرے والد صاحب اپنے بعض آبائو اجدا کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لئے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کر رہے تھے۔انہوں نے ان ہی مقدمات میں مجھے بھی لگایا اور ایک زمانہ دراز تک میں ان کاموں میں مشغول رہا ۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سا وقتِ عزیز میرا ان بیہودہ جھگڑوں میں ضائع ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگا دیا۔ میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا اس لئے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کا نشانہ رہتا رہا۔ ان کی ہمدردی اور مہربانی میرے پر نہایت درجہ پر تھی مگر وہ چاہتے تھے کہ دنیاداروں کی طرح مجھے روبخلق بناویں او رمیری طبیعت اس طریق سے سخت بیزار تھی …… تاہم میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کر دیا تھا اور ان کے لئے دعا میں بھی مشغول رہتا تھا اور وہ مجھے دلی یقین سے بربالوالدین جانتے تھے …… ایسا ہی ان کے زیر سایہ ہونے کے ایام میں چند سال تک میری عمر کراہت طبع کے ساتھ انگریزی ملازمت میں بسر ہوئی …… اس تجربہ سے مجھے معلوم ہوا کہ اکثر نوکری پیشہ نہایت گندی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ‘‘ ۱؎
والدہ کی وفات اور ان کی محبت بھری یاد :۔ آخر آپ کے اصرار پر آپ کے والد صاحب نے
آپ کو سرکاری ملازمت سے مستعفی ہونے کی اجازت دے دی اور آپ اپنے والد کی خواہش کے مطابق قادیان واپس آکر پھر زمینداری کام کی نگرانی میں مصروف ہو گئے۔ یہ غالباً ۱۸۶۸ء یا اس کے قریب کا زمانہ تھا۔ اسی زمانہ کے قریب آپ کی والدہ صاحبہ کا انتقال ہوا جن کی محبت بھری یاد آپ کو اپنی عمر کے آخری لمحات تک بے چین کر دیتی تھی۔ خاکسار راقم الحروف کو اچھی طرح یاد ہے کہ جب بھی حضرت مسیح موعود ؑ اپنی والدہ کا ذکر فرماتے تھے یا آپ کے سامنے کوئی دوسرا شخص آپ کی والدہ کا ذکر کرتا تھا تو ہر ایسے موقعہ پر جذبات کے ہجوم سے آپ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے اور آواز میں بھی رقت کے آثار ظاہر ہونے لگتے تھے اور یوںمعلوم ہوتا تھا کہ اس وقت آپ کا دل جذبات کے تلاطم میں گھرا ہوا ہے اور آپ اسے دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ کی والدہ صاحبہ کا نام چراغ بی بی تھا اور وہ ایمہ ضلع ہوشیار پور کی رہنے والی تھیں اور سنا گیا ہے کہ آپ کی والدہ کو بھی آپ سے بہت محبت تھی اور سب گھر والے آپ کو ماں کا محبوب بیٹا سمجھتے تھے۔
سایۂ پدری کے آخری ایام :۔ بہر حال ملازمت سے فارغ ہو کر آپ قادیان واپس آگئے اور
بدستور زمینداری کاموں کی نگرانی میں مصروف ہو گئے ۔ مگر ان ایام میں بھی آپ کے وقت کا اکثر حصہ قرآن شریف کے تدبر اور تفسیروں اور حدیثوں اور تصوف کی کتابوں کے دیکھنے میں صرف ہوتا تھا اور بسا اوقات آپ یہ کتابیں اپنے والد صاحب کو بھی سنایا کرتے تھے اور اس میں آپ کو دو غرضیں مدنظر تھیں۔ ایک تو یہ کہ تا اس آخری عمر میں آپ کے والد صاحب کی توجہ دنیا کی طرف سے ہٹ کر دین کی طرف راغب ہو اور دوسرے یہ کہ تا وہ ان ہموم و غموم میں کسی قدر تسلی کا راہ پائیں جو اکثر مقدمات میں ناکام رہنے کی وجہ سے انہیں لاحق ہو رہے تھے۔ آپ کی یہ مخلصانہ کوشش کامیابی کا پھل لائی یعنی آپ کے والد صاحب کو اپنی عمر کے آخری ایام میں دنیا کی طرف سے بے رغبتی اور دین کی طرف توجہ پیدا ہو گئی۔ مگر یہ تبدیلی اس تلخ احساس کو بھی اپنے ساتھ لائی کہ میں نے اپنی عمر دنیا کے جھگڑوں میں ناحق ضائع کر دی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ لکھتے ہیں :۔
’’ حضرت والد صاحب مرحوم ایک نہایت عمیق گردابِ غم اور حزن اور اضطراب میں زندگی بسر کرتے تھے اور مجھے ان حالات کو دیکھ کر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنے کا موقعہ حاصل ہوتا تھا کیونکہ حضرت والد صاحب کی تلخ زندگی کا نقشہ مجھے اس بے لوث زندگی کا سبق دیتا تھا جو دنیا کی کدورتوں سے پاک ہے …… وہ ہمیشہ مغموم اور محزون رہتے تھے اور بارہا کہتے تھے کہ جس قدر میں نے اس پلید دنیا کے لئے سعی کی ہے اگر میںوہ سعی دین کے لئے کرتا تو شاید آج قطبِ وقت یا غوثِ وقت ہوتا …… یہ غم اور درد ان کا پیرانہ سالی میں بہت بڑھ گیا تھا۔ اسی خیال سے (اپنی وفات سے) قریباً چھ ماہ پہلے اس قصبہ کے وسط میں اس مسجد کی تعمیر کی کہ جو اس جگہ کی جامع مسجد ہے اور وصیت کی کہ مسجد کے ایک گوشہ میں میری قبر ہو۔ تا خدائے عزوجل کا نام میرے کان میں پڑتا رہے۔ کیا عجب کہ یہی ذریعہ مغفرت ہو۔ ‘‘ ۱ ؎
اسی زمانہ میں جبکہ آپ کے والد ماجد کی وفات کا زمانہ بہت قریب تھا آپ کو خواب میں بتایا گیا کہ دین کی راہ میں ترقی کرنے اور انوارِ سماوی کی پیشوائی کے لئے روزے رکھنے بھی ضروری ہیں۔ چنانچہ یہ خدائی اشارہ پا کر آپ نے نفلی روزے رکھنے شروع کئے اور آٹھ نو ماہ تک مسلسل روزے رکھے یہ روزے ان روزوں کے علاوہ تھے جو اسلام نے سال میں ایک مہینہ کے لئے فرض کئے ہیں۔ ان روزوں کے ایام میں آپ نے اپنی خوراک کو آہستہ آہستہ اس قدر کم کر دیا کہ بالآخر آپ دن رات میں صرف چند تولے خوراک پر اکتفا کرتے تھے۔ چنانچہ جیسا کہ آپ کو قبل از وقت بتایا گیا تھا ان ایام میں آپ پر بہت سے انوار سماوی کا انکشاف ہوا اور بعض گذشتہ انبیاء اور اولیاء سے بھی کشفی حالت میں ملاقات ہوئی۔ نیز اس طویل روزہ کشی اور خوراک کم کر دینے کے نتیجہ میں آپ کو یہ فائدہ بھی پہنچا کہ آپ کا جسم مشقت اور بھوک اور پیاس کا غیر معمولی طور پر عادی ہو گیا اور آپ کی روح کو اس کے سفلی علائق کے کمزور ہو جانے کی وجہ سے ایک فوق العادت جلا حاصل ہو گئی ۔ تاہم آپ نے لکھا ہے کہ میں عوام الناس کے لئے سخت مجاہدات اور ریاضات کے طریق کو پسند نہیں کرتا کیونکہ ان باتوں سے بعض اوقات کمزور طبیعت کے لوگوں کو نقصان پہنچ جاتا ہے اور ناقص قویٰ والے لوگ بسا اوقات خطرناک بیماریوں میں مبتلاء ہو جاتے ہیں پس آپ نے لکھا ہے کہ عام لوگوں کو اس طریق سے پرہیز کرنا چاہئے۔ ۲؎
والد کی وفات اور خدائی کفالت :۔ آپ کے والد صاحب کی وفات ۱۸۷۶ ء میں ہوئی اور وہ
اپنی وصیت کے مطابق اس مسجد کے ساتھ والی زمین مین دفن کئے گئے جو انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں تعمیر کرائی تھی اور جو اب مسجد اقصیٰ کہلاتی ہے۔ ۳ ؎ جس دن آپ کے والد صاحب کی وفات ہونی تھی اسی دن آپ کو خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ آج شام کے قریب آپ کے والد اس دنیا سے گزر جائیں گے۔ آپ لکھتے ہیں کہ اس خبر سے مجھے والد کی جدائی کے طبعی غم کے علاوہ ایک آنِ واحد کے لئے یہ خیال بھی دل میں آیا کہ معاش کے اکثر وجوہ والد کی زندگی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان کے بعد نہ معلوم کیا ہو گا ؟ یہ خیال دل میں گذرا ہی تھا کہ ایک نہایت پر جلال آواز میں دوسرا الہام ہوا کہ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ ـ یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے؟ اس کے بعد سے آپ گویا خدا کی کفالت میں آگئے اور آپ لکھتے ہیں کہ خدا نے میری ایسی کفالت فرمائی کہ جو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔
پبلک زندگی کا آغاز اور براہین احمدیہ کی تصنیف :۔ ۱۸۷۶ء تک جب کہ آپ کے والد
صاحب کی وفات ہوئی آپ کی زندگی ایک بالکل پرائیویٹ رنگ رکھتی تھی۔ مگر اس کے بعد آپ نے آہستہ آہستہ پبلک میں آنا شروع کیا۔ یا زیادہ صحیح طور پر یوں کہنا چاہئے کہ خدائی تقدیر آپ کو دنیا کی اصلاح کے لئے زاویۂ گمنامی سے نکال کر شہرت کے میدان کی طرف کھینچنے لگی۔ آغاز اس تبدیلی کا بظاہر اس طرح ہوا کہ ان ایام میں پنڈت دیانند سرسوتی کی تحریک سے بیدار ہو کر ہندوئوں میں ایک جماعت آریہ سماج کے نام سے قائم ہوئی جس نے نہ صرف ہندوئوں کے لئے ایک نیا مذہبی فلسفہ پیش کیا بلکہ دوسرے مذاہب کے مقابلہ پر بھی ہندو قوم میں ایک جارحانہ روح پیدا کر دی۔ دوسری طرف ہندوستان کے مسیحی پادریوں نے بھی جو دہلی کے غدر کے بعد سے مسلمانوں کے مذہبی جوش و خروش سے کسی قدر مرعوب ہو کر سہمے ہوئے تھے اب پھر سر اٹھانا شروع کیا اور حکومت کے سایہ میں ایک نہایت پر زور مشنری مہم شروع کر دی۔ اور ویسے بھی اس زمانہ میں صلیبی مذہب ساری دنیا میں ایک طوفانِ عظیم کی طرح جوش مار رہا تھا۔ تیسری طرف یہ زمانہ ہندوستان کی مشہور مذہبی تحریک برہمو سماج کے زور کا زمانہ تھا جس کا جدید مذہبی فلسفہ امن اور آشتی اور صلح کل پالیسی کے لباس میں مذہب کی عمومی روح کے لئے گویا ایک کاٹنے والی تلوار کا حکم رکھتا تھا اور چوتھی طرف اس زمانہ میں ساری دنیا کا یہ حال ہو رہا تھا کہ مغربی تہذیب و تمدن کی بظاہر خوشگوار ہوائیں جہاں جہاں سے بھی گزرتی تھیں دہریت اور مادیت کا بیج بوتی جاتی تھیں اور یہ زہر بڑی سرعت کے ساتھ ہرقوم و ملت میں سرایت کرتا جا رہا تھا۔ اس چوکور خطرے کو حضرت مسیح موعود ؑ کی تیز اور دور بین آنکھ نے دیکھا اور آپ کی اکیلی مگر بہادر روح اس مہیب خطرے کے مقابلہ کے لئے بے قرار ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ آپ کی سب سے پہلی تصنیف جو براہین احمدیہ کے نام سے موسوم ہے اور چار جلدوں میں ہے اسی مرکب حملہ کے جواب میں لکھی گئی تھی۔ اس کتاب میں خصوصیت سے الہام کی ضرورت اور اس کی حقیقت۔ اسلام کی صداقت اور قرآن کی فضیلت ۔ خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کے علم کی وسعت ۔ خدا کی خالقیت اور اس کی مالکیت پر نہایت لطیف اور سیرکن بحثیں ہیں اور ساتھ ہی اپنا ملہم ہونا ظاہر کر کے اپنے بہت سے الہامات درج کئے گئے ہیں جن میں سے بہت سے الہام آئندہ کے متعلق عظیم الشان پیشگوئیوں پر مشتمل ہیں۔ غرض یہ اس پایہ کی کتاب ہے کہ محققین نے اسے بالا تفاق اس زمانہ میں اسلامی مدافعت کا شاہکار قرار دیا۔ چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو فرقہ اہلحدیث کے نامور لیڈر تھے اور بعد میں حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف سب سے پہلے کفر کا فتویٰ لگانے والے بنے انہوں نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں براہین احمدیہ پر ریویو کرتے ہوئے لکھا کہ :۔
’’ ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی …… اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی وحالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے۔ ‘‘ ۱ ؎
براہین احمدیہ کو حضرت مسیح موعود ؑ کی سب سے پہلی تصنیف ہونے کے علاوہ ایک یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس میں آپ نے اپنے بہت سے ابتدائی الہامات جمع کر دئیے ہیں جن میں سے اکثر آپ کی آئندہ ترقیات کے متعلق ہیں چنانچہ انہی میں سے ایک الہام یہ بھی ہے کہ :۔
’’ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ‘‘ ۱ ؎
یعنی ایک وقت آنے والا ہے کہ دنیا میںتجھے اتنی قبولیت حاصل ہو جائے گی کہ بڑے بڑے بادشاہ تیرے حلقۂ غلامی میں داخل ہو کر تیرے متبرک کپڑوں کو اپنے سر آنکھوں سے لگائیں گے اور انہیں زیبِ تن کر کے ان سے برکت حاصل کریں گے۔ یہ الہام اس وقت کا ہے جبکہ آپ بالکل گوشۂ گمنامی میں پڑے ہوئے تھے اور ابھی مجددیت اور ماموریت کا بھی دعویٰ نہیں تھا اور کوئی شخص آپ کو نہیں جانتا تھا۔ مگر آئندہ آنے والی نسلیں دیکھیں گی کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدے کو کس طرح پورا کرتا ہے اس الہام میں یہ بھی اشارہ ہے کہ احمدیت میں بادشاہوں کے داخل ہونے کا زمانہ ایسے وقت تک آجائے گا کہ ابھی آپ کے استعمال شدہ کپڑے (جو زیادہ دیر تک ٹھہرنے والی چیز نہیں) دنیا میں موجود ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ بھی لکھا ہے کہ عالمِ کشف میں مجھے یہ بادشاہ دکھائے گئے جو تعداد میں سات تھے اور گھوڑوں پر سوار تھے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے سات کے عدد اور گھوڑوں پر سوار ہونے کے کی تشریح نہیں فرمائی مگر میں خیال کرتا ہوں کہ سات کے عدد میں کثرت اور تکمیل کی طرف اشارہ ہے یا یہ بھی ممکن ہے کہ یہ لفظ ہفت اقلیم کے محاورہ کی بناء پر استعمال کیا گیا ہو اور گھوڑوں کی سواری سے یہ مراد معلوم ہوتی ہے کہ یہ بادشاہ یونہی نام کے بادشاہ نہیں ہون گے بلکہ حقیقی حکمران ہوں گے اور ان کے ہاتھوں میں حکومت کی عنان ہو گی ۔ کیونکہ عالمِ رئویا میں گھوڑے کی سواری سے حکومت مراد ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ اسی طرح براہین احمدیہ میں اور بھی بہت سے الہامات درج ہیں جن میں سے کئی پورے ہو چکے ہیں اور کئی پورے ہونے والے ہیں۔
ماموریت کا پہلا الہام :۔ ابھی براہین احمدیہ کی تصنیف جس کے چار حصے ۱۸۸۰ء تا ۱۸۸۴ء میں
شائع ہوئے مکمل نہیں ہوئی تھی کہ آپ کو خدا کی طرف سے مارچ ۱۸۸۲ء میں وہ تاریخی الہام ہوا جو آپ کی ماموریت کی بنیاد تھا۔اس الہام میں خدا تعالیٰ نے آپ کو مخاطب ہو کر فرمایا :۔
یَا اَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ ـ مَارَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ـ اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ـ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا اُنْذِرَ اٰبَائُھُمْ ـ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلَ الْمُجْرِمِیْنَ ـ قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ ـ ۱ ؎
’’ یعنی اے احمد ! اللہ نے تجھے برکت دی ہے پس جو وار تو نے دین کی خدمت میں چلایا ہے وہ تو نے نہیں چلایا بلکہ دراصل خدا نے چلایا ہے۔ خدا نے تجھے قرآن کا علم عطا کیا ہے تا کہ تو ان لوگوں کو ہوشیار کرے جن کے باپ دادے ہوشیار نہیں کئے گئے اور تا مجرموں کا راستہ واضح ہو جاوے۔ لوگوں سے کہہ دے کہ مجھے خدا کی طرف سے مامور کیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں۔ ‘‘
آپ کا یہ الہام پہلا الہام نہیں تھا بلکہ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے الہامات کا سلسلہ آپ کے والد ماجد کی زندگی میں ہی شروع ہو چکا تھا۔ مگر یہ وہ پہلا الہام تھا جو ماموریت کے متعلق آپ پر نازل ہوا اور جس نے آپ کی زندگی میں ایک نئے دورکا آغاز کر دیا ۔ لیکن چونکہ ابھی تک آپ کو بیعت لینے کا حکم نہیں ہوا تھا اس لئے اس کے بعد بھی آپ کچھ عرصہ تک عام رنگ میں اسلام کی خدمت میں مصروف رہے اور کسی باقاعدہ جماعت کی بنیاد نہیں رکھی۔ البتہ آپ نے یہ کیا کہ اپنے ماموریت کے دعویٰ کو جسے آپ نے مجددیت کا آغاز قرار دیا ایک اشتہار کے ذریعہ نہ صرف ہندوستان کے مختلف حصوں میں بلکہ اس اشتہار کو انگریزی میں ترجمہ کرا کے دوسرے ممالک میں بھی کثرت کے ساتھ پہنچا دیا اور دنیا بھر کے بادشاہوں ،وزیروں اور مذہبی لیڈروں کو یہ اشتہار بھجوایا۔ اور جملہ مذاہب والوں کو دعوت دی کہ اگر انہیں اسلام کی حقانیت یا آنحضرت ﷺ کی صداقت میں کوئی شبہ ہو یا الہام یا ہستی باری تعالیٰ کے متعلق کوئی اعتراض ہو یا قرآن کی فضیلت کے متعلق کوئی بات دل میں کھٹکتی ہو تو وہ آپ کے پاس آکر یا خط و کتابت کے ذریعہ تسلی کر لیں۔۲ ؎ مجددیت کے دعویٰ سے آپ کی مراد یہ تھی کہ اسلام میں جو یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد یعنی مصلح مبعوث ہوا کرے گا جس کے ذریعہ خدا تعالیٰ دنیا میں اصلاح کا کام لیا کرے گا اور اس وعدے کے مطابق گذشتہ صدیوں میں مجدد آتے رہے ہیں سو موجودہ چودھویں صدی کا مجدد میں ہوں جسے خدا نے اسلام کی خدمت کے لئے مبعوث کیا ہے اور مجھے وہ علم دیاگیا ہے اور وہ طاقتیں عطا کی گئی ہیں جو موجودہ زمانہ کے فتنوں کے مقابلہ کے لئے ضروری ہیں۔
بعض دوسرے الہامات :۔ ماموریت کے الہام کے بعد الہاموں کا سلسلہ زیادہ کثرت کے
ساتھ شروع ہو گیا اور چونکہ یہ الہامات براہین احمدیہ کی تصنیف کے زمانہ میں ہوئے تھے اس لئے آپ ان کو ساتھ ساتھ کتاب میں درج فرماتے گئے اور اس طرح مخالفوں پر اتمام حجت کے لئے ایک عمدہ ذخیرہ تیار ہو گیا۔ یہ الہامات اکثر صورتوں میں آئندہ ترقیوں کے متعلق ہیں اور اس زمانہ میں نازل ہوئے تھے کہ جب ابھی آپ کے دعویٰ کی بالکل ابتداء تھی اور ابھی جماعت احمدیہ کی بنیاد بھی نہیں رکھی گئی تھی اور بہت کم لوگ آپ کو جانتے تھے ان میں سے تین الہام نمونے کے طور پر اس جگہ درج کئے جاتے ہیں۔ پہلا الہام یہ ہے :۔
یَاْتُونَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ ـ وَیَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ ۱؎
’’ یعنی تیرے پاس دور دراز سے لوگ آویں گے اور تیری امداد کے لئے تجھے دور دراز سے سامان پہنچیں گے حتیّٰ کہ لوگوں کی آمد اور اموال و سامان کے آنے سے قادیان کے راستے گھس گھس کر گہرے ہو جائیں گے۔ ‘‘
یہ الہام اس وقت کا ہے جبکہ قادیان میں کسی کی آمد و رفت نہیں تھی اور قادیان کا دور افتادہ گائوں دنیا کی نظروں سے بالکل محجوب و مستور تھا مگر حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میں ہی لوگوں نے اس الہام کو پورا ہوتے دیکھ لیا اور ہنوز اس الہام کی تکمیل کا سلسلہ جاری ہے اور نہ معلوم اس کی انتہا کن کن عجائبات قدرت کی حامل ہو گی ۔ دوسرا الہام براہین احمدیہ میں یہ درج ہے کہ :۔
اِنّی مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ـ ۱ ؎
’’ یعنی وقت آتا ہے کہ تیری جان پر دشمنوں کی طرف سے حملے ہوں گے مگر میں تجھے ان سب حملوں سے بچائوں گا اور تجھے اپنے وقت پر طبعی موت سے وفات دوں گا اور تیری موت عزت اور رفعت کی موت ہو گی جس کے بعد تیری روح میری طرف اٹھائی جائے گی اور میں تیرے ماننے والوں کو قیامت کے دن تک تیرے منکروں پر غالب رکھوں گا اور وہ کبھی بھی تیرے مخالفوں کے مقابل پر مغلوب نہیں ہوں گے۔ ‘‘
یہ الہام بھی جس عظیم الشان پیشگوئی کا حامل ہے وہ ظاہر و عیاں ہے اور اس پیشگوئی کے اندر دراصل کئی پیشگوئیاں مخفی ہیں جن کا دامن قیامت تک پھیلا ہوا ہے اور اس الہام میں احمدیت کے لئے ایک ایسی بڑی بشارت ہے کہ جس سے بڑھ کر اس دنیا میں ممکن نہیں اور گو اس کا ایک حصہ پورا ہو چکا ہے اور اہل نظر کے لئے اس کے دوسرے حصہ کے ظہور کا بھی آغاز ہو چکا ہے مگر اس کی اصل شان آئندہ زمانوں میں ظاہر ہو گی جسے دیکھنے والے دیکھیں گے۔ تیسرا الہام براہین احمدیہ میں یہ درج ہے کہ :۔
’’ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ ‘‘ ۲ ؎
یہ الہام بھی جس زبردست قوت اور بشارت کا حامل ہے اس پر کسی دلیل لانے کی ضرورت نہیں اور گو ابھی تحریک احمدیت کا آغاز ہی ہے لیکن خدائی حملوں نے پہلے سے ہی دنیا کو ہلا رکھا ہے اور یہ ابتدائی حملے اس بات پر شاہد ہیں کہ خدائے ذوالجلال اس وقت تک دنیا کو چھوڑے گا نہیں جب تک کہ اپنے مرسل و مامور کی صداقت کا سکہ نہ جمالے۔ اسی طرح براہین احمدیہ میں ا ور بہت سی پیشگوئیاں درج ہیں مگر اس مختصر رسالہ میں اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں۔
حضرت مسیح موعود کی شادی اور مبشر اولاد :۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام براہین احمدیہ
حصہ چہارم کی تصنیف سے فارغ ہو چکے اور ماموریت کا اشتہار بھی شائع کیا جا چکا تو ۱۸۸۴ء کے آخر میں آپ نے ایک خدائی بشارت کے ماتحت دہلی کے ایک معزز سید خاندان میں دوسری شادی کی جو برخلاف آپ کی پہلی شادی کے بہت کامیاب اور نہایت بابرکت ثابت ہوئی اور آپ کا گھر اہلی زندگی کا بہترین نمونہ نظر آنے لگا۔ آپ کی اس زوجہ محترمہ کا نام نصرت جہاں بیگم ہے جو خدا کے فضل سے اس وقت تک زندہ ہیں اور اسلامی محاورہ کے مطابق جماعت احمدیہ میں ام المومنین یعنی مومنوں کی ماں کہلاتی ہیں۔ ان کے والد صاحب کا نام میر ناصر نواب تھا جو دہلی کے مشہور صوفی بزرگ خواجہ میر درد کی نسل میں سے تھے اور نہایت پاک باطن اور صاف گو بزرگ تھے۔ اس شادی سے حضرت مسیح موعود ؑ کے گھر میں زمانہ وفات کے قریب تک اولاد کا سلسلہ جاری رہا اور آپ نے لکھا ہے کہ میری یہ ساری اولاد کہ جو نسل سیدہ ہے خدائی بشارتوں کے ماتحت پیدا ہوئی ہے یعنی ان میں سے ہر ایک کی ولادت سے پہلے اللہ تعالیٰ اپنے کسی مبشر الہام کے ذریعہ ان کی پیدائش کی خبر دیتا رہا ہے اور ایک بچہ کے متعلق تو خدا تعالیٰ نے خصوصیت سے آپ کو یہ الہام کیاکہ وہ ایک بہت اعلیٰ مقام کو پہنچے گا اور اس کے ذریعہ سے دنیا میں خدا کے جلال کا ظہور ہو گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ اس اولاد میں سے جو بچے زندہ رہے ان میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سب سے بڑے ہیں جو ۱۸۸۹ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۱۴ء سے حضرت مسیح موعود ؑ کے دوسرے خلیفہ کی حیثیت میں جماعت احمدیہ کے امام اور لیڈر ہیں۔
اس جگہ ضمنی طور پر یہ ذکر بے موقعہ نہ ہو گا کہ حضرت مسیح موعود کا تعلق اپنے اہل خانہ اور اپنی اولاد کے ساتھ نہایت درجہ پاکیزہ اور خوشگوار تھا۔ میں اس کے لئے کوئی اور الفاظ نہیں پاتا سوائے اس کے کہ اس تعلق میں محبت اور شفقت اور نصیحت کے عناصرنے مل کر ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا تھا جسے اعلیٰ درجہ کی بہشتی زندگی کے سوا کسی اور لفظ سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے ہزاروں لوگوں کی اہلی زندگی کو دیکھا ہے اور دوسروں کے حالات کو سنا او رپڑھا ہے مگر میں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس زمانہ میں آپ سے کوئی بہتر خاوند اور بہتر باپ نہیں دیکھا اور بیوی اور بچوں پر ہی منحصر نہیں بلکہ دوستوں اور ہمسایوں ۔ اپنوں اور بیگانوں حتیّٰ کہ دشمنوں تک سے آپ کا سلوک نہایت درجہ مشفقانہ تھا اور وہ باوجود مذہبی مخالفت کے آپ کی صداقت اور امانت اور وفاداری پر کامل بھروسہ رکھتے تھے۔
شہب ثاقبہ کا نشان :۔ ۱۸۸۵ء کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ کی تائید میں ایک
عجیب نشان ظاہر کیا یعنی ۲۷اور ۲۸؍ نومبر ۱۸۸۵ء کی درمیانی رات کو آسمان پر ستاروں کے ٹوٹنے کا ایک غیر معمولی نظارہ نظر آیا۔ اس رات اس کثرت کے ساتھ ستارے ٹوٹے کہ گویا ستاروں کی بارش ہو رہی تھی۔ ان ستاروں کا ٹوٹنا تصویری زبان میں اس بات کی علامت تھی کہ اب دنیا کی شیطانی فوجوں پر خدا کی رحمانی فوج کے حملہ کا وقت آگیا ہے اور آسمان کی طاقتیں غیر معمولی حرکت میں ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ لکھتے ہیں:۔
’’ ۲۸ ؍ نومبر ۱۸۸۵ء کی رات کو یعنی اس رات کو جو ۲۸؍ نومبر سے پہلے آئی اس قدر شہب کا تماشا آسمان پر تھا جو میں نے اپنی تمام عمر میں اس کی نظیر کبھی نہیں دیکھی اور آسمان کی فضا میں اس قدر ہزارہا شعلے ہر طرف چل رہے تھے جو اس رنگ کا دنیا میں کوئی بھی نمونہ نہیں تا میں اس کو بیان کر سکوں …… یہ شہب ثاقبہ کا تماشا ایسا وسیع طور پر ہوا جو یورپ اور امریکہ اور ایشیا کے عام اخباروں میں بڑی حیرت کے ساتھ چھپ گیا …… وہ سلسلہ رمی شہب کا شام سے ہی شروع ہو گیا تھا جس کو میں صرف الہامی بشارتوں کی وجہ سے بڑے سرور کے ساتھ دیکھتا رہا کیونکہ میرے دل میں الہاماً ڈالاگیا تھا کہ یہ تیرے لئے نشان ظاہر ہو ا ہے۔ ‘‘ ۱ ؎
یہ بتایا جا چکا ہے کہ ستاروں کے ٹوٹنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زمین کی اصلاح کے لئے آسمان میں حرکت ہو رہی ہے اور یہ کہ شیطانی فوجوں پر خدا کی فوجیں حملہ آور ہونے کو تیار ہیں۔ چنانچہ روایتوں سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پیدائش کے وقت بھی اسی طرح کا نظارہ آسمان میں نظر آیا تھا ۔ ۱ ؎ اور بعض اوقات ستاروں کے ٹوٹنے کی بجائے اجرام سماوی میں بعض اور قسم کے نشان بھی نظر آتے ہیں جیسا کہ مثلاً حضرت مسیح ناصری کی پیدائش کے وقت ایک خاص قسم کا ستارا نظر آیا تھا جسے بعض مجوسی لوگ دیکھ کر مسیح کی تلاش کے لئے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ ۲ ؎ اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ حضرت مسیح ناصری نے اپنی آمد ثانی کے لئے خاص طور پر ستاروں کے ٹوٹنے کو بطور نشان کے بیان کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں :۔
’’ سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور آسمان سے ستارے گریں گے اور جو قوتیں آسمان میں ہیں وہ ہلائی جائیں گی اور اس وقت لوگ ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ بادلوں میں آتے دیکھیں گے۔ ‘‘ ۳ ؎
حضرت مسیح ناصری کے اس قول میں جو سورج اور چاند کے روشنی نہ دینے کا ذکر ہے اس سے مراد ان کو گرہن لگنا ہے جو وہ بھی مسیح موعود ؑ کے لئے بطور ایک علامت کے مقرر تھا چنانچہ ہم آگے چل کر دیکھیں گے کہ ۱۸۹۴ء میں سورج ا ور چاند کو گرہن لگا جو عین ان تاریخوں کے مطابق تھا جو اسلامی صحیفوں میں پہلے سے بتائی گئی تھیں اور انجیل کے الفاظ میں جو یہ ذکر ہے کہ مسیح کا نزول بادلوں میں سے ہو گا اس سے یہ مراد ہے کہ گو اپنی ذات میں مسیح کا نزول قدرت اور جلال کے رنگ میں ہو گا اور آسمانی طاقتیں بڑی شان و شوکت کے ساتھ حرکت میں آئیں گی لیکن شروع شروع میں دنیا کی نظر میں مسیح کا نزول ایسا ہو گا کہ گویا وہ بادلوں میں مستور ہو کر دھندلی روشنی میں اتر رہا ہے لیکن بعد میں آہستہ آہستہ بادلوں کے چھٹ جانے سے روشنی ترقی کرتی جائے گی۔
۱۸۸۶ء کے شروع میں حضرت مسیح موعود ؑ خدائی منشاء کے ماتحت ہوشیار پور میں تشریف لے گئے جو قادیان سے قریباً چالیس میل مشرق کی طرف واقع ہے اور پنجاب کے ایک ضلع کا صدر مقام ہے۔ یہاں آپ نے چالیس دن تک ایک علیحدہ مکان میں جو آبادی سے کسی قدر جدا تھا عبادت اور ذکر الٰہی میں وقت گزارا ۔ ان دنوں میں آپ اس مکان کے بالا خانہ میں بالکل خلوت کی حالت میں رہتے تھے اور آپ کے تین ساتھی جو خدمت کے لئے ساتھ گئے تھے نیچے کے حصہ میں مقیم تھے اور آپ نے حکم دیا تھا کہ مجھ سے کوئی شخص ازخود بات نہ کرے اور ان ایام میں آپ خود بھی بہت کم گفتگو فرماتے تھے اور اکثر حصہ وقت کا عبادت اور ذکر الٰہی میں گزارتے تھے ۔ گویا ایک طرح آپ کی یہ خلوت نشینی اعتکاف کا رنگ رکھتی تھی۔
ان ایام میں آپ پر بہت سے انوار سماوی کا انکشاف ہوا اور پسرِ موعود کے متعلق بھی انہی دنوں میں الہامات ہوئے جن میں بتایا گیا کہ خدا آپ کو ایک ایسا لڑکا دے گا جو خدا کی طرف سے ایک خاص رحمت کا نشان ہو گا اور اس کے ذریعہ دین کو بہت ترقی حاصل ہو گی۔ چنانچہ اس الہام کے الفاظ یہ ہیں :۔
’’ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا۔ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا …… فرزند دلبند گرامی ارجمند مظہر الاول والاخر مظہر الحق والعلا کَأَنَّ اللّٰہ نزل من السَّماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا۔نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا ہے۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا۔ اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا ۔ وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا ۔‘‘ ۱؎
جب حضرت مسیح موعود ؑ اس چالیس روزہ عبادت کو پورا کر چکے تو اس کے بعد آپ بیس روز مزید ہوشیار پور میں ٹھہرے اور انہی دنوں میں ہوشیار پور کے ایک جوشیلے آریہ ماسٹر مرلی دھر کے ساتھ آپ کا اسلام اور آریہ مذہب کے اصولوں کے متعلق مناظرہ ہوا جس میں حضرت مسیح موعود ؑ کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ مناظرہ کے بعد جلد ہی حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک تصنیف ’’ سرمہ چشم آریہ‘‘ کے نام سے شائع فرمائی جس میں اس مناظرہ کی کیفیت درج کرنے کے علاوہ اسلام کی صداقت اور آریہ مذہب کے بطلان میں نہایت زبردست دلائل درج فرمائے اور اعلان کیا کہ اگر کوئی آریہ اس کتاب کا رد لکھ کر اس کے دلائل کو غلط ثابت کرے تو میں اسے انعام دوں گا مگر کسی کو اس مقابلہ کی جرأت نہیں ہوئی۔ یہ کتاب ۱۸۸۶ء کے آخر میں شائع ہوئی اور سلسلہ احمدیہ کی بہترین کتابوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس کتاب میں معجزات کی حقیقت پر نہایت لطیف بحث ہے اور خصوصاً آنحضرت ﷺ کے شق القمر کے معجزہ پر ایک نہایت لطیف مقالہ درج ہے اور آریہ مذہب کے اصول دربارہ قدامتِ روح ومادہ وغیرہ کو زبردست دلائل کے ساتھ رد کیا گیا ہے۔
بشیر اوّل کی ولادت اور وفات اور مخالفوں کا شور و غوغا :۔ ۱۸۸۷ء کے آخر میں حضرت
مسیح موعود ؑ کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام آپ نے بشیر احمد رکھا۔ اس کی ولادت پر لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ کیا یہی لڑکا وہ پسرِ موعود ہے جس کی خاص طور پر بشارت دی گئی تھی؟ آپ نے فرمایا مجھے اس معاملہ میں خدا کی طرف سے کوئی خبر نہیں دی گئی ۔ پس ممکن ہے کہ یہی وہ لڑکا ہو اور ممکن ہے کہ وہ لڑکا بعد میں پیدا ہو۔ باوجود آپ کی اس تشریح کے جب یہ لڑکا قضاء الٰہی سے ۱۸۸۸ء کے آخر میں فوت ہو گیا تو بعض لوگوں نے اس پر بہت شور مچایا کہ پیشگوئی غلط نکلی اور یہ کہ جس لڑکے کے متعلق اس شدومد کے ساتھ خبر دی گئی تھی وہ صرف چند ماہ زندہ رہ کر فوت ہو گیا۔ آپ نے ایک اشتہار کے ذریعہ سے اس بات کو اچھی طرح واضح کیا کہ میں نے کبھی یہ نہیں لکھا تھا کہ یہی وہ موعود لڑکا ہے۔ بلکہ صرف اس قدر کہا تھا کہ ممکن ہے کہ یہی وہ لڑکا ہو مگر مجھے اس بارے میں خدا کی طرف سے کوئی علم نہیں دیا گیا تھا اور آپ نے پھر دوبارہ بڑے زور کے ساتھ یہ اعلان فرمایا کہ جس عظیم الشان لڑکے کی مجھے بشارت دی گئی ہے وہ اپنے وقت پر ضرور پیدا ہو گا اور آپ نے لکھا کہ زمین اور آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خدا کی بات نہیں ٹل سکتی۔ ۱؎







سلسلہ احمدیہ کی مختصر تاریخ
حضرت مسیح موعود ؑ کا زمانہ
جماعت کا سنگ بنیاد :۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماموریت کا پہلا الہام مارچ ۱۸۸۲ء میں ہوا تھا جس کے بعد آپ نے اشتہاروں وغیرہ کے ذریعہ تمام دنیا میں اپنے دعویٰ مجددیت کا اعلان فرما دیا مگر چونکہ ابھی تک آپ کو بیعت لینے کا حکم نہیں ہوا تھا اس لئے آپ نے بیعت کا سلسلہ شروع نہیں کیا اور بدستور عام رنگ میں اسلام کی خدمت میں مصروف رہے۔ پھر جب ۱۸۸۸ء کا آخر آیا تو آپ نے خدا سے حکم پا کر بیعت کا اعلان فرمایا ۔ ۱ ؎ اور پہلے دن کی بیعت میں جومارچ ۱۸۸۹ء میں بمقام لدھیانہ ہوئی چالیس افراد نے آپ کے ہاتھ پر توبہ اور اخلاص اور اطاعت کا عہد باندھا جس میں ہر بیعت کنندہ سے خصوصیت کے ساتھ یہ اقرار لیا جاتا تھا کہ ’’ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔ ‘‘ ابتدائی بیعت میں بیشتر طور پر وہی لوگ شامل تھے جو پہلے سے آپ کے زیر اثر آکر آپ کی صداقت کے قائل ہو چکے تھے۔ انہی میں حضرت مولوی نورالدین صاحب بھی تھے جو ایک بہت بڑے دینی عالم اور نہایت ماہر طبیب تھے اور ان ایام میں مہاراجہ صاحب جموںو کشمیر کے دربار میں بطور شاہی طبیب کے ملازم تھے حضرت مولوی صاحب موصوف ایک نہایت جید عالم تھے اور قرآن کریم کی تفسیر کا خاص علم اور خاص ملکہ رکھتے تھے اور اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب کے لٹریچر پر بھی ان کی نظر نہایت وسیع تھی وہ پہلے دن کی بیعت میں اول نمبر پر تھے اور انہیں یہ امتیاز اور فخر بھی حاصل ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر جو ۱۹۰۸ء میں ہوئی وہ جماعت کے پہلے خلیفہ ہوئے۔ حضرت مولوی صاحب بھیرہ ضلع شاہ پور کے رہنے والے تھے۔
اس ابتدائی بیعت کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ صرف مجدد ہونے کا تھا یعنی یہ کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو اسلام کی چودھویں صدی کے سر پر دین کی خدمت اور اسلام کی تجدید کے لئے مبعوث کیا ہے۔ اس کے سوا کوئی اور دعویٰ نہیں تھا۔ نہ مسیح ہونے کا نہ مہدی ہونے کا ،نہ نبی اور رسول ہونے کا اور نہ تمام قوموں کے آخری موعود ہونے کا۔ اس لئے اس وقت تک مسلمانوں میں آپ کی کوئی مخالفت نہیں ہوئی بلکہ عموماً آپ کو اسلام کا ایک نہایت قابل جرنیل خیال کیا جاتا تھا اور لوگ آپ کے غیر معمولی تقویٰ اور طہارت اور جذبۂ خدمتِ دین کے قائل تھے اور آپ کے وجود کو اپنے لئے ایک مضبوط سہارا دین کے لئے ایک پختہ ستون سمجھتے تھے۔ اور دوسری قومیں بھی آپ کو اسلام کا ایک عدیم المثال جرنیل خیال کرتی تھیں اور آپ کی زبردست تحریروں سے خائف تھیں۔ مگر جیسا کہ ذیل کی سطور سے ظاہر ہو گا یہ صورتِ حال زیادہ دیر تک قائم نہیں رہی۔
مسیحیت کا دعویٰ اور مخالفت کا طوفانِ بے تمیزی :۔ ۱۸۹۰ء اور ۱۸۹۱ء کے سال حضرت
مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے خاص سال تھے کیونکہ ان میں حضرت مسیح موعود ؑ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے اس حقیقت کا انکشاف ہوا جس نے آپ کے متعلق لوگوں کے رخ کو بالکل بدل دیا۔ اور آپ کے خلاف مخالفت کا وہ طوفانِ بے تمیزی اٹھ کھڑا ہوا جس کی نظیر سوائے انبیاء کے زمانے کے اور کسی جگہ نہیں ملتی۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ۱۸۹۰ء کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر الہاماً ظاہر کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جنہیں عیسائی اور مسلمان دونوں آسمان پر زندہ خیال کر رہے ہیں اور آخری زمانہ میں ان کی دوسری آمد کے منتظر ہیں وہ دراصل وفات پا چکے ہیں اور ان کے آسمان پر جانے اور آج تک زندہ چلے آنے کا خیال بالکل غلط اور خلاف واقعہ ہے اور یہ کہ ان کی دوسری آمد کا وعدہ ایک مثیل کے ذریعہ پورا ہونا تھا اور آپ کو بتایا گیا کہ یہ مثیل مسیح خود آپ ہی ہیں۔ چنانچہ جو الہامات اس بارے میں آپ کو ہوئے ان میں سے ایک الہام یہ تھاکہ :۔
’’ مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے۔ وَکَانَ وَعْدُاللّٰہِ مَفْعُوْلًا ـ‘‘ ۱؎
اس عظیم الشان انکشاف پرآپ نے ۱۸۹۱ء کے شروع میں رسالوں اور اشتہاروں کے ذریعہ اپنے اس دعویٰ کا اعلان کیا ۱ ؎ جس پر مسلمانوں اور عیسائیوں ہر دو میں ایک خطرناک ہیجان پیدا ہو گیا اور ملک کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک مخالفت کی آگ کے شعلے بلند ہونے لگے۔
اس مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان اور عیسائی دونوں کئی صدیوں سے یہ عقیدہ بنائے بیٹھے تھے کہ حضرت مسیح ناصری جو ساڑھے انیس سو سال گزرے کہ ملک فلسطین میں پیدا ہوئے تھے وہ اب تک آسمان میں خدا کے پاس زندہ موجود ہیں اور آخری زمانہ میں جبکہ فتنوں اور فسادوں کا زور ہو گا وہ دنیا میں دوبارہ آئیں گے اور ان کے ذریعہ زمین پر پھر خداکی حکومت قائم ہو گی ۔ مگر اس حد تک مشترک عقیدہ رکھنے کے بعد ان ہر دو قوموں کے عقائد کی تفصیل میں اختلاف تھا یعنی مسلمان تو یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ عیسیٰ رسول اللہ فوت نہیں ہوئے بلکہ اللہ نے انہیں صلیب سے بچا لیا تھا اور پھر وہ زندہ ہی آسمان پر اٹھا لئے گئے اور آخری زمانہ میں وہ زمین پر دوبارہ نازل ہو کر اسلام کو دوسرے مذاہب پر غالب کریں گے اور یہ غلبہ قہری اور جلالی ہو گا اور اس وقت جو قومیں اسلام کو قبول نہیں کریں گی وہ سب مٹا دی جاویں گی اور دوسری طرف عیسائی یہ خیال کرتے تھے کہ ان کے خداوند مسیح صلیب پر فوت تو ہو گئے تھے مگر ان کی یہ موت عارضی موت تھی جو انہوں نے دنیا کے گناہوں کا بوجھ اٹھانے کے لئے خود اپنی مرضی سے اختیار کی تھی چنانچہ اس موت کے بعد وہ دوبارہ زندہ ہو کر آسمان پر چڑھ گئے اور آخری زمانہ میں پھر زمین پر اتریں گے اور مسیحیت کو تمام دنیا میں قائم کر دیں گے اور ان کی یہ دوسری آمد پہلی آمد کی نسبت زیادہ شاندار اور جلالی ہو گی وغیرہ وغیرہ ۔ گویا دونوں قومیں اپنے اپنے مذہبی اصول کے ماتحت حضرت مسیح ؑکی آمد ثانی کی منتظر تھیں اور انہیں اپنا نجات دہندہ خیال کرتی تھیںاور ان کے جلالی نزول کے متعلق دونوں نے عجیب عجیب نقشے جما رکھے تھے۔
پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ ؑ کی وفات کا اعلان فرمایا اور اس عقیدہ کا اظہار کیا کہ وہ دوسرے انسانوں کی طرح فوت ہو چکے ہیں اور آسمان پرنہیں گئے اور یہ کہ ان کی دوسری آمد کا وعدہ خود آپ کے وجود میں پورا ہوا ہے کیونکہ آپ حضرت مسیح ناصری کی خوبو پر اور انہی کی روحانی صفات سے متصف ہوکر آئے ہیں تو اس پر مسلمانوں اور عیسائیوں کو طبعاً ایک سخت دھکا لگا اور انہوں نے اپنے ہوائی قلعوں کو خاک میں ملتا دیکھ کر آپ کے خلاف اپنے اپنے رنگ میں مخالفت کا طوفان کھڑا کر دیا اور یہ مخالفت طبعاً مسلمانوں میں زیادہ تھی کیونکہ آپ نے اسلام کے اندر ہو کر مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور مسلمان ہی آپ کے پہلے مخاطب تھے چنانچہ مسلمان علماء نے آپ کو ملحد اور کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا اور آپ کا نام دجال اور دشمن اسلام رکھا اور ملک کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک خطرناک عداوت کی آگ مشتعل ہو گئی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کے ساتھ اس وقت تک صرف چند گنتی کے آدمی تھے اس مخالفت کے طوفان سے ہراساں نہیں ہوئے بلکہ اس مخالفت کو بھی الٰہی سلسلوں کی سنت قرار دے کر اپنی صداقت کی ایک دلیل گردانا۔ اور ایک مفصل اور مدلل تصنیف کے ذریعہ جس کا نام آپ نے ’’ازالہ اوہام‘‘ رکھا اپنے دعویٰ کی صداقت کے دلائل پیش کئے اور ثابت کیا کہ حضرت مسیح ناصری واقعی وفات پا چکے ہیں اور ہرگز آسمان پر نہیں اٹھائے گئے اور قرآن اور حدیث بلکہ خود مسیحی صحیفے انہیں فوت شدہ قرار دیتے ہیں اور یہ کہ آخری زمانہ میں جس مسیح کا وعدہ تھا وہ ایک مثیل کے ذریعہ پورا ہونا تھا اسی طرح جس طرح کہ مسیح ناصری کے زمانہ میں ایلیا نبی کی دوبارہ آمد کا وعدہ یوحنا نبی کی آمد سے پورا ہوا۔ آپ نے ثابت کیا کہ قرآن شریف کی متعدد آیتیں حضرت مسیح کو یقینی طور پر فوت شدہ قرار دیتی ہیں اور کوئی ایک آیت بھی مسیح کے آسمان پر اٹھائے جانے کی مؤید نہیں بلکہ مسلمانوں نے عیسائیوں کے خیالات سے متاثر ہو کر اور بعض استعارات سے دھوکا کھا کر یہ سراسر غلط عقیدہ بنا رکھا ہے جس کا آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کے زمانہ میں نام و نشان تک نہ تھا۔
آپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ مسیح کی دوسری آمد کے لئے جو علامات اسلام میں بتائی گئی تھیں مثلاً مسلمانوں کی حالت کا بگڑ جانا اور عیسائی مذہب کا زور پکڑنا اور ریل اور پریس وغیرہ کا جاری ہونا وغیرہ وہ موجودہ زمانہ میں پوری ہو گئی ہیں اور یہی وہ زمانہ ہے جس میں ازل سے مسیح کی آمد ثانی مقدر تھی۔ اور آپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ مسیح کے جلالی ظہور سے یہ مراد نہیں کہ وہ تلوار کے ساتھ ظاہر ہو گا بلکہ اس میں اس کی روحانی طاقتوں کی طرف اشارہ ہے اور یہ بتانا مقصود ہے کہ مسیح کی دوسری آمد اس کی پہلی آمد کی نسبت زیادہ شاندار ہو گی اور اللہ تعالیٰ اسے دوسری آمد میں زیادہ کامیابی اور زیادہ غلبہ عطا کرے گا اور دجال کے متعلق جس نے مسیح کے زمانہ میں ظاہر ہونا تھا آپ نے یہ تشریح فرمائی کہ اس سے کوئی فرد واحد مراد نہیں بلکہ ایک قوم اور ایک فرقہ ضالہ مراد ہے جو اپنی بے دینی کی طاقتوں کے ساتھ دنیا میں فساد عظیم کے پھیلانے کا موجب ہو گا اور آپ نے بتایا کہ اس سے مسیحیت کی فوجوں کی طرف اشارہ ہے جو مسیح ناصری کی حقیقی تعلیم کو چھوڑ کر دنیا میں دہریت اور مادیت کے انتشار کا آلہ بنی ہوئی ہیں۔ ۱ ؎
مہدویت کا دعویٰ اور خونی مہدی سے انکار :۔ اسی طرح آپ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اسلام
میں جس مہدی کا مسیح کے زمانہ میں وعدہ کیاگیا تھا وہ میں ہوں مگر یہ کہ میں کسی جنگی مشن کے ساتھ مبعوث نہیں کیا گیا بلکہ میرا کام امن اور صلح کے طریق پر مقرر ہے اور آپ نے فرمایا کہ مسلمانوں میں جو ایک خونی مہدی کا خیال پیدا ہو چکا ہے یہ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے جس کے متعلق قرآن شریف اور صحیح احادیث میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ بلکہ یہ خیال بھی بعض استعاروں کے نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جو عموماً پیشگوئیوں میں اختیار کئے جاتے ہیں اور آپ نے لکھا کہ جہاد کرنے والے اور کافروں کو مارنے والے مہدی سے صرف یہ مراد ہے کہ آنے والا مہدی ایسے مضبوط اور زبردست دلائل کے ساتھ ظاہر ہو گا کہ اس کے مقابل پر گویا اس کے مخالفوں پر موت وارد ہو جائے گی ۔ آپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ مہدی اور مسیح الگ الگ وجود نہیں ہیں بلکہ ایک ہی شخص کی دو مختلف حیثیتوں سے اسے یہ نام دیا گیا ہے یعنی مثیل مسیح ہونے کے لحاظ سے آنے والے موعود کا نام مسیح ہے اور آنحضرت ﷺ کے ظل اور بروز ہونے کے لحاظ سے اس کا نام مہدی ہے ورنہ دراصل وہ ایک ہی ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں بھی آتا ہے کہ مسیح موعود کے سوا اور کوئی مہدی نہیں ۔ ۲ ؎
حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف کفر اور بائیکاٹ کا فتویٰ :۔ مسیح اور مہدی کی بحث کے متعلق
ان تصریحات نے جن کے ساتھ زبردست دلائل بھی شامل تھے آپ کے متبعین کی ہمتوں کو بلند کر دیا اور مسلمانوں کے ایک حصہ کو بھی آپ کی طرف کھینچنا شروع کر دیا مگر جمہور مسلمان اپنے علماء اور سجادہ نشینوں کی اتباع میں لحظہ بلحظہ مخالفت میں ترقی کرتے گئے اور علماء کے فتووں نے ملک میں ایک آگ لگا دی اور علماء نے صرف قولی فتویٰ ہی نہیں لگایا یعنی آپ کو صرف عقیدہ کے لحاظ سے ہی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار نہیں دیا بلکہ یہ بھی اعلان کیا کہ حضرت مرزا صاحب اور آپ کے متبعین کے ساتھ کلام سلام اور ہر قسم کا تعلق ناجائز اور حرام ہے اور ان کے ساتھ مسلمانوں کا رشتہ ممنوع ہے اور یہ کہ مسلمانوں کے قبرستانوں میں بھی انہیں دفن کرنے کی اجازت نہیں۔ ان عملی فتووں نے ملک میں ایک نہایت خطرناک حالت پیدا کر دی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مٹھی بھر جماعت چاروں طرف سے مخالفت کے طوفان میں گھر گئی اور اس طوفانِ عظیم میں احمدیت کی چھوٹی سی نائو اس طرح تھپیڑے کھانے لگی کہ لوگوں نے سمجھا کہ بس یہ آج بھی نہیں اور کل بھی نہیں۔ ہم اس فتوے کی گالیوںاور گندے حصوں کو چھوڑ کر اس کے بعض الفاظ مثال کے طور پر درج ذیل کرتے ہیں تا کہ ہمارے ناظرین کو یہ پتہ لگ سکے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کے متعلق اوائل زمانہ میں کیا کچھ کہا گیا ہے ۔ علماء اسلام نے جن میں بڑے بڑے چوٹی کے علماء شامل تھے آپ کے متعلق لکھا کہ :۔
’’ مرزا قادیانی ان تیس دجالوں میں سے ایک ہے جن کی خبر حدیث میں وارد ہے اور اس کے پیرو ذریت دجال ہیں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ ایسے دجال کذاب سے احتراز اختیار کریں اور اس سے وہ دینی معاملات نہ کریں جو اہل اسلام میں باہم ہونے چاہئیں۔ نہ اس کی صحبت اختیار کریں نہ اس کی دعوت قبول کریں نہ اس کے پیچھے اقتداء کریں اور نہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں …… وہ اور اس جیسے لوگ دین کے چور ہیں اور دجالین کذابین ملعون شیاطین سے ہیں …… اس کذاب قادیانی کے کفر میںکوئی شک نہیں …… وہ قطعاً کافر اور مرتد ہے …… وہ بڑا بھاری دجال ہے …… وہ دائرہ اسلام سے خارج اور ملحد اور زندیق ہے … وہ کافر ہے اور بدکردار … بدترین خلائق اور خدا کا دشمن … جو اس کے گمراہ ہونے میں شک کرے وہ بھی ویسا ہی گمراہ ہے … وہ کافر بلکہ اکفر ہے … اس قادیانی کے چوزے ہنود و نصاریٰ کے مخنث ہیں… وہ اس شیطان سے بھی زیادہ گمراہ ہے جو اس سے کھیل رہا ہے اس کو مسلمانوں کی قبروں میں دفن نہ کیا جائے … یہ ملحد کادیانی اشد المرتدین اور عجیب کافر اور منافق لاثانی ہے … وہ نبیوں کا دشمن ہے اور خدا اس کا دشمن ہے … وہ مثیل مسیح تو نہیں البتہ مثیل اسودعنسی اور مسیلمہ کذاب ہے … اس پر شیطان مسلط ہے جو اس سے یہ بکواس کرا رہا ہے … جو شخص کادیانی کے موافق اعتقاد رکھتا ہے وہ بھی مردود ہے … مرزا کادیانی دجال اور مضل بلکہ دجاجلہ کار اس رئیس ہے ۔ ‘‘ ۱ ؎ ’’ان کی عورتوں کے نکاح باقی نہیں رہے جو چاہے ان سے نکاح کر سکتا ہے۔‘‘ ۲ ؎
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان علماء کی گالیوں کو حوالہ بخدا کیا اور نہایت صبر اور استقلال اور ہمت کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہے اور مخالفین کے ہر اعتراض کا تسلی کے ساتھ جواب دیا اور قرآن سے۔ حدیث سے۔ ائمہ کے اقوال سے ۔ تاریخ سے ۔ صحفِ سابقہ سے اور عقل خدا داد سے مخالفین کے ہر شبہ کے ازالہ کی کوشش کی اور صرف مدافعت پر ہی اکتفاء نہیں کی بلکہ اشتہاروں اور رسالوں اور کتابوں کے ذریعہ دشمن کے قلعوں پر وہ گولہ باری کی کہ انہیں کئی معرکوں میں اپنا میدان چھوڑنا پڑا۔ مگر اس جنگ میں ایک بات آپ کے لئے نہایت درجہ تکلیف دہ تھی اور یہ وہ اعتراض تھے جن میں آپ کو دشمنِ خدا اور دشمنِ اسلام اور دشمنِ رسول قرار دیا جاتا تھا۔ ان اعتراضوں کو سن کر آپ کی روح بے چین ہو جاتی تھی اور آپ کے نازک ترین جذبات کو انتہائی دھکا لگتا تھا کیونکہ جس مقدس ہستی کی محبت میں آپ نے یہ سارا بوجھ اٹھایا تھا اسی کی دشمنی اور غداری کا آپ پر الزام لگایا جاتا تھا۔ یہ ایسا ہی تھا جیسا کہ کسی عاشق پر یہ الزام لگایا جاوے کہ وہ اپنے معشوق کا دشمن ہے چنانچہ آپ اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں :۔
کافر و ملحد و دجال ہمیں کہتے ہیں
نام کیا کیا غمِ ملت میں رکھایا ہم نے
تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد
تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے
ابتدائی سفر :۔ ان اعتراضوں کے ازالہ اور لوگوں کے سمجھانے کی غرض سے نیز اپنا صحیح صحیح پیغام
پہنچانے کے لئے آپ نے اپنے دعویٰ کے ابتدائی زمانہ میں متعدد سفر بھی اختیار کئے۔ مثلاً شروع میں آپ ایک لمبا عرصہ لدھیانہ میں مقیم رہے ۔ پھر دہلی گئے اور وہاں کافی عرصہ قیام کیا۔ پھر پٹیالہ تشریف لے گئے اور اپنے پیغام کو پہنچایا۔ اسی طرح امرتسر ،لاہور ،سیالکوٹ اور جالندھر وغیرہ جا کر کلمہ حق کی تبلیغ کی اور حقیقت الامر سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ مگر اس سے مخالفت کے طوفان میں کمی نہیں آئی۔ ہاں ایک فائدہ ان سفروں سے ضرور حاصل ہوا کہ آپ کی آواز بہت جلد ملک کے مختلف حصوں میں پہنچ گئی اور لوگ آپ کے دعویٰ سے واقف ہو گئے لیکن اس کے ساتھ ہی لوگوں کے جوش و خروش کا پارہ بھی لحظہ بلحظہ چڑھتا گیا۔ ۱ ؎
حضرت مسیح موعود ؑ کا بلند اخلاقی معیار :۔ مخالفت کے اس طوفان میں ایک بات اہل ذوق
کو نہایت لطیف نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ آپ کے دعویٰ مسیحیت اور مہدویت کے بعد تو بے شک آپ کے خلاف ہر قسم کے الزامات لگائے گئے۔ آپ کو دشمنِ خدا اور دشمنِ رسول کہا گیا۔ دین کو بگاڑنے والا اور اسلام میں فتنہ پیدا کرنیوالا قرار دیا گیا۔ خدا پر افتراء باندھنے والا اور بندوں کے حقوق غصب کر جانے والا سمجھا گیا اور اسی طرح اور بھی کئی طرح کے الزام لگائے گئے حتیّٰ کہ آپ کے خلاف تقریر کرنے والوں کی زبانیں گالیاں دے دے کر تھک گئیں اور لکھنے والوں کی قلمیں کاغذوں کو سیاہ کر کر کے گھِس گئیں اور دعویٰ کے بعد ساری دنیا کے عیب آپ کی طرف منسوب کئے گئے مگر اس کے مقابل پر کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی مسلمان یا کسی ہندو یا کسی سکھ یاکسی عیسائی یا کسی دوسرے شخص نے آپ کے متعلق یہ الزام لگایا ہو کہ دعویٰ سے پہلے آپ کی زندگی میں یہ یہ عیب پایا جاتا تھا بلکہ قبل دعویٰ زندگی کے متعلق تمام مذاہب کے لوگ یک زبان ہو کر آپ کو صادق القول اور نیک اور خداپرست قرار دیتے ہیں اور یہ شہادت دعویٰ سے پہلی زندگی کے ہر زمانہ کے متعلق پائی جاتی ہے۔ بچپن کے متعلق بھی اور جوانی کے متعلق بھی اور ادھیڑ عمر کے متعلق بھی دور نہ جائو آپ کے اشد ترین معاند مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو ہی لے لو۔ دعویٰ کے بعد اس شخص نے اپنی مخالفت کو انتہا تک پہنچا دیا اور آپ کی طرف ہر قسم کی برائی منسوب کی اور آپ کو نعوذ باللہ جھوٹا اور مفتری اور حرام خور اور بے دین اور مکار اور فریبی قرار دیا مگر دعویٰ سے پہلی زندگی کے متعلق اس کے منہ سے بھی مدح و ستائش کے سوا اور کوئی کلمہ نہیں نکل سکا۔ میں نے ان متعدد خطوط کو دیکھا ہے جو مسیحیت کے دعویٰ کے بعد مولوی محمد حسین صاحب نے حضرت مسیح موعود ؑ کو لکھے۔ یہ خطوط و شنام دہی اور گالیوں او رطرح طرح کے الزاموں سے پر ہیں مگر ان خطوں میں بھی مولوی محمد حسین صاحب حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف دعویٰ سے پہلے کی زندگی کے متعلق قطعاً کوئی الزام نہیں لگا سکے۔
باقی رہا دعویٰ کے بعد عیب جوئی کرنا سو ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ عیب جوئی ہرگز کوئی حجت نہیں کیونکہ دشمنی پیدا ہو جانے کے بعد انسان کی آنکھ بدل جایا کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے مخالفوں کے سامنے یہ چیلنج پیش کیا کہ میں تمہارے اندر اپنے دعویٰ سے قبل ایک لمبی زندگی گزار چکا ہوں کیا تم میں کوئی ہے جو آگے آ کر میری قبل دعویٰ زندگی کے متعلق کوئی دینی یا اخلاقی عیب پیش کرے یا کوئی جھوٹ یا خیانت یا بدعملی ثابت کرے۔ ۱ ؎ تو اس پر کسی شخص کو آپ کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت نہیں ہوئی۔ مگر مشکل یہ تھی کہ جن لوگوں کے ساتھ آپ کو واسطہ پڑا تھا ان کے لئے اس قسم کی دلیلیں کافی نہیں تھیں وہ صرف یہ دیکھتے تھے کہ آپ نے اہل اسلام کے ایک معروف اور مسلمہ عقیدہ کے خلاف دعویٰ کیا ہے اور یہ کہ علماء کا مقدس طبقہ آپ کو کافر اور بے دین قرار دے رہا ہے ۔ پس باوجود دیکھنے کے وہ آنکھیں بند کئے ہوئے تھے اور باوجود سننے کے ان کے کانوں پر مہر تھی اور مخالفت کے بادل لحظہ بلحظہ گھنے اور سیاہ ہوتے جا رہے تھے۔
ابتدائی مناظرات :۔ اس مخالفت کا ایک فوری نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو اپنے دعویٰ کے ابتدائی دو تین
سالوں میں متعدد مناظروں میں حصہ لینا پڑا۔ چنانچہ ابتداء میں یعنی ۱۸۹۱ء میں آپ نے مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی کے ساتھ ایک مناظرہ لدھیانہ میں کیا۔ ۱ ؎ اس کے بعد اسی سال ایک مناظرہ مولوی نذیر حسین صاحب امام فرقہ اہل حدیث کے ساتھ جامع مسجد دہلی میں بڑے ہنگامہ کے ساتھ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ ۲ ؎ اور اسی سال ایک مناظرہ دہلی میں مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالوی کے ساتھ ہوا۔ ۳؎ اور ایک مناظرہ لاہور میں ۱۸۹۲ء میں مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری کے ساتھ ہوا۔ ۴؎ مگرافسوس ہے کہ ان مناظروں نے اہل مناظرہ کو چنداں فائدہ نہ پہنچایا بلکہ جیسا کہ عموماً بحث مباحثہ میں ہوتا ہے یہ لوگ اور ان کے متبعین اپنی ضد اور مخالفت میں اور بھی ترقی کر گئے۔ اسی طرح آپ کا ایک مناظرہ ۱۸۹۳ء میں مسٹر عبداللہ آتھم مسیحی کے ساتھ امرتسر میں اسلام اور مسیحیت کے متعلق ہوا۔ ۵؎ مگر اس کا انجام بھی ضد اور ہٹ دھرمی کے بڑھ جانے کے سوا کچھ نہیں نکلا۔ ہاں بے شک ایک فائدہ ان مناظروں کا ضرور ہوا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے زبردست مضامین کی وجہ سے (کیونکہ آپ ہمیشہ تحریری مناظرہ کرتے تھے) ایک مفید لٹریچر اسلام اور احمدیت کی تائید میں تیار ہو گیا جو اب تک سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر کی زینت ہے۔
مسیحیوں کے ایمان کا دلچسپ امتحان :۔ امرتسر کے مناظرہ میں ایک عجیب واقعہ بھی پیش آیا
جس کا ذکر خالی از دلچسپی نہ ہو گا اور وہ یہ کہ چونکہ آپ کا دعویٰ مثیل مسیح ہونے کا تھا اور انجیل میں آتا ہے کہ حضرت مسیح ناصری بیماروں کو ہاتھ لگا کر اچھا کر دیتے تھے اس لئے عیسائی مناظر نے ایک دن ایسا کیا کہ تین چار لولے لنگڑے اور اندھے جمع کر کے ایک طرف چھپا دئیے اور جب اس کی مضمون پڑھنے کی باری آئی تو اس نے ان لوگوں کو باہر نکال کر حضرت مسیح موعود ؑ سے مطالبہ کیا کہ آپ مسیح ہونے کے مدعی ہیں سو لیجئے یہ چند بیمار حاضر ہیں انہیں ہاتھ لگا کر اچھا کر دیجئے اور پھر سب لوگ ہنسنے لگے اور بعض حاضر المجلس احمد ی بھی گھبرا ئے کہ خواہ علمی لحاظ سے اس کا جواب دے دیا جائیگا مگر بظاہر صورت فریق مخالف کو ایک ہنسی کا موقعہ مل گیا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود ؑ بڑے اطمینان کے ساتھ خاموش بیٹھے رہے۔ پھر جب آپ کی باری آئی تو آپ نے فرمایا کہ میں تو اس رنگ میں حضرت مسیح ناصری کے ان معجزوں کا قائل نہیں ہوں اور ان کے وہ معنی نہیں سمجھتا جو عیسائی صاحبان سمجھتے ہیں اور میں اپنی ذات کے لئے بھی اس بات کا مدعی نہیں کہ میں خود اپنی مرضی سے جب چاہوں کسی بیمار کو ہاتھ لگا کر اچھا کر سکتا ہوں اس لئے مجھ سے اس قسم کا مطالبہ جو میرے مسلمات کے خلاف ہے نہیں ہو سکتا۔ ہاں بے شک انجیل میں حضرت مسیح ناصری نے اپنے متبعین کو ضرور یہ فرمایا ہے کہ اگر تم میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہو توتم قدرت کے خزانوں کے مالک بن سکتے ہو اور پہاڑوں کو حکم دے کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا سکتے ہو اور کوئی بات تمہارے سامنے انہونی نہیں رہ سکتی ۔ ۱ ؎ اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ مسیحی حضرات جو یہاں جمع ہیں اپنے مسیح پر ضرور سچا ایمان رکھتے ہیں اور آپ لوگوں کا ایمان رائی کے دانے سے تو بہر حال بڑا ہو گا پس میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے بیماروں کے جمع کرنے کی زحمت سے بچا لیا اب لیجئے یہی آپ کا مہیا کردہ تحفہ حاضر ہے انہیں ذرا ہاتھ لگا کر اپنے ایمان کا ثبوت دیجئے۔ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے اس جواب نے مسیحیوں کو بالکل مبہوت کر دیا اور وہ سخت گھبرا کر ان بیماروں کو ادھر ادھر چھپانے لگ گئے اور یہ ساری کھیل الٹ کر خود انہی پر آگئی اور جس بات کو انہوں نے اپنی فتح خیال کیا تھا وہ ایک خطرناک شکست کی صورت میں بدل گئی۔ ۲؎ الغرض اس ابتدائی زمانہ میں آپ کو بہت سے مناظرات کرنے پڑے اور خدا کے فضل سے ہر مناظرہ میں آپ کو نمایاں کامیابی نصیب ہوئی۔
علم کلام کے دو زرّیں اصول :۔ ان مناظرات میں آپ نے اسلام کے اندرونی اختلافات
اور اسلام اور دوسرے مذاہب کے باہمی اختلافات کے تصفیہ کے متعلق دو ایسے زرّیںاصول پیش کئے جنہوں نے مذہبی علم کلام میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ پہلااصول آپ نے اسلام کے اندرونی اختلافات کے متعلق یہ پیش کیا کہ اسلام میں اندرونی فیصلوں کی اصل کسوٹی قرآن شریف ہے نہ کہ حدیث یا بعد کے ائمہ کے اقوال وغیرہ۔ اس اصول نے اس گندے علم کلام کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا جو ایک عرصہ سے اسلامی مباحثات کو مکدر کر رہا تھا جس کی وجہ سے قرآن شریف تو پسِ پشت ڈال دیا گیا تھا اور ہر فرقہ نے اپنے مطلب کی حدیثوں یا اپنے ائمہ کے اصوال کو قرآن پر قاضی اور حاکم بنا رکھا تھا۔ آپ نے بدلائل ثابت کیا کہ اسلام کی اصل بنیاد قرآن شریف پر ہے اور حدیثوں وغیرہ کو صرف ایک خادم کی حیثیت حاصل ہے۔ پس اگر کوئی حدیث یا کسی امام کا قول کسی آیت قرآنی کے ساتھ ٹکرائے تو وہ اسی طرح پھینک دینے کے قابل ہے جس طرح اسلام کے مقابل پر ایک خلاف اسلام چیز پھینک دی جاتی ہے۔ ۱؎ اور آپ نے یہ تشریح فرمائی کہ کسی حدیث کو رد کرنے کے یہ معنے نہیں ہیں کہ ہم آنحضرت ﷺ کے قول کو رد کرتے ہیں بلکہ اس سے صرف یہ مراد ہے کہ یہ حدیث آنحضرت ﷺ کی طرف غلط طور پر منسوب ہوئی ہے۔ اسی تعلق میں آپ نے بعد میں اس بات کو بھی واضح فرمایا کہ حدیث اور سنت دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ جہاں سنت سے آنحضرت ﷺ کا تعامل مراد ہے جو قرآن کے ساتھ ساتھ وجود میں آکر صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین کے ذریعہ عملی صورت میں نیچے پہنچا ہے وہاں حدیث سے وہ اقوال مراد ہیں جو لوگوں کے سینوں سے ڈیڑھ دو سو سال بعد میںجمع کئے گئے ہیں۔ اس طرح آپ نے اسلام کی اصل بنیاد قرآن اور سنت پر قرار دی اور حدیث کو صرف ایک خادم کی صورت میں پیش کیا ۔ یہ ایک نہایت عجیب نکتہ تھا جس نے اسلامی علم کلام کی صورت کو بالکل بدل دیا اور شکر ہے کہ آج غیر احمدی دنیا بھی آہستہ آہستہ اسی نکتہ کی طرف آرہی ہے۔ بے شک وہ ابھی تک اس بارے میں حضرت مسیح موعود ؑ کے احسان کو نہیں مانتی بلکہ ان میں سے اکثر لوگ اس تبدیلی کو محسوس بھی نہیں کرتے مگر واقف کار لوگ جانتے ہیں کہ اس تبدیلی کا اصل باعث کیا ہے اور جب بعد کی نسلیں غیر متعصب نظر کے ساتھ حالات کا مطالعہ کریں گی تو اس وقت ساری دنیا جان لے گی کہ یہ تبدیلی محض احمدیت کی تعلیم کے اثر کے ماتحت وقوع میں آئی ہے۔
دوسرا زریں اصول جو آپ نے بین المذاہب اختلافات کے لئے پیش کیا وہ یہ تھا کہ ہر مذہب کا یہ فرض ہے کہ جہاں تک کم از کم اصول مذہب کا تعلق ہے وہ اپنے دعویٰ اور دلیل ہر دو کو اپنی مقدس کتاب سے نکال کر پیش کرے تا کہ یہ ثابت ہو کہ بیان کردہ دعویٰ متبعین کا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ خود بانیء مذہب کا پیش کردہ ہے۔ ۱؎ مثلاً آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح ناصری کی خدائی کا دعویٰ ہرگز قابل توجہ نہیں ہو گا ۔ جب تک کہ عیسائی صاحبان اس دعویٰ کو انجیل سے ثابت کر کے نہ دکھائیں اور پھر خود انجیل سے ہی اس کے چند دلائل بھی پیش نہ کریں۔ آپ نے فرمایا کہ آجکل اکثر مذاہب میں یہی فساد برپا ہے کہ مذاہب کی کتب مقدسہ کی طرف ایسے خیالات اور ایسے دعاوی منسوب کئے جا رہے ہیں جو دراصل ان مذاہب کے پیش کردہ نہیں ہیں بلکہ خود لوگوں کے اپنے بنائے ہوئے ہیں اور اس طرح مذاہب کی اصل شکل و صورت بدل کر کچھ کی کچھ ہو گئی ہے۔ آپ نے تحدی کے ساتھ بیان کیا کہ حضرت مسیح ناصری کی اصل تعلیم توحید اور رسالت کے اصول پر مبنی تھی مگر بعد میں آنے والوں کی دست برد اور حاشیہ آرائی سے اس نے ایک بالکل اور ہی رنگ اختیار کر لیا اور تثلیث اور کفارہ کے مشرکانہ خیالات داخل ہو گئے۔ ۱؎ اسی طرح ویدوںکی اصل تعلیم میں قدامت روح و مادہ وغیرہ کا کوئی نشان نہیں ہے مگر بعد میں آنے والوں نے یہ خیالات وید کی طرف منسوب کرنے شروع کر دئیے۔ لیکن اگر اس اصول کو اختیار کیا جاوے کہ ہر مذہبی کتاب اپنا دعویٰ خود پیش کرے اور پھر خود ہی اس کی دلیل لائے تو یہ سارا پول کھل جاتا ہے اور مذہب کی اصل تعلیم ننگی ہو کر سامنے آجاتی ہے جب آپ نے یہ اصول امرتسر والے مناظرہ میں عیسائی صاحبان کے سامنے پیش کیا تو ان کے اوسان خطا ہو گئے مگر نتیجہ پھر بھی وہی تھا جو عموماً مذہبی مناظروں کا ہوا کرتا ہے کہ دنیا کی عزت کی خاطر صداقت کی طرف سے آنکھیں بند رکھی گئیں۔
اسی زمانہ میں آپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا یہ خیال کہ قرآن شریف کے علوم سلف صالحہ یا گذشتہ علماء کی بیان کردہ باتوں پر ختم ہو چکے ہیں اور جو کچھ انہوں نے فرما دیا یا لکھ دیا اسی پر قرآنی تفسیر کا خاتمہ ہے ایک بالکل غلط اور مہلک خیال ہے اور آپ نے لکھا کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ جس طرح یہ ظاہری دنیا ایک مادی عالم ہے جس میں سے ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق مادی خزانے نکلتے رہتے ہیں اسی طرح قرآن شریف ایک روحانی عالم ہے جس کے روحانی اور علمی خزانے کبھی ختم نہیں ہوں گے اور ہر زمانے کی ضرورت کے مطابق نکلتے رہیں گے اور اس طرح قرآنی شریعت کے مکمل ہو چکنے کے باوجود اسلام کے علمی حصہ میں نمو اور ترقی کا سلسلہ جاری رہے گا اور یہی قرآن شریف کا بڑا معجزہ ہے۔ ۱؎
اسی اصل کے ماتحت آپ نے یہ دعویٰ کیا کہ چونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے قرآن شریف کی خدمت کے لئے مبعوث کیا ہے اس لئے مجھے قرآن کی وہ سمجھ عطا کی گئی ہے جو موجودہ زمانہ میں کسی اور کو عطا نہیں کی گئی اور مجھے یہ طاقت دی گئی ہے کہ میں اس زمانہ کی ضرورت کے مطابق قرآن شریف سے ایسے نئے نئے علمی اور روحانی خزانے نکال کر دنیا کے سامنے پیش کروں جو پہلے کبھی پیش نہیں کئے گئے اور آپ نے تحدّی کے ساتھ لکھا کہ اس زمانہ میں دنیا کا کوئی شخص اس بات میں میرا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ آپ نے بار بار چیلنج کر کے لوگوں کو بلایا کہ اگر کسی میں ہمت ہے تو میرے سامنے آکر قرآن کی تفسیر نویسی میں مقابلہ کر لے۔ ۲؎ مگر کسی کو ہمت نہیں ہوئی۔ آپ نے دوسرے مذاہب والوں کو بھی بار بار دعوت دی کہ وہ میرے مقابل پر آکر اپنی اپنی مذہبی کتابوں کے حقائق و معارف بیان کریں اور میں قرآن کے حقائق و معارف بیان کروں گا او رپھر دیکھا جاوے کہ کس کی کتاب زیادہ بہتر اور زیادہ معارف کا خزانہ ہے اور کون فریق حق پر ہے اور کون باطل پر مگر کوئی شخص آپ کے سامنے نہ آیا۔
اس زمانہ کی ایک نہایت لطیف تصنیف :۔ آپ کا یہ دعویٰ محض زبانی دعویٰ نہیں تھا بلکہ آپ
نے اسے عملاً ثابت کر دکھایا چنانچہ گو کوئی مخالف تفسیر نویسی کے مقابلہ میں آپ کے سامنے نہیں آیا مگر آپ نے اپنے طور پر بہت سی تصانیف فرمائیں جن میں قرآن شریف کی متعدد آیات کی ایسی لطیف تفسیر بیان کی جو پہلے کسی کتاب میں بیان نہیں ہوئی اور آپ کی بیان کردہ تفسیر نے قرآن شریف کے کمال کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیا۔ چنانچہ اسی زمانہ میں جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں آپ نے ایک کتاب ’’ آئینہ کمالاتِ اسلام‘‘ لکھ کر شائع فرمائی جو جدید تفسیر قرآن کے علاوہ اپنے مضامین کی لطافت اور ندرت کے لحاظ سے ایک نہایت اعلیٰ شان رکھتی ہے۔ کیونکہ وہ حقیقۃً ایک ایسے آئینہ کا حکم رکھتی ہے جس میں اسلام کا خوبصورت چہرہ درخشاں ہو کر نظر آنے لگتا ہے۔ اس کتاب میں قرآنی آیات کی بناء پر اسلام کی حقیقت۔ روحانی سلوک کے مدارج ۔ ملائکۃ اللہ کی حقیقت اور ان کے کام ۔ روح القدس کا فلسفہ ۔ معجزہ کی حقیقت۔ اجرام سماوی کی تاثیرات وغیرہ پر نہایت لطیف بحث کی گئی ہے جسے پڑھ کر ایک علم دوست انسان کی پیاس بجھتی ہے۔
اس کتاب کا ایک حصہ عربی میں ہے جس کا نام ’’ التبلیغ ‘‘ ہے۔ یہ حضرت مسیح موعود ؑ کی سب سے پہلی عربی تصنیف ہے۔ یہ حصہ آپ نے اپنے بعض دوستوں کی تحریک پر عربی دان طبقہ کے لئے لکھا تھا اور ایک دوست کا بیان ہے کہ جب آپ کو اس موقعہ پر عربی میں لکھنے کی تحریک کی گئی تو آپ بہت متامل تھے کہ میں تو زیادہ عربی نہیں جانتا میں یہ کام کس طرح سر انجام دے سکوں گا لیکن جب آپ نے اس کام میں ہاتھ ڈالا اور خدا نے آپ کو اپنے پاس سے اس کے لئے قوت عطا کی تو ایسی فصیح و بلیغ عبارت لکھی کہ انہی دوست کا بیان ہے کہ اسے دیکھ کر ایک اہلِ زبان عرب نے آپ کی خدمت میں لکھا کہ اس کتاب کو پڑھ کر میرے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ سر کے بل رقص کرتا ہوا قادیان تک آئوں۔ ۱ ؎
جماعت احمدیہ کا پہلا سالانہ جلسہ :۔ واقعات کے تسلسل کو قائم رکھنے کی غرض سے میں
درمیان میں جلسہ سالانہ کے آغاز کے ذکر کو ترک کر گیا ہوں۔ غالباً بہت سے ناظرین کو معلوم ہوگا کہ سلسلہ احمدیہ کے مرکز قادیان میں جماعت احمدیہ کا ایک سالانہ اجتماع دسمبر کے آخری ہفتہ میں ہوا کرتا ہے۔ اس کا آغاز ۱۸۹۱ء میں ہوا تھا جبکہ اس میں ۷۵ اصحاب شریک ہوئے مگر اس اجتماع کا باقاعدہ اجراء ۱۸۹۲ء میں ہوا جب کہ جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ میں ۳۲۷ اصحاب شریک ہوئے ۔ ۱؎ اس کے بعد یہ جلسہ سوائے ایک دو ناغوں کے ہر سال جاری رہا اور اس میں شامل ہونے والوں کی تعداد سال بسال بڑھتی گئی حتیّٰ کہ آجکل جلسہ سالانہ میں شریک ہونے والوں کی تعداد پچیس تیس ہزار کے قریب ہوتی ہے جو ملک کے مختلف حصوں سے آتے ہیں۔ اس سے جماعت کی نسبتی ترقی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ یہ جلسہ مذہبی عبادت کا رنگ نہیں رکھتا مگر اس نے جماعت کی تبلیغی اور تربیتی اور تنظیمی اغراض کے پورا کرنے میں بہت بھاری حصہ لیا ہے۔ اس سالانہ اجتماع میں بعض غیر احمدی اور غیر مسلم اصحاب بھی شریک ہوتے ہیں جو عموماً بہت اچھا اثر لے کر جاتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود ؑ کی مہمان نوازی :۔ اس جگہ ضمنی طور پر یہ ذکر بھی لاتعلق نہیں ہو گا کہ حضرت
مسیح موعود ؑ کی طبیعت نہایت درجہ مہمان نواز تھی اور جو لوگ جلسہ کے موقعہ پر یا دوسرے موقعوں پر قادیان آتے تھے خواہ وہ احمدی ہوں یا غیر احمدی وہ آپ کی محبت اور مہمان نوازی سے پورا پورا حصہ پاتے تھے اور آپ کو ان کے آرام اور آسائش کا از حد خیال رہتا تھا۔ آپ کی طبیعت میں تکلف بالکل نہیں تھا اور ہر مہمان کو ایک عزیز کے طور پر ملتے تھے اور اس کی خدمت اور مہمان نوازی میں دلی خوشی پاتے تھے۔ اوائل زمانہ کے آنے والے لوگ بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی مہمان آتا تو آپ ہمیشہ اسے ایک مسکراتے ہوئے چہرہ سے ملتے مصافحہ کرتے۔ خیریت پوچھتے۔ عزت کے ساھ بٹھاتے۔ گرمی کا موسم ہوتا تو شربت بنا کر پیش کرتے سردیاں ہوتیں تو چائے وغیرہ تیار کروا کے لاتے۔ رہائش کی جگہ کا انتظام کرتے اور کھانے وغیرہ کے متعلق مہمان خانہ کے منتظمین کو خود بلا کر تاکید فرماتے کہ کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ ایک پرانے صحابی نے جو دنیاوی لحاظ سے معمولی حیثیت کے تھے خاکسار مؤلف سے بیان کیا کہ میں جب شروع شروع میں قادیان آیا تو اس وقت گرمی کا موسم تھا۔ حضرت مسیح موعود ؑ حسب عادت نہایت محبت اور شفقت کے ساتھ ملے اور مجھے خود اپنے ہاتھ سے شربت بنا کر دیا اور لنگر خانہ کے منتظم کو بلا کر میرے آرام کے بارے میں تاکید فرمائی اور مجھے بھی بار بار فرمایا کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو آپ بے تکلف کہہ دیں پھر اس کے بعد جب میں سردیوں میں آیا اور نماز اور کھانے سے فارغ ہو کر مہمان خانہ کے ایک کمرہ میں سونے کے لئے لیٹ گیا اور رات کاکافی حصہ گزر گیا تو کسی نے میرے کمرہ کے دروازہ کو آہستہ سے کھٹکھٹایا ۔ میں جب اٹھ کر گیا اور دروازہ کھولا تو حضرت مسیح موعود ؑ خود بنفس نفیس ایک ہاتھ میں لالٹین لئے اور دوسرے میں ایک پیالہ تھامے کھڑے تھے اور مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرمانے لگے ’’اس وقت کہیں سے دودھ آگیا تھا میں نے کہا آپ کو دے آئوں کہ شاید رات کو دودھ پینے کی عادت ہو گی۔ ‘‘ وہ دوست بیان کرتے تھے کہ میں شرم سے کٹا جا رہا تھا مگر حضرت مسیح موعود ؑ اپنی جگہ معذرت فرما رہے تھے کہ میں نے آپ کو اس وقت اٹھا کر تکلیف دی ہے۔ ۱؎ اس چھوٹے سے واقعہ سے آپ کے جذبۂ مہمان نوازی کا کسی قدر اندازہ ہو سکتا ہے۔
تین بڑی قوموں کے متعلق اصولی پیشگوئیاں :۔ اس زمانہ میں مخالفت کا بڑا زور تھا اور ہر
قوم کی طرف سے نشان نمائی کا مطالبہ ہو رہا تھا اور مسلمان ،عیسائی اور ہندو سب حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف میدان میں اترے ہوئے تھے اور آپ کے دعویٰ کے مطابق تقاضا کر رہے تھے کہ اگر آپ میں کوئی روحانی طاقت ہے یا اگر اسلام کی حقانیت کے متعلق آپ کا دعویٰ سچا ہے تو ہمیں کوئی نشان دکھائیں۔ اس پر آپ نے زمانہ کے قلیل فرق کے ساتھ ہندوستان کی تین بڑی قوموں یعنی مسلمانوں عیسائیوں اور ہندوئوں کے متعلق علیحدہ علیحدہ پیشگوئیاں فرمائیں اور ان پیشگوئیوں کو ان قوموں کے لئے خدا کی طرف سے ایک نشان ٹھہرایا ۔ ۲؎
جو پیشگوئی مسلمانوں سے تعلق رکھتی تھی وہ مرزا احمد بیگ صاحب ہوشیار پوری کے متعلق ۱۸۸۸ء میں کی گئی تھی مگر اس کی میعاد ۱۸۹۲ء میں شروع ہوئی۔ مرزا احمد بیگ صاحب حضرت مسیح موعود ؑ کے رشتہ داروں میں سے تھے۔ مگر سخت دنیا دار تھے اور دین کی طرف سے قطعاً غافل تھے اور اپنے دوسرے عزیزوں کی طرح حضرت مسیح موعود ؑ سے اس بات کے طالب رہتے تھے کہ انہیں کوئی نشان دکھایا جاوے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ اسی زمانہ میں وہ حضرت مسیح موعود ؑ سے ایک احسان کے طالب ہوئے یعنی یہ درخواست کی کہ آپ اپنی جائیداد کا ایک حصہ جو آپ کو اپنے ایک مفقود الخبر رشتہ دار کی طرف سے پہنچنے والا تھا ان کے بیٹے کے نام ہبہ کر دیں۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس کے متعلق حسب عادت استخارہ کیا اور دعا مانگی تو آپ کو خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ اس شخص سے یہ تحریک کرو کہ وہ اپنی بڑی لڑکی کا رشتہ تم سے کر دے۔ پھر اگر اس نے اس تجویز کو مان لیا تو یہ لوگ خدا کی طرف سے رحمت کا نشان پائیں گے اور اگر انکار کیا تو اس صورت میں وہ عذاب کا نشان دیکھیں گے۔ گویا یہ رشتہ حضرت ہود کی اونٹنی کی طرح ۱؎ نشان نمائی کا ایک واسطہ بن گیا اور یہ پیشگوئی مرکب رنگ رکھتی تھی یعنی اس کے دو پہلو تھے ایک پہلو رحمت کا تھا جو رشتہ کے ساتھ وابستہ تھا اور دوسرا پہلو عذاب کا تھا جو انکار کے ساتھ وابستہ تھا اور حضرت مسیح موعود نے یہ تصریح فرمائی کہ ہمیں اس رشتہ کی کوئی خواہش نہیں ہے اور یہ کہ اس پیشگوئی کی اصل غرض رشتہ نہیں بلکہ نشان نمائی ہے اور رشتہ صرف ایک علامت کے طور پر ہے اور انکار کی صورت میں آپ نے مرزا احمد بیگ کی موت کے لئے تین سال اور ان کے داماد کے لئے اڑھائی سال کی میعاد مقرر فرمائی۔ ۲؎
مگر افسوس کہ ان لوگوں نے رحمت کے نشان کو رد کر دیا اور ۱۸۹۲ء کے ابتداء میں اس لڑکی کی شادی ایک صاحب مرزا سلطان محمد بیگ نامی کے ساتھ کر دی اور خدا سے مقابلہ کی ٹھان کر پیشگوئی کے عذاب کے پہلو کو اپنے اوپر لے لیا۔ چنانچہ ابھی اس رشتہ پر چھ ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ ماہ ستمبر ۱۸۹۲ء میں لڑکی کے والد مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری تپ محرقہ میں مبتلاء ہو کر اس جہان سے رخصت ہوئے اور خاندان کی ساری خوشیاں خاک میں مل گئیں۔ ۳؎ اس اچانک حادثہ نے خاندان کے دوسرے افراد کے دل میں سخت خوف پیدا کر دیا اور ان میں سے بعض نے حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں عاجزی اور انکساری کے خط لکھے اور مرزا سلطان محمد بیگ صاحب نے بھی ادب اور احترام کا طریق اختیار کیا اور باوجود مخالفوں کے اکسانے کے کوئی مخالفت کا کلمہ زبان پر نہیں لائے۔ جس کی وجہ سے خدا نے اپنے ابدی قانون کے ماتحت عذاب کا بقیہ حصہ معاف کر دیا۔ جیسا کہ اس نے اپنے ایک الہام میں بھی پہلے سے اشارہ کر رکھا تھا کہ اس پیشگوئی میں عذاب کا پہلو ظاہر ہو گا مگر توبہ سے یہ عذاب ٹل سکے گا۔ مگر نادان مخالفوں نے اس پر بھی شور مچایا کہ پیشگوئی غلط گئی کیونکہ مرزا سلطان محمد بیگ فوت نہیں ہوئے اور لڑکی آپ کے نکاح میں نہیں آئی لیکن یہ مخالفت کا شور بھی پیشگوئی کے عین مطابق تھا کیونکہ اس پیشگوئی کے تعلق میں حضرت مسیح موعود ؑ کو یہ الہام بھی ہوا تھا کہ مرزا احمد بیگ فوت ہوں گے اور ان کے پیچھے بہت سے بھونکنے والے کتے باقی رہ جائیں گے۔ ۱؎ یعنی پیشگوئی کا ایک پہلو ایسا ہو گا کہ اس میں نادان مخالفوں کو شور کرنے کا موقعہ ملے گا مگر یہ شور ایسا ہی ہو گا جیسے کتوں کے بھونکنے کا شور ہوتا ہے سو پیشگوئی کا یہ حصہ بھی کمال صفائی سے پورا ہوا۔ ۲؎
دوسری پیشگوئی جو عیسائیوں کے ساتھ تعلق رکھتی تھی وہ مسٹر عبداللہ آتھم کے متعلق تھی۔ مسٹر آتھم ایک پر جوش مسیحی تھے اور اس مناظرہ میں عیسائیوں کے زعیم تھے جو امرتسر میں حضرت مسیح موعود ؑ اور مسیحیوں کے درمیان ۱۸۹۳ء میں ہوا تھا۔ جب اس مناظرہ میں عیسائی مناظر نے ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لیا اور استہزاء کا طریق اختیار کیا تو ۵؍ جون ۱۸۹۳ء کو جبکہ اس مناظرہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کی طرف سے آخری پرچہ پیش ہوا آپ نے اس بات کا اعلان فرمایا کہ آج رات خدا نے مجھے بتایا ہے کہ جو فریق اس مناظرہ میں جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ کر ایک کمزور انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ پندرہ ماہ کے اندر بسزائے موت ہاویہ میں گرایا جائے گا بشرطیکہ وہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ اور آپ نے اس موقعہ پر یہ بھی فرمایا کہ آتھم نے اپنی کتاب اندرونہ بائبل میں آنحضرت ﷺ کے متعلق نعوذ باللہ دجال کا لفظ استعمال کر کے آپ کی شان میں سخت گستاخی کی ہے۔ ۳؎
اس پیشگوئی کو سن کر آتھم صاحب سخت خوفزدہ ہو گئے اور اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا کہ میں نے تو دجال کا لفظ نہیں لکھا (حالانکہ وہ اپنی کتاب اندرونہ بائبل میں یہ لفظ استعمال کر چکا تھا) اس وقت آتھم کی یہ حالت تھی کہ اسے مجلس سے اٹھنا محال ہو گیا اور دوسرے لوگوں نے سہارا دے کر اٹھایا اور پھر اس کے بعد آتھم نے اپنی زبان اور قلم کو اسلام کے خلاف بالکل روک لیا اور یہ پندرہ مہینے انتہائی گھبراہٹ اور خوف میں گزارے اور بعض اوقات وہ علیحدگی میں بیٹھ کر روتا بھی تھا اور اضطراب کی حالت میں ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف بھاگا پھرتا تھا حتیّٰ کہ عیسائیوں کو یہ اندیشہ پیدا ہو گیا کہ وہ اپنی گھبراہٹ میں کوئی ایسا لفظ نہ منہ سے نکال بیٹھے جو ان کے لئے تذلیل کا موجب ہو چنانچہ بعض روایات سے پتہ لگتا ہے کہ میعاد کے آخری ایام میں وہ اسے اکثر وقت مخمور رکھتے تھے اور کسی غیر شخص سے ملنے نہیں دیتے تھے۔ غرض آتھم نے اپنے حرکات و سکنات سے ثابت کر دیا کہ وہ دل میں اسلام کی صداقت سے مرعوب ہو چکا ہے اور حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئی کا خوف اس پر غالب ہے اور یہ کہ وہ شوخی اور مخالفت کے اس مقام سے پیچھے ہٹ گیا ہے جس پر وہ مناظرہ سے پہلے اور مناظرہ کے دوران میں قائم تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو بذریعہ الہام اطلاع دی کہ اطلع اللہ علی ھمہ و غمہ ۱؎ یعنی ’’خدا تعالیٰ آتھم کے غم اور اس کے فکر و اضطراب کو دیکھ رہا ہے اور اس کی اس حالت سے بے خبر نہیں ۔‘‘ جس میں یہ اشارہ تھا کہ اب آتھم صاحب پیشگوئی کے ان الفاظ سے فائدہ اٹھائیں گے کہ ’’ بشرطیکہ وہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ ‘‘ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ خدا کے رحم نے اس کے غضب کی جگہ لے لی اور آتھم صاحب اس وقت موت کے ہاویہ میں گرنے سے بچ گئے۔
مگر بجائے اس کے کہ مسیحی لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے انہوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور شور کرنا شروع کیا کہ پیشگوئی غلط نکلی کیونکہ آتھم میعاد کے اندر نہیں مرا۔ اس پر حضرت مسیح موعود ؑ نے اشتہار پر اشتہار شائع کیا کہ یہ پیشگوئی قطعی نہیں تھی بلکہ مشروط تھی اور آتھم نے اپنے حالات سے ثابت کر دیا ہے کہ اس نے پیشگوئی کے رعب سے خائف ہو کر اپنی سابقہ حالت سے رجوع کیا ہے اور آپ نے لکھا کہ اگر کسی کو شبہ ہو کہ آتھم نے رجوع نہیں کیا تو اس کا آسان علاج یہ ہے کہ آتھم صاحب خدا کی قسم کھا جائیں کہ میعاد کے دوران میں میرے دل پر اسلام کا رعب طاری نہیں ہوا اور اسلام اور مسیحیت کے متعلق میرے دل کی وہی حالت رہی ہے جو پہلے تھی تو میں آتھم صاحب کو چار ہزار روپیہ انعام دوں گا اور اپنے آپ کو جھوٹا سمجھ لوں گا اور آپ نے تحدی کے ساتھ لکھا کہ اگر آتھم صاحب نے ایسی قسم کھا لی تو خدا انہیں ایک سال کے اندر اندر ضرور ہلاک کر دے گا اور یہ ہلاکت قطعی اور اٹل ہے جس میں کوئی تخلف نہیں ہو گا۔ مگر باوجود بار بار غیرت دلانے کے آتھم صاحب اس قسم کے لئے تیار نہ ہوئے۔ ۱؎ مگر پھر بھی چونکہ آتھم صاحب نے حق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی تھی اس لئے وہ حضرت مسیح موعود ؑ کے آخری اشتہار کے سات ماہ کے اندر حضرت مسیح موعود ؑ کی دن دگنی اور رات چگنی ترقی دیکھتے ہوئے ۱۸۹۶ء کے وسط میں اس جہان سے رخصت ہو گئے۔ ۲؎
تیسری پیشگو ئی پنڈت لیکھرام کے متعلق تھی جو آریہ قوم کے ایک بہت نامور لیڈر تھے۔ پنڈت لیکھرام اسلام کے سخت دشمن تھے اور آنحضرت ﷺ کے خلاف انتہائی تیز زبانی سے کام لیا کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود سے نشان کے طالب رہتے تھے۔ آخر حضرت مسیح موعود ؑ نے لیکھرام صاحب کی خواہش کے مطابق خدا سے دعا کی کہ ان کے بارے میں کوئی ایسا نشان دکھایا جاوے جس سے اسلام کی صداقت ظاہر ہو اور جھوٹا فریق اپنی سزا کو پہنچے اس پر ۲۰؍ فروری ۱۸۹۳ء کو آپ نے خدا سے خبر پا کر یہ اعلان کیا کہ چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزا میں عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا۔ اور آپ نے بڑی تحدی کے ساتھ لکھا کہ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میں کوئی عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر الٰہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا کی طرف سے نہیں اور پنڈت لیکھرام کے متعلق آپ کو خدا نے یہ شعر بھی الہام کیا کہ :۔
’’ الا اے دشمن نادان و بے راہ
بترس از تیغ بُرّانِ محمد ‘‘
یعنی اے نادان اور رستے سے بھٹکے ہوئے دشمن تو اس قدر شوخی سے کام نہ لے اور محمد ﷺ کی کاٹنے والی تلوار سے ڈر۔ ۳؎
اس کے بعد آپ نے اس بارے میں مزید دعا کی توآپ پر ظاہر کیا گیا کہ لیکھرام کی ہلاکت عید کے دوسرے روز ہو گی۔ ۱؎ اور آپ کو ایک خواب میں یہ بھی بتایا گیا کہ ایک قوی ہیکل مہیب شکل فرشتہ جس کی آنکھوں سے خون ٹپکتا تھا پنڈت لیکھرام کی ہلاکت کے لئے متعین کیا گیا ہے ۔ ۲؎ اس کے مقابل پر پنڈت لیکھرام نے بھی یہ اعلان کیا کہ مرزا صاحب کذاب ہیں اور تین سال کے عرصہ میں تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ ۳؎
غرض یہ روحانی مقابلہ بڑے اہتمام اور جلال کے ساتھ منعقد ہوا اور دنیا کی نظریں اسلام اور آریہ مذہب کے ان نامور لیڈروں پر جم گئیں اور اس انتظار میں لگ گئیں کہ پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتاہے۔ آخر پنڈت لیکھرام کی تین سالہ میعاد تو یونہی گزر گئی اور کچھ نہیں ہوا لیکن جب حضرت مسیح موعود ؑ کی بیان کردہ میعاد کا پانچواں سال آیا تو عید کے عین دوسرے دن پنڈت لیکھرام صاحب ایک نامعلوم شخص کی چھری کا نشانہ بن کر اس جہان سے رخصت ہوئے اور حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئی نہایت آب و تاب کے ساتھ پوری ہو گئی۔ ۴؎ قاتل کی بہت تلاش ہوئی اور آریوں نے بہت ہاتھ پائوں مارے اور حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف رپورٹ کر کے آپ کے مکان وغیرہ کی تلاشی بھی کرائی مگر جو بات جھوٹی تھی اس کا سراغ کیونکر ملتا۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے سخت سے سخت قسم کھا کر حلفاً بیان کیا کہ ہمیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ پنڈت لیکھرام کا قاتل کون تھا اور اس نے اسے کیوں مارا اور کیونکر مارا ۔ ہم صرف اس بات کو جانتے ہیں کہ یہ ایک خدائی تقدیر تھی جو اپنا کام کر گئی۔ آپ نے لکھا کہ مارنیوالا خواہ کوئی انسان تھا یا فرشتہ تھا بہر حال وہ خدا کا ایک غیبی آلہ تھا جس کا ہمیں کوئی علم نہیں۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ گو ہمیں اس لحاظ سے خوشی ہے کہ خدا کی بات سچی نکلی اور اسلام کا بول بالا ہوا لیکن انسانی ہمدردی کی رو سے ہمیں افسوس بھی ہے کہ پنڈت لیکھرام کی ایسی بے وقت موت ہوئی اور ان کے متعلقین کو صدمہ پہنچا۔
الغرض یہ وہ تین پیشگوئیاں تھیں جو حضرت مسیح موعود ؑ نے خدا سے علم پا کر کیں اور جو خدا کے فضل سے اپنی اپنی شرائط کے مطابق کمال صفائی کے ساتھ پوری ہوئیں۔ مگر ان پیشگوئیوں کے انفرادی پہلو کی نسبت ان کا قوی پہلو اور بھی زیادہ اہم اور زیادہ وسیع الاثر ہے۔ کیونکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی کتاب ’’ شہادۃ القرآن‘‘ میں اشارہ کیا ہے یہ پیشگوئیاں اس تقدیر الٰہی کو ظاہر کرتی ہیں جو خدا نے ان ہرسہ قوموں کے متعلق مقدر کر رکھی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن دو مسلمانوں کے متعلق پیشگوئی تھی ان میں سے ایک مقررہ میعاد کے اندر اندر مر گیا اور دوسرا خائف ہوکر اور مخالفت سے کنارہ کش رہ کر حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی کے آخر تک خدائی گرفت سے بچا رہا۔ اور عیسائیوں میں سے جس شخص کے متعلق پیشگوئی تھی اس نے ڈر ڈر کر وقت گزارا اور دل میں اسلام کی صداقت اور حقانیت سے مرعوب ہوا اس لئے وہ مقررہ میعاد میں تو بچ گیا مگر جب بعد میں اس نے حق پر پردہ ڈالا تو پیشگوئی کے اصل منشاء کے ماتحت حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میں ہی اپنے انجام کو پہنچ گیا اور آریوں میں سے جس شخص کے متعلق پیشگوئی تھی اس نے سامنے سے شیخی اور دلیری کا طریق اختیار کیا اور اسلام کے مقابلہ میں تکبر کے ساتھ ڈٹا رہا اس لئے وہ خدا کے رحم سے کلیۃً محروم رہا اور مقررہ میعاد کے اندر اندر عبرتناک حالات میں اس جہان سے رخصت ہوا۔ دوسری طرف حضرت مسیح موعود ؑ جو ان تینوں پیشگوئیوں میں اسلام اور احمدیت کے نمائندہ تھے وہ نہ صرف ہر تکلیف سے محفوظ رہے بلکہ خدا نے آپ کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی نصیب کی۔ اس طرح ان پیشگوئیوں نے بتا دیا کہ احمدیت اور اسلام کے مقابلہ پر ان تین قوموں کے ساتھ خدا کا کیا سلوک ہو گا۔ اور وہ یہ کہ غیر احمدی مسلمانوں کا ایک حصہ تو احمدیت کے مقابلہ پر آکر جلد مٹ جائے گا اور دوسرا حصہ دب کر اطاعت اختیار کرے گا اور بچ جائے گا یا مہلت پائے گا اور عیسائی قوم اسلام کی حقانیت سے متاثر ہو کر دل میں مرعوب ہو گی اور ایک وقت تک خدائی گرفت سے بچی رہے گی مگر جب وہ حق پر پردہ ڈالنے کا طریق اختیار کرے گی اور اس کا رویہ صداقت کے رستہ میں روک بننے لگے گا تو پکڑی جائے گی اور پھر اس کی صف اس دنیا سے عملاً لپیٹ دی جائے گی اور اس کے بعد وہ زندہ قوموں میں شمار نہیں ہو گی اور آریہ لوگ احمدیت اور اسلام کے مقابلہ پر شوخ رہیں گے اس لئے وہ جلد مٹا دئیے جائیں گے اور ان کی قومی زندگی کا جلد خاتمہ ہو جائے گا سو یہ تینوں پیشگوئیاں اپنے اندر نہایت لطیف اشارے رکھتی ہیں مگر افسوس کہ کورچشم لوگوں نے ان کی حقیقت کو نہیں سمجھا اور اعتراض کی طرف جلدی کی مگر دنیا اپنے وقت پر دیکھ لے گی کہ یہ ایک زبردست خدائی تقدیر ہے جو بہر حال پوری ہو کر رہے گی۔
پیشگوئیوں کے متعلق دو بنیادی اصول :۔ پیشگوئیوں کے متعلق عمومی طور پر حضرت مسیح موعود ؑ
نے ان بحثوں کے دوران میں یہ نکتہ بھی بیان کیا اور دراصل یہ نکتہ سارے معجزات پر یکساں چسپاں ہوتا ہے کہ چونکہ ایمان کے معاملہ میں بالکل شہود کا رنگ پیدا ہو جانا جو نصف النہار کے سورج کی طرح ہو ایمان کی غرض و غایت کے خلاف ہے جس کے بعد ایمان لانا چنداں ثواب کا موجب نہیں رہتا اس لئے اللہ تعالیٰ معجزات میں ایک حد تک اخفا کا پردہ ضرور رکھتا ہے اور ایسا نہیں ہوتا کہ شبہ پیدا ہونے کے سارے راستے بالکل مسدود ہو جائیں اور آپ نے اس کی مثال یوں بیان کی کہ معجزات کے نتیجہ میں اس قسم کی روشنی پیدا ہوتی ہے کہ جیسے ایک چاندنی رات کی روشنی ہو جس کے کسی حصہ میں کچھ بادل بھی ہو ایسی حالت میں ایک طرف روشنی کی تیزی بھی نہیں ہوتی بلکہ صرف مدھم سی روشنی ہوتی ہے اور دوسری طرف آنکھیں رکھنے والوں کو رستہ بھی نظر آتا ہے اور وہ مختلف چیزوں میں تمیز کر سکتے ہیں۔ پس ایمان کے ابتدائی مرحلوں میں اس سے زیادہ روشنی پیدا نہیں کی جاتی تا کہ مومن اور منکر میں امتیاز رہے اور ایمان لانا موجب ثواب سمجھا جاوے ورنہ بالکل شہود کے بعد ثواب کا کوئی سوال نہیں رہتا۔ پس آپ نے تشریح فرمائی کہ یہ جو نبیوں کی بعض پیشگوئیوں میں یا دوسرے معجزات میں کسی قدر اشکال نظر آتا ہے اور شبہ کی گنجائش باقی رہتی ہے یہ بھی خدائی منشاء کے ماتحت ضروری ہے۔ پس بجائے ہر پیشگوئی کے ہر پہلو کو کریدنے اور فرضی شبہات پیدا کرنے کے ایک عمومی نظر کے ساتھ دیکھنا چاہئے کہ کیا نتیجہ پیدا ہوتا ہے مثلاً اگر کسی مامور من اللہ کی ایک سو پیشگوئیاں ہوں اور ان پیشگوئیوں میں سے ایک بھاری کثرت صفائی سے پوری ہو جائے جس میں کسی معقول شبہ کی گنجائش نہ ہو اور صرف بعض میں کسی حد تک شبہ کی صورت پیدا ہو تو اس کی وجہ سے اس مامور من اللہ کو رد نہیں کرنا چاہئے۔ ہاں یہ ضرور دیکھنا چاہئے کہ جو پیشگوئیاں کی گئی ہیں ان میں خدائی علم اور خدائی قدرت کا ہاتھ نظر آئے اور وہ انسانی علم اور انسانی قدرت سے بالا رنگ رکھتی ہوں۔
دوسرا نکتہ آپ نے یہ بیان کیا کہ جو پیشگوئیاں وعید کا رنگ رکھتی ہوں یعنی ان میں کسی فرد یا جماعت یا قوم کے متعلق عذاب کی خبر دی گئی ہو وہ ہمیشہ دوسرے فریق کی شرارت اور شوخی کے ساتھ مشروط ہوتی ہیں اور اگر دوسرا فریق ڈر کر دب جائے یا خائف ہو کر توبہ کا طریق اختیار کرے تو پھر ایسی پیشگوئیاں ٹل جاتی ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ بہت رحیم و کریم ہے اور اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے اور یہ بات اس کی شان سے بعید ہے کہ ایک گرے ہوئے دشمن یا توبہ کے ساتھ جھکنے والے انسان پر ہاتھ اٹھائے جیسا کہ وہ قرآن شریف میں بھی فرماتا ہے کہ ہم استغفار کرنے والے بندہ پر عذاب نازل نہیں کرتے۔ ۱؎ پس آپ نے فرمایا کہ وعید والی پیشگوئیوں میں خواہ توبہ وغیرہ کی شرط صراحتاً مذکور ہو یا نہ ہو وہ لازماً اس اصولی شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہیں کہ توبہ اور استغفار سے خدا کا عذاب ٹل جاتا ہے۔
ایک اور لطیف تصنیف اور قبولیت دعا کا مسئلہ :۔ اس زمانہ میں مغربی محققین اور مسیحی
پادریوں کے اعتراضوں سے تنگ آکر مسلمانون کی عجیب حالت ہو رہی تھی۔ ان میں سے ایک طبقہ تو عیسائیت کی طرف مائل ہو رہا تھا اور دوسرا کھلم کھلا مذہب کو خیر باد کہہ کر دہریت کا شکار ہوتا جا رہا تھا مگر ایک تیسرا درمیانی طبقہ بھی تھا جو اسلام کی محبت یا عام قومی پچ میں اسلام کو چھوڑنے کے لئے تو تیار نہیں تھا مگر مغربی اعتراضوں سے تنگ آکر وہ اسلامی مسائل کی ایسی ایسی تاویلیں کر رہا تھا کہ جس سے اسلام کی شکل و صورت ہی مسخ ہو رہی تھی۔ اس مؤخر الذکر طبقہ کے لیڈر سر سید احمد خان صاحب بانی ٔ علی گڑھ کالج تھے انہیں اسلام سے محبت تھی اور مسلمانوں کو تباہی سے بچانا چاہتے تھے مگر چونکہ سید صاحب روحانی اور مذہبی آدمی نہیں تھے اس لئے اسلامی مسائل کی ایسی ایسی تاویلیں کر رہے تھے جو اسلام کی تعلیم کے بالکل خلاف تھیں۔ ان کی مدافعت کی پالیسی بالکل یہ رنگ رکھتی تھی کہ مثلاً کوئی شخص دوسرے پر حملہ کر کے آوے کہ تمہاری یہ یہ چیز خراب اور گندی ہے تو وہ بجائے اعتراض کو جھوٹا ثابت کرنے اور اپنی چیز کی خوبی کے دلائل دینے کے سامنے سے ہاتھ جوڑ کر یہ کہنے لگ جاوے کہ آپ کو غلطی لگی ہے یہ چیز تو میری ہے ہی نہیں میری چیز تو وہ ہے اس شکست خوردہ ذہنیت کے ماتحت سر سید مرحوم نے اسلام کی بہت سی باتوں سے انکار کر دیا اور بعض کی ایسی تاویل کرنی شروع کی کہ مذہب کی صورت ہی بدل گئی۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس ہزیمت کو دیکھا تو غیرت کے جوش سے اٹھ کھڑے ہوئے چنانچہ آپ کی جس تصنیف کا ہم ابھی ذکر کر چکے ہیں یعنی ’’ آئینہ کمالات اسلام‘‘ اس میں آپ نے متفرق جگہ سر سید کی غلط تاویلات کا رد کر کے اسلام کی صحیح تعلیم پیش کی ہے اور عیسائیوں کو تحدی کے ساتھ بلایا ہے کہ اگر کسی میں ہمت ہے تو میرے سامنے آئے ۔ اسی خطرہ کے انسداد میں آپ نے ۱۸۹۳ء میں ایک مخصوص تصنیف بھی لکھ کر شائع فرمائی جس کا نام ’’ برکات الدعا‘‘ ہے ۔ اس کتاب میں آپ نے سر سید احمد خان صاحب کے اس غلط عقیدہ کا بطلان کیا کہ دعا محض ایک عبادت ہے ورنہ وہ دنیا کے کاموں کی رَو کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتی جو سب اپنے اپنے مقررہ قانون کے ماتحت اپنی اپنی صورت میں چل رہے ہیں اور چلتے چلے جائیں گے۔ آپ نے ثابت کیا کہ اسلام کا خدا ایک زندہ خدا ہے جو دنیا کو پیدا کرنے کے بعد اس کی حکومت سے مغطل نہیں ہوا بلکہ اب بھی دنیا کی ہر چیز ہر وقت اس کے قبضۂ قدرت میں ہے اور گو قضاء و قدر اور خواص الاشیاء کی عام تقدیر جس کا دوسرا نام قانونِ قدرت ہے خدا ہی کی جاری کردہ ہے اور وہ اس میں سوائے خاص استثنائی حالات کے کوئی تبدیلی نہیں کرتا لیکن چونکہ وہ اپنے قانون پر غالب ہے اس لئے اگر وہ چاہے او رمناسب خیال کرے تو جب چاہے اپنے بنائے ہوئے قانون میں تبدیلی کر سکتا ہے اور یہ تبدیلی بھی خدا کے وسیع قانون کا ایک حصہ ہے چنانچہ خدا گاہے گاہے اپنے خاص بندوں کے لئے اور خاص مصالح کے ماتحت تبدیلی کرتا بھی ہے اور اسی کا نام معجزہ ہے جو بعض اوقات قبولیت دعا کی صورت میں اور بعض اوقات ویسے ہی خدا کے منشاء کے ماتحت استثنائی قانون کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور آپ نے چیلنج دیا کہ اگر کوئی شخص اس قسم کا معجزہ دیکھنا چاہے تو وہ میرے پاس آئے میں اسے خدا کے فضل سے ایسا نشان دکھائوں گا جو اس کے شبہات کی تاریکی کو دور کر دے گا۔ چنانچہ آپ نے سر سید مرحوم کو مخاطب کر کے فرمایا :۔
اے کہ گوئی گردعا ہارا اثر بودے کجا است
سوئے من بشتاب بنمائم ترا چوں آفتاب
ہاں مکن انکار زیں اسرار قدرت ہائے حق
قصہ کو تہ کن ببیں از ما دعائے مستجاب ۱؎
’’ یعنی اے وہ صاحب جو یہ فرما رہے ہو کہ اگر دعا میں کوئی اثر ہوتا ہے تو وہ کہاں ہے آپ جلدی سے میری طرف آجائیں میں آپ کو آفتاب کی طرح دعا کا اثر دکھا دوں گا۔ ہاں ہاں خدا کی قدرتوں کے مخفی اسرار سے انکار نہ کرو کیونکہ خدا کے اسرار کو خدا کے بندے ہی سمجھتے ہیں اور اگر آپ کو انکار پر اصرار ہے تو لمبی بحث کی ضرورت نہیں آئیں اور میری طرف سے اس دعا کا نتیجہ دیکھ لیں جس کے متعلق مجھے خدا نے بتایا ہے کہ وہ قبول ہو چکی ہے۔ ‘‘ اور آپ نے اس شعر پر یہ نوٹ لکھا کہ اس دعا سے وہ دعا مراد ہے جو میں پنڈت لیکھرام کے متعلق کر چکا ہوں جس کے نتیجہ میں مجھے خدا کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ پنڈت لیکھرام جو اسلام کی عداوت میں کھڑا ہے چھ سال کے عرصہ میں عید کے دوسرے روز عذاب ِ الیم میں مبتلا ہو جائے گا۔ اب خدا کی قدرت کا تماشہ دیکھو کہ مقررہ میعاد کے اندر اندر یعنی ۶؍ مارچ ۱۸۹۷ء کو عین عید کے دوسرے روز پنڈت لیکھرام اس جہان سے رخصت ہوئے اور حضرت مسیح موعود نہ صرف ہر قسم کی آفت اور نقصان سے محفوظ رہے بلکہ خدا نے آپ کو اس عرصہ میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی نصیب کی اور پھر لطف یہ ہے کہ خدا نے سر سید مرحوم کو بھی اس وقت تک زندہ رکھا کہ وہ اس ’’دعائے مستجاب‘‘ کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا دیکھ لیں۔
عربی میں مقابلہ کی دعوت :۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی تعلیم کے بیان میں یہ ذکر گزرچکا ہے کہ آپ
نے اپنی ابتدائی عمر میں بعض پرائیویٹ استادوں سے عربی کا علم سیکھا تھا مگر یہ تعلیم محض ایک ابتدائی رنگ رکھتی تھی اور مروجہ تعلیم کے ابتدائی مرحلہ سے متجاوز نہیں تھی اور یہ علم بھی آپ نے گھر پر رہ کر سیکھا تھا اور کسی مرکزی شہر میں جا کر تحصیل علم نہیں کی تھی اس لئے بظاہر حالات آپ کی علمی استعداد بہت معمولی تھی اور پنجاب و ہندوستان میں ہزاروں علماء ایسے موجود تھے جو کتابی علم میں آپ سے بہت آگے تھے لیکن جب خدا نے آپ کو اسلام کی خدمت کے لئے مبعوث کیا اور آپ کو قرآنی علوم سے مالا مال کیا تو اس کے ساتھ ہی آپ کو خارق عادت رنگ میں عربی کا علم بھی عطا کیا چنانچہ سب سے پہلے آپ نے ۱۸۹۳ء میں علماء کو دعوت دی کہ وہ آپ کے سامنے آکر عربی نویسی میں مقابلہ کر لیں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ مجھے خدا کی طرف سے ایک رات میں عربی کا چالیس ہزار مادہ سکھایا گیا ہے اور خدا نے مجھے عربی میں ایسی کامل قدرت عطا فرمائی ہے کہ اس کے مقابلہ میں کوئی دوسرا شخص نہیں ٹھہر سکتا خواہ وہ ہندی ہو یا مصری یا شامی۔ آپ نے بڑی تحدی کے ساتھ اور بار بار اپنے اس دعویٰ کو پیش کیا اور آخری عمر تک اسے دہراتے رہے مگر کسی کو آپ کی عربی تصانیف کے مقابلہ میں لکھنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ آپ نے یہ بھی لکھا کہ اگر کوئی ایک فرد اس مقابلہ کی جرأت نہیں کر سکتا تو میری طرف سے اجازت ہے کہ سب مل کر میرے مقابل پر آئو اور میرے جیسی فصیح اور بلیغ اور معارف سے پُر عربی لکھ کر دکھائو مگر کوئی شخص سامنے نہیں آیا۔ شروع شروع میں ہندوستانی علماء نے یہ کہہ کر بات کو ٹالا کہ شاید آپ نے کوئی عرب چھپا کر رکھا ہوا ہے مگر جب آپ نے اپنے چیلنج کو عربوں اور مصریوں اور شامیوں تک وسیع کر دیا تو پھر یہ سب لوگ جھاگ کی طرح ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے۔ پھر لطف یہ ہے کہ آپ کی عربی تصانیف صرف نثر میں ہی نہیں تھیں بلکہ آپ نے بہت سی عربی نظمیں بھی لکھیں جن میں سے بعض بہت لمبی لمبی نظمیں ہیں اور ہر بحر اور ہر قافیہ میں ہیں اور ان میں فصاحت اور بلاغت کو اس کمال تک پہنچایا کہ اہل زبان بھی دنگ رہ گئے۔ نثر میں بھی آپ نے ہر رنگ میں کلام لکھا یعنی مقفی بھی غیر مقفی بھی مسجع بھی غیر مسجع بھی۔ آسان بھی اور مشکل بھی اور ادب کے ہر میدان میں اپنے گھوڑے کو ڈالا اور شاہسواری کا حق ادا کر دیا۔ آپ کی عربی تصانیف کی کل تعداد اکیس ہے جن میں التبلیغ ۔ حمامۃ البشریٰ۔ منن الرحمن ۔ لجۃ النور۔ خطبہ الہامیہ ۔ الہدیٰ ۔ اعجاز المسیح اور سیرۃ الابدال خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
کسوف خسوف کا نشان :۔ ۱۸۹۴ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید میں ایک اور عظیم الشان نشان
دکھایا اور وہ یہ کہ اس قدیم پیشگوئی کے مطابق جو مہدی معہود کے متعلق پہلے سے بیان کی جا چکی تھی ۱۸۹۴ء مطابق ۱۳۱۱ھ کے رمضان میں چاند اور سورج کو گرہن لگا۔ یہ گرہن اپنی ذات میں کوئی خصوصیت نہیں رکھتا تھا کیونکہ گرہن ہمیشہ سے لگتے ہی آئے ہیں لیکن اس گرہن کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ اس کے متعلق پہلے سے معین تاریخیں بتا دی گئی تھیں کہ رمضان کے مہینہ میں فلاں فلاں تاریخوں میں چاند اور سورج کو گرہن لگے گا اور یہ کہ اس وقت ایک شخص مہدویت کا مدعی موجود ہو گا جو خدا کی طرف سے ہو گا۔ چنانچہ ان سب شرائط کے ایک جگہ اکٹھے ہو جانے سے یہ گرہن ایک خاص نشان قرار دیاگیا تھا چنانچہ وہ حدیث جس میں یہ پیشگوئی درج تھی اس کے الفاظ یہ تھے کہ ’’ ہمارے مہدی کی یہ علامت ہو گی کہ اس کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند کو اس کے گرہن کی تاریخوں میںسے پہلی تاریخ میں گرہن لگے گا اور اسی مہینہ کے آخر میں سورج کو اس کے گرہن کی تاریخوں میں سے درمیانی تاریخ میں گرہن لگے گا۔ ‘‘ ۱؎ گویا اس نشان کے لئے اتنی شرائط ضروری قرار دی گئیں۔ اوّل ایک مدعی مہدویت پہلے سے موجود ہو۔ دوم رمضان کا مہینہ ہو۔ سوم اس مہینہ کی تیرھویں تاریخ کو (کیونکہ چاند کے گرہن کے لئے یہی پہلی تاریخ ہے) چاند کو گرہن لگے۔ اور چہارم اسی مہینہ کی اٹھائیسویں تاریخ کو (کیونکہ سورج کے گرہن کے لئے یہی درمیانی تاریخ ہے) سورج کو گرہن لگے۔ ان شرائط کے ساتھ یہ نشان ایک عظیم الشان نشان قرار پاتا ہے اور لطف یہ ہے کہ ۱۸۹۴ء کے رمضان میں عین انہی شرائط کے ساتھ چاند اور سورج کو گرہن لگا اور حضرت مسیح موعود ؑ نے تحدی کے ساتھ اس دعویٰ کو پیش کیا کہ ان چار شرائط کے ساتھ یہ نشان اس سے پہلے کبھی ظاہر نہیں ہوا اور آپ نے اپنے مخالفوں کو چیلنج دیا کہ اگر ایسا نشان پہلے کبھی گزرا ہے تو اس کی مثال پیش کرو مگر کوئی شخص اس کی مثال پیش نہیں کر سکا۔ اور پھر لطف یہ ہے کہ اس نشان کی طرف قرآن شریف نے بھی اشارہ کیا ہے کہ آخری زمانہ میں چاند اور سورج کو خاص حالات میں گرہن لگے گا۔ ۲ ؎ اور انجیل میں بھی حضرت مسیح ناصری اپنی دوسری آمد کا ذکر کرتے ہوئے اس نشان کو پیش کرتے ہیں کہ اس وقت چاند اور سورج تاریک ہو جائیں گے۔ ۱؎ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس نشان کے متعلق اپنی کتاب ’’ نور الحق حصہ دوم‘‘ میں مفصل بحث کی ہے۔
عربی کے ام الالسنہ ہونے کے متعلق اعلان :۔ ۱۸۹۵ء میں آپ نے خدا سے علم پا کر اس
بات کا اعلان فرمایا کہ عربی زبان ام الالسنہ ہے یعنی وہ تمام دوسری زبانوں کی ماں ہے جس سے دنیا کے موجودہ دور کی ساری زبانیں نکلی ہیں اور بعد میں آہستہ آہستہ بدل کر نئی صورتیں اختیار کر گئی ہیں اور اسی لئے خدا نے اپنی آخری شریعت عربی زبان میں نازل فرمائی تا کہ وہ اس بات کی علامت ہو کہ یہ شریعت تمام دنیا اور سب قوموں کے لئے ہے۔ اس تحقیق کے متعلق آپ نے ایک کتاب بھی لکھ کر شائع فرمائی جس کا نام ’’ منن الرحمن ‘‘ ہے مگر افسوس ہے کہ یہ کتاب مکمل نہیں ہو سکی۔ لیکن جس قدر حصہ لکھا گیا اس میں اس بحث کے سب بنیادی اصول آگئے ہیں جنہیں آگے چلا کر اس تحقیق کو مکمل کیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب میں آپ نے اس بحث کے لئے تین مراحل مقرر کئے ہیں :۔
اوّل:۔ ز بانوں کا ایسا اشتراک ثابت کرنا جس سے یہ ظاہر ہو کہ وہ ایک مشترک ماخذ سے نکلی ہیں۔
دوم:۔ یہ ثابت کرنا کہ وہ مشترک ماخذ جس سے موجودہ زبانیں نکلی ہیں وہ عربی ہے۔ جس کے لئے آپ نے :۔
(الف) عربی کے مفردات کے نظام
(ب) اس کی تراکیب کے نظام
(ج) اس کے اشتقاق کے نظام
(د) اس کی تراکیب کے الفاظ کے مقابل پر معانی کی وسعت اور
(ھ) اس کے بنیادی اسماء کی حکمت وغیرہ کو پیش کیا۔
سوم :۔یہ ثابت کرنا کہ عربی زبان الہامی زبان ہے یعنی اس کا آغاز خدا کی طرف سے بذریعہ الہام ہوا تھا۔
آپ کی یہ تحقیق گو بظاہر ایک محض علمی تحقیق تھی لیکن غور کیا جاوے تو اس کا جوڑ بھی بالآخر اسلام کی خدمت کے ساتھ جا ملتا ہے کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جاوے کہ عربی زبان واقعی ام الالسنہ ہے تو پھر اس دعویٰ پر بہت بھاری روشنی پڑتی ہے کہ آنحضرت ﷺ خاتم النبیین ہیں اور قرآنی شریعت آخری اور عالمگیر شریعت ہے۔
اس تحقیق کے اعلان کے ساتھ ہی آپ نے یہ تحریک بھی فرمائی کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ عربی سیکھنے کی طرف زیادہ توجہ دیں کیونکہ اس کے بغیر وہ قرآنی حقائق و معارف کو پوری طرح سمجھ نہیں سکتے چنانچہ آپ نے اپنی جماعت میں بھی عربی کو رواج دینے کے لئے ایک سلسلہ اسباق جاری فرمایا جس میں روز مرہ کے الفاظ اور بول چال کے آسان فقروں کے ذریعہ عربی کی تعلیم دینا مقصود تھی اور آپ کا منشاء یہ تھا کہ مسلمان خواہ کسی ملک یا کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں انہیں چاہئے کہ عربی کو اپنی دوسری زبان سمجھیں اور اس کے سیکھنے کی طرف خاص توجہ دیں۔
یہ زمانہ ہندوستان میں مذہبی بحث و مباحثہ کے زور کا زمانہ تھا اورہر قوم ایک دوسرے کے خلاف اٹھی ہوئی تھی اور ایک دوسرے کے خلاف نہایت سخت حملے کئے جا رہے تھے اور ایک دوسرے کے مذہبی بزرگوں کو ہر قسم کے اعتراضات کا نشانہ بنایا جا رہا تھا جس کی وجہ سے ملک کی فضا سخت مسموم ہو رہی تھی۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس حالت کو دیکھا اور اس کے خطرناک نتائج کو محسوس کیا تو وائسرائے ہند کی خدمت میں ایک میموریل بھجوانے کی تجویز کی اور سمجھ دار غیر احمدیوں کو بھی اس تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ اس میموریل میں یہ استدعا تھی کہ چونکہ مذہبی تحریروں اور تقریروں کو حد اعتدال کے اندر رکھنے کے لئے موجودہ قانون کافی نہیں ہے اور ملک کی فضا خراب ہو رہی ہے اور بین الاقوام کشیدگی کے علاوہ لوگوں کے اخلاف بھی بگڑ رہے ہیں اس لئے گورنمنٹ کو چاہئے کہ اس بارے میں موجودہ قانون کو توسیع دے کر ایک نیا قانون بنا دے تا کہ لوگ مذہبی تحریروں اور تقریروں میں مناسب حد سے تجاوز نہ کر سکیں اور بین الاقوام کشیدگی میں اصلاح کی صورت پیدا ہو اور آپ نے اپنی طرف سے یہ تجویز پیش کی کہ اوّل یہ قانون بنا دیا جاوے کہ کوئی فریق دوسرے فریق پر ایسا حملہ یا ایسا اعتراض کرنے کا مجاز نہ ہو جو خود اس کے اپنے مذہب پر بھی پڑتا ہو کیونکہ یہ بھی ایک بڑا ذریعہ فتنہ و فساد کا ہے کہ لوگ اپنے اندرون خانہ پر نگاہ ڈالنے کے بغیر دوسرے مذہبوں اور ان کے پیشوائوں پر اعتراض شروع کر دیتے ہیں حالانکہ یہی اعتراض ان کے اپنے مذہب پر اور اپنے پیشوائوں پر بھی پڑتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہر فریق اپنے مذہب کی مسلمہ کتب کی ایک فہرست شائع کر دے جو اس کے مذہب کی مقدس اور بنیادی کتب ہوں اور ان کتب کی ترتیب بھی مقرر کر دے اور پھر گورنمنٹ کی طرف سے یہ پابندی لگا دی جاوے کہ کوئی فریق دوسرے فریق کے مذہب پر اعتراض کرتے ہوئے ان کتب سے باہر نہ جاوے کیونکہ بین الاقوام کشیدگی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ رطب و یابس کے ہر ذخیرہ کوجوزید و بکر کی طرف سے شائع ہو اسے اس مذہب کے خلاف حملہ کرنے کا بہانہ بنا لیا جاتا ہے۔
یہ وہ تجویزیں تھیں جو حضرت مسیح موعود ؑ نے ۱۸۹۵ء میں گورنمنٹ کے سامنے ایک باقاعدہ میموریل کی صورت میں پیش کرنی چاہیں اور ایک طرح سے آپ نے انہیں اپنے اشتہاروں کے ذریعہ پیش بھی کر دیا ۔ ۱ ؎ مگر افسوس ہے کہ بعض کو تہ اندیش مسلمانوں کی حاسدانہ دخل اندازی سے یہ تجویز تکمیل کو نہ پہنچ سکی اور گورنمنٹ نے بھی اس معاملہ میں توجہ نہ دی اور مذہبی مناقشات بد سے بدتر صورت اختیار کرتے گئے۔
اس کے بعد جب ۱۸۹۸ء میں ایک متعصب عیسائی نے ایک کتاب ’’امہات المومنین ‘‘ لکھ کر شائع کی اور اس میں آنحضرت ﷺ اور آپ کی ازواج مبارکہ کے متعلق نہایت گندے اور اشتعال انگیز حملے کئے تو حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی سابقہ تجویزوں کو پھر دوبارہ زیادہ تفصیل اور تعیین کے ساتھ گورنمنٹ کے سامنے پیش کیا اور استدعا کی کہ ملک کی فضاء کی بہتری اور اخلاقی درستی کے لئے یہ ضروری ہے کہ مجوزہ صورت میں قانون کو وسیع کر دیا جاوے تا کہ ناواجب حملوں کا دروازہ بند ہو جاوے اور آپ نے لکھا کہ یہ قانون ساری قوموں کے لئے مساوی ہو گا اور اس میں کسی کی رعایت نہیں ہے۔ دوسری طرف آپ نے اس موقعہ پر مسلمانوں کو بھی یہ نصیحت فرمائی کہ اس بات پر زور دینا کہ ایسی کتاب ضبط کر لی جاوے اور مصنف کے خلاف مقدمہ چلایا جائے درست نہیں ہے کیونکہ اوّل تو کتاب کافی حد تک پھیل چکی ہے اور اب اس کی ضبطی بے معنی ہے اور دوسرے اس کی ضبطی سے ہم اس کی تردید کے حق سے بھی محروم ہو جاتے ہیں حالانکہ اصل علاج یہ ہے کہ ہم ان اعتراضوں کا مدلل اور مسکت جواب دے کر انہیں جھوٹا ثابت کر دیں پس آپ نے اس موقعہ پر پھر اپنی سابقہ تجویزوں کی طرف گورنمنٹ کی توجہ دلائی اور لکھا کہ ہم جائز مذہبی تبادلہ خیال اور پرامن تبلیغ و اشاعت کا دروازہ بند نہیں کرنا چاہتے لیکن یہ ضروری ہے کہ مذہبی آزادی کے نام پر ناجائز اور ناواجب حملے نہ کئے جائیں اور مذہبی تحریرو تقریر کو مناسب قیود کے اندر مقید کر دیا جاوے۔ اس موقعہ پر آپ نے یہ تجویز بھی پیش کی جو اس ضمن میں گویا تیسری تجویز تھی کہ مناسب ہو گا کہ موجودہ حالات کے پیش نظر وقتی طور پر یہ قانون بھی بنا دیا جاوے کہ کوئی فریق دوسرے فریق پر حملہ نہ کرے یعنی ہر شخص اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور اس کے محاسن کو دوسروں کے سامنے لائے مگر دوسروں کے مذہب پر حملہ کرنے کی اجازت نہ ہو ۔ ۱؎ مگر افسوس ہے کہ اس موقعہ پر بھی گورنمنٹ نے ملکی فضا کی بہتری کے لئے کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا ۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے اسی زمانہ کے قریب یہ بھی اعلان کیا کہ ہم نے جو بعض اوقات اپنے مخالفین کے خلاف یا دوسرے مذاہب کے خلاف اپنی تحریرات میں کسی قدر سختی سے کام لیا ہے تو وہ محض جوابی صورت میں لیا ہے اور ہمیشہ دوسروں کی طرف سے پہل ہوتی رہی ہے اور آپ نے تشریح فرمائی کہ ہم نے کہیں کہیں جوابی رنگ میں اس لئے سختی کی ہے کہ تا دوسری قوموں کو ہوش آئے اور وہ اپنے اوپر حملہ ہوتا ہوا دیکھ کر دوسروں کے جذبات کا احترام کرنا سیکھیں اور تا اس ذریعہ سے مسلمانوں کے جوش بھی ٹھندے ہو جائیں اور وہ یہ خیال کریں کہ کچھ نہ کچھ ہماری طرف سے بھی جواب ہو گیا ہے اور آپ نے بار بار لکھا کہ ہماری اصل غرض کبھی بھی یہ نہیں ہوئی کہ کسی قوم کی دلآزاری کی جاوے بلکہ ہم نہایت نرمی اور محبت اور امن کے طریق پر کام کرنا چاہتے ہیں مگر جب دوسرا فریق حد سے بڑھ جاوے تو اصلاح اور انسداد کے خیال سے کسی قدر تلخ جواب دینا پڑتا ہے لیکن پھر بھی ہم مناسب حد سے تجاوز نہیں کرتے اور اگر دوسرے لوگ اصلاح کر لیں تو ہمیں اس کی بھی ضرورت نہیں۔ ۱؎
حضرت بابا نانک ؒ کے متعلق ایک زبردست انکشاف :۔ اسی زمانہ میں یعنی ۱۸۹۵ء میں
آپ نے ایک عظیم الشان تحقیق کا اعلان فرمایا جو سکھ مذہب کے بانی حضرت باوا نانک صاحب کے متعلق تھی۔ آپ نے باوا صاحب کے متعلق یہ ثابت کیا کہ وہ گو ہندوئوں کے گھر میں پیدا ہوئے مگر دراصل وہ ایک پاکباز مسلمان ولی تھے جنہوں نے ہندوئوں کے مذہب سے بیزار ہو کر بالآخر اسلام قبول کر لیا تھا۔ آپ نے ثابت کیا کہ باوا صاحب نے کوئی نئی شریعت پیش نہیں کی بلکہ وہ آنحضرت ﷺ کی رسالت اور قرآن شریف کی شریعت پر ایمان لاتے تھے اور مسلمانوں کی طرح باقاعدہ نماز پڑھتے تھے اور سارے اسلامی احکام کے پابند تھے اور انہوں نے مکہ کا دور دراز سفر اختیار کر کے بیت اللہ کا حج بھی کیا تھا اور بالآخر آپ نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ متبرک چولہ جو ڈیرہ بابا نانک ضلع گورداسپور میں کئی صدیوں سے باوا صاحب کی خاص یادگار چلا آتا ہے وہ بھی آپ کے مسلمان ہونے کو ثابت کرتا ہے کیونکہ اس میں جابجا کلمہ طیبہ اور قرآنی آیات درج ہیں۔ ۲؎ اس عظیم الشان تحقیق نے سکھ قوم میں ایک تہلکہ مچا دیا اور گو ان میں سے اہل الرائے لوگ اس انکشاف کی وجہ سے سوچ میں پڑ گئے مگر عوام نے اسے اشتعال کا ذریعہ بنا لیا اور آپ کی مخالفت میں آگے سے بھی زیادہ تیز ہو گئے۔
آپ کی اس تحقیق کی قدر و منزلت اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے جب ہم اسے اس بات کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ قرآنی تعلیم کی رو سے حضرت مسیح موعود ؑ کا یہ عقیدہ تھا کہ چونکہ خدا کسی ایک ملک یا ایک قوم کا خدا نہیں بلکہ ساری دنیا کا خدا ہے اور وہ مختلف زمانوں میں مختلف قوموں کی طرف رسول بھیجتا رہا ہے اور یہ سلسلہ رسالت بالآخر مقدس بانی ٔ اسلام میں آکر اپنے کمال کو پہنچا ہے اس لئے آنحضرت ﷺ سے پہلے جس جس نبی یا مصلح یا اوتار کا سلسلہ قائم ہو چکا تھا اور دنیا کے ایک معتدبہ حصہ میں اسے قبولیت حاصل ہو چکی تھی وہ خدا کی طرف سے سمجھا جائے گا کیونکہ جس مدعی رسالت کو اللہ تعالیٰ وسیع قبولیت عطا کر دے اور لاکھوں انسان اس کی صداقت پر ایمان لے آئیں اور اس کا سلسلہ دنیا میں راسخ اور قائم ہو جائے وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا کیونکہ خدا ایک جھوٹے مدعی کو ایسی قبولیت عطا نہیں کرتا جس سے سچے اور جھوٹے میں امتیاز اٹھ جاوے۔ اس طرح گویا آپ نے ان جملہ بانیان مذاہب کی صداقت کو تسلیم کر لیا جو آنحضرت ﷺ سے پہلے گزرے ہیں۔ اس کے بعد دنیا کی مشہور قوموں میں سے صرف ایک سکھ قوم باقی رہ گئی جس کے بانی آنحضرت ﷺ کے بعد ہوئے ہیں۔ سو انہیں آپ نے ایک مسلمان ولی ثابت کر کے دوستوں کی صف میں کھینچ لیا اور اس طرح ایک وسیع بین الاقوام امن اور اخوت کی بنیاد قائم کر دی۔ چنانچہ احمدیہ جماعت جہاں یہودیوں اور مسیحیوں کے مقدس رسولوں پر ایمان لاتی ہے وہاں ہندوئوں کے حضرت کرشن اور بدھ مذہب والوں کے گوتم بدھ اور پارسیوں کے زرتشت اور چینیوں کے کنفیوشس کی رسالت پر بھی یقین رکھتی ہے اور اسی طرح سکھ مذہب کے بانی حضرت بابا نانک صاحب کو ایک پارسا اور نیک اور صالح بزرگ خیال کرتی ہے۔ پس بابا صاحب کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کی تحقیق دُہرا نتیجہ پیدا کر رہی ہے ۔ یعنی ایک طرف تو وہ مسلمانوں کے دلوں میں بابا صاحب کی عزت کو بڑھاتی ہے اور دوسری طرف وہ سکھوں کو یاد دلاتی ہے کہ ان کے گھر کا چراغ بھی نورِ محمدی سے روشنی حاصل کرنے والا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ابھی تک دنیا نے ان نکتوں کو سمجھا نہیں۔
مخالفین کا نام لے کر مباہلہ کا چیلنج :۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی مخالفت کا آغاز ۱۸۹۱ء میں ہوا تھا
اس سلسلہ کے شروع ہوتے ہی بعض مخالف علماء نے آپ کو یہ چیلنج دیا کہ اگر آپ سچے ہیں تو اسلامی طریق کے مطابق ہم سے مباہلہ کر لیں یعنی فریقین ایک دوسرے کے مقابل پر خدا کی قسم کھائیں کہ ہمارے یہ یہ عقائد ہیں جنہیں ہم دلی یقین کے ساتھ سچا سمجھتے ہیں لیکن ہمارا مخالف فریق انہیں جھوٹا اور خلاف اسلام قرار دیتا ہے پس اے خدا اب ہم دونوں فریقوں میں سے جو فریق تیری نظر میں جھوٹا ہے تو اس پر *** کی مار ڈال اور اسے دوسرے کے مقابل میں ذلیل و رسوا کرتا کہ حق و باطل میں فیصلہ ہو جائے اس وقت چونکہ مخالفت کا آغاز ہی تھا اور ابھی عوام الناس کو آپ کے دعویٰ اور اس کے دلائل سے اطلاع نہیں تھی اور آپ کے خلاف ابھی تک کفر کے فتویٰ کی بھی اشاعت نہیں ہوئی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ابھی تک آپ کو خدا کی طرف سے مباہلہ کی اجازت نہیں ملی تھی اس لئے آپ نے مباہلہ سے اجتناب فرمایا لیکن جب کفر کا فتویٰ شائع ہو گیا اور آپ کو جمہور علماء نے کافر اور کذاب اور دجال قرار دیا اور اس فتویٰ سے ملک میں عداوت کی آگ بلندہو گئی اور دوسری طرف آپ کے دعاوی اور دلائل کی بھی کافی اشاعت ہو چکی تو ۱۸۹۲ء کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ایک الہام کے ذریعہ آپ کو مباہلہ کی اجازت دی جس پر آپ نے ایک عام اعلان فرما دیا کہ اب جو شخص چاہے میرے سامنے آکر میرے دعاوی کے بارے میں مباہلہ کرلے اور پھر اسلامی تعلیم کے ماتحت ایک سال کے اندر دیکھ لے کہ خدا کیا نتیجہ ظاہر کرتا ہے ۔ مگر وہی لوگ جن میں سے بعض مباہلہ کے لئے دعوت دے رہے تھے اب ڈر کر پیچھے ہٹ گئے اور فضول اور خلافِ تعلیم اسلام شرائط پیش کر کے پہلو تہی اختیار کی۔
اس کے بعد ۱۸۹۶ء میں یعنی اس زمانہ میں جس کا ہم اس وقت ذکر کر رہے ہیں آپ نے ایک لمبی فہرست مسلمان علماء اور گدی نشینوں کی شائع فرمائی اور ان سب کو نام لے لے کر بلایا کہ اگر تم میں سے کسی میں ہمت ہے تو وہ میرے سامنے آکر مسنون طریق پر مباہلہ کر لے اور آپ نے بڑے غیرت کے الفاظ میں لوگوں کو ابھارا مگر کسی کو آپ کے سامنے آنے کی جرأت نہیں ہوئی چنانچہ آپ لکھتے ہیں :۔
’’ اے مخالف مولویو ! اور سجادہ نشینو!! یہ نزاع ہم میں اور تم میں حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے اور اگرچہ یہ جماعت بہ نسبت تمہاری جماعتوں کے تھوڑی سی اور فئہ قلیلہ ہے تا ہم یقینا سمجھو کہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودہ ہے۔ خدا اس کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ وہ راضی نہیں ہو گا جب تک کہ اسے کمال تک نہ پہنچاوے …… اسی نے مجھے حکم دیا ہے کہ تا میں آپ لوگوں کے سامنے مباہلہ کی درخواست پیش کروں تا جو راستی کا دشمن ہے وہ تباہ ہو جاوے اور جو اندھیرے کو پسند کرتا ہے وہ عذاب کے اندھیرے میں پڑے۔ پہلے میں نے کبھی ایسے مباہلہ کی نیت نہیں کی اور نہ چاہا کہ کسی پر بد دعا کروں …… لیکن اب میں بہت ستایا گیا اور دکھ دیا گیا مجھے کافر ٹھہرایا گیا۔ مجھے دجال کہا گیا میرانام شیطان رکھا گیا۔ مجھے کذاب اور مفتری سمجھا گیا …… سو اب اٹھو اور مباہلہ کے لئے تیار ہو جائو …… اس مباہلہ کے بعد اگر میں ایک سال کے اندر مر گیا یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا ہو گیا جس میں جانبری کے آثار نہ پائے جائیں تو لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں گے اور میں ہمیشہ کی *** کے ساتھ ذکر کیا جائوں گا …… لیکن اگر خدا نے ایک سال تک مجھے موت اور آفاتِ بدنی سے بچا لیا اور میرے مخالفوں پر قہر اور غضبِ الٰہی کے آثار ظاہر ہو گئے اور ہر ایک ان میں سے کسی نہ کسی بلا میں مبتلا ہو گیا اور میری بد دعا نہایت چمک کے ساتھ ظاہر ہو گئی تو دنیا پر حق ظاہر ہو جائے گا اور یہ روز کا جھگڑا درمیان سے اٹھ جائے گا۔ میں دوبارہ کہتا ہوں کہ میں نے پہلے اس سے کبھی کلمہ گو کے حق میں بد دعا نہیں کی اور صبر کرتا رہا مگر اس روز خدا سے فیصلہ چاہوں گا اور اس کی عصمت اور عزت کا دامن پکڑوں گا کہ تا ہم میں سے فریق ظالم اور دروغگو کو تباہ کر کے اس دین متین کو شریروں کے فتنہ سے بچاوے۔ میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ میری دعا کا اثر صرف اس صورت میں سمجھا جائے کہ جب تمام وہ لوگ جو مباہلہ کے میدان میںبالمقابل آویں ایک سال تک ان بلائوں میں سے کسی بلا میں گرفتار ہو جائیں۔ اگر ایک بھی باقی رہا تو میں اپنے تئیں کاذب سمجھوں گا۔ اگرچہ وہ ہزار ہوں یا دو ہزار …… گواہ رہ اے زمین اور اے آسمان ! کہ خدا کی *** اس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ میں حاضر ہو اور نہ تکفیر او رتوہین کو چھوڑے۔‘‘ ۱؎
مگر افسوس ہے کہ باوجود ان غیرت دلانے والے الفاظ کے ان لوگوں میں سے ایک فرد واحد بھی مباہلہ کے لئے تیار نہیں ہوا جن کو آپ نے اپنے چیلنج میں مخاطب کیا تھا بلکہ بعض نے تو ڈر ڈر کر چٹھیاں لکھیں کہ ہم آپ کوبرا نہیں کہتے ہمیں اس مقابلہ کے امتحان میں نہ ڈالا جاوے لیکن اکثر نے تکبر اور نخوت سے کام لیا یعنی نہ تو مباہلہ کے لئے آگے آئے اور نہ ہی تکفیر اور تکذیب کو چھوڑا اور جھوٹے بہانوں سے وقت کو ٹال دیا ۔ مگر باوجود اس کے ان میں سے اکثر لوگ حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میں ہی مختلف قسم کے عذابوں کا نشانہ بن کر خاک میں مل گئے۔
غیر احمدی مسلمانوں کو صلح کی دعوت :۔ چونکہ حضرت مسیح موعود ؑ کی بعثت کی بڑی غرض اسلام
کی خدمت تھی اس لئے آپ نے مباہلہ کے ساتھ ساتھ غیر احمدی علماء کے سامنے ایک اور تجویز بھی پیش کی۔ یہ تجویز عارضی صلح کی تھی۔آپ نے لکھا کہ اگر تمہیں فیصلہ کے دوسرے طریق منظور نہیںاور مباہلہ کے لئے بھی آگے نہیں آنا چاہتے تو آئو میرے ساتھ سات سال کے لئے صلح کر لو اور اس عرصہ میں مجھے غیر مذاہب کے مقابلہ کے لئے آزادی اور یکسوئی کے ساتھ کام کرنے دو۔ پھر اگر خدا نے مجھے اس عرصہ میں غیر مذاہب کے مقابلہ میں نمایاں غلبہ دے دیا اور اسلام کو ایک غیر معمولی فتح نصیب ہو گئی اور اسلام کا بول بالا ہو گیا تو چونکہ یہی مسیح اور مہدی کی بڑی علامت ہے تم مجھے مان لینا۔ لیکن اگر میرے ذریعہ یہ غلبہ حاصل نہ ہوا تو پھر تمہیں اختیار ہو گا کہ میرا انکار کرو اور جس طرح چاہو جھوٹوں کی طرح سلوک کرو چنانچہ آپ نے لکھا :۔
’’ اگر ان باتوں میں سے کوئی بھی نہ کریں (یعنی عربی نویسی میں مقابلہ ۔تفسیر نویسی میں مقابلہ ۔قبولیت دعا میں مقابلہ ۔معجزہ نمائی میں مقابلہ ا ور مباہلہ وغیرہ) تو مجھ سے اور میری جماعت سے سات سال تک اس طور سے صلح کر لیں کہ تکذیب اور تکفیر اور بد زبانی سے منہ بند رکھیں اور ہر ایک کو محبت اور اخلاق سے ملیں۔ …… پس اگر ان سات سال میں میری طرف سے خدا تعالیٰ کی تائید سے اسلام کی خدمت میں نمایاںاثر ظاہر نہ ہوں اور جیسا کہ مسیح کے ہاتھ سے ادیانِ باطلہ کا مر جانا ضروری ہے یہ موت جھوٹے دنیوں پر میرے ذریعہ سے ظہور میں نہ آوے یعنی خدا تعالیٰ میرے ہاتھ سے وہ نشان ظاہر نہ کرے جن سے اسلام کا بول بالا ہو اور جس سے ہر ایک طرف سے اسلام میں داخلہ ہوناشروع ہو جائے۔ اور عیسائیت کا باطل معبود فنا ہو جائے اور دنیا اور رنگ نہ پکڑ جائے تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے تئیں کاذب خیال کر لوں گا۔ اور خدا جانتا ہے کہ میں ہرگز کاذب نہیں۔ یہ سات برس کچھ زیادہ سال نہیں ہیں اور اس قدر انقلاب اس تھوڑی مدت میں ہو جانا انسان کے اختیار میں ہرگز نہیں۔ پس جبکہ میںسچے دل سے اور خدا تعالیٰ کی قسم کے ساتھ یہ اقرار کرتا ہوں اور تم سب کو اللہ کے نام پر صلح کی طرف بلاتا ہوں تو اب تم خدا سے ڈرو۔ اگر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں تو میں تباہ ہو جائوں گا ورنہ خدا کے مامور کو کوئی تباہ نہیں کر سکتا۔ ‘‘ ۱؎
مگر افسوس ہے کہ غیر احمدی زعماء نے اس تجویز کو بھی قبول نہ کیا اور ہر موقعہ جو ان کے سامنے آیا اسے ضائع کرتے چلے گئے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس صلح کی تجویز کو ۱۹۰۱ء میں پھر دہرایا اور ایک اشتہار کے ذریعہ اس کی طرف لوگوں کو دعوت دی اور فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ میری تردید میں کچھ نہ لکھا جاوے۔ بے شک لکھو اور میری غلطیوں کو جو تمہیں نظر آتی ہیں دنیا کے سامنے لائو اور اپنے عقائد کے دلائل پیش کرو مگر بدزبانی اور ذاتی حملے اور تحقیر و توہین کا طریق چھوڑ دو بلکہ نرمی اور ہمدردی اور شائستگی کے ساتھ کلام کرو اور پھر صبر اور حلم کے ساتھ خدا کے فیصلہ کا انتظار کرو کیونکہ جس فریق کے ساتھ خدا ہو گا وہ خود غالب آتا جائے گا اور اس دفعہ آپ نے سات سال کی بجائے صرف تین سال کی میعاد پیش کی مگر افسوس ہے کہ ہمارے ضدی اور کج ر و علماء نے اس تجویز کو بھی ٹھکرا دیا۔‘‘ ۱؎
جلسہ مذاہب اور حضرت مسیح موعود ؑ کی بے نظیر کامیابی :۔ اسی زمانہ کے قریب اللہ تعالیٰ
نے ایک اور رنگ میں بھی حضرت مسیح موعودؑ کا غلبہ ثابت کیا جس نے سارے مذاہب کے مقابلہ پر آپ کو اور آپ کے ذریعہ اسلام کو ایک فاتح کی حیثیت دے دی تفصیل اس کی یہ ہے کہ ۱۸۹۵ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک اشتہار کے ذریعہ مختلف قوموں کے مذہبی لیڈروں کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ اب جبکہ خدا تعالیٰ نے دنیا میں علم کی اشاعت کے لئے اتنی سہولتیں پیدا کر دی ہیں تو مناسب ہے کہ مختلف مذاہب کی تحقیق کے لئے ایک مشترک جلسہ منعقد کیا جائے جس میں مختلف مذاہب کے چیدہ چیدہ نمائندے شریک ہو کر اپنے اپنے مذہب کے متعلق تقریریں کریں تا کہ لوگوں کے لئے تحقیق بین المذاہب کے متعلق سہولت پیدا ہو اور آپ نے اپنی طرف سے یہ دعوت دی کہ ایسا جلسہ قادیان میں منعقد کیا جائے اور یہ کہ آپ اس جلسہ کے جملہ مہمانوں کی مہمان نوازی کا خرچ خود برداشت کریں گے اور جملہ انتظامات کے ذمہ دار ہوں گے۔ ۲؎ مگر افسوس ہے کہ اس وقت کسی قوم نے اس دعوت کو قبول نہ کیا۔ لیکن اس کے ایک سال بعد یعنی ۱۸۹۶ء کے آخر میں بعض ہندو صاحبان نے اس تحریک کو پھر تازہ کر کے اپنی طرف سے یہ تجویز پیش کی کہ ایک مشترک جلسہ لاہور میں ۲۶۔۲۷۔۲۸ ؍ دسمبر ۱۸۹۶ء کو منعقد کیا جائے اور اس مذہبی کانفرنس میں جملہ مذاہب کے نمائندوں کو دعوت دی جائے کہ وہ اپنے اپنے مذہب کی تعلیم بیان کریں تا کہ لوگوں کو بیک وقت مختلف مذاہب کی تعلیم کو جانچنے اور وزن کرنے کا موقعہ میسر آجاوے اور اس غرض کے لئے چند اصولی سوالات مقرر کر کے ان پر اظہار خیالات کی دعوت دی گئی۔ چنانچہ جملہ اقوام اور جملہ مذاہب کے نمائندے اس جلسۂ مذاہب میں شرکت کے لئے تیار ہو گئے۔ یعنی ہندو، عیسائی ،سکھ ،برہمو ،مسلمان وغیرہ سبھی اس جلسہ میں شریک ہوئے اور حضرت مسیح موعود ؑ کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ کی تجویز کو بار آور بھی کر دیا اور اصل سہرا آپ کے سر رہا مگر دوسری طرف اس تجویز کو غیروں کے منہ سے نکلوا کر اس کامیابی کو جو اس جلسہ میں آپ کو ہونے والی تھی دوبالا کر دیا۔ الغرض یہ جلسہ ہوا اور حضرت مسیح موعود نے بھی مقررہ سوالات پر ایک مضمون لکھا اور خدا سے علم پا کر پہلے سے اعلان کر دیا کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ میرا یہ مضمون سارے مضمونوں پر غالب رہے گا اور اس کے ذریعہ سے اسلام کو ایک نمایاں فتح حاصل ہو گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ مسلم ۔غیر مسلم۔ دوست۔ دشمن سب نے بالاتفاق اقرار کیا کہ یہ مضمون واقعی سارے مضمونوں پر غالب رہا ہے اور اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ چونکہ مضمون لمبا تھا اور مقررہ وقت پر ختم نہیں ہو سکا اس لئے لوگوں کی متفقہ خواہش پر صرف اس مضمون کی خاطر جلسہ کا ایک دن بڑھایا گیا۔ اس جلسہ میں آریوں نے بھی اپنا مضمون پڑھا۔ عیسائیوں نے بھی پڑھا۔ سکھوں نے بھی پڑھا۔ برہمو سماج والوں نے بھی پڑھا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے مخالف مسلمانوں نے بھی اپنا مضمون پڑھا۔ مگر اس وقت بلا استثناء ہر زبان پر یہی کلمہ جاری تھا کہ مرزا صاحب کے مضمون کے آگے سارے مضامین ماند پڑ گئے ہیں۔ ۱؎ اور یہ فتح ایسے حالات میں حاصل ہوئی کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے پہلے سے اشتہار دے کر عام اعلان کر رکھا تھا کہ مجھے خدا نے خبر دی ہے کہ یہ مضمون سارے مضمونوں پر غالب رہے گا۔ ۲؎ اور پھر یہ فتح صرف ایک وقت فتح نہیں تھی بلکہ جب یہ مضمون چھپ کر شائع ہوا اور بعد میں انگریزی میں بھی اس کا ترجمہ چھپا تو یورپ اور امریکہ کے مشہور اہل الرائے اصحاب اور خبارات نے بھی اس مضمون کی لطافت اور اس کی طاقت اور اس کے حسن بیان اور اس کے مضامین کی ندرت اور اس کی گہری روحانیت اور اس کے بے نظیر اثر کو تسلیم کیا اور اس کے متعلق نہایت زور دار ریویو شائع کئے۔ الغرض اس موقعہ پر آپ کو ایک ایسے پلیٹ فارم پر جس پر ساری قوموں کے وکیل جمع تھے ایک نمایاں فتح نصیب ہوئی اور اس سے وہ قرآنی وعدہ بھی پورا ہوا کہ جب مسیح موعود آئے گا تو اس کے ذریعہ اسلام کو سارے مذاہب پر غلبہ حاصل ہو جائے گا۔ یہ مضمون ایک کتاب کی صورت میں چھپ چکا ہے جس کا نام اردو میں ’’ اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ ہے اور انگریزی میں اس کا نام ’’ ٹیچنگز آف اسلام ‘‘ ہے ۔ ہم اپنے ناظرین سے پر زور استدعا کرتے ہیں کہ وہ اس بے نظیر کتاب کو ضرور مطالعہ کریں تا کہ انہیں اسلام کی روحانی طاقت اور حضرت مسیح موعود ؑ کے زور قلم کا اندازہ ہو سکے۔ اس کتاب کے متعلق بعض مغربی محققین کی رائے مثال کے طور پر درج ذیل کی جاتی ہے۔ برسٹل ٹائمز اینڈ مرر نے لکھا :۔
’’ یقینا وہ شخص جو اس رنگ میں یورپ و امریکہ کو مخاطب کرتا ہے کوئی معمولی آدمی نہیں ہو سکتا۔ ‘‘
سپریچوال جرنل بوسٹن نے لکھا :۔
’’ یہ کتاب بنی نوع انسان کے لئے ایک خالص بشارت ہے۔ ‘‘
پی او کداوو جزیر کلپانی نے لکھا :۔
’’ یہ کتاب عرفان الٰہی کا ایک چشمہ ہے ۔ ‘‘
تھیاسوفیکل بک نوٹس نے لکھا :۔
’’ یہ کتاب محمد (صلعم) کے مذہب کی بہترین اور سب سے زیادہ دلکش تصویر ہے۔ ‘‘
انڈین ریویو نے لکھا :۔
’’ اس کتاب کے خیالات روشن ،جامع اور حکمت سے پُر ہیں اور پڑھنے والے کے منہ سے بے اختیار اس کی تعریف نکلتی ہے۔ ‘‘
مسلم ریویو نے لکھا :۔
’’ اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا اس میں بہت سے سچے اور عمیق اور اصلی اور روح افزا خیالات پائے گا۔ ‘‘
۱۸۹۷ء کا سال اپنے ساتھ غیر معمولی نقل و حرکت کو لایا۔ ابھی اس سال کا آغاز ہی تھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی اس پیشگوئی کے مطابق جو آپ نے ۱۸۹۳ء میں پنڈت لیکھرام کی ہلاکت کے بارے میں کی تھی جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ ۶؍مارچ کو پنڈت لیکھرام کسی نامعلوم آدمی کے ہاتھ سے لاہور میں مارے گئے اور عجیب یہ ہے کہ جیسا کہ پہلے سے خبر دی گئی تھی لیکھرام کی موت عین عید کے دسرے دن واقع ہوئی۔ اس واقعہ سے ہندوستان بھر کی ہندو قوم میں حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف ایک خطرناک اشتعال کی صورت پیدا ہو گئی اور پیشگوئی سے مرعوب ہونے کی بجائے ہندوئوں نے یہ الزام لگانا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب نے پنڈت لیکھرام کو خود سازش کر کے قتل کروا دیا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس کے خلاف بڑے زور کے ساتھ اعلان کیا اور قسم کھا کھا کر بیان کیا کہ اس واقعہ میں میرا اس بات کے سوا قطعاً کوئی ہاتھ نہیں کہ خدا نے مجھے اپنے الہام کے ذریعہ لیکھرام کی ہلاکت کی خبر دی تھی مگر آریہ صاحبان کی تسلی نہ ہوئی اور انہوں نے گورنمنٹ میں رپورٹ کر کے آپ کے مکان کی تلاشی کروائی اور خفیہ پولیس کے آدمی سپیشل ڈیوٹی پر لگوائے مگر جب کہ حضرت مسیح موعود ؑ کا اس معاملہ میں کوئی دخل ہی نہیں تھا تو کوئی بات ثابت کیسے ہوتی لیکن ہندو صاحبان کی مزید تسلی کے لئے اور ان پر اتمام حجت کی غرض سے آپ نے یہ اعلان کیا اور اس اعلان کو بار بار دہرایا کہ اگر کسی کو یہ شبہ ہے کہ میں نے خود پنڈت لیکھرام کو قتل کروا دیا ہے تو اس کا آسان علاج یہ ہے کہ ایسا شخص میرے مقابل پر کھڑا ہو کر خدا کی قسم کھا جاوے کہ پنڈت لیکھرام کو میں نے قتل کروایا ہے پھر اگر وہ خود ایک سال کے عرصہ کے اندر ہلاک نہ ہو تو میں جھوٹا ہوں اور اس صورت میں مَیں اس کو دس ہزار روپیہ انعام بھی دوں گا اور آپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ ایسے شخص کی ہلاکت ایسے رنگ میں ہو گی جس میں انسانی ہاتھ کا دخل قطعاً ممکن نہ ہو تا کہ کسی قسم کا اشتباہ نہ رہے۔ ۱؎ یہ ایک بہت صاف اور پختہ طریق فیصلہ تھا مگر کوئی شخص آپ کے مقابلہ پر نہ آیا اور اس چیلنج نے حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کی شان کو دوبالا کر دیا۔ دوسری طرف جو پیشگوئی پنڈت لیکھرام نے حضرت مسیح موعود ؑ کی صداقت کے بارے میں کی تھی وہ بالکل ناکام اور غلط ثابت ہوئی۔
اس جگہ یہ ذکر بھی خالی از فائدہ نہ ہو گا کہ پنڈت لیکھرام کی موت کے بعد جبکہ آریہ قوم میں بہت جوش پیدا ہوا تو ان ایام میں حضرت مسیح موعود ؑ کے پاس کئی گمنام خطوط ایسے آئے جن میں آپ کو قتل کی دھمکی دی گئی تھی مگر جس کو خدا بچانا چاہے اسے کون نقصان پہنچا سکتا ہے۔
پنڈت لیکھرام کے تعلق میں ایک اوربات بھی قابل ذکر ہے جس سے حضرت مسیح موعود ؑ کی مذہبی غیرت کا دلچسپ ثبوت ملتا ہے وہ یہ کہ جب شروع شروع میں حضرت مسیح موعود ؑ نے پنڈت لیکھرام کے متعلق پیشگوئی فرمائی تو ایک دفعہ جب آپ ایک سفر کے دوران میں لاہور ریلوے اسٹیشن پر تھے تو پنڈت لیکھرام آپ کا علم پا کر آپ کی ملاقات کے لئے آئے اور قریب آکر سلام کیا۔ مگر حضرت مسیح موعود ؑ نے اس سلام کا جواب نہیں دیا۔ جس پر پنڈت لیکھرام نے خیال کیا کہ شاید آپ نے سنا نہیں اس لئے پنڈت لیکھرام نے دوسری طرف سے ہو کر پھر سلام کہا مگر آپ پھر بھی خاموش رہے جس پر بعض حاضرین مجلس نے آپ کو توجہ دلانے کے لئے عرض کیا کہ حضور! پنڈت لیکھرام سلام کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ’’ ہمارے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کہتا ہے! ‘‘ اس سے اس بے نظیر محبت اور بے نظیر غیرت کا ثبوت ملتا ہے جو آنحضرت ﷺ کے متعلق آپ کے دل میں تھی مگر اس واقعہ سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ آپ کسی مخالفِ اسلام کے ساتھ ملاقات نہیں فرماتے تھے کیونکہ بہت سے غیر مسلموں کے ساتھ آپ کے تعلقات تھے اور آپ ہمیشہ انہیں بڑے اخلاق اور محبت کے ساتھ ملتے تھے لیکن جب پنڈت لیکھرام نے اسلام کی مخالفت کو انتہاء تک پہنچا دیا اور آنحضرت ﷺ کے خلاف سخت بدزبانی سے کام لیا تو آپ کی غیرت نے اس بات کو قبول نہ کیا کہ ان حالات میں ایسے شخص کے ساتھ کسی قسم کا تعلق رکھیں خصوصاً جبکہ اب وہ آپ کے خلاف مباہلہ کے میدان میں آخر خدا کی *** کا نشانہ بننے والا تھا۔
۱۸۹۷ء کے وسط میں ملکہ وکٹوریہ کی ساٹھ سالہ جوبلی تھی۔ چونکہ حضرت مسیح موعود ؑ نہ صرف اصولاً حکومتِ وقت کے ساتھ تعاون کے قائل اور مؤید تھے بلکہ برٹش حکومت کے ویسے بھی مداح تھے اور اس کی امن اور انصاف اور مذہبی آزادی کی پالیسی کے ثناخواں تھے اور جماعت کو ہمیشہ پر امن اور وفادار شہری بنے رہنے کی تاکید فرماتے رہتے تھے اس لئے جب ملکہ وکٹوریہ کی ساٹھ سالہ جوبلی کا موقعہ آیاتو چونکہ اس موقعہ پر ملک کے سارے حصوں میں خوشی کے جلسے ہو رہے تھے آپ نے بھی قادیان میں ایک جلسہ منعقد فرمایا جس میں حکومت کے اچھے اوصاف کی تعریف فرمائی اور پبلک کو پرامن اور وفادار رہنے کی تلقین کی اور ملک کے امن و امان کے لئے دعا فرمائی اور جلسہ کے علاوہ اس موقعہ پر غربا میں کھانا بھی تقسیم کیا گیا اور رات کے وقت قصبہ میں چراغاں ہوا۔ اس طرح آپ نے ایک پرامن اور وفادار شہری کے حقوق تو ادا کر دئیے لیکن ابھی ایک مصلح کے حقوق کی ادائیگی باقی تھی جو آپ نے اس طرح پوری فرمائی کہ ایک کتاب ’’ تحفہ قیصریہ‘‘ نامی لکھ کر اس میں ملکہ وکٹوریہ کو اسلام کی دعوت دی اور نہایت دلکش پیرایہ اور محبت کے انداز میں بوڑھی ملکہ کو حق اور صداقت کی طرف بلایا اور پھر اس کتاب کو خوبصورت شکل میں جلد کروا کے اپنی ایک چٹھی کے ساتھ ملکہ کی خدمت میں ارسال کیا ۔ ۱؎ اور اس طرح آپ کے ہاتھ سے وہ سنت بھی پوری ہو گئی جو مقدس بانی اسلام نے قیصرو کسریٰ کو تبلیغ مراسلات کے بھجوانے میں قائم کی تھی۔ ملکہ معظمہ نے اس کتاب کا شکریہ ادا کیا اور اسے پڑھنے کا وعدہ فرمایا مگر بادشاہوں کا مذہب عموماً ان کی سیاست سے مغلوب ہوتا ہے اس لئے نہ بظاہر اس تبلیغ کا کوئی معین نتیجہ نکلنے کی امید تھی اور نہ کوئی نتیجہ نکلا۔
اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک غیر مطبوعہ مراسلہ کے ذریعہ ۱۸۹۶ء میں امیر کابل کو بھی صداقت کی طرف دعوت دی تھی اور اپنے دعویٰ کو پیش کر کے امیر صاحب کو حق کی طرف بلایا تھا بلکہ یہ بھی لکھا تھا کہ اگر میرے دعویٰ میں کچھ شک ہو تو اسے ایک طرف رکھ کر اسلام کی خدمت میں ہی میری امداد کرو کیونکہ یہ سب مسلمانوں کا مشترکہ کام ہے اور اس وقت اسلام سخت مصائب میں گھرا ہوا ہے مگر امیر نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ سنا گیا ہے کہ تحقیر اور استہزاء کا طریق اختیار کیا۔ ۱؎
حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ :۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی اس روز افزوں
ترقی اور کامیابی کو دیکھ کر ہندوستان کی مختلف قوموں نے آپ کو اس رنگ میں بھی کچلنا چاہا کہ آپ پر سنگین مقدمات قائم کر کے آپ کو حکومت کی طرف سے سزا دلائی جائے یا کسی اور طرح نقصان پہنچایا جاوے۔ چنانچہ پنڈت لیکھرام کے قتل کے موقعہ پر آپ کے مکان کی تلاشی اسی کوشش کا نتیجہ تھی ۔ لیکن جب اس کوشش میں بھی ناکامی رہی تو اس خیال سے کہ شاید انگریزی حکومت اپنے پادریوں کی بات کی طرف زیادہ توجہ دے گی آپ کے خلاف مسیحی پادریوں کی طرف سے ایک مقدمہ اقدام قتل کا کھڑا کروایا گیا اور آریہ صاحبان اور غیر احمدی مسلمان اس ناپاک کوشش میں ان کے مدد گار بنے۔ چنانچہ پادری مارٹن کلارک نے آپ کے خلاف یہ استغاثہ دائر کیا کہ حضرت مرزا صاحب نے ایک مسلمان نوجوان کو میرے قتل کے لئے سکھا کر بھجوایا ہے اور ایک آوارہ گرد مسلمان لڑکے کو اقبالی مجرم بنا کر عدالت میں پیش کر دیا۔ اس مقدمہ میں ایک مشہور آریہ وکیل نے ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مقدمہ کی مفت پیروی کی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بطور گواہ کے پیش ہوئے اور حضرت مرزا صاحب کو قاتل ثابت کرنے کے لئے ایک پورا جال پچھا دیا گیا۔ مگر جس کو خدا بچانا چاہے اسے کون نقصان پہنچا سکتا ہے۔ خدا نے ایسا تصرف کیا کہ جس لڑکے کو اقبالی مجرم بنا کر کھڑا کیا گیا تھا اس سے اپنے بیان کے دوران میں ایسی حرکات سرزد ہوئیں کہ گورداسپور کے انصاف پسند ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کیپٹن ڈگلس کو شبہ پیدا ہوا کہ یہ سارا مقدمہ محض ایک سازش ہے چنانچہ اس نے زیادہ چھان بین کی اور لڑکے کو پادریوں کے قبضہ سے نکال کر اس پر زور ڈالا تو اس نے اقبال کر لیا کہ مجھے ہرگز مرزا صاحب نے کسی کے قتل کے لئے مقرر نہیں کیا بلکہ میں نے عیسائی پادریوں کے کہنے کہانے سے ایسا بیان دیا تھا۔ جس پر حضرت مسیح موعود ؑ بڑی عزت کے ساتھ بری کئے گئے اور آپ کے مخالفوں کے ماتھے پر ناکامی کے علاوہ ذلت کا ٹیکہ بھی لگ گیا۔ ۱ ؎
دشمن کے ساتھ احسان کا سلوک :۔ اس مقدمہ کے دوران میں دو باتیں ایسی ظاہر ہوئیں جن سے حضرت مسیح موعود ؑ کے اعلیٰ اخلاق پر بہت بھاری روشنی پڑتی ہے۔
اوّل یہ کہ دورانِ مقدمہ میں جب مولوی محمد حسین بٹالوی آپ کے خلاف شہادت میں پیش ہوئے اور آپ کو سزا دلوانے کی کوشش میں عیسائیوں کے حمایتی بنے تو آپ کے وکیل نے ان کے خلاف ایسی جرح کرنی چاہی جس سے ان کے بعض ذاتی اور خاندانی عیوب ظاہر ہوتے تھے اور ان کی حیثیت کے گرنے سے حضرت مسیح موعود ؑ کو فائدہ پہنچتا تھا کیونکہ وہی بڑے گواہ تھے مگر حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے وکیل کو سختی کے ساتھ اس جرح سے روک دیا اور کہا کہ میں ہرگز پسند نہیں کرتا کہ اس قسم کے سوال کئے جائیں آپ کے اس رویہ کا اس وکیل پر جو اتفاق سے وہ بھی ایک غیر احمدی تھا آپ کے اعلیٰ اخلاق کے متعلق نہایت گہرا اثر ہوا۔ اور وہ ہمیشہ اس واقعہ کا تعجب کے ساتھ ذکر کیا کرتا تھا کہ مرزا صاحب نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر بھی اپنے جانی دشمن کو تذلیل سے بچایا۔
دوسری بات یہ تھی کہ جب مجسٹریٹ نے فیصلہ سنایا تو حضرت مسیح موعود ؑ کو بری قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ آپ کے خلاف یہ مقدمہ جھوٹے طور پر بنایا گیا تھا ۔ قانونی طور پر آپ کو یہ حق ہے کہ اگر چاہیں تو مقدمہ کرنے والے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں۔ آپ نے فرمایا کہ میں ایسا نہیں چاہتا۔ خدا نے مجھے اپنے وعدہ کے مطابق بری کر دیا ہے اور وہ میرا محافظ ہے مجھے اپنے مخالفوں کے خلاف انتقامی چارہ جوئی کی ضرورت نہیں۔ اس کا بھی دیکھنے والوں پر نہایت گہرا اثر ہوا۔
سفیر ترکی کی قادیان میں آمد اور ایک خدائی نشان :۔ ۱۸۹۷ء میں ایک اور اہم واقعہ بھی
پیش آیا اور وہ یہ کہ حسین کامی جو حکومت ترکی کی طرف سے ہندوستان میں سفیر تھا وہ حضرت مسیح موعود ؑ کی ملاقات کی غرض سے قادیان آیا اور علیحدگی میں ملاقات کی خواہش کر کے سلطان ترکی کے لئے دعا کی درخواست کی اور ساتھ ہی یہ بھی پوچھا کہ اگر سلطان کی حکومت کے متعلق آپ کو خدا کی طرف سے کچھ معلوم ہو تو مجھے بتائیں آپ نے اسے بتایا کہ میں تمہارے سلطان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور اس کی سلطنت کا حال بھی مجھے خراب نظر آتا ہے اور اپنے دعویٰ کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود ؑ نے حسین کامی کو سمجھایا کہ اب میری بعثت کے بعد مسلمانوں کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ میری اتباع کو قبول کریں ورنہ خواہ کوئی بڑا ہو یا چھوٹا اس کا انجام اچھا نہیں چنانچہ آپ اس واقعہ کا ذکر فرماتے ہوئے خود تحریر فرماتے ہیں کہ :۔
’’میں نے اس کو صاف کہہ دیا کہ سلطان کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں ہے اور میں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں۔ یہی وہ باتیں تھیں جو سفیر کو اپنی بدقسمتی سے بہت بری معلوم ہوئیں۔ میں نے کئی اشارات سے اس بات پر بھی زور دیا کہ رومی سلطنت خدا کے نزدیک کئی باتوں میں قصوروار ہے۔ خدا سچے تقویٰ اور طہارت اور نوعِ انسان کی ہمدردی کو چاہتا ہے اور روم کی حالت موجودہ بربادی کو چاہتی ہے۔ توبہ کرو تا نیک پھل پائو …… ماسوا اس کے میرے دعویٰ مسیح موعود اور مہدی معہود کے بارے میں بھی کئی باتیں درمیان میں آئیں ۔ میں نے اس کو بار بار سمجھایا کہ میں خدا کی طرف سے ہوں …… خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ جو مسلمانوں میں سے مجھ سے علیحدہ رہے گا وہ کاٹا جائے گا۔ بادشاہ ہو یا غیر بادشاہ اور میں خیال کرتا ہوں کہ یہ تمام باتیں تیر کی طرح اس کو لگتی تھیں۔‘‘ ۱؎
الغرض ترکی سلطنت کا سفیر بہت دلبرداشتہ ہو کر قادیان سے واپس گیا اور اپنے دل میں مخالفت اور عداوت کے جذبات لے کر لوٹا مگر خدا نے جلد ہی دنیا کو بتا دیا کہ حق وہی تھا جو خدا کے مرسل کے منہ سے نکلا تھا۔ چنانچہ پہلی سزا تو خود حسین کامی کو اپنی ذات میں پہنچی ۔ یعنی جب اس نے قادیان سے واپس جا کر اخبارات میں حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف اعلان شائع کرایا تو اس کے کچھ عرصہ بعد وہ کسی جرم کی وجہ سے ترکی حکومت کے زیر عتاب آکر سفارت سے برطرف کر دیا گیا اور اس کے املاک وغیرہ ضبط کر لئے گئے۔ ۱؎ اور پھر حضرت مسیح موعود کی اس پیشگوئی کے بعد خود سلطان ترکی اور ان کے خاندان کی بھی جو حالت ہوئی وہ تاریخ کا ایک کھلا ہوا ورق ہے جسے اس جگہ دہرانے کی ضرورت نہیںیعنی مختصر یہ کہ اس کے بعد ترکی کے ملک میں بغاوت ہوئی اور سلطان اپنے عہدہ سے معزول ہو کر جلا وطن ہوا اور بالآخر حکومتِ ترکی نے سلطان اور خلیفۃ المسلمین کا عہدہ ہی منسوخ کر کے اس سلسلہ کا خاتمہ کر دیا۔
حضرت مسیح ناصری کے متعلق ایک عظیم الشان تحقیق :۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دنیا
میں حقیقی توحید کے قیام کا انتہائی جوش تھا اور آپ کی یہ دلی تڑپ تھی کہ جس طرح بھی ہو لوگوں کے خود ساختہ بت خدائے واحد کے سامنے گر کر پاش پاش ہو جائیں اورآپ ان مصنوعی بتوں میں حضرت مسیح ناصری کے وجود کو سب سے بڑا بت خیال کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ عیسائیوں نے حضرت مسیح کے بعد اس جھوٹے عقیدہ کو گھڑ کر دنیا میں ایک ظلم عظیم کی عمارت کھڑی کر دی ہے اور آپ اس عمارت کو گرانے کو اپنا سب سے بڑا مشن خیال کرتے تھے۔ چنانچہ جب شروع شروع میں آپ پر اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور رفع الی السماء کاعقیدہ غلط ہے اور یہ کہ وہ دوسرے انسانوں کی طرح اپنی عمر کے دن گذار کر فوت ہو گئے تھے تو آپ نے دنیا میں اس انکشاف کی نہایت کثرت کے ساتھ اشاعت فرمائی اور اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس خیال پر بہت زور دیا کہ دوسرے فانی انسانوں کی طرح حضرت مسیح ناصری دنیا میں اپنی زندگی کے دن گزار کر فوت ہو چکے ہیں۔ جس میں آپ کی دو غرضیں تھیں۔ اوّل یہ کہ اس طرح شرک کو مٹا کر توحید کو قائم کیا جاوے ۔ دوسرے یہ کہ حضرت مسیح کو فوت شدہ ثابت کر کے اپنے خداداد منصب کی طرف لوگوں کی توجہ کو کھینچا جاوے۔
لیکن اس سارے عرصہ میں آپ صرف اس خیال پر قانع نہیں رہے کہ حضرت مسیح ناصری فوت ہو چکے ہیں بلکہ آپ اپنے طور پر اس تحقیق میں بھی لگے رہے کہ اس بات کا پتہ لگائیں کہ صلیب کے واقعہ کے بعد کیا پیش آیا اور صلیب سے بچ کر حضرت مسیح کہاں گئے اور بالآخر انہوں نے کہاں پہنچ کر انتقال کیا۔ چنانچہ آخر کار آپ کی یہ کوشش کامیابی کا پھل لائی اور آپ نے کھوج نکالتے نکالتے اس صدیوں کے چھپے ہوئے راز کا پتہ لگا لیا۔ چنانچہ ۱۸۹۸ء میں آپ نے اس بات کا اعلان فرمایا کہ حضرت مسیح ناصری صلیب پر چڑھائے تو گئے تھے مگر صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ صلیب کی تکلیف کی وجہ سے صرف بیہوش ہو گئے تھے اور پھر اپنے بعض دوستوں کی کوشش اور بعض افسرانِ حکومت کی مخفی ہمدردی کی وجہ سے بیہوشی کی حالت میں ہی صلیب سے اتار لئے گئے تھے اور صلیب سے اتارنے کے بعد بھی جیسا کہ ملک میں دستور تھا ان کی ہڈیاں نہیں توڑی گئیں اور ان کا جسم ان کے ہمدردوں کے سپرد کر دیا گیا وغیرہ وغیرہ یہاں تک تو یہ ایک ایسا عقیدہ تھا کہ خود مسیحی قوم کا ایک حصہ ایک دھندلے خیال کے طور پر اس کا قائل رہا ہے مگر حضرت مسیح موعود ؑ نے نہ صرف اس خیال پر مزید روشنی ڈالی بلکہ اپنی تحقیق کو اس کے آگے چلا کر ثابت کیا کہ حضرت مسیح ناصری نہ صرف صلیب سے بچ گئے تھے بلکہ اس کے بعد وہ علاج سے اچھے بھی ہو گئے لیکن چونکہ ملک میں ان کی سخت مخالفت تھی اور صلیب کے بعد زندہ نظر آنا سخت خطرہ کا باعث تھا اس لئے وہ اپنے زخموں وغیرہ سے کسی قدر صحتیاب ہونے کے بعد خفیہ خفیہ اپنے ملک سے ہجرت کر گئے اور بالآخر بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی تلاش میں گھومتے گھومتے کشمیر میں پہنچے جہاں ایک سو بیس سال کی عمر کو پہنچ کر طبعی حالت میں ان کی وفات ہوئی اور وہ سری نگر محلہ خانیار میں مدفون ہیں جہاں اب تک ان کی قبر محفوظ ہے اور یہ قبر کشمیر کی قدیم ترین قبروں میں سے ہے جس کے متعلق اہل کشمیر کی روایات سے پتہ لگتا ہے کہ یہ ایک شہزادہ نبی کی قبر ہے جو کہیں باہر سے آیا تھا اور خود اہل کشمیر کے متعلق یہ ثابت ہے کہ وہ بنو اسرائیل ہی کی ایک شاخ ہیں جو ابتداء میں اپنے پدری درخت سے جدا ہو کر کشمیر کی طرف آگئے تھے۔ آپ نے یہ بھی ثابت کیاکہ جس دوائی سے حضرت مسیح کے زخموں کا علاج کیا گیا تھا وہ اب تک طب کی پرانی کتابوں میں مرہم عیسیٰ کے نام سے مشہور ہے آپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ حضرت مسیح کے پیچھے پیچھے ان کے بعض حواری بھی ہندوستان پہنچے تھے۔ ۱؎
یہ تحقیق ایسی اہم اور ایسی وسیع الاثر ہے کہ جب وہ دنیا کے نزدیک پایہ ثبوت کو پہنچے گی تو موجودہ مسیحیت کا تو گویا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ اس سے مسیحیت کے وہ تین ستون جس پر اس مذہب کی ساری عمارت کھڑی ہے یعنی الوہیت مسیح اور تثلیث اور کفارہ ٹوٹ کر گر جائیں گے اور مسلمان بھی جو حضرت عیسیٰ کی انتظار میں آسمان کی طرف نظر لگائے بیٹھے ہیں اس طرف سے مایوس ہو کر احمدیت کی طرف پلٹا کھائیں گے۔ یہ درست ہے کہ ابھی تک مسیحی محققین نے اس تحقیق کو درست تسلیم نہیں کیا لیکن اگر تاریخی اور عقلی دلائل کی رو سے یہ تحقیق سچی ثابت ہوتی ہے تو پھر کسی قوم کا اسے ماننا یا نہ ماننا کوئی وزن نہیں رکھتا۔ اور حضرت مسیح موعود ؑ نے یونہی ایک بلا دلیل دعویٰ نہیں کیا بلکہ انجیل سے اور تاریخ سے اور آثار قدیمہ سے اپنے دعویٰ کے دلائل پیش کئے ہیں اور واقعہ صلیب سے پہلے کے اور بعد کے حالات اور حضرت مسیح ناصری کے اقوال اور ان کے حواریوں کے واقعات اور شام اور کشمیر کی تواریخ وغیرہ سے ثابت کیا ہے کہ حضرت مسیح ناصری صلیب کے واقعہ سے بچ کر آہستہ آہستہ ہندوستان ہوتے ہوئے کشمیر پہنچ گئے تھے اور بالآخر یہیں فوت ہوئے۔ مگر چونکہ فلسطین و شام میں پولوس کے ہاتھوں سے مسیحیت نے ایک بالکل ہی اور جامہ پہن لیا لیکن اس کے مقابل پر کشمیر میں ان کی اصلی موحدانہ تعلیم قائم رہی جو بعد میں اسلام کے اندر آکر جذب ہو گئی اس لئے ان دونوں تعلیموں میں کبھی اتصال نہیں ہوا اور نہ کبھی درمیان کا پردہ اٹھا۔
مگر یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ قبرِ مسیح کی تحقیق پر حضرت مسیح موعود ؑ کے اس سارے حملہ کی بنیاد تھی جو آپ کی طرف سے مسیحیت کے خلاف ظاہر ہوا بلکہ یہ صرف ایک تائیدی تحقیق تھی اور آپ کا زیادہ زور وفات مسیح کے مسئلہ پر تھا یعنی یہ کہ مسیح ناصری آسمان پر نہیں گئے بلکہ اپنی طبعی موت سے فوت ہوئے۔ علاوہ ازیں آپ نے اپنی تصانیف میں مسیحیت کے بنیادی عقائد الوہیت مسیح اور تثلیث اور کفارہ پر ایسی زبردست جرح کی ہے کہ آپ کے دلائل کے سامنے مسیحیت کا طلسم دھواں ہو کر اُڑنے لگتا ہے۔ الوہیت مسیح کے متعلق آپ نے ثابت کیا کہ اوّل تو مسیح نے کبھی خدائی کا دعویٰ کیا ہی نہیں اور اگر بالفرض دعویٰ ثابت بھی ہو تو مسیح کے حالات اس کی خدائی کے خیال کو دور سے ہی دھکے دیتے ہیں اور اس میں قطعاً کوئی بات خدائی کی ثابت نہیں ہوتی اور تثلیث کے متعلق آپ نے بتایا کہ یہ ایک سراسر مشرکانہ عقیدہ ہے جس پر کسی صحیح الفطرت انسان کا دل تسلی نہیں پاسکتا اور اس سے خدا کی خدائی پر بھی سخت حرف آتا ہے اور کفارہ کے متعلق آپ نے ثابت کیا کہ وہ ایک بالکل گندہ اور غیر فطری عقیدہ ہے جس کو گناہوں کی معافی اور اصلاح نفس کے ساتھ کوئی طبعی جوڑ نہیں بلکہ اس نے گناہ کو مٹانے کی بجائے اسے اور بھی ترقی دے دی ہے۔ غرض مسیحیت کے متعلق آپ کا لٹریچر ایسا اعلیٰ پایہ کا ہے کہ اسے پڑھ کر کوئی غیر متعصب انسان مسیحیت کے موجودہ عقائد کو ایک منٹ کے لئے بھی سچا نہیں سمجھ سکتا او ر خود سمجھدار عیسائیوں نے یہ محسوس کر لیا ہے کہ احمدیت کے وجود میں مسیحی عقائد کے لئے موت کا پیغام ہے۔
قادیان میں سکول اور اخبار کا اجراء :۔ چونکہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود ؑ اور آپ کی
جماعت کے خلاف مخالفت کی رو بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی تھی اور دوسری طرف خدا کے فضل سے جماعت بھی آہستہ آہستہ ترقی کر رہی تھی اس لئے ۱۸۹۸ء میں حضرت مسیح موعود ؑ کے منشاء اور مشورہ کے ماتحت جماعت احمدیہ میں دو نئے کاموں کا اضافہ ہوا۔ یعنی ایک تو جماعت کے بچوں کے لئے قادیان میں ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی تا کہ جماعت کے بچے دوسرے سکولوں کے زہر آلود ماحول میں تعلیم پانے کی بجائے اپنے ماحول میں تعلیم پائیں اور بچپن سے ہی اسلام اور احمدیت کی تعلیم کو اپنے اندر جذب کر سکیں۔ یہ وہی مدرسہ ہے جو اس وقت تعلیم الاسلام ہائی سکول کی صورت میں قائم ہے۔ یہ مدرسہ سرکاری محکمہ تعلیم سے ملحق تھا اور اب بھی ہے مگر اس میں دینیات کا کورس زیادہ کیا گیا تھا جس میں قرآن شریف اور سلسلہ کی کتب شامل تھیں اور بڑی غرض یہ تھی کہ بچوں کی تربیت احمدیت کے ماحول میں ہو سکے اور جماعت کے نونہال حضرت مسیح موعود ؑ اور جماعت کے پاک نفس بزرگوں کی صحبت میں رہ کر اپنے اندر اسلام اور احمدیت کی حقیقی روح پیدا کر سکیں۔ سو الحمد للہ کہ مدرسہ نے اس غرض کو وبصورتِ احسن پورا کیاہے۔ یہ مدرسہ پرائمری کی جماعت سے شروع ہوا تھا اور حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میں ہی ہائی کے معیار تک پہنچ گیا تھا اور سلسلہ کے بہت سے مبلغ اور دوسرے ذمہ دار کارکن اسی مدرسہ کے فارغ التحصیل ہیں مدرسہ کے انتظام کے لئے حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک کمیٹی مقرر فرما دی تھی۔
دوسرا نیا کام ۱۸۹۸ء میں یہ شروع ہوا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی دیرینہ خواہش کے مطابق ۱؎ اس سال قادیان سے ایک ہفتہ واری اخبار جاری کیا گیا جس کی غرض و غایت سلسلہ کی تبلیغ اور سلسلہ کی خبروں کی اشاعت اور جماعت کی تعلیم و تربیت تھی۔ اس سے پہلے قادیان میں جماعت کا اپنا پریس تو موجود تھا جو ۱۸۹۳ء سے جاری تھا مگر اخبار ابھی تک کوئی نہیں تھا۔ سو ۱۸۹۸ء میں آکر یہ کمی بھی پوری ہو گئی۔ یہ اخبار جس کا نام الحکم تھا جماعت کے انتظام کے ماتحت جاری کردہ نہیں تھا بلکہ مالی ذمہ داری کے لحاظ سے ایک پُر جوش نوجوان شیخ یعقوب علی صاحب تراب حال عرفانی کی انفرادی ہمت کا نتیجہ تھا مگر بہر حال وہ جماعت کا اخبار تھا اور جماعت کی عمومی نگرانی کے ماتحت تھا اور اس کے ذریعہ جماعت کی ایک اہم ضرورت پوری ہوئی ۔ یہ اخبار ابتداء ً ۱۸۹۷ء میں امرتسر سے جاری ہوا تھا مگر ۱۸۹۸ء کے شروع میں قادیان آگیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد یعنی ۱۹۰۲ء میں قادیان سے ایک دوسرا اخبار البدر نامی بھی جاری ہو گیا اور ان دونوں اخباروں نے مل کر حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں سلسلہ کی بہت عمدہ خدمت سر انجام دی۔ چنانچہ بعض اوقات حضرت مسیح موعود ؑ ان اخباروں کو جماعت کے دو بازو کہہ کر یاد فرمایا کرتے تھے۔
۱۸۹۸ء کا سال جماعت کی اندرونی تنظیم کے لحاظ سے خاص خصوصیت رکھتا ہے چنانچہ جن دو اصلاحات کا اوپر ذکر گزر چکا ہے یعنی مدرسہ اور اخبار کااجراء ان کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سال میں خدا سے علم پا کر جماعت کی تنظیم و تربیت کے متعلق دو مزید احکامات جاری فرمائے یعنی اوّل تو آپ نے اس بات کا اعلان فرمایا کہ آئندہ کوئی احمدی کسی غیر احمدی کی امامت میں نماز ادا نہ کرے بلکہ صرف احمدی امام کی اقتداء میں نماز ادا کی جاوے یہ حکم ابتداء ً ۱۸۹۸ء میں زبانی طور پر جاری ہوا تھا مگر بعد میں ۱۹۰۰ء میں تحریری طور پر بھی اس کا اعلان کیا گیا۔ آپ کا یہ فرمان جو خدائی منشاء کے ماتحت تھا اس حکمت پر مبنی تھا کہ جب غیر احمدی مسلمانوں نے آپ کے دعویٰ کو رد کر کے اور آپ کو جھوٹا اور مفتری قرار دے کر اس خدائی سلسلہ کی مخالفت پر کمر باندھی ہے جو خدا نے اس زمانہ میں دنیا کی اصلاح کے لئے جاری کیا ہے اور جس سے دنیا میں اسلام اور روحانی صداقت کی زندگی وابستہ ہے تو اب وہ اس بات کے مستحق نہیں رہے کہ کوئی شخص جو حضرت مسیح موعود پر ایمان لاتا ہے وہ آپ کے منکر کی امامت میں نماز ادا کرے۔ نماز ایک اعلیٰ درجہ کی روحانی عبادت ہے اور اس کا امام گویا خدا کے دربار میں اپنے مقتدیوں کا لیڈر اور زعیم ہوتا ہے ۔ پس جو شخص خدا کے مامور کو رد کر کے اس کے غضب کا مورد بنتا ہے وہ ان لوگوں کا پیشرو نہیں ہو سکتا جو اس کے مامور کو مان کر اس کی رحمت کے ہاتھ کو قبول کرتے ہیں۔ اس میں کسی کے برا منانے کی بات نہیں ہے۔ بلکہ یہ سلسلہ احمدیہ کے قیام کا ایک طبعی اور قدرتی نتیجہ تھا جو جلد یا بدیر ضرور ظاہر ہونا تھا۔ چنانچہ حدیث میں بھی اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ جب مسیح موعود ؑ آئے گا تو اس کے متبعین کا امام انہی میں سے ہوا کرے گا چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ اپنی جماعت کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں :۔
’’ یاد رکھو کہ جیسا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفّر یامکذّب یا متردّد کے پیچھے نماز پڑھو۔ بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو۔ اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ یعنی جب مسیح نازل ہو گا تو تمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعویٰ اسلام کرتے ہیں بکلی ترک کرنا پڑے گا اور تمہارا امام تم میں سے ہو گا۔ ‘‘ ۱؎
دوسری ہدایت جو آپ نے اپنی جماعت کے لئے جاری فرمائی وہ احمدیوں کے رشتہ ناطہ کے متعلق تھی۔ اس وقت تک جیسا کہ احمدیوں اور غیر احمدی مسلمانوں کی نماز مشترک تھی یعنی احمدی لوگ غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے اسی طرح باہمی رشتہ ناطہ کی بھی اجازت تھی یعنی احمدی لڑکیاں غیر احمدی لڑکوں کے ساتھ بیاہ دی جاتی تھیں مگر ۱۸۹۸ء میں حضرت مسیح موعود ؑ نے اس کی بھی ممانعت فرما دی اور آئندہ کے لئے ارشاد فرمایا کہ کوئی احمدی لڑکی غیراحمدی مرد کے ساتھ نہ بیاہی جاوے۔ ۱؎ یہ اس حکم کی ایک ابتدائی صورت تھی جس کے بعد اس میں مزید وضاحت ہوتی گئی اور اس حکم میں حکمت یہ تھی کہ طبعاً اور قانوناً ازدواجی زندگی میں مرد کو عورت پر انتظامی لحاظ سے غلبہ حاصل ہوتا ہے پس اگر ایک احمدی لڑکی غیر احمدی کے ساتھ بیاہی جائے تو اس بات کا قوی اندیشہ ہو سکتا ہے کہ مرد عورت کے دین کو خراب کرنے کی کوشش کرے گا اور خواہ اسے اس میں کامیابی نہ ہو لیکن بہر حال یہ ایک خطرہ کاپہلو ہے جس سے احمدی لڑکیوں کو محفوظ رکھنا ضروری تھا۔ علاوہ ازیں چونکہ اولاد عموماً باپ کی تابع ہوتی ہے اس لئے اس قسم کے رشتوں کی اجازت دینے کے یہ معنے بھی بنتے ہیں کہ ایک احمدی لڑکی کو اس غرض سے غیر احمدیوں کے سپرد کر دیا جائے کہ وہ اس کے ذریعہ غیر احمدی اولاد پیدا کریں۔ اس قسم کی وجوہات کی بناء پر آپ نے آئندہ کے لئے یہ ہدایت جاری فرمائی کہ گو حسب ضرورت غیراحمدی لڑکی کا رشتہ لیا جا سکتا ہے مگر کوئی احمدی لڑکی غیر احمدی کے ساتھ نہ بیاہی جاوے بلکہ احمدیوں کے رشتے صرف آپس میں ہوں۔ لیکن جو لڑکیاں اس ہدایت سے پہلے غیر احمدیوں کے نکاح میں آچکی تھیں ان کے متعلق آپ نے یہ ہدایت نہیں دی کہ ان کے نکاح فسخ ہو گئے ہیں کیونکہ اوّل تو اس کا عملی اجراء اپنے اختیار میں نہیں تھا دوسرے اس قسم کے حکم سے فتنوں اور پیچیدگیوں کے پیدا ہونے کا احتمال تھا جس سے بہر صورت بچنا لازم ہے۔
حضرت مسیح موعود کے خلاف ایک اور فوجداری مقدمہ :۔ اقدام قتل کا وہ خطرناک اور
جھوٹا مقدمہ جو ڈاکٹر مارٹن کلارک نے ۱۸۹۷ء میں حضرت مسیح موعود کے خلاف دائر کیا تھا اور جس میں غیر احمدی مسلمانوں اور آریوں نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ عیسائیوں کی حمایت کی تھی اس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے اس مقدمہ کی ناکامی نے حضرت مسیح موعود ؑ کے مخالفین کی آتشِ غضب کو اور بھی بھڑکا دیا تھا چنانچہ ۱۸۹۹ء کے شروع میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف ایک دوسرا مقدمہ کھڑا کر دیا جس میں یہ استغاثہ تھا کہ مجھے مرزا صاحب کی طرف سے اپنی جان کا خطرہ ہے اس لئے ان سے حفظ امن کی ضمانت لی جائے اور یا انہیں آزادی سے محروم کر کے زندانِ حراست میں ڈال دیا جائے۔ مولوی محمد حسین صاحب کو اس مقدمہ کی جرأت اس لئے بھی ہوئی کہ اتفاق سے اس وقت بٹالہ کے پولیس سٹیشن میں جس کے حلقہ میں قادیان واقع ہے ایک شخص شیخ محمد بخش نامی تھانہ دار تھا جو حضرت مسیح موعود ؑ کا سخت مخالف تھا اور چونکہ حفظِ امن کے مقدمہ میں عموماً پولیس کی رپورٹ پر فیصلہ ہوتا ہے اس لئے مولوی محمد حسین نے یہ موقعہ غنیمت سمجھ کر آپ کے خلاف حفظِ امن کی درخواست گزار دی۔ جب یہ درخواست تھانہ دار مذکور کے پاس آئی تو اس نے کمال ہوشیاری سے حفظِ امن کی کارروائی میں خود مولوی محمد حسین کو بھی لپیٹ لیا اور یہ رپورٹ کی کہ فریقین کو ایک دوسرے سے خطرہ ہے اس لئے دونوں کی ضمانت ہونی چاہئے اور اس طریق کے اختیار کرنے میں تھانہ دار کی غرض یہ تھی کہ اس کی کارروائی غیر جانبدار سمجھی جاوے تا کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسے بلا تامل منظور کر لے چنانچہ تھانہ دار مذکور نے ان ایام میں اپنی ایک مجلس میں برملا کہا کہ ’’ آج تک تو مرزا بچ جاتا رہا ہے لیکن اب وہ میرے ہاتھ دیکھے گا ۔ ‘‘ اس کی یہ بات کسی شخص نے حضرت مسیح موعود ؑ کو بھی پہنچا دی جس پر آپ نے رپورٹ کنندہ کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا اور بے ساختہ فرمایا ۔ ’’ وہ کیا سمجھتا ہے ؟ اس کا اپنا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ ‘‘ اس کے بعد قدرتِ حق کا تماشہ دیکھو کہ نہ صرف حضرت مسیح موعود ؑ اس مقدمہ میں بری کئے گئے بلکہ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد شیخ محمد بخش تھانہ دار کے ہاتھ میں ایک زہریلی قسم کا پھوڑا نکلا جس کے درد سے وہ دن رات بیتاب ہو کر کراہتا تھا اور آخر اسی تکلیف میں وہ اس جہان سے رخصت ہوا۔ اور اس بارے میں حضرت مسیح موعود ؑ کو مزید فتح یہ حاصل ہوئی کہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ شیخ محمد بخش مذکور کا اکلوتا لڑکا حضرت مسیح موعود ؑ کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو گیا اور اب وہ خدا کے فضل سے ایک مخلص احمدی ہیں اور ان کی والدہ اور بیوی بچے بھی احمدیت میں داخل ہو چکے ہیں۔
حضرت مسیح موعود ؑ کی اضطراب اور کرب کی دعائیں :۔ اب حضرت مسیح موعود ؑ کے دعویٰ
ماموریت پر قریباً اٹھارہ سال گزر چکے تھے اور بیعت کے سلسلہ کو شروع ہوئے بھی دس سال ہو چکے تھے اور گو اس عرصہ میں آپ کی جماعت نے خدا کے فضل سے کافی ترقی کی تھی اور ہزاروں لوگ آپ کی بیعت میں داخل ہو چکے تھے مگر ساتھ ساتھ مخالفت کا طوفان بھی تیز ہوتا گیا تھا اور مسلمان علماء اور ان کے رفقاء نے آپ کے خلاف ایک خطرناک آگ لگا رکھی تھی اور یہ لوگ دہری شرارت پر آمادہ تھے ۔ ایک طرف تو وہ گورنمنٹ کو خفیہ اور ظاہری رپورٹیں کر کر کے حکام کو آپ کے خلاف اکسانے اور بدظن کرنے میں مصروف تھے اور آپ کے دعویٰ مہدویت کو آڑ بنا کر اس پراپیگنڈا میں مصروف تھے کہ گویا آپ اور آپ کی جماعت درپردہ گورنمنٹ کاتختہ الٹنے میں مصروف ہے اور دوسری طرف وہ آپ کو کافر اور بے دین اور دجال کہہ کر عوام الناس کو آپ کی طرف متوجہ ہونے سے روک رہے تھے اور انہوں نے لوگوں کے اندر یہ خیال پیدا کر دیا تھا کہ آپ کے ساتھ ملنے ملانے یا آپ کی تصانیف کے پڑھنے سے انسان بے دین اور خدا کی نظر میں ملعون ہو جاتا ہے۔ غرض اس زمانہ میں مخالفت انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی اور بد زبانی اور دشنام دہی اور گالی گلوچ کا تو کچھ ٹھکانا ہی نہیں تھا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف ایسے ایسے گندے اور اشتعال انگیز اشتہار اور رسالے شائع ہو رہے تھے کہ ایک شریف انسان انہیں دیکھ نہیں سکتا اور عوام الناس میں جماعت کے خلاف ایک خطرناک جذبہ پیدا ہو گیا تھا۔ ان حالات میں حضرت مسیح موعود ؑ کو یہ احساس ہو رہا تھا کہ جماعت کی ترقی کا قدم اس تیز رفتاری کے ساتھ نہیں اٹھ رہا جس طرح کہ آپ چاہتے تھے کہ وہ اٹھے اس احساس نے آپ کو اس زمانہ میں غیر معمولی کرب اور اضطراب میں مبتلا کر رکھا تھا اور آپ بے تاب ہو ہو کر خدا کی طرف دیکھ رہے تھے اور اس دعا میں مصروف تھے کہ خدا کی طرف سے کوئی ایسے فوق العادت نشان ظاہر ہوں جو لوگوں کی گردنوں کو جھکا کر حق کی طرف مائل کر دیں۔ ۱۸۹۹ء کا سال اس احساس اور اضطراب کے معراج کا زمانہ تھا۔ چنانچہ اس زمانہ میں جو اشتہارات آپ نے شائع فرمائے یا جو تصانیف لکھیں ان میں سے اکثر میں یہی احساس اور یہی اضطراب جھلکتا نظر آتا ہے اور میں اپنے ناظرین کو آپ کے قلبی جذبات کا نظارہ دکھانے کے لئے اس جگہ آپ کے بعض اقتباسات درج کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں :۔
’’ اے میرے حضرت اعلیٰ ذوالجلال، قادر، قدوس، حیّ و قیّوم جو ہمیشہ راستبازوں کی مدد کرتا ہے تیرا نام ابدالآباد مبارک ہے۔ تیرے قدرت کے کام کبھی رک نہیں سکتے تیرا قوی ہاتھ ہمیشہ عجیب کام دکھلاتا ہے۔ تُو نے ہی اس چودھویں صدی کے سر پر مجھے مبعوث کیا …… مگر اے قادر خدا تو جانتا ہے کہ اکثر لوگوں نے مجھے منظور نہیں کیا اور مجھے مفتری سمجھا اور میرا نام کافر اور کذاب اور دجال رکھا گیا۔ مجھے گالیاں دی گئیں۔ اور طرح طرح کی دل آزار باتوں سے مجھے ستایا گیا … سو اے میرے مولا قادر خدا ! اب مجھے راہ بتلا اور کوئی ایسا نشان ظاہر فرما جس سے تیرے سلیم الفطرت بندے نہایت قوی طور پر یقین کریں کہ میں تیرا مقبول ہوں اور جس سے ان کا ایمان قوی ہو اور وہ تجھے پہچانیں …… اور دنیا میں تیرا جلال چمکے اور تیرے نام کی روشنی اس بجلی کی طرح دکھلائی دے کہ جو ایک لمحہ میں مشرق سے مغرب تک اپنے تئیں پہنچاتی اور شمال و جنوب میں اپنی چمکیں دکھلاتی ہے…… دیکھ !میری روح نہایت توکل کے ساتھ تیری طرف ایسی پرواز کر رہی ہے جیسا کہ پرندہ اپنے آشیانہ کی طرف آتا ہے ۔ سو میں تیری قدرت کے نشان کا خواہشمند ہوں۔ لیکن نہ اپنے لئے اور نہ اپنی عزت کے لئے۔ بلکہ اس لئے کہ لوگ تجھے پہچانیں اور تیری پاک راہوں کو اختیار کریں …… میں تجھے پہچانتا ہوں کہ تُو ہی میرا خدا ہے اس لئے میری روح تیرے نام سے ایسی اچھلتی ہے جیسا کہ شیر خوار بچہ ماں کے دیکھنے سے۔ لیکن اکثر لوگوں نے مجھے نہیں پہچانا اور نہ قبول کیا۔ اس لئے نہ مَیں نے بلکہ میری روح نے اس بات پر زور دیا کہ میں یہ دعا کروں کہ اگر میں تیرے حضور میں سچا ہوں …… تو میرے لئے کوئی اور نشان دکھلا اور اپنے بندہ کے لئے گواہی دے جس کو زبانوں سے کچلا گیا ہے۔ دیکھ میں تیری جناب میں عاجزانہ ہاتھ اٹھاتا ہوں کہ تو ایسا ہی کر …… میں نوح نبی کی طرح دونوں ہاتھ پھیلاتا ہوں اور کہتا ہوں رَبِّ اِنِّی مَغْلُوْبٌ ـ مگر بغیر فَانْتَصِرْ کے۔ اور میری روح دیکھ رہی ہے کہ خدا میری سنے گا ۔‘‘ ۱؎
آپ نے اپنی طرف سے اس دعا کی قبولیت کے لئے تین سال کی میعاد پیش کی یعنی خدا سے استدعا کی کہ وہ تین سال کے عرصہ میں آپ کے حق میں کوئی ایسا نشان ظاہر فرمائے جو رجوع عام کا باعث ہو۔ اسی طرح آپ نے ان ایام میں ایک فارسی نظم لکھ کر شائع فرمائی جو مناجات کے رنگ میں ہے اور نہایت دردناک ہے۔ اس نظم میں آپ فرماتے ہیں :۔
اے قدیر و خالقِ ارض و سما
اے رحیم و مہربان و رہنما
اے کہ میداری تو بر دِلہا نظر
اے کہ از تو نیست چیزے مستتر
گر تومے بینی مرا پر فسق و شر
گر تو دید استی کہ ہستم بد گہر
پارہ پارہ کن منِ بدکار را
شادکن ایں زمرۂ اغیار را
بر دلِ شاں ابرِ رحمت ہا ببار
ہر مرادِ شان بفضل خود برآر
آتش افشاں بر در و دیوارِ من
دشمنم باش و تباہ کن کارِ من
در مرا از بندگانت یافتی
قبلہ من آستانت یافتی
در دل من آں محبت دیدۂ
کز جہاں آں راز را پوشیدۂ
بامن از روئے محبت کارکن
اند کے افشاء آں اسرار کن
اے کہ آئی سوئے ہر جویندۂ
واقفی از سوزِ ہر سوزندۂ
زاں تعلق ہا کہ با تو داشتم
زاں محبت ہا کہ در دل کاشتم
خود بروں آ از پئے ابراء من
اے تو کہف و ملجاء وماوائے من
آتشے کاندر دلم افروختی
وز دم آں غیر خود را سوختی
ہم ازاں آتش رخ من بر فروز
ویں شبِ تارم مبدل کن بروز ۱؎
’’ یعنی اے میرے قادر ۔ زمین و آسمان کے پیداکرنے والے خدا ! اے میرے رحیم اور مہربان اور مشکلات کی تاریکی میں رستہ دکھانے والے آقا ! اے دلوں کے بھیدوں کے جاننے والے جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں! اگر تو مجھے شر اور فسق و فساد سے بھرا ہوا پاتا ہے اور اگر تو یہ دیکھتا ہے کہ میں ایک بدطینت اور گندہ آدمی ہوں تو اے خدا تو مجھ بدکار کو پارہ پارہ کر کے ہلاک و برباد کر دے اور میرے مخالف گروہ کے دلوں کو خوشی اور راحت بخش اور ان پر اپنی رحمت کے بادل برسا اور ان کی ہر مراد کو اپنے فضل سے پورا کر۔ اور میرے درو دیوار پر اپنے غضب کی آگ نازل کر اور میرا دشمن بن کر میرے اس کاروبار کو تباہ و برباد کر دے۔لیکن اے میرے آقا ! اگر تو مجھے اپنے بندوں میں سے سمجھتا ہے اور اپنے آستانہ کو میری توجہ کا قبلہ پاتا ہے اور میرے دل میں اس محبت کو دیکھتا ہے جو تو نے دوسروں کی نظروں سے پوشیدہ کر رکھی ہے تو اے میرے خدا تو میرے ساتھ محبت کا معاملہ کر اور اس چھپے ہوئے راز کو ذرا ظاہر ہونے دے۔ اے وہ کہ جو ہر تلاش کرنے والے کی طرف خود چل کر آتا ہے اور اے وہ کہ جو ہر سوزِ محبت میں جلنے والے کی سوزش قلب سے آگاہ ہے میں تجھے اس تعلق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جو میرے دل میں تیرے لئے ہے اور اس محبت کو یاد دلاتا ہوں عرض کرتا ہوں کہ جس کے پودے کو میں نے تیرے لئے اپنے دل کی گہرائیوں میں نصب کیا ہے کہ تو خود میری بریت کے لئے اٹھ۔ ہاں اے میری پناہ! اے میرے ملجاء و ماوٰے ! تجھے تیری ذات کی قسم ہے کہ ایسا ہی کر۔ وہ آتش محبت جو تو نے میرے دل میں شعلہ زن کی ہے جس کی لپٹوں سے تو نے میرے دل میں غیر کی محبت کو جلا کر خاک کر دیا ہے اب ذرا اسی نور سے میرے ظاہر کو بھی تو روشن فرما اور میری اس تاریک و تار رات کو دن کی روشنی سے بدل دے۔ ‘‘
اس کے بعد خدا نے کئی نشان دکھائے مگر اس دعا کی قبولیت کا زیادہ ظہور طاعون کے ذریعہ ہوا جس نے ۱۹۰۲ء میں زور پکڑ کر جماعت کی ترقی میں ایک انقلابی صورت پیدا کر دی اور لوگ خدائی سلسلہ میں فوج در فوج داخل ہونے شروع ہو گئے۔
حضرت مسیح موعود ؑ کا آخری فرزند اور اس کی وفات :۔ اسی سال یعنی ۱۸۹۹ء میں ہمارا
سب سے چھوٹا بھائی مبارک احمد پیدا ہوا۔ مبارک احمد وہ آخری لڑکا تھا جو حضرت مسیح موعود ؑ کے گھر پیدا ہوا۔ اس سے پہلے دوسری شادی سے آپ کے گھر میں تین لڑکے زندہ موجود تھے یعنی ایک حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جو ۱۸۸۹ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۱۴ء سے جماعت کے امام اور خلیفہ ہیں۔ دوسرے خاکسار مؤلف رسالہ ہذا جو ۱۸۹۳ء میں پیدا ہوا اور تیسرے عزیزم مکرم مرزا شریف احمد صاحب جو ۱۸۹۵ء میں پیدا ہوئے اور جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے آپ نے لکھا ہے کہ آپ کی یہ ساری اولاد خدائی بشارتوں کے ماتحت پیدا ہوئی تھی یعنی ہر بچہ کی ولادت سے پہلے آپ کو خدائی الہام کے ذریعہ اس کی ولادت کی خبر دی گئی تھی چنانچہ ۱۸۹۹ء میں جب مبارک احمد پیدا ہوا تو آپ کو خدا کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ یہ لڑکا آسمان سے آتا ہے اور آسمان کی طرف ہی اٹھ جائے گا۔ حضرت مسیح موعود نے اس الہام کی یہ تعبیر فرمائی کہ یا تو یہ لڑکا خاص طور پر نیک اور پاکباز اور روحانی امور میں ترقی کرنے والا ہو گا اور یا بچپن میں ہی فوت ہو جائے گا ۔ چنانچہ مؤخر الذکر صورت درست نکلی اور یہ بچہ آپ کی زندگی میں ہی ۱۹۰۷ء میں وفات پا گیا۔
حضرت مسیح موعود ؑ کو اپنے بچوں کے ساتھ بہت محبت تھی اور مبارک احمد سب سے چھوٹا بچہ ہونے کی وجہ سے دوسروں کی نسبت طبعاً محبت و شفقت کا زیادہ حصہ پاتا تھا اس لئے اس کی وفات پر آپ کو بہت صدمہ ہوا مگر چونکہ آپ کا اصل تعلق خدا سے تھا اس لئے آپ نے اس صدمہ میں صبر اور رضا کا کامل نمونہ دکھایا اور دوسروں کو بھی صبر و رضا کی نصیحت فرمائی حتیّٰ کہ جو لوگ اس موقعہ پر افسوس اور ہمدردی کے اظہار کے لئے آئے تھے ان کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت مسیح موعود ہمارے ساتھ اس رنگ میں گفتگو فرماتے تھے کہ گویا صدمہ ہمیں پہنچا ہے اور آپ تسلی دینے والے ہیں۔ اس موقعہ پر آپ نے مبارک احمد کی قبر کے کتبہ کے لئے چند شعر بھی تحریر فرمائے جو آپ کے جذباتِ قلب کی عمدہ تصویر ہیں۔ ان میں سے دو اشعار نمونہ کے طور پر درج ذیل کئے جاتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں :۔
جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خو تھا
وہ آج ہم سے جدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر
برس تھے آٹھ اور کچھ مہینے کہ جب خدا نے اسے بلایا
بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل توجاں فدا کر
بشپ آف لاہور کو مقابلہ کا چیلنج :۔ ۱۹۰۰ء میں لاہور میں ایک مشہور پادری ڈاکٹر لیفرائے
ہوتے تھے جو لاہور کے لارڈ بشپ تھے اور پنجاب بھر کے عیسائیوں کے افسر اعلیٰ اور لیڈر تھے۔ یہ صاحب دوسرے مذاہب کے خلاف جارحانہ پالیسی کے مؤید تھے اور اسی غرض سے انہوں نے مسلمانوں کو یہ دعوت دی تھی کہ مسیح کے مقابلہ پر اپنے رسول کی معصومیت ثابت کر کے دکھائیں۔ حضرت مسیح موعود ؑ تو ان موقعوں کی تلاش میں رہتے تھے آپ نے فوراً بشپ صاحب موصوف کے اس چیلنج کو قبول کر کے ان کے مقابلہ پر ایک اشتہار شائع کیا جس میں اس بات پرخوشی ظاہر کی کہ بشپ صاحب کی سی پوزیشن کا انسان اس قسم کی تحقیق کے لئے آمادہ ہوا ہے مگر ساتھ ہی تشریح فرمائی کہ معصومیت کا مفہوم غلط فہمی پیدا کرنے کے علاوہ ایک نہایت محدود مفہوم ہے کیونکہ اوّل تو معصومیت کی تعریف میں مختلف قوموں کے درمیان بہت بڑا اختلاف ہو سکتا ہے یعنی ممکن ہے کہ ایک قوم کے نزدیک ایک بات گناہ میں داخل ہو اور دوسری کے نزدیک وہی بات کارِ ثواب سمجھی جائے پس کس معیار سے فیصلہ کیا جائے کہ کون زیادہ معصوم ہے ؟ علاوہ ازیں معصومیت کا حقیقی اظہار گناہ کی طاقت کے موجود ہونے سے ہوتا ہے اور جس شخص کو کسی خاص قسم کے گناہ یا ظلم یا بد اخلاقی کی طاقت ہی نہ ہو اسے اس گناہ یا ظلم یا بداخلاقی سے مجتنب رہنے کی وجہ سے معصوم یا قابل تعریف نہیں سمجھا جا سکتا ۔ پس اس لحاظ سے بھی حقیقی معصومیت کا فیصلہ آسان نہیں ہے۔ دوسرے محض معصومیت ایک منفی قسم کی خوبی ہے اور نہایت محدود پہلو رکھتی ہے اور اصل کمال یہ ہے کہ کسی انسان میں مثبت قسم کی خوبیاں اعلیٰ پیمانہ پر جمع ہوں پس آپ نے لکھا کہ گو میں ثابت کر سکتا ہوں کہ حقیقی معصومیت میں بھی مسیح ناصری کو آنحضرت ﷺ سے کوئی نسبت نہیں لیکن دنیا کو اس بحث سے چنداں فائدہ نہیں پہنچ سکتا ۔ پس اگر بشپ صاحب کو واقعی سچائی کی تڑپ ہے تو مسیح اور مقدس بانی ٔ اسلام کے کمالات کے بارے میں ہم سے مقابلہ کر لیں۔ یعنی اصل موضوع یہ قرار دیا جائے کہ ’’ ان دونو نبیوں میں سے کمالات ایمانی اور اخلاقی اور برکاتی اور تاثیراتی اور قولی اور فعلی اور عرفانی اور علمی اور تقدسی اور طریق معاشرت کی رو سے کون نبی افضل اور اعلیٰ ہے۔ ‘‘ اور آپ نے لکھا کہ اگر بشپ صاحب کو یہ طریق منظور ہو تو ہمیں اطلاع دیں پھر ہماری جانب سے کوئی شخص تاریخ مقررہ پر حاضر ہو جائے گا۔
اس کے بعد آپ نے اپنی جماعت کے بعض سر کردہ اشخاص کے ذریعہ بشپ صاحب کو پرائیویٹ خطوط بھی لکھوائے اور بار بار دعوت دی کہ وہ اس مقابلہ کے لئے آگے آئیں اور بعض معزز اخبارات مثلاً پانیئر الہ آباد وغیرہ نے بھی پر زور تحریک کی کہ بشپ صاحب کو اس مقابلہ کے لئے آگے آنا چاہئے مگر بشپ صاحب موصوف نے اس بودے اور فضول عذر پر انکار کر دیا کہ چونکہ مرزا صاحب مسیح ہونے کے مدعی ہیں جس میں ہمارے خدواند کی سخت ہتک ہے اس لئے میں ایسے شخص کے مقابلہ پر کھڑا نہیں ہو سکتا اور اس طرح ایک نہایت عمدہ موقعہ اسلام اور مسیحیت کے مقابلہ کا ضائع ہو گیا۔ لیکن ملک کے سمجھدار طبقہ نے محسوس کر لیا کہ حق کس کے ساتھ ہے۔ ۱؎
مگر عصمت انبیاء کے مسئلہ میں بھی حضرت مسیح موعود ؑ نے ڈاکٹر لیفرائے کے چیلنج کو خالی نہیں جانے دیا بلکہ اس مضمون پر رسالہ ریویو آف ریلیجنز قادیان میں ایک سلسلہ مضامین لکھ کر تمام دوسرے مذاہب کے دانت کھٹے کر دئیے اور ثابت کیا کہ گو سارے نبی ہی اپنی جگہ معصوم ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں گناہ کے ارتکاب سے بچاتا ہے کیونکہ ان کے ذریعہ اس نے دنیا میں ایک نمونہ قائم کرنا ہوتا ہے مگر حقیقی معصومیت صرف آنحضرت ﷺ کو حاصل ہے۔ کیونکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی زندگی عطا فرمائی جس میں آپ کو ہر شعبہ زندگی سے واسطہ پڑا اور آپ پر ہر فطری خلق کے اظہار کا موقعہ آیا یعنی آپ حاکم بھی بنے اور محکوم بھی ۔ دوست بھی بنے اور دشمن بھی ۔ بیٹا بھی بنے اور باپ بھی ۔ خاوند بھی بنے اور خسر بھی۔ جرنیل بھی بنے اور مدبر بھی۔ غریب بھی بنے اور امیر بھی۔ فاتح بھی بنے اور مفتوح بھی۔ معاہد بھی بنے اور حلیف بھی۔ مزدور بھی بنے اور آقا بھی۔ قارض بھی بنے اور مقروض بھی۔ عاشق بھی بنے اور معشوق بھی۔ غرض انسانی اخلاق کے ہر میدان میں آپ کا قدم پڑا اور آپ نے ہر میدان میں اعلیٰ اخلاق کا وہ نمونہ قائم کیا جس کی نظیر دنیا میں کسی جگہ نظر نہیں آتی۔ بھلا اس عالی شان اور دلوں کو مسخر کر لینے والے منظر کے مقابلہ میں حضرت مسیح ناصری یا کسی اور شخص کی کیا حیثیت ہے جنہیں زندگی کے بہت ہی تھوڑے شعبوں سے حصہ ملا اور ان میں بھی انہوں نے چند اصولی اور خیالی تعلیموں کے سوا دنیا کو کوئی عملی سبق نہیں دیا۔ پس ان کی معصومیت ایسی ہی ہے کہ جیسے ایک بکری یہ دعویٰ کرے کہ میں بھیڑیوں اور شیروں کو تکلیف نہیں دیتی اور نہ دوسرے جانوروں کو چیر پھاڑ کر اپنی غذا بناتی ہوں۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے ان مضامین میں یہ تشریح بھی فرمائی کہ یہ جو آنحضرت ﷺ کے متعلق قرآن شریف یا حدیث وغیرہ میں کہیں کہیں ذنب کا لفظ استعمال ہوا ہے یا بعض جگہ آپ کے استغفار کا ذکر آتا ہے یہ آپ کی معصومیت کے خلاف نہیں بلکہ اس سے آپ کی ارفع شان کا اور بھی کمال ظاہرہوتا ہے کیونکہ ذنب سے عربی زبان میں گناہ اور نافرمانی مراد نہیں جس کے لئے عربی میں اثم اور جرم اور فسق وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ بلکہ ذنب کا لفظ ایسی بشری کمزوریوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جو انسان کے اندر خلقی اور پیدائشی رنگ میں رکھی گئی ہیں ۔ مثلاً انسان کے علم کا محدود ہونا یا اس کی طاقتوں کا محدود ہونا یا اس کی عمر کا محدود ہونا وغیر ذالک ۔ پس آنحضرت ﷺ نے جو اپنے ذنوب یا کمزوریوں کے متعلق استغفار کی دعا کی ہے یا خد انے آپ کے متعلق فرمایا ہے کہ ہم نے تیرے سارے ذنوب معاف فرما دئیے تو ان سے یہی خلقی اور پیدائشی کمزوریاں اور کوتاہیاں مراد ہیں جو ہر انسان کے ساتھ طبعاً لاحق ہیں۔ گویا آنحضرت ﷺ جب استغفار کرتے تھے تو بالفاظ دیگر آپ یہ دعا فرماتے تھے کہ خدایا میں تو تیرے دین کی اشاعت میں ہر طرح سے مصروف ہوں اور میں نے اپنی جان کو اس رستہ میں ہلاکت کے کنارے تک پہنچا رکھا ہے مگر میں بہر حال ایک انسان ہوں اس لئے باوجود میری اس کوشش کے پھر بھی جو خامی یا کمزوری باقی رہ جائے اسے تو اپنے فضل اور اپنی نصرت کے ہاتھ سے پورا فرما دے اور میری بشری کمزوریوں کو دین کی ترقی کے رستے میں روک نہ بننے دے۔ اور آپ کی اس دعا کے جواب میں خدا نے یہ وعدہ فرمایا کہ ہاں ہم تیری انسانی کمزوریوں کی خامی کو اپنے فضل اور نصرت کے ہاتھ سے خود پورا کر دیں گے ۔ پس جس قسم کے نام نہاد گناہ کی وجہ سے آپ پر اعتراض کیا جاتا ہے وہ دراصل آپ کے کمال اور آپ کی ارفع شان کی دلیل ہے۔ مگر اس کے مقابل پر حضرت مسیح ناصری کا یہ حال ہے کہ باوجود خدائی کے دعویدار ہونے کے اور باوجود انسانی کمزوریوں سے بالا سمجھے جانے کے وہ اپنے متعلق صاف فرماتے ہیں کہ مجھے نیک نہ کہو نیک صرف ایک ہے جو آسمان میں ہے اور شیطان ان کی آزمائش کے لئے بار بار حیلے کر کے آتا ہے۔ ان حالات کے ہوتے ہوئے آنحضرت ﷺ کو نعوذ باللہ گناہگار سمجھنا اور حضرت مسیح ناصری کو معصوم قرار دینا پرلے درجہ کی جہالت اور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں ۔ ۱؎
خطبہ الہامیہ :۔ ۱۹۰۰ء کے شروع میں حضرت مسیح موعود ؑ کے ہاتھ پر ایک نہایت لطیف اور علمی
معجزہ ظاہر ہوا اور وہ یہ کہ جب اس سال کی عید الاضحی کا موقعہ آیاتو آپ کو خدا تعالیٰ نے الہاماً حکم دیا کہ تم عید کے موقعہ پر عربی زبان میں تقریر کرو اور ہم تمہاری مدد کریں گے۔ چنانچہ باوجود اس کے کہ آپ نے کبھی عربی میں تقریر نہیں کی تھی آپ اس خدائی حکم کے ماتحت تقریر کے لئے کھڑے ہو گئے اور قادیان کی مسجد اقصیٰ میں قربانی کے مسئلہ پر ایک نہایت لطیف اور لمبی تقریر فرمائی۔ اس وقت آپ کی آنکھیں قریباً بند تھیں اور چہرہ پر سرخی کے آثار تھے اور آپ نہایت روانی کے ساتھ بولتے جاتے تھے اور تقریر لکھنے والوں کو آپ نے یہ تاکید کر رکھی تھی کہ اگر کوئی لفظ سمجھ نہ آوے تو فوراً پوچھ لیں کیونکہ ممکن ہے کہ وہ بعد میں مجھے بھی یاد نہ رہے۔ یہ تقریر بعد میں ’’ خطبہ الہامیہ ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے جس کے ابتدائی اڑتیس (۳۸) صفحے اصل خطبہ کے ہیں اور باقی حصہ آپ نے بعد میں زیادہ کیا ہے اور اس کتاب کے مطالعہ سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ نہ صرف زبان کی فصاحت و بلاغت بلکہ مضامین کی لطافت اور ندرت کے لحاظ سے یہ تقریر ایک فوق العادت شان رکھتی ہے۔ آپ بعد میں فرماتے تھے کہ اس تقریر کے دوران میں بسا اوقات میرے سامنے غیب کی طرف سے لکھ ہوئے الفاظ پیش کئے جاتے تھے اور میں اپنے آپ کو ایسا خیال کرتا تھا کہ گویا خدا کے طاقتور ہاتھ میں ایک مردہ کی طرح پڑا ہوں اور وہ جس طرح چاہتا ہے میری زبان پر تصرف فرما رہا ہے۔
ممانعت جہاد کا فتویٰ :۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ ابتداء دعویٰ سے ہی اپنے مشن کو
ایک امن اور صلح کا مشن خیال کرتے تھے اور کسی خونی مسیح یا خونی مہدی کے قائل نہیں تھے اور نہ ہی مذہب کے معاملہ میں جبر اور تشدد کو جائز سمجھتے تھے۔ لیکن اب ۱۹۰۰ء میں آکر آپ نے ایک باقاعدہ فتویٰ کے ذریعہ اس بات ا اعلان فرمایا کہ اگر آنحضرت ﷺ نے اسلام کے لئے تلوار کا جہاد کیا تو آپ اس کے لئے اپنے دشمنوں کی پیش دستی کی وجہ سے مجبور تھے لیکن موجودہ زمانہ میں یہ حالات نہیں ہیں بلکہ ملک میں ایک پر امن اور مستحکم حکومت قائم ہے۔ جس نے ہر قسم کی مذہبی آزادی دے رکھی ہے پس آجکل دین کے لئے تلوار نکالنے کا خیال ایک بالکل باطل اور خلاف اسلام خیال ہے اور آپ نے لکھا کہ یہ جو آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مسیح موعود جزیہ اور جنگ کو موقوف کر دے گا تو اس ا بھی یہی مطلب ہے کہ اس کا زمانہ امن کا زمانہ ہو گا اس لئے تلوار کی حاجت نہیں رہے گی اور دلائل اور براہین کے زور سے اسلام کی تبلیغ ہو گی چنانچہ آپ فرماتے ہیں :۔
’’ حدیثوں میں پہلے سے لکھا گیا تھا کہ جب مسیح آئے گا تو دین کے لئے لڑنا حرام کیا جائے گا۔ سو آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیا گیا۔ اب اس کے بعد جو دین کے لئے تلوار اٹھاتا ہے اور غازی نام رکھا کر کافروں کو قتل کرتا ہے وہ خدا اور اس کے رسول کا نافرمان ہے …… میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں۔ ہماری طرف سے امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا ہے ۔ خداتعالیٰ کی طرف دعوت کرنے کی ایک راہ نہیں۔ پس جس راہ پر نادان لوگ اعتراض کر چکے ہیں خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت نہیں چاہتی کہ اسی راہ کو پھر اختیار کیا جائے ……لہٰذا مسیح موعود اپنی فوج کو اس ممنوع مقام سے پیچھے ہٹ جانے کا حکم دیتا ہے۔ جو بدی کا بدی کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اپنے تئیں شریر کے حملہ سے بچائو۔مگر خود شریرانہ مقابلہ مت کرو۔ ‘‘ ۱؎
جماعت کا نام احمدی رکھا جانا :۔ اب ۱۹۰۱ء کا سال شروع ہونے والا تھا جبکہ ملک میں حکومت
کی طرف سے مردم شماری ہونے والی تھی ۔ جماعت کے لئے یہ پہلی مردم شماری تھی اور ضروری تھا کہ جماعت کا کوئی نام مقرر کر دیا جاوے جو اسے دوسرے اسلامی فرقوں سے ممتاز کر دے۔ اس پر آپ نے ۱۹۰۰ء کے آخر میں ایک اشتہار کے ذریعہ اعلان فرمایا کہ آئندہ آپ کی قائم کردہ جماعت کا نام جماعت احمدیہ ہو گا اور یہ کہ اسی نام کے ماتحت مردم شماری میں آپ کے متبعین کا ذکر ہونا چاہئے۔ چنانچہ اس کے بعد سے آپ کی جماعت ’’جماعت احمدیہ‘‘ اور آپ کے ماننے والے ’’احمدی‘‘ کہلانے لگے۔ مگر یہ ایک بہت افسوس اور تکلیف کی بات ہے کہ مخالفین نے اس چھوٹے سے معاملہ میں بھی اپنی بداخلاقی کا ثبوت دیا ہے اور بجائے اس نام کو استعمال کرنے کے جو جماعت نے اپنے لئے پسند کیا ہے وہ انہیں ’’مرزائی ‘‘ یا ’’قادیانی‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس سے ہمارا تو کچھ نہیں بگڑتا مگر یقینا ان کے اپنے اخلاق پر اچھی روشنی نہیں پڑتی۔
احمدی نام کی وجہ حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن شریف اور احادیث سے ظاہر ہوتاہے کہ آنحضرت ﷺ کی دو بعثتیں مقدر تھیں۔ ایک جلالی بعثت تھی جو خود آپ کے وجود باوجود کے ذریعہ محمد ؐ نام کے ماتحت ہوئی اور دوسری جمالی بعثت مقدر تھی جو ایک ظِلّ اور بروز کے ذریعہ احمد ؐ نام کے ماتحت ہونی تھی اور آپ نے لکھا کہ چونکہ یہ ظِلّ اور بروز میں ہوں اس لئے میں نے خدا کے منشاء کے ماتحت اپنی جماعت کا نام جماعت احمدیہ رکھا ہے۔ ۱؎
یہ بتایا جا چکا ہے کہ پہلے دن جبکہ حضرت مسیح موعود ؑ نے لدھیانہ میں سلسلہ بیعت شروع فرمایا تو آپ کے ہاتھ پر چالیس آدمیوں نے بیعت کی تھی۔ یہ مارچ ۱۸۸۹ء کا واقعہ ہے یہ چالیس اصحاب قریباً سارے کے سارے وہ لوگ تھے جو ایک عرصہ سے آپ کے اثر کے ماتحت آکر آپ کی صداقت اور روحانی کمال کے قائل ہو چکے تھے۔ اس کے بعد بیعت کا سلسلہ آہستہ آہستہ جاری رہا۔ حتیّٰ کہ ان اصحاب کی فہرست سے جو آپ نے ۱۸۹۶ء کے آخر میں تیار کی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں معروف بیعت کنندگان کی تعداد ۳۱۳ تھی۔ اس فہرست میں استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر عورتوں اور بچوں کے نام شامل نہیں تھے اور نہ ہی غیر معروف احمدیوں کے نام شامل تھے جنہیں ملا کر اس وقت تک یعنی ۱۸۹۶ء کے آخر تک جماعت احمدیہ کی مجموعی تعداد ڈیڑھ دو ہزار سمجھی جا سکتی ہے۔
یہ زمانہ جماعت کے لئے ایک نہایت سخت زمانہ تھا جسے ایک اونچے اور تیز ڈھال والے پہاڑ کی چڑھائی سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے۔ بے شک جماعت کی ترقی کا قدم کبھی نہیں رکا لیکن اس خطرناک مخالفت کے مقابلہ پر جس نے جماعت کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا اس کی رفتار اس قدر دھیمی تھی کہ اس کے دشمن ہر آن یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ بس یہ سلسلہ آج بھی مٹا اور کل بھی مٹا۔ اور خود حضرت مسیح موعود ؑ کے لئے بھی یہ ابتدائی زمانہ سخت پریشانی اور گھبراہٹ کا زمانہ تھا اور جماعت کی یہ رینگنے والی چال آپ کی بجلی کی طرح اڑنے والی روح کو بیتاب کر رہی تھی۔ مگر آپ جانتے تھے کہ ہر نبی کے زمانہ میں یہی ہوا کرتا ہے اور یہ کہ اس سخت امتحان میں سے گزرنے کے بغیر چارہ نہیں اور خود جماعت کی مضبوطی اور اخلاص کی ترقی کے لئے بھی یہ مخالفت ضروری ہے۔ پس آپ نے ہمت نہیں ہاری اور آپ کی فولادی میخیں آہستہ آہستہ مگر یقینی اور قطعی صورت میں آگے ہی آگے دھستی گئیں حتیّٰ کہ اس زمانہ میں جس کا ہم اس وقت ذکر کر رہے ہیں یعنی انیسویں صدی کے انتہاء اور بیسیویں صدی کے آغاز میں جماعت احمدیہ کی تعداد حضرت مسیح موعود ؑ کے اپنے اندازے میں تیس ہزار کے قریب پہنچ چکی تھی۔ یہ تعداد جماعت کی ابتداء کے لحاظ سے کافی بڑی تعداد تھی مگر اس کے انتہاء اور اس کی غرض و غایت کے لحاظ سے اتنی بھی نہیں تھی جسے آٹے میں نمک کہا جا سکے اور ابھی آپ کا کام ایک فلک بوس پہاڑ کی طرح آپ کے سامنے کھڑا تھا۔ یہ درست ہے کہ نبی کا کام صرف تخم ریزی کرنا ہوتا ہے مگر تخم ریزی کا کام بھی کچھ وقت لیتا ہے اور پھر کونسا باغبان یہ خواہش نہیں رکھتا کہ وہ اپنی تخم ریزی کا تھوڑا سا ثمرہ خود اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لے۔ بے شک نبی کا کام نفسانیت پر مبنی نہیں ہوتا اور وہ اپنے بعد میں آنیوالی ترقیوں کو بھی اسی نظر سے دیکھتا ہے جس طرح وہ اپنے وقت کی ترقیوں کو دیکھتا ہے مگر پھر بھی وہ انسان ہوتا ہے اور اس کا دل ان جذبات سے خالی نہیں ہوتا کہ ان ترقیوں کی تھوڑی سی جھلک اسے بھی نظر آجاوے۔ یقینا وہ مٹی میں چھپے ہوئے بیج کو بھی ایک درخت کی صورت میں دیکھتا ہے مگر اس کے بشری جذبات کا دل اس خواہش سے بالا نہیں ہوتا کہ میں کم از کم اس بیج کو مٹی سے باہر نکلتا ہوا تو دیکھ لوں یہ وہ جذبات تھے جو ان دنوں میں حضرت مسیح موعود ؑ کے دل و دماغ پر غلبہ پائے ہوئے تھے اور اس تیز رو سوار کی طرح جس کے گھوڑے کے پائوں میں زنجیریں پڑی ہوئی ہوں آپ ان زنجیروں کو توڑ کر ہوا ہو جانے کے لئے بے چین ہو رہے تھے۔ خدا نے اپنے فضل سے آپ کو اس دن کی تھوڑی سی روشنی دکھا بھی دی کہ جب آپ کی تیار کردہ جماعت اڑنے کے قابل تو نہیں مگر تیز رفتاری سے چلنے کے قابل ہو گئی۔ لیکن ان حالات کے بیان کے لئے اگلے اوراق ہیں جن کے لئے ہمیں جلدی کی ضرورت نہیں۔
اس وقت تک جو جماعت کی ترقی ہوئی اس کے اسباب مختلف تھے جن میں سے ہم بعض کو اس جگہ اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں :۔
اوّل ایک بہت بڑا نہایت مؤثر سبب خود حضرت مسیح موعود ؑ کی ذات تھی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا مقناطیسی وجود عطا کیا تھا کہ وہ اپنے ساتھ مناسبت رکھنے والی روح کو فوراً اپنی طرف کھینچ لیتا تھا اور یہ بات حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ ہی خاص نہیں تھی بلکہ ہر نبی کی کامیابی کا ایک بڑا ذریعہ اس کا ذاتی اثر ہوتا ہے۔ بے شک یہ درست ہے کہ یہ ذاتی اثر کسی نبی میں کم ہوتا ہے اور کسی میں زیادہ۔ مگر حضرت مسیح موعود ؑ کے وجود میں یہ اثر آپ کے متبوع حضرت محمد ﷺ کی طرح اپنے کمال کو پہنچا ہوا تھا۔ آنحضرت ﷺ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :۔
اگر خواہی دلیلے عاشقش باش
محمدؐ ہست برہان محمدؐ
’’ یعنی اے حق کے متلاشی انسان! اگر تو محمد ﷺ کی صداقت کی دلیل چاہتا ہے تو آپ کا عاشق بن جا کیونکہ محمد ﷺ کی سب سے بڑی دلیل خود محمد ﷺ کا اپنا وجود ہے۔ ‘‘ یہی دلیل اسی صداقت اور اسی زور کے ساتھ حضرت مسیح موعود ؑ پر بھی چسپاں ہوتی ہے۔ سینکڑوں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جنہوں نے صرف حضرت مسیح موعود ؑ کا چہرہ دیکھ کر بغیر کسی دلیل کے آپ کو مان لیا اور ان کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے کہ یہ منہ جھوٹوں کا نہیں ہو سکتا۔ سینکڑوں ہزاروں ایسے ہیں جو چند دن کی صحبت میں رہ کر ہمیشہ کے لئے رام ہو گئے اور پھر انہوں نے آپ کی غلامی کو سب فخروں سے بڑا فخر جانا۔
غرض آپ کی کامیابی کا ایک بڑا سبب آپ کی ذات اور آپ کا اخلاقی اور روحانی اثر تھا۔ یہ درست ہے کہ بعض لوگوں نے باوجود آپ کے ساتھ ملنے اور آپ کی مجلس میں آنے جانے کے آپ کو نہیں مانا لیکن یہ آپ کا قصور نہیں بلکہ خود ان لوگوں کا اپنا قصور تھا ۔ کیونکہ ایک بڑے سے بڑا مقناطیس بھی مٹی کے ڈھیلے کو نہیں کھینچ سکتا اور ایسے سفلی لوگوں کا وجود ہر نبی کے زمانہ میں پایا جاتا رہا ہے جس کی وجہ سے ان کی مقناطیسی طاقت کم نہیں سمجھی جا سکتی حضرت مسیح موعود کو اپنی اس خداداد طاقت کا خود بھی احساس تھا چنانچہ آپ اپنے مخالفوں کو اکثر کہا کرتے تھے کہ چند دن مخالفت چھوڑ کر میری صحبت میں آکر رہو اور پھر میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے خود کوئی رستہ کھول دے گا۔ بعض لوگوں نے آپ کے اس روحانی اثر کو سحرا اور جادو کے نام سے تعبیر کیا اور مشہور کیا کہ مرزا صاحب کے پاس کوئی نہ جائے کیونکہ وہ جادو کر دیتے ہیں۔ مگر یہ جادو نہیں تھا بلکہ آپ کی روحانیت کی زبردست کشش تھی جو سعید لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی اور روحانی اثر کے علاوہ آپ کے اخلاق بھی ایسے اعلیٰ اور ارفع تھے کہ ہر شخص جس کو آپ کے ساتھ واسطہ پڑتا تھا وہ آپ کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔
دوسرا بڑا سبب وہ نشانات اور معجزات تھے جو آپ کو خدا تعالیٰ نے عطا کئے تھے جن کا مجموعی اثر بھی ایک مقناطیسی طاقت سے کم نہیں تھا اور آپ کے نشانات چند قسم پر منقسم تھے ۔
(الف) نشانات کی پہلی قسم وہ پیشگوئیاں تھیں جو آپ خدا سے علم پا کر کرتے تھے جن میں دوستوں اور دشمنوں اور افراد اور قوموں سب کے متعلق آئندہ کی خبریں ہوتی تھیں جو اپنے وقت پر پوری ہو کر لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرتی تھیں اور آپ کی پیشگوئیوںمیں علم اور قدرت ہر دو کا اظہار ہوتا تھا۔ کیونکہ یہی وہ دو ستون ہیں جن پر خدا کی حکومت قائم ہے۔ مگر پیشگوئیوں کے معاملہ میں آپ یہ تشریح فرمایا کرتے تھے کہ ان سے بالعموم ایسی صورت پیدا نہیں ہوتی جسے دن کی تیز روشنی سے تشبیہہ دے سکیں۔ کیونکہ اگر ایسا ہو تو ایمان کا کوئی فائدہ نہیں رہتا اور نہ کوئی شخص ثواب کا مستحق بن سکتا ہے پس آپ فرماتے تھے کہ معجزات سے صرف اس حد تک روشنی پیدا ہوتی ہے جسے بادلوں والی چاندنی رات کی روشنی سے تشبیہہ دے سکتے ہیں۔ کیونکہ اگر ایسا ہو تو ایمان کا کوئی فائدہ نہیں رہتا اور نہ کوئی شخص ثواب کا مستحق بن سکتا ہے پس آپ فرماتے تھے کہ معجزات سے صرف اس حد تک روشنی پیدا ہوتی ہے جسے بادلوں والی چاندنی رات کی روشنی سے تشبیہہ دے سکتے ہیں جس میں دیکھنے والے تو رستہ دیکھ لیتے ہیں مگر کمزور نظر والوں کے لئے شبہ کی بھی گنجائش رہتی ہے۔ آپ کی جماعت کے ہزاروں لوگوں نے پیشگوئیوں کا نشان دیکھ کر آپ کو قبول کیا۔
(ب) نشانات کی دوسری قسم قبولیت دعا کے نمونے ہیں۔ آپ کو یہ دعویٰ تھا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا ہے اس لئے وہ آپ کی دعائوں کو خاص طور پر سنتا ہے اور انہیں قبولیت کا مرتبہ عطا کرتا ہے مگر آپ نے یہ تشریح فرمائی کہ دعائوں کی قبولیت سے یہ مراد نہیں کہ ہر دعا ہر حال میں سنی جاتی ہے۔ بلکہ اس معاملہ میں بندے کے ساتھ خدا کا سلوک دوستانہ رنگ رکھتا ہے کہ وہ اکثر دعائیں سنتا اور مانتا ہے لیکن بعض اوقات اپنی بھی منواتا ہے اور اس بات کا امتحان کرنا چاہتا ہے کہ اس کا بندہ اس کی بات کو کہاں تک خوشی اور انشراح کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ بہرحال بہت سے لوگوں نے حضرت مسیح موعود ؑ کو دعائوں کی قبولیت کے نشان سے شناخت کیا۔ کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ لوگ کسی مصیبت یا تکلیف کے وقت میں آپ کو دعا کے لئے لکھتے تھے اور بظاہر حالات کامیابی محال نظر آتی تھی مگر آپ کی دعا سے خدا کامیابی عطا فرماتا تھا۔ یا آپ کی بد دعا سے دشمنوں کو ہلاک کرتا تھا۔
(ج) نشانات کی تیسری قسم خدائی نصرت ہے جو مجموعی طور پر ہر ایک صادق کے حق میں کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔اس دلیل سے بھی بہت سے لوگوں نے آپ کو مانا کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ یہ ایک اکیلا شخص اٹھا ہے جو بالکل بے سرو سامان ہے اور سارا ملک اس کے خلاف ہے مگر پھر بھی خدا ہر میدان میں اسے کامیابی عطا کرتا ہے اور اس کے مخالف باوجود ہر قسم کے سازو سامان سے آراستہ ہونے کے اور باوجود اپنی کثرت کے اس کے سامنے ذلیل اور مغلوب ہوتے جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :۔
کبھی نصرت نہیں ملتی درِ مولی سے گندوں کو
کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو
(د) نشانات کی چوتھی قسم وہ خوابیں وغیرہ تھیں جو دوسرے لوگوں کو آپ کی صداقت کے متعلق آئیں اور اس ذریعہ سے بھی ہزاروں لوگوں نے آپ کو مانا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں بڑی کثرت کے ساتھ لوگوں کو اس قسم کی خوابیں آتی تھیں یا بعض اوقات الہام بھی ہوتا تھا جن میں یہ بتایا جاتا تھا کہ آپ سچے اور خدا کی طرف سے ہیں حتیّٰ کہ بعض خوابیں مخالفوں کو بھی آئیں جن میں سے بعض نے تو اپنی مخالفت کو ترک کر کے غلامی اختیار کر لی مگر بعض خوابوں کی تاویل کر کے مخالفت پر جمے رہے۔
تیسرا بڑا سبب آپ کی کامیابی کا وہ دلائل اور براہین تھے جو آپ نے اپنی صداقت میں پیش کئے جو منقولی اور معقولی دونوں رنگ کے تھے۔ یہ دلائل ایسے زبردست تھے کہ کوئی غیر متعصب عقلمند انسان ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آپ نے قرآن سے ،حدیث سے ،دوسرے مذاہب کے اقوال سے ،تاریخ سے اور عقل خداداد سے اپنی تائید میں دلائل کی ایسی عمارت کھڑی کر دی کہ لوگ اسے دیکھ دیکھ کر مرعوب ہوتے تھے اور جو اب کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ بے شک آپ کے مقابل پر آپ کے مخالفین بھی خاموش نہیں تھے اور وہ بھی اپنی طرف سے بعض کمزور حدیثیں یا بعض ذومعنیین اور متشابہ قرآنی آیات پیش کرتے تھے اور سلف صالح کے اقوال کا ایک حصہ بھی ان کے ہاتھ میں تھا مگر اس ریت کے تودہ کو حضرت مسیح موعود ؑ کے قلعہ سے کوئی نسبت نہیں تھی اور عقلمند لوگ اس فرق کو دیکھتے اور اس سے فائدہ اٹھاتے تھے۔
چوتھا بڑا سبب وہ دلکش اور خوبصورت تصویر تھی جو حضرت مسیح موعود ؑ نے اسلام کی پیش فرمائی جو ہر سمجھدار شخص کے دل کو مسخر کرتی تھی اور اس کے مقابل پر اسلام کا جو نقشہ غیر احمدی علماء پیش کرتے تھے وہ اپنے اندر کوئی خاص کشش نہیں رکھتا تھا۔ آپ نے نہ صرف اسلام کے چہرہ سے اس کی صدیوں کی میل کو دھویا بلکہ قرآن شریف سے وہ وہ معارف نکال کر دنیا کے سامنے پیش کئے کہ دشمن بھی پکار اٹھا کہ اسلام کی یہ تصویر نہایت خوبصورت اور دلکش ہے اور اس صورت حال نے لازماً لوگوں کو آپ کی طرف کھینچا۔
پانچواں بڑا سبب آپ کا وہ جہاد تھا جو آپ اسلام کی خدمت میں دن رات کر رہے تھے۔ آپ کی یہ والہانہ خدمت بڑے سے بڑے دشمن کی زبان سے بھی یہ الفاظ نکلواتی تھی کہ یہ شخص اسلام کا بے نظیر فدائی اور اس کا عاشقِ زار ہے جسے دن رات اسلام کی خدمت کے سوا کوئی خیال نہیں۔ اس حالت کو دیکھ کر سمجھدار لوگ ایک گہرے فکر میں پڑ جاتے تھے کہ ایک طرف تو مرزا صاحب علماء کی نظر میں کافر اور بے دین ہیں اور دوسری طرف انہیں اسلام کا اس قدر درد ہے کہ بے دین کہنے والے تو پڑے سوتے ہیں مگر مرزا صاحب ہر قسم کے آرام کو اپنے اوپر حرام کر کے اسلام کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ اس پر جو لوگ سعید الفطرت تھے وہ مجبور ہو کر آپ کی طرف کھچے آتے تھے۔
چھٹا بڑا سبب وہ نیک اثر تھا جو آپ نے اپنی جماعت میں پیدا کیا جس کی وجہ سے آپ کا ہر متبع خدمت دین کا متوالا ہو رہا تھا۔ لوگ دیکھتے تھے کہ پہلے ایک انسان بے دین اور اسلامی تعلیم سے ٹھٹھا اور ہنسی کرنے والا ہوتا ہے لیکن جونہی کہ وہ آپ کی جماعت میں داخل ہوتا ہے وہ ایک دیندار۔ خدا سے ڈرنے والا۔ اسلام سے محبت کرنے والا۔ اسلام کی تعلیم پر دلی شوق سے عمل کرنے والا اور اسلام کی خدمت میں اپنی روح کی غذا پانے والا بن جاتا ہے۔ اس نظارے کو دیکھ کر ان کے دل کہتے تھے کہ یہ پاک پھل ایک گندے درخت سے پیدا نہیں ہو سکتا۔
یہ وہ اسباب تھے جو آپ کی تائید میں کام کر رہے تھے مگر مخالف بھی خالی ہاتھ نہیں تھا کیونکہ شیطان نے اس کے ہاتھ میں بھی کچھ گولہ بارود دے رکھا تھا۔ چنانچہ مخالفت کے موٹے موٹے اسباب یہ تھے۔
(۱) حضرت مسیح موعود ؑ کے بہت سے عقائد اور خیالات موجود الوقت مسلمانوں کے معروف عقائد کے خلاف تھے۔ مثلاً مسیح کی وفات کا عقیدہ۔ اصل مسیح ناصری کی بجائے کسی مثیل مسیح کا نزول ۔ مسیح اور مہدی کا ایک ہی ہونا۔ خونی اور جنگی مہدی سے انکار۔ جہاد بالسیف کی ممانعت۔ ملائکۃ اللہ کے نزول کی تشریح۔ دجال کی تشریح وغیرہ وغیرہ ۔ ان اختلافات کی وجہ سے عوام آپ کو اسلام سے منحرف اور دین میں ایک نئی راہ نکالنے والا خیال کرتے تھے اور آپ کی باتوں پر کان دھرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔
(۲) مسلمان علماء کا یہ فتویٰ کہ آپ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور آپ سے کسی قسم کا تعلق رکھنا جائز نہیں عوام کے رستے میں ایک بھاری روک تھی۔
(۳) آپ کی بعض پیشگوئیوں میں وہ بادل کا سا سایہ جو خدا کی طرف سے ایک ابتلا اور آزمائش کے طور پر رکھا جاتا ہے اور پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے معیار میں اختلاف جو آپ کے اور آپ کے مخالف علماء میں پایا جاتا تھا وہ بھی عوام الناس کے لئے ایک روک تھا۔ یعنی آپ یہ فرماتے تھے کہ چونکہ خدا کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے اس لئے توبہ اور استغفار سے عذاب ٹل جاتا ہے اور اسی لئے وعید کی پیشگوئیاں بعض اوقات جبکہ دوسرا فریق خائف ہو کر دب جاوے ٹل جایا کرتی ہیں اور آپ دوسرے نبیوں کے حالات میں ان کی مثالیں بھی دیتے تھے مگر آپ کے مخالف یہ کہتے تھے کہ نہیں بلکہ وعدہ ہو یا وعید جو بھی کسی پیشگوئی کے الفاظ ہوں وہ بہر حال اپنی ظاہری صورت میں پورے ہونے چاہئیں۔
(۴) آپ کو ماننے سے ایک تلخی اور قربانی کی زندگی اختیار کرنی پڑتی تھی جس کے لئے اس زمانہ کے مسلمان اور دوسرے لوگ تیار نہیں تھے۔
(۵) وہ قدرتی تعصب جو ہر نئے سلسلہ کے متعلق ہوا کرتا ہے وہ آپ کے سلسلہ کے متعلق بھی کام کر رہا تھا۔
ان اسباب کی وجہ سے آپ کی جماعت کی رفتار ترقی ابتداء میں دھیمی تھی اور ایک رسہ کشی کی سی کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔ مگر پھر بھی باوجود خطرناک مخالفت کے آپ کی جماعت آہستہ آہستہ قدم بقدم (مگر اس طرح کہ ہر اگلا قدم پچھلے قدم کی نسبت کسی قدر تیز اٹھتا تھا) کامیابی کی چوٹی کی طرف چڑھتی چلی جا رہی تھی۔ یہ ایک عجیب نظارہ تھا کہ مخالفت کی طاقتیں جماعت احمدیہ کو زور کے ساتھ نیچے کھینچ رہی تھیں۔ خدائی ابتلائوں کے بادل بھی ان پر بعض اوقات اندھیرا کر دیتے تھے اور گاہے گاہے ان کی اپنی کمزوریوں سے بھی ان کا سانس پھولنے لگتا تھا۔ مگر انچ انچ۔ چپہ چپہ ۔ بالشت بالشت۔ ان کا قدم اوپر اٹھتا جا رہا تھا۔ اور جس طرح آنحضرت ﷺ کا دل بدر کی جنگ میں جو اسلام اور کفر کی موت و حیات کی جنگ تھی آپ کے سینہ میں اچھلتا اور گرتا تھا اور آپ بے چین ہو ہو کر یہ دعا کر رہے تھے کہ ’’ اے میرے آقا اگر آج یہ چھوٹی سی جماعت اس میدان میں ہلاک ہو گئی تو پھر دنیا کے پردے پر تجھے پوجنے والا کوئی نہیں رہے گا۔ ‘‘ اسی طرح اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کا دل انتہائی اضطراب اور کرب میں خدا کی رحمت کے ہاتھ کی طرف دیکھ رہا تھا کہ وہ کب آپ کی طرف لمبا ہوتا ہے۔
اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ اس وقت تک جماعت احمدیہ کی تعداد قریباً تیس ہزار تک پہنچ چکی تھی اور یہ تعداد صرف پنجاب تک محدود نہیں تھی بلکہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں پائی جاتی تھی مثلاً صوبہ سرحد ،کشمیر ،یوپی ،بمبئی ،حیدر آباد دکن ،مدراس ،بہار ،بنگال وغیرہ میں جماعت قائم ہو چکی تھی اور ہندوستان سے باہر بھی مشرقی افریقہ میں احمدیت کا خمیر پہنچ چکا تھا اور خال خال احمدی عرب وغیرہ ممالک میں بھی پائے جاتے تھے اور اس اشاعت کا باعث بیشتر طور پر حضرت مسیح موعود ؑ کی تصنیفات تھیں اور دوسرے درجہ پر آپ کے مخلصین کی تبلیغی کوششیں بھی اس میں ممد ہوئی تھیں جن میں سے ہر فرد ایک پر جوش مبلغ تھا۔
مقدمہ دیوار اورہدم دیوار :۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف جو مخالفت کا طوفان برپا تھا اس کا
ایک پہلو یہ بھی تھا کہ آپ کے مخالفین نے آپ کے بعض رشتہ داروں کو اکسا کر انہیں بھی مخالفت میں کھڑا کر دیا تھا۔ یہ لوگ بوجہ اپنی بے دینی اور بداخلاقی کے ویسے بھی حضرت مسیح موعود ؑ کے مخالف تھے لیکن مخالفوں نے انہیں اکسا اکسا کر اور بھی زیادہ تیز کر دیا تھا۔ ان میں سے دو آدمی یعنی مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین صاحبان ایذا رسانی میں خاص طور پر بڑھے ہوئے تھے۔ یہ دونوں حقیقی بھائی تھے اور حضرت مسیح موعود ؑ کے چچا کے لڑکے تھے مگر باوجود اس قرابت کے ان کے دلوں میں حضرت مسیح موعود ؑ کے چچا کے لڑکے تھے مگر باوجود اس قرابت کے ان کے دلوں میں حضرت مسیح موعود ؑ کی دشمنی کی آگ شعلہ زن تھی اور وہ کوئی موقعہ آپ کو دکھ پہنچانے کا ضائع نہیں جانے دیتے تھے اور چونکہ ان کا مکان حضرت مسیح موعود ؑ کے مکان کے ساتھ ملحق تھا اور ویسے بھی انہیں قادیان میں حقوق ملکیت حاصل تھے اس لئے ان کا وجود گویا ایک مار آستین کا رنگ رکھتا تھا۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے انہیں کبھی تکلیف نہیں دی بلکہ ہمیشہ احسان اور مروت کا سلوک کیا مگر باوجود اس کے ان کی مخالفت دن بدن بڑھتی ہی گئی۔ بالآخر ۱۹۰۰ء میں انہوں نے حضرت مسیح موعود ؑ اور آپ کے متبعین کو تنگ کرنے کی یہ تدبیر نکالی کہ سراسر ظلم اور سینہ زوری کے ساتھ اس رستہ کو دیوار کھینچ کر بند کر دیا جو حضرت مسیح موعود ؑ کے مہمان خانہ اور آپ کے گھر اور مسجد کو ملاتا تھا۔ اس شرارت نے قادیان کے غریب احمدی مہاجرین پر ان کا عرصۂ عافیت تنگ کر دیا کیونکہ اب انہیں مسجد میں آنے اور حضرت مسیح موعود ؑ سے ملنے کے لئے قصبہ کے اندر ایک بڑا چکر کاٹ کر پہنچنا پڑتا تھا اور ایسے حصوں میں سے گزرنا پڑتا تھا جو سلسلہ کے اشد معاندین سے آباد تھا۔ آخر مجبور ہو کر حضرت مسیح موعود ؑ کو قانونی چارہ جوئی کرنی پڑی۔ اور آپ کی زندگی میں یہی ایک منفرد مثال ہے کہ جب آپ کسی کے خلاف مدعی بنے۔ آپ اب بھی اس پوزیشن میں نہیں آنا چاہتے تھے مگر وکلاء کا یہ مشورہ تھا کہ چونکہ یہ رستہ خاندان کا پرائیویٹ رستہ ہے اس لئے آپ کے سوا کسی اور شخص کو قانونی چارہ جوئی کا حق نہیں پہنچتا۔ اس لئے مجبوراً آپ کو مدعی بننا پڑا۔ آخر ایک لمبے مقدمہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ کو فتح دی اور عدالت کے حکم سے یہ دیوار گرا دی گئی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کامیابی پر خدا کا شکر ادا کیا اور خاموش ہو گئے۔ اور آپ کو اس بات کا خیال بھی نہیں آیا کہ دوسرے فریقی پر خرچہ بھی پڑا ہے۔ لیکن آپ کے وکیل نے آپ کی اطلاع کے بغیر خرچہ کی ڈگری لے کر اس کا اجراء کرا دیا۔ جب اس روپے کی وصولی کے لئے سرکاری آدمی قادیان میں پہنچا تو اتفاق سے اس وقت حضرت مسیح موعود ؑ قادیان سے غیر حاضر تھے اور گورداسپور گئے ہوئے تھے۔ آپ کی غیر حاضری میں ہی سرکاری آدمی نے مرزا صاحبان مذکور سے خرچہ کا مطالبہ کیا اور چونکہ ان کے پاس اس وقت اس قدر رقم موجود نہیں تھی اس لئے وہ ضابطہ کے مطابق قرقی کی کارروائی کرنے پر مجبور ہوا۔ اس پر ان لوگوں نے راتوں رات ایک آدمی کو اپنا ایک خط دے کر گورداسپور بھجوایا اور حضرت مسیح موعود ؑ سے استدعا کی کہ ہمیں اس ذلت سے بچایا جاوے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کو ان حالات کا علم ہوا تو آپ اپنے آدمیوں پر خفا ہوئے کہ خرچہ کی ڈگری کا اجراء کیوں کرایا گیا ہے اور نہ صرف خرچہ کی رقم معاف کر دی بلکہ معذرت بھی کی کہ میری لاعلمی میں یہ تکلیف پہنچی ہے۔ یہ مقدمہ ۱۹۰۰ء میں شروع ہوا تھا اور ۱۹۰۱ء میں اس کا فیصلہ ہوا اور دیوار گرائی گئی۔
اس وقت تک حضرت مسیح موعود ؑ کی عملی مخالفت زیادہ تر علماء کی طرف سے تھی اور گو سجادہ نشینوں اور پیروں کا طبقہ بھی مخالف تھا۔ مگر ابھی تک ان کی مخالفت نے کوئی عملی صورت اختیار نہیں کی تھی لیکن اس زمانہ میں جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس طبقہ کا ایک نامور نمائندہ بھی آپ کے خلاف میدان میں آیا اور آپ کے مقابلہ میں طاقت آزمائی کرنی چاہی۔ یہ صاحب گولڑہ ضلع راولپنڈی کے ایک مشہور پیر تھے جن کا نام مہر علی شاہ تھا۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف دو کتابیں لکھ کر شائع کیں جن میں بہت کچھ لاف زنی کے علاوہ حضرت مسیح موعود ؑ کے لاف ناگوار حملے بھی کئے اور آپ کو اپنے مقابلہ کے لئے دعوت دی۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس خیال سے کہ یہ صاحب ایک نئے طبقہ کے آدمی ہیں اور ممکن ہے کہ سجادہ نشینوں میں ہل چل ہونے سے پیروں کے ماننے والے لوگوں میں کوئی مفید حرکت پیدا ہو جائے اس موقعہ کو غنیمت جانا اور گولڑوی صاحب کے جواب میں دو زبردست کتابیں لکھ کر شائع فرمائیں۔ ایک کا نام ’’ تحفہ گولڑویہ ‘‘ تھا جس میں آپ نے قرآن و حدیث سے اپنے دعاوی مسیحیت اور مہدویت کو ثابت کیا اور اپنے تائید میں ایسے زبردست دلائل دئیے کہ جن سے مخالفین کے دانت کھٹے کر دئیے ۔یہ کتاب آپ کے دعاوی کے دلائل کے لحاظ سے غالباً سب سے زیادہ جامع ہے۔
دوسری کتاب جو آپ نے پیر گولڑوی صاحب کے مقابلہ میں لکھ کر شائع فرمائی اس کا نام ’’اعجاز المسیح ‘‘ تھا ۔ اس کتاب میں آپ نے عربی زبان میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھی جو نہ صرف زبان کے لحاظ سے بلکہ اپنی معنوی لطافت کے لحاظ سے بھی نہایت بلند پایہ رکھتی ہے۔ آپ نے اس کتاب کے لکھنے سے پہلے ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۰ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ اس بات کا اعلان فرمایا کہ پیر صاحب کو قرآن شریف کے علم کا دعویٰ ہے اور وہ اپنے آپ کو روحانی امام و مقتداء بھی سمجھتے ہیں اگر ان میں ہمت ہے تو میرے سامنے آکر تفسیر نویسی میں مقابلہ کر لیں تا کہ دنیا کو پتہ لگ جائے کہ کس کا دعویٰ حق و صداقت پر مبنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کس کے ساتھ ہے اور آپ نے اس کے لئے ستر دن کی میعاد مقرر فرمائی یعنی لکھا کہ میں بھی ستر دن کے اندر ایک تفسیر عربی زبان میں لکھ کر شائع کرتا ہوںاور پیرصاحب بھی شائع کریں اور پھر دیکھا جائے کہ غلبہ کس کو حاصل ہوتا ہے اور آپ نے پیر صاحب کو یہ بھی اجازت دی کہ وہ اگر چاہیں تو ملک کے دوسرے پیروں اور مولویوں سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے تو مقررہ میعاد کے اندر اندر یعنی ۲۵؍ فروری ۱۹۰۱ء سے قبل سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھ کر شائع فرما دی حالانکہ اس عرصہ میں آپ قریباً ایک ماہ تک علیل بھی رہے مگر پیر صاحب ا ور ان کے رفقاء ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے اور جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے حضرت مسیح موعود ؑ کی یہ تفسیر نہ صرف زبان کے لحاظ سے نہایت اعلیٰ درجہ رکھتی ہے بلکہ معارف اور علوم قرآنی کا بھی ایک عظیم الشان خزانہ ہے جو صرف دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کتاب کی خوبی کا اندازہ اس سے بھی ہو سکتا ہے کہ جب یہ کتاب شائع ہوئی تو مصر کے دو مشہور اخباروں یعنی ’’مناظر‘‘ اور ’’ الھلال‘‘ نے اس کی زبان کی بہت تعریف کی اور ایک اخبار نے تو یہاں تک لکھا کہ یہ واقعی ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی نظیر لانی مشکل ہے۔ ۱؎
ظلّی نبوت کا دعویٰ اور ختم نبوت کی تشریح :۔ اب ہم بیسوی صدی میں داخل ہو چکے ہیں اور
۱۹۰۱ء کا ابتداء اپنے ساتھ تازہ نشانوں کی روشنی کو لایا ہے چنانچہ رسالہ ’’اعجاز المسیح‘‘ کی معجزانہ تصنیف جس کا اوپر ذکر گزر چکا ہے وہ اسی سال کے ابتدائی ایام میں انجام پذیر ہوئی تھی۔ اسی سال میں حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک لمبے اشتہار کے ذریعہ جس کا نام ’’ ایک غلطی کا ازالہ‘‘ ہے اس بات کابھی اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے آنحضرت ﷺ کی اتباع میں اور آپ کے روحانی فیض کی برکت سے ظلی اور بروزی رنگ میں نبوت کا مرتبہ عطا فرمایا ہے۔ نبوت اور رسالت کا دعویٰ آپ کی کتب میں پہلے بھی آچکا تھا اور آپ کے بہت سے الہاموں میں بھی آپ کے متعلق یہ الفاظ وارد ہو چکے تھے مگر مسلمانوں کے اس معروف عقیدہ کے ماتحت کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا آپ ان الفاظ کی تاویل فرما دیا کرتے تھے اور خیال فرماتے تھے کہ یہ الفاظ حقیقت پر محمول نہیں ہیں بلکہ محض جزوی مشابہت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں استعمال کیا ہے۔ لیکن جب خدائی الہامات میں یہ الفاظ زیادہ کثرت کے ساتھ استعمال ہونے لگے اور آپ نے اس بارے میں توجہ فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ بات ظاہر کی کہ نبوت کا دروازہ من کل الوجوہ بند نہیں ہے بلکہ ختم نبوت کے صرف یہ معنے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرنے والا ہو یا آپ کے فیض نبوت سے آزاد ہو کر مستقل حیثیت میں نبوت کا مدعی بنے اور آپ نے تشریح فرمائی کہ آنحضرت ﷺ نے جو اس قسم کے الفاظ فرمائے ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں یا یہ کہ میں آخری نبی ہوں ان سے یہی مراد ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شاگردی اور میری غلامی سے آزاد ہو۔
یہ انکشاف آپ پر آہستہ آہستہ ہوا چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جہاں آپ اوائل میں ہمیشہ اپنے متعلق نبی اور رسول کے الفاظ کی تاویل فرماتے تھے اور ان الفاظ کو اپنے لئے استعمال نہیں کرتے تھے وہاں آپ نے ۱۹۰۱ء میں اور اس کے بعد ان الفاظ کو نہ صرف اپنے لئے خود استعمال کیا بلکہ جب آپ کو یہ اطلاع ملی کہ آپ کے ایک مرید نے آپ کے متعلق بیان کیا ہے کہ آپ کو نبوت کا دعویٰ نہیں ہے تو آپ نے اسے تنبیہہ فرمائی اور اس کی غلطی کے ازالہ کے لئے ایک اشتہار لکھ کر شائع کیا جس میں تصریح کے ساتھ لکھا کہ مجھے صرف شریعت والی نبوت یا اپنی ذات میں مستقل نبوت سے انکار ہے ورنہ ظِلّی اور بروزی نبوت سے انکار نہیں ہے اور میں اس بات کا مدعی ہوں کہ آنحضرت ﷺ کے فیض سے اور آپ کی اتباع میں مجھے خدا نے بروزی رنگ میں نبوت کا مرتبہ عطا فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنے اشتہار ’’ ایک غلطی کا ازالہ‘‘ میں ۱۹۰۱ء میں لکھا کہ :۔
’’ چند روز ہوئے ہیں کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا۔ حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے۔ حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے لفظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں۔ نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ۔ پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہو سکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیںہیں۔ بلکہ اس وقت تو پہلے زمانہ کی نسبت بھی بہت تصریح اور توضیح سے یہ الفاظ موجود ہیں …… اگر یہ کہا جائے کہ آنحضرت ﷺ توخاتم النبیین ہیں۔ پھر آپ کے بعد اور نبی کس طرح آسکتا ہے ؟ اس کا جواب یہی ہے کہ بے شک اس طرح سے تو کوئی نبی نیا ہو یا پرانا نہیں آسکتا جس طرح آپ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آخری زمانہ میں اتارتے ہیں … نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنا فی الرسول کی ۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظِلّی طورپر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوتِ محمدی کی چادر ہے۔ اس لئے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے …… میری نبوت اور رسالت باعتبار محمد اور احمد ہونے کے ہے نہ میرے نفس کے رو سے۔ اور یہ نام بحیثیت فنا فی الرسول مجھے ملا ۔ لہٰذا خاتم النبیین کے مفہوم میں فرق نہ آیا …… یہ تمام فیوض بلا واسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شامل حال ہے یعنی محمد مصطفی ﷺ۔ اس واسطہ کو ملحوظ رکھ کر اور اس میں ہو کر اور اس کے نام محمد اور احمد سے مسمّٰی ہو کر میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں۔ ‘‘ ۱؎
اس کے بعد آپ نے اپنی تحریرات میں اپنے اس دعویٰ کے متعلق مزید تصریحات بھی فرمائیں مثلاً اپنی تصنیف حقیقۃ الوحی میں آپ فرماتے ہیں :۔
’’ اس امت میں آنحضرت ﷺ کی پیروی کی برکت سے ہزارہا اولیاء ہوئے ہیں اور ایک وہ بھی ہوا جو امتی بھی ہے اور نبی بھی………………… میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے …………………… خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت ﷺ کے افاضۂ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا …………… اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے۔ وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا۔ مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیاگیا مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور دوسرے پہلو سے امتی …………… ……… اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی
ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط ان میں پائی نہیں جاتی۔ ‘‘ ۱؎
ان حوالہ جات اور اسی قسم کے بہت سے دوسرے حوالہ جات سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔
اوّل یہ کہ گو اوائل میں حضرت مسیح موعود ؑ اپنے متعلق نبوت اور رسالت کی تاویل فرماتے تھے مگر بعد میں جب خدا نے آپ پر حق کھول دیا تو آپ نے کھلے طور پر رسالت اور نبوت کا دعویٰ کیا۔
دوم یہ کہ آپ کا یہ دعویٰ آنحضرت ﷺ اور اسلام سے آزاد ہو کر نہیں تھا بلکہ آنحضرت ﷺ کی شاگردی اور غلامی میں ہو کر اور اسلام کی متابعت میں بروزی صورت میں دعویٰ تھا۔ اوراس دعویٰ کو آپ آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت کے خلاف نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنی نبوت کو آنحضرت ﷺ کی نبوت کا حصہ اور ظل قرار دیتے تھے ۔ مجھے اس امر میں زیادہ تشریح کی اس لئے ضرورت پیش آئی ہے کہ غیر تو خیر اعتراض کرتے ہی تھے بدقسمتی سے احمدی کہلانے والوں میں سے بھی ایک حصہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو حضرت مسیح موعود ؑ کی ابتدائی تاویلات کی بناء پر آپ کے دعویٰ نبوت کا منکر ہے اور غیراحمدیوں کی طرح اسے آیت خاتم النبیین کے خلاف سمجھتا ہے۔ حالانکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے بار بار تشریح فرمائی ہے جس قسم کی نبوت کے آپ مدعی ہیں یعنی ظلی اور بروزی نبوت وہ ہرگز ہرگز آیت خاتم النبیین کے خلاف نہیں۔
میں اپنے غیر احمدی ناظرین کے لئے اس جگہ یہ بات بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ خیال کرنا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ کھلنے سے آنحضرت ﷺ کی ہتک لازم آتی ہے ایک نہایت ہی بودا اور سطحی خیال ہے اور یہ خیال صرف انہی لوگوں کے دل میں پیدا ہوتا ہے جنہوں نے اس معاملہ میں قطعاً کوئی غور نہیں کیا اور محض سنی سنائی باتوں پر فتویٰ لگا دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ہتک صرف اس صورت میں سمجھی جا سکتی ہے کہ کوئی شخص آپ کی لائی ہوئی شریعت کو منسوخ کرے یا آپ سے آزاد ہو کر مستقل نبوت کا مدعی بنے۔ مگر یہاں یہ دونوں باتیں نہیں ہیں۔ بلکہ یہاں تو صرف یہ دعویٰ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی شریعت کی ماتحتی میں اور آپ کی شاگردی اور غلامی کے جوئے کے نیچے ہو کر خدا نے نبوت کا مرتبہ عطا کیا ہے اور ایک ادنیٰ عقل کا آدمی بھی خیال کر سکتا ہے کہ یہ صورت آنحضرت ﷺ کی عزت اور آپ کے مقام کو بڑھانے والی ہے نہ کہ کم کرنے والی۔ نبوت کیا ہے ؟ نبوت ایک اعلیٰ روحانی مقام ہے جس میں خدا اپنے بندے کے ساتھ بکثرت کلام فرماتا اور اسے آئندہ کی خبروں سے اطلاع دیتا اور دنیا کی طرف اسے رسول بنا کر بھیجتا ہے۔ اب غور کرو کہ کیا آنحضرت ﷺ کی عزت اس میں ہے کہ آپ کے بعد آپ کے ماننے والوں میں اس روحانی انعام کا سلسلہ بند ہو جائے یا کہ آپ کی عزت اس میں ہے کہ آپ کے فیض سے یہ سلسلہ پہلے سے بھی بڑھ چڑھ کر جاری رہے۔ دراصل سارا دھوکا اس بات سے لگا ہے کہ نبوت کے معنوں کے متعلق غور نہیں کیا گیا اور ہر نبی کے لئے یہ ضروری سمجھا گیا ہے کہ وہ کوئی نئی شریعت لائے یا کم از کم اپنے سابقہ نبی سے آزاد ہو کر فیضِ نبوت پائے حالانکہ نبی کے لئے یہ دونوں باتیں لازمی نہیں اور جب یہ باتیں لازمی نہیں تو آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ کھلا رکھنے میں آپ کی ہتک نہیں بلکہ اس دروازے کے بند کرنے میں ہتک ہے۔ میں تو یہ خیال کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے ان عظیم الشان احسانوں میں سے جو آپ نے اسلام پر بلکہ دنیا پر کئے ہیں سب سے بھاری احسان یہ دو ہیں :۔
اوّل یہ کہ آپ نے صحیفۂ فطرت کی طرح قرآنی علوم کو غیر محدود قرار دے کر اسلام کے علمی حصہ میں ایک غیر معمولی نمو اور ترقی کا دروازہ کھول دیا ہے اور ان اعتراض کرنے والوں کا منہ بند کر دیا ہے جو اس زمانہ کی ظاہری ترقی کو دیکھ کر یہ کہتے ہیں کہ تم ہمیں چودہ سو سال پیچھے لے جانا چاہتے ہو اور آپ نے صرف یہ دعویٰ ہی نہیں کیا بلکہ عملاً قرآن کی نئی تفسیر پیش کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس کے اندر موجودہ زمانہ کے ہر اعتراض کا جواب اور ہر زہر کا تریاق موجود ہے۔
دوسرے آپ نے ختم نبوت کی صحیح اور سچی تشریح کر کے مسلمانوں کی گردنوں کو بلند کر دیا ہے اور دنیا پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ آنحضرت ﷺ خدا کی رحمت کے دروازے کو تنگ کرنے کے لئے نہیں آئے بلکہ وسیع کرنے کے لئے آئے ہیں اور یہ کہ آپ کے متبعین کے لئے ہر قسم کے روحانی انعام کا دروازہ کھلا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ اپنے ایک شعر میں آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں :۔
ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رسل
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے
افسوس کہ حضرت مسیح موعود ؑکے ان عظیم الشان احسانوں کو دنیا نے آج نہیں پہچانا مگر وقت آتا ہے کہ وہ انہیں پہچانے گی اور اپنی عقیدت کے پھول آپ کے قدموں پر رکھ کر آپ پر درود اور سلام بھیجے گی ۔ مگر جیسا کہ آپ نے خود لکھا ہے اس وقت کا ایمان اس تلخی کو بھی اپنے ساتھ لائے گا جو کسی شاعر نے اپنے اس شعر میں بیان کی ہے کہ :۔
جب مر گئے تو آئے ہمارے مزار پر
پتھر پڑیں صنم ترے ایسے پیار پر
حضرت مسیح موعود ؑ کو اس بات کی بڑی خواہش رہتی تھی کہ عیسائی ممالک میں اسلام کی تبلیغ کی جاوے اور آپ کی بعثت کی غرضوں میں سے ایک بڑی غرض یہی تھی کہ صلیبی مذہب کے زور کو توڑ کر اس کی جگہ اسلام کو قائم کیا جاوے۔ دراصل آپ کو شرک سے انتہائی نفرت تھی اور آپ کی روح اس خیال سے سخت بے چین رہتی تھی کہ دنیا کے ایک وسیع حصہ میں ایک کمزور انسان کو جس میں کوئی خدائی کی بات نہیں پائی جاتی اور اس نے کبھی خدائی کا دعویٰ بھی نہیں کیا خدا بنایا جا رہا ہے۔ آپ نے کئی جگہ لکھا ہے اور فرمایا بھی کرتے تھے کہ میں نے کشف کی حالت میں
بارہا حضرت مسیح ناصری سے ملاقات کی ہے اور ایک دفعہ ان کے ساتھ مل کر کھانا بھی کھایا ہے اور ہر دفعہ انہیں نہایت فروتن اور منکسر المزاج پایا ہے اور ان کے منہ سے یہ اقرار سنا ہے کہ میں تو خدا کا ایک عاجز بندہ ہوں۔ الغرض حضرت مسیح موعود کے دل میں یہ بڑی خواہش تھی کہ دنیا سے شرک اور مردہ پرستی مٹ جائے اور اس کی جگہ حقیقی توحید اور خدا پرستی قائم ہو جائے اور آپ کے دل میں یہ سخت قلق رہتا تھا کہ باوجود اس کے کہ حضرت مسیح ناصری میں قطعاً کوئی خدائی علامت نہیں پائی جاتی بلکہ بطور ایک رسول کے بھی انہیں اپنی زندگی میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی انہیں بعد میں آنے والوں نے الوہیت کے تخت پر بٹھا رکھا ہے اور آپ اس تحریف کا اصل بانی مبانی پولوس کو خیال کرتے تھے جس نے مسیحی مذہب میں داخل ہو کر اس کا رنگ بدل دیا اور ایک کمزور انسان کو خدا بنانے کی بھاری ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی اور پھر بعد میں آنے والوں نے اس خیال کو اور پختہ کر دیا ۔ مگر آپ فرماتے تھے کہ اب آسمان پر اس شرک عظیم کے خلاف بہت جوش ہے اور میری بعثت اسی آسمانی حرکت کا نتیجہ ہے اور وہ وقت قریب آگیا ہے کہ صلیبی طلسم ٹوٹ جائے گا اور دنیا پھر بڑے زور کے ساتھ توحید اور خدا پرستی کی طرف لوٹے گی۔
آپ نے فرمایا کہ ہم تو صرف ایک آلہ ہیں ورنہ اصل جنگ خدا کی ہے جس کی غیبی فوجیں شیطانی خیالات کو مٹانے کے لئے حرکت میں ہیں۔ لیکن ہمارا فرض ہے کہ اس آسمانی حرکت کے مطابق ظاہر میں بھی ایک حرکت پیدا رکھیں اور ان اسباب کو کام میں لائیں جو خدا نے اپنے فضل سے ہمارے ہاتھ میں دئیے ہیں۔ چنانچہ آپ نے اوائل دعویٰ سے لے کر برابر اپنی زبان اور اپنی قلم کو توحید کے قیام کے لئے حرکت میں رکھا اور اشتہاروں سے ،کتابوں سے ،مناظروں سے ،تقریروں سے شرک کے قلعہ پر مسلسل گولہ باری کی۔ اور بارہا یہ اعلان کیا کہ مسیحیوں یا دیگر مذاہب والوں میں سے جسے اسلام کی صداقت کے متعلق شک ہو یا وہ اپنے مذہب کو اسلام کے مقابل پر حق خیال کرتا ہو تو وہ ہمارے سامنے آکر منقولی اور عقلی دلائل کے ساتھ یا روحانی مقابلہ کے رنگ میں زور آزمائی کر لے۔ آپ نے یہ بھی اشتہار دیا کہ چونکہ خدا نے مجھے ساری دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا ہے اور اس زمانہ کے وسیع فتنوں کے مقابلہ کے لئے کھڑا کیا ہے اس لئے اس نے مجھے وہ طاقتیں بھی عطا کی ہیں جو اس کام کی سر انجام دہی کے لئے ضروری ہیں اور آپ نے لکھا کہ چونکہ حضرت مسیح ناصری کا مشن بہت محدود تھا اس لئے ان کی طاقتیں بھی محدود تھیں چنانچہ آپ نے دعویٰ کیا کہ اگر کسی پادری میں ہمت ہے تو وہ میرے سامنے آکر اس بات کا امتحان کر لے کہ روحانی طاقت اور نشان نمائی میں مسیح ناصری اور مسیح محمدی میں کون افضل ہے؟ آپ نے تشریح فرمائی کہ خوش اعتقادی کا خیال جداگانہ ہے لیکن اگر مسیح ناصری کے نشانات کو تنقیدی نظر سے دیکھا جاوے اور ان کی اصلی حقیقت پر غور کیا جائے تو یقینا وہ نشانات اِن نشانات کے مقابلہ پر ادنیٰ اور کم تر ثابت ہوں گے جو خدا میرے ہاتھ پر ظاہر کر رہا ہے۔
الغرض آپ کو مسیح پرستی کے خلاف بہت جوش تھا اور آپ کو خدا نے الہاموں اور خوابوں کے ذریعہ یہ بشارت بھی دی تھی کہ جلد یا بدیر آپ کی لائی ہوئی روشنی سے یورپ منور ہو گا اس غرض کے لئے آپ نے ۱۹۰۲ء میں ایک انگریزی رسالہ کی بنیاد رکھی تا کہ اس کے ذریعہ سے مغربی ممالک میں مسیحیت کے خلاف اور اسلام کے حق میں مہم جاری کر سکیں اور چونکہ آپ خود انگریزی زبان سے ناواقف تھے آپ نے اس رسالہ کی ایڈیٹری اپنے ایک نوجوان اور انگریزی خوان مرید مولوی محمد علی صاحب ایم ۔ اے کے سپرد کی جو حضرت مسیح موعود ؑ کی ہدایات کے ماتحت آپ کے مضامین کا انگریزی میں ترجمہ کرتے یا آپ کے بتائے ہوئے نوٹوں کے مطابق خود مضمون لکھتے تھے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی توجہ کی برکت سے اس رسالہ نے حیرت انگیز رنگ میں ترقی کی اور بہت ہی تھوڑے عرصہ میں ساری علمی دنیا میں اپنا سکہ جما لیا اور بڑے بڑے یورپین اور امریکن علماء نے اس کے مضامین کی تعریف میں پُر جوش ریویو لکھے اور اس کے دلائل کی قوت کو تسلیم کیا۔
جیسا کہ بتایا جا چکا ہے اس رسالہ کے اکثر مضامین خود حضرت مسیح موعود ؑ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہوتے تھے اور بعض کے متعلق آپ نوٹ لکھا دیتے تھے اور آپ نے ان مضامین میں اپنے اسپ قلم کو مذاہب کے وسیع میدان کے ہرحصہ میں ڈالا اوراس میدان کا ہر کونہ اور گوشہ چھان ڈالا اور اسلام کی تائید اور مسیحیت اور دوسرے مذاہب کی تردید میں ایسے ایسے زبردست مضامین لکھے کہ علمی دنیا میںایک ہل چل مچ گئی۔ مسیح ناصری کے معجزات پر۔ آپ کے روحانی اثر پر۔ آپ کی تعلیم پر۔ آپ کے واقعہ صلیب پر۔ صلیب سے بعد کے حالات پر۔ آپ کی سیاحت ہند اور وفات پر۔ آپ کے فرضی دعویٰ خدائی پر۔ تثلیث اور کفارہ پر۔ غرض مسیحیت کے ہر شعبہ پر مضامین لکھے گئے اور دوسری طرف اسلام کی حقیقت اور آنحضرت ﷺ کی رسالت اور آپ کی روحانی طاقت اور آپ کی کامیابی اور آپ کی تعلیم کی برتری وغیرہ پر زبردست بحثیں کی گئیں اور اسی طرح دوسرے مذاہب کی تعلیمات پر بھی مضامین لکھے گئے اور رسالہ نے اپنے آپ کو صحیح معنوں میں ’’ ریویو آف ریلیجنز ثابت کر دیا۔ چنانچہ اس رسالہ کے متعلق آل انڈیا ینگ من کرسچن ایسوسی ایشن کے سیکرٹری مسٹر واکر نے لکھا کہ :۔
’’ یہ رسالہ اسم بامسمّٰی ہے کیونکہ اس رسالہ نے مذاہب کے ایک نہایت وسیع حلقہ کو اپنے کام میں شامل کیا ہے اور مذہبی مضامین کے ایک بڑے وسیع دائرہ پر نظر ڈالی ہے۔ ‘‘
مسٹر اے اروب نے امریکہ سے لکھا :۔
’’ اس رسالہ کے مضامین روحانی صداقتوں کی نہایت پُرحکمت اور روشن تفسیر ہیں۔ ‘‘
کونٹ ٹالسٹائے نے روس سے لکھا :۔
’’ اس رسالہ کے خیالات بڑے وزنی اور بڑے سچے ہیں۔ ‘‘
پروفیسر ہالٹسما ایڈیٹر انسائیکلوپیڈیا آف اسلام نے لکھا :۔
’’ یہ رسالہ از حد دلچسپ ہے۔ ‘‘
ریویو آف ریویوز لندن نے لکھا :۔
’’ یورپ اور امریکہ کے وہ لوگ جو محمد (صلعم) کے مذہب میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کو چاہئے کہ یہ رسالہ ضرور منگائیں ۔ ‘‘
مس ہنٹ نے امریکہ سے لکھا :۔
’’ اس رسالہ کا ہر نمبر نہایت دلکش ہوتا ہے اور ان غلط خیالات کا بطلان ثابت کرتا ہے جو اسلام کے متعلق اس زمانہ میں دنیا کی ان اقوام کی طرف سے پھیلائے جاتے ہیں جو مہذب کہلاتی ہیں۔ ‘‘
الغرض حضرت مسیح موعود ؑ کی زیر قیادت اس رسالہ نے کسرِ صلیب اور فتح اسلام میں نمایاں حصہ لیا۔
طاعون کی بیماری کو اکثر ناظرین جانتے ہوں گے۔ یہ ایک وبائی مرض ہے جس کے جراثیم چوہوں کے ذریعہ پھیلتے ہیں۔اور جب اس بیماری کا زورہوتا ہے تو گویا ایک آگ شعلہ زن ہو جاتی ہے جس میں ہزاروں لوگ ایک ایک دن میں بھسم ہونے لگتے ہیں۔ یہ بیماری قانون قدرت کے ماتحت پیدا ہوتی ہے اور عام حالات میں اس کی تہہ میں کوئی روحانی اسباب نہیں ہوتے مگر خدا کا قاعدہ ہے کہ بعض اوقات اس قسم کی بیماریوں کو بھی اپنے مرسلین کی صداقت کا نشان قرار دے دیتا ہے اور ان کے ذریعہ سے اپنے قائم کردہ سلسلوں کو ترقی دیتا ہے۔ چنانچہ جب شروع شروع میں طاعون کا مرض بمبئی میں ظاہر ہوا اور ابھی وہ پنجاب میں نہیں آیا تھا تو ۱۸۹۸ء میں حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک خواب دیکھا کہ بعض لوگ سیاہ رنگ کے کریہہ المنظر پودے لگا رہے ہیں اور جب آپ نے ان سے پوچھا کہ یہ کیسے پودے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو اب اس ملک پنجاب میں پھیلنے والی ہے اور آپ کو یہ بھی بتایا گیا کہ اس مرض کے پھیلنے کا روحانی باعث لوگوں کی بے دینی اور ان کی حالت کی خرابی ہے۔ ۱؎
اس کے بعد جلد ہی یہ مرض پنجاب میں بھی آگیا اور گو شروع میں اس کا حملہ زیادہ سخت نہیں تھا۔ مگر آہستہ آہستہ اس کی تیزی ترقی کرتی گئی حتیّٰ کہ ۱۹۰۲ء میں آکر اس نے پنجاب میں کافی زور پکڑ لیا۔ ان ایام میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر ظاہر کیا کہ یہ طاعون آپ کے لئے ایک خدائی نشان ہے اور اس کے ذریعہ خدا آپ کے ماننے والوں اور انکار کرنے والوں میں ایک امتیاز پیدا کر دے گا چنانچہ ان ایام میں جو الہام اس بارے میں آپ پر نازل ہوا وہ یہ تھا۔
’’ تُو اور جو شخص تیرے گھر کی چاردیوار کے اندر ہو گا اور وہ جو کامل پیروی اور اطاعت اور سچے تقویٰ سے تجھ میں محو ہو جائے گا وہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے۔ اور ان آخری دنوں میں خدا کا یہ نشان ہو گا تا وہ قوموں میں فرق کر کے دکھلاوے ۔ لیکن وہ جو کامل طور پر پیروی نہیں کرتا وہ تجھ میں سے نہیں ہے۔ اس کے لئے مت دلگیرہو…… قادیان میں سخت بربادی افگن طاعون نہیں آئے گی۔…… اور عموماً تمام لوگ اس جماعت کے گو وہ کتنے ہی ہوں مخالفوں کی نسبت طاعون سے محفوظ رہیں گے۔ ‘‘ ۱؎
آپ نے اس الہام کی تشریح یہ فرمائی کہ خدا تعالیٰ اس پیشگوئی کو ایسے طور سے ظاہر کرے گا کہ طالب حق کو کوئی شک نہیں رہے گا اور ہر اک غیر متعصب شخص سمجھ جائے گا کہ خدا نے اس جماعت کے ساتھ معجزانہ رنگ میں معاملہ کیا ہے اور طاعون کے ذریعہ سے آپ کی جماعت بہت بڑھے گی اور خارق عادت ترقی کرے گی اور ان کی یہ ترقی تعجب سے دیکھی جائے گی اور آپ نے لکھا کہ یہ جو خدا نے فرمایا ہے کہ جو بھی تیرے گھر کی چاردیواری کے اندر ہے میں اسے طاعون سے محفوظ رکھوںگا اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس جگہ گھر سے مراد صرف یہ خاک و خشت کا گھر ہے۔ بلکہ گھر کا لفظ وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے جس کے مفہوم میں ظاہری گھر کے علاوہ روحانی گھر بھی شامل ہے۔ پس آپ نے لکھا کہ میری کامل پیروی کرنے والا بھی اسی طرح طاعون سے محفوظ رہے گا جس طرح میرے ظاہری گھر کے اندر رہنے والے محفوظ رہیں گے۔
اس کے بعد طاعون نے بہت زور پکڑنا شروع کیا اور پنجاب کے مختلف حصوں میں اس قدر تباہی مچائی کہ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے قیامت کا نمونہ آگیا۔ ہزاروں دیہات ویران ہو گئے۔ سینکڑوں شہروں اور قصبوں کے محلے کے محلے خالی ہو گئے اور بعض جگہ ایسی تباہی آئی کہ مردوں کو دفن کرنے کے لئے کوئی آدمی نہیں ملتا تھا اور لاشیں سڑکوں اور گلیوں میں پڑی ہوئی سڑتی تھیں۔ یہ زور ۱۹۰۲ء میں شروع ہوا اور پھر تھوڑے تھوڑے وقفوں کیساتھ دن بدن تیز ہوتا گیا حتیّٰ کہ ۱۹۰۳ء سے لے کر ۱۹۰۷ء تک اس کے معراج کا زمانہ تھا۔
اس عرصہ میں جماعت احمدیہ نے اس حیرت انگیز رنگ میں ترقی کی کہ بعض اوقات ایک ایک دن میں پانچ پانچ سو بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمیوں کی بیعت کے خطوط پہنچتے تھے اور دنیاگھبرا کر خدا کے مسیح کا دامن پکڑنے کے لئے ٹوٹی پڑتی تھی۔ لوگوں کا یہ غیر معمولی رجوع کسی وہم کی بنا پر نہیں تھا بلکہ ہر غیر متعصب شخص کو یہ صاف نظر آرہا تھا کہ اس عذاب کے پیچھے خدا کاہاتھ مخفی ہے جو اپنی قدیم سنت کے مطابق ماننے والوں اور انکار کرنے والوں میں امتیاز کرتا چلا جا رہا ہے۔ بے شک جیسا کہ الہام میں بھی اشارہ تھا بعض خال خال موتیں احمدیوں میں بھی ہوئیں کیونکہ بسا اوقات جنگ میں فاتح فوج کے بعض سپاہی بھی مارے جاتے ہیں لیکن ان شاذ و نادر اموات کو اس خطرناک ہلاکت سے کوئی نسبت نہیں تھی جو طاعون نے حضرت مسیح موعود کے منکرین میں برپا کی۔ پس لوگوں کا یہ رجوع وہم پر مبنی نہیں تھا بلکہ بصیرت پر مبنی تھا کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ اس وقت خدا کے عذاب کا حقیقی علاج سوائے اس کے کچھ نہیں کہ اس کے مسیح کی غلامی کو قبول کیا جاوے۔ الغرض ان ایام میں جماعت احمدیہ نے نہایت خارق عادت رنگ میں ترقی کی اور پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ اس زمانہ میں لوگوں کے رجوع کو دیکھ کر بعض اوقات حضرت مسیح موعود ؑ مسکرا کر فرمایا کرتے تھے کہ ہماری جماعت کے بہت سے لوگ طاعونی احمدی ہیں کہ جب لوگوں نے دوسرے دلائل سے نہیں مانا تو خدانے انہیں عذاب کا طماچہ دکھا کر منوایا۔
اسی طرح اس پیشگوئی کا دوسرا حصہ بھی کامل صفائی سے پورا ہوا یعنی قادیان میں طاعون آئی اور بعض اوقات کافی سخت حملے بھی ہوئے مگر اپنے وعدہ کے مطابق خدا نے اسے اس تباہ کن ویرانی سے بچایا جو اس زمانہ میں دوسرے دیہات اور قصبات میں نظر آرہی تھی اور پھر لطف یہ ہے کہ خدا نے اپنے نشان کو پورا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود ؑ کے مکان کے اردگرد بھی طاعو ن کی تباہی دکھائی اور آپ کے پڑوسیوں میں کئی موتیں ہوئیں مگر اس سارے عرصہ میں آپ کے مکان میں کسی انسان کا مبتلائے مرض ہونا تو الگ رہا کبھی ایک چوہا تک بھی نہیں مرا۔ اور خدا نے چاروں طرف آگ لگا کر بتا دیا کہ اس وسیع آگ کے میدان میں اگر کوئی امن کی جگہ ہے تو بس یہی ایک مکان ہے جس کی حفاظت کا وعدہ دیا گیا ہے۔ پھر ایک اور لحاظ سے بھی طاعون نے خدا کے مسیح کی خدمت کی۔ وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے کئی نامور دشمن اس مرض میں مبتلا ہو کر موت کا لقمہ بن گئے۔ مثلاً ۱۹۰۲ء میں ہی جو طاعون کے زور کا پہلا سال تھا سلسلہ احمدیہ کا ایک اشد مخالف مولوی رسل بابا امرتسری جو پنجاب کے حنفیوں کا سرکردہ تھا طاعون سے ہلاک ہوا۔ اسی طرح کئی اور مخالف طاعون کا شکار ہوئے۔ ان ہلاک ہونے والوں میں بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئی کا سن کر اس کے مقابل پر خود اپنے لئے بھی یہ پیشگوئی کی تھی کہ وہ طاعون سے محفوظ رہیں گے ۔ مگر خدا نے ایسے لوگوں کو چن چن کر لیا اور جن لوگوں نے ایسا دعویٰ کیا تھا ان میں سے ایک بھی نہیں بچا چنانچہ ہم ان میں سے بعض کا ذکر آگے چل کر کریں گے۔
حضرت مسیح موعود ؑ کی تعلیم کا خلاصہ :۔ جب ۱۹۰۲ء میں طاعون کا زور ہونے لگا تو
حضرت مسیح موعود نے اپنی جماعت کو نصیحت اور لوگوں کو تباہی سے بچانے کے لئے ایک کتاب لکھ کر شائع فرمائی جس کا نام آپ نے ’’ کشتی نوح ‘‘ رکھا ۔ گویا اس تباہی کے طوفان میں ایک نوح ؑ کی کشتی تھی جس میں بیٹھ کر لوگ اس ہلاکت سے بچ سکتے تھے۔ اس کتاب میں آپ نے اپنی تعلیم کا خلاصہ پیش کیا اور بتایا کہ آپ اپنی جماعت سے کن عقائد اور کن اعمال کی توقع رکھتے ہیں۔ ہم اس تعلیم کا ضروری اقتباس اس جگہ ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں۔ آپ نے لکھا۔
’’ اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جائو گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے…… یاد رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے۔ ہر اک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہو گی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہو گا۔ ضرور ہے کہ انواع رنج و مصیبت سے تمہارا امتحان بھی ہو جیسا کہ پہلے مومنوں کے امتحان ہوئے۔ سو خبردار رہو ایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھائو۔ زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے۔ جب کبھی تم اپنا نقصان کرو گے تو اپنے ہاتھوں سے نہ دشمن کے ہاتھوں سے ……… یہ مت خیال کرو کہ ہم نے ظاہری طور پر بیعت کرلی ہے۔ ظاہر کچھ چیز نہیں۔ خدا تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور اسی کے موافق تم سے معاملہ کرے گا۔ دیکھو میں یہ کہہ کر فرض تبلیغ سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ گناہ ایک زہر ہے اس کو مت کھائو۔ خدا کی نافرمانی ایک گندی موت ہے اس سے بچو۔ دعا کرو ۔ تا تمہیں طاقت ملے۔ جو شخص دعا کے وقت خدا کو ہر ایک بات پرقادر نہیں سمجھتا بجز ووعدہ کی مستثنیات کے وہ میری جماعت میں سے نہیں۔ جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص دنیا کے لالچ میں پھنسا ہوا ہے اور آخرت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص پورے طور پر ہر ایک بدی سے اور ہر ایک بدعملی سے یعنی شراب سے قمار بازی سے بدنظری سے اور خیانت سے اور رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرف سے توبہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص پنجگانہ نماز کا التزام نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص دعا میں لگا نہیں رہتا اور انکسار سے خدا کو یاد نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص بد رفیق کو نہیں چھوڑتا جو اس پر بد اثر ڈالتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امورِ معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں ان کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعہد خدمت سے لاپروا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص اپنی اہلیہ اور اس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص اپنے ہمسایہ کو ادنیٰ ادنیٰ خیر سے بھی محروم رکھتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص نہیں چاہتا کہ اپنے قصور وار کا گناہ بخشے اور کینہ پرور آدمی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔جو شخص اس عہدکو جو اس نے بیعت کے وقت کیا تھا کسی پہلو سے توڑتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔جو شخص مجھے فی الواقع مسیح موعود و مہدی معہود نہیں سمجھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔اور جو شخص امور معروفہ میں میری اطاعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔اور جو شخص مخالفوں کی جماعت میں بیٹھتا ہے اور ہاں میں ہاں ملاتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ ہر ایک زانی ،فاسق ،شرابی ،خونی ،چور ،قمار باز ،خائن ،مرتشی ،غاصب ،ظالم ،دروغ گو، جعلساز اور ان کا ہم نشین اور اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے توبہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔
یہ سب زہریں ہیں۔ تم ان زہروں کو کھا کر کسی طرح بچ نہیں سکتے اور تاریکی اور روشنی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی۔ ہر ایک جو پیچ در پیچ طبیعت رکھتا ہے اور خدا کے ساتھ صاف نہیں ہے وہ اس برکت کو ہرگز نہیں پاسکتا جو صاف دلوں کو ملتی ہے …… کیا ہی قادر اور قیوم خدا ہے جس کو ہم نے پایا ؟ کیا ہی زبردست قدرتوں کا مالک ہے جس کوہم نے دیکھا ؟ سچ تو یہ ہے کہ اس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں مگر وہی جو اس کی کتاب اور وعدہ کے برخلاف ہے۔ سو جب تم دعا کرو تو ان جاہل نیچریوں کی طرح نہ کرو جو اپنے ہی خیال سے ایک قانون قدرت بنا بیٹھے ہیں جس پر خدا کی کتاب کی مہر نہیں۔ کیونکہ وہ مردود ہیں۔ ان کی دعائیں ہرگز قبول نہیں ہوں گی۔ وہ اندھے ہیں نہ سوجاکھے۔ وہ مردے ہیں نہ زندے خدا کے سامنے اپنے تراشیدہ قانون پیش کرتے ہیں اور اس کی بے انتہاء قدرتوں کی حد بست ٹھہراتے ہیں اور اس کو کمزور سمجھتے ہیں سو ان سے ایسا ہی معاملہ کیا جائے گا جیسا کہ ان کی حالت ہے …… کیا بدبخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے۔ ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے۔ ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی۔ یہ دولت لینے کے لائق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔ اے محرمو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا۔ یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا۔ میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں۔ کس دف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں۔
اگر تم خدا کے ہو جائو گے تو یقینا سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے ۔ تم سوئے ہوئے ہو گے اور خدا تمہارے لئے جاگے گا۔ تم دشمن سے غافل ہو گے اور خدا اسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑے گا…… میں تمہیں حد اعتدال تک رعایت اسباب سے منع نہیں کرتا بلکہ اس سے منع کرتا ہوں کہ تم غیر قوموں کی طرح نرے اسباب کے بندے ہو جائو اور اس خدا کو فراموش کر دو جو اسباب کو بھی وہی مہیا کرتا ہے۔ اگر تمہیں آنکھ ہو تو تمہیں نظر آجائے کہ خدا ہی خدا ہے اور سب ہیچ ہے۔ تم نہ ہاتھ لمبا کر سکتے ہو اور نہ اکٹھا کر سکتے ہو مگر اس کے اذن سے۔ ایک مردہ اس پر ہنسی کرے گا مگر کاش اگر وہ مر جاتا تو اس ہنسی سے اس کے لئے بہترتھا۔ خبردار ! !! تم غیر قوموں کو دیکھ کر ان کی رِیس مت کرو کہ انہوں نے دنیا کے منصوبوں میں بہت ترقی کر لی ہے آئو ہم بھی انہیں کے قدم پر چلیں۔ سنو اور سمجھو کہ وہ اس خدا سے سخت بیگانہ اور غافل ہیں جو تمہیں اپنی طرف بلاتا ہے ۔ ان کا خدا کیا چیز ہے صرف ایک عاجز انسان۔ اس لئے وہ غفلت میں چھوڑے گئے۔ میں تمہیں دنیا کے کسب اور حرفت سے نہیں روکتا مگر تم ان لوگوں کے پیرو مت بنو جنہوں نے سب کچھ دنیا کو ہی سمجھ رکھا ہے ……
عقیدہ کی روح سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک ہے اور محمد ﷺ اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے۔ اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور سے محمدیت کی چادر پہنائی گئی۔ کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جدا نہیں اور نہ شاخ اپنی بیخ سے جدا ہے۔ پس جو کامل طور پر مخدوم میں فنا ہو کر خدا سے نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت کا خلل انداز نہیں جیسا کہ تم جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دونہیں ہو سکتے بلکہ ایک ہی ہو اگرچہ بظاہر دو نظر آتے ہیں۔ صرف ظل اور اصل کا فرق ہے۔ سو ایسا ہی خدا نے مسیح موعود میں چاہا …… میں روحانیت کی رو سے اسلام میں خاتم الخلفاء ہوں جیسا کہ مسیح ابن مریم اسرائیلی سلسلہ کے لئے خاتم الخلفاء تھا۔ موسیٰ کے سلسلہ میں ابن مریم مسیح موعود تھا اور محمدی سلسلہ میں مَیں مسیح موعود ہوں … …… مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا۔ میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں۔ بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔ ‘‘ ۱؎
حضرت مسیح موعود ؑ کاتعلیم و تربیت کا طریق :۔ گذشتہ صفحات میں ان ظاہری اور
باطنی طاقتوں کا ذکر گزر چکا ہے جو حضرت مسیح موعود ؑ کی طرف سے تبلیغی میدان میں زیر عمل آرہی تھیں۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ ان ذرائع کو بھی بیان کر دیا جائے جو آپ اپنی جماعت کی اخلاقی اور روحانی اور علمی اور عملی تربیت کے لئے اختیار فرماتے تھے۔ اس ضمن میں اصولی طور پر تو صرف اس قدر جاننا کافی ہے کہ آپ کا طریق وہی تھا جو ہمیشہ سے خداکے رسولوں اور نبیوں کا رہا ہے وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًـا تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ آپ اپنی جماعت کی تعلیم و تربیت کے لئے ظاہری اور روحانی اسباب ہر دو کو استعمال فرماتے تھے۔ ان اسباب کا مختصر خاکہ یہ ہے کہ :۔
اوّل جب آپ کسی شخص کو اپنی جماعت میں داخل کرنے لگتے تھے تو اس کی طرف سے صرف اس بات کے عمومی اظہار کو کافی خیال نہیں فرماتے تھے کہ میں نے آپ کو قبول کر لیا ہے بلکہ ایک باقاعدہ اقرار کے ذریعہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر یہ عہد لیتے تھے کہ میں آپ کے دعووں پر ایمان لاتے ہوئے اپنے گزشتہ گناہوں سے توبہ کرتا ہوں اور آئندہ کے لئے وعدہ کرتا ہوں کہ ہر قسم کے گناہ سے بچنے کی کوشش کروں گا اور ہر معاملہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ اقرار اور یہ عہدنامہ جو بیعت کرنے والے کو اپنے سامنے بٹھا کر اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر منہ در منہ لیا جاتا تھا اس کی بعد کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک پختہ بنیاد بن جاتا تھا اور بیعت میں داخل ہونے کے ساتھ ہی وہ اپنے اندر ایک ایسی تبدیلی محسوس کرتا تھا جو اسے بعد میں ہر لحظہ طہارت اور پاکیزگی اور اصلاح نفس کی بلندیوں کی طرف اٹھاتی چلی جاتی تھی۔ یہ درست ہے کہ بعض اوقات جب کسی شخص کو خود حاضر ہو کر دستی بیعت کا موقعہ نہ مل سکتا ہو تو خط کے ذریعہ تحریری بیعت کا رستہ بھی کھلا تھا مگر یہ تحریری بیعت بھی بہر حال ایک عہد اور اقرار کا رنگ رکھتی تھی جس کے بعد ہر بیعت کنندہ یہ محسوس کرتا تھا کہ اب مجھے زندگی کا ایک نیا ورق الٹنا چاہئے۔ پس تعلیم و تربیت کا پہلا ذریعہ وہ عہد اور وہ اقرار تھا جو بیعت کرنے والے سے ذاتی طور پر لیا جاتا تھا جس کے بعد ہر بیعت کنندہ گویا خود اپنے اعمال کا نگران اور محاسب ہو جاتا تھا۔ حضرت مسیح موعود ؑ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بیعت کے معنی اپنے آپ کو فروخت کر دینے اور اپنے مرشد کے ہاتھ پر بِک جانے کے ہیں۔ پس جو شخص بیعت کے بعد کوئی رنگ دُوئی کا رکھتا ہے اور اپنے آقا کے ساتھ کامل اتحاد و اتصال پیدا نہیں کرتا وہ اپنے عہد میں سچا نہیں ہے۔
دوم دوسرا بڑا ذریعہ آپ کا یہ تھا کہ آپ ہمیشہ تحریر اور تقریر کے ذریعہ اپنی جماعت کے لوگوں کو ان کے غلط خیالات کی اصلاح اور خراب اور ناپسندیدہ اعمال کی درستی کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے اوران کے دلوں میں خدا کے ساتھ تعلق پیدا کرنے اور اپنے نفسوں کی اصلاح کرنے اور مخلوق کے ساتھ انصاف اور احسان کا معاملہ کرنے کے لئے جوش پیدا کرتے رہتے تھے اور آپ کی یہ عادت تھی کہ اپنی جماعت کے لوگوں کے خیالات اور ان کے اعمال کو گہری نظر کے ساتھ دیکھتے رہتے تھے اور ان کی کمزوریوں اور نقصوں کے مناسب حال اپنی تحریر و تقریر میں نصیحت کا طریق اختیار فرماتے تھے۔ مگر عموماً آپ کسی فرد کو مخاطب کر کے اور اس کے کسی نقص کی طرف اشارہ کر کے نصیحت نہیں فرماتے تھے بلکہ جب کسی فرد یا افراد میں کوئی نقص دیکھتے تو اس کا یا ان کا نام لینے کے بغیر عمومی رنگ میں نصیحت فرماتے تھے۔
زبانی نصیحت کے لئے آپ عموماً پنجگانہ نماز کے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے تھے یعنی آپ کا یہ طریق تھا کہ بعض نمازوں کے بعد آپ مسجد میں ہی بیٹھ جاتے تھے اور دوسرے لوگ آپ کے اردگرد جمع ہو جاتے تھے اور پھر موقعہ اور حالات کے مناسب گفتگو ہوتی رہتی تھی اور لوگ آپ کی باتوں کو نہایت شوق اور محبت کے ساتھ سنتے اور آپ کے مبارک کلام کو اپنے اندر جذب کرتے جاتے تھے۔ یہ مجلس نہایت بے تکلفی کی مجلس ہوتی تھی جس میں ہر شخص آپ کے ساتھ بے تکلفی کے انداز میں گفتگو کرتا تھا اور آپ ہر شخص کی بات کو سنتے اور اس کا جواب دیتے تھے۔ اس مجلس میں بیٹھنے والوں کے لئے کوئی ترتیب مقرر نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی آپ کے لئے کوئی خاص مسند ہوتی تھی۔ بلکہ آپ اور آپ کے ساتھی بے تکلفی کے رنگ میں جسطرح ایک مشفق باپ کے اردگرد اس کے بیٹے بیٹھے ہوں اکٹھے بیٹھ کر گفتگو فرماتے تھے اور مجلس میں ہر قسم کی گفتگو ہوتی تھی یعنی دشمنوں کا ذکر بھی ہوتا تھا اور دوستوں کا بھی قوموں کا بھی اور افراد کا بھی۔ پرائیویٹ باتوں کا بھی اور پبلک کا بھی۔ عقائد و خیالات کا بھی اور اعمال و افعال کا بھی ۔ جماعت کی موجودہ مشکلات کا بھی اور اس کی آئندہ ترقیات کا بھی ۔ غرض ہر رنگ کی گفتگو رہتی تھی اور سب لوگ اپنی باتوں کو سادگی اور بے تکلفی کے ساتھ پیش کرتے تھے اور آپ ان کے جواب میں اسی سادگی اور بے تکلفی کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے۔ غرض یہ ایک علم و عرفان اور محبت و وفا کادرس تھا جو آپ کی مجلس میں جاری رہتا تھا اور ہر شخص اپنی بساط اور اپنی استعداد کے مطابق اس چشمہ سے پانی لیتا تھا۔ اسی طرح کے موقعے آپ کی روزانہ سیروں میں بھی میسر آتے تھے جو آپ عموماً ہر روز صبح کے وقت اپنے دوستوں کے ساتھ فرمایا کرتے تھے اور قادیان سے باہر دو دو تین تین میل تک چہل قدمی کرتے ہوئے نکل جاتے تھے۔ اس وقت بھی اس شمع کے پروانے آپ کے گرد گھومتے تھے اور ہر شخص آپ کے ساتھ چھو کربرکت و معرفت کا جام پیتا تھا۔ یہ مجلسیں اور یہ سیریں گویا ایک روحانی دھوبی کا کارخانہ تھیں س میں لوگوں کی میلیں خود بخود دھلتی چلی جاتی تھیں اور وہ طہارت اور پاکیزگی کے میدان میں اپنے ہر قدم کو دوسرے قدم سے آگے پاتے تھے۔ اسی طرح تحریر کے میدان میں آپ کی کتابیں اور اشتہارات اور جماعت کے رسالے اور اخبارات ایک نہایت ماہر استاد کی طرح لوگوں کو اوپر اٹھانے میں لگے ہوئے تھے اور جلسہ سالانہ کے اجتماع بھی جماعت میں ایک تازہ زندگی کی روح پھونکتے تھے۔
سوم تیسرا بڑا ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت کا یہ تھا کہ آپ جماعت کو ہر وقت اپنے مخالفین کے خلاف اس قلمی اور لسانی جہاد میں لگائے رکھتے تھے جس میں آپ خود ہر لحظہ مصروف رہتے تھے۔ بظاہر اس بات کا جماعت کی اندرونی تعلیم و تربیت کے ساتھ تعلق نظر نہیں آتا مگر حقیقۃً ان دونوں باتوں کا ایک بہت بھاری اور نہایت عمیق تعلق ہے جسے آپ خوب سمجھتے تھے چنانچہ ایک دفعہ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے جو بعد میں آپ کے خلیفہ ہوئے آپ سے دریافت کیا کہ مجھے اپنے نفس کی اصلاح کے لئے کوئی خاص عمل بتائیں جس پر آپ نے انہیں فرمایا کہ اس وقت اسلام کے خلاف عیسائیوں کے بہت حملے ہو رہے ہیں آپ ان کے جواب میں کوئی کتاب لکھ کر شائع کریں۔ اس کے بعد پھر ایک دفعہ حضرت مولوی صاحب نے ایسا ہی سوال کیا تو آپ نے انہیں آریوں کے خلاف کتاب لکھنے کی ہدایت فرمائی اور حضرت مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ان تصنیفات نے بہت ہی فائدہ دیا۔ غرض حضرت مسیح موعود ؑ کا بڑا ذریعہ تعلیم و تربیت کا یہ بھی تھا کہ آپ اپنی جماعت کو ہر وقت جہاد میں مصروف رکھتے تھے جس میں ان کو کئی لحاظ سے فائدہ پہنچتا تھا مثلاً (۱) ان کے علم و معرفت میں ترقی ہوتی تھی۔ (۲) ان کی توجہ مسلسل طور پر ایک دینی ا ور ملی کام میں لگی رہتی تھی جو اپنی ذات میں اصلاح نفس کا ایک بڑا ذریعہ ہے ۔ (۳) اس جہاد میں انکو یہ احساس رہتا تھا کہ ہم دوسروں کے لئے ایک عمدہ نمونہ بنیں تا کہ ہمارا فعل ہمارے قول کا مؤید رہے۔ (۴) ان کا وقت ہمیشہ ایک مفید کام میں لگا رہتا تھا جس کی وجہ سے وہ اس دماغی بیکاری سے بچے رہتے تھے جوبہت سی خباثتوں کی ماں ہے (۵) وہ خدا سے ان برکتوں کا حصہ پاتے تھے جو ازل سے دین کے سچے خادموں کے لئے مقدر ہو چکی ہیں۔ الغرض آپ ہمیشہ اپنی جماعت کو دوسروں کے مقابلہ میں لگائے رکھتے تھے کیونکہ آپ اس نکتہ کو خوب سمجھتے اور جانتے تھے کہ قومی زندگی دفاع میں نہیں بلکہ حملہ میں مخفی ہے۔
چہارم ۔ چوتھا بڑا ذریعہ جماعت کی تربیت کا یہ تھا کہ آپ اپنی جماعت سے دین کی خاطر مالی قربانی کرواتے رہتے تھے اور بار بار کی تحریک سے ان کے اندر اس جوش کو زندہ رکھتے تھے کہ اسلام اور احمدیت کی خاطر اپنے اموال میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ نکالیں اور یہ قربانی ان کی ایمانی روح کو ہر وقت چوکس اور ہوشیار رکھتی تھی اور ان کے اندر یہ احساس پیدا کرتی تھی کہ دین ایک ایسی چیز ہے جس کے مقابلہ پر دنیا کے مال و دولت کی کوئی قیمت نہیں۔
پنجم ۔ پانچواں بڑا ذریعہ جماعت کی تربیت کا آپ کا ذاتی روحانی اثر تھا جو ایک زبردست بیٹری کی صورت میں ہراس شخض میں روحانی طاقت بھر دیتا تھا جو نیک نیتی کے ساتھ اور صلاحیت کا مادہ لے کر آپ کے قریب آتا تھا اور ایک طرح سے یہ ذریعہ دوسرے سارے ذریعوں سے بڑا تھا کیونکہ اس میں وہ خاموش بجلی کا اثر کام کرتا تھا جو دنیا کی تحریکی طاقتوں میں سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس عمل میں سے گزر کر ہر شخص اپنی فطری استعداد اور اپنی قوت جذب کے لحاظ سے خود ایک بیٹری بن جاتا تھا اور بڑے مقناطیس سے رگڑ کھا کھا کر لوہے کے ٹکڑے مقناطیسی صفات حاصل کرتے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ آپ کا اعلیٰ اخلاقی اور روحانی نمونہ بھی لوگوں کے لئے اصلاح کا ایک نہایت عمدہ ذریعہ تھا جسے دیکھ کر اور جس کی نقل کی کوشش کر کے وہ اس میدان میں آگے بڑھتے جاتے تھے۔
ششم۔ چھٹا بڑا ذریعہ آپ کی وہ درد مندانہ دعائیں تھیں جو ہر وقت اپنے متبعین کے لئے آسمان کی طرف اٹھتی تھیں اور آسمانی طاقتوں کو حرکت میں لا کرجماعت کی روحانی ترقیات کا باعث بن رہی تھیں۔ اس زمانہ کے مادہ پرست لوگ اس ذریعہ کی حقیقت اور اس کی طاقت کو نہیں سمجھتے لیکن درحقیقت یہ ایک بہت بھاری ہتھیار ہے جو ہر نبی کو اس کی جماعت کی اصلاح اور ترقی کے لئے دیا جاتا ہے۔
جماعت کے چندوں کی تنظیم :۔ اس وقت تک جماعت کے کام ایسے چندوں پر چل رہے
تھے جو مختلف احباب سلسلہ کی ضروریات کا اندازہ کر کے یا وقتی تحریک کے جواب میں اپنے اخلاص کے مطابق اپنی خوشی سے دیتے رہتے تھے۔ بے شک بعض دوست باقاعدہ ماہوار چندہ بھی دیتے تھے مگر یہ طریق ان کی اپنی خوشی پر موقوف تھا اور حضرت مسیح موعود ؑ کی طرف سے کوئی ایسی تحریک نہیں تھی کہ ہر شخص ضرور باقاعدہ ماہوار چندہ دے۔ علاوہ ازیں شروع میں سلسلہ کا کام زیادہ تر تین مدات میں منقسم تھا یعنی اوّل کتب اور رسالہ جات کی اشاعت جن میں سے ایک معقول حصہ مفت تقسیم کیا جاتا تھا۔ دوم اشتہارات کی اشاعت جو کلیۃً مفت تقسیم ہوتے تھے۔ سوم مہمان نوازی کا خرچ جو دن بدن زیادہ ہو رہا تھا۔ ان کے علاوہ کسی قدر خط و کتابت اور غریب احمدیوں کی امداد کا خرچ بھی تھا۔ یہ سارے اخراجات ان چندوں سے پورے کئے جاتے تھے جو جماعت کے دوست اپنی خوشی سے بھجواتے رہتے تھے ۔ لیکن اب نہ صرف ہر مد کا خرچ بڑھ گیا تھا اور خصوصاً مہمانخانہ کا خرچ بہت زیادہ ہو گیا تھا بلکہ بعض نئی مدات بھی نکل آئی تھیں۔ مثلاً تعلیم الاسلام ہائی سکول کا چندہ۔ ریویو آف ریلیجنز کا چندہ امدادی وغیرہ اس لئے حضرت مسیح موعود ؑ نے ۱۹۰۲ء میں ایک اشتہار کے ذریعہ جماعت کے نام یہ ہدایت جاری فرمائی کہ آئندہ ہر احمدی باقاعدہ ماہواری چندہ دیا کرے جس میں کسی صورت میں تخلف نہ ہو۔ آپ نے اس چندہ کی کوئی شرح مقرر نہیں فرمائی بلکہ رقم کی تعیین کو ہر شخص کے اخلاص اور حالات پر چھوڑا لیکن یہ لازم قراردیا کہ ہر شخص اپنے لئے ایک رقم معین کر کے اطلاع دے کہ وہ کس قدر چندہ ماہوار دے سکتا ہے اور پھر جس قدر رقم کا وہ وعدہ کرے خواہ وہ ایک پیسہ ہی ہو وہ باقاعدہ ہر ماہ بھجواتا رہے اور آپ نے اس بارے میں اس قدر تاکید فرمائی کہ حکم دیا کہ جو شخص اس قسم کی پابندی اختیار نہیں کرے گا یا رقم مقرر کرنے کے بعد پھر تین ماہ تک رقم کی ادائیگی میں غفلت سے کام لے گا اسے جماعت سے خارج کر دیا جائے گا اور سمجھا جائے گا کہ اس الٰہی سلسلہ کے ساتھ اس کا تعلق حقیقت اور اخلاص پر مبنی نہیں ہے کیونکہ جو شخص صداقت کی خاطر ادنیٰ قربانی کے لئے بھی تیار نہیں ہو سکتا اور اس قربانی پر دوام اختیار نہیں کرتا وہ سچا احمدی نہیں سمجھا جا سکتا۔ ۱؎
یہ وہ بنیادی اینٹ تھی جس پر سلسلہ کے چندوں اور محاصل کی عمارت کھڑی ہوئی ہے اس کے بعد آہستہ آہستہ چندہ کی شرح بھی مقرر ہو گئی اور مدات میں بھی اس قدر اضافہ ہو گیا کہ اب جماعت احمدیہ کا مجموعی بجٹ دس لاکھ روپے کے قریب ہوتا ہے اور اس عدد میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے مگر پھر بھی اس وسیع کام کے مقابلہ پر جو جماعت کے ذمہ ہے یہ رقم بالکل ناکافی اور غیر مکتفی ثابت ہوتی ہے اور جماعت کی مدات ہمیشہ بھاری قرضہ کے نیچے دبی رہتی ہیں۔
جیسا کہ بتایا جا چکا ہے جب حضرت مسیح موعود ؑ نے ابتداء میں مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا تو آپ کی مخالفت میں مسلمانوں میں سے سب سے زیادہ جوش دکھانے والا مولوی محمد حسین بٹالوی تھا۔ مولوی صاحب نے سلسلہ احمدیہ کے ابتدائی سالوں میں مخالفت کو انتہاء تک پہنچا دیا اور گو ملک کے اکثر مولوی اس مخالفت میں گرم جوشی کے ساتھ حصہ لے رہے تھے مگر ان سب کے لیڈر اور مدار المہام یہی مولوی صاحب تھے جو مسلسل طور پر کئی سال تک سلسلہ احمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش رہے لیکن اب آہستہ آہستہ ان کا زور ٹوٹ رہا تھا اور وہ اپنی تمام قوت کو ختم کر کے اور مخالفت کو بے اثر پا کر کسی قدر ڈھیلے پڑ رہے تھے ۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ سلسلہ احمدیہ کی مخالفت میں کمی آگئی تھی کیونکہ ان کے سست ہونے پر کئی دوسرے لوگ ان کی جگہ لینے کے لئے تیار تھے اور لے رہے تھے چنانچہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی بھی جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے انہی لوگوں میں سے تھے جو مولوی محمد حسین صاحب کے ڈھیلے پڑنے پر سلسلہ کی مخالفت میں آگے آرہے تھے۔ اسی طرح ایک صاحب بابو الٰہی بخش لاہور کے رہنے والے تھے جو کسی زمانہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کے معتقد بھی رہ چکے تھے مگر بعد میں مخالف ہو گئے تھے اور آجکل ان کی مخالفت زوروں پر تھی۔ اسی طرح امرتسر کا غزنوی خاندان بھی شروع سے مخالفت میں پیش پیش چلا آیا تھا۔
مگر اب ۹۱۰۲ء میں آکر ایک اور شخص آگے آیا جس کا نام مولوی ثناء اللہ تھا۔ یہ صاحب امرتسر کے رہنے والے تھے (یا یوں کہنا چاہئے کہ رہنے والے ہیں کیونکہ وہ ایک خدائی نشان کے نتیجہ میں اب تک زندہ ہیں) اور جب انہوں نے مخالفت کے میدان میں قدم رکھا تو اسے انتہاء تک پہنچا دیا۔ شروع شروع میں تو وہ معمولی طور پر مخالفانہ مضامین لکھتے رہے لیکن ۱۹۰۲ء کے آخر میں انہوں نے جماعت احمدیہ کو مناظرہ کا چیلنج دیا۔ حضرت مسیح موعود ؑ تو چونکہ ۱۸۹۶ء سے ہی اپنے متعلق یہ اعلان فرما چکے تھے کہ چونکہ مناظرہ میں ضد اور ہٹ دھرمی پیدا ہوتی ہے اور عوام کے اخلاق پر بھی برا اثر پڑتا ہے اس لئے میں آئندہ کسی سے مناظرہ نہیں کروں گا لہٰذا جماعت کی طرف سے سلسلہ کے ایک عالم مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب مناظرہ کے لئے بھجوائے گئے اور بمقام مد ضلع امرتسر یہ مناظرہ منعقد ہوا۔ لیکن اس مناظرہ میں بھی اس تلخ تجربہ کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوا جو حضرت مسیح موعود ؑ کوپہلے مناظروں میں حاصل ہو چکا تھا یعنی یہ کہ تحقیق حق کی بجائے ضد اور ہٹ دھرمی نے ترقی کی۔ اس پر حضرت مسیح موعود ؑ نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو چیلنج دیا کہ فیصلہ کا اصل طریق تو خدائی نصرت اور روحانی طاقت کا امتحان ہے۔ پس اس کی طرف توجہ دینی چاہئے اور آپ نے لکھا کہ میں مناظرہ مد کے حالات کے متعلق ایک قصیدہ عربی زبان میں لکھتا ہوں مولوی صاحب کو جید عالم ہونے کا دعویٰ ہے سو اگر ان میں طاقت ہے اور خدا کی نصرت ان کے ساتھ ہے تو اس کے مقابلہ پر ایسا ہی فصیح و بلیغ قصیدہ وہ بھی لکھ کر شائع کر دیں۔ پھر دنیا خود دیکھ لے گی کہ حق کس کے ساتھ ہے اور آپ نے فرمایا کہ اگر مولوی ثناء اللہ صاحب نے مقررہ میعاد کے اندر اس قسم کا قصیدہ لکھ کر شائع کر دیا تو میں اپنی شکست ماننے کے علاوہ انہیں دس ہزار روپیہ انعام بھی دوں گا۔ ۱؎ مگر افسوس کہ مولوی صاحب نے اس میدان میں قدم نہ رکھا۔
اس کے بعد مولوی ثناء اللہ صاحب کی مخالفت دن بدن اور بھی تیز ہوتی گئی اور حضرت مسیح موعود ؑ کے آخری ایام میں تو وہ گویا ایک طرح مخالفانہ تحریک کے لیڈر بن گئے اور ان کا اخبار ’’اہلحدیث‘‘ امرتسر سلسلہ احمدیہ کے خلاف تحقیر آمیز پراپیگنڈے سے بھرا ہوا ہوتا تھا ۔ اس پر حضرت مسیح موعود ؑ نے ۱۹۰۷ء میں مولوی ثناء اللہ صاحب کے متعلق ایک اشتہار شائع کیا جس میں لکھا کہ لمبی قیل و قال سے کیا حاصل ہے۔ فیصلہ کی آسان صورت یہ ہے کہ ہم دونوںاپنے مقدمہ کو خدا کے حضور پیش کر دیتے ہیں۔ اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ ہم میں سے جو فریق جھوٹا ہے خدا اسے سچے کی زندگی میں ہلاک کرے اور آپ نے لکھا کہ میرے اس اشتہار کو مولوی ثناء اللہ صاحب اپنے اخبار میں شائع کر دیں اور اپنی طرف سے اس کے نیچے جو چاہیں لکھ دیں۱؎ اس پر مولوی ثناء اللہ صاحب نے بڑا واویلا کیا اور لکھا کہ یہ اشتہار میری اجازت کے بغیر اور میری مرضی کے خلاف شائع ہوا ہے اور مجھے یہ طریق فیصلہ منظور نہیں اور نہ کوئی عقلمند اسے منظور کر سکتا ہے بلکہ یہاں تک لکھا کہ مسیلمہ کذاب آنحضرت ﷺ کے بعد تک زندہ رہا تھا تو کیا یہ بات اس کے سچا ہونے کی دلیل ہو گی۔ ۲؎ حالانکہ حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ نہیں لکھا تھا کہ ہر صورت میں دوسرے کی زندگی میں مرنا جھوٹے ہونے کی دلیل ہے بلکہ یہ لکھا تھا کہ بالمقابل دعا کے بعد نشان کے طور پر دوسرے کے سامنے ہلاک ہونا جھوٹے ہونے کی دلیل ہے اور آپ مولوی ثناء اللہ صاحب کے متعلق یہ بھی تحریر فرما چکے تھے کہ اگر مولوی صاحب نے اس طریق فیصلہ کو مان لیا کہ صادق کاذب سے پہلے مرے تو پھر وہ ضرور ہلاک ہوں گے۔ ۳؎ لیکن باوجود غیرت دلائے جانے کے مولوی صاحب نے اس فیصلہ کو نہ مانا اور صاف انکار کیا اور تکرار کے ساتھ صراحتاً لکھا کہ مجھے یہ طریق فیصلہ منظور نہیں۔ پس جب مولوی صاحب نے اس طریق فیصہ کو رد کر دیا بلکہ پیچھے زندہ رہنے والے کو مسیلمہ کذاب قرار دیا تو خدا نے ان کا پھندا انہی پر لوٹا دیا اور ان کی رسی دراز کر دی۔ چنانچہ وہ اب تک اپنے ہی پیش کردہ اصول یَمُدُّھُمْ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ کے ماتحت سلسلہ احمدیہ کے لئے کھاد کا کام دے رہے ہیں۔ اور اس عذاب سے حصہ لے رہے ہیں جو دنیا کے سخت ترین عذابوں میں سے ایک عذاب ہے یعنی اپنی آنکھوں سے اپنی ذلت و ناکامی اور اپنے مخالف فریق کی عزت و کامیابی کو دیکھنا اوراس کی جماعت کی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کو مشاہدہ کرنا۔ ان حالات میں یہ یقینی ہے کہ جب تک وہ اپنی پوری ڈور حاص نہیں کر لیں گے ملک الموت ان کی آخری قضاء و قدر کو روکے رکھے گا۔ لیکن حضرت مسیح موعود ؑ کے بعض الہاموں سے پتہ لگتا ہے کہ بالآخر مولوی ثناء اللہ صاحب کی موت بھی جب بھی کہ وہ ہو گی حضرت مسیح موعود ؑ کی صداقت کا ایک نشان ہو گی جس طرح کہ ان کی زندگی ایک نشان ہے۔
ایک اور مقدمہ کا آغاز اور سفرِ جہلم اور سفرِ گورداسپور :۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت
مسیح موعود ؑ کے دشمنوںکا ایک حربہ یہ بھی تھا کہ آپ پر جھوٹے مقدمات کھڑے کر کے نقصان پہنچایا جاوے۔ چنانچہ ۱۹۰۳ء کے شروع میں آپ کے خلاف پھر ایک فوجداری مقدمہ قائم کیا گیا۔ یہ مقدمہ ایک شخص مولوی کرم دین ساکن بھیں ضلع جہلم کی طرف سے تھا جس میں مولوی کرم دین نے یہ استغاثہ دائر کیا تھا کہ مرزا صاحب نے میرے متعلق اپنی کتاب ’’مواہب الرحمن‘‘ میں جھوٹے اور کمینہ کے الفاظ لکھے ہیں جو میری ازالہ حیثیت عرفی کا موجب ہوئے ہیں۔ اس مقدمہ کی بنا یہ تھی کہ مولوی کرم دین نے حضرت مسیح موعودؑ کو ایک خط لکھا تھا جس میں یہ ظاہر کیا تھا کہ میں آپ کا ہمدرد ہوں اور اس میں یہ اطلاع دی تھی کہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی جو کتاب آپ کی کتاب ’’ اعجاز المسیح‘‘ کے مقابلہ پر لکھ رہے ہیں اس میں انہوں نے ایک دوسرے شخص کی کتاب کے مسودہ سے سرقہ کیا ہے۔ مولوی کرم دین کا یہ خط اخبار الحکم قادیان میں چھاپ دیاگیا تا کہ یہ ظاہر ہو کہ سلسلہ کے مخالفین کس اخلاق اور کس ذہنیت کے لوگ ہیں۔اس پر مولوی کرم دین نے بر افروختہ ہو کرایک مضمون شائع کیا کہ میں نے یونہی ہنسی اور امتحان کے خیال سے یہ ساری بات لکھی تھی ورنہ پیر مہر علی شاہ صاحب نے کوئی سرقہ نہیں کیا جب حضرت مسیح موعود ؑ کو مولوی کرم دین کے اس مضمون کی اطلاع ہوئی تو آپ کو اپنے مخالف مولویوں کی حالت پر سخت افسوس ہوا اور آپ نے اپنی عربی کتاب ’’ مواہب الرحمن‘‘ میں جو ان ایام میں زیر تصنیف تھی مولوی کرم دین کے متعلق لکھا کہ یہ شخص کذاب اور لئیم ہے یعنی جھوٹ بولنے والا اور کمینہ مزاج شخص ہے کہ ایسے سنجیدہ معاملات میں بھی اس نے جھوٹ اور کمینگی سے کام لیا ہے۔ اس پر مولوی کرم دین نے حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف ازالہ حیثیت کا دعویٰ دائر کر دیا جس کے جواب میں دفاع کے خیال سے ایک مقدمہ ایڈیٹر اخبار الحکم کی طرف سے مولوی کرم دین کے خلاف بھی دائر کر دیا گیا۔
حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف مقدمہ کی پہلی پیشی جنوری ۱۹۰۳ء میں جہلم میں ہوئی چنانچہ آپ وہاں تشریف لے گئے۔ اس سفر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو ایسی قبولیت عطا فرمائی اور لوگوں کا ایسا رجوع ہوا کہ راستہ میں ہر سٹیشن پر زائرین کا اتنا ہجوم ہوتا تھا کہ پولیس اور محکمہ ریلوے کو انتظام کرنا مشکل ہو جاتا تھا اور جہلم میں تو لوگوں کی اتنی کثرت تھی کہ جہاں تک نظر جاتی تھی آدمی نظر آتے تھے اور حضرت مسیح موعود کی زیارت کے لئے دور دراز سے لوگ اکٹھے ہو گئے تھے۔ ان میں ایک حصہ اشد مخالف اور دشمن بھی تھا لیکن اکثر لوگ عقیدت اور زیارت کے لئے آئے تھے۔ چنانچہ اس موقعہ پر جہلم میں قریباً ایک ہزار آدمیوں نے بیعت کی۔ اور لوگوں کی توجہ سے صاف نظر آتا تھا کہ جماعت کی ترقی میں ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔
اس کے بعد یہ مقدمہ جہلم میں ختم ہو کر گورداسپور میں جاری ہو گیا جو اس ضلع کا صدر مقام ہے جس میں قادیان واقع ہے اور پھر قریباً دو سال تک جاری رہا جس کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کو بعض اوقات لمبے لمبے عرصہ کے لئے گورداسپور میں جا کر ٹھہرنا پڑا کیونکہ مجسٹریٹ صاحب عموماً اتنی اتنی قریب کی تاریخیں مقرر کرتے تھے کہ قادیان آنا جانا باعثِ تکلیف تھا۔ اس مقدمہ میں اوپر تلے دو مجسٹریٹ بدلے اور اتفاق سے دونوں ہندو تھے اور ان ایام میں یہ افواہ بہت گرم تھی کہ آریہ لوگ ان مجسٹریٹوں کے کان بھرتے رہتے ہیں کہ مرزا صاحب نعوذ باللہ لیکھرام کے قاتل ہیں اور اب اپنا قومی بدلہ اتارنے کا اچھا موقعہ ہے۔ اور مجسٹریٹوں کے تیور بھی بدلے ہوئے نظر آتے تھے ۔ انہی ایام میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ کو یہ اطلاع پہنچی کہ بعض آریوں نے مجسٹریٹ سے کہا ہے کہ اس وقت یہ شخص آپ کے ہاتھ میں ایک شکار ہے اسے اب بچ کر نہیں جانے دینا چاہئے۔ اس وقت حضرت مسیح موعود ؑ چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور طبیعت کچھ خراب تھی مگر یہ بات سن کر آپ جوش کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے جوش کے ساتھ فرمایا ۔ ’’ کیا یہ لوگ مجھے شکار سمجھتے ہیں؟ میں شکار نہیں ہوں۔ میں تو خدا کا شیر ہوں اور خدا کے شیر پر کوئی ہاتھ تو ڈال کر دیکھے! ‘‘ پھر تھوڑی دیر تک خاموش رہنے کے بعد فرمایا۔ ’’ میں کیا کروں میں نے تو خدا سے کئی دفعہ عرض کیا ہے کہ میں تیرے دین کی خاطر اپنے ہاتھوں میں لوہے کے کڑے پہننے کے لئے تیار ہوں مگر وہ مجھے باربار یہی کہتا ہے کہ نہیں نہیں میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔ میں تیری حفاظت میں کھڑا ہوں اور کوئی شخص تجھ پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ انہی دنوں میں حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ بھی کہا کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ اس عدالت میں سزا ہو جائے گی مگر عدالتِ اپیل میں بریت ہو گی۔
الغرض یہ مقدمہ دو سال تک چلتا رہا ۔ اور اس عرصہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کا بہت سا قیمتی وقت ضائع ہوا اور بالآخر مجسٹریٹ نے ۱۹۰۴ء کے آخر میں آپ کو پانچ سو روپیہ جرمانہ کی سزا دے دی اور دوسرے مقدمہ میں جو ایڈیٹر الحکم کی طرف سے تھا مولوی کرم دین کوپچاس روپے جرمانہ کیا گیا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی طرف سے جرمانہ فوراً ادا کر دیا گیا اور سشن جج کے پاس اپیل کی گئی سشن جج نے جو ایک انگریز افسر تھا پہلی ہی پیشی میں جو جنوری ۱۹۰۵ء میں ہوئی اپیل کو منطور کر لیا بلکہ افسوس ظاہر کیا کہ ایسا معمولی سا مقدمہ اتنے لمبے عرصہ تک چلتا رہا ہے اور لکھا کہ کرم دین نے جن گرے ہوئے اخلاق کا اظہار کیا ہے اس کے پیش نظر جو الفاظ اس کے متعلق مرزا صاحب نے لکھے ہیں وہ بالکل جائز اور واجبی ہیں اور ان سے اس کی قطعاً کوئی ہتک نہیں ہوئی بلکہ صرف امر واقع کا اظہار ہوا ہے جو حالات کے ماتحت ضروری تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ خدائی وعدہ کے مطابق بری کئے گئے اور آپ کا جرمانہ واپس ہوا۔ مگر مولوی کرم دین کا جرمانہ قائم رہا اور اس کے جھوٹ اور کمینگی پر ہمیشہ کے لئے مہر تصدیق ثبت ہو گئی۔ ۱؎
منارۃ المسیح کا سنگِ بنیاد :۔ مسیح موعود ؑ کے متعلق بعض اسلامی پیشگوئیوں میں یہ ذکر آتا
ہے کہ اس کا نزول دمشق کے مشرق کی طرف ایک سفید مینار پر ہو گا ۔ اس پیشگو ئی کے اصل معنے تو اور ہیں یعنی یہ کہ مسیح موعود ؑ کا نزول ایسے دلائل کے ساتھ ہو گا جو دودھ کی سفیدی کی طرح بے عیب ہوں گے اور اس کی روشنی دور دور تک نظر آئے گی۔ لیکن چونکہ حضرت مسیح موعود ؑ کا یہ طریق تھا کہ جہاں تک ممکن اور جائز ہو ہر پیشگوئی کو ظاہر میں بھی پوراکرنے کی کوشش فرماتے تھے اس لئے آپ نے ۱۹۰۰ء میں یہ تجویز کی تھی کہ قادیان کی مسجد اقصیٰ میں ایک سفید منارہ تعمیر کیا جاوے جس میں ایک بڑی گھڑی بھی لگائی جاوے اور روشنی کا بھی انتظام ہو تا کہ یہ روشنی خدائی نور کے لئے ایک ظاہری علامت بھی بن جاوے۔ ۱؎ اس تجویز کے مطابق آپ نے بتاریخ ۱۳؍ مارچ ۱۹۰۳ ء بروز جمعہ مجوزہ مینار کی بنیاد رکھی اور خشت بنیاد کو اپنی رانِ مبارک پر رکھ کر بہت دیر تک لمبی دعا فرمائی ۔ ۲؎ مگرچونکہ اس وقت جماعت کی مالی حالت کمزور تھی اس لئے حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں مینار کی تعمیر مکمل نہیں ہو سکی اور ایک عرصہ تک کام رکا رہا اور پھر ۱۶،۱۹۱۵ء میں آکر خلافتِ ثانیہ میں اس کی تکمیل ہوئی۔
مولوی عبداللطیف صاحب کی شہادت کا درد ناک واقعہ :۔ ۱۹۰۳ء میں جماعت احمدیہ
کو ایک نہایت درد ناک واقعہ پیش آیا جو سلسلہ کی تاریخ میں ایک یادگار رہے گا اور وہ یہ کہ ۱۹۰۲ء کے آخر میں افغانستان کے علاقہ خوست کے ایک معزز رئیس مولوی عبداللطیف صاحب حضرت مسیح موعود ؑ کا نام سن کر قادیان میں آئے اور آپ کی بیعت سے مشرف ہوگئے۔ یہ صاحب افغانستان کے بڑے علماء میں سے تھے اور دربارِ کابل میں ان کی اتنی عزت تھی کہ امیر حبیب اللہ خان کی تاجپوشی کی رسم انہوں نے ہی ادا کی تھی اور ان کے شاگردوں اور معتقدوں کا حلقہ بہت وسیع تھا ۔ انہوں نے کئی ماہ تک قادیان میں قیام کیا اور حضرت مسیح موعود کی صحبت سے بہت فائدہ اٹھایا اور اس عرصہ میں ان کا ایمان اتنا ترقی کر گیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ عشق کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ جب وہ کئی ماہ کے قیام کے بعد اپنے وطن میں واپس جانے لگے تو حضرت مسیح موعود ؑ کے پائوں پر گر کر زار زار روئے اور کہنے لگے کہ مجھے نظر آرہا ہے کہ مجھے اس دنیا میں اس مبارک چہرہ کی زیارت پھر نصیب نہیں ہو گی۔
جب وہ کابل میں پہنچے تو امیر حبیب اللہ خان کے دربار میں ایک شور پڑ گیا کہ یہ شخص کافر اور مرتد ہو کر آیا ہے اور جہاد کا منکر ہے اور اگر وہ توبہ نہ کرے تو اس سزا کا مستحق ہے کہ اسے قتل کر دیا جاوے۔ مولوی عبداللطیف صاحب نے انہیں سمجھایا کہ میں ہرگز مرتد یا کافر نہیں ہوں بلکہ اسلام کا خادم اور فدائی ہوں اور اسلام کے متعلق پہلے سے بہت زیادہ محبت اور اخلاص رکھتا ہوں۔ ہاں میں نے حضرت مسیح موعو د ؑکے دعویٰ کو سچا جان کر آپ کو قبول کیا ہے اور یہ ایک حق ہے جسے میں چھوڑ نہیں سکتا اور میں جہاد کا منکر نہیں ہوں البتہ چونکہ اس زمانہ میں جہاد کی ضرورت نہیں اور وہ حالات موجود نہیں جن میں اسلام نے تلوار کا جہاد جائز رکھا ہے اس لئے میں موجودہ زمانہ میں جہاد بالسیف کا قائل نہیں ہوں۔ غرض علماء کے ساتھ مولوی صاحب کی بہت بحث ہوئی مگر کابل کے علماء اپنی ضد پر قائم رہے اور بالآخر انہوں نے متفقہ طور پر مولوی صاحب کو مرتد قرار دے کر ان کے قتل کا فتویٰ دیا۔ اس پر امیر حبیب اللہ خان نے مولوی صاحب کو سمجھایا کہ اس وقت ضد اچھی نہیں اور مخالفت کا بہت زور ہے بہتر ہے کہ آپ اپنے عقائد سے توبہ کا اعلان کر دیں۔ مولوی صاحب نے کہا کہ میں نے جس بات کو خدا کی طرف سے حق سمجھ کر یقین کیا ہے اسے نہیں چھوڑوں گا اور میں اپنی جان کو بچانے کے لئے اپنے ایمان کو ضائع نہیں کر سکتا۔ اس پر علماء کے دبائو کے نیچے آکر امیر نے مولوی صاحب کے قتل کا حکم دے دیا اور قتل کے طریق کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا کہ زمین میں ایک گڑھا کھود کر مولوی صاحب کو اس گڑھے میں کمر تک دفن کر دیا جائے اور پھر ان پر پتھروں کی بارش برسا کر انہیں ہلاک کر دیا جائے۔ چنانچہ شہر سے باہر کھلے میدان میں یہ انتظام کیا گیا اور کابل کے سب علماء اور رئوسا اور خود امیر اور دوسرے لوگ اس جگہ جمع ہوئے۔ جب مولوی صاحب کو کمر تک زمین میں دفن کر دیا گیا اور صرف اوپر کا دھڑ باہر رہا تو امیرکابل پھر آگے بڑھ کر مولوی صاحب کے پاس گیا اور کہا کہ اب بھی وقت ہے اگر آپ توبہ کر لیں تو علماء کا جوش دب جائے گا ۔ مگر مولوی صاحب نے سختی کے ساتھ انکار کیا اور کہا میں کسی قیمت پر بھی اپنے ایمان کو ضائع نہیں کروں گا اور اب میری صرف اس قدر درخواست ہے کہ تم جلدی کرو تا کہ جو پردہ مجھے جنت سے جدا کر رہا ہے وہ درمیان سے اٹھ جاوے۔ اس پرامیر نے پتھرائو کا حکم دیا جس پر اس زور سے پتھر برسے کہ دیکھے ہی دیکھتے پتھروں کا ایک پہاڑ کھڑا ہو گا اور اس عاشق مسیح کی روح اپنے ابدی ٹھکانہ میں پہنچ گئی۔
جب حضرت مسیح موعود ؑ کو اس واقعہ کی اطلاع پہنچی اور ساتھ ہی یہ خبر بھی ملی کہ اس سے قبل مولوی عبداللطیف صاحب کے ایک شاگرد مولوی عبدالرحمن صاحب کو بھی کابل میں شہید کیا گیا تھا تو آپ کو بہت صدمہ پہنچا مگر اس جہت سے خوشی بھی ہوئی کہ آپ کے ان دو مخلصین نے ایمان کا ایسا اعلیٰ نمونہ قائم کیا ہے جو صحابہ ؓ کے زمانہ کی یاد کو تازہ کرتا ہے چنانچہ آپ نے اس واقعہ شہادت کے متعلق ایک کتاب ’’ تذکرۃ الشہادتین ‘‘ لکھ کر شائع فرمائی اور اس میں بتایا کہ وہ الہام جو خدا نے کئی سال ہوئے آپ پر نازل کیا تھا کہ دو بے گناہ بکرے ذبح کئے جائیں گے وہ ان دو شہادتوں سے پورا ہوا ہے۔ ۱؎
اس کے بعد افغانستان میں احمدیوں پر سخت مصائب کا زمانہ شروع ہو گیا اور ان میں سے بہت سے لوگ اپنے وطن سے بھاگ کر قریب کے انگریزی علاقہ میں آگئے اور بعض قادیان میں ہجرت کر آئے اور ان لوگوں کی جائدادیں ضبط کر لی گئیں۔ اور جو لوگ پیچھے ًٹھہرے وہ چھپ چھپ کر اور اپنے ایمان کو مخفی رکھ کر ٹھہرے مگر ساتھ ہی مولوی عبداللطیف صاحب کی شہادت نے کابل میں ایک بیج بھی بو دیا اور بعض سعید طبیعتوں میں یہ جستجو پیدا ہو گئی کہ اس سلسلہ کے حالات معلوم کریں جس کے ایک فرد نے اپنے ایمان کی خاطر اس دلیری کے ساتھ جان دی ہے چنانچہ کچھ عرصہ کی خاموشی کے بعد پھر اندر ہی اندر احمدیت کا درخت بڑھنا شروع ہوا۔ اور اب افغانستان کے مختلف حصوں میں ایک کافی جماعت پائی جاتی ہے۔ مگر اب تک بھی یہ لوگ کھل کر ظاہر نہیں ہو سکتے۔ ۲؎
لاہور اور سیالکوٹ کے سفر اور مثیل کرشن ہونے کا دعویٰ :۔ ۱۹۰۳ء اور ۱۹۰۴ء کے
سال زیادہ تر اس مقدمہ کی مصروفیت میں گزرے جو مولوی کرم دین جہلمی نے حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف دائر کر رکھا تھا۔ اس مقدمہ کی پیروی میں بظاہر بہت سا وقت ضائع گیا مگر چونکہ ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے اس لئے گو ایک لحاظ سے یہ وقت ضائع گیا اور حضرت مسیح موعود ؑ کو مقدمہ کی پریشانی بھی لاحق ہوئی لیکن دوسری جہت سے یہ مقدمہ باعثِ رحمت بھی ہو گیا۔ یعنی اوّل تو اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا یہ نشان ظاہر ہوا کہ آنے والے مقدمہ اور بالآخر اس کی کامیابی کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کو جو الہامات ہوئے تھے وہ پورے ہو کر کئی لوگوں کی ہدایت اور جماعت کے ازد یاد ایمان کا باعث ہوئے۔ دوسرے چونکہ حضرت مسیح موعود ؑ اس مقدمہ کے دوران میں زیادہ تر سفر کی حالت میں رہے جس میں آپ کو اپنے دوستوں کے ساتھ ملنے کا زیادہ موقعہ میسر آتا تھا اور کچہری کی حاضری کا وقت بھی گویا اختلاط میں گزرتا تھا اس لئے یہ ایام جماعت کی تربیت کے لحاظ سے بہت مبارک ثابت ہوئے۔ گویا یہ زمانہ تبلیغ کی نسبت زیادہ تر تعلیم و تربیت میں خرچ ہوا۔ چنانچہ خاکسار مؤلف نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے عادات و اخلاق کے متعلق آپ کے اصحاب کی روایات بیشتر طور پر اسی زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور ان میں آپ کے ساتھ آپ کے اصحاب کے ذاتی تعلق اور وابستگی کی ایک خاص جھلک نظر آتی ہے۔
مگر دعوت الی الحق کا کام بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا چنانچہ علاوہ اس کے کہ ان ایام میں بھی ملنے والوں کے ساتھ تبلیغ کا سلسلہ جاری رہتا تھا اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں دو ایسے موقعے پیدا کر دئیے جن میں سلسلہ حقہ کی پوری پوری تبلیغ میسر آگئی۔ یہ واقعات دو سفروں کی صورت میں تھے جو حضرت مسیح موعود ؑ نے ۱۹۰۴ء کے نصف آخر میں کئے۔ چنانچہ پہلا سفر اگست ۱۹۰۴ء کے آخر میں لاہور تک کیا گیا۔ جہاںآپ قریباً دو ہفتے ٹھہرے۔ اس سفر میں بھی جہلم کے سفر کی طرح لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ پولیس کو انتظام مشکل ہو گیا اور جتنے دن آپ لاہور میں ٹھہرے آپ کی فرودگاہ کے قریب متلاشیان اور مخالفین کا ایک بھاری ہجوم رہتا تھا۔ متلاشی لوگ آپ کے پاس آتے آپ سے ملتے اور آپ کے سامنے اپنے اعتراضات پیش کر کے فائدہ اٹھاتے تھے اور مخالف لوگ آپ کے قریب آنے کی بجائے آپ کی فرودگاہ کے سامنے مظاہرہ کرتے جلسے منعقد کرتے اور لوگوں کو آپ کے خلاف اکساتے تھے۔ انہی ایام میں لوگوں کی خواہش پر آپ کے لئے ۳؍ ستمبر ۱۹۰۴ء کو ایک پبلک تقریر کا بھی انتظام کیا گیا۔ آپ نے اس موقعہ کے لئے ایک مضمون ’’اسلام اور اس ملک کے دوسرے مذاہب ‘‘ کے عنوان کے ماتحت لکھ کر اسے طبع کرا لیا اور پھر اسے آپ کے ایک مخلص حواری حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے حسب معمول اپنی بلند اور خوبصورت آواز میں پڑھ کر سنایا۔ حاضرین کی تعداد باوجود لوگوں کی سخت مخالفت کے سات آٹھ ہزار کے قریب تھی اور جلسہ نہایت کامیاب رہا۔ تقریر کے اختتام پر حاضرین نے خواہش کی کہ حضرت مسیح موعود ؑ اپنی زبان سے بھی کچھ فرمائیں چنانچہ آپ نے تحریری تقریر کے پڑھے جانے کے بعد ایک مختصر زبانی تقریر بھی کی جس کا بہت اچھا اثر ہوا اور اس طرح یہ جلسہ نہایت کامیابی کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔ چونکہ یہ زمانہ سخت مخالفت کا زمانہ تھا اور ہر قسم کے لوگوں کا رجوع عام تھا اس لئے اس جلسہ کے موقعہ پر پولیس کی طرف سے خاص انتظام تھا۔ ہندوستانی اور گورہ پولیس دونوں کا پہرہ تھا اور گورہ پولیس ننگی تلواروں کے ساتھ ڈیوٹی پر حاضر تھی اور نہ صرف جلسہ گاہ میں پہرے کا انتظام تھا بلکہ راستہ میں بھی مضبوط پہرہ متعین تھا۔ اور آپ کی گاڑی کے آگے اور پیچھے گھوڑے سوار سپاہی کام پر لگے ہوئے تھے اس لئے باوجود اس کے کہ بعض شریر اور فتنہ پرداز لوگ شرارت کا ارادہ رکھتے تھے کسی کو جرأت نہیں ہوئی اور پندرہ دن کے قیام کے بعد آپ لاہور سے گورداسپور تشریف لے گئے۔ ۱؎
سفر لاہور کے قریباً دو ماہ بعد یعنی اکتوبر ۱۹۰۴ء کے آخر میں جب کہ ماتحت عدالت نے مولوی کرم دین والے مقدمہ کا فیصلہ سنا دیا آپ سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ اس سفر کی وجہ یہ تھی کہ سیالکوٹ کی جماعت نے آپ سے یہ درخواست کی تھی کہ آپ اپنی ابتدائی عمر میں کئی سال تک سیالکوٹ میں رہے ہیں پس اب بھی جبکہ خدا نے آپ کو ایسی عظیم الشان کامیابی عطا فرمائی ہے آپ ایک دفعہ پھر چند دن کے لئے سیالکوٹ تشریف لے چلیں اور اس شہر کو اپنے مبارک قدموں سے برکت دیں۔ آپ نے جماعت کی اس خواہش کو منظور فرما لیا اور ۲۷؍ اکتوبر کو سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ اس سفر کی کامیابی نے جہلم اور لاہور کے سفروں کو بھی مات کر دیا اور راستے کے سٹیشنوں پر اور بالآخر سیالکوٹ کے سٹیشن پر زائرین کا اس قدر ہجوم تھا کہ محکمہ ریلوے اور پولیس کے لئے انتظام سخت مشکل ہو گیا۔ مسلمان ۔ہندو ۔ سکھ ۔ عیسائی غرض ہر قوم کے لوگ اس شخص کو دیکھنے کے لئے ٹوٹے پڑتے تھے جس نے اپنے دعووں اور اپنی پیشگوئیوں کے ساتھ ملک میں ایک زلزلہ برپا کر رکھا تھا۔ اس سفر میں لاہور کے سٹیشن پر اس قدر ہجوم تھا کہ پلیٹ فارم ٹکٹ ختم ہو گئے اور بہت سے لوگ سٹیشن کے اندر آنے سے محروم رہ گئے اور سیالکوٹ سٹیشن پر تو حد ہی ہو گئی جہاں تک نظر جاتی تھی لوگوں کے سر ہی سر نظر آتے تھے ۔ سٹیشن کی عمارتیں ۔ پاس کے مکانات اور دوکانات اور راستے وغیرہ اس طرح بھرے ہوئے تھے کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی اور یہ ہجوم صرف سٹیشن کے قرب وجوار تک محدود نہیں تھا بلکہ سٹیشن سے لے کر اس جگہ تک جہاں حضرت مسیح موعود ؑ نے قیام کرنا تھا جو قریباً ایک میل کے فاصلہ پر تھی لوگوں کا مسلسل ہجوم تھا اور راستہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کی گاڑی کے لئے راستہ صاف رکھنے کے واسطے پولیس کو خاص انتظام کرنا پڑا اور کئی افسر ڈیوٹی پر لگے ہوئے تھے۔ شاید یہ نظارہ اللہ تعالیٰ نے اس لئے دکھایا کہ دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ جس شہر میں دعویٰ سے پہلے آپ ایک بالکل غیر معروف صورت میں کسم پرسی کی حالت میں رہتے تھے وہاں دعویٰ کے بعد خدا کی نصرت نے آپ کی مقبولیت کو کہاں تک پہنچا دیا کہ باوجود انتہائی مخالفت کے دنیا امڈی چلی آتی ہے۔
سیالکوٹ میں آپ نے ایک ہفتہ قیام کیا اور لوگوں کی خواہش پر یہاں بھی آپ نے ایک پبلک جلسہ میں تقریر فرمائی۔ یہ تقریر بھی لکھی ہوئی تھی جسے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے پڑھا جو اسی شہر کے رہنے والے تھے اور اپنی آواز اور سحر بیانی سے لوگوں کو مسحور کر لیتے تھے۔ باوجود اس کے کہ علماء کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ مرزا صاحب کی تقریر میں کوئی شخص نہ جائے اور لوگوں کو روکنے کی غرض سے ایک بالمقابل جلسہ بھی منعقد کیا گیا اور لیکچر گاہ کے دروازوں پر بھی بہکانے والے آدمی مقرر کئے گئے مگر پھر بھی لوگ بڑی کثرت کے ساتھ جلسہ میں شریک ہوئے اور تقریر نہایت کامیاب ہوئی۔ دوران تقریر میں بعض فتنہ پرداز لوگوں نے شور کرنا چاہا مگر پولیس نے روک دیا اور کسی قسم کی گڑ بڑ نہیں ہو سکی۔
اس تقریر میں حضرت مسیح موعود ؑ نے اسلام اور احمدیت کی صداقت کے دلائل بیان کئے مگر جو بات اس تقریر میں حضرت مسیح موعود کی طرف سے خاص طور پر پیش کی گئی وہ مثیل کرشن ہونے کا دعویٰ تھا۔ یہ دعویٰ پہلے سے آپ کی تحریرات میں آچکا تھا مگر اس موقعہ پر آپ نے خصوصیت سے اس بات کا اعلان فرمایا کہ خدا نے آپ کو بتایا ہے کہ جس طرح آپ مثیل مسیح اور مثیل موسیٰ اور بہت سے دوسرے نبیوں کے مثیل ہیں اسی طرح آپ مثیل کرشن بھی ہیں جو ہندوئوں میں ایک بہت باخدا بزرگ اور بڑے بھاری اوتار گزرے ہیں۔ ۱؎ لیکچر کے دوسرے دن یعنی نومبر ۱۹۰۴ء کے شروع میںآپ قادیان واپس تشریف لے آئے۔
ایک تباہ کن زلزلہ او رخدائی پیشگوئی کا ظہور :۔ ۱۹۰۵ء کا آغاز اس مقدمہ کی فتح کے
ساتھ ہوا جو مولوی کرم دین نے آپ کے خلاف دائر کر رکھا تھا اور جس میں ماتحت عدالت نے آپ پر پانچ سو روپیہ جرمانہ کیا تھا۔ عدالت اپیل نے نہ صرف آپ کو بری کیا اور جرمانہ واپس دلایا بلکہ ماتحت عدالت کے فیصلہ پر سختی کے ساتھ ریمارک کئے کہ ایسے معمولی مقدمہ کو اتنا لٹکایا گیا ہے اور کرم دین کے متعلق بھی لکھا کہ وہ ان الفاظ کا پوری طرح حقدار تھا جو اس کے متعلق استعمال کئے گئے۔ یہ کامیابی اس خدائی بشارت کے مطابق تھی جو پہلے سے حضرت مسیح موعود ؑ کو دی جاچکی تھی۔
ابھی اس نئے سال نے زیادہ منزلیں طے نہیں کی تھیں کہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کو شمالی ہندوستان میں ایک خطرناک زلزلہ آیا۔ اس زلزلہ کا مرکز ضلع دھرم سالہ کے پہاڑ تھے جہاں سب سے زیادہ تباہی آئی مگر یہ تباہی صرف دھرم سالہ تک محدود نہیں تھی بلکہ پنجاب کے ایک بہت بڑے علاقہ میں تباہی آئی اور ہزاروں جانیں اور لاکھوں روپے کی جائیداد تباہ ہو گئی اور ایک آن کی آن میں لوگوں کی آنکھوں کے سامنے قیامت کا نظارہ پھر گیا۔ یہ تباہ کن زلزلہ حضرت مسیح موعود ؑ کی ایک پیشگوئی کے مطابق تھا جو چند ماہ پہلے شائع کی گئی تھی اور جس کے الفاظ یہ تھے کہ :۔
عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلُّھَا وَمُقَامُھَا ۲؎
یعنی عنقریب ایک تباہی آنیوالی ہے جس میں سکونت کی عارضی جگہیں اور مستقل جگہیں دونوں مٹ جائیں گی اور اس کے بعد ایک اور الہام میں بتایا گیا تھا کہ :۔
’’ درد ناک موتوں سے عجیب طرح پر شورِ قیامت برپا ہے اور موتا موتی لگ رہی ہے۔ ۳؎
چنانچہ عین ان الہاموں کے مطابق جو کئی ماہ پہلے شائع کئے جا چکے تھے اس زلزلہ نے لوگوں کو یہ قیامت کا نمونہ دکھا دیا اور پیشگوئی بڑی صفائی کیساتھ پوری ہوئی۔
اس زلزلہ کے بعد آپ احتیاط کے طور پراپنے مکان میں سے نکل کر اس باغ میں جا کر مقیم ہو گئے جو قصبہ کے جنوبی جانب واقع ہے اور کئی ماہ تک وہیں باغ میں ٹھہرے ۔ جہاں خیموں کے انتظام کے علاوہ چد عارضی مکانات بھی تیار کرالئے گئے تھے اور مقامی جماعت کے اکثر دوست بھی آپ کے ساتھ باغ میں چلے گئے۔ اور اس طرح باغ میں ایک چھوٹا سا شہر آباد ہو گیا۔ جس کے سارے باشندے گویا ایک خاندان کے فرد تھے۔ انہی دنوں میں آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ خدا نے مجھے اَور زلزلوں کی بھی خبر دی ہے اور آپ نے لکھا کہ گو خدا کے الہام میں زلزلہ کا لفظ ہے مگر میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ ضرور زلزلہ ہی ہو گا بلکہ ممکن ہے کہ کوئی اور تباہی ہو جو اپنی ہلاکت میں زلزلہ سے مشابہ ہو۔ چنانچہ انہی ایام میں آپ نے وہ منظوم پیشگوئی شائع فرمائی جس میں ایک عالمگیر تباہی کی خبر دی اور یہاں تک لکھا کہ یہ تباہی ایسی خطرناک ہو گی کہ خون کی ندیاں چل جائیں گی اور عمارتیں مت جائیں گی اور لوگ اپنے عیش و عشرت کو بھول کر دیوانوں کی طرح پھریں گے حتیّٰ کہ زارِ روس جیسے جلیل القدر بادشاہ بھی اس وقت با حال زار ہوں گے چنانچہ آپ نے فرمایا :۔
اک نشاں ہے آنیوالا آج سے کچھ دن کے بعد
جس سے گردش کھائیں گے دیہات و شہر اور مرغزار
آئیگا قہرِ خدا سے خلق پر اک انقلاب
اک برہنہ سے نہ ہو گا یہ کہ تا باندھے ازار
یک بیک اک زلزلہ سے سخت جنبش کھائیں گے
کیا بشر اور کیا شجر اور کیا حجر اور کیا بحار
اک جھپک میں یہ زمیں ہو جائے گی زیرو زبر
نالیاں خوں کی چلیں گی جیسے آبِ رودبار
ہوش اڑ جائیں گے انساں کے پرندوں کے حواس
بھولیں گے نغموں کو اپنے سب کبوتر اور ہزار
خون سے مردوں کے کوہستان کے آب رواں
سرخ ہو جائیں گے جیسے ہو شراب انجبار
مضمحل ہو جائیں گے اس خوف سے سب جن وانس
زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی باحالِ زار ۱؎
یہ نظم حضرت مسیح موعود ؑ نے اپریل ۱۹۰۵ء میں لکھی اور اس کے نیچے یہ نوٹ لکھا کہ گو خدا تعالیٰ نے الہام میں زلزلہ کا لفظ استعمال کیا ہے لیکن چونکہ بعض اوقات زلزلہ کالفظ ایک بڑی آفت اور انقلاب پر بھی بولا جاتا ہے اس لئے ممکن ہے کہ یہ مصیبت عام زلزلہ کی صورت میں نہ ہو بلکہ کوئی اور شدید آفت ہو جو قیامت کا نمونہ دکھاوے۔ اور بعد کے حالات نے بتا دیا کہ اس پیشگوئی میں جنگ عظیم کی طرف اشارہ تھا جس نے ۱۹۱۴ء میں ظاہر ہو کر گویا دنیا کا نقشہ بدل دیا اور ایسی خطرناک تباہی پیدا کی جس کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں نہیں ملتی اور پھر لطف یہ ہے کہ عین پیشگوئی کے مطابق اس زلزلہ عظیمہ نے زار کا بھی تختہ الٹ دیا۔
سلسلہ کے ایک بہت بڑے عالم کی وفات :۔ ۱۹۰۵ء کے آخر میں سلسلہ احمدیہ کو
ایک بہت بھاری صدمہ پہنچا یعنی ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے وفات پائی۔ مولوی صاحب مرحوم ایک نہایت جید عالم ہونے کے علاوہ ایک بہت بڑے مقرر اور مصنف بھی تھے اور ان میں خدا نے ایسے دو وصفوں کو جمع کر دیا تھا جو بہت کم جمع ہوتے ہیں۔ یعنی ان کی زبان اور قلم دونوں نے خدا سے خاص برکت حاصل کی تھی۔ آواز نہایت بلند اور دلکش تھی اور زبان نہایت فصیح اور زور دار اور ہر لفظ اثر میں ڈوبا ہوا نکلتا تھا۔ تصنیف میں بھی نہایت زور تھا۔ اور سلاست اور روانی کے ساتھ فصاحت غضب کی تھی۔ اس کے علاوہ طبیعت بہت زیرک اور نکتہ سنج تھی اور قرآن شریف کے معارف بیان کرنے میں خاص ملکہ تھا۔ ابھی بالکل جوان ہی تھے کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اوّل ؓ کے واسطے سے حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور گو شروع شروع میں سر سید مرحوم کے خیالات کے اثر کے ماتحت طبیعت میں کسی قدر نیچریت کی طرف میلان تھا مگر حضرت مسیح موعود ؑ کی صحبت میں آکر یہ اثر آہستہ آہستہ دُھل گیا اور چونکہ جو ہر پاک تھا اس لئے نبوت کے پَرتَو نے غلبہ پا کر طبیعت کو ایک خاص جلا دے دی۔
وفات کے وقت حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی عمر صرف سینتالیس سال کی تھی۔ اگست ۱۹۰۵ء میں مرض کاربنکل سے بیمار ہوئے اور قریباً دو ماہ بیمار رہ کر ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو نمونیا کی زائد تکلیف سے اپنے محبوب حقیقی سے جا ملے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کو مولوی صاحب کی وفات کا ایسا ہی صدمہ ہوا جیسے ایک محبت کرنے والے باپ کو ایک لائق بیٹے کی وفات کا ہوا کرتا ہے مگر آپ کی محبت کا اصل مرکزی نکتہ خدا کا وجود تھا اس لئے آپ نے کامل صبر کا نمونہ دکھایا اور جب بعض لوگوں نے زیادہ صدمہ کا اظہار کیا اور اس بات کے متعلق فکر ظاہر کیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب کی ذات کے ساتھ بہت سے کام وابستہ تھے اب ان کے متعلق کیا ہو گا تو آپ نے ایسے خیالات پر توبیخ فرمائی چنانچہ فرمایا:۔
’’ مولوی عبدالکریم صاحب کی موت پر حد سے زیادہ غم کرنا ایک قسم کی مخلوق کی عبادت ہے کیونکہ جس سے حد سے زیادہ محبت کی جاتی ہے یا حد سے زیادہ اس کی جدائی کا غم کیا جاتا ہے وہ معبود کے حکم میں ہو جاتا ہے ۔ خدا ایک کو بلا لیتا ہے تو دوسرا اس کے قائم مقام کر دیتا ہے۔ وہ قادر اور بے نیاز ہے ۔ ۱؎
حضرت مسیح موعود ؑ نے مولوی صاحب مرحوم کے سنگِ مزار کے لئے ایک فارسی نظم بھی تحریر فرمائی جس میں آپ نے لکھا کہ :۔
کے تواں کردن شمارِ خوبیٔ عبدالکریم
آں کہ جاں داد از شجاعت بر صراط مستقیم
حامیٔ دیں آنکہ یزداں نام اولیڈر نہاد
عارفِ اسرار حق گنجینئہ دین قویم
گرچہ جنس نیکواں ایں چرخ بسیار آورد
کم بزاید مادرے باایں صفا دُرِّیتیم
دل بدرد آمد زہجر ایں چنیں یک رنگ دوست
لیک خوشنودیم برفعلِ خداوند کریم
’’ یعنی مولوی عبدالکریم مرحوم کی خوبیاں کس طرح بیان کی جائیں۔ وہ عبدالکریم جس نے دین کے رستہ میں شجاعت اور بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے جان دی ہے۔ وہ دین کا ایک زبردست پہلوان تھا جس کا نام خود خدا نے اپنے ایک الہام میں ’’مسلمانوں کا لیڈر‘‘ رکھا تھا۔ وہ حق کے اسرار کا راز دار تھا۔ اور دینی معارف کا ایک خزانہ تھا۔ اگرچہ اس آسمان کے نیچے بڑے بڑے نیک لوگ پیدا ہوئے ہیں مگر اس آب و تاب کا موتی بہت کم دیکھنے میں آیا ہے۔ اس قسم کے یک رنگ دوست کی جدائی سے دل میں درد اٹھتا ہے لیکن اپنے خدا کے فعل پر ہر حال میں راضی اور شاکر ہیں۔ ‘‘
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات کے بعد ماہ اکتوبر کے آخر میں حضرت مسیح موعود ؑ چند دن کے لئے دہلی تشریف لے گئے۔ اس سفر سے پہلے آپ کو خواب میں یہ بتایا گیا تھاکہ آپ دہلی گئے ہیں مگر شہر کے دروازوں کو بند پایا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ دہلی میں لوگوں نے مخالفت کا شور تو بہت کیا مگر مخالفت کا دوسرا پہلو جو قبولیت کی صورت میں ظاہر ہوا کرتا ہے وہ ظاہر نہ ہوا اور آپ نے اپنی خواب کے مطابق دہلی والوں کے دلوں پرقفل لگے ہوئے پائے۔ مگر پھر بھی تبلیغ کا حق ادا کیا گیا اور بہت لوگ ملاقات سے مستفیض ہوئے۔ دہلی سے واپسی پر آپ لدھیانہ میں دو دن ٹھہرے۔ یہ لدھیانہ وہی تھا جس میں آپ نے سب سے پہلی بیعت لی تھی اور جس میں بیعت اولیٰ کے دو سال بعد آپ نے دعویٰ مسیحیت کا اعلان کیا تھا۔ لدھیانہ میں دہلی کی طرح شہر کے دروازے مقفل نہیں تھے اور باوجود مخالفت کے ۶؍ نومبر ۱۹۰۵ء کو آپ کا ایک بہت کامیاب لیکچر ہوا اور ہزاروں انسانوں نے آپ کا کلام سنا۔
لدھیانہ سے روانہ ہو کر آپ دو دن کے لئے امرتسر ٹھہرے۔ یہاں بھی لوگوں کی خواہش پر آ نے ۹؍ نومبر ۱۹۰۵ء کو ایک تقریر فرمائی جس میں حاضری بہت کافی تھی۔ مگر دورانِ تقریر میں مخالفوں نے شور مچانا شروع کر دیا اور باوجود کوشش کے نہ رکے حتیّٰ کہ آپ کو اپنی تقریر بند کرنی پڑی۔ اس وقت لوگوں میں سخت جوش تھا اور وہ بار بار سٹیج کی طرف حملہ کرنے کے خیال سے بڑھتے تھے مگر پولیس روک کر پیچھے ہٹا دیتی تھی۔ آخر آپ پولیس کے مشورہ سے ایک عقبی دروازہ میں سے باہر نکل کر اس گاڑی میںسوار ہو گئے جو پولیس نے آپ کے لئے مہیا کی تھی جونہی کہ آپ اس گاڑی میں بیٹھ کر اپنی فرودگاہ کی طرف روانہ ہوئے لوگوں نے گاڑی کی طرف دھاوا کیا اور لاٹھیاں اور پتھر برسنے شروع ہو گئے۔ مگر خدا کے فضل سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ صرف ایک احمدی کو لاٹھی سے خفیف چوٹ آئی اور ایک پتھر کا ٹکڑا گاڑی کے شیشے کو توڑ کر خاکسار مؤلف کے ہاتھ پر لگا۔ اس سے کوئی زخم تو نہیں آیا مگر میرے لئے ایک فخر کی یاد گار باقی رہ گئی کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے خاندان میں اور آپ کے پہلو میں بیٹھے ہوئے خدا کے رستے میں پہلی ضرب میں نے کھائی ہے۔ دوسرے روز حضرت مسیح موعود ؑ قادیان واپس تشریف لے آئے۔
حضرت مسیح موعود ؑ کی وصیت اور مقبرہ بہشتی کا قیام :۔حضرت مولوی عبدالکریم صاحب
کی وفات ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو ہوئی تھی اور اسی مہینہ کے آخری حصہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کو اپنی وفات کے متعلق الہامات شروع ہو گئے اور اس کثرت اور تکرار کے ساتھ ہوئے کہ بقول آپ کے آپ کی ہستی کو بنیاد سے ہلا دیا اور اس زندگی کو آپ پر سرد کر دیا۔ چنانچہ سب سے پہلے ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو آپ نے دیکھا کہ آپ کے سامنے ایک برتن میں مصفیٰ اور ٹھنڈا پانی پیش کیا گیا ہے جو بقدر دو یا تین گھونٹ کے تھا ۱؎ اور اس کے ساتھ ہی آپ کو الہام ہوا۔ ’’ آبِ زندگی ‘‘ یعنی یہ تیری بقیہ زندگی کا پانی ہے۔ اس کے بعد الہام ہوا۔ قَلَّ مِیْعَادُ رَبِّکَ ۔ یعنی تیری زندگی کی میعاد تھوڑی رہ گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ الہام ہوا۔ ’’ خدا کی طرف سے سب پر اداسی چھا گئی۔ ‘‘ ۲؎ پھر ۲۹؍ نومبر ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا ۔ قَرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدَّرُ وَلَا نُبْقِی لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا ۔ یعنی تیری مقدر وفات کا وقت قریب آگیا ہے اور ہم تیرے پیچھے کوئی رسوا کرنے والی بات نہیں رہنے دیں گے۔ ۳؎ پھر ۱۴؍ دسمبر ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا ’’ جاء وقتک ونبقی لک الایات باھرات ‘‘ یعنی تیرا وقت آن پہنچا ہے اور ہم تیرے واسطے روشن نشان باقی رکھیں گے۔ ۴؎ اسی طرح اور بھی بہت سے الہامات ہوئے جن سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ اب آپ کی وفات کا وقت بالکل قریب آگیا ہے۔
اس پر آپ نے ’’الوصیت‘‘ نام کے ماتحت ایک وصیت لکھ کر شائع فرمائی اور اس میں ان سارے الہامات کو درج کر کے اس بات کو ظاہر کیا کہ اب میری وفات کا وقت قریب ہے اور آپ نے اپنی تعلیم کا خلاصہ بیان کر کے جماعت کو نصیحت فرمائی کہ وہ آپ کے بعد آپ کی دلائی ہوئی تعلیم پر قائم رہے اور درمیانی ابتلائوں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلائوں کا آنا بھی سنت اللہ کے ماتحت ضروری ہوتا ہے اور آپ نے لکھا کہ نبی کا کام صرف تخم ریزی تک محدود ہوتا ہے۔ پس میرے ذریعہ سے یہ تخم ریزی ہو چکی ہے اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر اک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا۔ آپ نے یہ بھی لکھا کہ بسا اوقات ایک نبی کی وفات ایسے وقت میں ہوتی ہے جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے اندر رکھتا ہے اور مخالف لوگ ہنسی اور ٹھٹھا اور طعن و تشنیع سے کام لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بس اب یہ سلسلہ مٹ گیا۔ اور بعض کمزور مومن بھی ڈگمگانے لگتے ہیں۔ تب خدا اپنی دوسری قدرت کو ظاہر فرماتا ہے اور خلفاء کے ذریعہ بظاہر گرتی ہوئی عمارت کو سنبھال کر اپنی طاقت اور نصرت کا ثبوت دیتا ہے اور دشمن کی خوشی خاک میں مل جاتی ہے۔ چنانچہ آپ ’’ الوصیت‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ :۔
’’یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہے ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے … اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے۔ لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا۔ بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقع دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے …… غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے۔ (۱) اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے (۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا …… تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے وقت میں ہوا۔ جبکہ آنحضرت ﷺ کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانوں کی طرح ہو گئے۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا……
سو اے عزیزو ! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلادے۔ سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی ہے (یعنی میری وفات کے قریب ہونے کی خبر) غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں۔ کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا …… میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے۔ ‘‘ ۱؎
اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی اس وصیت میں خدا کے حکم سے جماعت کے لئے ایک خاص مقبرہ کی بھی تجویز فرمائی جس کا نام آپ نے بہشتی مقبرہ رکھا۔ دراصل اس مقبرہ کے متعلق آپ کو کئی سال پہلے سے رؤیا ہو چکا تھا اور آپ کو بتایا گیا تھا کہ جماعت کے خاص مخلصین کے لئے جو خدا کی نظر میں بہشتی ہیں ایک علیحدہ قبرستان ہونا چاہئے تا کہ وہ ایک یادگار ہو اور بعد میں آنے والی نسلیں اسے دیکھ کر اپنے ایمانوں کو تازہ کریں اور آپ اس عرصہ میں اس کے جائے وقوع اور زمین وغیرہ کے بارے میں غور فرماتے رہے تھے لیکن اب جبکہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات ہوئی اور خود آپ کو اپنی وفات کے بارے میں بھی کثرت کے ساتھ الہامات ہوئے تو آپ نے اس تجویز کے متعلق عملی قدم اٹھایا اور قادیان سے جنوبی جانب اپنے باغ کے ساتھ ایک قطعہ اراضی تجویز کر کے اس میں اس مقبرہ کی بنیادقائم کی۔ اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو جنہیں عارضی طور پر ایک بکس میں دوسری جگہ دفن کر دیا گیا تھا اس نئے مقبرہ کی طرف منتقل کر دیا گیا۔ اس مقبرہ کے قیام کے وقت آپ نے خدا سے الہام پا کر اس مقبرہ میں دفن ہونے کے لئے دو ضروری شرطیں بھی مقرر فرمائیں :۔
اوّل یہ کہ اس مقبرہ میں دفن ہونے والا ایک سچااور مخلص مومن ہو جو متقی ہو اور محرمات سے پرہیز کرنے والا اور ہر قسم کے شرک اور بدعت سے پاک ہو۔
دوم یہ کہ وہ اسلام اور احمدیت کی خدمت کے لئے اپنی جائیداد کا کم از کم دسواں حصہ اور زیادہ سے زیادہ تیسرا حصہ پیش کرے اور اس بارے میں ایک باقاعدہ وصیت کر کے اپنے مال کا یہ حصہ سلسلہ کے نام پر لکھ دے۔ مگر آپ نے یہ تصریح کی کہ اگر کوئی شخص کسی قسم کی جائیداد نہ رکھتا ہو تو پھر صرف شرط اوّل کافی ہو گی بشرطیکہ یہ ثابت ہو کہ ایسا شخص اپنی زندگی کو دین کے لئے وقف رکھتا تھا۔
آپ نے اس مقبرہ کے انتظام کے لئے ایک کمیٹی مقرر فرمائی جس کا صدر حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓ کو مقرر کیا اور اس بات کو لازمی قرار دیا کہ اس کمیٹی میں کم از کم دو ممبر ایسے رہنے چاہئیں جو دین کے عالم ہوں اور سلسلہ کی تعلیم سے اچھی طرح واقفیت رکھتے ہوں آپ نے اس مقبرہ کے متعلق یہ بھی تصریح فرمائی کہ خدا نے جو یہ انتظام قائم کیا ہے اس سے یہ مطلب نہیں کہ یہ زمین کسی کو بہشتی کر دے گی بلکہ مطلب یہ ہے کہ خداتعالیٰ اپنے فضل سے ایسا تصرف فرمائے گا کہ صرف بہشتی ہی اس مقبرہ میں دفن کیا جائے گا اور دوسرے لوگ اس میں جگہ نہیں پا سکیں گے۔ ۱؎
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کی وفات نے حضرت مسیح موعود ؑ کی توجہ کو اس طرف بھی مبذول کیا کہ جماعت میں کوئی ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ مرنے والے علماء کی جگہ لینے کے لئے دوسرے لوگ تیار ہوں جو سلسلہ احمدیہ کی خدمت کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا سکیں اور چونکہ اس زمانہ میں آپ کو اپنی وفات کے متعلق بھی کثرت کے ساتھ الہامات ہو رہے تھے اور ان ایام میں آپ کو جماعت کی تربیت کی طرف بھی خاص توجہ تھی اس لئے آپ نے کوشش فرمائی کہ بہت جلد کوئی ایسی تجویز ہو جاوے جس سے جماعت میں دین کی خدمت کرنے والے علماء پیدا ہونے لگیں۔ چنانچہ جب دسمبر ۱۹۰۵ء کے آخری ہفتہ میں قادیان میں جلسہ سالانہ کا اجتماع ہوا تو آپ نے اس موقع پر ایک نہایت درد انگیز تقریر فرمائی جس میں اپنی اس تجویز کو پیش کیا اور فرمایا کہ موجودہ انگریزی مدرسہ (یعنی تعلیم الاسلام ہائی سکول) ہماری اس مخصوص ضرورت کو پورا نہیں کرتا اس لئے ایسی درسگاہ کی ضرورت باقی رہتی ہے جس میں دینی علوم کی تعلیم دی جائے او رایسے علماء پیدا کئے جائیں جو اسلام اور احمدیت کی تعلیم سے پوری طرح واقف ہوں اور علم کے علاوہ تقریر و تحریر میں بھی اعلیٰ ملکہ رکھیں اور انہیں انگریزی اور حسب ضرورت سنسکرت وغیرہ بھی پڑھائی جائے اور دوسرے مذاہب کی تعلیم بھی دی جائے اور کسی قدر سائنس بھی سکھائی جائے اور اس کے ساتھ آپ نے یہ بھی تحریک فرمائی کہ جماعت کے نوجوان اپنے آپ کو خدمتِ دین کے لئے پیش کریں تا کہ انہیں مناسب تعلیم دلا کر کام میں لگایا جا سکے۔ اس موقعہ پر آپ نے یہ بھی ذکر فرمایا کہ ابھی جماعت میں تربیت کے لحاظ سے بہت کچھ اصلاح اور ترقی کی ضرورت ہے اور فرمایا کہ گو خدا کے وعدوں پر نظر رکھتے ہوئے مجھے ہر طرح سے امید اور ڈھارس ہے کہ خدا ساری کمیوں کو خود پورا فرمادے گا مگر بظاہر صورت جماعت کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے اور دوسری طرف اس پیغام موت کا خیال کرتے ہوئے جو مجھے خدا کی طرف سے آرہا ہے میرے دل میں غم اور درد پیدا ہوتاہے اور جماعت کی حالت اس بچہ کی سی نظر آتی ہے جس نے ابھی چند دن ہی دودھ پیا ہو اور اس کی ماں فوت ہو جاوے۔ ۱؎
آپ کی اس تقریر نے جو سوزوگداز سے بھری ہوئی تھی سامعین میںا یسی رقت پیدا کر دی کہ ان میں سے اکثر لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ اور جب آپ نے اپنی تقریر کو ختم کیا تو سب نے بالاتفاق عرض کیا کہ جماعت کی بہتری کے لئے جو بھی تجویز کی جاوے ہم سب اس پر عمل پیرا ہونے اور اس کا بوجھ اٹھانے کے لئے دل و جان سے تیار ہیں۔ اس کے بعد جماعت میں کافی دیر تک مشورہ ہوتا رہا۔ اور مختلف دوستوں کی طرف سے مختلف رائیں پیش کی گئیں اور بعض نے یہ بھی مشورہ دیا کہ موجودہ مدرسہ یعنی تعلیم الاسلام ہائی سکول کو اڑا کر اس کی جگہ خالص دینی مدرسہ قائم کر دیا جاوے مگر حضرت مسیح موعود ؑ نے اس تجویز کوپسند نہیں کیا اور فرمایا کہ یہ مدرسہ بھی ایک ضرورت کو پورا کر رہا ہے اور اسے اڑانا مناسب نہیں۔ البتہ اس میں بھی دینی تعلیم کو زیادہ مضبوط کرنا چاہئے۔ مگر علماء اور مبلغ پیدا کرنے کے لئے علیحدہ انتظام کی ضرورت ہے۔ بالآخر یہ فیصلہ قرار پایا کہ فی الحال تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ساتھ ایک دینیات کی علیحدہ شاخ زائد کر دی جائے۔ یعنی پرائمری کی تعلیم کے بعد طالب علم مروجہ تعلیم کے رستے پر تعلیم پائیں اور بعض بچے دینیات کی شاخ کی طرف آجائیں جس میں عربی اور دینیات کی اعلیٰ تعلیم کے علاوہ دوسرے مذاہب کے متعلق بھی تعلیم دی جائے اور ساتھ ہی دوسری زبانیں مثلاً انگریزی اور سنسکرت وغیرہ بھی پڑھائی جائیں اور کسی حد تک سائنس بھی ہو اور تحریر و تقریر کی بھی مشق کرائی جائے۔
چنانچہ ۱۹۰۶ء کی ابتداء سے یہ دینیات کی شاخ جاری کر دی گئی اور بعض نوجوانوں نے اپنے آپ کو خدمتِ دین کے لئے پیش کر دیا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کے بعد ۱۹۰۸ء کے جلسہ سالانہ میں یہ سوال پھر جماعت کے مشورہ کے لئے پیش کیا گیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی یادگار میں دینیات کی شاخ تو تعلیم الاسلام ہائی سکول سے کاٹ کر ایک مستقل مدرسہ کی صورت میں قائم کر دیا جائے۔ چنانچہ اس وقت سے یہ شاخ ایک مستقل مدرسہ کی صورت میں قائم ہو گئی اور یہی وہ درسگاہ ہے جو اس وقت مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کی صورت میں قائم ہے۔ اس درسگاہ میں جس کے ابتدائی حصہ کا نام مدرسہ احمدیہ ہے اور آخری حصہ کا نام جامعہ احمدیہ ہے قرآن شریف اور حدیث اور فقہ اور تصوف اور کتب سلسلہ احمدیہ کے علاوہ تاریخ اسلام اور تاریخ احمدیت اور دیگر مذاہب کا لٹریچر بھی پڑھایا جاتا ہے اور کسی قدر جغرافیہ اور سائنس اور انگریزی بھی ہے اور حال ہی میں سنسکرت کا بھی انتظام کیاگیا ہے اس درسگاہ کا سرکاری محکمہ تعلیم سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ایک خالص قومی درسگاہ ہے جس کی غرض و غایت دین کے عالم اور دین کے مبلغ پیدا کرنا ہے۔
۱۹۰۵ء کا انجام ایک لحاظ سے درد انگیز حالات میں ہوا تھا۔ یعنی اس سال کے آخر میں سلسلہ کے ایک جلیل القدر بزرگ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات ہوئی جن کے وصال سے جماعت میں گویا ایک خلا پیدا ہو گیا تھا اور پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ اسی سال کے آخری ایام میں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو اپنے قرب وفات کی خبر دی جس سے جماعت میں ایک انتہائی غم اور سراسیمگی کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ عام دنیا دارانہ رنگ میں ان حالات کا یہ نتیجہ ہونا چاہئے تھا کہ کم از کم ایک وقت تک جماعت میں مایوسی اور بے ذوقی کی کیفیت پیدا ہو جاتی۔مگر چونکہ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے قائم شدہ تھا اس لئے ان حالات نے حضرت مسیح موعود ؑ اور آپ کی جماعت ہر دو پر وہ اثر پیدا کیا جو ایک تیز گھوڑے پر تاز یا نہ کا اثر ہوتا ہے چنانچہ اس کے بعد سے نہ صرف سلسلہ کے کاموں میں آگے سے بھی زیادہ چستی اور تیز رفتاری پیدا ہو گئی بلکہ جماعت کے اخلاص نے بھی اس زمانہ میں غیر معمولی ترقی کی اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق تو یوں نظر آتا تھا کہ گویا اس خیال سے کہ اب کام کی مہلت ختم ہو رہی ہے اور خدا کے دربار میں حاضر ہو کر رپورٹ دینے کا وقت قریب آگیا ہے آپ اپنے انتہائی زور اور انتہائی جدوجہد اور انتہائی انہماک کے ساتھ خدمت دین میں مصروف تھے اور اپنے منصب ماموریت کے سوا ہر چیز کو بھولے ہوئے تھے ۔ یہی وہ دن ہیں جن میں آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ یہ جو وقت لوازماتِ بشری کے ماتحت کھانے پینے یا سونے یا رفع حاجت کے لئے پاخانہ وغیرہ میں جانے میں خرچ ہوتا ہے اس کا بھی ہمیں سخت قلق ہوتا ہے کہ کاش یہ وقت بھی خدمتِ دین میں لگ جاتا ۔ آپ کی یہ حالت اس پختہ ایمان اور اس کامل یقین پر ایک روشن دلیل ہے جو آپ کو اپنے خدا داد مشن کے متعلق تھا ۔ دوسری طرف اس زمانہ میں خدا نے بھی اپنے نشان نمائی کے ہاتھ کو غیر معمولی طور پر تیز کر دیا تھا اور یوں نظر آتا تھا کہ خداوند عالمیان یہ ارادہ کئے ہوئے ہے کہ ہمارا یہ چہیتا بندہ ہمارے سامنے کامل سرخروئی کے ساتھ آئے اور ہمارے دربار میں فتح و ظفر کا پرچم لہراتا ہوا پہنچے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی کے آخری ڈھائی سال میں اتنے نشان ظاہر ہوئے اور خدا تعالیٰ نے اپنے قدرت کے ہاتھ کی اتنی تجلیاں دکھائیں اور سلسلہ احمدیہ کے مخالف اس کثرت کے ساتھ ذلت کی موت کا شکار ہوئے کہ پہلے سارے ریکارڈ مات ہو گئے۔ مگر افسوس ہے کہ ہم اس مختصر رسالہ میں ان سب کا ذکر نہیں کر سکتے البتہ بطور مثال صرف چند معاندین کا ذکر درج ذیل کیا جاتا ہے۔
(۱) ایک شخص چراغ دین نامی جموں کا رہنے والا تھا۔ وہ حضرت مسیح موعود ؑ کا سخت مخالف تھا اور اس نے سلسلہ احمدیہ کے خلاف ایک کتاب بھی لکھی تھی جس میں اس نے حضرت مسیح موعود ؑ کے ہلاک ہونے کی پیشگوئی کی تھی اور خدا سے فیصلہ چاہاتھا چنانچہ خدا نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اس کتاب کے لکھنے کے چند دن بعد ہی یعنی ۱۹۰۶ء میں وہ خود طاعون سے ہلاک ہو گیا اور اس کے ساتھ اس کے دو بیٹے بھی طاعون کا شکار ہو گئے اور کوئی نام لیوا باقی نہ رہا۔ ۱؎
(۲) ایک اور صاحب بابو الٰہی بخش لاہوری تھے۔ اس شخص نے حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف ایک کتاب ’’ عصائے موسیٰ ‘‘ لکھی تھی اور اس میں یہ پیشگوئی کی تھی کہ مرزا صاحب نعوذ باللہ فرعون ہیں اور ان کے مقابل پر میں موسیٰ ہوں اور یہ کہ فرعون موسیٰ کے سامنے ہلاک ہو گا۔ مگر ۱۹۰۷ء میں وہ خود اپنے آپ کو فرعون کا مثیل ثابت کرتا ہوا طاعون کا نشانہ بن گیا۔ ۲؎
(۳) ایک شخص فقیر مرزا جو دوالمیال ضلع جہلم کا رہنے والا تھا اس نے حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف بہت کچھ بدزبانی کر کے آپ کی ہلاکت کی پیشگوئی کی تھی۔ یعنی یہ کہ آپ رمضان کے مہینہ میں ہلاک ہو جائیں گے مگر پھر وہ خود حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میں یعنی ۱۹۰۷ء میں طاعون کا شکار ہو گیا اور قدرتِ حق کا تماشا یہ ہے کہ اس کی موت عین رمضان کے مہینہ میں واقع ہوئی۔ ۳؎
(۴) حکیم عبدالقادر جو طالب پور ضلع گورداسپور کا رہنے والا تھا اس نے حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف ایک نہایت گندی نظم لکھی اور اس میں خدا سے دعا کی کہ وہ جھوٹ کا مطلع صاف کرے اور پھر ۱۹۰۷ء میں طاعون سے ہلاک ہو کر خود جھوٹ کے مطلع کو صاف کر گیا۔۱؎
(۵) مولوی محمد جان عرف ابوالحسن پسروری جو ایک مصنف تھا اور حدیث بخاری کا شارح بھی تھا اس نے ۱۹۰۷ء میں حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف ایک کتاب ’’ بجلی آسمانی ‘‘ لکھی اور دعا کی کہ مرزا صاحب پر خدا کی طرف سے بجلی گرے مگر اس کتاب کے لکھنے کے بعد وہ ایک ماہ کے اندر اندر خود طاعون کی بجلی کا نشانہ بن کر پیوند خاک ہو گیا۔ ۲؎
(۶) پھر ایک شخص سعد اللہ لدھیانوی تھا جس نے سلسلہ احمدیہ کی مخالفت کو انتہاء تک پہنچا دیا اور حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف ایسی گندی تحریریں لکھیں کہ انسانی شرافت ان کے ذکر سے شرماتی ہے اس نے تحدی کے ساتھ لکھا تھا کہ میں مرزا صاحب کو نیچا دکھا کر تباہ و برباد کروں گا مگر آخر ۱۹۰۷ء میں حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میں ہی خود طاعون سے ہلاک ہو گیا ۔ بلکہ سعداللہ کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کی ایک اور عظیم الشان پیشگوئی بھی پوری ہوئی اور وہ یہ کہ اس نے حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق لکھا تھا کہ آپ نعوذ باللہ ابتر رہیں گے یعنی آپ کا سلسلہ تباہ ہو جائے گا اور کوئی نام لیوا نہیں رہے گا اور آپ لاولد اور لاوارث مریں گے۔ اس پر خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ کو الہام کیا کہ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَالْاَبْتَر یعنی تیرا دشمن خود ابتر اور لاولد رہے گا۔ چنانچہ اس کے بعد سعد اللہ کے کوئی اولاد نہیں ہوئی اور جو لڑکا پہلے سے اس کا موجود تھا وہ بھی لاولد گزر گیا۔ اور ساری نسل خاک میں مل گئی۔ ۳؎
(۷) قادیان میں تین جوشیلے آریہ اچھر چند ، سوم راج اور بھگت رام رہتے تھے جنہوں نے قادیان سے حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف ایک اخبار ’’ شبھ چنتک ‘‘ نامی جاری کیا تھا اور اس اخبار کو سلسلہ احمدیہ کی مخالفت میں وقف کر دیا تھا اور یہ مخالفت محض اصولی حد تک محدود نہیں تھی بلکہ اخبار شبھ چنتک کا ہر ورق حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف گندی گالیوں اور جھوٹے الزامات سے بھرا ہوا ہوتا تھا اور اچھرچند تو تمسخر کے طور پر یہ بھی کہا کرتا تھا کہ مرزا صاحب نے اپنے لئے اور اپنے مکان میں رہنے والوں کے لئے طاعون سے محفوظ رہنے کی پیشگوئی ہے اس کے مقابل پر میں بھی کہتا ہوں کہ مجھے بھی طاعون نہیں ہو گی۔ آخر ۱۹۰۷ء کے شروع میں ان تینوں کو طاعون نے پکڑا اور چند دن کے اندر اندر سب کا صفایا کر دیا اور ان کی ہلاکت کے ساتھ اخبار ’’ شبھ چنتک‘‘ کا بھی ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا۔ ۱؎
(۸) ایک شخص جان الگزینڈر ڈوئی امریکہ کے شہر شکاگو کے پاس رہتا تھا اور نہایت امیر کبیر آدمی تھا۔ وہ مذہباً عیسائی تھا اور اس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ خدا نے مجھے مسیح کی آمد ثانی کی تیاری کے لئے مبعوث کیا ہے اور اس نے اسلام کے خلاف ایک رسالہ ’’ لیوز آف ہیلنگ‘‘ نامی بھی نکالا تھا اور اس بات کا مدعی تھا کہ اسلام اس کے ہاتھ سے نابود ہو گا۔ جب حضرت مسیح موعود ؑ کو اس کے دعویٰ سے اطلاع ہوئی تو آپ نے اسے چیلنج دیا کہ اگر تم سچے ہو تو میرے سامنے آکر روحانی مقابلہ کر لو اور آپ نے اس چیلنج کو امریکہ کے بہت سے اخباروں میں چھپوا دیا مگر ڈوئی اس مقابلہ کے لئے تیار نہ ہوا اور یہ کہہ کر ٹال دیا کہ میں ان بھنبھنانے والے مچھروں کے سامنے کھڑا نہیں ہونا چاہتا جن کو میں کسی وقت اپنے ہاتھ میں لے کر مسل سکتا ہوں۔ آخر حضرت مسیح موعود ؑ نے اس کے متعلق بطور خود خدا سے فیصلہ چاہا اور خدا نے آپ کو خبر دی کہ عنقریب ایک ایسا نشان ظاہر ہو گا جو ساری دنیا کے لئے نشان ہو گا۔ چنانچہ اس کے چند دن بعد ہی یعنی ۱۹۰۷ء کے شروع میں امریکہ کا جھوٹا مدعی ڈوئی نہایت درجہ ذلیل ہو کر خاک میں مل گیا۔ یعنی پہلے تو اس کے مریدوں کاایک بڑا حصہ اس سے برگشتہ ہو کر اس کے خلاف کھڑا ہو گیا اور پھر اس پر فالج کا حملہ ہوا جس میں اس نے کچھ عرصہ نہایت تکلیف کی زندگی گزاری اور آخر حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میں ہی وہ اس جہان سے رخصت ہوا۔ ۲؎
یہ تو وہ بعض عذاب کی تجلیاں تھیں جو حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی کے آخری ایام میں ظاہر ہوئیں۔ مگر خدا کے مرسل صرف عذاب کے لئے نہیں آتے بلکہ ان کا اصل مشن رحمت کا ہوتا ہے اور عذاب کا پہلو صرف انکار اور شوخی کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میں خدا نے رحمت کے نشانوں کی بھی کمی نہیں رکھی بلکہ غور کیا جائے تو آپ کے رحمت کے نشان جو آپ کے متعلق یا آپ کی اولاد کے متعلق یا آپ کے دوستوں کے متعلق یا آپ کی جماعت کے متعلق ظاہر ہوئے ان کی تعداد عذاب کے نشانوں سے بہت زیادہ ہے مگر ہم اس جگہ مثال کے طور پر صرف پانچ نشانوں کا ذکر کرتے ہیں جو حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی کے آخری ایام میں ظاہر ہوئے۔
(۱) حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت میں ایک بزرگ نواب محمد علی خان صاحب ہیں جو ہزہائی نس نواب مالیر کوٹلہ کے ماموں ہیں۔ نواب محمد علی خان صاحب حضرت مسیح موعود کی صحبت سے مستفیض ہونے کے لئے قادیان میں ہجرت کر کے آگئے تھے۔ اس عرصہ میں ان کا لڑکا عبدالرحیم خان تپ محرقہ سے بیمار ہو گیا اور باوجود پورے پورے علاج کے اس کی حالت دن بدن گرتی گئی حتیّٰ کہ ڈاکٹروں نے یہ رائے ظاہر کر دی کہ اب اس کا بچنا محال ہے اور چند دن میں فوت ہو جائے گا۔ اس پر حضرت مسیح موعود ؑکو دعا کی طرف خاص توجہ پیدا ہوئی اور آپ نے علیحدگی میں جا کر اس کے لئے دعا فرمائی۔ جس پر آپ کو الہاماً بتایا گیا کہ اس لڑکے کی موت مقدر ہے اور اب دعا کا وقت گزر چکا ہے ۔ اس پر آپ نے خداسے التجا کی کہ اگر دعا کا وقت نہیں تو شفاعت کا وقت تو ہے۔ ۱؎ پس میں اس بچہ کے لئے شفاعت کرتا ہوں اس پر بڑے زور کے ساتھ یہ الہام ہوا کہ خدا کی اجازت کے بغیر کون شفاعت کر سکتا ہے اور آپ لکھتے ہیں کہ اس الہام کے جلال کے سامنے میرا جسم کانپ گیا اور میں یہ یاد کر کے پانی پانی ہو گیا کہ میں نے خدا کی اجازت کے بغیر شفاعت کر دی۔ مگر ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک محبت کی آواز آپ کے کانوں میں آئی کہ اَنْتَ الْمَجَاز یعنی ہم تجھے شفاعت کی اجازت دیتے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے شفاعت فرمائی اور شفاعت کے ساتھ عبدالرحیم خان کی بیماری ہوا کی طرح اڑ گئی اور چند دن میں صحت یاب ہو کر چلنے پھرنے لگ گیا۔ ۲؎
(۲) ایک نہایت مخلص احمدی سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراس میں تاجر تھے۔ سیٹھ صاحب کی عمر بڑی تھی اور جسم بھاری تھا اور ساتھ اس کے ذیابیطس کی تکلیف بھی رہتی تھی۔ اس حالت میں انہیں کار بنکل کا پھوڑا نکل آیا۔ اور چونکہ ان حالات میں یہ مرض عموماً مہلک ہوتا ہے ڈاکٹروں نے سخت تشویش کا اظہار کیا۔ اس پر سیٹھ صاحب نے گھبرا کر حضرت مسیح موعود ؑ کو تار کے ذریعہ دعا کی درخواست کی۔ حضرت مسیح موعود ؑ کو سیٹھ صاحب کے ساتھ ان کے اخلاص اور خدمات کی وجہ سے بہت محبت تھی اس لئے آپ نے ان کے لئے خاص توجہ سے دعا فرمائی جس پر آپ کو خداکی طرف سے الہام ہوا ’’آثار زندگی ‘‘ چنانچہ اس کے بعد سیٹھ صاحب بالکل تندرست ہو گئے اور کئی سال صحت کی حالت میں زندہ رہ کر حضرت مسیح موعود ؑ کے بعد وفات پائی۔ ۱؎
(۳) حضرت مولوی نورالدین صاحب بھیروی جو حضرت مسیح موعود ؑ کے بعد پہلے خلیفہ ہوئے اور جو حضرت مسیح موعود ؑ کے خاص الخاص صحابہ اور دوستوں میں سے تھے ان کی اولاد چھوٹی عمر میں مر جاتی تھی جس پر بعض مخالفین نے استہزاء کا طریق اختیار کیا کہ گویا مرزا صاحب کا یہ خاص حواری لاولد رہا جا رہا ہے۔ اس پر حضرت مسیح موعود ؑ نے خدا سے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ حضرت مولوی صاحب کے ایک لڑکا پیدا ہو گا جسے خدا چھوٹے عمر میں فوت ہونے سے بچائے گا اور بطور علامت کے یہ بتایا گیا کہ اس بچہ کے بدن پر غیر معمولی صورت میں پھوڑے نکلیں گے۔ چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق حضرت مولوی صاحب کے گھر میں لڑکا پیدا ہوا جسے خدا نے بچپن میں وفات سے بچایا اور ولادت کے کچھ عرصہ بعد اس کے بدن پر اتنے پھوڑے نکلے کہ سارا جسم پھوڑوں سے بھر گیا ۲؎ گویا وہ کوئی مخفی زہر تھا جو پھوڑوں کے رستے نکل گیا اور پھر ایک لمبے عرصہ کے بعد ان پھوڑوں سے نجات ملی اور اس کے بعد خدا نے حضرت مولوی صاحب کو اور بھی کئی بچے عطا کئے جو زندہ رہے۔
(۴) خاکسار مؤلف کے حقیقی ماموں میر محمد اسحق صاحب جو حضرت مسیح موعود ؑ کے مکان کے ایک حصہ میں رہتے تھے وہ ۱۹۰۶ء میں سخت بیمار ہو گئے اور تیز بخار کے ساتھ ہر دو بنِ ران میں گلٹیاں بھی ظاہر ہو گئیں۔ چونکہ یہ ایام طاعون کے تھے اس لئے یقین کر لیا گیا کہ یہ طاعون ہے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اوّل بھی جو میر صاحب کے معالج تھے بہت گھبرا گئے۔ اس پر حضرت مسیح موعود ؑ کو سخت قلق پیدا ہوا اور آپ نے ان کے لئے خصوصیت سے دعا فرمائی اور خدا سے عرض کیا کہ خواہ اصل مرض کچھ ہو لیکن اگر اس وقت ان عوارض کے ساتھ ان کی وفات ہو گئی تو دشمن کو اعتراض کا موقعہ ہو گا کہ طاعون کی بیماری سے مکان کی حفاظت کاوعدہ غلط نکلا جس پر خدا نے آپ کی دعا کو سنا اور میر صاحب کو خارق عادت طور پر شفا عطا کی چنانچہ میر صاحب دو تین گھنٹے کے اندر اٹھ کر کھیلنے کودنے لگ گئے اور بخار اور گلٹیوں کا نام و نشان نہ رہا۔ ۱؎
(۵) قادیان میں ریاست حیدر آباد دکن کا ایک لڑکا عبدالکریم پڑھتا تھا۔ اسے ۱۹۰۶ء میں ایک دیوانے کتے نے کاٹ لیا اور بہت زخمی کیا۔ اس پر عبدالکریم کو کسولی پہاڑ پر بھجوایا گیا جہاں ایسے بیماروں کا علاج ہوتا تھا۔ چند دن کے علاج کے بعد عبدالکریم بظاہر اچھا ہو کر واپس آگیا۔ مگر اس کے کچھ عرصہ بعد اس میں ہائیڈرو فوبیا کے آثار ظاہر ہو گئے اور اس شدّت کے ساتھ ظاہر ہوئے کہ جھوٹے ہائیڈرو فوبیا کا امکان نہ رہا بلکہ بیماری کی حقیقی علامات ظاہر ہو گئیں۔ چونکہ لڑکا بہت دور سے آیا ہوا تھا حضرت مسیح موعود ؑ کو اس کے لئے خاص طور پر دعا کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور ساتھ ہی آپ کے منشاء کے ماتحت کسولی کے انچارج ڈاکٹر کو تار دی گئی کہ عبدالکریم کو یہ یہ علامات ظاہر ہو گئی ہیں اس کا کیا علاج کیا جائے۔ وہاں سے تار آیا کہ اب اس مرحلہ پر اس بیماری کا کوئی علاج نہیں۔ مگر حضرت مسیح موعودؑ نے پھر بھی دعا جاری رکھی اور آخر آپ کی دعا سے خدا نے عبدالکریم کو شفا دی اور وہ بالکل صحت یاب ہو گیا حالانکہ اس وقت تک فن طب کا یہ متحدہ فتویٰ ہے کہ جب ایک دفعہ اس مہلک بیماری کے حقیقی آثار ظاہر ہو جائیں تو پھر اس کا کوئی علاج نہیں۔ ۲؎
یہ وہ نشان ہیں جو محض سنے سنائے نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں لوگ ان کے چشم دید گواہ ہیں اور یہ چند نشان صرف بطور مثال درج کئے گئے ہیں ورنہ حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب اس قسم کے نشانوں سے بھری پڑی ہیں۔ بے شک آجکل کے مادہ پرست لوگ ان باتوں کو پڑھ کر ہنسیں گے اور انکار کریں گے مگر جن لوگوں کی آنکھوں کے سامنے یہ نظارے گزرے ہیںوہ کس طرح انکار کر سکتے ہیں اور سچ پوچھو تو وہ لوگ بھی کس طرح انکار کر سکتے ہیں جو حضرت مسیح ناصری اور دوسرے مذہبی بزرگوں کے متعلق اسی قسم کے معجزوں پر ایمان لاتے ہیں حالانکہ وہ معجزے تاریخی رنگ میں اپنے ساتھ بہت ہی کم ثبوت رکھتے ہیں اور اکثر ان میں سے قصے کہانیوں سے زیادہ نہیں۔
صدر انجمن احمدیہ کا قیام :۔ حضرت مسیح موعو ؑ کے آخری ایام کے نشانوں کو ایک جگہ
بیان کرنے کی غرض سے ہم نے واقعات کے تسلسل کا خیال نہیں رکھا اب اس زمانہ کے دوسرے واقعات تسلسل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے مقبرہ بہشتی کے انتظام کے لئے ایک مجلس مقرر فرما دی تھی جس کا صدر آپ نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو مقرر فرمایا تھا۔ اس کے جلدی بعد حضرت مسیح موعود ؑ کے سامنے بعض لوگوں نے یہ تجویز پیش کی کہ اب چونکہ سلسلہ کا کام بہت پھیل گیا ہے اور کئی قسم کے کام جاری ہو گئے ہیں اور مرکزی دفاتر کا انتظام اور چندوں کا حساب کتاب ایک باقاعدہ نام چاہتا ہے اس لئے مناسب ہے کہ ایک واحد مرکزی کمیٹی بنا کر سارے دفتری کام اور انتظامات اس کے سپرد کر دئیے جائیں ۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس تجویز کو منظور کر کے ایک مرکزی مجلس کے قیام کو منظور فرمایا اور اس طرح صدر انجمن احمدیہ کا وجود ظہور میں آگیا۔ صدر انجمن احمدیہ کے قیام کے بعد وہ تین انجمنیں بھی جو اس سے پہلے تعلیم الاسلام ہائی سکول اور ریویو آف ریلیجنز اور مقبرہ بہشتی کے انتظام کے لئے علیحدہ علیحدہ مقرر تھیں اس مرکزی انجمن کے ماتحت آگئیں چنانچہ جنوری ۱۹۰۶ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود ؑ کی منظوری سے صدر انجمن احمدیہ کے قواعد مرتب کر کے شائع کر دئیے گئے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے صدر انجمن احمدیہ کے چودہ ممبر مقرر فرمائے اور انجمن کا صدر حضرت مولوی نورالدین صاحب کو مقرر کیا اور مولوی محمد علی صاحب ایم ۔ اے سیکرٹری مقرر کئے گئے اور گو اس وقت خاکسار مؤلف رسالہ ہذا کے بڑے بھائی حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب (جو اس وقت جماعت احمدیہ کے خلیفہ ہیں) بہت چھوٹے تھے یعنی صرف سترہ سال کی عمر تھی مگر انہیں بھی حضرت مسیح موعود ؑ نے اس انجمن کا ممبر مقرر فرمایا۔ اور سلسلہ کا دفتری کام اور صیغہ جات کا انتظام جو پہلے متفرق انجمنوں کے سپرد تھا اب اس واحد مرکزی انجمن کے سپرد کر دیا گیا۔ مگر انجمن کے سپرد کردہ امور میں بھی ہر معاملہ میں آخری حکم خود حضرت مسیح موعود ؑ کے ہاتھ میں رہا۔ ۱؎ علاوہ ازیں لنگرخانہ اور مہمان خانہ کا انتظام براہ راست آپ کے پاس رہا کیونکہ آپ کو اندیشہ تھا کہ اسے انجمن کے سپرد کر دینے سے کہیں مہمانوں کے لئے تکلیف کا سامنا نہ ہو اور آپ یہ بھی چاہتے تھے کہ تربیت کے لحاظ سے مہمانوں کا براہ راست آپ کے ساتھ تعلق رہے۔
صدر انجمن احمدیہ کے قیام کی تجویز ایک عام تنظیمی تجویز تھی جو سلسلہ کے بڑھتے ہوئے کاموں کی وجہ سے سہولت کے خیال سے اختیار کی گئی اور حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میںاس انجمن کی اس سے زیادہ حیثیت نہیں تھی کہ وہ آپ کے ماتحت اور آپ کی امداد کے لئے بعض کاموں کے چلانے کے واسطے ایک انجمن ہے اور کسی کو یہ وہم و گمان بھی نہ تھا کہ یہ انجمن جماعت کی افسر اور اس کی پالیسی کی نگران اور اس کی مہم کو چلانے والی ہے۔ اور جماعت کے بہت سے لوگ اس سے واقف تک نہیں تھے اور جماعت سے باہر تو اس کے نام سے بھی اکثر لوگ ناآشنا تھے اور جب ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات ہوئی تو اس وقت بھی کسی کو یہ خیال تک نہیںگیا کہ یہ انجمن سلسلہ احمدیہ میں خلافت کی قائم مقام ہے بلکہ خود انجمن نے اور انجمن کے ممبروں نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو خلیفہ منتخب کرنے میں حصہ لیا اور ساری جماعت نے متحدہ طور پر حضرت خلیفہ اوّل کی خلافت کو مطابق وصیت حضرت مسیح موعود ؑ برحق تسلیم کر کے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد حضرت خلیفہ اوّل کے زمانہ میں ہی ایک پارٹی ایسی پیدا ہو گئی جس نے مغرب کے جمہوری طریق حکومت سے متاثر ہو کر اور شخصی نظام کو اپنی طبیعت کے خلاف پاکر اس خیال کو اٹھایا کہ اصل چیز انجمن ہی ہے اور وہی جماعت کی حاکم اعلیٰ ہے اور خلیفہ کی حیثیت زیادہ سے زیادہ ایک پریزیڈنٹ کی ہے جو انجمن کے ماتحت ہے۔ یہ خیال ایک مضحکہ خیز خیال تھاکیونکہ :
اوّل ۔ وہ حضرت مسیح موعود ؑ کی وصیت کے خلاف تھا جس کا ایک اقتباس اوپر گزر چکا ہے۔
دوسرے ۔ وہ جماعت کے سب سے پہلے اجماع کے خلاف تھا جو وہ حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کے معاً بعد ایک واجب الاطاعت خلیفہ کو منتخب کر کے کر چکی تھی۔
تیسرے ۔ وہ خود صدر انجمن احمدیہ کے اس متحدہ فیصلہ کے خلاف تھا جو اس نے حضرت خلیفہ اوّلؓ کے انتخاب کے وقت کیا تھا۔ ۱؎
چوتھے ۔ وہ اسلامی طریق عمل اور صحابہ کے تعامل کے خلاف تھا جو آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد خلافتِ راشدہ کی صورت میں قائم ہو چکا تھا۔
پانچویں ۔ وہ عقل اور تجربہ کے بھی خلاف تھا جس نے دنیا میں یہ ثابت کر دیا ہے کہ گو عام انتظامی کاموں کے سر انجام دینے کے لئے مجلسیں اور پارلیمنٹیں ایک حد تک کام دے سکتی ہیں مگر کسی زبردست مہم کو چلانے اور کسی تیز رَو کو جاری کرنے اور لوگوں میںزندگی کی روح پھونکنے کے لئے ایک واحد مقناطیسی شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے۔
اور پھر مذہبی نظام کے معاملہ میں تو خصوصاً ایک شخصی انتظام کے بغیر کام نہیں چل سکتا کیونکہ مذہب میں جذبات اور اخلاص اور ایمان کا تعلق ہوتا ہے اور یہ چیزیں ہرگز کسی انجمن کے انتظام کے ماتحت قائم نہیں رہ سکتیں اور پھر اسلام نے خلافت کو بھی کلی طور پر شخصی نہیں رہنے دیا بلکہ اس کے ساتھ مشورہ کو ضروری قرار دیا ہے۔ مگر افسوس کہ جماعت کے ایک حصہ نے اس سوال پر ٹھوکر کھا کر اپنے لئے ایک ایسا رستہ اختیار کر لیا جو یقینا فلاح و کامیابی کا رستہ نہیں لیکن اس ذکر کا اصل موقعہ آگے آتا ہے اس لئے اس جگہ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
جو درد ناک تقریر حضرت مسیح موعود ؑ نے ۱۹۰۵ء کے جلسہ سالانہ میں فرمائی تھی جس میں خصوصیت سے اس بات پر زور تھا کہ گزرنے والے علماء کی جگہ لینے کے لئے نوجوانوں کو آگے آنا چاہئے وہ بہرے کانوں پر نہیں پڑی تھی۔ بلکہ اس نے جماعت کے نوجوانوں میں ایک خاص زندگی کی روح پھونک دی تھی اور وہ خدمت کا موقعہ پانے کے لئے بیتاب ہو کر آگے آرہے تھے۔ چنانچہ اس تقریر کے معاً بعد یعنی اوائل ۱۹۰۶ء میں چند احمدی نوجوانوں نے مل کر قادیان میں ایک انجمن قائم کی جس کی غرض یہ تھی کہ احمدی نوجوان تقریر و تحریر کی مشق کر کے سلسلہ کی خدمت کے قابل بنیں۔ اس انجمن کا نام حضرت مسیح موعود ؑ نے تشحیذ الاذہان رکھا ۔ یعنی ذہنوں کو تیز کرنے والی انجمن اور اس انجمن نے اپنا طریق عمل یہ اختیار کیا کہ ایک تو ہفتہ واری یا پندرہ روزہ جلسے منعقد کر کے تقریروں کی مشق شروع کی اور دوسرے ایک ماہواری رسالہ کا اجراء کیا جس کا نام بھی ’’تشحیذ الاذہان‘‘ رکھا گیا۔ اس رسالہ میں اسلام اور احمدیت کی تائید میں مضامین لکھے جاتے تھے۔ ان ہر دو سلسلوں نے جماعت کی ایک عمدہ خدمت سر انجام دی اور نوجوانوں کی تنظیم اور ان کی علمی اور عملی ترقی میں نمایاں حصہ لیا۔ اس انجمن کے روح و رواں حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب تھے جو آجکل جماعت کے امام ہیں اور ان کے ساتھ چوہدری فتح محمد صاحب اور بعض دوسرے نوجوان تھے ۔ یہ وہی چوہدری فتح محمد صاحب ہیں جو آجکل صدر انجمن احمدیہ کے پریزیڈنٹ اور ناظر اعلیٰ ہیں۔
ڈاکٹر عبدالحکیم خان کا ارتداد اور حقیقۃ الوحی کی تصنیف :۔ ہر الٰہی سلسلہ میں ایک حد
تک ارتداد کا سلسلہ بھی چلتا ہے چنانچہ حضرت مسیح ناصری کے عہد میں بھی بعض لوگ مرتد ہو گئے تھے اور آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی عبداللہ بن ابی سرح وغیرہ نے ارتداد اختیار کیا تھا سو یہ سنت حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت میں بھی پوری ہوئی یعنی ۱۹۰۶ء کے شروع میں ایک شخص ڈاکٹر عبدالحکیم خاں نامی جو ریاست پٹیالہ میں اسسٹنٹ سرجن تھا اور کئی سال تک حضرت مسیح موعود ؑ کا مرید رہ چکا تھا جماعت سے مرتد ہو کر مخالفین کے گروہ میں شامل ہو گیا۔ اس کے ارتداد کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس کا یہ عقیدہ ہو گیا تھا کہ نجات کے لئے کسی نبی یا رسول پر ایمان لانا ضروری نہیں بلکہ محض خدا کو مان لینا کافی ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اسے بہت سمجھایا کہ وہ ایمان جو سلسلہ رُسل و کتب کو الگ رکھ کر محض صحیفہ فطرت پر نگاہ کرنے سے خدا کے متعلق پیدا ہوتا ہے وہ بہت ناقص اور ادنیٰ ہوتا ہے بلکہ دراصل وہ حقیقی ایمان ہوتا ہی نہیں۔ بلکہ ایک قسم کا قیاس ہوتا ہے جو انسان کو خدا کے متعلق اس شکی مقام سے آگے نہیں لے جاتا کہ کوئی خدا ہونا چاہئیے۔ مگر آپ نے تشریح فرمائی کہ محض ’’ہونا چاہئے‘‘ والا ایمان کچھ حقیقت نہیں رکھتا جب تک کہ انسان اس یقین تک نہ پہنچ جائے کہ واقعی ایک خدا ہے اور آپ نے بتایا کہ یہ ’’ہے‘‘ والا ایمان رسولوں اور نبیوں کی وساطت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے لئے خدائی تجلیات اور نشانات اور معجزات کی ضرورت ہوتی ہے جو ایک نبی اور رسول کے ذریعہ ہی ظاہر ہوتے ہیں۔ اسی لئے محض ’’ ہونا چاہئیے‘‘ والا ایمان جو صرف ایک قیاسی درجہ رکھتا ہے انسان کے اندر حقیقی عرفان اور کامل یقین اور تسلی اور اطمینان نہیں پیدا کر سکتا جو انسانی اعمال کی اصلاح اور خدا کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن افسوس ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی ان تشریحات نے عبدالحکیم خان کو فائدہ نہ پہنچایا اور وہ دن بدن مخالفت میں ترقی کرتا گیا اور چونکہ وہ ملہم ہونے کا بھی مدعی تھا اس لئے اس نے آپ کے خلاف یہ بھی اعلان کیا کہ مجھے خدا نے بتایا ہے کہ آپ بہت جلد تباہ ہو جائیں گے اس کے لئے اس نے پہلے تین سال کی میعاد مقرر کی ۱؎ اور پھر اسے بدل کر چودہ ماہ کی میعاد مقرر کی ۲؎ اور پھر بالآخر اسے بھی بدل کر ایک معین دن مقرر کر دیا کہ ۴؍ اگست ۱۹۰۸ء کے دن آپ کی وفات ہو گی۔ ۳؎ اس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود ؑ کو خدا نے اس کے متعلق یہ الہام کیا کہ :۔
’’ خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں …… ان پر کوئی غالب نہیں آسکتا ……… رَبِّ فَرِّقْ بَیْنَ صَادِقٍ وَّکَاذِبٍ ۔ اے میرے خدا صادق اور کاذب میں فرق کر کے دکھلا دے۔ ۴؎
یہ ایک بہت لطیف الہام تھا جس کے الفاظ میں یہ اشارہ مخفی تھا کہ گو عبدالحکیم خان کی پیشگوئی تو بہر حال جھوٹی نکلے گی مگر دوسری طرف وہ آپ کی زندگی میں مرے گا بھی نہیں بلکہ بعد تک زندہ رہے گا لیکن باوجود اس کے زندہ رہنے کے اللہ تعالیٰ جھوٹے اور سچے میں فرق کر کے دکھلا دے گا یعنی سچا اپنی قبولیت کی علامت سے پہچانا جائے گا اور جھوٹا مردود اور ناکام رہے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی دی اور ایسی قبولیت عطا فرمائی جو ہمیشہ سے صادقوں کو ملتی آئی ہے۔ مگر اس کے مقابل پر نہ صرف عبدالحکیم خان کی پیشگوئی جھوٹی نکلی بلکہ وہ ہر طرح ذلیل اور مردود رہا اور کسی نے اس کو پوچھا تک نہیں اور آخر وہ اسی ذلت اور گمنامی کی حالت میں مر گیا اور اب کوئی شخص اسے جانتا تک نہیں۔
لیکن چونکہ وہ سوال جو عبدالحکیم خان نے ایمان بالرسل کے متعلق اٹھایا تھا وہ بہت اہم تھا اور علاوہ اس کے عبدالحکیم خان الہام کا بھی مدعی بنتا تھا اس لئے حضرت مسیح موعود نے اس کے مقابل پر اپنے الہام کی اشاعت پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ عبدالحکیم خان کے غلط خیالات کی تردید میں ایک مبسوط کتاب تصنیف کر کے شائع فرمائی جس کا نام آپ نے ’’ حقیقۃ الوحی‘‘ رکھا۔ یہ ایک بہت ضخیم کتاب ہے جو ۱۹۰۶ء سے شروع ہو کر ۱۹۰۷ء میں ختم ہوئی۔ اس میں حضرت مسیح موعود ؑ نے وحی اور الہام کی حقیقت پر نہایت سیرکن بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ وحی کتنی قسم کی ہوتی ہے اور وحی کی مختلف اقسام کی کیا کیا علامات ہیں اور یہ بھی ثابت کیا ہے کہ بعض اوقات الہام کی ادنیٰ قسمیں کمزور اور گندے لوگوں کو بھی ہو جایا کرتی ہیں اور غیر مومنوں اور فاسقوں فاجروں کو بھی بعض اوقات سچے خواب آجاتے ہیں۔ مگر یہ خواب اور یہ الہام ان کی سچائی اور نیکی کی علامت نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ اس غرض سے ایسا کرتا ہے کہ تا عام لوگ بھی خوابوں اور الہاموں کے کوچے سے کسی قدر آشنا رہیں اور نبیوں اور پاک لوگوں کا اعلیٰ اور ارفع الہام ان کے خلاف حجت ہو سکے اور وہ اسے سمجھ سکیں۔
اسی طرح آپ نے اس کتاب میں اس سوال کا بھی تشریح کے ساتھ جواب دیا کہ وہ نام نہاد ایمان جو محض صحیفہ فطرت کے عقلی مطالعہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے وہ ہرگز کافی نہیں ہوتا بلکہ حقیقی اور زندہ ایمان پیدا کرنے کے لئے نبیوں اور رسولوں کا وجود ضروری ہے جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ اپنی روشن تجلیات کا ظہور کرتا ہے جو ایمان کو ’’ ہونا چاہئے‘‘ کی پر خطر وادی سے نکال کر ’’ہے‘‘ کے محفوظ قلعہ میں پہنچا دیتی ہیں۔ علاوہ ازیں آپ نے اس کتاب میںاپنے ان سینکڑوں نشانوں کو بھی بیان کیا جو خدا نے آپ کے ذریعہ ظاہر کئے اور آپ نے بتایا کہ آپ کی پیشگوئیاں کس طرح پوری ہوئیں آپ کے مخالف کس طرح خدائی عذابوں کا نشانہ بنے اور آپ کے دوستوں نے کس طرح خدا کی رحمت سے حصہ پایا اور خدا نے آپ کی تائید میں کیا کیا زبردست نشانات ظاہر کئے وغیر ذالک۔ الغرض یہ کتاب ایک لا جواب تصنیف ہے جس کے مطالعہ سے ہر غیر متعصب شخص کو گویا خدا کا چہرہ نظر آنے لگتا ہے۔
پنجاب میں بغاوت اور اس پر حضرت مسیح موعود ؑ کا اعلان :۔ ۱۹۰۷ء میں پنجاب کے
اندر ایک بہت بھاری پولیٹکل ہیجان پیدا ہوا جس کی ابتداء سودیشی کے سوال سے ہوئی تھی مگر آہستہ آہستہ بات بڑھ گئی اور اس تحریک نے ایک گو نہ بغاوت کا رنگ اختیار کر لیا جس کے نتیجہ میں ہندوئوں کے مشہور لیڈر لالہ لاجپت رائے پنجاب سے جلا وطن کئے گئے۔ اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک اشتہار ۱؎ کے ذریعہ اپنی جماعت کو نصیحت فرمائی کہ وہ ہر طرح پرامن رہیںاور کسی قسم کی باغیانہ اور قانون شکن کارروائی میں حصہ نہ لیں۔ دراصل حضرت مسیح موعود ؑ ہمیشہ سے اسلام کی اصولی تعلیم کے ماتحت اپنی جماعت کو یہ نصیحت فرماتے رہتے تھے کہ انسان کو حکومت وقت کا وفادار رہنا چاہئے اور اس کے خلاف کسی قسم کی باغیانہ کارروائی میں حصہ نہیں لینا چاہئے بلکہ ایک پرامن شہری کے طور پر زندگی بسر کرنی چاہئے آپ اس بات کے خلاف نہیں تھے کہ لوگ حکومت سے اپنے حقوق کا مطالبہ کریں مگر آپ اس بات کو ناجائز قرار دیتے تھے کہ یہ مطالبہ قانون شکنی کی صورت میں باغیانہ طریق اختیار کر کے کیا جاوے بلکہ نصیحت فرماتے تھے کہ ایسے مطالبات قانون کے اندر رہتے ہوئے پیش کرنے چاہئیں اور کوئی ایسا طریق اختیار نہیں کرنا چاہئے جو ملک میں امن شکنی اور فتنہ و فساد کا باعث ہو۔ اور آپ اس لحاظ سے حکومت انگریزی کی بہت تعریف فرمایا کرتے تھے کہ اس کے ذریعہ ملک میں ایک مستحکم نظام حکومت قائم ہے جو فتنہ و فساد کے رستے کو روکتا ہے اور ہر قوم کو اپنے عقائد و خیالات کی پر امن تبلیغ کے لئے پوری پوری آزادی حاصل ہے اور آپ اس بات کو پسند نہیں فرماتے تھے کہ یہ آزادی اور یہ امن کسی طرح خطرہ میں پڑے ۔ مگر یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ حکومت کے متعلق آپ کی وفاداری کی تعلیم انگریزی حکومت کے لئے خاص تھی بلکہ آپ کی یہ تعلیم اصولی رنگ رکھتی تھی اور سب حکومتوں پر اس کا ایک سا اثر تھا کیونکہ اس کی بنیاد امن اور ضمیر کی آزادی کے اصول پر مبنی تھی جو سب کے لئے برابر ہے ہاں چونکہ آپ انگریزی حکومت کے ماتحت تھے اور اسی حکومت میں آپ کے سلسلہ کا مرکز واقع تھا اس لئے طبعاً آپ کی اس تعلیم میں انگریزی حکومت کا ذکر زیادہ آیا ہے۔
۱۹۰۷ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود ؑ کو لاہور کی آریہ سماج نے یہ تحریک کی کہ ہم لاہور میں ایک مذہبی جلسہ کرنا چاہتے ہیں جس میں ہم نے دوسرے مذاہب کو بھی شرکت کی دعوت دی ہے اور آپ سے بھی درخواست ہے کہ اس جلسہ کے لئے کوئی مضمون لکھ کر ارسال فرمائیں اور آریہ صاحبان نے اس جلسہ کے لئے یہ مضمون مقرر کیا کہ ’’ کیا دنیا میں کوئی الہامی کتاب ہے؟ اگر ہے تو کونسی ہے ؟ ‘‘ آریہ صاحبان نے حضرت مسیح موعود ؑ کو یہ بھی یقین دلایا کہ جلسہ میں کوئی خلاف تہذیب اور دلآزار بات نہیں ہو گی اور دوسروں کے مذہبی احساسات کا پورا پورا احترام کیا جائے گا ۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس دعوت کو قبول کیا اور مقررہ موضوع پر ایک مضمون لکھ کر حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاتھ ارسال فرمایا اور جماعت میں بھی تحریک فرمائی کہ لوگ اس جلسہ میں شریک ہوں مگر ساتھ ہی آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ جلسہ کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا ہے کہ منتظمین جلسہ کی نیت بخیر نہیں ہے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ انہیں کامیابی کا منہ نہیں دکھائے گا۔ ۱؎
اس کے بعد یہ جلسہ ۳؍ دسمبر ۱۹۰۷ء کو لاہور میں منعقد ہوا اور حضرت مسیح موعود کا مضمون حضرت مولوی نورالدین صاحب نے پڑھ کر سنایا جو نہایت درجہ مہذب اور موثر تھا مگر جب دوسرے روز آریہ مقرر کی باری آئی تو ان لوگوں نے سارے وعدوں کو بالائے طاق رکھ کر ایک ایسا دل آزاد مضمون پڑھا جو اسلام اور آنحضرت ﷺ کے خلاف بدزبانی اور طعنہ زنی سے پُر تھا اور جابجا اسلامی تعلیم کے خلاف دل آزار حملے کئے گئے تھے۔ جب جلسہ کے بعد حضرت مسیح موعود ؑ کو حالات سے آگاہی ہوئی تو آپ کو سخت رنج ہوا اور آپ اپنے دوستوں پر بھی سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ مومن کو باغیرت ہونا چاہئے آپ لوگ اس قسم کے مضمون کے وقت کیوں نہ اٹھ کر چلے آئے اور کیوں نہ کہہ دیا کہ ہم گالیاں سننے کے لئے نہیں آئے ؟
اس کے بعد آپ نے آریوں کے ان اعتراضوں کے جواب کے لئے ایک کتاب تصنیف فرمائی جس کا نام ’’ چشمۂ معرفت ‘‘ رکھا اور حق یہ ہے کہ اس تحریر کے ذریعہ آپ نے حقیقۃً معرفت کے چشمہ کا منہ کھول دیا۔ یہ کتاب نہ صرف ان اعتراضوں کا دنداں شکن جواب ہے جو عموماً آریہ صاحبان کی طرف سے اسلام کے خلاف کئے جاتے ہیں بلکہ اس میں خود ویدک دھرم کی تعلیم پر بھی ایسی زبردست جرح ہے کہ جس کا جواب کسی آریہ کی طرف سے ممکن نہیں ہو سکتا۔ مثلاً آپ نے لکھا کہ آریوں کا یہ عقیدہ کہ خدا روح اور مادہ کا خالق نہیں ہے بلکہ یہ دونوں چیزیں ہمیشہ سے خدا کے ساتھ ساتھ چلی آئی ہیں اور خدا صرف ان کے جوڑ توڑ سے دنیا پر حکومت کر رہا ہے یہ نہ صرف ایک مشرکانہ عقیدہ ہے بلکہ غور کیا جائے تو اس عقیدہ کو مان کر خدا کی خدائی کا کچھ باقی ہی نہیں رہتا اور اس کی بہت سی اہم صفات مثلاً خالقیت اور مالکیت اور قدرتِ کاملہ وغیرہ کا انکار کرنا پڑتا ہے جن کے انکار کے بعد ایک سچا عابد خدا کی طرف کوئی کشش نہیں پا سکتاآپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ قدامتِ روح و مادہ کا مسئلہ ایک سراسر جھوٹے مشاہدہ اور قیاس مع الفارق کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی وسیع طاقتوں کو بھی اسی قانون سے ناپا گیا ہے جو اس کی محدود طاقتوں والی مخلوق پر چلتا ہے اور تناسخ کے عقیدہ کے متعلق آپ نے لکھا کہ وہ اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ قانون نیچر او رقانون شریعت میں تمیز نہیں کی گئی اوردنیاکے طبعی اختلافات کو جو ایک حکیمانہ قانون نیچر کے ماتحت رو پذیر ہوتے ہیں سراسر نادانی کے ساتھ قانون شریعت کے ماتحت قرار دے کر تناسخ کا عقیدہ گھڑ لیا گیا ہے حالانکہ تناسخ کا عقیدہ ایسا خطرناک ہے کہ اسے مان کر خدا کی صفت خالقیت اور صفت عفوو قبول توبہ پر بالکل پانی پھر جاتا ہے۔ اسی طرح اس عقیدہ کے متعلق کہ خدا کا الہام صرف وید کے زمانہ تک محدود تھا اور اس کے بعد یہ دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا آپ نے لکھا کہ یہ ایسا خطرناک عقیدہ ہے کہ جو ایمان کے پودے کو جلا کر خاک کر دیتا ہے کیونکہ ایمان کا درخت ایسا ہے کہ جب تک اسے خدائی نشانات اور خدائی کلام کے ذریعہ تازہ بتازہ پانی نہ ملتا رہے وہ خشک ہو جاتا ہے اور محض گزشتہ کے قصے اسے ہرگز زندہ نہیں رکھ سکتے۔ جس مذہب نے خدائی الہام کا دروازہ بند کیا وہ مر گیا اسی لئے اسلام نے گو شریعت کو آنحضرت ﷺ پر ختم قرار دیا ہے مگر الہام کے دروازہ کو بند نہیں کیا۔ اسی طرح آپ نے محدود نجات اور گناہوں کی معافی کا دروازہ بند ہونے کے متعلق آریہ عقائد کی تردید میں ایسے زبردست دلائل دئیے کہ جن سے اس مذہب کا سارا تار وپود بکھر گیا اور آریہ کیمپ میں ایک کھلبلی مچ گئی۔
الغرض ’’ چشمۂ معرفت ‘‘ ایک نہایت لطیف اور جامع کتاب ہے جو آپ نے اپنی زندگی کے بالکل آخری ایام میں تصنیف فرمائی جس سے سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں ایک نہایت بیش قیمت اضافہ ہوا۔
مارچ ۱۹۰۸ء کے تیسرے ہفتہ میں پنجاب کے فنانشل کمشنر سرجیمز ولسن اپنے دورہ میں قادیان آئے اور گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر مسٹر کنگ کے ساتھ قادیان میں اپنا مقام رکھا۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ صوبہ کا ایک بڑا افسر جو اس زمانہ میں گورنر سے دوسرے نمبر پر ہوتا تھا قادیان آکر ٹھہرا تھا اور غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ گورنمنٹ ایک ذمہ دار افسر کے ذریعہ سلسلہ احمدیہ کے متعلق مستند معلومات حاصل کرنا چاہتی تھی اور ان مخالفانہ رپورٹوں کی صحت یا عدم صحت کا امتحان کرنا چاہتی تھی جو ان ایام میں سلسلہ احمدیہ کے متعلق اس کے مخالفوں کی طرف سے اوپر پہنچ رہی تھیں۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی ہدایت کے ماتحت جماعت احمدیہ نے جن میں بہت سے احباب قادیان کے باہرسے بھی آئے ہوئے تھے فنانشل کمشنر صاحب کا بہت اچھی طرح استقبال کیا اور حضرت مسیح موعود نے ان کی دعوت بھی کی اورپھر آپ ان کی اس خواہش پر کہ میں مرزاصاحب سے ملنا چاہتا ہوں خود ان کے کیمپ میں تشریف لے گئے جہاں صاحب موصوف آپ کے ساتھ بڑی عزت کے ساتھ پیش آئے اور سلسلہ احمدیہ کے متعلق بہت سے سوالات پوچھتے رہے اور ملک کی سیاسی فضا کے متعلق بھی گفتگو ہوئی اور سرجیمز ولسن اس ملاقات سے بہت محظوظ اور خوش ہو کر واپس گئے۔ ۱؎
قادیان میں دو امریکن سیاحوں کی آمد :۔ اپریل ۱۹۰۸ء کے شروع میں ایک امریکن مرد
اور ایک امریکن عورت جو امریکہ سے ہندوستان کی سیاحت کے لئے آئے تھے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی ملاقات کے لئے قادیان آئے۔ ان کے ساتھ لاہور کا ایک انگریز بھی تھا۔ ان تینوں نے حضرت مسیح موعود ؑ سے ملاقات کی اور حضرت مسیح موعود ؑ انہیں بڑی محبت سے ملے اور ان کے سوالات کے جواب دیتے رہے۔ آپ نے ان کے سامنے اپنا دعویٰ پیش کیا اور مسیح کی بعثتِ ثانی کی حقیقت سمجھائی اور اپنے بعض نشانات بھی بیان کئے وہ آپ کی باتوں سے بہت متاثر ہوئے اور دورانِ گفتگو میں آپ سے کہا کہ کوئی نشان ہمیں بھی دکھایا جاوے۔ آپ نے فرمایا کہ آپ غور کریں تو آپ کا وجود خود ایک نشان ہے۔ انہوں نے گھبرا کر پوچھا وہ کیسے؟ آپ نے فرمایا کہ آج سے چند سال پہلے میں یہاں بالکل گمنامی کی حالت میں پڑا تھا اور قادیان کا دور افتادہ گائوں لوگوں کی نظروں سے بالکل مستور تھا۔ اس وقت خدا نے مجھے خبر دی تھی کہ اللہ تعالیٰ تجھے بڑی شہرت دے گا اور لوگ دور دراز سے تیری ملاقات کے لئے آئیں گے اور تیری نصرت کے لئے دور دراز سے سامان پہنچیں گے ۔ پھر اس کے بعد میری سخت مخالفت ہوئی مگر باوجود اس مخالفت کے خدا نے اپنے وعدہ کو پورا کر کے دکھا دیا چنانچہ آپ صاحبان کا یہاں آنا بھی اس پیشگوئی کے ماتحت ایک خدائی نشان ہے ورنہ کہاں امریکہ اور کہاں قادیان! اس پر یہ لوگ بہت گھبرائے کہ ہم اپنے منہ سے ایک بات کہہ کر خود ہی پکڑے گئے۔ ۲؎
اسی طرح بعض اور موقعوں پر بھی بعض یورپین اصحاب قادیان آتے رہے ہیں اور ہمیشہ حضرت مسیح موعود ؑ کی گفتگو سے آپ کی اعلیٰ روحانیت اور وسیع علمی نظر سے بہت متاثر ہوتے رہے ہیں۔ مثلاً حضرت مسیح موعود ؑ کے آخری سفر لاہور میں ایک انگریز سیاح پروفیسر ریگ نامی جو انگلستان سے ہندوستان کا دورہ کرنے آیا تھا آپ کو لاہور میں ملا تھا اور حقیقتِ گناہ اور نجات اور بعث بعد الموت اور خلق آدم اور عمر دنیا اور مسئلہ ارتقاء وغیرہ کے متعلق آپ کے جوابات سن کر بہت ہی متاثر ہوا تھا اور ایک دفعہ ملنے کے بعد خواہش کر کے دوسری ملاقات مقرر کروائی تھی۔ ۱؎
سفر لاہور اور وفات کے الہامات کا اعادہ :۔ ان ایام میں ہماری والدہ صاحبہ کی
طبیعت علیل رہتی تھی اور ان کی خواہش تھی کہ لاہور جا کر کسی ماہر لیڈی ڈاکٹر کو دکھا کر علاج کرائیں۔ مگر حضرت مسیح موعود ؑ غالباً اپنی طبیعت کے کسی مخفی اثر کے ماتحت اس وقت سفر اختیار کرنے میں متامل تھے۔ لیکن آخر آپ والدہ صاحب کے اصرار پر تیار ہو گئے۔ یہ اپریل ۱۹۰۸ء کے اخری ایام تھے۔ لیکن ابھی آپ قادیان میں ہی تھے اور دوسرے دن روانگی کی تیاری تھی کہ ۲۵ ؍ اور ۲۶ اپریل کی درمیانی شب کو آپ کو یہ الہام ہوا کہ :۔
مباش ایمن از بازیٔ روزگار۔ ۲؎
یعنی اس زندگی کے کھیل سے امن میں نہ رہو۔
یہ ایک چونکا دینے والا الہام تھا اور چونکہ اتفاق سے اس دن ہمارے چھوٹے بھائی کی طبیعت بھی علیل ہو گئی اس لئے آپ پھر متامل ہوگئے اور اس دن کی روانگی ملتوی کر دی۔ لیکن چونکہ ادھر والدہ صاحبہ کی خواہش تھی اور ادھر الہام میں کوئی تعیین نہیں تھی او ربھائی کی حالت میں بھی افاقہ تھا اس لئے آپ دوسرے دن یعنی ۲۷؍ اپریل ۱۹۰۸ء کو قادیان سے روانہ ہو گئے۔ بالہ میں پہنچ کر جو ان ایام میں قادیان کا ریلوے سٹیشن تھا پھر ایک روک پیش آگئی اور وہ یہ کہ خلاف توقع ریزرو گاڑی نہیں مل سکی۔ اس پر آپ نے پھر قادیان واپس چلے آنے کا ارادہ فرمایا لیکن بالآخر بٹالہ میں ہی ریزرو گاڑی کے انتظام میں ٹھہر گئے اور گاڑی ملنے پر ۲۹۔ اپریل کو لاہور تشریف لے گئے جہاں آپ نے اپنے ایک ذی عزت مرید خواجہ کمال الدین صاحب بی ۔اے ۔ ایل ایل بی کے مکان پر قیام کیا۔
جب مخالفین کو آپ کے لاہور آنے کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے پھر وہی مخالفت کے پرانے مظاہرے شروع کر دئیے اور آپ کی فرودگاہ کے سامنے اڈہ جما کر نہایت گندے اور اشتعال انگیز لیکچر دینے لگے۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی جماعت کو نصیحت فرمائی کہ ان گالیوں کو صبر کے ساتھ برداشت کریں اور اپنے آپ کو ہر طرح روک کر رکھیں۔ اس تعلیم کا یہ اثر ہوا کہ شریف طبقہ کو حضرت مسیح موعود ؑ کی طرف اور بھی زیادہ توجہ پیدا ہو گئی اور متلاشی لوگ کثرت کے ساتھ حضور کی ملاقات کے لئے آنے لگے۔ اسی دوران میں ۹؍ مئی ۱۹۰۸ء کو آپ کو الہام ہوا کہ :۔
اَلرَّحِیْل ثُمَّ الرَّحِیْل ـ اِنَّ اللّٰہَ یَحْمِلُ کَلَّ حِمْلٍ ـ ۱؎
یعنی کوچ اور پھر کوچ اللہ تعالیٰ سارا بوجھ خود اٹھالے گا۔
یہ آپ کی وفات کی طرف صریح اشارہ تھا۔ مگر آپ نہایت استقلال کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہے اور کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا البتہ آپ نے انبیاء کی سنت کے مطابق اس قسم کی خواب یا الہام کو حتیّٰ الوسع ظاہر میں بھی پورا کر دینا چاہئے اپنے مکان کو بدل لیا اور فرمایا کہ یہ بھی ایک قسم کا کوچ ہے اور ایک رنگ میں الہام کا منشاء پورا ہو جاتا ہے پس آپ خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں سے منتقل ہو کر اپنے ایک دوسرے مرید ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان میں جو اس کے ساتھ ہی ملحق تھا تشریف لے گئے۔ مگر باوجود اس کے جماعت کے ایک طبقہ میں اس الہام کی وجہ سے تشویش تھی۔ لیکن جب اس کے چند دن بعد قادیان سے ایک مخلص احمدی نوجوان بابو شاہ دین صاحب سٹیشن ماسٹر کی وفات کی خبر آئی تو لوگوں کی توجہ اس طرف منتقل ہو گئی کہ شاید کوچ والے الہام میں انہی کی موت کی طرف اشارہ ہو گا مگر قرائن سے پتہ لگتا ہے کہ خود حضرت مسیح موعود ؑ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ یہ الہام آپ ہی کے متعلق ہے ۔ لیکن جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے اس کی وجہ سے آپ میں قطعاً کسی قسم کی گھبراہٹ کے آثار پیدا نہیں ہوئے۔ بلکہ آپ اسی انہماک اور اسی استقلال اور اسی شوق و ولولہ کے ساتھ اپنے خداداد مشن میں لگے رہے۔
لاہور کے رؤسا کو دعوت :۔ انہی ایام میں آپ نے یہ تجویز فرمائی کہ چونکہ رؤساء کا
طبقہ عموماً دوسرے لوگوں کے ساتھ کم اختلاط کرتا ہے اور پبلک جلسوں میں شریک نہیں ہوتا اور ویسے بھی یہ طبقہ دولت اور آرام کی زندگی کی وجہ سے عموماً دین میں سست ہوتا ہے اس لئے انہیں ایک دعوت کے ذریعہ اپنے مکان پربلایا جاوے اور پھر ظاہری طعام کے ساتھ انہیں روحانی غذا بھی پہنچا دی جائے تا کہ اس طرح ان کے کانوں میں پیغام حق پہنچ جائے۔ چنانچہ آپ کی تحریک پر ۱۷؍ مئی ۱۹۰۸ء کو لاہور کے مسلمان رئوساء کو دعوت دی گئی اور کھانے سے کسی قدر قبل کا وقت دے کر بلا لیا گیا اور پھر حضرت مسیح موعود ؑ نے ان میں کھڑے ہو کر اپنے خدا داد مشن کے متعلق تقریر فرمائی۔ گو آپ اس دن کسی قدر بیمار تھے اور طبیعت اچھی نہیں تھی مگر پھر بھی آپ نے دو ڈھائی گھنٹہ بڑے جوش کے ساتھ تقریر کی اور سب حاضرین نے شوق اور محبت کے ساتھ اس تقریر کو سنا اور جب بعض نازک مزاج اور جلد باز لوگ بھوک کی وجہ سے گھبرا کر کچھ تلملانے لگے تو دوسروں نے انہیں یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ دنیا کا کھانا تو ہم ہر روز کھاتے ہیں آج یہ روحانی غذا مل رہی ہے اس لئے توجہ کے ساتھ سنو۔ الغرض اس طرح امراء کے طبقہ میں بہت اچھی طرح تبلیغ پہنچ گئی اور حضرت مسیح موعود ؑ اپنے ایک اہم فرض سے سبکدوش ہو گئے۔
جس دن آپ نے یہ تقریر فرمائی اسی دن یعنی اس سے پہلی رات آپ کو یہ الہام ہوا کہ :
مکن تکیہ بر عمر ناپائیدار۔ ۱؎
یعنی اس گزرنے والی عمر پر بھروسہ نہ کر ۔
یہ الہام بھی واضح طور پر آپ کی وفات کے قرب کی خبر دیتا تھا مگر آپ بدستوراپنے کام میں منہمک رہے۔
ایک پبلک لیکچر کی تجویز اور ’’ پیغام صلح ‘‘ کی تصنیف :۔ اس مخصوص لیکچر کے بعد جو
رئوساء لاہور کے سامنے ہوا تھا بعض لوگوں کی تحریک پر ایک پبلک لیکچر کی بھی تجویز کی گئی اور حضرت مسیح موعود ؑ نے اس کے لئے ’’ پیغام صلح‘‘ کا عنوان پسند فرمایا۔ اس مضمون کو حضرت مسیح موعود نے حسب عادت لکھ کر سنانا پسند کیا اور اس کی تصنیف شروع فرما دی اور اس میں ہندوستان کے ہندوئوں کو یہ دعوت دی کہ ہم لوگ ایک خدا کی مخلوق ہیں اور ایک ملک میں رہتے ہیں اس لئے یہ آپس کے ناگوار جھگڑے اچھے نہیں اور جھگڑوں کی اصل وجہ ایک دوسرے کے مذہبی پیشوائوں کے متعلق بدزبانی اور بے ادبی کا طریق اختیار کرنا ہے۔ پس آئو کہ ہم اس بنائے فساد کو درمیان سے اٹھا کر آپس میں صلح کر لیں اور محبت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ پیش آئیں اور اس کے لئے آپ نے عملاً یہ تجویز پیش فرمائی کہ آئندہ کے لئے یہ عہد کیا جاوے جس کے توڑنے پر ایک بھاری تاوان مقرر ہو کہ ایک دوسرے کے مذہبی پیشوائوں کو برا نہیں کہا جائے گا بلکہ ان کو اسی عزت اور اسی ادب سے یاد کیا جائے گا جو ایک سچے مذہبی پیشوا کے مقام کے لحاظ سے ضروری ہے اور آپ نے لکھا کہ میں اور میری جماعت جو اس وقت چار لاکھ کے قریب ہے اپنی طرف سے یہ اقرار کرنے کے لئے تیار ہیں کہ ویدوں کے رشی اور بعد میں آنے والے ہندوئوں کے مذہبی بزرگ یعنی حضرت کرشن اور رامچندر جی صاحبان خدا کے برگزیدہ انسان تھے اور ہم ان مقدس ہستیوں کی اسی طرح عزت کریں گے جس طرح ایک صادق اور سچے مامور من اللہ کی کی جاتی ہے اور ان کے متعلق کوئی کلمہ بے ادبی یا گستاخی کا اپنی زبان پر نہیں لائیں گے۔ اور اس کے مقابل پرہندو صاحبان یہ اقرار کریںکہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ خدا کی طرف سے سچے رسول تھے جو دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کئے گئے اور یہ کہ آئندہ ہندو صاحبان آپ کی اسی طرح عزت کریں گے جس طرح کہ ایک سچے رشی اور اوتار کی کی جاتی ہے۔ اور آپ کے متعلق کوئی کلمہ بے ادبی یا گستاخی کا اپنی زبان پر نہیں لائیں گے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ بھی لکھا کہ اگر ہندو قوم اس قسم کے معاہدہ اور مصالحت کے لئے تیار ہو تو پھر یہ گائے کا جھگڑا بھی درمیان سے اٹھایا جا سکتا ہے کیونکہ مسلمانوں میں گائے حلال ہے یہ نہیں کہ اس کے گوشت کا استعمال ضروری ہے پس اتنے بڑے فائدہ کے مقابل پر یہ بات ترک کی جا سکتی ہے اور آپ نے لکھا کہ ضروری ہو گا کہ اس معاہدہ پر ہر دو فریق کے دس دس ہزار معروف اور با اثر نمائندوں کے دستخط ہوں تا کہ یہ معاہدہ قومی معاہدہ سمجھا جا سکے۔ ۱؎ مگر افسوس ہے کہ ابھی اس لیکچر کے پڑھے جانے کا وقت نہیں آیا تھا کہ خدائی الہام کے مطابق حضرت مسیح موعود اس جہان سے کوچ فرما گئے جس میں غالباً قدرت کا یہ اشارہ مخفی تھا کہ آپ کی وفات عین کام کی حالت میں واقع ہوئی ہے لیکن چونکہ جس مشن کو لے کر آپ اس دنیا میں آئے تھے وہ خدا کا مقرر کردہ مشن تھا اس لئے آپ کی وفات کے ساتھ آپ کا کام رک نہیں سکتا تھا چنانچہ آپ کی وفات کے قریباً ایک ماہ بعد یعنی ۲۱ ؍جون ۱۹۰۸ء کو یہ مضمون لاہور کے ایک بڑے مجمع میں جس کے صدر مسٹر جسٹس رائے بہادر پرتول چندر صاحب جج چیف کورٹ پنجاب تھے پڑھ کر سنایا گیا اور ہر قوم و ملت کے لوگوں نے اسے نہایت پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ۱؎ اور بعض نے یہاں تک آمادگی ظاہر کی کہ مجوزہ سمجھوتہ کی کارروائی ابھی اسی جلسہ میں شروع ہو جانی چاہئے لیکن بعض دوسرے لوگوں نے غور کے لئے وقت مانگا اور اس طرح یہ معاملہ اس وقت توقف میں پڑ گیا لیکن اگر ہندو اصحاب غور کریں تو آج بھی ملک کے امن اور بین الاقوام اتحاد کا یہی ایک ذریعہ ہے۔
لیکچر ’’ پیغام صلح‘‘ حضرت مسیح موعود ؑ کی آخری تصنیف تھی جس سے آپ کی تصانیف کا شمار اسی (۸۰) سے اوپر پہنچ گیا جن میں بعض بڑی بڑی ضخیم کتابیں بھی شامل ہیں اور آپ کے اشتہارات کی تعداد دو سو ساٹھ (۲۶۰) سے اوپر ہے جن میں سے بعض اشتہار کئی کئی صفحے کے ہیں۔
قرب وفات کے متعلق آخری الہام :۔ حضرت مسیح موعود ؑ ’’ پیغام صلح‘‘ کی تصنیف میں
مصروف تھے کہ ۲۰؍ مئی ۱۹۰۸ء کو آپ کو یہ الہام ہوا کہ :۔
اَلرَّحِیْل ثُمَّ الرَّحِیْل وَالْمَوْتُ قَرِیْبٌ۔ ۲؎
یعنی کوچ کا وقت آگیا ہے ہاں کوچ کا وقت آگیا ہے اور موت قریب ہے۔
یہ الہام اپنے اندر کسی تاویل کی گنجائش نہیں رکھتا تھا مگر حضرت مسیح موعود ؑ نے دانستہ اس کی کوئی تشریح نہیں فرمائی لیکن ہر سمجھدار شخص سمجھتا تھا کہ اب مقدر وقت سر پر آگیا ہے۔ اس پر ایک دن حضرت والدہ صاحبہ نے گھبرا کر حضرت مسیح موعود ؑ سے کہا کہ اب قادیان واپس چلیں۔ آپ نے فرمایا کہ اب تو ہم اسی وقت جائیں گے جب خدا لے جائے گا اور آپ بدستور پیغام صلح کی تقریر کے لکھنے میں مصروف رہے بلکہ آگے سے بھی زیادہ سرعت اور توجہ کے ساتھ لکھنا شروع کر دیا۔ بالآخر ۲۵؍ مئی کی شام کو آپ نے اس مضمون کو قریباً مکمل کر کے کاتب کے سپرد کر دیا اور عصر کی نماز سے فارغ ہو کر حسب طریق سیرکے خیال سے باہر شریف لائے۔ ایک کرایہ کی گھوڑا گاڑی حاضر تھی جو فی گھنٹہ مقررہ شرح کرایہ پر منگائی گئی تھی۔ آپ نے اپنے ایک مخلص رفیق شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی سے فرمایا کہ اس گاڑی والے سے کہہ دیں اور اچھی طرح سے سمجھا دیں کہ اس وقت ہمارے پاس صرف ایک گھنٹہ کے کرایہ کے پیسے ہیں۔ وہ ہمیں صرف اتنی دور لیجائے کہ ہم اس وقت کے اندر اندر ہوا خوری کر کے گھر واپس پہنچ جائیں۔ چنانچہ اس کی تعمیل کی گئی اور آپ تفریح کے طور پر چند میل پھر کر واپس تشریف لے آئے۔ اس وقت آپ کو کوئی خاص بیماری نہیں تھی صرف مسلسل مضمون لکھنے کی وجہ سے کسی قدر ضعف تھا اور غالباً آنے والے حادثہ کے مخفی اثر کے ماتحت ایک گونہ ربودگی اور انقطاع کی کیفیت طاری تھی۔ آپ نے مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا فرمائیں اور پھر تھوڑا سا کھانا تناول فرما کر آرام کے لئے لیٹ گئے۔
وصال اکبر :۔ کوئی گیارہ بجے رات کا وقت ہو گا آپ کو پاخانہ جانے کی حاجت محسوس ہوئی اور
آپ اٹھ کر رفع حاجت کے لئے تشریف لے گئے۔ آپ کو اکثر اسہال کی تکلیف ہو جایا کرتی تھی اب بھی ایک دست آیا اور آپ نے کمزوری محسوس کی اور واپسی پر حضرت والدہ صاحبہ کو جگایا اور فرمایا کہ مجھے ایک دست آیا ہے جس سے بہت کمزوری ہو گئی ہے وہ فوراً اٹھ کر آپ کے پاس بیٹھ گئیں اور چونکہ آپ کو پائوں دبانے سے آرام محسوس ہوا کرتا تھا اس لئے آپ کی چارپائی پر بیٹھ کر پاؤں دبانے لگ گئیں۔ اتنے میں آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور آپ رفع حاجت کے لئے گئے اور جب اس دفعہ واپس آئے تو اس قدر ضعف تھا کہ آپ چارپائی پر لیٹتے ہوئے اپنے جسم کو سہار نہیں سکے اور قریباً بے سہارا ہو کرچارپائی پر گر گئے۔ اس پر حضرت والدہ صاحبہ نے گھبرا کر کہا ’’ اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا ۔ ’’ یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا۔ ‘‘ یعنی اب مقدر وقت آن پہنچا ہے اور اس کے ساتھ ہی فرمایامولوی صاحب (یعنی حضرت مولوی نورالدین صاحب جو آپ کے خاص مقرب ہونے کے علاوہ ایک نہایت ماہر طبیب تھے) کو بلوا لو۔ اور یہ بھی فرمایا کہ محمود (یعنی ہمارے بڑے بھائی مرزابشیرالدین محمود احمد صاحب) اور میر صاحب (یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب جو حضرت مسیح موعود ؑ کے خسر تھے) کو جگا دو۔ چنانچہ سب لوگ جمع ہو گئے اور بعد میں ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بھی بلوا لیا گیااور علاج میں جہاں تک انسانی کوشش ہو سکتی تھی وہ کی گئی۔ مگر خدائی تقدیر کو بدلنے کی کسی شخص میں طاقت نہیں۔ کمزوری لحظہ بلحظہ بڑھتی گئی اور اس کے بعد ایک اور دست آیا جس کی وجہ سے ضعف اتنا بڑھ گیا کہ نبض محسوس ہونے سے رک گئی۔ دستوں کی وجہ سے زبان اور گلے میں خشکی بھی پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے بولنے میں تکلیف محسوس ہوتی تھی مگر جو کلمہ بھی اس وقت آپ کے منہ سے سنائی دیتا تھا وہ ان تینوں لفظوں میں محدود تھا۔ ’’ اللہ ۔ میرے پیارے اللہ‘‘ اس کے سوا کچھ نہیں فرمایا۔
صبح کی نماز کا وقت ہوا تو اس وقت جبکہ خاکسار مؤلف بھی پاس کھڑا تھا نحیف آواز میں دریافت فرمایا ’’ کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟ ‘‘ ایک خادم نے عرض کیا۔ ہاں حضور ہو گیا ہے۔ اس پر آپ نے بسترے کے ساتھ دونوں ہاتھ تیمم کے رنگ میں چھو کر لیٹے لیٹے ہی نماز کی نیت باندھی۔ مگر اسی دوران میں بیہوشی کی حالت ہو گئی۔ جب ذرا ہوش آیا تو پھر پوچھا کیا ’’ نماز کا وقت ہو گیا ہے؟‘‘ عرض کیا گیا ہاں حضور ہو گیا ہے ۔ پھر دوبارہ نیت باندھی اور لیٹے لیٹے نماز ادا کی۔ اس کے بعد نیم بیہوشی کی کیفیت طاری رہی مگر جب کبھی ہوش آتا وہی الفاظ ’’ اللہ۔ میرے پیارے اللہ ‘‘ سنائی دیتے تھے۔ اور ضعف لحظہ بلحظہ بڑھتا جاتا تھا۔
آخر دس بجے صبح کے قریب نزع کی حالت پیدا ہو گئی اور یقین کر لیا گیا کہ اب بظاہر حالات بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ اس وقت تک حضرت والدہ صاحبہ نہایت صبر اور برداشت کیساتھ دعا میں مصروف تھیں اور سوائے ان الفاظ کے اور کوئی لفظ آپ کی زبان پر نہیں آیا تھا کہ ’’ خدایا ! ان کی زندگی دین کی خدمت میں خرچ ہوتی ہے تو میری زندگی بھی ان کو عطا کر دے۔ ‘‘ لیکن اب جبکہ نزع کی حالت پیدا ہو گئی تو انہوں نے نہایت درد بھرے الفاظ سے روتے ہوئے کہا ’’ خدایا ! اب یہ تو ہمیں چھوڑ رہے ہیں لیکن تو ہمیں نہ چھوڑیو۔ ‘‘ آخر ساڑھے دس بجے کے قریب حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک دو لمبے لمبے سانس لئے اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے ابدی آقا اور محبوب کی خدمت میں پہنچ گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ـ کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ـ
وفات پر اپنوں اور بیگانوں کی حالت :۔جماعت کے لئے یہ فوری دھکا ایک بڑے بھاری
زلزلہ سے کم نہیں تھا۔ کیونکہ اوّل تو باوجود ان الہامات کے جو حضرت مسیح موعود ؑ کو اپنی وفات کے متعلق ایک عرصہ سے ہو رہے تھے اور جو وفات سے چندروز قبل بہت زیادہ کثرت اور بہت زیادہ وضاحت کے ساتھ ہوئے جماعت کے لوگ اس عاشقانہ محبت کی وجہ سے جو انہیں آپ کے ساتھ تھی اس صدمہ کے لئے تیار نہیں تھے۔ دوسرے آپ کی وفات مرض الموت کے مختصر ہونے کی وجہ سے بالکل اچانک واقع ہوئی تھی اور بیرونجات کے احمدی تو الگ رہے خود لاہور کے اکثر دوست آپ کی بیماری تک سے مطلع نہیں ہونے پائے تھے کہ اچانک ان کے کانوں میں آپ کے وصال کی خبر پہنچی ۔ اس خبر نے جماعت کو گویا غم سے دیوانہ کر دیا اور دنیا ان کی نظر میں اندھیر ہو گئی۔ اور گو ہر دل غم سے پھٹا جاتا تھا اور ہر آنکھ اپنے محبوب کی جدائی میں اشکبار تھی اور ہر سینہ سوزش ہجر سے جل رہا تھا مگر جو لوگ حضرت مسیح موعود ؑ کے خاص تربیت یافتہ تھے اور جماعت کی ذمہ داری کو سمجھتے تھے اور وقت کی نزاکت کو پہچانتے تھے اور اپنے دلوں کے جذبات کو روکے ہوئے تھے ان کی آنکھوں میں آنسو تھے مگر ان کے ہاتھ کام میں لگے ہوئے تھے دوسرے لوگوں میں سے اکثر ایسے تھے جو بچوں کی طرح بلک بلک کر روتے تھے اور بعض تو اس بات کو باور کرنے کے لئے تیار نہیں تھے کہ ان کا پیارا امام۔ ان کا محبوب آقا۔ ان کی آنکھوں کا نور۔ ان کے دل کا سرور۔ ان کی زندگی کا سہارا ۔ ان کی ہستی کا چمکتا ہوا ستارا ان سے واقعی جدا ہو گیا ہے۔ حتیّٰ کہ جو تاریں۔ بیرونی جماعتوں کی اطلاع کے لئے لاہور سے دی گئی تھیں اور استدعا کی گئی تھی کہ لوگ جنازہ کے لئے فوراً قادیان پہنچ جائیں انہیں بھی اکثر لوگوں نے جھوٹ سمجھا اور گو وہ قادیان آئے مگر صرف احتیاط کے طور پر آئے اور اس خیال سے آئے کہ جھوٹ کا پو ل کھولیں۔
دوسری طرف جب حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کی خبر مخالفوں تک پہنچی تو ایک آن واحد میں لاہور کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک بجلی کی طرح پھیل گئی اور پھر ہماری آنکھوں نے مسلمان کہلانے والوں کی طر ف سے وہ نظارہ دیکھا جو ہمارے مخالفوں کے لئے قیامت تک ایک ذلت اور کمینگی کا داغ رہے گا۔ حضرت مسیح موعود کی وفات سے نصف گھنٹہ کے اندر اندر وہ لمبی اور فراخ سڑک جو ہمارے مکان کے سامنے تھی شہر کے بدمعاش اور کمینہ لوگوں سے بھر گئی اور ان لوگوں نے ہمارے سامنے کھڑے ہو کر خوشی کے گیت گائے اور مسرت کے ناچ ناچے اور شادمانی کے نعرے لگائے اور فرضی جنازے بنا بنا کر نمائشی ماتم کے جلوس نکالے۔ ہماری غم زدہ آنکھوں نے ان نظاروں کو دیکھا او رہمارے زخم خوردہ دل سینوں کے اندر خون ہو ہو کر رہ گئے۔ مگر ہم نے ان کے اس ظلم پر صبر سے کام لیا او راپنے سینوں کی آہوں تک کو دبا کے رکھا۔ اس لئے نہیں کہ یہ ہماری کمزوری کا زمانہ تھا کیونکہ ایک کمزور انسان بھی موت کے منہ میں کود کر اپنی غیرت کا ثبوت دے سکتا ہے بلکہ اس لئے کہ خدا کے مقدس مسیح نے ہمیں یہی تعلیم دی تھی کہ :۔
گالیاں سن کے دعا دو پا کے دکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھائو انکسار
دیکھ کر لوگوں کا جوش و غیظ مت کچھ غم کرو
شدتِ گرمی کا ہے محتاج بارانِ بہار
اور ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بھی یہی کہتے ہیں۔ ہاں وہی نسلیں جن کے سروں پر بادشاہی کے تاج رکھے جائیں گے کہ جب خدا تمہیں دنیا میں طاقت دے اور تم اپنے دشمنوں کا سر کچلنے کا موقعہ پائو اور تمہارے ہاتھ کو کوئی انسانی طاقت روکنے والی نہ ہو تو تم اپنے گزرے ہوئے دشمنوں کے ظلموں کو یاد کر کے اپنے خونوں میں جوش نہ پیدا ہونے دینا اور ہمارے کمزوری کے زمانہ کی لاج رکھنا تا لوگ یہ نہ کہیں کہ جب یہ کمزور تھے تو دشمن کے سامنے دب کر رہے اور جب طاقت پائی تو انتقام کے ہاتھ کو لمبا کر دیا۔ بلکہ تم اس وقت بھی صبر سے کام لینا اور اپنے انتقام کو خدا پر چھوڑنا کیونکہ وہی اس بات کوبہتر سمجھتا ہے کہ کہاں انتقام ہونا چاہئے اور کہاں عفو اور درگزر بلکہ میں کہتا ہوں کہ تم اپنے ظالموں کی اولادوں کو معاف کرنا اور ان سے نرمی کا سلوک کرنا کیونکہ تمہارے مقدس آقا نے یہی کہا ہے کہ :
اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار
کاخر کنند دعوائے حُبِّ پیمبرم
’’ یعنی اے دل تو ان مسلمان کہلانے والوں کا بہر حال لحاظ کر کیونکہ خواہ کچھ بھی ہو
آخر یہ لوگ ہمارے محبوب رسول کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ‘‘
بلکہ مسلمانوں پر ہی حصر نہیں تم ہر قوم کے ساتھ عفو اور نرمی کا سلوک کرنا اور ان کو اپنے اخلاق اور محبت کا شکار بنانا کیونکہ تم دنیا میں خدا کی آخری جماعت ہو اور جس قوم کو تم نے ٹھکرا دیا اس کے لئے کوئی اور ٹھکانہ نہیں ہو گا ۔ اے آسمان گواہ رہ کہ ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو خدا کے سچے مسیح کی رحمت اور عفو کا پیغام پہنچا دیا۔
تکفین و تدفین اور قدرت ثانیہ کا پہلا جلوہ :۔ جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے حضرت مسیح موعود ؑ
کی وفات ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل بوقت ساڑھے دس بجے صبح ہوئی تھی اسی وقت تجہیز و تکفین کی تیاری کی گئی اور جب غسل وغیرہ سے فراغت ہوئی تو تین بجے بعد دوپہر حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اوّل ؓ نے لاہور کی جماعت کے ساتھ خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں نماز جنازہ ادا کی اور پھر شام کی گاڑی سے حضرت مسیح موعود ؑ کا جنازہ بٹالہ پہنچایا گیا جہاں سے راتوں رات روانہ ہو کر مخلص دوستوں نے اپنے کندھوں پر اسے صبح کی نماز کے قریب بارہ میل کا پیدل سفر کرکے قادیان پہنچایا۔ قادیان پہنچ کر آپ کے جنازہ کو اس باغ میں رکھا گیا جو مقبرہ بہشتی کے ساتھ ہے اور لوگوں کو اپنے محبوب آقا کی آخری زیارت کا موقعہ دیا گیا۔ اور پھر ۲۷؍ مئی ۱۹۰۸ء کو قریباً بارہ سو احمدیوں کی موجودگی میں جن میں ایک کافی تعداد باہر کے مقامات سے آئی ہوئی تھی حضرت مولوی نورالدین صاحب بھیروی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پہلا خلیفہ منتخب کیا گیا۔ اور آپ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کی گئی اور اس طرح حضرت مسیح موعود کا وہ الہام پورا ہوا کہ ’’ ستائیس کو ایک واقعہ ہمارے متعلق۔ ‘‘
پہلی بیعت کا نظارہ نہایت ایمان پرور تھا اور لوگ اس بیعت کے لئے یوں ٹوٹے پڑتے تھے جس طرح ایک مدت کا پیاسا پانی کو دیکھ کر لپکتا ہے۔ ان کے دل غم و حزن سے چور چور تھے کہ ان کا پیارا آقا ان سے جدا ہو گیا ہے مگر دوسری طرف ان کے ماتھے خدا کے آگے شکر کے جذبات کے ساتھ سربسجود تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق انہیں پھر ایک ہاتھ پر جمع کر دیا ہے اور حضرت مسیح موعود ؑ کی بتائی ہوئی پیشگوئی پوری ہوئی کہ ’’ میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو خدا کی دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے۔ ‘‘
حضرت خلیفہ اوّل کی بیعت جماعت کے کامل اتحاد کے ساتھ ہوئی جس میں ایک منفرد آواز بھی خلاف نہیں اٹھی اور نہ صرف افراد جماعت نے اور حضرت مسیح موعود ؑ کے خاندان نے آپ کی خلافت کو تسلیم کیا بلکہ صدر انجمن احمدیہ نے بھی ایک متحدہ فیصلہ کے ماتحت اعلان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی وصیت کے مطابق حضرت مولوی نورالدین صاحب کو حضرت مسیح موعود کا خلیفہ منتخب کیا گیا ہے اور ساری جماعت کو آپ کی بیعت کرنی چاہئے۔ ۱؎ حضرت مولوی نورالدین صاحب حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ کسی قسم کا جسمانی رشتہ نہیں رکھتے تھے اور ان کا انتخاب مومنوں کے اتفاق رائے سے ہوا تھا۔ وہ حضرت مسیح موعود ؑ کے پرانے دوست اور سلسلہ بیعت میں اوّل نمبر پر تھے اور اپنے علم و فضل اور تقویٰ و طہارت اور اخلاق و قابلیت میں جماعت میں ایک لاثانی وجود سمجھے جاتے تھے۔
بیعت خلافت کے بعد جو حضرت مسیح موعود کے باغ متصل بہشتی مقبرہ میں ایک آم کے درخت کے نیچے ہوئی تھی حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود ؑ کے باغ کے ملحقہ حصہ میں تمام حاضر الوقت احمدیوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود ؑ کی نماز جنازہ ادا کی جس میں رقت کا یہ عالم تھا کہ ہر طرف سے گریہ وزاری کی آواز اٹھ رہی تھی۔ نماز کے بعد چھ بجے شام کے قریب حضرت مسیح موعود ؑ کے جسم اطہر کو مقبرہ بہشتی کے ایک حصہ میںدفن کیا گیا اور آپ کے مزار مبارک پر پھر ایک آخری دعا کر کے آپ کے غم زدہ رفیق اپنے گھروں کو واپس لوٹے۔ مگر جو درد بھری یاد خدا کے مقدس مسیح نے اپنے رفیقوں کے دلوں میں چھوڑی تھی وہ ایک نہ مٹنے والی یاد تھی اور آج بھی جبکہ آپ کی وفات پر اکتیس (۳۱) سال کا عرصہ گزر گیاہے آپ کے ہر دیکھنے والے کے دل کو آپ کی یاد محبت کی تپش سے گرما رہی ہے اور میں نے کبھی آپ کے کسی صحابی کو اس حالت میں نہیں دیکھا کہ آپ کے محبت بھرے ذکر پر اس کی آنکھوں میں آنسوئوں کی جھلی نہ آگئی ہو۔ اے خدا کے برگزیدہ مسیح! تجھ پر خدا کی بے شمار رحمتیں اور بے شمار سلام ہوں کہ تو نے اپنے پاک نمونے اور اپنی پاک تعلیم سے دنیا میں ایک ایسا بیج بو دیا ہے جو ایک عظیم الشان روحانی انقلاب کا بیج ہے جس کے ساتھ بہت سے مادی انقلاب بھی مقدر ہیں یہ بیج اب بڑھے گا اور پھولے گا اور پھلے گا اور پھیلے گا اور دنیا کے سب باغوں پر غالب آئے گا۔ اور کوئی نہیں جو اسے روک سکے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ وَعَلٰی مُطَاعِہٖ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ ـ
حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات پر بعض اخبارات کا ریویو :۔ اس گندے مظاہرے کے بعد
جو حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات پر لاہور میں کیا گیا تھا کسی مخالف کی طرف سے حضرت مسیح مودعود ؑ کے متعلق کسی تعریفی کلمہ کے سننے کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی مگر ہر قوم میں سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے اور حق یہ ہے کہ کمینہ مزاج اندھے دشمنوں یا ان کے متبعین کو چھوڑ کر حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات پر ہر قوم و ملت کے شریف طبقہ نے آپ کے متعلق نہایت اچھے خیالات کا اظہار کیا۔ چنانچہ ہم اس جگہ مثال کے طور ر بعض آراء درج ذیل کرتے ہیں۔ دہلی کے غیر احمدی اخبار ’’ کرزن گزٹ‘‘ کے مشہور ایڈیٹر میرزاحیرت صاحب دہلوی نے لکھا ۔
’’ مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں۔ اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی۔ نہ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا……… اگرچہ مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلنی بلندیٔ میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں …… اس کا پر زور لٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالاہے اور واقعی اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے …… اس نے ہلاکت کی پیشگوئیوں مخالفتوں اور نکتہ چینیوں کی آگ میں سے ہو کر اپنا رستہ صاف کیا اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا۔ ‘‘ ۱؎
امرتسر کے غیر احمدی اخبار ’’وکیل‘‘ کے ایڈیٹر نے لکھا :۔
’’ وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو۔ وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی۔ جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار الجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں۔ وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا۔ جو شور قیامت ہو کر خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا خالی ہاتھ دنیا سے اٹھ گیا (خالی ہاتھ مت کہو وہ رحمت کے پھول لایا تھا اور درود کا گلدستہ لے کر گیا۔ مؤلف) …… مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے۔ ایسے شخص جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پید اہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے۔ یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہی اور جب آتے ہیں تو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر کے دکھا جاتے ہیں۔ مرزا صاحب کی اس رفعت نے ان کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو ۔ محسوس کرا دیا ہے کہ ان کا ایک بڑا شخص ان سے جدا ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اس کی ذات کے ساتھ وابستہ تھی خاتمہ ہو گیا۔ ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے …… میرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے …… آئندہ امید نہیں کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو۔ ‘‘ ۱؎
لاہور کے مشہور غیر احمدی رسالہ ’’ تہذیب النسوان ‘‘ کے ایڈیٹر صاحب نے لکھا :۔
’’ مرزا صاحب مرحوم نہایت مقدس اور برگزیدہ بزرگ تھے اور نیکی کی ایسی قوت رکھتے تھے جو سخت سے سخت دل کو تسخیر کر لیتی تھی۔ وہ نہایت باخبر عالم۔ بلند ہمت مصلح اور پاک زندگی کا نمونہ تھے۔ ہم انہیں مذہباً مسیح موعود تو نہیں مانتے لیکن ان کی ہدایت اور رہنمائی مردہ روحوں کے لئے واقعی مسیحائی تھی۔ ‘‘ ۲؎
لاہور کے اخبار ’’ آریہ پترکا‘‘ کے ایڈیٹر صاحب نے لکھا :۔
’’ عام طور پر جو اسلام دوسرے مسلمانوں میں پایا جاتا ہے اس کی نسبت مرزا صاحب کے خیالات اسلام کے متعلق زیادہ وسیع اور زیادہ قابل برداشت تھے۔ مرزا صاحب کے تعلقات آریہ سماج سے کبھی بھی دوستانہ نہیں ہوئے اور جب ہم آریہ سماج کی گزشتہ تاریخ کو یاد کرتے ہیں تو ان کا وجود ہمارے سینوں میں بڑا جوش پیدا کرتا ہے۔ ‘‘ ۳؎
لاہور کے آریہ اخبار ’’اندر‘‘ نے لکھا :۔
’’ مرزا صاحب اپنی ایک صفت میں محمد صاحب سے بہت مشابہت رکھتے تھے اور وہ صفت ان کا استقلال تھا خواہ وہ کسی مقصود کو لے کر تھا اور ہم خوش ہیں کہ وہ آخری دم تک اس پر ڈٹے رہے اور ہزاروں مخالفتوں کے باوجود ذرا بھی لغزش نہیں کھائی۔ ‘‘ ۱؎
الہ آباد کے انگریزی اخبار ’’ پائنیر ‘‘ نے لکھا :۔
’’ اگر گزشتہ زمانہ کے اسرائیلی نبیوں میں سے کوئی نبی عالم بالا سے واپس آکر اس زمانہ میں دنیا میں تبلیغ کرے تو وہ بیسویں صدی کے حالات میں اس سے زیادہ غیر موزوں معلوم نہ ہو گا جیسا کہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی تھے …… مرزا صاحب کو اپنے دعویٰ کے متعلق کبھی کوئی شک نہیں ہوا اور وہ کامل صداقت اور خلوص کے ساتھ اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ ان پرکلام الٰہی نازل ہوتا ہے اور یہ کہ انہیں ایک خارق عادت طاقت بخشی گئی ہے …… ایک دفعہ انہوں نے بشپ ویلڈن ۲؎ کو چیلنج دیا (جس نے اسے حیران کر دیا) کہ وہ نشان نمائی میں ان کا مقابلہ کرے اور مرزا صاحب اس بات کے لئے تیار تھے کہ حالات زمانہ کے ماتحت بشپ صاحب جس طرح چاہیں اپنا اطمینان کر لیں کہ نشان دکھانے میں کوئی فریب اور دھوکا استعمال نہ ہو …… وہ لوگ جنہوں نے مذہبی میدان میں دنیا کے اندر حرکت پیدا کر دی ہے وہ اپنی طبیعت میں انگلستان کے لارڈ بشپ کی نسبت مرزا غلام احمد صاحب سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے ہیں …… بہر حال قادیان کا نبی ان لوگوں میں سے تھا جو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے۔ ‘‘ ۳؎
مسٹر والٹر ایم ۔ اے سیکرٹری آل انڈیا کرسچن ایسوسی ایشن نے اپنی انگریزی کتاب ’’احمدیہ موومنٹ ‘‘ میں لکھا :۔
’’ یہ بات ہر طرح سے ثابت ہے کہ مرزا صاحب اپنی عادات میں سادہ اور فیاضانہ جذبات رکھنے والے تھے۔ ان کی اخلاقی جرأت جو انہوں نے اپنے مخالفین کی طرف سے شدید مخالفت اور ایذا رسانی کے مقابلہ میں دکھائی یقینا قابل تحسین ہے۔ صرف ایک مقناطیسی جذب اور دلکش اخلاق رکھنے والا شخص ہی ایسے لوگوں کی دوستی اور وفاداری حاصل کر سکتا ہے جن میں سے کم از کم دو نے افغانستان میں اپنے عقائد کے لئے جان دیدی مگر مرزا صاحب کا دامن نہ چھوڑا۔ میں نے بعض پرانے احمدیوں سے ان کے احمدی ہونے کی وجہ دریافت کی تو اکثر نے سب سے بڑی وجہ مرزا صاحب کے ذاتی اثر اور جذب اور مقناطیسی شخصیت کو پیش کیا ……… میں نے ۱۹۱۶ء میں قادیان جا کر (حالانکہ اس وقت مرزا صاحب کو فوت ہوئے آٹھ سال گزر چکے تھے) ایک ایسی جماعت دیکھی جس میں مذہب کے لئے وہ سچا اور زبردست جوش موجود تھا جو ہندوستان کے عام مسلمانوں میں آجکل مفقود ہے ۔ قادیان میں جا کر انسان سمجھ سکتا ہے کہ ایک مسلمان کو محبت اور ایمان کی وہ روح جسے وہ عام مسلمانوں میں بے سود تلاش کرتا ہے احمد کی جماعت میں بافراط ملے گی۔ ‘‘ ۱؎
اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات پر دی سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور۔ دی علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ علی گڑھ۔ دی یونیٹی اینڈ منسٹر کلکتہ ۔ دی ٹائمز لنڈن وغیرہ وغیرہ نے تعریفی نوٹ شائع کئے مگر اس مختصر رسالہ میں ان سب نوٹوں کے درج کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
حضرت مسیح موعود ؑ کا حلیہ اور اخلاق و عادات
حلیہ مبارک اور ذاتی خصائل :۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے سوانح کا حصہ ختم کرنے سے پہلے ایک مختصر نوٹ آپ کے حلیہ اور ذاتی اخلاق و عادات کے متعلق درج کرنا ضروری ہے۔ سو جاننا چاہئے کہ جہاں تک آپ کے حلیہ کا تعلق ہے آپ ایک اعلیٰ درجہ کے مردانہ حسن کے مالک تھے اور فی الجملہ آپ کی شکل ایسی وجیہہ اور دلکش تھی کہ دیکھنے والا اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا۔ آپ کا چہرہ کتابی تھا اور رنگ سفیدی مائل گندمی تھا اور خط و خال نہایت متناسب تھے ۔ سر کے بال بہت ملائم اور سیدھے تھے مگر بالوں کے آخری حصہ میں کسی قدر خوبصورت خم پڑتا تھا۔ داڑھی گھندار تھی مگر رخسار بالوں سے پاک تھے۔ قد درمیانہ تھا اور جسم خوب سڈول اور متناسب تھا اور ہاتھ پائوں بھرے بھرے اور ہڈی فراخ اور مضبوط تھی۔
چلنے میں قدم بہت تیزی سے اٹھتا تھا مگر یہ تیزی ناگوار نہیں معلوم ہوتی تھی۔ زبان بہت صاف تھی مگر کسی کسی لفظ میں کبھی کبھی خفیف سی لکنت پائی جاتی تھی جو صرف ایک چوکس آدمی ہی محسوس کر سکتا تھا۔ پچھتر (۷۵) سال کی عمر میں وفات پائی مگر کمر میں خم نہیں آیا اور نہ ہی رفتار میں فرق پڑا۔ دور کی نظر ابتداء سے کمزور تھی مگر پڑھنے کی نظر آخر تک اچھی رہی اور یوم وصال تک تصنیف کے کام میں مصروف رہے۔ کہتے ہیں ابتداء میں جسم زیادہ ہلکا تھا مگر آخر عمر میں کسی قدر بھاری ہو گیا تھا جسے درمیانہ درجہ کا جسم کہا جا سکتا ہے۔
آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے یا یونہی بلا ضرورت ادھر ادھر نظر اٹھانے کی عادت بالکل نہیں تھی بلکہ اکثر اوقات آنکھیں نیم بند اور نیچے کی طرف جھکی رہتی تھیں۔ گفتگو کا انداز یہ تھا کہ ابتداء میں آہستہ آہستہ کلام شروع فرماتے تھے مگر پھر حسب حالات اور حسب تقاضائے وقت آواز بلند ہوتی جاتی تھی ۔ چہرہ کی جلد نرم تھی اور جذبات کا اثر فوراً ظاہر ہونے لگتا تھا ۔ لباس ہمیشہ پرانی ہندوستانی وضع کا پہنتے تھے یعنی عموماً بند گلے کا کوٹ یا جُبّہ ۔ دیسی کاٹ کا کرتہ یا قمیض اور معروف شرعی ساخت کا پاجامہ جو آخری عمر میں عموماً گرم ہوتا تھا۔ جوتا ہمیشہ دیسی پہنا کرتے تھے اور ہاتھ میں عصا رکھنے کی عادت تھی۔ سر پر اکثر سفید ململ کی پگڑی باندھتے تھے جس کے نیچے عموماً نرم قسم کی رومی ٹوپی ہوتی تھی۔ کھانے میں نہایت درجہ سادہ مزاج تھے اور کسی چیز سے شغف نہیں تھا بلکہ جو چیز بھی میسر آتی تھی بے تکلف تناول فرماتے تھے۔ اور عموماً سادہ غذا کو پسند فرماتے تھے۔ غذا بہت کم تھی او رجسم اس بات کا عادی تھا کہ ہر قسم کی مشقت برداشت کر سکے۔
حضرت مسیح موعود ؑ کے حلیہ کی ذیل میں اس بات کا ذکر بھی غیر متعلق نہیں ہو گا کہ آپ کو دو بیماریاں مستقل طور پر لاحق تھیں یعنی ایک تو دوران سر کی بیماری تھی جو سردرد کے ساتھ مل کر اکثر اوقات آپ کی تکلیف کا باعث رہتی تھی اور دوسرے آپ کو ذیابیطس کی بیماری لاحق تھی اور پیشاب کثرت سے اور بار بار آتا تھا۔ آپ نے ان بیماریوں کے لئے دعا فرمائی تو آپ کو الہاماً بتایا گیا کہ یہ بیماریاں دور نہیں ہوں گی کیونکہ ان کا آپ کے ساتھ رہنا مقدر ہے اور آپ نے اس کی یہ تشریح فرمائی کہ مسیح موعود کے متعلق اسلامی نوشتوں میں جو یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ وہ دو زرد چادروں میں لپٹا ہوا نازل ہو گا اس سے انہی دو بیماریوں کی طرف اشارہ مقصود تھا کیونکہ خواب میں زرد چادر سے مراد بیماری ہوتی ہے۔ ان بیماریوں کے علاوہ آپ کو کبھی کبھی اسہال کی تکلیف بھی ہو جاتی تھی۔
جہاں تک ان اخلاق کا سوال ہے جو دین اور ایمان سے تعلق رکھتے ہیں حضرت مسیح موعود ؑ میں دو خلق خاص طور پر نمایاں نظر آتے تھے۔ اوّل اپنے خدا داد مشن پر کامل یقین ۔ دوسرے آنحضرت ﷺ کے ساتھ بے نظیر عشق و محبت۔ یہ دو اوصاف آپ کے اندر اس کمال کو پہنچے ہوئے تھے کہ آپ کے ہر قول و فعل اور ہرحرکت و سکون میں ان کا ایک پُر زور جلوہ نظر آتا تھا۔ بسا اوقات اپنے خدا داد مشن اور الہامات کا ذکر کر کے فرماتے تھے کہ مجھے ان کے متعلق ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ دنیا کی کسی چیز کے متعلق زیادہ سے زیادہ یقین ہو سکتا ہے اور بعض اوقات اپنی پیشگوئیوں کا ذکر کر کے فرماتے تھے کہ چونکہ وہ خدا کے منہ سے نکلی ہوئی ہیں اس لئے وہ ضرور پوری ہو کر رہیں گی اور اگر وہ پوری نہ ہوں تو میں اس بات کے لئے تیار ہوں کہ مجھے مفتری قرار دے کر برسرِ عام پھانسی کے تختہ پر لٹکا دیا جائے تاکہ میرا وجود دوسروں کے لئے باعث عبرت ہو۔ اپنے الہام کے قطعی ہونے کے متعلق اپنی ایک فارسی نظم میں فرماتے ہیں۔
آں یقینے کہ بُود عیسٰے را
بر کلامے کہ شد برو القا
واں یقین کلیم بر تورات
واں یقیں ہائے سید السادات
کہ نیم زاں ہمہ بروے یقین
ہر کہ گوید دروغ ہست لعین ۱؎
’’ یعنی جو یقین کہ حضرت عیسیٰ کو اس کلام کے متعلق تھا جو ان پر نازل ہوا اور جو یقین کہ حضرت موسیٰ کو تورات کے متعلق تھا اور جو یقین کہ نبیوں کے سردار محمد مصطفی ﷺ کو اپنے اوپر نازل ہونے والے کلام کے متعلق تھا میں یقین کی رو سے ان میں سے کسی سے کم نہیں ہوں اور جو شخص جھوٹا دعویٰ کرتا ہے وہ *** ہے۔‘‘
’’ یہ مکالمہ الہٰیہ جو مجھ سے ہوتاہے یقینی ہے۔ اگر میں ایک دم کے لئے بھی اس میں شک کروں تو کافر ہو جائوں اور میری آخرت تباہ ہو جاوے۔ وہ کلام جو میرے پر نازل ہوا یقینی اور قطعی ہے اور جیسا کہ آفتاب اور اس کی روشنی کو دیکھ کر کوئی شک نہیں کرسکتا کہ یہ آفتاب اور یہ اس کی روشنی ہے ایسا ہی میں اس کلام میں بھی شک نہیں کر سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر نازل ہوتا ہے اور میں اس پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ خدا کی کتاب پر۔ ‘‘ ۲؎
آنحضرت ﷺ کے ساتھ اپنی محبت و عشق کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
جان و دلم فدائے جمالِ محمدؐ است
خاکم نثارِ کوچۂ آلِ محمدؐ است
دیدم بعین قلب و شنیدم بگوش ہوش
در ہر مکاں ندائے جمالِ محمدؐ است ۱؎
’’ یعنی میرے جان و دل آنحضرت ﷺ کے حسن خدا داد پر قربان ہیںاور میں آپ کے آل وعیال کے کوچہ کی خاک پر نثار ہوں۔ میں نے اپنے دل کی آنکھ سے دیکھا اور ہوش کے کانوں سے سنا ہے کہ ہر کون و مکان میں محمد صلعم ہی کے جمال کی ندا آرہی ہے۔ ‘‘
پھر فرماتے ہیں :۔
بعد از خدا بعشق محمد مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
جانم فدا شود برہ دین مصطفی
اینست کام دل اگر آید میسرم ۲؎
’’ یعنی خدا سے اتر کر میں محمد صلعم کے عشق کی شراب سے متوالا ہو رہا ہوں اور اگر یہ بات کفر میں داخل ہے تو خدا کی قسم میں سخت کافر ہوں۔ میرے دل کا واحد مقصد یہ ہے کہ میری جان محمد صلعم کے دین کے رستے میں قربان ہو جائے۔ خدا کرے کہ مجھے یہ مقصد حاصل ہو جائے۔ ‘‘
پھر فرماتے ہیں :۔
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمدؐ دلبر مرا یہی ہے
اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
وہ دلبرِ یگانہ علموں کا ہے خزانہ
باقی ہے سب فسانہ سچ بے خطا یہی ہے ۳؎
آنحضرت ﷺ کے ساتھ حضرت مسیح موعود ؑ کی یہ والہانہ محبت محض کاغذی یا نمائشی محبت نہیں تھی بلکہ آپ کے ہر قول و فعل اور ہر حرکت و سکون میں اس کی ایک زندہ اور زبردست جھلک نظر آتی تھی چنانچہ پنڈت لیکھرام کے حالات میں جس واقعہ کا ذکر اسی رسالہ میں اوپر گزر چکا ہے وہ اس محبت کی ایک عام اور دلچسپ مثال ہے کہ باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نہایت درجہ وسیع القلب اور ملنسار تھے اور ہر دوست و دشمن کو انتہائی خوش اخلاقی کے ساتھ ملتے تھے جب پنڈت لیکھرام نے آپ کے آقا اور محبوب آنحضرت ﷺ کے متعلق سخت بدزبانی سے کام لیا اور آنحضرت ﷺ کی مخالفت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تو آپ نے پنڈت صاحب کا سلام تک قبول کرنا پسند نہ کیا اور دوسری طرف منہ پھیر کر خاموش ہو گئے اور جب کسی ساتھی نے دوبارہ توجہ دلائی تو غیرت اور غصہ کے الفاظ میں فرمایا کہ :۔
’’ ہمارے آقا کو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے۔ ‘‘
بظاہر یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے مگر اس سے عشق و محبت کے اتھاہ سمندر پر بے انتہا روشنی پڑتی ہے جو آنحضرت ﷺ کے متعلق آپ کے دل میں موجزن تھا۔
اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق یہ روایت بھی چھپ کر شائع ہو چکی ہے کہ ایک دفعہ آپ علیحدگی میں ٹہلتے ہوئے آنحضرت ﷺ کے درباری شاعر حسان بن ثابت کا یہ شعر تلاوت فرما رہے تھے اور ساتھ ساتھ آپ کی آنکھوں سے آنسو ٹپکتے جا رہے تھے کہ :۔
کنت السواد لناظری فعمی علیک الناظر من شاء بعدک فلیمت فعلیک کنت احاذر
’’ یعنی اے محمد صلعم تو میری آنکھ کی پتلی تھا پس تیری وفات سے میری آنکھ اندھی ہو گئی ہے سو اب تیرے بعد جس شخص پر چاہے موت آجاوے مجھے اس کی پرواہ نہیں کیونکہ مجھے تو صرف تیری موت کا ڈر تھا جو واقع ہو گئی۔ ‘‘
راوی بیان کرتا ہے کہ جب آپ کے ایک مخلص رفیق نے آپ کو اس رقت کی حالت میں دیکھا تو گھبرا کر پوچھا کہ ’’ حضرت ! یہ کیا معاملہ ہے ؟ ‘‘ آپ نے فرمایا ۔ ’’ کچھ نہیں میں اس وقت یہ شعر پڑھ رہا تھا اور میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہورہی تھی کہ کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا۔ ‘‘ ۱؎
مذہبی بزرگوں کا احترام :۔ مگر آنحضرت ﷺ کی محبت کے یہ معنی نہیں تھے کہ آپ
دوسرے بزرگوں کی محبت سے خالی تھے بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی محبت نے آپ کے دل میں دوسرے پاک نفس بزرگوں کی محبت کو بھی ایک خاص جلا دے دی تھی اور آپ کسی بزرگ کی ہتک گوارا نہیں کرتے تھے ۔ چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ اپنے اصحاب کی ایک مجلس میں یہ ذکر فرما رہے تھے کہ نماز کی ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت ضروری ہے اور امام کے پیچھے بھی سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہئیے۔ اس پر حاضرین میں سے کسی شخص نے عرض کیا کہ ’’ حضور ! کیا سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی؟ ‘‘ آپ نے فوراً فرمایا ’’ نہیں نہیں ہم ایسا نہیں کہتے کیونکہ حنفی فرقہ کے کثیر التعداد بزرگ یہ عقیدہ رکھتے رہے ہیں کہ سورۃ فاتحہ کی تلاوت ضروری نہیں اور ہم ہرگز یہ خیال نہیں کرتے کہ ان بزرگوں کی نماز نہیں ہوئی۔ ‘‘
اسی طرح آپ کو غیر مسلم قوموں کے بزرگوں کی عزت کا بھی بہت خیال تھا اور ہر قوم کے تسلیم شدہ مذہبی بزرگوں کو بڑی عزت کی نظر سے دیکھتے تھے بلکہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی شخص کے نام کو عزت کے ساتھ دنیا میں قائم کر دیتا ہے اور لاکھوں کروڑوں انسانوں کے دلوں میں اس کی بزرگی کا خیال بٹھا دیتا ہے اور اس کے سلسلہ کو استقلال اور دوام حاصل ہو جاتا ہے تو ایسا شخص جسے اس قدر قبولیت حاصل ہو جاوے جھوٹا نہیں ہو سکتا اور ہر انسان کا فرض ہے کہ بچوں کی طرح اس کی عزت کرے اور کسی رنگ میں اس کی ہتک کا مرتکب نہ ہو۔ اس معاملہ میں خود اپنے مسلک کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :۔
ماہمہ پیغمبراں را چاکریم
ہمچو خاکے او فتادہ بردرے
ہر رسولے کو طریقِ حق نمود
جان ما قرباں براں حق پرورے ۱؎
’’ یعنی میں ان تمام رسولوں کا خادم ہوں جو خدا کی طرف سے آتے رہے ہیں اور میرا نفس ان پاک روحوں کے درواز پر خاک کی طرح پڑا ہے۔ ہر رسول جو خدا کا رستہ دکھانے کے لئے آیا ہے (خواہ وہ کسی زمانہ اور کسی ملک میں آیا ہو) میری جان اس خادم دین پر قربان ہے۔ ‘‘
حضرت مسیح موعود ؑ کا صبر و استقلال اور شجاعت :۔ روحانی مصلحوں کا رستہ پھولوں کی سیج
میں سے نہیں گزرتا بلکہ انہیں فلک بوس پہاڑیوں اور بے آب و گیاہ بیابانوں اور مہیب سمندروں میں سے ہو کر اپنی منزل مقصود تک پہنچنا پڑتا ہے بلکہ جتنا کسی رسول کا مشن زیادہ اہم اور زیادہ وسیع ہوتا ہے اتنا ہی اس کے رستے میں ابتلائوں اور امتحانوں کی بھی زیادہ کثرت ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ اپنی ان مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
دعوت ہر ہرزہ گو کچھ خدمت آساں نہیں
ہر قدم پر کوہ ماراں ہر گزر میں دشت خار
مگر آپ کو وہ چیز حاصل تھی جس کے سامنے یہ ساری مشکلات ہیچ ہو جاتی ہیں۔ فرماتے ہیں :۔
عشق ہے جس سے ہوں طے یہ سارے جنگل پُر خطر
عشق ہے جو سر جھکا دے زیرِ تیغِ آبِ دار
اور دل بھی آپ کو خدا نے وہ عطا کیا تھا جو دنیا کی کسی طاقت کے سامنے مرعوب ہونے والا نہیں تھا۔
فرماتے ہیں :۔
سخت جاں ہیں ہم کسی کے بغض کی پروا نہیں
دل قوی رکھتے ہیں ہم دردوں کی ہے ہم کو سہار
جو خدا کاہے اسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبۂ زارو نزار
یہ صرف ایک خالی دعویٰ نہیں تھا بلکہ جب سے کہ آپ نے خدا سے الہام پا کر مسیح موعود ؑ ہونے کا اعلان کیا اس وقت سے لے کر اپنے یومِ وصال تک آپ کی زندگی صبر اور استقلال اور شجاعت کا ایسا شاندار منظر پیش کرتی ہے جو سوائے خدا کے خاص الخاص بندوں کے کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتا۔ یہ تفصیلات میں جانے کا موقعہ نہیں صرف اس قدر کہنا کافی ہے کہ جب آپ نے اپنے دعویٰ کا اعلان کیا تو ہندوستان کی ہر قوم آپ کے مقابلہ کے لئے ایک جان ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی اور یوں نظر آتا تھا کہ ایک چھوٹی سی کشتی جسے ایک کمزور انسان اکیلا بیٹھا ہوا ایک ٹوٹے پھوٹے چپو کے ساتھ چلا رہا ہے چاروں طرف سے سمندر کی مہیب موجوں کے اندر گھری ہوئی ہے اور طوفان کا زور اسے یوں اٹھاتا اور گراتا ہے کہ جیسے کسی تیز آندھی کے سامنے ایک کاغذ کا پرزہ اِدھر ُادھر اڑتا پھرتا ہو مگر یہ شخص قطعاً ہراساں نہیں ہوتا بلکہ برابر چپو مارتا ہوا اور خدا کی حمد کے گیت گاتا ہوا آگے بڑھتا جاتا ہے اور سمندر کے لرزہ خیز طوفان کو ایک پر پشہ کے برابر بھی حیثیت نہیں دیتا۔ یہی وہ منظر تھا جس نے دشمنوں تک کے دل کو موہ لیا او روہ بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ خواہ مرزا صاحب کے عقائد سے ہمیں کتنا ہی اختلاف ہو مگر اس میں شبہ نہیں کہ :۔
’’ اس نے مخالفتوں کی آگ میں سے ہو کر اپنا رستہ صاف کیا او رترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا۔ ‘‘ ۱؎
اور پھر :۔
’’ مرزا صاحب اپنے آخری دم تک اپنے مقصود پر ڈٹے رہے اور ہزاروں مخالفتوں کے باوجود ذرا بھی لغزش نہیں کھائی۔ ‘‘ ۲؎
اور پھر :۔
’’ مرزا صاحب کی اخلاقی جرأت جو انہوں نے اپنے دشمنوں کی طرف سے شدید مخالفت اور ایذا رسانی کے مقابلہ میں دکھائی یقینا بہت قابل تحسین ہے۔ ‘‘ ۳؎
محنت اور انہماک :۔اردو زبان میں ایک لفظ ’’ معمور الاوقات ‘‘ ہے جو ایسے شخص کے متعلق بولا
جاتا ہے جس کا سارا وقت کسی نہ کسی مفید کام میں لگا ہوا ہو اور کوئی وقت بیکاری میں نہ گذرے ۔ یہ لفظ حضرت مسیح موعود ؑ پر اپنی پوری وسعت اور پوری شان کے ساتھ چسپاں ہوتا ہے۔ جس وقت سے کہ آپ نے خدا کے حکم کے ماتحت ماموریت کے میدان میں قدم رکھا اس وقت سے لے کر یوم وفات تک آپ کی زندگی کا ہر لمحہ اس سپاہی کی طرح گزرا جسے کسی عظیم الشان قومی خطرے کے وقت میں کسی نہایت نازک مقام پر بطور نگران سنتری مقرر کیا گیا ہو اور اس کی چوکسی یا غفلت پر قوم و ملک کی زندگی اور موت کا انحصار ہو۔ یہ تشبیہہ قطعاً کسی مبالغہ کی حامل نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ یہ تشبیہہ اس حالت کا صحیح صحیح نقشہ کھینچنے سے قاصر ہے جو ہر دیکھنے والے کو حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میں نظر آتی تھی۔
آپ کی زندگی گویا ایک مقابلہ کی دوڑ تھی جس کا ہر قدم اس احساس کے ماتحت اٹھایا جاتا ہے کہ اس قدم کے اچھا اُٹھ جانے پر اس مقابلہ کی ساری کامیابی یا ناکامی کا دارومدار ہے۔ بسا اوقات کام کے انہماک میں حضرت مسیح موعود ؑ کھانا اور سونا تک بھول جاتے تھے اور ایسے موقعوں پر آپ کو کھانے کے متعلق بار بار یاد کرا کے احساس پیدا کرانا پڑتا تھا۔ کئی مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ تصنیف کے کام میں آپ نے ساری ساری رات خرچ کر دی اور ایک منٹ کے لئے بھی آرام نہیں کیا۔ اس قسم کے واقعات شاذ کے طور پر نہیں تھے بلکہ کام کے زور کے ایام میں کثرت کے ساتھ پیش آتے رہتے تھے اور دیکھنے والے حیران ہوتے تھے کہ آپ کی خِلقت میں کس پاک مٹی کا خمیر ہے کہ فرائض منصبی کی ادائیگی میں اپنے نفس کے ہر آرام کو فراموش کر رکھا ہے۔
لیکن چونکہ آپ نے ہر جہت سے لوگوں کے لئے ایک پاک نمونہ بننا تھا اس لئے آپ کا یہ شغف اور یہ انہماک دوسروں کے حقوق کی ادائیگی میں دخل انداز نہیں ہوتا تھا اور آپ سب لوگوں کے حقوق کو ایک مذہبی فریضہ کے طور پر احسن صورت میں ادا فرماتے تھے بلکہ اپنے نفس کی قربانی میں بھی جب آپ یہ دیکھتے تھے کہ یہ قربانی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ بشری لوازمات کے ماتحت خود کام کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے تو آپ فوراً چوکس ہو کر اپنے نفس کے حقوق کی طرف بھی توجہ فرماتے تھے اور اس طرح آپ نے اپنی زندگی کے ہر فعل کو ایک مقدس عبادت کا رنگ دے لیا تھا۔ بہر حال آپ کی زندگی مصروفیت اور فرائض منصبی کی ادائیگی کے لحاظ سے ایک بے نظیر نمونہ پیش کرتی تھی اور آپ صحیح اور کامل معنوں میں معمور الاوقات تھے اور آپ کے متعلق خدا کا یہ الہام کہ :۔
انت الشیخ المسیح الذی لا یضاع وقتہ ۔ ۱؎
یعنی تو وہ برگزیدہ مسیح ہے جس کا کوئی وقت بھی ضائع جانے والا نہیں
آپ کی زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی پوری شان کے ساتھ جلوہ افروز تھا۔
عبادت الٰہی :۔ جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی ایک مجسم عبادت تھی
کیونکہ آپ کا ہر قول و فعل خواہ وہ بظاہر اپنے نفس کے حقوق کی ادائیگی کے لئے تھا یا اپنے اہل و عیال اور رشتہ داروں اور دوستوں اور مہمانوں اور ہمسایوں کے آرام کی خاطر تھا یا کسی اور غرض سے تھا اس میں آپ کی نیت صرف رضائے الٰہی کی جستجو تھی اور آپ اپنے آقا اور مخدوم آنحضرت ﷺ کے اس پاک ارشاد کا عملی نمونہ تھے جس میں آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ ہر اچھا کام جو انسان رضائے الٰہی کے خیال سے کرتا ہے وہ عبادت میں داخل ہے حتیّٰ کہ اگر کوئی انسان اپنی بیوی کے منہ میں اس نیت کے ساتھ ایک لقمہ ڈالتا ہے کہ خدا نے فرمایا ہے کہ بیوی کے آرام کا خیال رکھو تو اس کا یہ فعل بھی ایک عبادت ہے۔ اس معنی میں اور اس تشریح کے ساتھ حضرت مسیح موعود ؑ کی ساری زندگی یقینا مجسم عبادت تھی مگر عبادت کے معروف مفہوم کے لحاظ سے بھی آپ کا پایہ نہایت بلند تھا۔ جوانی کی زندگی جو نفسانی لذات کے زور کا زمانہ ہوتی ہے وہ آپ نے ایسے رنگ میں گزاری کہ دیکھنے والوں میں آپ کا نام ’’مسیتڑ‘‘ مشہور ہو گیا تھا جو پنجابی زبان میں ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنا بیشتر وقت مسجدمیں بیٹھ کر عبادت الٰہی میں گزار دے۔ قرآن شریف کے مطالعہ میں آپ کو اس قدر شغف تھا کہ گویا وہ آپ کی زندگی کا واحد سہارا ہے جس کے بغیر جینا ممکن نہیں اور قرآن شریف کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک جگہ خدا کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے
پنجگانہ نماز تو خیر فرض ہی ہے جس کے بغیر کوئی شخص جو اسلام کا دعویٰ رکھتا ہو مسلمان نہیں رہ سکتا۔ نفل نماز کے موقعوں کی بھی حضرت مسیح موعود ؑ کو اس طرح تلاش رہتی تھی جیسے ایک پیاسا انسان پانی کی تلاش کرتا ہے۔ تہجد کی نماز جو نصف شب کے بعد اٹھ کر ادا کی جاتی ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کا دستور تھا کہ باقاعدہ شروع وقت میں اٹھ کر ادا فرماتے تھے اور اگر کبھی زیادہ بیماری کی حالت میںبستر سے اٹھنے کی طاقت نہیں ہوتی تھی تو پھر بھی وقت پر جاگ کر بستر میں ہی اس مقدس عبادت کو بجا لاتے تھے۔
جوانی کے عالم میں ایک دفعہ مسلسل آٹھ نو ماہ تک روزے رکھے اور آہستہ آہستہ خوراک کو اس قدر کم کر دیا کہ دن رات میں چند تولہ سے زیادہ نہیں کھاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے خدا کے فضل سے اپنے نفس پر اس قدر قدرت حاصل ہے کہ اگر کبھی فاقہ کرنا پڑے تو قبل اس کے مجھے ذرا بھی اضطراب پیدا ہو ایک موٹا تازہ شخص اپنی جان کھو بیٹھے۔ بڑھاپے میں بھی جبکہ صحت کی خرابی اور عمر کے طبعی تقاضے اور کام کے بھاری بوجھ نے گویا جسمانی طاقتوں کو توڑ کر رکھ دیا تھا روزے کے ساتھ خاص محبت تھی اور بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ سحری کھا کر روزہ رکھتے تھے اور دن کے دوران میں ضعف سے مغلوب ہو کر جبکہ قریباً غشی کی سی حالت ہونے لگتی تھی خدائی حکم کے ماتحت روزہ چھوڑ دیتے۔ مگر جب دوسرا دن آتاتو پھر شوقِ عبادت میں روزہ رکھ لیتے۔
زکوٰۃ آپ پر کبھی فرض نہیں ہوئی یعنی آپ کے پاس کبھی اس قدر روپیہ جمع نہیں ہوا کہ آپ پر زکوٰۃ فرض ہوتی بلکہ آپ نے اپنے محبوب آقا اور مخدوم نبی کی طرح جو بھی ملا اسے خدا کی راہ میں اور دین کی ضروریات میں بے دریغ خرچ کر دیا اور دنیا کے اموال سے اپنے ہاتھوں کو خالی رکھا اور مقدس بانی اسلام کی طرح اس اصول کو حرز جان بنایا کہ الفقر فخری یعنی فقر کی زندگی گزارنا میرے لئے فخر کا موجب ہے۔ حج بھی آپ باوجود خواہش کے کبھی ادا نہیں کر سکے کیونکہ اسلام نے حج کے لئے جو شرطیں مقرر کی ہیں وہ آپ کو میسر نہیں تھیں یعنی اوّل تو آپ کے پاس کبھی بھی حج کے مصارف کے لئے کافی روپیہ جمع نہیں ہوا دوسرے ان خطرناک فتووں کے پیش نظر جو اسلامی دنیا میں آپ کے خلاف لگ چکے تھے آپ کے لئے حج کا رستہ یقینا پر امن نہیں تھا مگر خدا نے آپ کی اس خواہش کو بھی خالی جانے نہیں دیا چنانچہ آپ کی وفات کے بعد حضرت والدہ صاحبہ نے آپ کی خواہش کو اس طرح پورا فرما دیا کہ اپنے خرچ پر ایک شخص کو مکہ مکرمہ میں بھجوا کر آپ کی طرف سے حج کروا دیا۔ غرض آپ ہر جہت سے عبادت الٰہی میں ایک بہترین نمونہ تھے۔
تقویٰ اللہ اور اطاعت رسول :۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے تقویٰ و طہارت اور جذبہ اطاعت
رسول کے متعلق کچھ لکھنا میرے منصب اور میری طاقت سے باہر ہے۔ صرف اس قدر اصولی اشارہ کافی ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کو تقویٰ کی باریک در باریک راہوں پرنگاہ رہتی تھی اور ہر قدم اٹھاتے ہوئے آپ کی نظر اس جستجو میں گھومتی تھی کہ اس معاملہ میں خدا اور اس کے رسول کا کیا ارشاد ہے۔ زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتیں جس میں ایک عام انسان کو یہ خیال تک نہیں جاتا کہ اس معاملہ میں بھی کوئی شریعت کا حکم ہو گا ان میں بھی آپ کو ہر قدم پر قرآن و حدیث کا حکم مستحضر رہتا تھا اور آپ اس حکم کو رسم و عادت یا چٹی کے طور پر نہیں بلکہ ایک مقدس فرض کے طور پر رحمت کے احساس کے ساتھ بجا لاتے تھے۔ میں بڑی باتوں کو دانستہ ترک کرتے ہوئے ایک نہایت معمولی واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے اہل ذوق آپ کے اطاعت رسول کے جذبہ کا کسی قدر اندازہ کر سکتے ہیں۔ گورداسپور میں جبکہ مولوی کرم دین جہلمی کی طرف سے آپ کے خلاف ایک فوجداری مقدمہ دائر تھا ایک گرمیوں کی رات میں جبکہ سخت گرمی تھی اور آپ اسی روز قادیان سے گورداسپور پہنچے تھے آپ کے لئے مکان کی کھلی چھت پر پلنگ بچھایا گیا۔ اتفاق سے اس مکان کی چھت پر صرف معمولی منڈیر تھی اور کوئی پردہ کی دیوار نہیں تھی۔ جب حضرت مسیح موعود ؑ بستر پر جانے لگے تو یہ دیکھ کر کہ چھت پر کوئی پردہ کی دیوار نہیں ہے ناراضگی کے لہجہ میں خدام سے فرمایا کہ ’’ میرا بستر اس جگہ کیوں بچھایا گیا ہے کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ایسی چھت پر سونے سے منع فرمایا ہے۔ ‘‘ اور چونکہ اس مکان میں کوئی اور مناسب صحن نہیں تھا آپ نے باوجود شدت گرمی کے کمرہ کے اندر سونا پسند کیا مگر اس کھلی چھت پر نہیں سوئے۔ آپ کا یہ فعل اس خوف کی وجہ سے نہیں تھاکہ ایسی چھت پر سونا خطرہ کا باعث ہوتا ہے بلکہ اس خیال سے تھا کہ آنحضرت ﷺ نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے۔
ایک اور موقعہ پر جب کہ آپ اپنے کمرہ میں بیٹھے تھے اور اس وقت دو تین باہر سے آئے ہوئے احمدی بھی آپ کی خدمت میں حاضر تھے کسی شخص نے دروازہ پر دستک دی اس پر حاضر الوقت احباب میں سے ایک شخص نے اٹھ کر دروازہ کھولنا چاہا۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ دیکھا تو گھبرا کر اٹھے اور فرمایا ’’ ٹھہریں ٹھہریں۔ میں خود کھولوں گا۔ آپ دونوں مہمان ہیں اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہئے۔ ‘‘ غرض حضرت مسیح موعود ؑ کو نہایت چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی قال اللہ اور قال الرسول کا انتہائی پاس ہوتا تھا اور زندگی کے ہر قدم پر خواہ وہ بظاہر کیسا ہی معمولی ہو آپ کی نظر لازماً سیدھی خدا اور اس کے رسول کی طرف اٹھتی تھی۔ اس ضمن میں آپ نے جو تعلیم اپنے متبعین کو دی ہے وہ بھی آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے فرماتے ہیں :۔
’’ جو شخص اپنے نفس کے لئے خدا کے کسی حکم کو ٹالتا ہے وہ آسمان میں ہرگز داخل نہیں ہو گا۔ سو تم کوشش کرو جو ایک نقطہ یا ایک شعشہ قرآن شریف کا بھی تم پر گواہی نہ دے تا تم اسی کے لئے پکڑے نہ جائو۔ ۱؎
اور مخصوص طور پر تقویٰ اللہ کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
عجب گوہر ہے جس کانام تقویٰ
مبارک وہ ہے جس کا کام تقویٰ
سنو! ہے حاصلِ اسلام تقویٰ
خدا کا عشق مَے اورجام تقویٰ
مسلمانو! بنائو تام تقویٰ
کہاں ایماں اگر ہے خام تقویٰ
یہ دولت تو نے مجھ کو اے خدا دی
فسبحان اللہ اخزی الاعادی ۲؎
راست گفتاری :۔ راست گفتاری کی صفت تقویٰ و طہارت ہی کا ایک حصہ ہے لیکن چونکہ
اس پر ایک روحانی مصلح کے دعویٰ کی بنیاد ہوتی ہے اس لئے اس کے متعلق ایک علیحدہ نوٹ نامناسب نہ ہو گا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی راست گفتاری نہایت نمایاں اور مسلم تھی۔ ظاہر ہے کہ عام حالات میں ہر شخص ہی سچ بولتا ہے اور بلاوجہ کوئی شخص راستی کے طریق کو ترک نہیں کرتا پس اس معاملہ میں انسان کا اصل امتحان عام حالات میں نہیں ہوتا بلکہ اس وقت ہوتاہے جب وہ ایسے حالات میں بھی صداقت پر قائم رہے جبکہ ایسا کرنے میں اس کی ذات یا اس کے عزیز و اقارب یا اس کے دوستوں اور تعلق داروں یا اس کی قوم و ملک کو کوئی نقصان پہنچتا ہو۔ ان حالات میں راست گفتاری حقیقۃً ایک بڑی قربانی کا درجہ رکھتی ہے اور وہی شخص اسے اختیار کر سکتا ہے جو سچائی کے مقابلہ پر ہر دنیوی نفع اور ہر دنیوی رشتہ کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو۔ اور سچائی کے اختیار کرنے میں بظاہر جتنا زیادہ خطرہ درپیش ہو اتنا ہی اس کے مقابلہ پر اس قربانی کا درجہ زیادہ بلند ہو جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود کے لئے چونکہ ایک روحانی مصلح بننا مقدر تھا اس لئے آپ کی زندگی میں ایسے متعدد موقعے پیش آئے کہ جب راستی کو اختیار کرنا آپ کے لئے بظاہر بہت بڑے نقصان یا خطرے کا باعث تھا مگر آپ نے ہر ایسے موقعہ پر اپنے نفع اور فائدہ کو ایک پرپشہ کے برابر بھی حیثیت نہیں دی اور ایک مضبوط چٹان کی طرح صداقت اور راستی پر قائم رہے اور ہر قسم کے نقصان اور خطرے کو برداشت کیا مگر سچ کا دامن نہیں چھوڑا۔
مثلاً ایک دفعہ ایک فوجداری مقدمہ میں جو محکمہ ڈاکخانہ کی طرف سے آپ کے خلاف دائر کیا گیا تھا اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں اس میں ایک بھاری جرمانہ یا قید کی سزا تھی اور مقدمہ کے حالات ایسے تھے کہ سوائے اس کے کہ آپ خود اپنی زبان سے اعتراف کریں دوسرے فریق کے ہاتھ میں کوئی قطعی ثبوت نہیں تھا آپ نے بڑی دلیری کے ساتھ اپنے فعل کا اعتراف کیا مگر ساتھ ہی یہ معذرت پیش کی کہ مجھے اس قانون کا علم نہیں تھا اور میں نے نیک نیتی کے ساتھ درست سمجھتے ہوئے یہ کام کیا ہے۔ اس پر مجسٹریٹ کے دل پر آپ کی صداقت کا ایسا گہرا اثر ہوا کہ اس نے آپ کو بلا تامل بری کر دیا اور یہ بریت اس الہام کے مطابق ہوئی جو اس بارے میں پہلے سے آپ کو ہو چکا تھا۔
اسی طرح ایک دفعہ ایک دیوانی مقدمہ میں جو آپ کی زوجہ اوّل کے بڑے بیٹے مرزا سلطان احمد صاحب نے ایک شخص کے خلاف دائر کر رکھا تھا اور اس مقدمہ کے ناکام رہنے میں خاندان کے ہاتھ سے ایک معقول جائداد نکل جاتی تھی فریق مخالف نے جو باوجود مخالف ہونے کے آپ کی راست گفتاری پر کامل اعتماد رکھتا تھا آپ کو بطور گواہ کے لکھا دیا اور گو اصل امر میں حق آپ کے ساتھ تھا مگر چونکہ بعض ضمنی اور اصطلاحی امور میں آپ کی شہادت دوسرے فریق کے حق میں جاتی تھی اور آپ نے اپنے وکیل سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ خواہ کچھ ہو میں خلاف واقعہ بات ہرگز نہیں کہوں گا اس لئے بھاری نقصان برداشت کر کے اپنے جائز حق کو ترک کر دیا گیا اور سچ کا دامن نہیں چھوڑا گیا۔ یہ دو واقعات صرف بطور نمونہ کے لکھے گئے ہیں ۱؎ ورنہ آپ کی زندگی اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور آپ کے متعلق خدا کا یہ الہام ایک ٹھوس صداقت پر مبنی ہے کہ :۔
قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ـ۲؎
’’ یعنی تو اپنے مخالفوں سے کہہ دے کہ اگر میں نے خدا پر افترا باندھا ہے تو میں مجرم ہوں اور اپنے جرم کی پاداش سے بچ نہیں سکتا مگر تم اتنا تو سوچو کہ میں اپنے دعویٰ سے پہلے تمہارے درمیان ایک لمبا زمانہ گزار چکا ہوں اور تم میرے حالات اور میری عادات سے اچھی طرح واقف ہو تو کیا پھر بھی تم میری صداقت کے متعلق شک کرتے ہو اور عقل و خرد سے کام نہیں لیتے ؟
اس الہام میں گویا آپ کے منہ میں یہ دلیل ڈالی گئی تھی کہ اگر میں نے دنیا کی باتوں میں کبھی جھوٹ کا رستہ اختیار نہیں کیا اور ہر حال میں صداقت اور راستی کے دامن کو مضبوط پکڑے رکھا ہے اور کبھی کسی انسان تک پر افتراء نہیں باندھا تو اے لوگو کیا تمہارے دل اس بات پر تسلی پاتے ہیں کہ اب بڑھاپے کی عمر کو پہنچ کر میں خدائے قدوس پر افترا باندھنے لگ گیا ہوں اور ساری عمر نیکی اور راستی کی زندگی گزار کر اب آخری وقت میں اچانک ایک جھوٹا اور مفتری انسان بن گیا ہوں؟ یقینا یہ نتیجہ بالکل غیر طبعی اور عقل و خرد کے سراسر خلاف ہے کہ ایک شخص اپنی ساری جوانی تقویٰ و طہارت اور صداقت و راستی میں گزار کر آخری عمر میںقدم رکھتے ہی اچانک مفتری علی اللہ بن جائے۔
تکلّفات سے پاک زندگی :۔حضرت مسیح موعود ؑ کے اخلاق و عادات کا ایک اور نمایاں
پہلو یہ تھا کہ آپ کی زندگی کلیۃً تکلّفات سے پاک تھی ۔ یعنی نہ صرف جیسا کہ اس باب کے شروع میں بتایا گیا ہے آپ خوراک اور لباس وغیرہ کے معاملہ میں بالکل سادہ مزاج تھے بلکہ زندگی کے ہر شعبہ اور اخلاق کے ہر پہلو میں آپ کا طریق ہر جہت سے سادہ اور ہر قسم کے تکلّفات سے بالا تھا اور یوں نظر آتا تھا کہ آپ کے اعلیٰ اخلاق تمام مصنوعی آرائشوں سے آزاد ہو کر اپنے قدرتی زیور میں جلوہ افروز ہیں۔ کھانے میں، پینے میں، سونے میں، جاگنے میں، کام میں، آرام میں، تکلیف میں، آسائش میں، سفر میں ،حضر میں ،عزیزوں میں ،بیگانوں میں،گھر کے اندر گھر کے باہر غرض زندگی کے ہر پہلو میں آپ کے اخلاق و عادات اپنے فطری بہائو پر چلتے تھے اور ان میں تکلف کی کوئی دور کی جھلک بھی نظر نہیں آتی تھی۔ خاکسار راقم الحروف نے بہت ہی کم ایسے لوگ دیکھے ہیں جن کی زندگی کے کسی نہ کسی پہلو میں کسی نہ کسی جہت سے تکلف کا دخل نہ آجاتا ہو بلکہ حق یہ ہے کہ میں نے ایسا کوئی شخص نہیں دیکھا جوتکلف سے کلی طور پر پاک ہو مگر حضرت مسیح موعود کی زندگی تکلّفات سے اس طرح بالا اور ارفع رہی جس طرح ایک بلند پرواز طیارہ زمین کو چھوڑ کر اوپر نکل جاتا ہے۔ میں تکلفات کو ہر صورت میں برا نہیں کہتا یقینا ایک ایسا انسان جو اخلاق کے کمال تک نہ پہنچا ہو اسے اپنے اخلاق کے درست اظہار کے لئے کسی نہ کسی جہت سے تکلف کی ضرورت لاحق ہوتی ہے اور قدرتی حسن کی کمی کو مصنوعی تزئین سے پورا کرنا پڑتا ہے پس اگر عام حالات میں تکلف ایک بری چیز ہے تو بعض خاص حالات میں وہ ایک مفید پہلو بھی رکھتا ہے مگر حضرت مسیح موعود ؑ کے اخلاق کو یہ قدرت حسن حاصل تھا کہ وہ اپنی اکمل صورت کی وجہ سے تکلفات کی آرائش سے بالکل بالا تھے۔
خوراک لباس وغیرہ کا ذکر اوپر گزر چکا ہے کہ ان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادات نہایت درجہ سادہ تھیں جو کھانا بھی سامنے رکھ دیا جاتا آپ اسے بے تکلفی سے تناول فرماتے اور کبھی کسی کھانے پر اعتراض نہیں کیا اور نہ کبھی کھانے پینے کے شوقین لوگوں کی طرح کسی خاص کھانے کی خواہش کی ۔ یہ نہیں کہ ملامتی فرقہ کے لوگوں کی طرح آپ کو اچھے کھانے سے پرہیز تھا اور ضرور ادنیٰ کھانا ہی کھاتے تھے بلکہ جو کھانا بھی میسر آتا آپ اسے خوشی کے ساتھ کھاتے اور عموماً سادہ غذا کو پسند فرماتے تھے۔ اسی طرح جو لباس بھی گھر میں تیار کروا دیا جاتا یا باہر سے تحفۃ ً آجاتا آپ اسے خوشی کے ساتھ استعمال فرماتے تھے مگر سادہ لباس پسند تھا اور کسی قسم کے فیشن وغیرہ کا خیال تک نہ آتا تھا۔ لباس کے معاملہ میں مجھے اس وقت ایک واقعہ یاد آگیا ہے جو حاضرین کی دلچسپی کے لئے اس جگہ درج کرتا ہوں۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ کے خسر یعنی خاکسار مولف رسالہ ہذا کے نانا حضرت میر ناصر نواب صاحب نے اپنے ایک غریب رشتہ دار کو جسے کوٹ کی ضرورت تھی اپنا ایک استعمال شدہ کوٹ بھجوایا۔ میر صاحب کے اس عزیز نے اس بات کو بہت برا منایا کہ مستعمل کوٹ بھیجا گیا ہے او رناراضگی میں کوٹ واپس کر دیا۔ جب خادم اس کوٹ کو واپس لا رہا تھا تو اتفاق سے اس پر حضرت مسیح موعود ؑ کی نظر پڑ گئی۔ آپ نے اس سے حال دریافت فرمایا اور جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ کوٹ میر صاحب کو واپس جا رہا ہے تو حضرت مسیح موعود ؑ نے اس خادم سے یہ کوٹ لے لیا اور فرمایا کہ واپس کرنے سے میرصاحب کی دلشکنی ہو گی تم مجھے دے جائو۔ میں خود یہ کوٹ پہن لوں گا اور میر صاحب سے کہہ دینا کہ کوٹ ہم نے اپنے لئے رکھ لیا ہے۔ یہ ایک بہت معمولی سا گھریلو واقعہ ہے مگر اس سے حضرت مسیح موعود ؑ کے اعلیٰ اخلاق اور بے تکلفانہ زندگی پر کتنی روشنی پڑتی ہے !
ہندوستان کے پیروں اور سجادہ نشینوں میں یہ ایک عام مرض ہے کہ کوئی مرید پیر کے برابر ہو کر نہیں بیٹھ سکتا یعنی ہر مجلس میں پیر کے لئے ایک مخصوص مسند مقرر ہوتی ہے اور مریدوں کو اس سے ہٹ کر نچلی جگہ بیٹھنا پڑتا ہے بلکہ پیروں پر ہی حصر نہیں دنیا کے ہر طبقہ میں مجلسوں میں خاص مراتب ملحوظ رکھے جاتے ہیں اور کوئی شخص انہیں توڑ نہیں سکتا۔ لیکن حضرت مسیح موعود ؑ کی مجلس میں قطعاً کوئی امتیاز نہیں ہوتا تھا بلکہ آپ کی مجلس میں ہر طبقہ کے لوگ آپ کے ساتھ مل کر اس طرح ملے جلے بیٹھتے تھے کہ جیسے ایک خاندان کے افراد گھر میں مل کر بیٹھتے ہیں۔ اور بسا اوقات اس بے تکلفانہ انداز کا یہ نتیجہ ہوتا تھا کہ حضرت مسیح موعود بظاہر ادنیٰ جگہ پر بیٹھ جاتے تھے اور دوسرے لوگوں کو اچھی جگہ مل جاتی تھی مثلاً بیسیوں مرتبہ ایسا ہو جاتا تھا کہ چارپائی کے سرہانی کی طرف کوئی دوسرا شخص بیٹھاہے اور پائنتی کی طرف حضرت مسیح موعود ؑ ہیں یا ننگی چارپائی پر آپ ہیں اور بستر والی چار پائی پر آپ کا کوئی مرید بیٹھا ہے یا اونچی جگہ میں کوئی مرید ہے اور نیچی جگہ میں آپ ہیں۔ مجلس کی اس صورت کی وجہ سے بسا اوقات ایک نووارد کو دھوکا لگ جاتا تھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کون ہیں اور کہاں بیٹھے ہیں ۔ مگر یہ ایک کمال ہے جو غالباً صرف انبیاء کی جماعتوں میں ہی پایا جاتا ہے کہ اس بے تکلفی کے نتیجہ میں کسی قسم کی بے ادبی نہیں پیدا ہوتی تھی بلکہ ہر شخص کا دل محبت اور ادب و احترام کے انتہائی جذبات سے معمور رہتا تھا۔
خادموں تک سے پوری بے تکلفی کا برتائو تھا۔ مثلاً ناظرین یہ سن کر حیران ہوں گے کہ اوائل زمانہ میں کئی دفعہ ایسا اتفاق ہوتا تھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ سفر کے خیال سے گھر سے نکلے اور ایک خادم اور ایک گھوڑا ساتھ تھا۔ آپ نے اصرار کے ساتھ خادم کو گھوڑے پر سوار کرا دیا اور خود پیدل چلتے رہے یا خادم کے ساتھ باری مقرر کر لی کہ چند میل تک تم سوار ہو اور پھر چند میل تک میں سوارہوں گا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ سفر میں بالعموم خادم کو اچھا کھانا دیتے تھے اور خود معمولی کھانے پر اکتفا کرتے تھے۔ ایک شخص نے جسے شروع کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ خادم اور مصاحب کے طور پر سفر کرنے کا اتفاق ہوا تھا مجھ سے ذکر کیا کہ عموماً حضرت مسیح موعود ؑ مجھے ایک وقت کے کھانے کے لئے چار آنے کے پیسے دیتے تھے اور خود ایک آنہ کے کھانے پر گزارہ کرتے تھے۔ یہ غالباً اس لئے تھا کہ آپ یہ خیال فرماتے ہوں گے کہ یہ شخص اس قدر سادہ غذا پر گزارہ نہیں کر سکتا جس پر کہ خود آپ کر سکتے ہیں۔
گھر کے کام کاج میں بھی حضرت مسیح موعود ؑ کی طبیعت نہایت درجہ سادہ اور تکلفات سے آزاد تھی۔ ضرورت کے موقعہ پر نہایت معمولی معمولی کام اپنے ہاتھ سے کر لیتے تھے اور کسی کام میں عار نہیں محسوس کرتے تھے مثلاً چارپائی یا بکس وغیرہ اٹھا کر ادھر ادھر رکھ دینا یا بستر بچھانا یا لپیٹنا یا کسی مہمان کے لئے کھانے یا ناشتہ کے برتن لگا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا وغیرہ وغیرہ۔خاکسار کو یاد ہے کہ وبائی امراض کے ایام میں بسا اوقات حضرت مسیح موعود ؑ خود بھنگن کے سر پر کھڑے ہو کر نالیوں کی صفائی کرواتے تھے اور بعض اوقات نالیوں میں خود اپنے ہاتھ سے پانی بہا کر فینائل وغیرہ ڈالتے تھے۔ غرض حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی ہر جہت سے بالکل سادہ اور تکلفات کی آلائش سے بالکل پاک تھی ۔
بیوی بچوں سے سلوک :۔ قرآن شریف نے بار بار اور تاکید کے ساتھ مسلمانوں کو یہ تعلیم دی
ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ شفقت و احسان کا سلوک کریں اور آنحضرت ﷺ حدیث میں فرماتے ہیں کہ خیرکم خیرکم لاھلہ یعنی اے مسلمانو! تم میں سے خدا کی نظر میں بہترین اخلاق والا شخص وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہے۔ اس معیار کے مطابق حضرت مسیح موعود ؑ یقینا ایک خیر الناس وجود تھے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ آپ کا سلوک نہایت درجہ پاکیزہ اور حسن و احسان کی خوبیوں سے معمور تھا۔ یہ مضمون اس نوعیت کا ہے کہ اس پر قلم اٹھاتے ہوئے مجھے کسی قدر حجاب محسوس ہوتا ہے مگر میں اپنے ناظرین کو یقین دلاتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود ؑ ایک بہترین خاوند اور بہترین باپ تھے اور گھر کے اس بہشتی ماحول اور اس بارے میں حضرت مسیح موعود ؑ کی تعلیم کی وجہ سے جماعت احمدیہ کی مستورات اپنے خانگی تنازعات میں حضرت مسیح موعود ؑ کو اپنا ایک زبردست سہارا اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے ایک نہایت مضبوط ستون خیال کرتی تھیں کیونکہ انہیں یہ یقین تھا کہ ہماری ہر شکایت نہ صرف انصاف بلکہ رحمت و احسان کے جذبات کے ساتھ سنی جائے گی۔ مجھے وہ لطیفہ نہیں بھولتا جبکہ ملکہ وکٹوریہ آنجہانی کے عہد حکومت میں ایک دفعہ ایک معزز احمدی نے کسی خانگی بات میں ناراض ہو کر اپنی بیوی کو سخت سست کہا۔ بیوی بھی حساس تھیں وہ خفا ہو کر حضرت مسیح موعود ؑ کے گھر میں آگئیں اور ہماری والدہ صاحبہ کے ذریعہ حضرت مسیح موعود ؑ تک اپنی شکایت پہنچائی۔ دوسری طرف وہ صاحب بھی غصہ میں جماعت احمدیہ کے ایک نہایت معزز فرد حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کے پاس آئے اور ان کے ذریعہ حضرت مسیح موعود ؑ تک اپنے حالات پہنچانے چاہے حضرت مولوی صاحب مرحوم کی طبیعت نہایت ذہین اور بامذاق تھی۔ ان دوست کی بات سن کرکہنے لگے۔ میاں تم جانتے نہیں کہ آجکل ملکہ کا راج ہے پس میرا مشورہ ہے کہ چپکے سے اپنی کو منا کر گھر واپس لے جائو اور جھگڑے کو لمبا نہ کرو۔ ‘‘ چنانچہ ان صاحب نے ایسا ہی کیا اور گھر کی ایک وقتی ناراضگی پھر امن اور خوشی کی صورت میں بدل گئی۔ لطیفہ اس بات میں یہ تھا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے جو یہ کہا کہ آجکل ملکہ کا راج ہے اس سے ان کی یہ مراد تھی کہ جہاں آجکل حکومت انگریزی کی باگ ڈور ایک ملکہ کے ہاتھ میں ہے وہاں جماعت احمدیہ کی روحانی بادشاہت میں بھی جہاں تک اس قسم کے خانگی امور کاتعلق ہے حضرت مسیح موعود ؑ اپنے گھر والوں کی بات کو زیادہ وزن دیتے ہیں اور عورتوں کی ہمدردی اور ان کے حقوق کا آپ کو خاص خیال رہتا ہے۔
دوسری طرف حضرت مسیح موعود ؑ کے احسان اور شفقت کا یہ نتیجہ نہیں تھا کہ ہماری والدہ صاحبہ کے دل میں حضرت مسیح موعود ؑ کے ادب و احترام یا آپ کی قدر و منزلت میں کوئی کمی آجاتی بلکہ حضرت مسیح موعود ؑ کے لئے ان کا رویہ نہایت درجہ مخلصانہ اور نہایت درجہ مؤدبانہ تھا۔ چنانچہ جب حضرت مسیح موعود ؑ نے خدا سے علم پا کر اپنے لئے ایک نکاح ثانی کی پیشگوئی فرمائی جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے تو گویہ پیشگوئی بعض شرائط کے ساتھ مشروط تھی مگر پھر بھی چونکہ اس وقت اس کا ظاہر پہلو یہی سمجھا جاتا تھا کہ یہ ایک نکاح کی پیشگوئی ہے اور لڑکی کے والدین اور عزیزو اقارب حضرت مسیح موعود ؑ کے سخت خلاف تھے تو ایسے حالات میں حضرت والدہ صاحبہ نے کئی دفعہ خدا کے حضور رو رو کر دعائیں کیں کہ ’’خدایا تو اپنے مسیح کی سچائی کو ثابت کر اور اس رشتہ کے لئے خود اپنی طرف سے سامان مہیا کر دے۔ ‘‘ اور جب حضرت مسیح موعود ؑ نے ان سے دیافت کیا کہ ’’ اس رشتہ کے ہو جانے سے تو تم پر سوکن آتی ہے پھر تم ایسی دعا کس طرح کرتی ہو؟ ‘‘ تو حضرت والدہ صاحبہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ’’ کچھ بھی ہو میری خوشی اسی میں ہے کہ آپ کے منہ سے نکلی ہوئی بات پوری ہو جائے ۔ ‘‘ اس چھوٹے سے گھریلو واقعہ سے اس بات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے بے نظیر حسن سلوک اور عدیم المثال شفقت نے آپ کے اہل خانہ پر کس قدر غیر معمولی اثر پیدا کیا تھا۔ الغرض آپ کا اپنے اہل و عیال کے ساتھ ایسا اعلیٰ سلوک تھا کہ جس کی نظیر تلاش کرنا بے سود ہے۔
دوستوں کے ساتھ سلوک :۔ حضرت مسیح موعود ؑ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا دل عطا کیا تھا جو
محبت اور وفاداری کے جذبات سے معمور تھا۔ آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے کسی محبت کی عمارت کو کھڑا کر کے پھر اس کے گرانے میں کبھی پہل نہیں کی۔ ایک صاحب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی آپ کے بچپن کے دوست اور ہم مجلس تھے مگر آپ کے دعویٰ مسیحیت پر آکر انہیں ٹھوکر لگ گئی اور انہوں نے نہ صرف دوستی کے رشتہ کو توڑ دیا بلکہ حضرت مسیح موعود ؑ کے اشد ترین مخالفوں میں سے ہو گئے اور آپ کے خلاف کفر کا فتویٰ لگانے میں سب سے پہل کی۔ مگر حضرت مسیح موعود ؑ کے دل میں آخر وقت تک ان کی دوستی کی یاد زندہ رہی اور گو آپ نے خدا کی خاطر ان سے قطع تعلق کر لیا اور ان کی فتنہ انگیزیوں کے ازالہ کے لئے ان کے اعتراضوں کے جواب میں زوردار مضامین بھی لکھے مگر ان کی دوستی کے زمانہ کو آپ کبھی نہیں بھولے اور ان کے ساتھ قطع تعلق ہو جانے کو ہمیشہ تلخی کے ساتھ یاد رکھا چنانچہ اپنے آخری زمانہ کے اشعار میں مولوی محمد حسین صاحب کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں :۔
قَطَعْتَ وَدَادًا قَدْ غَرَسْنَاہُ فِی الصَّبَا
وَلَیْسَ فُؤَادِیْ فِی الوَدَادِ یُقَصِّرُ ۱؎
’’ یعنی تو نے تو اس محبت کے درخت کو کاٹ دیا جو ہم دونوں نے مل کر بچپن میں لگایا تھا۔ مگر میرا دل محبت کے معاملہ میں کوتاہی کرنے والا نہیں ہے۔ ‘‘
جب کوئی دوست کچھ عرصہ کی جدائی کے بعد حضرت مسیح موعود ؑ کو ملتا تو اسے دیکھ کر آپ کا چہرہ یوں شگفتہ ہو جاتا تھا جیسے کہ ایک بند کلی اچانک پھول کی صورت میں کھل جاوے اور دوستوں کے رخصت ہونے پر آپ کے دل کو از حد صدمہ پہنچتا تھا۔ ایک دفعہ جب آپ نے اپنے بڑے فرزند اور ہمارے بڑے بھائی حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب (موجودہ امام جماعت احمدیہ) کے قرآن شریف ختم کرنے پر آمین لکھی اور اس تقریب پر بعض بیرونی دوستوں کو بھی بلا کر اپنی خوشی میں شریک فرمایا تو اس وقت آپ نے اس آمین میں اپنے دوستوں کے آنے کا بھی ذکر کیا اور پھر ان کے واپس جانے کا خیال کر کے اپنے غم کا بھی اظہار فرمایا ۔ چنانچہ فرماتے ہیں :۔
مہماں جو کر کے الفت آئے بصد محبت
دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت
پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
دنیا بھی اک سرا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے
گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے
شکوہ کی کچھ نہیں جا یہ گھر ہی بے بقا ہے
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی ۱؎
اوائل میں آپ کا قاعدہ تھا کہ آپ اپنے دوستوں اور مہمانوں کے ساتھ مل کر مکان کے مردانہ حصہ میں کھانا تناول فرمایا کرتے تھے اور یہ مجلس اس بے تکلفی کی ہوتی تھی اور ہر قسم کے موضوع پر ایسے غیر رسمی رنگ میں گفتگو کا سلسلہ رہتا تھا کہ گویا ظاہری کھانے کے ساتھ علمی اور روحانی کھانے کا بھی دسترخوان بچھ جاتا تھا۔ ان موقعوں پر آپ ہر مہمان کا خود ذاتی طور پر خیال رکھتے اور اس بات کی نگرانی فرماتے کہ ہر شخص کے سامنے دستر خوان کی ہر چیز پہنچ جاوے۔ عموماً ہر مہمان کے متعلق خود دریافت فرماتے تھے کہ اسے کسی خاص چیز مثلاً دودھ یا چائے یا پان وغیرہ کی عادت تو نہیں اور پھر حتیّٰ الوسع ہر اک کے لئے اس کی عادت کے مطابق چیز مہیا فرماتے ۔ جب کوئی خاص دوست قادیان سے واپس جانے لگتا تو آپ عموماً اس کی مشایعت کے لئے ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو میل تک اس کے ساتھ جاتے اور بڑی محبت اور عزت کے ساتھ رخصت کر کے واپس آتے تھے۔
آپ کو یہ بھی خواہش رہتی تھی کہ جو دوست قادیان میں آئیں وہ حتیّٰ الوسع آپ کے پاس آپ کے مکان کے ایک حصہ میں ہی قیام کریں او رفرمایا کرتے تھے کہ زندگی کا اعتبار نہیں جتنا عرصہ پاس رہنے کا موقعہ مل سکے غنیمت سمجھنا چاہئے۔ اس طرح آپ کے مکان کا ہر حصہ گویا ایک مستقل مہمان خانہ بن گیا تھا اور کمرہ کمرہ مہمانوں میں بٹا رہتا تھا مگر جگہ کی تنگی کے باوجود آپ اس طرح دوستوں کے ساتھ مل کر رہنے میں انتہائی راحت پاتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ معززین جو آجکل بڑے بڑے وسیع مکانوں اور کوٹھیوں میں رہ کر بھی تنگی محسوس کرتے ہیں حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں ایک ایک کمرہ میں سمٹے ہوئے رہتے تھے اور اسی میں خوشی پاتے تھے۔
قادیان میں حضرت مسیح موعود ؑ کے والد صاحب کے زمانہ کا ایک پھلدار باغ ہے جس میں مختلف قسم کے ثمردار درخت ہیں ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کا طریق تھا کہ جب پھل کا موسم آتا تو اپنے دوستوں اور مہمانوں کو ساتھ لے کر اس باغ میں تشریف لے جاتے اور موسم کا پھل تڑوا کر سب دوستوں کے ساتھ مل کر نہایت بے تکلفی سے نوش فرماتے۔ اس وقت یوں نظر آتا تھا کہ گویا ایک مشفق باپ کے اردگرد اس کی معصوم اولاد گھیرا ڈالے بیٹھی ہے۔ مگر ان مجلسوں میں کبھی کوئی لغو بات نہیں ہوتی تھی بلکہ ہمیشہ نہایت پاکیزہ اور اکثر اوقات دینی گفتگو ہوا کرتی تھی اور بے تکلفی اور محبت کے ماحول میں علم و معرفت کا چشمہ جاری رہتا تھا۔ حضرت مسیح موعود کے تعلقات دوستی کے تعلق میں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے اور وہ یہ کہ آپ کی دوستی کی بنیاد اس اصول پر تھی کہ اَلْحُبُّ فِی اللّٰہِ وَالْبُغْضُ فِی اللّٰہِ یعنی دوستی اوردشمنی دونوں خدا کے لئے ہونی چاہئیں نہ کہ اپنے نفس کے لئے یا دنیا کے لئے۔ اسی لئے آپ کی دوستی میں امیر و غریب کا کوئی امتیاز نہیں تھا اور آپ کی محبت کے وسیع دریا سے بڑے اور چھوٹے ایک سا حصہ پاتے تھے۔
دشمنوں کے ساتھ سلوک :۔ قرآن شریف فرماتا ہے لَایَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی
اَنْ لَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی یعنی اے مسلمانو چاہئیے کہ کسی قوم یا فرقہ کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان کے معاملہ میں عدل و انصاف کا طریق ترک کر دو۔ بلکہ تمہیں ہر حال میں ہر فریق او رہر شخص کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرنا چاہئیے۔ قرآن شریف کی یہ زرّیں تعلیم حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی کا نمایاں اصول تھی۔ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں کسی شخص کی ذات سے عداوت نہیں ہے۔بلکہ صرف جھوٹے اور گندے خیالات سے دشمنی ہے اس اصل کے ماتحت جہاں تک ذاتی امور کا تعلق ہے آپ کا اپنے دشمنوں کے ساتھ نہایت درجہ مشفقانہ سلوک تھا اور اشد ترین دشمن کا درد بھی آپ کو بے چین کر دیتا تھا۔ چنانچہ جیسا کہ آپ کے سوانح کے حالات میں گزر چکا ہے جب آپ کے بعض چچا زاد بھائیوں نے جو آپ کے خونی دشمن تھے آپ کے مکان کے سامنے دیوار کھینچ کر آپ کو اور آپ کے مہمانوں کو سخت تکلیف میں مبتلاء کر دیا اور پھر بالآخر مقدمہ میں خدا نے آپ کو فتح عطا کی اور ان لوگوں کو خود اپنے ہاتھ سے دیوار گرانی پڑی تو اس کے بعد حضرت مسیح موعود ؑ کے وکیل نے آپ سے اجازت لینے کے بغیر ان لوگوں کے خلاف خرچہ کی ڈگری جاری کروا دی۔ اس پر یہ لوگ بہت گھبرائے اور حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں ایک عاجزی کا خط بھجوا کر رحم کی التجا کی۔ آپ نے نہ صرف ڈگری کے اجراء کو فوراً رکوا دیا بلکہ اپنے ان خونی دشمنوں سے معذرت بھی کی کہ میری لاعلمی میں یہ کارروائی ہوئی ہے جس کا مجھے افسوس ہے اور اپنے وکیل کو ملامت فرمائی کہ ہم سے پوچھے بغیر خرچہ کی ڈگری کا اجرا کیوں کروایا گیا ہے۔ اگر اس موقعہ پر کوئی اور ہوتا تو وہ دشمن کی ذلت اور تباہی کو انتہا تک پہنچا کر صبر کرتا مگر آپ نے ان حالات میں بھی احسان سے کام لیا اور اس بات کا شاندار ثبوت پیش کیا کہ آپ کو صرف گندے خیالات اور گندے اعمال سے دشمنی ہے کسی سے ذاتی عداوت نہیں اور یہ کہ ذاتی معاملات میں آپ کے دشمن بھی آپ کے دوست ہیں۔
اسی طرح یہ واقعہ بھی اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ جب ایک خطرناک خونی مقدمہ میں جس میں آپ پر اقدام قتل کا الزام تھا آپ کا اشد ترین مخالف مولوی محمد حسین بٹالوی آپ کے خلاف بطور گواہ پیش ہوا اور آپ کے وکیل نے مولوی صاحب کی گواہی کو کمزور کرنے کے لئے ان کے بعض خاندانی اور ذاتی امور کے متعلق ان پر جرح کرنی چاہی۔ تو حضرت مسیح موعود ؑ نے بڑی ناراضگی کے ساتھ اپنے وکیل کو روک دیا اور فرمایا کہ خواہ کچھ ہو میں اس قسم کے سوالات کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اور اس طرح گویا اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر بھی اپنے جانی دشمن کی عزت و آبرو کی حفاظت فرمائی ۔
اسی طرح جب پنڈت لیکھرام حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئی کے مطابق لاہور میں قتل ہوئے اور آپ کو اس کی اطلاع پہنچی تو گو پیشگوئی کے پورا ہونے پر آپ خدا تعالیٰ کا شکر بجا لائے مگر ساتھ ہی انسانی ہمدردی میں آپ نے پنڈت لیکھرام کی موت پر افسوس کا بھی اظہار کیا اور بار بار فرمایا کہ ہمیں یہ درد ہے کہ پنڈت صاحب نے ہماری بات نہیں مانی اور خدا اور اس کے رسول کے متعلق گستاخی کے طریق کو اختیار کر کے اور ہمارے ساتھ مباہلہ کے میدان میں قدم رکھ کر اپنی تباہی کا بیج بولیا۔
قادیان کے بعض آریہ سماجی حضرت مسیح موعود ؑ کے سخت مخالف تھے اور آپ کے خلاف ناپاک پراپیگنڈے میں حصہ لیتے رہتے تھے مگر جب بھی انہیں کوئی تکلیف پیش آتی یا کوئی بیماری لاحق ہوتی تو وہ اپنی کارروائیوں کو بھول کر آپ کے پاس دوڑے آتے اور آپ ہمیشہ ان کے ساتھ نہایت درجہ ہمدردانہ اور محسنانہ سلوک کرتے اور ان کی امداد میں دلی خوشی پاتے۔ چانچہ ایک صاحب قادیان میں لالہ بڈھامل ہوتے تھے جو حضرت مسیح موعود ؑ کے سخت مخالف تھے جب قادیان میں منارۃ المسیح بننے لگا تو ان لوگوں نے حکام سے شکایت کی کہ اس سے ہمارے گھروں کی بے پردگی ہو گی اس لئے مینارہ کی تعمیر کو روک دیا جائے۔ اس پر ایک مقامی افسر یہاں آیا اور اس کی معیت میں لالہ بڈھامل اور بعض دوسرے مقامی ہندو اور غیر احمدی اصحاب حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے ان افسر صاحب کو سمجھایا کہ یہ شکایت محض ہماری دشمنی کی وجہ سے کی گئی ہے ورنہ اس میں بے پردگی کا کوئی سوال نہیں اور اگر بالفرض کوئی بے پردگی ہو گی تو اس کا اثر ہم پر بھی ویسا ہی پڑے گا جیسا کہ ان پر۔ اور فرمایا کہ ہم تو صرف ایک دینی غرض سے یہ مینارہ تعمیر کروانے لگے ہیں ورنہ ہمیں ایسی چیزوں پر روپیہ خرچ کرنے کی کوئی خواہش نہیں۔ اسی گفتگو کے دوران میں آپ نے اس افسر سے فرمایا کہ اب یہ لالہ بڈھامل صاحب ہیں آپ ان سے پوچھئے کہ کیا کبھی کوئی ایسا موقعہ آیا ہے کہ جب یہ مجھے کوئی نقصان پہنچا سکتے ہوں اور انہوں نے اس موقعہ کو خالی جانے دیا ہو اور پھر انہی سے پوچھئے کہ کیا کبھی ایسا ہوا کہ انہیں فائدہ پہنچانے کا کوئی موقعہ مجھے ملا ہو اور میں نے اس سے دریغ کیا ہو۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی اس گفتگو کے وقت لالہ بڈھامل اپنا سر نیچے ڈالے بیٹھے رہے اور آپ کے جواب میں ایک لفظ تک منہ پر نہیں لا سکے۔
الغرض حضرت مسیح موعود کا وجود ایک مجسم رحمت تھا ۔وہ رحمت تھا اسلام کے لئے اور رحمت تھا اس پیغام کے لئے جسے لے کر وہ خود آیا تھا۔ وہ رحمت تھا اس بستی کے لئے جس میں وہ پیدا ہوا اور رحمت تھا دنیا کے لئے جس کی طرف وہ مبعوث کیا گیا۔ وہ رحمت تھا اپنے اہل و عیال کے لئے اور رحمت تھا اپنے خاندان کے لئے ۔وہ رحمت تھا اپنے دوستوں کے لئے اور رحمت تھا اپنے دشمنوں کے لئے۔ اس نے رحمت کے بیج کو چاروں طرف بکھیرا۔ اوپر بھی اور نیچے بھی۔ آگے بھی اور پیچھے بھی۔ دائیں بھی او ربائیں بھی۔ مگر بدقسمت ہے وہ جس پر یہ بیج تو آکر گرا مگر اس نے ایک بنجر زمین کی طرح اسے قبول کرنے اور اگانے سے انکار کر دیا۔
حضرت مسیح موعود ؑ کے اخلاق و عادات کا مضمون تو نہایت وسیع ہے مگر اس مختصر رسالہ میں اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں پس اسی مختصر نوٹ پر اکتفا کرتے ہوئے ہم اصل مضمون کی طرف لوٹتے ہیں اور وما التوفیق الا باللّٰہ -






اسلامی تعلیم کا مختصر ڈھانچہ
احمدیت اسلام ہی کا دوسرا نام ہے :۔ اس رسالہ کے شروع میں بیان کیا جا چکا ہے کہ
احمدیت کسی نئے مذہب کا نام نہیں ہے بلکہ اسلام ہی کی تجدید کا دوسرا نام احمدیت ہے مگر تجدید سے یہ مراد نہیں کہ اسلامی شریعت میں کسی قسم کا نسخ یا زیادتی ہو سکتی ہے بلکہ تجدید سے صرف یہ مراد ہے کہ مرور زمانہ کی وجہ سے جو غلط خیالات یا غلط اعمال مسلمانوں میں پیدا ہو چکے تھے جنہیں وہ غلطی سے اسلام کا حصہ سمجھنے لگ گئے تھے ان کی اصلاح کر کے اسلام کو پھر اس کی اصلی اور پاک و صاف صورت میں قائم کیا جائے۔ ہاں تجدید کے وسیع معنوں میں یہ بات بھی شامل ہے اور اسی لئے وہ بانیء سلسلہ احمدیہ کے خداداد مشن کا حصہ تھی کہ نئے نئے علوم کی روشنی میں جو نئے اعتراضات اسلام کے خلاف پیدا ہوئے ہیں جو پہلے زمانوں میں پیدا نہیں ہوئے ان کے ازالہ کے لئے اسلام کے ان مخفی معارف کو نکال کر پیش کیا جائے جو ہمیشہ سے قرآن شریف کے اندر موجود تو تھے مگر ابھی تک وہ دنیا کی نظروں کے سامنے نہیں آئے تھے اور ان قیمتی کانوں کی طرح جو اس زمین کے اندر موجود ہوتے ہوئے پھر لوگوں کی نظر سے اوجھل ہوتی ہیں یہ معارف بھی قرآن کے اندر موجود ہوتے ہوئے ابھی تک دنیا کی نظر سے مخفی رہے تھے اور اس مسلم اصول کے مطابق کہ جب کوئی زہر پیدا ہوا اسی وقت تریاق کی ضرورت پیش آتی ہے ان معارف کا باہر نکلنا اور دنیا کے سامنے آنا موجودہ زمانہ کے لئے مقدر تھا۔ پس چونکہ احمدیت کسی نئی شریعت کی مدعی نہیں بلکہ وہی قرآنی شریعت احمدیت کی شریعت ہے اور وہی پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار احمدیت کا شارع نبی ہے جس کی اطاعت اور غلامی کا جو ٔا احمدیت کی گردن پر ہے اور ہمیشہ رہے گا اس لئے ضروری ہے کہ احمدیت کے مخصوص عقائد کے بیان کرنے سے پہلے یعنی ان عقائد کا ذکر کرنے سے قبل جن میں حضرت مسیح موعود ؑ نے موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے غلط خیالات کی اصلاح کی ہے اسلام کی تعلیم کا ایک مختصر ڈھانچہ بیان کر دیا جاوے تا کہ ہمارے غیر مسلم ناظرین اس بات کو سمجھ سکیں کہ وہ مذہب جس کی طرف احمدیت منسوب ہے اور وہ چراغ جس سے احمدیت نے اپنا نور حاصل کیا ہے کیا تعلیم پیش کرتا ہے۔
اسلام کی ابتدائی تاریخ :۔ سو جاننا چاہئے کہ اسلام اس مذہب کا نام ہے جو آج سے ساڑھے تیرہ سو
سال پہلے عرب کے ملک میں ظاہر ہوا۔ اسلام کے مقدس بانی کا نام نامی حضرت محمد ﷺ تھا جو قریش مکہ کے ایک معزز گھرانے میں ۵۷۰ء میں پیدا ہوئے۔ اس زمانہ میں آپ کے قبیلہ کا مذہب بت پرستی تھا اور آپ نے اسی ماحول میں پرورش پائی مگر چونکہ طبیعت میں ابدی سعادت اور نبوت کا نور مخفی تھا اس لئے آپ کبھی بھی شرک کی نجاست میں ملوث نہیں ہوئے اور اسلام کے ظہور سے پہلے بھی ہمیشہ ایک واحد لاشریک خدا کے متلاشی رہے۔ جب آپ کی عمر چالیس سال کی ہوئی تو اللہ تعالیٰ آپ پر الہام کے ذریعہ ظاہر ہوا اور آپ کو حکم دیا کہ شرک اور بت پرستی کے خلاف لوگوں کو بلائیں۔ اس پر وہی جنگ و جدال کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جو ہمیشہ سے خدا کے نبیوں کے زمانہ میں ہوتا چلا آیا ہے۔ آپ کے قبیلہ نے آپ کی سخت مخالفت کی اور جن لوگوں نے آپ کو مانا ان کو بھی ہر طرح کی اذیتیں پہنچائیں اور آپ کے لائے ہوئے مذہب کو جس کا نام اسلام تھا مٹانے اور نیست و نابود کرنے کے لئے طرح طرح کی تدبیریں کیں مگر آپ ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ پر قائم رہے اور ہر طرح کا دکھ اٹھا کر خدا کا پیغام پہنچایا اور آپ کے صحابہ نے بھی ہر قربانی کو خوشی سے برداشت کیا مگر اپنے آقا کا دامن نہ چھوڑا۔
آخر جب قریش کے مظالم انتہاء کو پہنچ گئے اور انہوں نے بعض بے گناہ مسلمانوں کو قتل کر دیا اور آنحضرت ﷺ کے قتل کی بھی سازش کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکہ کی تیرہ سالہ مظلومانہ زندگی کے بعد اجازت دی کہ آپ مدینہ کی طرف ہجرت کر جائیں۔ مدینہ بھی عرب ہی کا ایک شہر تھا۔ جو مکہ سے دو سو میل شمال کی طرف واقع تھا اور اس میں عرب کے بعض دوسرے قبیلے آباد تھے۔ اس اجازت پر آپ مکہ سے رات کے وقت خفیہ خفیہ نکل کر مدینہ کی طرف چلے گئے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک جماعت دی اور ایک گونہ امن کی زندگی نصیب ہوئی۔ مگر ظالم قریش نے وہاں بھی آپ کا پیچھا نہ چھوڑا اور عرب کے دوسرے قبیلوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف اکسا کر اپنے ساتھ ملا لیا اور پھر سب نے مل کر تلوار کے زور سے اسلام کو مٹانا چاہا۔ جب نوبت یہاں تک پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو اجازت عطا فرمائی کہ وہ خود حفاظتی کے طور پران کفار کا مقابلہ کریں جو آپ کے خلاف تلوار لے کر نکلے تھے چنانچہ آپ نے اپنی مٹھی بھر جماعت کو لے کر ان ظالموں کا مقابلہ کیا اور چونکہ آپ کے ساتھ حق و صداقت کی روشنی تھی اور خدا کی نصرت کا مخفی ہاتھ آپ کی تائید میں تھا اور آپ کے صحابہ میں ایمان کی برقی طاقت موجزن تھی اس لئے باوجود انتہائی بے سروسامانی اور قلت تعداد کے خدا نے آپ کو خارق عادت رنگ میں فتح دی اور ابھی آپ کو مدینہ میں آئے ہوئے صرف آٹھ سال ہوئے تھے کہ مکہ نے آپ کے لئے اپنے دروازے کھول دئیے۔ اس وقت آپ چاہتے تو ایک فاتح کی حیثیت میں سب رئوساء مکہ کو تہ تیغ کر سکتے تھے اور وہ اپنی خون آشام کارروائیوں کی وجہ سے اس سزا کے مستحق بھی تھے۔ مگر آپ نے اس خدائی رحمت کا ثبوت دیا جو آپ کی بعثت کی محرک تھی اور اپنے بے گناہ صحابہ کے قاتلوں سے فرمایا کہ جائو میں تمہیں معاف کرتا ہوں۔ یہ نسل انسانی کی تاریخ کا ایک ایسا سنہری ورق ہے جس کی نظیر کسی دوسری جگہ نہیں ملتی۔
فتح مکہ کے بعد چونکہ عرب میں مخالفت کا زور ٹوٹ چکا تھا اور جو لوگ اسلام کوتلوار کے زور سے مٹانے کے لئے اٹھے تھے وہ سب مغلوب ہو چکے تھے اس لئے اسلام کی دلکش تعلیم کا اہل عرب پر ایسا مقناطیسی اثر ہوا کہ انہوں نے بہت تھوڑے عرصہ میں ہی شرک سے توبہ کر کے اسلام کو قبول کر لیا اور جب فتح مکہ کے دو سال بعد ۱۱ھ یعنی ۶۳۲ء میں آنحضرت ﷺ کی وفات ہوئی تو اس وقت سارا عرب اسلام کی غلامی میں آچکا تھا۔ اور ملک کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک اللہ اکبر کی آواز بلند تھی۔ اس طرح خدانے آنحضرت ﷺ کو وہ کامیابی عطا فرمائی جو دنیا کی تاریخ میں حقیقۃً بے نظیر ہے اور آپ کی قوت روحانی کے اثر کے ماتحت عرب کے وحشی لوگوں نے اپنی زندگیوں میں ایسا حیرت انگیز تغیر پیدا کیا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں وہ انسانیت کے ادنیٰ ترین درجہ سے اٹھ کر کمالاتِ انسانی کی بلند ترین چوٹیوں تک پہنچ گئے اور ایک وحشی قوم کی بجائے ایک اعلیٰ درجہ کی بااخلاق اور باخدا قوم بن گئے اور علم و فضل میں بھی انہوں نے ایسی ترقی کی کہ وہ قوم جوچند سال پہلے جہالت میں ضرب المثل تھی اب ساری دنیا کی استاد بن گئی اور سیاسی لحاظ سے بھی عرب لوگ ایسے پھیلے کہ دنیا کے بیشتر حصہ پر چھا گئے اور یورپ کا بہت سا حصہ بھی اسلامی جھنڈے کے نیچے آگیا۔ یہی وہ زمانہ تھا کہ جب اہل یورپ نے مسلمانوں کے زیر اثر آکر اور ان کے تہذیب و تمدن اور لٹریچر سے متاثر ہو کر اپنی صدیوں کی نیند سے کروٹ بدلی اور جہالت اور تاریکی کو چھوڑ کر علم اور روشنی کا رستہ اختیار کیا۔ چنانچہ یورپ کے تمام غیر متعصب مؤرخ اس بات کے معترف ہیں کہ ہماری بیداری کا بڑا باعث مسلمان ہوئے ہیں۔ ۱؎ مگر افسوس کہ اس کے بعد خود مسلمان اسلام کی تعلیم کو چھوڑ کر گرنا شروع ہو گئے حتیّٰ کہ آہستہ آہستہ وہ وقت آیا کہ وہ دنیا کی بڑی قوموں میں سب سے پست شمار ہونے لگے اور دین کے بگاڑ کے ساتھ ان کی دنیا بھی بگڑ گئی۔
قرآن شریف :۔ آنحضرت ﷺ کی تئیس سالہ نبوت کی زندگی میں جو کلام الٰہی آپ
پر آہستہ آہستہ نازل ہوا اس کا نام قرآن شریف ہے اور یہی وہ مقدس صحیفہ ہے جو خدا کی آخری شریعت کا حامل ہے یہ ایک نہایت عجیب و غریب کتاب ہے اور گو اس کے سطحی معنی بالکل سادہ اور صاف ہیں مگر اس کی گہرائیوں میں جانے کے لئے بڑے غور و خوض اور گہرے مطالعہ کی ضرورت ہے اور جو شخص اس کی گہرائیوں تک رستہ پا لیتا ہے وہ ان معارف کے خزانوں کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے جو اس چھوٹی سی کتاب کے اندر مخفی ہیں لیکن اس کاصحیح اور گہرا علم حاصل کرنے کے لئے صرف ظاہری علم اور ظاہری کوشش ہی کافی نہیں بلکہ دل کی طہارت اور پاکیزگی بھی ضروری ہے کیونکہ قرآن ایک قدوس ہستی کا کلام ہے اور قدوس ہستی کے کلام کی سمجھ ایک ناپاک دل کو حاصل نہیں ہو سکتی۔
اسلامی تعلیم کا اصل الاصول :۔ قرآنی تعلیم کا خلاصہ چند لفظوں میں آجاتا ہے اور وہ الفاظ
یہ ہیں کہ :۔
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
یعنی ’’ اللہ ایک ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور محمد ﷺ خدا کے رسول ہیں جن کے ذریعہ اس نے اپنی شریعت نازل کی ہے۔ ‘‘
قرآنی تعلیم کا یہ ایک ایسا جامع اور مانع خلاصہ ہے کہ دوسرا کوئی مذہب اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتا۔ ان الفاظ میں واقعی اور سچ مچ اسلام کا نچوڑ آجاتا ہے جو یہی ہے کہ خدا کو ایک یقین کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائو۔ نہ بت کو نہ انسان کو۔ نہ جانور کو نہ حیوان کو۔ نہ سورج کو نہ چاند کو ۔ نہ پہاڑ کو نہ دریا کو۔ نہ مال کو نہ دولت کو۔ نہ دوست کو نہ عزیز کو۔ نہ ملک کو نہ قوم کو۔ بلکہ ایک واحد خدا کی پرستش کرو جس نے ساری دنیا کو پیدا کیا ہے جو خالق ہے اور مالک ہے اور رازق ہے۔ وہ قدیر ہے اور کوئی بات اس کے قبضہ قدرت سے باہر نہیں ۔ وہ علیم ہے اور کوئی بات اس سے چھپی ہوئی نہیں۔ ہمارا جسم اور ہماری روح اور ہمارا ہر ذرہ اور اس کی ہر طاقت اسی کی پیداکردہ ہے اور اسی کے سہارے پر قائم ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ کھانے اور پینے اور سونے اور آرام کرنے اور شادی کرنے اور بیٹا جننے سے پاک ہے۔ وہ دیکھتا ہے بغیر ظاہری آنکھوں کے اور سنتا ہے بغیر ظاہری کانوں کے اور بولتا ہے بغیر ظاہری زبان کے اور پکڑتا ہے بغیر ظاہری ہاتھوں کے۔ وہ لطیف ہے اور نظروں سے پوشیدہ ۔ وہ غیر محدود ہے اور شکل و صورت کی قیود سے بالا۔ مگر وہ ہر جگہ موجود ہے اور ہر چیز کو دیکھتا ہے اور ہر بات کو سنتا ہے اور اس کی کوئی صفت معطل نہیں۔ وہ ایک محبت کرنے والا مہربان خداہے اور اس کی محبت کو کوئی دوسری محبت نہیں پہنچتی نہ باپ کی نہ ماں کی۔ نہ خاوند کی نہ بیوی کی۔ نہ بھائی کی نہ بہن کی۔ نہ دوست کی نہ عزیز کی مگر وہ ایک حکیم اور دانا خدا ہے اور جب کوئی شخص اپنے خبث اور شرارت میں انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو وہ اسے اصلاح کی غرض سے پکڑتا اور سزا بھی دیتا ہے لیکن وہ ایک کینہ ور خدا نہیں بلکہ جب کوئی شخص اس کی طرف توبہ اور استغفار کے ساتھ جھکتا ہے تو وہ معاف کر دیتا ہے اور سچی توبہ کو جو اصلاح کی موجب ہو رد نہیں کرتا۔ یہ وہ خدا ہے جسے اسلام نے پیش کیا اور آنحضرت ﷺ نے دنیا کو اس کی بشارت پہنچائی۔
اسلامی کلمہ کا دوسرا حصہ آنحضرت ﷺ کی رسالت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے یعنی اسلام یہ سکھاتا ہے کہ خدا تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کی توحید کے قائل ہونے کے علاوہ تم آنحضرت ﷺ کی رسالت پر بھی ایمان لائو۔ یعنی یہ یقین کرو کہ محمد رسول اللہ ﷺ خدا کے سچے نبی اور رسول ہیں اور جو پیغام وہ خدا کی طرف سے لائے ہیں وہ حق و راستی کا پیغام ہے جس کی اطاعت ہر مسلمان پر واجب ہے اور کوئی شخص آپ کی حکم عدولی کر کے خدا کا فرمانبردار نہیں کہلا سکتا کیونکہ آپ کا پیغام خدا کا پیغام ہے اور آپ کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے۔ رسالت کا یہ مقام شرک میں داخل نہیں ہے بلکہ توحید کی حفاظت کے لئے ایک نہایت ضروری انتظام ہے کیونکہ حقیقی توحید کا سبق صرف نبیوں کے واسطے سے ملتا ہے اور جو شخص اس واسطے کو ترک کرے وہ حقیقی توحید کے مقام سے گر جاتا ہے۔ اسی لئے قرآن نے یہ تعلیم دی ہے کہ تم اگر خدا تعالیٰ کے پیارے بندے بننا چاہتے ہو تو محمد رسول اللہ کے نقش قدم پر چلو کیونکہ اس نے ہمارے راستے کی باریکیوں کو دیکھا ہوا ہے اور اس کے پیچھے لگ کر تم بھٹکنے سے محفوظ رہو گے۔ اسلام یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ تمام نبیوں کے سردار ہیں اور آپ کے وجود میں سلسلہ رسالت اپنی تکمیل کو پہنچ گیا ہے اور اسی لئے آپ کو آخری شریعت عطا کی گئی جس کے بعد نسلِ آدم کے لئے کوئی اور شریعت نہیں۔
اسلام اور دیگر مذاہب میں اصولی فرق :۔ دیگر مذاہب کے متعلق اسلام کی پوزیشن مخالفت
کی نہیں بلکہ فی الجملہ تصدیق کی ہے کیونکہ گزشتہ نبیوں کے متعلق جن کی صداقت دنیا میں مسلم ہو چکی ہے اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کے برگزیدہ رسول تھے اور اس کی طرف سے اپنے اپنے زمانہ کی ہدایت کے لئے مبعوث کئے گئے تھے۔ انہوں نے اپنے اپنے وقت میں دنیا کو روشنی پہنچائی اور خدا کی معرفت کا سبق دیا مگر ان کی رسالت کا دائرہ خاص خاص زمانوں اور خاص خاص قوموں کے ساتھ محدود تھا اور ساری دنیا کے لئے اور سارے زمانوں کے لئے نہیں تھا اس لئے اب ان کی رسالت کا دور ختم ہے لیکن آنحضرت ﷺ کی رسالت ساری دنیا کے لئے تھی اور آپ کا پیغام سارے زمانوں پر وسیع تھا اس لئے آپ کا دور قیامت تک چلے گا اور ختم نہیں ہو گا۔ پہلے نبیوںکے دور کو اس لئے محدود رکھا گیا کہ اس وقت تک بنی نوع آدم کی ذہنی او رتمدنی ترقی ابتدائی حالت میں تھی اور نسل انسانی ابھی تک اس درجہ کو نہیں پہنچی تھی کہ اس کے لئے ایک کامل اور آخری شریعت نازل کی جاوے پس اس ماہر ڈاکٹر کی طرح جو بیمار کی حالت کے مطابق نسخہ تجویز کرتا ہے خدا نے اس زمانہ میں الگ الگ قوموں کے لئے وقتی اور عارضی شریعتیں نازل فرمائیں۔ لیکن جب وہ وقت آیا کہ تمام دنیا ایک ملک کے حکم میں آنے لگی اور ان کی ذہنی اور تمدنی ترقی اس نکتہ کو پہنچ گئی کہ وہ ایک کامل اور دائمی شریعت کی متحمل ہو سکیں جو ساری قوموں اور سارے زمانوں کے لئے وسیع ہوتو اللہ تعالیٰ نے تمام سابقہ شریعتوں کو منسوخ کر کے ایک مشترک اور کامل شریعت نازل فرما دی مگر اس میں بھی قوموں اور زمانوں کے اختلاف کوکلی طور پر نظر انداز نہیں کیا بلکہ ایک اصولی اشتراک قائم کر کے تفصیلات میں ایسی تعلیم پیش کی جو وقتی اور قومی حالات کے ماتحت مختلف صورتیں اختیار کر سکتی ہے۔
مثلاً اسلام نے تعدد ازدواج کی اجازت دی ہے مگر اس بات کا حکم نہیں دیا کہ ہر شخص ضرور ہر حال میں ایک سے زیادہ شادی کرے بلکہ اسے افراد اور قوموں اور ملکوں کے حالات پر چھوڑ دیا ہے کہ ان کے حالات جس بات کے متقاضی ہوں وہ انہیں مناسب قیود کے ماتحت اختیار کر سکتے ہیں اس اصولی تعلیم کے ماتحت اگر کوئی فرد اپنے لئے خاص حالات میں دوسری شادی ضروری خیال کرے مثلاً اس کے اولاد نہ ہو اور وہ حصولِ اولاد کے لئے دوسری شادی کرنا چاہے یا کوئی قوم جو قلت تعداد کی وجہ سے تباہی کے کنارے پر پہنچ رہی ہو وہ اپنی نسلی ترقی کے لئے تعداد ازدواج کو اختیار کرنا چاہے تو اسلامی تعلیم کے ماتحت اس کے لئے رستہ کھلا ہے اور ان حالات میں کسی دانا عورت کو محض جذبات سے متاثر ہو کر اس ضروری قربانی سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔
اسی طرح مثلاً بعض گذشتہ نبیوں کی تعلیم میں صرف انتقام پر زور دیا گیا ہے اور بعض نبیوں کی تعلیم میں صرف عفو پر زور دیا گیا ہے جس کی یہ وجہ ہے کہ اس زمانہ میں ان کی قوموں کے حالات اس مخصوص تعلیم کے متقاضی تھے یعنی اگر کوئی قوم پست ہو کر گر گئی اور ان میں بزدلی اور دنائت پیدا ہو گئی اور غیرت کا جذبہ مٹ گیا تو انہیں اوپر اٹھانے کی غرض سے انتقام پر زور دیا گیا اور عفو سے روک دیا گیا تا کہ ان کے اندر خودداری کا جذبہ اور عزت نفس کا احساس پیدا ہو اور اگرکوئی قوم سخت دل ہو گئی اور نرمی اور درگزر کے صفت کو کھو بیٹھی تو اس کے لئے انتقام کا دروازہ بند کر کے صرف عفو پر زور دیا گیا تا کہ اس کے اندر شفقت اور رأفت کا جذبہ پیدا ہو ۔ مگر اسلام کی تعلیم چونکہ ساری قوموں اور سارے زمانوں کے واسطے تھی اس لئے اس میں اخلاق کی جڑ پر ہاتھ رکھ کر یہ اصولی ہدایت دی گئی کہ انتقام اور عفو دونوں ہی اپنی اپنی جگہ اچھی چیزیں ہیں اور انسانی اخلاق کی درستی کے لئے دونوں ضروری ہیں پس جہاں حالات اس بات کے متقاضی ہوں کہ مجرم سے انتقام لیا جائے وہاں انتقام لینا چاہئے اور جہاں عفو کرنا مناسب ہو اور اس کے نتیجہ میں اصلاح کی صورت پیدا ہوتی ہو تو وہاں عفو سے کام لینا چاہئے۔ اسی طرح کئی دوسرے مسائل میں اسلام نے متوازی اور متقابل ہدایات دی ہیں جن میں یہی غرض مدنظر ہے کہ پیش آمدہ حالات کے ماتحت مناسب رستہ اختیار کیا جا سکے۔ مگر اصولی اور اہم امور میں ایک واحد اور مشترک شریعت بیان کر کے اتحاد و اتصال کی صورت بھی قائم کر دی گئی ہے۔
ایک اور فرق اسلامی شریعت اور سابقہ شریعتوں میں یہ ہے کہ سابقہ شریعتوں کے وقت چونکہ بنی نوع آدم کا علم ایک ابتدائی حالت میں تھا اس لئے اس وقت کی شریعتوں نے انسانی اعمال میں زیادہ تفصیل کے ساتھ دخل دیا ہے اور بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی شریعت کے دائرہ میں شامل کر لیا گیا ہے لیکن اسلامی شریعت میں اس طریق کو بدل کر صرف اہم باتوں کے بیان کر دینے پر اکتفا کی گئی ہے۔ اور ایسی تفصیلات میں جن میں انسان خود اپنی عقل اور علم سے ایک اچھا رستہ تجویز کر سکتا ہے اسے آزاد رہنے دیا گیاہے تا کہ اسے بلاوجہ تنگی محسوس نہ ہو اور اس کے دماغی نشوونما کے لئے راستہ کھلا رہے۔ مثلاً اکثر پرانی شریعتوں میں اس بات کے متعلق تفصیلی ہدایات دی گئی ہیں کہ عبادت کی جگہ کیسی ہونی چاہئے اور اسے کس طرح پاک و صاف کیا جائے اور انسانی جسم کو کس طرح صاف رکھا جائے۔ وغیرہ وغیرہ مگر شریعت اسلامی نے نسلِ انسانی کے ترقی یافتہ حالات کے ماتحت ان امور میںایک اصولی تعلیم دے کرتفصیلات کے فیصلہ کو خود لوگوں کی عقل اور ان کے حالات پر چھوڑ دیا ہے۔
اسی طرح اسلامی شریعت اور سابقہ شریعتوں میں ایک فرق یہ ہے کہ سابقہ شریعتوںمیں چونکہ انسانی ذہن کی نشوونما کامل نہیں تھی اور انسان خدا کی ساری صفات کا نقشہ سمجھنے کے قابل نہیں تھا اس لئے صرف چند صفات کا علم دیا گیا اور انہیں بھی ایسے استعاروں کے ساتھ بیان کیا گیا جسے اس وقت کا اوسط انسانی دماغ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا تھا۔ مثلاً بہت سی سابقہ شریعتوں میں انسان کے ساتھ خدا کے تعلق کو ظاہر کرنے کے لئے خدا کو بطور اَب یعنی باپ کے پیش کیا گیا ہے لیکن اسلامی شریعت میں آکر خدا کی ساری صفات کا مکمل ظہور ہو گیا اور خدا کا وجود اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہوا۔ اور باپ وغیرہ کے استعارے چھوڑ کر جن کے ساتھ ہمیشہ شرک کے خطرہ کا امکان رہتا تھا الوہیت کے صحیح نقشہ کو پیش کیا گیا۔ چنانچہ اَب کے لفظ کی جگہ رب کی صفت رکھی گئی جو اَب کی نسبت بہت زیادہ وسیع اور بہت زیادہ گہرے تعلق پر دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ اَب کے معنے تو صرف اسی حد تک محدود ہیں کہ دو نر و مادہ آپس میں ملیںاور ایک تیسری چیز پیدا ہو جائے خواہ اس کے بعد اس تیسری چیز کا اپنے باپ کے ساتھ کوئی تعلق قائم رہے یا نہ رہے۔ جیسا کہ عموماً حیوانات اور ادنیٰ درجہ کے انسانوں میں ہوتا ہے۔ مگر رب سے مراد ایک ایسی ہستی ہے جو ایک چیز کو نیست سے ہست میں لائے۔ پھر اس کی پرورش کا سامان مہیا کرے ۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ رہے اور اس کی زندگی کے ہر دور میں اس کی محافظ ہو اور ہر دور کی ضروریات کو بصورت احسن پورا کرے اور پھر اسے درجہ بدرجہ اعلیٰ کمالات تک پہنچائے۔ یہ ایک ایسا اعلیٰ اور وسیع مفہوم ہے جس کے ساتھ اَب کے ادنیٰ اور محدود مفہوم کو کوئی بھی نسبت نہیں۔ اسی طرح کئی اور فرق ہیں جو اسلامی شریعت اور سابقہ شریعتوں میں پائے جاتے ہیں مگر اس مختصر رسالہ میں زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں۔
اسلامی عبادات :۔ عبادات میں اسلام نے چار عبادتوں پر خاص زور دیا ہے یعنی نماز روزہ
حج اور زکوٰۃ ۔ اسلام میں نماز ایک ایسی اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے جس کی نظیر کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی اور اس کے ارکان بھی ایسے مقرر کئے گئے ہیں کہ جو دعا اور ذکر الٰہی کی صحیح کیفیت پیدا کرنے میں نہایت درجہ مؤثر ہیں۔ یقینا خدا تعالیٰ کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا کرانے میں نماز ایک نہایت اعلیٰ درجہ رکھتی ہے اور اگر اسے پوری شرائط کے ساتھ ادا کیا جاوے تو وہ انسان کے دل کو پاک و صاف کرنے اور اسے خدا کی محبت کا مرکز بنانے میں اکسیر ثابت ہوتی ہے اور انسان کی روحانی ترقی کے لئے ایک بہت بھاری ذریعہ ہے۔ اسی لئے اسلام نے دن رات میں پانچ نمازوں کاحکم دیا ہے تا کہ جو زنگ انسان کے دل پر دنیا کے کاموں میں مشغول رہنے کی وجہ سے لگتا رہتا ہے وہ بار بار دھلتا رہے اور خداتعالیٰ کا تعلق کمزورنہ ہونے پائے۔نماز کے لئے مختلف دعائیں مقرر ہیں جو اس کے مختلف حصوں میں مانگی جاتی ہیں مگر اس بات کی اجازت ہے بلکہ تحریک کی گئی ہے کہ مقررہ دعائوں کے علاوہ انسان اپنی زبان میں بھی دعائیں مانگے۔ نماز کی اصل جگہ مسجد ہے مگر سفر میں یا دوسرے خاص حالات میں کسی صاف جگہ میں نماز ادا کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح نماز کا اصل طریق یہ ہے کہ جماعت کے ساتھ ادا کی جاوے مگر کسی مجبوری کی وجہ سے منفرد صورت میں بھی ادا کی جا سکتی ہے۔
دوسری عبادت روزہ ہے۔ یہ عبادت دہری غرض رکھتی ہے ایک تو یہ کہ تا اس ذریعہ سے نفسانی لذات کمزور ہو کر روحانی ترقی کا دروازہ کھلے دوسرے یہ کہ انسان کو بھوک اور تکلیف برداشت کرنے کی عادت پیدا ہو اور وہ اپنے غریب ہم جنسوں کی تکلیف کو سمجھ کر ان کے ساتھ ہمدردی کر سکے۔ روزہ میں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بیوی کے ساتھ مخصوص تعلقات کرنے سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے روزہ کا عملی تجربہ کیا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کی جسمانی اور اخلاقی اور روحانی اصلاح کے لئے وہ کس قدر مؤثر ہے۔ اسلام نے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کئے ہیں لیکن چونکہ روزہ میں ایک پہلو تکلیف اور مشقت کا بھی رکھا گیا ہے اس لئے بیماروں اور مسافروں کے لئے یہ سہولت کر دی گئی ہے کہ وہ بیماری اور سفر کی حالت میں روزہ ترک کر کے دوسرے اوقات میں اس کی تلافی کر سکتے ہیں ۔
تیسری عبادت حج ہے۔ اس کے لئے اسلام کا یہ حکم ہے کہ اگر انسان میں جسمانی اور مالی لحاظ سے طاقت ہو اور اس کے لئے رستہ بھی مخدوش نہ ہو تو وہ اپنی عمر میں کم از کم ایک دفعہ مکہ میں جا کر خانہ کعبہ کا طواف اور دوسری مقررہ عبادات سر انجام دے۔ کعبہ دنیا کی سب سے پرانی عبادت گاہ ہے اور اس کے ساتھ خدا کے بعض خاص برگزیدہ نبیوں کے واقعاتِ زندگی وابستہ ہیں اور اس کی روایات میں قربانی کا ایک خاص روح پرور عنصر پایا جاتا ہے اور پھر مکہ کا شہر آنحضرت ﷺ کا مولد اور مقام بعثت بھی ہے اس لئے عمر بھر میں ایک دفعہ اس مقدس جگہ کی زیارت مقرر کی گئی ہے تا کہ ایک مسلمان کے دل و دماغ میں اس کی قدیم اور مقدس روایات تازہ ہو کر زندگی کا تازہ خون پیدا کر دیں۔ حج میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ تا اس ذریعہ سے ساری دنیا کے مسلمانوں کو اکٹھے ہو کر آپس میں تعارف پیدا کرنے اور مشترک اسلامی امور میں تبادلہ خیالات کرنے کا موقعہ میسر آتا رہے۔
چوتھی عبادت زکوٰۃ ہے یعنی اسلام نے انسان کے اموال پر ایک خاص شرح کے ساتھ ایک خاص چندہ یا ٹیکس مقرر کر دیا ہے اور اس چندہ کے متعلق یہ ہدایت دی ہے کہ وہ غرباء اور مساکین وغیرہ پر خرچ کیا جاوے۔ اس انتظام میں بھی دہری غرض مدنظر ہے ایک تو یہ کہ امراء کو خدا کے رستے میںخرچ کرنے کی عادت پیدا ہو اور وہ اپنے اموال کے استعمال میں بالکل آزاد نہ رہیں۔ دوسرے یہ کہ کمزور اور غریب لوگوں کی امداد کا ایک مستقل انتظام قائم ہو جاوے چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ ایک ایسا ٹیکس ہے جس میں امیروں کی دولت کو کاٹ کر غریبوں کی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے اور اس طرح ملک کی دولت کو سمونے کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔
حقوق العباد کے متعلق اسلامی تعلیم :۔ حقوق العباد کے معاملہ میں بھی اسلام نے ایک
نہایت اعلیٰ اور وسطی تعلیم دی ہے اور افراد اور اقوام کے درمیان عدل و انصاف کے ترازو کو پوری طرح قائم رکھا ہے۔ مثلاً غیر قوموں کے ساتھ معاملہ کرنے کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے اَوْفُوا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَکَانَ مَسْئُوْلًا۔ ۱؎ ’’یعنی اے مسلمانو تمہیں چاہئے کہ اپنے تمام عہدوں کو پورا کیا کرو کیونکہ تمہیں اپنے عہدوں کے متعلق خدا کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔ ‘‘ پھر فرماتا ہے لَایَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلٰی اَنْ لَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔ ۲؎ ’’ یعنی کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان کے ساتھ انصاف کا طریق ترک کردو بلکہ تمہیں چاہئے کہ ہر حال میں دشمن کے ساتھ بھی انصاف کا معاملہ کرو کیونکہ یہی تقویٰ کا تقاضا ہے۔ ‘‘
افراد کے حقوق کے متعلق اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ سب سے پہلے تو اخوت اور مساوات کے اصول کو قائم کیا ہے یعنی حکم دیا ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور جہاں تک حقوق کا تعلق ہے کسی شخص کو کسی دوسرے شخص پر فوقیت حاصل نہیں بلکہ جو شخص بھی اپنی ذاتی خوبیوں اور ذاتی کمالات سے آگے نکل جاوے وہ دوسروں کے لئے جائے ادب ہے پس اسلام میں حقوق کے معاملہ میں کوئی نسلی یا قومی یا خاندانی امتیاز نہیں بلکہ سب برابر ہیں۔ اسی طرح اسلام میں ذات پات کا کوئی سوال نہیں اور نہ ہی مذہبی پیشوائی اور مذہبی تعلیم کے لئے کوئی خاص جماعت یا خاص طبقہ مقرر ہے بلکہ ہر شخص کے لئے ہر میدان میں ترقی کا راستہ کھلا ہے۔
مرد اور عورت کے درمیان بھی اسلام نے حقیقی انصاف قائم کیا ہے۔ یعنی ایک طرف ان کے طبعی فرق کو تسلیم کیا ہے اور دوسری طرف حقوق کے معاملہ میں ان کو برابر رکھا ہے مگر چونکہ عورت میں بعض فطری کمزوریاں پائی جاتی ہیں اس لئے انتظامی لحاظ سے مرد کو عورت پر فوقیت دی ہے لیکن ساتھ ہی مرد کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ عورت کے ساتھ نرمی اور شفقت اور محبت کا معاملہ کرے۔ اسی طرح اسلام نے عورت کے لئے ورثہ کا حق بھی تسلیم کیا ہے اور اسے اپنے نام پر جائیداد پیدا کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق دیا ہے۔
تقسیم ورثہ کے معاملہ میں اسلام نے اس گندے اصول کو تسلیم نہیں کیا کہ صرف بڑے لڑکے کو ورثہ دیا جائے یا یہ کہ صرف نرینہ اولاد کو ورثہ ملے اور لڑکیاں محروم رہیں بلکہ ساری اولاد کو ورثہ کا حق عطا کیا ہے اور ا س طرح دولت کی منصفانہ تقسیم کی بنیاد قائم کر دی ہے۔ یہ جھوٹا اصول کہ ورثہ کے تقسیم ہو جانے سے خاندان کی حیثیت گر جاتی ہے دنیا میں بڑی تباہی اور بڑی بے انصافی کا باعث ہوا ہے اس لئے اسلام نے اسے شروع سے ہی تسلیم نہیں کیا اور ساری اولاد کو برابر حصہ دے کر انہیں زندگی کی کشمکش میں ایک لیول پر کھڑا کر دیا ہے۔
اسلام نے سُود کو بھی ناجائز قرار دیا ہے کیونکہ اوّل تو اس سے انسانی اخلاق ہمدردی اور مواسات کو سخت صدمہ پہنچتا ہے۔ دوسرے اس میں انسان کو اپنی طاقت سے بڑھ کر قرض اٹھانے کی جرأت پیدا ہوتی ہے جو سخت مہلک ہے۔ تیسرے اس کی وجہ سے افراد اور اقوام کے درمیان جنگ و جدال کا دروازہ کھلتا ہے۔ پس اسلام نے سود کو منع کر کے صرف سادہ تجارت کی اجازت دی ہے اور سود لینے اور دینے والے ہر دو کو گناہ گار قرار دیا ہے۔ بے شک موجودہ زمانہ میں سود کے جال کے وسیع ہو جانے کی وجہ سے یہ نظر آتا ہے کہ شاید سود کے بغیر گزارہ نہیں چل سکتا مگر یہ صرف نظر کا دھوکا ہے جو موجودہ زہریلے ماحول کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ورنہ جب مسلمان نصف دنیا سے زائد حصہ پر حکمران تھے اس وقت سود کے بغیرگزارہ چلتا ہی تھا۔
اسلام نے شراب کے استعمال کو بھی روکا ہے کیونکہ اس سے انسان کی اعلیٰ دماغی طاقتوں کو صدمہ پہنچتا ہے۔ بے شک اس سے ایک عارضی تحریک اور چمک پیدا ہوتی ہے چنانچہ شراب کے بعض فوائد کو قرآن شریف نے بھی تسلیم کیا ہے مگر مستقل نتیجہ بہرحال ضرر رساں ہے اور اسکے استعمال کی کثرت سے انسان کی عقل پر بھی پردہ پڑ جاتا ہے حتیّٰ کہ ایک مدہوش آدمی انسان کہلانے کا حقدار نہیں رہتا اور چونکہ شراب ان چیزوں میں سے ہے جن کا تھوڑا استعمال بڑے استعمال کی طرف کھینچتا ہے اور اس کی عادت کو اختیار کر کے ہروقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ انسان اس کی کثرت کی طرف نہ جھک جاوے اور درمیانی حد بندی کی کوئی ضمانت نہیں اس لئے اسلام نے شراب کے قلیل اور کثیر دونوں حصوں کو منع کیا ہے اور اس گندی عادت کو جڑ سے اکھیڑنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح شراب کے استعمال سے فضول خرچی کی طرف میلان پیدا ہوتا ہے اور کئی لوگ محض اسی عادت کی وجہ سے اپنے ذرائع سے زیادہ خرچ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
یہی حال جوئے کا ہے جسے اسلام نے ممنوع قرار دیا ہے کیونکہ وہ ایک اتفاق کی کھیل ہے جس میں انسان کی کسی محنت یا ہنر کا دخل نہیں ہوتا۔ اور اگر انسان کو ایسی باتوں میں پڑنے کی اجازت دی جاوے تو وہ حلال اور محنت کی روزی کمانے کی بجائے اپنے وقت کو بیہودہ طور پر ضائع کرنے کا عادی ہو جاتا ہے اور مال کی ناواجب طمع پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح اسلام نے قتل، چوری، ڈاکہ، فساد جھوٹ ،دغا ،خیانت ،بدنظری ،زنا ،رشوت وغیرہ سے منع کیاہے اور راستی ،دیانت ،وفاداری ،انصاف امن پسندی ،غرباء پروری ،ادب اور شفقت وغیرہ کی تعلیم دی ہے اور ان اخلاق کی ایسی تفاصیل بیان کی ہیں جو کسی دوسرے مذہب میں نہیں پائی جاتیں مگر افسوس ہے کہ اس جگہ زیادہ تفصیلی بیان کی گنجائش نہیں ہے۔
ایک حکم اسلام میں پردہ اور غضِ بصر کا ہے یعنی مسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جب کوئی عورت ایسے اجنبی لوگوں کے سامنے آئے جن کے ساتھ اس کا قریبی رشتہ نہیں ہے تو وہ اپنی زینت کو چھپا کر رکھے اور غیر محرم مرد و عورت دونوں ایک دوسرے کے سامنے اپنی نظروں کو نیچا رکھیں اور ایک دوسرے کی طرف بے حجابانہ اور آزادانہ نظر نہ اٹھائیں کیونکہ اس طرح بسااوقات دل میں ناپاک خیالات پیدا ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔ بے شک بعض خاص لوگ ایسے ہو سکتے ہیں جن کے دل میں ناپاک خیالات پیدا نہیں ہوتے لیکن چونکہ قانون کی بنیاد کثرت پر ہے اس لئے اسلام نے اس حکیمانہ حکم کے ذریعہ بدی کی جڑ کو کاٹنے کی کوشش کی ہے اور دنیا کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ مرد عورت کا آزادانہ میل جول اکثر صورتوں میں خراب نتیجہ پیدا کرتا ہے مگر باوجود پردہ کی حد بندی کے اسلام نے عورت کو گھر کی چاردیواری کے اندر قید نہیں کیا بلکہ اسے اجازت دی ہے کہ زینت کے برملا اظہار سے رکتے ہوئے حسب ضرورت گھر سے نکل کر دین و دنیا کے کاموں میں حصہ لے۔
اسلام نے مسلمانوں کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ ان میں سے ایک گروہ ہر وقت تبلیغ میں مصروف رہنا چاہئے۔تا کہ نسلی ترقی کے علاوہ تبلیغ کے ذریعہ بھی قومی ترقی کا رستہ کھلا رہے مگر اس حکم میں اصل غرض محض تعداد کی ترقی نہیں بلکہ اس حکم کی اصل بنیاد یہ ہے کہ جو صداقت اسلام کے ذریعہ مسلمانوں کو حاصل ہوئی ہے وہ دوسروں تک بھی پہنچائی جائے اور اسلام کے نور سے دوسروں کو بھی منور کیا جاوے تا کہ خدا کے بھٹکے ہوئے بندے پھر خدا کے رستہ پر آجائیں۔ اس تبلیغ میں کوئی قومی یا نسلی امتیاز نہیںبلکہ ہر شخص اسلام کو قبول کر کے وسیع اسلامی اخوت میں برابر کا شریک بن سکتا ہے۔
اسلامی نظام حکومت :۔ چونکہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اس لئے اس نے نظام حکومت
کے بارے میں زیادہ تفصیلی دخل نہیں دیا بلکہ چند اصولی ہدایات دے کر تفصیلات کے فیصلہ کو مختلف قوموں اور مختلف ملکوں کے حالات پر چھوڑ دیا ہے۔ اصولی ہدایات جو اس بارے میں اسلام نے دی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حکومت کا اصلی اور طبعی حق جمہور کو حاصل ہے البتہ چونکہ نظام حکومت کو چلانے کے لئے ایک محدود او رمرکزی انتظام کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے لوگوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی اہل اور قابل شخص کو منتخب کر کے اس کو اپنا امیر بنا لیں۔ لیکن جب ایک شخص امیر بن جاوے تو پھر سب لوگ اس کی پوری پوری اطاعت کریں۔ دوسری طرف امیر کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ حکومت کے معاملہ میں لوگوں سے مشورہ لیتا رہے اور مشورہ کے ساتھ نظام حکومت کو چلاوے۔
انسانی پیدائش کی غرض و غایت :۔ انسانی پیدائش کی غرض و غایت کے متعلق اسلام نے یہ تعلیم
دی ہے کہ خدا نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ عبادت سے یہ مراد نہیں کہ انسانی پیدائش کی غرض و غایت صرف نماز روزہ تک محدود ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو انسان کو اسکے موجودہ ماحول میں اور موجودہ طاقتوں اور موجودہ ضروریات کے ساتھ نہ پیدا کیا جاتا جہاں اسے بہت سے دوسرے کاموں میں لازماً پڑنا پڑتا ہے۔ پس اسلامی اصطلاح میں عبادت سے یہ مراد ہے کہ خدا نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کی ہستی کو پہچانے اور پھر اس کی صفات کو اپنے اندر لے کر اور اس کا ظل بن کر ایک مفید اور نفع مند و جود کی صورت میں دنیا میں ترقی کرے۔ اعلیٰ اخلاق کا صحیح معیار سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گزاری جائے اور جو رستہ خدا نے انسان کے لئے مقرر کر دیا ہے اس پر چل کر ترقی کی جاوے۔ اسی تعریف میں دین اور دنیادونوں کے رستے شامل ہیں۔ پس اسلام کی رو سے انسان کی پیدائش کی غرض و غایت یہی ہے کہ وہ خدا کا بندہ بن کر اس کی مرضی کو پورا کرے۔ دین کے رستے میں خدا پر سچا ایمان اور اس کے ساتھ حقیقی تعلق ہو۔ اور اس کے احکام کی پیروی کی جاوے اور دنیا کے رستے میں افراد اور قوموں کے حقوق کو خدا کے منشاء کے مطابق ادا کیا جائے۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص خدا کی خاطر اچھی نیت کے ساتھ اپنی بیوی کے منہ میں ایک لقمہ ڈالتا ہے تو وہ بھی ایک عبادت ہے۔ اس معنی میں ہر نیک اور اچھا عمل جو خدا کی خاطر کیا جائے ایک عبادت ہے اور انسان کو عبادت ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔
موت کے بعد دوسری زندگی :۔ انسانی زندگی کے متعلق اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ خدا تعالیٰ
نے انسان کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک اس دنیا کی زندگی جو دارالعمل ہے۔ دوسرے آخرت کی زندگی جو دارالجزاء ہے اور ان دونوں کے درمیان موت کا پردہ حائل ہے۔ جو اعمال انسان اس دنیا میں کرتا ہے ان کے مطابق وہ اپنی اگلی زندگی میں اچھا یا برا بدلہ پائے گا۔ یہ بدلہ کس صورت میں ظاہر ہو گا اس کے متعلق ہم انشاء اللہ آگے چل کر احمدیت کے مخصوص عقائد کی ذیل میں بیان کریں گے مگر بہر حال اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ جنت ایک پاکیزہ مقام ہے جس میں کوئی لغو چیز یا گناہ کی بات نہیں۔ علاوہ ازیں جہاں اسلام نے جنت کو دائمی قرار دیا ہے وہاں دوزخ کے متعلق تصریح کی ہے کہ وہ دائمی نہیں۔ بلکہ جس طرح ایک بیمار کچھ عرصہ تک ہسپتال میں زیر علاج رہ کر پھر اچھا ہو کر ہسپتال سے باہر آجاتا ہے اسی طرح دوزخی لوگ بالآخر دوزخ سے باہر نکل آئیں گے اور علیٰ قدر مراتب جنت میں جگہ پائیں گے۔ لیکن ہر دو صورتوں میں اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ آخرت کی زندگی ایک ابدی زندگی ہے جس کے بعد کوئی موت نہیں۔








جماعت احمدیہ کے مخصوص عقائد
اسلامی تعلیم کا مختصر ڈھانچہ درج کرنے کے بعد ہم ان مخصوص عقائد کا ذکر کرتے ہیں جو مقدس
بانیء سلسلہ احمدیہ نے دنیا کے سامنے پیش کئے۔ جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے یہ عقائد اسلام سے خارج یا اس کے علاوہ نہیں ہیں بلکہ یہ سارے عقائد جو ہم اس جگہ بیان کریں گے اسلام ہی کے عقائد ہیں لیکن بوجہ اس کے کہ مسلمان انہیں بھلا چکے تھے حضرت مسیح موعود ؑ نے انہیں دوبارہ زندہ کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اسی طرح ان میں بعض عقائد ایسے ہیں کہ وہ قرآن شریف میں موجود تو تھے مگر چونکہ ابھی تک ان کے ظاہر ہونے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی اس لئے وہ آج تک ایک مخفی کان کی طرح نظروں سے اوجھل چلے آئے تھے لیکن اب آکر حضرت مسیح موعود ؑ کے ذریعہ ان کا اظہار اور انکشاف ہوا۔ ہم اس جگہ ان سب عقائد کا تو ذکر نہیں کر سکتے جن پر حضرت مسیح موعود ؑ نے احمدیت کی بنیاد رکھی ہے البتہ بعض خاص خاص عقائد کو ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں اور انہیں بھی صرف اختصار کے ساتھ درج کیا جائے گا کیونکہ اصل بحث حضرت مسیح موعود کی کتب اور سلسلہ احمدیہ کے دوسرے مستند لٹریچر میں موجود ہے اور جو شخص چاہے آسانی کے ساتھ اصل ماخذ کا مطالعہ کر سکتا ہے۔
احمدیت کے مخصوص عقائد کے بیان میں سب سے مقدم جگہ حضرت مسیح موعود ؑ کے دعاوی کو حاصل ہے کیونکہ احمدیت کی عمارت کی بنیاد انہی پر قائم ہے۔ سو سب سے پہلے ہم انہی کو لیتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود ؑکا مجدّدیت کا دعویٰ :۔ سب سے پہلا دعویٰ جو حضرت مسیح موعود ؑ نے دنیا
کے سامنے پیش کیا وہ مجددیت کا دعویٰ تھا ۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں مقدس بانیء اسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے یہ وعدہ فرمایا تھاکہ :۔
ان اللّٰہ یبعث لھذہ الامۃ علی رأس کل مائۃ سنۃ من یجدّد لھا دینھا ۱؎
’’ یعنی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لئے ہر صدی کے سر پر ایک ایسا مصلح مبعوث کیا کرے گا جو ان کی دینی غلطیوں کی اصلاح کر کے انہیں نئے سرے سے زندگی عطا کیا کرے گا۔ ‘‘
اس پیشگوئی کے مطابق اسلام میں ہر صدی کے سر پر مجدد مبعوث ہوتے رہے ہیں جو اسلام کے اندر ہو کر اور آنحضرت ﷺ کی غلامی کا جُوا اپنی گردنوں پر رکھتے ہوئے اسلام کی تجدید اور مسلمانوں کی اصلاح کی خدمت سر انجام دیتے رہے ہیں۔ چنانچہ حضرت عمر بن عبدالعزیز اور حضرت سید عبدالقادر صاحب جیلانی اور حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی اور حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی مجددالف ثانی اور حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب دہلوی اور حضرت سید احمد صاحب بریلوی وغیرھم اسی مقدس لڑی کی مختلف کڑیاں ہیں۔ اور مسلمانوں کا سواد اعظم ان بزرگوں کی ولایت اور مجددیت کا قائل اور معترف ہے۔ سو حضرت مسیح موعود کا سب سے پہلا دعویٰ جو گویا آپ کے سب دعاوی کے لئے بطور بنیاد کے ہے یہی تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے قدیم وعدے کے مطابق اسلام کی چودھویں صدی کا مجدد بنا کر بھیجا ہے اور آپ نے اعلان کیا کہ چونکہ یہ زمانہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک فساد عظیم کا زمانہ ہے اس لئے اس فساد کی اصلاح کے واسطے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ خاص طاقتیں بھی عطا کی ہیں جو اس زمانہ کے روحانی مصلح کے لئے ضروری ہیں۔ آپ نے یہ دعویٰ براہین احمدیہ کی تصنیف کے زمانہ میں کیا تھا۔ ۱؎ مگر چونکہ آپ کے اس دعویٰ میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جو مسلمانوں کے کسی معروف عقیدہ کے خلاف ہو اور اس وقت تک آپ نے سلسلہ بیعت بھی شروع نہیں فرمایا تھا اس لئے اس دعویٰ پر آپ کی کوئی خاص مخالفت نہیں ہوئی اور جمہور مسلمانوں نے اسے ایک گونہ خاموش تصدیق کے ساتھ قبول کیا۔ بعد میں جب مخالفت کا طوفان اٹھا تو حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے مخالفوں کے سامنے بار بار یہ بات پیش فرمائی کہ اگر تم میرے دعویٰ مجددیت کو قبول نہیں کرتے تو پھر کوئی اور شخص پیش کرو جس نے اس صدی کے سر پر مجدد ہونے کا دعویٰ کیا ہو مگر آپ کا کوئی مخالف اس چیلنج کا جواب نہیں دے سکا۔
مسیحیت کا دعویٰ :۔ حضرت مسیح موعود ؑ کا دوسرا دعویٰ جس پر آپ کے خلاف ایک خطرناک
طوفانِ بے تمیزی اٹھ کھڑا ہوا اور چاروں طرف سے مخالفت کی آگ کے شعلے بلند ہونے لگے وہ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ تھا۔ یعنی آپ نے خدا سے الہام پا کر یہ دعویٰ فرمایا کہ حضرت مسیح ناصری جنہیں مسلمان غلطی سے آسمان پر زندہ سمجھ رہے تھے وہ دراصل فوت ہو چکے ہیں اور جو وعدہ ان کی آمدِ ثانی کے متعلق اسلام میں کیا گیاتھا وہ تمثیلی رنگ میں خود آپ کے وجود میں پورا ہوا ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے قرآن شریف نے فی الجملہ ایک مثیل مسیح کی پیشگوئی فرمائی تھی ۱؎ اور حدیث میں صراحت کے ساتھ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ :۔
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَیُوْشَکَنَّ اَنْ یَّنْزِلَ فِیْکُمُ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدَلًا فَیَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ ۲؎
’’ یعنی مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ضرور نازل ہوں گے تم میں مسیح ابن مریم اور وہ خدا کی طرف سے تمہارے تمام اختلافی امور میں حَکَم اور عدل ہو کر فیصلہ کریں گے اور صلیب کو توڑیں گے (یعنی صلیبی مذہب کے زور کے وقت میں ظاہر ہو کر اس کے زور کو توڑ دیں گے) اور خنزیر کو قتل کریں گے (یعنی خنزیری صفات لوگوں کا استیصال کریں گے) اور جزیہ کو موقوف کر دیں گے یعنی جنگ کو موقوف کر کے جزیہ کا سوال ہی اٹھا دیں گے۔ ‘‘
اس پیشگوئی کے نتیجہ میں مسلمانوں میں کئی صدیوں سے یہ عقیدہ چلا آرہا تھا کہ حضرت مسیح ناصری جو انیس سو سال ہوئے فلسطین کے ملک میں گزرے تھے اور جن کے ہاتھ سے مسیحی مذہب کی بنیاد رکھی گئی تھی وہ آسمان پر زندہ موجود ہیں اور آخری زمانہ میں دوبارہ دنیا میں آئیں گے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے خدا سے علم پا کر اعلان فرمایا کہ یہ عقیدہ قرآن و حدیث کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے۔ بے شک مسیح کی آمد ثانی کا وعدہ برحق ہے مگر یہ بات قطعاً درست نہیں کہ وہی پہلا مسیح آسمان پر زندہ موجود ہے اور آخری زمانہ میں آسمان سے نازل ہو گا بلکہ یہ پیشگوئی استعارہ کے رنگ میں ایک مثیل مسیح کی آمد کی خبر دیتی تھی یعنی اس پیشگوئی میں یہ بتانا مقصود تھا کہ آخری زمانہ میں ایک ایسا روحانی مصلح مبعوث ہو گا جو اپنی صفات میں مسیح ناصری کا مثیل ہو گا اور حضرت مسیح کی خوبو پر آئے گا اس لئے اس کا آنا گویا خود مسیح ناصری کا آنا ہو گا۔ آپ نے مثالیں دے دے کر ثابت کیا کہ روحانی سلسلوں میں جب کبھی بھی کسی بنی کی دوسری آمد کا وعدہ دیا جاتا ہے تو اس سے ہمیشہ اس کے مثیل کا آنا مراد ہوتا ہے جیسا کہ مثلاً حضرت مسیح ناصری کے زمانہ میں الیاس نبی کی دوسری آمد کا وعدہ یوحنا نبی کی بعثت سے پورا ہوا۔ ۱؎
آپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ قرآن شریف کی رو سے نہ صرف حضرت مسیح ناصری کا آسمان پر جانا ثابت نہیں بلکہ متعدد آیات سے ان کی وفات ثابت ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ہی قرآن و حدیث سے یہ بھی ثبوت ملتا ہے کہ کوئی حقیقی مردہ زندہ ہو کر اس دنیا میں دوبارہ واپس نہیں آسکتا۔ اور بالآخر آپ نے قرآن و حدیث سے یہ بھی ثابت کیا کہ جس مسیح کا اسلام میں وعدہ کیا گیا تھا اس کے متعلق قرآن و حدیث ہی اس بات کی تشریح کرتے ہیں کہ اس سے مسیح ناصری مراد نہیں بلکہ مثیل مسیح مراد ہے اور ان جملہ امور کے متعلق آپ نے ایسے زبردست دلائل پیش کئے کہ آپ کے مخالف بالکل سراسیمہ ہو کر رہ گئے۔
تاریخی رنگ میں بھی آپ نے اس بات کو ثابت کیا کہ حضرت مسیح ناصری گو خدائی تصرف کے ماتحت صلیب کی موت سے بچ گئے تھے مگر اس کے بعد وہ اپنے ملک سے ہجرت کر کے ہندوستان کے رستے کشمیر چلے گئے تھے اور وہیں اپنی طبعی موت سے فوت ہوئے۔ الغرض آپ نے قرآن سے اور حدیث سے اور مسیحی نوشتوں سے اور تاریخ سے حضرت مسیح ناصری کی وفات ثابت کر کے اپنے مثیل مسیح ہونے کا ثبوت پیش کیا اور اس بحث کے دوران میں مندرجہ ذیل اہم مسائل پر نہایت زبردست روشنی ڈالی :
(۱) یہ کہ حضرت مسیح ناصری دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان تھے جو دشمنوں کی شرارت سے صلیب پر تو ضرور چڑھائے گئے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس *** موت سے بچا لیا جس کے بعد وہ خفیہ خفیہ اپنے ملک سے ہجرت کر گئے۔
(۲) یہ کہ اپنے ملک سے نکل کر حضرت مسیح ؑآہستہ آہستہ سفر کرتے ہوئے کشمیر میں پہنچے اور وہیں ان کی وفات ہوئی اور وہیں آج تک ان کی قبر موجود ہے۔
(۳) یہ کہ قرآن شریف اور حدیث کی رو سے کوئی حقیقی مردہ زندہ ہو کر اس دنیا میں دوبارہ واپس نہیں آسکتا اس لئے مسیح کو فوت شدہ مان کر ان کی دوبارہ آمد کا انتظار بے سود ہے۔
(۴) یہ کہ اسلامی تعلیم کی رو سے کوئی فرد بشر اس جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر نہیں جا سکتا اس لئے مسیح کے زندہ آسمان پر چلے جانے کا خیال بھی باطل ہے۔
(۵) یہ کہ بے شک مسیح کی آمدِ ثانی کا وعدہ تھا مگر اس سے مراد ایک مثیل مسیح کا آنا تھا نہ کہ خود مسیح کا۔
(۶) یہ کہ مثیل مسیح کی بعثت کا وعدہ خود آپ کے وجود میں پورا ہوا ہے اور آپ ہی وہ موعود مسیح ہیں جس کے ہاتھ پر دنیا میں حق و صداقت کی آخری فتح مقدر ہے۔ اس شق کی ذیل میں یعنی اپنے مسیح موعود ہونے کی تائید میں آپ نے مندرجہ ذیل ثبوت پیش کئے :۔
(الف) یہ کہ مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق جو علامتیں بیان کی گئی تھیں وہ موجودہ زمانہ پر چسپاں ہوتی ہیں یعنی مسلمانوں کی حالت کا بگڑ جانا۔ صلیبی مذہب کا زوروں میں ہونا۔ دجال کا خروج۔ پریس اور ریل وغیرہ کی ایجاد کا ظہور وغیرہ۔
(ب) یہ کہ مسیح موعود کے نزول کی جگہ کے متعلق جو خبر دی گئی تھی کہ وہ مشرقی ممالک میں یعنی بلاد شام کے مشرق کی طرف ظاہر ہو گا وہ بھی آپ کے مقامِ ظہور یعنی قادیان پر چسپاں ہوتی ہے۔
(ج) یہ کہ مسیح ناصری کے حلیہ کے مقابل پر جو حلیہ مسیح موعود کا بیان کیا گیا تھا یعنی گندمی رنگ اور سیدھے بال وغیرہ۔ وہ آپ پر پوری طرح صادق آتا ہے اسی طرح آخری زمانہ کے مصلح کے متعلق جو یہ پیشگوئی تھی کہ وہ قومی لحاظ سے فارسی الاصل ہو گا وہ بھی آپ میں پوری ہوتی ہے۔
(د) یہ کہ مسیح موعود کا جو کام بتایا گیا تھا یعنی یہ کہ وہ مسلمان میں کھوئے ہوئے ایمان کو پھر قائم کرے گا اور ان کے غلط عقائد کی اصلاح کرے گا اور صلیب کے زور کو توڑے گا اور اس کے ذریعہ سے اسلام کو غلبہ حاصل ہو گا وغیرہ وغیرہ اس کام کی داغ بیل آپ کے ہاتھ سے قائم کر دی گئی ہے اور اب یہ کام سنت اللہ کے مطابق آہستہ آہستہ آپ کی جماعت کے ذریعہ اپنی تکمیل کو پہنچے گا۔
ان امور کو تفصیل اور دلائل کے ساتھ لکھنا بہت جگہ چاہتا ہے مگر چونکہ ان جملہ امور کی بحث حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب میں نہایت تفصیل کے ساتھ آچکی ہے اور یہ باتیں جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں شائع و متعارف ہیں اس لئے اس جگہ اسی قدر مجمل نوٹ پراکتفا کی جاتی ہے۔ ۱؎
مہدویت کا دعویٰ :۔ تیسرا دعویٰ حضرت مسیح موعود ؑ کا یہ تھا کہ آپ مہدی معہود ہیں۔یعنی
اسلام میں جو ایک مہدی کے ظہور کا وعدہ دیا گیا تھا وہ آپ کی آمدسے پورا ہوا ہے۔ مگر آپ نے اس دعویٰ کی ذیل میں یہ تشریح فرمائی کہ میں کسی جنگی اور خونی مشن کے ساتھ نہیں بھیجا گیا بلکہ میرا کام امن اور صلح کے طریق پر کام کرنا اور براہین اور دلائل کے ساتھ منوانا ہے۔ آپ نے ثابت کیا کہ یہ خیال کہ اسلامی تعلیم کی رو سے دین کے معاملہ میں جبر او رتشدد جائز ہے سراسر غلط اور بے بنیاد ہے اور قرآن شریف و حدیث بڑے زور کے ساتھ اس کی تردید کرتے ہیں۔ آپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ یہ جو مسیح موعود اور مہدی کو الگ وجود سمجھ لیا گیا تھا یہ درست نہیں بلکہ دراصل مسیح موعود اور مہدی معہود ایک ہی ہیں جنہیں صرف دو مختلف حیثیتوں کی وجہ سے دو الگ الگ نام دے دئیے گئے ہیں چنانچہ ایک صحیح حدیث میں بھی صراحت کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ :۔
لَا الْمَہْدِیْ اِلَّا عِیْسٰی ۱؎
’’ یعنی مسیح موعود کے سوا اور کوئی موعود مہدی نہیں ہے۔ ‘‘
اس دعویٰ کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب اور سلسلہ کے لٹریچر میں تفصیل کے ساتھ بحث آچکی ہے اس لئے اس جگہ تفصیلی بیان کی ضرورت نہیں۔ جو ناظرین تفصیل میں جانا چاہیں وہ سلسلہ کی کتب کا مطالعہ کر سکتے ہیں ۔ ۲؎
نبوت کا دعویٰ :۔ حضرت مسیح موعود ؑ کا چوتھا دعویٰ ظلّی نبوت کا تھا یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو
آنحضرت ﷺ کی اتباع میں اور آپ کے لائے ہوئے دین کی خدمت کے لئے آپ کے ظل اور بروز ہونے کی حیثیت میں نبوت کی خلعت پہنائی ہے۔ یہ دعویٰ بھی چونکہ موجود الوقت مسلمانوں کے معروف عقیدہ کے سخت خلاف تھا اور وہ مقدس بانیء اسلام ﷺ کے بعد ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند قرار دیتے تھے اس لئے اس دعویٰ پر بھی مخالفت کا بہت شور برپا ہوا اور آپ کے مخالفوں نے اسے ایک آڑ بنا کر آپ کو نعوذ باللہ اسلام کا دشمن اور آنحضرت ﷺ کے لائے ہوئے دین کو مٹانے والا قرار دیا اور اب تک بھی آپ کا یہ دعویٰ مسلمانوں میں سب سے زیادہ ہیجان پیدا کرنے والا ثابت ہو رہا ہے۔ مگر یہ سب شور و غوغا محض جہالت اور تعصب کی بناء پر ہے ورنہ غور کیا جائے تو حضرت مسیح موعود ؑ کے اس دعویٰ میں کوئی بات قرآن و حدیث کے خلاف نہیں بلکہ اس سے اسلام کی اکملیت اور آنحضرت ﷺ کی شان کی بلندی کا ثبوت ملتا ہے۔
دراصل اس معاملہ میں سارا دھوکا اس بات سے لگا ہے کہ بدقسمتی سے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ہر نبی کے لئے نئی شریعت کا لانا ضروری ہے یا کم از کم یہ کہ ہر نبی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ سابقہ نبی کے روحانی فیض سے آزاد ہو کر براہ راست نبوت کا انعام حاصل کرے اور نبوت کی اس تعریف کو مان کر واقعی آنحضرت ﷺ کے بعد کسی قسم کی نبوت کا دروازہ کھلا رکھنا نہ صرف آنحضرت ﷺ کی شان کے منافی ہے بلکہ اس سے اسلام کی اکملیت پر بھی سخت زد پڑتی ہے۔ مگر حق یہ ہے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی کتب میں دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے نبوت کی یہ تعریف ہرگز درست نہیں اور قرآن وحدیث دونوں اسے سختی کے ساتھ رد کرتے ہیں۔ اس کے مقابلہ پر نبی کی جو تعریف اسلامی تعلیم کی رو سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص خدا تعالیٰ سے وحی پا کر دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہو اور ایسے روحانی مقام پر پہنچ جاوے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ کثرت سے کلام کرے اور اسے غیب کے امور پر کثرت کے ساتھ اطلاع دی جاوے ۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :۔
’’ یہ تمام بدقسمتی دھوکہ سے پیدا ہوئی ہے کہ نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی۔ نبی کے معنی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہو۔ شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحبِ شریعت رسول کا متبع نہ ہو۔ پس ایک امتی کو ایسا نبی قرار دینے سے کوئی محذور لازم نہیں آتا بالخصوص اس حالت میں کہ وہ امتی اپنے اسی نبی متبوع سے فیض پانے والا ہو۔ ‘‘ ۱؎
اس تشریح کے ہوتے ہوئے جو قرآنی تعلیم کے عین مطابق ہے یہ اعتراض بالکل صاف ہو جاتا ہے کہ نبوت کا دروازہ کھلا ماننے سے آنحضرت ﷺ کی ہتک لازم آتی ہے یا یہ کہ اس سے قرآنی شریعت کو منسوخ قرار دینا پڑتا ہے بلکہ حق یہ ہے کہ ایسی نبوت کو جاری ماننے سے آنحضرت ﷺ کی شان کی بلندی ظاہر ہوتی ہے کیونکہ وہی افسر بڑا ہوتا ہے جس کے ماتحت بڑے ہوں اور وہی شخص زیادہ کامل سمجھا جاتا ہے جس کا فیضان زیادہ وسیع ہو اور اس کی پیروی انسان کو اعلیٰ سے اعلیٰ انعامات کا حقدار بنا سکے۔ بے شک اگر حضرت مسیح موعود ؑ یہ دعویٰ فرماتے کہ میرے آنے سے قرآنی شریعت منسوخ ہو گئی ہے یا یہ اعلان فرماتے کہ میں نے آنحضرت ﷺ کے فیضان سے باہر ہو کر براہ راست نبوت کا انعام پایا ہے تو اس میں آنحضرت ﷺ اور اسلام کی کسر شان سمجھی جا سکتی تھی مگر جبکہ یہ دعویٰ ہی نہیں بلکہ دعویٰ صرف اس قدر ہے کہ مجھے خدا نے اسلا کی خدمت کے لئے اور آنحضرت ﷺ کے فیضان کی برکت سے اور آپ کی اتباع اور غلامی میں نبوت کا منصب عطا کیا ہے تو ہر دانا شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ عقیدہ اسلام اور آنحضرت ﷺ کی شان کو بڑھانے والا ہے نہ کہ کم کرنے والا۔
باقی رہا یہ اعتراض کہ قرآن و حدیث نے آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ کلی طور پر بند کیا ہے اس لئے خواہ اس میں اسلام کی عزت ہو یا ہتک ہم بہر حال اس عقیدہ کے پابند ہیں تو اس کا یہ جواب ہے کہ یہ ہرگز درست نہیں کہ قرآن و حدیث نبوت کے دروازہ کو من کل الوجوہ بند کرتے ہیں بلکہ غور کیا جاوے تو جو دلیلیں نبوت کے بند ہونے کی قرآن و حدیث سے دی جاتی ہیں وہی اسے کھلا ثابت کرتی ہیں۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ قرآن شریف میں آنحضرت ﷺ کو ’’ خاتم النبیین ‘‘ قرار دیا گیا ہے اور خاتم النبیین کے معنے آخری نبی کے ہیں اس لئے ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ لیکن غور کیا جاوے تو اسی دلیل سے نبوت کا دروازہ کھلا ثابت ہوتا ہے وہ اس طرح کہ عربی لغت اور محاورہ کی رو سے ’’ خاتم النبیین ‘‘ کے معنی آخری نبی کے ہرگز نہیں بلکہ نبیوں کی مہر کے ہیں کیونکہ ’’ خاتم ‘‘ کا لفظ جو ’’ت‘‘ کی فتح سے ہے اس کے معنے عربی میں ایسی مہر کے ہوتے ہیں جو تصدیق وغیرہ کی غرض سے کسی دستاویز پر لگائی جاتی ہے پس نبیوں کی مہر سے یہ مراد ہوا کہ آئندہ کوئی شخص جس کے ساتھ محمد رسول اللہ ﷺ کی تصدیقی مہر نہ ہو خدائی دربار سے کوئی روحانی انعام حاصل نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر یہ مہر اسے حاصل ہو جائے تو عام انعامات تو درکنار نبوت کا انعام بھی انسان کو مل سکتا ہے ۔ پس یہی آیت جسے غلط صورت دے کر نبوت کے دروازہ کو بند کرنے والا قرار دے لیا گیا ہے درحقیقت نبوت کے دروازہ کو کھول رہی ہے۔
اسی طرح حدیث میں جو یہ الفاظ آتے ہیں کہ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اب نبوت کا دروازہ کلی طور پر بند ہے حالانکہ اس سے صرف یہ مراد ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد شریعت والی نبوت کا دروازہ بند ہے کیونکہ وہی ایسی نبوت ہے جس کے متعلق ’’ بعد‘‘ کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے ورنہ ظلی نبوت اور تابع نبوت تو دراصل آنحضرت ﷺ کی نبوت ہی کا حصہ ہے اور اس کے اندر شامل ہے نہ کہ اس کے بعد۔ خوب غور کرو کہ بعد میں آنے والی چیز اسی کو کہا جاتا ہے کہ جو سابقہ چیز کے اٹھ جانے یا ختم ہو جانے کے بعد آئے لیکن جو چیز سابقہ سلسلہ کے اندر ہی پروئی ہوئی ہو اور اس کا حصہ بن کر آئے اس کے متعلق بعد کا لفظ نہیں بولا جا سکتا۔ پس اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا کہ ’’ میرے بعد‘‘ کوئی نبی نہیں ہو گا صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہاں ایسا نبی مراد ہے جو آپ کی شریعت کو منسوخ کر کے ایک نئے دور کا آغاز کرنے والا ہو۔ الغرض جن قرآنی آیات اور احادیث سے نبوت کے بند کرنے کی تائید میں سہارا ڈھونڈا جاتا ہے وہی نبوت کے دروازہ کو کھلا ثابت کرتی ہیں۔
مگر حضرت مسیح موعود نے صرف منفی قسم کے دلائل سے ہی اپنے دعویٰ کو قائم نہیں کیا بلکہ متعدد قرآنی آیات اور احادیث سے اس بات کو ثابت کیا کہ بے شک شریعت والی نبوت اور مستقل نبوت کا دروازہ تو ضرور بند ہے مگر ظلی اور غیر تشریعی نبوت کا دروازہ بند نہیں بلکہ یہ دروازہ قیامت تک کھلا ہے اور اس کے کھلا رہنے میں ہی اسلام کی زندگی اور آنحضرت ﷺ کی شان کا اظہار ہے۔ مثلاً حضرت مسیح موعود ؑ نے ثابت کیا کہ ایک طرف تو قرآن شریف مسلمانوں کو یہ دعا سکھاتا ہے کہ تم مجھ سے ان تمام روحانی انعامات کے حصول کے لئے دعا کیا کرو جو پہلی امتوں پر ہوتے رہے ہیں ۱؎ اور دوسری طرف قرآن شریف یہ بتاتا ہے کہ نبوت خداکے ان اعلیٰ ترین انعاموں میں سے ہے جو پہلے لوگوں کو ملتے رہے ہیں۔ ۲؎ پس ایک طرف ہر قسم کے انعاموں کے مانگنے کی دعا سکھانا اور دوسری طرف یہ بتانا کہ انعام سے نبوت وغیرہ کے انعامات مراد ہیں صاف ظاہر کرتا ہے کہ اسلام میں نبوت کا دروازہ کھلا ہے ورنہ نعوذ باللہ یہ ماننا پڑے گا کہ خدا نے ایک طرف تو سوال کرنا سکھایا اور دوسری طرف ساتھ ہی یہ اعلان کر دیا کہ اس سوال کو قبول نہیں کیاجائے گا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑ نے ثابت کیا کہ آنحضرت ﷺ کی متعدد احادیث میں آنے والے مسیح کو نبی کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ ۱؎ اور جب یہ ثابت ہے کہ آنے والا مسیح گزرے ہوئے مسیح سے جدا ہے تو لامحالہ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔ الغرض حضرت مسیح موعود ؑ نے نبوت کے مسئلہ کے متعلق اپنی کتب میں نہایت سیرکن بحث فرمائی ہے اور اس ذیل میں مندرجہ ذیل امور پر زبردست روشنی ڈالی ہے:۔
(۱) یہ کہ نبوت کے جو معنی موجودالوقت مسلمانوں میں سمجھے گئے ہیں یعنی یہ کہ نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ کوئی نئی شریعت لائے یا کم از کم یہ کہ کسی سابقہ نبی سے فیض یافتہ نہ ہو یہ درست نہیں بلکہ نبوت سے مراد ایسا مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ ہے جو کامل اور مصفٰی ہونے کے علاوہ کثرت کے ساتھ غیب کی خبروں پر مشتمل ہو پس ایک شخص نئی شریعت کے لانے کے بغیر سابقہ نبی کے فیض سے اور اس کی اتباع میں ہو کر نبوت کا انعام حاصل کر سکتا ہے مگر بہر حال یہ ضروری ہے کہ اسے خدا کی طرف سے نبی کا نام دیا جاوے۔
(۲) یہ کہ آنحضرت ﷺ کے خاتم النبیین ہونے سے یہ مراد نہیں کہ آپ آخری نبی ہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ آپ نبیوں کی مہر ہیں اور اب آپ کی تصدیقی مہر کے بغیر کسی نئے یاپرانے نبی کی نبوت تسلیم نہیں کی جا سکتی۔
(۳) یہ کہ آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اس سے یہ مراد ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میرے دورِ نبوت کو قطع کر کے ایک نئے دور کا آغاز کرنے والا ہو۔
(۴) یہ کہ امت محمدیہ کا مسیح موعود خداکا ایک برگزیدہ نبی ہے جسے خود آنحضرت ﷺ نے اپنی متعدد احادیث میں نبی کے نام سے یاد کیا ہے۔ مگر اس کی نبوت آنحضرت ﷺ کی نبوت کے تابع اور اسی کی ظل ہے نہ کہ آزاد اور مستقل نبوت۔
(۵) یہ کہ ایسی نبوت کا دروازہ کھلا ماننے میں آنحضرت ﷺ کی ہتک نہیں بلکہ اس میں آپ کی شان کی بلندی کا اظہار ہے کیونکہ اس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا مرتبہ اس قدر بلند اور ارفع ہے کہ آپ کے خادم نبوت کے مقام کو پہنچ سکتے ہیں اور یہ کہ آپ روحانی مملکت کے صرف بادشاہ ہی نہیں بلکہ شاہنشاہ اور بادشاہوں کے بادشاہ ہیں۔
(۶) اسی ذیل میں آپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ گو موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا یہ عام عقیدہ ہو رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کا دروزہ کلی طور پر بند ہے مگر صحابہ کا یہ عقیدہ نہیں تھا اور صحابہ کے بعد بھی کئی مسلمان اولیاء اور بزرگ ایسے گزرے ہیں جو غیر تشریعی نبوت کے دروازہ کو کھلا مانتے رہے ہیں مثلاً حضرت محی الدین ابن عربی۔ امام عبدالوہاب صاحب شعرانی۔ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب دہلوی۔ حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی مجدد الف ثانی۔ علامہ محدث ملا علی قاری۔ امام محمد طاہر صاحب گجراتی وغیرھم نبوت کے دروازہ کو کلی طور پر بند خیال نہیں کرتے تھے۔
(۷) آپ نے اپنے مخالفین کو ملزم کرنے کے لئے یہ بھی ثابت کیا کہ موجودالوقت مسلمانوں کا جو یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر زندہ موجود ہیں اور وہی آخری زمانہ میں دنیا میں نازل ہوں گے اس سے بھی آنحضرت ﷺ کے بعد ایک گو نہ نبوت کا دروازہ کھلا قرار پاتا ہے کیونکہ خواہ حضرت مسیح ناصری نے نبوت کا انعام آنحضرت ﷺ سے پہلے پایا تھا مگر جب ان کی دوسری آمد آنحضرت ﷺ کے بعد ہو گی تو بہر حال اس طرح آنحضرت ﷺ کے بعد ایک نبی کا وجود مان لیا گیا مگر آپ نے بتایا کہ جہاں آنحضرت ﷺ کی امت میں سے کسی فرد کا نبوت کے انعام کو پانا آپ کے لئے باعث عزت ہے وہاں ایک سابقہ نبی کا آپ کے بعد آپ کی امت کی اصلاح کے لئے دوبارہ مبعوث ہو کر آنا یقینا آپ کے لئے باعث عزت نہیں بلکہ ہتک اور غیرت کا باعث ہے۔
(۸) آپ نے عقلی طور پربھی ثابت کیا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کے سلسلہ کا بند ہو جانا یہ معنے رکھتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت خدا کے انعاموں کو وسیع کرنے والی نہیں بلکہ تنگ کرنے والی ثابت ہوئی ہے حالانکہ آنحضرت ﷺ کا وہ مقام ہے کہ اس کے بعد خدائی انعاموں کا دروازہ زیادہ سے زیادہ وسیع ہو کر کھل جانا چاہئے۔
الغرض حضرت مسیح موعود ؑ نے اس اہم مسئلہ کے مختلف پہلوئوں پر نہایت سیرکن بحث کرکے ثابت کیا کہ گو قرآن شریف آخری شریعت ہے جس کے بعد قیامت تک کوئی اور شریعت نہیں اور آنحضرت ﷺ خاتم النبیین ہیں جن کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو آپ کی غلامی کے جوے سے آزاد ہو کر آئے مگر مطلق نبوت کا دروازہ بند نہیں بلکہ کھلا ہے اور اس کے کھلا رہنے میں ہی اسلام کی عزت اور آنحضرت ﷺ کی شان کی بلندی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :۔
’’ یاد رکھنا چاہئے کہ مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتے یہ ہم پر افتراء عظیم ہے۔ ہم جس قوتِ یقین ، معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت ﷺ کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصہ بھی دوسرے لوگ نہیں مانتے ان کا ایسا ظرف ہی نہیں ہے وہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیاء کی ختم نبوت میں ہے سمجھتے ہی نہیں ہیں انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سنا ہوا ہے مگر اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں اور نہیںجانتے کہ ختم نبوت کیا ہوتا ہے اور اس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ہے؟ مگر ہم بصیرت تام سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے) آنحضرت ﷺ کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیںاور خدا تعالیٰ نے ہم پر ختم نبوت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیاہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا بجز ان لوگوں کے جو اس چشمہ سے سیراب ہوں۔ دنیا کی مثالوں میںسے ہم ختم نبوت کی مثال اس طرح پر دے سکتے ہیں کہ جیسے چاند ہلال سے شروع ہوتا ہے اور چودھویں تاریخ پر آکر اس کا کمال ہو جاتا ہے جبکہ اسے بدر کہا جاتا ہے۔ اسی طرح پر آنحضرت ﷺ پر آکر کمالاتِ نبوت ختم ہو گئے۔ ‘‘ ۱؎
پھر فرماتے ہیں :۔
’’ بجز اس کے کوئی نبی صاحبِ خاتم نہیں۔ ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے امتی ہونا لازمی ہے …… سو خدا نے ان معنوں سے آپ کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا۔ ‘‘ ۲؎
پھر فرماتے ہیں :۔
’’ خاتم النبیین کے معنے یہ ہیں کہ آپ کی مہر کے بغیر کسی کی نبوت تصدیق نہیں ہو سکتی جب مہر لگ جاتی ہے تو کاغذ سند ہو جاتا ہے اور مصدقہ سمجھا جاتا ہے ۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ کی مہر او رتصدیق جس نبوت پر نہ ہو وہ سند نہیں۔ ‘‘ ۳؎
پھر فرماتے ہیں :۔
’’ اگر میں آنحضرت ﷺ کی امت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ و مخاطبہ ہرگز نہ پاتا کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو۔‘‘ ۱؎
پھر فرماتے ہیں :۔
’’ یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر خدا تعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ و مخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطا نہیں کی گئی۔ اگر کوئی منکر ہو تو بارِ ثبوت اس کی گردن پر ہے۔ غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔ ۲؎
اس بحث کے ختم کرنے سے پہلے یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ گو حضرت مسیح موعود ؑ کے الہامات میں شروع سے ہی آپ کے متعلق مرسل اور رسول اور نبی وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوتے آئے ہیں مگر چونکہ عام مسلمانوں کا یہ عقیدہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا اور آپ پر بھی اس بارے میں ابھی تک خدا کی طرف سے پوری وضاحت نہیں ہوئی تھی اس لئے اوائل میں آپ مسلمانوں کے معروف عقیدہ کا احترام کرتے ہوئے ان الفاظ کی تاویل فرما دیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ الفاظ محض جزوی مشابہت کے اظہار کے لئے استعمال کئے گئے ہیں مگر جب خدا کی طرف سے آپ پر حق کھل گیا اور آپ کو صریح اور واضح طور پر نبی کا خطاب دیا گیا تو آپ نے کھلے طور پر اس کا اعلان فرمایا۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں :۔
’’ اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا۔ مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی۔‘‘ ۱؎
اور اپنے ابتدائی انکار کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
’’ جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانیوالا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوںمگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوںمگر بغیر کسی جدید شریعت کے ۔‘‘ ۲؎
تمام انبیاء کے مثیل ہونے کا دعویٰ :۔ ایک دعویٰ حضرت مسیح موعود ؑ کا یہ تھا کہ چونکہ یہ دنیا کے موجودہ دور کا آخری زمانہ ہے اور میرے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ہر امت کی اصلاح کا کام لینا ہے اس لئے خدا نے مجھے صرف مثیل مسیح یا مثیل محمد ﷺ ہی بنا کر نہیں بھیجا بلکہ تمام گزشتہ انبیاء کی صفات میرے اندر جمع کر دی ہیں اور مجھے مثیل انبیاء قرار دیا ہے چنانچہ اس بارے میں آپ کو ایک نہایت لطیف الہام بھی ہوا تھا جو یہ ہے کہ :۔
جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَآئِ ۳؎
’’ یعنی ہمارا یہ مرسل تمام گزشتہ نبیوں کے لباس میں اور ان کی صفات سے متصف ہو کر آیا ہے۔ ‘‘
اس الہام کی تشریح میں حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:۔
’’ آخری زمانہ کے لئے خدا نے مقرر کیا ہوا تھا کہ وہ ایک عام رجعت کا زمانہ ہو گا تا یہ امت مرحومہ دوسری امتوں سے کسی بات میں کم نہ ہو۔ پس اس نے مجھے پیدا کر کے ہر اک گذشتہ نبی سے مجھے اس نے تشبیہہ دی …… گویا تمام انبیاء گذشتہ اس امت میں دوبارہ پیدا ہو گئے ۔ ‘‘ ۱؎
پھر فرماتے ہیں :۔
’’ خدا تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے ہیں۔ میں آدم ہوں۔ میں شیث ہوں ۔ میں نوح ہوں۔ میں ابراہیم ہوں۔ میں اسحاق ہوں۔ میں اسماعیل ہوں۔ میں یعقوب ہوں۔ میں یوسف ہوں۔ میں موسیٰ ہوں۔ میں دائود ہوں۔ میں عیسیٰ ہوں۔ اور آنحضرت ﷺ کے نام کا میں مظہر اتم ہوں یعنی ظلی طور پر محمد اور احمد ہوں۔ ‘‘ ۲؎
پھر فرماتے ہیں :۔
’’ میں ان گناہوں کے دور کرنے کے لئے جن سے زمین پُر ہو گئی ہے جیسا کہ مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہوں ایسا ہی راجہ کرشن کے رنگ میں بھی ہوں جو ہندو مذہب کے تمام اوتاروں میں سے ایک بڑا اوتار تھا۔ یا یوں کہنا چاہئے کہ روحانی حقیقت کے رو سے میں وہی ہوں یہ میرے خیال اور قیاس سے نہیں بلکہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا خدا ہے اس نے یہ میرے پر ظاہر کیا ہے اور نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ مجھے بتلایا ہے کہ تو ہندوئوں کے لئے کرشن اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود ہے۔ ‘‘ ۳؎
حضرت مسیح موعود ؑ کا مقام :۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے دعاوی کے ذیل میں آپ کے مرتبہ
اور مقام کا سوال بھی آتا ہے سو اس کے متعلق بھی اس جگہ ایک مختصر نوٹ بے موقعہ نہ ہو گا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کا یہ دعویٰ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے آنحضرت ﷺ کی پیروی میں ساری دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا ہے اس لئے مجھے وہ روحانی طاقتیں عطا کی ہیں اور وہ مقام بخشا ہے جو اس کام کے لئے ضروری ہے ۔فرماتے ہیں :۔
’’ چونکہ میں ایک ایسے نبی کا تابع ہوں جو انسانیت کے تمام کمالات کا جامع تھا اور اس کی شریعت اکمل اور اتم تھی اور تمام دنیا کی اصلاح کے لئے تھی اس لئے مجھے وہ قوتیں عنایت کی گئیں جو تمام دنیا کی اصلاح کے لئے ضروری تھیں۔ تو پھر اس میں کیا شک ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو وہ فطرتی طاقتیں نہیں دی گئیں جو مجھے دی گئیں کیونکہ وہ ایک خاص قوم کے لئے آئے تھے اور اگر وہ میری جگہ ہوتے تو اپنی اس فطرت کی وجہ سے وہ کام انجام نہ دے سکتے جو خدا کی عنایت نے مجھے انجام دینے کی قوت دی ہے۔ وَھٰذَا تَحْدِیْث نِعْمَۃِ اللّٰہِ وَلَا فَخْرَـ‘‘ ۱؎
پھر فرماتے ہیں :۔
’’ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہرگز نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں وہ ہرگز دکھلا نہ سکتا اور خدا کا فضل اپنے سے زیادہ مجھ پر پاتا۔ ‘‘ ۲؎
اور اپنے اوپر ایمان لانے کی ضروری قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
’’ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر اک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے اور خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے۔ ‘‘ ۱؎
پھر فرماتے ہیں :۔
’’ خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ جو مسلمانوں میں سے مجھ سے علیحدہ رہے گا وہ کاٹا جائے گا۔ بادشاہ ہو یا غیر بادشاہ ۔ ‘‘ ۲؎
پھر فرماتے ہیں :۔
’’ خدا نے میری وحی اور میری تعلیم اور میری بیعت کو نوح کی کشتی قرار دیا اور تمام انسانوں کے لئے اسے مدارِ نجات ٹھہرایا جس کی آنکھیں ہوں دیکھے اور جس کے کان ہوںسنے۔ ‘‘ ۳؎
پھر فرماتے ہیں :۔
’’ مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا۔ میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور مَیں اس کے سب نوروںمیں سے آخری نور ہوں۔ بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔ ‘‘ ۴؎
اپنے روحانی مقام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
’’ میں اپنے رب سے اس مقام پر نازل ہوا ہوں جس کو انسانوں میں سے کوئی نہیں جانتا اور میرا بھید اکثر اہل اللہ سے بھی پوشیدہ اور دور تر ہے قطع نظر اس کے کہ عام لوگوں کو اس سے کچھ اطلاع ہو سکے…… پس مجھے کسی دوسرے کے ساتھ قیاس مت کرو اور نہ کسی دوسرے کو میرے ساتھ۔ ‘‘ ۵؎
پھر فرماتے ہیں :۔
’’ جیسا کہ ہمارے سردار محمد مصطفی ﷺ نبوت کے مقام پر فائز تھے اور خاتم الانبیاء تھے اسی طرح میں دلایت میں ختم کے مقام پر فائز ہوں اور خاتم الاولیاء ہوں۔ میرے بعد کوئی ولی نہیں آسکتا مگر وہی جو مجھ میں سے ہو اور میرے عہد پر قائم ہو …… میرا قدم ایک ایسے مینار پر ہے جس پر تمام بلندیاں ختم ہیں۔ ‘‘ ۱؎
پھر فرماتے ہیں :۔
’’ خدا نے مجھ پر اپنے برگزیدہ رسول کا فیض نازل فرمایا اور اس فیض کو کامل ومکمل کیا اور اس نبی کے لطف و کرم کو میری طرف کھینچا حتیّٰ کہ (کامل اتحاد کی و جہ سے) میرا وجود اس کا وجود ہو گیا۔ پس جو شخص کہ میری جماعت میں داخل ہوا وہ دراصل سیدالمرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا …… اور جو مجھ میں اور محمد مصطفی ﷺ میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا اور نہیں پہچانا۔ ‘‘ ۲؎
حضرت مسیح موعود ؑ کے مخصوص دعاوی اور آپ کے روحانی مقام کو بیان کرنے کے بعد ہم ان عام عقائد کا ذکر کرتے ہیں جن میں حضرت مسیح موعود ؑ نے یا تورائج الوقت غلط عقائد کی اصلاح فرمائی ہے اور یا قرآن شریف سے استنباط کر کے ایسے نئے خیالات دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں جو اس سے پہلے اس رنگ میں دنیا کے سامنے نہیں آئے تھے۔
خدا کی کوئی صفت معطل نہیں ہے :۔ پہلا عقیدہ جو حضرت مسیح موعود ؑ نے بیان کیا وہ یہ
تھا کہ خدا کی تمام صفات اس کی ذات کے ساتھ ابدی اور ازلی ہیں اور کوئی صفت بھی ایسی نہیں جو پہلے تو کسی زمانہ میں کام کرتی ہو اور اب معطل ہو چکی ہو بلکہ ہر صفت اسی طرح قائم اور حیّز عمل میں ہے جس طرح کہ پہلے تھی۔ اس عقیدہ کے بیان کرنے اور اس پر زور دینے کی اس لئے ضرورت پیش آئی کہ دوسری قومیں تو خیر الگ رہیں خود مسلمانوں کا ایک کثیر حصہ اس غلط خیال میں مبتلا ہو گیا تھا کہ خدا کی بعض صفات ایسی ہیں کہ وہ بے شک پہلے زمانوں میں توزندہ اور چوکس تھیں مگر اب وہ معلق اور معطل ہو چکی ہیں اور آئندہ ان صفات کا ظہور بند ہے۔ مثلاً موجودہ زمانہ میں اکثر مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہو رہا تھا کہ خدا بے شک پہلے زمانوں میں بولتا تھا اور اپنے خاص لوگوں کے ساتھ کلام کرتا تھا مگر اب وہ کلام نہیں کرتا اور اس کی اس صفت کا ظہور بند ہو چکا ہے اسی طرح مسلمانوں کے ایک حصہ کا یہ عقیدہ بھی ہو چکا تھا کہ موجودہ زمانے میں خدا سنتا بھی نہیںاور یہ جو اسلام میں دعا پر زور دیا گیا ہے یہ صرف ایک عبادت اور اظہار عقیدت کا ذریعہ ہے۔ ورنہ یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ دعا کو سنے اور اس پر کوئی نتیجہ مرتب کرے وغیرہ وغیرہ۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے اس قسم کے جملہ باطل خیالات کو سختی کے ساتھ رد کیا اور بڑے زور کے ساتھ فرمایا کہ خدا کی کوئی صفت بھی معطل نہیں بلکہ موجودہ زمانہ میں بھی اس کی ہر صفت اسی طرح ہوشیار اورحیّز عمل میں ہے جس طرح کہ وہ پہلے زمانوں میں تھی اور آپ نے صراحت کے ساتھ لکھا کہ خدا کی کسی صفت کو معطل قرار دینا اس کی قدوسیت اور ازلیت پر ایک خطرناک حملہ ہے کہ گویا خدا کا ایک حصہ مردہ کی طرح ہو گیا ہے۔ چنانچہ جن جن صفات کو لوگ اپنی نادانی سے معطل قرار دے رہے تھے آپ نے انہیں بڑے زبردست دلائل کے ساتھ زندہ اور چوکس ثابت کیا اور بتایا کہ اس قسم کے گندے خیالات محض اس وجہ سے پیدا ہوئے ہیں کہ لوگ خودگندوں میں مبتلا ہو جانے کی وجہ سے ان خدائی صفات کا مورد نہیں رہے۔
جیساکہ اوپر بتایا گیا ہے جن صفات الٰہی کو عملاً معطل قرار دیا جا رہا تھا ان میں ایک صفت قبولیت دعا کی تھی یعنی مسلمانوں کا ایک فریق مغربی ممالک کی دہریت سے متاثر ہو کر اور خود اپنی روحانیت کو کھو کر اس بات کا قائل ہو رہا تھا کہ دعا محض ایک عبادت ہے اور یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ دعا کو سن کر کوئی نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ ہندوستان میں اس گروہ کے لیڈر سر سید احمد خان صاحب مرحوم بانئے علی گڑھ کالج تھے۔ سید صاحب مسلمانوں کے ہمدرد اور خیر خواہ تھے اور اسلام کا درد بھی رکھتے تھے مگر روحانیت کے فقدان کی وجہ سے اور مغرب کے اعتراضوں سے گھبرا کر اس خیال کے قائل ہو گئے تھے کہ دعا صرف ایک عبادت ہے ورنہ یہ نہیں کہ انسان کی دعا قبولیت کی صورت میں کوئی نتیجہ پیدا کرتی ہو۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس گندے عقیدے کے خلاف ایک رسالہ لکھ کر شائع فرمایا جس میں لکھا کہ سیدصاحب کا یہ عقیدہ ایسا عقیدہ ہے جس نے خالق و مخلوق کے باہمی تعلق کو بالکل کمزور کر دیا ہے۔ آپ نے قرآنی آیات اور احادیث نبوی سے استدلال پکڑنے کے علاوہ اپنی مثال دے کر یہ دعویٰ پیش کیا کہ اگر کسی شخص کو قبولیت دعا کے مسئلہ میں شک ہو تو وہ میرے سامنے آکر جس طرح چاہے تسلی کر لے۔ چنانچہ آپ نے سر سید مرحوم کو مخاطب کر کے لکھا:۔
اے کہ گوئی گر دعا ہارا اثر بودے کجا ست
سوئے من بشتاب بنمائم ترا چوں آفتاب
ہاں مکن انکار زیں اسرار قدر تہائے حق
قصہ کو تہ کن ببیں از مادعائے مستجاب ۱؎
یعنی اے وہ جو یہ دعویٰ کر رہے ہو کہ اگر دعا میں کوئی اثر ہوتا ہے تو وہ کہاں ہے تم جلدی سے میری طرف آجائو کہ میں تمہیں سورج کی طرح دعا کا اثر دکھائوں گا۔
ہاں ہاں خدا کی قدرتوں کے اسرار سے انکار نہ کرو اور اگر دلیل چاہتے ہو تو کسی لمبی بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے آئو اور میری قبول شدہ دعا کا نتیجہ دیکھ لو۔ ‘‘
ان اشعار میں حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی جس قبول شدہ دعا کی طرف اشارہ کیاتھا وہ پنڈت لیکھرام والی پیشگوئی سے تعلق رکھتی تھی جس میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ کی دعا کے نتیجہ میں آپ کو الہاماً بتایا تھا کہ پنڈت صاحب اپنی شوخی اور گستاخی کی وجہ سے چھ سال کے اندر اندر عید کے دوسرے دن عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ واقعی دعا جیسے مسئلہ میں اصل ثبوت یہی ہے کہ عملاً دعا کا نتیجہ دکھا دیا جاوے۔ اگر دعا کا نتیجہ عملاً دکھا دیا جاوے تو یہ ایک ایسی قطعی شہادت ہو گی جس کے بعد کوئی عقلمند شخص انکار نہیں کر سکتا اور حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی سینکڑوں قبول شدہ دعائیں دکھا کر ثابت کر دیا کہ قبولیت دعا کا مسئلہ بالکل سچا اور یقینی ہے۔
الہام کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے:۔ اسی طرح الہام اور کلام الٰہی کے متعلق آپ نے
لکھا کہ اس دروازہ کو بند کرنے کا عقیدہ ایسا خطرناک اور مہلک ہے کہ اس سے خدا کے متعلق یقین اور عرفان پیدا کرنے اور اس کے نشانات کو دیکھنے کا رستہ بالکل مسدود ہو جاتا ہے اور انسان اپنے خالق و مالک کے متعلق گویا بالکل تاریکی میں رہ جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ چونکہ لطیف اور غیر محدود ہے اس لئے وہ نظر نہیں آسکتا اب اگر اس کے کلام کا بھی دروازہ بند کر دیا جاوے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ بندے اور خداکے درمیان تمام علائق منقطع ہوجائیں اور کوئی جوڑنے والی کڑی درمیان میں باقی نہ رہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں:۔
بن دیکھے کس طرح کسی مہ رخ پہ آئے دل
کیونکر کوئی خیالی صنم سے لگائے دل
دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی
حسن و جمال یار کے آثار ہی سہی
آپ نے بار بار فرمایا کہ کلام الٰہی تو ایک ایسی چیز ہے کہ جو مذہب اس کا دروازہ بند کرتا ہے وہ یقینا زندہ مذہب کہلانے کا حقدار نہیں بلکہ وہ ایک مردہ مذہب ہے جس میں زندگی کی کوئی بھی روح نہیں کیونکہ ایسا مذہب بندے اور خدا کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل کر دیتا ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے بندہ خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور خدا کا وجود محض ایک خشک فلسفیانہ خیال رہ جاتا ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :۔
ہے غضب کہتے ہیں اب وحیِ خدا مفقود ہے
اب قیامت تک ہے اس امت کا قصوں پر مدار
گوہر وحیِ خدا کیوں توڑتا ہے ہوش کر
اک یہی دیں کے لئے ہے جائے عزّو افتخار
یہ وہ گل ہے جس کا ثانی باغ میں کوئی نہیں
یہ وہ خوشبو ہے کہ قرباں اس پہ ہو مُشکِ تتار
ہے خدا دانی کا آلہ بھی یہی اسلام میں
محض قصوں سے نہ ہو کوئی بشر طوفاں سے پار
اور دوسری جگہ فرماتے ہیں :۔
’’ جبکہ خدا تعالیٰ کا جسمانی قانون قدرت ہمارے لئے اب بھی وہی موجود ہے جو پہلے تھا تو پھر روحانی قانون قدرت اس زمانہ میں کیوں بدل گیا؟ نہیں ہرگز نہیںبدلا۔ پس وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ وحی الٰہی پر آئندہ کے لئے مہر لگ گئی ہے وہ سخت غلطی پر ہیں۔ ‘‘ ۱؎
الہام الٰہی کے متعلق حضرت مسیح موعود نے ایک اور تشریح بھی فرمائی اور وہ یہ کہ یہ ضروری نہیں کہ صرف نیک اور پاک لوگوں کو ہی الہام ہو بلکہ بعض اوقات ادنیٰ درجہ کے لوگوں کو بھی الہام ہوجاتا ہے کیونکہ اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ عام لوگوں میں ایک شہادت پیدا کرنا چاہتا ہے کہ وہ الہام کے کوچہ سے بالکل بے خبر اور ناآشنا نہ رہیں مگر یہ الہام شاذ ہوتا ہے اور درجہ میں بھی ادنیٰ ہوتا ہے لیکن جو الہام انبیاء کو یا خاص اولیاء کو ہوتا ہے اس میں کثرت کے علاوہ یہ خصوصیت بھی پائی جاتی ہے کہ وہ زیادہ مصفا اور زیادہ شاندار ہوتا ہے اور اس میں خدا کے علم اور اس کی قدرت اور اس کی محبت کی خاص جھلک نظر آتی ہے اور بسا اوقات وہ دوستانہ کلام کا رنگ رکھتا ہے مگر اس کے مقابل پر عام لوگوں کا الہام ایسا ہوتا ہے جیسے کہ ایک بادشاہ بعض اوقات گھر کے ایک ادنیٰ نوکر یا چوہڑے سے بات کر لیتا ہے اور کثرت اور قلت کے لحاظ سے ان دونوں میں ایسا فرق ہوتا ہے کہ جیسے ایک امیر کبیر آدمی کے مقابلہ پر جس کے پاس لاکھوں روپیہ ہو ایک غریب مفلس شخص کی حیثیت ہوتی ہے جس کے پاس صرف چند پیسے ہوں پس دونوں میں اشتراک تو ہے مگر اس اشتراک کی وجہ سے دونوں کی بالمقابل حیثیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ایمان باللہ کی حقیقت :۔ دوسرا عقیدہ جو آپ نے پیش کیا وہ ایمان باللہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے
آپ نے بیان فرمایا کہ موجودہ زمانے میں اکثر لوگ ایمان باللہ کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور محض ایک رسمی اور سنے سنائے ایمان یا ورثہ کے ایمان کو حقیقی ایمان سمجھنے لگ جاتے ہیں حالانکہ ایسا ایمان کوئی چیز نہیں بلکہ حقیقی ایمان جو زندہ ایمان کہلانے کا حقدار ہے وہ یہ ہے کہ انسان خدا کی ہستی کے متعلق کم از کم ایسا ہی یقین رکھے جیسا کہ وہ اس دنیا کی چیزوں کے متعلق رکھتا ہے۔ مثلاً ایک انسان اپنے باپ کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ میرا باپ ہے اپنے مکان پر نظر ڈالتا ہے اور یقین کرتا ہے کہ یہ میرا مکان ہے۔ سورج پر نگاہ کرتا ہے اور ایمان لاتا ہے کہ یہ سورج ہے اور ان چیزوں کے متعلق اسے ایک حقیقی بصیرت اور یقین کی صورت حاصل ہوتی ہے جس میں کسی شک یا شبہ کی گنجائش نہیں ہوتی اسی طرح خدا کے متعلق ایمان ہونا چاہئے مگر آپ نے لکھا کہ دنیا میں اکثر لوگوں کو یہ ایمان حاصل نہیں اور نہ صرف یہ ایمان حاصل نہیں بلکہ وہ اس ایمان سے آگاہ بھی نہیں اور محض ورثہ کے ایمان یا سنے سنائے ایمان کو ہی حقیقی ایمان سمجھ رہے ہیں یعنی چونکہ ان کے اردگرد لوگ یہ بات کہتے رہتے ہیں کہ خدا ہے اس لئے وہ بھی کہتے ہیں کہ خدا ہے یا چونکہ ان کے ماں باپ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ کوئی خدا ہے اس لئے وہ بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا ہے مگر ان کو خدا کے متعلق کوئی ذاتی بصیرت یا یقین حاصل نہیں ہے حالانکہ حقیقی اور زندہ ایمان وہی ہے جس میں انسان کو بصیرت اور یقین حاصل ہو اور اس کا دل خدا کی ہستی کے متعلق تسلی اور تشفی پا جائے اور آپ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اسی لئے مبعوث کیا ہے کہ میں لوگوں کو اس قسم کا ایمان عطا کروں اور خدا کی ذات کو ایک خیالی فلسفہ کی وادی سے نکال کر حقیقت کی چٹان پرقائم کر دوں۔
آپ نے بار بار تشریح فرمائی ہے کہ خدا کا وجود ایسا نہیں ہے کہ خدا نے دنیا کو پیدا کیا اور پھر اس کی حکومت سے معزول ہو کر اور سارے تعلقات قطع کر کے الگ ہو کر بیٹھ گیا بلکہ وہ ایک تعلق رکھنے والا دنیا کے کاموں میں دلچسپی لینے والا اپنی مخلوق کی نیکی بدی کو دیکھنے والا خدا ہے جو اپنے نیک بندوں کا دوست اور محافظ ہوتا ہے اور ان کو دشمنوں کے شر سے بچاتا اور ان کے لئے ترقی کے رستے کھولتا ہے اور مشکلات میںان کے کام آتا ہے اور برے اور شریر لوگوں کو وہ کبھی کبھی اس دنیا میں ہی اصلاح کے خیال سے پکڑتا اور سزا دیتا ہے ۔ پس جب دنیا کا خدا ایسا خدا ہے تو اس کے متعلق ایک محض فلسفیانہ ایمان کوئی حقیقت نہیں رکھتا جب تک کہ اس کے متعلق دلی یقین اور بصیرت کے ساتھ ایمان لا کر اس کے ساتھ تعلق نہ پیدا کیا جاوے۔ حضرت مسیح موعود ؑ رماتے ہیں :۔
ناز مت کر اپنے ایماں پر کہ یہ ایماں نہیں
اس کو ہیرا مت گماں کر ہے یہ سنگِ کوہسار
پیٹنا ہو گا دو ہاتھوں سے کہ ہے ہے مر گئے
جبکہ ایماں کے تمہارے گندہوں گے آشکار
توحید کی حقیقت اور مخفی شرک کی تشریح :۔ تیسرا عقیدہ آپ نے یہ پیش کیا کہ دنیا کو بتایا کہ
حقیقی توحید صرف یہ نہیں کہ صرف منہ سے خدا کے ایک ہونے کا اقرار کیا جائے اور شرک صرف اس بات میں محدود نہیں کہ کس بت یا انسان یا سورج یا پہاڑ یا دریا کو خدا مان کر اس کے سامنے سجدہ کیا جائے۔ بلکہ یہ چیزیں صرف موٹے طور پر توحید اور شرک کو بیان کرتی ہیں اور توحید اور شرک کی حقیقی تشریح ان سے بہت زیادہ وسیع اور بہت زیادہ گہری ہے۔ چنانچہ آپ نے بتایا کہ اصل توحید یہ ہے کہ انسان نہ صرف منہ سے خدا کے ایک ہونے کا قائل ہو بلکہ اس کی کامل محبت اور کامل خوف اور کامل بھروسہ صرف خدا کی ذات کیساتھ وابستہ ہے اور یہ کہ شرک صرف یہ نہیں کہ کسی بت وغیرہ کی پرستش کی جائے بلکہ حقیقی شرک میں یہ بات بھی داخل ہے کہ انسان کسی چیز کی ایسی عزت کرے جو خدا کی کرنی چاہئے اور کسی چیز کے ساتھ ایسی محبت کرے جو خدا سے کرنی چاہئے اور کسی چیز سے ایسا خوف کھائے جو خدا سے کھانا چاہئے اور کسی چیز پر ایسا بھروسہ کرے جو خدا پر کرنا چاہئے۔ آپ فرماتے ہیں:۔
ہر چہ غیرِ خدا بخاطرِ تست
آں بُتِ تُست اے بایماں سست
پر حذر باش زیں بتان نہاں

دامن دل زدست شاں برہاں
’’ یعنی ہر وہ چیزکہ جو خدا کے مقابل پر تیرے دل میں جگہ پائے ہوئے ہے وہ تیرے دل کا ایک مخفی بت ہے مگر اے کمزور ایمان والے شخص تو اسے سمجھتا نہیں۔ تجھے چاہئے کہ اپنے ان مخفی بتوں کی طرف سے ہوشیار رہے اور اپنے دل کے دامن کو ان کی گرفت سے بچا کر رکھے ۔ ‘‘
آپ نے بار بار اور کثرت کے ساتھ بیان کیا کہ مثلاً اگر کوئی شخص بیمار ہو کر اپنے ظاہری علاج معالجہ پر اتنا بھروسہ کرے کہ گویا خدا کو بھلا ہی دے اور ساری طاقت اور ساری شفا دوائی میں ہی سمجھنے لگ جائے تو وہ بھی ایک قسم کے مخفی شرک کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ وہ دوائی کو وہ درجہ دیتا ہے جو خداکو دینا چاہئے آپ نے لکھا کہ اسلام اسباب کے اختیار کرنے سے نہیں روکتا بلکہ علم دیتا ہے کہ کسی مقصد کے حصول کے لئے جو اسباب خدا کی طرف سے مقرر ہیں انہیںاستعمال کرو کیونکہ وہ بھی خدا کے پیدا کردہ ذرائع ہیں مگر اسلام ان اسباب پر تکیہ کرنے سے اور انہیں کامیابی کا آخری ذریعہ قرار دینے سے منع کرتا ہے بلکہ ہدایت دیتا ہے کہ اصل بھروسہ صرف خدا پر رکھو جس نے یہ سارے اسباب پیدا کئے ہیں اور جو اس دنیا کی آخری علت العلل ہے۔ چنانچہ آپ اپنی جماعت کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں :۔
’’ خدا ایک پیارا خزانہ ہے اس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر اک قدم میں تمہارا مددگار ہے تم بغیر اس کے کچھ بھی نہیںاور نہ تمہارے اسباب اور تدبیریں کچھ چیز ہیں۔ غیر قوموں کی تقلید نہ کرو کہ جو بکلی اسباب پر گر گئی ہیں اور جیسے سانپ مٹی کھاتا ہے انہوں نے سفلی اسباب کی مٹی کھائی …… میں تمہیں حدِ اعتدال تک رعایت اسباب سے منع نہیں کرتا بلکہ اس سے منع کرتا ہوں کہ تم غیر قوموں کی طرح نرے اسباب کے بندے ہو جائو اور اس خدا کو فراموش کر دو جو اسباب کو بھی وہی مہیا کرتا ہے ……… خدا تمہاری آنکھیں کھولے تا تمہیں معلوم ہو کہ تمہارا خدا تمہاری تمام تدابیر کا شہتیر ہے۔ اگر شہتیر گر جائے تو کیا کڑیاں اپنی چھت پر قائم رہ سکتی ہیں۔ ‘‘ ۱؎
ملا ئکۃ اللّٰہکی حقیقت :۔ چوتھا عقیدہ جو آپ نے دنیا کے سامنے پیش کیا وہ ملائکۃ اللہ کی
تشریح کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ فرشتوں کے وجود کو قریباً ہر مذہب و ملت نے مانا ہے اس لئے ہمیں اس جگہ ان کی ہستی کی بحث میں جانے کی ضرورت نہیں۔ صرف اس قدر بتانا کافی ہے کہ فرشتوں کے متعلق یہ ایک عام عقیدہ ہو رہا تھا کہ فرشتے کوئی خاص قسم کی عجیب و غریب مخلوق ہے جو خدا اور انسان کے درمیان واسطہ کا کام دیتی ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑنے اس بارے میں تشریح فرمائی کہ بے شک فرشتے خدا کی ایک مخفی مخلوق ہے مگر ان کے متعلق وہ عجیب و غریب خیالات جو ان کی شکل و صورت وغیرہ کے متعلق رائج ہیں مثلاً یہ کہ وہ ایک پروں کے ساتھ اڑنے والی مخلوق ہے اور ان کے یہ یہ رنگ اور اتنے اتنے پر ہیں وغیر ذالک یہ درست نہیں ہیں بلکہ اس قسم کے الفاظ بطور استعارہ بیان ہوئے ہیں اور فرشتوں کی اصل شکل و صورت کا علم صرف خدا کو ہے البتہ قرآن شریف و حدیث سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ فرشتے خدا کی ایک مخفی مخلوق ہے جو نظام عالم کو چلانے کے لئے بطور اسباب کے ہیں یعنی جس طرح دنیا کے ظاہری نظام کو چلانے کے لئے خدا نے ظاہری اسباب مقرر کر رکھے ہیں مثلاً سورج اور چاند اور ستارے اور ہوا اور پانی اور زمین وغیرہ اور ان چیزوں کے خواص اور ان کی طاقتیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بعض مخفی اسباب بھی مقرر کئے ہیں جو فرشتوں کے نام سے موسوم ہیں اور ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اس نظام عالم کو چلا رہا ہے۔
اسی طرح آپ نے یہ تشریح فرمائی کہ یہ جو فرشتوں کے نازل ہونے کا عقیدہ عام طور پر مسلمانوں کے اندر پایا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ کوئی فرشتہ خدا کا کلام لے کر نازل ہوتا ہے اورکوئی لوگوں کی روح قبض کرنے کے لئے نازل ہوتا ہے یہ فی الجملہ درست ہے مگر فرشتوں کے نزول سے یہ مراد نہیں کہ وہ اپنی مقررہ جگہ کو چھوڑ کر زمین پر آجاتے ہیں اور وہ اس وقت ان کے وجود سے خالی ہو جاتی ہے بلکہ فرشتوں کے نزول سے یہ مراد ہے کہ فرشتے اپنی اپنی جگہ پر رہتے ہوئے اپنے اپنے دائرہ میں دنیا کی چیزوں پر مقررہ اثرات پیدا کرتے ہیں مثلاً جس فرشتے کا کام کلام الٰہی کا پہنچانا ہے وہ یوں نہیں کرتا کہ خدا کے الفاظ کو لے کر کبوتر کی طرح اڑتا ہوا زمین پر پہنچ جاوے بلکہ وہ صرف یہ کرتا ہے کہ اپنی خداداد طاقت کو حرکت میں لا کر خدا کے کلام کو اس کے منزلِ مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔ اسی طرح جس فرشتے نے کسی انسان کی روح قبض کرنی ہو وہ یہ نہیں کرتا کہ اپنی جگہ کو چھوڑ کر زمین پر آوے اور مرنے والے کی روح نکال کر پھر واپس اڑ جائے بلکہ وہ اپنی جگہ پر رہتے ہوئے ہی سارا کام سرانجام دیتا ہے پس نزول سے خود فرشتوں کا جسمانی نزول مراد نہیں بلکہ ان کی خداداد طاقتوں کا پَر تَویا سایہ اور اثر مراد ہے جو حسب ضرورت زمین پر نازل ہوتا ہے۔ ۱؎
اس دنیا کی عمر اور خَلق آدم:۔ پانچویںاصلاح حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ کی کہ لوگوں کے
اس خیال کو رد کیا کہ گویا یہ دنیا صرف چھ سات ہزار سال سے ہے اور اس سے پہلے خدا نعوذ باللہ معطل تھا۔ دراصل چونکہ عیسائیوں کا بائیبل کی بناء پر یہ عقیدہ تھا کہ انسان کی پیدائش کا آغاز آدم سے ہوا ہے اور آدم کو پیدا ہوئے صرف چھ ہزار سال ہوئے ہیں اس لئے ان کے ساتھ اختلاط کی وجہ سے بعد کے مسلمانوں میں بھی غلطی سے یہی عقیدہ داخل ہو گیا مگر خود قرآن شریف نے یا آنحضرت ﷺ نے ایسی کوئی تعلیم نہیں دی تھی۔ بہر حال حضرت مسیح موعود ؑ نے صراحت کے ساتھ اس عقیدے کو جھوٹا قرار دیا اور فرمایا کہ آدمی کی پیدائش سے دنیا کا آغاز مراد نہیں ہے بلکہ دنیا کا آغاز بہت قدیم سے ہے اور اس میں مخلوقات کے کئی دور آتے رہے ہیں جن میں سے موجودہ دور اس آخری آدم سے شروع ہوا ہے جس کی پیدائش پر چھ ہزار سال کا عرصہ گزرا ہے پس آدم کی پیدائش سے دنیا کے ایک دور کا آغاز مراد ہے نہ کہ دنیا کی پیدائش کا آغاز ۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں :۔
’’ ہم اس مسئلہ میں توریت کی پیروی نہیں کرتے کہ چھ سات ہزار سال سے ہی جب سے کہ آدم پیدا ہوا ہے اس دنیا کا آغاز ہوا ہے اور اس سے پہلے کچھ نہیں تھا اور گویا خدا معطل تھا اور نہ ہم اس بات کے مدعی ہیں کہ یہ تمام نسل جو اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں موجود ہے یہ اسی آخری آدم کی نسل ہے۔ ہم تو اس آدم سے پہلے بھی نسل انسانی کے قائل ہیں جیسا کہ قرآن شریف کے ان الفاظ سے پتہ لگتا ہے کہ ’’ اِنِّی جَاعِلٌ فِی الْـاَرْضِ خَلِیْفَۃً ‘‘ خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ آدم سے پہلے بھی دنیا میں مخلوق موجود تھی پس امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ کے لوگوں کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اسی آخری آدم کی اولاد میں سے ہیں یا کہ کسی دوسرے آدم کی اولاد میں سے۔ ‘‘ ۲؎
اسی ضمن میں حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ عقیدہ بھی پیش فرمایا کہ چونکہ خدا کی صفات قدیم سے ہیں اور ان میں مستقل تعطل جائز نہیں اس لئے یہ خیال کرنا کہ کوئی ایسا زمانہ بھی گذرا ہے کہ جب مخلوق کی کوئی نوع بھی دنیا میں موجود نہیں تھی درست نہیں۔ بلکہ ہر زمانہ میں مخلوق کی کوئی نہ کوئی نوع موجود رہی ہے اور ممکن ہے کہ انسان سے پہلے اس عالم میں مخلوق کی کوئی اور نوع پائی جاتی ہو۔ چنانچہ فرماتے ہیں :۔
’’ یہ بات سچ ہے کہ خدا کی صفات خالقیت رازقیت وغیرہ سب قدیم ہیں حادث نہیںہیں ۔ پس خدا تعالیٰ کی صفات قدیمہ کے لحاظ سے مخلوق کا وجود نوعی طور پر قدیم ماننا پڑتا ہے نہ شخصی طور پر۔ یعنی مخلوق کی نوع قدیم سے چلی آتی ہے۔ ایک نوع کے بعد دوسری نوع خدا پیدا کرتا چلا آیا ہے۔ سو اسی طرح ہم ایمان رکھتے ہیں اور یہی قرآن شریف نے ہمیں سکھایا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ انسان سے پہلے کیا کیا خدا نے بنایا مگر اس قدر ہم جانتے ہیں کہ خدا کے تمام صفات کبھی ہمیشہ کے لئے معطل نہیں ہوئے۔ اور خدا تعالیٰ کی قدیم صفات پر نظر کر کے مخلوق کے لئے قدامتِ نوعی ضروری ہے مگر قدامتِ شخصی ضروری نہیں۔ ‘‘ ۱؎
مسئلہ ارتقا :۔ ایک عرصہ سے مسئلہ ارتقا ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے یعنی بعض مغربی محققین کی یہ
رائے ہے کہ کسی زمانہ میںانسان موجودہ صورت میں نہیں تھا بلکہ حیوانیت کی ادنیٰ حالت میں زندگی گزارتا تھا۔ اور پھر آہستہ آہستہ کئی تغیرات کے بعد موجودہ شکل و صورت کو پہنچا ہے۔ ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ابتداء میں انسان بندر کی شکل پر تھا اور پھر اس سے تدریجاً ترقی کر کے انسانی شکل پر آگیا۔ سائنس دانوں کا یہ خیال ایک ثابت شدہ حقیقت نہیں ہے اور نہ ہی سارے سائنسدان اس خیال کے قائل ہیں مگر اس میں شبہ نہیں کہ موجودہ زمانہ کے اکثر سائنسدان مسئلہ ارتقا کی اس تھیوری کو سچا سمجھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس مخصوص مسئلہ کے متعلق تفصیل کے ساتھ تو نہیں لکھا مگر بہر حال آپ نے اس خیال کو معین صورت میں رد فرمایا ہے کہ انسان بندر سے بنا ہے چنانچہ فرماتے ہیں :۔
’’ ہمارا مذہب یہ نہیں کہ انسان کسی وقت بندر تھا۔ پھر دم کٹ گئی اور انسان بن گیا۔ یہ تو صرف دعویٰ ہے اور بارِ ثبوت مدعی پر ہے …… ہم ایسے قصوں پر اپنے ایمان کی بنیاد نہیں رکھ سکتے۔ موجودہ زمانہ کا عام نظارہ جو ہے وہ یہی ہے کہ بندر سے بندر پیدا ہوتا ہے اور انسان سے انسان ۔ پس جو اس کے خلاف ہے وہ قصہ ہے۔ واقعی بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ انسان ہی سے انسان پیدا ہوتاہے اور پہلے دن آدم ہی بنا تھا۔ ‘‘ ۱؎
مگر مسئلہ ارتقا کے اس پہلو کو رد کرنے کے باوجود حضرت مسیح موعود ؑ ارتقا کے اصول کو فی الجملہ تسلیم فرماتے تھے مثلاً حضرت مسیح موعود ؑ کا یہ عقیدہ تھا کہ دنیا کی پیدائش ایک فوری تغیر کی صورت میں نہیں ہوئی بلکہ تدریجی طور پر آہستہ آہستہ ہوئی ہے اور آپ کا یہ عقیدہ اس قرآنی تعلیم کے مطابق تھا جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا نے اس دنیا کو درجہ بدرجہ پیدا کیا ہے۔ اسی طرح آپ انسانی پیدائش میں بھی تدریجی خلق کے قائل تھے مگر اس بات کے قائل نہیں تھے کہ انسان کسی وقت بندر تھا اور پھر آہستہ آہستہ انسان بن گیا۔ اور قرآن شریف نے جو یہ بیان کیا ہے کہ خدا نے زمین و آسمان اور ان کی درمیانی چیزوں کو چھ دن میں بنایا اس کی تشریح حضرت مسیح موعود ؑ یہ فرماتے تھے کہ یہاں دن سے مراد یہ چوبیس گھنٹے والا دن نہیں ہے کیونکہ یہ دن تو خلق عالم کے بعد وجود میں آیا ہے بلکہ دن سے مراد ایک لمبا زمانہ ہے جیسا کہ مثلاً قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسانوں کی شمار کے لحاظ سے خدا کا ایک دن پچاس ہزار سال کا ہوتا ہے۔ ۲؎
تمام قوموں میں رسول آئے ہیں :۔ ایک اور نیا خیال حضرت مسیح موعود ؑ نے دنیا کے
سامنے یہ پیش کیا کہ یہ درست نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے صرف خاص خاص قوموں یا خاص خاص ملکوں کی طرف ہی اپنے رسول بھیجے ہی اور دوسری قوموں اور دوسرے ملکوں کو بھلائے رکھا ہے بلکہ اس نے اپنی وسیع رحمت کے ماتحت ہر قوم میں رسول بھیجے ہیں اور دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو اس کی اس رحمت سے محروم رہی ہو۔ بے شک قرآن شریف نے اس حقیقت کو بیان کیا ہے اور مسلمان اس تعلیم پر اجمالی ایمان لاتے رہے ہیں۔ مگر ان کی توجہ کبھی بھی اس مضمون کی تفصیلات کی طرف مبذول نہیں ہوئی او رنہ کبھی انہوں نے قرآن شریف کے بیان کردہ رسولوں کے سوا کسی اور قوم کے مذہبی پیشوا کی رسالت کو تصریحاً تسلیم کیا۔ لیکن حضرت مسیح موعود ؑ نے قرآن شریف کے اس پیش کردہ اصول کو ایسی تفصیل اور تعیین کے ساتھ بیان کیا کہ گویا دنیا میں ایک نئی صداقت کا دروازہ کھل گیا اور بین الاقوام تعلقات کو خوشگوار بنانے کے لئے ایک نہایت موثر خیال ہاتھ میں آگیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس قرآنی آیت کو لے کر اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں رسول بھیجے ہیں تشریح اور تکرار کے ساتھ لکھا کہ جس طرح خدا تمام دنیا کی مادی ضروریات کو پورا فرماتا ہے اسی طرح وہ روحانی میدان میں بھی ہر قوم کی اصلاح اور ترقی کی طرف توجہ کرتا رہا ہے اور دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جس میں کسی نہ کسی زمانہ میں خدا کی طرف سے کوئی نہ کوئی رسول نہ آیا ہو۔ آپ نے لکھا کہ چونکہ خدا سارے ملکوں اور ساری قوموں کا ایک سا خدا ہے اس لئے اس نے کسی قوم کو بھی فراموش نہیں کیا اور ہر قوم کی طرف اپنے رسول بھیج کر اپنی عالمگیر خدائی اور وسیع رحمت کا ثبوت دیا ہے حضرت مسیح موعود ؑ نے اس اصول کو محض ایک فلسفہ تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ عملاً نام لے لے کر اعلان کیا کہ دنیا کی مختلف قوموں میں جو جو رسول یا اوتار یا مصلح گزرے ہیں وہ سب خدا کی طرف سے تھے اور ہم ان کی صداقت کے قائل ہیں اور ان کی اسی طرح عزت کرتے ہیں جس طرح ایک سچے رسول کی کرنی چاہئے ۔آپ کے اس اعلان نے بین الاقوام تعلقات میں ایک انقلاب کی صورت پیدا کر دی اور جو قومیں اس سے پہلے رقیب اور مد مقابل کی صورت میں نظر آتی تھیں اب ایک ہی درخت کی شاخیں اور ایک ہی باپ کی اولاد کے رنگ میں نظر آنے لگیں۔
مگر اس اعلان کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ تشریح فرمائی کہ دوسری قوموں کے مذہبی بانیوں کو مان لینے سے ہماری یہ مراد نہیں ہے کہ ہم ان کی اس تعلیم کو بھی مانتے ہیں جو آجکل ان کی طرف منسوب کی جاتی ہے کیونکہ یہ تعلیم دو لحاظ سے ہمارے لئے قابل عمل نہیں۔ اوّل اس لئے کہ یہ تعلیم مرور زمانہ سے اپنی اصل حقیقت اور اصل صورت سے منحرف ہو چکی ہے دوسرے اس لئے کہ قرآن شریف کے نزول کے بعد جو سارے ملکوں اور ساری قوموں اور سارے زمانوں کے لئے ہے تمام سابقہ شریعتیں جو زمانی اور مکانی اور قومی حدود میں مقید تھیں منسوخ ہو چکی ہیں۔ پس آپ نے فرمایا کہ ہم اس وقت عملاً صرف قرآنی شریعت کو مانیں گے مگر ویسے اصولاً ہم تمام قوموں کے رسولوں، رشیوں اور اوتاروں اور مصلحوں کو سچا سمجھتے ہیں اور ان کی اسی طرح عزت کرتے ہیں جس طرح ایک سچے رسول کی کرنی چاہئے چنانچہ آپ فرماتے ہیں :۔
’’ یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلحکاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والاہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑہا دلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھا دی اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کر دی اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا۔ یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا۔ اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے گئی ہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں گو وہ ہندوئوں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا فارسیوں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے۔ ‘‘ ۱؎
پھر فرماتے ہیں :۔
’’ اسی عظیم الشان نبی نے ہمیں سکھایا ہے کہ جن جن نبیوں او ررسولوں کو دنیا کی قومیں مانتی چلی آئی ہیں اور خدا نے عظمت او رقبولیت ان کی دنیا کے بعض حصوں میں پھیلا دی ہے وہ درحقیقت خدا کی طرف سے ہیں اور ان کی آسمانی کتابوں میں گو دور دراز زمانہ کی وجہ سے کچھ تبدیل تغییر ہو گئی ہو یا ان کے معنے خلاف حقیقت سمجھے گئے ہوں مگر دراصل وہ کتابیں من جانب اللہ اور عزت اور تعظیم کے لائق ہیں۔ ‘‘ ۱؎
سچا مذہب اسی دنیا میں پھل دیتا ہے :۔ ایک اور لطیف انکشاف حضرت مسیح موعود نے یہ
فرمایا کہ سچے مذہب کی یہ علامت ہے کہ وہ اپنے متبعین کو صرف آئندہ کے وعدہ پر نہیں رکھتا بلکہ اسی زندگی میں ایمان کے شیریں اثمار چکھا دیتا ہے۔ یہ اصول قرآن شریف میں موجود تھا جیسا کہ فرمایا:۔
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتَانِ ۲؎
’’ یعنی جو شخص خدا کا تقویٰ اختیار کر کے روزِ جزا کو یاد رکھتا ہے اسے دو جنتیں ملیں گی ایک آخرت میں اور ایک اسی دنیا میں یعنی اسی دنیا سے اس کے لئے جنتی زندگی کا آغاز ہو جائے گا اور وہ اسی زندگی میں خدا کے قرب کی ٹھنڈک کو محسوس کرنے لگے گا۔ ‘‘
پھر فرماتا ہے :۔
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰئِکَۃُ اَلاَّ تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ۳؎
’’ یعنی جو لوگ دل سے خدائے واحد کو اپنا رب مان لیتے ہیں اور پھر اس عقیدہ پر پختہ طور پر جم جاتے ہیں ان پر اسی دنیامیں خدا کے فرشتے نازل ہو کر انہیں تسلی دیتے ہیں کہ تم کسی قسم کا خوف نہ کرو اورنہ کوئی غم کرو اور اس جنت کی اسی دنیا میں بشارت حاصل کرو جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے۔ ‘‘
مگر باوجود قرآن شریف میں ان آیات کو پڑھتے ہوئے مسلمان ان کے مفہوم سے بالکل بے خبر تھے اور دوسری قوموں کی طرح اس خام خیالی پر تسلی پائے ہوئے تھے کہ دنیا میں صرف عمل ہی عمل ہے اور جزا کا پہلو کلیۃً آخرت کے ساتھ مخصوص ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس باطل خیال کو سختی کے ساتھ رد فرمایا اور تشریح کے ساتھ بیان کیا کہ اگر دنیا میں صرف وعدہ ہی وعدہ ہے اور آخرت کی بہشتی زندگی کا کوئی اثر دنیا کی زندگی میں ظاہر نہیں ہوتا تو پھر یہ عمل و جزا کا سارا سلسلہ ایک جوئے کی کھیل سے زیادہ نہیں جس کے متعلق انسان کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔ آپ نے بڑے زور کے ساتھ لکھا کہ حقیقی نجات وہی ہے جس کا آغاز اسی دنیا سے ہو جاتا ہے اور سچا مذہب وہی ہے جو اپنے ماننے والوں کو اسی زندگی میں ایمان کا شیریں پھل چکھا دیتا ہے اور صرف آخرت کے موہوم وعدہ پر نجات کی بنیاد نہیں رکھتا۔ آپ نے دوسری قوموں کو بھی متنبہ فرمایا کہ وہ صرف آنے والی زندگی کے خالی وعدوں پر تسلی نہ پائیں اور اگر ان کا مذہب ان کے لئے اسی دنیا میں جنتی زندگی کی داغ بیل قائم نہیں کرتا تو قبل اس کے کہ موت ان کے لئے تلاش کا رستہ بند کر دے وہ اپنی آنکھیں کھولیں اور اس مذہب کی تلاش میں لگ جائیں جو آخرت کے وعدہ کے ساتھ ساتھ جنت کاکچھ نمونہ اس دنیا میں بھی پیش کر دیتا ہے۔ آپ نے لکھا کہ اسلام کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس پر ایمان لا کر اور اس کے حکموں پر چل کر انسان اسی دنیا میں خدا کو پا لیتا ہے اور یہ پانا ایک خیالی فلسفہ کے طور پر نہیں ہوتا بلکہ ایک زندہ حقیقت کا رنگ رکھتا ہے یعنی اس مقام پر پہنچ کر خدا اپنے بندے کی دعائوں کو سنتا اور اپنے کلام سے اس کو مشرف کرتا اور اس کے لئے اپنی قدرت کے جلوے دکھاتا ہے اور ہر رنگ میں اس پر ثابت کر دیتا ہے کہ میں تیرا زندہ اور قادر خدا ہوںاور میری نصرت کا ہاتھ تیری زندگی کے ہر قدم میں تیرے ساتھ ہے۔ ایسے شخص کے لئے آخرت کی زندگی ایک خالی وعدہ نہیں رہتی بلکہ دنیا کی زندگی کا ایک خوش کن تسلسل بن جاتی ہے اور گو بہر حال مکمل اور تفصیلی اجر کا گھر تو آخرت ہی ہے مگر اس کی جھلک اسی دنیا میں نظر آجاتی ہے اور حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے مخالفوں کو بلایا کہ آئو اور میرے ساتھ ہو کر اس بہشتی جھلک کا نظارہ دیکھ لو۔ ۱؎
قرآن میں کوئی آیت منسوخ نہیں :۔ مسلمانوں میں جہاں اور بہت سی غلطیاں آگئی
تھیں وہاں ایک غلط خیال ان میں یہ بھی پیدا ہو گیا تھا کہ نعوذ باللہ سارا قرآن شریف قابلِ عمل نہیںبلکہ اس کی بعض آیتیں منسوخ ہو چکی ہیں۔ اس گندے عقیدے نے یہاں تک زور پکڑا تھا کہ بعض لوگوں نے تو قرآن شریف کی کئی سو آیات منسوخ قرار دے دیں اور اس خیال نے بعض بڑے عالموں کے دل و دماغ پر بھی قبضہ پا لیا ۔ اس طرح نہ صرف خدا کی اس وسیع رحمت کو جو قرآن شریف کے ذریعہ نازل ہوئی محدود کر دیا گیا بلکہ نسخ کے دروازہ کو کھول کر گویا سارے قرآن کو ہی یقین اور قطعیت کے مقام سے گرا کر شک کے گڑھے میں اتار دیا گیا۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے بڑی سختی کے ساتھ اس بیہودہ عقیدہ کو رد فرمایا اور لکھا کہ جن لوگوں نے قرآنی آیات کو منسوخ قرار دیا ہے یہ ان کی اپنی کم علمی اور کوتہ نظری کی علامت ہے کیونکہ اگر انہیں کسی آیت کے معنے واضح نہیں ہوئے تو انہوں نے اسے اپنی کم فہمی کی طرف منسوب کرنے کی بجائے قرآن کی طرف منسوب کر دیا۔ آپ نے لکھا کہ کسی آیت کو منسوخ ہونا تو درکنار قرآن شریف کا ایک نقطہ اور شعشہ بھی منسوخ نہیں اور الحمد سے لے کر والنّاس تک سارا قرآن واجب العمل اور سراسر رحمت ہی رحمت ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:۔
’’جو شخص اپنے نفس کے لئے خدا کے حکم کو ٹالتا ہے وہ آسمان میں ہرگز داخل نہیں ہو گا۔ سو تم کوشش کرو جو ایک نقطہ یا ایک شعشہ قرآن شریف کا بھی تم پر گواہی نہ دے تا تم اسی کے لئے پکڑے نہ جائو۔ ‘‘ ۱؎
پھر فرماتے ہیں :۔
’’علماء نے مسامحت کی راہ سے بعض احادیث کو بعض آیات کی ناسخ ٹھہرایا ہے …… حق یہی ہے کہ حقیقی نسخ اور حقیقی زیادت قرآن پر جائز نہیں کیونکہ اس سے اس کی تکذیب لازم آتی ہے۔ ‘‘ ۲؎
قرآن شریف کو حدیث پر فضیلت ہے:۔ ایک اور بڑی غلطی جو مسلمانوں میں پیدا ہو گئی
تھی یہ تھی کہ مسلمانوں کے ایک متعدبہ حصہ نے عملاً یہ عقیدہ بنا رکھا تھا کہ حدیث قرآن شریف پر حاکم اور قاضی ہے اور اگر کسی صحیح دیث سے کوئی بات ثابت ہو جاوے اور قرآن کی کوئی آیت اس کے خلاف ہو تو یا تو آیت کو منسوخ سمجھ لینا چاہئے اور یا حدیث کے مطابق آیت کے معنے ہونے چاہئیں۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس عقیدہ کو بڑی سختی کے ساتھ رد فرمایا اور لکھا کہ اصل چیز جس پر اسلام کی بنیاد ہے وہ قرآن شریف ہے نہ کہ حدیث جو آنحضرت ﷺ کے ڈیڑھ دو سو سال بعد عالم وجود میں آئی ہے۔ آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ قرآن شریف کے ساتھ خدا کا خاص حفاظت کا وعدہ ہے جو حدیث کے ساتھ ہرگز نہیں۔ پس قرآن کے مقابل پر حدیث کو کوئی وزن حاصل نہیں اور جو حدیث کسی قرآنی آیت سے ٹکرائے اور تطابق کی کوئی صورت نہ ہو سکے تو وہ اس سے زیادہ حق نہیں رکھتی کہ اسے غلط سمجھ کر ردی کی طرح پھینک دیا جائے۔ آپ نے لکھا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسی حدیث آنحضرت ﷺ کا قول ہے اور پھر بھی ہم اسے رد کرتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کا قول ہی نہیں اور غلط طور پر آپ کی طرف منسوب ہوئی ہے۔
اسی بحث کے دوران میں حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک اور لطیف حقیقت کا بھی انکشاف فرمایا اور وہ یہ کہ آپ نے بتایا کہ قرآن شریف اور حدیث کے علاوہ ایک تیسری چیز بھی ہے جس کا نام سنت ہے ۔ آپ نے لکھا کہ یہ جو مسلمانوں کا عام طریق ہے کہ حدیث کو ہی سنت کا نام دے دیتے ہیں یہ درست نہیں بلکہ سنت ایک بالکل جدا چیز ہے جسے حدیث سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ جہاں حدیث ان زبانی اقوال کا نام ہے جو راویوں کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کے ڈیڑھ دو سو سال بعد جمع کئے گئے وہاں سنت کسی قولی روایت کا نام نہیں بلکہ آنحضرت ﷺ کے اس تعامل کا نام ہے جو حدیثوں کے واسطے سے نہیں بلکہ مسلمانوں کے مجموعی تعامل کے ذریعہ ہمیں پہنچا ہے۔ مثلاً قرآن شریف میں نماز کا حکم نازل ہوا اور پھر اس کی عملی صورت کو آنحضرت ﷺ نے اپنی زندگی میں کر کے بتا دیاکہ نماز اس طرح پڑھنی چاہئے اور یہ عملی صورت کسی روایت کے ذریعہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے مسلسل تعامل کے ذریعہ بعد کے لوگوں تک پہنچی۔ یہ وہ چیز ہے جس کانام سنت ہے اور جو حدیث سے بالکل الگ ہے۔
اس طرح حضرت مسیح موعود ؑ نے گویا اسلامی تعلیم کے تین ماخذ قرار دئیے۔ اوّل قرآن شریف جو خدا کا کلام ہے اور آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہی پوری طرح محفوظ ہو کر یقینی اور قطعی شہادت کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے۔ دوسرے سنت یعنی آنحضرت ﷺ کا عمل جو کسی زبانی روایت کے ذریعہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے مسلسل تعامل کے واسطے سے نیچے آیا ہے۔ اور تیسرے حدیث جو ان اقوال کے مجموعہ کا نام ہے جو راویوں کے سینے سے جمع کئے جا کر آنحضرت ﷺ کے ڈیڑھ دو سو سال بعد ضبط میں آئے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ میں حدیث کے رتبہ کو کم نہیں کرنا چاہتا اور اپنی جماعت کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہونے والی صحیح حدیثوں کو انتہائی عزت سے دیکھے اور ان پر عمل کرے مگر بہر حال حدیث کا مرتبہ قرآن و سنت کے مقابل پر بہت ادنیٰ ہے اور اگر قرآن و حدیث میں کوئی تعارض پیدا ہو اور تطبیق کی کوئی صورت ممکن نہ ہو سکے تو لازماً قرآن کو اختیار کر کے حدیث کو ترک کر دیا جائے گا کیونکہ حدیث قرآن پر قاضی نہیں بلکہ قرآن حدیث پر قاضی ہے۔
قرآن شریف کے معانی غیر محدود ہیں :۔ ایک اور نہایت اہم اور نہایت لطیف انکشاف جو
حضرت مسیح موعود ؑ نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جس نے اسلامک ریسرچ میں گویا ایک انقلابی صورت پیدا کر دی اور نئے علوم کے لئے ایک نہایت وسیع دروازہ کھول دیا یہ تھا کہ آپ نے خدا سے علم پا کر اعلان فرمایا کہ جیسا کہ عام طور پر مسلمانوں میں خیال کیا جاتا ہے یہ بات ہرگز درست نہیں کہ قرآن شریف کے معانی اس محدود تفسیر میں محصور ہیں جو حدیث یا گذشتہ مفسرین نے بیان کر دی ہے بلکہ قرآن کے معانی غیر محدود اور غیر متناہی ہیں اور خدا نے یہ انتظام اس لئے فرمایا ہے کہ تا ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق قرآن شریف کے نئے نئے معانی ظاہر ہو کر اسلام کی صداقت پر دلیل بنتے رہیں۔ اس مضمون کو واضح کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک نہایت لطیف مثال بھی بیان فرمائی اور وہ یہ کہ جس طرح یہ مادی عالم ہمیشہ سے ایک ہی چلا آیا ہے مگر اس کے مخفی خزانے غیر متناہی ہیں اور ان کا ظہور کسی ایک زمانہ کے ساتھ وابستہ نہیں رہا بلکہ ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق صحیفہ فطرت کے مخفی خزانے نئے سے نئے رنگ میں ظاہر ہوتے رہے ہیں۔ اسی طرح قرآن شریف بھی جو ایک روحانی عالم ہے اپنے اندر غیر متناہی خزانے رکھتا ہے جن کا ظہور کسی ایک زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں۔ مثلاً آدم کے وقت میں بھی یہی مادی دنیا تھی اور پھر موسیٰ کے وقت میں بھی یہی دنیا تھی اور پھر آنحضرت ﷺ کے وقت میں بھی یہی دنیا تھی اور اب موجودہ زمانہ میں بھی یہی دنیا ہے مگر باوجود اس کے اس مادی دنیا نے اپنے سارے مخفی خزانے ایک وقت میں باہر نکال کر نہیں رکھ دئیے بلکہ کچھ حقائق آج سے ہزاروں سال پہلے ظاہر ہو گئے تھے اور کچھ درمیانی زمانہ میں ظاہر ہوئے اور بہت سے اب موجودہ زمانہ میں ظاہر ہو رہے ہیں حالانکہ یہ صحیفہ فطرت پہلے بھی وہی تھا جو اب ہے۔ اسی طرح آپ نے لکھا کہ قرآن شریف گو بظاہر ایک چھوٹی سی کتاب ہے مگر اللہ کی حکیمانہ قدرت نے اسے ایک روحانی عالم کی صورت دی ہے اور یہ مقدر کیا ہے کہ ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق قرآن کے مخفی حقائق و معارف ظاہر ہوتے رہیں۔ بلکہ جس طرح موجودہ زمانہ میں مادی عالم کے خزانوں کے اظہار کا خاص طور پر زور ہے اور دنیا اپنی گو ناگوں مخفی طاقتوں کو باہر نکال نکال کر مخلوق کی خدمت میں لگا رہی ہے اسی طرح موجودہ زمانہ کے لئے یہ بھی مقدر تھا کہ اس میں قرآن کے روحانی خزانے بھی پورے زور اور کثرت کے ساتھ دنیا کے سامنے آجائیں تا کہ ان مادی طاقتوں کا مقابلہ ہو سکے جو مادی لوگوں کی غلطی اور کم فہمی کی وجہ سے روحانی طاقتوں کے مقابلہ کے لئے استعمال میں لائی جا رہی ہیں۔
الغرض حضرت مسیح موعود ؑ نے اس خیال کو سختی کے ساتھ رد فرمایا کہ قرآن شریف کی تفسیر سابقہ معانی پر ختم ہو چکی ہے اور بڑے زور دار رنگ میں لکھا کہ صحیفہ فطرت کے خزانوں کی طرح قرآنی علوم بھی غیر محدود ہیں اور کبھی ختم نہیں ہوں گے مگر ان کا انکشاف ضرورت کے مطابق آہستہ آہستہ ہو گا۔ اس طرح آپ نے اس اعتراض کا بھی قلع قمع کر دیا جو اس زمانہ میں نئی روشنی کے دلدادگان کی طرف سے حامیان اسلام کے خلاف کیا جاتا تھا کہ تم ہمیں ایک ایسی کتاب کی طرف لے جانا چاہتے ہو جو آج سے تیرہ سو سال پہلے نازل ہوئی تھی۔ کیونکہ اگر آدم کے وقت کا مادی عالم آج کے ترقی یافتہ لوگوں کی مادی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے تو آنحضرت ﷺ کے زمانہ کا روحانی عالم موجودہ زمانہ کی روحانی ضروریات کے لئے کیوں کافی نہیں ہو سکتا؟ ہاں ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ مادی دنیا کے سائنس دانوں کی طرح کوئی روحانی استاد اس روحانی عالم کی گہرائیوں میں سے نئے نئے خزانے نکال کر دنیا کے سامنے لائے اور حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ میری بعثت کی یہی غرض ہے کہ میں موجودہ زمانہ کی روحانی پیاس کو ایک پرانے برتن میں سے تازہ شراب نکال کر بجھائوں۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:۔
’’ جاننا چاہئے کہ کھلا کھلا اعجاز قرآن شریف کا جو ہر ایک قوم اور ہر ایک اہل زبان پر روشن ہو سکتا ہے جس کو پیش کر کے ہم ہر ایک ملک کے آدمی کو خواہ ہندی ہو یا پارسی یا یورپین یا امریکن۔ یا کسی اور ملک کا ہو ملزم و ساکت و لاجواب کر سکتے ہیں وہ غیر محدود معارف و حقائق و علوم حکمیہ قرآنیہ ہیں جو ہر زمانہ میں اس زمانہ کی حاجت کے موافق کھلتے جاتے ہیں اور ہر ایک زمانہ کے خیالات کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلح سپاہیوں کی طرح کھڑے ہیں …… اے بندگان خدا یقینا یاد رکھو کہ قرآن شریف میں غیر محدود معارف و حقائق کا اعجاز ایسا کامل اعجاز ہے جس نے ہر ایک زمانہ میں تلوار سے زیادہ کام کیا ہے اور ہر یک زمانہ اپنی نئی حالت کے ساتھ جو کچھ شبہات پیش کرتا ہے یا جس قسم کے اعلیٰ معارف کا دعویٰ کرتا ہے اس کی پوری مدافعت اور پورا الزام اور پورا پورا مقابلہ قرآن شریف میں موجود ہے ۔ کوئی شخص برہمو ہو یا بدھ مذہب والا یا آریہ یا کسی اور رنگ کا فلسفی کوئی ایسی الٰہی صداقت نکال نہیں سکتا جو قرآن شریف میں پہلے سے موجود نہ ہو۔ قرآ ن شریف کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہو سکتے اور جس طرح صحیفۂ فطرت کے عجائب و غرائب خواص کسی پہلے زمانہ تک ختم نہیں ہو چکے بلکہ جدید در جدید پیدا ہوتے جاتے ہیں یہی حال ان صحف مطہرہ کا ہے تا خدائے تعالیٰ کے قول اور فعل میں مطابقت ثابت ہو۔ ‘‘ ۱؎
پھر فرماتے ہیں :۔
’’ یہ تو ظاہر ہے کہ قرآن کریم بذات خود معجزہ ہے اور بڑی بھاری وجہ اعجاز کی اس میں یہ ہے کہ وہ جامع حقائق غیر متناہیہ ہے مگر بغیر وقت کے وہ ظاہر نہیں ہوتے بلکہ جیسے جیسے وقت کے مشکلات تقاضا کرتے ہیں وہ معارف خفیہ ظاہر ہوتے جاتے ہیں۔ دیکھو دنیوی علوم جو اکثر مخالفِ قرآن کریم اور غفلت میں ڈالنے والے ہیں کیسے آجکل ایک زور سے ترقی کر رہے ہیں اور زمانہ اپنے علوم ریاضی اور طبعی اور فلسفہ کی تحقیقاتوں میں کیسی ایک عجیب طور کی تبدیلیاں دکھلا رہا ہے۔ کیا ایسے نازک وقت میں ضرور نہ تھا کہ ایمانی اور عرفانی ترقیات کے لئے بھی دروازہ کھولا جاتا تا شرور محدثہ کی مدافعت کے لئے آسانی پیدا ہو جاتی۔ سو یقینا سمجھو کہ وہ دروازہ کھولا گیا ہے اور خدا تعالیٰ نے ارادہ کر لیا ہے کہ تا قرآن کریم کے عجائبات مخفیہ اس دنیا کے متکبر فلسفیوں پر ظاہر کرے۔ ‘‘ ۲؎
نبوت کا سلسلہ بند نہیں ہوا :۔ ایک اور بڑی اصلاح جو حضرت مسیح موعود ؑ نے مسلمانوں
کے خیالات میں فرمائی وہ مسئلہ نبوت کے متعلق تھی۔ کئی صدیوں کے تنزل کے زمانہ میں ہمتوں کے پست ہو جانے کی وجہ سے اور بعض قرآنی آیات اور احادیث کا غلط مطلب سمجھنے کے نتیجہ میں مسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور اب کوئی شخص نبوت کے مقام پر فائز نہیں ہو سکتا۔ اس خیال نے مسلمانوں کی عقل پر ایسا پردہ ڈال دیا تھا کہ وہ امت محمدیہ میں نبوت کے اجراء کو آنحضرت ﷺ کے لئے باعث ہتک اور اسلام کے لئے موجب ذلت خیال کرنے لگے تھے حضرت مسیح موعود نے دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ یہ عقیدہ بالکل خلاف تعلیم اسلام اور خلاف عقل ہے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی ایسے نبی کا آنا جو آپ کے خادموں میں سے ہو اور آپ کی وساطت سے نبوت کا انعام پائے اور اس کی بعثت کی غرض اسلام کی تجدید اور اسلام کی اشاعت ہو آنحضرت ﷺ کی شان کو گرانے والا نہیں بلکہ بلند کرنے والا اور اسلام کی اکملیت کو ظاہر کرنے والا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ابھی تک ہمارے مخالفین نے اس نکتہ کی قدر نہیں کی ورنہ وہ حضرت مسیح موعود پر اعتراض کرنے کی بجائے آپ کے شکر گزار ہوتے کہ آپ نے اس حقیقت کا انکشاف کر کے مسلمانوں کی جھکی ہوئی گردنوں کو بلند کر دیا ۔ چونکہ اس مضمون پر ایک مفصل نوٹ اوپر گزر چکا ہے اس لئے اس جگہ صرف اس قدر اشارہ پر اکتفا کر کے ہم اگلے سوال کو لیتے ہیں۔
الہام کی حقیقت :۔ سلسلہ الہام کے متعلق مسلمانوں کی اس غلطی کا ذکر اوپر گزر چکا ہے کہ
ان کا ایک معتدبہ حصہ اس زمانہ میں الہام کے دروازہ کو بند قرار دیتا تھا۔ اس کے علاوہ الہام کے متعلق مسلمانوں کا ایک فریق اس غلطی میں بھی مبتلا تھا کہ الہام الفاظ کی صورت میں نہیں ہوتا بلکہ وہ اچھے خیالات جو انسان کے دل میں اچانک گزر جاتے ہیں وہی الہام ہیں۔ حضرت مسیح موعود نے اس خیال کی سختی سے تردید فرمائی اور فرمایا کہ الہام اور وحی کی گو کئی اقسام ہیں مگر زیادہ ارفع اور زیادہ پختہ قسم لفظی الہام ہے جو خدا کی طرف سے اسی طرح انسان تک پہنچتا ہے جس طرح کہ ایک دوسرے شخص کی آواز اس کے کانوں تک پہنچتی ہے۔ آپ نے ثابت کیا کہ قرآنی وحی بھی اسی نوع میں داخل تھی چنانچہ سارا قرآن شریف آنحضرت ﷺ پر لفظاً نازل ہوا تھا اور نہ صرف قرآن شریف کے معانی بلکہ اس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف خدا کا کلام ہے ۔ آپ نے بتایا کہ اگر محض دل کے اچھے خیالات کا نام الہام ہو تو اس طرح تو ہر مصنف اور ہر مقرر اور ہر شاعر اور ہر محقق اور ہر سائنسدان ملہم قرار پائے گا کیونکہ اس قسم کے فوری خیالات ہر انسان کے دل پر گزرتے رہتے ہیں بلکہ اس تعریف کے ماتحت ایک چور بھی ملہم سمجھا جائے گا کیونکہ اس کے دل پر بھی بسا اوقات دوسروں کا مال لوٹنے کے لئے بڑے بڑے باریک اور اچھوتے خیالات گزر جاتے ہیں۔ غرض آپ نے اپنے تجربہ اور قرآنی آیات و احادیث سے ثابت کیا کہ الہام کی یہ تعریف بالکل غلط ہے اور حقیقی الہام وہی ہے جو خدا کی طرف سے معین الفاظ کی صورت میں انسان تک پہنچتا ہے اور یہ الہام اپنے ساتھ ایک خاص قسم کی شان اور لطافت اور تاثیر رکھتا ہے جو لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :۔
’’ الہام کے الفاظ سے اس جگہ یہ مراد نہیں کہ سوچ اور فکر کی کوئی بات دل میں پڑ جائے جیسا کہ جب شاعر شعر کے بنانے میں کوشش کرتا ہے یا ایک مصرع بنا کر دوسرا سوچتا رہتا ہے تو دوسرا مصرع دل میں پڑ جاتا ہے سو یہ دل میں پڑ جانا الہام نہیں بلکہ یہ خدا کے قانونِ قدرت کے موافق اپنے فکر اور سوچ کا ایک نتیجہ ہے …… اگر صرف دل میں پڑ جانے کا نام الہام ہے تو پھر ایک بدمعاش شاعر جو راستبازی اور راستبازوں کا دشمن اور ہمیشہ حق کی مخالفت کے لئے قدم اٹھاتا اور افترائوں سے کام لیتا ہے خدا کا ملہم کہلائے گا۔ دنیا میں ناولوں وغیرہ میں جادو بیانیاں پائی جاتی ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ اس طرح سراسر باطل مگر مسلسل مضمون لوگوں کے دل میں پڑتے ہیں۔ پس کیا ہم ان کو الہام کہہ سکتے ہیں ؟ بلکہ اگر الہام صرف دل میں بعض باتیں پڑ جانے کا نام ہے تو ایک چور بھی ملہم کہلا سکتا ہے کیونکہ وہ بسا اوقات فکر کر کے اچھے اچھے طریق نقب زنی کے نکال لیتا ہے اور عمدہ عمدہ تدبیریں ڈاکہ مارنے اور خون ناحق کرنے کی اس کے دل میں گزر جاتی ہیں۔ تو کیا لائق ہے کہ ہم ان تمام ناپاک طریقوں کا نام الہام رکھ دیں؟ ہرگز نہیں …… الہام کیا چیز ہے؟ وہ پاک اور قادر خدا کا ایک برگزیدہ بندہ کے ساتھ یا اس کے ساتھ جس کو برگزیدہ کرنا چاہتا ہے ایک زندہ اور باقدرت کلام کے ساتھ مکالمہ اور مخاطبہ ہے …… خدا کے الہام میں یہ ضروری ہے کہ جس طرح ایک دوست دوسرے دوست سے مل کر باہم ہمکلام کرتا ہے اسی طرح رب اور اس کے بندے میں ہم کلامی واقع ہو۔ ‘‘ ۱؎
اور اپنا ذاتی تجربہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ :۔
’’ وحی آسمان سے دل پرایسی گرتی ہے جیسے کہ آفتاب کی شعاع دیوار پر۔ میں ہر روز دیکھتا ہوں کہ جب مکالمہ الٰہیہ کا وقت آتا ہے تو اوّل یک دفعہ مجھ پر ایک ربودگی طاری ہوتی ہے ۔تب میں ایک تبدیل یافتہ چیز کی مانند ہو جاتا ہوںاور میری حس اور میرا ادراک اور ہوش گو بگفتن باقی ہوتا ہیں مگر اس وقت میں پاتا ہوں کہ گویا ایک وجود شدید الطاقت نے میرے تمام وجود کو اپنی مٹھی میں لے لیا ہے اور اس وقت احساس کرتا ہوں کہ میری ہستی کی تمام رگیں اس کے ہاتھ میں ہیں اور جو کچھ میرا ہے اب وہ میرا نہیں بلکہ اس کا ہے۔ جب یہ حالت ہو جاتی ہے تو اس وقت سب سے پہلے خدا تعالیٰ دل کے ان خیالات کو میری نظر کے سامنے پیش کرتا ہے جن پر اپنے کلام کی شعاع ڈالنا اس کو منظور ہے …………… اور ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک خیال……دل میں آیا تو جھٹ اس پر ایک ٹکڑا کلام الٰہی کا ایک شعاع کی طرح گرتا ہے اور بسا اوقات اس کے گرنے کے ساتھ تمام بدن ہل جاتا ہے۔ ‘‘ ۲؎
اس تحریر میں حضرت مسیح موعود ؑ نے الہام کی جو قسم بیان فرمائی ہے یہ وحی الٰہی کی متعدد اقسام میں سے ایک قسم ہے اور دوسری جگہ آپ نے دوسری اقسام کا بھی ذکر فرمایا ہے مگر بہر حال آپ نے اس خیال کو سختی کے ساتھ رد فرمایا ہے کہ دل میں گزرنے والے خیالات کا نام ہی الہام ہے اور آپ نے اپنی متعدد کتب میں الہام الٰہی کی اقسام اور اس کی نشانیاں اور اس کے پرکھنے کے طریقے بھی بیان فرمائے ہیں مگر اس مختصر رسالہ میں ان سارے مضامین کی گنجائش نہیں ۔
جہاد کی حقیقت :۔ ایک اور اہم مسئلہ جس میں موجودہ زمانہ کے مسلمان سخت غلطی میں مبتلا تھے
جہاد کا مسئلہ ہے۔ مسلمانوں کا عام طور پر یہ خیال ہو رہا تھا کہ دین چونکہ ایک سچائی ہے اس لئے اس کے معاملہ میں جبر کرنا جائز ہے اور یہ کہ اسلام نے دوسری قوموں کے خلاف تلوار اٹھانے کی تحریک کی ہے اور اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کا یہ عقیدہ تھا کہ آخری زمانہ میں اللہ تعالیٰ ایک مہدی کو مبعوث کرے گا جو روئے زمین کے تمام کافروں کے ساتھ جنگ کر کے یا تو انہیں مسلمان بنا لے گا اور یا تلوار کی گھاٹ اتار دے گا۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے قرآن و حدیث اور عقل خداداد سے اس بات کو ثابت کیا کہ یہ عقیدہ صحیح اسلامی تعلیم کے سراسرخلاف اور دنیا میں سخت فتنہ و فساد کا باعث ہے۔قرآن شریف صاف اور صریح الفاظ میں تعلیم دیتا ہے کہ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن ۱؎ یعنی دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں ہونا چاہئے اور قرآن و حدیث اور تاریخ ہرسہ سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کفار کو تہ تیغ کرنے یا ان کو جبراً مسلمان بنانے کے لئے تلوار نہیں اٹھائی تھی بلکہ کفار کے مظالم اور خونی کارروائیوں سے تنگ آکر محض دفاع کے طور پر تلواراٹھائی تھی اور مہدی کے متعلق حضرت مسیح موعود نے ثابت کیا کہ یہ خیال قطعاً درست نہیں کہ اسلام نے کسی خونی مہدی کا وعدہ دیا ہے ۔ آنحضرت ﷺ نے کوئی ایسی خبر نہیں دی۔ بے شک آپ نے ایک مہدی کی پیشگوئی فرمائی تھی مگر ساتھ ہی فرما دیا تھا کہ مہدی اور مسیح موعود ایک ہی وجود ہیں اور یہ کہ جنگ کرنا تو درکنار مسیح موعود ایسے زمانہ میں ظاہر ہو گا کہ جو امن کا زمانہ ہو گا اور اس کی جنگ دلائل اور براہین کی جنگ ہو گی نہ کہ نیزہ و تلوار اور تیر و تفنگ کی۔
آپ نے فرمایا کہ خدائی پیشگوئیوں میں بسا اوقات استعارہ کے رنگ میں کلام ہوتا ہے مگر ناسمجھ لوگ اسے حقیقت پر محمول کر لیتے ہیں چنانچہ مسیح و مہدی کے متعلق جو اس قسم کے الفاظ آتے ہیں کہ اس کے دم سے کافر مریں گے یا یہ کہ وہ صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا وغیرہ وغیرہ اس سے کم علم لوگوں نے خیال کر لیا کہ شاید ان الفاظ میں ایک جنگ کرنے والے مصلح کی خبر دی گئی ہے حالانکہ یہ سب استعارے تھے جن سے نشانات اور دلائل کی جنگ مراد تھی نہ کہ تیر و کمان کی جنگ۔ چنانچہ اگر ایک طرف مسیح و مہدی کے متعلق اس قسم کے جنگی الفاظ بیان ہوئے ہیں تو دوسری طرف اسلامی پیشگوئیوں میں صراحت کے ساتھ یہ بھی مذکور ہے کہ مسیح کا کام امن کے طریق پر ہو گا اور اس کے زمانہ میں جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے گی۔ علاوہ ازیں جب قرآن شریف نے اصولی طور پر یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ دین کے معاملہ میں جبر جائز نہیں تو اب کسی پیشگوئی کے ایسے معنے کرنا جو اس اصولی تعلیم کے خلاف ہوں ہرگز درست نہیں ہو سکتا۔ عقلاً بھی آپ نے بتایا کہ جبر کا طریق نہ صرف فتنہ و فساد کا طریق ہے بلکہ اس کے نتیجہ میں کبھی بھی دلوں کی اصلاح جو دین کی اصل غرض و غایت ہے حاصل نہیں ہو سکتی۔
آپ نے فرمایا کہ بے شک جہاد کا مسئلہ سچا اور برحق ہے مگر اصل جہاد نفس کا جہاد اور تبلیغ کا جہاد ہے۔ اور تلوار کا جہاد صرف ان حالات میں جائز ہے جبکہ کوئی قوم اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے نابود کرنے کے لئے ان کے خلاف تلوار اٹھائے۔ اس صورت میں بے شک ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ امام وقت کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو کر اسلام سے اس خطرہ کو دور کرے اور تلوار کا جواب تلوار سے دے۔ مگر یونہی غازی نام رکھ کر کفار کو مارتے پھرنا یا لوگوں کو جبراً مسلمان بنانے کے لئے تلوار اٹھانا اسلام کی تعلیم اور اسلام کی روح اور اسلام کی غرض و غایت سے اسی طرح دور ہے جس طرح ایک بوسیدہ روئیدگی کی بُو تازہ پھولوں کی خوشبو سے دور ہوتی ہے۔
موجودہ زمانہ کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ اس وقت نہ صرف وہ حالات موجود نہیں جن میں جہاد بالسیف جائز ہوتا ہے بلکہ خدانے اپنے مسیح کو بھیج کر اس زمانہ میں امن کا سفید جھنڈا بلند کیا ہے ۔ پس جو شخص اب بھی خونی جہاد کے خیالات کو ترک نہیں کرے گا اس کے لئے ذلت اور ناکامی مقدر ہے۔ فرماتے ہیں :۔
ایسا گماں کہ مہدیٔ خونی بھی آئے گا
اور کافروں کے قتل سے دیں کو بڑھائے گا
اے غافلو یہ باتیں سراسر دروغ ہیں
بہتاں ہیں بے ثبوت ہیں اور بے فروغ ہیں
فرما چکا ہے سید کونین مصطفیٰ
عیسٰی مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا
جب آئے گا تو صلح کو وہ ساتھ لائے گا
جنگوں کے سلسلہ کو وہ یکسر مٹائے گا
یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا
وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا
اک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے
کافی ہے سوچنے کواگر اہل کوئی ہے
وفات مسیح اور عدم رجوع موتی ٰ :۔ ایک اور غلط عقیدہ جس کی حضرت مسیح موعود ؑ نے اصلاح
فرمائی وہ حضرت مسیح ناصری کی حیات کا عقیدہ تھا۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے مسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ حضرت مسیح ناصری فوت نہیں ہوئے بلکہ خدا نے ان کو صلیب کے واقعہ سے بچا کر آسمان پر اٹھا لیا تھا اور وہ آخری زمانہ میں زمین پر دوبارہ نازل ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے قرآن و حدیث سے ثابت کیا کہ یہ عقیدہ بالکل غلط اور باطل ہے بلکہ واقعہ صلیب کے بعد حضرت مسیح اپنے ملک سے نکل کر کشمیر کی طرف آگئے تھے اور وہیں ایک سو بیس سال کی عمر میں اپنی طبعی موت سے فوت ہوئے۔
اسی ضمن میں حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ بھی ثابت کیا کہ یہ خیال اگر حضرت مسیح ناصری فوت بھی ہو چکے ہیں تو پھر بھی خدا انہیں دوبارہ زندہ کر کے دنیا میں واپس لے آئے گا بالکل غلط اور خلاف منشاء اسلام ہے کیونکہ قرآن و حدیث صراحت کے ساتھ یہ تعلیم دیتے ہیں کہ کوئی شخص ایک دفعہ مر کر پھر اس دنیا میں دوبارہ زندہ ہو کر نہیں آسکتا بلکہ دوسری زندگی کے لئے آخرت کا گھر مقرر ہے اس مضمون کی بحث بھی چونکہ اوپر گزر چکی ہے اس لئے اس جگہ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں ۔
معراج کی حقیقت:۔ مسلمانوں کا ایک کثیر حصہ یہ عقیدہ رکھتا تھا اور رکھتا ہے کہ آنحضرت ﷺ
معراج کی رات اسی جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر تشریف لے گئے تھے اور وہاں سارے آسمانی طبقوں کی سیر کر کے زمین پر واپس تشریف لائے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس خیال کی بھی تردید فرمائی اور ثابت کیا کہ بے شک معراج برحق ہے اور آنحضرت ﷺ آسمان پر ضرور تشریف لے گئے مگر آپ کا یہ صعود اس جسم عنصری کے ساتھ نہیں تھا بلکہ ایک نہایت لطیف قسم کا روحانی کشف تھا جس میں آپ کا جسم مبارک اس کرہ ارض سے جدا نہیں ہوا۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے قرآن و حدیث سے ثابت کیا کہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر جانے کا خیال بالکل غلط اور خلاف واقعہ ہے چنانچہ قرآنی بیان کے علاوہ ایک صحیح حدیث میں بھی صراحت کے ساتھ ذکر آتا ہے کہ آسمانوں کی سیر کے بعد آنحضرت ﷺ نیند سے بیدار ہو گئے اور یہ بھی ذکر آتا ہے کہ معراج کی رات میں آنحضرت ﷺ کا جسم مبارک اپنی جگہ سے جدا نہیں ہوا۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے تشریح فرمائی کہ اس قسم کے خیالات کی طرف وہی لوگ جھکتے ہیں جو عجوبہ پسندی اور شعبدہ بازی کے شائق ہوتے ہیں حالانکہ اسلام کی غرض شعبدہ بازی نہیں بلکہ انسان کی اخلاقی اور روحانی اصلاح ہے۔ بے شک لوگوں میں یقین پیدا کرنے کے لئے معجزات کی ضرورت پیش آتی ہے لیکن معجزات بھی حکمت پر مبنی ہوتے ہیں اور بہر حال جس چیز کے متعلق قرآن شریف اور حدیث نے صراحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ روحانی چیز تھی اسے خواہ نخواہ کھینچ کر مادی اور سفلی میدان میں لانے کی کوشش کرنا کسی طرح درست نہیں سمجھا جا سکتا۔ آپ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ معراج کے کشف میں آئندہ کے لئے بعض نہایت لطیف پیشگوئیاں تھیں اور گویا تصویری زبان میں آنحضرت ﷺ کو اپنی اور اپنی امت کی آئندہ ترقیات کا نظارہ دکھایا گیا تھا مگر افسوس ہے کہ دنیا کے کوتہ بینوں نے اسے اس کے اعلیٰ اور اشرف مقام سے گرا کر محض ایک شعبدہ قرار دے دیا۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :۔
’’ سیر معراج اس جسم کثیف کے ساتھ نہیں تھابلکہ وہ نہایت اعلیٰ درجہ کا کشف تھا جس کو درحقیقت بیداری کہنا چاہئے۔ ایسے کشف کی حالت میں انسان ایک نوری جسم کے ساتھ حسب استعداد نفسِ ناطقہ اپنے کے آسمانوں کی سیر کر سکتا ہے۔ پس چونکہ آنحضرت ﷺ کے نفس ناطقہ کی اعلیٰ درجہ کی استعداد تھی اور انتہائی نقطہ تک پہنچی ہوئی تھی اس لئے وہ اپنی معراجی سیر میں معمورۂ عالم کے انتہائی نقطہ تک جو عرش عظیم سے تعبیر کیا جاتا ہے پہنچ گئے۔ سو درحقیقت یہ سیر کشفی تھا جو بیداری سے اشد درجہ پر مشابہ ہے بلکہ ایک قسم کی بیداری ہی ہے۔ میں اس کا نام خواب ہرگز نہیں رکھتا اور نہ کشف کے ادنیٰ درجوں میں سے اس کو سمجھتا ہوں بلکہ یہ کشف کا بزرگ ترین مقام ہے جو درحقیقت بیداری بلکہ اس کثیف بیداری سے یہ حالت زیادہ اصفیٰ اور اجلیٰ ہوتی ہے اوراس قسم کے کشفوں میں مؤلف خود صاحب تجربہ ہے اس جگہ زیادہ لکھنے کی گنجائش نہیں۔ ۱؎
معجزات کی حقیقت :۔ ایک اور لطیف انکشاف جو خدائے علیم نے حضرت مسیح موعود ؑ کے ذریعہ
ظاہر فرمایا وہ معجزات کے متعلق ہے۔ اس بارے میں مسلمانوں کے عقائد اور خیالات میں ایسی ایسی فضول باتیں داخل ہو گئی تھیں کہ انہیں سن کر نہ صرف شرم آتی ہے بلکہ ان سے دین اور ایمان کی غرض و غایت پر ہی پانی پھر جاتا ہے۔ مسلمانوں نے مختلف نبیوں اور ولیوں کی طرف ایسے ایسے معجزات منسوب کر رکھے تھے اور کر رکھے ہیں جن کا کوئی ثبوت قرآن شریف یا حدیث یا کتب سابقہ یا تاریخ میں نظر نہیں آتا اور بعض صورتوں میں استعارہ اور مجاز والے کلام کو حقیقت پر محمول کر کے فرضی معجزوں کا وجود گھڑ لیا گیا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس بارے میں نہایت لطیف بحث فرمائی اور جہاں ایک طرف معجزات کے وجود کو برحق قرار دیا وہاں دوسری طرف ان قصوں اور کہانیوں کو ردی کی طرح پھینک دیا جو بعد کے خوش عقیدہ لوگوں کے تخیل نے اپنے پاس سے بنا لئے تھے آپ نے آیات و معجزات کے متعلق ایسے پختہ اصول بیان فرمائے جن سے اس اہم مگر پیچدار مسئلہ پر گویا ایک چمکتا ہواسورج طلوع کر آیا۔
آپ نے فرمایا کہ معجزہ برحق ہے بلکہ ایمان کو زندہ اور تروتازہ رکھنے کے لئے معجزہ ایک ضروری چیز ہے کیونکہ یہ معجزہ ہی ہے جو انسان کو عقلی دلائل کی دور آمیز فضا سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے مگر اس کے لئے خدا کی طرف سے چند شرائط ضروری اور لازمی کر دی گئی ہیں جنہیں نظر انداز کر کے اصلی اور فرضی معجزہ میں تمیز باقی نہیں رہتی۔ سب سے پہلے تو آپ نے یہ فرمایا کہ معجزہ کو سمجھنے کے لئے ایمان کی حقیقت کا سمجھنا ضروری ہے۔ آپ نے تشریح فرمائی کہ ایمان کی ابتداء ہمیشہ تاریکی اور نور کی سرحد سے شروع ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ ایمان کے ابتدائی مراحل میں ایک خفیف تاریکی کا پردہ حائل رہے اور بالکل روشنی کی صورت نہ پیدا ہو ۔ اگر ایمان کی ابتداء کامل روشنی سے ہو تو ایمان کی غرض و غایت باطل چلی جاتی ہے اور ایمان لاناموجب ثواب نہیں رہتا کیونکہ ایک بدیہی اور بین چیز کو ماننا کسی طرح قابل تعریف نہیں سمجھا جا سکتا۔ مثلاً کوئی شخص اس بات پر تعریف اور انعام کا مستحق نہیں بن سکتا کہ اس نے دن چڑھنے پر سورج کو دیکھ لیا ہے یا اسے چودھویں رات کا چاند نظر آگیا ہے پس ایمان کی ابتدائی حالت میں ایک پہلو تاریکی کا ہونا ضروری ہے مگر یہ بادل کا سا سایہ اس حد تک نہیں ہونا چاہئے کہ ایک عقلمند اور غیر متعصب انسان کو خواہ نخواہ تاریکی کی طرف لے جاوے بلکہ صرف اس حد تک ہونا چاہئے کہ اندھے اور بینا اور عقلمند اور بے وقوف میں تمیز پیدا کر دے اور دیکھنے والے کو تعریف اور انعام کا مستحق بنا دے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ اگر ایک نبی مبعوث ہوتے ہی اس قسم کے معجزات دکھانا شروع کر دے کہ قبروں پر جا کر آواز دے اور اس آواز پر قبروں کے مردے نکل کر باہر آجائیں۔ اور اپنے دشمنوں کی طرف اشارہ کرے اور وہ مرکر زمین میں جا گریں۔ اور اگر شخص اس پر حملہ کرنے آوے تو وہ لوگوں کے دیکھتے دیکھتے آسمان پر چڑھ جاوے وغیرہ وغیرہ تو ظاہر ہے کہ اس قسم کے حالات میں کوئی شخص بھی ایسے نبی کا منکر نہیں رہ سکتا اور ایمان کا معاملہ ایک بے سود چیز بن جاتا ہے پس پہلی شرط معجزات کے لئے یہ ضروری ہے کہ ان میں ایک قسم کا سایہ یعنی دھندلاپن موجود ہو اور کامل روشنی کی صورت نہ پیدا ہو۔
دوسری شرط حضرت مسیح موعود نے یہ بیان فرمائی کہ معجزات میں کوئی بات خدا تعالیٰ کی سنت اور اس کے وعدہ کے خلاف نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اگر ایسا ہو تو خدا پر حرف آنے کے علاوہ دین کے معاملہ میں ساری امان اٹھ جاتی ہے اور کوئی بات بھی پختہ اور قابل تسلی نہیں رہتی۔ مثلاً اگر ایک طرف خدا تعالیٰ اپنے کسی نبی کو یہ تعلیم دے کہ کوئی حقیقی مردہ اس دنیا میں زندہ ہو کر واپس نہیں آسکتا اور دوسری طرف اسی نبی کے ہاتھ پر وہ مردوں کو زندہ کرنا شروع کر دے تو اس سے دین میں ایک ایسا فساد عظیم برپا ہو جائے گا کہ کوئی امن کی صورت باقی نہیں رہے گی اور خدا جو ہر صدق و راستی کا منبع ہے خود اسی کی صداقت معرض شک میں پڑ جائے گی۔ پس دوسری شرط حضرت مسیح موعود نے معجزات کے متعلق یہ بیان فرمائی کہ ان میں کوئی بات خدا تعالیٰ کی کسی سنت یا اس کے کسی وعدے کے خلاف نہیںہونی چاہئے۔
دوسری طرف معجزہ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر کوئی معجزہ معجزہ ہی نہیں کہلا سکتا کہ وہ ایسے حالات کے ماتحت ظہور پذیر ہو کہ نبی کے مخالفوں کو حقیقۃً عاجز کر دے اور وہ اس کی نظیر لانے سے قاصر رہیں کیونکہ اگر یہ شرط نہ پائی جاوے تو پھر معجزہ کا کوئی فائدہ ہی نہیں رہتا او راس کی ساری غرض و غایت باطل چلی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ معجزہ کی ضرورت اسی لئے پیش آتی ہے کہ تا خداتعالیٰ دنیا پر یہ ظاہر کر دے کہ ہمارا یہ بندہ ہماری نصرت اور تائید کے ساتھ کھڑا ہوا ہے اور یہ کہ یہ نصرت اور تائید اس کے مخالفوں کو حاصل نہیں ہے۔ پس ضروری ہے کہ معجزہ میں کوئی نہ کوئی ایسی خارق عادت بات پائی جاوے جو نبی کے مخالفوں کو عاجز کر دے گویا حضرت مسیح موعود ؑ نے معجزہ کے لئے تین شرائط ضروری قرار دیں :۔
اوّل یہ کہ اس میں کوئی نہ کوئی بات ایسی ہو جو دوسروں کو نبی کے مقابل پر عاجز کر دے اور اس کی تہ میں خدا کا ہاتھ نظر آئے۔
دوم یہ کہ اس میں کوئی بات ایسی نہ ہو جو نبی کی سچائی کو روز روشن کی طرح ظاہر کر دے اور تاریکی کا کوئی پہلو بھی باقی نہ رہے بلکہ اس کا کوئی نہ کوئی پہلو ایسا رہنا چاہئے کہ ایک شخص جو اسے صحیح اور کھلی ہوئی نظر کے ساتھ دیکھنے کے لئے تیار نہیں شک میں مبتلا رہے۔
سوم یہ کہ اس میں کوئی بات خدا تعالیٰ کی سنت اور وعدہ کے خلاف نہ ہو۔
یہ شرائط ایسی معقول اور قرآن و حدیث کے ایسی مطابق تھیں کہ انہوں نے اس پیچیدہ مسئلہ پر گویا ایک سورج چڑھا دیا اور ان دونوں قسم کے لوگوں کا منہ بند کر دیا جن میں سے ایک تو نئی روشنی سے متاثر ہو کر معجزات کے وجود سے بالکل ہی منکر ہو رہا ہے اور دوسرا ہر قسم کے فرضی اور خلاف عقل اور خلاف سنت معجزات کو سچ سمجھ کر سینہ سے لگائے بیٹھا ہے اور بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ دونوں قسم کے گروہ مسلمانوں میں کثرت کے ساتھ پائے جاتے ہیں یعنی ایک گروہ وہ ہے جو معجزات کے معاملہ میں ہر قسم کے رطب ویا بس کے ذخیرہ کو سچا سمجھ رہا ہے اور اس گروہ کے لئے معجزہ کی کوئی حدود نہیں اور دوسرا گروہ وہ ہے جو دہریت کے مخفی اثر کے نیچے آکر معجزہ کے وجود سے ہی منکر ہو گیا ہے اور صرف خشک فلسفیانہ باتوں پر دین کی بنیاد رکھتا ہے حضرت مسیح موعود ؑ نے ان دونوں گروہوں کی تردید فرما کر ایک نہایت سچا اور وسطی رستہ کھول دیا۔
معجزات کی اس تشریح کے ماتحت جماعت احمدیہ جہاں سچے اور ثابت شدہ معجزات کی دل و جان سے قائل ہے وہاں ان تمام فرضی معجزات کو رد کرتی ہے جو لوگوں نے حضرت مسیح ناصری یا سید عبدالقادر صاحب جیلانی یا دوسرے مذہبی بزرگوں کی طرف منسوب کر رکھے ہیں۔ مثلاً یہ کہ حضرت مسیح نے سینکڑوں مردوں کو ان کی قبروں میں سے اٹھا کر کھڑا کر دیا۔ یا حقیقی اور واقعی طور پر اندھے لوگوں کو ہاتھ لگا کر بینا بنا دیا۔ یا مٹی کے پرندے بنا کر ان میں پھونک ماری اور وہ زندہ ہو کر خدا کے بنائے ہوئے پرندوں سے مل جل گئے۔ یا جب ان کے مخالفوں نے انہیں پکڑ کر صلیب پر لٹکانا چاہا تو وہ جھٹ حلیہ بدل کر آسمان کی طرف اڑ گئے یا یہ کہ حضرت سید عبدالقادر صاحب نے ایک کئی سال کی ڈوبی ہوئی کشتی کو دریا سے باہر نکال کر اس کے مردوں کو از سر نو زندگی دے دی وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب خوش عقیدگی کے قصے ہیں جن میں کچھ بھی حقیقت نہیں سوائے اس کے کہ بعض صورتوں میں استعارہ کے کلام کو حقیقت پر محمول کر لیا گیا ہے۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے معجزات کے متعلق اپنی تصنیفات میں کئی جگہ بحث فرمائی ہے مگر ہم اس جگہ اختصار کے خیال سے صرف ایک اقتباس کے درج کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :۔
’’ ایمان اس حد تک ایمان کہلاتا ہے کہ ایک بات مِن وجہٍ ظاہر ہو اور مِن وجہٍ پوشیدہ بھی ہو۔ یعنی ایک باریک نظر سے اس کا ثبوت ملتا ہو اور اگر باریک نظر سے نہ دیکھا جائے تو سرسری طور پر حقیقت پوشیدہ رہ سکتی ہولیکن جب سارا پردہ ہی کھل گیا تو کون ہے کہ ایسی کھلی بات کو قبول نہیں کرے گا ۔ سو معجزات سے وہ امور خارق عادت مراد ہیں جو باریک اور منصفانہ نظر سے ثابت ہوں اور بجز مؤیدان الٰہی دوسرے لوگ ایسے امور پر قادر نہ ہو سکیں۔ اسی وجہ سے وہ امور خارق عادت کہلاتے ہیں مگر بدبخت ازلی ان معجزانہ امور سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے … ……… درحقیقت معجزات کی مثال ایسی ہے جیسے چاندنی رات کی روشنی جس کے کسی حصہ میں کچھ بادل بھی ہو۔ مگر وہ شخص جو شب کور ہو جو رات کو کچھ نہیں دیکھ سکتا اس کے لئے یہ چاندنی کچھ مفید نہیں۔ ایسا تو ہرگز نہیں ہو سکتا اور نہ کبھی ہوا کہ اس دنیا کے معجزات اسی رنگ سے ظاہر ہوں جس رنگ سے قیامت میں ظہور ہو گا۔ مثلاً دو تین سو مردے زندہ ہو جائیں اور بہشتی پھل ان کے پاس ہوں اور دوزخ کی آگ کی چنگاریاں بھی پاس رکھتے ہوں اور شہر بہ شہر دورہ کریں اور ایک نبی کی سچائی پر جو قوم کے درمیان ہو گواہی دیں اور لوگ ان کو شناخت کرلیں کہ درحقیقت یہ لوگ مر چکے تھے اور اب زندہ ہو گئے ہیں اور وعظوں اور لیکچروں سے شور مچا دیں کہ درحقیقت یہ شخص جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے سچا ہے۔ سو یاد رہے کہ ایسے معجزات کبھی ظاہر نہیں ہوئے اور نہ آئندہ قیامت سے پہلے کبھی ظاہر ہوں گے اور جو شخص دعویٰ کرتا ہے کہ ایسے معجزات کبھی ظاہر ہو چکے ہیں وہ محض بے بنیاد قصوں سے فریب خوردہ ہے اور اس کوسنت اللہ کا علم نہیں۔ اگر ایسے معجزات ظاہر ہوتے تو دنیا دنیا نہ رہتی اور تمام پردے کھل جاتے اور ایمان لانے کا ایک ذرہ بھی ثواب باقی نہ رہتا۔ یاد رہے کہ معجزہ صرف حق اور باطل میں فرق دکھلانے کے لئے اہل حق کو دیا جاتا ہے اور معجزہ کی اصل غرض صرف اس قدر ہے کہ عقل مندوں اور منصفوں کے نزدیک سچے اور جھوٹے میں ایک مابہ الامتیاز قائم ہو جائے۔ ‘‘ ۱؎
جنت و دوزخ کی حقیقت :۔ جنت و دوزخ کی حقیقت کے متعلق مذاہب میں بڑا اختلاف
ہے اور مسلمانوں نے بھی جنت و دوزخ کا ایک عجیب و غریب نقشہ بنا رکھا ہے جو قرآن شریف اور حدیث کے مفہوم کو غلط سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ عام مسلمانوں میں جو تصور جنت و دوزخ کا پایا جاتا ہے وہ موٹے طور پر یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں اچھے یا برے اعمال بجا لاتا ہے جن کے نتیجہ میں موت کے بعد اسے انعام یا سزا کی صورت میں اجر ملے گا۔ انعام اس صورت میں ہو گا کہ انسان کو علیٰ قدر مراتب بڑے بڑ ے خوبصورت اور شاداب باغوں میں رکھا جائے گا جن میں پانی اور دودھ کی نہریں بہتی ہوں گی اور طرح طرح کے شیریں پھل ہوں گے اور انسان کی خدمت کے لئے مستعد نوجوان لڑکے اور چست و چاق نوجوان لڑکیاں مقرر ہوں گی اور جنت میں کوئی پہلو غم اور تکلیف کا نہیں ہو گا اور انسان کو ایک ابدی اور دائمی خوشی کی زندگی نصیب ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ اس کے مقابل پر دوزخ کی سزا اس صورت میں ہو گی کہ موت کے بعد گندے لوگوں کو ایک ایسی جگہ میں رکھا جائے گا جس کے اندر اور جس کے چاروں طرف خطرناک آگ کے شعلے بلند ہوں گے جس کا ایندھن پتھروں اور گندھک کی قسم کے آتشیں مادوں سے تیار کیا جائے گا اور طرح طرح کے زہریلے اور موذی جانور انسان پر حملہ کر کے اسے کاٹیں گے اور کھانے پینے کے لئے اسے کڑوی اور تکلیف دہ چیزیں دی جائیں گی اور اسی حالت میں اچھے لوگ جنت میں اور خراب لوگ دوزخ میں ہمیشہ کے لئے زندگی گزاریں گے۔
یہ وہ نقشہ ہے جو مسلمانوں کے دلوں میں جنت و دوزخ کے متعلق جگہ پائے ہوئے تھا۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے خدا سے علم پا کر بتایا کہ بے شک قرآن و حدیث میں بظاہر ایسے الفاظ پائے جاتے ہیں جو فی الجملہ اس نقشہ کے مؤید ہیں لیکن یہ نقشہ جنت و دوزخ کی اصلی تصویر نہیں ہے بلکہ یہ الفاظ صرف بطور استعارہ استعمال کئے گئے ہیں جن کے پیچھے ایک اور حقیقت مخفی ہے۔ اسی لئے جہاں ایک طرف قرآن شریف نے جنت و دوزخ کی تمثیل میں اس قسم کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں وہاں قرآن شریف تاکید اور صراحت کے ساتھ یہ بھی فرماتا ہے کہ لَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ۱؎ ’’ یعنی کوئی انسان نہیں جانتا کہ اگلے جہان میں نیک لوگوں کے لئے کیا کچھ آنکھ کی ٹھنڈک کا سامان مخفی رکھا گیا ہے۔ ‘‘ اور حدیث میں آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ لَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ ۲؎ ’’یعنی جنت کی نعمتیں وہ ہیں کہ نہ انہیں کبھی کسی انسان کی آنکھ نے دیکھا نہ کسی انسان کے کانوں نے ان کا حال سنا اور نہ کبھی کسی انسان کے دل میں ان کا تصور گذرا ۔ ‘‘ اس سے ظاہر ہے کہ جو نقشہ قرآن شریف اور حدیث میں آخرت کی زندگی کا بتایا گیا ہے وہ ایک محض تمثیلی نقشہ ہے اور بیان کردہ الفاظ کو ظاہر پر محمول کرنا درست نہیں۔ کیونکہ اگر یہ درست ہے کہ جنت میں یہی ظاہری نہریں اور یہی ظاہری پھل ہوں گے تو پھر یہ بیان غلط قرار پاتا ہے کہ جنت کی نعمتوں کو نہ کبھی کسی نے دیکھا نہ سنا اور نہ کبھی کسی کے دل میں ان کا تصور آیا۔ پس حضرت مسیح موعود ؑ نے بڑی سختی کے ساتھ جنت و دوزخ کے معروف اور مشہور نقشے کو رد فرمایا اور فرمایا کہ چونکہ جنت و دوزخ کی چیزیں ایسی ہیں کہ اس دنیا میںانسان ان کا تصور تک دل میں نہیں لا سکتا اس لئے خدا نے انسانی ادراک کے مطابق ایک محض تمثیلی نقشہ بیان کر دیا ہے مگر اصل حقیقت اور ہے جو اس تمثیل کے پیچھے مخفی ہے ان حالات میں یہ ہرگز درست نہیں ہو گا کہ قرآن و حدیث کے بعض الفاظ کے ظاہری معنے لے کر جنت و دوزخ کا تصور قائم کیا جاوے۔
مگر حضرت مسیح موعود ؑ نے صرف اس قدر مجمل بیان پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ قرآن شریف کی دوسری آیات سے استدلال پکڑ کر اگلے جہان کی زندگی کا ایک ایسا نقشہ پیش فرمایا کہ جس سے علم کا ایک بالکل ہی نیا دروازہ کھل گیا۔ آپ نے فرمایا کہ قرآن شریف کی متعدد آیات سے معلوم ہوا ہے کہ آخرت کی زندگی دنیا کی زندگی کا ہی ایک تسلسل ہے اور کوئی آزاد اور جداگانہ زندگی نہیں ہے۔ یعنی ایسا نہیں کہ انسان اس دنیا میں اچھے یا برے عمل کرے اور پھر مرنے کے بعد اچانک پردہ اٹھ کر اس کے لئے ایک نئے نظارہ اور نئے ماحول کا آغاز شروع ہو جاوے۔ بلکہ اسلام نے آخرت کی زندگی کو اسی دنیوی زندگی کا پَرتَو اور نتیجہ قرار دیا ہے ۔آپ نے فرمایا کہ جو اچھا یا برا عمل انسان اس زندگی میں کرتا ہے وہ اس کے ساتھ ایک نہایت مخفی در مخفی رنگ میں بطور سایہ کے پیوست کر دیا جاتا ہے اور پھر مرنے کے بعد یہ مخفی سایہ آہستہ آہستہ ایک نظر آنے والی حقیقت کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ گویا انسان کا ہر عمل ایک مخفی بیج ہے اور آخرت کا انعام یا سزا اس بیج سے پیدا شدہ درخت ہے جو آخرت میں کھلے طور پر ظاہر ہو کر نظر آنے لگے گا۔ اس تشریح کے ماتحت حضرت مسیح موعود نے بیان فرمایا کہ یہ جو مثلاً جنت میں پھلوں کا ذکر آتا ہے یہ کوئی نئے پھل نہیں ہیں جو اگلے جہان میں آزادانہ طور پر پیدا ہوں گے بلکہ یہ انہی اعمال کا ثمرہ یا مجسمہ ہیں جو ایک انسان اس دنیا میں بجا لاتا ہے مثلاً ایک انسان خدا کی رضا کی خاطر نماز پڑھتا ہے اور اسے اس عبادت میں ایک خاص قسم کی روحانی لذت محسوس ہوتی ہے تو اب آخرت کی زندگی میں یہی روحانی لذت اس کے لئے جسمانی اور ظاہری صورت اختیار کر کے ایک پھل کی شکل میں اس کے سامنے آجائے گی جسے کھا کر وہ اسی قسم کی ظاہری لذت پائے گا جو وہ دنیا میں نماز ادا کر کے روحانی رنگ میں پاتا تھا مگر درجہ اور کیفیت میں اس سے بہت بڑھ چڑھ کر ۔ اسی طرح جو روحانی لذت ایک مومن روزہ میں پاتا ہے وہ آخرت میں ایک دوسری قسم کے پھل کی صورت اختیار کر کے اسے جسمانی رنگ میں حاصل ہو گی وعلیٰ ہذا القیاس اس فلسفہ کی تہ میں نکتہ یہ ہے کہ اس دنیا کی روح آخرت کا جسم ہے یعنی جو روح اس دنیا میں انسان کو ملتی ہے وہ آخرت میں جا کر اس کے لئے جسم بن جائے گی اور اس جسم کے اندر سے ایک اور لطیف جو ہر ترقی پاکر اس روحانی جسم کے لئے روح بن جائے گا اس طرح اس دنیا کی روحانی لذتیں آخرت میں جسمانی لذتوں کی صورت اختیار کر لیں گی۔
بہر حال حضرت مسیح موعود ؑ نے قرآن شریف کی آیات سے ثابت کیا کہ جنت و دوزخ کے انعام یا سزائیں کوئی جداگانہ چیزیں نہیں بلکہ دنیا کی زندگی ہی کے اچھے یا برے اعمال کا پَرتَو ہیں جو آخرت میں مجسم صورت اختیار کر کے ظاہر ہو گا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی اس لطیف تشریح نے جو قرآنی آیات پر مبنی تھی نہ صرف اسلام کے مقدس چہرہ پر سے اس گندے اعتراض کو دور کر دیا کہ اسلام ایک جسمانی لذات والی جنت پیش کرتا ہے بلکہ اخروی زندگی کا نقشہ ہی بدل دیا اور اس کی جگہ ایک نہایت لطیف اور پاکیزہ نقشہ جو اپنے اندر ایک بالکل طبعی کیفیت رکھتا ہے دنیا کے سامنے آگیا ۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :۔
’’ اس دن (یعنی آخرت میں) ہمارے اعمال اور اعمال کے نتائج جسمانی طور پر ظاہر ہوں گے اور جو کچھ ہم اس عالم سے مخفی طور پر ساتھ لے جائیں گے وہ سب اس دن ہمارے چہرہ پر نمودار نظر آئے گا۔ ……خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ۱؎ یعنی کوئی نفس نیکی کرنے والا نہیں جانتا کہ وہ کیا کیا نعمتیں ہیں جو اس کے لئے مخفی ہیں۔ سو خدا تعالیٰ نے ان تمام نعمتوں کو مخفی قرار دیا جن کا دنیا کی نعمتوں میں نمونہ نہیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا کی نعمتیں ہم پر مخفی نہیں ہیں اور دودھ اور انار اور انگور وغیرہ کو ہم جانتے ہیں اور ہمیشہ یہ چیزیں کھاتے ہیں۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ وہ چیزیں اور ہیں اور ان کو ان چیزوں سے صرف نام کا اشتراک ہے۔ پس جس نے بہشت کو دنیا کی چیزوں کا مجموعہ سمجھا اس نے قرآن شریف کا ایک حرف بھی نہیں سمجھا۔ اس آیت کی شرح میں جو ابھی میں نے ذکر کی ہے ہمارے سید و مولا نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ بہشت اور اس کی نعمتیں وہ چیزیں ہیں جو نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھیں اور نہ کسی کان نے سنیں اور نہ دلوں میں کبھی گذریں حالانکہ ہم دنیا کی نعمتوں کو آنکھوں سے بھی دیکھتے ہیں او رکانوں سے بھی سنتے ہیں اور دل میں بھی وہ نعمتیں گزرتی ہیں۔ ‘‘ ۱؎
پھر فرماتے ہیں :۔
’’ قاعدہ کلی کے طور پر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ موت کے بعد جو حالتیں پیش آنی ہیں قرآن شریف نے انہیں تین قسم پر منقسم کیا ہے اور عالم معاد کے متعلق یہ تین قرآنی معارف ہیں جن کو ہم جدا جدا اس جگہ ذکر کرتے ہیں :۔
اوّل یہ دقیقہ معرفت ہے کہ قرآن شریف بار بار یہی فرماتا ہے کہ عالم آخرت کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کے تمام نظارے اسی دنیوی زندگی کے اظلال و آثار ہیں جیسا کہ فرماتا ہے وَکُلُّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنَاہُ طَائِرُہٗ فِیْ عُنُقِہٖ وَنُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کِتَابًا یَّلْقَاہُ مَنْشُوْرًا ۲؎ یعنی ہم نے اس دنیا میں ہر ایک شخص کے اعمال کا اثر اس کی گردن سے باندھ رکھا ہے اور انہی پوشیدہ اثروں کو ہم قیامت کے دن ظاہر کر دیں گے اور ایک کھلے کھلے اعمال نامہ کی شکل پر دکھا دیں گے …………
دوسرا دقیقہ معرفت جس کو عالم معاد کے متعلق قرآن شریف نے ذکر فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ عالم معاد میں وہ تمام امور جو دنیا میں روحانی تھے جسمانی طور پر متمثل ہوں گے۔ …… اس بارے میں جو کچھ خدائے تعالیٰ نے فرمایا اس میں سے ایک آیت یہ ہے وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہِٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَاَضَلُّ سَبِیْلًا ۱؎ یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا ہو گا وہ دوسرے جہان میں بھی اندھا ہو گا۔ اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ اس جہان کی روحانی نابینائی اس جہان میں جسمانی طور پر مشہود اور محسوس ہو گی ………
تیسرا دقیقہ معرفت کا یہ ہے کہ عالم معاد میں ترقیات غیر متناہی ہوں گی …… ……تنزل کبھی نہیں ہو گا اور نہ کبھی بہشت سے نکالے جائیں گے بلکہ ہر روز آگے بڑھیں گے۔……
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن شریف کی رو سے دوزخ اوربہشت دونوں اصل میں انسان کی زندگی کے اظلال اور آثار ہیں۔ کوئی ایسی نئی جسمانی چیز نہیں ہے کہ جو دوسری جگہ سے آوے۔ یہ سچ ہے کہ وہ دونوں جسمانی طور سے متمثل ہوں گے مگر وہ اصل روحانی حالتوں کے اظلال و آثار ہوں گے۔ ہم لوگ ایسی بہشت کے قائل نہیں کہ صرف جسمانی طور پر ایک زمین پر درخت لگائے گئے ہوں اور نہ ایسی دوزخ کے ہم قائل ہیں جس میں درحقیقت گندھک کے پتھر ہیں بلکہ اسلامی عقیدہ کے موافق بہشت و دوزخ انہی اعمال کے انعکاسات ہیں جو دنیا میں انسان کرتا ہے۔ ‘‘ ۲؎
اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ تعلیم دی کہ گو جنت کا انعام دائمی ہے اور کبھی ختم نہیں ہو گا مگر دوزخ کا عذاب دائمی نہیں ہے بلکہ ایک لمبے زمانہ کے بعد ختم ہو جائے گا کیونکہ اسلامی تشریح کے مطابق دوزخ صرف ایک عذاب خانہ ہی نہیں بلکہ ایک رنگ کا ہسپتال بھی ہے جس میں ہر روحانی مریض اپنی مرض کی شدت کے مطابق وقت گزار کر بالآخر خدا کی رحمت سے حصہ پائے گا اور دوزخی لوگ آہستہ آہستہ دوزخ کو خالی کر کے جنت کی طرف منتقل ہوتے جائیں گے۔
فرماتے ہیں :۔
’’ قرآن شریف میں خدا فرماتا ہے اِلَّا مَاشَائَ رَبُّکَ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْد ۱؎ یعنی دوزخی لوگ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے لیکن نہ وہ ہمیشگی جو خداکو ہے بلکہ دور دراز مدت کے لحاظ سے۔ پھر خدا کی رحمت دستگیر ہو گی کیونکہ وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اور اس آیت کی تشریح میں ہمارے سیدو مولا نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث بھی ہے اور وہ یہ ہے یَاتِیْ عَلٰی جَھَنَّمَ زَمَانٌ لَیْسَ فِیْھَا اَحَدٌ وَنَسِیْمُ الصَّبَا تُحَرِّکُ اَبْوَابَھَا یعنی جہنم پر ایک وہ زمانہ آئے گا کہ اس میں کوئی بھی نہ ہو گا اور نسیم صبا اس کے کواڑوں کو ہلائے گی۔‘‘۲؎
اسلامی فرقوں کے باہمی اختلافات :۔ موجود الوقت مسلمانوں میں بہت سے فرقے
پائے جاتے ہیں جن کی تعداد ایک حدیث نبوی کی رو سے بہتر (۷۲) تک پہنچتی ہے مگر موٹے طور پر دیکھا جاوے تو مسلمانوں کے اندرونی فرقوں کی تقسیم اس طرح پر ہے کہ ایک بڑا فرقہ اہل سنت و الجماعت کا ہے اور دوسرا فرقہ شیعہ اصحاب کا ہے۔ پھر اہل سنت میں یہ تقسیم ہے کہ ایک فرقہ اہل فقہ یعنی مقلدین کا ہے اور دوسرا اہل حدیث کا ہے اور تیسرا اہل تصوف یعنی اہل طریقت کا ہے۔ اس طرح موٹے طور پر یہ چار فرقے بنتے ہیں یعنی اہل فقہ ۔ اہل حدیث۔ اہل تصوف اور شیعہ ۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے ان فرقوں کے متعلق بھی اپنی تصنیفات میں متعدد جگہ تبصرہ فرمایا ہے خلاصہ جس کا یہ ہے کہ اپ نے شیعہ اصحاب کو اس بات میں سخت غلطی پر قرار دیا کہ انہوں نے خلافت راشدہ سے انکار کر کے اور صحابہ کی پاک جماعت پر طعن کی زبان کھول کر اسلام میں ایک سخت رخنہ پیدا کر دیا ہے اور کئی باتوں میں سنت نبوی سے منحرف ہو کر گویا ایک نئی عمارت کھڑی کر دی ہے۔ اہل سنت کے تین مشہور فرقوں میںسے آپ ہر اک میں کئی جہت سے خوبیاں تسلیم فرماتے تھے مگر فرماتے تھے کہ ان میں سے ہر اک فرقہ بعض پہلوئوں سے جادہ صواب سے منحرف ہو گیا ہے۔ مثلاً اہل فقہ نے تقلید میں ایسا اندھا دھند طریق اختیار کر لیا ہے کہ وہ اپنے مقررہ امام کے قول کے خلاف قرآن و حدیث تک کاکوئی استدلال سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اور اہل حدیث نے یہ غلطی کی ہے کہ اجتہاد کے دروازے کو بالکل ہی وسیع کر دیا ہے اور جو واجبی وزن علماء اور ائمہ کے اقوال کو ہونا چاہئے اس سے بھی انہیں محروم کر دیا ہے۔ بلکہ بعض صورتوں میں ائمہ کرام کی ہتک کا طریق اختیار کیا ہے اور اہل تصوف کے متعلق فرماتے تھے کہ یہ آہستہ آہستہ شریعت کے ظاہر سے ہٹ کر بعض بدعتوں میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ مگر باوجود اس کے حضرت مسیح موعود ؑ ان جملہ فرقوں کی بہت سی خوبیوں کو تسلیم فرماتے تھے اور شیعہ اور سنی ہر دو فرقوں کے بزرگوں کو بڑی عزت کی نظر سے دیکھتے تھے۔
جماعت احمدیہ کی عملی اصلاح :۔ یہ وہ عقائد ہیں جن پر حضرت مسیح موعود ؑ نے خدا سے حکم پا کر
سلسلہ احمدیہ کی بنیاد رکھی۔ ان کے علاوہ بعض اور عقائد بھی ایسے ہیں جن میں جماعت احمدیہ اوردوسرے مسلمانوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے مگر زیادہ اہم اور زیادہ معروف عقائد یہی ہیں جو ہم نے اوپر وبیان کر دئیے ہیں۔ اگر احمدیت کے ان مخصوص عقائد کو اسلام کی مشترک اور مسلم تعلیم کے ساتھ ملا کر دیکھا جاوے تو جماعت احمدیہ کے اصولی عقائد کا ایک اجمالی نقشہ مکمل ہو جاتا ہے اور اسی لئے ہم نے سابقہ باب میں اسلامی تعلیم کا ڈھانچہ بھی درج کر دیا ہے تا کہ احمدیت کی تصویر کا وہ عقبی منظر جس پر قدرت کے ہاتھ نے یہ جدید نقوش قائم کئے ہیں ہمارے ناظرین کے سامنے رہے اور وہ تحریک احمدیت کے وسیع میدان پر ایک مجموعی نظر ڈال کر صحیح رائے قائم کر سکیں۔
مگر کوئی مذہبی سلسلہ صرف عقائد کی اصلاح تک اپنے کام کو محدود نہیں رکھ سکتا کیونکہ مذہب کی بڑی غرض و غایت اعمال کی اصلاح ہے اور دنیا میں کوئی قوم کامل ترقی حاصل نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ عقائد کے ساتھ ساتھ اعمال کی بھی اصلاح نہ کرے اور الحمد للہ کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی تعلیم اور روحانی تاثیر کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ نے اس میدان میں بھی غیر معمولی نمونہ پیش کیا ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ہم میں کوئی شخص بھی کمزور نہیں۔ بے شک ہم میں بعض لوگ کمزور ہیں لیکن بعض کا کمزور ہونا جماعت کی مجموعی حیثیت کوگرا نہیں سکتا۔ ایک اعلیٰ سے اعلیٰ مدرسہ کی اچھی سے اچھی کلاس میں بھی سب طالب علم ایک سے نہیں ہوتے۔ پس دیکھنا یہ چاہئے کہ بحیثیت مجموعی کسی جماعت کا کیا حال ہے اور یقینا اس معیار کے مطابق جماعت احمدیہ کا مقام دوسری تمام جماعتوں سے نمایاں طور پر بلند و بالا ہے۔ عبادات میں ،معاملات میں ،قربانی میں ،تبلیغی جوش میں جماعت احمدیہ نے ایک حیرت انگیز ترقی کی ہے جس کی مثال اس زمانہ میں کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتی۔
عبادات میں یہ حال ہے کہ وہ لوگ جو پہلے کبھی فرض نماز تک کے قریب نہیں جاتے تھے اب وہ ایسے نمازی بن گئے ہیں کہ اگر ان سے کبھی تہجد کی نفلی نماز بھی رہ جاوے تو گھنٹوں ان کے دل پر غم کا بوجھ رہتا ہے۔ جو لوگ رمضان کے مبارک مہینہ میں ایک روزہ بھی نہیں رکھتے تھے۔ اب وہ رمضان کے علاوہ بھی سال میں کئی کئی دن نفلی روزے رکھتے ہیں اور پھر بھی ان کی طبیعت سیر نہیں ہوتی۔ اسی طرح دوسری عبادتوں کا حال ہے۔
معاملات میں بھی ایک غیر معمولی تغیر نظر آتا ہے جو لوگ کئی کئی قسم کی کمزوریوں میں مبتلا تھے اور انصاف کا خون کرنا اور دوسروں کے حقوق غضب کرنا ان کا شیوہ تھا اب وہ بالکل ہی نئے انسان بن گئے ہیں اور وفاداری اور انصاف اور دیانت ان کا امتیازی نشان ہے ۔ ہزاروں لوگ جو احمدیت سے پہلے طرح طرح کی کمزوریوں کا شکار تھے اب وہ عملاً ولیوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ ان معاملات میں نام لے کر مثالیں دینا اچھا نہیں ہوتا مگر ناظرین کو اس بات کا اندازہ کرانے کے لئے کہ احمدیت نے کیا تغیر پیدا کیا ہے میں اس جگہ دو مثالیں بغیر نام لینے کے بیان کرتا ہوں۔ ایک صاحب ضلع سیالکوٹ پنجاب کے رہنے والے ہیں وہ سرکاری ملازمت میں تھے اور احمدیت سے پہلے انہوں نے حسب دستور زمانہ لوگوں سے بے دریغ رشوت لی۔ مگر جب خدا نے انہیں احمدیت سے مشرف کیا تو انہوں نے حضرت مسیح موعود ؑ کی تعلیم کے ماتحت اس کمزوری کو نہ صرف یکدم ترک کر دیا بلکہ جن جن لوگوں سے رشوت لی تھی ان سب کے گھروں پر جا جا کر ان سے معافی مانگی اور رشوت کا سارا روپیہ واپس کیا اور جب اپنی پونجی ختم ہو گئی تو جدی جائیداد فروخت کر کے حساب بے باق کیا۔ ایک اور صاحب ضلع گجرات کے تھے جو اب فوت ہو چکے ہیں۔ یہ صاحب احمدیت سے پہلے اپنے علاقہ کے مشہور ڈاکو اور رہزن تھے اور جتھوں میں ہو کر نہایت دلیرانہ وارداتیں کیا کرتے تھے لیکن احمدیت کے بعدان میں ایسا تغیر آیا کہ میں نے خود انہیں ایسی حالت میں دیکھا ہے کہ ان کی زبان پر اکثر خدا اور اس کے رسول کا ذکر رہتا تھا اور اپنا اکثر وقت عبادت اور خدمت دین میں گزارتے تھے۔
مالی قربانی کا یہ حال ہے کہ جن لوگوں کو احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے خدا کی راہ میں ایک پیسہ تک خرچ کرنا دو بھر تھا اب وہ اس رستہ میں پانی کی طرح روپیہ بہاتے ہیں اور اس قربانی میں انہیں دلی خوشی محسوس ہوتی ہے ۔ جماعت کے اکثر افراد پابندی کے ساتھ اپنی کل آمد کا دسواں حصہ خدا کے رستے میں دیتے ہیں اور بہت ہیں جو پانچواں یا تیسرا حصہ دیتے ہیں اور بعض یقینا اس سے بھی زیادہ دیتے ہیں۔ یہ باتیں محض قیاسی نہیں بلکہ جماعت کے چندوں کے رجسٹرات سے ان کا ثبوت مل سکتا ہے اور میں یہ بات خوش عقیدگی سے نہیں کہتا بلکہ ذاتی علم کی بنا پر ایک حقیقت بیان کرتا ہوں کہ جماعت کا کثیر حصہ ایسا ہے جس کے لئے وہ مال جو وہ دین کے رستے میں خرچ کرتا ہے اس مال سے بہت زیادہ خوشی کا موجب ہوتا ہے جو وہ اپنے لئے رکھتا ہے۔
یہی حال جان کی قربانی کا ہے۔ جماعت احمدیہ کا ہر مخلص فرد دین کی خاطر اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھے ہوئے ہے اور اس وقت کے لئے بے تاب ہے جب اسے دین کے رستے میں خدا کی آواز پر لبیک کہنا پڑے۔ ہندوستان میں تو ملکی حالات کی وجہ سے ایسے موقعے نہیں پیش آئے لیکن بعض بیرونی حکومتوں میں کئی احمدی اپنے عقائد کی وجہ سے جان سے مار دئیے گئے ہیں اور انہوں نے اس قربانی کو خوشی کے ساتھ قبول کیا۔ کابل کی حکومت میں جماعت کے دو معزز افراد کو احمدیت کی وجہ سے زمین میں کمر تک دفن کر کے اوپر سے پتھر برسائے گئے مگر انہوں نے خدا کی حمد کے گیت گاتے ہوئے جان دی اور ایک سیکنڈ کے لئے بھی لغزش نہیں کھائی۔
تبلیغی جوش کا یہ عالم ہے کہ ہر مخلص احمدی ایک پر جوش مبلغ ہے او رتبلیغ کو اپنا ایک مقدس فرض سمجھتا ہے۔ عالم ہے تو وہ مبلغ ہے ان پڑھ ہے تو وہ مبلغ ہے۔ بچہ ہے تو وہ مبلغ ہے بوڑھا ہے تو وہ مبلغ ہے۔ مرد ہے تو وہ مبلغ ہے عورت ہے تو وہ مبلغ ہے۔ غرض ہر مخلص احمدی اپنی سمجھ او ربساط کے مطابق اس پیغام حق کو پھیلانے میں مصروف ہے جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ دنیا تک پہنچا ہے اور یہ تبلیغی جدوجہد ان کثیر التعداد منظم مشنوں کے علاوہ ہے جو جماعت احمدیہ کی زیر نگرانی دنیا کے مختلف حصوں میں قائم ہیں۔ یقینا یہ نقشہ ایک عظیم الشان عملی تبدیلی کا ثبوت ہے جو حضرت مسیح موعود ؑ کی روحانی تاثیر نے جماعت احمدیہ میں پیدا کی ہے اور اگر حضرت مسیح ناصری کا یہ قول درست ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے تو لاریب حضرت مسیح موعود ؑ کے شیریں پھل نے بتا دیا ہے کہ یہ درخت بندوں کا نہیں بلکہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ اپنی جماعت کے متعلق فرماتے ہیں :۔
’’ میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ سچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت اس قدر روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہو جاتے ہیں۔ میں اپنے ہزارہا بیعت کنندوں میں اس قدر تبدیلی دیکھتا ہوں کہ موسیٰ نبی کے پیروان سے جو ان کی زندگی میں ان پر ایمان لائے تھے ہزارہا درجہ ان کو بہتر خیال کرتا ہوں اور ان کے چہرہ پر صحابہ کے اعتقاد اور صلاحیت کا نور پاتا ہوں۔ ہاں شاذ و نادر کے طور پر اگر کوئی اپنی فطرتی نقص کی وجہ سے صلاحیت میں کم رہا ہو تو وہ شاذ و نادر میں داخل ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ ہے ۔ ہزارہا آدمی دل سے فدا ہیں اگر آج ان کو کہا جائے کہ اپنے تمام اموال سے دست بردار ہو جائو تو وہ دست بردار ہو جانے کے لئے مستعد ہیں۔ پھر بھی میں ہمیشہ ان کو اور ترقیات کے لئے ترغیب دیتا ہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سناتا مگر دل میں خوش ہوں۔ ‘‘ ۱؎
یہ ایک حسن ظنی اور خود بینی کی رائے نہیں تھی جو ایک امام نے اپنی جماعت کے لئے خود قائم کر لی ہو بلکہ غیر لوگ اور دشمن تک جماعت احمدیہ کی اس تبدیلی کو تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ مسٹر محمد اسلم جرنلسٹ لکھتے ہیں :۔
’’ اس جماعت کے اکثر افراد بمقابلہ باقی اسلامی فرقوں کے زہد و تقویٰ میں بہت بڑھے ہوئے ہیں اور ان میں اسلام کی محبت کا جوش ایک صادقانہ پہلو لئے ہوئے ہے۔ …… قرآن مجید کے متعلق جس قدر صادقانہ محبت اس جماعت میں میں نے دیکھی کہیں نہیں دیکھی …… جو کچھ میں نے احمدی قادیان میں جا کر دیکھا وہ خالص اور بے ریا توحید پرستی تھی۔ ‘‘ ۲؎
مسٹر فریڈرک جرمن سیاح لکھتے ہیں :۔
’’ قادیان دہلی اور آگرہ کی طرح شاندار عمارات کا مجموعہ نہیں لیکن ایک ایسی جگہ ہے جس کے روحانی خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے۔ یہاں ہر دن جو گزارا جائے انسان کی روحانیت میں اضافہ کرتا ہے …… میں نے ایشیا میں ایک لمبا سفر کیا ہے اور بہت مقامات دیکھے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہیں دوبارہ دیکھنے کی خواہش نہیں۔ بعض ایسے ہیں جنہیں پھر دیکھنے کو دل چاہتا ہے اور ایسے مقامات میں قادیان کا نمبر سب سے اوّل ہے۔ ‘‘ ۳؎
پادری ایچ کریمر امریکن مشنری لکھتے ہیں :۔
’’ مسلمانوں میں صرف یہی جماعت ہے جسکا واحد مقصد تبلیغ اسلام ہے ۔ اگرچہ ان کی طرز تبلیغ میں کسی قدر سختی پائی جاتی ہے تا ہم ان لوگوں میں قربانی کی روح اور تبلیغ اسلام کا جوش اور اسلام کے لئے سچی محبت کو دیکھ کر دل سے بے اختیار تعریف نکلتی ہے … میں جب قادیان گیا تو میں نے دیکھاکہ وہاں کے لوگ اسلامی جوش میں اور اسلام کی آئندہ کامیابی کی امیدوں سے سرشار ہیں۔ ‘‘ ۱؎
مشہور عالم پادری زویمر نے جب قادیان کو دیکھا تو اس کے اداروں کا معائنہ کر کے یہ رائے ظاہر کی کہ :۔
’’ یہ ایک اسلحہ خانہ ہے جو غیر ممکن کو ممکن ثابت کرنے کے لئے تیار کیا گیا ہے ۔ راسخ الاعتقادی کا یہ عالم ہے کہ وہ پہاڑوں کو جنبش دینے والی ہے۔ ‘‘ ۲؎
اخبار تیج دہلی میں ایک جوشیلے آریہ سماجی نے لکھا :۔
’’ تمام دنیا کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ ٹھوس اور مسلسل تبلیغی کام کرنے والی طاقت صرف احمدیہ جماعت ہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم سب سے زیادہ اسی کی طرف سے غافل ہیں …… بلامبالغہ احمدیہ تحریک ایک خوفناک آتش فشاں پہاڑ ہے جو بظاہر اتنا خوفناک معلوم نہیں ہوتا مگر اس کے اندر ایک تباہ کن اور سیال آگ کھول رہی ہے جس سے بچنے کی کوشش نہ کی گئی تو کسی وقت موقعہ پا کر ہمیں بالکل جھلس دے گی۔ ‘‘ ۳؎


احمدیت کی غرض و غایت
جماعت احمدیہ کے عقاید بیان کرنے کے بعد ہم احمدیت کی غرض و غایت کے متعلق ایک مختصر نوٹ ہدیۂ ناظرین کرنا چاہتے ہیں۔ اس کتاب کے شروع میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ احمدیت کی بنیادی غرض و غایت اسلام کی تجدید اور اسلام کی خدمت اور اسلام کی اشاعت ہے مگر موجودہ باب میں احمدیت کی غرض و غایت سے ہماری مراد یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کے ذریعہ کن خیالات کی اشاعت چاہتا ہے اور کس طریق کو قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے بلکہ اس جگہ احمدیت کی غرض و غایت سے اس کا منتہیٰ اور مقصد اور اس مقصد کے حصول کا طریق مراد ہے۔
سو اس تعلق میں سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ احمدیت کسی سوسائٹی کا نام نہیں ہے جو ایک اصلاحی پروگرام کے ماتحت قائم کی گئی ہو اور نہ ہی وہ دنیا کے نظاموں میں سے ایک نظام ہے جس کا مقصد کسی خاص سکیم کا اجرا ہو بلکہ وہ ایک خالصۃً الٰہی تحریک ہے جو اسی طریق اور اسی منہاج پر قائم کی گئی ہے جس طرح قدیم سے الٰہی سلسلے قائم ہوتے آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جب دنیا کے لوگ اپنے خالق و مالک کو بھلا کر اور اپنی پیدائش کی غرض و غایت کی طرف سے آنکھیں بند کر کے دنیا کی باتوں میں منہمک ہو جاتے ہیں اور قرب الٰہی کی برکات سے محروم ہو کر اس اخلاقی اور روحانی مقام سے نیچے گر جاتے ہیں جس پر خدا انہیں قائم رکھنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے کسی پاک بندے کو مبعوث کر کے انہیں پھر اپنی طرف اٹھاتا ہے اور ان کے اخلاق اور ان کے تہذیب و تمدن کو ایک نئے قالب میں ڈھال کر ایک جدید نظام کی بنیاد قائم کر دیتا ہے۔ یہ اسی قسم کا انقلاب ہوتا ہے جس طرح کہ حضرت موسیٰ ؑ کے وقت میں ہوا یا جس طرح حضرت مسیح ناصری کے وقت میں ظہور میں آیا یا جس طرح آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں رونما ہوا کہ خدا نے ان مقدس نبیوں کے ذریعہ ایک بیج بوکر بالآخر اسی بیج کے نتیجہ میں دنیا کی کایا پلٹ دی۔ پس حضرت مسیح موعود ؑ کی بعثت بھی کسی اصلاحی سوسائٹی کے قیام کی صورت میں نہیں ہے اور نہ ہی وہ ایک وقتی دنیوی نظام کا رنگ رکھتی ہے بلکہ وہ ایک جدید اور مستقل الٰہی نظام کی داغ بیل ہے جس کے لئے یہ مقدر ہے کہ وہ آہستہ آہستہ سارے نظاموں کو مغلوب کر کے دنیا کو ایک نئی صورت میں ڈھال دے گا۔
یہ نظام ملکی اور قومی حدود میں مقید نہیں (کیونکہ حضرت مسیح موعود ؑ کی بعثت اپنے مخدوم نبی کی طرح ساری دنیا کے لئے تھی) بلکہ تمام ملکوں اور سب قوموں اور سارے زمانوں کے لئے وسیع ہے اور جو انقلاب احمدیت کے پیش نظر ہے وہ دو پہلو رکھتا ہے۔ اوّل خدا تعالیٰ کے ساتھ بندوں کے تعلق کو ایک نئی بنیاد پر قائم کر دینا جس میں خدا تعالیٰ کا وجود ایک خیالی فلسفہ نہ ہو بلکہ ایک زندہ حقیقت کی صورت اختیار کر لے اور انسان کا اپنے خالق و مالک کے ساتھ سچ مچ پیوند ہو جاوے۔ دوسرے بندوں بندوں کا باہمی تعلق بھی ایک نئے قانون کے ماتحت نیا رنگ اختیار کر لے جس میں حقیقی مساوات اور انصاف اور تعاون اور ہمدردی کی روح کا قوام ہو۔ یہ تبدیلی اسلامی تعلیم کے ماتحت اور اسی کے مطابق عمل میں آئے گی مگر اس کا اجرا اسی رنگ میں ہو گا جس طرح کہ تمام الٰہی سلسلوں میں ہوتا چلا آیا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک الہام اس انقلاب کا خوب نقشہ کھینچتا ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حالت کشف میں دیکھا کہ میرے اندر خدا حلول کر گیا ہے اور میرا کچھ باقی نہیں رہا بلکہ سب کچھ خدا کا ہو گیا ہے اور گویا میں خدا بن گیاہوں اور پھر میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے کہ :۔
’’ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں۔ ‘‘ ۱؎
اس کشفی الہام سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی بعثت اپنے اندر ایک نہایت اہم اور نہایت وسیع غرض و غایت رکھتی ہے اور وہ غرض و غایت یہی ہے کہ دنیا کے موجودہ نظام کو توڑ کر اس کی جگہ ایک بالکل نیا نظام قائم کر دیا جاوے۔ اس کشف میں آسمان سے مراد حقوق اللہ ہیں اور زمین سے مراد حقوق العباد ہیں۔ یعنی حضرت مسیح موعود ؑ کے ذریعہ جو انقلاب مقدر ہے وہ لوگوں کے دین اور دنیا دونوں پر ایک سا اثر انداز ہو گا اور گویا اس جہان کا آسمان بھی بدل جائے گا اور زمین بھی بدل جائے گی او رآسمان اور زمین کے الفاظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ یہ تبدیلی ملکی اور قومی نہیں ہو گی بلکہ جس طرح یہ آسمان اور یہ زمین سارے جہان کے لئے وسیع ہیں اور سب پر حاوی ہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑ کے ذریعہ ایک عالمگیر انقلاب پیدا ہو گا جس سے دنیا کا کوئی ملک اور دنیا کی کوئی قوم باہر نہیں رہے گی ۔ یہ ایک بہت بڑا دعویٰ ہے اور اس وقت اندھی دنیا ہمارے اس دعویٰ پر ہنستی ہے اور ایک زمانہ تک ہنستی رہے گی مگر مستقبل بتا دے گا کہ خدا کے فضل سے یہ سب کچھ ہو کر رہے گا۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:۔
’’ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں۔ سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔ ‘‘ ۱؎
الغرض حضرت مسیح موعود ؑ کی بعثت کی غرض و غایت اور منتہیٰ یہ ہے کہ تجدید اسلام اور اشاعت اسلام کے کام کو اس رنگ میں مکمل کیا جاوے کہ دنیا میں ایک انقلاب پیدا ہو جاوے اور دنیا کے موجودہ نظام کو توڑ کر اور موجودہ تہذیب و تمدن کے نام و نشان کو مٹا کر صحیح اسلامی نظام او رصحیح اسلامی تہذیب کو قائم کیا جاوے تا کہ یہ دنیا جو اب مردہ روحانیت اور گندی تہذیب کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہی وہ ایک نئی زمین اور نئے آسمان کے نیچے آکر پھر بہشت کا نمونہ بن جاوے۔ دنیا اس دعویٰ پر بے شک جتنی چاہے ہنسی اڑائے اور اس کے رستہ میں جتنی چاہے روکیں ڈالے مگر حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :۔
قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا
یعنی یہ ایک خدائی تقدیر ہے جو ہر حال میں ہو کر رہے گی۔


خلافت کا نظام اور حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ کا عہدِ خلافت
اُوپر کے ابواب میں ہم سلسلہ احمدیہ کی تعلیم اور احمدیت کی غرض و غایت کا ایک مختصر نقشہ ہدیہ ناظرین کر چکے ہیں۔ یہ نقشہ حضرت مسیح موعودؑ کے سوانح حیات کے معاً بعد درج کیا جانا ضروری تھا تا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے خداداد مشن کی پوری پوری تصویر یکجا طور پر ناظرین کے سامنے آجائے۔ اس کے بعد ہم پھر سلسلہ احمدیہ کے تاریخی پہلو کی طرف عود کر کے ان حالات کو بیان کرنا چاہتے ہیں جو حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کے بعد جماعت کو پیش آئے۔ مگر اس سے پہلے نظام خلافت کے متعلق ایک مختصر نوٹ درج کرنا بے جا نہ ہو گا۔
خلافت کا نظام :۔ قرآن شریف کی تعلیم اور سلسلہ رسالت کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ
جب اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی رسول اور نبی کو بھیجتا ہے تو اس سے اس کی غرض یہ نہیں ہوتی کہ ایک آدمی دنیا میں آئے اور ایک آواز دے کر واپس چلا جاوے۔ بلکہ ہر نبی اور رسول کے وقت خداتعالیٰ کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں ایک تغیر او رانقلاب پیدا کرے جس کے لئے ظاہری اسباب کے ماتحت ایک لمبے نظام اور مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے اور چونکہ ایک آدمی کی عمر بہر حال محدود ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ نبی کے ہاتھ سے صرف تخم ریزی کا کام لیتا ہے اور اس تخم ریزی کو انجام تک پہنچانے کے لئے نبی کی وفات کے بعد اس کی جماعت میں سے قابل اور اہل لوگوں میں یکے بعد دیگرے اس کے جانشین بنا کر اس کے کام کی تکمیل فرماتاہے۔ یہ جانشین اسلامی اصطلاح میں خلیفہ کہلاتے ہیں کیونکہ خلیفہ کے معنے پیچھے آنے والے اور دوسرے کی جگہ قائم مقام بننے والے کے ہیں۔ یہ سلسلہ خلافت قدیم زمانہ سے ہر نبی کے بعد ہوتا چلا آیا ہے چنانچہ حضرت موسیٰ ؑ کے بعد یوشع خلیفہ ہوئے اور حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد پطرس خلیفہ ہوئے اور آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ ہوئے بلکہ آنحضرت ﷺ کے بعد یہ سلسلہ خلافت تمام سابقہ نبیوں کی نسبت زیادہ شان اور زیادہ آب و تاب کے ساتھ ظاہر ہوا۔ اس نظام خلافت میں نبی کے کام کی تکمیل کے علاوہ ایک حکمت یہ بھی مدنظر ہوتی ہے کہ تا جو دھکا نبی کی وفات کے وقت نبی کی نئی نئی جماعت کو لگتا ہے جو ایک ہولناک زلزلہ سے کم نہیں ہوتا اس میں جماعت کو سنبھالنے کا انتظام رہے۔ پس ضروری تھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے وقت میں بھی خدا کی یہ قدیم سنت پوری ہو چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :۔
’’ خدا کا کلام مجھے فرماتا ہے کہ …… وہ اس سلسلہ کو پوری ترقی دے گا ۔ کچھ میرے ہاتھ سے کچھ میرے بعد۔ یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے…… اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے …… ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے …… غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے (۱) اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے (۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے …… خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت ﷺ کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا …… ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا …… ایسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوا …… سو اے عزیزو ! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے …… سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے… میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے۔ ‘‘ ۱؎
خلفاء کے تقرر اور ان کے مقام کے متعلق اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ خلافت کا منصب کسی صورت میں بھی ورثہ میں نہیں آسکتا بلکہ یہ ایک مقدس امانت ہے جو مومنوں کے انتخاب کے ذریعہ جماعت کے قابل ترین شخص کے سپرد کی جاتی ہے اور چونکہ نبی کی جانشینی کا مقام ایک نہایت نازک اور اہم روحانی مقام ہے اس لئے اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ گو بظاہر خلیفہ کا انتخاب لوگوں کی رائے سے ہوتا ہے مگر اس معاملہ میں خدا تعالیٰ خود آسمان سے نگرانی فرماتا ہے اور اپنے تصرفِ خاص سے لوگوں کی رائے کو ایسے رستہ پر ڈال دیتا ہے جو اس کے منشاء کے مطابق ہو۔ اس طرح گو بظاہر خلیفہ کا تقرر انتخاب کے ذریعہ عمل میں آتا ہے مگر دراصل اس انتخاب میں خدا کی مخفی تقدیر کام کرتی ہے اور اسی لئے خدا نے خلفاء کے تقرر کو خود اپنی طرف منسوب کیا ہے اور فرمایا ہے کہ خلیفہ ہم خود بناتے ہیں یہ ایک نہایت لطیف روحانی انتظام ہے جسے شاید دنیا کے لوگوں کے لئے سمجھنا مشکل ہو مگر حقیقت یہی ہے کہ خلیفہ کا تقرر ایک طرف تو مومنوں کے انتخاب سے اور دوسری طرف خدا کی مرضی کے مطابق ظہور پذیر ہوتا ہے اور خدائی تقدیر کی مخفی تاریں لوگوں کے دلوں کو پکڑ پکڑ کر منظورِ ایزدی کی طرف مائل کر دیتی ہیں۔ پھر جب ایک شخص خدائی تقدیر کے ماتحت خلیفہ منتخب ہو جاتا ہے تو اس کے متعلق اسلام کا حکم یہ ہے کہ تمام مومن اس کی پوری پوری اطاعت کریں اور خود اس کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ تمام اہم اور ضروری امور میں مومنوں کے مشورہ سے کام کرے اور گو وہ مشورہ پر عمل کرنے کا پابند نہیں بلکہ اگر مناسب خیال کرے تو مشورہ کو رد کر کے اپنی رائے سے جس طرح چاہے فیصلہ کر سکتا ہے۔ مگر بہر حال اسے مشورہ لینے اور لوگوں کی رائے کا علم حاصل کرنے کا ضرور حکم ہے۔
اسلام میں یہ نظام خلافت ایک نہایت عجیب و غریب بلکہ عدیم المثال نظام ہے یہ نظام موجود الوقت سیاسیات کی اصطلاح میں نہ تو پوری طرح جمہوریت کے نظام کے مطابق ہے اور نہ ہی اسے موجودہ زمانہ کی ڈکٹیٹرشپ کے نظام سے تشبیہہ دے سکتے ہیں بلکہ یہ نظام ان دونوں کے بین بین ایک علیحدہ قسم کا نظام ہے ۔ جمہوریت کے نظام سے تو وہ اس لئے جدا ہے کہ جمہوریت میں صدر حکومت کا انتخاب میعادی ہوتا ہے مگر اسلام میں خلیفہ کا انتخاب میعادی نہیں بلکہ عمر بھر کے لئے ہوتا ہے۔ دوسرے جمہوریت میں صدر حکومت بہت سی باتوں میں لوگوں کے مشورہ کا پابند ہوتا ہے مگر اسلام میں خلیفہ کو مشورہ لینے کا حکم تو بے شک ہے مگر وہ اس مشورہ پر عمل کرنے کا پابند نہیں۔ بلکہ مصلحتِ عامہ کے ماتحت اسے رد کر کے دوسرا طریق اختیار کر سکتا ہے۔ دوسری طرف یہ نظام ڈکٹیٹرشپ سے بھی مختلف ہے کیونکہ اول تو ڈکٹیٹرشپ میں میعادی اور غیر میعادی کا سوال نہیں ہوتااور دونوں صورتیں ممکن ہوتی ہیں دوسرے ڈکٹیٹر کو عموماً کلی اختیارات حاصل ہوتے ہیں حتی کہ وہ حسب ضرورت پرانے قانون کو بدل کر نیا قانون جاری کر سکتا ہے مگر نظام خلافت میں خلیفہ کے اختیارات بہر صورت شریعت اسلامی اور نبی متبوع کی ہدایات کی قیود کے اندر محدود ہیں۔ اسی طرح ڈکٹیٹر مشورہ لینے کا پابند نہیں مگر خلیفہ کومشورہ لینے کا حکم ہے۔
الغرض خلافت کا نظام ایک نہایت ہی نادر اور عجیب و غریب نظام ہے جو اپنی روح میں توجمہوریت کے قریب تر ہے مگر ظاہری صورت میں ڈکٹیٹرشپ سے زیادہ قریب ہے۔ مگر وہ حقیقی فرق جو خلافت کو دنیا کے جملہ نظاموں سے بالکل جدا اور ممتاز کر دیتا ہے وہ اس کا دینی منصب ہے۔ خلیفہ ایک انتظامی افسر ہی نہیں ہوتا بلکہ نبی کا قائم مقام ہونے کی وجہ سے اسے ایک روحانی مقام بھی حاصل ہوتا ہے۔ وہ نبی کی جماعت کی روحانی اور دینی تربیت کا نگران ہوتا ہے اور لوگوں کے لئے اسے عملی نمونہ بننا پڑتا ہے اور اس کی سنت سند قرار پاتی ہے۔ ۱؎
پس منصب خلافت کا یہ پہلو نہ صرف اسے دوسرے تمام نظاموں سے ممتاز کر دیتا ہے بلکہ اس قسم کے روحانی نظام میں میعادی تقرر کا سوال ہی نہیں اٹھ سکتا۔ خلافت کے نظام کے متعلق یہ مختصر اور اصولی نوٹ درج کرنے کے بعد ہم اصل مضمون کی طرف لوٹتے ہیں۔۱؎
جماعت احمدیہ میں پہلے خلیفہ کا انتخاب :۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات
پر تمام جماعت نے متفقہ اور متحدہ طور پر حضرت مولوی نورالدین صاحب بھیروی کو حضرت مسیح موعود ؑ کا خلیفہ اور جانشین منتخب کیا تھا۔ یہ ۲۷؍ مئی ۱۹۰۸ء کا واقعہ ہے۔ یہ تقرر اسلامی طریق پر انتخاب کی صورت میں ہوا تھا یعنی حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات پر قادیان اور بیرونجات کے جو احمدی جمع تھے اور ان میں جماعت کا چیدہ حصہ شامل تھا انہوں نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو حضرت مسیح موعود ؑ کا پہلا خلیفہ منتخب کر کے آپ کے ہاتھ پر اطاعت اور اتحاد کا عہد باندھا۔ اس انتخاب اور اس بیعت میں صدر انجمن احمدیہ کے جملہ ممبران اور حضرت مسیح موعود ؑ کے خاندان کے جملہ افراد اور تمام حاضرالوقت احمدی اصحاب شریک و شامل تھے اور کسی ایک فرد واحد نے بھی حضرت مولوی صاحب کی خلافت کے خلاف آواز نہیں اٹھائی اور اس طرح حضرت مسیح موعود ؑ کے بعد نہ صرف جماعت احمدیہ کا بلکہ صدرانجمن احمدیہ کا بھی پہلا اجماع خلافت کی تائید میں ہوا۔
حضرت مولوی نورالدین صاحب جو حضرت مسیح موعود ؑ کے رشتہ داروں میں سے نہیں تھے جماعت کے بزرگ ترین اصحاب میں سے تھے اور اپنے علم و فضل اور تقویٰ و طہارت میں جماعت کے اندرعدیم المثال حیثیت رکھتے تھے۔ آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود ؑ کی سب سے اوّل نمبر پر بیعت کی تھی اور حضرت مسیح موعود ؑ آپ کو اپنے خاص الخاص دوستوں اور محبوّں میں شمار کرتے تھے اور تمام جماعت احمدیہ میں آپ کا ایک خاص اثر اور رعب تھا حضرت مولوی صاحب دینی علم میں کامل ہونے کے علاوہ علم طب اور دیگر علوم مشرقیہ میں نہایت بلند پایہ رکھتے تھے اور قادیان آنے سے قبل مہاراجہ صاحب جموّں و کشمیر کے دربار میں بطور شاہی طبیب کام کر چکے تھے۔
حضرت مولوی صاحب کے ہاتھ پر جماعت احمدیہ نے پہلی بیعت حضرت مسیح موعود ؑ کے اس باغ میں کی تھی جو بہشتی مقبرہ کے قریب ہے اور وہیں حضرت مولوی صاحب کی قیادت میں حضرت مسیح موعود ؑ کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ بیعت کے بعد حضرت مولوی صاحب نے ایک نہایت مؤثراور درد انگیز تقریر فرمائی جس میں حضرت مسیح موعود کے بعد جماعت کو اس کی بھاری ذمہ داریاں یاد دلائیں اور فرمایا کہ ظاہری اسباب میں سے ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ یہی ہے کہ جماعت اپنے اتحاد کو قائم رکھ کر اس عظیم الشان کام کو جاری رکھے جسے حضرت مسیح موعود ؑ نے شروع کر رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے خلیفہ بننے یا جماعت کو اپنے پیچھے لگانے کی کوئی خواہش نہیں تھی بلکہ میں چاہتا تھا کہ کوئی اور شخص اس بوجھ کو اٹھائے مگر اب جبکہ آپ لوگوں نے مجھے خلیفہ منتخب کیا ہے تو اس انتخاب کو خدا کی مرضی یقین کرتے ہوئے میں اس بوجھ کو اٹھاتا ہوں لیکن یہ ضروری ہو گا کہ آپ لوگ میری پوری پوری اطاعت کریں تا کہ جماعت کے اتحاد میں فرق نہ آئے اور ہم سب مل کر اس کشتی کو آگے چلا سکیں جو خدا نے حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ دنیا کے متلاطم سمندر میں ڈوبتے ہوئوں کو بچانے کے لئے ڈالی ہے۔
جماعت پھر ایک جھنڈے کے نیچے :۔ قادیان کی بیعت خلافت کے بعد جوں جوں
بیرونجات کی جماعتوں اور دوستوں کو حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات اور حضرت خلیفہ اوّل کی بیعت کی اطلاع پہنچی سب نے بلا استثناء اور بلا تامل حضرت خلیفہ اوّل کی اطاعت قبول کی اور ایک نہایت ہی قلیل عرصہ میں جماعت احمدیہ کا ہرمتنفس خلافت کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گیا اور حضرت مسیح موعود ؑ کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ :۔
’’ میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے۔‘‘ ۱؎
یہ نظارہ سلسلہ احمدیہ کے دشمنوں کے لئے نہایت درجہ روح فرسا تھا جو حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کے بعد یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ بس اب اس سلسلہ کے مٹنے کاوقت آگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو پھر ایک ہاتھ پر جمع کر کے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور دنیا کو بتا دیا کہ یہ پودا خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا ہے اور کسی انسان کو طاقت نہیں کہ اسے مٹا سکے۔
جماعت میں انشقاق کا بیج :۔ مگر جہاں حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات پر خدا نے اپنی قدیم
سنت کے مطابق آپ کی گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال کر اپنی قدرت نمائی کا ثبوت دیا وہاں تقدیر کے بعض دوسرے نوشتے بھی پورے ہونے والے تھے۔ چنانچہ ابھی حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات پر ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ بعض لوگوں نے جن کے ہاتھ پر اس فتنہ کا بیج بونا مقدر تھا مخفی مخفی اور آہستہ آہستہ یہ سوال اٹھانا شروع کیا کہ دراصل حضرت مسیح موعود ؑ کا یہ منشاء نہیں تھا کہ آپ کے بعدجماعت میں کسی واجب الاطاعت خلافت کا نظام قائم ہو بلکہ آپ کا منشاء یہ تھا کہ سلسلہ کا سارا انتظام صدرانجمن احمدیہ کے ہاتھ میں رہے جس کی آپ نے اسی غرض سے اپنی زندگی کے آخری ایام میں بنیاد رکھی تھی۔ پس اگر کسی خلیفہ کی ضرورت ہو بھی تو وہ صرف بیعت لینے کی غرض سے ہو گا اور انتظام کی ساری ذمہ داری صدر انجمن احمدیہ کے ہاتھ میں رہے گی۔
اس سوال کی ابتداء صدر انجمن احمدیہ کے بعض ممبروں کی طرف سے ہوئی تھی جن میں مولوی محمدعلی صاحب ایم اے ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز قادیان اور خواجہ کمال الدین صاحب بی اے ایل ایل بی لاہور زیادہ نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ ان اصحاب اور ان کے رفقاء نے خفیہ خفیہ اپنے دوستوں اور ملنے والوں میں اپنے خیالات کو پھیلانا شروع کر دیا اور ان کی بڑی دلیل یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی وصیت میں خلافت کا ذکر نہیں ہے اور یہ کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی ایک غیر مطبوعہ تحریر میں صدر انجمن احمدیہ کے حق میں اس قسم کے الفاظ لکھے ہیں کہ میرے بعد اس انجمن کا فیصلہ قطعی ہو گا وغیر ذالک ۔ دلوں کا حال تو خدا جانتا ہے مگر ظاہری حالات پر اندازہ کرتے ہوئے اس سوال کے اٹھانے والوں کی نیت اچھی نہیںسمجھی جا سکتی تھی کیونکہ :۔
اوّل جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے اس سوال کے اٹھانیوالے صدر انجمن احمدیہ ہی کے بعض ممبر تھے اور یہ ظاہر ہے کہ انجمن کے طاقت میں آنے سے خود ان کو طاقت حاصل ہوتی تھی۔
دوم حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کے بعد صدر انجمن احمدیہ اپنے سب سے پہلے فیصلہ میں اتفاق رائے کے ساتھ یہ قرار دے چکی تھی کہ جماعت میں ایک واجب الاطاعت خلیفہ ہونا چاہئے۔ ۱؎ پس اگر بالفرض حضرت مسیح موعود ؑ کی کسی تحریر کا یہ منشاء تھا بھی کہ میرے بعد انجمن کا فیصلہ قطعی ہوگا تو صدر انجمن احمدیہ خلافت کے حق میں فیصلہ کر کے خود خلافت کو قائم کر چکی تھی اور جن اصحاب نے اب خلافت کے خلاف سوال اٹھایا تھا وہ سب اس فیصلہ میں شریک تھے اور اس کے مؤید و حامی تھے۔ پس اس جہت سے بھی یہ نیا پراپیگنڈا ایک دیانتداری کا فعل نہیں سمجھا جا سکتا تھا۔
سوم یہ بات قطعاً غلط تھی کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے الوصیت میں خلافت کا ذکر نہیں کیا بلکہ جیسا کہ ہم الوصیت کا ایک اقتباس اوپر درج کر چکے ہیں حضرت مسیح موعود ؑ نے صراحت اور تعیین کے ساتھ خلافت کا ذکر کیا تھا بلکہ حضرت ابوبکر کی مثال دے کر بتایا تھا کہ ایسا ہی میرے سلسلہ میں ہو گا اور یہ تصریح کی تھی کہ میرے بعد نہ صرف ایک خلیفہ ہو گا بلکہ خلافت کا ایک لمبا سلسلہ چلے گا اور متعدد افراد قدرتِ ثانیہ کے مظہر ہوں گے۔ پس ایسی صراحت کے ہوتے ہوئے یہ دعویٰ کس طرح دیانتداری پر مبنی سمجھا جا سکتا تھا کہ الوصیت میں خلافت کا ذکر نہیں ۔
چہارم غالباًسب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ تھا کہ اس سوال کے اٹھانے والوں نے کھلے طور پر اس سوال کو نہیں اٹھایا بلکہ حضرت خلیفہ اوّل سے مخفی رکھ کر خفیہ خفیہ پراپیگنڈہ کیا جو یقینا اچھی نیت کی دلیل نہیں ہے۔
مندرجہ بالا وجوہات سے ظاہرہوتا ہے کہ ان اصحاب کی نیت صاف نہیں تھی اور یہ ساری کوشش محض اپنے آپ کو طاقت میں لانے یا کسی دوسرے کی ماتحتی سے اپنے آپ کو بچانے کی غرض سے تھی ان کا یہ عذر کہ یہ جمہوریت کا زمانہ ہے اور ہم سلسلہ کے اندر جمہوری نظام قائم کرنا چاہتے ہیں یا تو محض ایک بہانہ تھا اور یا پھر یہ اس بات کی دلیل تھی کہ یہ اصحاب سلسلہ احمدیہ میں منسلک ہو جانے کے باوجود سلسلہ کی اصل غرض و غایت اور اس کے مقصد و منتہیٰ سے بے خبر تھے اور اسے ایک محض دنیوی نظام سمجھ کر دنیا کے سیاسی قانون کے ماتحت لانا چاہتے تھے گویہ علیحدہ بات ہے کہ دنیا کا سیاسی قانون بھی کلی طور پر جمہوریت کے حق میں نہیں ہے۔ پس اس فتنہ کے کھڑا کرنے والوں نے ایک نہایت بھاری ذمہ داری کو اپنے سر پر لیا اور خدا کی برگزیدہ جماعت میں انشقاق و افتراق کا بیج بویا۔ اور اپنے نفسوں کو گرانے کی بجائے خدا کی قدیم سنت اور اسلام کے صریح حکم اور حضرت مسیح موعود ؑ کی واضح تعلیم کو پسِ پُشت ڈال دیا۔ ممکن ہے کہ یہ اصحاب اپنی جگہ اپنی نیت کو اچھا سمجھتے ہوں اور دھوکا خوردہ ہوں اور ہم بھی اس بات کے مدعی نہیں کہ ہم نے ان کا دل چیر کر دیکھا ہے مگر ان ٹھوس حالات میںجو اوپر بیان کئے گئے ہیں دھوکا خوردہ ہونے کی صورت میں بھی ان کی بدقسمتی کا بوجھ کچھ کم نہیں ہے۔ اے کاش وہ ایسا نہ کرتے !!!
جب ان خیالات کا زیادہ چرچا ہونے لگا اور حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ تک سارے حالات پہنچے تو آپ نے جماعت میں ایک فتنہ کا دروازہ کھلتا دیکھ کر اس معاملہ کی طرف فوری توجہ فرمائی اور ۳۱ ؍ جنوری ۱۹۰۹ء بروز اتوار جماعت کے سرکردہ ممبروں کو قادیان میں جمع کر کے مسجد مبارک میں ایک تقریر فرمائی جس میں مسئلہ خلافت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈال کر جماعت کو بتایا کہ اصل چیز خلافت ہی ہے جو نظام اسلامی کا ایک اہم اور ضروری حصہ ہے اور حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات سے بھی خلافت ہی کا ثبوت ملتا ہے اور صدر انجمن احمدیہ ایک عام انتظامی انجمن ہے جسے خلافت کے منصب سے کوئی تعلق نہیں اور پھر یہ کہ خود انجمن بھی اپنی سب سے پہلی قرار داد میں خلافت کا فیصلہ کر چکی ہے۔ اس موقعہ پر آپ نے حاضرین کو جن میں منکرین خلافت کے سرکردہ اصحاب شامل تھے نصیحت بھی فرمائی کہ دیکھو حضرت مسیح موعود ؑ کے اس قدر جلد بعد جماعت میں اختلاف اور انشقاق کا بیج نہ بو اور جس جھنڈے کے نیچے تمہیں خدا نے جمع کر دیا ہے اس کی قدر کرو۔
آپ کی یہ تقریر اس قدر دردناک اور رقت آمیز تھی کہ اکثر حاضرین بے اختیار ہو کر رونے لگے اور منکرین خلافت نے بھی معافی مانگ کر اپنے آپ کو پھر خلافت کے قدموں پر ڈال دیا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان اصحاب کی اندرونی بیماری اس سے بہت زیادہ گہری تھی جو سمجھی گئی تھی کیونکہ تھوڑے عرصہ کے بعد ہی ظاہر ہوا کہ مؤیدین انجمن کا مخفی پراپیگنڈا بدستور جاری ہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ زوروں میں ہے۔ چونکہ یہ لوگ حضرت خلیفہ اوّل ؓ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کر چکے تھے اور اس سے پیچھے ہٹنا مشکل تھا اس لئے اب آہستہ آہستہ انہوں نے یہ بھی کہنا شروع کیا کہ ہمیں حضرت مولوی صاحب کی امامت پر تو اعتراض نہیں ہے اور وہ اپنی ذاتی قابلیت اور ذاتی علم و فضل سے ویسے بھی واجب الاحترام اور واجب الاطاعت ہیں مگر ہمیں اصل فکر آئندہ کا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کے بعد کیا ہو گا کیونکہ ہم مولوی صاحب کے بعد کسی اور شخص کی قیادت کو خلافت کی صورت میں قبول نہیں کر سکتے۔ افسوس ہے کہ ان کا یہ عذر بھی دیانتداری پر مبنی نہیں سمجھا جا سکتا تھا کیونکہ جیسا کہ متعدد تحریری شہادات سے ثابت ہے ان اصحاب نے اپنے خاص الخاص حلقہ میں خود حضرت خلیفہ اوّل ؓ کی ذات کے خلاف بھی پراپیگنڈا شروع کر رکھا تھا مگر بہر حال اس وقت ان کا ظاہر قول یہی تھا کہ ہمیں اصل فکر آئندہ کا ہے کہ پیچھے تو جو کچھ ہونا تھا ہو گیا اب کم از کم آئندہ یہ خلافت کا سلسلہ جاری نہ رہے۔
اس قول میں ان کا اشارہ حضرت مسیح موعود ؑ کے بڑے صاحبزادے حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب (موجودہ امام جماعت احمدیہ) کی طرف تھا جن کی قابلیت اور تقویٰ طہارت کی وجہ سے اب آہستہ آہستہ لوگوں کی نظریں خودبخود اس طرف اٹھ رہی تھیں کہ حضرت مولوی صاحب کے بعد وہی جماعت کے خلیفہ ہوں گے ۔ اس کے بعد سے گویا منکرین خلافت کی پالیسی نے دہرا رخ اختیار کر لیا۔ اوّل یہ کہ انہوں نے اس بات کا پراپیگنڈا جاری رکھا کہ جماعت میں اصل چیز انجمن ہے نہ کہ خلافت۔ دوم یہ کہ انہوں نے ہر رنگ میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو نیچا کرنے اور جماعت میںبدنام کرنے کا طریق اختیار کر لیا۔ تا کہ اگر جماعت خلافت کے انکار کے لئے تیار نہ ہو تو کم از کم وہ خلیفہ نہ بن سکیں۔ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب نے بار بار حلف اٹھا کر کہا کہ میرے وہم و گمان میں بھی خلیفہ بننے کا خیال نہیں ہے اور ایک خلیفہ کے ہوتے ہوئے آئندہ خلیفہ کا ذکر کرنا ہی ناجائز اور خلاف تعلیم اسلام ہے پس خدا کے لئے اس قسم کے ذاتی سوالات کو اٹھا کر جماعت کی فضا کو مزید مکدر نہ کرو مگر ان خدا کے بندوں نے ایک نہ سنی اور حضرت مولوی صاحب کی زندگی کے آخری لمحہ تک اپنے اس دہرے پراپیگنڈے کو جاری رکھا۔ بلکہ حضرت خلیفہ اوّل ؓ کے خلاف بھی اپنے خفیہ طعنوں کے سلسلہ کو چلاتے چلے گئے۔
اس عرصہ میں حضرت خلیفہ اوّل نے بھی متعدد موقعوں پرخلافت کی تائید میں تقریریں فرمائیں اور طرح طرح سے جماعت کو سمجھایا کہ خلافت ایک نہایت ہی بابرکت نظام ہے جسے اسلام نے ضروری قرار دیا ہے اور خدا تعالیٰ اس نظام کے ذریعہ نبی کے کام کو مکمل فرمایا کرتا ہے اور ہر نبی کے بعد خلافت ہوتی رہی ہے اور حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی اپنے بعد خلافت کا وعدہ فرمایا تھا اور یہ کہ گو بظاہر خلیفہ کا تقرر مومنوں کے انتخاب سے ہوتا ہے مگر دراصل اسلامی تعلیم کے ماتحت خلیفہ خدا بناتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اب جب سلسلہ احمدیہ میں خلافت کا نظام عملاً قائم ہو چکا ہے اور تم ایک ہاتھ پر بیعت کر چکے ہو تو اب تم میں یا کسی اور میں یہ طاقت نہیں ہے کہ خداکی مشیت کے رستے میں حائل ہو اور فرمایا کہ جو قمیض مجھے خدا نے پہنائی ہے وہ میں اب کسی صورت میں اتار نہیں سکتا۔ مگر افسوس کہ منکرین خلافت کا پراپیگنڈا ایسی نوعیت اختیار کر چکا تھا کہ ان پر کسی دلیل کااثر نہیں ہوا اور بظاہر حضرت خلیفہ اوّل کی بیعت کے اندر رہتے ہوئے انہوں نے خلافت کے خلاف اپنی خفیہ کارروائیوں کو جاری رکھا۔ لیکن حضرت خلیفہ اوّل ؓ کی تقریروں سے ایک عظیم الشان فائدہ ضرور ہو گیا اور وہ یہ کہ جماعت کا کثیر حصہ خلافت کی اہمیت اور اس کی برکات اور اس کے خداداد منصب کو اچھی طرح سمجھ گیا اور ان گم گشتگان راہ کے ساتھ ایک نہایت قلیل حصہ کے سوا اور کوئی نہ رہا۔ اور جب ۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفہ اوّل ؓ کی وفات ہوئی تو بعد کے حالات نے بتا دیا کہ حضرت خلیفہ اوّل ؓ کی مسلسل اور ان تھک کوششوں نے جماعت کو ایک خطرناک گڑھے میں گرنے سے محفوظ کر رکھا ہے ۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد کا یہ ایسا جلیل القدر کارنامہ ہے کہ اگر اس کے سوا آپ کے عہد میں کوئی اور بات نہ بھی ہوتی تو پھر بھی اس کی شان میں فرق نہ آتا۔
خلافت کے سوال کے علاوہ منکرین خلافت نے جماعت میں آہستہ آہستہ یہ سوال بھی پیدا کر دیا تھا کہ کیا حضرت مسیح موعود ؑ پر ایمان لانا ضروری ہے؟ اور کیا حضرت مسیح موعود ؑ نے واقعی نبوت کا دعویٰ کیا تھا؟ ان لوگوں کا یہ عقیدہ ہو گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ پر ایمان لانا اچھا تو ہے مگر ضروری نہیں اور ایک مسلمان آپ پر ایمان لانے کے بغیر بھی نجات پا سکتا ہے اور یہ کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ صرف مجددیت اور مسیحیت کا دعویٰ کیا تھا ہم جماعت احمدیہ کے مخصوص عقائد کے باب میں ان مسائل پر کافی روشنی ڈال چکے ہیں اور اس جگہ اس بحث کے اعادہ کی ضرورت نہیں مگر اس تبدیلی عقیدہ کی وجوہات اور اس کے نتائج کے متعلق ہم انشاء اللہ آگے چل کر روشنی ڈالیں گے جبکہ حضرت خلیفہ اوّل کی وفات کے بعد جماعت کے عملی افتراق کی بحث آئے گی کیونکہ اسی وقت ان تبدیل شدہ عقیدوں کا پورا ظہور ہوا۔
قرآن شریف کا انگریزی ترجمہ :۔ چونکہ حضرت مسیح موعود ؑ کی بعثت کی اغراض میں سے
ایک غرض قرآنی علوم کی اشاعت تھی اس لئے جماعت احمدیہ میں قرآن شریف کو سمجھنے اور پھر اس کے علوم کو دوسروں تک پہنچانے کی طرف خاص توجہ تھی اور حضرت خلیفہ اوّل ؓ کے درس قرآن نے اس شوق کو اور بھی جلا دے دی تھی چنانچہ کئی احمدیوں نے قرآن شریف کی تفسیر لکھنے کی کوشش کی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اپنے رنگ میں اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق ان کو کامیاب کیا انہی کوششوں میں سے ایک کوشش مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کی تھی۔ مولانا موصوف سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک جید عالم ہیں اور حضرت مسیح موعود ؑ کے خاص صحابہ میں شامل ہیں انہوں نے صدر انجمن احمدیہ کے انتظام کے ماتحت حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ایک تفسیر اردو میں لکھنی شروع کی اور یہ کام حضرت خلیفہ اوّل ؓ کے زمانہ میں بھی جاری رہا۔ یہ تفسیر بہت مفصل تھی مگر افسوس ہے کہ قریباً آٹھ پاروں کی تفسیر شائع ہو جانے کے بعد صدر انجمن احمدیہ اس مفید کام کو جاری نہیں رکھ سکی۔
اسی زمانہ میں یعنی حضرت خلیفہ اوّل ؓ کے عہد خلافت کے اوائل میں صدر انجمن احمدیہ نے مولوی محمد علی صاحب ایم ۔ اے کو مقرر کیا کہ وہ قرآن شریف کا انگریزی میں ترجمہ کریں اور اس کے ساتھ مختصر تفسیری نوٹ بھی لکھیں تا کہ یہ ترجمہ ممالک مغربی میں شائع کیا جا سکے۔ چنانچہ مولوی صاحب موصوف نے کئی سا ل لگا کر اور کافی محنت اٹھا کر ایک انگریزی ترجمہ تیار کیا اور تفسیری نوٹوں کی تیاری میں حضرت خلیفہ اوّل ؓ سے جو ایک عدیم المثال مفسر قرآن تھے کافی امداد لی مگر پیشتر اس کے کہ یہ کام تکمیل کو پہنچتا حضرت خلیفہ اوّل کی وفات ہو گئی اور مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھی مرکز سلسلہ سے کٹ کر لاہور چلے گئے۔ اور گو اس ترجمہ کے جملہ مصارف صدر انجمن احمدیہ نے برداشت کئے تھے اور صدر انجمن احمدیہ بدستور قادیان میں قائم تھی مگر لاہور جاتے ہوئے وہ اس ترجمہ اور تفسیر کو بھی اپنے ساتھ لیتے گئے اور وہیں اسے مکمل کر کے اپنی طرف سے شائع کر دیا ۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس ترجمہ اور تفسیر کی تکمیل کے وقت اس میں کیا کیا تبدیلی کی گئی کیونکہ اس وقت جماعت کے اندرونی اختلافات نے زور پکڑ کر ساری فضا کو سخت مسموم کر رکھا تھا۔ مگر بہر حال یہ ظاہر ہے کہ اختلافی مسائل میں مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر نے ایک دوسرا رنگ اختیار کر لیا۔
قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر :۔ جب ایک جماعت بنتی ہے تو اس کے رستہ میں ہر قسم کی ضروریات پیش آتی ہیں جو اسے پوری کرنی پڑتی ہیں ۔ چنانچہ حضرت خلیفہ اوّل کے زمانہ میں قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کا اضافہ ہوا۔ مثلاً حضرت خلیفہ اوّل کے عہد میں قادیان کی جامع مسجد یعنی مسجد اقصیٰ کی توسیع ہوئی جو پہلے سے قریباً دوگنی بڑھ گئی۔ اسی طرح آپ کے زمانہ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول اور اس کے بورڈنگ کی عظیم الشان عمارتیں تیارہوئیں جن پر قریباً سوا لاکھ روپیہ خرچ ہوا۔ ان عمارتوں کے تیار کروانے میں براہ راست حضرت خلیفہ اوّل کی رائے اور تجویز کا دخل نہیں تھا بلکہ صدر انجمن احمدیہ کے ممبروں کی کوشش اور توجہ سے یہ عمارتیں تیار ہوئیں مگر آپ کے زمانہ میں ان کا تیار ہونا آپ ہی کی طرف منسوب ہو گا ۔ اسی طرح آپ کے زمانہ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کے وسیع احاطہ میں ’’ مسجد نور‘‘ بھی تیار ہوئی اور سکول کے قریب ایک شفاخانہ بھی تیار ہوا جس کا نام ’’نورہسپتال‘‘ رکھا گیا۔ ہسپتال کی تیاری کلیۃً اور مسجد نور کی تیاری بڑی حد تک ہمارے بلند ہمت نانا حضرت میرناصرنواب صاحب مرحوم کی کوشش کا نتیجہ تھی جنہوں نے باوجود پیرانہ سالی کے احمدی جماعتوں میں دورہ کر کے ان عمارات کے لئے ایک بھاری رقم فراہم کی۔ الغرض تعمیر عمارات کے لحاظ سے حضرت خلیفہ اوّل کا عہد ایک نمایاں خصوصیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر اشارہ کر چکے ہیںان باتوں کو جماعت کی دینی اور تبلیغی کام سے تو کوئی تعلق نہیں مگر بہر حال وہ جماعت کی ترقی کا حصہ تھیں کیونکہ قادیان کی ظاہری رونق میں اضافہ ہونا بھی فی الجملہ سلسلہ کی ترقی کی علامت ہے۔
جماعت احمدیہ کے پریس میں نمایاں اضافہ :۔ حضرت خلیفہ اوّل ؓ کے عہد میں جماعت
کے پریس میں بھی نمایاں اضافہ ہوا یعنی آپ کے زمانہ میں جماعت میں چار نئے اخبارات جاری ہوئے۔ سب سے پہلے ۱۹۰۹ء میں قادیان سے اخبار ’’نور‘‘ کا اجراء ہوا جو ایک نو مسلم احمدی شیخ محمدیوسف صاحب نے سکھوں میں تبلیغ اسلام کے لئے جاری کیا۔ اس کے بعد ایک اخبار ’’ الحق‘‘ دہلی سے میر قاسم علی صاحب نے ۱۹۱۰ء میں جاری کیا اور پھر قادیان سے ایک اور اخبار ’’الفضل‘‘ ۱۹؍جون ۱۹۱۳ء سے جاری ہوا۔ یہ اخبار حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (موجودہ امام جماعت احمدیہ) نے تبلیغی اور تربیتی اور علمی اغراض کے ماتحت جاری کیا تھا اور خدا کے فضل سے اس نے بہت اچھی خدمات سر انجام دیں ۔ یہ وہی اخبار ہے جو حضرت خلیفہ اوّل کی وفات کے بعد سے جماعت احمدیہ کا مرکزی آرگن ہے۔ چوتھا اخبار ’’ پیغام صلح‘‘ لاہور سے ۱۰؍ جولائی ۱۹۱۳ء سے جاری ہوا۔ اس اخبار کے انتظام کی باگ ڈور ان اصحاب کے ہاتھ میں تھی جو خلافت کو اڑا کر صدر انجمن احمدیہ کے انتظام کو قائم کرنا چاہتے تھے اور اب یہی اخبار لاہوری پارٹی کا افیشل آرگن ہے۔ یہ جملہ اخبارات ہفتہ واری تھے اور ان سے جماعت کے پریس کی تعداد میں ایک نمایاں اضافہ ہوا۔ اور چونکہ حضرت خلیفہ اوّل کے آخری ایام میں گورنمنٹ کی طرف سے ضمانت کا مطالبہ ہونے پر اخبار ’’ بدر‘‘ بند ہو گیا تھا اور صرف ’’ الحکم ‘‘ باقی تھا اس لئے ان جدید چار اخباروں کے اجراء سے جماعت کے اخباروں کی تعداد پانچ تک پہنچ گئی جو جماعت کی تعداد اور وسعت کے لحاظ سے یقینا ایک بہت بڑی تعداد تھی۔
جماعت احمدیہ کا پہلابیرونی مشن :۔ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کے عہد مبارک کی ایک
یادگار یہ بھی ہے کہ آپ کے زمانہ میں جماعت کا پہلا بیرونی تبلیغی مشن قائم ہوا۔ اس وقت تک براہ راست تبلیغ صرف ہندوستان تک محدود تھی اور بیرونی ممالک میں صرف خط و کتابت یا رسالہ جات وغیرہ کے ذریعہ تبلیغ ہوتی تھی۔ لیکن حضرت خلیفہ اوّل کے زمانہ میں آکر جماعت کا پہلا بیرونی مشن قائم ہوا ۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ۱۹۱۲ء کے نصف آخر میں خواجہ کمال الدین صاحب بی ۔ اے ایل ایل بی کو ایک مسلمان رئیس نے اپنے ایک مقدمہ کے تعلق میں اپنی طرف سے اخراجات دے کر ولایت بھجوانے کا انتظام کیا چنانچہ خواجہ صاحب موصوف ۷؍ ستمبر ۱۹۱۲ء کو انگلستان روانہ ہو گئے اور چونکہ ہر احمدی کو تبلیغ کا خیال غالب رہتا ہے خواجہ صاحب نے بھی اس سفر میں تبلیغ کی نیت رکھی اور ولایت کے قیام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں بعض تبلیغی لیکچر دئیے اور پھر آہستہ آہستہ وہیں ٹھہر کر اسی کام میں مصروف ہو گئے۔
کچھ عرصہ کے بعد خواجہ صاحب نے حضرت خلیفہ اوّل کی خدمت میں لکھا کہ مجھے کوئی نائب بھجوایا جائے۔ حضرت خلیفہ اوّل نے چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم اے کو تجویز فرمایا اور چونکہ چوہدری صاحب انجمن انصار اللہ کے ممبر تھے جو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اس زمانہ میں تبلیغی اغراض کے ماتحت قائم کر رکھی تھی اور انصار اللہ کو پہلے سے بیرون ہند کی ایک تبلیغی سکیم مدنظر تھی اس لئے چوہدری صاحب کا خرچ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے انجمن انصار اللہ کی طرف سے برداشت کیا اور کچھ اپنے پاس سے اور اپنے دوستوں کی طرف سے ڈالا اور چوہدری صاحب موصوف ۲۸؍ جون ۱۹۱۳ء کو تبلیغ کی غرض سے ولایت روانہ ہو گئے۔ ۱؎ اس طرح گویا چوہدری فتح محمد صاحب وہ پہلے احمدی مبلغ تھے جو احمدیوں کی طرف سے بیرون ہند میں خالص تبلیغ کی غرض سے بھیجے گئے۔ چوہدری صاحب نے کچھ عرصہ تک خواجہ صاحب کی معیت میں کام کیا اور اس عرصہ میں خواجہ صاحب موصوف نے بعض ذی اثر غیر احمدیوں کی امداد سے مسجد ووکنگ کی امامت کا بھی حق حاصل کر لیا مگر چونکہ خواجہ صاحب اور چوہدری صاحب کے خیالات اور طریق تبلیغ میں بہت فرق تھا اس لئے حضرت خلیفہ اوّل کی وفات پر یہ اتحاد قائم نہ رہ سکا اور چوہدری صاحب جلد ہی خواجہ صاحب سے الگ ہو کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی ہدایات کے ماتحت مستقل حیثیت میں کام کرنے لگے اور ووکنگ کو چھوڑ کر اپنا مرکز لندن میں قائم کر لیا جو اب تک جماعت احمدیہ کے برطانوی مشن کا مرکز ہے۔
اس جگہ یہ ذکر بھی بے موقع نہ ہو گا کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے اوائل زمانہ میں یہ خواب دیکھا تھا کہ آپ ولایت تشریف لے گئے ہیں اور وہاں جا کر چند سفید قسم کے جانور درختوں کے اوپر سے پکڑے ہیںاورآپ نے اس کی یہ تشریح فرمائی تھی کہ آپ کی تبلیغ ولایت میں پہنچے گی اور اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بعض انگریزوں کو ہدایت دے گا ۔ ۲؎ سو الحمد للہ کہ جماعت کے برطانوی مشن کے ذریعہ حضرت مسیح موعود ؑ کا یہ رویا پورا ہوا اور ہو رہا ہے۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ چند پرندوں کا پکڑا جانا صرف اس زمانہ تک کے لئے ہے کہ جب تک یہ پرندے بلندیوں کی ہوا کھاتے ہوئے درختوں پر بسیرا لگائے بیٹھے ہیں۔ لیکن جب احمدیت کے ذریعہ دنیا میں انقلابی صورت پیدا ہو گی اور ان سفید پرندوں کا شجری خمار جاتا رہے گا تو پھر چند پرندوں کے پکڑنے کا سوال نہیں ہو گا بلکہ یہ سوال ہو گا کہ خدائی جال سے باہر کتنے پرندے باقی رہتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی جہاں ایک طرف صرف چند پرندوں کے پکڑے جانے کا ذکر کیا ہے وہاں دوسری طرف صراحت کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ اہل مغرب بڑی کثرت اور زور کے ساتھ اسلام اور احمدیت کی طرف رجوع کریں گے۔ ۱؎
حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ کی علالت اور وفات :۔ حضرت خلیفہ اوّل ؓ کو اپنی خلافت
کے دوران میں ایک حادثہ پیش آگیا تھا اور وہ یہ کہ آپ ۱۸؍ نومبر ۱۹۱۰ء کو ایک گھوڑے سے گر کر زخمی ہو گئے تھے۔ ۲؎ شروع شروع میں یہ زخم معمولی سمجھا گیا مگر بعد میں اس کا اثر گہرا ثابت ہوا اور دائیں کنپٹی کے پاس آپریشن کے نتیجہ میں ایک گہرا نشان پڑ گیا اور گو آپ ایک لمبے عرصہ تک صاحب فراش رہنے کے بعد صحت یاب ہو گئے مگر اس کے بعد آپ کی صحت کبھی بھی پہلے جیسی نہیں ہوئی۔ جلسہ سالانہ ۱۹۱۳ء کے بعد سے آپ میں زیادہ کمزوری کے آثار ظاہر ہونے شروع ہوئے اور جنوری ۱۹۱۴ء کے وسط سے معین بیماری کا آغاز ہو گیا ۔ ۳؎ ابتداء میں صرف پسلی کے درد کی تکلیف اور گاہے گاہے کی ہلکی حرارت اور قے وغیرہ کی شکایت تھی جو آہستہ آہستہ سل کی صورت اختیار کر گئی اور اس بیماری نے اس قدر زور پکڑ لیا کہ پھر اس کے بعد آپ بستر سے نہ اُٹھ سکے۔
اس طویل بیماری کے ایام میں منکرین خلافت کا پراپیگنڈا بہت زور پکڑ گیا۔ اور اخلاقی مسائل کی برملا اشاعت کے علاوہ مویدین خلافت اور خصوصاً حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے خلاف ذاتی حملوں نے زیادہ شدت اختیار کر لی۔ گویا ان ایام میں لاہوری پارٹی کے زعماء نے ایک آخری جدوجہد اس بات کی کرنی چاہی کہ حضرت خلیفہ اوّل کی بیماری سے فائدہ اٹھا کر جماعت کے سواد اعظم کو اپنی طرف کھینچ لائیں۔ مگر ایک خدائی تحریک کو اس کے ابتدائی مراحل میں غلط رستہ پر ڈال دینا کسی انسانی طاقت کا کام نہیں اس لئے اس کوشش میں منکرین خلافت کو سخت ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ ان ایام میں احمدیت کی فضا یوں شرر بار ہو رہی تھی کہ گویا ایک میدان جنگ میں چاروں طرف سے گولیاں برس رہی ہوں یہ خدا کا فضل تھا کہ حضرت خلیفہ اوّل کی دور بین آنکھ نے اپنی بیماری کے ایام میں اپنے قدیم طریق کے مطابق اپنی جگہ نمازوں کی امامت اور جمعہ کے خطبات کے لئے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو مقرر کر رکھا تھا ورنہ اگر پریس کے ایک حصہ کے ساتھ ساتھ جماعت کے خطبات کا منبر بھی ان لوگو ں کے ہاتھ میں چلا جاتا تو پھر بظاہر حالات بڑے فتنہ کا احتمال تھا۔
بیماری کی شدت کے ایام میں حضرت خلیفہ اوّل ؓ کو ان حالات کی خبر نہیں تھی جو باہر گزر رہے تھے مگر مسیح محمدی کی گود میں پرورش پایا ہوا دماغ خود اپنی جگہ مصروف کار تھا چنانچہ جب حضرت خلیفہ اوّل نے محسوس کیاکہ اب میرا وقت قریب ہے تو آپ نے ۴؍ مارچ ۱۹۱۴ء کو ایک وصیت تحریر فرمائی ۱؎ جس کا مآل یہ تھا کہ آپ کے بعد جماعت کسی متقی اور عالم باعمل اور ہر دلعزیز شخص کو آپکا جانشین منتخب کر کے اس کے ہاتھ پر جمع ہو جائے اور پھر آپ نے اس وصیت کو معززین جماعت کی ایک مجلس میں جس میں مولوی محمد علی صاحب ایم ۔ اے اور ان کے بعض رفقا بھی شامل تھے خود مولوی محمد علی صاحب سے بلند آواز کے ساتھ پڑھوایا اور اس پیغام حق کو سب تک پہنچا کر وصیت کو نواب محمد علی خاں صاحب کے پاس محفوظ کروا دیا۔ اس کے بعد آپ نے زیادہ مہلت نہیں پائی اور ۱۳؍ مارچ ۱۹۱۴ء کو جمعہ کے دن سوا دو بجے بعد دوپہر قریباً ۷۸ سال کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر کے اپنے محبوب حقیقی کے پاس حاضر ہو گئے۔ ۲؎ اَللّٰھُمَّ ارْحَمْہُ وَارْفَعْ مَقَامَہٗ فِی الْعِلِّیِیْنَ ۔
حضرت خلیفہ اوّل کا بلند مقام :۔ حضرت خلیفہ اوّل کا پایہ حقیقۃً نہایت بلند تھا اور جماعت
احمدیہ کی یہ خوش قسمتی تھی کہ اسے حضرت مسیح موعود ؑ کے بعد جبکہ ابھی جماعت میں کوئی دوسرا شخص اس بوجھ کے اٹھانے کا اہل نظر نہیں آتا تھا ایسے قابل اور عالم اور خدا ترس شخص کی قیادت نصیب ہوئی۔ حضرت خلیفہ اوّل ؓ کو علمی کتب کے جمع کرنے کا بہت شوق تھا چنانچہ زرکثیر خرچ کر کے ہزاروں کتابوں کا ذخیرہ جمع کیا اور ایک نہایت قیمتی لائبریری اپنے پیچھے چھوڑی مگر آپ کا سب سے نمایاں وصف قرآن شریف کی محبت تھی جو حقیقۃً عشق کے درجہ تک پہنچی ہوئی تھی۔ خاکسار نے بے شمار دفعہ دیکھا کہ قرآن شریف کی تفسیر بیان کرتے ہوئے آپ کے اندر ایک عاشقانہ ولولہ کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی تھی۔ آپ نے اوائل زمانہ سے ہی قادیان میں قرآن شریف کا درس دینا شروع کر دیا تھا جسے اپنی خلافت کے زمانہ میں بھی جاری رکھا اور آخر تک جب تک کہ بیماری نے بالکل ہی نڈھال نہیں کر دیا اسے نبھایا۔ طبیعت نہایت سادہ اور بے تکلف اور انداز بیان بہت دلکش تھا اور گو آپ کی تقریر میں فصیحانہ گرج نہیں تھی مگر ہر لفظ اثر میں ڈوبا ہوا نکلتا تھا۔ مناظرہ میں ایسا ملکہ تھا کہ مقابل پر خواہ کتنی ہی قابلیت کا انسان ہو وہ آپ کے برجستہ جواب سے بے دست و پا ہو کر سردھنتا رہ جاتا تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ خود فرماتے تھے کہ فلاں معاند اسلام سے میری گفتگو ہوئی اور اس نے اسلام کے خلاف یہ اعتراض کیا اور میں نے سامنے سے یہ جواب دیا۔ اس پر وہ تلملا کر کہنے لگا کہ میری تسلی نہیں ہوئی گو آپ نے میرا منہ بند کر دیا ہے۔ فرمانے لگے میں نے کہا تسلی دینا خدا کا کام ہے ۔ میرا کام چپ کرا دینا ہے تا کہ تمہیں بتا دوں کہ اسلام کے خلاف تمہارا کوئی اعتراض چل نہیں سکتا۔ یہ درست ہے کہ ان معاملات میں حضرت مسیح موعود ؑ کا طریق اور تھا یعنی آپ مخالف کو چپ کرانے کی بجائے اس کی تسلی کرانے کی کوشش فرماتے تھے اور گفتگو میں مخالف کو خوب ڈھیل دیتے تھے مگر ہر اک کے ساتھ خدا کا جداگانہ سلوک ہوتا ہے اور یہ بھی ایک شان خداوندی ہے کہ خصم تسلی پائے یا نہ پائے مگر ذلیل ہو کر خاموش ہو جائے۔ اسی لئے کسی کہنے والے نے کہا ہے کہ :۔
’’ ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است ‘‘
حضرت خلیفہ اوّل کے دل میں حضرت مسیح موعود کی اطاعت کا جذبہ اس قدر غالب تھا کہ ایک دفعہ جب ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود ؑ دہلی تشریف لے گئے اور وہاں ہمارے نانا جان مرحوم یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب بیمار ہو گئے تو ان کے علاج کے لئے حضرت مسیح موعود ؑ نے حضرت مولوی صاحب کو قادیان میں تار بھجوائی کہ بلا توقف دہلی چلے آئیں۔ جب یہ تار قادیان پہنچی تو حضرت مولوی صاحب اپنے مطب میں بیٹھے ہوئے درس و تدریس کا شغل کر رہے تھے۔ اس تار کے پہنچتے ہی آپ بلا توقف وہیں سے اٹھ کر بغیر گھر گئے اوربغیر کوئی سامان یازاد راہ لئے سیدھے بٹالہ کی طرف روانہ ہو گئے جو ان ایام میں قادیان کا ریلوے سٹیشن تھا۔ کسی نے عرض کیا۔ حضرت بلا توقف آنے کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ آپ گھر جا کر سامان بھی نہ لیں اور اتنے لمبے سفر پر یوں خالی ہاتھ روانہ ہو جائیں۔ فرمایا ۔ امام کا حکم ہے کہ بلا توقف آئو اس لئے میں اب ایک منٹ کے توقف کو بھی گناہ خیال کرتا ہوں اور خدا خود میرا کفیل ہو گا ۔ خدا نے بھی اس نکتہ کو ایسا نوازا کہ بٹالہ کے سٹیشن پر ایک متمول مریض مل گیا جس نے آپ کو پہچان کر آپ کا بڑا اکرام کیا اور دہلی کا ٹکٹ خرید دینے کے علاوہ ایک معقول رقم بھی پیش کی۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود ؑ مجھے ارشاد فرمائیں کہ اپنی لڑکی کسی چوہڑے کے ساتھ بیاہ دو ۱؎ تو بخدا مجھے ایک سیکنڈ کے لئے بھی تامل نہ ہو۔ یقینا ایسا پاک جوہر دنیا میں کم پیدا ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کو بھی حضرت مولوی صاحب کے ساتھ از حد محبت تھی۔ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں:۔
چہ خوش بُودے اگر ہر یک زِاُمت نور دیں بُودے

ہمیں بُودے اگر ہر دل پُر از نورِ یقیں بُودے
یعنی کیا ہی اچھا ہو اگر قوم کا ہر فرد نور دین بن جائے۔ مگر یہ تو تب ہی ہو سکتا ہے کہ ہر دل یقین کے نور سے بھر جائے۔

بارش سے پہلے بادلوں کی گرج
ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود ؑ نے خدا سے حکم پا کر اپنے دعویٰ مسیحیت کا اعلان فرمایا تو کس طرح مذہبی دنیا کی فضا بادلوں کی گرج اور بجلیوں کی کڑک سے گونجنے لگ گئی۔ اسی طرح اب جبکہ خدا کے برگزیدہ مسیح کا موعود خلیفہ مسند خلافت پر قدم رکھ رہا تھا تو دنیا نے پھر وہی نظارہ دیکھا اور احمدیت کے آسمان پر گھٹا ٹوپ بادلوں کی گرجوں نے آنے والے کا خیرمقدم کیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ کی وفات کے وقت وہ اختلاف جو عرفاً مخفی کہلاتا تھا مگر حقیقۃً اب مخفی نہیں رہا تھا یکدم پھوٹ کر باہر آگیا۔ قادیان کی جماعت کو حضرت خلیفہ اوّل کی وفات کی خبر اس وقت ملی جبکہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب مسجد اقصیٰ میں جمعہ کی نماز پڑھا کر مسجد سے باہر آرہے تھے۔ اس پر سب لوگ گھبرا کر فوراً نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی پر پہنچے جہاں حضرت خلیفہ اوّل اپنی بیماری کے آخری ایام میں تبدیل آب و ہوا کے لئے تشریف لے گئے ہوئے تھے اور قادیان کی نئی آبادی کا کھلا میدان گویا میدان حشر بن گیا۔ بے شک حضرت خلیفہ اوّل ؓ کی جدائی کا غم بھی ہر مومن کے دل پر بہت بھاری تھا مگر اس دوسرے غم نے جو جماعت کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے ہر مخلص احمدی کے دل کو کھائے جا رہا تھا اس صدمہ کو سخت ہولناک بنا دیا تھا۔ جیسا کہ بتایا جا چکا ہے جمعہ کے دن سوا دو بجے کے قریب حضرت خلیفہ اوّل ؓ کی وفات ہوئی اور دوسرے دن نماز عصر کے بعد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ منتخب ہوئے گویایہ قریباً چھبیس (۲۶)گھنٹہ کا وقفہ تھا جو قادیان کی جماعت پر قیامت کی طرح گزرا۔
اس نظارے کو دیکھنے والے بہت سے لوگ گزر گئے اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس کے بعد پیدا ہوئے یا وہ اس وقت اس قدر کم عمر تھے کہ ان کے دماغوں میں ان واقعات کا نقشہ محفوظ نہیں مگر جن لوگوں کے دلوں میں ان ایام کی یاد قائم ہے وہ اسے کبھی بھلا نہیں سکتے۔ میں پھر کہتا ہوں کہ وہ دن جماعت کے لئے قیامت کا دن تھا اور میرے اس بیان میں قطعاً کوئی مبالغہ نہیں ۔ ایک نبی کی جماعت تازہ بنی ہوئی جماعت ۔بچپن کی اٹھی ہوئی امنگوں میں مخمور ۔ اور صداقت کی برقی طاقت سے دنیا پر چھا جانے کے لئے بے قرار ۔ جس کے لئے دین سب کچھ تھا اور دنیا کچھ نہیں تھی وہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہی تھی کہ اگر ایک طرف اس کے پیارے امام کی نعش پڑی ہے تو دوسری طرف چند لوگ اس امام سے بھی زیادہ محبوب چیز یعنی خدا کے برگزیدہ مسیح کی لائی ہوئی صداقت اور اس صداقت کی حامل جماعت کو مٹانے کے لئے اس پر حملہ آور ہیں۔ یہ نظارہ نہایت درجہ صبر آزما تھا اور مؤلف رسالہ ہذا نے ان تاریک گھڑیوں میں ایک دو کو نہیں دس بیس کو نہیں بلکہ سینکڑوں کو بچوں کی طرح روتے اور بلکتے ہوئے دیکھا۔ اپنے جدا ہونے والے امام کے لئے نہیں۔ مجھے یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ اس وقت جماعت کے غم کے سامنے یہ غم بھولا ہوا تھا۔ بلکہ جماعت کا اتحاد اور اس کے مستقبل کی فکر میں۔ مگر اکثر لوگ تسلی کے اس فطری ذریعہ سے بھی محروم تھے۔ وہ رونا چاہتے تھے مگر افکار کے ہجوم سے رونا نہیں آتا تھا اور دیوانوں کی طرح ادھر ادھر نظر اٹھائے پھرتے تھے تا کہ کسی کے منہ سے تسلی کا لفظ سن کر اپنے ڈوبتے ہوئے دل کو سہارا دیں۔ غم یہ نہیں تھا کہ منکرین خلافت تعداد میں زیادہ ہیں یا یہ کہ ان کے پاس حق ہے کیونکہ نہ تو وہ تعداد میں زیادہ تھے اور نہ ان کے پاس حق تھا۔ بلکہ غم یہ تھا کہ باوجود تعداد میں نہایت قلیل ہونے کے اور باوجود حق سے دور ہونے کے ان کی سازشوں کا جال نہایت وسیع طور پر پھیلا ہوا تھا اور قریباً تمام مرکزی دفاتر پر ان کا قبضہ تھا اور پھر ان میں کئی لوگ رسوخ والے طاقت والے اور دولت والے تھے اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ چونکہ ابھی تک اختلافات کی کشمکش مخفی تھی اس لئے یہ بھی علم نہیں تھا کہ کون اپنا ہے اور کون بیگانہ اور دوسری طرف جماعت کا یہ حال تھا کہ ایک بیوہ کی طرح بغیر کسی خبر گیر کے پڑی تھی۔ گویا ایک ریوڑ تھا جس پر کوئی گلہ بان نہیں تھا اور چاروں طرف بھیڑئیے تاک لگائے بیٹھے تھے۔
اس قسم کے حالات نے دلوں میں عجیب ہیبت ناک کیفیت پیدا کر رکھی تھی اور گو خدا کے وعدوں پر ایمان تھا مگر ظاہری اسباب کے ماتحت دل بیٹھے جاتے تھے جمعہ سے لے کر عصر تک کا وقت زیادہ نہیں ہوتا مگر یہ گھڑیاں ختم ہونے میں نہیں آتی تھیں۔ آخر خدا خدا کر کے عصر کا وقت آیا اور خدا کے ذکر سے تسلی پانے کے لئے سب لوگ مسجد نور میں جمع ہو گئے۔ نماز کے بعد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک مختصر مگر نہایت درد انگیز اور موثر تقریر فرمائی اور ہر قسم کے اختلافی مسئلہ کا ذکر کرنے کے بغیر جماعت کو نصیحت کی کہ یہ ایک نہایت نازک وقت ہے اور جماعت کے لئے ایک بھاری ابتلاء کی گھڑی درپیش ہے پس سب لوگ گریہ وزاری کے ساتھ خدا سے دعائیں کریں کہ وہ اس اندھیرے کے وقت میں جماعت کے لئے روشنی پیدا کر دے اور ہمیں ہر رنگ کی ٹھوکر سے بچا کر اس رستہ پر ڈال دے جو جماعت کے لئے بہتر اور مبارک ہے اور اس موقعہ پر آپ نے یہ بھی تحریک فرمائی کہ جن لوگوں کو طاقت ہو وہ کل کے دن روزہ بھی رکھیں تا کہ آج رات کی نمازوں اور دعائوں کے ساتھ کل کا دن بھی دعا اور ذکر الٰہی میں گزرے۔ اس تقریر کے دوران میں لوگ بہت روئے اور مسجد کے چاروں کونوں سے گریہ و بکا کی آوازیں بلند ہوئیں مگر تقریر کے ساتھ ہی لوگوں کے دلوں میں ایک گونہ تسلی کی صورت بھی پیدا ہو گئی اور وہ آہستہ آہستہ منتشر ہو کر دعائیں کرتے ہوئے اپنی اپنی جگہوں کو چلے گئے۔
رات کے دوران میں اس بات کا علم ہوا کہ منکرین خلافت کے لیڈر مولوی محمد علی صاحب ایم اے نے حضرت خلیفہ اوّل کی وفات سے قبل ہی ایک رسالہ ’’ ایک نہایت ضروری اعلان ‘‘ کے نام سے چھپوا کر مخفی طور پر تیار کر رکھا تھا اور ڈاک میں روانہ کرنے کے لئے اس کے پیکٹ وغیرہ بھی بنوا رکھے تھے اور اب یہ رسالہ بڑی کثرت کے ساتھ تقسیم کیا جا رہا تھا۔ بلکہ یہ محسوس کر کے کہ حضرت خلیفہ اوّل کی وفات بالکل سر پر ہے آپ کی زندگی میں ہی اس رسالہ کو دور کے علاقوں میں بھجوا دیا گیا تھا۔ اس رسالہ کا مضمون یہ تھا کہ جماعت میں خلافت کے نظام کی ضرورت نہیں بلکہ انجمن کا انتظام ہی کافی ہے البتہ غیراحمدیوں سے بیعت لینے کی غرض سے اور حضرت خلیفہ اوّل کی وصیت کے احترام میں کسی شخص کو بطور امیر مقرر کیا جا سکتا ہے ۔ مگر یہ شخص جماعت یا صدر انجمن احمدیہ کا مطاع نہیں ہو گا بلکہ اس کی امارت اور سرداری محدود اور مشروط ہو گی وغیرہ وغیرہ ۔ یہ اشتہار یا رسالہ بیس اکیس صفحے کا تھا اور اس میں کافی مفصل بحث کی گئی تھی اور طرح طرح سے جماعت کو اس بات پر ابھارا گیا تھا کہ وہ کسی واجب الاطاعت خلافت پر رضامند نہ ہوں۔ جب قادیان میں اس رسالہ کی اشاعت کا علم ہوا اور یہ بھی پتہ لگا کہ قادیان سے باہر اس رسالہ کی اشاعت نہایت کثرت کے ساتھ کی گئی ہے تو طبعاً اس پر بہت فکر پیدا ہوا کہ مبادا یہ رسالہ ناواقف لوگوں کی ٹھوکر کا باعث بن جائے۔ اس کا فوری ازالہ وسیع پیمانہ پر تو مشکل تھا مگر قادیان کے حاضر الوقت احمدیوں کی ہدایت کے لئے ایک مختصر سا نوٹ تیار کیا گیا جس میں یہ درج تھا کہ جماعت میں اسلام کی تعلیم اور حضرت مسیح موعود ؑ کی وصیت کے مطابق خلافت کا نظام ضروری ہے اور جس طرح حضرت خلیفہ اول جماعت کے مطاع تھے اسی طرح آئندہ خلیفہ بھی مطاع ہو گا اور خلیفہ کے ساتھ کسی قسم کی شرائط وغیرہ طے کرنا یا اس کے خدا داد اختیاروں کو محدود کرنا کسی طرح درست نہیں۔ اس نوٹ پر حاضر الوقت لوگوں کے دستخط کرائے گئے تا کہ یہ اس بات کا ثبوت ہو کہ جماعت کی اکثریت نظام خلافت کے حق میں ہے۔ غرض یہ رات بہت سے لوگوں نے انتہائی کرب اور اضطراب کی حالت میں گزاری۔
دوسرے دن فریقین میں ایک آخری سمجھوتہ کی کوشش کے خیال سے نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی پر ہر دو فریق کے چند زعماء کی میٹنگ ہوئی جس میں ایک طرف مولوی محمد علی صاحب اوران کے چند رفقا اور دوسری طرف حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور نواب محمد علی خاں صاحب اور بعض دوسرے مؤیدین خلافت شامل ہوئے اس میٹنگ میں منکرین خلافت کو ہر رنگ میں سمجھایا گیا کہ اس وقت سوال صرف اصول کا ہے پس کسی قسم کے ذاتی سوال کو درمیان میں نہ لائیں اور جماعت کے شیرازہ کی قدر کریں۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر منکرین خلافت سرے سے خلافت ہی کے اڑانے کے در پے نہ ہوں تو ہم خدا کو حاضر و ناظر جان کر عہد کرتے ہیں کہ مومنوں کی کثرت رائے سے جو بھی خلیفہ منتخب ہو گا خواہ وہ کسی پارٹی کا ہو ہم سب دل و جان سے اس کی خلافت کو قبول کریں گے مگر منکرین خلافت نے اختلافی مسائل کو آڑ بنا کر خلافت کے متعلق ہر قسم کے اتحاد سے انکار کر دیا۔ بالآخر جب یہ لوگ کسی طرح بھی نظام خلافت کے قبول کرنے کے لئے آمادہ نہ ہوئے تو ان سے استدعا کی گئی کہ اگر آپ لوگ خلافت کے منکر ہی رہنا چاہتے ہیں تو آپ کا خیال آپ کو مبارک ہو لیکن جو لوگ خلافت کو ضروری خیال کرتے ہیں آپ خدا را ان کے رستے میں روک نہ بنیں اور انہیں اپنے میں سے کوئی خلیفہ منتخب کر کے ایک ہاتھ پر جمع ہو جانے دیں مگر یہ اپیل بھی بہرے کانوں پر پڑی اور اتحاد کی آخری کوشش ناکام گئی۔ چنانچہ جب ۱۴؍ مارچ ۱۹۱۴ء کو بروز ہفتہ عصر کی نماز کے بعد سب حاضر الوقت احمدی خلافت کے انتخاب کے لئے مسجد نور میں جمع ہوئے تو منکرین خلافت بھی اس مجمع میں روڑا اٹکانے کی غرض سے موجود تھے۔
اس دو ہزار کے مجمع میں سب سے پہلے نواب محمد علی خان صاحب نے حضرت خلیفہ اوّل کی وصیت پڑھ کر سنائی۔ جس میں جماعت کو ایک ہاتھ پر جمع ہو جانے کی نصیحت کی تھی اس پر ہر طرف سے ’’ حضرت میا ں صاحب حضرت میاں صاحب ‘‘ کی آوازیں بلند ہوئیں اور اسی کی تائید میں مولانا سیدمحمد احسن صاحب امروہوی نے جو جماعت کے پرانے بزرگوں میں سے تھے کھڑے ہو کر تقریر کی اور خلافت کی ضرورت اور اہمیت بتا کر تجویز کی کہ حضرت خلیفہ اوّل کے بعد میری رائے میں ہم سب کو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے ہاتھ پر جمع ہو جانا چاہئے کہ وہی ہر رنگ میں اس مقام کے اہل اور قابل ہیں۔ اس پر سب طرف سے پھر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے حق میں آوازیں اٹھنے لگیں اور سارے مجمع نے بالاتفاق اور بالاصرار کہا کہ ہم انہی کی خلافت کو قبول کرتے ہیں۔ جیسا کہ بتایا جا چکا ہے اس وقت مولوی محمد علی صاحب اور ان کے بعض رفقا ء بھی موجود تھے۔ مولوی محمد علی صاحب نے مولوی محمد احسن صاحب کی تقریر کے دوران میں کچھ کہنا چاہا اور اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی لیکن لوگوں نے یہ کہہ کر انہیں روک دیا کہ جب آپ خلافت ہی کے منکر ہیں تواس موقع پر ہم آپ کی کوئی بات نہیںسن سکتے۔ اور اس کے بعد مومنوں کی جماعت نے اس جوش اور ولولہ کے ساتھ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی طرف رخ کیا کہ اس کا نظارہ کسی دیکھنے والے کو نہیں بھول سکتا۔ لوگ چاروں طرف سے بیعت کے لئے ٹوٹے پڑتے تھے اور یوں نظر آتا تھا کہ خدائی فرشتے لوگوں کے دلوں کو پکڑ پکڑ کر منظورِ ایزدی کی طرف کھینچے لا رہے ہیں۔ اس وقت ایسی ریلا پیلی تھی اور جوش کا یہ عالم تھا کہ لوگ ایک دوسرے پر گر رہے تھے اور بچوں اور کمزور لوگوں کے پِس جانے کا ڈر تھا اور چاروں طرف سے یہ آواز اٹھ رہی تھی کہ ہماری بیعت قبول کریں ہماری بیعت قبول کریں۔ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے چند لمحات کے تامل کے بعد جس میں ایک عجیب قسم کا پُر کیف عالم تھا لوگوں کے اصرار پر اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور بیعت لینی شروع کی۔ یکلخت مجلس میں ایک سناٹا چھا گیا اور جو لوگ قریب نہیں پہنچ سکتے تھے انہوں نے اپنی پگڑیاں پھیلا پھیلا کر اور ایک دوسری کی پیٹھوں پر ہاتھ رکھ کر بیعت کے الفاظ دہرائے۔ ۱؎ بیعت شروع ہو جانے کے بعد مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء اس مجمع سے حسرت کے ساتھ رخصت ہو کر اپنی فرودگاہ کی طرف چلے گئے۔
بیعت کے بعد لمبی دعا ہوئی جس میں سب لوگوں پر رقت طاری تھی اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے اس مجمع میں کھڑے ہو کر ایک درد انگیز تقریر فرمائی جس میں جماعت کو اس کے نئے عہد کی ذمہ داریاں بتا کر آئندہ کام کی طرف توجہ دلائی اور اسی دوران میں کہا کہ میں ایک کمزور اور بہت ہی کمزور انسان ہوں مگر میں خدا سے امید رکھتاہوں کہ جب اس نے مجھے اس خلعت سے نوازا ہے تو وہ مجھے اس بوجھ کے اٹھانے کی طاقت دے گا اور میں تمہارے لئے دعا کروں گا اور تم میرے لئے دعا کرو چنانچہ فرمایا :۔
’’ دوستو ! میرا یقین اور کامل یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ میرے پیارو! پھر میرا یقین ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں …… پھر میرا یقین ہے کہ قرآن مجید وہ پیاری کتاب ہے جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئی اور وہ خاتم الکتب اور خاتم شریعت ہے۔ پھر میرا یقین کامل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہی نبی تھے جس کی خبر مسلم میں ہے اور وہی امام تھے جس کی خبر بخاری میں ہے۔ مگر میں پھر کہتا ہوں کہ شریعت اسلامی میں کوئی حصہ اب منسوخ نہیں ہو سکتا ……… خوب غور سے دیکھ لو اور تاریخ اسلام میں پڑھ لو کہ جو ترقی اسلام کی خلفاء راشدین کے زمانہ میں ہوئی جب وہ خلافت محض حکومت کے رنگ میں تبدیل ہو گئی تو گھٹتی گئی …… تیرہ سو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسی منہاج نبوت پر حضرت مسیح موعود ؑ کو آنحضرت ﷺ کے وعدوں کے موافق بھیجا اور ان کی وفات کے بعد پھر وہی سلسلہ خلافت راشدہ کا چلا ہے …… حضرت خلیفۃ المسیح مولوی نورالدین صاحب ان کا درجہ اعلیٰ علیین میں ہو… اس سلسلہ کے پہلے خلیفہ تھے …… پس جب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا اسلام مادی اور روحانی طور پر ترقی کرتا رہے گا ……
میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ میرے دل میں ایک خوف ہے اور میں اپنے وجود کو بہت ہی کمزور پاتا ہوں ……… میں جانتا ہوں کہ میں کمزور اور گنہگار ہوں ۔میں کس طرح دعویٰ کر سکتا ہوں کہ میں دنیا کی ہدایت کر سکوں گا اور حق اور راستی کو پھیلا سکوں گا۔ ہم تھوڑے ہیں اور اسلام کے دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم اور غریب نوازی پر ہماری امیدیں بے انتہا ہیں۔ تم نے یہ بوجھ مجھ پر رکھا ہے۔ تو سنو ! اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لئے میری مدد کرو اور وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے فضل اور توفیق چاہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور فرمانبرداری میں میری اطاعت کرو۔
میں انسان ہوں اور کمزور انسان۔ مجھ سے کمزوریاں ہوں گی تو تم چشم پوشی کرنا۔ تم سے غلطیاں ہوں گی۔ میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر عہد کرتا ہوں کہ میں چشم پوشی اور درگذر کروں گا۔ اور میرا اور تمہارا متحدہ کام اس سلسلہ کی ترقی اور اس سلسلہ کی غرض و غایت کو عملی رنگ میں پیدا کرنا ہے …… اگر اطاعت اور فرمانبرداری سے کام لو گے اور اس عہد کو مضبوط کرو گے تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہماری دستگیری کرے گا۔ ‘‘ ۱؎
اس بیعت اور اس تقریر کے بعد لوگوں کی طبیعتوں میں کامل سکون تھا اور ان کے دل اس طرح تسلی پا کر ٹھنڈے ہو گئے تھے جس طرح کہ ایک گرمی کے موسم کی بارش جھلسی ہوئی زمین کو ٹھنڈا کر دیتی ہے ۔ روح القدس نے آسمان پرسے ان کے دلوں پر سکینت نازل کی اور خدا کے مسیح کی یہ بات ایک دفعہ پھر پوری ہوئی کہ :۔
’’ میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے۔ ‘‘ ۲؎
دعا اور تقریر کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے شمالی میدان میں قریباً دو ہزار مردوں اورکئی سو عورتوں کے مجمع میں حضرت خلیفہ اوّل ؓ کی نماز جنازہ پڑھائی اور پھر حضور کی معیت میں مخلصین کا یہ بھاری مجمع جس کے ہر متنفس کا دل اس وقت رنج و خوشی کے دہرے جذبات کا مرکز بنا ہوا تھا حضرت خلیفہ اوّل کی نعش مبارک کو لے کر بہشتی مقبرہ کی طرف روانہ ہوا اور وہاں پہنچ کر اس مبارک انسان کے مبارک وجود کو ہزاروں دعائوں کے ساتھ اس کے آقا و محبوب کے پہلو میں سُلا دیا۔
اے جانے والے ! تجھے تیرا پاک عہد خلافت مبارک ہو کہ تو نے اپنے امام و مطاع مسیح کی امانت کو خوب نبھایا اور خلافت کی بنیادوں کو ایسی آہنی سلاخوں سے باندھ دیا کہ پھر کوئی طاقت اسے اپنی جگہ سے ہلا نہ سکی۔ جا ۔ اور اپنے آقا کے ہاتھوں سے مبارکباد کا تحفہ لے اور رضوانِ یار کا ہار پہن کر جنت میں ابدی بسیرا کر۔ اور اے آنے والے! تجھے بھی مبارک ہو کہ تو نے سیاہ بادلوں کی دل ہلا دینے والی گرجوں میں مسندِ خلافت پر قدم رکھا اور قدم رکھتے ہی رحمت کی بارشیں برسا دیں۔ تو ہزاروں کانپتے ہوئے دلوں میں سے ہو کر تختِ امامت کی طرف آیا اور پھر صرف ایک ہاتھ کی جنبش سے ان تھراتے ہوئے سینوں کو سکینت بخش دی۔ آ۔ اور ایک شکور جماعت کی ہزاروں دعائوں اور تمنائوں کے ساتھ ان کی سرداری کے تاج کو قبول کر۔ تو ہمارے پہلو سے اٹھا ہے مگر بہت دور سے آیا ہے۔ آ۔ اور ایک قریب رہنے والے کی محبت اور دور سے آنے والے کے اکرام کا نظارہ دیکھ۔
اے فخر رسل قرب تو معلومم شد

دیر آمدۂ زراہ دُور آمدۂ







حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کا عہدِ خلافت
شانِ موعود :۔ آنحضرت ﷺ ایک حدیث میں فرماتے ہیں کہ میں اس وقت سے خدا کا نبی
ہوں کہ جب ابھی آدم اپنی خلقت کے ابتدائی مراحل میں پانی اور مٹی کے اندر مخلوط پڑا تھا۔ یہ نعوذ باللہ ایک فخریہ کلام نہیں ہے بلکہ ایک نہایت گہری اور لطیف صداقت پر مبنی ہے اور اس کی تہ میں یہ اصول مخفی ہے کہ جب خدا تعالیٰ دنیا میں کوئی انقلاب پیدا کرنا چاہتا ہے تو وہ اس انقلاب کی تیاری میں بہت عرصہ پہلے سے ایک داغ بیل قائم کرتا ہے اور پھر کئی درمیانی تغیرات کے بعد انقلاب کے ظہور کی باری آتی ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ خود اپنے متعلق بھی لکھتے ہیں کہ آدم سے لے کر آنحضرت ﷺ تک سارے نبی میری بعثت کی خبر دیتے آئے ہیں ۔ اسی طرح چونکہ ازل سے یہ بھی مقدر تھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی اولاد میں ایک خاص شان کا شخص پیدا ہو گا جو آپ کے بعد آپ کا خلیفہ ہو کر آپ کے خداداد مشن کو غیر معمولی طور پر ترقی دے گا اس لئے جہاں خدا نے آنحضرت ﷺ کے منہ سے یہ پیشگوئی کروائی کہ آخری زمانہ میں ایک عظیم الشان روحانی مصلح مسیح موعود کے نام سے مبعوث ہو گا وہاں آپ ہی کے منہ سے اس بات کا بھی اعلان کروایا کہ یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہٗ ۱؎ یعنی جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس حدیث کی تشریح فرمائی ہے یہ عظیم الشان مصلح اکیلا نہیں آئے گا بلکہ خدائی منشاء کے ماتحت اس کی ایک خاص جگہ شادی ہو گی اور اس شادی سے خدا اسے اولاد عطا کرے گا جن میں سے ایک بیٹا خاص شان کا نکلے گا جس سے اس کے کام کو بہت ترقی حاصل ہو گی ۔ اس طرح گویا خدا نے مسیح موعود کی بعثت کے ساتھ ساتھ ہی آپ کے ایک موعود فرزندکی روحانی خلافت کی بھی داغ بیل قائم کر دی۔
اس کے بعد جب حضرت مسیح موعودؑ کا زمانہ آیا اور اس موعود بیٹے کے ظہور کا وقت بھی قریب پہنچا تو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ پر اس پیشگوئی کی مزید تفصیلات ظاہر فرمائیں اور پسرِ موعود کی شان کے اظہار کے علاوہ اس کے کام کی وسعت اور اس کے عروج اور ترقی کے متعلق بھی معین بشارات دیں۔ چنانچہ ابھی حضرت مسیح موعود کے زمانہ ماموریت کی ابتداء ہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً بتایا کہ :۔
’’ تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا ایک ذکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہو گا …… وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا ۔ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت اور غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری اور باطنی سے پُر کیا جائے گا …… فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَالْاَخِرِ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعُلَآئِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآئِ جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا۔ نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا ۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ ‘‘ ۱؎
اور ایک بعد کے اشتہار میں حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:۔
’’ مجھے ایک خواب میں اس مصلح موعود کی نسبت زبان پر یہ شعر جاری ہوا تھا۔ ‘‘
’’ اے فخرِ رسل قربِ تو معلومم شد
دیر آمدۂِ زراہِ دور آمدۂِ ‘‘ ۲؎
اور پھر :۔
’’ وہ اولوالعزم ہو گااور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہو گا۔ ‘‘ ۳؎
یہ وہ شاندار پیشگوئی ہے جس میں حضرت مسیح موعودؑ کو پسر موعود کے مقام اور کام کے متعلق خبر دی گئی اور جماعت احمدیہ کا یہ تسلیم شدہ عقیدہ ہے کہ یہ پیشگوئی حضرت خلیفۃ المسیح ثانی میں پوری ہوئی ہے کیونکہ آپ کے اوصاف اور آپ کی خلافت کے حالات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آپ ہی اس کے مصداق ہیں۔ بے شک حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے خدا سے الہام پا کر دعویٰ نہیں کیا مگر آپ نے اپنے آپ کو اس پیشگوئی کا مصداق ضرور قرار دیا ہے ۔ ۱؎ اور مصلح موعود کے متعلق یہ شرط نہیں تھی کہ وہ مامور ہو گا بلکہ اس کے متعلق صرف یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ روح القدس سے نصرت پائے گا اور حضرت مسیح موعود ؑ کے بعد آکر اور آپ کے رنگ میں رنگین ہو کر آپ کے کام کو ترقی دے گا اور پھر ایک برحق خلیفہ بھی ا س رنگ میں گویا مامور ہی ہوتا ہے کہ گو اس کا انتخاب بظاہر مومنوں کی رائے سے ہوتا ہے مگر اس کے انتخاب میں خدائی تقدیر کام کرتی ہے اور یہاں تو جس رنگ میں اور جن حالات کے ماتحت حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کا انتخاب ہوا وہ اس بات کو روز روشن کی طرح ظاہر کر رہے ہیں کہ اس وقت لوگوں کے دل اور لوگوں کی زبانیںخدا کے ہاتھ میں تھیں اور لوگ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ قدرت کی مخفی تاروں سے مجبور ہو کر اس طرف کھچے آرہے تھے۔ پس یقینا حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کا مقام عام خلفاء کے مقام سے ممتاز و بالا ہے اور جس رنگ میں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی خلافت کو نوازا ہے اور اس کے ہر پہلو کو اپنی برکت کے ہاتھ سے ممسوح کیا ہے اس کی مثال دوسری جگہ بہت کم نظر آتی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کے سوانح قبل از خلافت :۔ اس تمہیدی نوٹ کے بعد اور
حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کے عہد خلافت کا ذکر شروع کرنے سے قبل ہم آپ کی ابتدائی زندگی کے حالات اور سوانح کے متعلق ایک نہایت مختصر نوٹ درج کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ سو جاننا چاہئے کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ۱۲؍ جنوری ۱۸۸۹ء کو ہفتہ کے دن بوقت شب قادیان میں پیدا ہوئے تھے۔ اس سے پہلے ہماری والدہ صاحبہ کے بطن سے حضرت مسیح موعود ؑ کی صرف ایک لڑکی زندہ تھی مگر وہ بھی کچھ عرصہ بعد فوت ہو گئی۔ اور اب گویا آپ اپنے سب بہن بھائیوں میں بڑے ہیں۔ آپ کی ولادت پرحضرت مسیح موعود ؑ نے ایک اشتہار شائع فرمایا تھا جس میں آپ کی ولادت پر خوشی کا اظہار کر کے اپنی بعض سابقہ پیشگوئیاں یاد کرائی تھیں اور اسی اشتہار میں لوگوں کو بیعت کے لئے آمادہ کرنے کے واسطے دس شرائط بیعت کا بھی اعلان فرمایا تھا جس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے لدھیانہ میں پہلی بیعت لی۔ اس طرح گویا حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی ولادت اور جماعت احمدیہ کا آغاز ایک ہی وقت میں جمع ہو جاتے ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ جسمانی اور روحانی رنگ میں یہ دونوں توام ہیں۔
جب حضرت خلیفۃ المسیح ثانی تعلیم کی عمر کو پہنچے تو آپ کو مقامی مدرسہ میں داخل کرا دیا گیا مگر طالب علمی کے زمانہ میں آپ کو کبھی بھی کتابی تعلیم میں دلچسپی نہیں ہوئی حتیّٰ کہ بعض اوقات آپ کے اساتذہ شکایت کے رنگ میں حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں کہلا بھیجتے تھے کہ انہیں پڑھائی کی طرف توجہ نہیں۔ ایک دفعہ جبکہ آپ کے ریاضی کے استاد نے زیادہ اصرارکے ساتھ توجہ دلائی تو حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ جس حد تک یہ شوق سے پڑھتا ہے پڑھنے دو۔ ہمیں ان پڑھائیوں کی زیادہ ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ انٹرنس تک اسی طرح گرتے پڑتے پہنچے ۔ اس کے آگے چونکہ سرکاری امتحان تھا اس لئے فیل ہو کر رک گئے اور یہی اب آپ کی مدرسی تحصیل علم کی حد ہے۔ مگر یہ ایک اتفاقی حادثہ نہیں تھا بلکہ تقدیر الٰہی کا ایک زبردست کرشمہ تھا کیونکہ جیسا کہ بعد کے واقعات نے بتایا خدا خود آپ کا معلم بننا چاہتا تھا پس اگر آپ کے معاملہ میں دنیوی استادوں کی خواہشیں پوری ہو جاتیں اور آپ بڑی بڑی علمی ڈگریاں حاصل کر لیتے تو خدائی تعلیم کا پہلو کس طرح روشن ہوتا۔ اب یہ حال ہے کہ باطنی اور روحانی علم کا معاملہ تو خیر جداگانہ ہے ظاہری علوم میں بھی آپ کی نظر ہر اس علم کے میدان میں جس کا کسی نہ کسی رنگ میں دین کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے خواہ وہ واسطہ کتنا ہی دور کا ہو اس قدر وسیع ہے کہ کسی اسلامی صداقت پر حملہ کرنے والا خواہ وہ کیسے ہی دنیوی علوم کے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر آئے وہ آپ کے سامنے طفلِ مکتب نظر آتا ہے ۔ اور خدا کا یہ فرمانا حرف بہ حرف پورا ہوا ہے کہ :۔
’’ وہ علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا ‘‘
حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی جبکہ آپ کا بالکل بچپن کا زمانہ تھا آپ میں خدمت دین کا ایک زبردست جذبہ پیدا ہو چکا تھا چنانچہ جب حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں احمدی نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ خدمت کے لئے آگے آئیں اور اپنے آپ کو اس کے لئے تیار کریں تو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے فوراً اس ارشاد کی تعمیل میں ایک انجمن تشحیذ الاذہان قائم کر کے اور اس کی نگرانی میں ایک اسی نام کا رسالہ جاری کر کے تقریر و تحریر میں مشق کا سلسلہ شروع کر دیااور ابھی زیادہ وقت نہیں گذرا تھا کہ اس انجمن اور اس رسالہ کے ذریعہ خدمت دین کا شاندار کام سر انجام پانے لگا۔ حضرت مسیح موعود کی وفات کے وقت آپ کی عمر صرف ساڑھے انیس سال کی تھی مگر اس وقت بھی مخالفوں کے اعتراضوں کا سب سے زیادہ مفصل اور دندان شکن جو اب آپ ہی کے قلم سے نکلا۔ ۱؎
اس کے بعد حضرت خلیفہ اوّل ؓ نے آپ کو اپنی خاص تربیت میں لے لیا اور آپ نے حضرت خلیفہ اوّل سے قرآن شریف اور بعض کتب حدیث و تصوف کی جس حد تک کہ خدا نے چاہا تعلیم حاصل کی مگر اس تعلیم کا بھی رنگ خاص تھا۔ حضرت خلیفہ اوّل ؓ کا قاعدہ تھا کہ آپ اپنے شاگردوں کے ساتھ بہت بے تکلف رہتے تھے اور شاگردوں کو یہ آزادی تھی کہ درس کے وقت میں جس طرح چاہیں سوالات کر کے بلکہ آپ کے ساتھ بحث مباحثہ میں پڑ کر اپنے علم میں ترقی دیں مگر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو آپ نے منع کر دیا تھا کہ وہ کوئی سوال نہ کیا کریں اور ہدایت دی تھی کہ جب کوئی مشکل پیش آئے تو خود سوچ کر اور طبیعت پر زور ڈال کر اس کا حل نکالا کریں۔
۱۹۱۱ء کے اوائل میں آپ نے حضرت خلیفہ اوّل کی اجازت سے تبلیغ و تربیت اور باہمی رابطہ و اتحاد و محبت کی غرض سے ایک انجمن انصار اللہ قائم کی جس کے ممبروں کا یہ فرض تھا کہ وہ خدمت دین اور تبلیغ اسلام و احمدیت کے لئے اپنے وقت کا کچھ حصہ لازماً دیں اور لوگوں کے لئے پاک نمونہ بنیں اور آپس میں محبت و اخوت کا رابطہ بڑھائیں۔ ۲؎ چنانچہ جماعت کے بہت سے احباب نے اس انجمن کی ممبری قبول کی اور ان کے ذریعہ سے تبلیغ و تربیت کے کام میں ایک خاص ولولہ پیدا ہو گیا۔ ۱۹۱۲ء کے ماہ ستمبر کے آخر میں آپ بیت اللہ کے حج کے لئے تشریف لے گئے ۱ ؎ اور اس سفر میں بھی تبلیغ کا حق خوب ادا کیا ۔ ۱۹۱۳ء کے وسط میں آپ نے قادیان سے الفضل اخبار کا اجراء کیا جس میں سلسلہ کی خبروں کے علاوہ ایک مقررہ پروگرام کے ماتحت علمی اور تاریخی اور تبلیغی اور تربیتی مضامین شائع ہوتے تھے اور ایک نہایت قلیل عرصہ میں اس اخبار نے نہ صرف اپنوں میں بلکہ بیگانوں میں بھی بہت مقبولیت حاصل کر لی اور حضرت خلیفہ اوّل ؓ کی وفات کے بعد سے یہی اخبار جماعت احمدیہ کا مرکزی آرگن ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل کے زمانہ میں آپ صدر انجمن احمدیہ کے پریذیڈنٹ تھے اور اس زمانہ میں آپ صدر انجمن احمدیہ کے انتظام میں کئی صیغوں کے آنریری انچارج بھی رہے جن میں لنگرخانہ اور مدرسہ احمدیہ زیادہ نمایاں تھے۔ اسی زمانہ میں آپ حضرت خلیفہ اوّل ؓ کے حکم کے ماتحت شمالی ہندوستان کے کئی مقامات میں تبلیغ کے لئے تشریف لے گئے اور خدا کے فضل سے آپ کے لیکچر ہمیشہ بہت مقبول ہوتے تھے۔
آپ کی اوّلیات میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ آپ نے شروع سے ہی اس مخفی فتنہ کے شراروں کو دیکھ لیا تھا جو بالآخر وسیع ہو کر حضرت خلیفہ اوّل ؓ کی وفات پر نمودار ہوا اور آپ نے ہر ممکن کوشش اس فتنہ کو مٹانے اور اس کی وسعت کو روکنے کے لئے کی۔ اس کوشش میں آپ کو طرح طرح کے مصائب میں سے ہو کر گزرنا پڑا مگر آپ نے ان مصائب کی ذرہ بھر پرواہ نہیں کی اور جماعت کو اس گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لئے اپنی پوری طاقت صرف کر دی۔ اسی لئے منکرین خلافت آپ کو اپنا دشمن نمبر ۱ خیال کرتے تھے مگر آپ نے ان کے ہر وار کو اپنے نہتے ہاتھوں پر لیا اور کبھی ایک سیکنڈ کے لئے بھی صداقت کی مضبوط چٹان سے متزلزل نہیں ہوئے۔ خدا کی مشیت نے تو بہر حال پورا ہو کر رہنا تھا مگر ظاہری اسباب کے لحاظ سے یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اگر حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کا وجود نہ ہوتا تو اس وقت جماعت احمدیہ ایک خطرناک فتنہ کے بھنور میں گھری ہوئی ہوتی اور خاص خاص نفوس کو چھوڑ کر اس کا رستہ وہی ہوتا جو آج منکرین خلافت کا رستہ ہے کہ خدا کے برگزیدہ مسیح کی طرف سے منہ موڑ کر الٹے پائوں لوٹے جا رے ہیں اور جس گڑھے سے نکلے تھے اسی میں گرنے کے در پے ہیں حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کا یہ ایک ایسا عظیم الشان احسان ہے کہ جس کی قدر و قیمت زمانہ کے گزرنے کے ساتھ کم نہیں ہو گی بلکہ دن بدن بڑھتی جائے گی اور اس کا پورا پورا اندازہ تب جا کر ہو گا کہ جب ہمارے ان بھٹکے ہوئے دوستوں کا روحانی انجام ننگا ہو کر بعد میں آنے والی نسلوں کے سامنے آئے گا۔
الغرض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ کے زمانہ میں ہی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اپنے علم و فضل سے ایسا مقام حاصل کر لیا تھا کہ جماعت کے ہر مخلص فرد کی نظر شکر و امتنان کے جذبات کے ساتھ آپ کی طرف اٹھتی تھی اور حضرت خلیفہ اوّل ؓ بھی آپ کو انتہائی محبت اور اکرام کی نظر سے دیکھتے تھے اور آپ پر از حد خوش تھے۔ چنانچہ اپنی بیماری وغیرہ کے ایام میں ہمیشہ آپ ہی کو اپنی جگہ امام صلوۃ مقرر فرماتے تھے اور بسا اوقات اپنی پبلک تقریروں میں آپ کے جذبہ اطاعت اور جذبہ خدمت دین اور علمی قابلیت کی تعریف فرمایا کرتے تھے اور کئی دفعہ اشارہ کنایہ سے اس بات کا بھی اظہار فرمایا کہ میرے بعد یہی خلیفہ ہوں گے ۔چنانچہ ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا :۔
’’ ایک نکتہ قابل یاد سنائے دیتا ہوں کہ جس کے اظہار سے میں باوجود کوشش رک نہیں سکا۔ وہ یہ کہ میں نے حضرت خواجہ سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا۔ ان کو قرآن شریف سے بڑا تعلق تھا۔ ان کے ساتھ مجھے بہت محبت ہے۔ ۷۸ برس تک انہوں نے خلافت کی۔ ۲۲ برس کی عمر میں وہ خلیفہ ہوئے تھے۔ یہ بات یاد رکھو کہ میں نے کسی خاص مصلحت اور خالص بھلائی کے لئے کہی ہے۔ ‘‘ ۱؎
حضرت خلیفہ اوّل ؓ کی وفات کے وقت جو ۱۹۱۴ء میں ہوئی حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی عمر صرف پچیس سال تھی مگر اس خام عمر میں بھی آپ نے سلسلہ احمدیہ کی وسیع ذمہ داریوں کو جس خوبی اور جس حسن انتظام کے ساتھ نبھایا وہ آپ ہی کا حصہ تھا۔ آپ کی اہلی زندگی کے متعلق صرف اس قدر ذکر کافی ہے کہ آپ کی شادی حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میں ہی ہو گئی تھی بلکہ حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میں آپ کے گھر ایک لڑکا بھی پیدا ہوا تھا جو جلد ہی فوت ہو گیا۔مگر اس کے بعد خدا نے آپ کو ماشاء اللہ بہت اولاد دی جن میں سے بڑے لڑکے کا نام مرزا ناصر احمد ہے جو خدا کے فضل سے ایک بہت ہونہار نوجوان ہیں۔
عہد خلافت ثانیہ کی ابتدائی کش مکش :۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی
۱۴؍مارچ ۱۹۱۴ء کو بروز ہفتہ بعد نماز عصر مسند خلافت پر متمکن ہوئے۔ اس وقت قادیان میں قریباً دوہزار مردوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس تعداد میں ایک حصہ ان لوگوں کا بھی شامل تھا جو حضرت خلیفہ اوّل ؓ کی بیماری کے آخری ایام میں یا آپ کی وفات کی خبر سن کر باہر سے آئے ہوئے تھے۔ مگر دوسری طرف اس وقت قادیان میں ہی ایک حصہ ایسا بھی موجود تھا جو حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی بیعت سے منحرف رہا۔ اس حصہ میں زعماء منکرین خلافت اور ان کے رفقا ہر دو شامل تھے۔ ہر چند کہ ان لوگوں کی تعداد بہت قلیل تھی یعنی اس وقت قادیان میں ان کی مجموعی تعداد دو تین فی صدی سے زیادہ نہیں تھی مگر چونکہ ان میں بعض ذی اثر اصحاب شامل تھے۔ مثلاً مولوی محمد علی صاحب ایم اے جو صدر انجمن احمدیہ کے مستقل سیکرٹری اور ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر تھے اور جماعت میں اچھا اثر رکھتے تھے اور مولوی صدر الدین صاحب بی اے جو تعلیم الاسلام ہائی سکول کے مستقل ہیڈ ماسٹر اور صدر انجمن احمدیہ کے قائم مقام سیکرٹری تھے اور اسی طرح بعض اور لوگ جو صدر انجمن احمدیہ کے مختلف صیغہ جات میں کام کرتے تھے اس گروہ میں شریک تھے اس لئے باوجود تعداد کی کمی کے ان لوگوں کے اثر کا دائرہ کافی وسیع تھا۔ مگر سب سے زیادہ فکر جماعت کے اس سوادِ اعظم کے متعلق تھی جو قادیان سے باہر پنجاب و ہندوستان کے مختلف حصوں میں بالکل تاریکی کی حالت میں پڑا تھا۔ پس خلافت کے انتخاب کے بعد پہلا کام یہ تھا کہ جماعت کے ان منتشر دھاگوں کو سمیٹ کر پھر ایک رسی کی صورت میں جمع کر لیا جاوے چنانچہ اس کی طرف فوری توجہ دی گئی اور اخباروں اور رسالوں اور اشتہاروں کی غیر معمولی اشاعت کے علاوہ جماعت کے اہل علم لوگوں کو ملک کی چاروں اطراف میں پھیلا دیا گیا تا کہ وہ بیرنی جماعتوں کو حالات سمجھا کر اور اختلافی امور کی تشریح کر کے اور حضرت مسیح موعود ؑ کی تعلیم بتا کر خلافت کے ہاتھ پر جمع کرنے کی کوشش کریں اور گو خدا کے فضل اور رحم سے جماعت کی کثرت نے ایک غیر معمولی سنبھالا لے کر مرکز کی اپیل پر مخلصانہ لبیک کہا اور حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی بیعت فوراً قبول کر لی مگر چونکہ منکرین خلافت کی طرف سے بھی پر زور پراپیگنڈا جاری تھا اس لئے جماعت کا ایک معتدبہ حصہ ایسا بھی تھا جسے سخت کوشش اور انتہائی جدوجہد کے ساتھ راہ راست پر لانا پڑا۔ یہ ایک ہولناک نظارہ تھا اور گویا ایک قسم کی طولانی رسہ کشی تھی جس میں کئی موقعے خطرے کے پیدا ہوتے رہے مگر بالآخر چپہّ چپہّ اور بالشت بالشت اور ہاتھ ہاتھ خدائی فوج دشمن کے کیمپ میں دھستی چلی گئی اور چند ماہ کی شب و روز کی جنگ کے بعد خدا نے اپنے روحانی خلیفہ کو فتح عطا کی اور جماعت کا زائد از پچانوے فی صدی حصہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گیا۔یہ دن بڑے عجیب و غریب تھے جس کی یاد دیکھنے والوں کو کبھی بھول نہیں سکتی۔ ہر مخلص احمدی جوش سے بھرا ہوا تھا اور ہر فرد اپنے علم اور اپنی استعداد کے مطابق تبلیغ کے کام میں دن رات مصروف تھا اورصحیح معنوں میں ایک پوری پوری جنگی کیفیت نظر آتی تھی۔ اس عرصہ میں منکرین خلافت نے بھی اپنی جدوجہد کو انتہا تک پہنچا دیا اور اصول کی بحث کے علاوہ ذاتیات کے میدان میں بھی قدم رکھ کر ایسا ناز یبا پراپیگنڈا کیا کہ جس نے جماعت کی اخلاقی فضا کو وقتی طور پر مکدر کر دیا مگر فرشتوں کی مخفی فوج کے سامنے سب کوششیں بیکار تھیں اور آہستہ آہستہ حریف کا ہر مورچہ مغلوب ہو کر ہتھیار ڈالتا گیا اور سوائے ایک نہایت قلیل حصہ کے ساری جماعت دامن خلافت کے ساتھ وابستہ ہو گئی۔
دوسری طرف منکرین خلافت کا جو حصہ قادیان میں تھا جس کے ہاتھ میں صدر انجمن احمدیہ کے بعض محکمہ جات کی باگ ڈور تھی اس پر اللہ تعالیٰ نے ایسا رعب طاری کیا کہ وہ قادیان کو چھوڑ کر خودبخود لاہور چلا گیا اور اللہ تعالیٰ نے مرکز سلسلہ کو فتنے کے شراروں سے بہت جلد پاک کر دیا۔ ان لوگوں کا قادیان کو چھوڑنا گو جماعت کے لئے ایک بڑی رحمت ثابت ہوا مگر خود ان کے مفاد کے لحاظ سے یہ ایک خطرناک غلطی تھی جسے انہوں نے خود بھی بعد میں محسوس کیا۔ کیونکہ اوّل تو اس کے بعد ان کے لئے مرکز میں اڈا جمانے کا موقعہ نہ رہا۔ دوسرے چونکہ دنیا کی نظروں میں قادیان ہی سلسلہ احمدیہ کا مرکز تھا اس لئے اپنوں اور بیگانوں کی نظر قادیان ہی کی طرف لگی رہی اور ان لوگوں کے متعلق ہر سمجھنے والے نے یہی سمجھا کہ وہ جماعت کو چھوڑ کر الگ ہو گئے ہیں۔ مگر بہر حال ان کا قادیان سے خودبخود نکل جانا ایک خدائی تصرف تھا جس نے جماعت کے حق میں ایک بھاری ہتھیار کا کام دیا۔
اس اختلاف کے دوران میں صدر انجمن احمدیہ کایہ حال تھا کہ گو اس کے ممبروں میں سے ایک معتدبہ حصہ خلافت کا منکر ہو چکا تھا مگر اب تک بھی ممبروں کی اکثریت خلافت کے حق میں تھی جیسا کہ نقشہ ذیل سے ظاہر ہو گا :۔
۱
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب
خلافت کے حق میں
۲
نواب محمد علی خان صاحب
؍؍
۳
مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی
؍؍
یہ بزرگ شروع میں حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی بیعت میں داخل ہوئے مگر بعد میںمنکرین خلافت کے بہکانے سے بعض امور میں خلاف ہو گئے۔ مگر وفات کے قریب پھر مائل ہو گئے تھے۔
۴
ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب
؍؍
۵
ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب
؍؍
۶
سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی
؍؍
۷
مولانا مولوی شیر علی صاحب
خلافت کے حق میں
۸
خاکسار مرزا بشیر احمد مولف رسالہ ھٰذا
؍؍
۹
مولوی محمد علی صاحب ایم اے
خلافت کے خلاف
۱۰
خواجہ کمال الدین صاحب
؍؍
خواجہ صاحب کی قائم مقامی میں حضرت خلیفہ اوّل ؓ کی وفات کے وقت مولوی صدرالدین صاحب عارضی طور پر ممبر تھے اور وہ بھی خلافت کے خلاف تھے۔
۱۱
ڈاکر مرزا یعقوب بیگ صاحب
؍؍
۱۲
ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب
؍؍
۱۳
شیخ رحمت اللہ صاحب
؍؍
۱۴
مولوی غلام حسن صاحب پشاوری
؍؍
یہ بزرگ خاکسار مولف رسالہ ہذا کے خسر ہیں اور گو اب تک خلافت کے خلاف ہیں مگر منکرین خلافت کی پارٹی سے الگ ہو چکے ہیں۔ دعا ہے کہ خدا تعالیٰ جلد ہدایت دے کر ادھر لے آئے
۱۵
میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی
؍؍
یہ بزرگ شروع میں کچھ وقت تک مصلحۃً منکرین کے ساتھ رہے مگر بعد میں جلد ہی حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی بیعت سے مشرف ہو گئے۔
مندرجہ بالا نقشے میں جن ممبران صدر انجمن احمدیہ کا ذکر ہے یہ سب حضرت مسیح موعود ؑ کے مقرر کردہ تھے سوائے اس کے کہ مولانا مولوی شیر علی صاحب اور خاکسار مولف رسالہ ھٰذا کو حضرت خلیفہ اوّل ؓ نے مقرر فرمایا تھا اور مولوی صدرالدین صاحب کوصدر انجمن احمدیہ نے خود بخود خواجہ کمال الدین صاحب کے سفر ولایت کے ایام میں عارضی ممبر مقرر کر لیا تھا۔ بہر حال اس نقشہ سے ظاہر ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل ؓ کی وفات کے وقت بھی صدر انجمن احمدیہ کی اکثریت خلافت کی موید تھی۔ یہی وجہ ہے کہ منکرین خلافت اس بات پر مجبور ہوئے کہ صدر انجمن احمدیہ سے ۔ ہاں وہی صدر انجمن احمدیہ جو ان کی اس قدر منظور نظر تھی۔ قطع تعلق کر کے اس کی جگہ لاہور میں ایک علیحدہ انجمن قائم کر لیں۔ گویا حضرت خلیفہ اوّل ؓ کی وفات کے بعد ان اصحاب کا صرف خلافت سے ہی قطع تعلق نہیں ہوا بلکہ صدر انجمن احمدیہ سے بھی قطع تعلق ہو گیا اور وہ مرکز سلسلہ کو چھوڑ کر لاہور چلے گئے اور وہاں اپنی ایک جداگانہ انجمن بنا لی جسکا نام انجمن احمدیہ اشاعت اسلام ہے۔
جس وقت یہ اصحاب قادیان کو چھوڑ کر جا رہے تھے اس وقت ان کے تعمیراتی پروگرام نے صدر انجمن احمدیہ کے خزانے کو بالکل خالی کر رکھا تھا اور صرف چند آنوں کے پیسے باقی تھے اور دوسری طرف یہ لوگ اس قدر خودبینی میں مبتلا تھے کہ سمجھتے تھے کہ ہمارے چلے جانے سے یہ سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور ہمارے بعد کوئی شخص اس نظام کو چلا نہیں سکے گا۔ چنانچہ ان کے ایک معزز رکن نے قادیان سے جاتے ہوئے سلسلہ کی عمارات کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اب یہاں اُلو بولیں گے۔ یہ کلمہ اس انتہائی نخوت کا ایک گندہ ابال تھا جو ان لوگوں کے دماغوں میں غلبہ پائے ہوئے تھی اور اس سے اس بے حمیتی پر بھی روشی پڑتی تھی جس کا یہ لوگ شکار ہو رہے تھے کیونکہ خواہ وہ قادیان سے جا رہے تھے مگر بہر حال قادیان ان کے روحانی پیشوا اور سلسلہ احمدیہ کے بانی حضرت مسیح موعود ؑ کا مولد و مسکن و مدفن تھا اور سلسلہ کی تمام روایات قادیان سے وابستہ تھیں۔ پس اگر ان لوگوں کے دل میں مرکز سلسلہ کی ذرا بھی محبت ہوتی تو ان کے منہ سے قادیان کے متعلق اس قسم کے الفاظ ہرگز نہ نکلتے ۔ کہتے ہیں کہ محبوب کی گلی کا کتا بھی پیارا ہوتا ہے مگر ان لوگوں نے اپنے محبوب کے مکانوں اور ہزاروں خدائی نشانات کی جلوہ گاہ عمارتوں اور بیسیوں شعائر اللہ کو محبوب کی گلی کے کتے کے برابر بھی حیثیت نہیں دی۔ مگر اس کا کیا پھل پایا؟ آہ یہ ایک نہایت تلخ خیال ہے جس کے تصور سے بھی دل میں درد اٹھتا ہے۔ پس میں اس کی تشریح میں جانے کے بغیر صرف اس دعا پر اس حصہ مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمارے ان بھٹکے ہوئے بھائیوں کو پھر اس رستہ پر لے آئے جسے انہوں نے کس محبت اورکن امنگوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں اختیار کیا تھا اور خدا وہ وقت نہ لائے کہ حضرت مسیح موعود ؑ قیامت کے دن اپنے صحابہ کی ایک جماعت کو دیکھ کر اُصَیْحَابِیْ اُصَیْحَابِیْ پکاریں مگر خدا کے فرشتے انہیں دھکیل کر دوسری طرف لے جائیں۔ بس میں اس وقت اس مضمون پر اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ :۔
دل میں اک درد اٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے
بیٹھے بیٹھے مجھے کیا جانیئے کیا یاد آیا
اختلافی مسائل کا آغاز و انجام :۔ ہم بتا چکے ہیں کہ حضرت خلیفہ اوّل ؓ کے زمانہ
میں ہی منکرین خلافت کا عقیدہ تین اہم باتوں میں جماعت احمدیہ کے سوادِ اعظم سے جدا ہو چکا تھا یعنی اوّل خلافت کا سوال۔ دوسرے یہ سوال کہ آیا حضرت مسیح موعود ؑ پر ایمان لانا ضروری ہے یا نہیں۔ اور تیسرے حضرت مسیح موعود ؑ کی نبوت کا مسئلہ۔ یہ لوگ خلافت کے منکر اورایک انجمنی نظام کے قائل تھے اور حضرت مسیح موعود ؑ پر ایمان لانے کو اچھا تو خیال کرتے تھے بلکہ ان میں سے اکثر اسے ترقی درجات کے لئے ضروری بھی قرار دیتے تھے مگر نجات کے لئے اسے ضروری نہیں سمجھتے تھے یعنی ان کا یہ عقیدہ تھا کہ آپ پر ایمان لانے کے بغیر بھی انسان نجات پا سکتا ہے اور تیسرے یہ کہ وہ دوسرے مسلمانوں کی طرح آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کے دروازہ کو کلیۃً بند خیال کرتے تھے اور اس بات کے مدعی تھے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ صرف جزوی مشابہت کی وجہ سے استعارہ کے رنگ میں کبھی کبھی اس لفظ کو اپنے متعلق استعمال کیا ہے۔ ان عقائد میں سے مقدم الذکر دو عقیدے تو حضرت خلیفہ اوّل ؓ کی زندگی میں ہی ظاہر و عیاں ہوچکے تھے مگر نبوت کے متعلق ان اصحاب کے عقیدے نے آہستہ آہستہ تدریجی رنگ میں تبدیلی اختیار کی جس کی پوری پوری تشکیل حضرت خلیفہ اوّل ؓ کی وفات کے بعد ہوئی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ کی تحریریں تو خیر صاف ہی ہیں جن میں یہ لوگ کثرت کے ساتھ حضرت مسیح موعود ؑ کی نبوت کا اقرار کرتے رہے ہیں حضرت خلیفہ اوّل ؓ کے زمانہ میں بھی ان میں سے کئی ایک اصحاب نے اپنی تحریرات میں حضرت مسیح موعود ؑ کی نبوت کا اقرار کیا ہے اور اپنے مضمونوں اور تقریروں میں حضرت مسیح موعود ؑ کو نبی کہہ کر پکارتے رہے ہیں ۔ لیکن چونکہ مقدم الذکر دو عقیدوں پر قائم رہتے ہوئے یہ لوگ نبوت کے متعلق اپنے عقیدہ کو بدلنے پر مجبور تھے اس لئے انہوں نے آہستہ آہستہ یہ تیسرا عقیدہ بھی تبدیل کر لیا۔
دراصل اس ساری تبدیلی کی تہ میں یہ جذبہ مخفی تھا کہ یہ لوگ موجودہ زمانہ کی پَین اسلامک تحریک کے ماتحت اس خیال سے حد درجہ متاثر تھے کہ سب مسلمانوں کو آپس میں مل کر رہنا چاہئے اور درمیانی اختلافات کو مٹا کر ایک متحدہ پلیٹ فارم پر جمع ہو جانا چاہئے۔ اس خیال کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ وہ آہستہ آہستہ احمدیت کے ان مخصوص عقائد سے متزلزل ہونے شروع ہو گئے جو ان کے خیال میں احمدیت کو اس زمانہ کے دوسرے مسلمانوں سے علیحدہ کر رہے تھے۔ ان کا یہ میلان حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں بھی ایک حد تک موجود تھا لیکن حضرت مسیح موعود ؑ کی مقناطیسی شخصیت نے ہر قسم کے تشتّت کے خیال کو دبائے رکھا اور جماعت میں کسی خارجی تحریک کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اور جماعت کی خصوصیات کو سختی کے ساتھ قائم رکھا۔ لیکن جب آپ وفات پا گئے تو پھر آہستہ آہستہ ان لوگوں کے خیالات نے پلٹا کھانا شروع کیا اور یکے بعد دیگرے احمدیت کے ایک ایک قلعہ کو نقب لگتی گئی ۔ سلسلہ کے اندرونی اختلافات کا یہ نظریہ ایسا بدیہی ہے کہ سلسلہ کے مخالفوں تک نے اسے محسوس کیا ہے اور گو طبعاً وہ ساری اندرونی کیفیات کو تو نہیں سمجھ سکے مگر انہوں نے اس بات کو ضرور محسوس کر لیا ہے کہ جماعت احمدیہ کی لاہوری پارٹی کا رجحان انہیں آہستہ آہستہ کس طرف لے جا رہا ہے چنانچہ مسٹر ایچ اے والٹرایم اے سیکرٹری آل انڈیا ینگ مین کرسچن ایسوسی ایشن اپنی کتاب احمدیہ موومنٹ میں لکھتے ہیں :۔
’’ سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات یقینی طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ اس فرقہ کی لاہوری پارٹی آہستہ آہستہ مسلمانان ہند کی مسلم لیگ پارٹی کے اندر جذب ہو جائے گی ہاں اس قدر ضرور ہو گا کہ وہ اپنے ساتھ ہندوستان کے مسلمانوں میں مسیحیت کے خلاف ایک زیادہ زبردست جذبہ لیتی جائے گی اور شاید کسی حد تک مسیح ناصری کی موت کا عقیدہ بھی ساتھ لیتی جاوے لیکن اس کے مقابل پر قادیان کی پارٹی آخر تک اسلام کی ایک مستقل اور جداگانہ پارٹی رہے گی اور غالباً اسی حالت میں بڑھتی جائے گی۔ ‘‘ ۱؎
بدقسمتی سے اس سارے انقلاب کی وجہ یہ ہوئی ہے کہ منکرین خلافت نے سلسلہ احمدیہ کی غرض و غایت اور اس کے مقصد و منتہیٰ کو نہیں سمجھا۔ انہوں نے صرف اس قدر دیکھا کہ بانیء سلسلہ احمدیہ ایک نیک اورپاکباز انسان ہیں اور اسلام کی تبلیغ کا خاص شوق رکھتے ہیں اور یہ کہ آپ نے بعض اسلامی عقائد کی ایسی معقول اور حکیمانہ تشریح کی ہے کہ جس سے وہ اعتراضا ت جو آجکل عام طور پر اسلام کے خلاف ہوتے تھے اسلام کے پاک چہرہ سے دھل گئے ہیں۔ اس جذبہ اور اس احساس کے ماتحت انہوں نے احمدیت کو قبول کیا مگر انہوں نے احمدیت کی حقیقت کو نہیں سمجھا اور نہ ہی کبھی یہ غور کیا کہ سلسلہ احمدیہ کس منہاج پر قائم ہے اور اللہ تعالیٰ احمدیت کے ذریعہ دنیا میں کیا انقلاب پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ انقلاب کس رنگ میں پیدا ہو گا ۔ اگر وہ ان باتوں کو سمجھتے تو یقینا وہ اس ٹھوکر سے بچ جاتے جو اب انہیں لگی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں وہ بجائے احمدیت کو موجودہ زمانہ کے اسلام کی طرف لے جانے کے موجودہ اسلام کو احمدیت کی طرف لانے کی کوشش کرتے کیونکہ یہی وہ چیز ہے جو بالآخر غالب آنے والی ہے۔ انہوں نے اس بات کو نہیں سمجھا کہ جب خدا تعالیٰ نے بانیء سلسلہ احمدیہ کو تجدید اسلام کے لئے مبعوث کیا ہے تو اب سنت اللہ کے مطابق بگڑے ہوئے اسلام کو اصلاح شدہ اسلام کی طرف آنا چاہئے نہ یہ کہ اصلاح شدہ اسلام بگڑے ہوئے اسلام کی طرف جائے۔ پھر افسوس ہے کہ ان لوگوں نے قوموں کے اتار چڑھائو کے فلسفہ کو بھی نہیں سمجھا۔ کیونکہ اگر وہ سوچتے تو انہیں یہ بات آسانی کے ساتھ سمجھ آجاتی کہ اصلاح کا طریق یہ نہیں ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کو بچانے کی خاطر اپنی خصوصیات کو ترک کر کے اس میں جذب ہو جاوے اور نہ ہی کسی قوم کی خصوصیات دوسری قوم میں جذب ہونے سے باقی رہ سکتی ہیں۔ جب کسی کھیت کی فصل پرانی ہو کر خراب ہو جاوے اور اجڑنے لگے تو اس کی اصلاح کا یہ طریق نہیں کہ اسی کھیت کے اندر تازہ بیج بکھیر دیا جائے۔ بلکہ اس کی اصلاح کا طریق یہ ہے کہ اس میں ہل چلا کر اسے صاف کیا جائے اور پھر نیا بیج ڈالا جائے۔ پس بے شک اسلام اور قرآن کا کھیت وہی قدیم کھیت ہے جو پہلے تھا اور قیامت تک وہی قائم رہے گا مگر اس کی موجودہ فصل خراب ہو کر اجڑ رہی ہے اور ضرورت ہے کہ اس کھیت میں دوبارہ ہل چلا کر نیا بیج ڈالا جاوے۔
غالباً منکرین خلافت کے لیڈروں کو یہ بات بھی بھولی نہیں ہو گی کہ جب ۱۹۰۶ء کے آغاز میں ایک مشہور غیر احمدی جرنلسٹ نے ان تبلیغی اور علمی مضامین سے متاثر ہو کر جو ریویو آف ریلیجنز میں شائع ہو رہے تھے یہ تجویز پیش کی کہ ریویو کو عام اسلامی مضامین کے لئے وقف کر دیا جاوے اور سلسلہ احمدیہ کے مخصوص عقائد کا اس میں ذکر نہ ہوا کرے اور اس صورت میں اس کی خریداری کی توسیع کے متعلق بڑی بڑی امیدیں دلائی تھیں تو حضرت مسیح موعود ؑ نے اس تجویز کو سختی کے ساتھ ٹھکرا دیا اور فرمایا کہ کیا ہم احمدیت کے ذکر کو الگ کر کے لوگوں کے سامنے مردہ اسلام کو پیش کریں گے؟ اور جب ایک دوسرے موقعہ پر اس بات کا ذکر تھا کہ بعض غیر احمدی مسلمانوں کی خواہش ہے کہ احمدی ان کے ساتھ مل جائیں اور سب کام مل کر کریں تو آپ نے فرمایا کہ خدا نے میرے ذریعہ پاک اور صاف دودھ اتارا ہے تو کیا اب میں اپنے پاک و صاف دودھ کو پھر بگڑے ہوئے اور ناصاف دودھ کے ساتھ ملا دوں؟ یہ ایک کیسی سادہ مثال ہے مگر کیسی لطیف اور کیسی حکمت سے پُر!! مگر افسوس ہے کہ ہمارے ان بھٹکے ہوئے ودستوں نے ان باتوں کو سنتے ہوئے بھی آنکھیں نہ کھولیں۔
الغرض منکرین خلافت کو ساری ٹھوکر اس بات سے لگی ہے کہ انہوں نے احمدیت کی حقیقت اور اس کی غرض و غایت کو نہیں سمجھا۔ انہوں نے اسے صرف ایک عام اصلاحی تحریک خیال کیا اور اس لئے اس بات کو کافی سمجھا کہ وہ احمدیت کے اصلاح شدہ خیالات کو لے کر اسلام کے سوادِ اعظم میں پھر جا داخل ہوں مگر یہاں تو بات ہی اور تھی۔ یہاں تو احمدیت کا یہ دعویٰ ہے کہ میں دنیا کے سارے نظاموں کو مٹا کر جن میں موجودہ اسلام کا بگڑا ہوا نظام بھی شامل ہے ایک نیا نظام قائم کرنے آئی ہوں۔ یہ نیا نظام اسلام ہی کا نظام ہو گا مگر بہر حال نیا ہو گا اور احمدیت کے واسطے سے قائم ہو گا۔ خداتعالیٰ حضرت مسیح موعو دؑسے فرماتا ہے :۔
’’ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں۔ ‘‘ ۱؎
اس جگہ کسی کو یہ وہم نہ گزرے کہ ہم لوگ دوسرے مسلمانوں سے ہر بات میںجدا رہنا چاہتے ہیں اور کسی بات میں بھی ان کے ساتھ اتحاد پسند نہیں کرتے۔ یہ وہم یقینا خلاف واقعہ اور خلاف تعلیم احمدیت ہو گا ۔ ہم سب مسلمانوں کو اپنا قریب تر بھائی خیال کرتے ہیں کیونکہ ہم اسی کلمہ کو پڑھنے والے اور اسی شریعت پر عمل کرنے والے اور اسی نبیوں کے سردار محمد مصطفی ﷺ کی غلامی کا دم بھرنے والے ہیں اور ہم تمام مشترک امور میں مسلمانوں کے ساتھ تعاون کرنے اور ان کے دوش بدوش کھڑے ہو کر کام کرنے کے لئے تیار ہیں اور ان کی خدمات کو اپنا فرض خیال کرتے ہیں۔ مگر ہم مسلمانوں کے بگڑے ہوئے عقائد کو اچھا نہیں کہہ سکتے اور نہ ان کی خاطر اپنے اچھے عقائد کو چھپانے کے لئے تیار ہیں۔ بلکہ ہم ڈنکے کی چوٹ کہتے ہیں اور خدا کے فضل سے ہمیشہ کہتے رہیں گے کہ اب حقیقی اسلام صرف احمدیت ہی میں مل سکتا ہے اور احمدیت کے ساتھ ہی مسلمانوںکی نجات وابستہ ہے۔ اگر وہ احمدیت کے مخالف رہیں گے اور خدا کے برگزیدہ مسیح کے ساتھ اپنا پیوند نہیں جوڑیں گے تو ہم اس بات کے اظہار سے رک نہیں سکتے کہ اس صورت میں وہ خدا کا مقابلہ کرنے والے ہوں گے اور ان کا قدم ہر لحظہ نیچے ہی نیچے گرتا جائے گا۔ ہم ان کا دل دکھانا نہیں چاہتے مگر ان کو ہوشیار کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے جتھے اور اپنی حکومتوں پر نازاں نہ رہیں کیونکہ خدا کے مسیح نے صاف فرما دیا ہے کہ :۔
’’ خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ جو مسلمانوں میں سے مجھ سے علیحدہ رہے گا وہ کاٹا جائے گا بادشاہ ہو یا غیر بادشاہ۔ ‘‘ ۱؎
خلافت ثانیہ میں واقعات کا غیر معمولی ہجوم :۔ اب ہم جماعت احمدیہ کے اندرونی اختلافات کی دلدل سے نکل کر جماعت کی تاریخ کے اس حصہ میں داخل ہو رہے ہیں جہاں سے ہماری تاریخ منکرین خلافت سے علیحدہ و ممتاز ہو کر اپنے مستقل رستہ پر گامزن ہوتی ہے۔ اس کے بعد ہمارا راستہ بالکل صاف اور سیدھا ہے جس میں جماعت احمدیہ کی متحدہ آواز میں کوئی اختلافی راگنی سنائی نہیں دیتی۔ اور خدا کے برگزیدہ مسیح کی ساری فوج اپنی ساری طاقت کے ساتھ ایک ہی نقطہ پر جمع نظر آتی ہے ۔ مگر قبل اس کے کہ ہم سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کے اس حصہ میں داخل ہوں ہم یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ چونکہ اب خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کافی ترقی کر چکی تھی اور نہ صرف اس کی تعداد میں اضافہ ہو چکا تھا بلکہ اس کا کام بھی گو ناگوں شعبوں میں تقسیم ہو کر بہت وسعت اختیار کر چکا تھا اور وہ اپنے اندرونی اختلافات کے داغ سے بھی پاک ہو چکی تھی اس لئے جماعت احمدیہ کی تاریخ کے اس حصہ میں واقعات کا اس قدر ہجوم ہے کہ ہمارے لئے یہ ناممکن ہے کہ اس مختصر رسالہ میں سارے واقعات کو درج کر سکیں۔ پس اب ہمیں لازماً زیادہ اختصار اور انتخاب سے کام لینا پڑے گا۔ علاوہ ازیں چونکہ اس رسالہ کی اصل غرض و غایت خلفاء احمدیہ کی سیرت و سوانح بیان کرنا نہیں بلکہ سلسلہ احمدیہ کی تاریخ اور ترقی کو ضبط میں لانا اصل مقصد ہے اس لئے ہم اس بناء پر بھی صرف ایسے اہم واقعات تک اپنے آپ کو محدود رکھیں گے جن کا سلسلہ احمدیہ کی ترقی اور توسیع کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔ اور پھر یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ اس کتاب کا حجم خاکسار مولف رسالہ ہذا کے ابتدائی اندازے سے اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب سوائے اس کے کہ غیر معمولی اختصار کے ساتھ ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے آگے بڑھا جائے اور کوئی چارہ نہیں۔ مگر ہم یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ سلسلہ کی تاریخ کا یہ زمانہ جو خلافت ثانیہ سے تعلق رکھتا ہے ہماری تاریخ کا ایک ایسا سنہری زمانہ ہے کہ یقینا وہ شخص بہت خوش قسمت ہوگا جو اس زمانہ کا ایک مفصل مرقع تیار کرنے کی سعادت پائے۔
جنگ عظیم اور جماعت احمدیہ :۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں خلافت ثانیہ کا آغاز روحانی فضا
میں بادلوں کی گرج او ربجلیوں کی کڑک کے اندر ہوا تھا۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ ایک محض اتفاق تھا یاکہ آسمانی تقدیر کا ایک اور مخفی کرشمہ تھا کہ خلافت ثانیہ کے آغاز کے چند ماہ کے اندر اندر ہی اس دنیا کی مادی فضا میں بھی تاریک بادلوں کی گرجوں نے ایک غیر معمولی طوفان پیدا کر دیا۔ خلافت ثانیہ کی ابتداء ۱۹۱۴ء کے ماہ مارچ میں ہوئی اور اسی سال کے ماہ اگست میں دنیا کی وسیع سٹیج پر اس جنگ عظیم کا آغاز ہوا جس کے متعلق یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ اس سے پہلے دنیا میں کوئی جنگ اس قدر وسیع پیمانہ پر اور اس قدر ہیبت ناک مناظر کے ساتھ نہیں ہوئی۔ اور جب یہ آگ ایک دفعہ شروع ہوئی تو پھر اس سرعت کے ساتھ پھیلی کہ جنگ کے اختتام سے قبل دنیا کا بیشتر حصہ کسی نہ کسی جہت سے اس کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ جیسا کہ ہم حضرت مسیح موعود ؑ کے سوانح کے ذکر میں بتا چکے ہیں آپ نے خدا سے علم پا کر ۱۹۰۵ء میں اس خطرناک تباہی کی پیشگوئی فرمائی تھی اور اس کی تباہی کا نقشہ کھینچتے ہوئے یہ خبر بھی دی تھی کہ اس عالمگیر زلزلہ میں زار روس پر بھی ایک تباہ کن مصیبت آئے گی۔ ۱؎ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جنگ کے اختتام سے قبل ہی زار روس کے اقبال کی صف لپیٹ دی گئی۔
اس جنگ میں چونکہ حکومت انگریزی بھی شریک تھی اس لئے جماعت احمدیہ نے اپنے مقدس بانی کی تعلیم کے ماتحت ایک وفادار شہری کا پورا پورا حق ادا کیا اور حکومت وقت کو اپنی طاقت سے بڑھ کر جان و مال سے مدد پہنچائی۔ یہ سب امداد ایک اصول کے ماتحت تھی اور اگر انگریزوں کے سوا کسی اور کی حکومت ہوتی تو اس کے ساتھ بھی یہی وفاداری کا سلوک کیا جاتا کیونکہ اسلام کی یہ تعلیم ہے جسے احمدیت نے بڑے زور کے ساتھ پیش کیا ہے کہ حکومت وقت کے ساتھ اور خصوصاً ایسی حکومت کے ساتھ جنس کے ذریعہ ملک میں امن قائم ہو تعاون اور وفاداری کا سلوک ہونا چاہئے اور جماعت احمدیہ کے لئے تو سب سے زیادہ قیمتی چیز ہی مذہبا ور اشاعت مذہب اور تبدیل مذہب کی آزادی ہے۔ پس جو حکومت جماعت احمدیہ کو یہ چیز دیتی ہے وہ خواہ کوئی ہو او رکسی ملک میں ہو وہ جماعت احمدیہ کو ہمیشہ اپنا مخلص اور وفادار پائے گی۔ جو لوگ جماعت احمدیہ پر انگریزوں کی جاسوسی اور حکومت انگریزی کے ساتھ خفیہ ساز باز کا الزام لگاتے ہیں وہ یقینا جھوٹے اور فریبی ہیں کیونکہ انگریزوں کے ساتھ ہمارے اتحاد کی تہہ میں اس جذبہ کے سوا اور کوئی جذبہ نہیں جو ہم نے اوپر بیان کر دیا ہے اور وقت آنے پر دنیا دیکھ لے گی کہ ہماری پالیسی کی بنیاد اصول پر ہے نہ کہ ذاتیات پر۔
جماعت کی تبلیغی کوششوں میں توسیع اور ایک نادر تفسیر :۔ اندرونی اختلافات کی کشمکش
سے فرصت پانے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی توجہ سب سے پہلے جماعت کے تبلیغی کام کو وسیع کرنے کی طرف مبذول ہوئی۔ چنانچہ ہم آگے چل کر دیکھیں گے کہ آپ کے عہد خلافت میں کس حیرت انگیز رنگ میں جماعت کے تبلیغی مشنوں نے ترقی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا میں تبلیغ کا ایک وسیع جال پھیل گیا۔ مگر جو کام مسندِ خلافت پر متمکن ہوتے ہی فوری طور پر کیا گیا وہ قرآنی علوم کی اشاعت کا کام تھا۔ چنانچہ ۱۹۱۵ء میں جو خلافتِ ثانیہ کا دوسرا سال تھا حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی ہدایت اور نگرانی کے ماتحت قرآن شریف کے پہلے پارہ کی تفسیر انگریزی اور اردو ہر دو میں تیار کرا کے شائع کی گئی جس نے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ یورپ کے علم دوست حلقہ میں بھی ایک ہلچل پیدا کر دی حتیّٰ کہ ایک یورپین مستشرق نے مشہور عیسائی رسالہ مسلم ورلڈ میں اس تفسیر پر ریویو کرتے ہوئے یہاں تک لکھا کہ احمدیت کے لٹریچر کا مطالعہ ہی اس بات کا اندازہ کرنے میں مدد دے سکتا ہے کہ مذاہب کی موجودہ جنگ میں اسلام اور مسیحیت میں سے کون غالب آنے والا ہے۔ ۱؎ یہ تفسیر خود حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تھی مگر آپ کے نام پر شائع نہیں ہوئی کیونکہ آپ نے جماعت کے ذمہ دار لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ میں صرف ایک نمونہ تیار کرتا ہوں اور آگے اسے مکمل کرنا آپ لوگوں کا کام ہو گا۔ اس تفسیر کا انگریزی ترجمہ احمدی علما کے ایک بورڈ نے کیا تھا مگر افسوس ہے کہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے یہ نادر الوجود تفسیر ابھی تک مکمل نہیں ہو سکی لیکن جن لوگوں نے اس کا پہلا پارہ مطالعہ کیا ہے ان کے دلوں سے اتنا لمبا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی ابھی تک اس کے بقیہ حصوں کے انتظار کا جذبہ مٹ نہیں سکا۔ بہر حال اس تفسیر نے دنیا کو ایک رستہ دکھا دیا ہے اور اب وہ اس بات کا کسی قدر اندازہ کر سکنے کے قابل ہے کہ احمدیت کے سینہ میں قرآنی علوم کے کتنے خزانے مخفی ہیں۔
منارۃ المسیح کی تکمیل :۔ منکرین خلافت نے اپنی طاقت کے زمانہ میں یعنی جب وہ حضرت خلیفہ اوّل کے عہد میں صدر انجمن احمدیہ کے بیت المال پر قابض تھے قادیان میں بعض شاندار عمارتوں کی بنیاد رکھی تھی۔ ہم ان عمارتوں کو برا نہیں کہتے کیونکہ بہر حال وہ مرکز سلسلہ کی ظاہری رونق اورشان کو بڑھانے والی اور جماعت کی بعض ضرورتوں کو پورا کرنے والی تھیں مگر چونکہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی توجہ تمام تر اشاعت دین اور اعلاء کلمۃ اللہ میںلگی ہوئی تھی اس لئے آپ اس زمانہ میں بسا اوقات اس بات پر کڑھتے تھے کہ جماعت کا اس قدر روپیہ جس کی دین کے کاموں میں ایسی اشد ضرورت ہے اس طرح اینٹ اور گارہ میں ضائع کیاجا رہا ہے۔ پس جب آپ کا زمانہ آیا تو آپ نے اپنے عہد خلافت میں ان عمارتوں کے سلسلہ کو یکدم روک دیا مگر ایک عمارت کی تڑپ آپ کے دل میں بھی مخفی تھی اور وہ منارۃ المسیح کی عمارت تھی ۔ آپ دیکھتے تھے کہ یہ عمارت سلسلہ کی ایک مقدس یاد گار ہے جس کی حضرت مسیح موعود ؑ نے خود اپنے ہاتھ سے بنیاد رکھی مگر روپے کی قلت کی وجہ سے اسے مکمل نہیں فرما سکے۔ پس آپ نے جہاں دوسری عمارتوں کے سلسلہ کو بند کیا وہاں خود کہہ کر اور حکم دے کر منارۃ المسیح کی بند شدہ عمارت کی تعمیر جاری کرا دی۔ چنانچہ خدا کے فضل سے بہت جلد ہی ہمارے سلسلہ کی یہ روحانی یادگار جس کا رنگ پورے طور پر سفید ہے تکمیل کو پہنچ گئی۔ اور اب یہ منارہ نہ صرف قادیان کی آبادی کا ایک دلکش منظر پیش کرتا ہے بلکہ جماعت کو ہر وقت ان کا یہ فرض بھی اد دلاتا ہے کہ وہ ایک سفید اور بے داغ دل کے ساتھ اسلام کی بلندیوں میں پرواز کرتے چلے جائیں۔ جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں منارہ کی بنیاد ۱۹۰۳ء میں رکھی گئی تھی۔ مگر بعد میں یہ کام فنڈز کی کمزوری کی وجہ سے رک گیا اور پھر خلافت ثانیہ کے زمانہ میں ۱۹۱۵ء میں دوبارہ جاری ہو کر ۱۹۱۶ء میں تکمیل کو پہنچا۔
حضرت خلیفہ اوّل ؓ کے زمانہ کے حالات میں جماعت احمدیہ کے لندن مشن کا ذکر کیا جا چکا ہے اور یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ دارالتبلیغ لندن کے قیام میں بھی حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کا کافی ہاتھ تھا کیونکہ آپ نے ہی اپنی قائم کردہ انجمن انصار اللہ کے چندہ سے چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو انگلستان بھجوانے کا انتظام کیا تھا۔ یہ دارالتبلیغ خدا کے فضل سے کامیابی کے ساتھ چل رہا تھا اور چوہدری صاحب موصوف بڑے اخلاص اور جوش کے ساتھ تبلیغ اسلام میں مصروف تھے اور قبل اس کے کہ خلافت ثانیہ کاپہلا سال اختتام کو پہنچے اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب کو ان کی کوششوں کا پہلا ثمرہ بھی عطا کر دیا یعنی ایک انگریز مسٹر کوریو نامی چوہدری صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کر کے احمدیت میں داخل ہوا۔
اب خلافت ثانیہ کے دوسرے سال میں خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کا دوسرا بیرونی مشن قائم ہوا۔ یہ مشن جزیرہ ماریشس میں قائم کیا گیا جو براعظم افریقہ کے مشرق میں اور خط استوا کے جنوب میں واقع ہے یہ جزیرہ پہلے فرانسیسی حکومت کے ماتحت تھا لیکن بعد میں انگریزی حکومت میں آگیا اور اس کی آبادی کا بیشتر حصہ ایسا تھا جو کسی زمانہ میں ہندوستان سے جا کر وہاں آباد ہوا تھا۔ ان لوگوں نے جب احمدیت کا نام سنا تو اس بات کی خواہش کی کہ ان کے پاس کوئی مبلغ بھجوایا جائے چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے اس کام کے لئے حافظ صوفی غلام محمد صاحب بی اے کو منتخب کیا اور وہ فروری ۱۹۱۵ء کو قادیان سے روانہ ہو گئے۔ صوفی صاحب سلسلہ احمدیہ کے پرانے مخلصین میں سے ہیں اور انگریزی میں گریجوایٹ ہونے کے علاوہ حافظ قرآن اور عربی علوم کے اچھے ماہرہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح کے حکم سے صوفی صاحب پہلے جزیرہ سیلون میں تشریف لے گئے اور وہاں تین ماہ قیام کر کے اور پیغام حق پہنچا کر آگے روانہ ہوئے۔ا س طرح صوفی صاحب کے ذریعہ گویا دو مشنوں کا آغاز ہو گیا کیونکہ اس کے بعد سے سیلون کا مشن بھی باقاعدہ تو نہیں مگر نیم باقاعدہ صورت میںچلتا آرہا ہے اور اس وقت وہ مالابار کے مبلغ کے حلقہ میں شامل ہے جو سال کا کچھ حصہ سیلون میں جا کر گزارتا ہے۔
ماریشس میں پہنچ کر صوفی صاحب کو خدا کے فضل سے بہت کامیابی ہوئی اور بہت سے لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے اور گو صوفی صاحب موصوف اس جزیرہ میں بارہ سال کی شاندار خدمت کے بعد واپس تشریف لے آئے مگر اب تک یہ مشن باقاعدہ طور پر قائم ہے اور اچھا کام کر رہا ہے ماریشس کو ایک خصوصیت یہ بھی حاصل ہے کہ وہاں ہمارا ایک مخلص مبلغ غریب الوطنی کی حالت میں وفات پا کر جام شہادت سے مشرف ہوا۔ یہ صاحب حافظ عبیداللہ صاحب تھے جو صوفی صاحب کی امداد کے لئے ۱۹۱۷ء میں ماریشس گئے تھے مگر ۱۹۲۳ء میں بیمار ہو کر وہیں وفات پا گئے۔
احمدیہ ہوسٹل لاہور کا قیام :۔ تبلیغ کے ساتھ ساتھ حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح ثانی
کی دوربین آنکھ جماعت کی تعلیمی اور تربیتی ضروریات کو بھی دیکھ کر اس کے انتظام کے لئے فکر مند تھی۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ قادیان میں حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میں ہی ایک ہائی سکول قائم ہو چکا تھا مگر چونکہ اس کے ساتھ کوئی کالج نہیں تھا اور اب تک بھی نہیں ہے اس لئے یونیورسٹی کی تعلیم کے لئے جماعت کے بچوں کو لازماً لاہور وغیرہ کے کالجوں میں داخل ہونا پڑتا تھا۔ یہ صورت حال تربیتی نکتہ نگاہ سے خطرناک تھی کیونکہ کچی عمر کے بچوں کا جماعتی ماحول سے نکل کر دنیاکے زہر آلود مادی ماحول میں جا گھسنا خام طبیعتوں پر برا اثر پیدا کر سکتا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے اس خطرہ کو محسوس کیا اور یہ دیکھتے ہوئے کہ ابھی تک جماعت میں کالج جاری کرنے کی طاقت نہیں ہے یہ تجویز فرمائی کہ لاہور میں احمدی بچوں کے لئے ایک ہوسٹل قائم کر دیا جاوے جہاں جماعت کے نوجوان اکٹھے رہیں اور جماعت کے تربیتی انتظام کے ماتحت زندگی گزاریں۔ یہ ہوسٹل ۱۹۱۶ء میں قائم کیا گیا۔ اور اب تک جاری ہے اور خدا کے فضل سے اس نے ایک حد تک جماعت کے لئے کالج کی کمی کو پورا کر رکھا ہے۔
ہندوستان کے دروازہ کی ناکہ بندی :۔ ۱۹۱۷ء میں حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کو اس طرف
توجہ ہوئی کہ بمبئی میں تبلیغی کام شروع کیا جاوے۔ بمبئی کویہ خصوصیت تھی اور اب بھی ہے کہ وہ گویا ہندوستان کا دروازہ ہے اور نہ صرف مغربی ممالک کو آنے جانے والے مسافر بلکہ بیت اللہ کے اکثر حاجی بھی اسی رستے آتے جاتے ہیں اس لئے اسے ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور پھر ایک بڑا شہر ہونے کے علاوہ اس میں مسلمانوں کی تین مشہور تجارتی قومیں یعنی خوجے بوہرے اور میمن آباد ہیں جو عموماً دوسرے مسلمانوں کی نسبت مذہب کی طرف زیادہ میلان رکھتے ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر آپ نے اگست ۱۹۱۷ء میں بمبئی میں ایک تبلیغی وفد روانہ کیا جس کے ممبر خاکسار کے چھوٹے ماموں مکرمی میر محمد اسحاق صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور مولوی محمد اسمٰعیل صاحب فاضل اور خاکسار مؤلف رسالہ ھٰذا تھے۔ ہم نے وہاں دو ڈھائی ماہ قیام کیا اور مسلمانوں کی مختلف اقوام میں اشتہاروں اور لیکچروں اور درس وغیرہ سے تبلیغ کی گئی جس پر بعض فتنہ پردازوں نے شرارتیں بھی اٹھائیں مگر خدا کے فضل سے فی الجملہ اچھا اثر ہوا۔ اسی دوران میں مکرمی میر محمد اسحاق صاحب فاضل کا مسیحیوں کے مشہور مناظر پادری جوالا سنگھ سے مسیحیت اور اسلام کے متعلق ایک مناظرہ بھی ہوا جس میں خدا کے فضل سے میر صاحب موصوف کو نہایت نمایاں کامیابی نصیب ہوئی اور ویسے بھی بمبئی کی عمومی تبلیغ میں میر صاحب موصوف ہی کی مساعی کا زیادہ حصہ اور زیادہ دخل تھا۔ہمارے واپس آجانے کے بعد بھی بمبئی میں ایک عرصہ تک تبلیغی کام جاری رہا اور گو درمیان میں بعض ناغے بھی ہو جاتے رہے مگر اب بھی بمبئی میں عموماً ایک مبلغ رہتا ہے اور گیٹ آف انڈیا کی ناکہ بندی کا سلسلہ جاری ہے۔
انفلوانزا کی عالمگیر وبا میں جماعت کی بے لوث خدمت :۔ ۱۹۱۸ء میں جنگ عظیم کا
ایک نتیجہ انفلوانزا کی وبا کی صورت میں ظاہر ہوا ا س نے گویا ساری دنیا میں پھیل کر اس تباہی سے بھی زیادہ تباہی مچادی جو جنگ کے میدان میں ہوئی تھی۔ ہندوستان میں بھی اس مرض کا سخت حملہ ہوا اور گو شروع میں اموات کی شرح کم تھی مگر کچھ عرصہ کے بعد اس کثرت کے ساتھ موتیں ہونے لگیں کہ قیامت کا نمونہ سامنے آگیا ۔ چونکہ جماعت احمدیہ کے فرائض میں ایک بات یہ بھی داخل ہے کہ وہ مخلوق کی خدمت کرے اس لئے ان ایام میں حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی ہدایت کے ماتحت جماعت احمدیہ نے نہایت شاندار خدمت سر انجام دی اور مذہب و ملت کی تمیز کے بغیر ہر قوم اور ہر طبقہ کے لوگوں کی تیمارداری اور علاج معالجہ میں نمایاں حصہ لیا۔ احمدی ڈاکٹروں اور احمدی طبیبوں نے اپنی آنریری خدمات پیش کر کے نہ صرف قادیان میں مخلوق خدا کی خدمت کا حق ادا کیا بلکہ شہر بہ شہر اور گائوں بہ گائوں پھر کر طبی امداد بہم پہنچائی اور عام والنٹیروں نے نرسنگ وغیرہ کی خدمت سر انجام دی اور غرباء کی امداد کے لئے جماعت کی طرف سے روپیہ اور خورونوش کا سامان بھی فراخ دلی کے ساتھ تقسیم کیا گیا۔ مجھے خوب یاد ہے کیونکہ میں بھی اس آنریری کور میں شامل تھا کہ ان ایام میں احمدیت والنٹیر دن رات اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر مریضوں کی خدمت میں مصروف تھے اور بعض صورتوں میں جبکہ کام کرنے والے خود بیمار ہو گئے اور ابھی نئے کام کرنے والے میسر نہیں آئے تھے بیمار والنٹیروں نے ہی خدمت کے سلسلہ کو جاری رکھا اور جب تک یہ والنٹیر بالکل نڈھال ہو کر صاحب فراش نہیں ہو گئے انہوں نے اپنے آرام اور اپنے علاج کے خیال پر دوسروں کے آرام اور دوسروں کے علاج کو ہر حال میں مقدم کیا۔ یہ ایک ایسا شاندار کام تھا کہ دوست و دشمن سب نے یک زبان ہو کر جماعت احمدیہ کی بے لوث خدمات کا اعتراف کیا اور تقریر و تحریر ہر دو میں اس بات کو تسلیم کیا کہ اس موقعہ پر جماعت احمدیہ نے بہت اچھا نمونہ قائم کیا ہے۔
۱۹۱۹ء و ۱۹۲۰ء کے سال اس لحاظ سے ہندوستان کی تاریخ میں یادگار رہیں گے کہ اس زمانہ میں ہندوستان میں ایک وسیع سیاسی ہیجان کا آغاز ہوا جس کی نظیر اس سے پہلے کسی زمانہ میں نظر نہیں آتی۔ جنگ کے اختتام نے دنیا میں ایک عام بیداری پیدا کر دی تھی اور چونکہ بیداری کے ابتدائی مراحل میں بعض جوشیلی طبیعتیں حد اعتدال سے آگے گزر جاتی ہیں اس لئے اس کے انسداد کے واسطے گورنمنٹ ہند نے بعض احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیں اور ۱۹۱۹ء کی ابتداء میں ایک قانون ’’ رولٹ ایکٹ‘‘ بھی جاری کرنے کی تجویز کی جس کے ذریعہ پریس پر خاص پابندیاں عائد کی گئیں۔ حکومت کے اس اقدام پرملک کے بیدار شدہ حصہ میں سخت ہیجان پیدا ہوا اور اس نئے قانون کے خلاف زبردست احتجاجی جلسے کئے گئے۔ اس قسم کے حالات میں بعض افسروں کی غلطی سے امرتسر کے ایک پبلک جلسہ میں حکومت نے ایسے حالات میں گولی چلا دی کہ جو یقینا دانشمندانہ نہیں تھے۔ اس پر گویا سارا ملک ناراضگی کے جوش میں حکومت کے خلاف اٹھ کھڑا ہو اور پنجاب میں تو ایک گو نہ بغاوت کا رنگ پیدا ہو گیا اور ملک کے مختلف حصوں میں مارشل لا کا اجراء ضروری سمجھا گیا۔ اس عرصہ میں مسٹرگاندھی نے اس تحریک کی بنیاد ڈالی کہ جب تک ان شکایات کا ازالہ نہ ہو ہندوستانیوں کو حکومت سے عدم تعاون کر کے عملاً قطع تعلق کر لینا چاہئے۔ اس مہم نے ملک کے اندر ایک خطرناک صورت حال پیدا کر دی اور سارا ملک گویا ایک آتش فشاں پہاڑ کا رنگ اختیار کر گیا۔
دوسری طرف اسی زمانہ میں یعنی ۱۹۲۰ء میں اور اس کے قریب ہندوستان کے مسلمانوں میں حکومت برطانیہ کے خلاف اس وجہ سے بڑا جوش تھا کہ جنگ عظیم کے بعد ترکی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا اور اسلامی علاقوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے بکھیر دیا گیا ہے اور خلافت ایجی ٹیشن کے ماتحت ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی حکومت کے ساتھ ترک موالات کا سلسلہ شروع کر کے ایک ہیجان عظیم کی صورت پیدا کر دی ۔ الغرض یہ دو سال ہندوستان میں ایک عالمگیر ہیجان کے سال تھے۔
چونکہ جماعت احمدیہ کا سیاسی مسلک ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہئے جو ملک کے امن کو برباد کرنے والی ہو اور لوگوں کی طبیعتوں میں قانون شکنی کی طرف میلان پیدا کر دے اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے اس زمانہ میں اپنی جماعت کو پے در پے نصیحت فرمائی کہ وہ ہر قسم کی امن شکن تحریک اور قانون شکنی کے طریق سے کلی طور پر مجتنب رہے بلکہ امن کو قائم کرنے اور قانون شکنی کے سلسلہ کو روکنے میں حکومت کے ساتھ پورا پورا تعاون کرے چنانچہ ان خطرناک ایام میں جماعت نے اپنے آپ کو ہر قسم کے خطرہ میں ڈال کر حکومت کے ساتھ تعاون کیا اور حکومت نے بھی ایک کھلی پریس کمیونیکے کے ذریعہ جماعت کی ان پر امن خدمات کا اعتراف کیا اور اس بات کو کھلے طور پر تسلیم کیا کہ جماعت احمدیہ کے افراد نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر اپنے امام کی ہدایات پر عمل کیا ہے۔
دوسری طرف حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے حکومت کو بھی ہمدردانہ رنگ میں نصیحت فرمائی کہ ان کارویہ ہندوستانیوں کے لئے عموماً اور مسلمانوں کے لئے خصوصاً اچھا نہیںرہا کیونکہ امرتسر کے جلسہ میں وحشیانہ طور پر گولی چلا کر اور پھر مارشل لا کے دنوں میں معزز ہندوستانیوں کو فوجی نظام کے ماتحت رینگ کر چلنے کی سزا دے کر صرف ایک ظلم ہی نہیں کیا گیا بلکہ گویا سارے ملک کی ہتک کی گئی ہے۔ پھر مسلمانوں کے دلوں کو خصوصاً ترکی کے ساتھ سختی کا سلوک کر کے بری طرح مجروح کیا گیا ہے۔ آپ نے اس زمانہ میں دو کتابیں بھی تصنیف کر کے شائع فرمائیں جن میں سے ایک میں تو ترکی کے ساتھ سلوک پر تبصرہ کیا گیا تھا اور دوسری میں ترک موالات اور عدم تعاون وغیرہ کے اصول پر بحث تھی۔ ان پر دو کتابوں میں انصاف کے ترازو کو اس دیانتداری اور عقل مندی کے ساتھ قائم کیا گیا تھا کہ ملک کے سمجھدار طبقہ پر ان کا بہت اچھا اثر ہوا مگر آپ کی ان تحریکات کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ ملک کا انتہائی سیاسی بازو جماعت احمدیہ کی طرف سے سخت بدظن ہو کر اسے اپنی سیاسی ترقی میں ایک روک خیال کرنے لگ گیا حالانکہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی بار بار اس بات کی تشریح فرما چکے تھے کہ ہم ملک کی سیاسی آزادی اور اہل ملک کے حقوق کی حفاظت کے ہرگز خلاف نہیں بلکہ اس مطالبہ میں دوسروں کے ساتھ بالکل شریک اور متحد ہیں۔ مگر اس غرض کے حصول کے لئے جو رستہ اختیار کیا جاتا ہے اسے ہم درست نہیں سمجھ سکتے کیونکہ وہ امن کو برباد کرنے واا اور نوجوانوں اور خام خیالوں میں قانون شکنی کے میلان کو ترقی دینے والا ہے۔
اس کے بعد جب مسلمانوں نے ۱۹۲۱ء میں خلافت ایجی ٹیشن کے سلسلہ میں تحریک ہجرت کی بنیاد ڈالی تو اس وقت بھی حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ یہ طریق دین اور دنیا ہر دو کے لحاظ سے نادرست اور غیر دانشمندانہ اور سراسر نقصان دہ ہے اور مسلمانوں کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے مگر وقتی جوش کے عالم میں مسلمان لیڈروں نے اس نصیحت کی بھی قدر نہ کی اور ہزاروں مسلمانوں کو تباہ و برباد کر کے چھوڑا۔
جماعت کے مرکزی نظم و نسق میں اصلاح :۔ دنیا میں اکثر لیڈر اور پیشرو ایسے ہوتے ہیں
کہ انہیں اپنے دائرہ انتظام میں بعض خاص خاص شعبوں کی طرف ہی زیادہ توجہ ہوتی ہے اور دوسرے شعبے غفلت کی حالت میں پڑے رہتے ہیں مگر خدا نے حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کو ایسی آنکھ دی ہے جو چاروں طرف دیکھتی اور ہر پہلو پر نگاہ رکھتی ہے اور جماعت کی حفاظت اور ترقی کے لئے جن جن امور کی ضرورت ہے ان میں سے کوئی بھی آپ کی نظر سے اوجھل نہیں رہتا چنانچہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح اپنی خلافت کے ان ابتدائی چند سالوںمیں آپ نے تصنیف کی طرف۔ تربیت کی طرف سیاست کی طرف۔ خدمت خلق کی طرف ایک ہوشیار اور چوکس نظر کے ساتھ توجہ رکھی اور ہر موقعہ سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ اسی طرح اس عرصہ میں آپ کی آنکھ جماعت کے مرکزی نظام کی اصلاح کی طرف بھی لگی ہوئی تھی۔ اور آپ صدر انجمن احمدیہ کے نظام کے اس تفصیلی حصہ میں جو حضرت مسیح موعود ؑ کا فیصلہ کردہ نہیں تھا بلکہ خود انجمن کا قائم کردہ تھا بعض نقصوں کو دیکھ کر اس کی اصلاح کے سوال پر غور فرما رہے تھے۔ اس نظام میں سب سے بڑی کمزوری آپ کو یہ نظر آتی تھی کہ اس کے اندر مرکزیت کا اصول بہت زیادہ غلبہ پائے ہوئے ہے اور مختلف صیغہ جات ایک ہی سیکرٹری کے ماتحت اس طرح جمع ہیں کہ ان صیغوں کے افسروں کو کوئی ذمہ دارانہ پوزیشن حاصل نہیں رہتی۔ حتیّٰ کہ صدر انجمن احمدیہ کے مشوروں میں بھی ان افسروں کی آواز کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ صدر انجمن احمدیہ کے جملہ انتظامی فیصلہ جات خالصۃً ایسے ممبروں کی رائے سے تصفیہ پاتے ہیں جن کے ہاتھ میں کسی انتظامی صیغہ کی باگ ڈورنہیں۔ آپ نے اس نقص کو دیکھ کر اس کی اصلاح کی تجویز فرمائی مگر دوسری طرف آپ اس بات کو بھی محسوس کر رہے تھے کہ ممکن ہے کہ ایک قائم شدہ نظام کو یکلخت بدل دینے میں کوئی دوسری قسم کے نقصانات نہ پیدا ہونے لگیں پس آپ نے اس الجھن میں سے یہ راہ نکالی کہ صدر انجمن احمدیہ کے نظام کو قائم رکھتے ہوئے اس کے پہلو میں ایک دوسرا متوازی نظام جاری فرما دیا جس میں ہر شخص ایک مستقل صیغہ کا انچارج تھا اور پھر یہ سب انچارج باہم مل کر ایک انتظامی انجمن بناتے تھے۔ ان افسران کانام آپ نے ’’ ناظر ‘‘ تجویز فرمایا اور ان کی انجمن کا نام ’’ مجلس نظارت‘‘ رکھا۔ اور مختلف ناظروں کے اوپر آپ نے ایک صدر ناظر مقرر کیا جس کا نام ’’ ناظر اعلیٰ‘‘ رکھا گیا جس کا کام مختلف نظارتوں میں اتحاد عمل قائم رکھنا اور ان کے اختلافی امور کا فیصلہ کرنا اور مجلس نظارت کے اجلاسوں میں صدارت کے فرائض بجا لانا تھا۔ گویا اس طرح مرکز سلسلہ میں دو مختلف نظام قائم ہو گئے۔ ایک وہی پرانا صدر انجمن احمدیہ کا نظام اور دوسرے مجلس نظارت کا جدید نظام۔ ان دونوں میں کوئی ٹکرائو کی صورت نہیں تھی کیونکہ صدر انجمن احمدیہ کا کام صدر انجمن کے ہاتھ میں رہا اور جو نیا کام خلافت ثانیہ میں جاری ہوا تھا وہ نظارت کے انتظام میں رکھ دیا گیا۔ اس موقعہ پر آپ نے مختلف قسم کے کاموں کو بھی ایک اصولی تقسیم کے مطابق منقسم فرمایا چنانچہ ایک نظارت دعوۃ و تبلیغ کی قائم کی گئی ایک تعلیم و تربیت کی ایک بیت المال کی ایک ضیافت کی ایک مقبرہ بہشتی کی ایک امورخانہ کی اور ایک امور عامہ کی وغیر ذالک۔ اس جداگانہ نظام نے کئی سال تک علیحدہ صورت میں کام کیا اور جب اس نظام کا اچھی طرح تجربہ ہو گیاتو اکتوبر ۱۹۲۵ء میں آکر صدر انجمن احمدیہ کے نظام اور اس جدید نظام کو ایک دوسرے میں مدغم کر دیا گیا جس میں صدر انجمن احمدیہ کا نام اور اس کی اصولی صورت قائم رہی مگر صیغہ جات کی تقسیم اور ناظروں کی ذمہ دارانہ پوزیشن جدید نظام کے مطابق قائم ہو گئی اور اب یہی مخلوط صورت جماعت کا مرکزی نظام ہے۔
صیغہ قضا کا قیام :۔اس انتظامی تشکیل کے ساتھ ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح نے ایک جدید نظام
صیغہ قضا کا بھی قائم کیا یعنی جماعت کے اندرونی تنازعات کے فیصلہ کے لئے ایک نئے صیغہ کی بنیاد رکھی جس میں مختلف لوگ بطور قاضی مقرر کئے گئے اور ان قاضیوں کے اوپر اپیلوں کے فیصلہ کے لئے قاضیوں کے بنچ قائم کئے گئے اور آخری اپیل خود حضرت خلیفۃ المسیح کے پاس رہی۔ ان قومی عدالتوں میں صرف ایسے تنازعات پیش ہوتے ہیں جو یا تو محض دیوانی حقوق کا رنگ رکھتے ہیں اور یا وہ حکومت وقت کے قانون کے ماتحت قابل دست اندازی پولیس نہیں سمجھے جاتے۔ اس صیغہ کے قیام سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اوّل تو گویا گھر کا فیصلہ گھر میں ہی ہو جاتا ہے اور سرکاری عدالتوں میں روپیہ اور وقت ضائع نہیں کرنا پڑتا۔ دوسرے جو ناگوار اثرات اخلاقی لحاظ سے قانونی عدالتوں کی فضا میں پیدا ہو سکتے ہیں ان سے جماعت کے لوگ محفوظ ہو گئے۔ تیسرے بعض اوقات مقدمات کے نتیجہ میں جو ایک صورت پارٹی بندی کی پیدا ہونے لگتی ہے اس کا خطرہ جاتا رہا۔ جماعت کے دشمنوں نے اس صیغہ کے قیام پر بہت کچھ شور مچایا ہے کہ گویا جماعت احمدیہ نے ایک نئی حکومت قائم کرلی ہے اور لوگوں کے لئے سرکاری عدالتوںمیں جانے کا رستہ بند کر دیا گیا ہے اور حکومت کو بھی طرح طرح کی رپورٹوں سے بدظن کرنے کی کوشش کی گئی مگر سمجھدار طبقہ محسوس کرتا ہے کہ یہ ایک بہت مفید نظام ہے جس میں ایک طرف تو حکومت کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں بلکہ جیسا کہ پنجایت ایکٹ وغیرہ کا منشاء ہے حکومت اس بات کو پسند کرتی ہے کہ لوگ آپس میں خود فیصلہ کر لیا کریں اور دوسری طرف جماعت کے اندرونی تنازعات کے تصفیہ کا ایک بہت سہل اور عمدہ اور سستا رستہ نکل آیا ہے۔ جماعت کے اس نظام میں دو خصوصیتیں ہیں اوّل یہ کہ صیغہ قضا کے تمام مقدمات شریعت اسلامی کے مطابق تصفیہ پاتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اس میں اہل مقدمہ سے کوئی فیس چارج نہیں کی جاتی بلکہ ہر مقدمہ سلسلہ کے خرچ پر مفت کیا جاتا ہے کیونکہ یہی قدیم اسلامی طریق ہے۔
امریکہ کا دارالتبلیغ :۔۱۹۱۹ء کے سال کو ایک یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس میں سلسلہ احمدیہ
کی تبلیغی مہم پرانی دنیاکی حدود سے باہر نکل کر نئی دنیا میں جا پہنچی۔یعنی اس سال حضرت خلیفۃ المسیح کے حکم سے ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ایک نیا احمدیہ مشن جاری کیا گیا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی بعثت چونکہ ساری دنیا کے لئے تھی اس لئے بہر حال جماعت نے جلد یا بدیر ساری دنیا میں تبلیغی نظام قائم کرنا تھا مگر ریاستہائے متحدہ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں اس ملک کا ایک جوشیلا اور با اثر مسیحی بانیء سلسلہ احمدیہ کے مقابل پر کھڑا ہو کر طاقت آزمائی کر چکا تھا ہماری مراد الگزانڈر ڈوئی سے ہے جس نے حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں آپ کے خلاف آواز اٹھائی اور پھر حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئی کے مطابق آپ کی زندگی میں ہی ذلیل ہو کر پیوند خاک ہو گیا۔ پس یہ ضروری تھا کہ بعض دوسرے ممالک کی نسبت جماعت کی نظر امریکہ کی طرف پہلے اٹھتی چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کے حکم سے ۱۹۱۹ء میں امریکن مشن کا قیام عمل میں آگیا۔ اس مشن کے لئے سلسلہ احمدیہ کے ایک قدیم بزرگ اور کہنہ مشق مبلغ مفتی محمد صادق صاحب کو چنا گیا۔ جو حضرت مسیح موعود ؑ کی لمبی صحبت اٹھائے ہوئے تھے اور مسیحی مذہب کا کافی مطالعہ رکھتے تھے۔ مفتی صاحب موصوف نے جو اس سے کچھ عرصہ پہلے لندن مشن میں بھی کام کر چکے تھے امریکہ میں ۱۹۱۹ء سے لے کر ۱۹۲۳ء تک کام کیا اور اس کے بعد یہ دارالتبلیغ خدا کے فصل سے برابر قائم ہے اور اچھا کام کر رہا ہے۔ امریکہ میں گو سفید آبادی نے بھی ایک حد تک توجہ کی ہے مگر اس وقت تک زیادہ کامیابی امریکہ کی کالی آبادی میں ہوئی ہے جو بڑی کثرت کے ساتھ اسلام کی طرف مائل نظر آتی ہے۔ اس طرح حضرت مسیح موعود ؑ کے ہاتھ کا بویا ہوا بیج نہ صرف مغرب کو مشرق سے بلکہ نئی دنیا کو پرانی دنیا سے بھی ملا دینے کی تیار ی کر رہا ہے۔ امریکن مشن کا مرکز شکاگو میں ہے جہاں اس وقت صوفی مطیع الرحمن صاحب ایم اے انچارج ہیں۔
مغربی افریقہ کا دارالتبلیغ :۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ میں دنیا میں اسود و احمر کی
طرف مبعوث کیا گیا ہوں یعنی دنیا کی جملہ قومیں خواہ وہ سفید و سرخ ہوں یا کالی اور سیاہ فام وہ سب میرے پیغام کی مخاطب ہیں۔ چونکہ حضرت مسیح موعود ؑ بھی آنحضرت ﷺ کی طرح دنیا کی سب قوموں کے لئے مبعوث ہوئے تھے اس لئے ضروری تھا کہ جوں جوں حالات موافق ہوتے جاتے آپ کے پیغام کو سب اقوام عالم تک پہنچانے کا انتظام کیا جاتا۔ بلکہ ترقی یافتہ سفید قوموں کی نسبت دبی ہوئی کالی قوموں کا حق زیادہ تھا کیونکہ نبیوں کی بعثت زیادہ تر پستی میں پڑی ہوئی قوموں کو اوپر اٹھانے کے لئے ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے ۱۹۲۱ء میں مغربی افریقہ کی طرف توجہ فرمائی اور اس بات کا عزم فرمایا کہ اس علاقہ کی حبشی اقوام تک پیغام حق پہنچایا جاوے۔ یہ ایک بہت وسیع علاقہ ہے جس میں نائیجیریا اور گولڈ کوسٹ اور سی ایرالی اون وغیرہ کئی ممالک شامل ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح نے اس علاقہ میں مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کو مبلغ بنا کر بھجوایا ۔ نیر صاحب اس سے پہلے انگلستان کے دارالتبلیغ میں دو سال تک کام کر چکے تھے اور تبلیغ کا اچھا تجربہ رکھتے تھے چنانچہ وہ رستہ میں سی ایرالی اون اور گولڈ کوسٹ میں قیام کرتے ہوئے نائیجیریا میں پہنچے اور اس ملک کے دارالسلطنت لیگوس میں تبلیغی مرکز قائم کیا۔ اور خدا نے ان کے کام میں ایسی برکت دی کہ ایک قلیل عرصہ میں نائیجیریا اور گولڈ کوسٹ میں ہزار ہا لوگ احمدیت کی صداقت کا شکار ہو گئے۔ نیر صاحب کے بعد اس علاقہ میں حکیم فضل الرحمن صاحب کو بھجوایا گیا اور خدا کے فضل سے یہ دارالتبلیغ اب تک بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے اور نائیجیریا کے علاوہ گولڈ کوسٹ اور سی ایرالی اون میں بھی تبلیغی مرکز قائم ہو گئے ہیں۔ ان علاقوں میں پرانا قبائلی طریق رائج ہے اور چونکہ کئی قبیلوں کے سردار احمدیت میں داخل ہو گئے ہیں اس طرح ایک رنگ میں اس ملک کے ایک حصہ میں گویا احمدیت کا نظام بھی قائم ہو گیا ہے جو دن بدن وسیع ہو رہا ہے اور خدا کے فضل سے وہ دن دور نہیں کہ دنیا کی یہ دبی ہوئی قومیں جنہیں مسیحیت کے استبداد نے غلام بنا کر رکھا ہوا ہے اسلام اور احمدیت کے طفیل آزادی اور بلندی کی ہوا کھائیں گی۔ اس جگہ احمدیوں کی اپنی مسجدیں ہیں اپنے مدارس ہیں اور ایک طرح سے اپنی عدالتیں بھی ہیں اور جماعت کے اس وسیع اثر کو کئی مغربی مبصرین نے بڑی حیرت کی نظر کے ساتھ دیکھا ہے۔ چنانچہ مشہور مسیحی رسالہ مسلم ورلڈ ہمارے اس مشن کے متعلق لکھتا ہے ۔
’’ سنوسیوں جیسے مسلمانوں کے قدیم فرقے جو یورپین طاقت سے کھلے جنگ کے حامی تھے ایک ایک کر کے میدان سے ہٹ رہے ہیں اور ان کی جگہ جدید فرقہ احمدی لے رہا ہے جس نے لیگوس کے مرکز سے تمام فرانسیسی مغربی افریقہ پر اثر جما لیا ہے۔ ‘‘ ۱؎
اور ایک نائیجیریا کا مقامی عیسائی اخبار لکھتا ہے کہ :۔
’’ معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کے لئے مقدر ہو چکا ہے کہ وہ نائیجیریا کے مسلمانوں کی زندگی میںایک انقلاب پیدا کر دیں۔ چند ہی سال گزرے ہیں جبکہ انہوں نے یہاں کام شروع کیا اور اب یہ سلسلہ نہ صرف لیگوس میں بلکہ تمام نائیجیریا کے مسلمان نوجوانوں کی زندگی میں ایک بھاری تبدیلی پیدا کر رہا ہے۔ ‘‘ ۱؎
مجلس مشاورت کا قیام :۔ حضرت خلیفۃ المسیح نے جہاں صدر انجمن احمدیہ کے انتظام میں اصلاح کی ضرورت کو محسوس کیا وہاں آپ کو اس ضرورت کا بھی احساس پیدا ہوا کہ ملّی امور میں جماعت سے مشورہ لینے کے لئے کوئی زیادہ پختہ اور زیادہ منظم صورت ہونی چاہئے۔ اب تک یہ کام اس طرح پر تھا کہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر جبکہ دسمبر کے آخری ہفتہ میں ملک کے مختلف حصوں سے قادیان میں احمدی جمع ہوتے تھے تو اس وقت ضروری امور میں تبادلہ خیالات کر لیا جاتا تھا۔ مگر حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ تمام مقامی جماعتوں کو جماعتی امور کے مشورہ میں زیادہ منسلک کرنے کے لئے کوئی بہتر اور زیادہ باقاعدہ انتظام ہونا چاہئے چنانچہ ۱۹۲۲ء سے آپ نے ایک مجلس مشاورت کی بنیاد قائم کی اور سال بھر میں اس کا کم سے کم ایک اجلاس ضروری قرار دیا اور تمام مقامی جماعتوں سے تحریک کی کہ وہ اس مجلس میں اپنے نمائندے بھجوایا کریں تا کہ ضروری امور میں مشورہ ہو سکے یہ مجلس عموماً ماہ مارچ یا اپریل میں منعقد ہوتی ہے جس میں قادیان کی مقامی جماعت اور ہر دوسری مقامی جماعت کے نمائندے شریک ہوتے ہیں۔
جیسا کہ ہم نظام خلافت کی بحث میں اوپر ذکر کر چکے ہیں یہ مشورہ خلیفہ وقت کے لئے واجب العمل نہیں ہوتا بلکہ صرف مشورہ کا رنگ رکھتا ہے مگر باوجود اس کے اس سے تین بڑے فائدے مترتب ہوتے ہیں۔ اوّل یہ کہ حضرت خلیفۃ المسیح کو جماعت کے خیال اور رائے کا علم حاصل ہو جاتا ہے اور چونکہ بالعموم یہ مشورہ قبول کر لیا جاتا ہے اور اگر قبول نہ بھی کیا جائے تو پھر بھی مشاورت میں حضرت خلیفۃ المسیح کی آخری رائے مشورہ سننے کے بعد قائم ہوتی ہے اس لئے لازماً جماعت کے تمام اہم امور میں جماعت کی رائے کا پَرتَو داخل ہو جاتا ہے۔ دوسرے اس طریق سے جماعت کو بھی تمام ملّی امور میںنہ صرف تفصیلی اطلاع رہتی ہے بلکہ دلچسپی اور وابستگی بھی قائم رہتی ہے جو قومی ترقی کے لئے بڑی ضروری چیز ہے۔ تیسرے اس ذریعہ سے جماعت کے نمائندے اس بات کی عملی تربیت حاصل کرتے ہیں کہ جماعت کے نظام اور کام کوکس طرح چلانا چاہئے۔
مجلس مشاورت میں حضرت خلیفۃ المسیح خود شریک ہوتے ہیں اور ہر شخص مشورہ دیتے وقت یا دوسرے کی رائے پر جرح کرتے وقت براہ راست حضرت خلیفۃ المسیح کو مخاطب کرتا ہے اور گو اس مجلس کی اصل غرض و غایت امور مستفسرہ میں خلیفہ وقت کو مشورہ دینا ہے مگر خاص حالات میں نمائندوں کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ وہ حضرت خلیفۃ المسیح کی اجازت سے مرکزی نظام کے ناظروں سے ضروری اطلاع حاصل کریں یا ان کے کام پر رائے زنی کر کے اصلاح کی طرف توجہ دلائیں۔ اس مجلس کے ایجنڈا کا فیصلہ کلیۃً حضرت خلیفۃ المسیح کی رائے پر موقوف ہوتا ہے مگر ہر شخص مجاز ہے کہ اس بارے میں بھی آپ کے سامنے اپنا مشورہ پیش کرے۔ بالعموم پالیسی کے اہم سوالات جماعت کا سالانہ بجٹ مختلف نظارتوں کے سالانہ پروگرام۔ چندوں کی شرح سے تعلق رکھنے والے سوالات اور ایسے اصولی قواعد و ضوابط جن کا مقامی جماعتوں پر اثر پڑتا ہو مشورہ کے لئے پیش کئے جاتے ہیں۔
مجلس مشاورت کے قیام کے بعد گویا جماعت کے نظام کا ابتدائی ڈھانچہ مکمل ہو گیا۔ یعنی سب سے اوپرخلیفہ وقت ہے جو گویا سارے نظام کا مرکزی نقطہ ہے۔ اس سے نیچے انتظامی صیغہ جات کو چلانے کے لئے صدر انجمن احمدیہ ہے جس کے مختلف ممبر سلسلہ کے مختلف مرکزی صیغوں کے انچارج ہوتے ہیں اور اس کے بالمقابل مجلس مشاورت ہے جو مختلف مقامی جماعتوں کے نمائندوں کی مجلس ہے اور تمام اہم اور ضروری امور میں خلیفہ وقت کے سامنے مشورہ پیش کرتی ہے اور جس کی پوزیشن ایک طرح سے اور ایک حد تک مجلس واضع قوانین کی سمجھی جا سکتی ہے۔
ہندوستان جیسا کہ اس کا نام ظاہر کرتا ہے ہندوئوں کا گھر ہے اور گو موجودہ ہندو اقوام ابتداء سے ہی ہندوستان کی رہنے والی نہیں بلکہ بعد میں باہر سے آئی ہیں مگر بہر حال اب ایک عرصہ دراز سے انہوں نے اس ملک میں اس طرح قبضہ جما رکھا ہے کہ گویا سب کچھ انہی کا ہے ۔ اس کے بعد جب مسلمان دنیا میں پھیلے تو انہوں نے اپنی فاتانہ مارچ میں ہندوستان کا بھی رخ کیا اور ایک نہایت قلیل عرصہ میں اس وسیع ملک کو اپنا بنا لیا۔ اس زمانہ میں مسلمان فاتحین کے ساتھ ساتھ یا ان کے آگے پیچھے بعض مسلمان اولیا اور صوفیا بھی اس سر زمین میں آئے اور اپنے زبردست روحانی اثر کے ماتحت ہندوستان کی بت پرست اقوام کو اسلام کی طرف کھینچنا شروع کر دیا چنانچہ یہ انہی بے نفس بزرگوں کی سعی کا نتیجہ ہے کہ آج ہندوستان کے ملک میں آٹھ کروڑ مسلمان پایا جاتا ہے جو ساری آبادی کا قریباً چہارم حصہ اور خالص ہندو آبادی کے مقابلہ میں (یعنی اچھوت اقوام کو الگ رکھتے ہوئے) قریباً نصف ہے۔ مگر اس وسیع تبدیلی مذہب کے زمانہ میں بعض ایسی ہندو قومیں بھی مسلمانوں میں داخل ہو گئیں کہ انہوں نے اسلام کو تو سچا سمجھ کر اختیار کر لیا مگر تعلیم و تربیت کا خاطر خواہ انتظام نہ ہو سکنے کی وجہ سے ان کے خیالات میں ہندو عقائد اور ہندو رسوم کا اثر باقی رہا۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ مسلمانوں کے تنزل کے زمانہ میں یہ قومیں آہستہ آہستہ اسلام سے دور ہو کر صرف نام کی مسلمان رہ گئیں حتیّٰ کہ صوبہ یو پی کے بعض علاقوں میں ایسی قومیں پائی جاتی ہیں جو نہ صرف ہندوئوں والے نام رکھتی اور ہندو رسوم کی پابند ہیں بلکہ بتوں تک کو پوجتی ہیں مگر باوجود اس کے وہ اپنے آپ کو مسلمان بتاتی اور اپنے گائوں میں ایک آدھ مسجد بھی بنا لیتی ہیں ۔ یہ لوگ جو زیادہ تر ملکانہ راجپوت کہلاتے ہیں یو پی کے اضلاع آگرہ وایٹہ ومین پوری و علی گڑھ اور ملحقہ ریاست ہائے بھرت پوروالور وغیرہ میں کثرت کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ جب ہندوئوں کے فرقہ آریہ کی نظر اس قوم پر پڑی تو چونکہ یہ فرقہ جمہور ہنود کے خلاف شدھی کا قائل ہے اور دوسری قوموں کے افراد کو اپنے اندر جذب کرنے میں حرج نہیں دیکھتا بلکہ اس کے لئے ساعی رہتا ہے تو انہوں نے خفیہ خفیہ ان قوموں میں شدھی کا پرچار شروع کر کے انہیں پھر ہندو بنانا شروع کر دیا۔ اور اس کام کے سیاسی فوائد کو دیکھ کر دوسرے ہندو بھی ان کے ساتھ شریک ہو گئے۔ جب یہ رَو زیادہ زور پکڑنے لگی اور بیرونی دنیا کو اس کا علم ہوا تو ۲۳،۱۹۲۲ء میں حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے اپنی جماعت کو حرکت میں لا کر اس شدھی کے طوفان کو روکنے کی کوشش کی اور فوراً اپنے بعض مبلغ اس علاقہ میں بھجوا کر کام شروع کر دیا اس کے بعد آپ نے جماعت احمدیہ میں ایک عام اپیل کر کے سینکڑوں آنریری مبلغ بھرتی کر لئے اور ملکانہ راجپوتوں کے علاقہ میں احمدی مبلغوں کا ایک وسیع جال پھیلا دیا اور ایسا انتظام کیا کہ جب ایک دستہ مبلغوں کا فارع ہوتا تھا تو اس کی جگہ دوسرا دستہ پہنچ جاتا تھا۔ اس موقعہ پر جماعت احمدیہ کے ہر طبقہ نے اپنی آنریری خدمات پیش کر کے اس عظیم الشان مہم میں تبلیغی خدمات سر انجام دیں۔ گورنمنٹ کے ملازم ۔ رؤسا ء ۔ وکلا ۔ تاجر۔ زمیندار۔ صناّع۔ پیشہ ور۔ مزدور۔ استاد۔ طالب علم۔ عربی دان۔ انگریزی خوان غرض ہر طبقہ کے لوگ اپنے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آگے آئے اور ایسا انتظام کیا گیا کہ ایک ایک وقت میں ایک ایک سو آنریری مبلغ اس علاقہ میں کام کرتے تھے اور یہ سارا کام ایک باقاعدہ نظام کی صورت میں تھا جس کی باگ ڈور حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی ذاتی ہدایات کے ماتحت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم ۔ اے سابق مبلغ لندن کے ہاتھ میں تھی ۔ احمدیوں کودیکھ کر بعض غیر احمدی انجمنیں بھی میدان عمل میں آئیں مگر یہ بات افسوس کے ساتھ کہنی پڑتی ہے کہ ان کا کام سوائے اس کے او رکچھ نہیں تھا کہ لوگوں کو احمدی مبلغوں کے خلاف اُکسا کر اور کفر کے فتوے دے کر تبلیغ کے کام میں روڑا اٹکائیں ۔ مگرجو کام خدا نے جماعت احمدیہ سے لینا تھا اسے کون روک سکتا تھا۔ چنانچہ چند ماہ کی مسلسل اور دن رات کی والہانہ جدوجہد کے نتیجہ میں شدھی کی رَو کو قطعی طور پر روک دیا گیا اور نہ صرف آئندہ شدھی کا سلسلہ بند ہو گیا بلکہ جو لوگ پہلے سے شدھی ہو چکے تھے انہیں بھی آہستہ آہستہ اسلام میں لا کر حق کا جھنڈابلند کیا گیا حتیّٰ کہ بیشتر مقامات پر ہندو واعظ مقابلہ ترک کر کے میدان خالی کر گئے۔
خاکسار مولف رسالہ ہذا کو ان ایام میں خود اس علاقہ میں جا کر حالات دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا اور میرے دل پرجو اثر تھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ ایک عظیم الشان جنگ تھی جس کا محاذ قریباً ایک سو میل کی وسعت پر پھیلا ہوا تھا اور اس وسیع محاذ پر اسلام اور کفر کی فوجیں ایک دوسرے کے مقابل پر تخت یا تختہ کے عزم کے ساتھ ڈیرہ جمائے پڑی تھیں۔ دورانِ جنگ میں احمدیت کے جنگجو دستہ کے لئے بعض خطرے کے موقعے بھی پیش آئے جن میں بعض اوقات غنیم نے نازک حالات پیدا کر دئیے اور ایسا تو کئی دفعہ ہوا کہ احمدی والنٹیر اپنی کوشش سے ایک شدھ شدہ گائوں کو اسلام میں واپس لائے مگر ہندو دستہ نے پھر یورش کر کے اسے پھسلا دیا مگر احمدیوں نے دوبارہ حملہ کر کے پھر دوسری دفعہ قلعہ سر کر لیا۔ بعض دیہات نے کئی کئی دفعہ پہلو بدلا کیونکہ اس کشمکش کے دوران میں بعض ملکانہ دیہات میں کچھ لالچ بھی پیدا ہو گیا تھا مگر بالآخر ایک ایک کر کے ہر ہندو مورچہ فتح کر لیا گیا اور خدا کے فضل سے شدھی کے مواج دریا نے مکمل پلٹا کھا کر اپنا رستہ بدل لیا۔ بلکہ اس جدوجہد میں ایک حد تک ملکانہ راجپوتوں کی دینی تربیت بھی ہو گئی اور ان میں سے کم از کم ایک حصہ خدا کے فضل سے صرف نام کا مسلمان نہیں رہا بلکہ اسلام کی حقیقت کو سمجھنے والا اور اسلام کے احکام پر چلنے والا بن گیا۔ مگر اس عظیم الشان فتح کے باوجود احمدیہ جماعت نے ابھی تک اس علاقہ کو چھوڑا نہیں بلکہ جہاں غیر احمدی اور غیر مسلم واعظ وہاں سے عرصہ ہوا کہ واپس آگئے ہوئے ہیں احمدی مبلغوں کا ایک حصہ ابھی تک میدان عمل میں ہے اور ان گری ہوئی قوموں کو اٹھانے او رپختہ مسلمان بنانے کا کام جاری ہے۔ جماعت احمدیہ کا یہ ایک ایسا سنہری کارنامہ تھا کہ سلسلہ احمدیہ کے دشمنوں تک نے اس کا برملا اعتراف کیا چنانچہ ہم نمونۃً بعض آراء کا اقتباس اس جگہ درج کرتے ہیں :۔
’’ احمدیوں نے جس خلوص جس ایثار جس جوش اور جس ہمدردی سے اس کام میں حصہ لیا ہے وہ اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس پر فخر کرے۔ ‘‘ ۱؎
اور پھر :۔
’’ جو حالات فتنہ ارتداد کے متعلق بذریعہ اخبارات علم میں آچکے ہیں ان سے صاف واضح ہے کہ مسلمانان جماعت احمدیہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں جو ایثار اور کمر بستگی اور نیک نیتی اور توکل علی اللہ ان کی جانب سے ظہور میں آیا ہے وہ اگر ہندوستان کے موجودہ زمانہ میں بے مثال نہیں تو بے انداز عزت اور قدردانی کے قابل ضرور ہے۔ جہاں ہمارے مشہور پیر اور سجادہ نشین حضرات بے حس و حرکت پڑے ہیں اس اولوالعزم جماعت نے عظیم الشان خدمت کر کے دکھلا دی ہے۔ ‘‘ ۱؎
یہ تعریف صرف مسلمانوں کی طرف سے ہی نہیں تھی بلکہ بعض ہندو اخباروں نے بھی اس کا اعتراف کیا چنانچہ اخبار ’’ جیون تت‘‘ نے لکھا :۔
ملکانہ راجپوتوں کی شدھی کی تحریک کو روکنے اور ملکانوں میں اسلامی پرچار کرنے کے لئے احمدی صاحبان خاص جوش کا اظہار کر رہے ہیں۔ چند ہفتہ ہوئے کہ قادیان فرقہ کے لیڈر مرزا محمود احمد صاحب نے ڈیڑھ سو ایسے کام کرنے والوں کے لئے اپیل کی تھی جو اپنا اور اپنے اہل و عیال کا اور وہاں کے کرایہ کا کل خرچ خود برداشت کریں …… اس اپیل پرچند ہفتوں میں چار سو سے زیادہ درخواستیں موصول ہو چکی ہیں اور تین پارٹیوں میں نوے احمدی آگرہ کے علاقہ میں پہنچ بھی چکے ہیں اور بہت سرگرمی سے ملکانوں میں اپنا پرچار کر رہے ہیں …… اپنے مت کے پرچار کے لئے ان کا جوش اور ایثار بہت قابل تعریف ہے۔ ‘‘ ۲؎
اس سے بڑھ کر یہ کہ جب ہندو صاحبان نے شدھی کی رَو کو رکتے دیکھ کر یہ تدبیر اختیار کی کہ باہم مصالحت کی صورت ہو جائے اور جو لوگ شدھ ہو چکے ہیں وہی بچ جائیں اور اسے ایک سیاسی سوال کا رنگ دے کر اور بین الاقوام مصالحت کے سوال کے نیچے لا کر دہلی میں سیاسی لیڈروں کی ایک میٹنگ منعقد کی گئی تو بعض مسلمان زعماء نے نخوت کے رنگ میں احمدیوں کو دانستہ اس میٹنگ کی شرکت سے الگ رکھا اور صرف اپنے طور پر ہندو صاحبان کے ساتھ سمجھوتہ کرنا چاہا تو اس پر ہندو لیڈروں نے جو حقیقت حال سے اچھی طرح واقف تھے مسلمان لیڈروں سے کہا کہ جناب! آپ لوگ کس خیال میں ہیں؟ یہ تو سارا کھیل ہی احمدیوں کا ہے پس آپ انہیں الگ رکھ کر کس حیثیت میں سمجھوتہ کریں گے اور کیا سمجھوتہ کریں گے؟ اس پر مسلمان لیڈروں کو مجبوراً حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی خدمت میں لکھنا پڑا کہ وہ اپنے نمائندے بھجوائیں مگر جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے اس سمجھوتہ میں ہندو صاحبان کی ساری کوشش یہ تھی کہ جو کچھ ہو چکا ہے اسے قائم رہنے دیا جائے اور آئندہ کے لئے دونوں فریق میدان سے ہٹ جائیں۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ صورت اسلام کے لئے سراسر نقصان دہ تھی کیونکہ اس کا یہ مطلب تھا کہ شدھی شدہ مسلمان بدستور ہندو رہیں اور مسلمان ان کو واپس لانے کی کوشش ترک کر دیں۔ پس حضرت خلیفۃ المسیح نے اس سمجھوتہ سے صاف انکار کر دیا اور فرمایا کہ جب تک شدھ شدہ مسلمانوں میں سے ایک فردِ واحد بھی باقی ہے ہم اس مہم کو نہیں چھوڑیں گے ۔ پس ہندوصاحبان کی یہ سیاسی تدبیر ناکام رہی اور بالآخر خدا نے اس میدان میں احمدیوں کو ایسی نمایاں کامیابی عطا فرمائی کہ دوست و دشمن مرحبا پکار اٹھے اور اس تحریک نے دنیا پر یہ بھی ظاہر کر دیا کہ اس زمانہ میں اگر اسلام کا سچا درد رکھنے والی اور اسلام کی حقیقی خدمت کرنے والی کوئی جماعت ہے تو وہ صرف احمدیہ جماعت ہے۔
اچھوت اقوام میں تبلیغ :۔ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کو ایک عرصہ سے یہ خیال تھا کہ ہندوستان کی
اچھوت اقوام میں تبلیغ کی جاوے۔ تبلیغ کے عام فرض کے علاوہ آپ نے یہ سوچا تھا کہ ہندوستان میں ان قوموں کی تعداد کئی کروڑ ہے اور ہندو لوگ انہیں مفت میں اپنا بنائے بیٹھے ہیں۔ پس اگر ان قوموں میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ ہو اور خدا انہیں ہدایت دے دے تو ان کی اپنی نجات کے علاوہ اس سے اسلام کو بھی بھاری فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ آپ کے اس خیال نے ارتداد ملکانہ کے ایام میں مزید تقویت حاصل کر لی اور آپ نے ایک سکیم بنا کر پنجاب کی اچھوت قوموں میں تبلیغ شروع فرما دی اور ان کے لئے ایک خاص عملہ علیحدہ مقرر کر دیا۔ آپ کی اس کوشش کو خدا نے جلد ہی بار آور کیا اور تھوڑے عرصہ میں ہی کافی لوگ حق کی طرف کھنچ آئے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور بہت سے مذہبی سکھ اور بالمیکی اور دوسرے اچھوت اسلام اور احمدیت میں داخل ہو چکے ہیں اس رو کے سب سے زور کا زمانہ ۲۴،۱۹۲۳ء تھا جبکہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ قومیں ایک انقلابی رنگ میں پلٹا کھا جائیں گے مگر اس وقت بعض خطرات کو محسوس کر کے اس سلسلہ کو دانستہ دھیما کر دیا گیا اور اب تک ان کے معاملہ میں انفرادی تبلیغ پر ہی زور دیا جا رہا ہے اور خدا کے فضل سے اچھے نتائج پیدا ہو رہے ہیں ۔ اس کے بعد اگر خدا کو منظور ہوا تو کبھی قومی تبلیغ کا وقت بھی آجائے گا۔
حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کا سفر ولایت :۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی ایک کتاب میں
نزول مسیح کی بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’یہ جو بعض حدیثوں میں ذکر آتا ہے کہ مسیح موعود دمشق کے مشرقی جانب ایک سفید مینار پر نازل ہو گا اس سے اصل مراد تو یہی ہے کہ وہ دمشق کے مشرقی ممالک میں مضبوط اور بے عیب دلائل کے ساتھ ظاہرہو گا مگر ممکن ہے کہ اس کے ایک ظاہری معنے اس رنگ میں بھی پورے ہو جائیں کہ کبھی ہمیں دمشق جانے کا اتفاق ہوجائے یا ہمارے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ دمشق کا سفر اختیار کرے‘‘۔ ۱؎ سو اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس ضمنی تشریح کو بھی حصرت خلیفۃ المسیح ثانی کے ذریعہ پورا فرما دیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ۱۹۲۴ء میں انگلستان کی مشہور ویمبلے نمائش کے سلسلہ میں بعض انگریز معززین نے یہ تجویز کی کہ اس موقعہ پرلندن میں ایک مذاہب کی کانفرنس بھی منعقد کی جاوے جس میں برٹش ایمپائر کے مختلف مذاہب کے نمائندوں کو دعوت دی جاوے کہ وہ کانفرنس میں شریک ہو کر اپنے اپنے مذہب کے اصولوں پر روشنی ڈالیں۔ یہ دعوت حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی خدمت میں بھی پہنچی اور کانفرنس کے منتظمین نے آپ سے استدعا کی کہ آپ خود تکلیف فرما کر کانفرنس میں شمولیت فرمائیں۔ چنانچہ آپ جماعت کے مشورہ کے بعد ۱۲؍ جولائی ۱۹۲۴ء کو بمبئی سے روانہ ہو گئے۔ سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ جماعت کا امام ہندوستان سے باہر جا رہا تھا اور جماعت کے دل پر اپنے امام کی دوری کی وجہ سے ایک گونہ بوجھ تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس سفر کو بہت نوازا اور بہت سی کامیابیوں کا پیش خیمہ بنا دیا۔ روانہ ہونے سے پہلے آپ نے اپنے پیچھے تمام ہندوستان کے لئے مولانا مولوی شیر علی صاحب کو اپنی جگہ امیر مقرر فرمایا اور بارہ اصحاب کے عملہ کے ساتھ جن میں بعض دینی علماء اور بعض سیکرٹری اور بعض احمدیہ پریس کے نمائندے شامل تھے روانہ ہوئے۔ ان بارہ اصحاب کے علاوہ چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب حال لاممبر گورنمنٹ آف انڈیا بھی جو خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ قادیان کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور اس وقت لاہور میں بطور بیرسٹر پریکٹس کرتے تھے لندن میں آپ کے ساتھ جا ملے اور پھر اکثر حصہ سفر کا آپ کے ساتھ رہے۔
سفرمیں حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کو خیال آیا کہ اگر رستہ میں مصر اور شام اور فلسطین میں بھی ہوتے جائیں تو اچھا ہو گا۔ چنانچہ اس تجویز کے مطابق آپ ان ملکوں میں بھی تھوڑا تھوڑا ٹھہرتے گئے۔ ان ممالک میں آپ کی آمد سے کافی شور ہوا اور لوگوں میں بہت توجہ پیدا ہوئی اور گو ایک طبقہ میں مخالفت بھی ہوئی مگر معزز طبقہ نے آپ کا پُرتپاک خیر مقدم کیا چنانچہ فلسطین کے مفتی اعظم نے آپ کے اعزاز میں ایک دعوت دی اور ایک دعوت فلسطین کے ہائی کمشنر نے بھی دی۔ مگر جیسا کہ بتایا گیا ہے ایک طبقہ نے دینی لحاظ سے مخالفت بھی کی چنانچہ دمشق کے ایک مشہور ادیب نے آپ سے یہاں تک کہا کہ ایک جماعت کے معزز امام ہونے کی حیثیت سے ہم آپ کا اکرام کرتے ہیں مگر آپ یہ امید نہ رکھیں کہ ان علاقوں میں کوئی شخص آپ کے خیالات سے متاثر ہو گا کیونکہ ہم لوگ عرب نسل کے ہیں اور عربی ہماری مادری زبان ہے اور کوئی ہندی خواہ وہ کیسا ہی عالم ہو ہم سے زیادہ قرآن و حدیث کے معنی سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ آپ نے یہ گفتگو سن کر اس کے خیال کی تردید فرمائی اور ساتھ ہی تبسم کرتے ہوئے فرمایا کہ مبلغ تو ہم نے آہستہ آہستہ ساری دنیا میں ہی بھیجنے ہیں مگر اب ہندوستان واپس جانے پر میرا پہلا کام یہ ہو گا کہ آپ کے ملک میں مبلغ روانہ کروں اور دیکھوں کہ خدائی جھنڈے کے علمبرداروں کے سامنے آپ کا کیا دم خم ہے۔ چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا کہ ولایت سے واپسی پر فوراً دمشق میں ایک دارالتبلیغ قائم کر دیا اور اب خدا کے فضل سے شام اور فلسطین اور مصر تینوں میں احمدی پائے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ دن بدن ترقی کر رہا ہے۔
دمشق میں ایک اور لطیف واقعہ بھی پیش آیا اور وہ یہ کہ جس ہوٹل میں آپ نے جا کر قیام فرمایا جب اس کے اردگرد نگاہ ڈالی گئی تو وہ دمشق کے شرقی حصہ میں تھا اور آپ کے ہوٹل کے عین سامنے ایک خوبصورت سفید مینار بھی کھڑا تھا اسے دیکھ کر سب نے یہ محسوس کیا کہ آج آنحضرت ﷺ کی وہ پیشگوئی اپنے ظاہری معنوں میں بھی پوری ہوئی کہ مسیح موعود ؑ دمشق کے شرقی جانب ایک سفید مینار کے پاس اترے گا جس کی حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ تشریح فرمائی تھی کہ میرے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ دمشق جائے گا اور اس کے ذریعہ سے یہ پیشگوئی ظاہری صورت میں بھی پوری ہو جائے گی۔ دمشق ،فلسطین اور مصر کے مختصر قیام سے فارغ ہو کر آپ اٹلی اور فرانس کے رستے ہوتے ہوئے انگلستان پہنچے۔ اٹلی میں آپکی سینور مسولینی سے بھی ملاقات ہوئی جس میں موجودہ زمانہ کی تحریکات اور اسلامی امور کے بارے میں متفرق گفتگو ہوئی۔
ولایت میں آپ کے پہنچنے پر انگریزی اخبارات میں آپ کی تشریف آوری کا بہت چرچا ہوا اور کئی اخباروں میں آپ کے ساتھیوں کے فوٹو بھی شائع ہوئے۔ اور انگلستان کی پبلک نے غیر معمولی دلچسپی کے ساتھ آپ کا خیر مقدم کیا۔ جو مضمون آپ نے مذاہب کی کانفرنس کے متعلق لکھا تھا وہ چونکہ متوقع حد سے بہت زیادہ بڑھ گیا تھا اس لئے کانفرنس میں پڑھنے کی غرض سے اس کا ایک خلاصہ تیار کیا گیا جو چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے حضور کی طرف سے ۲۳ ستمبر ۱۹۲۴ء کو کانفرنس میں پڑھا۔ اور یہ بات خوش عقیدگی سے نہیں کہی جاتی بلکہ ایک حقیقت کا اظہار ہے کہ یہ مضمون انتہائی دلچسپی سے سنا گیا اور سارے مضمونوں سے زیادہ پسند کیا گیا۔ اور اس کانفرنس میں تمام مذاہب کے وکلاء شریک تھے یعنی عیسائی ،یہودی ،بدھ ،ہندو ،سکھ اور غیر احمدی مسلمان سبھی نے شرکت کی تھی مگر حضرت خلیفۃ المسیح کا مضمون سب سے نمایاں رہا۔ اور یہ بات تو برملا طور پر تسلیم کی گئی کہ کانفرنس کی کامیابی میں سب سے بڑا دخل حضرت خلیفۃ المسیح اور آپ کی جماعت کا ہے۔ ۱؎
اصل مفصل مضمون جو آپ نے قادیان میں تیار کیا تھا وہ بھی ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں چھپ چکا ہے اور یہ ایک ایسی نادر تصنیف ہے کہ جس کی قدر و قیمت کا اندازہ صرف دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں احمدی نکتہ نگاہ سے اسلام کی ایک ایسی دلکش اور ایسی نادر تصویر کھینچی گئی ہے کہ کوئی غیر مسلم اسے پڑھ کر اسلام کی خوبیوں کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یقینا یہ کتاب سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں ایک نہایت ممتاز درجہ رکھتی ہے اور تبلیغ اسلام اور تبلیغ احمدیت کے لئے از حد مفید ہے۔
ولایت کے قیام کے دوران میں آپ نے مسجد احمدیہ لندن کی بنیاد بھی رکھی۔ اس مسجد کے لئے ۱۹۲۰ء میں لندن کے حصہ ساؤتھ فیلڈز میں ایک فراخ قطعہ خریدا گیا تھا جس کے لئے احمدیہ جماعت میں ایک خاص چندہ کے ذریعہ ایک بھاری رقم جمع کی گئی تھی۔ بنیاد رکھتے ہوئے مختلف قوموں کے نمائندے اور متعدد انگریز نو مسلم اور دوسرے معززین موجود تھے۔ اور سب اس سادہ مگر حد درجہ مؤثر تقریب پر از حد خوش اور مسرور تھے۔ مسجد کا سنگ بنیاد ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو رکھا گیا اور اس کے ساتھ ہی حضرت خلیفۃ المسیح نے یہ اعلان فرمایا کہ گویہ مسجد احمدیہ جماعت کی مسجد ہو گی لیکن چونکہ خدا کا گھر ایک وسیع دروازہ رکھتا ہے اور خدا کی خالص یاد ہر رنگ میں محبوب ہے اس لئے آنحضرت ﷺ کی سنت کے مطابق ہماری طرف سے اس بات کی کھلی اجازت ہو گی کہ جو شخص بھی چاہے خواہ وہ کسی مذہب اور کسی ملت کا ہو اس مسجد میں آکر اپنے رنگ میں عبادت کرے۔ اس مسجد کے سنگ بنیاد پرجو الفاظ لکھے گئے وہ یہ تھے جنہیں ہم حضرت خلیفۃ المسیح ہی کے خط کے عکس کی صورت میں اس جگہ درج کرتے ہیں :۔

مسجد کے سنگ بنیاد رکھے جانے پر بہت سے انگریزی اخباروں نے نوٹ لکھے جن میں سے صرف ایک نمونہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔ ڈیلی کرانیکل نے لکھا۔
’’ ہزہولی نس خلیفۃ المسیح نے جو کہ اسلام کے فرقہ احمدیہ کے امام ہیں کل ۱۹؍اکتوبر کو میل روز روڈ سوتھ فیلڈز میں لندن کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس اصلاحی سلسلہ کے پیرو لندن میں ایک سو انگریز ہیں اور مشرق و افریقہ میں دس لاکھ سے بھی زیادہ ہیں۔ فی الحال یہ ارادہ کیا گیا ہے کہ مسجد کے صرف ایک حصہ کو مکمل کیا جائے اور اس حصہ کی تعمیر کے لئے سارا روپیہ بذریعہ چندہ جمع ہو چکا ہے۔ اس رسم کے تعلق میں جو اصحاب سنگ بنیاد رکھے جانے کے وقت موجود تھے ان میں سفیر جاپان اور جرمنی۔ وینڈز ورتھ کا شیرف۔ استھونیا کا وزیر۔ اور ترکی اور البانیا کے نمائندے شامل تھے۔ ‘‘ ۱؎
اسی طرح ولایت کے قیام کے دوران میں سرفریڈرک ہال ممبر پارلیمنٹ نے اپنے حلقہ انتخاب ڈلچ میں آپ کی ایک تقریر بھی کروائی جس میں بہت لوگ شریک ہوئے اور اس تقریر کو بڑی دلچسپی کے ساتھ سنا گیا اور بہت اچھا اثر ہوا۔ غرض آپ کا سفر ولایت ہر جہت سے نہایت مبارک اور ازحد کامیاب رہا اور اس کے ذریعہ ولایت میں سلسلہ احمدیہ کا ایسے رنگ میں تعارف ہو گیا کہ جو دوسری کسی صورت میں ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ اس کے بعد سے ہمارے لندن مشن کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی اور ولایت کے بڑے بڑے لوگ اسے عزت کی نظر سے دیکھنے لگے اور ہمارے دارالتبلیغ میں آنے کو ایک گونہ فخر کی بات شمار کرنے لگے۔
ولایت سے روانہ ہونے سے قبل حضرت خلیفۃ المسیح نے مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم اے کو جو اس سفر میں آپ کے ساتھ ہی ولایت تشریف لے گئے تھے اور آپ کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے دارالتبلیغ لندن کا انچارج مقرر فرمایا اور ان کے ہم نام مولوی عبدالرحیم صاحب نیر جو اس وقت لندن مشن کے انچارج تھے اور اس سے پہلے نائیجیریا میں مبلغ رہ چکے تھے حضرت خلیفۃ المسیح کے ساتھ ہندوستان واپس آگئے ۔ الغرض حضور قریباً چار ماہ کی غیر حاضری کے بعد بے نظیر کامیابی اور کامرانی کے ساتھ ہندوستان واپس تشریف لائے جہاں جماعت نے آپ کا ایسا پرجوش اور پراخلاص استقبال کیا کہ آج تک اس کا تصور دیکھنے والوں کے دلوں میں محبت کی لہر پیدا کر دیتا ہے۔
کابل میں ایک اور احمدی کی شہادت :۔ ابھی حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح لندن میں
ہی تشریف رکھتے تھے کہ افغانستان سے یہ دردناک اطلاع پہنچی کہ امیر امان اللہ خان کے حکم سے کابل میں ہمارا ایک اور بھائی شہید کر دیا گیا ہے۔ ان صاحب کا نام مولوی نعمت اللہ صاحب تھا جنہیں حضرت خلیفۃ المسیح نے افغانستان میں تبلیغ کے لئے بھجوایا تھا اور افغانستان کے خاص حالات کے ماتحت انہیں تاکید کی تھی کہ ایسے رنگ میں کام کریں کہ لوگوں تک حق بھی پہنچ جائے اور خواہ نخواہ ملک میں شور بھی نہ پیدا ہو۔ مگر پھر بھی جب حکومت افغانستان کو پتہ لگا کہ افغانستان کی حدود میں احمدیت کے عقائد کی تبلیغ ہو رہی ہے تو اس نے مولوی نعمت اللہ خان صاحب کو گرفتار کر کے اپنی مذہبی عدالت میں مقدمہ چلایا اور پھر علماء کے فتویٰ کے مطابق مولوی صاحب موصوف کو نہایت بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ سنگسار کر دیا گیا۔ افغانستان میں یہ تیسرا واقعہ تھا کیونکہ اس سے پہلے ہماری جماعت کے دو معزز اصحاب اس سر زمین میں حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں شہید کئے جا چکے تھے۔ ہمیں امید تھی کہ امیر امان اللہ خان جیسا آزاد خیال حکمران اس معاملہ میں اپنی پالیسی کو بدل لے گا مگر افسوس کہ ہماری توقعات پوری نہ ہوئیں اور کامل کی زمین نے ہمارے ایک اور بھائی کا خون اپنے سر لے لیا۔
جیسا کہ ہم حضرت مسیح موعود ؑ کے سوانح میں بتا چکے ہیں سنگسار کرنے کا طریق یہ ہے کہ جس شخص کو یہ سزا دینی ہو اسے کمر تک زمین میں زندہ گاڑ کر اور اس کے اردگرد مٹی پیوست کر کے تا کہ وہ نہ تو بھاگ سکے اور نہ ہی حرکت کر سکے اس پر چاروں طرف سے پتھروں کی بارش برسائی جاتی ہے حتیّٰ کہ ان پتھروں کی ضرب سے اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر جاتی ہے۔ سو یہی سلوک ہمارے بھائی مولوی نعمت اللہ خان صاحب کے ساتھ کیا گیا۔ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ زمین میں گاڑتے ہوئے مولوی نعمت اللہ صاحب سے کہا کہ اب بھی وقت ہے اپنے عقائد سے توبہ کر لو۔ مگر انہوں نے اس تجویز کو نفرت کے ساتھ ٹھکرا دیا اور کہا کہ جان تو ایک معمولی چیز ہے خواہ کچھ ہو میں اس صداقت کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا جو مجھے خدا کی طرف سے حضرت مسیح موعود ؑ کے ذریعہ حاصل ہوئی ہے۔ اس پر پتھرائو کا حکم دیا گیا اور چاروں طرف سے پتھروں کی بارش ہونے لگی اور جلدی ہی یہ خدا کا عاشق اپنے معشوق کی گود میں پہنچ گیا۔ مولوی نعمت اللہ صاحب اس وقت بالکل جوان تھے مگر انہوں نے قربانی کا وہ اعلیٰ نمونہ دکھایا جو دنیا میں بہت کم لوگ دکھاتے ہیں۔
جب اس خبر کی اطلاع حضرت خلیفۃ المسیح کو ولایت میں تار کے ذریعہ بھجوائی گئی تو آپ کو سخت صدمہ ہوا مگر دوسری طرف آپ کو اس خیال سے خوشی بھی ہوئی کہ آپ کے ایک جان نثار نے ایمان کا ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے۔ ولایت کے اخباروں نے اس حادثہ پر بڑے سخت نوٹ لکھے اور بعض انصاف پسند انگریزوں نے اس پر ایک احتجاجی جلسہ بھی کیا اور انگریزوں پر ہی حصر نہیں بلکہ ساری انصاف پسند دنیا میں اس ظالمانہ کارروائی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ مگر افسوس ہے کہ خودار باب کابل پر اس کا اثر یہ تھا کہ جب اس کے تھوڑے عرصہ بعد ہی ہمارا ایک وفد کابل کے ایک ذمہ وار وزیر سے ملا جو ہندوستان میں سے گزر رہا تھا تو اس نے الٹا ہم پر گلہ کیا کہ ایک معمولی سی بات تھی کہ ایک آدمی اپنے بعض خیالات کی وجہ سے مار دیا گیا اس پر آپ لوگوں نے اتنا واویلا کر کے ہمارے ملک کو بدنام کر دیا۔ اس واقعہ سے اس ذہنیت کا اندازہ ہو سکتا ہے جو بدقسمتی سے آجکل کے مسلمانوں میں پائی جاتی ہے۔ مگر ہم امید کرتے ہیں کہ افغانستان کی موجودہ حکومت اس معاملہ میں زیادہ آزادانہ اور زیادہ منصفانہ خیالات رکھتی ہے۔
بخار اور ایران کے تبلیغی وفد :۔ ولایت جاتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح نے دو نئے تبلیغی
وفد روانہ کئے تھے یعنی ایک مبلغ تو آپ نے ایران کی طرف روانہ کیا اور دو مبلغ روس کے علاقہ بخارا کی طرف روانہ فرمائے۔ ایران جانے والے بزرگ سلسلہ کے ایک پرانے فدائی شاہزادہ عبدالمجید صاحب لدھیانوی تھے جو اسی دن قادیان سے روانہ ہوئے جس دن کہ حضرت خلیفۃ المسیح ولایت کے لئے روانہ ہوئے اور دوسرا وفد جو مولوی ظہور حسین صاحب اور مولوی محمد امین خان صاحب پر مشتمل تھا وہ بھی حضرت خلیفۃ المسیح کے ساتھ ہی ماہ جولائی ۱۹۲۴ء میں بخارا کی طرف روانہ ہوا۔ شاہزادہ عبدالمجید صاحب نے ایران میں قریباً چار سال نہایت خاموشی مگر نہایت مستقل مزاجی کے ساتھ آنریری کام کر کے وہیں ۱۹۲۸ء میں وفات پائی۔ مگر دوسرے وفد کو روسی حکومت نے اپنے میں کام کرنے سے روک دیا۔ چنانچہ مولوی ظہور حسین صاحب توملک میں داخل ہوتے ہی گرفتار کر لئے گئے اور ایک لمبا عرصہ روسی جیل خانوں میں رہ کر اور انتہائی تکلیفیں اٹھا کر جن کو سن کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں حکومت برطانیہ کی وساطت سے رہا ہو کر واپس آئے مگر مولوی صاحب نے جیل کی تاریک کوٹھریوں میں بھی تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا اور بعض ساتھ کے قیدیوں کو صداقت کا شکار بنا لیا۔ دوسرے صاحب مولوی محمد امین خان ہوشیاری کے ساتھ بچ کر ملک کے اندر جا گھسے اور کچھ عرصہ روس میں خفیہ خفیہ رہ کر واپس آگئے۔
دمشق و فلسطین و مصر کا دارالتبلیغ :۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح ولایت سے واپس آئے تو آپ
نے اپنے وعدہ کے موافق پہلا کام یہ کیا کہ ۱۹۲۵ء کے اوائل میں دو مبلغ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کو ملک شام کی طرف روانہ کیا جنہوں نے دمشق میں اپنا مرکز قائم کر کے کام شروع کر دیا اور گو شروع شروع میں سخت مخالفت ہوئی لیکن بالآخر ایک طبقہ مائل ہونے لگا اور آہستہ آہستہ لوگوں کی توجہ احمدیت کی طرف مبذول ہونی شروع ہوئی۔ شاہ صاحب تو دو سال کے قیام کے بعد ۱۹۲۶ء میں حضرت خلیفۃ المسیح کے حکم سے واپس آگئے مگر مولوی جلال الدین صاحب وہیں ٹھہرے اور ہمت اور استقلال کے ساتھ تبلیغ کرتے رہے مگر اس عرصہ میں وہاں کے علماء کا طبقہ ملک میں احمدیت کے پائوں جمتے دیکھ کر سخت برافروختہ ہو گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے مبلغ مولوی جلال الدین صاحب پر ایک شخص نے خنجر سے حملہ کر کے انہیں بُری طرح زخمی کر دیا۔ یہ اللہ کا فضل تھا کہ زخم مہلک ثابت نہیں ہوا او رمولوی صاحب ایک لمبے علاج کے بعد صحت یاب ہو گئے لیکن اس کے بعد انہیں شام کی فرانسیسی حکومت نے علماء کی شورش کی وجہ سے دمشق میں ٹھہرنے کی اجازت نہیں دی چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح کے حکم سے مولوی جلال الدین صاحب دمشق سے نکل کر فلسطین میں آگئے اور حیفا میں اپنا مرکز قائم کر لیا۔ یہ مارچ ۱۹۲۸ء کا واقعہ ہے۔ مگر شمس صاحب کے دمشق سے چلے آنے سے قبل خدا کے فضل سے شام میں ایک مختصر سی جماعت قائم ہو چکی تھی جو اب تک ہے اور ترقی کر رہی ہے۔
فلسطین میں پہنچ کر مولوی جلال الدین صاحب نے حضرت امیر المومنین کے حکم سے اپنے دائرہ تبلیغ میں مصر کو بھی شامل کر لیا اور اپنے وقت کو تقسیم کر کے دونوں ملکوں میں تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا اور خدا کے فضل سے ہر دو علاقوں میں نمایاں کامیابی ہوئی چنانچہ اس وقت ان دونو ملکوں میں مخلص اور مستعد جماعتیں قائم ہیں اور فلسطین میں تو جماعت کی اپنی مسجد اور مدرسہ بھی ہے اور ایک ماہوار رسالہ البشریٰ بھی نکلتا ہے او رایک مختصر سا پریس بھی قائم ہے۔ اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ مصر میں اس سے قبل شیخ محموداحمد صاحب عرفانی کے ذریعہ احمدیت کا بیج بویا جا چکا تھا۔ شیخ صاحب ۱۹۲۲ء میں ابتداء ً طلبِ علم کے لئے مصر گئے تھے مگر اس کے بعد وہاں تبلیغ میں مصروف ہو گئے اور کئی سال قیام کر کے اچھا کام کیا۔
دارالتبلیغ سماٹرا وجاوا :۔ ۱۹۲۵ء میں ہی سلسلہ احمدیہ کا ایک اور اہم مشن سماٹرا میں قائم کیا گیا اور
ہندوستان کے مشرقی علاقہ کی ناکہ بندی کا آغاز ہو گیا۔ اس مہم کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح کی مردم شناس آنکھ نے مووی رحمت علی صاحب کو منتخب کیا۔ مولوی صاحب مولوی فاضل تھے مگر سادہ مزاج رکھتے تھے اور بعض حلقوں میں خیال کیا جاتا تھا کہ شاید وہ اس نازک کام میں کامیاب نہ ہو سکیں مگر خدا کے فضل سے اور حضرت خلیفۃ المسیح کی روحانی توجہ کے طفیل اس مشن نے حیرت انگیز رنگ میں ترقی کی اور بعض لحاظ سے دوسرے سب مشنوں کو مات کر گیا۔ سماٹرا اور اس کے ساتھ کے جزائر جاوا اور سیلی بیز اور بورنیو وغیرہ میں مسلمانوں کی آبادی ہے جو زیادہ تر ہالینڈ کی حکومت کے ماتحت ہیں۔ یہ لوگ مذہب میں خوب جوشیلے ہیں اور سیر و سیاحت کا بھی شوق رکھتے ہیں مگر چونکہ مذہبی تعلیم کی کمی ہے اس لئے عیسائی مشنریوں کے جال میں جلد پھنس جاتے رہے ہیں اور مولوی صاحب کے جانے سے قبل بہت سے لوگ عیسائی ہو چکے تھے مگر مولوی صاحب کے جانے کے بعد خدا کے فضل سے یہ بپتسمہ کی رو بہت کمزور پڑ گئی اور کئی لوگوں نے احمدیت کو قبول کیا اور آہستہ آہستہ اس علاقہ میں احمدیت کا اثر اس قدر وسیع ہو گیا کہ جب ایک ڈچ افسر مسٹر سی انڈریا سا اپنی حکومت کی طرف سے جدہ میں قونصل مقرر ہو کر سماٹرا سے جانے لگا تو ڈچ حکومت نے اسے یہ ہدایت دی کہ وہ رستہ میں قادیان بھی ہوتا جاوے تاکہ اس تحریک کے حالات سے ذاتی تعارف پیدا کر سکے جو جزائر شرق الہند میں اس قدر زور پکڑ رہی ہے۔ چنانچہ وہ ۱۹۳۰ء میں قادیان آیا اور حضرت خلیفۃ المسیح سے ملا اور بہت اچھا اثر لے کر آگے گیا۔
اب سماٹرا کے علاوہ جاوا میں بھی ۱۹۳۱ء سے ایک علیحدہ دارالتبلیغ قائم ہو چکا ہے اور دونوں جزیروں میں احمدیت کا اثر سرعت کے ساتھ ترقی کر رہا ہے چنانچہ یہاں کے احمدیوں نے اس غرض سے کہ خود ان کے اپنے ہم وطن نوجوان احمدیت کے مبلغ بن سکیں اپنے متعدد طالب علموں کو قادیان بھجوا رکھا ہے جہاں وہ سلسلہ کی دینی درسگاہوں میں تعلیم پاتے ہیں اور اپنے کورس کو مکمل کر کے اسلام اور احمدیت کے لعم بردار بنیں گے۔ ان طالب علموں میں سماٹرا ،جاوا ،سیلی بیز اور بورنیو سب کے باشندے شامل ہیں۔
تعمیر و افتتاح مسجد لندن :۔ یہ ذکر گذر چکا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے ۱۹۲۴ء میں
اپنے سفر ولایت کے دوران میں مسجد لندن کی بنیاد رکھی تھی مگر چونکہ اس وقت بعض ضروری سامان مہیا نہیں ہو سکے تھے اس لئے مسجد کی بقیہ تعمیر کچھ عرصہ تک ملتوی رہی۔ بالآخر ۱۹۲۵ء میں اس کا کام شروع کیا گیا اور ۱۹۲۶ء میں یہ خدا کا گھر اپنی تکمیل کو پہنچا۔ اس وقت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم اے لندن کے دارالتبلیغ کے انچارج تھے ۔ درد صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح کی ہدایت کے ماتحت بادشاہ فیصل ملک عراق سے درخواست کی کہ وہ اپنے لڑکے شہزادہ زید کو اجازت دیں کہ وہ ہماری مسجد کا افتتاح کریں اور جب اس کے جلد بعد شاہ عراق خود یورپ گئے تو ان سے تحریک کی گئی کہ اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ خود مسجد کے افتتاح کے لئے تشریف لائیں مگر انہوں نے اس درخواست کو ٹال دیا۔ اس کے بعد سلطان ابن سعود ملک حجاز کی خدمت میں تار دی گئی کہ وہ اپنے کسی صاحبزادہ کو اس کام کے لئے مقرر فرمائیں اور انہوں نے تار کے ذریعہ اس درخواست کو منظور کیا اور اپنے ایک فرزند شاہزادہ فیصل کو اس غرض کے لئے ولایت روانہ کر دیا جب شاہزادہ موصوف لندن پہنچے تو درد صاحب کے انتظام کے ماتحت ان کا نہایت شاندار استقبال کیا گیا اور اخباروں میں دھوم مچ گئی کہ وہ مسجد لندن کے افتتاح کے لئے تشریف لائے ہیںمگر اس کے بعد ایسے پر اسرار حالات پیدا ہونے لگے کہ شاہزادہ فیصل برملا انکار کرنے کے بغیر پیچھے ہٹنا شروع ہو گئے اور گو آخر وقت تک انہوں نے انکار نہیں کیا مگر عملاً تشریف بھی نہیں لائے۔ ان کے تامل کو دیکھ کر درد صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح سے بذریعہ تار اجازت لے رکھی تھی کہ اگر وہ نہ آئیں تو خان بہادر شیخ عبدالقادر صاحب مسجد کا افتتاح کر دیں۔ چنانچہ جب فیصل صاحب نہ پہنچے تو درد صاحب نے مسجد کا افتتاح خان بہادر سر عبدالقادر صاحب کے ذریعہ کروا لیا جو ان ایام میں لیگ آف نیشنز کی شرکت کے لئے ہندوستان کے نمائندہ کی حیثیت میں ولایت گئے ہوئے تھے مگر شاہزادہ فیصل کی آمد آمد کا ولایت کے اخباروں میں اس قدر کثرت کے ساتھ چرچا ہو چکا تھا کہ لوگوں نے ان کے نہ آنے کو بہت اچنبھا سمجھا اور واقف کار لوگ تاڑ گئے کہ اس عملی انکار کے پیچھے اصل راز کیا مخفی ہے۔ ۱؎ یہ راز یہی تھا کہ بعض مسلم اور غیر مسلم حلقوں نے اس بات کو دیکھ کر کہ جماعت احمدیہ زیادہ اہمیت اختیار کر رہی ہے سلطان ابن سعود کو بہکا دیا تھا کہ ان کے صاحبزادہ صاحب مسجد احمدیہ کی افتتاحی رسم سے مجتنب رہیں اور ان کے دل میں یہ خیال بھی پیدا کر دیا گیا تھا کہ چونکہ مسلمان علماء کا ایک معتدبہ حصہ جماعت احمدیہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتا ہے اس لئے مسجد احمدیہ کے افتتاح میں شاہزادہ فیصل کی شرکت سے اسلامی ممالک میں سلطان کے متعلق برا اثر پیدا ہو گا بہر حال خواہ اصل وجہ کچھ بھی ہو شاہزادہ فیصل کی شرکت سے جو فائدہ جماعت احمدیہ کو حاصل ہو سکتا تھا وہ پھر بھی ہو گیا اور وہ یہ کہ ولایت کے اخباروں میں نہایت کثرت کے ساتھ مسجد احمدیہ اور جماعت احمدیہ کی شہرت ہو گئی بلکہ ابتدائی اقرار اور بعد کے انکار نے اس شہرت کو اور بھی نمایاں کر دیا مگر خود شاہزادہ موصوف کی یہ بدقسمتی ضرور ہے کہ انہوں نے ایک اہم دینی خدمت سے جس کی یاد دنیا میں قیامت تک رہنے والی تھی اپنے آپ کو محروم کردیا اور ہم امید کرتے ہیں کہ سلطان ابن سعود جیسے بیدار مغز بادشاہ نے بعد میں اپنے خیالات میں ضرور تبدیلی فرمائی ہو گی۔
افتتاح کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح نے جو ان ایام میں ڈلہوزی پہاڑ پر تشریف رکھتے تھے ایک لمبا پیغام تار کے ذریعہ لندن بھجوایا جس میں اہل مغرب کو خطاب کر کے اسلام اور احمدیت کی غرض و غایت اور مقاصد کے متعلق نہایت لطیف تبلیغ فرمائی۔ یہ پیغام بہت پسند کیاگیا اور انگریزی اخباروں نے اس کے لمبے لمبے اقتباس اپنے کالموں میں شائع کئے۔
سفارت عراق :۔حضرت خلیفۃ المسیح کی قیادت کے ماتحت احمدیت کا بڑھتا ہوا اثر ساتھ ساتھ
مخالفت کی رَو کو بھی تیز کرتا جاتا تھا اور اب یہ مخالفت افراد سے نکل کر حکومتوں کے پروگرام میں بھی داخل ہو رہی تھی چنانچہ جس زمانہ کا ہم اس وقت ذکر کر رہے ہیں اس میں عراق کی حکومت نے احمدیت کی تبلیغ کو اپنے علاقہ میں روک دیا تھا۔ بے شک ابھی تک اس ملک میں ہمارا کوئی باقاعدہ مبلغ نہیں تھا مگر چونکہ ہر احمدی ایک آنریری مبلغ ہوتا ہے اس لئے عراق کے ہندوستانی احمدی اپنے طور پر تبلیغ میں مصروف رہتے تھے۔ ان کے خلاف حکومت عراق نے اقدام کر کے انہیں تبلیغ کرنے سے روک دیا بلکہ پرائیویٹ گھروں میں بھی ہر قسم کا اجتماع کرنے پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح نے حکومت ہند کے ذریعہ کو شش فرمائی کہ کسی طرح یہ روکیں دور ہو جائیں مگر کامیابی نہ ہوئی۔ بالآخر آپ نے سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو جو اس وقت فلسطین میں تھے ہدایت فرمائی کہ وہ ہندوستان واپس آتے ہوئے عراق کے رستے آئیں اور حکومت عراق کے ارباب حل و عقد سے مل کر کوشش کریں کہ یہ پابندیاں اٹھا دی جائیں چنانچہ شاہ صاحب موصوف اپریل ۱۹۲۶ء میں عراق پہنچے اور خدا نے ان کی کوشش میں ایسی برکت دی کہ حکومت عراق نے ان پابندیوں کو اٹھا دینا منظور کر لیا۔ یہ ایک بہت شاندار کامیابی تھی کیونکہ اس کے ذریعہ نہ صرف تبلیغ کا ایک بند شدہ دروازہ کھل گیا بلکہ گویا احمدیت کے اثر کو اس حد تک تسلیم کر لیا گیا کہ وہ حکومتوں کے سامنے سفارت کے رنگ میں اپنے معاملات پیش کر کے تصفیہ حاصل کرے۔
احمدی مستورات کی تنظیم و تربیت :۔ عورتیں قوم کا آدھا دھڑ ہوتی ہیں بلکہ بعض لحاظ سے ان کا کام مردوں سے بھی زیادہ ذمہ داری کا رنگ رکھتا ہے کیونکہ قوم کا آئندہ بوجھ اٹھانے والے نونہال انہی کی گودوں میں پرورش پاتے ہیں اسی لئے مقدس بانئے اسلام نے لڑکیوں کی تربیت پر خاص زور دیا ہے تا کہ وہ اس کام کے قابل بنائی جا سکیں جوبڑے ہو کر انہیں پیش آنے والا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح نے بھی اس نکتہ کو اپنی شروع خلافت سے مدنظر رکھا اور احمدی مستورات کی تنظیم اور تربیت کی طرف خاص توجہ فرمائی چنانچہ ۱۹۲۲ء کے آخر یا ۱۹۲۳ء کے شروع میں آپ نے قادیان میں لجنہ اماء اللہ کی بنیاد رکھی۔ یہ انجمن خالصۃً مستورات کی انجمن تھی اور اب تک ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے مخصوص فرائض مثلاً عورتوں کے چندوں کی تحصیل ۔ عورتوں میں تبلیغ۔ لڑکیوں کی تعلیم ۔ مستورات کی تربیت اور تنظیم وغیرہ کا کام لیتی ہیں اور جب قادیان کی لجنہ کچھ عرصہ کام کر کے اپنے پائوں پر کھڑی ہو گئی تو آپ نے بیرونی جماعتوں میں بھی تحریک فرمائی کہ وہ اپنی اپنی جگہ مقامی لجنہ قائم کریں چنانچہ اب خدا کے فضل سے بہت سے شہروں میں لجنات قائم ہیں جن میں سے بعض بہت اچھا کام کر رہی ہیں اور ان کے ذریعہ احمدی مستورات میں بہت بڑی بیداری اور کام کی زبردست روح پیدا ہو رہی ہے۔
۱۹۲۵ء میں آپ نے اس کام کو مزید توسیع دی اور ایک خاص مدرسہ بڑی عمر کی لڑکیوں اور عورتوں کی تعلیم اور ٹریننگ کے لئے قادیان میں جاری فرمایا تا کہ چند منتخب شدہ عورتوں کو تعلیم دے کر مدرسی اور سلسلہ کے دوسرے کاموں کے لئے تیار کیا جا سکے۔ چنانچہ اس مدرسہ سے بہت سی احمدی مستورات نے مولوی وغیرہ کے امتحانات پاس کئے اور ایک لڑکی پنجاب بھر میں مولوی کے امتحان میں اوّل رہی۔ ان کی تعلیم میں دینیات اور تربیت اطفال وغیرہ کے علاوہ کچھ ابتدائی حساب کچھ تاریخ جغرافیہ اور کچھ انگریزی بھی شامل تھی۔ اور اس کے ساتھ ہی مستورات کے لئے ایک علیحدہ لائبریری بھی قائم کی گئی۔
اس کے بعد آپ نے ۱۹۲۶ء میں مستورات کے لئے ایک خاص رسالہ ’’ مصباح ‘‘ نامی جاری فرمایا اور مستورات میں تحریک کی کہ وہ اس رسالہ میں علمی اور تبلیغی اور تربیتی مضامین لکھا کریں۔ یہ رسالہ اب تک جاری ہے اور مستورات میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا موجب بن رہا ہے۔
اسی زمانہ کے قریب آپ نے مستورات میں یہ تحریک بھی فرمائی کہ وہ گھریلو دستکاری کی طرف توجہ دیں تا کہ اوّل ان کاوقت بیکاری میں نہ گزرے دوسرے وہ اس ذریعہ سے تھوڑا بہت کمابھی سکیں اور تیسرے ملک میں صنعت اور دستکاری کے فن کو ترقی حاصل ہو۔ اور اس تحریک کے ساتھ ہی ایک زنانہ نمائش کا بھی آغاز کر دیا گیا جو ہر سال جلسہ سالانہ کے موقعہ پر قادیان میں لگتی ہے اور اس میں احمدی مستورات اپنی دستکاری کے نمونے پیش کرتی ہیں۔
اسی تنظیمی پروگرام کی ذیل میں آپ نے یہ بھی تجویز فرمائی کہ جس طرح احمدی مردوں کا سالانہ جلسہ ہوتا ہے اسی طرح عورتیں بھی اپنا سالانہ جلسہ کیا کریں تا کہ انہیں تقریر کی مشق ہو اور مردوں کی طرح ان کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ بھی ترقی پائے اور قادیان میں آکر ان کا قت بیکار نہ گزرے۔ چنانچہ اب مردانہ جلسہ کے علاوہ ہر سال قادیان میں زنانہ جلسہ بھی ہوتا ہے جس میں ہزاروں عورتیں شریک ہوتی ہیں۔ اس جلسہ میں عورتوں کے علاوہ بعض خاص خاص مرد بھی پردہ کے انتظام کے ساتھ تقریریں کرتے ہیں اور ایک تقریر خود حضرت خلیفۃ المسیح کی بھی ہوتی ہے اور ہزاروں احمدی عورتیں ان تقریروں سے فائدہ اٹھاتی اور ایک نئی روح کے ساتھ قادیان سے واپس جاتی ہیں۔
عورتوں کے متعلق ایک اور اہم اصلاح جس کا اصل موقعہ تو آگے چل کر آتا ہے کیونکہ وہ ۱۹۳۶ء میں شروع ہوئی مگر چونکہ ہم اس جگہ مستورات سے تعلق رکھنے والے امور کو یکجا لکھ رہے ہیں اس لئے زمانہ کا لحاظ ترک کر کے اسے بھی یہاں درج کیا جاتا ہے۔ یہ اصلاح قادیان کے زنانہ سکول کے متعلق ہے جس کا نام نصرت گرلز ہائی سکول ہے۔ یہ سکول ایک لمبے عرصہ سے قادیان میں قائم ہے شروع شروع میں وہ پرائمری کی حد تک تھا پھر مڈل تک بڑھایا گیا ۔ا ور ۱۹۲۹ء میں اس کا ہائی ڈیپارٹمنٹ کا حصہ بھی کھول دیا گیا۔ چنانچہ ۱۹۳۱ء میں اس کی لڑکیاں پہلی دفعہ انٹرنس کے امتحان میں شریک ہوئیں۔ مگر حضرت امیر المومنین کو ایک عرصہ سے یہ خیال تھا کہ زنانہ تعلیم کو مردانہ تعلیم کے رستہ پر چلانا درست نہیں کیونکہ ہر دو کا کام اور ضروریات جداگانہ ہیں۔ چنانچہ آپ نے ۱۹۳۶ء میں یہ ہدایت جاری فرمائی کہ مڈل تک عام مروجہ تعلیم رکھ کر (کیونکہ ایک مشترک ابتدائی معیار عام تعلیم کا ہونا ضروری ہے) اس کے بعد سکول کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے ایک حصہ وہی مروجہ تعلیم کی لائن پر جاری رہے تا کہ جو لڑکیاں مدرسی یا ڈاکٹری وغیرہ کی لائن کی طرف جانا چاہیں وہ ادھر جا سکیں۔ مگر دوسری لائن جس میں زیادہ لڑکیوں کو جانا چاہئے وہ مروجہ طریق تعلیم سے ہٹا کر خالصۃً اپنے پروگرام اور اپنے نصاب کے ماتحت قائم کی جائے اس لائن میں دینیات کی تعلیم پر زیادہ زور ہو اور سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر پڑھایا جاوے اور تربیت کے اصول سکھائے جائیں اور کچھ حصہ نرسنگ اور امور خانہ داری کا بھی ہو۔ اس کے علاوہ تقریر و تحریر کی بھی مشق کرائی جائے تا کہ یہ لڑکیاں دین کی خادم بن سکیں۔ چنانچہ مدرسہ کی یہ شاخ تین سال سے نہایت کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے اور اس کے ذریعہ احمدی لڑکیوں میں ایک نمایاں تبدیلی اور غیر معمولی ترقی کے آثار نظر آتے ہیں۔
الغرض حضرت خلیفۃ المسیح کے زمانہ میں حضور کی ہدیات اور نگرانی کے ماتحت احمدی مستورات نے ہر جہت سے ترقی کی ہے اور بعض کاموں میں تو وہ اس قدر جوش اور شوق دکھاتی ہیں کہ مردوں کو شرم آنے لگتی ہے اور مالی قربانی میں بھی ان کا قدم پیش پیش ہے ۔ احمدی مستورات کی مالی قربانی کا اندازہ صرف اس ایک واقعہ سے ہو سکتا ہے کہ جب اوائل ۱۹۲۳ء میں حضرت خلیفۃ المسیح نے یہ تحریک فرمائی کہ جرمنی میں ایک مسجد کی تعمیر کے لئے صرف احمدی عورتیں چندہ جمع کریں تو اس اپیل پر چند ماہ کے عرصہ میں عورتوں نے ایک لاکھ روپے سے زیادہ رقم اکٹھی کر لی اور یہ رقم صرف مستورات سے لے گئی جس میں مردوں کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ مشیت الٰہی سے جرمنی کی مسجد تعمیر نہیں ہو سکی اور یہ روپیہ مستورات کے مشورہ سے بعض دوسرے اہم دینی کاموں میں خرچ کر لیا گیا مگر بہر حال احمدی مستورات نے اس موقعہ پراپنی مالی قربانی کا ایک حیرت انگیزثبوت پیش کیا۔ اس چندہ میں بڑی رقمیں شامل نہیں تھیں بلکہ چھوٹی چھوٹی رقموں سے یہ بڑی میزان حاصل ہوئی تھی اور اکثر صورتوں میں نقدی کی بجائے عورتوں نے اپنے زیورات پیش کر دئیے تھے۔
حضرت مسیح موعود ؑ بانیء سلسلہ احمدیہ کے سوانح کی ذیل میں ہم بتا چکے ہیں کہ آپ نے اپنے اوائل زمانہ میں ہی گورنمنٹ کو اس بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ ملک کا موجودہ قانون مختلف قوموں کے مذہبی پیشوائوں کی عزت کی حفاظت کے معاملہ میں بہت کمزور اور ناقص ہے اور اسی لئے ہندوستان میں آئے دن مذہبی بزرگوں پر حملے ہوتے رہتے ہیں جن کی وجہ سے ملک کی فضا بہت خراب رہتی ہے اور قوموں کے درمیان امن کی صورت پیدا نہیںہوتی۔ اور آپ نے اپنی طرف سے بعض تجویزیں بھی پیش فرمائی تھیں کہ اگر انہیں اختیار کیا جائے تو حالات بہتری کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ گورنمنٹ نے اس وقت اس ضروری امر کی طرف توجہ نہ دی اور حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔ اس دلآزاری کا سب سے بڑا مظاہرہ ہمارے مقدس رسول آنحضرت ﷺ کے خلاف ہوتا تھا جن کی ارفع اور پاکیزہ شان کو گرانے اور میلا کرنے کے لئے ہر قوم کے نااہل لوگ آپ کی عزت کے خلاف ناپاک حملے کرتے رہتے تھے۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کا زمانہ آیا تو آپ ے پھر ایک دفعہ گورنمنٹ کو اس ضروری اصلاح کی طرف توجہ دلائی مگر اب بھی حکومت کے حلقوں میں کوئی حرکت پیدا نہ ہوئی۔ آخر ۱۹۲۷ء میں آکر خدا نے آپ کے ہاتھ میں ایک ایسا موقع دے دیا جس کی وجہ سے گورنمنٹ حرکت میں آنے پر مجبور ہو گئی۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ اس زمانہ میں بعض کوتہ بین ہندو مصنفوں نے اوپر تلے آنحضرت ﷺ کے خلاف ایسے دلآزار حملے کئے کہ ان سے مسلمانوں کے دل چھلنی ہو گئے ۔ چنانچہ پہلے تو ایک آریہ سماجی مسمیٰ راج پال نے ایک کتاب ’’ رنگیلا رسول‘‘ نامی تصنیف کر کے شائع کی اور اس کتاب میں مقدس بانی ٔ اسلام کے متعلق نہایت درجہ دلخراش اور اشتعال انگیز باتیں لکھیں یہ ۱۹۲۴ء کا واقعہ ہے ۔ حکومت نے اس کتاب کے مصنف پر مقدمہ چلایا جو بہت دیر تک چلتا رہا مگر بالآخر مئی ۱۹۲۷ء میں پنجاب ہائی کورٹ نے اسے ایک اصطلاحی بنیاد پر خارج کر کے مصنف کو بری کر دیا۔ اس فیصلہ کی وجہ سے پنجاب میں سخت ہیجان پیدا ہوا۔
اس کے کچھ عرصہ بعد یعنی اپریل ۱۹۲۹ء میں ایک مسلمان نوجوان علم الدین نے جوش میں آکر ’’ رنگیلا رسول‘‘ کے مصنف کو دن دہاڑے قتل کر دیا۔ اس تکلیف دہ حادثہ پر حضرت خلیفۃ المسیح نے ایک طرف تو حکومت کو توجہ دلائی کہ اس قسم کی ناپاک اشتعال انگیزی کا سلسلہ رکنا چاہئے ورنہ ملک کی فضا سخت مسموم ہو جائے گی اور کسی قوم کے لئے بھی امن نہیں رہے گا اور دوسری طرف آپ نے ’’رنگیلا رسول‘‘ کے مصنف راجپال کے قاتل کے فعل کو بھی قابل ملامت اور اسلامی تعلیم کے خلاف قرار دیا۔ آپ نے بتایا کہ اسلام اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ لوگ قانون کو خود اپنے ہاتھ میں لیں اور نہ ہی اسلام کافروں کے قتل کی تحریک کرتا ہے بلکہ وہ ہر حال میں صبر اور امن کی تعلیم دیتا ہے۔ پس اگر ایک ناپاک دل انسان نے آنحضرت ﷺ کے خلاف دل آزار حملہ کیا تھا تو اس پر یہ نہیں ہونا چاہئے تھا کہ ایک مسلمان اٹھ کر خود بخود کتاب کے مصنف کو قتل کر دے۔ ایسا طریق ملک میں بدامنی پیدا کرنے والا اور خلاف تعلیم اسلام ہے۔ مگر آپ نے یہ بات تکرار کے ساتھ بار بار واضح فرمائی کہ جب تک اشتعال انگیز تحریروں کے سلسلہ کو ایک پختہ اور واضح قانون کے ذریعہ روکا نہیں جائے گااس وقت تک اس قسم کے واقعات ہوتے رہیں گے کیونکہ ہر کس و ناکس سے اس بات کی توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ ہر حال میں اپنے جذبات کو روک کر رکھ سکے گا۔ اس ضمنی نوٹ کے بعد ہم پھر اصل مضمون کی طرف لوٹتے ہیں۔
ابھی ’’ رنگیلا رسول‘‘ کا مصنف قید حیات میں تھا اور اس کے قتل کا واقعہ عمل میں نہیں آیا تھا کہ ماہ مئی ۱۹۲۷ء میں امرتسر کے ایک ہندو رسالہ ’’ ورتمان‘‘ میں ایک اور نہایت دلآزار مضمون آنحضرت ﷺ کے متعلق شائع ہوا۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے اوائل جون ۱۹۲۷ء میں ایک بڑے سائز کا پوسٹر لکھ کر شائع فرمایا جس میں ’’ورتمان‘‘ کے اقتباسات درج کر کے حکومت اور پبلک دونوں کو بتایا کہ یہ وہ آگ ہے جو ملک میں بڑی سرعت کے ساتھ پھیل رہی ہے اور اگر اسے فوراً روکا نہ گیا تو یقینا وہ ایک خطرناک تباہی کا موجب بن جائے گی۔ اس پوسٹر کے شائع ہونے پر جس نے ساری تصویر کو گویا بالکل ننگا کر کے ملک کے سامنے رکھ دیا تھا شمالی ہندوستان میں خطرناک ہیجان کی صورت پیدا ہو گئی اور گورنمنٹ کو انتہائی جدوجہد کے ساتھ امن قائم رکھنا پڑا۔ اور لوگوں کے جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے حکومت نے نہ صرف ’’ درتمان‘‘ کی اس اشاعت کو ضبط کر لیا بلکہ ’’ورتمان‘‘ کے ایڈیٹر کو گرفتار کر کے اس پر مقدمہ چلایا اور قرار واقعی سزا دلائی۔
مگر حضرت خلیفۃ المسیح کا مقصد جو ایک اصولی رنگ رکھتا تھا محض ایک فرد کی سزا سے پورا نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لئے آپ نے حکومت سے اس مطالبہ کو جاری رکھا کہ قانون رائج الوقت میں کوئی ایسی دفعہ زائد ہونی چاہئے جس سے آئندہ اس قسم کی گندی اور اشتعال انگیز تحریروں کا سلسلہ قطعی طور پر بند ہو جائے۔ اس غرض کے لئے آپ ۱۹۲۷ء کے موسم گرما میں خود شملہ تشریف لے گئے اور نہ صرف ملک کے نامور لیڈروں کے ساتھ مل کر ان پر اس مسئلہ کی اہمیت کو واضح کیا بلکہ حکومت کے افسروں پر بھی زور ڈالا کہ وہ اس معاملہ میں قانون کی ضروری ترمیم کی طرف فوری توجہ دیں۔ دوسری طرف آپ نے اپنے لندن کے مبلغ مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم اے کے ذریعہ انگلستان میں بھی کوشش کر کے وہاں کے پریس میں یہ سوال اٹھا دیا کہ موجودہ قانون ناقص ہے اور اسے جلد بدلنا چاہئے اور پارلیمنٹ میں بھی بعض ممبروں کے ذریعہ سوالات کروائے گئے۔ ان ساری کوششوں کا یہ نتیجہ ہوا کہ حکومت ہند نے موجود قانون کے نقص کو محسوس کر کے تعزیراتِ ہند میں ایک نئی دفعہ ایزاد کر دی جس کی وجہ سے مذہبی پیشوائوں کی عزت کی حفاظت کا قانون پہلے سے زیادہ معین صورت اختیار کر گیا۔ یہ دفعہ اب بھی پوری طرح تسلی بخش نہیںہے مگر بہر حال وہ اس معاملہ میں اصلاح کی طرف ایک معین قدم کا رنگ رکھتی ہے جسے بعد میں زیادہ وسیع اور زیادہ پختہ کیا جا سکتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی ان مخلصانہ اور دردمندانہ کوششوں کو مسلمانوں کے سمجھدار طبقہ نے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا اور مختلف اسلامی اخباروں میں پے در پے تعریفی مضامین شائع ہوئے۔ ۱؎
مسلمانوں کی اقتصادی پابحالی کے لئے جدوجہد :۔ ۱۹۲۷ء کے بین الاقوام ہیجان میں
حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے مسلمانوں کو اس طرف بھی توجہ دلائی کہ ان کی کمزوری کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دوسری قوموں کے مقابل پر ان کی اقتصادی حالت سخت خراب ہے اور انہیں دوسروں کے سامنے دب کر اور ذلیل ہو کر رہنا پڑتا ہے پس جہاں دینی اور اخلاقی اصلاح کی ضرورت ہے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان اپنی اقتصادی اصلاح کی طرف بھی فوری توجہ دیں چنانچہ آپ نے اس اصلاح کی غرض سے ان کے سامنے بہت سی عملی تجاویز پیش کیں جن میں دو تجویزیں زیادہ نمایاں تھیں :۔
اوّل یہ کہ مسلمان تجارت کی طرف زیادہ توجہ دیں اور ہر شہر اور ہر قصبہ میں اپنی دوکانیں کھولیں اور حتی الوسع صرف مسلمان دوکانداروں سے سودا خریدا کریں۔
دوم یہ کہ جن باتوں میں ہندو لوگ مسلمانوں سے چھوت چھات کرتے ہیں اور انہیں ناپاک سمجھتے ہوئے ان کے ہاتھ کی چیز استعمال میں نہیں لاتے ان میں مسلمان بھی (مذہباً نہیں بلکہ اقتصادی اور ملی اغراض کے ماتحت) ہندوئوں کے ہاتھ کی چیز استعمال نہ کریں تا کہ ان میں بے غیرتی کا جذبہ نہ پیدا ہو اور ان کی تجارت کو بھی اس ذریعہ سے فروغ حاصل ہوجاوے۔
آپ کی اس بروقت اور پر زور تحریک نے جو صرف کاغذی نہیں تھی بلکہ عملی رنگ رکھتی تھی اور آپ نے اپنی جماعت میں اس پر عمل بھی شروع کرا دیا تھا مسلمانان پنجاب میں حیرت انگیز اثر پیدا کیا اور ایک نہایت ہی قلیل عرصہ میں مسلمانوں کی ہزاروں نئی دوکانیں کھل گئیں اور دوسری طرف اکثر مسلمانوں کے اندر یہ احساس نہ صرف پیدا ہو گیا بلکہ ایک زندہ اور پرجوش جذبہ کی صورت اختیار کر گیا کہ جب تک ہندو لوگ ان سے چھوت چھات کرتے اور انہیں ذلیل اور ناپاک سمجھتے ہیں اور ان سے اپنی ضروریات کی چیزیں نہیں خریدتے اس وقت تک مسلمانوں کو بھی ان سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ آپ نے اس بات کو واضح فرمایا کہ ہمیں ہندوئوں سے دشمنی نہیں ہے بلکہ وہ بھی ہمارے وطنی بھائی ہیں مگر مسلمانوں کی ہمدردی ہمیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ جو بات انہیں دن بدن تباہی کی طرف لے جا رہی ہے اس سے انہیں محفوظ کیا جاوہے ہاں اگر ہندو صاحبان مسلمانوں سے تعصب نہ برتیں اور انہیں اپنا وطنی بھائی سمجھیں اور ان کے ساتھ بھائیوں کی طرح مل کر رہیں اور ان کی دوکانوں سے اسی طرح فراخ دلی کے ساتھ سودا خریدیں جس طرح وہ اپنے ہم مذہبوں سے خریدتے ہیں تو پھر ہم بھی بڑی خوشی کے ساتھ ان سے بھائیوں والا سلوک کریں گے مگر یہ بات انصاف سے سراسر بعید ہے کہ ہندو تو دولتمند ہو کر بھی مسلمانوں سے سودا نہ خریدیں اور اپنے اربوں روپے میں سے ایک پیسہ تک مسلمانوں کو دینے کے روادار نہ ہوں مگر مسلمان بھوکے مرتے ہوئے بھی اپنا پیسہ ہندوئوں کے حوالہ کر دیں۔
یہ دن مسلمانوں کے لئے سخت مصائب و آلام کے دن تھے۔ ایک طرف تو وہ ہمسایہ قوموں کی دست درازیوں کے نیچے پیسے جا رہے تھے اور دوسری طرف ان کا آپس کا افتراق انہیں تباہی کی طرف دھکیل کر لئے جا رہا تھا۔ ان حالات میںکئی مسلمان لیڈر اس کوشش میں تھے کہ کوئی صورت ایسی پیدا ہو جاوے کہ مسلمانوں کا اندرونی افتراق دور ہو جاوے اور وہ ایک مشترک پلیٹ فارم پر محبت اور اتحاد کے ساتھ مل کر کام کر سکیں مگر اس اتحاد کے لئے کوئی عملی صورت نظر نہیں آتی تھی اور مذہبی عقیدوں کا اختلاف اور ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے دن بدن درمیانی خلیج کو زیادہ وسیع کرتے جا رہے تھے۔ ان حالات میں حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے اس وقتی اتحاد سے فائدہ اٹھا کر جو ان ایام میں بین الاقوام کش مکش کی وجہ سے پیدا ہو گیا تھا یہ تحریک فرمائی کہ مسلمانوں کو دوسری قوموں کے مقابل پر ایک جان ہو کر رہنا چاہئے آپ نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ مسلمانوں کے بعض فرقے بعض دوسرے فرقوں کو مذہبی رنگ میں دائرہ اسلام سے خارج بھی قرار دیتا ہے چنانچہ خود جماعت احمدیہ کے خلاف بھی کفر کا فتویٰ صادر ہو چکا ہے اور جماعت احمدیہ بھی اپنے مذہبی عقائد کی رو سے دوسرے مسلمانوں کو حقیقی اور زندہ اسلام سے منحرف اور روگردان جانتی ہے مگر ان سب باتوں کے باوجود یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ تمام مسلمانوں کے سیاسی مفاد مشترک اور متحد ہیں۔ پس خواہ مذہبی لحاظ سے عقیدہ کچھ ہی ہو مگر سیاسی لحاظ سے مسلمان ایک ہیں اور ان کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر جمع رہنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ سیاسی میدان میں اسلام کی مذہبی تعریف کا سوال نہیں ہے پس خواہ مذہباً ہمارے نزدیک اسلام کی تعریف کچھ ہو مگر سیاسی لحاظ سے ہر وہ شخص مسلمان سمجھا جائے گا جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اور جسے غیر مسلم اقوام مسلمان سمجھتی ہیں اور ایک مسلمان کے طور پر اس کے ساتھ سلوک کرتی ہیں۔ آپ نے لکھا کہ مسلمانوں کے اتحاد کا فقط یہی ایک ذریعہ ہے کہ وہ سیاسیات میں اسلام کی مذہبی تعریف کو نظر انداز کر دیں اور صرف سیاسی تعریف پر اپنے اتحاد کی بنیاد رکھیں ورنہ اگر سیاسی میدان میں اسلام کی اس تعریف پر بنیاد رکھی جائے گی جو ہر فرقہ دینی لحاظ سے صحیح قرار دیتا ہے تو مسلمانوں میں کبھی بھی اتحاد نہیں ہو سکے گا اور ان کے سیاسی اور قومی حقوق ان کے باہمی اختلاف اور افتراق کی وجہ سے دن بدن ان کے ہاتھ سے نکلتے چلے جائیں گے۔ ۱؎ یہ ایک نہایت لطیف رستہ تھا جو آپ نے مسلمانوں کو بتایا اور گو بہت سے مسلمانوں نے اس نکتہ کی قدر کی مگر افسوس ہے کہ ابھی تک بہت سے مسلمان اس نکتہ کی قدر کو نہیں پہچانتے چنانچہ پچھلے دنوں میں ہی پنجاب کی مسلم لیگ میں یہ سوال پیدا ہو گیا تھا کہ چونکہ احمدیوں کے خلاف علماء کی طرف سے کفر کا فتویٰ ہے اس لئے ہم انہیں اپنی لیگ میں شامل نہیں کر سکتے۔ سیاسیات کے میدان میں یہ ذہنیت یقینا ایک سم قاتل سے کم نہیں۔
جلسہ ہائے سیرۃ النبی کی تجویز :۔ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے اسلام اور مسلمانوں کی ہمدردی
کے لئے جو کچھ کیا وہ آپ کی اسلامی محبت اور ملی خلوص کی ایک نہایت روشن مثال ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ آپ کا دل دوسری قوموں کی خیر خواہی اور ملک کی عمومی ہمدردی کے جذبات سے خالی ہے چنانچہ آپ نے ان کارروائیوں کے معاً بعد جن کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے یعنی ۱۹۲۸ء کے اوائل میں ایک ایسا قدم اٹھایا جو نہ صرف مسلمانوں کو مسلمانوں کے ساتھ بلکہ مسلمانوں کوہندوئوں اور دوسری غیر مسلم اقوام کے ساتھ محبت اور موالات کی پختہ زنجیر میں پرونے والا تھا ۔ آپ نے ملک کی زہر آلود فضا کو دیکھتے ہوئے یہ تجویز فرمائی کہ چونکہ ہندوستان کی مختلف قوموں کے باہمی افتراق کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کے مذہبی پیشوائوں کو محبت اور عزت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا اس لئے کوئی ایسا طریق اختیار کرنا چاہئے جس سے مختلف قوموں میں ایک دوسرے کے مذہبی بزرگوں کے لئے عزت اور محبت کے جذبات پیداہو جائیں۔
اس اصول کے ماتحت آپ نے یہ تجویز فرمائی کہ ہر قوم اپنے اپنے مذہب کے بانی اور پیشوا کی سیرت و سوانح کے بیان کرنے کے لئے سال میں ایک دن منایا کرے اور اس دن نہ صرف خود اس مذہب کے پیرو بلکہ دوسرے مذاہب کے متبعین بھی ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر اس مذہب کے بانی کے پاکیزہ حالات لوگوں کو سنائیں۔ تا کہ لوگوں کے دلوں سے بدگمانی اور نفرت کے جذبات دور ہو کر ان کی جگہ حسن ظنی اور محبت کے جذبات پیدا ہو جائیں۔ آپ نے فرمایا کہ آئندہ ہم لوگ مقدس بانئے اسلام ﷺ کی سیرت اور حالات سنانے کے لئے سال میں ایک دن ملک کے ہر شہر اور ہر قصبہ میں جلسہ کیا کریں گے اور ہماری طرف سے لوگوں کو یہ عام دعوت ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی ہمارے پلیٹ فارم پر آکر ہمارے رسول کے پاکیزہ حالات پر اظہار خیال کریں تا کہ یہ آپس کی دوری کم ہو اور ایک دوسرے کے متعلق محبت اور قدر شناسی کے جذبات پیدا ہونے شروع ہو جائیں۔ چنانچہ آپ کی اس تجویز کے مطابق آنحضرت ﷺ کے متعلق اس قسم کا دن ۱۹۲۸ء سے لے کر اب تک جماعت احمدیہ کے انتظام کے ماتحت ہندوستان کے ہر شہر اور ہر قصبہ میں جہاں جہاں احمدی پائے جاتے ہیں ہر سال منایا جاتا ہے اور یہ ایک بڑی خوشی کی بات ہے کہ کئی شریف اور معزز ہندو صاحبان اور سکھ صاحبان اور عیسائی صاحبان ہمارے ان جلسوں میں شریک ہو کر آنحضرت ﷺ کی پاکیزہ سیرت اور پاک تعلیم اور نیک کارناموں کے حالات سناتے ہیں جن سے آہستہ آہستہ ملک کی فضا بہتری کی طرف مائل ہو رہی ہے۔
جیسا کہ بتایا جا چکا ہے حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے یہ بھی تجویز فرمائی تھی کہ دوسری قومیں بھی اسی طرح اپنے مذہبی پیشوائوں کے متعلق سال میں ایک دن منایا کریں تا کہ مسلمانوں کو بھی ان بزرگوں کے پاکیزہ حالات بیان کرنے کا موقعہ مل سکے مگر افسوس ہے کہ ابھی تک دوسری قوموں نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ بالآخر ۱۹۳۹ء میں آکر حضرت خلیفۃ المسیح نے یہ بوجھ بھی اپنے سر پر لے لیا اور جماعت احمدیہ کو ہدایت دی کہ جہاں وہ سال میں ایک دن آنحضرت ﷺ کی سیرت کے لئے منایا کرتے ہیں وہاں ایک دن دوسرے پیشوایانِ مذاہب کے لئے بھی منایا کریں۔ چنانچہ اسی ماہ دسمبر کے ابتداء میں تمام ہندوستان کی احمدی جماعتوں نے یہ دن بڑے اخلاص اور دھوم دھام سے منایا اور اپنے انتظام کے ماتحت جلسے کر کے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام اور حضرت کرشن علیہ السلام اور حضرت بابا نانک علیہ الرحمۃ اور دوسرے بانیان مذاہب کی تعریف میں پر اخلاص تقریریں کیں اور نعتیہ نظمیں پڑھیں۔ یقینا یہ ایک نہایت مبارک اقدام ہے جسے اگر خلوصِ قلب اور مستقل مزاجی کے ساتھ نبھایا گیا تو وہ ملک کی زہریلی فضا کو صاف کرنے میں بہت بھاری مدد دے گا اور یہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کا ہندوستان کی مختلف قوموں پر ایک ایسا عظیم الشان احسان ہے کہ وہ اس کا جس قدر بھی شکریہ ادا کریں کم ہے۔
قادیان کی ترقی اور قادیان میں ریل کی آمد :۔ ایک تاریخی تبصرہ میں ہر قسم کے مناظر
پرنظر ڈالنی پڑتی ہے اور ہم اپنے ناظرین سے معافی چاہتے ہیں کہ ہم انہیں تھوڑی دیر کے لئے ہندوستان کے وسیع منظر سے ہٹا کر قادیان کے محدود منظر کی طرف لا رہے ہیں۔ ہم یہ بتا چکے ہیں کہ جس وقت حضرت مسیح موعود ؑ نے خدا سے حکم پا کر دعویٰ فرمایا تو قادیان ایک بہت چھوٹا سا گائوں تھا جس کی آبادی دو ہزار نفوس سے زیادہ نہیں تھی اور اس کے اکثر گھر اجڑے ہوئے اور ویران نظر آتے تھے۔ اور ضروری استعمال کی معمولی معمولی چیزوں کی خرید کے لئے بھی باہر جانا پڑتا تھا۔ اسی طرح اس وقت قادیان کا قصبہ تار اور ریل وغیرہ سے بھی محروم تھا اور دنیا سے بالکل منقطع حالت میں پڑا تھا۔ مگر حضرت مسیح موعود ؑ کے دعویٰ کے بعد اس نے خدا کے فضل سے بڑی سرعت کے ساتھ ترقی شروع کر دی اور نہ صرف اس کی آبادی اور اس کی تجارت میں غیر معمولی ترقی ہوئی بلکہ ہر جہت سے اس نے حیرت انگیز رنگ میں ترقی کی حتیّٰ کہ ناظرین یہ سن کر حیران ہوں گے کہ جماعت احمدیہ کے تبلیغی اور تعلیمی اور تربیتی نظام کی وجہ سے قادیان کے پریس نے یہ حیثیت حاصل کر لی کہ وہ پنجاب بھر میں تیسرے نمبر پر آگیا۔ مگر جس بات کا ہمیں اس جگہ مخصوص طور پر ذکر کرنا ہے وہ ریل کی آمد سے تعلق رکھتی ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں قادیان کا ریلوے سٹیشن بٹالہ تھا جو قادیان سے بارہ میل مغرب کی طرف واقع ہے اور اس کے اور قادیان کے درمیان ایک کچا اور نہایت درجہ شکستہ رستہ حائل ہے۔ میں نے ’’ حائل‘‘ کا لفظ اس لئے لکھا ہے کہ یہ رستہ آمد و رفت میں ممد ہونے کی بجائے حقیقۃً اکثر نفیس مزاج لوگوں کے لئے روک کا موجب بن جاتا تھا مگر باوجود اس کے ہمیں ہرگز امید نہ تھی کہ قادیان میں اس قدر جلد ریل آجائے گی لیکن خدا نے ایسا تصرف فرمایا کہ ہماری کوشش کے بغیر اچانک یہ بات معلوم ہوئی کہ ریلوے بورڈ نے بٹالہ اور بیاس کے درمیان ایک برانچ لائن کا فیصلہ کیا ہے۔ چنانچہ ۱۹۲۸ء میں یہ لائن بٹالہ کی طرف سے شروع ہو کر قادیان تک پہنچ گئی مگر جونہی کہ قادیان تک کے حصہ کی تعمیر مکمل ہوئی محکمہ ریلوے نے بعض مشکلات کی وجہ سے اپنا ارادہ بدل لیا اور اگلے حصہ کی تعمیر رک گئی ۔ اس طرح قادیان کا دور اُفتادہ قصبہ ہماری توقع کے سراسر خلاف اچانک پنجاب کے ریلوے سسٹم کے ساتھ پیوند ہو گیا۔ اس سے پہلے ۱۹۲۶ء میں قادیان میں تار کا سلسلہ بھی جاری ہو چکا تھا اور اس کے بعد ۱۹۳۵ء میں بجلی آگئی اور پھر ۱۹۳۷ء میں اچانک ٹیلیفون بھی پہنچ گیا۔سو خلافتِ ثانیہ کے ان چند سالوں کے اندر اندر خدا نے سلسلہ احمدیہ کے مرکز کو دنیا کی تمام جدید آسائشوں سے آراستہ فرما دیا۔ دنیا خواہ کچھ کہے لیکن ہم اسے یقینا خدا کی ایک بخشش خیال کرتے ہیں جو ہمارے تبلیغی اور تربیتی اور تنظیمی کام کو آسان کرنے کے لئے خدا نے ہم پر کی ہے اور ہماری دعا ہے کہ خدا ہمیں ان ترقیات سے خدمت دین کی راہ میں پورا پورا فائدہ اٹھانے کی توفیق دے۔ آمین۔
اس جگہ یہ ذکر بھی بے موقعہ نہ ہو گا کہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کے عہد میں قادیان کی آبادی اپنی پرانی حدود سے نکل کر دور دراز فاصلہ تک پھیل گئی ہے اور بہت سے نئے محلے آباد ہو گئے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کو اس نئی آبادی میں حفظان صحت کے اصول کا خاص خیال ہے چنانچہ آپ نے حال ہی میں یہ حکم دیا ہے کہ قادیان کی نئی آبادی کی کوئی گلی کسی صورت میں بیس فٹ سے کم نہ ہو اور سڑکیں پچاس فٹ بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوں اور ایک نیا محلہ دارالانوار جو آپ کی خاص نگرانی میں ۱۹۳۲ء سے آباد ہو رہاہے۔ اس کی سڑک ۷۵ فٹ رکھی گئی ہے اور اس کی کوئی گلی تیس فٹ سے کم نہیں۔ یہ صرف موجودہ حالات کی مجبوریوں کی وجہ سے ہے ورنہ آپ کا خیال ہے کہ راستہ جات اس سے بھی زیادہ فراخ ہونے چاہئیں۔ اسی طرح آپ کی یہ ہدایت ہے کہ ہر محلہ میں کوئی نہ کوئی بڑا چوک بھی چھوڑا جاوے۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی قابل نوٹ ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے خدا سے علم پا کر قادیان کی ترقی کے متعلق یہ پیشگوئی فرمائی ہوئی ہے کہ وہ ایک بہت عظیم الشان شہر بن جائے گا اور اس کی آبادی بیاس دریا کے کناروں تک جو اس وقت قادیان سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے پھیل جائے گی اور اللہ تعالیٰ اسے ہر رنگ میں ترقی دے گا اور اس کی ترقی کے زمانہ میں اس کی رونق قابل دید ہو گی۔
۱۹۲۸ء سے لے کر ۱۹۳۰ء تک کے سال ہندوستان کی تاریخ میں اس لحاظ سے
خصوصیت رکھتے ہیں کہ ان سالوں میں حکومت برطانیہ نے ہندوستان کے سیاسی آئین کی اصلاح کے لئے شروع شروع میں ایک کمیشن بٹھایا اور پھر انگلستان میں ایک گول میز کانفرنس کا انعقاد کر کے اس کے مشورہ میں ہندوستانیوں کو شریک ہونے کی دعوت دی۔ یہ ایام نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ ہندوستان کی ساری اقوام کے لئے نہایت نازک ایام تھے کیونکہ اس میں ہندوستان کے آئندہ نظام حکومت اور مختلف قوموں کے باہمی حقوق کا فیصلہ ہونا تھا گویا اس وقت ایک مثلث نوعیت کا مسئلہ ملک کے سامنے تھا یعنی ایک سوال یہ تھا کہ ہندوستان برطانیہ سے کیا حاصل کرے؟ اور دوسرا سوال یہ تھا کہ ہندوستان اور دوسری ہندوستانی قوموں کے باہمی حقوق کس اصول کے ماتحت تصفیہ پائیں اور تیسرا سوال یہ تھا کہ نئے آئین میں ہندوستانی ریاستوں کی کیا پوزیشن ہو۔ گویا ایک طرف انگریز کے مقابل پر ہندوستانی تھا اور دوسری طرف ہندوئوں کے مقابل پر مسلمان اور سکھ اور عیسائی اور اچھوت وغیرہ اقوام تھیں اور تیسری طرف برطانوی ہندوستان کے مقابل پر ریاستی ہندوستان تھا اور ان سب عناصر کے ملنے سے یہ مسئلہ ایک نہایت پیچدار صورت اختیار کر گیا تھا۔ سو حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے اس موقعہ پر بھی اپنے قدیم طریق کے مطابق نہ صرف حکومت اور ملک کو بلکہ مسلمانوں کو بھی نہایت قیمتی مشورہ پیش کیا اور اس عرصہ میں دو تین کتب تصنیف کر کے اس سوال کے سارے پہلوئوں پر نہایت لطیف بحث فرمائی۔
مختصر طور پر حکومت کو آپ کا مشورہ یہ تھا کہ اپنی نیت کو صاف رکھو اور اس بات کو دل سے تسلیم کر لو کہ ہندوستان کو پوری پوری آزادی کا حق ہے اور اس کے بعد اسے واقعی پورا پورا حق دے دو اور صرف اتنے حصہ کو محفوظ رکھو (اپنے لئے نہیں بلکہ ایک امین کی حیثیت میں) جو ہندوستان کے خاص حالات کے ماتحت خود ہندوستانیوں ہی کے مفاد میں ضروری ہو۔ اور ملک کو آپ نے یہ مشورہ دیا کہ اس بات کو مدنظر رکھو کہ خواہ کسی وجہ سے سہی مگر بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ انگریز ایک لمبے عرصہ سے ہندوستان پر حاکم ہیں اور ان کے اختلاط سے ہندوستان کو اور ہندوستانیوں کو کئی لحاظ سے واقعی بہت فائدہ پہنچا ہے اور کئی جہت سے آپس میں اتحاد واشتراک کی روایات قائم اور پختہ ہو چکی ہیں۔ پس بے شک اپنے حقوق لو اور پورے پورے حقوق لو مگر جہاں تک اپنے حقوق کی روح کو قربان کرنے کے بغیر انگریزوں کے ساتھ اتحاد اور اشتراک قائم رکھ سکتے ہو اسے قائم رکھو کیونکہ یہ اتحاد آگے چل کر ہر دو فریق کے لئے کئی لحاظ سے مفید ہو سکتا ہے ۔آپ نے لکھا ہے کہ برطانوی ایمپائر کا نظام ایک ایسا نظام ہے کہ اس کے اندر مختلف آزاد ممالک اپنی پوری پوری آزادی کو قائم رکھتے ہوئے بھی اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ پس آزادی بھی لو اور اس اتحاد سے فائدہ بھی اٹھائو۔ تیسری طرف آپ نے ہندوئوں کو یہ مشورہ دیا کہ ملک میں آپ لوگوں کی کثرت ہے اور آپ کو دولت اور رسوخ بھی حاصل ہے اور تعلیم میں بھی آپ آگے ہیں اور تمام دوسری قومیں جو تعداد میں آپ سے کم ہیں وہ لازماً آپ سے کمزور اور آپ سے پیچھے اور کئی باتوں میں آپ کی دست نگر ہیں۔ پس ان کے ساتھ ایک بڑے بھائی کا سا سلوک کرو اور ان کے لئے ایک ایسا ماحول پیدا کر دو جو ان کی تسلی اور ہمت افزائی کا باعث ہو اور اگر ممکن ہو تو ان کو ان کے حق سے بھی زیادہ دے دو کیونکہ آپ لوگ دوسروں کو دے کر پھر بھی آگے ہی رہتے ہیں اور دوسرے لوگ آپ سے لے کر پھر بھی پیچھے ہی رہتے ہیں۔ اسی ضمن میں آپ نے ہندوئوں کو یہ بھی نصیحت فرمائی کہ اگر مسلمانوں کو یا ملک کی دوسری چھوٹی قوموں کو اپنی قلت یا کمزوری یا غربت کی وجہ سے یہ احساس ہے کہ بعض باتوں میں ان کے جداگانہ حقوق علیحدہ صورت میں محفوظ رہنے چاہئیں۔ تو اس وقت ان کے اس مطالبہ کو فراخدلی کے ساتھ قبول کر لو تا کہ ان کے دل ہمت پکڑیں اور وہ اس نئے دور میں دل جمعی کے ساتھ داخل ہوں۔ پھر جب اس کے بعد آہستہ آہستہ آپ لوگوں کے حسن سلوک کی وجہ سے انہیں تسلی ہو جائے گی تو وہ خود بخود اشتراکی نظام کی خوبیاں دیکھ کر اس کی طرف آتے جائیں گے اور آپ کا رستہ آسان ہو جائے گا اور مسلمانوں سے آپ نے یہ فرمایا کہ آپ لوگ ملک میں تھوڑے ہیں اور بہر حال آپ نے ہندوئوں کے ساتھ مل کر رہنا ہے اس لئے ان کے ساتھ بہتر تفاہم کی پالیسی کو مدنظر رکھو اور بلا وجہ بگاڑ کی صورت نہ پیدا کرو ۔ مگر ساتھ ہی آپ نے انہیں نصیحت فرمائی کہ جن صوبوں میں خدا نے آپ لوگوں کو اکثریت دے رکھی ہے ان میں اکثریت کو کسی صورت میں بھی قربان نہ ہونے دو یعنی ایسا نہ ہو کہ آپ لوگ اقلیت والے صوبوں میں اپنے حق سے کسی قدر زیادہ لینے کی خاطر اکثریت والے صوبوں میں اپنی اکثریت کو خطرہ میں ڈال دیں کیونکہ موجودہ حالات میں ایسا قدم آپ لوگوں کو ملک میں بالکل بے دست و پا کر دے گا۔ اور والیان ریاست کو آپ نے یہ نصیحت فرمائی کہ خواہ برطانوی حکومت کے ساتھ آپ کے ہزار معاہدے ہوں یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ آپ کی ریاستیں ہندوستان کا حصہ ہیں اور ہندوستان کی ترقی یا تنزل میں ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتا پس آپ صاحبان ہندوستان کے آئینی نظام سے بالکل علیحدہ رہنے کا خیال ترک کر دیں اور بے شک اپنے حقوق کی واجبی حفاظت کے لئے کوشش کریں مگر ہندوستان کے آئینی نظام میں شامل ہو کر نہ کہ اس سے علیحدہ رہ کر۔ اور آپ نے یہ تجویز فرمائی کہ ریاستوں کی شمولیت کے لئے ہندوستان کی فیڈریشن کے اوپر ایک کانفڈریشن قائم کی جاوے تا کہ ریاستیں اپنے جداگانہ نظام کو قائم رکھتے ہوئے برطانوی ہند کے ساتھ پیوند کی جا سکیں۔
غرض آپ نے ان کتب میں جن میں سے خاص طور پر ’’ ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل‘‘ ۱؎ زیادہ مفصل اور زیادہ مبسوط ہے ہندوستان کے تمام عناصر۔ حکومت ۔ ہندو۔ مسلمان۔ دیگر اقوام اور ریاست ہائے کو تفصیلی مشورہ پیش کیا اور سابقہ نظام کی خوبیوں اور نقائص کے ساتھ مقابلہ کر کے دکھایا کہ ہندوستان کے مستقبل کے لئے کونسا طریق زیادہ بہتر اور زیادہ مفید ہے اور آپ نے اپنی اس کتاب کو صرف ہندوستان میں ہی شائع نہیں فرمایا بلکہ اس کی بہت سی کاپیاں خاص انتظام کے ماتحت ولایت بھجوا کر وہاں کے ارباب حل و عقد تک بھی اپنا مشورہ پہنچا دیا مگر افسوس ہے کہ ہم اس مختصر گنجائش میں اس نہایت درجہ مفید اور قیمتی مشورہ کی تفصیلات میں نہیں جا سکتے البتہ بعض آراء کا خلاصہ درج ذیل کرتے ہیں۔
سرمیلکام (بعدہٗ لارڈ) ہیلی گورنر یوپی نے کتاب ’’ ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل ‘‘ کے متعلق اپنے ایک خط میں لکھا :۔
’’ جماعت احمدیہ سے میرے پرانے تعلقات ہیں اور میں ان حالات سے خوب واقف ہوں اور اس روح کو خوب سمجھتا ہوں اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جسے لے کر یہ جماعت ہندوستان کے اہم مسائل کے حل کے لئے کام کر رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب میرے لئے مفید ہو گی۔ ‘‘ ۲؎
سر عبداللہ ہارون ایم ایل اے نے لکھا :۔
’’ میری رائے میں سیاسیات کے باب میں جس قدر کتابیں ہندوستان میں لکھی گئی ہیں ان میں کتاب ’’ ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل ‘‘ بہترین تصانیف میں سے ہے۔ ‘‘ ۱؎
ڈاکٹر سر محمد اقبال نے لکھا :۔
’’ چند مقامات کا میں نے مطالعہ کیا ہے۔ نہایت عمدہ اور جامع ہے۔ ‘‘ ۲؎
اخبار انقلاب لاہور نے لکھا :۔
’’ جناب مرزا صاحب نے اس تبصرہ کے ذریعہ سے مسلمانوں کی بہت بڑی خدمت سر انجام دی ہے۔ یہ بڑی بڑی اسلامی جماعتوں کا کام تھا جو مرزا صاحب نے انجام دیا۔ ‘‘ ۳؎
اب ہم تاریخ سلسلہ احمدیہ کے اس حصہ میں داخل ہو رہے ہیں جس میںجماعت احمدیہ دوسرے مسلمانوں کے قریب ترین پہنچ گئی۔ اپنے عقائد اور اپنی خصوصیات کو چھوڑ کر نہیں۔ بلکہ اپنی بے لوث خدمات اور اپنے کارناموں کی وجہ سے مسلمانوں کے دل میں جگہ پا کر۔ لیکن یہی قرب دوری کا باعث بن گیا اور یہی ہر دلعزیزی نفرت پیدا کرنے کا موجب ہو گئی۔ تحریک کشمیر جس کا ہم اب ذکر کرنے لگے ہیں اور جو ۱۹۳۱ء اور ۱۹۳۲ء کے سالوں میں اپنے پورے عروج میں تھی سلسلہ احمدیہ کے لئے ایک انقلابی رنگ رکھتی ہے۔ یعنی کئی سال کی مسلسل اور بے نظیر خدمات کی وجہ سے جماعت احمدیہ آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ مسلمانوں کے خیالات میں اوپر اٹھتی چلی جا رہی تھی اور باوجودعقائد کے بھاری اختلاف کے مسلمانوں کا سوادِ اعظم قدم بقدم جماعت احمدیہ کے قریب تر ہو رہا تھا اور یوں نظر آتا تھا کہ اگر درمیانی خلیج میں تھوڑی سی بھی اور کمی آگئی تو یہ عظیم الشان روحانی مقناطیس مسلمانان ہند کو ایک فوری جنبش کے ساتھ کھینچ کر اپنے اندر جذب کر لے گا۔ اس عجیب و غریب نظارہ کو جہاں خدا کے فرشتے آسمان پر غور کی نظر کے ساتھ دیکھ رہے تھے وہاں زمین کے مبصر بھی یعنی مسلمانوں کے دنیوی لیڈر آنے والے انقلاب کے قرب سے چونک کر اپنی آنکھیں مل رہے تھے اور اس احساس کے ساتھ آہستہ آہستہ بیدار ہو رہے تھے کہ کوئی مخفی طاقت ان کے گروہ کو سرعت کے ساتھ اپنی طرف کھینچے لئے جا رہی ہے۔ اچانک زمینی اور آسمانی طاقتوں نے ایک فوری جنبش کی اور ایک خطرناک زلزلہ کے رنگ میں جماعت احمدیہ اور مسلمانوں کے درمیان کی خلیج کو جو بہت چھوٹی رہ گئی تھی تہ و بالا کر کے وسیع کر دیا۔ اتنا وسیع کہ اس سے پہلے وہ کبھی اتنی وسیع نہیں ہوئی تھی۔ آسمانی طاقتوں نے تو یہ کہا کہ بے شک یہ اتصال مقدر ہے اور ایک دن ہو کر رہے گا مگر ابھی اس کا وقت نہیں آیا اور وقت سے پہلے کی تبدیلی اپنے اندر کئی قسم کے خطرات رکھتی ہے اور پوری پختگی سے پہلے پھل کا توڑنا درست نہیں۔ اور زمین کی طاقتوں نے یہ کہا کہ اگر یہ چھوٹا سا خود رو پودا ابھی سے بڑے بڑے بلند درختوں پر اپنا سایہ ڈالنے لگ گیا تو نہ معلوم آگے چل کر کیا ہو گا پس قبل اس کے کہ وہ زیادہ طاقت پائے اسے مٹانے کا انتظام ضروری ہے۔ پس گو آسمان اور زمین کے ارادے مختلف تھے مگر ان کا فعل ایک ہی تھا اور ان دونوں طاقتوں کی متحدہ جنبش نے مسلمانوں اور احمدیوں کو اٹھا کر ایک دوسرے سے پرے پھینک دیا۔
یہ عظیم الشان انقلاب تحریک کشمیر کے زمانہ میں ہوا جس کا مختصر مگر عجیب و غریب قصہ ہم اس وقت بیان کرنے لگے ہیں۔ اس تحریک کے دوران میں جماعت احمدیہ مسلمانوں سے قریب ترین جگہ پر پہنچ گئی ایسی کہ اس سے زیادہ قریب وہ کبھی نہیں پہنچی تھی۔ اور اس تحریک کے اختتام پراس مخفی حرکت کا آغاز ہوا جس سے وہ مسلمانوں سے دور ترین جگہ پرچلی گئی ایسی کہ اس سے زیادہ دور وہ کبھی نہیں گئی تھی ۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے گو ہماری مختصر گنجائش کے لحاظ سے یہ تفصیل بھی اجمال ہی کا رنگ رکھے گی۔ کہ ریاست کشمیر جو پنجاب کے شمال میں ایک بہت بڑی ریاست ہے اور جو اپنے رقبہ کے لحاظ سے ہندوستان کی سب ریاستوں میں بڑی ہے اس میں ۱۹۳۱ء کے قریب آکر ایک تبدیلی کے آثار پیدا ہوئے۔ اس ریاست کی آبادی میں مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت پائی جاتی ہے۔ یعنی خالص کشمیر کے حصہ میں تو نوے فیصدی کے قریب مسلمان ہیں اور جموں اور دوسرے علاقوں کو ملا کر بھی مسلمانوں کی آبادی کم و بیش ستر فی صدی ہے۔ مگر چونکہ یہ ریاست ایک عرصہ سے ہندو فرمانروائوں کے قبضہ میں چلی آئی ہے اور استبدادی حکومت کا غلبہ رہا ہے اس لئے اس کی مسلمان آبادی بہت دبی ہوئی حالت میں رہی ہے حتیّٰ کہ خالص کشمیر کے حصہ میں تو ان کی حالت قریباً قریباً غلاموں کے برابر تھی۔ نہ صرف یہ کہ حکومت کے معاملات میں مسلمانوں کی آواز کا کوئی دخل نہیں تھا بلکہ ہر رنگ میں مسلمان غیروں کی ایڑی کے نیچے پیسے جا رہے تھے۔ ملازمتوں میں ان کا حصہ قریباً نہ ہونے کے برابر تھا۔ زمینوں پر انہیں حقوق مالکانہ تک حاصل نہ تھے۔ اور زمینوں کی فصل پر بھی ریاست کا قبضہ ہو جاتا تھا جو اپنی مرضی کے مطابق جو قیمت چاہتی تھی زمینداروں کو ادا کرتی تھی۔ زمینوں کا گھاس ریاست کی ملکیت تھا جس پر انہیں بغیر ٹیکس کے جانور تک چرانے کی اجازت نہیں تھی۔ بیگار اس حد تک تھی کہ چھوٹے سے چھوٹا افسر جب جی چاہے مسلمان آبادی کو جنگل کے جانوروں کی طرح پکڑ کر اپنے کام پر لگا لیتا تھا۔ تعلیم میں مسلمان از حد پیچھے تھے اور پریس کا تو وجود ہی مفقود تھا کیونکہ عملاً کسی اخبار یا رسالہ کے شائع کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس قسم کے حالات میں رہتے ہوئے کشمیری مسلمانوں کے اخلاق بالکل پست ہو گئے تھے اور ان کی حیثیت غلاموں سے بڑھ کر نہیں تھی ۔ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کئی دفعہ کشمیر گئے اور ان حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ہر دفعہ ایک درد مند دل کے ساتھ پیچ و تاب کھا کر خاموش ہو جاتے رہے کیونکہ کشمیریوں کے جسم اور ان کی روحیں اس حد تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھیں کہ بظاہر حالات کوئی خلاصی کا رستہ نظر نہیں آتا تھا۔
لیکن بالآخر خدا نے ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ ان سیاہ بادلوں کی تاریک گھٹائوں میں روشنی کی چمک نظر آنے لگی۔ یہ اس طرح ہوا کہ ایک انصاف پسند انسان جو کشمیر میں وزیر اعظم رہ چکا تھا وہ جب اپنے عہدہ کے فرائض سے سبکدوش ہو کر واپس آیا تو اس نے بعض اخبارات میں اس قسم کے مضامین لکھے کہ کشمیر کے لوگوں کی حالت نہایت گری ہوئی اور از حد قابل رحم ہے۔ اور اس نے بعض مثالیں دے دے کر اہل کشمیر کی مظلومانہ تصویر کو منقش کیا۔ اس پر کشمیر کے بعض پڑھے لکھے لوگوں میں چہ میگوئی شروع ہوئی اور وہ آپس میں کہنے لگے کہ اس غلامی سے نجات پانے کا کوئی رستہ تلاش کرنا چاہئے۔ اس قسم کے حالات میں حکومت کشمیر کے بعض جلد باز افسروں نے اہل کشمیر کے ایک جلسہ میں گولی چلا دی۔ اس واقعہ کے نتیجہ میں شمالی ہندوستان میں بہت شور اٹھا کہ اس ظلم کا دروازہ بند ہونا چاہئے۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح کو ایک موقعہ ہاتھ آگیا اور آپ نے متفرق مسلمان لیڈروں کے نام تاریں بھجوائیں کہ ہمیں اس بارے میں کشمیریوں کی امداد کے لئے کچھ اقدام کرنا چاہئے۔ ان لیڈروں میں ہندوستان کے مشہور شاعر اور فلسفی ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب اور دہلی کے نامور انشا پرداز اور سجادہ نشین خواجہ حسن نظامی صاحب اور بعض دوسرے مسلمان لیڈر شامل تھے۔ چنانچہ تجویز ہوئی کہ شملہ میں ایک میٹنگ کر کے غور کیا جائے کہ کیا کرنا مناسب ہو گا اور اس میٹنگ کے لئے ۲۵؍ اگست ۱۹۳۱ء کی تاریخ مقرر ہوئی۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح شملہ میں پہنچے اور مجوزہ میٹنگ ہوئی تو آپ نے مسلمان لیڈروں کو بہت ہی پژمردہ اور مایوس پایا اور اکثر لوگوں کی زبان سے یہی فقرہ سنا کہ حالات بہت خراب ہیں اور کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔ حضرت خلیفۃ المسیح کے زور دینے پر کہ بہر حال کچھ کرنا چاہئے ان اصحاب نے اپنے گلے سے بوجھ اتارنے کے لئے کہہ دیا کہ اچھا اگر آپ کو کچھ امید ہے تو ایک کمیٹی بنا دی جائے اور آپ اس کے صدر بن جائیں اور پھر اس معاملہ میں جو کچھ ہو سکتا ہو وہ کیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ میرا صدر بننا مناسب نہیں کیونکہ یہ عام اسلامی سوال ہے اور میرے آگے آنے سے خواہ نخواہ بعض حلقوں میں فرقہ وارانہ سوال پیدا ہو جائے گا اور کام کو نقصان پہنچے گا اس لئے کوئی اور صاحب صدر بنیں اور میں ان کی قیادت میں کام کرنے کے لئے تیار ہوں۔ مگر چونکہ مسلمان لیڈر بالکل مایوس ہو رہے تھے ان میں سے ہر شخص نے صدر بننے سے انکار کیا اور ایک آل انڈیا کشمیر کمیٹی تجویز کر کے حضرت خلیفۃ المسیح کو اس کا صدر بنا دیا گیا۔ اس کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب۔ خواجہ حسن نظامی صاحب۔ خان بہادر شیخ رحیم بخش صاحب پنشنر سشن جج۔ ملک برکت علی صاحب ایڈووکیٹ ایڈیٹرصاحب انقلاب اور بعض دوسرے اصحاب قرار پائے اور سیکرٹر مولوی عبدالرحیم صاحب درد سابق مبلغ لندن مقرر کئے گئے اور کام شروع ہو گیا۔
چونکہ حضرت خلیفۃ المسیح سے خدا تعالیٰ نے اسیروں کی رستگاری کا کام لینا تھا اس لئے آپ کی طرف سے کام میں ہاتھ پڑتے ہی دن بدن حیرت انگیز تغیرات ہونے لگے اور خدا نے آپ کو ہر قدم پر ایسی معجزانہ کامیابی عطا فرمائی کہ چند ماہ کے قلیل عرصہ میں گویا ریاست کی کنجی آپ کے ہاتھ میں تھی۔ کشمیر کے دبے ہوئے لوگ جو ایک مردہ کی طرح قبروں میں پڑے تھے صورِ اسرافیل کے پھونکے جانے کی طرح سے قبروں سے کود کر باہر نکل آئے اور اس وسیع ریاست کے ایک کنارے سے لے کر دوسرے کنارے تک زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ یقینا یہ کام فرشتوں کی مخفی فوج نے حضرت خلیفۃ المسیح کو برومند کرنے کے لئے کیا مگر اس کے ظاہری اسباب میں اس بات کا بھی بہت بھاری دخل تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے ان ایام میں دن رات ایک کر کے زمین اور آسمان کی طاقتوں کو جگا دیا۔ آپ نے چند ہوشیار اور قابل آدمیوں کو منتخب کر کے جن میں مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور مولوی محمداسمٰعیل صاحب غزنوی زیادہ نمایاں تھے کشمیر بھجوایا جنہوں نے ایک طرف تو حضرت خلیفۃ المسیح کی ہدایات کے ماتحت کشمیر کے بعض جوشیلے نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملایا اور دوسری طرف ریاست کے ارباب حل و عقد پر بھی دبائو ڈالنا شروع کیا اور ریاست کے اندر پے در پے جلسے کر کے اور جتھے اور پارٹیاں بنا کر ریاست میں ایک آگ لگا دی۔ دوسری طرف حضرت خلیفۃ المسیح نے اپنے نمائندوں کے ذریعہ نہ صرف حکومت ہند پر اثر ڈالنا شروع کیا بلکہ ولایت کے سرکردہ اصحاب میں بھی حرکت پیدا کر دی اور اخباروں کے پراپیگنڈا کا تو کہنا ہی کیا ہے۔ وہ ان دنوں میں اس طرح گونج رہے تھے جس طرح پہاڑوں کے اندر ایک بھاری ہجوم کا نعرہ گونجتا ہے۔
ان ایام میں حالات نے اس قدر جلدی جلدی پلٹا کھایا کہ جیسے ایک تیز رو فلم کی تصویریں سینما کے پردے پر دوڑتی ہیں اور خود حضرت خلیفۃ المسیح کا یہ حال تھا اور یہ میں اپنا ذاتی مشاہدہ بیان کرتا ہوں کیونکہ میں اکثر موقعوں پر آپ کے ساتھ رہا کہ آپ اس عرصہ میں گویا ہر وقت پادر رکاب تھے۔ آج یہاں ہیںتو کل لاہور او رپرسوں دلی اور اترسوں وزیر آباد اور اگلے دن سیالکوٹ اور پھر راولپنڈی اور پھر ایبٹ آباد اور پھر اس سے پرے کشمیر کی سرحد پر اور پھر کہیں اور۔ غرض ایک مسلسل حرکت تھی جس میں مختلف لوگوں سے ملنا۔ کشمیر سے آنے والے لیڈروں کی رپورٹ سننا اور ہدایات دینا۔ کشمیر کمیٹی کے جلسے کروانا۔ پریس میں رپورٹیں بھجوانا۔ ریاست اور گورنمنٹ کے افسروں سے ملاقات کرنا کرانا وغیرہ ہر قسم کا کام شامل تھا۔ اس عرصہ میں آپ نے روپیہ بھی بے دریغ خرچ کیا ۔ صرف وہی نہیں جو کشمیر کمیٹی کے نام چندہ کے طور پر آتا تھا کیونکہ وہ بہت قلیل تھا۔ بلکہ خود اپنے پاس سے اور اپنی جماعت سے لے کر آپ کی اس والہانہ جدوجہد کا ریاست کے حکام پر اس قدر رعب تھا کہ ایک دفعہ ریاست کے ایک وزیر نے حضرت خلیفۃ المسیح کے ایک نمائندہ کے سامنے لجاجت کے ساتھ کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس وقت سب کنجی آپ کے ہاتھ میں ہے ۔ مگر خدا کے لئے اب اس معاملہ کو زیادہ طول نہ دو اور اس وقت کے مناسب حال جو حق لینا چاہتے ہو لے لو مگر ہمارا پیچھا چھوڑو اور دنیا میں ہمیں بدنام نہ کرو۔ ریاست کے مسلمان لیڈروں کا بھی یہ حال تھا کہ جب بعض پنجاب کے احرار لیڈر احمدیت کا سوال اٹھا کر کشمیر میں پہنچے اور لوگوں کو حضرت خلیفۃ المسیح اور ان کے نمائندوں کی طرف سے بہکانا چاہا تو انہوںنے ان احراری لیڈروں کو جو انہی کے ہم مذہب وہم عقیدہ تھے دھتکار کر جواب دے دیا اور کہا کہ جو لوگ ہماری اس قدر بے لوث خدمت کر رہے ہیں تم ہمیں ان کی طرف سے بدگمان کرنے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ان ایام میں گو نام کشمیر کمیٹی کا تھا مگر پنجاب کا ہر اخبار اور منبر و محراب حضرت خلیفۃ المسیح صدر کمیٹی کے کام سے گونج رہا تھا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ ایک نہایت قلیل عرصہ کی جنگ کے بعد ۔ ہاں اتنا قلیل عرصہ جو قوموں کی زندگی میں ایک سانس کی بھی حیثیت نہیں رکھتا۔ نہ صرف ریاست نے بلکہ ایک طرح سے حکومت انگریزی نے بھی ہتھیار ڈال دئیے اور کشمیر کا صدیوں کا غلام آنکھیں کھول کر آزادی کی ہوا کھانے لگا۔ اہل کشمیر کو اسمبلی ملی۔ حکومت میں حصہ ملا۔ پریس کی آزادی ملی۔ مسلمانوں کو ملازمتوں میں برابر کے حقوق ملے۔ فصلوں پر قبضہ ملا اور تعلیم میں سہولتیں ملیں اور جو بات نہیں ملی اس کے ملنے کے لئے رستہ کھل گیا۔ اہل کشمیر نے اپنے پبلک جلسوں میں امام جماعت احمدیہ زندہ باد اور صدر کشمیر کمیٹی زندہ باد کے فلک بوس نعرے لگائے اور اپنی عقیدت اور شکرگزاری کے پھول آپ کے قدموں پر لاکر رکھے۔ اس وقت آپ کشمیر اور پنجاب کے تسلیم شدہ ہیرو تھے اور دنیا کی نظریں خیرہ ہو کر آپ کی طرف اٹھ رہی تھیں کہ اس شخص نے اس قدر قلیل عرصہ میں اور ایسے مخالف حالات کے ہوتے ہوئے کیا کایا پلٹ دی ہے مگر یہی وہ وقت تھا کہ جب اندر ہی اندر وہ زمینی اور آسمانی طاقتیں حرکت میں آرہی تھیں جن کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے لیکن اس کے ذکر کا موقع آگے آتا ہے۔
جب کشمیر اور پنجاب میں آپ کا نام شہرت کے آسمان پر ستارہ بن کر چمک رہا تھا تو اس وقت مسلمانوں کی احرار پارٹی اس پیچ و تاب میں پڑی ہوئی تھی کہ خود انہی کے ہم عقیدہ لوگ ان کو چھوڑ کر نعوذ باللہ ایک بدعتی فرقہ کے امام کے قدموں پر گر رہے ہیں اور جب ان کے لیڈر کشمیر سے ذلیل ہو کر واپس آئے اور اہل کشمیر نے ان کو حضرت خلیفۃ المسیح کے نمائندوں کے مقابلہ پر دھتکار دیا تو وہ وہاں سے اس تہیہ کے ساتھ نکلے کہ اب خاک بدہنش احمدیت کو مٹا کر چھوڑیں گے۔ یہ اس فتنہ کی ابتدا ہے جو بعد میں احرار ہند نے جماعت احمدیہ کے خلاف برپا کیا مگر ان کا فوری اقدام یہ تھا کہ کشمیر کے کام میں لوگوں کی توجہ کو حضرت خلیفۃ المسیح کی طرف سے ہٹا کر دوسری طرف لگا دیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے عین اس وقت جبکہ ریاست کشمیر حضرت خلیفۃ المسیح کے سامنے پس پردہ اپنے ہتھیار ڈال رہی تھی مسلمانانِ پنجاب میں اس بات کا چرچا کیا کہ ہمیں کشمیر میں جتھے لے جانے چاہئیں۔ اس پر بعض سمجھدار لیڈروں نے انہیں روکا اور سمجھایا کہ یہ وقت جتھوں کا نہیں اور جنگ اپنے مبارک اختتام کو پہنچ رہی ہے پس بنے بنائے کام کو بگاڑنا اور پیچیدگیاں پیدا کرنا مناسب نہیں۔ مگر ان لوگوں کی نیت کچھ اور تھی۔ انہوں نے ایک نہیں سنی اور جتھوں کی تجویز کا اعلان کر کے مسلمانوں کے نا سمجھ طبقے کو جو حضرت خلیفۃ المسیح کے پراپیگنڈے کی وجہ سے پہلے سے قوتِ عمل سے لبریز ہو چکا تھا حرکت میں لے آئے اور جب یہ رو ایک دفعہ حرکت میں آگئی تو چونکہ اس قسم کی باتوں میں عامیانہ دماغ خاص تسلی اور خوشی پاتا ہے تو اس رو نے ایسا زور پکڑا کہ ہزارہا مسلمان جتھوں میں شریک ہو کرجیل خانوں کے مہمان بن گئے اور اس طوفان بے تمیزی میں حکومت ہند کی ہمدردی بھی پلٹا کھا کر پھر ایک حد تک ریاست کے حق میں ہو گئی۔ اس کے بعد اہل کشمیر کو حقوق تو بے شک ملے مگر اس قدر نہیں جو اس جتھہ بازی سے پہلے ملتے نظر آتے تھے اور اندرونی باتوں کا علم رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ جتھوں نے فی الجملہ مسلمانوں کے حقوق کو سخت نقصان پہنچایا۔ مگر بہر حال احرار لیڈروں نے اپنی ضد پوری کر لی اور تحریک کشمیر کو آڑ بنا کر احمدیت کے مقابل پر میدانِ کارزار میں اتر آئے۔
انہی دنوں میں ایک مشہور احرار لیڈر چوہدری افضل حق صاحب نے آنریبل سرسکندر حیات خان صاحب موجودہ وزیر اعظم پنجاب کی کوٹھی میں بیٹھے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح کے منہ پر کہا کہ ہم نے اب یہ قطعی طور پر فیصلہ کر لیا ہے کہ احمدیت کے ساتھ ایک تباہ کن جنگ لڑ کر چھوڑیں گے۔ لڑو خوب لڑو۔ شوق سے لڑو۔ یہ جنگ نئی نہیں بلکہ بہت پرانی ہے جو لڑنے والے آدم سے لے کر سرورِ کائنات تک لڑتے آئے ہیں۔ پس لڑو اور اپنے سارے جتھے اور سارے ہتھیاروں کے ساتھ لڑو۔ مگر یاد رکھو کہ اس جنگ میں وہی جیتے گا جس کے ہاتھ پر ازل سے فتح مقدر ہے۔ کیونکہ خدا کا وعدہ ہے کہ :۔
کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلِبٍ یَّنْقَلِبُوْن
خدا نے یہ بات لکھ رکھی ہے کہ ہر روحانی جنگ میں وہ اور اس کے رسول ہی غالب آئیں گے۔
اور ظالم لوگوں کو عنقریب پتہ لگ جائے گا کہ ان کی قسمت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
ادھرجماعت احمدیہ کو احرارِ ہند کا یہ الٹی میٹم مل رہا تھا اور ادھر خدائے عرش آسمان پر فرشتوں کو حکم دے رہا تھا کہ آجکل میری قائم کی ہوئی جماعت ۔ میری سچی توحید کی حامل جماعت۔ میرے اسلام کی خادم جماعت۔ میری خوشی کے خلاف مگر میری اپنی ہی بنائی ہوئی تقدیر کے مطابق زمین پر پھر مظالم کا تختہ مشق بننے والی ہے تم ذرا اپنی طاقتوں کو حرکت میں لا کر اہل دنیا کو ہوشیار کر دو کہ میری رحمت کے سایہ میں پلنے والوں کے ساتھ یہ کھیل اچھانہیں۔ فرشتوں نے تقدیر کے نوشتوں میں نظر ڈالی اور حضرت مسیح موعود کے منہ سے نکلی ہوئی دو زبردست تقدیریں چھانٹ کر الگ کر لیں۔ ایک تقدیر میں یہ لکھا تھا کہ جب ہمارے دو عاشق اور فدائی کابل کی سر زمین میں ایک خود بین خاندان کے حکم سے پتھروں کی بارش سے شہید کئے جائیں گے تو ہم ایک وحشی راہزن اور لٹیرے کے ہاتھ سے اس خاندان کی صف لپیٹ دیں گے اور اس کے بعد ایک نیک دل انسان کو بسترِ مرض سے اٹھا کر افغانستان کا نجات دہندہ بنائیں گے اور ہماری رحمت کے ہاتھ کا چھینٹا لے کر ملک میں پھر امن و امان قائم کرے گا اور ایک سادہ ’’ نادر خان پٹھان‘‘ کی حیثیت سے اٹھ کر ’’ نادر شاہ‘‘ کا ذی عزت خطاب پائے گا۔ مگر موت تو ہر بشر کے ساتھ لکھی ہوئی ہے پس جب اس نیک دل بادشاہ کو کوئی خود سر نوجوان قتل کر دے گا تو اے آسمان والو تم آسمان پر اور اے زمین والو تم زمین پر کہنا کہ :۔
’’ آہ نادر شاہ کہاں گیا ‘‘
یہ وہ مخفی تقدیر تھی جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ پر ۱۹۰۵ء میں ظاہر فرمائی ۱؎ اور گو اس وقت ابھی امان اللہ خان بھی کابل کے تخت پر نہیں آیا تھا اور نادر خان بھی گمنامی کی حالت میں پڑا تھا مگر خدائی تقدیر نے بہر حال پورا ہو کر رہنا تھا سو آہستہ آہستہ ۱۹۳۳ء میں آکر اس مخفی تقدیر کے سارے پہلو کھل گئے اور خدا نے حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئی پوری فرمائی کہ امیر حبیب اللہ خان اور امیر امان اللہ خان کا خاندان تخت کابل سے محروم ہو گا اور اس کے بعد ایک شخص نادر خان ’’ نادر شاہ‘‘ کا لقب پا کر تخت پر متمکن ہو گا مگر ایک بدبخت انسان اسے گولی کا نشانہ بنا دے گا اور اس وقت زمین اور آسمان دونوں پکار اٹھیں گے کہ ’’ آہ نادر شاہ کہاں گیا ‘‘ ۲؎ اور خدا نے اس پیشگوئی کو ۱۹۳۳ء میں آکر اس لئے پورا فرمایا کہ تا احرار اور ان کی پشت و پناہ طاقتوں کو بتا دے کہ میں زمین و آسمان کا خدا ہوں اور دنیا کی حکومتیں اور حکومتوں کے تخت میرے ہی تصرف میں ہیں۔ پس زمین پر میرے ایک بظاہر کمزور اور غریب بندے کو دیکھ کر اس پر حملہ کرنے میں جلدی نہ کرو کیونکہ وہ اکیلا نہیں بلکہ میں اس کے ساتھ ہوں اور تمہاری لڑائی اس سے نہیں بلکہ مجھ سے ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ جب کوئی بدشعار گروہ خدا کے کسی نیک بندے پر ہاتھ اٹھاتا ہے۔
تب وہ خدائے پاک نشان کو دکھاتا ہے
غیروں پہ اپنا رُعب نشاں سے جماتا ہے
کہتا ہے یہ تو بندۂ عالی جناب ہے
مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے
دوسرا نشان جو حضرت مسیح موعود ؑ کی بتائی ہوئی پیشگوئی کے مطابق اس زمانہ میں ظہور میں آیا وہ ۱۹۳۴ء کے زلزلہ بہار سے تعلق رکھتا ہے جس نے ایک آن کی آن میں ہندوستان کے ایک وسیع علاقہ میں قیامت کا نمونہ دکھا دیا اور زمین تہ و بالا ہو کر خدا کا جلال پکارنے لگی۔ یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود نے ۱۹۰۷ء میں فرمائی تھی ۱؎ جبکہ خدا نے آپ کو یہ بتایا تھا کہ ہندوستان کے شمال مشرقی حصہ میں ایک تباہ کن زلزلہ آئے گا جس سے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے قیامت کا نمونہ آجائے گا اور ساتھ ہی اس کے متعلق یہ خبر دی تھی کہ یہ زلزلہ خاکسار مؤلف رسالہ ہذا کی زندگی میں آئے گا اور خاکسار ہی اس پیشگوئی کو لوگوں کے سامنے لانے والا بنے گا۔ چنانچہ عین حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئی کے مطابق یہ زلزلہ ہندوستان کے شمال مشرقی حصہ میں آیا۔ اس نے قیامت کا نمونہ برپا کر دیا۔ وہ میری زندگی میں آیا۔ اور خدا نے ایساتصرف فرمایا کہ سب سے پہلے میری ہی نظر اس پیشگوئی کی طرف مبذول ہوئی اور پھر میں ہی اسے لوگوں کے علم میں لایا۔ ۲؎
اس پیشگوئی کو بھی خدا نے اپنی قدیم مصلحت کے مطابق موجودہ زمانہ کے لئے محفوظ رکھا تا کہ جنگ کا الٹیمیٹم دینے والوں کو بتا دے کہ اپنے وسیع جتھوں اور وسیع علاقوں کی طاقت پر نازاں نہ ہو کیونکہ احمدیت کا خدا وہ قادر خدا ہے جو دنیا کی وسیع آبادیوں اور دنیا کے وسیع علاقوں کو ایک آن کی آن میں تباہ کر کے رکھ سکتا ہے۔ پس ہم پھر کہتے ہیں کہ اے ہمارے ساتھ جنگ کرنے والو۔ لڑو اور خوب لڑو۔ ہم تمہاری لڑائی سے ڈرتے نہیں بلکہ اسے خدا کی زبردست قدرتوں کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ہم بارہا تجربہ کر چکے ہیں کہ جب بھی زمین کی طاقتیں ہمیں بھسم کرنے کے لئے ایک آگ جلاتی ہیں تو وہی وہ وقت ہوتا ہے کہ جب ہمارا قادر خدا رحمت کی زور دار بارش کے لئے آسمان پر حرکت میں آتا ہے۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود ؑ نے ہمیں پہلے سے تسلی دے رکھی ہے کہ :۔
دیکھ کر لوگوں کا جوش و غیظ مت کچھ غم کرو
شدتِ گرمی کا ہے محتاج بارانِ بہار
دورِ جدید اور تحریک جدید :۔ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح ثانی
کو تحریک کشمیر میں ایک معجزانہ اور عدیم المثال کامیابی عطا فرمائی اورکشمیر کے کم و بیش تیس لاکھ مسلمان آپ کے دم کی برکت سے غلامی کی زنجیروں سے رہائی پا گئے اور خدا کا وہ فرمان پورا ہوا جو اس نے آپ کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کی زبان پر ۱۸۸۶ء میں جاری فرمایا تھا کہ :۔
’’ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا‘‘
مگر یہ تحریک کئی مخفی طاقتوں کو بیدار کرنے کا باعث بن گئی۔ چنانچہ اوّل تو اس کے نتیجہ میں احرار کا فتنہ پیدا ہوا۔ دوسرے نو تعلیم یافتہ مسلمانوں کا وہ طبقہ بھی جو احرار سے تو الگ تھا مگر احمدیت کے روز افزوں اثر و رسوخ کو دیکھ کر خائف ہو رہا تھا چونک پڑا اور اس اٹھتے ہوئے پودے کو مسل دینے کے لئے آمادہ ہوگیا۔ تیسرے خود حکومت انگریزی کے بعض افسر بھی اپنی غلطی اور کوتہ بینی سے جماعت کی بڑھتی ہوئی طاقت کو اپنے لئے خطرہ کا موجب سمجھ کر اسے دبانے اور مٹانے کی فکر میں لگ گئے۔ دوسری طرف ان خطرات کو دیکھ کر آسمانی طاقتیں بھی حرکت میں آئیں تاکہ آنے والے ایام کے لئے جماعت کو ہوشیار و تیار کر دیں اور خدائے علیم نے فیصلہ فرمایا کہ قدیم سنت اللہ کے مطابق جماعت کے رستہ میں کچھ ابتلا پیدا کئے جائیں تا کہ وہ ان ابتلائوں میں سے صاف ہو کر اور دھل کر آگے جائے۔ اس طرح تحریک کشمیر کے اختتام پر جماعت نے اچانک دیکھا کہ اس کے سامنے چار طاقتیں صف آرا ہیں۔ تین مخالف طاقتیں اس کو مٹانے کے لئے اور چوتھی موافق طاقت اس کو بنانے کے لئے۔ ان تین طاقتوں کا ہاتھ ایک خونخوار دشمن کی طرح اس کے سر پر اٹھ رہا تھا کہ بس بہت بڑھ چکے اب آگے نہیں اور چوتھی طاقت کا ہاتھ ایک مشفق ماں کے رنگ میں اس کے سامنے پھیلا ہوا تھا کہ بیٹا ! سامنے کی طرف دیکھو اور اپنے آپ کو اس خطرہ کے مقابلہ کے لئے تیار کرتے ہوئے آگے بڑھو۔ جماعت احمدیہ کے دور بین امام نے ایک نظر میں ہی ان سارے زمینی اور آسمانی انقلابوں کو بھانپ لیا اور روح القدس نے آپ کے دل میں الہام کیا کہ جماعت کے لئے یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے ۔ آپ کی اولوالعزم ہمت ان خطر وں کو دیکھ کر اور بھی بلند ہوئی اورآپ نے فرمایا خدا کا لایا ہوا ہر دور مبارک ہے۔ ہم بھی اس جدید دور میں ایک جدید تحریک کی داغ بیل قائم کریں گے۔ اور ایک طرف اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے اور دوسری طرف دشمن پر وارکرتے ہوئے آگے نکل جائیں گے۔ یہی وہ ’’تحریک جدید‘‘ ہے جو اس وقت جماعت کے سامنے ہے۔
جماعت احمدیہ کے نئے خطرات کا آغاز تحریک کشمیرکے آخری ایام میں ہو چکا تھا اور اندر ہی اندر زبردست کھچڑی پک رہی تھی۔ ۱۹۳۴ء کے شروع میں احرار نے مرکز سلسلہ احمدیہ میں چند کارکن بھجوا کر اپنا دفتر قائم کیا اور فتنہ کی آگ جلا کر اسے ہوا دینے لگ گئے۔ احرار مسلمانوں کی ایک نیم مذہبی نیم پولیٹیکل پارٹی کا نام ہے جس کی صحیح تعریف مشکل ہے البتہ اس لفظ کے لغوی معنوں کو دیکھا جائے جو آزاد اور بے قید کے ہیں تو اس سے اس پارٹی کے اصولوں کے متعلق ایک موٹا اندازہ ہو سکتا ہے اور وہ یہی ہے کہ اس پارٹی کا کوئی اصول نہیں بلکہ وہ بے قید ہو کر ہر کام میں دخل دے سکتی اور ہر کام سے الگ رہ سکتی ہے۔ اس پارٹی کے بعض لیڈر کسی وقت کانگرس میں شامل تھے پھر اس کے بعد اس سے جدا ہو گئے اور اب پھر اسی کی طرف جھک رہے ہیں۔ بہر حال اس پارٹی نے جس میں بعض جوشیلے مولوی بھی شامل ہیں احمدیت کے مقابلہ کا تہیہ کر کے قادیان میں اپنا دفتر قائم کیا اور اس دفتر کی یہ ڈیوٹی لگائی کہ وہ نہ صرف قادیان کے اندر جماعت احمدیہ کو تنگ کرنے اور نقصان پہنچانے اور بدنام کرنے کا طریق اختیار کرے بلکہ قادیان کے اردگرد اورآس پاس کے علاقہ میں بھی جماعت کے متعلق مغویانہ پراپیگنڈا کر کے احمدیت کے خلاف ایک جتھہ اور پارٹی بنا لے۔ اس کام کے لئے احرار نے چند ایسے لوگوں کو چنا جو اس قسم کی باتوں میں خاص طور پر مشّاق تھے ۔ دوسری طرف چونکہ اتفاق سے انہی ایام میں خان بہادر میاں سر فضل حسین صاحب ممبر گورنمنٹ آف انڈیا اپنی میعاد کو ختم کر کے ممبری کے عہدہ کو خالی کرنے والے تھے اور ان کی جگہ کسی مسلمان نے مقرر ہونا تھا۔ اور گورنمنٹ کا یہ خیال تھا کہ اس عہدہ پر چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کو مقرر کرے اس لئے احرار اور ان کے رفقاء نے اس تجویز کو بھی اپنا آلہ کار بنا کر نہ صرف اس کی مخالفت میں اخباری پراپیگنڈا شروع کر دیا بلکہ جماعت احمدیہ کے خلاف پرانے کفر کے فتویٰ کو از سر نو تازہ کر کے ملک کے طول و عرض میں یہ آگ لگا دینی چاہی کہ چونکہ احمدی لوگ مسلمان نہیں ہیں اس لئے کوئی احمدی کسی حیثیت میں بھی مسلمانوں کا نمائندہ نہیں بن سکتا۔ چوہدری صاحب موصوف کے متعلق تو بعض غیر معمولی حالات کی وجہ سے ان لوگوں کی تجویز کارگر نہ ہو سکی مگر اس ذریعہ سے انہوں نے ملک کے ایک طبقہ میں جماعت احمدیہ کے خلاف ایک زہریلا ماحول پیدا کر دیا۔
قادیان میں بھی انہوں نے آہستہ آہستہ مقامی غیر احمدی اور غیر مسلم آبادی کے ایک حصہ کو اپنے ساتھ ملا کر اور کچھ حصہ گردو نواح کی آبادی کا بھی اپنے ساتھ جوڑ کر فتنے کے شرارے پیدا کرنے شروع کر دئیے اور جب کچھ اثر قائم کر لیا تو اس اثر کو وسیع کرنے کے لئے انہوں نے اکتوبر ۱۹۳۴ء کے تیسرے ہفتہ میں قادیان میں ایک بھاری کانفرنس منعقد کرنے کی تجویز کی اور اس کانفرنس کے حق میں بڑے زور سے پراپیگنڈا کیا گیا۔ چونکہ نہ صرف قرائن سے اور نہ صرف ان لوگوں کی سابقہ تاریخ سے بلکہ بعض معین ذرائع سے بھی یہ معلوم ہو چکا تھا کہ اس کانفرنس کے منعقد کرنے میں ان کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ کسی طرح قادیان میں ایک بلوہ کی صورت پیدا کر کے جماعت احمدیہ کو جانی اور مالی نقصان پہنچایا جاوے اس لئے ایک احتیاطی تدبیر کے طور پر جماعت کے ایک ناظر نے اپنی ذمہ واری پر حضرت خلیفۃ المسیح کی اطلاع اور اجازت کے بغیر قریب قریب کی احمدیہ جماعتوں کو پیغام بھجوا دیا کہ کانفرنس کے ایام میں احرار کی طرف سے اس اس طرح کے خطرہ کا امکان ہے اس لئے آپ لوگ تیار رہیں تا کہ حسب ضرورت وقت پر پہنچ کر شرارت کا انسداد کر سکیں۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح کو اس تجویز کی اطلاع ملی تو آپ نے فوراً اس ہدایت کو منسوخ کروا دیا اور فرمایا کہ یہ طریق مناسب نہیں کیونکہ جب گورنمنٹ کے افسر تسلی دلاتے ہیں کہ ہم ہر قسم کا انتظام خود کریں گے تو ہمیں اس قسم کا اقدام کر کے کوئی غلط فہمی نہیں پیدا کرنی چاہئے۔ لیکن حضرت خلیفۃ المسیح کی طرف سے اس صریح ہدایت کے جاری ہو جانے کے باوجود گورنمنٹ کے اس طبقہ نے جو جماعت احمدیہ کی بڑھتی ہوئی اہمیت سے ہوشیار ہو کر اس پر ہاتھ ڈالنا چاہتا تھا ناظر مذکور کی سابقہ ہدایت کو آڑ بنا کر اور اسے غلط طور پر حضرت خلیفۃ المسیح کی طرف منسوب کر کے آپ کے خلاف ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو ایک نہایت نامعقول اور سراسر گستاخانہ نوٹس جاری کر دیا کہ تم اس قسم کے اقدام سے مجتنب رہو ورنہ ہم قانونی کارروائی کریں گے ۔ اور اس طرح ایک آنی فانی ڈرامہ کے رنگ میں احمدیت کے خلاف وہ ساری طاقتیں میدان عمل میں جمع ہو گئیں جن کا ہم اس مضمون کے شروع میں ذکر کر چکے ہیں ۔ یعنی اوّل احرار جو ایک فیصلہ شدہ پروگرام کے ماتحت قادیان پر حملہ آور تھے اور اس وقت انہی کے ساتھ مسلمانوں کا وہ دوسرا طبقہ بھی شامل تھا جو احمدیت کے خلاف ہوشیار ہو کر اپنی معاندانہ کارروائیوں کو شروع کر چکا تھا۔ اور دوسرے حکومت کا وہ حصہ جو اب احرار کانفرنس کے موقعہ پر بے نقاب ہو کر سامنے آگیا۔
اس کے بعد کچھ عرصہ تک سلسلہ احمدیہ کی تاریخ سیاہ بادلوں کی گرجوں اور بجلی کی مہیب کڑکوں میں سے ہو کر گزرتی ہے جس کا کسی قدر اندازہ ان اخباروں کے فائلوں سے لگ سکتا ہے جو ان ایام میں اس تاریخ کو قلم بند کرنے میں مصروف تھے مگر اصل اندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے ان دنوں میں ایک طرف تو حضرت خلیفۃ المسیح کے خطبات کو سنا اور دوسری طرف قادیان میں احرار اور افسران حکومت کی کارروائیوں کو خود اپنی نظر سے ملاحظہ کیا۔ ان ایام کی تاریخ اگر ایک طرف نہایت دردناک ہے تو دوسری طرف نہایت شاندار بھی ہے۔ درد ناک اس لئے کہ مخالف طاقتوں نے نہایت اوچھے ہتھیاروں پر اتر کر جماعت کو ہر رنگ میں دکھ پہنچانے اور ذلیل کرنے اور نیچے گرانے کی کوشش کی۔ جس کی تفصیل کی اس جگہ ضرورت نہیں اور شاندار اس لئے کہ حریف کی ہر چوٹ نہ صرف حضرت خلیفۃ المسیح کو ہوشیار پاتی تھی بلکہ اس ربڑ کے گیند کی طرح جو ضرب کھا کر اور بھی اونچا اچھلتا ہے ہمارے امام کا ہر قدم ہر ضرب کے بعد پہلے سے زیادہ بلند جگہ پر پڑتا تھا۔ اس کشمکش کی شدت چند دن نہیں چند ہفتے نہیں چند مہینے نہیں بلکہ دو ڈھائی سال تک جاری رہی مگر اس طویل جنگ میں حضرت خلیفۃ المسیح نے ایک منٹ کے لئے بھی جماعت کے سر کو نیچا نہیں ہونے دیا بلکہ آب ایک متلاطم سمندر کی مہیب لہروں اور مواج پانیوں کے تباہ کن بھنوروں میں سے سلسلہ احمدیہ کی چھوٹی سی کشتی کو جس پر اس وقت ساری دنیا کی آنکھیں لگی ہوئی تھیں بچتے بچاتے مگر احمدیت کا جھنڈا لہراتے طوفان سے باہر نکال لائے۔ اس مثلث اور عجیب و غریب جنگ کی تاریخ کا ایک حصہ تو اخباروں کے فائلوں میں ہے اور پبلک کی ملکیت ہے ۔ دوسرا حصہ سلسلہ احمدیہ اور گورنمنٹ کے دفتری ریکارڈ میں ہے اور اکثر لوگوں کی پہنچ سے باہر ہے۔ اور تیسرا حصہ اور یہی سب سے زیادہ عجیب و غریب ہے صرف چند لوگوں کے دماغوں میں ہے اور غالبا وہ کبھی شرمندۂ عریانی نہیں ہو گا۔ مگر بہر حال نتیجہ یہ ہے کہ احرار کی آب دوز کشتی جس سے وہ احمدیت کو تباہ کرنے کے لئے نکلے تھے تاجدار احمدیت کی پے در پے ضربیں کھا کر پیچھے ہٹی اور پھر ایک خدا کی تیار کی ہوئی چٹان یعنی شہید گنج ۱؎سے ٹکرا کر سمندر کی تہ میں بیٹھ گئی۔ اور اب صرف اس کے چند شکستہ تختے پانی کی سطح پر ادھر ادھر بہتے نظر آرہے ہیں۔ اور گورنمنٹ کے بعض افسروں کا ابال بھی اپنے اس انجام کو پہنچ گیا جس کی تفصیل کی اس جگہ ضرورت نہیں۔ ہاں مسلمانوں کے اس دوسرے طبقہ کی عداوت کی آگ ابھی تک کم و بیش سلگ رہی ہے اور غالباً جب تک کہ جماعت احمدیہ اپنے اس تعمیری پروگرام کو مکمل نہ کر لے گی جس کی حضرت خلیفۃ المسیح نے تحریک جدید میں بنیاد قائم کی ہے یہ آگ سلگتی ہی چلی جاوے گی اور پھر وہی ہو گا جو خدا کو ازل سے منظور ہے۔ مگر بظاہر ان دب جانے والے فتنوں کے متعلق بھی ہمارا امام ہمیں بتاتا ہے کہ ابھی اپنے آپ کو امن میں نہ سمجھو کیونکہ یہ ایک وقتی سکون ہے اور میں دور کی افق میں اب بھی بادلوں کی گرج اور بجلیوں کی کڑک سن رہا ہوں۔
بہر حال ان فتنوں کی لہر اٹھی اور اب دبی ہوئی ہے مگر تحریک جدید ایک مستقل چیز تھی اور ٹھہرنے کے لئے آئی ہے ۔ حضرت خلیفۃ المسیح نے اس جدید نظام کو مذکورہ بالا فتنہ کے آغاز میں ہی جماعت کے سامنے پیش کر دیا تھا اور فرما دیا تھا کہ فتنہ ٹھہر ے یا جائے یہ چیز بہر حال ٹھہرے گی اور جماعت کا آئندہ قدم اسی بنیاد پر اٹھے گا چنانچہ آج پانچ سال گزر رہے ہیں کہ جماعت اس رستہ پر گامزن ہے۔ یہ رستہ کیا ہے ؟
اوّل جماعت کی عملی اور اخلاقی اور دینی تربیت کا ایک نیا پروگرام جس میں سادہ زندگی ۔ معمور الاوقات زندگی۔ قربانی کی زندگی اور روحانی وسائل کا بیش از پیش استعمال نمایاں ہے۔ مثلاً سوائے خاص موقعوں کے ایک سے زیادہ کھانا نہ کھائو۔ سینما اور تھیٹر نہ دیکھو۔ بیکار نہ رہو اور اگر کام نہ ملے تو اپنے وقت کو دین کی خدمت میں لگا دو۔ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالو اور کسی جائز کام کو بھی اپنے شان کے خلاف نہ سمجھو۔ حقیقی ضرورت کے سوا لباس اور زیورات میں روپیہ نہ ضائع کرو۔ اپنے اخراجات کو کم کرو اور دینی اور جماعتی ضروریات کے لئے زیادہ سے زیادہ روپیہ بچائو۔ رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھو۔ اور دعائوں کو ایک زندہ چیز سمجھ کر خدا کے آستانہ پر گرے رہو وغیرہ وغیرہ۔
دوم جماعت کی تبلیغ کا ایک عالمگیر پروگرام جس میں ہندوستان کے مختلف حصوں کی تبلیغ۔ جملہ بیرونی ممالک کی تبلیغ۔ آنریری کارکنوں کے ذریعہ تبلیغ۔ تنخواہ دار مبلغوں کے ذریعہ تبلیغ۔ خاص خاص علاقوں میں تبلیغ کی پر زور مہم اور تبلیغ کے لئے مختلف علاقوں کی سروے وغیرہ شامل ہیں۔ مثلاً ملازم پیشہ لوگ ایک ایک دو دو اور تین تین ماہ کی رخصت لے کر اپنے آپ کو ہندوستان کی تبلیغ کے لئے پیش کریں۔ نوجوان اپنی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد مگر کام ملنے سے پہلے حسبِ حالات اپنی زندگیوں کو سلسلہ کی تین سالہ خدمت کے واسطے وقف کریں۔ بیکار جنہیں ہندوستان میں کام نہیں ملتا وہ مرکز سلسلہ کے مشورہ کے ماتحت مختلف بیرونی ممالک میں نکل جائیں۔ قادیان کے گردونواح کے علاقہ میں تبلیغ کی مخصوص مہم جاری کی جائے اور بعض نئے علاقوں کی تبلیغی سروے کروائی جائے نیز جماعت احمدیہ کے پریس کو بھی زیادہ مضبوط اور زیادہ وسیع کیا جاوے وغیرہ وغیرہ۔
سوم بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ دی جاوے۔ مثلاً سوائے کسی حقیقی مجبوری کے جماعت کے سب لوگ جن کے لئے ایسا کرنا ممکن ہے قادیان میں اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے بھجوائیں۔ اور سلسلہ کے قائم کردہ بورڈنگوں میں ان کو رکھیں جہاں خاص اصول کے ماتحت ان کی تربیت کی جاوے۔ اور والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم میں ڈالنے سے پہلے سلسلہ کے مرکزی کارکنوں سے مشورہ لیا کریں جو بچوں کے رجحان اور والدین کے حالات کے علاوہ سلسلہ کی ضروریات کو بھی اس مشورہ میں ملحوظ رکھیں وغیرہ وغیرہ۔
چہارم مرکزسلسلہ کی مورچہ بندی کا خاص پروگرام شروع کیا جاوے۔ مثلاً جن جن احمدیوں کو توفیق ہو وہ قادیان میں اپنا مکان بنائیں۔ قادیان میں جائداد خریدیں اور قادیان کے اردگرد بھی جہاں تک ممکن ہو سلسلہ کی جائداد پیدا کی جاوے۔ اور مرکز کے ماحول میں اپنے اثر کو زیادہ مضبوط اور زیادہ پختہ کر دیا جائے۔ اور اس غرض کے لئے روپیہ اس طرح فراہم کیا جائے کہ ہر احمدی جسے توفیق ہو وہ اپنی آمد کے ۵؍۱ سے ۳؍۱ حصہ تک ایک میعادی امانت کے طور پر مرکزی نظام کے سپرد کر دے وغیرہ وغیرہ۔
پنجم سلسلہ کی ضروریات کے لئے ایک مستقل ریزرو فنڈ قائم کیا جائے جو کم از کم پچیس لاکھ روپے کا ہو اور اس سے ایسی محفوظ اور فائدہ مند جائداد پیداکی جاوے جس کا نفع سلسلہ کے تبلیغ کی موجودہ اور عام ضروریات کے لئے مکتفی ہو سکے۔
ششم مگر بایں ہمہ آئندہ جہاں تک ممکن ہو ظاہری اسباب کے ماتحت سلسلہ کے کاموں کی بنیاد روپے پر نہ رکھی جائے بلکہ کارکنوں کے اخلاص اور جانفشانی پر اس کی بنیاد ہو اور جماعت میں اس روح کو ترقی دی جائے کہ لوگ آنریری خدمات پیش کر کے یا کم تنخواہیں لے کر زیادہ کام کرنے کی عادت ڈالیں۔ اسی ذیل میں یہ بھی تحریک کی جائے کہ جو لوگ اپنی ملازمتوں سے ریٹائر ہو جائیں وہ اس کے بعد قادیان آکر آباد ہوں اور اپنی آنریری خدمات سلسلہ کے سپرد کر دیں۔ وغیرہ وغیرہ
یہ اس’’ تحریک جدید‘‘ کے اصولوں کا ایک مختصر ڈھانچہ ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے ۱۹۳۴ء کے آخر میں جماعت احمدیہ کے سامنے پیش فرمائی۔ اس تحریک کے مالبات انیس تھے جنہیں ہم نے اختصار کے خیال سے چھ جامع فقروں میں جمع کر دیا ہے اور ہم نے اس جگہ دانستہ بعض حصوں کی تفصیل بیان نہیں کی۔ کیونکہ اس سکیم کے بعض پہلو ایسے ہیں کہ ان کے تفصیلی اظہار سے جماعت کے دشمن ناجائز فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ہمارے بعض ناظرین جو زیادہ گہرے مطالعہ کی عادت نہیں رکھتے یہ خیال کریں کہ ان باتوں میں سے بعض باتیں معمولی نوعیت کی ہیں جو جماعت احمدیہ کے سابقہ طریق کار میں بھی شامل تھیں اور ہر منظم جماعت کے پروگرام میں شامل ہوتی ہیں لیکن یہ خیال تین لحاظ سے غلط ہو گا اوّل ان مطالبات میں بہت سی باتیں نئی ہیں یا اگروہ نئی نہیں تو انہیں نئے رنگ میں پیش کیا گیا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ایک سکیم کی چند نئی باتیں بھی اس کے بقیہ حصہ میں نئی جان ڈال دینے کے لئے کافی ہوتی ہیں۔ دوسرے ان سب باتوں کے تفصیلی اور عملی اجراء میں کئی لحاظ سے جدت ہے جس کے بیان کی اس جگہ ضرورت نہیں اور تیسرے بڑی بات یہ ہے کہ اس سکیم کے پیچھے جو روح ہے وہ بالکل نئی ہے جو غیر معمولی جوش اور ولولہ کے ساتھ اٹھ کر برسر عمل آئی ہے۔ جس کی وجہ سے نہایت شاندار نتیجے پیدا ہو رہے ہیں۔ مثلاً میں تحریک جدید کے بہت سے بابرکت نتائج میں سے اس جگہ مثال کے طور پر صرف تین عملی نتیجے بیان کرتا ہوں۔
(۱) تحریک جدید کے انتظام کے ماتحت اس نئی روح کے ساتھ جس نے کام کو کئی لحاظ سے آسان اور سستا کر دیا ہے ان تین چار سالوں کے قلیل عرصہ میں مندرجہ ذیل نئے بیرونی مشن جاری ہو چکے ہیں جو ان مراکز تبلیغ کے علاوہ ہیں جو اس سے پہلے قائم تھے۔ خلاصہ کے خیال سے میںانہیں ایک نقشہ کی صو رت میںدرج ذیل کرتا ہوں :۔
نمبر شمار
نام ملک
سال قیام مشن
کیفیت
۱
سنگاپور (ملایا)
۱۹۳۵ء
۲
ہانگ کانگ (چین)
۱۹۳۵ء
۳
جاپان
۱۹۳۵ء
۴
سپین
۱۹۳۶ء
۵
ہنگری
۱۹۳۶ء
نمبر شمار
نام ملک
سال قیام مشن
کیفیت
۶
البانیا
۱۹۳۶ئ
۷
یوگوسلاویا
۱۹۳۶ء
۸
ارجنٹائن (جنوبی امریکہ)
۱۹۳۶ء
۹
اٹلی
۱۹۳۷ء
۱۰
پولینڈ
۱۹۳۷ء
ان مشنوں میںسے بعض مشن جنگ کی وجہ سے عارضی طور پر بند ہیں مگر اکثر صورتوں میں ان ممالک کے مبلغ واپس نہیں آئے بلکہ قریب کے ممالک میں منتقل کر دئیے گئے ہیں۔ اور ان باقاعدہ مشنوں کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح کی یہ اپیل بھی بہرے کانوں پر نہیں پڑی کہ سلسلہ کے بیکار نوجوان بیرونی ملکوں میں نکل جائیں اور روزی کی تلاش کے علاوہ سلسلہ کی تبلیغ کا کام بھی کریں چنانچہ اس کی ایک مثال بیان کرتا ہوں کہ ایک نوجوان درزی جو زیادہ پڑھا ہوا بھی نہیں تھا کشمیر اور گلگت کے رستے ہوتا ہوا اور اکثر پیدل سفر کرتا ہوا نکل گیا اور بالآخر چینی ترکستان میں پہنچ کر اس دور دراز اور پر از خطرات ملک میں احمدیت کا جھنڈا گاڑ دیا چنانچہ اب اس علاقہ میں احمدیت کا بیج بویا جا چکا ہے اور آجکل کا شغر کا ایک مخلص خاندان قادیان میں زیر تربیت ہے۔
(۲) سلسلہ کے لئے تحریک جدید کے خاص چندوں کی مدد سے اور کسی قدر دیگر محاصل کو ملا کر سلسلہ کے مستقل فنڈ کے طور پر سندھ کے علاقہ میں جو خاص طور پر کپاس اور نیشکر کی کاشت کے لئے موزوں ہے قریباً پندرہ لاکھ روپے کی نہری اراضیات خریدی جا چکی ہیں۔ چونکہ یہ سودا قیمت کی بالاقساط ادائیگی کے اصول پر ہوا ہے اور ساتھ ساتھ زمین آمد بھی دے رہی ہے اس لئے تھوڑی رقم خرچ کر کے زیادہ مالیت کی جائداد حاصل کی جا سکی ہے اور مزید حاصل کرنے کی کوشش ہے اور امید ہے کہ جب ان اراضیات کی ساری قیمت بے باق ہو جائے گی تو ان کی آمد سلسلہ کی موجودہ اور عام تبلیغی ضروریات کے لئے بڑی حد تک کافی ہو سکے گی۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح کی پُر زور اپیل کے جواب میں جماعت احمدیہ نے باوجود بہت سے مالی بوجھوں کے اس اخلاص اور اس قربانی کے ساتھ تحریک جدید کے چندوں میں حصہ لیا ہے کہ جس کی نظیر کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتی۔
(۳) تحریک جدید کے نئے قائم شدہ میعادی امانت فنڈ کے ذریعہ سے مرکز کے ماحول میں غیر معمولی نفوذ حاصل کر لیا گیا ہے اور کیا جا رہا ہے جس کی تفصیل کی اس جگہ ضرورت نہیں۔
اس کے علاوہ جماعت کے پریس میں بھی قابل قدر اضافہ ہوا ہے اور تحریک جدید کا انگریزی اخبار سن رائز انگریزی خوان ممالک میں بہت اچھی خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ مگر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ احمدیت کی پرانی شراب نے تحریک جدید کے نئے برتن میں آکر جماعت احمدیہ میں ایک غیر معمولی بیداری اور فرض شناسی اور جانفشانی کی روح پیدا کر دی ہے۔ اور خدا کے برگزیدہ مسیح کی فوج اپنے اولوالعزم خلیفہ کی کمان میں کمرِ ہمت کو کس کر اور اپنے سامنے اور گردوپیش کے خطرات پر نگاہ رکھتے ہوئے بڑی سرعت اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور چونکہ ابھی تک ہم تحریک جدید کے پروگرام کے صرف ابتدائی حصہ میں ہیں اس لئے خدا سے امید کی جاتی ہے کہ اس نئے دور کے انجام تک اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے لئے غیر معمولی ترقی کے راستے کھول دے گا۔
خدام الاحمدیہ :۔ ۱۹۳۸ کے شروع میں حضرت خلیفۃ المسیح نے ’’ خدام الاحمدیہ‘‘ کی بنیاد رکھی۔
اس کی بڑی غرض و غایت جماعت کے نوجوانوں کی تنظیم و تربیت تھی تا کہ ان نونہالوں کو اس اہم کام کے قابل بنایا جا سکے جو کل کو ان کے کندھوں پر پڑنے والا ہے۔ اس انجمن کے موجودہ پروگرام میں منجملہ دیگر امور کے مندرجہ ذیل باتیں زیادہ نمایاں ہیں :۔
اوّل خدمتِ خلق یعنی خدام الاحمدیہ کے ہر ممبر کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو صحیح معنوں میں ملک و قوم کا خادم بنائے اور خادم بن کر رہے اور اس انجمن کا یہ فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ممبروں میں خدمت خلق کے جذبہ کو ترقی دے۔
دوم لوگوںکے دلوں میں اس احساس کو پیدا کرنا اور انہیں اس کی عملی تربیت دینا کہ کوئی کام بھی انسان کی شان سے بعید نہیں اور یہ کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا انسان کے لئے موجب عزت ہے نہ کہ باعث ذلت و شرم۔
سوم جماعت کے ناخواندہ لوگوں کی پرائیویٹ تعلیم کا انتظام کرنا تا کہ کوئی احمدی ایسا نہ رہے جو اَن پڑھ ہو۔ بلکہ ہر احمدی تعلیم کے اقل معیار کو پہنچ جائے۔ اور اس غرض کے لئے لوگوں کی آنریری خدمات لے کر رات کے پرائیویٹ مدارس وغیرہ قائم کرنا۔
چہارم جماعت کے اندر خلیفہ وقت اور نظام سلسلہ کے متعلق جذباتِ اخلاص و محبت و وفاداری کو ترقی دینا۔ وغیرہ وغیرہ
سو خدا کے فضل سے یہ سارے کام ’’ خدام الاحمدیہ‘‘ کے ذریعہ سے بڑی خوبی کے ساتھ سر انجام پا رہے ہیں۔ اور یہ تنظیم احمدی نوجوانوں میں ایک غیر معمولی قوتِ عمل اور خدمت خلق کا جذبہ پیدا کر رہی ہے مگر افسوس ہے کہ میں اس جگہ ان کاموں کی تفصیل میں نہیں جا سکتا۔ البتہ نمونہ کے طور پر مختصر الفاظ میں صرف اس کوشش کا ذکر کئے دیتا ہوں جو وقار عمل کے شعبہ میں کی جارہی ہے۔ اس غرض کے ماتحت حضرت خلیفۃ المسیح کی ہدایت یہ ہے کہ ’’ خدام الاحمدیہ‘‘ ہر دوسرے مہینہ ایک دن ایسا منایا کرے جس میں قادیان کے سارے احمدی مرد (یعنی بچے جوان اور بوڑھے) بلا امتیاز حیثیت اکٹھے ہو کر کسی قسم کے رفاہ عام کے کام میں اپنے ہاتھ سے مزدوروں کی طرح کام کیا کریں اور اس وقت ہر غریب و امیر اور افسر و ماتحت اور نوکر و آقا اور خوردوکلاں اپنے سارے امتیازات کو ایک طرف رکھ کر مزدور کے لباس میں حاضر ہو جایا کرے۔ چنانچہ یہ دن باقاعدہ منایا جاتا ہے اور اس دن کا نظارہ بہت ہی روح پرور ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس دن سب لوگ بلاامتیاز اور بلاتفریق ایک ہی کام میں ہاتھ ڈال کر اسلامی مساوات کی روح کو زندہ کرتے ہیں۔ اگر آقا کے ہاتھ میں ٹوکری ہوتی ہے تو نوکر کسّی سے مٹی کھودتا ہے اور اگر آقا مٹی کھودتا ہے تو نوکر ٹوکری اٹھائے پھرتا ہے ۔ اور غریب و امیر اور افسر و ماتحت سب مٹی کے اندر لت پت نظر آتے ہیں ۔ یہ سلسلہ کئی گھنٹہ تک جاری رہتا ہے اور پھر اس عمل محبت کو روحانیت کا خمیر دینے کے لئے ایک گھنٹی بجتی ہے اور سب لوگ کام سے ہاتھ کھینچ کر خدا کے دربار میں دعا کے لئے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اور یہاں پھر وہی محتاج و غنی کی مساوات اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ یہ سلسلہ کئی لحاظ سے بہت مفید ثابت ہو رہا ہے۔ اوّل اس طرح ہر شخص کو ہاتھ سے کام کرنے کی عادت پیدا ہوتی ہے اور مغرور انسان اس مکروہ جذبہ سے رہائی پاتا ہے۔ کہ بعض کام میری شان سے نیچے ہیں۔ دوم آپس میں اخوت و مساوات اور اختلاط کی روح ترقی کرتی ہے اور سوسائٹی کے مختلف طبقات میں کسی قسم کی ناگوار خلیج حائل ہونے نہیں پاتی۔ سوم بعض مفید قومی یا شہری کام آنریری طریق پر بغیر کسی خرچ کے سر انجام پا جاتے ہیں اور پھر جب کبھی خود حضرت خلیفۃ المسیح اس مبارک تقریب میں شریک ہو جاتے ہیں اور گردوغبار سے ڈھکے ہوئے ادھر ادھر ٹوکری اٹھائے پھرتے نظر آتے ہیں تو پھر تو یہ وقارِعمل کا سبق دنیا کے سارے سبقوں میں سے زیادہ گہرا اور زیادہ دیر پا نقش پیدا کر دیتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح کے خطبات و تقاریر :۔ حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح ثانی کے عہد خلافت کی تصویر نامکمل رہے گی اگر آپ کے خطبات اور تقاریر کا ذکر نہ کیا جاوے کیونکہ آپ کے سوانح کا ایک نمایاں پہلو آپ کے وہ خطبے اور وہ تقریریں ہیں جو آپ جمعہ اور جلسہ سالانہ وغیرہ کے موقعہ پر فرماتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کو فن تقریر میں ایک قدرتی اور فطری ملکہ حاصل ہے۔ اور چونکہ ہر لفظ دل کی گہرائیوں سے نکلتا ہے اس لئے آپ کی تقریریں جماعت کی علمی اور روحانی تربیت کے لئے اکسیر ثابت ہو رہی ہیں۔ آپ میں تکلف بالکل نہیں ہے اسی لئے جہاں بعض اوقات آپ کی تقریر ایک ایسے دریا سے مشابہت رکھتی ہے جو ایک کامل سکون اور اطمینان کے ساتھ ایک کھلے اور ہموار میدان میں سے گزرتا ہے وہاں دوسرے اوقات میں وہ ایک ایسے مواج دریا کا رنگ اختیار کر لیتی ہے جو پہاڑوں کے پہلوئوں کے ساتھ ٹکڑاتا ہوا اور گرجتا اور دندناتا ہوا آگے آتا ہے۔ مقدم الذکر صورت ان کے اندر جوش اورقوت عمل کا بے پناہ جذبہ پیدا کر دیتی ہے۔ جمعہ کے خطبات عموماً حالات حاضرہ اور جماعت کی پیش آمدہ ضروریات پر ہوتے ہیں اور جماعت کو اوپر اٹھانے میں از حد مفید ثابت ہو رہے ہیں۔ جلسہ سالانہ میں آپ کا یہ دستور ہے کہ ایک تقریر تو حالات حاضرہ پر ہوتی ہے جس میں سال بھر کے حالات پر ایک گونہ ریویو کر کے آئندہ سال کے پروگرام کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اور دوسری تقریر خالصۃً علمی ہوتی ہے جس میں ہر سال ایک نئے میدان میں قدم رکھاجاتا ہے۔ آپ کی ان علمی تقریروں کی وجہ سے جو ساتھ ساتھ قلمبند کر لی جاتی ہیں جماعت کے لٹریچر میں بھی ایک نہایت قیمتی اضافہ ہوتا جا رہا ہے چنانچہ اس وقت تک ہستی باری تعالیٰ ملا ئکۃ اللّٰہ ۔ تقدیر الٰہی۔ فضائل القرآن۔ حقیقۃ الرؤیا۔ عرفان الٰہی۔ انقلاب حقیقی۔ نجات وغیرہ پر ایسی ایسی زبردست تقریریں ہو چکی ہیں کہ جو دنیا کے مذہبی لٹریچر میں بالکل عدیم المثال ہیں۔ الغرض آپ کی تقریریں اپنے اندر ایک خاص شان رکھتی ہیں اور ان کے ذریعہ سے نہ صرف جماعت کے علم میں بلکہ ان کی قوت عمل میں بھی حیرت انگیز اضافہ ہو رہا ہے۔
دوستو! میں نے آسمان خلافت کے ہزاروں درخشندہ ستاروں میں سے صرف چند ستاروں کی ایک سرسری جھلک آپ صاحبان کو دکھائی ہے مگر میں مجبور تھا اور مجبور ہوں کیونکہ اس وقت میرے پاس وقت اور جگہ دونو محدود ہیںاور مجھے یہ طاقت حاصل نہیں کہ ایک وسیع دریا کوزے میں بند کردوں ۔ پس میں اب آپ لوگوں سے معافی چاہتے ہوئے خلافت جوبلی کی تقریب پر جو اس وقت ہمارے سامنے ہے ایک چلتی ہوئی نظر ڈال کر آپ سے رخصت ہوتا ہوں مگر اس دعا کے ساتھ کہ اگر میری اس ناچیز خدمت نے خدا کے دربار میں مقبولیت کا شرف پایاہے تو اگلی صحبت مجھے اس قبولیت کے رستے میں اور آگے لے جائے۔
خلافت جوبلی :۔ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ۱۴؍ مارچ ۱۹۱۴ء کو مسند خلافت پر متمکن ہوئے تھے
اور اس طرح ۱۳؍ مارچ ۱۹۳۹ء کو آپ کی خلافت پر…… ہاں کامیاب و کامران ۔ مظفرو منصور۔ مبارک و مسعود۔ شاہد و مشہود۔ عامر و معمور۔ خلافت پر پچیس سال کا عرصہ پورا ہو گیا ۔ صداقت اور خدمت کی شان عرصوں اور زمانوں کی قید سے بالا ہے اور اچھے کام کی ایک گھڑی بیکار وقت کے ہزار سال سے بہتر۔ مگر ان پچیس سالوں کی شان کا کیا کہنا ہے جس کا ایک ایک لمحہ خدمت خلق اور اعلاء کلمہ اللہ میں گزرا۔ جس کی ابتداء نے جماعت احمدیہ کو انشقاق و افتراق کی پُر خطر وادی میں گھرا ہوا پایا مگر جس کی انتہا آج اسے ایک مضبوط اور متحد دستہ کی صورت میں ایک بلند پہاڑ پر دیکھ رہی ہے۔
یہ ایک فطری امر ہے کہ محبوب کی کامیابی انسان کے دل میں شکر و امتنان کے جذبات کے ساتھ ساتھ مسرت و انبساط کی لہر بھی پیدا کر دیتی ہے۔ اور خدا بھلا کرے چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کا کہ اس لہر نے پہلی حرکت انہی کے دل میں پیدا کی۔ اور انہوں نے آج سے قریباً دو سال پہلے آنے والی خوشی کی گرمی کو محسوس کر کے اس تجویز کی داغ بیل رکھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی خلافت کے پچیس سال پورے ہونے پر جماعت کی طرف سے خوشی اور شکر کے اظہار کے لئے ایک تقریب کی صورت پیدا کی جائے اور اس مبارک تقریب پر جماعت اپنی طرف سے کچھ رقم (چوہدری صاحب نے تین لاکھ روپے کی رقم تجویز کی) حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی خدمت میں اس درخواست کے ساتھ پیش کرے کہ حضور اس رقم کو جماعت کی طرف سے قبول کر کے جس مصرف میں پسند فرمائیں کام میں لائیں۔ سو خدا نے چاہا تو آج سے چند دن کے اندر اندر جبکہ یہ رسالہ انشاء اللہ دوستوں کے ہاتھ میں ہو گا یہ تقریب سعید عمل میں آجائے گی۔ اور جماعت اپنی عقیدت اور شکر و امتنان کے پھول اپنے محبوب امام کے قدموں پر رکھ چکی ہو گی۔
مگر جس خاص غرض کے لئے میں نے اس ذکر کو اس جگہ داخل کیا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کو اس سلسلہ میں بھی جماعت کی تربیت کا از حد خیال ہے چنانچہ آپ متعدد مرتبہ جماعت کو یہ نصیحت فرما چکے ہیں کہ اگر یہ تقریب محض رسم کے طور پر ہے اور دنیا کی نقل میں ایک قدم اٹھایا جا رہا ہے تو اس میں میری خوشی کا کوئی حصہ نہیں اور نہ میں اس صورت میں جماعت کو اس کی اجازت دے سکتا ہوں۔ لیکن اگر آپ لوگوں نے اسے دنیا کی رسومات اور دنیا کی نمائشوں کے طریق سے پاک رکھ کر ایک خالص دینی خوشی کا رنگ دینا ہے اور اسے ان عیدوں کی طرح منانا ہے جس طرح اسلام اپنی عیدوں کے منانے کا حکم دیتا ہے تو اس قسم کا جو قدم بھی اٹھایا جائے وہ مبارک ہے اور میں اسے روکنا نہیں چاہتا۔
پس اس وقت جہاں ہر احمدی کا دل شکر و محبت کے انتہائی جذبات کے ساتھ لبریز ہے وہاں ہر احمدی کا ہاتھ بھی خدا کے حضور اس دعا کے ساتھ اٹھ رہا ہے کہ خدایا تو نے جس طرح ان گزرنے والے سالوں کو خوشی اور کامیابی اور کامرانی کے ساتھ پورا کیا ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ چڑھ کر آنے والے سالوں کو بھی ہمارے لئے مبارک کر اور ہماری اس جوبلی کو اس عظیم الشان جوبلی کا پیش خیمہ بنادے جو تیرے جلال کے انتہائی ظہور کے بعد آنے والی ہے۔ اور اے ہمارے مہربان آقا! تو ہمارے اس امام کو جس کی مبارک قیادت میں جماعت نے تیری ہزاروں برکتوں سے حصہ پایا ہے ایک لمبی اور بامراد زندگی عطا کر اور اس کے آنے والے عہد کو گزرنے والے عہد کی نسبت بھی زیادہ مقبول اور زیادہ شاندار اور زیادہ مبارک بنا دے۔ آمین ثم آمین۔
جماعت احمدیہ کا نظام
الحمد للہ کہ ہم خلافت ثانیہ کے مبارک عہد کے مبارک حالات سے فارغ ہو کر اب اپنی کتاب کے آخری حصہ میں قدم رکھ رہے ہیں۔ اس آخری حصہ میں صرف تین مختصر سی باتیں کہنے والی ہیں کیونکہ ان کے بغیر سلسلہ احمدیہ کی تصویر جو ہمارا اصل موضوع ہے مکمل نہیں ہوتی۔ یہ تین باتیں (۱)جماعت احمدیہ کے نظام اور (۲) اس کی موجودہ وسعت اور (۳) اس کے مستقبل سے تعلق رکھتی ہیں۔
سو جماعت کے نظام کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ سلسلہ احمدیہ منہاج نبوت پر قائم ہے اس لئے اصولی رنگ میں اس کا وہی نظام ہے جو ہر الٰہی سلسلہ کا ہوا کرتا ہے اور وہ نظام یہی ہے کہ جب خداتعالیٰ ایک نبی کے ذریعہ کسی سلسلہ کی بنیاد رکھتا ہے تو اسکے بعد وہ جب تک مناسب اور ضروری سمجھتا ہے اس نبی کے متبعین میں سے اس کے خلفاء قائم کر کے اس سلسلہ کو ترقی دیتا ہے ان خلفاء کو جملہ اہم امور میں جماعت سے مشورہ لینے کا حکم ہوتا ہے مگر چونکہ ان کا اصل سہارا خدا کی نصرت پر ہوتا ہے اس لئے وہ اس مشورہ کے پابند نہیں ہوتے بلکہ جس طرح خدا ان کے دل میں ڈالتا ہے جماعت کے کام کو چلاتے ہیں۔ دراصل خلفاء کو اپنے روحانی منصب کی وجہ سے یہ حکم ہوتا ہے کہ ہر بات میں خدا کی طرف نظر رکھیں اور اسی کی مدد پر بھروسہ کریں۔ گویا ان کا مقام توکل کا مقام ہوتا ہے لیکن اگر انہیں لوگوں کے مشورہ کا پابند کر دیا جائے اور وہ دوسروں کی رائے پر چلنے کے لئے مجبور ہوں تو اس پابندی اور اس مجبوری کے ساتھ ہی توکل کا خیال دھوآں ہو کر اڑ جاتا ہے اسی لئے قرآن شریف نے توکل کو مشورہ کے مقابل پر رکھ کر بیان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مشورہ تو ضرور لو۔ مگر آخری فیصلہ خدا کی نصرت پر بھروسہ کرتے ہوئے خود کرو تا کہ توکل کے مقام پر قائم رہ سکو۔بہر حال خلفاء جماعت کے مشورہ کو قبول کرنے کے پابند نہیں ہوتے مگر خود ان کا حکم جماعت کے لئے واجب التعمیل ہوتا ہے۔ پس مختصر طور پر تو یہی جماعت احمدیہ کا نظام ہے اور ہمارے نظام کا مستقل حصہ صرف اسی حد تک محدود ہے اور اس سے زیادہ نہیں۔ لیکن جس طرح ہر سلسلہ تفصیلات میں اپنا الگ الگ رستہ قائم کر لیتا ہے اسی طرح بعض تفصیلی امور میں جماعت احمدیہ میں بھی بعض طریق قائم ہو چکے ہیں اور انہیں شامل کر کے جماعت احمدیہ کا موجودہ نظام مندرجہ ذیل صورت میں سمجھا جا سکتا ہے۔
(۱) اوّل خلیفہ وقت ہے جو جماعت کے نظام کا مستقل اور مرکزی نقطہ ہے اور اس قید کے ساتھ کہ وہ کوئی حکم شریعت اسلامی اور اپنے نبی متبوع کی ہدایات کے خلاف نہیں دے سکتا (اور ایسا ہونا ممکن ہی کہاں ہے) اسے کلی اختیارات حاصل ہیں۔
(۲) دوسرے صدر انجمن احمدیہ ہے جو سلسلہ کے کاموں کو چلانے کے لئے خلیفہ وقت کے ماتحت ایک مرکزی اور انتظامی انجمن ہے جس کے ممبر مختلف صیغوں کے انچارج ہوتے ہیں اور ناظر کہلاتے ہیں۔ مگر خلیفہ وقت کے حکم سے ایسے ممبر بھی مقرر ہو سکتے ہیں جن کے پاس کسی صیغہ کا چارج نہ ہو۔ موجودہ وقت میں مندرجہ ذیل نظارتیں قائم ہیں۔
(۱) نظارت اعلیٰ (۲) نظارت دعوۃ وتبلیغ (۳) نظارت تعلیم و تربیت (۴)نظارت تالیف و تصنیف (۵) نظارت ضیافت (۶) نظارت مقبرہ بہشتی (۷) نظارت امور خارجہ (۸) نظارت امور عامہ اور (۹) نظارت بیت المال۔ یہ سب نظارتیں صدر انجمن احمدیہ کے ماتحت ہیں اور اسی کا حصہ ہیں۔
(۳) تیسر ے مجلس مشاورت ہے جو صدر انجمن احمدیہ کے مقابل پر یعنی اس کے متوازی ایک مشیر انجمن ہے۔ اس مجلس کا عموماً سال میں ایک دفعہ اجلاس ہوتا ہے مگر اس کے علاوہ بھی جب خلیفہ وقت چاہے اس کا اجلاس منعقد کر سکتا ہے۔ یہ مجلس صدر انجمن احمدیہ کے ماتحت نہیں بلکہ اسی طرح براہ راست خلیفۂ وقت سے تعلق رکھتی ہے جس طرح صدر انجمن تعلق رکھتی ہے۔ گویا صدر انجمن احمدیہ ایک انتظامی انجمن ہے اور مجلس مشاورۃ گویا ایک رنگ میں مجلس واضع قوانین کی قائم مقام ہے مگر یہ مشابہت صرف ایک جزوی مشابہت ہے ورنہ حقیقۃً مجلس مشاورت کو یہ پوزیشن حاصل نہیں ہے۔
(۴) چوتھے مقامی انجمنیں ہیں جو ہر شہر یا قصبے ۱؎ میں جہاں جہاں احمدی پائے جاتے ہیں قائم ہیں۔ یہ انجمنیں انتظامی لحاظ سے صدر انجمن احمدیہ کے نظام کا حصہ ہیں اور اپنے اپنے محدود حلقہ میں صدر انجمن احمدیہ والے فرائض سر انجام دیتی ہیں۔ مگر ایک کام ان کا یہ بھی ہے اپنے اپنے حلقہ میں سے مجلس مشاورت کے لئے نمائندے منتخب کر کے بھجوائیں۔
بس اس وقت تک سلسلہ احمدیہ کے نظام کا یہی ڈھانچہ ہے مگر جیسا کہ بتایا جا چکا ہے اس نظام کا اصل اور مستقل حصہ صرف خلافت کا وجود ہے اور باقی باتیں تفصیلات میں داخل ہیں اور حسب ضرورت ان میں ترمیم یا تبدیلی ہو سکتی ہے۔
سلسلہ کے محاصل کا یہ انتظام ہے کہ ہر احمدی سلسلہ کی خدمت اور اعانت کے لئے اپنی مالی حیثیت کے مطابق چندہ دیتا ہے مگر چندے کی کئی قسمیں ہیں (۱) چندہ عام ۔ جو ہر احمدی پر واجب ہے۔ اس چندہ کی شرح ایک آنہ فی روپیہ مقرر ہے (۲) چندہ وصیت ۔ جو صرف ایسے اشخاص پر واجب ہوتا ہے جو مقبرہ بہشتی کے انتظام کے ماتحت سلسلہ کے حق میں وصیت کریں۔ اس چندہ کی شرح آمد کے ۱۰؍۱ حصہ سے لے کر ۳؍۱ حصہ تک ہے۔ بلکہ اس چندہ کے علاوہ وصیت کرنے والے کو اسی شرح سے اپنی جائداد کے حصہ کی بھی صدر انجمن احمدیہ کے حق میں وصیت کرنی پڑتی ہے۔ (۳) چندہ جلسہ سالانہ جو سال میں ایک مہینہ کی آمد کا پندرہ فی صدی دینا پڑتا ہے۔ اور (۴) چندہ تحریک جدید جو حال ہی میں شروع ہوا ہے۔ اس چندہ سے تحریک جدید کے کاموں کو چلایا جاتا ہے اس چندہ کے لئے کوئی شرح مقرر نہیں بلکہ ہر شخص کے اخلاص اور توفیق پر اسے چھوڑا گیا ہے مگر بالعموم جماعت احمدیہ کے مخلص احباب اس چندہ میں بہت شوق سے حصہ لیتے ہیں اور گو سارے احمدی اس میں شریک نہیں کیونکہ یہ چندہ لازمی نہیں مگر اس چندہ کی مجموعی آمد چندہ عام کی آمد سے کم نہیں رہتی بلکہ اس سے بھی آگے نکل جاتی ہے۔ ان چار باقاعدہ چندوں کے علاوہ بہت سے خاص چندے بھی ہیں جو وقتی اور خاص ضروریات کے لئے جمع کئے جاتے ہیں اور یہ بھی بعض اوقات اچھے بھاری ہوتے ہیں۔ ان جملہ چندوں کو ملا کر دیکھا جائے تو جماعت کی چندوں کی مجموعی اوسط ہر فرد کی آمد کے پانچویں حصہ کے برابر بنتی ہے مگر یہ اوسط ساری جماعت کے لحاظ سے ہے ورنہ کئی مخلص اس سے بہت زیادہ دیتے ہیں۔
جو چندہ بھی مرکز میں آتا ہے وہ صدر انجمن احمدیہ کے خزانے میں ایک مستقل اور ذمہ وار افسر کی نگرانی میں رہتا ہے جس کے ماتحت ایک خاصہ عملہ کام کرتا ہے اور خزانہ میں روپیہ کا ادخال اور پھر خزانے سے روپیہ کی برآمدگی باقاعدہ تحریری طریق پر عمل میں آتی ہے اور ہر چیز کا پورا پورا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔
جماعت احمدیہ کی موجودہ وسعت
یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کی موجودہ وسعت کیا ہے۔ یعنی جماعت کی موجودہ تعداد کیا ہے اور جماعت کہاں کہاں پائی جاتی ہے ۔ اس سوال کے پہلے حصہ کے ساتھ ہمیں چنداں دلچسپی نہیں۔ کیونکہ ہمارے اندر اس اصول کو راسخ کر دیا گیا ہے کہ اصل چیز کام ہے نہ کہ تعداد۔ اسی لئے اس بارے میں ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اگر ہماری تعداد زیادہ ہے تو اس لحاظ سے ہم خداتعالیٰ کے شکر گزار ہیں کہ اس نے اتنے قلیل عرصہ میں اتنی مخالفت کے باوجود ہمیں اتنی ترقی دے دی۔ اور اگرہماری تعداد تھوڑی ہے تو پھر ہم اس لحاظ سے اور بھی زیادہ خدا کے شکر گزار ہیں کہ باوجود تعداد کی اس قدر کمی کے خدا نے جماعت کو اتنے عظیم الشان کام کے سر انجام دینے کی توفیق دی۔ اس طرح ہمارے لئے دونوں پہلو بابرکت ہیں۔اگر ہم زیادہ ہیں تو ہماری ترقی خدائی نصرت کی دلیل ہے اگر تھوڑے ہیں تو ہمارا کام اس کی نصرت پر شاہد ہے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ ہم ابھی تک بہت تھوڑے ہیں۔ چونکہ جماعت احمدیہ نہ صرف ہندوستان کے ہر حصہ میں بلکہ دنیا کے بیشتر حصوں میں منتشر صورت میں پھیلی ہوئی ہے اس لئے ہمیں ابھی تک اس کی صحیح تعداد کا اندازہ نہیں ہو سکا۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی آخر عمر کے قریب اپنی جماعت کا اندازہ چار لاکھ لگایا تھا۔ اگر اسی پر قیاس کیا جاوے تو ہماری تعداد اس وقت پندرہ لاکھ کے قریب ہونی چاہئے مگر ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہماری یہ تعداد نہیں ہے دراصل حضرت مسیح موعود ؑ کے اندازے میں صرف باقاعدہ بیعت شدہ احمدی ہی شامل نہیں تھے بلکہ ایسے لوگ بھی شامل تھے جو دل میں احمدیت کی صداقت کے قائل ہو چکے ہیں مگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے اظہار کی ہمت نہیں پاتے اور اس تعریف کے مطابق یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ موجودہ تعداد پندرہ بیس لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہو یا اس سے بھی زیادہ ہو۔ مگر منظم اور ظاہر میں نظر آنے والی جماعت یقینا اس سے بہت کم ہے اور اصل علم خدا کو ہے۔
ایک اور طریق جماعت کی وسعت اور ترقی کے اندازہ کرنے کا یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے جلسہ کی شرکت سے اندازہ لگایا جائے۔ اور یہ مطالعہ ویسے بھی دلچسپ ہے۔ سو جماعت کے سب سے پہلے جلسہ سالانہ میں جو ۱۸۹۱ء میں ہوا شریک ہونے والوں کی تعداد ۷۵ تھی اور حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ کے آخری جلسہ میں جو ۱۹۰۷ء کے دسمبر میں ہوا یہ تعداد دو ہزار سے اوپر تھی۔ ۱؎ پھر اس کے بعد حضرت خلیفہ اوّل ؓ کا زمانہ آیا تو آپ کے زمانہ کے آخری جلسہ میں جو ۱۹۱۳ء کے دسمبر میں ہوا جلسہ کے مہمانوں کی تعداد تین ہزار سے اوپر تھی۔ ۲؎ اس کے بعد ہمیں آخری اعداد و شمار ۱۹۳۸ء کے جلسہ سالانہ کے حاصل ہیں جن میں جلسہ کے مہمانوں کی تعداد تیس ہزار سے اوپر تھی ۔ ۳؎ گویہ حساب بھی بعض بہت سے غلطی کا امکان رکھتا ہے مگر بہر حال نسبتی ترقی کو دیکھنے کے لئے یہ ایک فی الجملہ اچھا معیار ہے۔
اب رہا دوسرا سوال کہ اس وقت جماعت احمدیہ کہاں کہاں پائی جاتی ہے ۔ سو یہ سوال کئی لحاظ سے زیادہ اہم ہے اور ہم بھی خدا کے فضل سے اس سوال کا جواب زیادہ تعیین کے ساتھ دے سکتے ہیں۔ اس تعلق میں یہ جاننا چاہئے کہ طبعاً اور قدرتی طورپر جماعت احمدیہ کی سب سے بڑی تعداد پنجاب میں ہے جس کے اضلاع گورداسپور اور سیالکوٹ اور ہوشیار پور اور گجرات دوسروں سے پیش پیش ہیں۔ اس کے بعد خدا کے فضل سے ہندوستان کے ہر صوبہ میں احمدی پائے جاتے ہیں۔ مگر بنگال اور صوبہ سرحد میں جماعت کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے اور باقیوں میں کم اور غالباً سب سے کم تعداد صوبجات متوسط میں ہے۔ ہندوستانی ریاستوں میں پنجاب کی وسطی ریاستوں اور ریاست کشمیر اور ریاست حیدر آباد دوسروں سے آگے ہیں اور باقیوں میں تعداد کم ہے۔
ہندوستان سے باہر غالباً سب سے بڑی تعداد مغربی افریقہ میں ہے اور اس کے بعد جزائر شرق الہند میں۔ مگر افغانستان میں بھی امید کی جاتی ہے کہ اچھی تعداد ہو گی گو اس کے متعلق کوئی بات یقینی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔ ان کے علاوہ مشرقی افریقہ۔ جزیرہ ماریشس۔ سیلون۔ برما۔ مصر و فلسطین ۔ انگلستان اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں تھوڑی تھوڑی جماعتیں پائی جاتی ہیں ۔ یعنی کسی میں کم اور کسی میں زیادہ۔ بلکہ ان علاقوں سے باہر بھی احمدی موجود ہیں مگر ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ حضرت مسیح موعود کے عالمگیر مشن کے مقابلہ پر یہ وسعت آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اور ہم اس کمی کو اچھی طرح محسوس کرتے ہیں مگر یہ احساس ہمیں اپنی نظروں میں چھوٹا کر کے نہیں دکھاتا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس وقت ہماری حالت محض ایک بیج کی ہے پس یہ احساس ہمارے لئے سُبکی کا موجب نہیں بلکہ ہمارے فرائض کو یاد دلا کر ایک تازیانہ کا کام دیتا ہے۔
اپنے غیر احمدی اور غیر مسلم ناظرین سے ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ جب وہ ہماری اس ابتدائی حالت پر نگاہ ڈالیں تو اس کے مقابلہ کے لئے اقوامِ عالم کی موجودہ حالت کو نہ دیکھیں ۔ بلکہ ان قوموں کے آغاز کو دیکھیں ۔ مثلاً وہ مسیحیت کی موجودہ وسعت کی بجائے آج سے انیس سو سال پہلے جا کر اس نظارہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے لائیں کہ جب یہودی لوگ حضرت مسیح کو پکڑ کر صلیب پر چڑھانے کی غرض سے لئے جا رہے تھے اور مسیح کے چند گنتی کے حواری سہم کر اور خوف کھا کر ادھر ادھر چھپتے پھرتے تھے اگر موسوی مسیح کے اس بیج نے وہ درخت پیدا کیا ہے جو آج مسیحی اقوام کے عالمگیر اقبال کی صورت میں آرہا ہے تو ہمارا مسیح تو محمدی مسیح ہے جو چمنستان احمد کا گل سر سید ہے پس ۔
قیاس کن زِگلستان من بہارِ مرا








احمدیت کا مستقبل
جیسا کہ ہم نے گذشتہ باب میں اشارہ کیا تھا ہر الٰہی سلسلہ دنیا میں ایک بیج کے طور پر قائم کیا جاتا ہے اس لئے اس کی ابتدا بہت چھوٹی ہوتی ہے مگر آہستہ آہستہ وہ ترقی کر کے ایک بہت بھاری درخت بن جاتا ہے۔ پس یہی ازلی قانون احمدیت کے لئے بھی مقدر ہے بلکہ احمدیت کے متعلق تو خاص طور پر یہ ذکر آتا ہے کہ اس کی ابتداء بہت ہی کمزوری کی حالت میں ہو گی اور ابتدائی مرحلوں میں اس کا بڑھائو بھی بہت آہستہ آہستہ ہو گا مگر باوجود اس کے اس کا قدم ایسے رنگ میں اٹھے گا کہ باریک نظر سے دیکھنے والے اس کی اٹھان میں اس کے انتہا کی جھلک پالیں گے چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب آخری زمانہ میں حضرت مسیح ناصری کا مثیل آئے گا تو اس کے سلسلہ کی ابتداء اس کمزور کونپل کی طرح ہو گی جو زمین میں سے ایسی حالت میں نکلتی ہے کہ اس کا دیکھنا تک مشکل ہوتا ہے مگر اس کے بعد یہ سلسلہ آہستہ آہستہ بڑھتا جائے گا اور یہ نازک کونپل پہلے ایک کمزور سا پودا بنائے گی اور پھر درجہ بدرجہ درخت کی صورت اختیار کر کے بڑھتی جائے گی اور بالآخر ایک نہایت عظیم الشان درخت بن جائے گی نیز فرماتا ہے کہ اس کونپل کی اُٹھان ایسی ہو گی کہ جہاں ایک طرف اس بیج کے بونے والے اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہوں گے وہاں اسے مٹانے والے اس کی بڑھوتی کو دیکھ کر غصہ سے بھرتے جائیں گے۔ ۱؎ پس سلسلہ احمدیہ کی ترقی ایک پودہ کی طرح بہت آہستہ آہستہ مقدر ہے مگر یہ ترقی ایسے رنگ میں ہونے والی ہے کہ دوست و دشمن اس کی اٹھان میں اس کے مستقبل کی کسی قدر جھلک دیکھ سکیں گے۔ چنانچہ ہمارے ناظرین دیکھ سکتے ہیں کہ اس وقت تک جو سلسلہ احمدیہ پر پچاس سال گزر رہے ہیں خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے ساتھ بعینہٖ یہی سلوک فرمایا ہے اور بالکل قرآنی نقشے کے مطابق جماعت کا قدم اٹھ رہا ہے۔
مگر اس جگہ ہم اپنے ناظرین کو کسی حد تک وہ نقشہ بھی دکھا دینا چاہتے ہیں جو جماعت کی آئندہ ترقی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ کے الہامات و کشوف میں بیان فرمایا ہے۔ یہ نقشہ طبعاًبہت مجمل اور مختصر پیمانہ پر ہے مگر اس سے ایک عقلمند آدمی سلسلہ کی آئندہ ترقی اور اس ترقی کی نوعیت کا کسی قدر اندازہ لگا سکتا ہے۔ سو سب سے پہلے تو ہم حضرت مسیح موعود کا وہ الہام درج کرنا چاہتے ہیں جس میںخداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑکے سلسلہ کی ترقی کے مختلف مراحل بیان فرمائے ہیں۔ چنانچہ ابھی حضرت مسیح موعود ؑ کے دعویٰ کی ابتداء ہی تھی کہ خدا نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا۔
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ فَبَرَّأَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا ـ وَکَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیْھًا ـ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّاوَاللّٰہُ مُوْھِنُ کَیْدَالْکَافِرِیْنَ ـ بَعْدَ الْعُسْرِیُسْرٌ ـ وَلِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ ـ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ ۔ وَلِنَجْعَلَہٗ اٰیـَۃً لِلنَّاسِ وَرَحْمَۃً مِّنَّا وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا ـ قَوْلُ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ تَمْتَرُوْنَ ـ ۱؎
’’یعنی کیا خدا اپنے اس بندے کی نصرت کے لئے کافی نہیں جسے اس نے دنیا میں اصلاح کے لئے مبعوث کیا ہے خدا اسے ان الزاموں سے بری کرے گا جو لوگ اس پر لگائیں گے اور دنیا خواہ کچھ کہے وہ خدا کے دربار میں عزت والا ہے۔ ہاں ہم دوبارہ کہتے ہیں کہ کیا خدا اپنے اس بندے کی نصرت کے لئے کافی نہیں۔ جب لوگ اس بندے کے رستے میں مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیں گے تو خدا ان پہاڑوں کو پاش پاش کر کے اڑادے گا۔ اور خدا ان خفیہ سازشوں کو بھی ملیامیٹ کر دے گا جو اس کے منکر اس کے خلاف کر یں گے اور ان مشکلات کے زمانہ کے بعد آسانی کا زمانہ آئے گا اور حکومت تو آگے اور پیچھے سب خدا ہی کی ہے کسی وقت مخفی اور کسی وقت ظاہر۔ ہم تیسری دفعہ کہتے ہیں کہ کیا خدا اپنے اس بندے کی نصرت کے لئے کافی نہیں۔ ہاں وہی خدا جواب اپنے اس بندے کو دنیا کے لئے ایک نشان بنا نے والا ہے اور اسے اپنی رحمت کا علمبردار بنا کر اس کے ذریعہ دنیا میں امن قائم کرنے والا ہے۔ یہ خدا کی تقدیر ہے جو بہر حال ہو کر رہے گی۔ پس لوگو سن لو اور یاد رکھو کہ یہی وہ بات ہے جس میں تم اس وقت شک میں پڑے ہوئے ہو۔
ان الہامات میں خدا نے نہایت لطیف رنگ میں نہ صرف جماعت کے آئندہ حالات کا ایک فوٹو کھینچ دیا ہے۔ بلکہ سارے درمیانی مراحل بیان کرکے اس آخری نقشہ کی جھلک بھی دکھا دی ہے جو سب سے آخر میں ظاہر ہونے والا ہے پھر فرماتا ہے۔
یَا عَیْسٰے اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ۱؎
یعنی اے خدا کے مسیح دنیا کے لوگ تیرے مٹانے کے لئے طرح طرح کی چالیں چلیں گے۔ لیکن ہم خود تیری حفاظت کریں گے اور تیرا انجام ہمارے ہاتھوں میں ہو گا۔ اور خدا تجھے عزت کے ساتھ اپنی طرف اٹھائے گا اور تجھے ان تمام الزاموں سے بری کرے گا جو تیرے منکر تجھ پر لگائیں گے اور خدا تیرے ماننے والوں کو قیامت کے دن تک تیرے انکار کرنے والوں پرغالب رکھے گا۔
اس الہام میں بھی جماعت کے لئے عظم الشان ترقیات کا وعدہ دیا گیا ہے جس کا دامن قیامت تک وسیع ہے اور خدا نے اس بات کی خوشخبری دی ہے کہ جماعت احمدیہ دنیا کے آخری دنوں تک حضرت مسیح موعود ؑ کے منکروں پر غالب چلی جائیں گی اور یہ غلبہ ہر رنگ کا ہو گا یعنی کسی زمانہ میں کسی رنگ کا اور کسی زمانہ میں دوسرے رنگ کا ۔لیکن بہر حال اب قیامت کے دن تک اس غلبہ میں کوئی بات رخنہ انداز نہیں ہو سکتی۔ پھر خداتعالیٰ حضرت مسیح موعود ؑ سے فرماتا ہے۔
میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہانتک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے …… عالم کشف میں وہ بادشاہ دکھائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے اور چھ سات سے کم نہ تھے …… یہ برکت ڈھونڈنے والے بیعت میں داخل ہوں گے اور ان کے بیعت میں داخل ہونے سے گویا سلطنت بھی اسی قوم کی ہو گی۔ ۱؎
پھر آنے والے انقلابات کی ایک جھلک دکھاتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں۔
’’میں نے دیکھا کہ زارروس کا سونٹا میرے ہاتھ میں آ گیا ہے۔ وہ بڑا لمبا اور خوبصورت ہے اور اس سونٹے میں پوشیدہ نالیاں بھی ہیں۔ گویا بظاہر سونٹا معلوم ہوتا ہے اور وہ بندوق بھی ہے۔ ۲؎
اور پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’دیکھا کہ خوارزم بادشاہ جو بوعلی سینا کے وقت میں تھا جو اپنے عدل کے واسطے مشہور ہے اس کی تیر کمان میرے ہاتھ میں ہے اور اس بادشاہ اور بوعلی سینا کو بھی میں اپنے پاس کھڑا ہوا دیکھتا ہوں اور میں نے اس تیرکمان سے ایک شیر کو ہلاک کر دیا ہے۔‘‘ ۳؎
ان کشوف اور خوابوں کا مطلب ظاہر ہے مگر چونکہ ہر نئی عمارت پرانی عمارت کی ویرانی کے بعد کھڑی کی جاتی ہے۔ اس لئے دنیا کی آئندہ تباہی کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں۔
’’وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے۔ یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں ۔ اگر میں نہ آیا ہوتا تو ان بلائوں میں کچھ تاخیر ہو جاتی۔ پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے… کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم ان زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو ؟ ہرگز نہیں۔… اے یورپ ! تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا! تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خداتمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا۔ مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا۔ جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کر وں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔‘‘ ۱؎
اور پھر علیحدہ علیحدہ قوموں کے متعلق الگ الگ ذکر کرتے ہوئے ہندوئوں کے فرقہ آریہ کے متعلق فرماتے ہیں۔
’’جس مذہب میں روحانیت نہیں …… وہ مذہب مردہ ہے ۔ اس سے مت ڈرو۔ ابھی تم میں سے لاکھوں اور کروڑوں انسان زندہ ہوں گے کہ اس مذہب (آریہ) کو نابود ہوتے دیکھ لوگے۔‘‘ ۲؎
اور عام ہندوئوں کے متعلق فرماتے ہیں۔
’’ مجھے یہ بھی صاف لفظوں میں فرمایا گیا ہے کہ پھر ایک دفعہ ہندو مذہب کا اسلام کی طرف زور کے ساتھ رجوع ہو گا۔‘‘ ۱؎
اور عیسائیوں کے متعلق فرماتے ہیں۔
یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے …… اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی۔… اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی۔ تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گذر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسیٰ اب تک آسمان سے نہ اترا ۔ تب دانش مند یکدفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہو گی کہ عیسیٰ کا انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس عقیدہ کو چھوڑیں گے۔‘‘ ۲؎
اور عام مغربی اقوام کے متعلق فرماتے ہیں۔
’’میں دیکھتا ہوں کہ ایک بڑا بحرِذخّار کی طرح دریا ہے جو سانپ کی طرح بل پیچ کھاتا مغرب سے مشرق کو جارہا ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے سمت بدل کر مشرق سے مغرب کو الٹا بہنے لگا ہے۔‘‘ ۳؎
اس نہایت لطیف رئویا میں حضرت مسیح موعود کو یہ نظارہ دکھایا گیا ہے کہ اس زمانہ میں مغربی اقوام نے جو غیر معمولی اثر اپنے ظاہر ی علم اور دولت اور طاقت اور سیاست وغیرہ کی وجہ سے مشرقی اقوام پر قائم کر رکھا ہے یہ اثر قریب کے زمانہ میں احمدیت کے ذریعہ زائل ہو جائے گا اور جب مغرب کا یہ طلسم ٹوٹے گا تو پھر اسی طرح مشرق سے مغرب کی طرف دریا بہنے لگے گا جس طرح کہ اب مغرب سے مشرق کی طرف بہہ رہا ہے۔
اور پھر غیر احمدی مسلمانوں کے متعلق فرماتے ہیں۔
’’مقدریوں ہے کہ وہ لوگ جو اس جماعت سے باہر ہیں وہ دن بدن کم ہو کر اس سلسلہ میں داخل ہوتے جائیں گے یا نابود ہوتے جائیں گے جیسا کہ یہودی گھٹتے گھٹتے یہاں تک کم ہو گئے کہ بہت ہی تھوڑے رہ گئے۔‘‘ ۱؎
پھر فرماتے ہیں۔
’’دیکھو وہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا اس سلسلہ کی دنیا میں بڑی قبولیت پھیلائے گا اور یہ سلسلہ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب میں پھیلے گا اور دنیا میں اسلام سے مراد یہی سلسلہ ہو گا۔ یہ باتیں انسان کی باتیں نہیں یہ اس خدا کی وحی ہے جس کے آگے کوئی بات اَنہونی نہیں۔‘‘ ۲؎
اور بالآخر اپنی جماعت کی مجموعی ترقی کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’ اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا۔ وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پران کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا ۔ خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا۔ اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی …… دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا۔ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں۔ سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔‘‘ ۳؎
دوستو! یہ اس عظیم الشان درخت کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے جو احمدیت کے بیج سے پیدا ہونے والا ہے۔ اب تمہیں اختیار ہے کہ چاہو تو بیج کو دیکھ کر ایمان لے آئو اور چاہو تو درخت کا انتظار کرو۔ وماعلینا الا البلاغ۔ و آخر دعوٰنا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔
تمت بالخیر
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
سلسلہء احمدیہ ۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ ۔ جلد 2 ۔ یونی کوڈ


س
اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ الٰہی سلسلوں کی مخالفت ضرور ہوتی ہے اور بد خواہ اللہ تعالیٰ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں مگر بالآخر وہ ناکام ہوتے ہیں۔چنانچہ جماعت کی مخالفت میں بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا۔کفر کے فتوے تیار کئے گئے۔استہزاء کیا گیا۔ جب اس سے بھی کچھ نہ بنا تو جھوٹے مقدمات بنائے گئے مگر اللہ تعالیٰ کا قوی ہاتھ اپنے مامور کی حفاظت کرتا رہا۔سب معاندین نے آپس میں اختلافات بھلاکر مشترکہ زور لگایا مگر پھر بھی ناکام رہے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا تو اس ناکام گروہ نے سکھ کا سانس لیا کہ اب تو اس سلسلے کا خاتمہ ہو نا یقینی ہے مگر اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے تھے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو دوام بخشنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جماعت میں خلافت کا نظام قائم فرمایا اورخدا نے قدرتِ ثانیہ کے ذریعہ اپنے لگائے ہوئے پودے کی حفاظت فرمائی۔بہت سے اندرونی فتنے طوفان کی طرح اٹھے اورگردکی طرح بیٹھ گئے وہ خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔پھر احرار نے ایک طوفانِ بد تمیزی اٹھایا ۔کچھ انگریز افسر ان کی پیٹھ ٹھونک رہے تھے۔مگر۱۹۳۹ء میں وہ بھی جھاگ کی طرح بیٹھتے نظر آرہے تھے۔ان کا زور ٹوٹ چکا تھا۔دوسری طرف جماعت نہ صرف ہندوستان میں ترقی کر رہی تھی بلکہ اب برصغیر سے باہر بھی بہت سے ممالک میں ہزاروں سعید روحیں احمدیت کے دامن میں پناہ لے رہی تھیں۔انگلستان اور یورپ میںمشن قائم ہو چکے تھے ۔ امریکہ میں جماعت قائم ہو گئی تھی۔مغربی افریقہ میں احمدیت تیزی سے پھیل رہی تھی۔جاوا اور سماٹرا میں بہت سے لوگ صداقت کو قبول کرچکے تھے ۔نامساعد حالات کے باوجود مبلغین جنوبی امریکہ ،چین ، سنگاپور اور مشرقی یورپ میں اپنے فرائض ادا کر رہے تھے۔یقیناََ دنیا کی نظریں آج بھی جماعتِ احمدیہ کو حقیر سمجھ رہی تھیں اور وہ اسے ایک کمزور گروہ خیال کر رہے تھے۔مگر خدا کے ہاتھ کا لگایا ہؤا پودا بڑھ رہا تھا اور مضبوط ہو رہا تھا۔اس کی شاخیں ہرطرف پھیل رہی تھیں۔۱۹۳۹ء کا سال جماعتِ احمدیہ کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔اس سال جماعت کے قیام پر پچاس سال مکمل ہو رہے تھے۔ نیز حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خلافت کے پچیس سال مکمل ہونے پر خلافت جوبلی منانے کے ایام قریب آرہے تھے۔اسی سال حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ نے جماعتی تاریخ کی مختصر کتاب’ سلسلہ احمدیہ‘ کو تحریر فرمایا اور اس میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاندانی پس منظر،دعاوی اور تعلیمات کا مختصر ذکر کرنے کے بعد ۱۹۳۹ء تک جماعت ِ احمدیہ کی مختصر تاریخ رقم فرمائی۔اس سال جوبلی جلسے سے قبل یہ کتاب شائع ہو کر لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ چکی تھی۔
ہم اس مضمون کو وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓنے ختم فرمایا تھا۔سب سے پہلے ہم ایک نئے خطے یعنی مشرقی افریقہ میں جماعت کے آغاز اور مشن کے قیام اور تبلیغی مساعی کا جائزہ لیتے ہیں۔اور اس کے بعد دنیا بھر میں جاری تبلیغی مساعی اور ان کے ثمرات کا مختصراََ جائزہ لیں گے۔
ڈاکٹر مرزا سلطان احمد
برطانوی مشرقی افریقہ میں جماعت کا قیام
اس خطے میں کینیا ،یوگنڈا اور تنزانیہ کے ممالک آتے ہیں۔ہم جس دور کا ذکر کر رہے ہیں،اس میں آج کا تنزانیہ،زنجبارکی سلطنت اور ٹانگا نیکا کے علاقے میں منقسم تھا جو بعد میں مل کر ایک ملک بن گیا۔اس دور میں یہ علاقہ برطانیہ کے زیرِ تسلط ہونے کی وجہ سے برطانوی مشرقی افریقہ کہلاتا تھا۔ابتداء میں اس علاقے میں مختلف قبائل آباد تھے اور یہ قبائل مختلف دیوتاؤں کو مانتے تھے۔(۱) پہلی صدی ہجری میں مسلمان یہاں کے ساحلی علاقوں میں آباد ہونا شروع ہو گئے۔سب سے پہلے عمان سے ایک قبیلہ کے لوگ یہاں آئے،جن کا تعلق ابازی فرقہ سے تھا جو خوارج کی ایک شاخ ہے۔ پھر عمان سے ہی شافعی مسلک کے کچھ لوگ مشرقی افریقہ آئے اور اندرونی علاقے میں آباد ہوئے۔ اور اس کے بعد شیراز کے شاہی خاندان کے ایک فرد حسن بن علی کی قیادت میں ایک گروہ سات جہازوں کے بیڑے میں یہاں آ یا۔یہ لوگ شیعہ تھے۔انہوں نے ساحل کے ساتھ چھوٹے چھوٹے جزائر میں رہائش اختیار کی۔ان لوگوں نے مقامی لوگوں میں شادیاں کیں اور ان کی اولاد کو سواحیلی کہا جانے لگا۔پھر مقامی لوگ بھی مسلمان ہونے لگے اور مشرقی افریقہ کے ساحلی علاقوں میں اسلام پھیلنے لگا۔عرب نسل کے لوگوں کی بڑی تعداد ابازی فرقے سے وابستہ تھی ۔زنجبار ابازیوں کا بڑا مرکز سمجھا جاتاتھا اور ان کا سلطان بھی ابازی تھا۔مگر مقامی مسلمانوں کی اکثریت شافعی تھی۔ مسلمانوں نے چار پانچ سو سال مشرقی افریقہ کے ساحلی علاقوں پر حکومت کی مگر اندرونی علاقوں کی آبادی کو اسلام کی تبلیغ کرنے کی کوئی خاص کوشش نہ کی۔اور یہ وسیع علاقہ اسلام کی نعمت سے محروم رہا(۲)۔ انیسویں صدی کے آغاز اور وسط میںزنجبار کے شاہی خاندان کے کاروباری روابط یوگنڈا، روانڈا اور برونڈی تک تھے۔انہوں نے اسلام کی تعلیم کے خلاف غلاموں کی تجارت تو کی مگر اسلام کی تبلیغ پر کوئی توجہ نہ دی۔انیسویں صدی کے پہلے پچاس سال میں ابازی حکمران سعید بن سلطان مسقط اور زنجبار دونوں پر حکومت کر رہے تھے۔مگر اس خطے میں یوروپی اقوام کا تسلط شروع ہو چکا تھا۔اس پس منظر میں 1844ء میںچرچ مشنری سوسائیٹی نے اپنے مشنری Dr. Krapfکو مشرقی افریقہ بھجوایا۔اس علاقے کے با اثر مسلمانوں اور زنجبار کے بادشاہ سعید بن سلطان نے اسلام کی تبلیغ کے لئے تو کچھ نہیں کیا تھا البتہ عیسائی مشنری سے بھر پور تعاون کیا۔اس بادشاہ نے گورنروں کے نام ایک فرمان جاری کیا کہ یہ مشنری ایک اچھا شخص ہے اور لوگوں کو خدا کی طرف بلارہا ہے ۔اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور ہر ممکن سہولت مہیا کی جائے۔اس طرح ممباسہ کے قریب ربائی (Rabai)کے مقام پرپہلا عیسائی مشن قائم ہؤا اور بعد میں وہاں سکول بھی کھولا گیا۔اس کے بعد یوروپی اقوام کا تسلط بڑھتا رہا اور مسلمانوں کی سیاسی قوت سکڑتی رہی ۔مختلف عیسائی مشنری اداروں کے بہت سے مشنری مشرقی افریقہ آنا شروع ہوئے۔انہوں نے یوگنڈا اور دوسرے اندرونی علاقوں میں یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ اسلام آزاد انسانوں کو پکڑ کر غلام بنانے کو جائز قرار دیتا ہے اور ہم سب انسانوں کو خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں۔مسلمان اپنی کم علمی اور زبوں حالی کے باعث اس یلغار کا مقابلہ نہ کر سکے۔ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی رو سے ایک آزاد شخص کو پکڑ کر غلام بنانا اتنا بڑا گناہ ہے کہ حدیث کی رو سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسے ظالم سے جنگ کرے گا اور وہ اگر نمازیں بھی پڑھے گا تو اس کی نمازیں قبول نہیں ہوں گی (۳،۴) ۔اور اگر غلام چاہے تو مکاتبت کے ذریعہ اپنی آزادی حاصل کر سکتا ہے اور زکوۃ کے مال سے اس کی مدد کی جائے گی(۵،۶) ۔نبی اکرم ﷺ نے تو صرف ایک طمانچہ مارنے پر غلام کوآزاد کرنے کا حکم جاری فرمادیا تھا ( ۷)۔جبکہ بائیبل کے قانون کی رو سے کوئی اپنے غلام کو مارے اور ان چوٹوں سے دو تین دن بعد اگر اس غلام کی موت ہو جائے تو اس قاتل مالک پر کوئی گرفت نہیں ہو گی کیونکہ وہ غلام اس کی ملکیت تھا(۸،۹)۔اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یورپ کی عیسائی اقوام نے جتنی بڑی تعداد میں افریقہ کے آزاد باشندوں کو پکڑ کر غلام بنایا ہے،کسی اور قوم میں اس کی مثال نہیں ملتی۔۱۶۰۰ ؁ء تک نو لاکھ غلام صرف امریکہ پہنچائے جا چکے تھے۔سترہویں صدی میں یہ تعداد ستر لاکھ ہو گئی اور اٹھارہویں صدی کے دوران چالیس لاکھ اشخاص کو غلام بنا کر امریکہ بھجوایا گیا۔ان اعدادو شمار میں وہ تعدا شامل نہیں جو دوسرے علاقوں کی طرف بھیجے گئے تھے(۱۰)مگر اسلام کے خلاف غلط پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا اور اندرونی علاقوں کے بہت سے قبائل مکمل حقائق نہیں جانتے تھے،اس لیے اس پراپیگنڈا سے متاثر ہوجاتے تھے ۔ان عیسائی مشنریوں کا طریق یہ تھا کہ کچھ غلاموں کو آزاد کرتے اور اپنا مبلغ بنا کر بھجواتے۔وہ قبائل جو ابھی تک اپنے قبائلی عقائد کے پیروکار تھے بڑی تعداد میں عیسائی ہو گئے۔اور مشرقی افریقہ میں عیسائیوں کی تعداد مسلمانوں سے بہت بڑھ گئی۔لیکن اس کے باوجود یہ بات دلچسپ ہے کہ مغربی مصنفین بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یوروپی اقوام کے تسلط کے دوران بھی باوجود اس کے کہ اس وقت اسلام کی تبلیغ کی کوئی منظم کوشش نہیں ہو رہی تھی،ایک معقول تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا اور بعض عیسائی بھی مسلمان ہوئے۔(۱۱،۱۲)مگر مجموعی طور پر عیسائیوں کی تعداد بڑی تیزی سے بڑھ رہی تھی اوروہ اثرورسوخ اور تعلیم میں بھی آگے نکلتے جا رہے تھے اور ان کے مقابل پر مسلمان دن بدن کمزور ہوتے جا رہے تھے۔اور اس وقت تمام دنیا کی طرح مشرقی افریقہ میں بھی اسلام طرح طرح کے خطرات میں گھرا ہؤا تھا۔یہاں تک کہ نبیِ اکرم ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق آپ کے روحانی فرزند کا ظہور ہؤا اور تبلیغِ اسلام کے جہاد کا نئے سرے سے آغاز ہؤا۔
اس خطے میں احمدیت کا پیغام حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میںہی پہنچ گیا تھا۔سب سے پہلے احمدی جنہوں نے مشرقی افریقہ کے ساحل پر قدم رکھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت میاں محمد افضل صاحبؓ تھے۔آپ ایک بحری جہاز SS Sindhiaکے ذریعے۱۸۹۶ء کے شروع میں ممباسہ پہنچے اور تقریباََ تین برس مشرقی افریقہ میں قیام کیااور پھر ہندوستان واپس آکر اخبار بدر جاری کیا۔معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی آمد سے پہلے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات اور سلسلے کے بعض اخبارات اس علاقے میں پہنچ چکے تھے ۔ان دنوں کینیا یوگنڈا ریلوے کا کام شروع تھا اور ہندوستان سے بہت سے مزدور کلرک ڈاکٹر اور دوکاندار یہاں روزگار کے لئے آرہے تھے۔ حضرت میاں محمد افضل صاحب نے ہندوستانیوں میں تبلیغ کا کام شروع کیا۔ان کی تبلیغی کاوش کو پھل لگنے شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب جو حضرت حافظ روشن علی صاحب ؓ کے بڑے بھائی تھے احمدی ہو گئے۔ڈاکٹر صاحب بہت پر جوش داعی الی اللہ تھے۔آپ جس دن تبلیغ نہ کرتے آپ کو چین نہ آتا۔اللہ تعالیٰ نے آپ کی کوششوں کو ثمر آور کیا اور کئی پنجابی اور ہندوستانی احباب جماعت میں شامل ہونے لگے۔ان کے علاوہ بعض اور احمدی احباب بھی ہندوستان سے اس علاقے میں آگئے۔اس طرح حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں ہی ممباسہ اور نیروبی میں جماعتیں قائم ہو گئیں۔یہاں جماعت کی پہلی مسجدممباسہ میں کلنڈنی کے مقام پر چھپروں کی بنائی گئی تھی۔یوگنڈا کے علاقے میں سب سے پہلے جہلم کے رہنے والے دو اشخاص احمدی ہوئے تھے، پھر وہ یہاں سے بلجین کونگو چلے گئے ۔اس کے بعد ان کے حالات کا علم نہیں ہؤا۔پھر خلافت اولیٰ کے اواخر میں یا خلافتِ ثانیہ کے شروع میں یہاں ہندوستان سے آئے ہوئے کچھ احمدی آباد ہوئے۔ ٹانگا نیکا کا علاقہ۱۹۱۹ء تک جرمنی کے تسلط میں تھااورپہلی جنگِ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد یہ علاقہ برطانیہ کے تسلط میں آگیا۔اس کے بعد خلافتِ ثانیہ میں یہاں جماعت کا قیام عمل میں آیا۔اور دارالسلام ،ٹبورا اور دوسرے مقامات پر ہندوستانی احمدیوں کی جماعتیں قائم ہوئیں۔ (۱۳،۱۴،۱۵)
مگر اب تک اس علاقے کی جماعتیں ہندوستان سے آئے ہوئے احمدیوں پر مشتمل تھیں اور مقامی لوگ جماعت میں شامل ہونا شروع نہیں ہوئے تھے۔گو اس وقت یہاں پر باقاعدہ مشن قائم نہیں ہؤا تھا ،تاہم باقاعدہ نظامِ جماعت جاری ہو گیا تھا اور احمدی احباب احمدیت کی تبلیغ کے لئے کوششیں کر نے کے علاوہ مالی قربانیوں میں بھی حصہ لے رہے تھے۔۱۹۲۳ء میں جماعتِ احمدیہ نیروبی نے پندرہ روزہ البلاغ جاری کیا (۱۶)۔نیروبی کے مقام پر احمدیوں نے خوبصورت مسجد تعمیر کی جو ۱۹۳۱ء میں مکمل ہوئی۔اس کے بعد نیروبی سے دو سو میل ایک قصبہ میرو میں ایک مخلص احمدی کے چندے سے احمدیہ مسجد تعمیر کی گئی۔(۱۷)۔غیر احمدیوں کی طرف سے جماعت کے خلاف گندے اشتہارات شائع کئے جاتے تھے ۔ان کا جواب دینے کے لئے نیروبی جماعت نے ایک پرانی لیتھوہینڈ مشین کو قابلِ استعمال بنا کر اشتہارات شائع کرنے شروع کئے۔جب تبلیغِ احمدیت کا دائرہ وسیع ہؤا تو مخالفینِ احمدیت نے اشتعال میں آکر انجمنِ حمایتِ اسلام کے نام سے اپنی انجمن بنائی اور مشرقی افریقہ کے مختلف مقامات پر اس کی شاخیں قائم کیں اور جماعت کے خلاف گندہ۹
پروپیگنڈا شروع کر دیا۔اس انجمن کا بانی مبانی اور پریذیڈنٹ سید ا حمد الحداد نام کا ایک با اثر اور امیرشخص تھا ۔ ۱۹۳۴ء کے وسط میں مخالفین نے جماعتِ احمدیہ نیروبی کو مباہلہ کا چیلنج دیا۔جماعت کے نمائیندگان مباہلہ کی شرائط طے کرنے کے لئے گئے اور واضح کیا کہ وہ اپنے امام کی اجازت ملنے پر مباہلہ کے لئے تیار ہیں۔غیر احمدیوں نے یہ سن کر کہ احمدی اپنے امام کی اجازت کے بغیر مباہلہ کے لئے تیار نہیں ہوں گے،یہ اشتہار بازی شروع کردی کہ احمدی مباہلہ سے فرار ہو گئے ہیں۔ابھی یہ شور شرابہ جاری تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی طرف سے اجازت کی تار آگئی۔جماعت نیروبی نے مباہلہ کے نام سے اشتہار شائع کر کے شہر کی تمام مساجد میں تقسیم کر دیا کہ مخالف مقابل پر آئیں اور مباہلہ کر لیں۔ یہ سن کر معاندینِ احمدیت کو سانپ سونگھ گیا اور کسی کو سامنے آنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ جماعت نے ایک اشتہار ’آسمانی نصرت کا تازہ نشان ‘شائع کر کے اس روحانی معرکے میں جماعت کی فتح کا اعلان کیا (۱۸)
مگر نیروبی میں مخالفین کی طرف سے مخالفت کا طوفان جاری رہا ۔جماعت کی طرف سے مناظرے کا چیلنج دیا گیا۔اس پر انجمنِ حمایت اسلام نے احمدیت کی مخالفت کے لئے ہندوستان سے مناظر منگوانے کا فیصلہ کیا۔اور ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر زمیندار کی وساطت سے جماعت کے ایک دریدہ دہن مخالف لال حسین اختر کو مشرقی افریقہ بلایا گیا۔(۱۹،۲۰)اس صورتِ حال میں جماعت نیروبی نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں مبلغ بھجوانے کی درخواست بھجوائی۔حضورؓ نے اسے قبول فرماتے ہوئے مکرم مولاناشیخ مبارک احمدصاحب کو مشرقی افریقہ بھجوایا تا کہ اس خطے میں باقاعدہ دارالتبلیغ قائم کیا جائے۔چنانچہ شیخ صاحب ۲۳نومبر ۱۹۳۵ء کو ممباسہ پہنچ گئے۔غیر مسلم مؤرخین بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس خطے میں مسلمانوں کاپہلا تبلیغی مشن جماعتِ احمدیہ کی طرف سے قائم کیا گیا تھا ورنہ اس سے قبل اس طرز پر صرف عیسائی مبلغین ہی کام کر رہے تھے۔(۲۱)انجمنِ حمایت اسلام تو پادریوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے صرف احمدیت کے خلاف دریدہ دہنی میں مصروف تھی۔مشرقی افریقہ میں دارالتبلیغ کے قیام کا مقصد صرف اس مخالف انجمن کا مقابلہ کرنا نہیںتھا۔حضرت مصلح موعودؓ نے بعض اور اہم ہدایات کے ساتھ شیخ مبارک احمد صاحب کو مشرقی افریقہ روانہ فرمایا تھا۔اب تک یہاں کی جماعت صرف ہندوستان سے آئے ہوئے افراد پر مشتمل تھی۔یہاں کے اصل باشندوں میں ابھی احمدیت پھیلنی شروع نہیں ہوئی تھی۔حضورؓ کی ہدایت تھی کہ یہاں کے اصل باشندوں میں کام شروع کیا جائے کیونکہ یہاں جماعت کو حقیقی استحکام تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب یہاں کے اصل باشندوں پر مشتمل جماعت تیار ہوجائے ۔۔(۲۲)بہر حال شیخ صاحب کی آمد کے بعد فوری مسئلہ اس فتنے کا سدِ باب کرنا تھا جوانجمن حمایتِ اسلام کی طرف سے برپا کیا جا رہا تھا۔مولوی لال حسین اختر صاحب نے نیروبی میں جماعت کے خلاف اشتعال انگیز تقریروں کا سلسلہ شروع کیا ہؤا تھا۔۱۹۳۵ء کے شروع میں ،سر علی مسلم کلب کے میدان میں مولاناشیخ مبارک احمد صاحب اورلال حسین اخترصاحب کے درمیان مناظرہ ہؤا۔غیر احمدیوں کے مناظر کی علمی سطح اسی سے ظاہرہوتی ہے کہ مناظرہ سے قبل جب شرائط طے ہو رہی تھیں تو مولوی لال حسین اختر صاحب نے یہ شرط پیش کی کہ مناظرہ میں ہر پیش کردہ اقتباس کا حوالہ دینا ضروری نہیں ہونا چاہئیے(۲۳)۔مسلم اور غیر مسلم احباب کی ایک بڑی تعداد اس کو سننے آئی ہوئی تھی۔نقض ِامن کے اندیشے کے پیشِ نظر پولیس کے اہلکار،افسران اور گھوڑ سوار پولیس ارد گرد چکر لگا رہی تھی۔مناظرہ حیات و وفاتِ مسیح کی بحث سے شروع ہؤا۔غیر احمدی مناظر کی افتادطبع کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حیاتِ مسیح کی پہلی دلیل انہوں نے یہ دی کہ چونکہ محمدی بیگم سے نکاح نہیں ہؤا لہذاٰ ثابت ہؤا کہ آنے والا آسمان پر زندہ موجود ہے۔وفاتِ مسیح کے بعد اجرائے نبوت اور صداقت حضرت مسیح موعودؑ کے موضوعات پر مناظرہ ہؤا۔اس دوران لال حسین اخترصاحب نے اعجاز المسیح میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر پر اعتراض کرنے کی جسارت کی تو احمدی مناظر نے حضرت مسیح موعودؑ کے خادم ہونے کے ناطے چیلنج دیا کہ وہ اپنی مرضی کا رکوع چن لیں اور موجود تمام غیر احمدی علماء اس کی تفسیر لکھیں اور ان کے ساتھ بیٹھ کر احمدی مناظر بھی اسی رکوع کی تفسیر لکھے اور دنیا دیکھ لے کہ خدا تعالیٰ کی نصرت کس کے ساتھ ہوتی ہے مگر لال حسین اخترصاحب نے اس کا یہ نامعقول جواب دیا،’’تم کیا ہستی رکھتے ہو لاؤ میرے مقابل پر مرزا صاحب کو‘‘(۲۴)۔دوران ِمناظرہ وہ کوئی بھی معقول دلائل پیش نہیں کر سکے۔محض ادھر ا’دھر کی باتیں کرکے کج بحثی کرتے رہے جبکہ احمدی مناظر نے قرآن اور حدیث سے اپنے دلائل پیش کئے۔حاضرین پر کھل گیا کہ لال حسین اخترصاحب کا دامن دلائل سے خالی ہے ۔ اس مناظرے میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی دور دور سے آکر شریک ہوئے اور جماعت کی غیرمعمولی کامیابی کو مشاہدہ کیا۔(۲۵)اس کے بعد دوسرے مقامات پر بھی مناظرے ہوئے۔ جب مخالفین نے محسوس کیا کہ احمدیت کی فتح ظاہر ہوتی جا رہی تو مار پیٹ کا راستہ اپنایا۔ Nyeriکے مقام پرجب احمدی مناظرے کے لئے پہنچے تو مخالفین نے احمدیوں پر حملہ کر دیا۔جس کے نتیجے میں شیخ صاحب اور دوسرے احمدی زخمی ہو گئے۔
ایک احمدی سیٹھ عثمان یعقوب صاحب نے پندرہ ہزار شلنگ کا انعام اس شخص کے لئے رکھا ہؤا تھا جو قرآنِ مجید سے حیاتِ مسیح کی تائید میں ایک آیت ہی پیش کر سکے۔لال حسین اختر صاحب کے پہنچنے پر مخالفین نے جوش میں آ کر اشتہار دیا کہ پندرہ ہزار شلنگ کا چیک پیش کرو اور آیت دیکھ لو۔جماعت نے اپنے دو نمائیندوں کو جامع مسجد ان کے جلسے میںچیک دے کر بھجوا دیا ۔انہوں نے وہاں اعلان کیا کہ یہ پندرہ ہزار کا چیک ہے آیت دکھا کر یہ چیک وصول کر لو۔لوگ ہکا بکا رہ گئے کہ مولوی کوئی آیت پیش نہ کر سکے۔اور حاضرین پر ظاہر ہو گیا کہ قرآنِ مجید میں حیاتِ مسیح کا کوئی ذکر نہیں۔(۱۸) مخالفین کے لئے یہ صورتِ حال پریشان کن تھی۔دلائل اور مناظروں سے ان کی دال گلتی نظر نہیں آرہی تھی۔احمدیت کے خلاف گندی تقاریر کا سلسلہ شروع کردیا گیا اور ایسے غلیظ اشتہارات شائع کئے گئے جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ذاتِ اقدس کے خلاف گند اچھالا گیا۔۔اس سے بھی دل نہیں بھراتو احمدیوں کا بائیکاٹ کرنے کی مہم شروع کر دی اور کینیا کے بہت سے شہروں میں احمدیوں کا با ئیکاٹ کر دیا گیا(۲۶)۔ان اوچھے ہتھکنڈوں سے لیس ہو کر لال حسین اختر صاحب یوگنڈا پہنچے۔ جنجہ میں انجمن حمایتِ اسلام کے مقامی سیکریٹری عبدالغفور صاحب انہیں وہاں بلانے کے محرک تھے۔مگر انہوں نے بائیکاٹ کی مخالفت کی۔اس پر لال حسین اخترصاحب ان کے خلاف بھی بھڑک اٹھے۔عبدالغفور صاحب نے جب ان کے اخلاق دیکھے اور جماعت کے عقائد کا مطالعہ کیا تو وہ بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو گئے(۲۷)۔مخالفین ابھی اس خفت سے سنبھلنے نہیں پائے تھے کہ ۱۹۳۶ء کے آخر میں اس فتنے کے بانی مبانی اور انجمن حمایتِ اسلام کے پریذیڈینٹ سید احمد الحاد خدا تعالیٰ کی گرفت میں آکر ایک حادثہ کا شکار ہو گئے۔ ان کی ہلاکت سے انجمن کی مخالفانہ کوششوں میں نمایاں کمی آگئی اور لال حسین اختر صاحب نے بھی بوریا بسترلپیٹا اور ہندوستان واپس آگئے۔(۲۶،۲۸)
اس کے بعد مخالفت کی لہر نے ایک اور رنگ اختیار کیا اور اب جماعت کے مقابل پر دیگر مذاہب کے مخالفین بھی میدان میںاتر آئے۔اب اس کا مرکز ٹانگا نیکا میں ٹبورا کا شہر تھا۔یہاں پر مقیم چند پنجابیوں نے ایک با اثر نیم عرب کے ساتھ مل کر شرارت کرنی شروع کی۔مساجد میں خطبات کے ذریعہ اور فتووں کے ذریعہ لوگوں کو روکنا شروع کیا کہ وہ احمدیوں کی کوئی بات نہ سنیں۔ مکرم شیخ مبارک صاحب کچھ ماہ کے لیے ٹبورا میں مقیم تھے ۔ان مخالفین نے مکرم شیخ صاحب اور دیگر احمدیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات بنانے شروع کر دیے ۔پولیس کا ماتحت عملہ جس میں غیر احمدی پنجابی اور بنگالی ہندو بھی شامل تھے شرارت کرنے والوں سے مل گیا۔مقامی افسران نے بھی مخالفانہ رویہ اختیار کر لیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ ماتحت عدالتوں نے احمدیوں کے خلاف فیصلے کیے۔ مفسدوں نے اس عارضی کامیابی پر بغلیں بجانی شروع کیں۔راہ چلتے احمدیوں پر استہزاء کیا جاتا اور انہیں گالیاں دی جاتیں۔احمدیوں کی نعشوں کو قبرستانوں میں دفن کرنے سے انکار کیا جانے لگا۔کئی احمدی والدین کی اولاد نے ان سے ترک تعلق کر لیا۔بہت سے افسران ان مخالفین کی پیٹھ ٹھونک رہے تھے ،حتیٰ کہ کچھ بے قصور احمدیوں کو پولیس نے زدوکوب کیا۔اس ما حول میں عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی گئی۔ اعلیٰ عدالتوں نے ماتحت عدالتوں کی کارروائی کو غیر مناسب قرار دیتے ہوئے ان کے اکژ فیصلوں کو منسوخ کر دیا،جس سے معاندین کا غیظ و غضب کچھ سرد ہو گیا۔ جہاںاس فتنہ پردازی سے بہت سے لوگ اس بات سے ڈر گئے کہ وہ احمدیوں سے کسی قسم کا رابطہ رکھیں ۔وہاں رفتہ رفتہ مقامی لوگوں میں سعید روحوں پر حقیقت آشکار ہونی شروع ہوئی اور مشرقی افریقہ میں یہ اعزاز سب سے پہلے ٹبورا کو ہی حاصل ہؤا کہ وہاں پر رفتہ رفتہ مقامی افراد جماعت میں داخل ہونے لگے۔اور ارد گرد کے دیہات میں بھی ایک ایک کر کے متعدد افراد نے احمدیت قبول کی۔انہی عوامل کی وجہ سے پہلا باقاعدہ دارالتبلیغ ٹبورا میں ہی قائم کیا گیا۔احمدیت قبول کرنے والے ان احباب میں سے بعض بزرگان ایسے تھے جنہوں نے تمام دنیاوی کام چھوڑ کر کل وقتی طور پر خدمتِ دین شروع کر دی۔تمام علاقہ مخالفت پر کمر بستہ تھا مگر وہ استقلال سے اپنے کام میں منہمک رہے۔جماعتی حالات کی وجہ سے ان مخلصین کو قلیل سا گذارا ملتا مگر وہ قناعت اور شکر سے گذارا کرتے۔یہ بزرگان احمدیہ سکول میں پڑھاتے ۔اپنے احمدی بھائیوں کودینی تعلیم دیتے اور ان کی تربیت کرتے۔اور نا مساعد حالات کے با وجود علاقہ میں تبلیغ کرتے۔شیخ صالح صاحب کی اہلیہ ڈچ نسل کی تھیں اور جنوبی افریقہ سے آئی ہوئی تھیں۔انہوں نے بھی وقف کی روح کے ساتھ آنریری طور پر کام شروع کیا۔اور اس طرح عورتوں میں تبلیغ اور تربیت کا کام بہتر طریق پر ہونے لگااورکافی تعداد میں عورتیں بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہوئیں ۔۱۹۳۶ء میں ناجم ابن سالم اسی مجاہدانہ حالت میں اپنے مولا کے حضور حاضرہو گئے۔اور ۱۹۳۹ء میںشیخ صالح صاحب کی اہلیہ کی ملیریا سے وفات ہو گئی۔اس طرح یہ وجود (۲۹)کے مصداق ٹھہرے۔خواہ زندگی عسر سے گذرے یا آسانی سے بسر ہو۔ایک دن تو اس دنیا سے جانا پڑتا ہے۔لیکن مشرقی افریقہ کے ان ابتدائی بے نفس مجاہدین نے آنے والی نسلوں کے لئے ایک پیارا نمونہ چھوڑا ہے جو بعد میں آنے والوں کے لئے مشعلِ راہ رہے گا۔(۳۰تا۳۳)
سواحیلی زبان مشرقی افریقہ میں سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے۔کینیا ،تنزانیہ ،یوگنڈا اور کونگو کے باشندوں کی بڑی تعداد اپنے اپنے قبائل کی زبانوں کے علاوہ سواحیلی زبان کو استعمال کرتی ہے۔عربوں سے اختلا ط کی وجہ سے اس زبان پر عربی کا اثر نمایاں ہے۔با وجود اس کے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس زبان کو استعمال کرتی تھی لیکن اب تک افادہ عام کے لئے اس زبان میں اسلامی لٹریچر شائع کرنے کے لئے کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی تھی اور مسلمانوں کی بھاری اکثریت اسلامی تعلیمات سے بالکل بے خبر تھی۔جبکہ دوسری طرف عیسائی مشنری بڑے پیمانے پر اس زبان میں اپنا لٹریچر شائع کر رہے تھے اور اس سے ان کی تبلیغی مساعی کو بہت فائدہ پہنچ رہا تھا۔ان عوامل کی وجہ سے جماعت نے سواحیلی میں اپنا لٹریچر شائع کرنا شروع کیا۔اورجنوری ۱۹۳۶ء سے اس زبان میں Mapenzi Ya Munguکے نام سے ایک رسالہ کا اجراء کیا۔جب اس جریدے کے ذریعہ صحیح اسلامی تعلیمات عوام الناس تک پہنچنا شروع ہوئیں اور عیسائی مشنریوں کے اعتراضات کا مدلل جواب شائع ہونا شروع ہؤا تو یہ صورتِ حال عیسائی مشنریوں کے لئے بہت پریشان کن تھی ۔اب تک وہ ایسی جنگ لڑ رہے تھے جس میں عملاً ان کے مدِ مقابل کوئی نہیں تھا۔لیکن اب علمی دلائل سے ان کا مقابلہ کیا جا رہا تھا۔چنانچہ اس موقع پر رومن کیتھولک چرچ کی طرف سے کھل کر مخالفت کا آغاز ہو گیا ۔پہلے تو ان کے رسالے Rafiki Yetuنے یہ کہہ کر عیسائیوں کو برانگیختہ کرنے کی کوشش کی کہ احمدیوںکے رسالے میں ان کے مذہب کو برا کہا جاتا ہے تاکہ عیسائی اس کو پڑھنے سے گریز کریں۔لیکن ایک سال تک اس رسالے میں کفارہ، واقعہ صلیب، الوہیتِ مسیح، قبرِ مسیح جیسے موضوعات پر علمی مضامین شائع ہوتے رہے ،رسالے کی مقبولیت میں اضافہ ہو تا رہا اور جب ایک عیسائی نے حضرت عیسیٰ کی فضیلت کے متعلق کتاب’’ نبی معصوم ‘‘شائع کی اور ماپنزی یامنگو میں اس کا جواب شائع کیا گیا تو صورتِ حال چرچ کے عمائدین کے لئے ناقابلِ برداشت ہو گئی۔بجائے دلائل سے مقابلہ کرنے کے انہوں نے اعلان کیا کہ کیتھولک عیسائیوں کے لئے اس رسالے کا پڑھنا حکماََ ممنوع کیا جاتا ہے۔جو بھی یہ رسالہ پڑھے گا گنہگار ہو جائے گا۔اور مختلف چرچوں میں بھی اس قسم کے اعلانات کرانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔چرچ کی بوکھلاہٹ اتنی بڑھ گئی تھی کہ ان کے ترجمان Rafiki Yatu کے اگست ۱۹۳۷ء کے شمارے میں یہ اعلان شائع کیا گیا کہ جس کیتھولک عیسائی کے ہاتھ میں یہ رسالہ آئے وہ اسے آگ میں ڈال کر جلا دے۔ یہ صورتِ حال افسوسناک تھی ۔دلائل کا مقابلہ دلائل کے ساتھ ہی کرنا چاہئیے نہ کہ اس طرزِ عمل سے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے(۳۴) یعنی تو کہہ دے کہ اگر تم سچے ہو تو اپنے دلائل لاؤ۔بہر حال جماعت کا یہ رسالہ جاری رہا اور اب تک عظیم الشان خدمات سر انجام دے رہا ہے۔(۳۵۔۳۶)
پورے مشرقی افریقہ میں مخالفت کا جو طوفان مخالفین کی طرف سے اٹھایا جا رہا تھا،اس کے اثرات یوگنڈا کے علاقہ تک بھی پہنچے۔وہاں کے سب سے بڑے قبیلے بوگانڈا کے شاہی خاندان کے ایک با اثر مسلمان پرنس بدرو نے ایک اشتہار شائع کیا کہ احمدیوں کا مبلغ لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے لوگ اس سے بچیں اور اس کی باتوں کو نہ سنیں اور وہاں کی مسلم ایسوسی ایشن نے بھی جماعت کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا۔یوگنڈا پولیس میں موجود پنجابیوں نے افسروں کو جماعت کے خلاف کرنے کے لئے پولیس میں جماعت کے خلاف غلط ریکارڈ جمع کرنا شروع کردیا تا کہ امن پسند احمدیوںکو فساد کا ذمہ وار قرار دیا جائے۔اور اس مخالفانہ فضا میں یوگنڈا میں بھی تبلیغ کا کام نئے عزم کے ساتھ شروع کیا گیا۔
خدائی سلسلوں کی مخالفت لازماََ ہوتی ہے اور بڑی شدید مخالفت ہوتی ہے۔سارے گروہ اسے اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔اور اس کو مٹانے کے لئے آپس میں اتحاد کر لیتے ہیں۔لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ہاتھ اپنے پیاروں کی حفاظت کرتا ہے۔اور اس کے ہاتھ کا لگایا ہؤا پودا مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جاتا ہے۔لیکن اس معجزے کو مشاہدہ کرنے کے لئے صبر سے ،استقامت سے اور دعاؤں سے کام لینا پڑتا ہے۔مشرقی افریقہ میں جماعت کے پہلے دارالتبلیغ کا آغاز مخالفت کے ان طوفانوں کے درمیان ہؤا تھا۔اس خطے میں آزمائشوں کا سلسلہ یہیں پر ہی ختم نہیں ہو جاتا ۔اس کے بعد بھی یہاں کی جماعت کو ابتلاؤں کے بہت سے دور دیکھنے پڑے۔یہ تو صرف ایک آغاز تھا ۔مگر جماعت کا قدم رکا نہیں بلکہ ترقی کی راہ پر گامزن ہی رہا۔مخالفتوں کے طوفان میں ہی سچے اور کھرے افراد نکھر کر سامنے آتے ہیں۔چنانچہ ہم نے جس دور کا ذکر ابھی کیا ہے ،اسی دور میں مکرم امری عبیدی صاحب جیسا جوہرِ قابل بھی جماعت کو عطا ہؤا۔جو ایک کم عمر طالب علم کی حیثیت سے ٹبورا میں آئے اور پھر اپنے علاقے بکوبا میں احمدیت کی تبلیغ میں مشغول ہو گئے۔پہلے پولیس میں سب انسپکٹر بننے کے لئے ٹریننگ شروع کی ۔جب حضرت مصلح موعود نے وقفِ زندگی کی تحریک فرمائی تو آپ نے وہ خطبہ پڑھتے ہی حضور کی خدمت میں خط لکھا اور اپنی زندگی خدمتِ دین کے لئے وقف کر دی اور پھر جامعہ احمدیہ ربوہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئے۔آپ نے بہت سے دنیاوی اعزازات بھی حاصل کئے حتیٰ کہ اپنے ملک کے وزیر بھی بنے لیکن جس چیز کی وجہ سے آپ کو رہتی دنیا تک یاد کیا جائے گا وہ آپ کا اخلاص اور خدمتِ دین کا جذبہ ہے۔ہم آگے جا کر آپ کے کارناموں کا تفصیل سے جائزہ لیں گے۔(۳۷)
(۲،۱) An Introduction to the History of East Africa by Z.A. Marsh, G.W. Kingsnorh, Third Edition,Cambridge at The University Press 1965, page 72.74
(۳)بخاری کتاب البیع
( ۴) ابو داؤد بروایت فتح الباری جلد ۴ ص۳۴۶
(۵)سو رۃ نور ۳۴
(۶)سورۃ توبہ ۶۰
(۷)خروج باب ۲۱ آیت۷،۸
(۸)مسلم کتا ب الایمان
(۹)خروج باب ۲۱ آیت۲۰۔۲۱
(۱۰) A short History of Africa by Roland Oliver &J.D.Fage,Penguin Books page120
(۱۱) ریویو آف ریلیجنز اردو فروری ۱۹۳۹ء ص۳۷تا ۴۱
(۱۲) An Introduction to The History of East Africa by Z.A.Marsh, G.W. Kingsnorth, Third Edition,Cambridge at The University press,1965 page74-77
(۱۳)رپورٹ صدرا نجمن احمدیہ ۱۹۳۷ئ۔۱۹۳۸ء ص۵۶،۵۷
(۱۴)روزنامہ الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۴۰ء ص۴،۵
(۱۵)رپورٹ صدر انجمن احمدیہ۱۹۳۶۔۱۹۳۷ء ص۴۵تا ۴۷
(۱۶)الفضل ۱۶ اکتوبر۱۹۲۳ء ،الحکم ۲۱ستمبر ۱۹۲۳ء
(۱۷)الفضل ۲۸ فروری ۱۹۳۵ء
(۱۸)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ۱۹۳۷ئ۔۱۹۳۸ء ص۷۰تا۷۲
(۱۹)الفضل۱۴ جنوری ۱۹۴۰ء ص۶
(۲۰)تاریخِ احمدیت جلد ہفتم ص۲۶۵
(۲۱) An introduction to the history of East Africa,third edition, Z.A.Marsh & G.W.Kingswoth,Cambridge at the University Press 1965 page 73
(۲۲)الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۴۰ء ص۶
(۲۳)کیفیاتِ زندگی مصنفہ شیخ مبارک صاحب ص۶۸
(۲۴) مباحثہ نیروبی ص۱۱۰
(۲۵)مباحثاتِ نیروبی ،پبلشر محمد یامین بار دوم،۱۹۶۳ء ص۱
(۲۶)رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن ۱۹۳۷ئ۔۱۹۳۸ء
(۲۷)تاریخِ احمدیت جلد ہفتم ص۲۶۸۔۲۶۹
(۲۸)کیفیاتِ زندگی مصنفہ شیخ مبارک صاحب ص۶۶ تا۷۷۔
(۲۹)الاحزاب: ۲۴
(۳۰)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۶ئ۔۱۹۳۷ء ص۱۰۵۔۱۰۶
(۳۱)رپورٹ سالانہ۱۹۳۶ئ۔۱۹۳۷ء صدر انجمن احمدیہ ص۱۰۳
(۳۲)الفضل ۲۵ جولائی ۱۹۳۷ء ص ۷
(۳۳)الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۳۷ء ص۴
(۳۴)النمل :۶۵
(۳۵) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۶ئ۔۱۹۳۷ ص۷۹۔۸۲
(۳۶) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۷ئ۔۱۹۳۸ء ص۹۱تا ۹۵
(۳۷) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ۱۹۳۶ئ۔۱۹۳۷ء ص۱۰۲
۱۹۳۹ء میں جماعت ِ احمدیہ کی ترقی کا عالمی منظر
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت دی گئی تھی کہ’میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘۔اور جب آپ کو ایک عظیم الشان موعود بیٹے کی خوش خبری عطا ہوئی تو الہاماََ بتایا گیا کہ قومیں اس سے برکت پائیں گی ۔جب جماعت کے قیام کو پچاس سال پورے ہو رہے تھے تو دنیا ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے نظارے دیکھ رہی تھی۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ اُس وقت مختلف ممالک میں جماعت کی ترقی کا سفر کن مراحل سے گذر رہا تھا۔
برطانیہ:
لندن مشن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے صحابہ کو خدمات کا موقع ملا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب میں سے حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحبؓ، حضرت قاضی محمد عبداللہؓ صاحب،حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ، حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحبؓ ، حضرت ملک غلام فرید صاحب اورحضرت مولانا عبد الرحیم دردؓ صاحب نے بطور مبلغ اس مشن میں کام کیا۔ان کے علاوہ حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ بھی انگریزی ترجمہ قرآن کے سلسلے میں لند ن مشن میں مقیم رہے اور تبلیغی سرگرمیوں میں فعال حصہ لیتے رہے۔
۱۹۲۶ء میں مسجد فضل لندن کی تکمیل کے ساتھ اس مشن کا ایک نیا دور شروع ہو چکا تھا۔جس شہر میں لاتعداد گرجے موجود تھے ،وہاں یہ چھوٹی سی مسجد ایک انفرادی شان رکھتی تھی۔نہ صرف مقامی شہریوں اور برطانیہ کے دوسرے مقامات سے آنے والوں کے لئے اس کا وجود کشش کا باعث تھا بلکہ جو لوگ بیرونی ممالک سے یہاں سیر و سیاحت کے لئے آتے ان میں سے بہت سے مسجد کو دیکھنے کے لیئے بھی آجاتے اور اسلام کی تبلیغ سے مستفید ہوتے۔مختلف سوسائیٹیوں اور کلبوں کے ممبر بھی گروپوں کی صورت میں یہاں آتے اور دلچسپی کے ساتھ ساتھ سلسلہ کی تاریخ اور عقائد کا ذکر سنتے۔(۱)جب یہاں سے ایک انگریز احمدی بلال نٹل (Nattal)کی آواز میں اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ، اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ کی صدا ئیںبلند ہوتیں توسننے والے حیران ہوتے کہ ایک انگریز عیسائیت کے ایک بڑے مرکز میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی رسالت کا اعلان کر رہا ہے۔(۲۔۳) گویا اس مسجد کا وجود مجسم تبلیغ بن چکا تھا۔
۱۹۳۹ء میں حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب اس مشن کے انچارج تھے اور تبلیغ کا کام پوری جانفشانی سے جاری تھا۔انفرادی ملاقاتوں اور تبلیغی خطوط کے علاوہ ایک اہم ذریعہ ِتبلیغ وہ لیکچر تھے جو مبلغِ سلسلہ اور دیگر احمدی مختلف مقامات پر دیا کرتے تھے۔مشن ہاؤس میں تبلیغی تقاریر کا اہتمام کیا جاتا ۔اس کے علاوہ لندن میں اور لندن سے باہر بہت سے کلبوں سوسائیٹیوں اور درسگاہوںمیں جاکر لیکچر دیئے جاتے۔لندن میں ایسے مقامات مخصوص ہیں جہاں ہر آدمی جا کر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہے۔اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہائیڈ پارک اور کلیپہم کامن پارک میں تبلیغی لیکچروں کا اہتمام کیا جاتا اور لوگوں کے سوالوں کے جوابات دیئے جاتے۔اُس دور میں انگریزوں کو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذاتِ اقدس کے متعلق انہی نظریات کا علم ہوتا تھا جو چند مغربی مصنفین نے اپنی کتب میں تحریر کئے تھے۔ان میں سے بہت سی تحریریں تعصب سے آلودہ تھیں۔ان کی پیدا کردہ غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیئے سیرت النبی ﷺکے جلسوں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ان جلسوں میں صرف مسلمان مقررین ہی نہیں بلکہ کئی عیسائی اہلِ علم بھی نبیِ اکرمﷺ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے تھے۔(۴۔۵)
لٹریچر کی اشاعت ہمیشہ سے جماعت کی تبلیغی سرگرمیوں کا ایک اہم حصہ رہی ہے۔اس وقت صرف لندن شہر میں چار سو سے زائد کثیرالاشاعت اخبارات کے دفاتر تھے اور دنیا کا ایک بڑا حصہ ان کی تحریروں کے زیرِ اثر تھا۔ مگر انگلستان میں مسلمانوں کا ایک بھی اخبار شائع نہیں ہو رہا تھا۔با وجود تمام مشکلات اور مالی تنگی کے لندن مشن نے ۱۹۳۵ء میں دی مسلم ٹائمز کے نام سے ایک پندرہ روزہ اخبار شائع کرنا شروع کیا تا کہ مغربی دنیا کے سامنے اسلامی نقطہ نگاہ کو پیش کیا جا سکے(۶)۔اس کے علاوہ مختلف تبلیغی موضوعات اور سیرت النبیﷺ پر کتابچوں کی اشاعت سے تبلیغ کو وسعت دی گئی۔
برطانوی وزراء اور دیگر اہم شخصیات مشن میں مختلف تقریبات میں شرکت کے لیئے آتیں۔ اور بہت سے مسلمان لیڈر جب لندن آتے تو انہیں مسجد فضل میں مدعو کیا جاتا۔سعودی سلطنت کے شہزادہ سعود اور شہزادہ فیصل ،عراق کے وزیرِ خارجہ توفیق بک السوید اور قائدِ اعظم محمد علی جناح جیسی شخصیات مشن کی مختلف تقاریب میں شرکت کرتیں تو اس کا چرچابڑے پیمانے پرانگلستان کے پریس میں ہوتا اور یہ بھی ایک رنگ میں ذریعہ تبلیغ بن جاتا۔ (۷۔۸)
اگرچہ تبلیغی سرگرمیاں زیادہ تر لندن پر مرکوز تھیں مگر پورے ملک میںرفتہ رفتہ کچھ انگریز احمدیت کا پیغام قبول کر رہے تھے۔ان میں آرنلڈ(Arnold) گھرانے کے افراد اور بینکس (Banks) گھرانے کی خواتین خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔ ۱۹۳۹ء میں برطانیہ میں ۱۶ مختلف مقامات پر احمدی موجود تھے جن میں اکثریت انگریزوں کی تھی۔(۹تا۱۳)
(۱)الفضل ۲۸ اگست ۱۹۳۷ء ص۲(۲) الفضل ۲۸ اپریل ۱۹۳۹ء ص۴
‏(۳)The Sunrise April 1 1939 page 5
(۴)الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۳۷ء ص۲
(۵)الفضل ۵ جنوری ۱۹۳۹ء ص۷
(۶)الفضل ۴ جون ۱۹۳۵ء ص ۳
‏(۷) The Sunrise March 25 ,1939 page 8
(۸) الفضل ۲۶ جولائی۱۹۳۵ء ص۱
(۹)سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۴ئ۔۱۹۳۵ء ص۴۰۔۴۴
(۱۰)سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۷ء ۔۱۹۳۸ء ص۲۶۔۳۳
(۱۱)سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۸ء ۔۱۹۳۹ء ص۵۳۔۶۲
(۱۲)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ص۸۸۔۹۱
‏(۱۳)The Sunrise December 23,1939 page 22
ہنگری :
ہنگری وسطی یورپ کا ایک ملک ہے جس کی دو تہائی آبادی رومن کیتھولک ہے۔کہا جاتا ہے کہ تیرہویں صدی سے بہت قبل یہاں پر بلغاریہ سے سات مسلمان آکر آباد ہوئے تھے۔ان کی تبلیغ سے یہاں مسلمانوں کی ایک جماعت بن گئی تھی جو ہنگری کی سرحد پر آباد تھی۔یہ حنفی مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور بسا اوقات دینی علوم حاصل کرنے کے لیئے مسلمان ممالک کا سفر بھی کرتے تھے۔یہ جماعت وہاں پر ۱۳۴۰ء عیسوی تک موجود رہی پھر ایک عیسائی بادشاہ چارلس رابرٹ نے فرمان جاری کیا کہ عیسائیت کے علاوہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے جو لوگ اس کی سلطنت میں رہتے ہیں وہ یا تو عیسائی ہو جائیں یا پھر اس کے ملک سے نکل جائیں۔(۱)اس کے علاوہ گیارہویں صدی اور چودہویں صدی کے درمیان اسماعیلی بھی یہاں آکر آباد ہوتے رہے۔پھر اس کے بعد ایک عرصہ تک یہ ملک ترکوں کی سلطنت کے ماتحت رہا اور اس دور میں بھی یہاں کے لوگوں کااسلام سے تعارف بڑھا۔
پہلے مرکزسلسلہ کی ہنگری میں گل بابا کمیٹی، بیرن سیگمنڈ(Baron Zsigmond ) اور دیگر لوگوں سے خط و کتابت ہوئی(۲)۔ یہ گل بابا ایک بزرگ تھے جن کا مزار ہنگری میں موجود ہے۔اور ہنگری میں آباد ماجر قوم ان سے کافی عقیدت رکھتی ہے۔ان کا حوصلہ افزا رویہ دیکھ کر ۱۹۳۶ء میں چوہدری احمد خان صاحب ایاز کو بطور مبلغ ہنگری بھجوایا گیا۔انہوںنے دارالحکومت بوڈا پیسٹ (Budapest) میں تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔انفرادی تبلیغ کے علاوہ مختلف سوسائیٹیوں میں تقاریر کے ذریعہ دعوت الیٰ اللہ کے کام کو آگے بڑہانا شروع کیا ۔اخبارات میں احمدیت کا چرچا ہونے لگا۔اور آہستہ آہستہ سعید روحیں احمدیت میں داخل ہونے لگیں۔اور ان نو احمدیوںکی تعلیم و تربیت کے کام کا آغاز ہؤا۔ان ابتدائی احمدیوں میں مصطفیٰ اربان (Orban)صاحب اور اینگل (Engel) اختر صاحب کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔بیعت کرنے والوںمیں ڈاکٹر ،فوجی افسر اور وکیل بھی شامل تھے۔ایک ڈیڑھ سال میں ان کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب ہو گئی۔ان میں سے زیادہ تعداد پہلے عیسائیت سے وابستہ تھی۔اس وقت ہنگری میں کچھ مسلمان موجود تھے مگر ان کی دینی حالت ابتر تھی۔ان کامذہبی سربراہ مفتی کہلاتا تھا۔اپنا اثرو رسوخ زائل ہوتا دیکھ کر ان مفتی صاحب نے جماعت کی مخالفت شروع کی مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نائب مفتی محمد اسماعیل صاحب بھی احمدی ہو کر تبلیغ کرنے لگ گئے۔ ۱۹۳۷ء میں ایاز صاحب نا موافق آب و ہوا کی وجہ سے بیمار ہو گئے اس لیئے حضور کی طرف سے انہیںپولینڈ جانے کا ارشاد ہؤا۔مکرم محمدابراہیم ناصر صاحب کو امریکہ بھجوایا گیا تھا مگر جب انہیں وہاںداخلے کی اجازت نہ ملی تو انہیں ہنگری جانے کا ارشاد ہؤا۔ محمدابراہیم ناصر صاحب بوڈاپسٹ پہنچ کر مصروفِ تبلیغ ہو گئے۔اس کے بعد دوسری جنگِ عظیم کے آغاز اور پھرہنگری کے کمیونسٹ بلاک میں چلے جانے کی وجہ سے وہاں پر جماعت کی تبلیغی سرگرمیاں روکنی پڑیں ۔(۳۔۱۳)
(۱)The Preaching Of Islam by T.W.Arnold,published by Low Price Publication Delhi 2001.page 193-194
(۲)The Sunrise May 22,1937 page 8(۳)The Sunrise March 20,1937 Page 6
(۴)The Sunrise ,March 27,1937 page 6(۵)The Sunrise April 24,1937 page 8
(۶)The Sunrise May 22,1937 page 8(۷)The Sunrise May 29 1937,page 7
(۸)الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۳۷ء ص۶(۹) الفضل ۱۲ مئی ۱۹۳۷ء ص۷(۱۰)الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۳۷ء ص۷
(۱۱) الفضل ۱۹ء مئی ۱۹۳۷ء ص۴(۱۲)الفضل ۱۶ جنوری ۱۹۳۷ء ص۶(۱۳)الفضل ۱۰ مارچ ۱۹۳۷ء ص۶
(۱۴) مجاہدِ ہنگری مصنفہ حاجی احمد خان ایاز ص۲۴۔۲۵
پولینڈ:
پولینڈ میں اسلام کی آمد چودہویں صدی عیسوی میں ہوئی جب اپنے وطن میں خانہ جنگی کی وجہ سے بہت سے تاتار مسلمان یہاں آکر آباد ہوئے۔ گرینڈڈیوک وائیٹولڈ(Grand Duke Witold)نے ان کو ولنو(Wilno) شہر کے قریب زمینیں عطا کیں اوراس کی گارد عموماََ انہی تاتاریوں پر مشتمل ہوتی تھی۔پھر سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی میں کریمیا(Crimea) کے علاقے سے کچھ مسلمان یہاں آکر آباد ہوئے۔(۱۔۲)پولینڈ کی اکثریت رومن کیتھولک ہے۔وقت کے ساتھ مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ تہذیب اور مذہب کے اعتبار سے مقامی آبادی میں جذب ہوتا گیا اور ان میں اسلامی تعلیمات کا اثر بہت کم ہو گیا۔۱۹۳۷ء میں اس ملک میں بارہ ہزار مسلمان آباد تھے۔ولنو کے علاوہ لیتھوانیا(Lithuania) کی سرحد کے قریب مسلمانوں کے کئی دیہات آباد تھے۔(۳)پولینڈ میں مسلمانوں کے مذہبی لیڈر مفتی کہلاتے تھے۔اس وقت حکومت مسلمانوں سے رواداری کا سلوک کر رہی تھی اور حکومت کی طرف سے مختلف جگہوں پر ائمہ صلوۃ اور مؤذنوں کو وظیفہ بھی ملتا تھا مگر مسلمانوں کے اماموں اور مفتی صاحب کو دینی امور میں کم ہی دلچسپی تھی۔(۴)
پولینڈ کے مفتی صاحب یعقوب سلیمان سینکیویز(Szynkiewicz ) صاحب نے ۱۹۳۷ء میں ہندوستان کا دورہ کیا اور مارچ کے مہینے میں قادیان آ کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے ملاقات کی۔اس ملاقات کے بعد حضورؓ نے احمد خان ایاز صاحب کو پولینڈ جا کر تبلیغ کا آغاز کرنے کا ارشاد فرمایا۔ان مفتی صاحب کے غیر ملکی دوروں کا مقصد مالی مدد کا حصول تھا کیونکہ ۱۹۳۹ء میں انہوں نے مصر جا کر شاہ فواد سے ملاقات کی تھی اور شاہ فواد نے انہیں آرڈر آف نائیل سے نوازنے کے علاوہ مساجد کی تعمیر کے نام پر پانچ سو پونڈ کی مدد بھی دی تھی۔(۴۔۵)
احمد خان ایاز صاحب ۲۲ اپریل ۱۹۳۷ء کو پولینڈ کے دارالحکومت وارسا پہنچ گئے۔وارسا میں مناسب جگہ نہ ملی تو شہر سے ۷ میل پر ایک نئی بستیBoernerowoمیں کمرہ حاصل کر کے کام کا آغاز کیا۔جلد ہی الجیریا سے تعلق رکھنے والے عربی کے ایک لیکچرار احمد خاربی صاحب نے احمدیت قبول کرلی۔(۴)احمد خان ایاز صاحب کی کاوشیں جلد ہی لوگوں کی توجہ کا مرکز بننے لگیں۔اخبارات میں ان کے انٹرویو اور جماعت کا تعارف شائع ہونے لگا۔مگر اتنی ہی جلدی مخالفین کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا اور۱۳ جنوری ۱۹۳۷ء کو حکومتِ پولینڈ نے انہیں عیسائیوں اور بعض مسلمانوں کی شکایت پر پولینڈ سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔اس طرح پولینڈ میں تبلیغ کی پہلی کوشش ایک سال سے بھی کم عرصے کے بعد بند کرنی پڑی۔(۶،۷،۸،۹)
(۱)Glimpses of Islamic World by S.Ganjoo,published by Anmol publications Pvt. Ltd New Dehli,2004,page 107
(۲)الفضل ۱۲ دسمبر ۱۹۳۷ء ص۵(۳)الفضل ۲۹ جون ۱۹۳۷ء ص۵(۴)الفضل ۱۶ مئی ۱۹۳۷ء ص۶
(۵)Polish-Egyptian Relations XV-XXc by Prof.Jozef Wojcicki(on internet)
(۶)الفضل ۱۲ دسمبر ۱۹۳۷ء ص۵(۷)الفضل ۲۶ اکتوبر ۱۹۳۷ء ص۷(۸)الفضل ۲۹ جون ۱۹۳۷ء ص۵
(۹) The Sunrise September 11,1937 page 9
البانیہ:
اس دور میں البانیہ یورپ میں اسلام کا ایک چھوٹا سا جزیرہ تھا۔پہلے یہ علاقہ ایک عرصہ تک رومی اور بازینطانی سلطنتوں کے ماتحت رہا۔اور ان کے علاوہ بھی بہت سے حملہ آور اسے اپنا نشانہ بناتے رہے۔ پندرہویں صدی میں اس پرترکی کی سلطنتِ عثمانیہ کا قبضہ ہو گیا اوروہ صدیوں تک اس ملک پر حکمران رہے۔ یہاں کی اکثریت عیسائی مذہب سے وابستہ تھی۔سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ بننے کے سو سال بعد تک تو بہت کم لوگوں نے اسلام قبول کیا مگر اس کے بعد یہاں کی آبادی تیزی سے مسلمان ہونے لگی۔مؤرخین کے مطابق ا’س وقت البانیہ کے پادریوں کی اکثریت نہ صرف مذہبی علم سے بے بہرا تھی بلکہ ان میں سے بہت سے صحیح طرح لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے۔ان کی زبوں حالی سے چرچ کمزور ہونے لگا اور لوگوں کی بڑی تعداد نے عیسائیت کو الوداع کہنا شروع کر دیا۔(۱) بیسویں صدی کے آغاز میں یہاں کے اکثر مسلمان حنفی فرقہ سے وابسطہ تھے اور طریقت کے مختلف فرقوں کے پیرو کار تھے۔ان کے علاوہ مختلف فرقوں کے عیسائی بھی موجود تھے اور کیتھولک اور امریکن مشن بھی کام کر رہے تھے ۔تعلیم اور ملک کی ترقی کے لحاظ سے یہ یورپ کا پسماندہ ترین ملک تھا۔
حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر اپریل ۱۹۳۶ء میں مولوی محمد دین صاحب البانیہ کے لئے روانہ ہوئے اور دو ماہ کے سفر کے بعد وہاں پہنچے۔آپ کی آمد سے قبل ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام وہاں تک پہنچ چکا تھا۔ابھی آپ کو مقامی زبان نہیں آتی تھی مگر محدود پیمانے پر تبلیغ کا کام شروع ہؤ اورایک خاندان احمدیت میں داخل ہو گیا۔اس کے علاوہ کچھ لوگ زبانی طور پر احمدیت کی تصدیق کرنے لگے ۔اس دوران ایک عالم سے مناظرہ ہؤا،جس کے نتیجے میں مخالفت کا طوفان اٹھ کھڑا ہؤا۔ علماء نے مبلغِ احمدیت کے خلاف اشتعال انگیز خطبات دینے شروع کئے اور اس کے نتیجے میں مولوی محمد دین صاحب کوبہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ مخالفت کی وجہ سے تین ماہ کے مختصر عرصہ کے بعد ہی آپ کو البانیہ چھوڑنا پڑا۔آپ پہلے ہنگری اور پھر وہاں سے یوگوسلاویا چلے گئے۔دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہ ملک کمیونسٹ بلاک میں چلا گیا۔اور ۱۹۶۷ء میں حکومت نے البانیہ کو دہریہ ریاست قرار دے کر تمام مساجد اور گرجے بند کر دیئے اور تمام مذہبی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔(۲۔۳)
(۱) The Preaching of Islam ,by T.W.Lawrence,published by Low Price Publication Delhi 2001,177-192
(۲) ریویو آف ریلجنز اردو جولائی ۱۹۴۱ء ص ۴۶۔۵۰
(۳)The Sunrise December 23,1939,page 43
یوگوسلاویا:
۱۳۸۹ میں کوسووو (Kosovo )کے مقام پر سربیا اور ترکی کی فوجوں میں ایک خوفناک جنگ ہوئی ۔اس معرکے میں ترکی اورسربیا کے بادشاہ مارے گئے۔ان دونوں کے جانشینوں نے جنگ کی بجائے صلح کا راستہ اختیار کیا اور سربیا نے اپنے علاقے پر ترکی کی محدود حکمرانی قبول کر لی اور سربیا کے بادشاہ نے اپنی بہن کی شادی ترکی کے نئے سلطان سے کردی۔اس واقعے کے بعد رفتہ رفتہ اس علاقے میں اسلام پھیلنے لگا۔اس علاقے کے لوگ زیادہ ترآرتھو ڈوکس(Orthodox) چرچ سے تعلق رکھتے تھے۔کیتھولک سلطنتیں چاہتی تھیں کہ ان کو رومن کیتھولک بنا دیں۔کہا جاتا ہے کہ ایک موقع پراس علاقے میں ہنگری اور ترکی کے درمیان خوفناک جنگ ہو رہی تھی۔سربیا کے حاکم نے ہنگری کے بادشاہ سے پوچھا کہ اگر تمہاری فتح ہوئی تو کیا کرو گے،اس نے جواب دیا کہ میں سربیا میں رومن کیتھولک چرچ کو مستحکم کروں گا۔اس نے یہ سوال ترکی کے سلطان کو بھجوایا تو اس نے جواب دیا کہ ہر مسجد کے ساتھ چرچ بھی بنایا جائے گا اور ہر شخص کو اپنی پسند کا مذہب اختیارکر کرنے کی اجازت ہو گی۔نہ صرف سربیا کے باشندوں نے بلکہ ان کے پادریوں نے بھی ترکی کا ساتھ دیا اور ترکی کو فتح ہوئی۔یوگوسلاویا کے جنوب میں کوسووو کے علاقے میں البانیہ سے رومن کیتھولک بڑی تعداد میں آکر آباد ہوئے تھے۔ان کی اکثریت مذہب تبدیل کرکے اسلام میں داخل ہو گئی تھی۔(۱)
جماعتِ احمدیہ نے یوگوسلاویا میں تبلیغی مساعی کا آغاز ۱۹۳۶ء کے آخر میں کیا۔اس وقت یوگوسلاویا کی چوتھائی آبادی مسلمان تھی اور ملک کی اکثریت عیسائی تھی۔مسلمانوں کی اکثریت پسماندہ تھی اور ان کے امام حکومت سے تنخواہ پاتے تھے۔۔جب مولوی محمد دین صاحب البانیہ سے یہاں پر پہنچے۔اس سے قبل مصر سے آنے والے بعض اخبارات کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کاذکر یہاں تک پہنچ چکا تھا۔بلغراد میں تبلیغ کا آغاز کیا گیا اور جلد ہی دو نفوس جماعت میں داخل ہوئے۔کوسووو کے علاقے میں ایک البانین احمدی شریف ووتسا Votsa)) صاحب سات گاؤں پر انسپکٹر تھے ۔مولوی محمد دین صاحب ان کے ساتھ کوسووو گئے اور تبلیغ شروع کی جس کے نتیجے میں ایک امام مسجد ابراہیم صاحب سمیت تقریباََ ۲۳ افراد احمدیت میں داخل ہوئے۔مخالفین نے مصر سے جماعت کے خلاف کتب منگوائیں اور مبلغِ سلسلہ کے خلاف قتل کا فتویٰ بھی جاری کیا گیا۔یہاں پر مولوی محمد دین صاحب کا قیام ڈیڑھ سال تک رہا جس کے بعد حکومت کی مداخلت کی وجہ سے آپ کومجبوراََ یہاں سے رخصت ہونا پڑا۔(۲تا۵)
(۱)The Preaching of Islam,by T.W.Arnold,Low Price Publication Delhi 2001, 192-197
(۲)الفضل ۲۱ فروری ۱۹۳۷ء ص۲(۳)الفضل ۱۲ ستمبر ۱۹۳۷ء ص۸(۴) ۲۲ جنوری ۱۹۳۸ء ص۷
(۵)The Sunrise 23 December 1939,page 43
اٹلی:
کیتھولک عیسائیوں کا مرکز ویٹیکن روم کے اندر واقع ہے اورصدیوںسے یہیں پر ان کے مذہبی پیشوا پوپ کی رہائش ہے۔اس وجہ سے مذہبی دنیا میں اٹلی کی اپنی ایک اہمیت ہے۔۱۹۱۴ء کے آخر میں ایک اطا لوی باشندے کوریو(Corio) نے برطانیہ میں بیعت کی(۱)۔حضورؓ نے۱۹۲۴ء میں یورپ کے سفر کے دوران اٹلی کا دورہ بھی فرمایا۔اور وہاں کے وزیرِ اعظم مسولینی سے ملاقات فرمائی۔اس ملاقات کی غرض یہ تھی کہ انہیں سلسلے کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا جائے تاکہ اٹلی کے لئے مبلغین بھیجنے میں آسانی ہو اور بعد میں کسی قسم کی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔اس ملاقات میں مسولینی نے خود حضورؓ سے کہا کہ آپ اپنا مبلغ اٹلی بھیج سکتے ہیں(۲۔۳)۔اس کے نو برس بعدحضورؓ کے ارشاد پر ملک محمد شریف صاحب سپین گئے مگر وہاں پر خانہ جنگی کی وجہ سے آپ کے قیام کی راہ میں دشواریاں پیدا ہوئیں تو حضورؓ کے ارشاد پر آپ جنوری ۱۹۳۷ء میںاٹلی چلے گئے۔وہاں جا کر آپ نے اطالوی زبان سیکھنی شروع کی اور روم میں تبلیغ کا آغاز کیا۔اس کے نتیجے میں سب سے پہلے احمد کاربون (Carbone)صاحب نے احمدیت قبول کی۔اگلے دو تین برس میں مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے تقریباََ تیس افراد جماعت میں شامل ہوئے۔اگست ۱۹۳۹ء میں ملک محمدشریف صاحب کو اٹلی چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔مگر پھر وزیرِ ہندلارڈ زیٹلینڈ (Zetland)کی کوششوں کی وجہ سے حکم منسوخ کر دیا گیا۔دوسری جنگِ عظم کے شروع ہونے کے بعد ۶ جولائی ۴۰ ۱۹ء کو آپ کو گرفتار کر لیا گیا۔آپ کو مارچ ۱۹۴۱ء تک قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔مگر آپ نے جیل کے اندر بھی دعوت الیٰ اللہ کا کام جاری رکھا اوراس دوران بھی کچھ نفوس بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے۔(۴تا۹)
(۱)الفضل ۳ جنوری ۱۹۱۴ء ص۵(۲)الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۲۴ء ص۴(۳)الفضل ۹ ستمبر ص۷(۴)الفضل ۲ اپریل ۱۹۳۷ء ص۷
(۵)الفضل ۲۵ اپریل ۱۹۳۷ء ص۸(۶)الفضل ۱۳ جون ۱۹۳۷ء ص۶
‏(۷)The Sunrise March 27 1937,page8
‏(۸)The Sunrise September 25,1937,page 8
‏(۹)The Sunrise December 4,1937 page 6
امریکہ:
امریکہ میں سب سے پہلے آنے والے مسلمان وہ مظلوم تھے جنہیں مغربی افریقہ بالخصوص سینیگال اور گیمبیا کے علاقوں سے زبردستی غلام بنا کر یہاں لایا گیا تھا۔ایک اندازے کے مطابق یہاں لائے جانے والے غلاموں میں سے دس سے پندرہ فیصد مسلمان تھے۔مذہبی آزادی تو دور کی بات ہے ان پر اتنے وحشیانہ مظالم کئے جاتے تھے جیسا کہ انہیں انسان ہی نہ سمجھا جاتا ہو۔اس کے نتیجے میں ان کا اسلامی تشخص ایک دو نسلوں سے زیادہ برقرار نہ رہ سکا۔
سلسلہ احمدیہ حصہ اول میں یہ ذکر آچکا ہے کہ۱۹۱۹ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے ذریعہ امریکہ میں جماعت کا پہلا مشن قائم ہؤاتھا۔جب آپ فلاڈلفیا کی بندر گاہ پر پہنچے تو محکمہ امیگریشن نے یہ کہہ کر آپ کو ملک میں داخل ہونے سے روک دیاکہ آپ کے مذہب میں تعددِ ازدواج جائز ہے اس لئے آپ اس ملک میں داخل نہیں ہو سکتے۔آپ کو سمندر کے کنارے ایک مکان میںنظر بند کر دیا گیا۔کچھ یوروپی نوجوان بھی آپ کے ساتھ نظر بند تھے۔آپ نے انہیں تبلیغ شروع کی ،جس کے نتیجے میں ان میں سے قریباََ پندرہ افراد نے اسلام قبول کر لیا۔قریباََ تین ماہ کے بعد آپ کو رہا کر دیا گیا ۔پہلے آپ کا قیام نیویارک میں رہا ،پھر ستمبر ۱۹۲۰ء میںاس دارالتبلیغ کو شکاگو منتقل کر دیاگیا۔اگست ۱۹۲۱ء میں یہاں پر جماعت کے سہ ماہی رسالے مسلم سن رائز کی اشاعت شروع ہوئی۔رفتہ رفتہ سینکڑوں امریکن احمدیت میں داخل ہوگئے۔ان میں زیادہ تر تعداد سیاہ فام امریکن باشندوں کی تھی۔جولائی ۱۹۲۲ء میں شکاگو میں ایک مکان خرید کر اسے مسجد کی شکل دے دی گئی۔حضرت مفتی صاحب کے زمانے میں آٹھ مقامات پر جماعتیں قائم ہو چکی تھیں۔حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ کے بعد حضرت مولوی محمد الدین صاحب ؓ کو امریکہ بھجوایا گیا۔۱۹۲۶ء میں آپ ہندوستان واپس آئے اور پھر دو برس تک امریکہ میں کوئی مرکزی مبلغ موجود نہیں تھا۔۱۹۲۸ء میں صوفی مطیع الرحمن بنگالی صاحب بطور مبلغ امریکہ تشریف لے گئے۔
درمیان کے دو سالوں میں مرکزی مبلغ نہ ہونے کی وجہ سے مختلف جماعتوں میں مسائل اور فتنے نمو دار ہوئے۔اور پٹس برگ کی جماعت میں انتشار پیدا ہؤا۔کمزور لوگ اس ابتلاء میں علیحدہ ہو گئے اور بنگالی صاحب کی آمد پر از سرِ نو کام شروع کیا گیا۔اب تک احمدی مالی قربانیوں میں حصہ تو لیتے تھے مگر باقاعدہ ماہانہ چندہ لینے کا نظام موجود نہیں تھا۔۱۹۳۵ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد کے ماتحت امریکہ میں نظام کے تحت ماہانہ چندہ جمع کرنے کا نظام رائج کیا گیا۔۱۹۳۵ء میں امریکہ میں لجنہ اماء اللہ کا قیام عمل میں آیا ۔اور ابتداء میں شکاگو،پٹس برگ،کلیو لینڈ اور انڈیانو پولس میں لجنہ کی تنظیم قائم کی گئی۔امریکہ کی لجنات بسا اوقات اخلاص اور خدمت میں مردوںپر سبقت لے جاتی تھیں۔۱۹۳۸ء میں امریکہ میں مجلس خدام الاحمدیہ کی بنیاد رکھی گئی۔اس دور میں باقاعدگی سے مشن میں ،درس گاہوں میں،کلبوں میں اور گرجوں میںتبلیغی لیکچر ہوتے۔سیرت النبی ﷺ کے جلسے منعقد کر کے اہلِ امریکہ کو محسنِ انسانیت کی سیرت سے روشناس کرایا جاتا ۔انفرادی تبلیغ کے ذریعے لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا جاتا ۔لٹریچر کے ذریعہ اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیا جاتا۔اس طرح اس ملک میں احمدیت کا کارواں آگے بڑھ رہاتھا۔(۱تا۵)
(۱)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ۱۹۳۴ء ۔۱۹۳۵ء ص۴۴۔۵۱
(۲)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۷ء ۔۱۹۳۸ء ص۲۱۔۲۷
(۳)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۸ء ۔۱۹۳۹ء ص۶۲۔۶۹
(۴) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۹ء ۔۱۹۴۰ء ص۹۴۔۹۵(۵) الفضل ۲۸ جون ۱۹۲۰ء ص ۱ تا ۳
ارجنٹائن:
۱۹۳۶ء میں ارجنٹائن کا مشن قائم ہؤا۔مولوی رمضان علی صاحب یہاں پر اشاعتِ اسلام کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے۔ملک کا دارالحکومت بونس آئرس ان تبلیغی سر گرمیوں کا مرکز تھا۔ بہت سے عرب آباد کار بالخصوص شام اورلبنان سے یہاں آ کر آباد ہوئے تھے۔اور یہاں پر ان مسلمانوں نے اپنی تنظیمیں قائم کی تھیں۔ان میں خاص طور پر تبلیغی کوششیں کی جارہی تھیں۔۱۹۳۹ء تک بونس آئرس میں جماعت قائم ہو چکی تھی اور نظامِ جماعت بھی قائم ہو چکا تھا۔نو احمدیوں کی تربیت کے لئے ہر ہفتہ تربیتی مجالس منعقد کی جاتیں جن میں بسا اوقات غیر احمدی بھی شرکت کرتے۔اب تک بیعت کرنے والوں میں اکثریت عربوں کی تھی(۱تا ۹)
(۱)فاروق ۷ جون ۱۹۳۹ء ص۶(۲)فاروق ۱۴ جون ۱۹۳۹ء ص۸(۳) فاروق۲۱ جون ۱۹۳۹ء ص۸
(۴)فاروق ۱۴ اگست ۱۹۳۹ء ص۶(۵)فاروق ۲۸ اگست ۱۹۳۹ء ص۲(۶)فاروق ۷ ستمبر ۱۹۳۹ء ص۷
(۷) فاروق ۱۴ اکتوبر ۱۹۳۹ء ص۲(۸) فاروق ۲۱ نومبر ۱۹۳۹ء ص ۱۰(۹) فاروق ۱۴ دسمبر ۱۹۳۹ء ص۹
نائیجیریا:
نائیجیریا براعظم افریقہ کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔یہاں پر ۴۰۰ سے زیادہ مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے باشندے بستے ہیں۔لیکن شمال میں فولانی اور ہاؤسا قبائل ،جنوب مغرب میں یوروبا اور جنوب مشرق میں اگبو قبیلہ،یہاں کے بڑے قبائل ہیں۔مغربی افریقہ میں اسلام صحارا کے تجارتی راستوں کے ذریعہ نویں صدی میں پہنچا اور گیارہویں صدی عیسوی میں نائجیریا کے علاقے میں بربر اور عرب مسلمانوں کے ذریعہ پہنچا اور شمال مشرق میں واقعہ کانم بورنو سلطنت میں اسلام کا نفوذشروع ہؤا۔اس سلطنت میں سب سے پہلے تریپولی سے مسلمان تاجر پہنچے تھے۔اور چودہویں صدی کے آخر میں مسلمان تاجروں کی تبلیغ سے ہاؤسا قوم کے لوگوں میں اسلام پھیلنا شروع ہؤا۔سولہویں صدی کے آخر میں اور سترہویں صدی کے شروع میں نائجیریا کے شمال میں حضرت عثمان فودیو جیسی بزرگ مسلمان ہستی گذری۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ آپ کو مجددین میں شمار فرماتے تھے۔حضرت عثمان فودیو ؒ نے تبلیغ اور مسلمانوں کی تعلیم کے کام سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا رفتہ رفتہ آپ کی بزرگی کی شہرت پورے علاقے میں پھیل گئی۔ گوبر(Gobir) کے بادشاہ مسلمان تھے لیکن آپ کی تبلیغی مہم سے خوفزدہ تھے۔انہوں نے یہ پابندی لگا دی کہ حضرت عثمان فودیو کے علاوہ کوئی تبلیغ نہیں کر سکتا اور کسی کو اپنے آبائی مذہب کو تبدیل کرنیکی اجازت نہیں ہو گی۔اور پگڑی اور نقاب پر بھی پابندی لگا دی۔ اس پرآپ کے گروہ اور مقامی بادشاہوں میں اختلافات شدید ہو گئے اور پھر بادشاہوں نے حملہ کرکے مسلمانوں کو غلام بنایا تو آپ کے پیرو کاروں نے حملہ کر کے انہیں رہا کرالیا اور اس کے ساتھ حکومت پر اُن کا قبضہ شروع ہو گیا۔آپ کی حکومت پھیلتے پھیلتے نائیجیریا کے شمال اور نائیجر اور کیمرون کے ملحقہ علاقوں تک پھیل گئی۔سلطنت کے قیام کے کچھ عرصہ کے بعد آپ نے عملی طور پر اپنے آپ کو امورِ سلطنت علیحدہ کر لیا اور ایک بار پھر تعلیم و تربیت میں مشغول ہو گئے۔بہت سے لوگوں نے آپ کی بزرگی سے متاثر ہو کر آپ کو مہدی کہنا شروع کر دیا ۔مگر آپ نے اس کی تردید فرمائی اور اس کے ساتھ ہی لوگوں کو خوشخبری دی کہ اب مہدی کا ظہور قریب ہے(۸)۔چنانچہ ۱۸۱۷ء میں آپ کا وصال ہؤا اور ۱۸۳۵ء میں حضرت مسیح موعود ؑ کی پیدائش ہو ئی ۔اس طرح آپ کا زمانہ اور مہدی آخر الزمان کا زمانہ آپس میں ملا ہؤا ہے۔پھر نائیجیریا میں انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی اور پادریوں کو یہاں پر عیسائیت پھیلانے کے مواقع ملے ۔بہت سے لوگوں کا خام خیال تھا کہ اب یہاں پر اسلام کا زوال شروع ہو جائے گا۔مگرDavid Westerlundاور Ingvar Svanbergجیسے مغربی مصنفین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یہ خیالات غلط ثابت ہوئے اور انگریزوں کی حکومت میں اسلام پہلے سے زیادہ تیز رفتاری سے پھیلتا رہا۔با وجود غلامی کے اسلام کی حقانیت لوگوں کے دلوں میں گھر کرتی رہی۔(۱،۲)
نائیجیریا میں سب سے پہلی جماعت دارالحکومت لیگوس میں قائم ہوئی تھی۔ابتداء میں یہاں پرریویو آف ریلجنز کے ذریعہ احمدیت کا پیغام پہنچا ۔اور قادیان سے خط و کتابت کرنے کے بعد ۱۹۱۶ء میں بعض افراد نے بیعت کے خطوط لکھے ۔پھر ۱۹۲۱ء میں حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحبؓ بطور مبلغ یہاں آئے ۔اس وقت نائیجیریا کے علاوہ گولڈ کوسٹ ( غانا)کا علاقہ بھی ان کے سپرد تھا۔۔حضرت نیر صاحب ؓکو قریباَََ ڈیڑھ سال یہاں رہ کر جماعت کی تربیت کا موقع ملا ۔اس کے بعد انہیں خرابیِ صحت کے باعث واپس جانا پڑا۔۱۹۲۲ء سے لے کر ۱۹۳۴ء تک نا ئیجیریا میں کوئی مرکزی مبلغ موجود نہیں تھا۔۱۹۳۴ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے حکم پر مکرم فضل الرحمن حکیم صاحب کو نائیجیریا بھجوایا گیا۔آپ نے لیگوس پہنچ کر از سرِ نو جماعت کی تربیت کا کام شروع کیا۔نائیجیریا کے تین اسسٹنٹ مبلغین آپ کے ماتحت کام کر رہے تھے۔ مکرم فضل الرحمن حکیم صاحب کی آمد پر یہ افسوسناک صورتِ حال پیدا ہوئی کہ نائیجیریا کی جماعت کے ایک حصے نے مرکزی نظام کے تحت کام کرنے سے انکار کر دیا۔اس منحرف گروہ کی طرف سے فضل الرحمن حکیم صاحب اور دیگر احمدیوں پر مقدمات دائر کرنے کا سلسلہ شروع کیاگیا اور مطالبہ کیا کہ عدالت مرکز سے وابستہ احمدیوں کو احمدیت سے مرتد قرار دے اور جماعت کی تمام املاک کا مالک ان منحرفین کو قرار دیا جائے۔کچھ مقدمات تو خارج کئے گئے اور کچھ میں عدالتوں نے منحرفین کے حق میں فیصلہ دے دیا۔اس ابتلاء کے علاوہ اندرونی فتنے بھی مشکلات میں اضافہ کر رہے تھے۔مگر اس ماحول میں بھی محدود پیمانے پر تبلیغ کا کام شروع کر دیا گیا تھا۔انفرادی ملاقاتوں،لیکچروں،اشاعتِ لٹریچر اور تربیتی کلاسوں کے ذریعہ تبلیغ و تربیت کا کام ہو رہا تھا۔جماعت کا ایک اسکول بھی کام کر رہا تھا۔مگر مذکورہ ابتلاؤں اور مالی دشواریوں کے باعث زیادہ تر کوششیں لیگوس تک محدود تھیں۔یہ صورتِ حال اس وقت بدلنی شروع ہوئی جب دسمبر ۱۹۳۸ء میں فضل الرحمن حکیم صاحب نے نائیجیریا کے مختلف مقامات کا تفصیلی دورہ کیا۔اس دورہ میں آپ ابادان،ایفے(Ife)،اُوو(Owo)،اُنڈو (Ondo) کے شہروں میں گئے۔یہاں پر آپ کے بہت سے تبلیغی لیکچر ہوئے۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ان شہروں کے چیف صاحبان نے عقائد کے اختلافات کے باوجود عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مبلغِ سلسلہ سے ہر قسم کا تعاون کیا۔اورایفے ،اُنڈو اور اوو کے چیف صاحبان نے جماعت کے لئے زمین کے قطعات کا تحفہ بھی پیش کیا۔صرف اس دورے کے دوران جتنی بیعتیں ہوئیں وہ گذشتہ پانچ سال میں بھی نہیں ہوئیں تھیں۔۱۹۴۰ء کے آغاز تک مرکز سے منحرفین کے جس حصے نے علیحدہ ہونا تھا وہ علیحدہ ہو گئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ارشاد فرمایا کہ نیا نظام قائم کرکے کام شروع کیا جائے۔چنانچہ اس کے بعد سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے نائیجیریا کی جماعت کا ایک نیا دور شروع ہؤا۔(۳تا۸)
(۱)Islam Outside Arab World ,by David Westerlund& Ingvar Svanberg, Curzon Press 1999,p61
(۲)Encyclopedia Britannica,Under Usman dan Fodio
(۳) سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۶ء ۔۱۹۳۷ء ص۳۴۔۴۱
(۴)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۷ء ۔ ۱۹۳۸ء ص ۲۷۔۳۳
(۵) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمدیہ ۱۹۳۸ء ۔۱۹۳۹ء ص۷۸۔۸۶
(۶)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۹ء ۔۱۹۴۰ء ص۹۹
‏(۷)The Sunrise June 3 1939,page6-7
(۸) مجددین امتِ محمدیہ اور ان کے تجدیدی کارنامے ص ۲۹۴،۳۰۲
سیرالیون :
سیرالیون افریقہ کے مغربی ساحل پر ایک چھوٹا سا ملک ہے ۔اس وقت اس کی چالیس فیصد آ بادی مسلمان اور ۳۵ فیصد آ بادی عیسائی ہے۔دیگر لوگ بت پرست ہیں۔یہاں پر سب سے پہلے پہنچنے والے یوروپی پرتگال سے تعلق رکھتے تھے۔انہوں نے ۱۴۶۰؁ ء میں یہاں کے ساحل پر قدم رکھا۔پھر وقت کے ساتھ اس علاقے سے یوروپی اقوام کے تجارتی روابط بڑھتے گئے۔وہ یہاں پر کپڑا اور دھات سے بنی ہوئی اشیاء لے کر آتے اور یہاں سے ہاتھی دانت لکڑی اور غلام لے کر جاتے۔اٹھارہویں صدی کے آغاز میں Mandeاور فولانی بولنے والے مسلمان تاجر اُس علاقے سے یہاں پر آئے،جہاں آج کل گنی کا ملک واقع ہے۔ان کی تبلیغ کے نتیجے میں Temneقوم سے تعلق رکھنے والے لوگ مسلمان ہونا شروع ہوئے۔اٹھارہویں صدی کے آخر میں جب مغربی ممالک میں غلامی پر پابندیاں لگنی شروع ہوئیں تو،وہاں سے آزاد کردہ غلاموں کو اس علاقے میں بسانے کا کام شروع ہؤا۔اس طرح فری ٹاؤن کی بستی آباد ہونی شروع ہوئی جو اب اس ملک کا دارالحکومت ہے۔اس علاقے میں انگریزوں نے پہلے کالج کی داغ بیل ڈالی اور کچھ سکول بھی شروع کیے گئے۔اس کے ساتھ ہی مختلف چرچوں نے یہاں کے لوگوں، بالخصوص آزاد کردہ غلاموں کو عیسائی بنانا شروع کیا۔
ہم جس دور کی بات کر رہے ہیں اس میں فری ٹاؤن کا شہر برطانیہ کی کالونی تھی اور ارد گرد کے علاقے کو Protectorateکا درجہ حاصل تھا۔سیرالیون میں احمدیت کی ابتداء ۱۹۱۵ء میں ہوئی جب فری ٹاؤن کے ایک باشندے مکرم موسیٰ کے۔گابا صاحب(Musa K. Gerber)نے جماعت کے شائع کردہ،پہلے پارے کا ترجمہ قرآن پڑھ کر بیعت کی۔ان کے بعد کچھ اور احباب نے بھی بیعت کی سعادت حاصل کی اور بذریعہ خط و کتابت جماعت سے رابطہ رکھنا شروع کیا۔جب ۱۹۲۱ء میں حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیر ؓ کو گولڈ کوسٹ ( غانا)اور نائیجیریا کے لئے بھجوایا گیا تو راستے میں ان کا بحری جہاز کچھ روز کے لئے سیرالیون رکا ۔آپ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں پر احمدیت کی تبلیغ کی اور کچھ لوگ بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے۔۱۹۲۹ء میں جب فضل الرحمن صاحب حکیم نائجیریا سے واپس قادیان جا رہے تھے تو آپ نے تین ماہ کے لئے سیرالیون میں قیام کر کے تبلیغ و تربیت کا فریضہ سر انجام دیا۔اسی دور میں پیغامیوں نے سیرالیون کے کچھ لوگوں سے رابطہ کر کے اپنا لٹریچر بھجوانا شروع کیا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد احمدیت سے بدظن ہو گئی۔
۱۹۳۷ء میں حضورؓ نے گولڈ کوسٹ(غانا) کے مشن کو ارشاد فرمایا کہ مغربی افریقہ کے دیگر علاقوں میں بھی مشن کھولے جائیں اور سالٹ پانڈ سے ان کی نگرانی کی جائے۔چنانچہ اس سال کے وسط میں مولانا نذیر احمد صاحب علی سیرالیون پہنچے۔اس وقت تک پرانے احمدیوں میں سے کچھ فوت ہو چکے تھے،کچھ پیچھے ہٹ چکے تھے اور کچھ نقلِ مکانی کر کے نائیجیریا جا چکے تھے۔صرف دو پرانے احمدیوں سے رابطہ ہو سکا۔احمدی مبلغ کی آمد کا سن کر غیر احمدیوں نے اپنے خرچ پر ہندوستان سے پیغامیوں کے مبلغ کو بلوایا۔اور ان کے ذریعہ مخالفت کا طوفان اٹھایا گیا مگر معاندین کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔کچھ عرصہ کے بعد پیغامی مبلغ بد دل ہو کر واپس چلے گئے۔مولانا نذیر احمد صاحب علی کی کاوشوں سے پہلے فری ٹاؤن میں جماعت بنی اور پھر انہوں نے دیگر علاقوں کا دورہ کیا۔ا ن د وروں کے نتیجے میں چھ مقامات پر لوگ بیعت کر کے جماعت میں داخل ہوئے۔سب سے زیادہ تعداد میں روکوپور کے رہنے والوں نے احمدیت کے پیغام کو قبول کیا۔یہاں کے چیف اور امام دونوں بیعت کر کے جماعت میںداخل ہوگئے اور سکول کے لئے عمارت بھی بنائی گئی۔اس طرح ان حالات میں یہاں پر رفتہ رفتہ احمدیت کا نفوذ شروع ہؤا۔اس وقت کو ئی دیکھنے والا یہ اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ جلد ہی یہ پودا ایک تناور درخت بن جائے گا۔(۱تا۳)
(۱)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۷ء ۔۱۹۳۸ء ص۵۲۔۵۵
(۲)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۸ء ۔۱۹۳۹ء ص۹۶۔۱۰۰
(۳)الفضل ۱۳ اکتوبر ۱۹۴۸ء ص۵
غانا(گولڈ کوسٹ)
غانا بھی افریقہ کے مغربی ساحل پر واقع ہے۔۱۹۳۹ء میں یہ ملک برطانیہ کے قبضے میں تھا اور گولڈ کوسٹ کہلاتا تھا۔اسلام کے آغاز کے بعد یہاں سب سے پہلے خوارج پہنچے ۔خوارج کے ایک فرقہ ابازی کے کچھ تاجر۲۷۲ ھ میں یہاں آئے اورمقامی آبادی میں سے کچھ لوگوں نے اُن کے عقائد کی پیروی شروع کر دی۔اس کے علاوہ صحارا سے کچھ مسلمان تاجر جو مالکی مسلک سے تعلق رکھتے تھے یہاں کاروباری سفر پر آئے اور ان کی تبلیغ کے نتیجے میں یہاں کے باشندوں نے اسلام قبول کرنا شروع کیا۔ مگر مغربی طاقتوں کے غلبہ کے ساتھ یہ علاقہ تقریباََ سارے کا سارا عیسائی ہو گیا اور وہ تعلیم ،عہدوں اور تنظٰیم میں بھی مسلمانوں سے کہیں آگے نکل گئے۔
جیسا کہ کتاب کے حصہ اول میں ذکر آچکا ہے یہاں پر حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیرؓ کے ذریعہ احمدیت کا پیغام ۱۹۲۱ء میں پہنچا تھا۔گولڈ کوسٹ میں سالٹ پانڈ کے قریب فینٹی لوگوں میں چار ہزار مسلمان موجود تھے۔ان کے امیر مہدی نام کے ایک چیف تھے۔انہیں اسلام سے محبت تو تھی لیکن دینی علم نہ ہونے کے برابرتھا۔امیر مہدی کو خدشہ تھا کہ ان کے بعد ان کی قوم اسلام سے پیچھے نہ ہٹ جائے کیونکہ اس دور میں ہر طرف عیسائی مشنری پورے زور و شور سے اپنے مذ ہب کی تبلیغ کر رہے تھے۔ایک شامی تاجر نے انہیں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا پتہ دیا جو اس وقت لندن میں مقیم تھے۔چیف مہدی نے رقم جمع کر کے جماعت کے لندن مشن کو بھجوائی تا کہ ایک مبلغ اس علاقے میں اسلام کی تبلیغ کے لیئے بھجوایا جائے۔دو برس کی تاخیر کے بعد جب حضرت مولانانیر صاحب یہاں پہنچے اور امیر مہدی کے گاؤں اکرافول گئے تو بوڑھے امیر نے کہا خدا کا شکر ہے کہ آپ میری زندگی میں آگئے ،اب یہ مسلمان آپ کے سپرد ہیں۔اس طرح آمد کے فوراََ بعد ہی حضرت مولانا نیر صاحب کو چار ہزار کے قریب مسلمانوں کی تربیت کا کام شروع کرنا پڑا ۔ایک طرف ان کے اخلاص کو دیکھ کر ان کا دل خوشی سے بھر جاتا تھا اور دوسری طرف ان میں اسلامی تربیت کا فقدان مشاہدہ کر کے ان کا دل رونے لگتا تھا۔بنیادی تربیت سے کام کا آغاز ہؤا۔انہیں تلقین کی گئی کہ ستر ڈھانپ کر رکھیں اور اپنے بچوں کے چہروں کو روایت کے مطابق داغنے سے گریز کریں اور کسی کو گھٹنوں کے بل جھک کر سلام نہ کیا جائے۔یہ تھا وہ نقطہ آغاز جس سے گولڈ کوسٹ میں تبلیغ اور تربیت کے کام کا آغاز ہؤا۔لیکن اللہ تعالیٰ نے اس قوم کے اندر اتنی اعلیٰ صلاحیتیں رکھی ہوئی تھیں کہ جلد ہی یہاں کی جماعت دوسری جماعتوں کے لیئے ایک نمونہ بن گئی۔(۱)دسمبر ۱۹۲۲ء میں نیر صاحب نائیجیریا کے لیئے روانہ ہوئے ۔اس مختصر قیام کے دوران مختلف مقامات پرجماعتیں قائم ہو چکی تھیں اور ان جماعتوں کا مرکز سالٹ پانڈ تھا۔جنوری ۱۹۲۲ء میں مکرم فضل الرحمن صاحب حکیم کو گولڈ کوسٹ کے لئے مبلغ بنا کر بھیجا گیا۔آپ نے سات سال گھانا میں فریضہِ تبلیغ سرانجام دیا۔آپ کی کاوشوں سے مقامی معلمین تیار کرنے کا سلسلہ شروع ہؤا ۔سالٹ پانڈ کے مقام پر جماعت کاسکول کھلا اور اشانٹی کے علاقے میں جماعت کا قیام عمل میں آیا۔مولانا فضل الرحمن صاحب حکیم کے بعد مولانا نذیر احمد صاحب علی کو مبلغ بنا کر گولڈ کوسٹ بھیجا گیا۔آپ نے اخبارات میں احمدیت کے متعلق مضامین چھپوانے کا سلسلہ شروع کیا اور اس طرح تبلیغ کا ایک نیاراستہ کھلا۔اس ملک کے معاشرے میں بہت سی مشرکانہ رسوم پائی جاتی تھیں جو احمدیوں کی تربیت میں بھی روک بنتی تھیں۔مولانا نذیر احمد صاحب علی نے ان کے خلاف ایک منظم جہاد شروع کیا۔اس دور میں گولڈ کوسٹ کے تمام تعلیمی ادارے عیسائیوں کے تسلط میں تھے اور اکثر میں بائیبل کی تعلیم دی جاتی تھی۔مولانا نذیر احمد علی صاحب نے جماعت کے مزید چار سکول کھولے اور اس طرح ان کی مجموعی تعداد پانچ ہو گئی۔ان سکولوں میں دنیاوی تعلیم کے علاوہ قرآن مجید اور دینی علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔چار سال کے بعدمولانا نذیر احمد صاحب علی کو واپس قادیان بلا لیا گیا اور۱۹۳۳ء میں ایک مرتبہ پھر فضل الرحمن صاحب حکیم کو گولڈ کوسٹ میں مبلغ مقرر کیا گیا ۔آپ نے اس دور میں اشانٹی کے کچھ احمدی مخلصین کے ساتھ کواؤ(Kwaw ) کے علاقے کی طرف تبلیغی سفر کیا۔بعض مخلصین تو ایک ہفتہ پیدل سفر کر کے اس علاقے میں پہنچے۔ایک مجاہد یعقوب صاحب راستے میں نمونیہ ہو جانے کے باعث شہید ہو گئے۔اس دورے میں ہزاروں لوگوں تک احمدیت کا پیغام پہنچایا گیا اور اس طرح کواؤ کے علاقے میں جماعت قائم ہوئی۔۱۹۳۴ء میں حکیم فضل الرحمن صاحب کو نائیجیریا بھجوا دیا گیا۔اور گولڈ کوسٹ کے لئے ایک بار پھر مولانا نذیر احمد صاحب علی اورسیالکوٹ کے ایک نوجوان مولانا نذیراحمد صاحب مبشر بھجوائے گئے۔یہ پہلی مرتبہ تھا کہ اس ملک میں بیک وقت دومرکزی مبلغین کام کر رہے تھے۔ایک طرف تو تبلیغ کا دائرہ بڑھ رہا تھا ور دوسری طرف جماعت کی تربیت کی ضروریات میں دن بدن اضافہ ہورہا تھا۔چناچہ اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ بڑی تعداد میں مقامی مبلغین تیار کیئے جائیں۔مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر نے مقامی مبلغین کی تیاری کا کام شروع کیا۔
احمدی ہونے والوں میں جب مثبت تبدیلیاں پیدا ہونے لگیںتو یہ بات بعض چیف صاحبان کو ناگوار گذری ۔کیونکہ ان کی احمدی رعایا شریعت کی پابندی کرتے ہوئے نہ تو ان چیف صاحبان کے لیئے شراب اٹھاتی تھی اور نہ ہی خلافِ شریعت دیگر رسومات میں شامل ہوتی تھی۔چنانچہ اباکرامیہ کے چیف نے قسم کھائی کہ وہ اب اپنے علاقے میں احمدیت کی تبلیغ کی اجازت نہیں دے گا۔جب کچھ افسران کا دباؤ پڑا تو ان کو یہ قسم توڑنی پڑی۔لیکن پھر چیفس کی کونسل میں احمدیت کی تبلیغ کا مسئلہ دوبارہ اٹھایا گیا۔جب جماعت کے مبلغ نے جماعت کی تعلیمات وہاں پر بیان کیں تو ان کے تمام شبہات دور ہو گئے اور انہوں نے وعدہ کیا کہ اب احمدیوں کو تنگ نہیں کیا جائے گا۔
۱۹۳۹ء میں بیرونِ ہند کی جماعتوں میں کئی لحاظ سے گولڈ کوسٹ کی جماعت کو ایک انفرادی مقام حاصل تھا۔ یہاں پر جماعت کے سکولوں کی تعداد ۷ تھی۔اس وقت ہندوستان سے باہر کسی اور ملک میں جماعت کے اتنے تعلیمی ادارے کام نہیں کر رہے تھے۔ایگزیکٹیو کمیٹی کے نام سے مختلف سیکریٹریان کی ایک کمیٹی کام کر رہی تھی جو اپنے فرائض لگن سے ادا کر رہے تھے۔مقامی مبلغین کی ایک خاطر خواہ تعداد تیار ہو چکی تھی۔ان میں سے بہت سے کل وقتی طور پر جماعت کا مبلغ بن کر کام کر رہے تھے۔اور بسا اوقات پیدل لمبے لمبے سفر کرکے مختلف علاقوں میں پہنچ کر احمدیت کا پیغام پہنچاتے۔بعض سالوں میں ان کی تعداد سترہ تک بھی پہنچ جاتی تھی۔اس کے علاوہ یہاں پر لجنہ کی تنظیم کا آغاز ہو چکا تھا اور اس تنظیم کے ذریعہ احمدی عورتوں کی تربیت کا اہم کام کیا جا رہا تھا۔ایک تعلیم یافتہ احمدی خاتون سعیدہ بنت جمال خصوصیت سے احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت میں فعال کردار ادا کر رہی تھیں۔یہ کاوشیں اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہوئیں اور اس ملک میں جماعت تیزی سے ترقی کرنے لگی۔(۱تا ۴)
(۱) الفضل ۱۹ مئی ۲۱ ۱۹ء ص۳۔۵
(۲)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۷ء ۔۱۹۳۸ء ص۳۴۔۵۲
(۳)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۸ء ۔۱۹۳۹ء ص۸۷۔۹۵
(۴) رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمدیہ ۱۹۳۶ء ۔۱۹۳۷ء ص۴۱۔۴۴
ماریشس:
ماریشس بحیرہ ہند میں واقعہ ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔آبادی کی اکثریت ہند و ہے۔ملک کی تیرہ فیصدآبادی مسلمان ہے۔یہاں پر بسنے والوں کی اکثریت ان لوگوں کی اولاد سے ہے جو ہندوستان سے یہاں آکر آباد ہوئے تھے۔
اس مشن کے قیام کا تذکرہ کتاب کے حصہ اول میں آچکا ہے۔ماریشس میں پہلی بیعت ۱۹۱۲ء میں ہوئی تھی۔یہ خوش نصیب محترم نور محمد نورویا صاحب تھے جو مسلمانوں کے ایک دینی جریدے کے ایڈیٹر تھے۔آپ تک احمدیت کا پیغام ریویو آف ریلجنز کے ذریعہ پہنچا تھا۔۱۹۱۵ء میں حضرت مصلح موعود ؓ نے پہلا مبلغ ماریشس بھجوایا۔یہ مبلغ حضرت مسیح موعود ؓ کے صحابی حضرت صوفی غلام محمد صاحب ؓ تھے۔جب کام میں اضافہ ہوا تو مرکز کی طرف سے مکرم مولوی عبید اللہ صاحب کو بھی بھجوایا گیا ۔آپ نے چھ سال جانفشانی سے وہاں پر فریضہ تبلیغ ادا کیا اور پھر ماریشس میں ہی آپ کا انتقال ہوا۔۱۹۳۹ء میں مکرم حافظ جمال احمد صاحب یہاں پر جماعت کی طرف سے مبلغ کے طور پر کام کر رہے تھے۔حضرت مصلح موعودؓ نے ماریشس میں آپ کی تقرری ۱۹۲۸ء میں فرمائی تھی۔جب آپ نے بیوی بچوں کو ساتھ لے جانے کی اجازت طلب کی تو حضورؓ نے اس شرط پر اجازت مرحمت فرمائی کہ ساری زندگی ماریشس میں گذارنی ہو گی اور واپسی کی اجازت نہیں ہوگی۔آپ ایک اچھے مضمون نگار تھے چنانچہ آپ نے احمدیت کی تبلیغ کے لیئے بہت سے پمفلٹس شائع کیئے۔آپ کے دور میں ماریشس میں جلسہ سیرت النبی ﷺ کا آغاز ہؤا۔ماریشس میں آریوں نے اسلام کے خلاف مہم چلائی ہوئی تھی۔آپ نے کامیابی کے ساتھ آریوں کا مقابلہ کیا۔۱۹۳۹ء میں ماریشس میں ۱۸ جماعتیں قائم تھیں۔جماعت کا ملکی مرکز روزہل کے مقام پر تھا۔جماعت کی طرف سے تبلیغی مساعی جاری تھی اور اردو انگریزی اور فرانسیسی زبان میں اشتہارات بھی شائع کیئے جاتے تھے(۱تا۳)
(۱)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ۱۹۳۶ء ۔۱۹۳۷ء ص۱۴۴۔۱۴۵
(۲) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۷ء ۔۱۹۳۸ء ص۱۳۲۔۱۳۵
(۳)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ص۱۹۳۹ء ۔۱۹۴۰ء ص۹۸
بلادِ عربیہ:
بلادِ عربیہ بالخصوص حیفا و کبابیر(فلسطین) میں جماعت کے قیام اور ابتدائی ترقی کا ذکر کتاب کے حصہ اول میں گذر چکا ہے۔جب ۳۱ ۱۹ء میں حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کو واپس قادیان بلایا گیا تو مکرم مولانا ابو العطاء صاحب کو حیفا میں مبلغ مقرر کیا گیا۔اللہ تعالیٰ نے انہیں ساڑھے چار سال نہایت کامیاب خدمتِ دین کی توفیق عطا فرمائی۔۱۹۳۹ء میں یہاں پر مکرم چوہدری محمد شریف صاحب مبلغ کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔بلادِ عربیہ میں جماعت کا مرکز حیفا (فلسطین) میں تھا۔یہ علاقہ برطانیہ کے زیرِ تسلط تھا۔اس دور میں فلسطین میں سیاسی مسائل کی وجہ سے امنِ عامہ کے حالات دگرگوں تھے۔ہر روز بیسیوں آدمی قتل ہو جاتے اور سینکڑوں کو جیل خانے میں ٹھونس دیا جاتا ۔روزانہ کم و بیش دو تین کو تختہ دار پر لٹکایا جاتا۔آنے جانے پر طرح طرح کی پابندیاں لگی ہوئی تھیں۔ان دشواریوں کی وجہ سے تبلیغ کا کام بہت محدود پیمانے پر ہی ہو سکتا تھا۔جماعت کبابیر اِس وقت ایک نہایت خطرناک دور سے گذر رہی تھی۔ان ایام میں دہشت گردوں نے جماعتِ احمدیہ کا مکمل طور پر خاتمہ کرنا چاہا۔شام سے فتوے بھجوائے گئے کہ احمدی مبلغ کو قتل کردیا جائے اور جس مکان میں وہ رہتا ہے اسے ڈائنامائٹ سے اڑا دیا جائے۔اور دوسرے سرکردہ احمدیوں کو بھی قتل کر دیا جائے۔چنانچہ ایک دن کبابیر کے احمدیوں کو پیغام ملا کہ پانچ سو پونڈ دو ورنہ ہم تمہیں خوارج قرار دے کر قتل کر دیں گے۔یہ غریب جماعت اتنی رقم کا انتظام کہاں سے کرتی۔ جس وقت عشاء کی نماز ہو رہی تھی دس مسلح آدمیوں نے مسجد کا محاصرہ کر لیا اور دس آدمیوں کو قتل کرنے کے لئے لے گئے۔پھر پاس کے گاؤں کے با اثر آدمیوں کی مداخلت پر انہیں چھوڑا اور یہ حملہ آورپچاس پونڈ کی رقم لے کر فرار ہو گئے۔ابھی چند ہی روز گذرے تھے کے شر پسندوں کا یہ گروہ خدا تعالیٰ کی گرفت میں آگیا ۔ان کے بہت سے ساتھی قتل ہوئے اور پھر ان کا سر غنہ بھی پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گیا۔پھردہشتگردوں کا یہ گروہ ختم ہو گیا۔علاقہ میں مشہور ہو گیا کہ ان کو احمدیوں پر ظلم کرنے کی سزا ملی ہے۔
جنوری ۱۹۳۹ء میں حضرت منیر الحصنی صاحب کاروبار کے سلسلے میں دمشق منتقل ہوئے۔ان کی کاوشوں سے دمشق کی جماعت منظم ہونا شروع ہوئی۔ایک مکان کرایہ پر لے کر اجتماعات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔تبلیغ کا سلسلہ شروع ہی ہؤا تھا کہ مخالفت زور پکڑ گئی۔مشائخِ دمشق نے منیر الحصنی صاحب کے قتل کاارادہ کیا۔ اور کہلا بھیجا کہ جس گھر میں احمدی جمع ہوتے ہیں اس کو آگ لگا دی جائے گی۔چناچہ مجبوراََ یہ سلسلہ روکنا پڑا۔لیکن انفرادی تبلیغ کا سلسلہ جاری رہا۔فروری ۱۹۴۰ء میں ایک بڑے عالم نے احمدیوں کے ساتھ مباہلہ کا ارادہ کیا۔مگر اس نے کچھ منذر خوابیں دیکھیں تو مباہلے سے انکار کر دیا۔اس امر کا زیرِ تبلیغ احباب پر بہت اچھا اثر ہؤا۔
حضور کے ارشاد کے تحت مولوی محمد دین صاحب پہلے اسکندریہ اور پھر قاہرہ میںمقیم رہ کر جماعت کی تربیت اور تبلیغ کے لئے سعی کر رہے تھے۔اور مصر کی جماعت میں بیداری پیدا ہو رہی تھی۔
یہ دور بغداد کی جماعت کے لئے بھی آزمائش کا دور تھا۔حکومتِ عراق نے ارادہ کیا تھا کہ احمدیوں کو عراق سے نکال دے اور اس کے لئے تحقیقات بھی شروع کی گئیں مگر پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ عمل رک گیا۔مگر حکومت کا معاندانہ رویہ جاری رہا۔اس کے با وجود وہاں کے احمدی تبلیغی کوششیں کر تے رہے ۔(۱،۲)
(۱)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۸ء ۔۱۹۳۹ء ص۶۹۔۷۴
(۲)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۹ء ۔۱۹۴۰ء ص۹۹۔۱۰۷
انڈو نیشیا:
اس وقت یہ علاقہ ہالینڈ کے زیرِ تسلط تھا۔اور جاوا اور سماٹرا میں جماعت کے مشن کامیابی سے کام کر رہے تھے۔ان کے آغاز اور ابتدائی حالات کی کچھ تفاصیل کتاب کے حصہ اول میں آ چکی ہیں۔دونوں مقامات پرہونے والی جد وجہد کا ایک خاکہ پیش ہے
سماٹرا میں اس وقت مولوی محمد صادق صاحب بطور مبلغ کام کر رہے تھے اور ان کے ساتھ یہاں کے فدائی احمدی مکرم ابو بکر ایوب صاحب تبلیغِ احمدیت کے لئے کوشاں تھے۔یہاں پر جماعت کا مرکزیہاں کے ایک شہر میدان میں تھا۔جماعت کی طرف سے البشریٰ اور سینار اسلام کے جریدے بھی قدرے بے قاعدگی سے شائع ہو رہے تھے۔انفرادی ملاقاتوں ،تبلیغی لیکچروں اور ملایا اور ڈچ زبان میں لٹریچر کے ذریعہ تبلیغ ہو رہی تھی۔۱۹۳۵ء تک تو عیسائیوں اور غیر احمدیوں سے بڑے بڑے مناظرے ہوئے ،جن میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی مگر جب مخالفین کو خفت اٹھانی پڑی تو انہوں نے مناظروں اور مباحثوں سے کترانا شروع کر دیا۔مگر مخالفانہ روش میں پہلے سے بھی بڑھ گئے۔تعصب اتنا بڑھ گیا کہ اگر کوئی شخص احمدیہ مشن کا راستہ بھی پوچھتا تو اسے یہی کہا جاتا کہ اب یہاں پرکوئی احمدی نہیں رہتا۔ہالینڈ کی حکومت کے ماتحت بہت سے علاقائی سلاطین اپنے اپنے علاقے میں اثر و رسوخ رکھتے تھے اور مذہبی معاملات ان کی وساطت سے ہی طے ہوتے تھے اور حکومت ان میں کم ہی مداخلت کرتی تھی۔ان سلاطین نے اپنے اپنے قاضی اور علماء مقرر کئے ہوئے تھے۔ان علماء اور سلاطین کی طرف سے احمدیت کی سخت مخالفت ہو رہی تھی۔یہ جماعت کی تبلیغ کو روکنے کی کوشش کرتے۔مقرر شدہ قاضی کی توثیق کے بغیر کوئی نکاح رجسٹر نہیں ہو سکتا تھا۔ان قاضیوں نے احمدیوں کے نکاح کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا۔حکومت نے بھی شروع میں مدد نہ کی۔ مگر پھر احمدیوں کی ہمت اور ثباتِ قدم سے احمدیوں کو اپنے علیحدہ نکاح پڑھنے کی اجازت مل گئی۔علماء کی طرف سے قبرستانوں میں احمدیوں کی تد فین پر بھی پابندی لگا دی گئی اور انہیں یہ کہہ کر مرتد کرنے کی کوشش کی گئی کہ اگر تم مر گئے توکسی قبرستان میں قبر کی جگہ بھی نہ مل سکے گی۔احمدیوں نے اپنا علیحدہ قبرستان لے لیا اور اس طرح یہ شور و غوغا بھی تھم گیا۔
جاوا میں احمدیہ مشن ۱۹۳۰ء میں کھولا گیا اور ابتدائی سالوں میں یہاں چھ جماعتیں قائم ہو گئیں۔مشن ہاؤس کرائے کی عمارت میں شروع کیا گیا اور گاروت میں زمین خرید کر مسجد کی تعمیر شروع کر دی گئی۔تبلیغی مجالس میں غیر احمدی مسلمانوں اور عیسائیوں سے دلائل کا تبادلہ ہوتااور اس طرح لوگ احمدیت کی صداقت کے دلائل سنتے۔اور سونڈی اور ملایا زبان میں لٹریچر شائع کر کے تبلیغ کے کام کو اور وسعت دی گئی۔مولوی رحمت علی صاحب اور مولوی عبدالواحد صاحب کے سمیت یہاں پر پانچ مبلغین مصروفِ تبلیغ تھے۔مسلمانوں کی تنظیمیں مخالفت میں پیش پیش تھیں اور ایک تنظیم Party Anti Ahmaddiyyahخالصتاََ احمدیت کی مخالفت کے لئے بنائی گئی تھی۔ان عوامل کے باوجود جماعت ترقی کر رہی تھی اور تبلیغی لٹریچر شائع کرنے کے لئے ایک چھوٹا سا پریس بھی خریدا گیا تھا۔جاوا میں لجنہ اماء اللہ کی تنظیم بھی قائم ہو گئی تھی اور
ایو کرسینہ صاحبہ اس کی پہلی صدر کی حیثیت سے اپنے فرائض ادا کر رہی تھیں۔
مکرم مولوی رحمت اللہ صاحب جو ستمبر ۱۹۳۷ء میں تیسری دفعہ جاوا بھیجے گئے تھے سوا دو سال کے بعد دسمبر ۱۹۳۹ء کو قادیان واپس تشریف لے آئے۔(۱تا۵)
(۱) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۴ء ۔۱۹۳۵ء ص۹۰۔۱۰۰
(۲)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۵ء ۔۱۹۳۶ء ص۱۲۱ ۔ ۱۴۱
(۳) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۷ء ۔۱۹۳۸ء ص ۱۳۹۔۱۴۲
(۴) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ۱۹۳۸ء ۔۱۹۳۹ء ص۱۴۱۔۱۵۰
(۵)الفضل ۱۶ اکتوبر ۱۹۴۰ء ص۷
برما:
برما کی اکثر آبادی بدھ مذہب سے وابستہ ہے۔کچھ مسلمان شاہ شجاع کے زمانے میں وہاں جا کر آباد ہوئے تھے۔ان کو زیرآبادی کہا جاتا تھا۔لیکن یہ اپنے ماحول میں بھی پسماندہ سمجھے جاتے تھے۔یہاں پر مختلف مقامات پر احمدی تو پہلے سے موجود تھے اور ۱۹۳۷ء میں ایک دوست احسان اللہ سکدار پیدل برما سے قادیان بھی آئے تھے۔اپریل ۱۹۳۸ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثا نیؓ نے مکرم مولانا احمد خان نسیم صا حب کو برما میں تبلیغ کے لئے بھجوایا اور ہدایت دی کہ زیادہ تر تبلیغی کوششیں زیر آبادی کے لوگوں میں کی جائیں۔زیر آبادی کے لوگ ہندوستان کے ان باشندوں کی اولادسے تھے جو شاہ شجاع کے زمانے میں ہندوستان سے یہاں آکر آ باد ہوئے تھے۔مکرم احمد خان صاحب نسیم نے یہاں پر رہنے والے احمدیوں کے ساتھ مل کر تبلیغ شروع کی اور جلد اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعتوں کاسلسلہ بھی شروع ہو گیا۔زیادہ تر نو احمدی زیر آبادی سے تعلق رکھتے تھے۔(۱)
(۱)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۸ء ۔۱۹۳۹ء ص۱۵۱۔۱۵۵
سیلون(موجودہ سری لنکا):
سیلون ان خوش قسمت ممالک میں سے ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی احمدیت کا پودا لگ گیا تھا۔اور آپ کی مبارک زندگی میں سیلون کے بعض افراد کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام جماعت کے انگریزی رسالہ ریویو آف ریلجنز کے ذریعہ سیلون میں پہنچا۔اور اسی دور میں ایک احمدی محترم منشی محمد حیدر خان صاحب سیلون میں وارد ہوئے اور اپنے طور پر احمدیت کا پیغام یہاں رہنے والوں کو پہنچانا شروع کیا۔ان کی تبلیغ سے سیلون کے شہر کینڈی میں مکرم غوث محمد اکبر صاحب اور پھر مسلمانوں کی ایک انجمن کے صدر مکرم عبد العزیز صاحب تحریری بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ آپ نے احمدیت کے متعلق ایک ٹریکٹ بھی شائع کیا۔۱۵ ۱۹ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت صوفی غلام محمدؓ صاحب بطور مبلغ ماریشس جا رہے تھے۔آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے ارشاد پر تین ماہ کے لئے سیلون رکے۔آپ نے کولمبو اور کینڈی میں تبلیغ کی اور اس کے نتیجے میں تیس افراد بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے۔آپ نے یہاں پر متعدد تبلیغی لیکچر بھی دیئے اور آپ کے ایک لیکچر کو ایک مقامی اخبار نے شائع کیا۔ان کاوشوں کے ساتھ ہی مخالفت کا آغاز ہو گیا۔اور جماعت کے مخالف مولویوں نے حکومت کو درخواست دی کہ سیلون میں احمدیوں کے مبلغ کے داخلے پر پابندی لگائی جائے(۱)۔اور اُس وقت حکومت نے سیلون میں احمدی مبلغین کی آمد پر پابندی لگا دی جو بعد میں اُٹھا لی گئی۔۱۹۱۶ء کی عید کے موقع پر عبد العزیز صاحب کے ٹریکٹ کا تامل ترجمہ شائع کیا گیا۔
۱۹۱۶ء میں جماعت احمدیہ سیلون نے مرکزکو لکھا
’جب سے مسٹر عبد العزیز مرحوم کی کتاب احمد علیہ السلام کے مشن کے متعلق شائع ہوئی ہے ہم پر ہر طرف سے سوالات کازور ہے،جن کا جواب دیا جانا نہایت ضروری ہے۔اکثر لوگ تحقیق حق کے لئے سوالات کرتے ہیںجن سے امید ہے کہ جواب ملنے پر داخلِ سلسلہ حقہ ہو جائینگے۔
ملائیں لوگ ہم کو جگہ سے بے دخل کرنے کی سخت کوشش کر رہے ہیں۔اور اگر ہمارے پاس جلدی ہی کوئی ایسا مبلغ جو انگریزی و عربی دان ہو نہ بھیجا جائے گا تو ہمیں ڈر ہے۔جلد ہی ہماری مدد فرماویں۔
موجودہ وقت ہم پر نہایت سخت گذر رہا ہے ۔وہ ہماری نسبت طاقتور ہیں۔اور ہمارے خلاف ایسی باتیں پیش کرتے رہتے ہیں ۔جن سے لوگوں کو اشتعال پیدا ہوتا ہے۔‘(۲)
مولوی محمد ابراہیم صاحب جو مالابار (ہندوستان )میں ماہی کے رہنے والے تھے ،تلاشِ حق کرتے ہوئے قادیان آئے اور احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ کچھ عرصہ قادیان میں رہے۔پھر ۱۹۱۷ء میںآپ کو مبلغ بنا کر سیلون بھجوا دیا گیا ۔آپ کی آمد کے بعد تبلیغ کا کام از سرِ نو شروع کیا گیا اور سیلون سے ایک طالب علم مکرم ابوالحسن صاحب نے قادیان آکر کچھ عرصہ دینی تعلیم حاصل کی اور پھر سیلون جا کر تبلیغ کے کام میں مکرم مولوی ابراہیم صاحب کا ہاتھ بٹانے لگے۔۱۹۲۰ء میں کولمبو میں ایک عمارت حاصل کی گئی جو مشن ہاؤس اور مسجد کا کام دینے لگی۔۹۲۰ٍ۱ میں احمدیت کی مخالفت نے نئے سرے سے زور پکڑا اور احمدیوں پر جھوٹے مقدمات بھی بنائے گئے۔
۱۹۲۱ء میں حضرت مصلح موعود ؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت سردار عبدالرحمن صاحبؓ کو دورہ پر سیلون بھجوایا ۔آپ نے کولمبو اور کینڈی کے مقامات کے دورے کئے اور متعدد لیکچر دیئے۔آپ نے عیسائی پادریوں کو اور مسلمان علماء کو وفاتِ مسیح پر مباحثے کے لئے تحریری چیلنج دیئے لیکن انہیں کسی نے قبول نہیں کیا۔آپ کے دورہ کی خبریں سیلون کے اخبارات میں شائع ہوتی رہیں۔
۱۹۲۲ء میں سیلون کی جماعت نے اپنی سالانہ میٹنگ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ اس ملک میں جماعت کے مبلغ کی آمد پر پابندی لگا دی گئی ہے اور بدھ اور عیسائی مبلغین کو سڑکوں اور گلیوں پر تبلیغ کرنے کی اجازت ہے مگر دوسری طرف اسلام کے مبلغین پر پابندی ہے کہ وہ سڑکوں پر تبلیغ نہ کریں۔اُس وقت مولوی ابراہیم صاحب سیلون جماعت کے صدر تھے۔(۳)
۱۹۲۷ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ نے سیلون کا دورہ فرمایا۔اور عیسائی ،بدھ اور مسلمان علماء سے مناظرے ہوئے۔۱۹۳۱ء میں مولوی عبد اللہ مالاباری صاحب نے اس ملک میں با قاعدہ دارالتبلیغ قائم کیا۔ نیگومبو میں جماعت تو پہلے ہی قائم ہو چکی تھی ۱۹۳۱ء میں اس شہر میں مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔مولوی عبد اللہ صاحب نے سیلون میں ۱۹۵۱ء تک خدمات سر انجام دیں۔آپ چھ ماہ سیلون میں کام کرتے اور مالابار واپس چلے جاتے۔اور یہ سلسلہ ۱۹۵۱ء تک اسی طرح جاری رہا۔(۴)
‏ (۱)Review of Religions ,December 1916 p 477-478
(۲) الفضل ۳۰ ستمبر ۱۹۱۶ء ص۱
‏(۳)Review of Religions,march,April,May 1922p 195-196
(۴) تاریخ سیلون مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص ۱ تا ۱۳
جاپان:
اس ملک میں پہلے مبلغ مکرم عبد القدیرصاحب نیاز تھے ۔جنہوں نے کوبے میں مشن قائم کیا۔ان کو ایک مرحلے پرحکومتِ جاپان نے بعض شکوک و شبہات کی بناء پر حراست میں لے لیا مگر پھر تین ماہ کے بعد معصوم پا کر رہا کر دیا۔ان کے قیام کا زیادہ عرصہ زبان سیکھنے میں صرف ہؤا۔آپ ۱۰/جنوری ۱۹۳۵ء کو جاپان پہنچے اور ۲ اگست ۱۹۳۸ء کو واپس تشریف لے آئے۔ان کے بعد صوفی عبدالغفور جالندھری صاحب جاپان میں مبلغ مقرر ہوئے۔آپ مارچ ۱۹۳۵ء کو جاپان پہنچے اور جنوری ۱۹۳۷ء کو واپس تشریف لے آئے۔
( رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۷ئ۔۱۹۳۸ء ص ۱۴۵۔۱۴۷)
ہانگ کانگ اور سنگاپور مشن:
۱۹۳۵ء میں مشرقِ بعید میں احمدیت کی تبلیغ کا آغاز ہؤا۔جاپان مبلغین بھجوانے کے علاوہ ،ہانگ کانگ کے لئے صوفی عبدالغفور صاحب کو بھجویا گیا۔انہوں نے ۱۹۳۵ء میں ہانگ کانگ مشن کا اجراء فرمایا۔آپ ایک عمدہ مقرر تھے۔آپ نے سوسائیٹیوں اور جلسوں میں تقاریر کر کے اہلِ ہانگ کانگ تک احمدیت کا پیغام پہنچانا شروع کیا۔آپ نے تین سال تک وہاں پر فریضہِ تبلیغ ادا کیا۔۱۹۳۶ء میں یہاں پر اسلامی اصول کی فلاسفی کا چینی ترجمہ شائع کیا گیا اور پھر متعدد تبلیغی ٹریکٹ شائع کئے گئے۔وسط ۱۹۳۷ء میںمولوی عبد الواحد صاحب ہانگ کانگ میں تشریف لائے۔اس سے قبل آپ کنٹن(چین )میں زبان سیکھتے رہے تھے۔آپ نے ڈھائی سال تک یہاں پر قیام کیا اور لوگوں تک اسلام کے پیغام کو پہنچایا۔اکتوبر ۱۹۳۷ء میں مکرم محمد اسحاق صاحب مبلغ بن کر ہانگ کانگ تشریف لے گئے ۔اور تبلیغ کا کام جاری رکھا۔
۱۹۳۹ء میں سنگا پور میںمکرم غلام حسین صاحب ایاز مبلغ کے طور پر کام کر رہے تھے۔سنگاپور میں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے۔ان کی طرف سے شدید مخالفانہ ردِ عمل دکھایا گیا۔جمیعۃ دعوۃ اسلامیہ نے جلسوں میں احمدیوں پر کفر کے فتوے لگائے اور لوگوں کو اکسا یا کہ ان کا قتل کرنا جائز ہے۔کچھ احمدیوں کو مارا پیٹا گیا ۔راہ چلتے احمدیوں کو گالیاں دے کر تنگ بھی کیا گیا۔لیکن ان نا مساعد حالات کے با وجود سنگاپور کے باشندوں کو پیغامِ حق پہنچایا جا رہا تھا اور ایک ایک کر کے سعید وجود احمدیت میں داخل ہو رہے تھے۔
یہ ایک مختصر خاکہ ہے کہ ۱۹۳۹ء میں اکنافِ عالم میں احمدیت کا پیغام کس طرح پہنچایا جا رہا تھا اور کس طرح مختلف مقامات پر احمدیت کے چھوٹے چھوٹے جزیرے بننے شروع ہوئے تھے۔ تاریخ کے اس موڑ پردنیا ایک ایسی تباہی کے کنارے پر کھڑی تھی جس کی نظیر اس سے قبل کی تاریخ میں نہیں پائی جاتی۔دنیا کو ایسا دھکا لگنے والا تھا جس سے تمام عالم کا سیاسی منظر ،پوری دنیا کی اقتصادیات اور معاشی قدریں سب کچھ تبدیل ہو کر رہ جانا تھا ۔یا دوسرے لفظوں میں اس واقعہ نے بیسویں صدی کو دو موٹے حصوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا۔اوراس سے وقتی طور پر جماعت کی عالمگیر تبلیغ کی مہم بھی متاثر ہوئی۔
عالمی منظر پر تبدیلیاں اور دوسری جنگِ عظیم کا آغاز
جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کو ئی مامور دنیا میں آتا ہے تو سعادت مند اسے قبول کر کے انعامات کے حقدار بنتے ہیں۔۔اور جو بد نصیب اس کے مقابل پر شوخی اور استہزاء سے کام لیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے غضب سے حصہ پاتے ہیں۔اگراس اتمامِ حجت کے بعد بھی دنیا گناہوں میں ترقی کرتی جائے تو یہ بد اعمالیاں خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے کا باعث بنتی ہیں۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا(۱)یعنی ہم ہر گز عذاب نہیں دیتے یہاں تک کہ کوئی رسول بھیج دیں۔حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں
’’خدا فرماتا ہے کہ محض اس عاجز کی سچائی پر گواہی دینے کے لئے اور محض اس غرض سے کہ تا لوگ سمجھ لیں کہ میں اس کی طرف سے ہوں پانچ دہشتناک زلزلے ایک دوسرے کے بعد کچھ کچھ فاصلہ سے آئیں گے تا وہ میری سچائی کی گواہی دیں۔اور ہر ایک میں ان میں سے ایک ایسی چمک ہو گی کہ اس کے دیکھنے سے خدا یاد آجائیگا اور دلوں پر ان کا ایک خوفناک اثر پڑے گا اور وہ اپنی قوت اور شدت اور نقصان رسانی میں غیر معمولی ہوں گے جن کے دیکھنے سے انسانوں کے ہوش جاتے رہیں گے۔یہ سب کچھ خدا کی غیرت کرے گی کیونکہ لوگوں نے وقت کو شناخت نہیں کیا۔‘‘(۲)
اپریل ۱۹۳۸ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کو رؤیا و کشوف کے ذریعہ ایک ایسی خوفناک تباہی کی خبر دی گئی جس نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لینا تھا۔پہلے حضورؓ نے نیم غنودگی میں نظارا دیکھا کہ آپ نے سورۃ نوح کی تلاوت کی ہے۔اس سورۃ میں حضرت نوح کی تبلیغ ،ان کی قوم کے انکار اور اس کے نتیجے میں آنے والے عذاب کا ذکر ہے۔اس کے ایک ہفتہ کے بعد آپ نے رؤیا دیکھا کہ حضور اٹلی اور برطانیہ کے درمیان سمندر میں ایک کشتی میں ہیں اور شدید گولہ باری شروع ہو جاتی ہے حتّٰی کہ معلوم ہوتا ہے کہ فضا گولوں سے بھر گئی ہے۔اسی اثناء میں یکدم آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ ایک زبردست طوفان آیا ہے اور دنیا میں پانی ہی پانی ہو گیا ہے۔اس رؤیا میں اٹلی کو مغرب میں اور انگریز علاقے کو مشرق میں دکھایا گیا تھا جب کہ اصل میں برطانیہ اٹلی کے مغرب میں ہے۔ دراصل اس میں جنگ کے انجام کی طرف اشارہ تھا کیونکہ علم التعبیر کی رو سے مشرق اقبال پر دلالت کرتا ہے اور مغرب بد بختی اور عاجزی کو ظاہر کرتا ہے۔(۳)آپ کی طبیعت پر اس رؤیا کا اتنا اثر تھا کہ آپ نے اس وقت بیدار ہو کر تلاوت شروع کردی۔آپ کی حرم حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ تحریر فرماتی ہیں کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اورآپ اس تڑپ سے تلاوت کر رہے تھے کہ لگتا تھا کہ آپ کا دل پھٹ جائے گا اور آپ کی فریاد عرشِ الہی کو ہلا دے گی۔(۴)آپ نے ۱۹۳۸ء کی مجلسِ شوریٰ میں یہ رؤیا بیان فرما کر جماعت کو دعاؤں کی طرف توجہ دلائی۔
اب ہم ذرا ٹھہر کر جائزہ لیتے ہیں کہ جس وقت حضورؓ نے یہ رؤیا بیان فرمائی اور یہ رؤیا مشاورت کی رپورٹ میں شائع بھی ہوئی اس وقت بین الاقوامی حالات کیا منظر پیش کر رہے تھے۔کیا اس وقت حالات کا رخ دیکھنے سے اس بات کے کوئی امکانات نظر آرہے تھے کہ جلد دنیا ایسی خوفناک جنگ کی لپیٹ میں آجائے گی جس کی نظیر تاریخ میں نہ ملتی ہو۔یہ ٹھیک ہے کہ اس وقت جرمنی کی فوجی قوت میں اضافے کی وجہ سے یورپ کے سیاسی افق پر تناؤ کی کیفیت تھی اور ۱۹۳۸ء کے آغاز میں آسٹریا پر جرمنی کے قبضے کی وجہ سے اس تناؤ میں اضافہ ہو گیا تھا۔ا’س وقت برطانیہ اور فرانس یہ تو محسوس کر رہے تھے کہ جرمنی کی طاقت میں اضافہ کوئی خوشکن پیش رفت نہیں ہے۔لیکن اس بات کے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے تھے کہ دوسری جنگِ عظیم جیسی آفت دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔انہی دنوں میںبرطانوی وزیرِ اعظم چیمبرلین اس امید کا اظہار کر رہے تھے کہ وہ ابھی جرمنی سے معاہدہ ہونے کی امید رکھتے ہیں۔اور اس کے کئی ماہ کے بعد انہوں نے جرمنی جا کر چیکو سلاویکا کے مسئلے پرہٹلر سے مذاکرات بھی کئے تھے اور بظاہر مفاہمت کرنے میں کامیاب بھی ہوگئے تھے۔ جولائی ۱۹۳۸ء میں برطانوی وزیرِ خارجہ نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا تھا کہ ان کا خیال ہے کہ یورپ کی کوئی بھی حکومت جنگ کی خواہاں نہیں ہے۔بلکہ اگلے سال مارچ تک بھی برطانیہ کے ہوم سیکریٹری یہ تقریر کر رہے تھے کہ وہ پر امید ہیں کہ امن کے پانچ سالہ منصوبے کے بعد ایک سنہرے دور کا آغاز ہو گا۔ اور جرمنی سے ایک تجارتی معاہدے کی باتیں ہو رہی تھیں۔برطانیہ اور فرانس کی حکومتیں اس وقت جنگ کے امکانات کو زیرِ غور لانے کو بھی تیار نہیں تھیں اور امریکا کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس تنازعہ کا فریق بن جائے گا۔(۵)اس رؤیا سے معلوم ہوتا تھا کہ اٹلی اور برطانیہ ایک دوسرے کے مقابل پر آئیں گے۔جبکہ اسی ماہ اٹلی اور برطانیہ کی حکومتوں نے آپس میں معاہدہ کیا تھا۔اور برطانیہ کی حکومت نے ایبے سینیا پر اٹلی کے تسلط اور سپین میں اٹلی کے عمل دخل کو قبول کر لیا تھا۔اور اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے چرچل جیسے ذہین سیاستدان اس معاہدے سے پوری طرح متفق تو نہیں تھے مگر کھلم کھلا اس کی مخالفت کرنے سے بھی گریز کر رہے تھے کیونکہ ان کو امید تھی کہ اس معاہدے سے اٹلی کی طرف سے تنازع کے بگڑنے کے امکانات کم ہو جائیں گے اور اٹلی جرمنی پر دباؤ ڈالے گا کہ وہ اپنی جارحانہ پالیسی ترک کر دے۔(۵)مختصراََ یہ کہ اس بات کے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے تھے کہ پوری دنیا جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آجائے گی اور کروڑوں انسان اس کا شکار ہوجائیں گے۔
البانیہ پر قبضہ:
۱۹۳۹ء کے شروع ہونے کے بعد یورپ میںحالات مزید تیزی سے تبدیل ہونے لگے۔جرمنی نے چیکو سلاویکا پر قبضہ کر لیا۔اور۲۵ مارچ کو اٹلی نے البانیہ کو الٹی میٹم دیا اور ۷؍ اپریل ۱۹۳۹ء کی صبح کو اطالوی فوجیں البانیہ میں داخل ہونا شروع ہوئیں اور کچھ جھڑپوں کے بعد البانیہ پر قبضہ ہو گیا۔اس سے قبل بھی البانیہ کو اٹلی کی زیرِ حفاظت ریاست (protectorate)کی حیثیت حاصل تھی مگر اب یہ رہی سہی آزادی بھی ختم ہو گئی۔البانیہ کے بادشاہ کو فرار ہو کر لندن میں پناہ لینی پڑی۔ البانیہ کی ستر فیصد آبادی مسلمان ہے اور اس وقت ترکی کے علاوہ البانیہ یورپ کی واحد مسلم ریاست تھی ۔اس دور میں گنتی کے مسلم ممالک آزاد رہ گئے تھے اور اب ان میں سے ایک اور کی آزادی کا سورج غروب ہو گیا تھا۔یہ صورتِ حال کسی المیہ سے کم نہیں تھی۔(۶)اس قبضے کے دو روز بعدحضورؓ نے مجلسِ مشاورت سے اختتامی خطاب میں جرمنی کی نازی اور اٹلی کی فاشسٹ حکومت کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا
’’آج حالات دنیا میں اس قدر سرعت سے تبدیل ہو رہے ہیںکہ ہمارا آنکھیں بند کر کے بیٹھ جانا بے و قوفی ہے۔ہر طرف سے مسلمانوں کو پیسا جا رہا ہے اور ان پر عرصئہِ حیات تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اگر ہماری جماعت ان حالات میں بھی اپنی آنکھیں نہیں کھولے گی۔اور جماعت کی مضبوطی کے لئے کوشش نہیں کرے گی۔تو اس کے لئے زمانہ کی رفتار کا مقابلہ کرتے ہوئے ترقی کرنا بالکل نا ممکن ہو جائے گا۔یورپین طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کو کچلنے کے لئے بڑھتی چلی آرہی ہیں۔اور ہم جنہیں خدا تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت کے لئے کھڑاکیا ہے۔اس بات پر مجبور ہیں کہ ۔اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے لئے اپنی جماعت کو مضبوط کریں۔یہ خطرات کوئی خیالی نہیں۔حال میں البانیہ پر اٹلی نے جو قبضہ کیا ہے۔ اس کا صاف یہ مطلب ہے کہ اس کی پالیسی یہ ہے کہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کو بالکل ختم کر دیا جائے اور ان کی کوئی حکومت باقی نہ رہے۔اور یہ قطعی اور یقینی بات ہے۔میں نے اکثر کتابیں پڑھیں ہیں اورمجھے معلوم ہے کہ اٹلی یقینی طور پر ٹرکی فلسطین اور سیریا کو لینا چاہتا ہے۔اور اگر شام اور فلسطین وغیرہ اس کے قبضے میں آجائیں تو عرب کے لئے کون سی حفاظت رہ سکتی ہے۔‘‘ (۷)
اس زمانے میں گو بظاہر آزاد مسلمان ریاستیں تھوڑی رہ گئی تھیں اور مسلمانوں کی سیاسی حالت دگرگوں نظر آرہی تھی مگر ۱۹۳۶ء میںہی حضرت مصلح موعود ؓنے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر مسلمانوں کو یہ بشارت دے دی تھی’’اسلامی حکومت کے قیام کے سب سے زیادہ خواب ہمیں ہی آتے ہیں اور خواب آنا تو لوگ وہم سمجھتے ہیں ہمیں تو الہام ہوتے ہیں کہ اسلامی حکومتیں دنیا میں قائم کی جائیں گی۔‘‘(۸)
دوسری جنگِ عظیم کا آغاز:
البانیہ کی آزادی سلب ہونے پر تو یورپی طاقتوں نے کوئی خاص ردِ عمل نہیں دکھایا،انہیں البانیہ کے سانحے سے کم ہی دلچسپی تھی۔ اس صورتِ حال میں جارحیت کرنے والوں کے حوصلے بڑھتے جا رہے تھے۔ایبے سینیا،آسٹریا ،چیکو سلاویکیا اور البانیہ کے بعد پولینڈ کی باری آتی نظر آ رہی تھی۔اس بات کے آثار ظاہر ہو رہے تھے کہ اب نازی حکومت پولینڈ پر حملہ کر دے گی۔برطانیہ اور فرانس کی اتحادی طاقتیں سر جوڑ کر بیٹھیں کہ اس بڑھتے ہوئے سیلاب کا کیا حل کیا جائے۔پہلے روس کو ساتھ ملانے کی کوششیں ہوئیں کیونکہ اس وقت روس اور جرمنی کے باہمی تعلقات بہت خراب تھے ۔بظاہر کچھ پیش رفت ہوتی دکھائی دی اور بہت سے اصولی معاملات پر اتفاقِ رائے بھی ہؤا لیکن کوئی حتمی معاہدہ نہ ہو سکا۔روس کا اصرار تھا کہ جرمنی کے حملے کی صورت میں اسے اس بات کی اجازت ہونی چاہئیے کہ وہ پولینڈ میں اپنی فوجیں اتار سکے مگر پولینڈ کی حکومت روس سے بھی اتنا ہی خائف تھی جتنا جرمنی سے تھی۔اس لئے وہ اس شرط پر رضامند نہیں ہو رہی تھی ۔اس دوران سیاست کی بساط پر ایک اور حیران کن تبدیلی آنی شروع ہوئی اور با وجود تمام تر باہمی نفرتوں کے روس اور جرمنی نے آپس میں مذاکرات شروع کر دئے۔اور ۲۳اگست ۱۹۳۹ء کو سوویت تاس ایجنسی نے اس خبر کا اعلان کیا کہ سوویت یونین اور جرمنی نے آپس میں اس بات پر معاہدہ کر لیا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر حملہ نہیں کریں گے۔ اس کے ردِ عمل میںبرطانیہ نے اس بات کااعادہ کیا کہ پولینڈ پر حملہ کی صورت میں وہ پولینڈ کی مدد کو آئے گا۔یکم ستمبر ۱۹۳۹ء کی صبح کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا۔اس پر برطانیہ نے جرمنی کو الٹی میٹم دے دیا۔اب جنگ نا گزیر نظر آ رہی تھی۔صرف اتحادیوں کی طرف سے رسمی اعلانِ جنگ باقی تھا۔بالآخر ۳ ستمبر کو برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔
ہندوستان میں فوجی بھرتی اورحضور کا ارشاد:
ا’دھر یورپ میں جنگ کے شعلے بھڑکنے شروع ہوئے جنہوں نے کچھ عرصے میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لینا تھا اور اِ دہر ہندوستان میں ایک بحث شروع ہو گئی کہ اس جنگ میں ہندوستانیوں کو انگریزوں کے ساتھ تعاون کرنا چاہئیے کہ نہیںاور یہ بحث جنگ کے آخری ایام تک جاری رہی ۔اس بات کے آثار واضح نظر آرہے تھے کہ پہلی جنگِ عظیم کی طرح اب بھی جنگی تقاضے پورے کرنے کے لئے انگریز حکومت کو ہندوستان سے وسیع پیمانے پر فوجی بھرتی کرنی پڑے گی۔اور اس بات کے خطرات بھی نظر آرہے تھے کہ یہ جنگ ہندوستان تک بھی پہنچ سکتی ہے۔اس لئے ہندوستان کا تعاون سلطنتِ برطانیہ کے لئے ایک خاص اہمیت رکھتا تھا۔انگریز ہندوستان پر ایک غیر ملکی حکمران کی حیثیت سے قابض تھے۔اور بہت سے ہندوستانیوںکے دلوں میں ان کے خلاف جذبات پیدا ہونا قدرتی بات تھی۔اس لئے ایک طبقے کا خیال تھا کہ انگریزوں سے بالکل کوئی تعاون نہیں کرنا چاہئیے،ان کی شکست کی صورت میں ہی آزادی مل سکتی ہے۔اس لئے ان کے دشمنوں سے تعاون کر کے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔چنانچہ کانگرس کے سابق صدر سبھاس چندرا بوس (Subhas Chandra Bose )بھی ایسے ہی خیالات رکھتے تھے۔وہ۱۹۴۰ء میں ہندوستان سے فرار ہوئے اور برما میں جاپانیوں کے تعاون سے انڈین نیشنل آرمی کی تشکیل کرنی شروع کی۔اس کا مقصد جاپانیوں کے ساتھ ہندوستان پر حملہ کر کے اسے آزادی دلانا تھا۔ایک اور گرو ہ کا خیال تھا کہ اس وقت انگریزوں کو ہندوستا ن کے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔اس لئے وہ زیادہ سے زیادہ مطالبات ماننے پر مجبور ہوں گے۔اس لئے ہندوستانیوں کو اس وقت تک برطانوی فوج میں شامل نہیں ہونا چاہئیے جب تک انہیں فوری طور پرآزادی نہ مل جائے۔چنانچہ کانگرس کے سیاستدانوں کا نقطہ نظر تھا کہ فی الفور ہندوستانیوں پر مشتمل ایک مرکزی عبوری حکومت قائم کرنی چاہئیے اور ہندوستان کو ایک آزاد ریاست کا درجہ ملنا چاہئیے تب کانگرس جنگ کی تیاریوں اور فوجیوں کی بھرتی کے معاملے میں حکومت سے تعاون کرے گی۔برطانوی حکومت حالتِ جنگ میں یہ مطالبات ماننے کو تیار نہیں تھی البتہ فوری طور پر ہندوستان کو زیادہ سے زیادہ مراعات دینے اور جنگ کے بعد آزادی دینے کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھانے کا اعلان کیا گیا اور یہ وعدہ بھی کیا گیاکہ جنگ کے اختتام پر ایک آئین ساز اسمبلی منتخب کی جائے گی جو اقلیتوں کے حقوق کو بھی مدِ نظر رکھتے ہوئے آئین سازی کرے گی ۔مگر کانگرس نے جنگی تیاریوں اور فوجی بھرتی کے معاملے میں حکومت کی مخالفت اور مظاہرے شروع کر دئیے۔اورنومبر ۱۹۳۹ء میں کانگرس کی صوبائی حکومتوں نے استعفیٰ دے دیا۔ مسلمانوں میں سے احرار بھی حسبِ سابق کانگرس کے ساتھ تھے اور وہ بھی اس موقع پر فوجیوں کی بھرتی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔اور انہوں نے گرفتاریاں پیش کرنی شروع کیں۔احرار کے لیڈر حبیب الرحمن صاحب نے وائسرائے پر تنقید کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ اس مرحلہ پر کانگرس ملک کی صحیح راہنمائی کرے گی(۹)۔سکریٹری جنرل مجلسِ احرار داؤد غزنوی صاحب نے اعلان کیا کہ مجلسِ احرار کی بنیاد رکھنے والے اور اسے چلانے والے قائدین کی ایک بڑی تعداد نے انفرادی حیثیت میں اپنے آپ کوکانگرس میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے(۱۰)۔جب کچھ احرار کو حکومت نے گرفتار کیا تو اس پر مسلم لیگ کے حامی اخبار احسان نے یہ تبصرہ کیا
’مسلمان احرار کی حالت پر کڑ ھتا ہے۔لیکن ہندو ہنستا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ اس کی چال دونوں طرح کارگر ہے ۔اگر احرار میدان میں ہوں تو مسلمانوں کے خلاف ان کی پیٹھ ٹھونکی جائے۔اگر وہ جیل میں ہوں تو انہیں مطلب براری کا طعنہ دیا جائے کہ یہ سب کچھ الیکشن کے لئے ہو رہا ہے اور اسی طرح اگر عام مسلمانوں میں افتراق پیدا ہو تو بھی ان کے لئے مفید اور اگر احرار پر مصیبت نازل ہو تو بھی ان کے لئے وجہ مسرت کہ مسلمانوں کے ساتھ یہی کچھ ہونا چاہئیے۔
کاش بزرگانِ احرار آج بھی سوچیں اور سمجھیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی صحیح سیاسی ضروریات کیا ہیں اور وہ ہندوؤں کے چکر میں آ کر جیل خانے یا مصیبتیںبرداشت کرنے کی جگہ مسلمانوں کے شانہ بشانہ کام کریں!‘(۱۱)
گاندھی جی ایک اور نظریہ پیش کر رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کو اس جنگ میں عدم تشدد کا راستہ اپنانا چاہئیے۔ہٹلر اور مسولینی اگر برطانیہ پر قبضہ کرتے ہیں تو وہ ا’ن کا مقابلہ نہ کریں اور انہیں قبضہ کرنے دیں اور انہوں نے وائسرائے لارڈ لینلیتھگو سے ملاقات کر کے انہیں مشورہ دیا کہ برطانیہ کو چاہئیے کہ ہتھیار رکھ دے اور روحانی طاقت سے ہٹلر کا مقابلہ کرے۔بہت سے کانگرسی لیڈر بھی ان نظریات سے متفق نہیں تھے۔بعد میں گاندھی جی نے انگریز حکومت کے خلاف تحریک چلا دی ۔ان کا مطالبہ تھا کہ انگریز حکومت کو چاہئیے کہ فوراََ ہندوستان چھوڑ کر چلے جائیں۔اگر وہ ہندوستان چھوڑ دیں گے تو پھر جاپانی ہندوستان پر حملہ نہیں کریں گے اور یہ مسئلہ حل ہو جائے گا ۔مسلم لیگ نے گو وار(War) کمیٹیوں میں شمولیت نہیں کی مگر جنگ کے لئے تیاریوں میں حکومت کی راہ میں کوئی رکاوٹ بھی پیدا نہیں کی۔اور نہ ہی اس مطالبے سے اتفاق کیا کہ فوری طور پر دورانِ جنگ ہی ہندوستان کو آزاد کر دینا چاہئیے۔وہ اب مسلمان اکثریتی علاقوں کے لئے ایک آزاد ملک کا مطالبہ کر رہے تھے۔اور آزادی سے قبل اس بات کا تصفیہ چاہتے تھے۔مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے ایک ریزولیشن کے ذریعہ مذاکرات کی دعوت دینے پر وائسرائے کا شکریہ ادا کیا۔اور پولینڈ ،روس اور برطانیہ سے ہمدردی کا اظہار کیا ۔اس کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ اگر حکومت مسلمانوں کی مکمل حمایت سے مستفید ہونا چاہتی ہے تو اسے چاہئیے کہ مسلمانوں کے مطالبات منظور کرے اورجن صوبوں میں کانگرس کی حکومت ہے وہاں کے مسلمانوں کو اُن کے حقوق دلائے(۱۲)۔پنجاب اور بنگال کے مسلمان وزرائِ اعظم اور ان کی حکومتیںجنگی تیاریوں میں حکومت سے تعاون کر رہی تھیں۔مسلمانوں کے کچھ چھوٹے گروہ مثلاََ خاکسار تحریک بھی حکومت سے تعاون کرنے پر آمادہ تھی اور اس کے لیڈر علامہ مشرقی نے اپنے سب اراکین کو فوج میں شامل کرنے کی پیشکش کی تھی۔ (۱۳تا۱۶)بہت سے سجادہ نشین بھی انگریز حکومت سے وفاداری کا اعلان کر رہے تھے ۔مثلاََ پیر صاحب مکھڈ نے برطانیہ کے بادشاہ کے نام یہ پیغام بھجوایا
’میں اور میرے دربار کے تمام مرید اپنی حقیر خدمات اعلیٰ حضرت ملکِ معظم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔ہم اپنے آپ کو جنابِ والا کے سپرد کرتے ہیںمیں حضور کو یقین دلاتا ہوں ۔کہ دربار اور اس کے مرید ہز امپریل مجسٹی شہنشاہِ معظم اور ان کی حکومت کے ساتھ وفاداری کی روایت کو جاری رکھیں گے ۔‘(۱۷)
دوسری ریاستوں کی طرح ہندوستان کی مسلمان ریاستیں بھی انگریز حکومت کی حمایت کا اعلان کر رہی تھیں۔نواب بھوپال نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ ’تمام ممالکِ اسلامیہ نے برطانیہ کو امداد دینے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔لہذا ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی ممالکِ اسلامیہ کی تقلید میںبرطانیہ کی امداد کرنی چاہئیے ۔ممکن ہے کہ مسلمانوں کو برطانیہ سے بعض شکایات بھی ہوں ۔لہذا موجودہ نازک وقت میں ان شکایات کو بالکل بھول جانا چاہئیے ۔اور برطانیہ کی فراخدالی سے امداد دینی چاہئیے۔‘(۱۸)۔قبائلی علاقہ میں بھی فوج میں بھرتی کے متعلق ملے جلے خیالات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔مہمند قبیلہ نے پہلے جنگ کے آ غاز میں اعلان کیا کہ وہ برطانیہ کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور قبائلی اس جنگ میں برطانیہ کی کوئی مدد نہیں کریں گے بلکہ برطانیہ کو فوجی مدد کی روک تھام کے لئے ایک خفیہ تنظیم قائم کی جائے گی۔لیکن پھر کچھ ہی عرصہ میں انہوں نے رنگ بدلا اور نہ صرف سلطنتِ برطانیہ سے وفاداری کا اعلان کیا اور جب گورنر نے اُن کے علاقے کا دورہ کیا تو اُن کا پُر جوش خیر مقدم کیا گیا۔(۱۹،۲۰)اسی طرح مسعودی قبیلہ نے نہ صرف انگریز حکومت سے وفاداری کا اعلان کیا بلکہ جنگ میں انگریزوں کی مدد کرنے کے لئے فراخدلی سے ۲۱ ہزار روپے کا چندہ بھی جمع کیا گیا۔(۲۱)یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اسی سال مسلم لیگ کو ایک سال میں پورے ہندوستان کے مسلمانوں سے صرف چودہ ہزار روپے کا چندہ وصول ہؤا تھا۔(۲۲)
بہر حال اس صورتِ حال میں افرادِ جماعت راہنمائی کے لئے اپنے امام کی طرف دیکھ رہے تھے۔یہ سوال اس لئے بھی اہم تھا کہ کچھ عرصہ سے بعض انگریز افسران جماعت کے متعلق شدید مخالفانہ رویہ دکھا رہے تھے اور احمدیوں کے ذہنوں پر ان واقعات کا گہرا اثر تھا۔حضور نے ایک خطبہ میں یہ صورتِ حال ان الفاظ میں بیان فرمائی
’’گذشتہ پانچ سال سے انگریزوں کے لوکل نمائیندوں نے بلکہ ایک زمانہ میں حکومتِ پنجاب کے نمائندوں نے بھی جماعت سے جس قسم کا سلوک کیا وہ نہایت ہی ظالمانہ اور غیر منصفانہ تھا۔بلکہ یہ حقیقت ہے کہ اپنی طرف سے انہوں نے جماعت کو کچلنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی۔انہوں نے اس کی عزت پر حملہ کیا۔اس کے مال پر حملہ کیا۔اس کی جائدادوں پر حملہ کیا۔اس کے نظام پر حملہ کیا۔اسی طرح انہوں نے ہمارے نظام کو توڑنے کے لئے مختلف قسم کی سازشیں کیں۔‘‘(۲۳)
لیکن بڑے فیصلے صرف چند تلخ واقعات یا وقتی جذبات کو مدِ نظر رکھ کر نہیں کئے جاتے۔جیسا کہ اسی خطبہ جمعہ میں حضورؓ نے فرمایا،’’میرے نزدیک ہر اہم قدم جو انسان اٹھاتا ہے۔اس سے پہلے اسے اپنے مختلف مصالح اور اپنے جذبات کے درمیان ایک فیصلہ کرنا پڑتا ہے ۔۔۔عقلمند انسان ایسے مواقع پر اس مصلحت کے مطابق جو سب سے اہم ہو اور ان جذبات کے مطابق جو سب سے مقدس ہوں فیصلہ کر دیتا ہے ۔اور دوسری مصلحتوں اور دوسرے جذبات کو نظر انداز کر دیتا ہے۔‘‘ جنگ کے آغاز کے بعد حضورؓ نے خطبات کے ایک سلسلے میں مختلف عوامل کا جائزہ اور موازنہ بیان فرمایا۔اور فرمایا کہ اس جنگ میں اہلِ ہند کا انگریزوں کے ساتھ تعاون کرنا ضروری ہے۔کیونکہ اب یہ بات واضح ہے کہ انگریز اس ملک کو آزادی دیتے جائیں گے لیکن اگر ان کے دشمن غالب آگئے تو ایک تو مظالم کا دور شروع ہو جائے گا اور دوسرے آزادی کا عمل بھی تاخیر کا شکار ہو جائے گا۔(۲۴)اوریہ کہ انگریز اپنی مخالف اقوام کی نسبت محکوم اقوام سے بہتر سلوک کرتے ہیں۔اور ان کے تحت علاقوں میں تبلیغ کی آزادی زیادہ ملتی ہے اور یہ مذہبی معاملات میں کم سے کم مداخلت کرتے ہیں۔(۲۵)
ہندوستان میںحکومت کی طرف سے جبری بھرتی نہیں کی جا رہی تھی۔جو فوج میں بھرتی ہوتا تھا اپنی مرضی سے ہوتا تھا۔مختلف لیڈروں کا نقطہ نظر لوگوں کے سامنے آچکا تھا اور اب فیصلہ ان کے ہاتھ میں تھا۔جنگ سے قبل فوج میں شامل ہندوستانیوں کی تعداد ۱۶۰۰۰۰ تھی۔اب جب حکومت کی طرف سے بھرتی کا اعلان کیا گیا تو لاکھوں کی تعداد میں ہندوستانی فوج میں بھرتی ہوئے اور یہ تعداد پچیس لاکھ سے تجاوز کر گئی ۔اور بڑی تعداد میں ہندوستانیوں نے فوج میں کمیشن حاصل کیا۔حکومت کو ہندوستان کے دفاع اور دوسرے مقامات پر فوج کے لئے ہندوستان سے جتنی تعداد درکار تھی وہ انہیں مل گئی۔اگرچہ بہت سے با اثر سیاستدانوں کی طرف سے فوج میں بھرتی کی مخالفت کی گئی تھی مگر عوامی سطح پر اس نقطہ نظر کو زیادہ قبولیت حاصل نہیں ہوئی۔(۲۶)
آج جب ان واقعات کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے اور تمام حقائق ہمارے سامنے ہیں۔ہم زیادہ بہتر انداز میں ان سب آراء کا تجزیہ کر سکتے ہیں جو دوسری جنگِ عظیم کے آغاز میں مختلف اطراف سے پیش کی جا رہی تھیں۔ایک رائے تو یہ تھی کہ اس موقع پر انگریزوں کے مخالفین یعنی جرمنی،اٹلی اور جاپان کا ساتھ دینا چاہئیے تا کہ ان کی مدد سے آزادی حاصل کی جائے۔تاریخی حقائق کا تجزیہ کیا جائے تو عقل اس خیال کو زیادہ وقعت نہیں دے سکتی۔دوسری جنگِ عظیم سے قبل بھی یہ طاقتیں ایک کے بعد دوسرے ملک کی آزادی سلب کر تی جا رہی تھیں،کسی ملک کو ان کے قبضے کے نتیجے میں آزادی کا سورج دیکھنا نصیب نہیں ہؤا تھا۔جرمنی توآسٹریا اور چیکوسلاویکیا کو ہڑپ کر چکا تھا۔اوراٹلی نے البانیہ اور ایبے سینیا کی آزادی غصب کر لی تھی ،اور جاپان نے کوریا کو غلام بنا کر اس کا وہ حشر کیا تھا کہ ان کے مظالم کی بازگشت اب تک سنائی دیتی ہے۔اب یہ خیال کہ ان کی افواج آئیں گی اور ہمیں آزادی کاتحفہ تھما کر رخصت ہو جائیں گی محض ایک خوش فہمی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتاتھا۔دوسرا نظریہ یہ تھا کہ ہٹلر اور مسولینی تو قابلِ مذمت ہیںمگر اب موقع ہے کہ انگریزوں پر دباؤ ڈال کر آزادی حاصل کی جائے ورنہ انگریز ہندوستان کو آزاد نہیں کریں گے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اگریہ تحریک کامیاب ہو جاتی اور حکومت کو ہندوستان سے مطلوبہ افواج نہ ملتیں تو ظاہری بات ہے کہ اس سے جرمنی،اٹلی اور جاپان کو فائیدہ پہنچتا۔اور ایک مرحلے پر تو جاپانی افواج رنگون کو فتح کر کے ہندوستان کے دروازے پر پہنچ چکی تھیں ۔اگر ہندوستان کی حفاظت کے لئے خاطر خواہ فوج نہ موجود ہوتی تو لازماََ کوریا ،سنگاپور،انڈونیشیا اور برما کی طرح ہندوستان پر بھی جاپانی افواج کا قبضہ ہو جاتا ۔اب تک اس وقت کی جاپانی حکومت محکوم اقوام سے جو سلوک کر رہی تھی وہ اتنا بہیمانہ تھا کہ اس کے پڑھنے سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔۱۹۳۲ء سے ان کا طریق تھا کہ وہ مفتوح اقوام سے اغوا کر کے یا دوسرے ذرائع سے عورتیں حاصل کرکے انہیں محاذِ جنگ سے قریبcomfort housesمیں رکھتے۔جہاں ان کے فوجی ان مظلوم عورتوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتے۔اس دورمیں ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ عورتوں کو انcomfort housesمیں قید رکھا گیا تھا۔ان میں سب سے زیادہ تعداد کوریا کی خواتین کی تھی۔ان کے علاوہ فلپائن،چین ،انڈونیشیا اوربرما سے بھی عورتوں کو اغوا کر کے بہیمانہ مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔جاپان نے کوریا پر قبضہ کیا تو وہاں کے لوگوں کی صرف سیاسی آزادی ہی نہیں مذہبی آزادی بھی سلب کر لی،زبردستی جاپانی نام اور جاپانی زبان اپنانے پر مجبور کیا۔ان حقائق کو دیکھتے ہوئے ایسے حالات پیدا کرنا جس کے نتیجے میں ہندوستان جاپانی تسلط میں چلا جائے کوئی دانشمندی نہ ہوتی۔یہ بات بھی اہم ہے کہ جنگ جیتنے کے جلد بعد ہندوستان کو ویسے ہی آزاد کر دیا گیا تھا۔بلکہ یہ عمل اتنی جلدی مکمل ہؤا تھا کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔یہ خیال بھی صحیح ثابت نہیں ہؤا کہ اگر دورانِ جنگ انگریزوں کی مجبوری کا فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پھر آزادی کا عمل تاخیر کا شکار ہو جائے گا۔حقیقت یہی ہے کہ قومی امور کے فیصلے صرف جذبات کی رَو میں بہہ کے یا انتقام کے جذبے کے تحت نہیں کئے جاتے بلکہ توازن اور عقل کے ساتھ فیصلہ کرنا پڑتا ہے ۔اور اسوقت ہندوستان کے مفادات کا تقاضہ یہی تھا کہ ایسے حالات نہ پیدا کئے جائیں جن سے محوری طاقتوں کو فائدہ پہنچے،جس کے نتیجے میں وہ ہندوستان پر قبضہ کرلیں اور ہندوستان پہلے سے بھی گری ہوئی حالت میں چلا جائے۔جہاں تک گاندھی جی کے اس نظریہ کا تعلق ہے کہ اگر انگریز ہندوستان چھوڑ دیں تو پھر جاپان حملہ نہیں کرے گا اور مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا تو اس ضمن میں پہلے یہ دیکھنا چاہئیے کہ اب تک جرمنی،اٹلی اور جاپان نے جن ممالک پر قبضہ کیا تھا ،کیا وہاں انگریزوں کی حکومت تھی۔جرمنی نے آسٹریا اور چیکوسلاویکا پر قبضہ کیا تو وہ آزاد تھے۔اٹلی نے جب ایبے سینیا اور البانیہ پر قبضہ کیا تو وہاں انگریز موجود نہیں تھے،یہ ممالک اس وقت تک آزاد تھے۔جاپان نے جب کوریا کو اپنے ملک میں ضم کرلیا یا جب چین پر حملہ کیا تو یہاں بھی انگریزوں کی حکومت نہیں تھی۔تو یہ کلیہ تو کسی طرح صحیح تسلیم نہیں کیا جا سکتا تھا کہ یہ طاقتیں صرف اس وقت حملہ کرتی ہیں جب کسی جگہ پر انگریزوںکی حکومت ہو۔حقیقت یہ ہے کہ محوری طاقتیں اس وقت اپنی نو آبادیاں بنانے کی فکر میں تھیں اگرہندوستان میں انگریز حکومت نہ ہو تی تو یہ فوراََ اس کو ایک تر نوالہ سمجھ کر اس پر قبضہ کر لیتے۔جیسا کہ ذکر آ چکا ہے کہ جنگ کے آغاز میں گاندھی جی نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ محوری طاقتوں کے حملے کا جواب عدم تشدد سے دینا چاہئیے اورکسی قیمت میں جنگ کے عمل میں شامل نہیں ہونا چاہئیے۔لیکن جنگ کے آ غاز میں ہی اُن کو احساس ہو گیا تھا کہ خود اُن کی جماعت ،آل انڈیا نیشنل کانگرس کی اکثریت اس معاملے میں اُن سے متفق نہیں ہے۔چنانچہ دوسری جنگِ عظیم کے آ غاز میں ہی انہوں نے یہ اعتراف کیا ۔
صورتِ حال کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اگر کانگرس ان لوگوں کے ساتھ شریک ہو گئی جو ہندوستان کی مسلح حفاظت میں یقین رکھتے ہیںتو مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ کانگریسی گذشتہ بیس سال مسلح جنگ کی سائنس کو سیکھنے کے اہم فرض میں کوتاہی کرتے رہے ہیں۔اور مجھے خدشہ ہے کہ تاریخ میں مجھے لڑائی کا ایک ایسا جرنیل کہا جائے گا۔جو اس افسوسناک غلطی کا ذمہ دار ہے۔مستقبل کا مؤرخ کہے گا کہ مجھے یہ دیکھنا چاہئیے تھا کہ قوم طاقتوروں کے عدم تشدد پر نہیں بلکہ وہ کمزوروں کے عدم تشدد پر عمل پیرا ہے۔اس لئے مجھے کانگرسیوں کے لئے فوجی تربیت کا انتظام کرنا چاہئیے تھا۔ میرے دماغ میںیہ خیال بڑی شدت سے موجود تھا کہ کسی نہ کسی طرح ہندوستان حقیقی عدم تشدد سکھ لے گا ۔اس لئے مجھے اپنے ساتھیوں کو مسلح حفاظت کی ٹریننگ کی دعوت دینے کا خیال پیدا نہ ہؤا۔‘ (۲۷) با وجوداس کے کہ کانگرس کے اکثر قائدین گاندھی جی کے زیرِ اثر تھے لیکن اس معاملے میں وہ علی الاعلان اُن سے اپنے اختلاف کا اظہار کر رہے تھے۔پنڈت جواہر لال نہرو نے بیان دیا کہ اگر محوری طاقتوں نے ہندوستان پر حملہ کیا تو ہندوستان ہتھیار نہیں ڈالے گا بلکہ ان کا پورا مقابلہ کرے گا۔مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا کہ ہم آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں خواہ کسی قیمت پر ہو۔گاندھی جی تشدد کے استعمال کے خلاف ہیں مگر دنیا میں ہمیشہ منطق سے کام نہیں چلتے۔ہمارے ملک کی اکثریت نہ عدم تشدد سیکھ سکتی ہے اور نہ وہ اس معیار پر پورا اُترتے ہیں۔(۲۸،۲۹)
انجام یہ ہؤا کہ جب کچھ سال بعد ۱۹۴۵ء میں انگریز حکومت نے پیشکش کی کہ اگر جاپان کے خلاف جنگ میں حکومت کی اعانت کی جائے تو وہ کانگرس کو شامل کر کے ہندوستان کے باشندوں پر مشتمل ایک عبوری حکومت بنائیں گے۔تو ابولکلام آزادصاحب جو اس وقت کانگرس کے صدر تھے بیان کرتے ہیں کہ اس وقت گاندھی جی اور ان کے ہم نوا جو پہلے مکمل عدم تشدد کے قائل تھے محض خاموش رہے اور اس تجویز کی کوئی مخالفت نہیں کی۔(۳۰)
مستقبل کے متعلق حضور کا بیان فرمودہ تجزیہ:
اس جنگ کے آغاز میں ابھی کسی پر بھی صورتِ حال پو ری طرح واضح نہیں تھی۔ہر طرف سے قسم قسم کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں اور مختلف تجزئیے پیش کئے جا رہے تھے۔جو سیاستدان تمام معلومات سے باخبر بھی تھے وہ بھی وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتے تھے کہ حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔ ستمبر ۱۹۳۹ء میں حضور نے رؤیا اورخداداد فراست کی بنیاد پرصورتِ حال کا تجزیہ بیان فرمایاکہ آئیندہ حالات کیا رخ اختیار کر سکتے ہیں ۔
یکم ستمبر کے خطبے میں جبکہ ابھی صرف برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کوالٹی میٹم ہی دیا تھاا ور باقاعدہ اعلانِ جنگ بھی نہیں ہؤا تھا اور دیگر ممالک تو ابھی تنازع میں شامل بھی نہیں ہوئے تھے، حضور نے فرمایا تھا کہ یہ ایام بہت نازک ہیں اور دنیا بالکل تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے۔(۲۶،۲۴) پھر ۲۲ ستمبر کے خطبہ جمعہ میں آپ نے ایک پرانی رؤیا کو بیان کرکے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں بہت بڑی تباہی آنے والی ہے اور فرمایا کہ اس وقت کئی حکومتیں ہیں جنہیں معلوم ہے کہ انہوں نے کس طرف جانا ہے مگر وہ ابھی اپنا ارادے ظاہر نہیں کر رہیں۔جو قومیں اس وقت اپنے آپ کو غیر جانبدار کہہ رہی ہیں وہ بھی اس جنگ کی لپیٹ میں آجائیں گی اور کوئی تعجب نہیں کہ ہندوستان تک بھی اس جنگ کا اثر پہنچے۔(۳۱)چنانچہ وقت نے ثابت کیا کہ جیسا کہ حضورؓ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہؤا۔اس خطبے کے وقت تو ایک طرف جرمنی تھا اور دوسری طرف برطانیہ اور فرانس تھے۔روس نے پولینڈ کے ایک حصے کو ہتھیانے کے لئے اپنی فوجیں اتاری تھیں لیکن اس کااس جنگ میں شرکت کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔لیکن بعد میں روس اتحادیوں کی طرف سے شامل ہؤا اور اٹلی اور جاپان نے جرمنی کے ساتھ مل کر اعلانِ جنگ کر دیا۔امریکہ بھی بالآخر اتحادیوں کی طرف سے اس تنازع میں کود پڑا۔بعد میںان ممالک کے علاوہ چین،آسٹریلیا، نیوزی لینڈ،برازیل، کینیڈا، ہالینڈ، ڈنمارک، بیلجیم، ناروے، یونان،یوگوسلاویا ،تھائی لینڈ اورفلپائن بھی جنگ میں شامل ہو گئے۔ہر برِاعظم کے فوجی اس جنگ میں شامل ہوئے اور ان میں سے بہت اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔اس سے زیادہ خون ریزی دنیا کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی۔مجموعی طور پر کروڑوں آدمی اس جنگ میں ہلاک ہوئے۔اس وقت تو یہ توقع کی جارہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ ہندوستان پر ہوائی حملے ہوں گے مگر صورتِ حال اس وقت یکسر بدل گئی جب جاپان کی افواج کو مشرقی بعید میں کامیابیاں ملنی شروع ہوئیں اور آخر کار اس کی افواج نے رنگون فتح کیا اور جنگ ہندوستان کے دروازے پر آن پہنچی۔ایک ایسا مرحلہ بھی آیا کہ حکومت کو کراچی اور مدراس کے اُن شہریوں کو جو کوئی کام نہیں کرتے تھے اور آسانی سے شہر چھوڑ سکتے تھے ،اپنے شہر چھوڑ کر وقتی طور پر کہیں اور جانے کا مشورہ دینا پڑا ۔ (۳۲،۳۳)
سوویت یونین کا پولینڈ پر حملہ اور حضورؓ کا تجزیہ:
جنگ سے قبل سوویت یونین اور اتحادیوں کے درمیان ممکنہ اتحاد پر مذاکرات ہوتے رہے لیکن کوئی معین معاہدہ نہ ہو سکا۔سوویت یونین کا کہنا تھا کہ وہ اسی صورت میں جرمنی کے حملے کو روک سکتا ہے جب پولینڈکی حکومت اسے اپنی افواج پولینڈ میں اتارنے کی اجازت دے۔دوسری طرف پولینڈ اس کے لئے تیار نہیں تھا،مگر نچلی سطح پر روس اور اتحادیوں کے درمیان مذاکرات جاری تھے۔۔اسی دوران یہ حیران کن تبدیلی آئی کہ ۲۳ اگست ۱۹۳۹ء کو سوویت یونین اور جرمنی نے آپس میں عدم جارحیت کا معاہدہ کر لیا جبکہ اس سے قبل ان کے باہمی تعلقات نہایت خراب تھے۔یکم ستمبر کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا اور پولینڈ کی تمام افواج اس کی مغربی سرحد پر اپنے سے کہیں برتر جرمن افواج سے مقابلہ کر رہی تھیں اور اس کی مشرقی سرحد پر کوئی حفاظتی انتظامات موجود نہیں تھے۔اپنے سے برتر جرمن افواج کے سامنے پولینڈ کی افواج مسلسل پسپا ہو رہی تھیں۔اس ماحول میں ۱۷ ستمبر ۱۹۳۹ء کویہ خبر پوری دنیا میں حیرت سے سنی گئی کہ روس نے پولینڈ کی مشرقی سرحد پر حملہ کر دیا اور اس کے مشرقی حصے پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔اس کے ساتھ ہی پولینڈ کے دفاع میں رہی سہی رمق بھی دم توڑ گئی۔اور پولینڈ ،سوویت یونین اور جرمنی کے درمیان تقسیم ہو گیا۔ہر ذہن اپنے اپنے طور پر اس پیش رفت کا تجزیہ کررہا تھا کہ یہ کیسے ہؤا؟۔پولینڈ پر روس کے حملے کی دو ہی ممکنہ وجوہات ہو سکتی تھیں۔کیا یہ حملہ سوویت یونین اور جرمنی کے درمیان کسی خفیہ معاہدے کے نتیجے میں ہؤا تھا۔یا پھر سوویت یونین نے پولینڈ میں افواج اتارنے کا مقصد یہ تھا کہ کہیں جرمنی پورے پولینڈ پر قبضہ کر کے اس کی سا لمیت کے لئے خطرہ نہ بن جائے ۔کیونکہ اس کی مغربی سرحد پر دفاعی نقطہ نگاہ سے کوئی قدرتی سرحد نہیں تھی اور پولینڈ کے دریاؤں تک اپنی افواج لے جانے کی صورت میں وہ جرمنی کے ممکنہ حملے کی صورت میں بہتر دفاعی پوزیشن میں آ جاتا تھا ۔۱۸ اور ۱۹ ستمبر کو ڈیلی ٹیلیگراف نے پولینڈ پر سوویت حملے کا تجزیہ کیا اور ان دونوں امکانی وجوہات کا جائزہ شائع کیا۔اس جریدے نے بھی یہی بات زور دے کر لکھی کہ ،’سٹالن کے ذہن میں کیا ہے؟اور اُس کے اصل مقاصد کیا ہیں؟اور آخر میں اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ دنیا ان سوالات پر صرف قیاس آرائی ہی کر سکتی ہے اور آمروں کے نظریاتی کرتبوں نے دنیا کو ایک ذہنی الجھن میں ڈال رکھا ہے۔ لیکن ایک معمہ حل ہو جاتا ہے۔اور اس سے روسی حملے کا اصل مقصد ظاہر ہو جاتا ہے ۔روس کے آقا اس بات کا تہیہ کئے ہوئے ہیں کہ سارا پولینڈ جرمنی کے تسلط میں نہ جائے۔اور روس کے مفادات کی حفاظت کے لئے وہ اپنے نئے دوستوں (یعنی جرمنوں )سے ٹکراؤ کا خطرہ مول لینے کے لئے بھی تیار ہیں۔‘اس وقت کئی انگریز مدبرین اور اخبارات اس خیال اظہار کر رہے تھے کہ غالباََ روس پولینڈ میں اس لئے داخل ہؤا ہے کہ جرمنی سارے پولینڈ میں اقتدار قائم کر کے روسی مفادات کے لئے خطرہ نہ بن جائے۔اگرچہ اس بات کی مذمت بھی کی جارہی تھی کہ روس نے اپنے مفادات کے لئے ایک آزاد ملک میں اپنی افواج اتار ی ہیں۔ چرچل جیسے ذہین سیاستدان نے بھی اکتوبر ۱۹۳۹ء میں ریڈیو پر اپنی تقریر میں یہ تجزیہ پیش کیا۔
’’میں روس کے طرزِ عمل کے متعلق کوئی پیشگوئی نہیں کر سکتا۔یہ ایک پہیلی کے اندر ملفوف معمہ ہے۔لیکن شاید اس کی ایک چابی ہے اور وہ چابی روس کے مفادات ہیں۔اگر جرمنی بحیرہ اسود کے ساحل تک پہنچ جاتایابلقان کی ریاستوں پر قبضہ کرلیتا یا جنوب مشرقی یورپ میں سلاو اقوام کو اپنے قبضے میں لے لیتا تو یہ روس کے مفادات کے خلاف ہوتا۔‘‘
اور اس وقت برطانیہ کے وزیرِ اعظم چیمبر لین نے بھی اس تجزئیے سے اتفاق کیاتھا۔)۳۴)
اس پس منظر میں جب کہ مشہور مبصرین ،اخبارات اور چرچل جیسے ذہین سیاستدان اس حملے کی وجوہات کو ایک معمہ قرار دے رہے تھے اور اس بات کا اظہار بھی کررہے تھے کہ اغلباََ سوویت یونین نے یہ حملہ اپنے دفاع کے لئے اور پورے پولینڈ کو سوویت یونین کے تسلط سے بچانے کے لئے کیا ہے، ۲۱ ستمبر کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے الفضل میں ایک مضمون کے ذریعہ اس صورتِ حال کا تجزیہ شائع فرمایا۔اور یہ ایک صاف اور واضح تجزیہ تھا۔اس نظریے کا ذکر فرماتے ہوئے کہ سوویت یونین نے یہ حملہ اس لئے کیا ہے کہ کہیں پورا پولینڈ جرمنی کے قبضے میں چلا جائے گااور اس طرح جرمنی سوویت یونین کے لئے خطرہ بن جائے گا،حضورؓ نے فرمایا میرے نزدیک یہ رائے درست نہیں ہے اور مدبرینِ انگلستان جتنی جلدی اس رائے کو ترک کر دیں ،اتنا ہی ان کے لئے سیاسی طور پر مفید ہو گا۔ آپ نے تحریر فرمایا کہ روس جب اتحادیوں سے مذاکرات کر رہا تھا اس کی نیت صاف نہیں تھی اور اس کی غرض صرف برطانوی سکیم کو معلوم کرنے کی تھی۔اصل میں روس اور جرمنی میں خفیہ معاہدہ ہو چکا تھا کہ جرمنی پولینڈ پر حملہ کرے گا تو اگر مغربی اقوام دخل نہ دیں تو فبہا ،اور اگر وہ دخل دیں تو بغیر دوسری اقوام سے اعلانِ جنگ کئے روس اپنی افواج پولینڈ میں داخل کر دے گا اور اسے حسبِ معاہدہ تقسیم کر دیا جائے گا۔(۳۵)
اُس وقت تو حقائق دنیا کی نگاہوں سے اوجھل تھے مگر جنگ کے ختم ہونے کے بعد جب جرمنی کے خفیہ کاغذات منظرِ عام پر آگئے توان دستاویزات سے معلوم ہؤا کہ جب اگست کے آخر میں روس اور جرمنی کے درمیان عدم جارحیت کا معاہدہ ہؤا تھا تو اس کی کچھ خفیہ شقیں بھی تھیں،جن کو باہمی مرضی سے اس وقت خفیہ رکھا گیا تھا۔ان میں سے دوسری شق کی رو سے یہ اسی وقت طے ہو گیا تھا کہ سوویت یونین اور جرمنی ،پولینڈ کے ملک کو بانٹ لیں گے اور موٹے طور پر تین دریا Narew, VistulaاورSan ، پولینڈ میں جرمنی اور روس کے دائرہِ اثر کی سرحد بنائیں گے۔اور اس طرح پولینڈ کو آپس میں تقسیم کر لیا جائے گا۔حقیقت یہ تھی کہ اس واقعہ سے کچھ ماہ قبل پولینڈ کے مسئلے پر سوویت یونین اور جرمنی کی حکومتوں کے درمیان بات چیت ہو رہی تھی اور سوویت یونین ساتھ کے ساتھ اتحادیوں سے بھی رابطہ رکھے ہوئے تھا۔اس وقت روسی سفارتکار Astakhov برلن میں جرمن وزیر خارجہ Ribbentropسے مذاکرات کرتے تھے ۔اور ماسکو میں جرمن سفیرسوویت وزیرِ خارجہ سے رابطہ رکھے ہوئے تھے ۔اور جرمنی نے اس وقت ہی بار بار سوویت حکومت پر واضح کیا تھا کہ پولینڈ کے معاملے میں سوویت یونین سے مفاہمت ہو سکتی ہے۔پولینڈ پر حملہ کرنے کے بعد بھی جرمن حکومت سوویت حکومت سے مسلسل رابطہ رکھے ہوئے تھی۔اور انہیں پولینڈ کی فوج کی صورتِ حال کے متعلق اطلاعات بہم پہنچا رہی تھی اور سوویت حکومت جرمنی کو اپنی عسکری تیاریوں اور پولینڈ پر حملے کے منصوبے کے متعلق باقاعدگی سے اطلاعات دے رہی تھی۔چنانچہ جیسا کہ حضور نے تحریر فرمایا تھا روس نے یہ قدم جرمنی کے تسلط کو روکنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ یہ حملہ جرمنی سے معاہدے کے نتیجے میں ہؤا تھا ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی پیدائش سے قبل ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خوش خبری دے دی تھی کہ وہ موعود بیٹا سخت ذکی اور فہیم ہو گا۔اور حضور کی یہ غیرمعمولی ذہانت دینی امور میں ہی نہیں بلکہ ان دنیاوی امور میں بھی ظاہر ہو کر نشان بنتی رہی جن کا تجزیہ کر تے ہوئے چوٹی کے ذہن بھی عاجز رہ جاتے تھے۔تاکہ محض دنیاوی ذہن رکھنے والوں پر بھی اتمامِ حجت ہو جائے ۔
اس طرح دوسری جنگِ عظیم کا آ غاز ہؤا۔ایک ایسی آفت نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کا اثر ہر برِ اعظم تک پہنچا۔قریباََ چھ سال تک اس کے شعلے بھڑکتے رہے اور کروڑوں آدمی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔جب پوری دنیا اس کے اثر سے تہہ و بالا ہو رہی تھی تو جماعت کی تبلیغی مساعی بھی متاثر ہوئی۔نا مساعد حالات کے باعث مبلغین کی تبلیغی سرگرمیاں متاثر ہوئیں اور بہت سے مبلغین کو اپنے ممالک چھوڑنے پڑے۔لیکن تمام مشکلات کے با وجود تبلیغِ اسلام کا جہاد جاری تھا اور اس پس منظر میں جماعت کی تاریخ کے پچاس سال مکمل ہو رہے تھے اور جماعت ایک نئے دور میں داخل ہو رہی تھی۔جہاں دنیا میں ہر طرف نفرتوں کے طوفان اٹھ رہے تھے وہاں جماعتی روایات میں ایک نیا خوبصورت اضافہ ہو رہا تھا۔اس روایت کے ذریعہ نفرتوں کے اس دور میں دنیا کو محبتوں اور صلح و آشتی کا پیغام دیا جارہا تھا۔یہ نئی روایت جلسہ یومِ پیشوایانِ مذاہب کا آغاز تھا۔
(۱)بنی اسرائیل ۱۶(۲)روحانی خزائن جلد ۲۰ص۳۹۵(۳) رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء ص۱۲۵تا۱۲۹
(۴) الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۶۶ء ص۴
(۵)The Gathring Storm by Winston Churchill,Houghton Miflon Company Boston 1948 page291,342,279-321,283-284
(۶)The Gathering Storm by Winston Churchill,Houghton Miflon Company Boston 1948 page 350-354
(۷)رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۳۹ء ص۱۵۶ تا ۱۵۷(۸) الفضل ۴ اپریل ۱۹۳۶ء ص ۴(۹)پرتاپ ۲۱ اکتوبر ۱۹۳۹ء ص۴
(۱۰)زمیندار ۱ جنوری ۱۹۴۰ء (۱۱) احسان ۳۰ ستمبر ۱۹۳۹ء اداریہ (۱۲) احسان ۲۰ ستمبر ۱۹۳۹ء ص ۵
(۱۳) The Emergence of Pakistan by Chaudri Muhammad Ali ,Research Society of Pakistan,Oct 2003 page 33-34,42-47
(۱۴)A book of Readings on the History of the Punjab 1799-1947 by Ikram Ali Malik ,Rsearch Society of Pakistan 1985,page 538-539,526_528
(۱۵)The British Raj In India an historiacal review, by S.M.Burke,Salim al Din Quraishi 341,357
(۱۶)A History of India from earliest times to the present day by Michael Edwardes ,Asia publishing House page 329
(۱۷) احسان ۱۳ ستمبر ۱۹۳۹ء ص۲(۱۸) احسان ۱۸ ستمبر ۱۹۳۹ء ص ۱۰(۱۹)پرتاب ۹ جون ۱۹۳۹ء ص ۳
(۲۰)احسان ۱۵ جنوری ۱۹۴۲ئ(۲۱)احسان ۲ جنوری ۱۹۴۲ء (۲۲)احسان ۲۴ فروری ۱۹۴۲ء ص۲
(۲۳)الفضل ۱۴ ستمبر ۱۹۳۹ء ص۱(۲۴)الفضل ۹ ستمبر ۱۹۳۹ء ص۳(۲۵)الفضل ۶ اکتوبر ۱۹۳۹ء ص ۱ تا ۹
(۲۶)The Second Great War,a standard history vol 4 , by Sir John Hammerton,The Waverley Book company ltd.page 1417
(۲۶)الفضل یکم ستمبر۱۹۳۹ء ص۱(۲۷)پرتاب ۱۶ اکتوبر ۱۹۳۹ء ص۵(۲۸)احسان ۱۷ فروری ۱۹۴۲ء ص ۲
(۲۹) احسان ۱۶ جنوری ۱۹۴۲ء ص۲
(۳۰)India Wins Freedom by Abul Kalam Azad,published by Orient Longman,page115
(۳۱)الفضل ۶ اکتوبر ۱۹۳۹ء ص۵(۳۲)احسان ۲۳ فروری ۱۹۴۲ء ص ۵ (۳۳)احسان ۲۲ فروری ۱۹۴۲ء ص ۳
(۳۴)The Gathering Storm by Winston S. Churchill ,Houghton Miflon Company Boston 1948 page 448-449
(۳۵)الفضل ۲۱ ستنبر ۱۹۳۹ء ص ۱ تا ۴
جلسہ یومِ پیشوایان ِ مذاہب کا آغاز
اسلام یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ ہر قوم میں اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول گذرے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے’‘(۱) یعنی ’ کوئی امت نہیںمگر ضرور اس میں کوئی ڈرانے والا گزرا ہے‘۔اور پھر قرآنِ کریم میں تمام انبیاء کا احترام کرنے کی ہدایت دی گئی ہے اور ان سب کے قابل احترام ہونے کی بابت یہ اعلان کیا گیا ہے’(۲)ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے۔لیکن یہ بہت بڑی بد نصیبی ہے کہ دنیا میں بالعموم اور ہندوستان میںبا لخصوص بعض حلقوں کی طرف سے ایسا لٹریچر شائع کیا گیا جس میں مختلف انبیاء کی دلآزار طریق پر توہین کی گئی اور بعض تو اس حد تک گر گئے کہ انہوں نے ان مقدس ہستیوں کو گالیاں دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔اس کے نتیجے میں مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہونا ایک قدرتی بات تھی۔ہندوستان میں مختلف مذاہب کے لوگ بڑی تعداد میں آباد ہونے کی وجہ سے اس صورت حال نے فضا میں زہر گھول دیا تھا۔مختلف مذاہب کے پیروکاروں میں فاصلے بڑھنے لگے اور خونریز فسادات کی نوبت بھی آئی۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے تمام انبیاء کے احترام کے متعلق قرآنی صداقت کو نئے سرے نکھار کر دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور یہ اعلان کیا کہ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ اسلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اسی طرح حضرت کرشن بھی اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول تھے۔اور باوا نانک صاحبؒ بھی اللہ تعالیٰ کے نیک اور چنیدہ بزرگ تھے۔
۱۹۰۰ئ؁ میں حضرت مسیح موعود ؑ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ ایسے جلسے منعقد کیے جائیں جس میں ہر مذہب کے لوگ اپنے مذاہب اور پیشوایانِ مذاہب کی خوبیاں بیان کریں۔چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ تحریر فرماتے ہیں
’’ ہمارا ارادہ ہے کہ سال میں ایک یا دو دفعہ قادیان میں مذہبی تقریروں کاایک جلسہ ہؤا کرے اور اس جلسہ میں ہر ایک شخص مسلمانوں اورہندوؤں اور آریوں اور عیسائیوں اور سکھوں میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے گا۔مگر یہ شرط ہو گی کہ دوسرے مذہب پر کسی قسم کا حملہ نہ کرے۔فقط اپنے مذہب اور اپنے مذہب کی تائید میں جو چاہے تہذیب سے کہے۔‘‘(۳)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ خواہش آپ ؑ کی زندگی میں پوری نہ ہو سکی۔لیکن آپ کے اس اعلان کو ملک میں بے یقینی کی نظر سے دیکھا گیا ۔اگرچہ اس سے کچھ عرصہ قبل امریکہ کے شہر شکاگو میں مذاہب کی ایک عالمی پارلیمنٹ منعقد ہوئی تھی ۔اس کو منعقد کرانے والے بہت سے منتظمین عیسائیت کی تبلیغ کے لئے عالمی سطح پر کوشاں تھے۔چنانچہ لدہیانہ کے سول اینڈ ملٹری نیوز نے اس پر یہ تبصرہ کیا
’مرزا غلام احمد قادیانی موضع قادیان میںمثل شکاگو کے ایک مذہبی کانفرنس منعقد کرنا چاہتے ہیں۔یہودی ،عیسائی۔پارسی ۔برہمو ۔جینی ۔بدھ ۔آریہ۔سناتن دھرمی اور ملحد ہر مذہب و ملت کے قائمقاموںکو مدعو کیا گیا ہے۔اور ہر ایک مذہب کے ایک ایک قائمقام کا سفر خرچ مرزا صاحب اپنی جیب سے دینگے۔ایک ماہ تک یہ جلسہ منعقد رہیگا اور جملہ قائمقامانِ مللِ مختلفہ کے اخراجات خوردو نوش کے بھی خود مرزا صاحب متحمل ہوں گے۔جو صاحب کسی مذہب کے ریپریزنٹیو کی حیثیت سے شامل ہونا چاہیں وہ مرزا صاحب کو ماہِ مئی ۱۸۹۶؁ء کے آخر تک مطلع کریں۔مرزا صاحب کا مقصد اس کانفرنس کے انعقاد سے یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے اختلافات دور کئے جائیں اور ایک ہی خدا کی پرستش کرنے والے ایک ہی حلقے میں لائے جائیں۔ہماری رائے میں یہ منشا نہ کبھی پورا ہؤا ہے اور نہ ہو گا۔البتہ چند روز واسطے اچھی دل لگی ہے ۔مگر بجائے اس کے کہ مرزا صاحب موضع قادیان میں کانفرنس قائم کرنا چاہتے ہیں اگر کسی بڑے شہر مثلاََ امرتسر لاہور میں منعقد کرتے اور عام لوگوں کے لئے ٹکٹ لگا دیتے تو کانفرنس ایک بڑے سکیل پر ہو سکتی ہے اور آمدنی بھی معقول ہو ۔‘ (۴)
حضور ؑ کی اس خواہش کے پیشِ نظر۱۹۳۹ء کی مجلسِ مشاورت میں یہ تجویز منظور کی گئی کہ اس سال ہونے والے جوبلی کے جلسے کے موقع پر مختلف مذاہب کے مقررین کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنے پیشوایانِ مذہب کی سیرت پر تقاریر کریں۔اس تجویز پر حضرت خلیفۃ المسیح ثانیؓ نے فیصلہ فرمایا کہ جلسہ سالانہ کی بجائے ایک ایسا دن مقرر کیا جائے جس میں ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے بانی کی خوبیاں بیان کریں۔ (۵،۶)آپ کے اس ارشاد کی تعمیل میں پہلے یومِ سیرتِ پیشوایانِ مذاہب کے لیے ۳؍دسمبر ۱۹۳۹ء کی تاریخ مقرر کی گئی۔چنانچہ اس سال ہندوستا ن میں قادیان،دہلی،ڈھاکہ، سکندرآباد ، جبل پور اور سیالکوٹ کے شہروں کے علاوہ بعض دیہات میں بھی یہ جلسے منعقد کیے گئے جہاں جماعت کے مقررین نے آنحضرتﷺ اور حضرت مسیح موعود ؑ کی سیرت پر تقاریر کیں وہاں عیسائی،یہودی،پارسی ہندواورسکھ مقررین نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت زرتشتؑ، حضرت رامؑ ،حضرت کرشنؑ اور حضرت باوا نانک کی سیرت پر تقاریر کیں۔ان کے علاوہ بہت سے احمدی مقررین نے دوسرے مذاہب کے پیشواؤں کی سیرت پر تقاریر کیں۔مختلف زبان بولنے والے سامعین کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ تقاریراردو ،ہندی، پنجابی اور انگریزی زبان میں کی گئیں۔تقاریر کے علاوہ کچھ محققین نے اپنے مضامین پڑہے اور شاعروں نے اپنا نذرانہ ِ عقیدت پیش کیا۔کچھ مقامات پر جلسوں کی صدارت بھی غیر مسلم حضرات نے کی۔یہ جلسے خاص طور پر پڑھے لکھے طبقے کو متاثر کرنے کا باعث بنے اور انہوں نے جماعت کی اس کاوش کو سراہا۔کئی معززین نے اس بات کا اظہار کیا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ ایسا جلسہ دیکھا ہے۔(۷تا۱۲)
ہندوستان سے باہر نیروبی(مشرقی افریقہ ) میں بھی یہ جلسہ کامیابی سے منعقد ہؤا۔ اس کا پروگرام پانچ مختلف مذاہب کے نمائیندوں کی طرف سے مشترکہ طور پر شائع کیا گیا تھا۔اس وقت مشرقی افریقہ میں ہندوستان کی طرح مختلف مذاہب کے لوگ کثرت سے آباد تھے ۔اس لیے آپس میں رواداری اور بھائی چارہ پیدا کرنے کی اس کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔(۱۳)
جماعت کی یہ مساعی صرف جلسوں اور تقاریر تک محدود نہ تھی۔جماعتی تعلیمات اور حضرت مصلح موعود کے ارشادات کی روشنی میں ریویو آف ریلیجنز نے پیشوایانِ مذاہب نمبر نکالا اور ان کی مقدس زندگیوں اور پاکیزہ تعلیمات پر محققانہ مضامین شائع کیے۔ہندوستان کے ا’س ماحول میں جب مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان تناؤ کی کیفیت اپنے عروج پر تھی ،جماعتِ احمدیہ کی یہ کوشش تازہ ہوا کا جھونکاتھی۔ملک کی سر کردہ شخصیات بھی اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکیں۔چنانچہ ملک کے مشہور سیاسی لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو صاحب نے جو بعد میں آزاد بھارت کے پہلے وزیرِاعظم بنے ،ریویو کے اس نمبر پر مندرجہ ذیل تبصرہ کیا۔
’’ ہر ایسی کوشش جومختلف مذاہب کی اخلاقی تعلیمات کے اتحاد پر زور دینے اور ان کے پیروؤں کی موجودہ باہمی کشمکش کو دور کرنے کے لئے کی جائے،تمام بھلے آدمیوں کی ہمدردی کی مستحق ہے۔اور اس ضمن میں آپ کی کوشش پر میں آپ کو نیک آرزؤں کا تحفہ پیش کرتا ہوں۔‘‘(۱۴)
(۱)فاطر ۲۵
(۲)اٰلِ عمرٰن ۸۵
(۳) روحانی خزائن ج ۱۶ ص۳۰
(۴)سول اینڈ ملٹری نیوز لدہیانہ ۱ اپریل ۱۸۹۶ ص ۴
(۵)رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۳۹ء ص۷۷تا۷۹،۱۰۰تا۱۰۱
(۶)الحکم ۲۸ نومبر ۱۹۴۰ء ص۵
(۷)الفضل ۱۹ اکتوبر ۱۹۳۹ء ص۲
(۸)الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۳۹ء ص۵
(۹)الفضل۵دسمبر۱۹۳۹ء ص۹
(۱۰)الفضل۱۳دسمبر۱۹۳۹ء ص۲
(۱۱)الفضل۱۶دسمبر۱۹۳۹ء ص۶
(۱۲)الفضل۲۹مارچ۱۹۴۰ء ص۷
(۱۳)الفضل۲۲نومبر۱۹۳۹ء ص۳
(۱۴)ریویو آف ریلیجنز جنوری۱۹۴۰ء ص۶۰
خلافت جوبلی ۱۹۳۹ء
۱۹۳۹ء کا سال اس لحاظ سے ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے کہ اس سال جماعت کی تاریخ کی پہلی جوبلی منائی گئی تھی۔دنیا میں مختلف وجوہات کی بناء پر جشن منائے جاتے ہیں ،جوبلیاں منعقد کی جاتی ہیں اور اپنی خوشی کے اظہار کے رنگارنگ طریق اختیار کئے جاتے ہیں۔ان کا مقصد یا تو اپنی برتری اور دولت کا اظہار کرنا ہوتا ہے یا پھر وقتی کھیل تماشے اور تقریبات سے اپنی تفریح کا سامان پیدا کرنا ہوتاہے اور پھر اس موقع کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے نام پر کھڑی ہونی والی جماعتیں بھی خوشی کے مواقع مناتی ہیں ، لیکن ان کی خوشی کا اظہار،ان کی تقریبات کا وقار اور ان کو منانے کے مقاصد دنیا سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔وہ صرف اپنی خوشی کا اظہار نہیں کر رہے ہوتے بلکہ اپنے رب کا شکر ادا کر رہے ہوتے ہیں اور اس یقین کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے رب کا وعدہ ہے’(۱)یعنی اگر تم شکرادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا۔ یہ خدائی جماعتیں ان مواقع کو منا کر طاقِ نسیاں پر نہیں رکھ دیتیں بلکہ ایک نئے ولولے سے خدا تعالیٰ کے مزید فضلوں کو سمیٹنے کے لیے اپنے سفر کا نئے سرے سے آغاز کرتی ہیں۔
۱۹۳۹ء کا سال جماعت کے لیے ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔اس سال جماعت کے قیام کو پچاس سال پورے ہو رہے تھے۔اور اسی سال حضرت مصلح موعود ؓ کی خلافت کو پچیس برس پورے ہو رہے تھے۔آپ کی خلافت کا آغازایسے حالات میں ہؤا تھا جب ایک طبقہ ،حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کی وفات کے بعد خلافت سے منکر ہو کر علیحدہ ہو گیا تھا۔اور ہر طرف سے مخالفت کی آندھیاں اٹھ رہی تھیں۔ آج آپ کی مظفر و منصور خلافت کو پچیس برس مکمل ہو رہے تھے۔ آپ کے دورِ خلافت کی ترقیات پکار پکار کر کہہ رہی تھیں کہ پیشگوئیِ مصلح موعود میں موجود خوش خبری،’’ وہ جلد جلد بڑھے گا ‘‘ بڑی شان سے پوری ہوئی۔ایک کے بعد دوسرے اندرونی اور بیرونی فتنے اٹھے اور خطرناک مصائب آئے لیکن دنیا نے دیکھا کہ ہر مرتبہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہؤا اور آپ کی خلافت کی برکت سے ہر خوف کی حالت امن میں بدل گئی۔اسی سال جماعت کے قیام کو بھی پچاس برس پورے ہو رہے تھے۔
یقیناََ یہ اپنے رب کے حضور شکر کرنے اور خوشیاں منانے کا موقع تھا۔سب سے پہلے حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ کے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ اس سال کو جماعت جوبلی کے سال کے طور پر منائے اور آپ نے حضرت مصلح موعود کی اجازت سے جلسہ سلانہ۱۹۳۷ء کے موقع پر احبابِ جماعت کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ ہمارے کامیاب دینی نظام پر یہ عرصہ گذرنے پر جماعت اللہ تعالیٰ کے شکر کا اظہار کرے اور اس خوشی کے موقع پر حضور اقدس کی خدمت میں ایک ایسی رقم کا نذرانہ پیش کیا جائے جو اس سے قبل کی جماعت کی تاریخ میں جمع نہ کی گئی ہو۔اور حضور سے یہ درخواست کی جائے کہ حضور اس رقم کو جس طرح پسند فرمائیں خرچ کریں۔اس کے بعد ۱۹۳۹ء کی مجلسِ مشاورت میں اس ضمن میں سفارشات ،حضور کی خدمت میں پیش کی گئیں کہ خلافت جوبلی کو کس طرز پر منایا جائے۔حضور کی منظوری سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ جلسہ سالانہ ۱۹۳۹ء کو جوبلی کے جلسے کے طور پر منایا جائے اور اس موقع پر جو بلی کی تقریبات منعقد کی جائیں ۔ایک اہم فیصلہ یہ بھی کیا گیا کہ اس مبارک موقع پر جماعتِ احمدیہ کا ایک جھنڈا مقرر کیا جائے جسے جوبلی جلسہ کے موقع پر حضرت مصلح موعوداپنے دستِ مبارک سے نصب فرمائیں۔ان تقریبات کی تیاری کے لیے ایک کمیٹی مقرر کی گئی جس کے صدر حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب تھے اور آپ کے بیرونِ ہند جانے کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ اجلاسات کی صدارت کرتے رہے اور حضرت مو لاناعبدالرحیم صاحب درد اس کے سیکریٹری کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔(۲)
لوائے احمدیت کی تیاری:
قوموں کی زندگی میں ان کا جھنڈا ان کی امنگوں اور ولولوں کی ایک علامت ہوتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے بھی بہت سی مہمات میں صحابہ کو جھنڈا عنایت فرمایا تھا۔خیبر کے موقع پر آپ نے فرمایا تھا کہ میں آج اس شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس کو دوست رکھتے ہیں اور پھر آپ نے حضرت علی ؓکو جھنڈا عنایت فرمایا (۳) ۔جب حضرت مصلح موعود ؓ نے مجلسِ مشاورت کی یہ سفارش منظور فرمائی کہ جماعتِ احمدیہ کا ایک جھنڈا تجویز ہونا چاہئیے تو سب سے پہلے تو اس جھنڈے کے ڈیزائن کی تیاری کا مرحلہ تھا۔اس کام کے لیے ایک کمیٹی مقرر ہوئی جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ؓ صاحب ،حضرت میر محمد اسحاق صاحب ؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب شامل تھے۔اس کمیٹی نے اپنی سفارشات مرتب کیں اور پھرحضورؓ کی راہنمائی میں مختلف نمونے کاغذ پر تیار کیے گئے۔حضورؓ نے ان کو ملاحظہ فرمایا اور پھر لوائے احمدیت کی ایک معین شکل کی منظوری عطا فرمائی۔احادیث میں رسولِ کریم ﷺ کے مختلف جھنڈوں کے رنگ سیاہ اور سفید بیان ہوئے ہیں(۴)۔اس لئے لوائے احمدیت کا رنگ بھی سیاہ اورسفید رکھا گیا ۔اس میں سیاہ رنگ کے پس منظر میں سفید رنگ میںمینارۃالمسیح بنا ہؤا جس کی ایک جانب ہلال اور ستارہ کے اور دوسری جانب مکمل چاند کے نقوش ہیں۔ لوائے احمدیت کی تیاری ایک خاص جذباتی اور تاریخی اہمیت رکھتی تھی۔اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس کی تیاری کے لیے صرف صحابہ حضرت مسیح موعود ؑ سے چندہ لیا جائے خواہ وہ ایک پیسہ یا ایک دھیلہ دے سکیں اور اس کی تیاری کے مراحل بھی صحابہ اور صحابیات کے ہاتھوں سے طے ہوں۔ اس کو تیار کرنے کے لیے جو روئی استعمال کی گئی اس کا بیج ونجواں کے ایک صحابی حضرت میاں فقیر محمد صاحبؓ نے اپنے ہاتھ سے بویا اور خود اسے پانی دیتے رہے اور خود ہی اسے چنا ۔ پھر صحابہ سے اسے دھنوایا گیا۔وہ روئی قادیان لائی گئی اور حضرت سیدہ ام المومنینؓ،حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ، حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ ؓ، حضرت بیگم صاحبہ حضرت خلیفۃ المسیح الا ولؓ ،حضرت مصلح موعودؓ کی بیگمات اور صحابیات نے اس روئی سے سوت کاتا (۱۹)۔ اس کے بعد اس سوت سے بعض صحابہ نے جو یہ کام جانتے تھے قادیان اور تلونڈی میں کپڑا بنا۔اور کچھ درزی صحابہ نے اس کپڑے میں جوڑ ڈال کر مطلوبہ سائز تیار کیا۔پھر شاہدرہ لاہور سے اس کپڑے کے اوپر جھنڈے کی شکل نقش کروائی گئی۔دنیا میں عام طور پر جھنڈوں کا کپڑا پتلا اور ہلکا ہوتا ہے مگر لوائے احمدیت موٹے اور بھاری کپڑے سے بنایا گیا تھا۔(۵) ان سب مراحل سے گذر کر لوائے احمدیت کی تیاری جوبلی جلسہ سے چند روز پہلے مکمل ہوئی(۶)
انعقاد جلسہ خلافت جوبلی
جوں جوں جلسے کے دن قریب آ رہے تھے قادیان میں اس تاریخی موقع کی تیاریاں ایک خاص جوش سے مکمل کی جا رہی تھیں۔۲۲ دسمبر کی صبح کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے مختلف انتظامات کا معائنہ فرمایا۔جلسہ گاہ کے سٹیج کو دیکھ کر حضور نے اظہارِ مسرت کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کے فضل سے اب تو ہمارا سٹیج ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت کی جلسہ گاہ کے برابر ہے۔ابھی جلسے کے آغاز میں کچھ روز باقی تھے مگر ہزاروں کی تعداد میں مہمان قادیان پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔اس روز جب مسجد نور میں نمازِ جمعہ ادا کی گئی تو ساتھ کے میدان میں نما زی دور تک پھیلے ہوئے نظر آ رہے تھے۔(۷)۲۵ دسمبر کو مجلس خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع جو اسوقت خدام الا حمدیہ کا سالانہ جلسہ کہلاتا تھا منعقد ہؤا۔حضورؓ نے خدام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آئیندہ سے خدام کو اپنے جلسے کے لیے کوئی اور تاریخیں مقرر کرنی ہوں گی کیونکہ جلسے کے ساتھ اس کے انعقاد سے انتظامی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔(۸)
آخر تمام تیاریوں ،دعاؤں اور انتظار کے بعد ۲۶ دسمبر کی صبح کو وہ گھڑیاں آن پہنچیںجب اس تاریخی جلسے کا آغاز ہونا تھا۔جوبلی تقریبات کی اہمیت کی وجہ سے جلسہ تین کی بجائے چار روز کا رکھا گیا تھا۔مختلف جگہوں سے مہمان قادیان پہنچ چکے تھے اور ہر طرف رونق اور چہل پہل نظر آرہی تھی۔(۹)شرکاء میں بہت سے ایسے لوگ بھی موجود تھے،جنہوں نے اسی قادیان میں وہ دن بھی دیکھا تھا جب حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کا انتقال ہؤا تھا اور جماعت پر ابتلاؤں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ایک طرف تو اپنے پیارے امام کی وفات کا صدمہ تھا اور دوسری طرف یہ دیکھ کر کہ ایک گروہ خلافت کو مٹانے کے درپے تھا ،لوگوں کے دل بیٹھے جا رہے تھے۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی یہ تحریر اس وقت کے خطرناک حالات اور لوگوں کی کیفیت کا نقشہ کھینچتی ہے۔
’’وہ رونا چاہتے تھے مگر افکار کے ہجوم سے رونا نہیں آتا تھا اور دیوانوں کی طرح اِدھرا’دھر نظر اٹھائے پھرتے تھے تا کہ کسی کے منہ سے تسلی کا لفظ سن کر اپنے ڈوبتے ہوئے دل کو سہارا دیں۔غم یہ نہیں تھا کہ منکرینِ خلافت تعداد میں زیادہ ہیں یا یہ کہ ان کے پاس حق ہے کیونکہ نہ تو وہ تعداد میں زیادہ تھے اور نہ ان کے پاس حق تھا۔بلکہ غم یہ تھا کہ با وجود تعداد میں قلیل ہونے کے اور با وجود حق سے دور ہونے کے ان کی سازشوں کا جال نہایت وسیع طور پر پھیلا ہؤا تھا۔۔۔۔۔۔
اوردوسری طرف جماعت کا یہ حال تھا کہ ایک بیوہ کی طرح بغیر کسی خبر گیر کے پڑی تھی۔گویا ایک ریوڑ تھا جس پر کوئی گلہ بان نہیں تھا اور چاروں طرف بھیڑیئے تاک لگائے بیٹھے تھے‘‘۔ (۱۰)
اور آج قادیان میں جمع ہونے والی سعید روحوں کو سب سے زیادہ اس بات کی خوشی نہیں تھی کہ ان کی تعداد پہلے سے بہت بڑھ چکی ہے یا پچیس سال پہلے کی نسبت ان کی مالی حالت میں نمایاں بہتری آچکی ہے بلکہ ان کو سب سے زیادہ اس امر کی خوشی تھی کہ انہوں نے اپنے رب کے وعدوں کو خود پورا ہوتا دیکھا تھا کہ خلافت کی برکت سے ان کے دین کو تمکنت عطا ہو گی اور ان کے خوف کی حالت امن میں بدل دی جائے گی ۔اور آج اس جوبلی کے موقع پر وہ اپنے امام کے منتظر تھے۔۱۰ بج کر ۴۵ منٹ پر جب حضور تشریف لائے تو اللہ اکبر اور حضرت امیرالمؤمنین زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔حضور نے تقریر کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا۔
’’میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کر رہا تھا اور ابھی پہلی ہی آیت میں نے پڑھی تھی کہ میری نگاہ سامنے تعلیم الاسلام ہائی سکول پر پڑی ۔اور مجھے وہ نظارہ یاد آگیا۔جو آج سے پچیس سال پہلے اس وقت رونما ہؤا تھا،جب جماعت میں اختلاف پیدا ہؤا تھا۔اور عمائد کہلانے والے احمدی جن کے ہاتھوں میں سلسلہ کا نظم و نسق تھا ،انہوں نے اپنے تعلقات ہم سے قطع کر لئے۔اور گویا اس طرح خفگی کا اظہار کیا،کہ اگر تم ہمارے منشاء کے ماتحت نہیں چلتے تو لو کام کو خود سنبھال لو ۔ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس وقت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے جو اب فوت ہو چکے ہیں ،اس مدرسہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ ہم جاتے ہیں اور تم دیکھ لو گے،کہ اس جگہ پر دس سال کے اندر اندر احمدیت نابود ہو کر عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا ۔اس کے وہ دس سال گزرے ۔پھر ان کے اوپر دس سال اور گزر گئے۔اور پھر ان پر چھ سال اور گزر گئے لیکن اگر اس وقت چند سو آدمی احمدیت کا نام لینے والے یہاں جمع ہوتے تھے۔تو آج یہاں ہزاروں جمع ہیں۔اور ان سے بھی زیادہ جمع ہیں جو اس وقت ہمارے رجسٹروں میں لکھے ہوئے تھے۔اور اس لئے جمع ہیں تاکہ خدائے واحد کی تسبیح و تمحید کریں اور اس کے نام کو بلند کریں۔
یہاں عیسائیت کا قبضہ بتانے والا مر گیا اور اس کے ساتھی بھی مر گئے۔ان کا واسطہ خداتعالیٰ سے جا پڑا۔مگر احمدیت زندہ رہی۔زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔دنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہ سکی اور نہ مٹا سکے گی۔‘‘ (۱۱)
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے اس خطاب کے ساتھ اس تاریخی جلسے کا افتتاح ہؤا۔موقع کی مناسبت سے اس جلسے پر زیادہ تر تقاریر برکاتِ خلافت،پچاس سالہ جماعتی ترقی اور حضرت خلیفۃ المسیح کے دورکی برکات اور اس کی نمایاں شان پر تھیں۔اللہ تعالیٰ قرآنِ مجیدمیں رسولِ مقبول ﷺکو مخاطب کر کے فرماتا ہے،’’قل یا ایھا الناس انّی رسول اللّٰہ الیکم جمیعا‘‘ یعنی ’تو کہہ دے اے انسانو! یقینا میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں‘‘۔آپ دنیا کے ہر شخص کے لیے مبعوث ہوئے تھے خواہ اس کا تعلق دنیا کی کسی قوم سے ہو۔آپ کی غلامی میں جماعتِ احمدیہ کا یہ فرض ہے کہ آپ کے پیغام کو دنیا کے ہر خطے ہر کونے تک پہنچائیں۔اس عؑظیم کام کے لیے لازماََ مبلغین کی بڑی تعداد درکار ہے۔حضرت مصلح موعود کی خواہش تھی کہ ہزاروں کی تعداد میں مبلغین تیار ہوں تاکہ جماعت یہ فرض ادا کرسکے۔حضور نے جلسے کے دوسرے روز تقریر کے دوران اپنی اس خواہش کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہوئے جماعت کو اپنی زندگیاں خدمتِ دین کے لئے وقف کرنے کی تحریک فرمائی۔
’’میری یہ خواہش ہے کہ حضرت مسیح موعود کا یہ رئویا کہ آپ کو پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا ایک تو تحریکِ جدید میں چندہ دینے والوں کے ذریعہ پورا ہو اور دوسرا اس رنگ میں پورا ہو کہ ہم پانچ ہزارتحریک جدید کے ما تحت مبلغ تیار کردیں جو اپنی تمام زندگی اعلاء کلمہ اسلام کے لئے وقف کئے ہوں ۔‘‘(۱۲)
جوبلی تقریبات
۲۸ سمبر کا دن جوبلی کی تقریبات کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔مختلف جماعتیں سادہ اسلامی طرز کے جلوسوں کی صورت میں اپنی قیام گاہوں سے جلسہ گاہ کے لیے صبح ۹ بجے روانہ ہوئیں۔ہر جماعت کے جلوس کے آگے ایک بینر تھا جس پر حضرت مسیح موعود کا ایک شعر اور جماعت کا نام لکھا ہؤا تھا۔قادیان کی فضا حمد کے ترانوں سے گونج اٹھی۔ایک گھنٹے کے اندر اندر جلسہ گاہ کھچا کھچ بھر گئی۔حضورؓ کی آمد پر سات مرتبہ اھلاََ و سھلاََو مرحبا کے نعرے بلند کیے گئے۔(۱۲)تلاوت اور نظم کے بعدمختلف جماعتوں کی طرف سے سپاس نامے پیش ہوئے۔سب سے پہلے صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے ناظرِ اعلیٰ حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحبؓ نے سپاس نامہ پیش کیا ۔ان کے بعدحضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ نے جماعت ہندوستان کی جانب سے اور پھر ہندوستان کی مختلف جماعتوں کے سپاس نامے پیش ہوئے۔آخر پر بلادِ عربیہ ،مشرقی افریقہ،سنگا پوراور ملایا اور جزائر شرق الہند کے نمائیندوں نے اپنی اپنی زبانوں میں اظہارِ عقیدت کیا۔برطانیہ کے احمدیوں کی طرف سے ایک انگریز نو مسلم خاتوںسلیمہ بینک صاحبہ اور لجنہ کی جانب سے سیدہ حضرت امِ طاہر صاحبہؓ ایک روز قبل خواتین کے جلسے میں ایڈریس پیش کر چکی تھیں۔ایڈریسوں کے اختتام پر حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے جماعتِ احمدیہ عالمگیر کی طرف سے حضور کو ایک حقیر رقم کا نذرانہ پیش کیا۔ حضرت مصلح موعود نے اسے قبول کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اسے استحکامِ جماعت، جماعت کی تعلیمی ترقی اور تبلیغ کے لیے خرچ کیا جائے گا۔
اس کے بعد پروگرام کا وہ حصہ شروع ہؤا جو تاریخِ احمدیت میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ،پہلی مرتبہ لوائے احمدیت بلند کرنے کے لیے سٹیج سے اتر کر شمال مشرق میں ایک چبوترے پر تشریف لائے۔دنیا کی تاریخ میں کتنے ہی جھنڈے لہرائے گئے ہیں۔ اکثر کی تو یادیں بھی محو ہو چکی ہیں ۔۱۹۳۹ء میں سلطنتِ برطانیہ کا جھنڈا ایسا تھا جس کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ اس پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا ۔لیکن اب اس کی یہ کیفیت نہیں رہی۔اکثر جھنڈوں کو بینڈ اور بگل کے شور میں یا سلامی کی توپوں کی گھن گرج میں بلند کیا جاتا تھا تا کہ اپنی شان و شوکت کا اظہار کیا جائے۔لیکن رسولِ مقبول ﷺ کی اتباع میںاس مقدس جھنڈے کو ایک نرالی شان سے لہرایا جا رہا تھا۔حضورؓ نے ارشاد فرمایا کہ تمام احباب ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم کی دعا پڑہتے رہیں۔حضورؓ نے خود پرُ جوش اور رقت انگیزآواز میںیہ دعا پڑہتے ہوئے لوائے احمدیت کو بلند کرنا شروع کیا۔دعا پڑھتے ہوئے سب مجمع پر ایک خاص کیفیت طاری تھی ،بہت سی آنکھوں میں آنسوں بھر آئے تھے۔پھریرے کے کھلنے پر اللہ اکبر کے نعرے بلند ہونے لگے۔ اور نعرہ ہائے تکبیر کے دوران لوائے احمدیت پوری بلندی پر پہنچ کر لہرانے لگا۔
دنیا میں جھنڈا قوموں کے وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔تاریخ میں ایسے بہت سے مواقع کا ذکر ملتا ہے کہ دنیاوی جھنڈوں کی حفاظت کے لیے بھی ایک کے بعد دوسرے سپاہی اپنی جان قربان کرتے گئے۔لوائے احمدیت کے ساتھ وابستہ فرائض تو اس سے بہت زیادہ اور وسیع تھے۔چنانچہ اس کے لہرائے جانے کے بعد حضور نے ان الفاظ میں جماعت سے عہد لیا۔حضور اس عہد کے الفاظ پڑہتے اور موجود احباب ان الفاظ کو دہراتے۔اس تاریخی عہد کے الفاظ یہ تھے۔
’’میں اقرار کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے اسلام اور احمدیت کے قیام اس کی مضبوطی اور اس کی اشاعت کے لئے آخر دم تک کوشش کرتا رہوں گا اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس امرکے لئے ہر ممکن قربانی پیش کروں گا۔کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلا م دوسرے سب دینوں اور سلسلوں پر غالب رہے۔اور اس کا جھنڈا کبھی سرنگوںنہ ہو بلکہ دوسرے سب جھنڈوں سے اونچا اڑتا رہے ۔ اللھم اٰ مین ۔اللھم اٰمین۔اللھم اٰمین۔ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم(۱۳)
تیسرے اور چوتھے روزمسئلہ خلافت پر حضرت مصلح موعود ؓ کی تقریر:
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مسلمانوں نے خلافت کی اہمیت نہ سمجھنے اور اس کی قدر نہ کرنے کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا ہے۔وہ کون سا مسلمان ہو گا جو حضرت عثمان ؓاور حضرت علی ؓکے ادوار میں اٹھنے والے فتنوں کا حال پڑھے اور اس کا دل خون کے آنسو نہ روئے۔جب اللہ تعالیٰ سے اپنے وصال کی خبر پا کر حضرت مسیح موعود ؑ نے رسالہ الوصیت شائع فرمایا تو اس کے ساتھ ہی یہ خوش خبری بھی سنا دی
’’اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔‘‘(۱۴)
آئیندہ آنے والی نسلوں پر حضرت مصلح موعود کا ایک عظیم الشان احسان یہ بھی ہے کہ آپ نے خلافت کے مسئلے کوہر پہلو سے واضح کر کے بیان فرمایا اور اس کے خلاف ہر فتنے کی سر کوبی فرمائی اور اپنی جماعت کے ذہنوں میں مسئلہ خلافت کا صحیح اور اسلامی تصور اچھی طرح جما دیا۔ جلسہ خلافت جوبلی پر ۲۸ اور ۲۹ تاریخ کو حضور ؓ نے مسئلہ خلافت پرایک علمی تقریر فرمائی۔اور اس تقریر میں بہت سے اہم امور کی وضاحت فرمائی۔اس کے آخر میں آپ نے ان الفاظ میں جماعت کو ایک عظیم نصیحت فرمائی۔
’’ پس اے مومنوں کی جماعت !اور اے عملِ صالح کرنے والو!خلافت خدا تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔جب تک آپ لوگوں کی اکثریت ایمان اور عملِ صالح پر قائم رہے گی،خدا اس نعمت کو نازل کرتا جائے گا۔پس خلیفہ کے بگڑنے کا کوئی سوال نہیں۔ خلافت اس وقت چھینی جائے گی جب تم بگڑ جاؤ گے۔پس اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی ناشکری مت کرو۔بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے تم دعاؤں میں لگے رہو تا کہ قدرتِ ثانیہ کا پے در پے تم میں ظہور ہوتا رہے…
پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں مشغول رہو۔اور اس امر کو اچھی طرح یاد رکھو کہ جب تک تم میں خلافت رہے گی دنیا کی کوئی قوم تم پر غالب نہیں آسکے گی۔اور ہر میدان میں تم مظفر و منصور رہو گے۔کیونکہ یہ خدا کا وعدہ ہے جو اس نے اس آیت میںکیا ‘‘(۱۵)
منفی رحجانات سے بچنے کی تلقین:
۱۹۳۹ء کا سال وہ سال تھا جب مختلف اقوام کے درمیان کشیدگی اور ایک دوسرے کے لیے نفرت کے جذبات پوری دنیا میں عروج پر تھے۔ دوسری جنگِ عظیم شروع ہو چکی تھی اور دنیا کی بڑی طاقتیں ایک دوسرے کا خون بے دریغ بہا رہی تھیں۔کچھ ممالک میں نسلی برتری کابے جا احساس پیدا کیا جا رہا تھا اور وہ دوسری اقوام کو حقیر سمجھ رہے تھے۔ایشیا اور افریقہ کی جو اقوام یورپی اقوام کی محکوم تھیں ان میں آزادی کی تحریکات چل رہی تھیں اور ان تحریکوں کو اپنی منزل زیادہ دور نہیں لگ رہی تھی لیکن اس کے ساتھ ان اقوام کے لیے جو ان پر حکمران تھیں نفرت بھی سلگ رہی تھی۔اور ہندوستان میں تو مذہبی اور سیاسی اختلافات کی بناء پر آپس میں مخالفانہ جذبات بھی عروج پر تھے۔ ایسے جذبات رکھنے والوں کی دور کی نظر کمزور ہوتی ہے۔ اسلام کا پیغام تو پوری دنیا کے لیے ہے ۔اس میں کسی قوم کے لئے نفرت کی کوئی گنجائش نہیں۔وہ وجود جن کی تربیت آنحضرتﷺ نے فرمائی تھی ان کی تو یہ کیفیت تھی کہ اپنے بدخواہوں اور دشمنوں کے متعلق ان کے جذبات کے متعلق خود اللہ تعالیٰ ے یہ گواہی دی ہے کہ’‘ (۱۶)تم ایسے ہو کہ ا’ن سے محبت کرتے ہو جبکہ وہ تم سے محبت نہیں کرتے۔اس تعلیم کی روشنی میں حضرت مصلح موعود ؓ نے اپنے اختتامی خطاب میں جو آخری نصیحت فرمائی وہ یہ تھی
’’پھر غیروں کے لیے بھی دعائیں کرو۔ان کے لیے اپنے دلوں میں غصہ نہیں بلکہ رحم پیدا کرو۔خدا تعالیٰ کو بھی اس شخص پر رحم آتا ہے جو اپنے دشمن پر رحم کرتا ہے۔پس تم اپنے دلوں میں ہر ایک کے متعلق خیر خواہی اور ہمدردی کا جذبہ پیدا کرو۔انہی دنوں ایک وزیری پٹھان آئے اور کہنے لگے ۔دعا کریں انگریز دفع ہو جائیں ۔میں نے کہا ۔ہم بد دعا نہیں کرتے۔یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمارے ہو جائیں۔پس کسی کے لیے بد دعا نہ کرو۔کسی کے متعلق دل میں غصہ نہ رکھو۔بلکہ دعائیں کرو ۔اور کوشش کرو کہ اسلام کی شان و شوکت بڑھے اور ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے۔‘‘(۱۷)
یقیناََ امامِ وقت کی خواہش صرف یہاں تک محدود نہیں ہو سکتی تھی کہ ایک قوم ایک ملک سے نکل جائے،بلکہ حقیقی خوشی کا دن تو وہی ہو گا جب ساری دنیا رسولِ کریم ﷺکے جھنڈے کے نیچے جمع ہو جائے گی۔اس طرح خلافت جوبلی کا جلسہ کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہؤا ۔تقریباََ چالیس ہزار سے زائد لوگ اس با برکت جلسے میں شریک ہوئے ۔(۱۸)جماعت احمدیہ کے ابتدائی پچاس سال مکمل ہو چکے تھے ۔اب اس الٰہی جماعت کی تاریخ کا ایک اور درخشندہ باب شروع ہو رہا تھا۔اگلے چند برسوں میں جماعتی نظام میں مجلس انصاراللہ کا اضافہ ہؤا اور تفسیرِ کبیر کی اشاعت کے آغاز کے ساتھ علمی افق پر ایک نیا سورج طلوع ہؤا۔
(!) ابراھیم ۸(۲) روئیداد جلسہ خلافت جوبلی مصنفہ حضرت عبدالرحیم صاحب دردؓ ص ا،ب
(۳) جامع ترمذی باب مناقب علی بن طالبؓ
(۴)الوفا با حوال المصطفیٰ از علامہ محمد بن علی جوزی باب فی ذکر رایتہ ولوائہ حدیث ۱۳۶۰ تا۱۳۶۴
(۵)روئیداد جلسہ خلافت جوبلی مصنفہ حضرت عبدالرحیم صاحب درد ؓ ص ب تا ھ
(۶)الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۳۹ء ص۲(۷)الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۳۹ء ص۲
(۸) الفضل ۲۷ دسمبر ۱۹۳۹ء ص۱،۲
(۹) روئیداد جلسہ خلافت جوبلی مصنفہ حضرت عبدالرحیم صاحب دردؓ ص ذ
(۱۰)سلسلہ احمدیہ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد ؓ ص۳۲۷
(۱۱)الفضل ۴ جنوری۱۹۴۰ء ص۳(الفضل ۳ جنوری ۱۹۴۰ء ص۶
(۱۲)روئیداد جلسہ خلافت جوبلی مصنفہ حضرت عبدالرحیم صاحب دردؓ ص ز ح
(۱۳)الفضل ۳ جنوری ۱۹۴۰ء ص۸،۹و روئیداد جلسہ خلافت جوبلی ھ ز
(۱۴)روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۳۰۵
(۱۵)الفضل ۴ جنوری ۱۹۴۰ء ص۳،۴
(۱۶)ال عمرٰن۱۲۰
(۱۷)الفضل ۴ جنوری ۱۹۴۰ء ص
(۱۸)الفضل ۳ جنوری ص ۲
(۱۹) تاریخ ِ لجنہ جلداول،دسمبر ۱۹۷۰ئ، ص ۴۵۰۔۴۵۱

مجلس انصار اللہ کا قیام
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک اہم کارنامہ نظامِ جماعت کو ہر جہت سے مضبوط بنانا ہے۔سب سے پہلے تو آپ نے صدر انجمن احمدیہ کے انتظام میں بہتری پیدا کرنے کے لئے نظارتوں کا نظام جاری فرمایا۔اس طرح صدر انجمن احمدیہ میں کام مختلف شعبوں میں تقسیم ہو کر سہولت سے چلنے لگا۔اس کے بعد مجلسِ مشاورت کی داغ بیل ڈالی گئی اور قرآنِ مجید کے حکم کے مطابق اہم امور کے متعلق سفارشات مرتب کرتے ہوئے مختلف جماعتوں کے مشورے بھی شامل ہونے لگے ۔پھر عورتوں کی تربیت اور ان سے خدمتِ دین کا کام لینے کے لئے لجنہ اماء اللہ کا قیام عمل میں آیا۔اور لجنہ اماء اللہ کے تحت ،بچیوں کی تربیت کے لئے ناصرات الاحمدیہ کی تنظیم شروع کی گئی۔نوجوانوں اور بچوں کی تربیت کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔نوجوانوں کو منظم کرنے کے لئے حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ کا آغاز فرمایا۔اور اس مجلس خدام الاحمدیہ کے تحت اطفال الا حمدیہ کی مجلس نے کام شروع کیا تاکہ پندرہ سال سے کم عمر بچوں کی تربیت منظم طور پر کی جا سکے۔اگر لوگوں کو عمر کے حساب سے مختلف گروہوں مین تقسیم کیا جائے تو ابھی تک ایک گروہ تھا جو کسی بھی ذیلی تنظیم میں شامل نہیں تھا۔چالیس سال سے اوپر کے مردوں کے لئے جماعت میں کوئی بھی ذیلی تنظیم موجود نہیں تھی۔اس عمر کے بعدرفتہ رفتہ جسمانی قویٰ میں تو کمی آنی شروع ہوتی ہے لیکن علم اور تجربے کی بنیاد پر اس عمر کے لوگ بہت سے کاموں کو جوانوں کی نسبت بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔قرآنِ مجید میں بھی چالیس سال کی عمر کو پختگی کی عمر قرار دیا گیا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’‘‘یعنی ’یہاں تک جب وہ اپنی پختگی کی عمر کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا۔‘(۱)۔اب اس بات کی ضرورت تھی کہ اس عمر کے مردوں کی ایک اپنی تنظیم ہو تا کہ وہ بھی ذیلی تنظیموں کے نظام کا حصہ بن جائیں ۔چنانچہ ۲۶ جولائی ۱۹۴۰ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے خطبہ جمعہ میں چالیس سال سے زیادہ عمر کے احمدیوں کی ایک علیحدہ تنظیم بنانے کا اعلان فرمایا۔حضورؓ نے اس نئی تنظیم کو انصاراللہ کا نام عطا فرمایا۔جماعتِ احمدیہ میں تین ذیلی تنظیموں کا جو نظام آج موجود ہے،یہ سب تنظیمیں حضرت مصلح موعود ؓ نے قائم فرمائی تھیں ۔لیکن ان سب کو یکلخت یا ایک مختصر مدت میں شروع نہیں کیا گیا تھا۔بلکہ سترہ سال کے طویل عرصہ میں ایک ایک کر کے ان کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔مجلسِ انصاراللہ کا قیام اس سلسلے کی آخری کڑی تھی۔ابتدا ء میں صرف قادیان میں رہنے والوں کے لئے اس کا ممبر بننا لازمی تھا ۔قادیان سے باہر رہنے والوں کے لئے اس کا ممبر بننا لازمی نہیں تھا البتہ جماعتی عہدیداروں کے لئے اگر وہ چالیس سال سے زیادہ عمر کے ہوں ضروری تھا کہ وہ اس کے ممبر بنیں ۔بعد میں قادیان سے باہر رہنے والوں کے لئے بھی اس کا ممبر بننا لازمی کر دیا گیا۔حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓ کو اس نئی تنظیم کا پہلا صدر مقرر کیا گیا ۔اور اسی خطبہ میں حضور ؓ نے ارشاد فرمایا کہ تمام ممبران روزانہ آدھا گھنٹہ خدمتِ دین کے لئے وقف کریںاور اس امر کی نگرانی کریں کہ کوئی شخص ایسا نہ رہے جو نماز با جماعت کا پابند نہ ہو ۔(۲)
حضرت مصلح موعود ؓ کے ہر انتظامی فیصلے کے پیچھے گہری حکمت ہوتی تھی اور آپ جماعت کی راہنمائی کے لئے اس حکمت کو بیان بھی فرماتے تھے۔انصاراللہ کے قیام کے وقت آپ نے ان الفاظ میں جماعت کے نظام کی موجودہ ہیئت کی حکمت بیان فرمائی۔
’’اگر ایک طرف نظارتیں جو نظام کی قائم مقام ہیں عوام کو بیدار کرتی رہیں۔اور دوسری طرف خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ اور لجنہ اماء اللہ جو عوام کے قائم مقام ہیں نظام کو بیدار کرتے رہیں ۔تو کوئی وجہ نہیں نظر آتی کہ کسی وقت جماعت کلی طور پر گر جائے۔اور اس کا قدم ترقی کی طرف اٹھنے سے رک جائے ۔جب بھی ایک غافل ہو گا دوسرا اسے جگانے کے لئے تیار ہو گا۔جب بھی ایک سست ہوگا دوسرا اسے ہوشیار کرنے کے لئے آگے نکل آئے گا۔‘‘(۳)
آپ نے صرف مجلس انصاراللہ کا آغاز ہی نہیں فرمایا بلکہ اس کی تدریجی ترقی بھی آپ کی مسلسل نگرانی اور راہنمائی کی مرہونِ منت ہے۔دو سال کے بعد جب آپ نے محسوس فرمایا کہ مجلس انصاراللہ کی ترقی کی رفتار تسلی بخش نہیںہے تو آپ نے توجہ دلائی کہ بڑی عمر کے تجربے سے فائدہ اُٹھانے کے علاوہ چالیس اور پچپن سال کے درمیان عمر کے انصار کی خدمات سے بھی زیادہ استفادہ کیا جائے۔کیونکہ اس عمر کے لوگ بھاگ دوڑ کا کام زیادہ آسانی سے کر سکتے ہیں۔اور ارشاد فرمایا کہ خدام الاحمدیہ کی طرح انصار اللہ بھی سال میں ایک مرتبہ اپنا مرکزی جلسہ کیا کرے تا کہ ممبران ایک دوسرے سے مل کر پہلے سے زیادہ ترقی کی طرف قدم اُٹھا سکیں ۔(۴)حضور ؓ کی منظوری سے دسمبر ۱۹۴۳ء میں انصاراللہ کے دستورِ اساسی کا اعلان کیا گیا۔(۵)حضور ؓ کے ارشاد کی تعمیل میں ۲۵ دسمبر ۱۹۴۴ء کو انصاراللہ کا پہلا اجتماع منعقد ہؤا۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان الفاظ میں انصار کو توجہ دلائی
’’مجلس کے قیام کو کئی سال گذر چکے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اب تک اس مجلس میںزندگی کے آثار پیدا نہیں ہوئے۔زندگی کے آثار پیدا کرنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اول تنظیم کامل ہو جائے۔دوسرے متواتر حرکتِ عمل شروع ہو جائے اور تیسرے اس کے کوئی اچھے نتائج نکلنے شروع ہو جائیں ۔میں ان تینوں باتوں میں مجلس انصاراللہ کوابھی بہت پیچھے پاتا ہوں۔‘‘(۶)
۱۹۴۷ء کے پُر آشوب دور میں مجلس انصاراللہ کی ترقی بھی متاثر ہوئی۔اپریل ۱۹۴۸ء میں پاکستان میں اس مجلس کا دوبارہ آغاز ہؤا۔حضرت مولانا شیر علی صاحب ؓ نومبر ۱۹۴۷ء میں انتقال فرما گئے تھے۔حضورؓ نے حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب ؓکو مجلس انصاراللہ کا صدر مقرر فرمایا ۔اور نومبر ۱۹۴۰ء میں حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ؓ کو صدر مجلس انصاراللہ مقرر کیا گیا۔اور آپ نے چار برس تک یہ خدمات سر انجام دیں۔نومبر ۱۹۵۴ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے حضرت صاحبزادہ مرزاناصر احمد صاحب کومجلس انصاراللہ کا صدر مقرر فرمایا۔اور آپ کی فعال قیادت میں یہ مجلس تیزی سے ترقی کی نئی منازل طے کرنے لگی۔(۷)
کوئی بھی نظام اُس وقت تک کامیابی سے نہیں چل سکتا جب تک اس کے مختلف حصوں میں ہم آہنگی نہ ہو ۔حضرت مصلح موعود ؓ نے ایک طرف تو مختلف ذیلی تنظیموں کا آغاز فرمایا اور دوسری طرف ان کے باہمی تعاون کے متعلق بھی راہنمائی فرمائی۔۲۰ جولائی کے خطبہ جمعہ میں آپ کا یہ ارشاد اس ضمن میںمشعلِ راہ ہے
’’میری غرض انصاراللہ اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم سے یہ ہے کہ چار دیواروں کو میں مکمل کر دوں ۔ایک دیوار انصاراللہ ہیں۔دوسری دیوار خدام الاحمدیہ ہیں اور تیسری دیوار اطفال الاحمدیہ ہیں اور چوتھی دیوار لجنات اماء اللہ ہیں۔اگر یہ چار دیواریں ایک دوسرے سے علیحدہ علیحدہ ہو جائیں تو یہ لازمی بات ہے کہ کوئی عمارت کھڑی نہیں ہو سکے گی ۔عمارت اس وقت مکمل ہوتی ہے جب اس کی چار دیواریں آپس میں جڑی ہوں۔اگر وہ علیحدہ علیحدہ ہوں تو وہ چار دیواریں ایک دیوار جتنی قیمت بھی نہیں رکھتیں۔‘‘(۸)
(۱) الا حقاف ۱۶
(۲)الفضل یکم اگست ۱۹۴۰ء
(۳) الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۴۳ء ص ۳
(۴) الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۴۳ء ص۵،۶
(۵)الفضل ۲ دسمبر ۱۹۴۳ء ص ۳
(۶) الفضل ۱۶ اگست ۱۹۴۵ء ص۱
(۷) تاریخ ِ احمدیت جلد نہم ص ۹۹
(۸) الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۴۵ء ص۵
جماعت کا نظام افتاء
اسلام کی تعلیمات زندگی کے تمام شعبوں میں ہماری راہنمائی کرتی ہیں۔ جس طرح انسان عقائداور عبادات کے معاملے میں راہنمائی کا محتاج ہے اسی طرح وہ آسمانی روشنی کے بغیرجسمانی صفائی ، گھریلو زندگی ،کاروباری معاملات،معاشرتی مسائل ، اخلاقیات اور بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں بھی سنگین غلطیوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔یہ پابندی نہیں بلکہ رحمت ہے۔آغازِ اسلام میں جب آنحضرت ﷺ کا با برکت وجود سامنے موجود تھا،تو صحابہ براہِ راست آپ سے قرآنی آیات کا مطلب سمجھ لیتے اور آپ کا ہرعمل، ہر ارشاد اور حتّٰی کہ آپ کے چہرے کے تاثرات اور آپ کا سکوت بھی لوگوں کے لئے مشعلِ راہ بن جاتا۔جب دور کے علاقوں میں بھی اسلام پھیلنے لگا توبہت سے لوگ آپ سے دین سیکھ کر جاتے اور اپنے اپنے علاقوں میں جا کر دوسروں کی راہنمائی کرتے۔ صحابہ کا یہ گروہ کس بنیاد پر لوگوں کی تربیت کرتا اور ان کے درمیان فیصلے کرتا اس کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے۔آنحضرتﷺ نے جب حضرت معاذ بن جبل کو یمن کی طرف بھجوایا توآپ نے دریافت فرمایا کہ جب تمہارے پاس کوئی معاملہ فیصلے کے لئے لایا جائے گا تو تم کس طرح فیصلہ کرو گے،حضرت معاذ ؓ نے عرض کی کہ میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ اگر اس کا فیصلہ تمہیں کتاب اللہ سے نہ ملے ۔حضرت معاذ نے عرض کی کہ پھر میں سنتِ رسول ﷺ کے مطابق اس کا فیصلہ کروں گا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تمہیں سنت سے بھی راہنمائی نہ ملے۔اس پر حضرت معاذؓ نے کہا اس صورت میں میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔اس پر رسولِ کریم ﷺ نے آپ کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے اللہ کے رسول کے ایلچی کو اللہ کے رسول کی مرضی کے موافق کر دیا۔(۱)یہ اسلامی شریعت کی بنیاد ہے۔اور اس کے راہنما اصول یہ بیان کئے گئے تھے کہ اللہ کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے لوگوں کے لئے آسانی پیدا کی جائے مشکلات نہ پیدا کی جائیں۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (۲) یعنی اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا۔اسی طرح رسول اللہ ﷺنے نصیحت فرمائی تھی کہ ’آسانی پیدا کرو اورسختی نہ کرو ۔اور لوگوں کو خوشخبری سناؤ اور متنفر نہ کرو۔‘(۳)ان مضبوط بنیادوں پر اسلامی شریعت کو استوار کیا گیا تھا۔لیکن جب صحابہ گذر گئے اور تابعین کا دور بھی ختم ہو گیاتو افراط و تفریط کا دور شروع ہؤا۔جو خوبصورت تعلیم امت کو متحد کرنے کا باعث تھی۔ روزمرہ کے مسائل فقہ میں اختلافات کو آڑ بنا کر امتِ مسلمہ میں انتشار پیدا کیا گیا۔کبھی خلقِ قرآن کے مسئلے پر خون ریزی کی گئی تو کبھی رفع یدین پر تنازع اتنا بڑھا کہ لوگوں نے مساجدمیں آنا ہی ترک کر دیا۔جس تعلیم کی بنیاد ہی نرمی پر تھی اور جس کا مقصد لوگوں کو خوش خبری دینا تھا،اسے سختی کرنے اور لوگوں کو متنفر کرنے کا ذریعہ بنا لیا گیا۔یہ فتنہ اتنا شدید تھا کہ چاروں ائمہ فقہ،یعنی حضرت امام مالک، حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام احمد بن حنبل اور حضرت امام شافعی کو اختلافات کی بنیا د پر اسیری کی سختیاں جھیلنی پڑیں۔ اور امام مالک، امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل کو تو کوڑے بھی لگوائے گئے۔ان آئمہ کا دور ختم ہؤا تو آہستہ آہستہ ان نام نہاد علماء کا دور دورہ شروع ہؤا جن کے متعلق آنحضرت ﷺ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ جب علماء اٹھ جائیں گے تو پھر لوگ نا اہل لوگوں کو اپنا سردار بنا لیں گے۔ان سے سوال پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے ۔خود بھی گمراہ ہوں اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے(۴) کسی نے صرف کتاب اللہ کی پیروی کا نام لے کر احادیث نبویہ کو بیکار قرار دیا۔اور کسی نے قرآنِ کریم کو نظر انداز کر کے ضعیف احادیث کو قرآنی آیات پر فوقیت دینی شروع کر دی ۔ایک گروہ مغربی فلسفے سے اتنا مرعوب ہؤا کہ عقل بلکہ ناقص عقل کو دین پر حاکم بنا دیا۔اور علماء کے ایک بڑے طبقے نے ،فقہی اختلافات کی بنیادپر ایک دوسرے پر تکفیر کا وہ بازار گرم کیا کہ کسی کو دائرہ اسلام کے اندر باقی نہ چھوڑا۔آخر وہ وقت آیا کہ ایک تو اسلام ہر طرف سے صلیبی حملوں میں گھرا ہؤا تھا اور دوسری طرف آپس کے تنازعات عالمِ اسلام کو اندر سے کھا رہے تھے۔۔اس حال میں ہر درد مند مسلمان یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ دین کو صلیبی یورشوں سے کون بچائے گا ،ان اندرونی جھگڑوں کا فیصلہ کون کرے گا۔مگر رسولِ کریم ﷺنے صرف آنے والے فتنوں کی خبر نہیں دی تھی بلکہ یہ بھی پیشگوئی فرما دی تھی کہ ان اندھیروں سے نکلنے کی صورت کیا ہو گی۔حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ تمہارے درمیان ابنِ مریم اترے گا جو حَکَمًا عَدَلًا (انصاف سے فیصلہ کرنے والا ) ہو گا اور وہ کسرِ صلیب کرے گا۔(۵)بالآخر اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہوئے اور حضرت مسیح موعودؑ کا ظہور ہؤا۔اور آپ نے اسلامی شریعت کے اصل چہرے کو دنیا کے سامنے پیش فرمایا۔اور اس کے وہی ماخذ بیان فرمائے جو آنحضرتﷺ نے مقرر فرمائے تھے۔جیسا کہ آپ فرماتے ہیں
’’ہمارے نزدیک تین چیزیں ہیں ایک کتاب اللہ دوسرے سنت یعنی رسول اللہ ﷺ کا عمل اور تیسرے حدیث‘‘(۶)
اور قرآنِ مجید پر عمل کے متعلق آپ نے ارشاد فرمایا
’’اور تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے۔جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔‘‘(۷)
پھرآپ فرماتے ہیں۔
’’ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئیے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سنت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجے کی حدیث ہو اسپر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کو ترجیح دیں۔اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کر لیں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اس صورت میں علماء اس سلسلے کے اپنے خداداد اجتہاد سے کام لیں‘‘(۸)
حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں لوگ حضور کی خدمت میں اپنے سولات پیش کرتے۔آپ یا تو خود جواب مرحمت فرماتے یا پھر ارشاد فرماتے کہ مولوی صاحب (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ)سے پوچھ لو۔ آپ کی خواہش تھی کہ جماعت کے علماء ایک کتاب فقہ کی سلیس اردو میں لکھیں تا کہ خاص و عام اس سے یکساں مستفید ہوں۔(۹)شرعی معاملات میں فتویٰ دینا ہر ایک کا کام نہیں۔ایک تو ہر شخص اس بات کی اہلیت بھی نہیں رکھتا کہ یہ نازک کام کرے اور دوسرے یہ کہ اگر ہر شخص یا مختلف اشخاص جماعت میں از خود فتویٰ دینا شروع کر دیں تو اس سے وحدت بھی قائم نہیں رہ سکتی اور بالآ خر تفرقہ پیدا ہوتا ہے۔جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ۱۹۱۹ء میں صدر انجمن احمدیہ میں اہم انتظامی تبدیلیاں کیں اور نظارتوں کا قیام عمل میںآیا،تو اس کے ساتھ ہی جماعت کی ضروریاتِ افتاء کو مدِنظر رکھتے ہوئے،اس کام کے لئے حضرت مولوی سیدسرور شاہ صاحبؓ،حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ،اورحضرت حافظ روشن علی صاحبؓ مقرر کئے گئے۔ اور اس کے ساتھ حضورؓ نے ھدایت جاری فرمائی کہ ان کے علاوہ اور کوئی فتویٰ نہیں دے سکے گا۔(۱۰۔۱۱)تاہم افتاء کے زیادہ تر فرائض حضرت حافظ روشن علی صاحب سرانجام دیتے رہے اور آپ نے۱۹۲۳ء میں فقہ احمدیہ کے نام سے ایک مختصر کتاب بھی تحریر فرمائی جس میں روزمرہ کے اہم فقہی مسائل آسان فہم انداز میں بیان کئے گئے۔جون ۱۹۲۹ء میں آپ کے انتقال کے بعد افتاء کی یہ ذمہ واری حضرت مولوی سیدسرور شاہ صاحب ادا کرتے رہے۔(۱۲)۱۹۴۳ء کے آخر میں افتاء کمیٹی کے نام سے ایک نیا ادارہ وجود میں آیا۔جس میں حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کو مفتیِ سلسلہ اور حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ اور مولانا ابو العطاء صاحب کو ممبر مقرر کیا گیا۔جون ۱۹۴۷ء میں حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کے انتقال کے بعد مکرم ملک سیف الرحمن صاحب کو مفتیِ سلسلہ مقرر کیا گیا۔تقسیم ِہند کے معاََ بعد ،نومبر ۱۹۴۸ء میں ،دفتر افتاء کی رپورٹ پر حضور نے مجلسِ افتاء کو قائم فرمایا۔(۱۳)مفتیِ سلسلہ کے علاوہ اس کے چھ اور اراکین مقرر کئے گئے۔اس کے فرائض میں افتاء کے معاملے میں مفتیِ سلسلہ کو مشورہ دینا،فقہ اسلامیہ بالخصوص اختلافی مسائل کے بارے میں اپنے مطالعے کو وسیع کرنا اور علم الخلاف کا مطالعہ کرنا شامل تھے۔دفتر افتاء کے لئے ضروری تھا کہ وہ ہر اہم مسئلے پر کم از کم تین ممبران سے مشورہ لے لیکن مفتیِ سلسلہ کے لئے یہ مشورہ قبول کرنا ضروری نہیں تھا۔البتہ اگر تمام ممبران متفق الرائے ہوں اور مفتیِ سلسلہ کو پھر بھی اس رائے سے اختلاف ہو تو اس معاملے کو آخری فیصلے کے لئے حضرت خلفۃ المسیح کی خدمت میں پیش کرنا ضروری تھا۔(۱۴)۱۹۵۲ء کے آغاز میں مجلسِ افتاء میں مزید توسیع کی گئی ۔اب تک سلسلے کے علماء اس کے ممبر ہوتے تھے۔اس توسیع کے بعد سے دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اہلِ علم بھی اس کے رکن بننے شروع ہوئے۔۱۹۵۲ء میں دو وکلاء کو اس کا ممبر بنایا گیا۔(۱۵)اب ہر سال اس کے اراکین کا اعلان حضرت خلیفۃ المسیح کی طرف سے ہوتا ہے۔جو امور قرآن و سنت و حدیث سے ثابت ہوں یا جن کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کا فیصلہ موجود ہو ان کے متعلق استفتاء پر مفتیِ سلسلہ فتویٰ دیتا ہے۔جس امر میں اجتہاد کی ضرورت ہو ایسے امور کے متعلق مجلسِ افتاء اجتماعی غور کے بعدفتویٰ تیار کرتی ہے۔مجلسِ افتاء جو فتویٰ تیار کرتی ہے اس کا اجراء حضرت خلیفۃ المسیح کی توثیق کے بعد ہوتا ہے۔نیز مجلس افتاء ان امور پر تحقیق کرتی ہے جن کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح کی طرف سے تحقیق کرنے کا ارشاد ہو(۱۶)۔اس کے ممبران میں علماء کے علاوہ دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے احباب بھی شامل ہوتے ہیں۔
(۱) مسند امام احمد بن حنبل،مسند معاذ بن جبل ؓ جلد ۵ص۲۳۰
(۲)البقرۃ ۱۸۶
(۳)صحیح بخاری کتاب العلم
(۴) صحیح بخاری کتاب العلم
(۵)جامع ترمذی،ابواب الفتن،باب ما جاء فی نزول عیسیٰ ابن مریم
(۶)ملفوظات جلد ۲ ص۴۴۵
(۷)روحانی خزائن جلد ۱۹ص۱۳
(۸)روحانی خزائن جلد ۱۹ ص۲۱۲
(۹)فقہ احمدیہ مصنفہ حافظ روشن علی صاحب ؓ ص۱
(۱۰)الفضل ۴ جنوری ۱۹۱۹ء ص۱
(۱۱)الفضل یکم اپریل۱۹۱۹ء ص۷
(۱۲) تاریخِ احمدیت جلد ششم ص
(۱۳) تاریخ احمدیت جلد نہم ص۴۵۴۔۴۵۵
(۱۴)الفضل ۷ نومبر ۱۹۴۸ء ص۲
(۱۵)الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۵۲ء
(۱۶)قواعد و ضوابط صدر انجمن احمدیہ پاکستان ص ۵۱،۵۲

تفسیر کبیر کی اشاعت
قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم الشان نعمت ہے جو مسلمانوں کو دی گئی اور دوسرے کسی مذہب کی مقدس کتاب اس کے معارف کے قریب بھی نہیں پہنچتی۔قرآن ہی وہ ہتھیار ہے جس سے ہر مخالفانہ حملے کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے،’’‘‘(۱)یعنی ،’’پس کافروں کی پیروی نہ کر اور اس(قرآن) کے ذریعہ ان سے ایک بڑا جہاد کر‘(۱)۔جب فتنوں کے اندھیرے چاروں طرف پھیل رہے ہوں تو قرآن، کریم کے نور سے ہی راہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبیِ اکرم ﷺنے برپا ہونے والے فتنے کا ذکر کیا ۔حضرت علیؓ نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ ﷺ اس سے نکلنے کاراستہ کیا ہوگا۔آپﷺ نے فرمایا’ کتاب اللہ‘۔اور پھر قرآنِ کریم کے فضائل بیان کر کے فرمایا کہ اس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوتے۔(۲)لیکن افسوس مسلمانوں نے اس عظیم الشان نعمت کی قدر نہیں کی۔خیرالقرون کے بعد اکثر عوام الناس کا کتاب اللہ سے بس اتنا تعلق تھا کہ خوبصورت غلاف میں لپیٹ کر کسی طاق پر سجا دیا یا بہت ہؤا تو چوم کر ماتھے سے لگا لیا۔بہت سے مفسرین نے قرآنِ کریم کی قابلِ قدر خدمات کیں لیکن ابتدائی صدیوں کے بعد قرآنِ کریم کی جو تفاسیر لکھی گئیں ان میں بعض میںایسی غلط اور خلافِ عقل روایات بھی شامل کر دی گئیں جو آنحضرت ﷺ اور دیگر انبیاء کی شان کے خلاف تھیں۔ بائبل کے بیانات اور یہودیوں کی غیرمصدقہ اور ضعیف روایات کو اپنی تفاسیر میں نمایاں جگہ دی،جن کی وجہ سے کئی تفاسیر قصے اور کہانیوں کا رنگ اختیار کر گئیں۔اس کے علاوہ نا سمجھی کی وجہ سے بعض آیات کو منسوخ قرار دے دیا گیا۔قرآنی علوم کی طرف بے توجہی اور ان عوامل کی وجہ سے مسلمانوں کی اکثریت وقت کے ساتھ قرآنی علوم کی روشنی سے محروم ہوتی چلی گئی۔
جب دنیا میں یوروپی اقوام بالخصوص انگلستان کا غلبہ شروع ہؤا تو ان کے سیاسی اور عسکری تسلط کے ساتھ عیسائی پادری عیسائیت کی تبلیغ کے لیئے پوری دنیا میں پھیل گئے۔چونکہ اسلام کی تعلیم عالمگیر ہے اس لئے یہ پادری اسلام کو اپنی راہ میں سب سے بڑی روک سمجھتے تھے۔اس وجہ سے ان کے شدید ترین حملوں کا رخ آنحضرت ﷺ کی ذاتِ اقدس اور قرآنِ کریم کی طرف تھا۔ تمام طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے قرآنِ کریم پر ہر قسم کے حملے کئے گئے۔اس ضمن میں پہلا المیہ تویہ تھا کہ عوام تو عوام عیسائی دنیا کے اہلِ علم حضرات اعتراضات کا انبار تو لگا دیتے لیکن قرآنِ مجید کے متعلق بنیادی علم سے بھی بے خبر ہوتے تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ تھی کہ قرآنِ کریم کے بارے میں ان کے علم کا ماخذ خود عیسائیوں کے کیے ہوئے تراجم تھے۔اگر انگریزی زبان کے حوالے سے دیکھا جائے تو قرآنِ کریم کا پہلا انگریزی ترجمہ الینگزینڈر راس (Alexander Ross) نے ۱۶۴۹ء میں کیا تھا۔موصوف عربی زبان جانتے ہی نہیں تھے۔انہوں نے قرآنِ کریم کا ایک فرانسیسی ترجمہ لے کر اس سے اپنا انگریزی ترجمہ تیار کیا تھا۔اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کو فرانسیسی زبان پر بھی مطلوبہ عبور حاصل نہیں تھا۔نتیجہ یہ نکلا کہ ترجمہ نہایت غیر معیاری تھا۔اس ترجمے کے دیباچے میں راس کوئی علمی بحث تو نہیں اٹھا سکے البتہ قرآنِ کریم کے متعلق اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا۔ (۳) ۱۷۳۴ء میں جارج سیل(George Sale) کا ترجمہ شائع ہؤا۔اس ترجمے کے ساتھ Preliminiary Discourseکے نام سے ایک طویل دیباچہ بھی شامل تھا۔اس کا سرسری مطالعہ ہی اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ مترجم مخالفانہ ذہنیت کے ساتھ لکھ رہا ہے۔سیل صاحب نے دعویٰ تو یہ پیش کیا کہ انہوں نے براہَ راست عربی سے انگریزی میں یہ ترجمہ کیا ہے اور اس ضمن میں انہوں نے بہت سی عربی کتب کے حوالے بھی دیئے جن سے انہوں نے استفادہ کیا تھا مگر بعد میں انگریز محققین نے ہی یہ ثابت کیا کہ سوائے بیضاوی کے انہوں نے بقیہ عربی کتب دیکھی ہی نہیں تھیں ۔دراصل انہوں نے قرآنِ کریم کے ایک لا طینی ترجمے سے انگریزی میں ترجمہ کیا تھا اور اسی مترجم کے مختصر نوٹس سے استفادہ کر کے اپنے نوٹس تیار کیئے تھے(۴)۔اگر بجائے عربی سے براہِ راست ترجمہ کرنے کے ، کوئی ترجمہ لاطینی جیسی مردہ زبان کے ترجمے سے کیا جائے گا تو وہ بہر حال درست نہیں ہو سکتا۔لیکن اس سرقہ کے باوجود سیل کے ترجمے کو مغربی دنیا میںبہت وقعت دی جاتی ہے اور اس پر بنیاد رکھ کر اپنی تحقیق کو اٹھایا جاتا ہے۔اسی ترجمے پر ریورنڈ وہیری (Reverend Wherry) نے ۱۸۸۱ء میں اپنی تفسیر لکھی۔وہ پنجاب میں پریسبیٹیرین (presbyterian) پادری تھے ،اپنے دیباچے میں وہ واضح کر دیتے ہیں کہ اس تفسیر کے لکھنے کا مقصد ان عیسائی مشنریوں کی علمی مدد کرنا ہے جو ان کی طرح مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ان کی تفسیر کی بنیاد غلط ترجمے پر تو تھی ہی ،اس کے علاوہ انہوں نے مسلمانوں کی جن تفاسیر سے استفادہ کرنے کا حوالہ دیا ہے وہ بھی اکثر غیر معروف اور دوسرے درجے کی تفاسیر ہیں۔اپنی تفسیر میں انہوں نے تقریباََ ہر صفحے پر قرآنِ کریم پر اعتراضات کیئے ہیں ۔
الغرض اس دور میں ہر طرف سے قرآنِ مجید پر اعتراضات کا طوفان اٹھایا جا رہا تھا۔ قرآن کریم کے منجاب اللہ ہونے پر تمسخر کیا جاتا۔قرآنِ کریم کی اخلاقی تعلیم پر اعتراضات کیئے جاتے۔ قرآنِ کریم کے بیان کردہ تاریخی واقعات کو بائیبل کا سرقہ قرار دیا جاتا۔واعظوں کے ذریعے ،کتب کے ذریعے،رسائل کے ذریعے ،غرض ہر ممکنہ راستے سے قرآن شریف پر حملے کیئے جارہے تھے۔ عوام الناس کی طرف سے ہی نہیں بلکہ سکالرز کی طرف سے بھی جو اعتراضات اٹھائے جا رہے تھے ان کی بنیاد علم پر نہیں کم علمی پر تھی۔لیکن اس وقت عیسائی اقوام کی دنیا پر حکومت تھی اور پادری حضرات اس دبدبے سے بھر پور فائیدہ اٹھا رہے تھے۔ان حملہ آوروں کو ہر قسم کے وسائل حاصل تھے اور مسلمانوں کی طرف سے کوئی خاطر خواہ دفاع نہیں کیا جا رہا تھا اوران کی اپنی تفاسیر میں ایسی باتیں داخل ہو چکی تھیں جن کی وجہ سے مخالفین کو طرح طرح کے اعتراضات کا موقع مل رہا تھا۔عیسائیوںکے علاوہ ا ٓریوں نے بھی قرآن شریف کے متعلق دریدہ دہنی شروع کر دی اور بد زبانی میں سب کو پیچھے چھوڑ گئے۔یہ خوفناک صورتِ حال دیکھ کر مسلمانوں کے دل بیٹھے جا رہے تھے لیکن قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے،’’ ‘‘(۵)یعنی یقیناََ ہم نے ہی یہ ذکر اتارا ہے اور یقیناََ ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔یہ وعدہ صرف ظاہری الفاظ کی حفاظت تک محدود نہیں بلکہ معنوی حفاظت کی خوش خبری بھی دیتا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہؤا اور ۱۸۸۰ء میں حضرت مسیح موعود ؑ نے براہینِ احمدیہ کی پہلی جلد کو شائع فرمایا اور تمام مذاہب کو چیلنج دیا کہ اس کتاب میں حقیقتِ َ فرقانِ مجید کے بارے میں قرآنِ مجیدسے ہی جو دلائل دیئے گئے ہیں اگر کوئی صاحب اپنی الہامی کتاب میں سے ان کا پانچواں حصہ بھی نکال کر دکھا دیں تو ان کو ایک کثیر رقم بطور انعام دی جائے گی،اور اگر اس کی توفیق نہیں تو کم از کم ان دلائل کو ہی توڑ کر دکھا دیں۔یہ اعلان سن کر مخالفین کی زبانیں گنگ ہو گئیں اور قلم خشک ہو گئے۔وہ جو اسی دور میں قرآنِ مجید کی مخالفت میں ضخیم کتابیں تحریر کر رہے تھے ان میں سے کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ اپنی مقدس کتاب کی کچھ خوبیاں بیان کرتا یا کم از کم حضرت مسیح موعود کے دلائل کا رد کر کے دکھاتا۔ اللہ تعالیٰ کا مامور قریباََ تیس برس قرآنِ کریم کی فضیلت کے دلائل پیش کر کے چیلنج دیتا رہا لیکن کوئی مردِ میدان بن کر سامنے نہیں آیا۔قرآنی معارف کے ساتھ اس جہاد کا سلسلہ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہو جانا تھا۔جب حضرت مسیح موعودؑ کو ایک عظیم بیٹے کی بشارت دی گئی ،تو اس موعود بیٹے کی آمد کا ایک عظیم مقصد یہ بیان کیا گیا کہ،’’ تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوںپر ظاہر ہوتا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ جائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتہہ بھاگ جائے۔‘‘یہ وا ضح خوش خبری تھی کہ پسرِ موعود کے ذریعے سے دنیا پر قرآنِ کریم کی عظمت ظاہر ہو گی۔
حضرت خلیفۃالمسیح ثانیؓ کو زمانہ طالب علمی میں ہی رؤیا کے ذریعے یہ خوش خبری دے دی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ سے خدمت َ قرآن کاعظیم الشان کام لے گا۔آپ نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک فرشتے نے آپ سے کہاکہ آگے آؤ،جب آپ اس فرشتے کے پاس گئے تو اس نے کہا کہ کیا میں تمہیں سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھاؤں۔اسپر آپ نے فرمایا کہ سکھاؤ۔چنانچہ اس نے تفسیر سکھانی شروع کی۔سکھاتے سکھاتے جب تک پہنچا تو کہنے لگا کہ تمام مصنفین میں سے کسی نے اس سے آگے کی تفسیر نہیں لکھی۔سارے کے سارے یہاں آ کر رہ گئے لیکن میں تمہیں اگلی تفسیر بھی سکھاتا ہوں چنانچہ اس نے ساری سکھائی۔(۶)
یوں تو حضور آغازِ خلافت سے ہی درسِ قرآن دے رہے تھے ،مگر۱۹۲۸ء میں آپ نے دو ماہ کے لئے قرآنِ کریم کے ایک خاص درس کا اہتمام فرمایا۔اس تاریخی درس میں شمولیت کے لیے بہت سے احباب رخصت لے کر قادیان میں جمع ہو گئے ۔یہ درس روزانہ چار پانچ گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ جاری رہتا تھا اور سورۃ یونس سے لے کر سورۃ کہف تک پانچ پاروں پر مشتمل تھا۔ایک ٹیم نے اس درس کے نوٹس قلمبند کیئے۔ان میں سے دو سورتوں کے نوٹس طبع ہوئے مگر پھر یہ کام ایک عرصہ تک ملتوی رہا۔۱۹۴۰ء کے آغاز میں حضور نے سورۃ یونس تا سورۃ کہف کی تفسیر تحریر کرنے کا کام دوبارہ شروع فرمایا۔آغاز میں مولوی محمد اسماعیل صاحب حلال پوری اس عظیم کام میں حضور کی معاونت کرتے رہے ،ان کی وفات کے بعد یہ سعادت مولوی ابو المنیرنورالحق صاحب کو اور ان کے ساتھ کچھ اور اصحاب کو حاصل ہوئی۔حضور نے ۱۹۴۰ء کے جلسے سے قبل تفسیر کی پہلی جلد کی طباعت مکمل کرنے کا ارادہ فرمایا۔وقت بہت کم تھا اور کام کا بہت سا حصہ ابھی باقی تھا۔دن کا بہت سا حصہ تو دیگر اہم جماعتی مصروفیات میں صرف ہو تا ۔اکثر اوقات حضور عشاء کے بعد تفسیر کا کام کرنا شروع فرماتے تو ۲یا ۳ بجے تک کام کرنا پڑتا۔بعد میں جب کام کا دباؤ بڑھا تو بسا اوقات ایسا ہؤا کہ عشاء کے بعد تفسیر لکھنے بیٹھے تو کام کرتے کرتے فجر کا وقت ہو گیا۔حضور ؓ کے ساتھ کام کرنے والے دیگر اصحاب بھی رات کے دو تین بجے تک کام کرتے رہتے اور بسا اوقات آدھی رات کے بعدبھی حضور کی خدمت میں راہنمائی کے لیئے حاضر ہوتے۔آخری دو ماہ میں تو با رہا ایسا ہؤا کہ ساری رات میں آرام کے واسطے صرف کچھ لمحوں کے لئے کرسی پر اونگھنے کی فرصت ہی میسر ہوتی۔کثرتِ کار کی وجہ سے حضورؓ کی طبیعت زیادہ علیل رہنے لگی لیکن خدمتِ قرآن کا یہ جہادِ کبیر ایک عزمِ صمیم کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔ ۱۳ دسمبر کو حضورؓ نے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ ابھی تفسیر کا کافی کام پڑا ہے اور جلسے میں تھوڑے دن باقی رہ گئے ہیں،اس کے بعد حضور نے ان الفاظ میں دعا کی تحریک فرمائی
’’پس بہت دعاؤں کی ضرورت ہے اس کام کی وجہ سے دو ماہ سے انتہائی بوجھ مجھ پر اور ایک ماہ سے میرے ساتھ دوسرے کام کرنے والوں پر پڑا ہؤا ہے۔یہ بوجھ عام انسانی طاقت سے بڑھا ہؤا ہے اور زیادہ دیر تک برداشت کرنا مشکل ہے۔جب تک خدا تعالیٰ کا فضل اور نصرت نہ ہو…
میں اس سے زیادہ اس وقت کچھ نہیں کہہ سکتا ۔کیونکہ اس وقت میری یہ حالت ہے کہ مجھے متلی ہو رہی ہے۔منہ کڑوا ہے ۔سردی لگ رہی ہے۔اور اتنا بولنا بھی دوبھر ہے۔پھر میں ان دونوں باتوں کے لئے دعا کی تحریک کرتا ہوںیعنی خدا تعالیٰ جلسہ سالانہ تک مجھے تفسیر القرآن کے کام کو خیرو خوبی اور صحت کے ساتھ ختم کرنے کی توفیق دے۔اور جو میرے ساتھ کام کر رہے ہیں،انہیں اپنے فضل اور رحم سے اپنے پاس سے اجر عطا فرمائے۔‘‘(۷)
اس سے اگلے خطبے میں آپ نے جماعت کو خوش خبری سنائی کہ جلد ہی تفسیر کی پہلی جلد لوگوں تک پہنچ جائے گی اورتفسیر قرآن اور قرآنی معارف کے متعلق ایک پر معرفت خطبہ ارشاد فرمایا۔ ایک عارف باللہ اللہ تعالی کی سب سے زیادہ خشیت رکھتا ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،(۸)یعنی یقینا اللہ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔حضورؓ نے اس خطبے کا آغاز اسی مضمون سے کرتے ہوئے فرمایا
’’ تفسیر کا کام بہت بڑی ذمہ واری ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اگر اس میں دیر ہوئی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ فطرتاََ میں اس سے بہت گھبراتا ہوں۔اور مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی ٹڈا ہمالیہ پہاڑ کو اٹھانے کی کوشش کرے۔اور میں نے مجبوراََ اور جماعت کے اندر اس کی شدید خواہش کو دیکھتے ہوئے اس میں ہاتھ ڈالنے کی جرأ ت کی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ اس کے لئے مجبور ہؤا ہوں ورنہ قرآن کریم کی تفسیر ایسا کام نہیں جسے مومن دلیری سے اختیار کر سکے۔‘‘(۹)
بد قسمتی سے مسلمانوں نے قرآن مجید پر تدبر کو ترک کر دیا ورنہ قرآن مبین ہر شخص کو دعوتِ فکر دیتا ہے اور ہر شخص اپنی استعدادکے مطابق اس سے معارف حاصل کر سکتا ہے۔تمام جماعت کو کتاب اللہ پر تدبر کی نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا
’’ہر انسان خود قرآن کو پڑھے سوچے سمجھے تو صحیح علم حاصل کر سکتا ہے باقی تفاسیر تو ایسی ہی ہیں جیسی کسی جگہ پر پہنچنے کے لئے سواری پر چڑھ جاتا ہے ۔۔۔۔فائدہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ مومن ان ذرائع کو تقریب سے زیادہ اہمیت نہ دے بلکہ خود آگے بڑھے اور سوچے سمجھے۔‘‘
حضرت مسیح موعود کی آمد سے قبل مسلمانوں سے ایک بڑی غلطی یہ ہوئی تھی کہ انہوں نے یہ گمان کر لیا کہ قرآنِ کریم میں جتنے معارف تھے وہ اس وقت تک کی لکھی ہوئی تفاسیر میں بیان ہو چکے ہیں اور اب مزید غور اور تحقیق کی ضرورت نہیں۔اس طرح انہوں نے اپنے آپ پراللہ تعالیٰ کی اس جاری نعمت کے دروازے خود ہی بند کر دیئے۔حضرت مصلح موعودؓ نے سختی سے اس رجحان کو رد کرتے ہوئے فرمایا
’’مجھے اس خیال سے شدید ترین نفرت ہے کہ تفاسیر میں سب کچھ بیان ہو چکا ہے۔ ایسے خیال رکھنے والوں کو میں اسلام کا بد ترین دشمن خیال کرتا ہوں۔اور احمق سمجھتا ہوں۔گو وہ کتنے بڑے بڑے جبے اور پگڑیوں والے کیوں نہ ہوں ۔اور جب میرا دوسری تفسیروں کے متعلق یہ خیال ہے تو میں اپنی تفسیر کے متعلق یہ کیونکر کہہ سکتا ہوں ۔۔۔۔
قرآن کریم کے نئے نئے معارف ہمیشہ کھلتے رہیں گے۔آج سے سو سال کے بعد جو لوگ آئیں گے وہ ایسے معارف بیان کر سکتے ہیں جو آج ہمارے ذہن میں بھی نہیں آسکتے۔‘‘
اس خطبے کے چند روز بعد تفسیرِ کبیر کی شائع ہونے والی پہلی جلد لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ گئی۔یہ جلد سورۃ یونس سے لے کر سورۃ کہف تک کی تفسیر پر مشتمل تھی۔اس کے بعد وقفوں سے ایک کے بعد دوسری جلد منظرِ عام پر آتی رہی۔گو پورے قرآنِ مجید کی تفسیر مکمل نہیں ہو سکی مگر تیار ہونے والی یہ دس جلدیں پڑھنے والوں کے لئے ایک عظیم خزانہ ہیں۔تفاسیر کی دنیا میں اس کا ایک منفرد مقام ہے کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ کی خاص تائید کے تحت تحریر کیا گیا تھا۔
حضورؓ کی تفسیر کا یہ بنیادی اصول تھاکہ قرآن ِ کریم کا ایک حصہ دوسرے حصوں کی تشریح کرتا ہے۔جب ایک آیت کو سمجھنا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس مضمون کی دوسری آیات پر غور کیا جائے۔اس طریق پر صحیح مطلب واضح ہو کر سامنے آجاتا ہے۔اس کے بعد ارشادات نبوی ﷺپر غور و فکرآیات کے مطالب کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے۔پھر حکم و عدل حضرت مسیح موعود ؑکے ارشادات کی روشنی میں آیات کو دیکھنے سے قرآنی معارف کا ایک خزانہ حاصل ہوتا ہے۔
بہت سی تفاسیر میں بائیبل اور ضعیف روایا ت کے زیرِ اثر انبیاء کے متعلق ایسی باتیں داخل ہو گئی تھیں جو ان مقدس وجودوں کے بلند مقام کے منافی تھیں۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے تاریخی تجزیے اور عقلی دلائل سے ان کو غلط ثابت فرمایا۔سائنس کی ترقی کے ساتھ ایسے بہت سے شواہد سامنے آئے ہیں جن سے قرآنی آیات کی صداقت روزِ روشن کی طرح ثابت ہوتی ہے۔حضور نے تفسیرِ کبیر میں ان معارف کو بیان فرمایا۔ان کا مطالعہ سائنسی ذوق رکھنے والوں کو صداقتِ قرآن پر ایک تازہ ایمان بخشتا ہے۔اسی طرح جب وقت کے ساتھ آثارِ قدیمہ کے علم نے ترقی کی تو ان بستیوں کے آثار بھی دریافت ہونے لگے جن کا ذکر قرآنِ مجید میں موجود ہے۔حضور نے اس علم کی روشنی میں متعلقہ آیات کی تفسیر فرمائی۔دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ قصص کہانیوں کے طور پر نہیں تھے بلکہ عالم الغیب خدا کی طرف سے اترے ہوئے معارف تھے،جن کی صداقت وقت کے ساتھ ثابت ہوتی گئی۔مستشرقین نے قرآنِ حکیم پر بائیبل کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے اور قرآن میں بیان کردہ واقعات کو بائیبل کی خوشہ چینی قرار دیا ہے۔آپ نے تفسیر کبیر میں عقلی دلائل اور تاریخی شواہد سے ان اعتراضات کا بطلان ظاہر کیا۔بہت سے مفسرین نے ہر پیشگوئی کو روزِ قیامت پر چسپاں کر دیا تھا۔جبکہ نئے دور میں ایک کے بعد دوسری قرآنی پیشگوئی پوری ہوتی جا رہی تھی۔حضور نے حضرت مسیح موعود کے علمِ کلام کی روشنی میں قرآنِ کریم کے اس زندہ معجزے کو دنیا کے سامنے پیش فرمایا۔اکثر مستشرقین نے قرآنی آیات سے غلط استدلال کر کے سیرت النبی ﷺ پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔آپ نے دلائل کے ساتھ ان اعتراضات کو غلط ثابت فرمایا۔اس دور میں ترتیبِ قرآن پر بہت شدومد سے اعتراضات کئے گئے ہیں۔مغربی مصنفین نے یہ اعتراض بار بار اٹھایا ہے کہ قرآنِ کریم میں ایک موضوع چل رہا ہوتا ہے،پھر یکلخت بالکل مختلف موضوع پر آیات شروع ہو جاتی ہیں اور اس کے بعد کسی اور مضمون کا آغاز ہو جاتا ہے۔مثلاََ مشہور مصنف کارلائل نے اپنی کتاب میںبہت سے پہلؤں سے آّنحضرتﷺ کی عظمت کا اعتراف تو کیا ہے بلکہ انبیاء میں سے صرف آنحضرت ﷺ کو ہیرو کے طور پر پیش کیا ہے مگر ترتیبِ قرآن کے موضوع پر پہنچ کر انہوں نے بھی دوسرے مستشرقین کی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔اور نعوذ باللہ قرآنِ کریم کو confused fermentقراردیاہے۔(۱۰)روڈویل(Rodwell)نے جب اپنا ترجمہ قرآن شائع کیا تو یہ مسئلہ اٹھایا کہ قرآن کریم کی موجودہ ترتیب ناقابلِ فہم ہے اس لئے اس نے ترتیبِ نزول کے اعتبار سے قرآنِ کریم کو شائع کیا۔مسلمان یہ اعتقاد تو رکھتے تھے کہ قرآنِ مجید کی موجودہ ترتیب وحیِ الہی کے ماتحت رکھی گئی تھی مگر وہ اعتراضات کے اس طوفان کا مقابلہ نہیں کر پا رہے تھے۔حضور نے دلائل سے ثابت فرمایا کہ تمام آیات اور سورتوں کی ترتیب میں گہری حکمت اور ربط ہے۔اور ترتیبِ قرآن کے متعلق یہ دلائل تفصیل سے تحریر فرمائے۔اگر مستشرقین یہ حکمت دیکھ نہیں پا رہے تھے تو اس کی وجہ صرف قلتِ تدبر تھی۔
تفسیرِ کبیر سے صرف ایک نئی تفسیر کا اضافہ نہیں ہؤا بلکہ تفسیر اور موازنہ مذہب کے علم کو ایک نیا اندازِ فکر ملا اور تحقیق کے نئے میدان دنیا کے سامنے آئے۔قرآنی حسن کے بہت سے پہلو جو دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے سورج کی طرح روشن نظر آنے لگے۔حضورؓ کی یہ عظیم الشان خدمات زبانِ حال سے اس بات کا اعلان کر رہی ہیں ،کہ آپ کے با برکت وجود سے کلام اللہ کا مرتبہ دنیا پر ظاہر ہؤا اور خدا کے پاک مسیح کی پیش گوئی پوری شان سے پوری ہوئی۔

(۱)الفرقان ۵۳
(۲)جامع ترمذی باب ما جاء فی فضل القرآن
(۳)Muhammad and the religion of Islam by john Gilchrist page 215 -224
(۴)Introduction to George Sales translation of The Koran bySir Edward Denison Ross page viii -ix,published byLondon Frederick Warne co.ltd
(۵) الحجر ۱۰
(۶) الفضل یکم فروری ۱۹۳۷ء ص۵،۶
(۷)الفضل ۱۷ دسمبر ۱۹۴۰ء ص۲
(۸)فاطر ۲۹
(۹) الفضل ۲۷ دسمبر ۱۹۴۰ء ص۱
(۱۰)Sartor resartus on Heroes and Hero Worship by Thomas Carlyle page 298-300

دعویٰ مصلح موعود
اب ہم احمدیت کی تاریخ کے اس موڑ پر پہنچ چکے ہیں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی پوری ہو کر تمام دنیا کے لئے نشان بنی اور اس کے ساتھ ہی سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی مظٖٖٖٖٖٖفر و منصور خلافت کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے ۔اس نشان کی عظمت کو سمجھنے کے لئے ہم پہلے اس کے پس منظر کا جائزہ لیں گے۔اور اس دور سے گذریں کے جب خدا کا پیارا مسیح ؑ تنِ تنہا پوری دنیا تک خدا کا پیغام پہنچا رہا تھا۔
اسلام کی صداقت کو ظاہر کرنے اور دنیا کو زندہ خدا کا چہرا دکھانے کے لئے حضرت مسیح موعود ؑ نے پوری دنیا کو دعوت دی کے اگر کوئی طالب صادق بن کر ،ایک سال کے لئے قادیان میں آ کر رہے تو وہ ضرور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خارق عادت نشان دیکھ لے گا۔اس کے جواب میں ۱۸۸۵ء میں قادیان کے دس ہندو ساہوکاروں نے آپؑ کی خدمت میں لکھا کہ ،ہمسایہ ہونے کے ناطے ان کا اولین حق ہے کہ ان کو نشان دکھایا جائے۔اور ایک سال کے عرے کے اندر ان کو کسی ایسی پیشگوئی کا گواہ بنایا جائے جو بعد میں خارق عادت طریق پر پورا ہو کر ان کے لئے نشان بن جائے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اس بات کو خوشی سے قبول کر لیا۔اس وقت تک پنڈت لیکھرام کی کوششوں سے قادیان میں آریہ سماج قائم ہو چکی تھی(۱)۔اس خط و کتابت کو قادیان کے ایک آریہ لالہ شرمپت نے خود شائع کروایا اور لکھا کہ وہ خود بھی اس کے گواہ بنیں گے اور اگر کوئی نشان ظاہر ہؤا تو اس کو شائع کریں گے تا کہ حق کے طالب اس سے فائیدہ اٹھائیں اور روز کے جھگڑوں کا فیصلہ ہو۔چنانچہ اس کے معاََ بعد ہی ان کو حضرت مسیح موعودؑ کواللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی کہ اکتیس ماہ کے اندر اندرحضرت مسیح موعود ؑ کے چچا زاد بھائیوں یعنی مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین پر ایک سخت مصیبت پڑے گی اور ان کے اہل و عیال و اولاد میں سے کسی مرد یا عورت کا انتقال ہو جائے گا۔اس پیشگوئی پر نشان نمائی کی دعوت قبول کرنے والوں کے دستخط کرا لئے گئے ۔(۱۲)
اس نشان نمائی کی دعوت کو قبول کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔خدا کے شیر کو للکارا گیا تھا ۔ اب اللہ تعالیٰ کی حکمت ایک ایسے عظیم الشان نشان ظاہر کرنا چاہتی تھی جو تمام دنیا کے لئے رحمت کا نشان ہو ۔ چنانچہ ۱۸۸۶ء کے شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہوشیار پور تشریف لے گئے اور آپ نے خلوت میںچالیس روز عبادت اور ذکرِ الہیٰ کرتے ہوئے گذارے۔ان ایام میں آپ پر بہت سے انکشافات ہوئے۔اور ان انکشافات کے علاوہ آپ کو ایک عظیم الشان بیٹے کی خوشخبری بھی دی گئی۔اس پیشگوئی کے الفاظ یہ تھے
’’ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق ۔ جو تو نے مجھ سے مانگا۔۔۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔اے مظفّر تجھ پر سلام خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیںکہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوںکرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا اُنھیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا کے دین اور اسکی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ ؐکو انکار اور تکذیب کی راہ سے دیکھتے ہیںایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے۔ سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائیگا۔ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہو گا۔خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اسکا نام عنموائیل اور بشیر بہی ہے۔ اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے ۔وہ نوراللہ ہے مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے اسکے ساتھ فضل ہے جو اسکے آنے کے ساتھ آئیگا وہ صاحبِ شکوہ و عظمت و دولت ہو گا وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت اور غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے ۔وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ِ ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا(اس کے معنے سمجھ میںنہیں آئے)۔ دوشنبہ ہے مبارک دو شنبہ فرزند دلبند گرامی ارجمند مظہرالاوّل والآخر مظہر الحق والعلاء کان اللّٰہ نزل من السمائ۔جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہیٰ کے ظہور کا موجب ہو گا۔نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا۔وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا اور زمین کے کنارون تک شہرت پائیگا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا وکان امرََا مقضیََّا‘‘۔ (۲)
اس کے بعد آپ نے ۸ اپریل۱۸۸۶؁ ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا جس میںپسرِ موعود کی پیدائش کے وقت کا تعین فرماتے ہوئے اعلان فرمایا کہ یہ وہ نو برس کے اندر پیدا ہوگا۔(۳)۔اس کے بعد حضرت مسیح مووعود علیہالسلام کے گھر میں ایک لڑکے کی ولادت ہوئی جن کا نام بشیر احمد رکھا گیا۔یہ بچہ کم سنی میں فوت ہو گیا ۔جب بشیر اول کی وفات ہوئی تو مخالفین کی طرف سے استہزاء کا ایک طوفان اٹھایا گیا،جس کے جواب میں حضور نے سبز اشتہار میں تحریر فرمایا کہ
’’دوسرا لڑکا جس کی نسبت الہام نے بیان کیا کہ دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود ہے وہ اگرچہ اب تک جو یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ہے پیدا نہیں ہوا مگر خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی معیاد کے اندر ضرور پیدا ہو گا۔ زمین آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں۔‘‘(۴)
۲۰ فروری ۱۸۸۶ئکے اشتہار میں ہی آریوں کے لیڈر اندرمن مراد آبادی اور لیکھرام کو اس بات کی دعوت دی گئی تھی کہ اگر وہ خواہش مند ہوں تو ان کی قضا و قدر کی نسبت بعض پیشگوئیاں شائع کی جائیں ۔اندرمن نے تو اعراض کیا لیکن لیکھرام نے بہت بے باکی سے سے لکھا کہ میری نسبت جو پیشگوئی چاہو شائع کرو۔چنانچہ جب اس کی نسبت حضرت مسیح موعود ؑ نے توجہ کی تو الہام ہؤا
عجل جسد لہ خوار لہ نصب و عذاب(۵)
یعنی یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے اور اس کے لیے ان گستاخیوں اور بد زبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے جو اس کو ضرور مل کر رہے گا۔
پسرِ موعود کی پیشگوئی پر سب سے زیادہ ردِ عمل آریوں کی طرف سے دکھایا گیا۔نہ صرف بڑی تعلیّ سے اس بات کا اعلان کیا گیا کہ یہ پیشگوئی جھوٹی نکلے گی بلکہ اس کے مقابل پر اپنی طرف سے کچھ اور پیشگوئیاں بھی اس دعوے کے ساتھ شائع کی گئیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہیں۔چنانچہ ۱۸۸۷ء میںآریوں کے لیڈر پنڈت لیکھرام نے تکذیبِ براہینِ احمدیہ لکھی تو اس پیشگوئی پر کئی صفحات کا تبصرہ بھی تحریر کیااور مقابل پر اپنی پیشگوئیاں شائع کیں۔ان میں سے چند مثالیں درج ہیں
۱)حضرت مسیح موعود ؑ نے پسرِموعود کے متعلق پیشگوئی فرمائی تھی کہ’’زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا‘‘۔اس کے مقابل لیکھرام نے پیشگوئی کی’’اب خدا کہتا ہے کہ محض خلاف ہے ۔اس رذیل کا نام قادیان میں بھی بہت سے نہ جانیں گے۔‘‘
۲)حضور ؑ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر اعلان فرمایا کہ خدا نے خوش خبری دی ہے’’میں تیری ذریّت کو بہت بڑہاؤنگا اور برکت دونگا‘‘اور پھر یہ پیشگوئی بھی شائع فرمائی ’’تیری ذریّت منقطع نہیں ہو گی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی۔‘‘اس کے جواب میں لیکھرام نے لکھا’’آپ کی ذریت بہت جلد منقطع ہو جائیگی۔غایت درجہ تین سال تک شہرت رہے گی۔‘‘پھر یہ دعویٰ کیا کہ نعوذباللہ خدا نے حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق اسے بتایا ہے کہ’’ابھی اسکے پچھلے اعمال کا بدلہ باقی ہے تین سال میں سزا دیجاویگی‘‘۔اور یہ بھی لکھا، ’’ہمارا الہام تو تین سال کے اندر اندر آپ سب کاخاتمہ بتلاتا ہے‘‘
۳)اور یہ دعویٰ بھی شائع کیا ،’’آج کل کی کیا خصوصیت ہے بلکہ ابد تک آپ کے کوئی لڑکا پیدا نہ ہو گا‘‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی تمام بد زبانیوں اور لا یعنی بیانات کے بعد یہ دعویٰ کیا،’’مرزا صاحب !اس اشتہار میں جو کچھ احقر نے عرض کیا ہے حرف بحرف خداے تعالیٰ کے حکم سے لکھا گیا ہے‘‘۔(۶)
اس کتاب میں بار بار حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئیوں پر تمسخر کیا گیا تھا اور یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ آپ کی کوئی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔خدا کی شان کہ اس کتاب کی اشاعت پر ابھی ایک سال ہی گذرا تھا کہ مرزا نظام الدین کی بیٹی ،ایک چھوٹا بچہ چھوڑ کر انتقال کر گئی۔اس طرح حضرت مسیح موعود ؑ کی وہ پیش گوئی مقرر کردہ مدت کے اندر اندر پوری ہو گئی جس کے گواہ خود آریہ بنے تھے۔حضرت مسیح موعود ؑ نے اس پیشگوئی کے پورا ہونے کو شائع فرمادیا اور آریوں کو چیلنج دیا کہ قادیان کے آریوں سے دریافت کریں کہ انہیں قبل از وقت یہ پیشگوئی بتا کر ان کے دستخط لئے گئے تھے یا نہیں۔مگر اس کے جواب میں حق کے نام نہاد طالبوں کو سانپ سونگھ گیا اور وہ حسبِ وعدہ اپنی گواہی مشتہر کرنے سے قاصر رہے۔(۷)اس کے بعد اس گروہ کو یہ ذلت بھی دیکھنی پڑی کہ تین سال گذر گئے اور ان کی پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے سلسلے کا خاتمہ نہ ہؤا ،بلکہ خارق عادت ترقی کا دور شروع ہو گیا۔اب یہ ظاہر ہو چکا تھا کہ خدا کس کے ساتھ ہے۔
شرافت کا تقاضہ تو یہ تھا کہ یہ نشان دیکھنے کے بعد لیکھرام اور دوسرے آریہ کم از کم خاموش ہی ہو جاتے مگر ان کی بد زبانی اور زیادہ بڑھ گئی۔چنانچہ ۲۰ فروری ۱۸۹۳ئکو حضرت مسیح موعود ؑ نے اللہ تعالیٰ کے حضور لیکھرام کے لیے مقدر عذاب کا وقت معلوم کرنے کے لیے توجہ کی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے منکشف ہؤا کہ اس پر چھ سال کے اندر ایک سخت عذاب آئے گا۔حضورؑ نے اس پیشگوئی کو شائع فرما دیا (۸)۔۶ مارچ ۱۸۹۷ء کو لیکھرام خدا کے غضب کا نشانہ بن کر ایک ایسے شخص کی چھری کا شکار ہو گیا،جو شدھ ہونے کے لئے پنڈت لیکھرام کے پاس آیا تھا۔ خدا کے حضور شوخی اور بیباکی سے بھی جلد عذاب آتا ہے ۔مگر لیکھرام کا جرم صرف اتنا ہی نہ تھا۔اس نے خدا پر جھوٹ باندھا تھا اور الہام کا جھوٹا وعدہ کیا تھا۔اس کی پاداش میں قرآنی وعدے کے مطابق اسے قطعِ ورید کی سزا ملی اور اسے لمبی مہلت نہ دی گئی ۔اور اس کی پیشگوئیوں کا آج تک جو حشر ہو رہا ہے ہم اس کا ذرا ٹھہر کر جائزہ لیتے ہیں۔
خدا کے وعدے سچے تھے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق۱۲ جنوری ۱۹۸۹ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی پیدائش ہوئی اور آپ منصبِ خلافت پر فائز ہوئے اور وقت کے ساتھ پیشگوئیِ مصلح موعود میں درج تمام علامات ایک ایک کر کے آپ کی ذات میں پوری ہوتی گئیں۔آپ کی بیعت میں داخل احباب کو تو یہ نظر آ ہی رہا تھا ،خدا کی یہ فعلی شہادت اتنی واضح تھی کہ حضرت مولوی غلام حسن صاحب ؓ جیسے بہت سے احباب جو ابتداء میں غیر مبائعین میں شامل تھے اور ان کے اکابرین میں سے تھے ، اس نشان کو دیکھ کر آپ کے حلقہِ بیعت میں شامل ہو گئے۔لیکن ابھی آپ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر باقاعدہ اس پیشگوئی کا مصداق ہونے کا حتمی دعویٰ نہیں فرمایا تھا۔ اس بناء پرمکرم خواجہ کمال الدین صاحب اور دوسرے غیر مبائعین احباب اس بات کا برملا اظہار کرتے رہے کہ اگر آپ ہی مصلح موعود ہیں تو آپ حلفاََ بیان کر دیں کہ آپ کو الہاماََ بتایا گیا ہے کہ آپ ہی اس پیشگوئی کا مصداق ہیں،اس کے بعد وہ یا آپ کو قبول کر لیں گے یا محض خاموش ہو کر دعاؤں میں لگ جائیں گے۔(۹)
آغاز ۱۹۴۴ء میں حضورؓ لاہور تشریف لے گئے اور ٹمپل روڈ پر مکرم شیخ بشیراحمد صاحب کی کوٹھی پرقیام فرمایا۔پانچ اور چھ جنوری کی درمیانی شب میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک طویل رؤیا دکھایا گیا جس کے آخر میں آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے وَ اَناَ المَسِیح المَوعودُ مَثِیلُہ‘ وَ خَلِیفَتہ‘ یعنی اور میں بھی مسیح موعود ہوں یعنی اس کا مثیل اور خلیفہ ہوں ۔اس پر خواب میں ہی آپ پر رعشہ کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ یہ زبان پر کیا جاری ہؤا ہے کہ میں مسیح موعود ہوں۔اس پر خواب میں ہی آپ کے ذہن میں ڈالا گیا کہ آگے کے الفاظ اس کے مطلب کو حل کر دیتے ہیں یعنی آپ حضرت مسیح موعود کے خلیفہ اور مثیل ہیں۔حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے موعودہ بیٹے کے متعلق بتایا گیا تھا کہ وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہو گا۔ اس الہام کو پورا کرنے کے لئے آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے ہیں۔
حضور ؓ نے قادیان واپس تشریف لا کر ۲۸ جنوری کو جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں اس خواب کو بیان فرمایا ۔اس خطبہ کے آغاز میں آپ نے فرمایا کہ
’’ آج میں ایک ایسی بات کہنا چاہتا ہوں جس کا بیان کرنا میری طبیعت کے لحاظ سے مجھ پر گراں گذرتا ہے لیکن چونکہ بعض نبوتیں اور الٰہی تقدیریں اس کے بیان کرنے کے ساتھ وابستہ ہیں۔اس لئے میں اس کے بیان کرنے سے باوجود اپنی طبیعت کے انقباض کے رک نہیں سکتا ۔‘‘
اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ بات بیان کرنے سے پہلے حضورؓ نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا بھی کی اور استخارہ بھی کیا تا کہ کوئی بات اللہ تعالیٰ کی منشا کے خلاف نہ ہو۔ پھر آپ نے وہ رؤیاء بیان فرمائی اور پسرِ موعود کی پیشگوئی کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی ۔آپ نے فرمایا کہ پیشگوئی میں درج ہے کہ ’وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا ‘ چنانچہ اس کے مطابق آپؓ حضرت مسیح موعود ؑ کے چوتھے بیٹے تھے۔اور آپ کی خلافت کے دور میں حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کو قبولِ احمدیت کی توفیق ملی اور اس طرح حضرت مسیح موعود ؑ کے چار بیٹے ہو گئے جو آپ کی روحانی اولاد میں بھی شامل تھے(حضرت مرزا سلطان احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی شادی سے ، سب سے بڑے صاحبزادے تھے۔آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بیعت نہیں کی تھی ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے دورِ خلافت میں آپ با قاعدہ بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے)۔اسی طرح دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ کے الفاظ کی رو سے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے خلیفہ بنے۔اور آپ کے عہد میں ان اقوام میں تبلیغ کا آغاز ہؤا جن تک ابھی تک پیغامِ حق نہیں پہنچا تھا۔اس کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے یہ تاریخی اعلان فرمایا کہ حضرت مسیح موعود ؓ نے جو پسرِ موعود کے متعلق پیشگوئیاں فرمائی تھیں ان کی مصداق حضورؓ کی ذات ہی ہے۔ یہ جماعت کی تاریخ کا ایک اہم دن تھا اور ان کے لئے ایک بہت بڑی خوشی کا موقع تھا۔اس خطبہ کے بعد لوگوں نے مسرت سے ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیں۔(۱۰،۱۱)
۲۹ جنوری کو قادیان میں یومِ مصلح موعود منایا گیا اور بعد نمازِ ظہر مسجد اقصیٰ میںحضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیالؓ کی صدارت میں جلسہ منعقد ہؤا جس میں مقررین نے اس پیشگوئی کے مختلف پہلؤں پر روشنی ڈالی۔اس طرح وہ اعتراض جو کچھ مخالفین کی طرف سے پیش کیا جاتا تھا کہ حضور ؓ نے خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر پا کر اپنے آپ کو پسرِ موعود کی پیشگوئی کا مصداق نہیں قرار دیا، دور ہو گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کی صداقت واضح ہو کر سامنے آ گئی۔اس تاریخی اعلان کے ساتھ حضرت مصلح موعود ؓ کی با برکت خلافت کے ایک نئے دور کا آغاز ہؤا۔
اب پسرِ موعود کی اس عظیم الشان پیشگوئی کو سو سال سے بھی زائد عرصہ گذر چکا ہے اور لیکھرام کی کی گئی پیشگوئیوں پر بھی ایک صدی بیت گئی۔ہر طالبِ حق کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کس کی پیش گوئی درست نکلی اور کس کے دعوے غلط ثابت ہوئے۔ لیکھرام نے تو اپنے الہام کی بناء پر دعویٰ کیا تھا کہ اب حضرت مسیح موعود ؑ کے کوئی بیٹا پیدا نہیں ہو گا اور آپ کی ذریت جلد منقطع ہو جائے گی۔لیکن ایسا ہر گز نہیں ہؤا ۔ صرف حضرت مصلح موعود ہی نہیں بلکہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ اور حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ بھی اس پیشگوئی کے بعد پیدا ہوئے تھے۔آج حضرت مسیح موعود ؑ کی اولاد سینکڑوں کی تعداد میں دنیا کے تین برِ اعظموں میں موجود ہے۔اور پسرِ موعود کے متعلق اس نے پیشگوئی کی تھی کہ اسے قادیان میں بھی زیادہ لوگ نہیں جانتے ہوں گے۔کوئی مخالف بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ پیشگوئی صحیح نکلی۔آج دنیا کے ایک سو پچاسی ممالک میں آپ کے خدام موجود ہیں۔ پنڈت لیکھرام کے خدا نے تو کہا تھا کہ تین سال میں یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔اس وقت تو محض چند خدام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تھے اوراور بیعت لینے کا سلسلہ بھی ابھی شروع نہیں ہؤا تھا۔ مگر آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ دنیا بھر میں جماعت موجود ہے ۔ایک ایک ملک میں لاکھوں احمدی موجود ہیںاور خدا کا لگایا ہؤا یہ پودا ایک تناور درخت بن چکا ہے۔پسرِ موعود کی پیشگوئی میں حضور کا یہ الہام بھی تھا کہ خدا آپ کی دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔اس وقت تو ہندوستان سے باہر آپ کو کوئی نہیں جانتا تھا ۔کیاآج کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی؟ہندو احباب کو اس بات پر توجہ کرنی چاہئیے کہ ان کے نمائیندے نے خدا سے الہام پا نے کا دعویٰ کر کے جو پیشگوئیاں کی تھیں ان میں سے تو ایک بھی ٹھیک نہ نکلی۔لیکھرام کا خدا،آخر کیسا خدا تھا ؟ نہ تو اسے بچا سکا اور نہ ہی اپنے کسی قول کو پورا کر سکا۔انتظار کرتے کرتے سو سال سے بھی زائد عرصہ گذر گیامگر وقت کے ساتھ اس کی پیشگوئیوں کا بطلان اور زیادہ ظاہر ہوتا گیا۔ دوسری طرف حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئی پوری شان سے پوری ہوئی اور ایک عالم اس کی صداقت کا گواہ بن گیا۔ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خبر دی تھی حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ گیا اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ گیا۔
(۱) Arya Dharam by Kenneth Jones,University of California Press ,1976 page 148
(۲) روحانی خزائن جلد ۵ ص۶۴۷(۳) مجموعہ اشتہارات جلد اول بار دوم ص۹۸
(۴)مجموعہ اشتہارات جلد اول بار دوم ص۱۴۶ (۵) روحانی خزائن ج ۵ ص ۶۵۰
(۶) کلیات آریہ مسافر ص۴۹۳۔۵۰۰مطبوعہ ۱۹۰۴ء (۷)مجموعہ اشتہارات جلد اول بار دوم ص ۱۲۴ ۔۱۲۵
(۸) مجموعہ اشتہارات جلد اول بار دوم ص۳۰۴ ۔۳۰۵
(۹) اندرونی اختلافاتِ سلسلہ احمدیہ کے اسباب ناشر انجمن ا شاعتِ اسلام لاہور دسمبر ۱۹۱۴ء ص ۷۲ ۔۷۳
(۱۰) الفضل یکم فروری ۱۹۴۴ء ص ۱ تا ۸(۱۱) الفضل ۳۰ جنوری ص۱(۱۲)روحانی خزائن جلد ۱۸ ص۵۸۹
ہوشیار پور،لاہور،لدھیانہ اور دہلی میں
حضرت مصلح موعودؓ کے جلسے
پسرِ موعود کے متعلق حضرت مسیحِ موعودؑ کی پیشگوئی کا پورا ہونا اور اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا یہ اعلان فرمانا کہ یہ پیشگوئی آپ کی ذات میں پوری ہوئی ہے،جماعتِ احمدیہ کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ تھا۔چنانچہ تحدیث نعمت اور اتمامِ حجت کے لئے مختلف مقامات پر جلسوں کا فیصلہ کیا گیاتا کہ پوری دنیا کے سامنے اس پیشگوئی کے پورے ہونے کا اعلان کیا جائے۔یہ جلسے ہوشیار پور،لاہور،لدھیانہ اور دہلی میں منعقد کئے گئے۔اس سلسلے کا پہلاجلسہ ۲۰ فروری ۱۹۴۴ء کو ہوشیار پور میں منعقد ہوا۔ہوشیار پور ہی وہ مقام تھا جہاں پر حضرت مسیح موعود علیہ لسلام نے چلہ کشی فرمائی تھی اورجہاں آپ کو پسرِ موعود کے وعدے سے نوازا گیا تھا ۔یہ جلسے عام دنیاوی جلسوں کی طرز پر نہیں کئے جا رہے تھے۔ان کے مقاصد بہت اعلیٰ اور سراسر روحانی تھے۔چناچہ اس جلسہ سے چار روز قبل حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ؓ نے الفضل میں یہ اعلان شائع فرمایا
’’پس یہ موقع خشیت اور تقوے اللہ کے اظہار کا ہے… صرف وہی لوگ اس جلسے میں شامل ہوںجو دعائیں کرنیوالے استغفار کرنے والے۔حمد کرنے والے اور ذکر کرنے والے ہیں۔اور اس جگہ پر جب تک رہیں۔اس امر کا تعہد کریں۔کہ نہ بلا وجہ بات کریں۔نہ ہنسی مذاق کریں۔نہ ہنسی تمسخر سے کام لیں۔بلکہ تما م وقت سنجیدہ رہیں۔اور دعاؤں اور استغفار میں مشغول رہیں۔پس اس بات کا خیال رہے کہ لڑکے اور چھوٹی عمر کے نوجوان وہاں نہ جائیں۔نہ وہ جو اپنی طبیعتوں پر قابو نہیں رکھ سکتے۔۔۔
اگر آپ نے میری نصیحت پر عمل کیا۔تو یہ عمل آپ کامقبولِ بار گاہِ الہیٰ ہو گا۔ورنہ آپ اپنے عمل کو ضائع کرلینگے۔اور شاید بعض غضبِ الہیٰ کو بھڑکا لیں۔‘‘(۱)
ہوشیار پور کے جلسے کا انتظام ایک ایسے میدان میں کیا گیا تھا جو اس مکان کے قریب تھا جس میں حضرت مسیح موعودؑ نے چلہ کشی فرمائی تھی۔(۲)جلسے کے روز ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس میدان میں پہنچ چکے تھے۔ مجمع میں سینکڑوں کی تعداد میں غیر مسلم بھی شامل تھے۔حضورپونے دو بجے لاہور سے جلسہ گاہ میں تشریف لائے۔ظہر اور عصر کی نمازیں جلسہ گاہ میں پڑھائی گئیں۔ جلسے کا آغازتلاوتِ قرآنِ کریم سے ہؤا جس کے بعد حضرت مولاناعبدالرحیم دردؓ صاحب نے مختصر تقریر فرمائی اور ہوشیار پور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چلہ کشی کے حالات بیان کئے ۔پھر حضورؓ کا خطاب شروع ہؤا۔سورۃ فاتحہ کے بعد آپ نے قرآنی دعاؤں کی تلاوت فرمائی۔یہ دعائیں کچھ ایسے سوز سے ادا کی گئیں کہ دل اللہ تعالیٰ کی خشیت اورمحبت سے بھر گئے۔آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور ہر طرف سے آہ وبکا کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔مجمع میں موجود کئی ہندؤں کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہو گئے۔حضورؓ نے اپنے خطاب میں پیشگوئیِ مصلح موعود کی تفاصیل بیان فرمائیں ۔اور اس بات کا حلفیہ اعلان فرمایا کہ آپ ہی اس پیشگوئی کے مصداق ہیں۔اس کے بعد مختلف مبلغین نے مختصر تقاریر میں بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے جو پیشگوئی شائع فرمائی تھی کہ مصلح موعودؓ کے ذریعے احمدیت کا نام دنیا کے کناروں تک روشن ہو گا ،وہ کس شان سے پوری ہوئی۔آخر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے یہ پر شوکت اعلان فرمایا
’’میں آسمان کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں۔ہوشیار پور کی ایک ایک اینٹ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں۔کہ یہ سلسلہ دنیا میں پھیل کر رہے گا۔حکومتیں اگر اس کے مقابلہ پر کھڑی ہوں گی تو مٹ جائیں گی۔بادشاہتیں کھڑی ہونگی تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائینگی۔ لوگوں کے دل سخت ہوں گے تو فرشتے ان کو اپنے ہاتھ سے ملیں گے یہاں تک کہ وہ نرم ہو جائیں گے۔اور ان کے لئے احمدیت میں داخل ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔‘‘(۳)
جلسے کے بعد حضور ؓ اور کچھ اور احباب اس مکان میں تشریف لے گئے جہاں پر حضرت مسیح موعودؑ نے چلہ کشی فرمائی تھی اور شوکتِ اسلام کے لئے دعائیں کیں۔
اس سلسلے کا دوسرا جلسہ ۱۲ مارچ ۱۹۴۴ئکو لاہور میں منعقد کیا گیا۔ایک بڑا شہر ہونے کے علاوہ لاہور کی ایک اہمیت یہ بھی تھی کہ یہی وہ مقام تھا جہاں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پریہ انکشاف ہؤا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس عظیم پیشگوئی کا مصداق آپ کی ذات ہے۔جلسے کا انتظام پٹیالہ ہاؤس کے ساتھ میدان میں کیا گیا تھا۔اس میں نہ صرف احمدی احباب بڑی تعداد میں شامل ہوئے بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ہندؤں ،سکھوں اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے احباب نے بھی شرکت کی اور آخر تک تمام جلسے کی کاروائی سنی۔حضورؓ کی آمد سے قبل آپ کا یہ ارشاد بار بار لاؤڈ سپیکر پر سنایا جاتارہا کہ درود اور ذکرِ الہیٰ میں وقت گذاریں۔لغو بات کوئی نہ کرے ۔دعائیں کثرت سے کریں ۔نعرہ کوئی نہ لگائے۔جلسے کے آغاز پر تلاوت قرآنِ کریم کے بعد حسبِ سابق حضرت مولاناعبد الرحیم صاحب دردؓ نے ہوشیارپور میں حضرت مسیح موعود ؑ کی چلہ کشی کے حالات سنائے۔اس کے بعدحضرت مصلح موعودؓ کا خطاب شروع ہؤا۔یہ تقریر منکرینِ خلافت کے لئے حجت تھی،مخالفینِ جماعت کے لئے حجت تھی،اور اسلام کے دشمنوں کے لئے حجت تھی۔اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو پسرِ موعود کے متعلق خوشخبری دی تھی کہ کأن اللّٰہ نزل من السماء گویا خدا آسمان سے اتر آیا ہے۔جلسے میں موجود لوگ ایسا ہی نظارہ اپنی روحانی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ایک موقع پر تو حضورؓ کی زبانِ مبارک پر یہ الفاظ جاری ہوئے کہ
’’ اس وقت میں نہیں بول رہا۔بلکہ خدا میری زبان سے بول رہا ہے۔‘‘(۴)
حضور کے خطاب کے بعد دوسرے مقررین نے دنیا کے مختلف مقامات پر احمدیت کا پیغام پہنچنے کے موضوع پر تقاریر کیں۔آخر میں حضورؓ نے فرمایا:
’’میں اسی واحد اور قہار خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اور جس پر افتراء کرنے والا اس کے عذاب سے کبھی بچ نہیں سکتا کہ خدا نے مجھے اسی شہر لاہور میں ۱۳؍ٹمپل روڈ پر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے مکان پر یہ خبر دی کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں۔اور میں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کے ذریعہ اسلام دنیا کے کناروں تک پہنچے گااور توحید دنیا میں قائم ہو گی۔‘‘(۵)
دنیا میں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نشان ظاہر ہوتا ہے تو بدنصیبوں کی طرف سے اس کی مخالفت کی جاتی ہے ،استہزاء کیا جاتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے و اذا راوا اٰیۃ یستسخرون(۶) اور جب بھی وہ کوئی نشان دیکھیں تو مذاق اڑانے لگتے ہیں۔اس نشان کے ظہور پر بھی ایسا ہی ہؤا۔لدھیانہ وہ مقام تھا جہاں حضرت مسیح موعودؑ نے پہلی بیعت لی تھی۔اس کے پورے پچپن سال کے بعد ،حضرت مصلح موعودؓ نے ۲۳ مارچ کووہاں جلسہ کرنے کا فیصلہ فرمایا۔اس کی اطلاع ملتے ہی احراری مولویوں نے اس کی مخالفت شروع کردی اور اسی تاریخ کو لدھیانہ میں اپنا جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کر دیا۔پہلے حکومت کو درخواست دی کہ احمدیوں کے جلسے پر پابندی لگائی جائے ۔ جب اس میں ناکامی ہوئی تو اخباروں میں شور مچانا شروع کیا اور غیر اخلاقی حرکتوں پر اتر آئے۔عوام کو مشتعل کرنے کی کوششیں کی گئیں اور دھمکیاں دی گئیںکہ اگر احمدیوں نے اپنا جلسہ منعقد کیا تو احرار سخت فساد برپا کریں گے۔۲۳ مارچ کو ان کا اندرونہ خوب اچھی طرح ظاہر ہو رہا تھا۔اپنے میں سے ایک لڑکے کا منہ کالا کر کے اسے گدھے پر سوار کر کے جلوس نکالا اور ایک مصنوعی جنازہ بنا کر سینہ کوبی کی گئی۔ سڑک پر جاتے ہوئے احمدیوں پر جوتے اور پتھر پھینکے۔اس سے دل نہ بھرا تو گالیاں نکالنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔حضرت مصلح موعودؓ جب دارالبیعت میں دعا کرنے کے بعد بھدوڑ ہاؤس کے وسیع میدان میں نماز پڑھانے کے لئے تشریف لائے تو ان اوباشوں کا مجمع جلسہ گاہ کے قریب کھڑا گالیاں نکال رہا تھا۔عین اس وقت بارش شروع ہو گئی۔ موسلا دھار بارش میں ظہر وعصر کی نمازیں نہایت اطمینان اور خشوع و خضوع سے ادا کی گئیں۔نمازوں کے بعد حضورؓ نے فرمایا دوست اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہیں اب جلسہ شروع ہوتا ہے۔مخالفین کا ہجوم جو کچھ دیر پہلے تک خوفناک دھمکیاں دے رہا تھا ،صرف بارش سے ہی تتر بتر ہو گیا ۔مگر نہ صرف احمدی شرکاء بلکہ دیگر مسلم و غیر مسلم شرفانے ئبھی موسلا دھار بارش کے باوجوداطمینان سے جلسے کے اختتام تک ساری کارروائی میں شرکت کی۔جب حضور نے قرآنی دعاؤں کی تلاوت کی تو شدتِ جذبات سے بہت سے احباب کی چیخیں نکل گئیں ۔حضورؓ نے پیشگوئیِ مصلح موعود کے مصداق ہونے کا اعلان فرمایا اور ان لوگوں کے لئے بھی دعا کی جنہوں نے ہر قسم کی غیر اخلاقی حرکات کر کے جماعت کے جلسے کو روکنے کی کوشش کی تھی۔۔حضور کے خطاب کے بعد مبلغینِ سلسلہ نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر تقاریر کیںاور ان کے بعد حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ نے بھی ایک مختصر تقریر فرمائی۔دیکھنے والوں نے دیکھا، محسوس کرنے والوں نے محسوس کیا کہ اس موقع پر احمدی اپنے محبوب امام کی قیادت میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کر رہے تھے،اپنے آنسوؤں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے۔اور مخالفین گالیاں دے رہے تھے،بھانڈوں کی طرح گری ہوئی حرکتیں کر رہے تھے۔آخر ہر برتن سے وہی ٹپکتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے۔(۷تا۱۰)
لدھیانہ کے جلسے کے ساتھ مخالفت کا جوش وحشیانہ جنون میں تبدیل ہو چکا تھا۔اسی ماحول میں جماعت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ۱۶ اپریل ۱۹۴۴ء کو جماعت اللہ تعالیٰ کے اس نشان کے ظاہر ہونے کی خوشی میں دہلی میں جلسہ کرے گی۔دہلی میں جماعت کی مخالفت کی ایک پرانی تاریخ ہے ۔ جب۱۸۹۱ء میں حضرت مسیح موعودؑدہلی تشریف لے گئے تو اہلِ دہلی کی طرف سے گرے ہوئے انداز میں حضورؑ کی مخالفت کی گئی تھی۔جس مکان میں آپ رونق افروز تھے اس پر کئی مرتبہ پتھراؤ بھی کیا گیا تھا۔دعویٰ مصلح موعود کے بعد جب جماعت کی طرف سے دہلی میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا گیا تو مخالفت کا طوفان اٹھ کھڑا ہؤا۔مخالف مولویوں کی طرف سے اشتعال انگیز تقریروں کا سلسلہ شروع کیا گیا،جماعت کے اشتہارات اتار کر مخالفانہ اشتہارات لگائے گئے،حکومت کو درخواستیں دی گئیں کہ جماعت کے جلسے کو روکا جائے۔اور یہ دھمکیاں بھی دی گئیں کہ خون کی ندیاں بہہ جائیں گی مگر اس جلسے کا انعقاد نہیں ہونے دیا جائے گا۔بہر حال مقررہ تاریخ کوچار پانچ ہزار کی تعداد میں احمدی دہلی کے جلسے میں شرکت کے لئے پہنچ گئے۔جلسے کے لئے ہارڈنگ لائیبریری سے متصلہ میدان کا انتخاب کیا گیا تھا۔بہت سے غیر از جماعت احبا ب بھی جلسے میں شرکت کے لئے آئے ہوئے تھے۔ بہت سے مخالفین فساد کی نیت سے مجمع کے اندر بیٹھے ہوئے تھے اور ہزاروں مخالفین کے ہجوم نے جلسہ گاہ کو گھیرا ہؤا تھا۔جلسہ کی کاروائی تلاوتِ قرآنِ کریم سے شروع ہوئی۔حضرت صاحبزادہ مرزاناصر احمد تلاوت کر رہے تھے۔ایک مقام پر انہوں نے زبر کی جگہ زیر پڑھ دی۔مخالفین توکسی موقع کی تاک میں تھے۔یہ سن کر انہوں نے شور مچا دیاکہ قرآن غلط پڑھا جا رہا ہے ۔اور ایک گروہ گالیاں دیتا ہؤا سٹیج کی طرف بڑھا ۔جماعت کے کچھ افراد نے ان کو روک کر جلسہ گاہ سے باہر نکال دیا۔اس دوران ہزاروں کا مجمع جلسہ گاہ کے باہر کھڑا گالیاں نکال رہاتھااور جلسہ گاہ پر پتھر برسائے جا رہے تھے۔جب کارکنان ان مفسدوں کو جلسہ گاہ سے باہر نکال رہے تھے تو ان شورش پسندوں نے کارکنان کو مارنا شروع کردیا۔اس پر جب بعض احمدیوں نے جواب دینا شروع کیا تو حضور نے ہدایت دی کہ ان سے تعرض نہ کرو اور واپس آجاؤ اور اگر مار پڑے تو برداشت کرو۔ان خطرناک حالات میں حضور نے تقریر شروع فرمائی جو باوجود مخالفین کی تمام کوششوں کے ساڑھے تین گھنٹے جاری رہی۔حضورنے فرمایا کہ پیشگوئی میں مصلح موعود کی ایک علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ علومِ ظاہری و باطنی علوم سے پر کیا جائے گا۔اور یہ ایسی صاف اور واضح علامت ہے کہ اسے با آسانی معلوم کیا جا سکتا ہے۔حضور نے فرمایا کہ میں تمام علماء کو چیلنج دیتا ہوں کہ میرے مقابل پر قرآنِ کریم کی تفسیر لکھیں۔اور جتنے لوگوں سے اور جتنی تفسیروں سے چاہیں مدد لے لیں۔مگر خدا کے فضل سے پھر بھی مجھے فتح حاصل ہو گی۔اس تقریر کے دوران وہ ہزاروں مفسدین جو جلسہ درہم برہم کرنے آئے تھے ارد گرد شور مچاتے رہے اور گالیاں دیتے رہے۔آخر جب یہ گروہ خواتین کے مجمع کی طرف بڑھا اور سخت خطرہ پیدا ہؤا تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ سو آدمی عورتوں کی حفاظت کیلئے چلے جائیں۔باقی سب بیٹھے رہیں۔یہ شور مچانے والے اگر عورتوں پر حملہ کریں تو ان کو دکھا دو کہ احمدی اس طرح مقابلہ کرتے ہیں۔اگر تم میں سے کوئی کمزور دل ہو تو وہ نہ جائے اس کی جگہ میں جانے کو تیار ہوں۔صرف سواحمدیوں نے اپنے سے کئی گنا بڑے مجمع کو پسپا کر دیا جو خون کی ندیاں بہانے آئے تھے۔اس وقت مخالفین نے یہ سمجھتے ہوئے کہ اب ان کی تعداد زیادہ ہو چکی ہے ایک بار پھر جلسہ گاہ پر حملہ کردیا اور جو احمدی نوجوان پہرے پر کھڑے تھے ان پر پتھر برسانے شروع کر دئے۔ان میں سے کئی نوجوان زخمی ہو گئے۔جلسہ کے بعد سب سے پہلے خواتین کو لاریوں میں بھجوایا گیا۔حفاظت کے لئے کچھ نوجوان بھی ان لاریوں کے ساتھ تھے۔ان بد باطن مخالفین نے ان لاریوں پر حملہ کر کے اپنے گرے ہوئے اخلاق کا مزید ثبوت مہیا کیا۔مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان احمدیوں نے ان کا مقابلہ کیا اور یہ حملہ آور باوجود کئی گنا تعداد کے سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ گئے ۔اس سنگباری سے چالیس پچاس احمدی زخمی ہوئے۔حضور کے داماد میاں عبدالرحیم احمدصاحب بھی شدید زخمی ہو گئے اور ایکسرے پر معلوم ہؤا کہ سر کی ہڈی تین جگہ سے فریکچر ہو گئی ہے۔بعض نوجوانوں پر اتنے پتھر برسے کہ جب وہ واپس آئے تو سر سے پاؤں تک خون میں نہائے ہوئے تھے۔جلسے کے بعد کچھ احباب نے بیعت کی۔اس طرح باوجود مخالفین کی تمام مذموم حرکات کے جماعت کا جلسہ مکمل ہؤا۔احمدیوں نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے اپنی جھولیاں بھریں اور مولویوں اور ان کی پیروی کرنے والوں نے اوباشانہ حرکات کر کے اپنا نامہ اعمال سیاہ کیا۔یہ واقعہ جماعتی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس واقعہ کو پڑھنے والے خود ہی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون سا گروہ سنتِ انبیاء پر عمل کر رہا تھا اور کون سا گروہ زبانِ حال سے یہود سے اپنی مماثلت ثابت کر رہا تھا۔(۱۱تا۱۵)
(۱)الفضل ۱۶ فروری ۱۹۴۴ء
(۲)تاریخ احمدیت جلدنہم ص۵۸۲۔۵۸۳
(۳)الفضل ۲۴ فروری ۱۹۴۴ء ص۱۔۲
(۴)الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۴۴ء
(۵)الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۴۴ء ص۲
(۶)الصفت ۱۵
(۷)الفضل۲۶ مارچ ۱۹۴۴ء ص۱تا۲
(۸)الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۴۴ء ص۲
(۹)الفضل یکم اپریل ۱۹۴۴ء ص۳
(۱۰)الفضل ۴ اپریل ۱۹۴۴ء ص۱ تا ۲
(۱۱)الفضل ۱۹ اپریل ۱۹۴۴ء ص۸
(۱۲)الفضل ۲۰ اپریل ۱۹۴۴ء ص۵۔۶
(۱۳)الفضل ۲۳ اپریل ۱۹۴۴ء ص۱۔۲
(۱۴)الفضل ۲۸ اپریل ۱۹۴۴ء ص۲
(۱۵)الفضل ۳ مئی ۱۹۴۴ء ص۱تا ۵
دعوی مصلح موعود کے بعدمختلف تحاریک
خاندانِ حضرت مسیح موعود ؑ کو وقف کی تحریک :
دعویِ مصلح موعود کے بعد اب حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ؓ کی خلافت کا نیا دور شروع ہو رہا تھا۔اور جماعت کی ذمہ واریاں پہلے سے بہت بڑھ چکی تھیں۔اس پس منظر میں اس بات کی ضرورت تھی کہ خدمت اور قربانی کی نئی منازل کی طرف بڑھا جائے۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے سب سے پہلے حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان کو تحریک فرمائی کہ وہ آگے آئیں اور اپنی زندگیاں خدمتِ دین کے لئے وقف کریں۔چناچہ ۱۰؍ مارچ۱۹۴۴ء کو حضورؓ نے خطبہ جمعہ میں فرمایا
’’۔۔میں ان باتوں کو جلدی جلدی اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میں نہیں جانتا میری کتنی زندگی ہے۔میں اس مقام پر سب سے پہلے اپنے خاندان کو نصیحت کرتا ہوںکہ دیکھو ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کے اس قدر احسانات ہیںکہ اگر سجدوں میں ہمارے ناک گھس جائیں، ہمارے ماتھوں کی ہڈیاں گھس جائیں تب بھی ہم اس کے احسانات کا شکرادا نہیں کر سکتے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری موعود کی نسل میں ہمیں پیدا کیا ہے۔اور اس فخر کے لئے اس نے اپنے فضل سے ہمیں چن لیا ہے۔پس ہم پر اک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہے۔ دنیا کے لوگوںکے لئے دنیا کے اور بہت سے کام پڑے ہوئے ہیں۔مگر ہماری زندگی تو کلیتاََ دین کی خدمت اور اسلام کے احیاء کے لئے وقف ہونی چاہئیے۔۔مگر میں دیکھتا ہوں ہمارے خاندان کے کچھ افراد دنیا کے کام میں مشغول ہو گئے ہیں۔بے شک وہ چندے بھی دیتے ہیں۔بے شک وہ نمازیں بھی پڑھتے ہیں۔بے شک وہ اور دینی کاموں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔مگر یہ وہ چیز ہے جس کی اللہ تعالیٰ ہر مومن سے امید کرتا ہے۔ہر مومن سے وہ توقع کرتا ہے۔کہ وہ جہاں دنیا کے کام کرے وہاں چندے بھی دے۔وہاں نمازیں بھی پڑھے۔وہاں دین کے اور کاموں بھی حصہ لے۔پس اس لحاظ سے ان میں اور عام مومنوں میں کوئی امتیاز نہیں ہو سکتا۔حالانکہ خدا ہم سے دوسروں کی نسبت زیادہ امید کرتا ہے۔خدا ہم سے یہ نہیں چاہتاکہ ہم کچھ وقت دین کو دیں اور باقی وقت دنیا پر صرف کریں۔بلکہ خدا ہم سے یہ چاہتا ہے۔کہ ہم اپنی تمام زندگی خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیں…
اگر وہ دنیا کے کا م چھوڑ دیں۔تو اس کے نتیجہ میں فرض کرو ان کو فاقے آنے لگ جاتے ہیں۔تو پھر کیا ہؤا۔سب کچھ خدا کی مشیت کے ماتحت ہوتا ہے۔اگر اس رنگ میں ہی کسی وقت اللہ تعالیٰ ان کا امتحان لینا چاہے۔اور انہیں فاقے آنے شروع ہو جائیں۔تب بھی اس میں کون سی بڑی بات ہے۔‘‘(۱)
اس ضمن میں سب سے پہلے تو حضورؓ نے اپنی اولاد کو قربانیوں کے لئے پیش کیا۔خلافت ِ ثانیہ میں ایک مرتبہ یہ مسئلہ زیر ِ بحث آیا کہ نئے واقفین بہت کم تعداد میں سامنے آ رہے ہیں۔اس مجلسِ مشاورت سے خطاب کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے فرمایا۔
’چنانچہ حضور ؓ ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول کی اپنے فعل سے تائید فرمائی ۔اور اپنے سارے لڑکے اور لڑکیاں خدمتِ دین کے لیے وقف کر دیئے۔اور جوں جوں آپ کے بچے جوان ہوتے گئے۔آپ انہیں بلا کر ،ان پر واضح کرتے رہے کہ انہیں وقف کیلئے آگے آنا پڑے گا ۔اور اگر وہ آگے نہ آئے تو آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہو گا ۔،(۲)
آپ کے دل میں اس بات کی تڑپ کہ حضرت مسیح موعودؑ کی اولاد اپنی زندگیاں خدمتِ دین میں صرف کرے اتنی شدید تھی کہ آپ نے یہ عہد اپنی اس نوٹ بک میں جو یا داشتوں کو درج کرنے کے لئے آپ کے کوٹ کی اندرونی جیب میں رہتی تھی لکھ کر رکھا ہؤا تھا
’’آج چودہ تاریخ (مئی ۳۹؁ئ)کو میں مرزا بشیرالدین محمود احمداللہ تعالیٰ کی قسم اس پر کھاتا ہوںکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسلِ سیدہ سے جو بھی اپنی زندگی سلسلہ کی خدمت میں خرچ نہیں کر رہامیں اس کے گھر کا کھانا نہیں کھاؤں گا اور اگر مجبوری یا مصلحت کی وجہ سے مجھے ایسا کرنا پڑے تو میں ایک روزہ بطور کفارہ رکھوں گا یا پانچروپے بطور صدقہ ادا کروں گایہ عہد سرِ دست ایک سال کے لئے ہو گا۔ مرزا محمود احمد‘‘(۳)
وقفِ جائیداد کی تحریک:
۱۰ مارچ ۱۹۴۴ء کے خطبہ جمعہ میں ہی حضرت مصلح موعود نے جائداد کو وقف کرنے کی تحریک فرمائی۔اور فرمایا کہ جائیدادوں کو اس صورت میں وقف کیا جائے گا کہ یہ جائیداد فی الحال تو مالکان کے تصرف میں رہے گی لیکن جب سلسلے کی طرف سے ان سے مطالبہ کیا جائے گا تو انہیں وہ جائیداد اسلام کی اشاعت کے لئے پیش کرنے میں قطعاََ کوئی عذر نہیں ہو گا۔اس تحریک میں سب سے پہلے حضورؓ نے خود اپنی جائیداد وقف کی۔اس کے بعد حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ اور پھر نواب مسعود احمد خان صاحب نے اپنی جائیداد پیش کی۔حضورؓ نے فرمایا کہ اس وقف کی صورت یہ ہو گی کہ ایک کمیٹی بنا دی جائے گی۔اور جب اشاعتِ اسلام کے لئے کسی رقم کی ضرورت پڑے گی تو پہلے عام چندے کی تحریک کی جائے گی پھر جو کمی رہ جائے گی وہ نسبتی طور پر ان لوگوں میں تقسیم کی جائے گی جنہوں نے اپنی جائدادوں کو وقف کیا ہے۔اور ان کا اختیار ہو گا چاہے تو وہ نقد رقم دے دیں اور اگر چاہیں تو اپنی جائیداد فروخت یا گرو رکھ کر یہ رقم ادا کریں ۔جن لوگوں کی کوئی جائیداد نہیں ہے لیکن وہ اس ثواب میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو وہ اپنی ایک یا دو یا تین ماہ کی آمد وقف کریں۔اور یہ عہد کریں کہ جب بھی سلسلے کی طرف سے مطالبہ ہو گا وہ یہ آمد پیش کریں گے خواہ ان کے بیوی بچوں کو کتنی ہی تنگی سے کیوں نہ گذر نا پڑے۔اس اعلان کے چند گھنٹوں کے اندر اندر جماعت نے چالیس لاکھ روپے کی جائیدادیں حضور کی خدمت میں پیش کردیں(۴)۔قادیان کی جماعت نے اس سلسلے میں شاندار نمونہ دکھایا۔دو ہزار سے زائد احباب نے اس تحریک میں حصہ لیا اور کروڑوں کی جائیداد کو حضور کی خدمت میں پیش کیا۔
وقفِ زندگی کی تحریک:
جماعت کے نئے دور کی ضروریات کے پیشِ نظر اس بات کی ضرورت تھی کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں احمدی اپنی زندگیاں خدا کی راہ میں وقف کریں۔چنانچہ حضور نے خطبہ جمعہ میں اس بارے میں تحریک کرتے ہوئے فرمایا
’’ہماری ذمہ واریاں بے انتہا ہیںاور مشکلات کا کوئی اندازہ نہیں اور آخر جس طرح بھی ہو۔گرتے پڑتے ہمت سے کام کرنا ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے ہی چونکہ وہ کام کرنا ہے۔اس لئے ہماری کوشش کتنی کم کیوں نہ ہو۔یہ یقین ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ ہمیں اس کام کو پورا کرنے کی توفیق دے گا…
لیکن یہ سکیم پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک ایسے افراد زیادہ تعداد میں نہ ہوں جو دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں۔جسمانی کام ایک ایک آدمی سے بھی چل سکتے ہیں۔کیونکہ جسم کا فتح کرناآسان ہے۔مگر روحانی کاموں کے لئے بہت آدمیوں کی ضرورت ہؤا کرتی ہے کیونکہ دلوں کا فتح کرنا بہت مشکل کام ہے۔اس لئے ضرورت ہے کہ ہمارے پاس اتنے معلم ہوں کہ ہم انہیں تمام جماعت میں پھیلا سکیں۔۔
دنیوی علوم حاصل کرنے والے نوجوان بھی اگر اپنے نام پیش کریں تو ان کو بھی ایسی تعلیم دی جا سکتی ہے کہ دین کا کام ان سے لیا جا سکے۔۔۔۔ ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ ادنیٰ اقوام میںتبلیغ کے لئے ڈاکٹر بہت زیادہ مفید ہو سکتے ہیں بلکہ ان کے لئے ان سے زیادہ بہتر مبلغ کوئی نہیں ہو سکتا ۔‘‘(۵)
حضور کے اس ارشاد پر لبیک کہتے ہوئے ہندوستان اور ہندوستان سے باہربسنے والے بہت سے احمدیوں نے وقف کرنے کی سعادت حاصل کی۔
کمیونسٹ نظریات کے مطالعے کی تحریک:
۱۹۴۴ء میں جوں جوں جنگِ عظیم کا خاتمہ نزدیک نظرآرہا تھا،اس بات کے آثار واضح ہوتے جا رہے تھے کہ دنیا کے کئی ممالک کمیونسٹ بلاک کے زیرِ اثر چلے جائیں گے۔سوویٹ یونین کی افواج کے آگے بڑھنے کے ساتھ مشرقی یورپ کے ممالک اس کے تسلط میں آرہے تھے اور ایشیا میں چین جیسے اہم ملک میں ان نظریات کے حامیوں کا زور بڑھ رہا تھا۔کمیونسٹ نظریات کے حامی دینی نظریات کی تحقیر میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔یہاں تک کہ ڈراموں اور فلموں میں ہستی باری تعالیٰ پر تمسخر کیا جاتا ۔جہاں ان کی حکومت قائم ہوتی وہاں مذہبی آزادی پر قدغن لگا دی جاتی اور لوگوں کو مذہب سے بیزار اور دہریت کی طرف مائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی۔البتہ اب تک ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی کو کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی تھی۔اس پس منظر میں پہلے کشمیر اور دوسرے بعض مقامات سے یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ کمیونسٹ گروہ کا ارادہ ہے کہ وہ ہندوستان کے مختلف مذہبی مراکز میں اپنی جماعت قائم کریں گے اور قادیان میں بھی وہ اپنا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔پھر گورنمنٹ کے ذریعہ معلوم ہؤا کہ کمیونسٹوں کا ارادہ ہے کہ وہ قادیان میں اپنا مرکز بنائیں۔۱۹۲۰ء کے لگ بھگ جبکہ ابھی یورپ میں بھی کمیونسٹ خیالات معروف نہیں تھے،حضرت خلیفۃ المسیح ثانیؓ کو رؤیا دکھائی گئی تھی کہ قادیان کے بعض لوگ کمیونسٹ خیالات کے ہوگئے ہیں گو وہ حسبِ سابق بظاہر حضورؓ کا احترام ِ کر رہے ہیں مگر وہ اندر سے کمیونسٹ خیالات رکھتے ہیں۔جماعتِ احمدیہ کی روایت یہ ہے کہ وہ ہر نظرئیے کا مقابلہ دلائل اور دعاؤں کے ذریعہ کرتی ہے ۔چنانچہ حضور ؓ نے ۲۱ دسمبر ۱۹۴۴ئ؁ء کے خطبہِ جمعہ میں فرمایا
’’پس جہاں تک عقیدہ کا سوال ہے وہ ان کی اپنی چیز ہے ۔ہم کسی کو اس کے عقیدہ سے نہیں روکتے۔بشرطیکہ وہ رخنہ اندازی کا موجب نہ ہو۔اگر ایک شخص علی الاعلان اس قسم کے خیالات رکھتا ہے کہ میں نے غور کیا ہے ۔مگر مجھے خدا تعالیٰ کی ہستی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔تو اس کے خیالات خدا کے سامنے ہیں ۔وہی اس کا فیصلہ کرے گا ۔ہمیں اس کی باتیں سن کر جہاں تک اس کے خیالات کا سوال ہے اس پر کوئی غصہ نہیں ہو گا۔مگر مخفی طورجماعت کے اندر رہ کر دھوکہ اور فریب سے لوگوں کو اپنے خیالات میں مبتلا کرنے کی کوشش کرنا یہ منافقت ہے۔اندر ہی اندر بچوں اور نوجوانوں کو ورغلانے کی کوشش کرنا یہ دھوکہ اور فریب ہے۔۔۔۔۔
جماعت کے علماء اور واقفین اور مدرسہ اور جامعہ کے طلباء بھی اچھی طرح کمیونسٹ تحریک کا مطالعہ کریں ۔اور ان کے جوابات سوچ چھوڑیں ۔اور اگر کسی امر کے متعلق تسلی نہ ہو۔تو میرے ساتھ بات کر لیں ۔اسی طرح کالج کے پروفیسروں اور سکولوں کے اساتذہ کو چاہئیے کہ کمیونسٹ تحریک کے متعلق اپنا مطالعہ وسیع کریں۔اور کوئی کمی رہ جائے۔تو مجھ سے مل کر ہدایت لے لیں۔اور اس رنگ میں اس تحریک کے متعلق جواب سوچ رکھیں کہ ان کا پوری طرح سے رد کر سکیں۔‘‘(۶)
(۱)الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۴۴ء ص۱۱ (۲) رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۶۱ء ص۸۲
(۳)الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۶۶ء ص۷ (۴)الفضل۱۴ مارچ ۱۹۴۴ء ص۱۲۔۱۳ (۵)الفضل۳۱ مارچ ۱۹۴۴ء ص۱،۳،۴ (۶)الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۴۴ء ص۳
نئے مشنوں کا قیام
اب ہم ۱۹۴۰ء کی دہائی کے واقعات کا ذکر کر رہے ہیں۔اس دہائی کے دوران ہندوستان آ زاد ہوا اور پاکستان اور ہندوستان کی علیحدہ مملکتیں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئیں۔اور اسی عمل کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام داغِ ہجرت پورا ہؤا اور مرکزِ سلسلہ قادیان سے پاکستان میں منتقل ہؤا۔ان واقعات کے تسلسل کا آغاز کرنے سے قبل ہم چند نئے ممالک میں تبلیغی جہاد کے آغاز کا جائزہ لیتے ہیں ۔ان مشنوں کے قیام کے ساتھ تبلیغ کے کام میں نئی وسعت پیدا ہوئی۔
فرانس:
اس دور میں یہ ملک ایک بہت بڑی طاقت تھا۔اور افریقہ اور ایشیا کے کئی ممالک اس کی نو آبادیوں میں شامل تھے۔فرانس میں اسلام کا اثر پہلی مرتبہ طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر کے حملوں کے ساتھ پہنچا تھا۔یورپ کے دورے کے دوران ۱۹۲۴ء میں حضرت مصلح موعودؓ فرانس بھی تشریف لے گئے۔حضور کے ارشاد پر تحریکِ جدید کے دو مجاہدین مکرم ملک عطاء الرحمن صاحب اور مولوی عطاء اللہ صاحب مئی ۱۹۴۶ء میں فرانس بھجوائے گئے۔۲۲ جون ۱۹۴۸ء کو فرانس کی انتظامیہ کی طرف سے تبلیغ کی اجازت ملنے پر باقاعدہ طور پر تبلیغ کا آغاز ہؤا۔فرانس میں پہلی روح جسے اسلام اور احمدیت کو قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی وہ ایک تعلیم یافتہ خاتون Madame Margaepite Demagany تھیں،جو ۲۳ مئی ۱۹۴۹ء کو بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئیں۔(۱)
(۱)الفضل ۹ اگست ۱۹۴۹ء
بورنیو:
اسلام کا پیغام سب سے پہلے یہاں کے مغربی ساحل پر پہنچا تھا۔جہاں پر عرب مسلمانوں کی تبلیغ کے نتیجے میں کثیر تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا ۔۱۶۰۰ء میں یہاں کا راجہ بھی مسلمان ہو گیا۔
یہاں پر احمدیت کا پیغام سب سے پہلے مالابار کے ایک مخلص تاجر مکرم عبد القادر صاحب کے ذریعہ پہنچا جو ۱۹۳۱ء میں کاروبار کے لئے تشریف لائے اور یہاں کے جزیرے لابوان میں آباد ہو گئے۔دوسری جنگِ عظیم کے آخری سال میں ایک پر جوش داعی الی اللہ مکرم ڈاکٹر بدر الدین صاحب شمالی بورنیو میں بسلسلہ ملازمت مقیم تھے ۔پھر حضورؓ کے ارشاد پر ملازمت سے سبکدوش ہو کر آپ اپریل ۱۹۴۷ء میں دوبارہ بورنیو آئے اور آنریری مبلغ کی حیثیت سے کام کیا۔شمالی بورنیومیں مستقل مشن کا قیام مولوی محمد زہدی صاحب آف ملایا کے ذریعہ ہؤا جنہوں نے جون ۱۹۴۷ء میں یہاں آکر تبلیغ کا آغاز کیا۔
سپین:
سپین وہ ملک ہے جس میں مسلمانوں نے صدیوں حکومت کی مگر پھر متعصب عیسائی بادشاہوں نے جبراََ اسلام کو وہاں سے مٹادیا۔جس ملک کے ہر شہر میں بیسیوں مساجد تھیں وہاں اب اسلام کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں تھا۔بہت سی قدیم مساجد اب تک گرجوں کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ سپین کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ کے یہ الفاظ ہر احمدی کے جذبات کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں
’’کیا سپین سے نکل جانے کی وجہ سے ہم اسے بھول گئے ہیں؟ہم یقیناََ اسے نہیں بھولے۔ہم یقیناََ ایک دفعہ پھر سپین کو لیں گے۔۔۔ہماری تلواریں جس مقام پر جا کر کند ہو گئیںوہاں سے ہماری زبانوں کا حملہ شروع ہو گا اور اسلام کے خوبصورت اصولوں کو پیش کر کے ہم اپنے ۔۔۔بھائیوں کو خود اپنا جزو بنا لیں گے۔‘‘
سپین میں پہلا مشن قائم کرنے کی کوشش مکرم محمدشریف صاحب گجراتی کے ذریعہ ۱۹۳۶ء میںہوئی تھی مگر انہیں خانہ جنگی کی وجہ سے سپین چھوڑنا پڑا۔پھر تحریکِ جدید کے مجاہد مولاناکرم الٰہی صاحب ظفر اور مولوی محمد اسحق صاحب ۱۰ جون ۱۹۴۶ء کو سپین کے شہر میڈرڈ پہنچے۔سپین کی اکثریت کیتھولک عیسائی ہے اور اس دور میں اس ملک پر پادریوں کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ دوسرے مذاہب تو ایک طرف رہے ،پروٹسٹنٹ عیسائیوں کو بھی مذہبی تبلیغ کی آزادی نہیں تھی۔ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کواپنی عبادت گاہ کے باہر بورڈ آویزاں کرنے کی بھی ممانعت تھی۔ مکرم کرم الٰہی ظفر صاحب نے زبان سیکھنی شروع کی۔مبلغین سستے مکان کی تلاش میں تھے کہ ایک ایجنسی نے ان کے ساتھ ایک روسی نوجوان کو کر دیا۔یہ ترجمان خود پریشانیوں میں مبتلا تھا مگر مبلغین سے بہت ہمدردی سے پیش آیا۔اس کے اخلاق کی وجہ سے اُنہوں نے حضور کی خدمت میں اس نوجوان کے لئے دعا کی درخواست کی۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُس کی پریشانیاں دور ہو گئیں۔دعا کی قبولیت دیکھ کر اس سعید نوجوان نے اسلام قبول کرلیا۔یہ پہلا پھل تھا جو اس ملک میںاحمدیت کو عطا ہوا۔ اگلے برس دو ہسپانوی باشندوں کو بھی اسلام قبول کرنے کی سعادت ملی۔(۱۔۲)
(۱) تاریخَ احمدیت جلد ۱۲ ص ۲۶تا ۴۱(۲) الفضل ۲۰ستمبر ۱۹۴۶ء ص۳
سویٹزر لینڈ:
وسطی یورپ کے اس ملک میں جماعت کا مشن ۱۹۴۶ء میں قائم ہؤا تھا۔کچھ مبلغین کو جرمنی تبلیغ کیلئے بھجوایا گیا تھا۔ لیکن انہیں وہاں جانے کی اجازت نہیںملی۔پھر ہالینڈ بھجوانے کی کوششیں ہوئیں مگر اس میں بھی کامیابی نہیں ہوئی۔چنانچہ حضورؓ نے ان کو سویٹزر لینڈ جانے کا ارشاد فرمایا۔۱۳ ؍اکتوبر ۱۹۴۶ء کو مکرم عبد اللطیف صاحب ،مولوی غلام احمد بشیر صاحب اور شیخ ناصر احمد صاحب زیورچ پہنچے۔ اکثر مقامی باشندوں کو یہ سن کر حیرت زدہ ہو جاتے کہ کوئی مسلمان اپنا دین پھیلانے کے لئے یہاں پر آسکتا ہے۔بلکہ بہت سے مقامی لوگ یہ سن کر بے یقینی سے ہنس دیتے۔مبلغین نے جرمن زبان سیکھنی شروع کی۔۱۹۴۷ء میں مشن نے یہاں پر قبرِ مسیح کے متعلق ایک ٹریکٹ شائع کیا۔اس ٹریکٹ کے شائع ہونے کی دیر تھی کہ حقارت غیظ و غضب میں بدل گئی۔لوگوں نے مبلغین کو سخت کلامی سے لبریز خطوط لکھے ،اخبارات نے اپنے کالموں میں دلائل کی بجائے استہزاء کا سہارا لیا،اور چرچ کے عمائدین نے فیصلہ کیا کہ بہتر ہو گا کہ احمدی مبلغین کو مزید ویزا نہ ملنے دیا جائے۔اور جس جگہ پر مبلغین کی رہائش تھی اس مکان کی مالکن کو پادریوں نے پیغام بھجوایا کہ اس نے ان مسلمان مبلغوں کو رہنے کی جگہ کیوں دی ہوئی ہے۔اور تو اور پولیس والوں نے بھی مخالفت شروع کر دی۔مگر اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچایا جا رہا تھا اور تبلیغی میٹنگوں یں شرکت کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی۔یہاں پر سب سے پہلے ایک خاتون نے احمدیت کو قبول کیا اور ان کا اسلامی نام محمودہ رکھا گیا ۔(۱۔۲)
(۱) تاریخِ احمدیت جلد ۱۲ ص۷۶تا۸۶ (۲)الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۴۸ء
ہالینڈ:
ہالینڈ میں مشن کا قیام ۱۹۴۷ء میں آیا۔لیکن اس سے پہلے ایک ڈچ احمدیت کو قبول کرنے کی سعادت حاصل کرچکے تھے۔یہ ڈچ ظفراللہ کاخ صاحب تھے جنہوں نے لندن میں مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب کے ذریعہ احمدیت قبول کی تھی۔دوسری جنگ عظیم کے دوران جب مختلف یوروپی زبانوں میں قرآنِ کریم کا ترجمہ کرنے کا کام شروع ہؤا تو ڈچ زبان میں بھی ترجمہ کیا گیا۔یہ کام ایک ترجمہ کرنے والے بیورو کے سپرد کیا گیا۔اس بیورو نے ایک ڈچ خاتون مسز زمرمین (Zimmerman)سے بھی ترجمے کے لئے رابطہ کیا۔یہ خاتون جب اس ترجمے کے ابتدائی تیس چالیس صفحے مکمل کر کے اس بیورو کے دفتر گئیں تو وہاں کے ڈائیرکٹر سے طویل گفتگو ہوئی۔اس ڈائرکٹر نے بار بار قرآنِ کریم کے متعلق توہین آمیز الفاظ استعمال کئے۔اور اس کے ٹائپسٹ نے بھی اس توہین آمیز اور مضحکہ خیز گفتگو میں حصہ لیا۔چند دن کے بعد وہ ڈائرکٹر بیمار ہو کر اس دنیا سے کوچ کر گیا اور تین ہفتے کے بعد ٹائپسٹ کی بھی موت واقع ہو گئی۔مسز زمر مین پر اس نشان کا گہرا اثر ہؤا۔اور اسلام میں ان کی دلچسپی بڑھنی شروع ہوئی ۔(۱)
جولائی ۱۹۴۷ء میں جماعت کے مبلغ حافظ قدرت اللہ صاحب کچھ عرصہ لندن میں کام کر کے ہالینڈ پہنچے اور ہیگ کی کولمبس سٹریٹ میں ایک کمرہ کرایہ پر لے کر تبلیغ کا کا م شروع کر دیا۔اس دور میں یوروپی اقوام کا پوری دنیا پر غلبہ تھا اور یہاں سے پوری دنیا میں مشنری عیسائیت کی تبلیغ کے لئے جاتے تھے۔ہالینڈ ایک طویل عرصہ تک انڈو نیشیا کے علاقے پر قابض رہا اور اس طرح یہاں کے لوگوں کو اسلام سے کچھ تعارف حاصل ہؤا۔ان دنوں میں ہالینڈ میں صوفی موومنٹ کا بھی اثر تھا۔مگر جب جماعت نے یہاں پر اپنے مشن کا با قاعدہ آ غاز کیا تو یہ امر بہت سے لوگوں کے لئے حیرت کا باعث ہؤا کہ اب مسلمان انہیں اسلام کی طرف مائل کرنے کی کوشش کریں گے۔چنانچہ ایک مجلس میں ہالینڈ کے وزیرِ اعظم نے بھی کہا کہ یہاں ان لوگوں کو وقت ضائع کرکے کیا ملے گا۔ان لوگوں کو چاہئیے کہ کسی اور جگہ اپنے وقت کو صرف کریں۔(۲) ۔بہت سے اخبارات نے بھی مشن کے قیام کا تعجب کے ساتھ ذکر کیا اور بعض نے تو اس بات کا برملا اظہار بھی کیا کہ یہاں پر احمدیوں کو ما یوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔(۳)
بہر حال انفرادی ملاقاتوں،ٹریکٹوں کی اشاعت اور لیکچروں کے ذریعہ تبلیغ شروع کی گئی اور کچھ بیعتوں کا سلسلہ شروع ہؤا۔سب سے پہلے ایک خاتون نے بیعت کی ،جن کا اسلامی نام رضیہ رکھا گیا ۔پھر مسٹر کوپے نام کے ایک ڈچ نے جو علوی فرقہ کے زیرِ اثر مسلمان ہو چکے تھے ،بھی بیعت کر لی۔اس کے بعد ڈچ مترجمِ قرآن مسز زمر مین نے بھی احمدیت قبول کر لی۔
حضورؓ نے ہدایت فرمائی کہ ڈچ ترجمہ قرآن کی اشاعت کا انتظام کیا جائے چنانچہ تمام مراحل سے گذر کر ۱۹۵۳ء میں یہ ترجمہ شائع ہو گیا۔
(۱) الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۴۸ء ص ۵ (۲)الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۴۸ء ص۶ (۳) خالد امان ۱۳۴۸ ھش
عدن:
عدن میں سب سے پہلے احمدیت کا نام احمدی ڈاکٹروں کے ذریعہ پہنچا۔۱۹۴۶ء میں پانچ احمدی ڈاکٹر عدن میں کام کر رہے تھے۔انہوں نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں گذارش کی کہ جماعت عدن میں اپنا مشن کھولے ،اس کے اخراجات اٹھانے میں وہ مدد کریں گے۔چنانچہ مولوی غلام احمد صاحب مبشر کو بطور مبلغ عدن بھجوایا گیا۔ انہوں نے تبلیغ کیلئے انتھک کوششیں شروع کیں۔انفرادی تبلیغ کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور سلسلہ کا دیگر لٹریچر تقسیم کرنا شروع کیا۔غیر احمدی مسلمانوں اور عیسائیوں،دونوں کی طرف سے مخالفت کا طوفان کھڑا گیا۔ علماء اور پادریوں نے حکام سے شکایتیں کر کے تبلیغ رکوانے کی سر توڑ کوششیں شروع کیں۔ایک ایک کر کے سعید روحیں بیعت کر کے جماعت میں داخل ہونے لگیں۔ شیخ عثمان کے مقام پر جماعت کا دارالتبلیغ قائم کیا گیا۔ ۱۹۴۹ء میں مولوی غلام احمد صاحب مبشر بیماری کی وجہ سے وطن واپس آگئے۔(۱)
(۱) تاریخِ احمدیت جلد ۱۲ ص۲۴۳تا ۲۵۳
ترجمہ و تفسیر قرآن انگریزی کی اشاعت
جیسا کہ تفسیرِ کبیر کی اشاعت کا ذکر کرتے ہوئے ہم یہ جائزہ لے چکے ہیں کہ انگریزی زبان بولنے والی اقوام اور دیگر مغربی اقوام تک جو قرآنِ کریم کے تراجم پہنچے وہ زیادہ تر پادریوں نے یا ایسے اشخاص نے کئے تھے جو عیسائیت کی تبلیغ کے لئے کوشاں تھے۔اور اسلام کو اپنے مقاصد کی راہ میں ایک رکاوٹ سمجھتے تھے۔اس کے علاوہ انہیں عربی زبان کا زیادہ علم بھی نہیں تھا۔ان وجوہات نے ان کے تراجم کو غیر معیاری بنا دیا تھا ۔بہت سے مقامات پر ترجمہ اصل متن سے زیادہ مترجم کی مخالفت کی عکاسی کر رہا ہوتا تھا ۔اس پر مستزاد یہ کہ ان تراجم کے ساتھ ان مصنفین کے تشریحی نوٹس بھی شامل تھے۔ان نوٹس کا مقصد اسلام،رسولِ کریم ﷺ اور قرآنی تعلیمات پر حملہ کرنا ہوتا تھا۔اس طرح ان اقوام تک اسلام کی غلط تصویر پہنچی اور ان کے دلوں میں اسلام کے متعلق منفی جذبات راسخ ہو گئے ۔ان تراجم کے متعلق حضرت مصلح موعود ؓ تحریر فرماتے ہیں۔
’(۱) اس وقت تک قرآنِ کریم کے جس قدر انگریزی تراجم غیر مسلموں نے کیے ہیں وہ سب کے سب ایسے لوگوں نے کیے ہیں جو عربی زبان سے یا تو بالکل نا واقف تھے یا بہت ہی کم علم عربی زبان کا رکھتے تھے۔اس وجہ سے قرآن کریم کا ترجمہ کرنا تو الگ رہا وہ اس کا مفہوم بھی اچھی طرح سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔اور بعض نے تو کسی اور زبان کے ترجمہ سے اپنی زبان میں ترجمہ کردیا تھا۔جس کی وجہ سے مفہوم اوربھی حقیقت سے دور جا پڑا تھا۔‘
(۲)مزید خرابی اُن تراجم میں یہ تھی کہ اُن تراجم کی بنیاد عربی لغت پر نہیں تھی بلکہ تفسیروں پر تھی ۔اور تفسیر ایک شخص کی رائے ہوتی ہے۔جس کا کوئی حصہ کسی کے نزدیک قابلِ قبول ہوتا ہے اور کوئی حصہ کسی کے نزدیک ۔اور کوئی حصہ مصنف کے سوا کسی کے نزدیک بھی قابلِ قبول نہیں ہوتا۔اس قسم کا ترجمہ ایک رائے کا اظہار تو کہلا سکتا ہے حقیقت کا آئینہ دار نہیں کہلا سکتا ۔(۱)
اس سے قبل قرآنِ کریم کے متعدد انگریزی تراجم موجود تھے۔ایک انگریز جارج سیل نے ۱۷۳۴میں قرآنِ کریم کا انگریزی ترجمہ شائع کیا تھا۔سیل نے اس ترجمے کے ساتھ ایک طویل دیباچہ بھی لکھا تھا جس میں اُس نے قرآنِ کریم میں منقول تاریخی واقعات کو بائیبل اور یہودی روایات کی خوشہ چینی قرار دیا ہے۔وہ لکھتا ہے کہ یقیناََ قرآنِ کریم آنحضرت ﷺ کی تصنیف ہے جس میں کچھ بیرونی ہاتھوں نے آپ کی اعانت کی تھی۔اس طرح انہوں نے مطالعہ سے قبل ہی پڑھنے والے کے خیالات کو قرآنِ کریم کے خلاف کرنے کی کوشش ہے۔یہی ترجمہ انگریزی بولنے والی اقوام میں رائج رہا۔۱۸۶۱ء میں پادری راڈویل نے ترتیبِ نزول کے حساب سے اپنا ترجمہ شائع کیا۔ ۱۸۸۰ء میں پامر (Henry Palmer) نے اپنا ترجمہ شائع کیا۔پھر ۱۹۳۰ء میں ایک انگریز نو مسلم پکتھال(Pickathal)نے ۔ان کے بعدکچھ اور انگریزوں نے بھی قرآنِ کریم کے تراجم کئے۔خود ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف سے بھی قرآنِ کریم کے کئی تراجم شائع ہو چکے تھے۔ ۱۹۰۰ء میں مرزا بوالفضل نے الہ آباد سے اور ۱۹۰۵ء میں ڈاکٹر عبد الحکیم نے اپنا ترجمہ شائع کیا۔ یہ صاحب پہلے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں تھے ،مگر بعد میں اُنہوں نے اس قسم کے عقائد کا اظہار شروع کر دیا کہ نجات کے لئے آنحضرتﷺ پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے ۔فقط تو حید پر ایمان کافی ہے۔ان ملحدانہ عقائد کی وجہ سے حضرت مسیح موعودؑ نے اُن کا اخراج از جماعت کر دیا تھا۔ ظاہر ہے جس کے عقائد کا یہ عالم ہو اُس کا ترجمہ قابلِ اعتبار نہیں ہو سکتا ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کے عہد میں قرآنِ کریم کے انگریزی ترجمہ کا کام شروع ہو گیا تھا ۔اور مولوی محمد علی صاحب اس کام کے نگران تھے۔جب خلافتِ ثانیہ کے آغاز میں منکرینِ خلافت مولوی محمد علی صاحب کی سر کردگی میں علیحدہ ہوئے تو وہ قادیان سے جاتے ہوئے اس ترجمے کا مسودہ بھی ساتھ لے گئے۔حالانکہ یہ ترجمہ صدر انجمن احمدیہ قادیان کے خرچ پر کیا جا رہا تھا اور انجمن کی ملکیت تھا۔۱۹۱۷ء میں مولوی محمدعلی صاحب کا ترجمہ قرآن مجید انجمن اشاعت اسلام لاہورنے شائع کیا۔ان کے بعد مرزا حیرت دہلوی، حافظ غلام سرور صاحب اور عبد الماجد دریاآبادی صاحب کے کئے ہوئے تراجم شائع ہوئے۔ مگر حضرت مسیح موعود ؑ کے ظہور کے ساتھ فہمِ قرآن اور علومِ قرآن کی ایک نئی دنیا جو عرصہ سے دنیا کی آنکھوں سے اوجھل تھی دوبارہ ظاہر ہوئی تھی۔اب اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ ان محروم اقوام تک اسلام اور قرآن کریم کی اصل تصویر پہنچائی جائے۔اور اُن غلط نظریات کا دلائل سے رد کیا جائے جو مغربی اقوام میں اسلام کے بارے میں رائج ہو چکے تھے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حضرت مولوی شیر علی صاحب کو اس کام کے لئے مقرر فرمایا اوراور ہدایت فرمائی کہ قرآنَ مجید کا ترجمہ بمع تفسیری نوٹس کے مرتب کیا جائے۔وہیری جیسے مصنفین نے قرآنِ کریم کے تراجم اپنے تفسیری نوٹس کے ساتھ شائع کئے تھے اور ان نوٹس کا واحد مقصد لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنا تھا۔ان وجوہات کی بنا پرمغربی ممالک میں قرآن کریم کے متعلق جو غلط خیالات رواج پا چکے تھے ان کی تردید کے لئے اور اسلام کا حقیقی حسن دکھانے کے لئے ان تفسیری نوٹس کی شدید ضرورت تھی۔مگر اس کے ساتھ ہی ان کی تیاری گہری تحقیق اور طویل جد و جہد کا تقاضہ بھی کرتی تھی۔۱۹۳۳ء میں حضور ؓ نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کو بھی اس کام میں شامل فرمایا۔اس کام کے لئے جو بلند پایہ تحقیق ہو رہی تھی اُس کے لئے کئی ایسی کتب کی ضرورت تھی جو ہندوستان میں دستیاب نہیں تھیں۔چنانچہ حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓ کو حضورؓ کے اارشاد کے ماتحت انگلستان بھجوایا گیا ۔جہاں کی لائیبریریوں میں مطلوبہ کتب با آسانی دستیاب ہو سکتی تھیں ۔آپ ۱۹۳۶ء میں انگلستان تشریف لے گئے جہاں آپ نے تین سال قیام فرمایا۔اس دوران آپ نے بے شمار نوٹس ترجمۃ القرآن کے لئے تحریرکئے جو بعد میں انگریزی کی تفسیر میں شامل کر دیئے گئے۔
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے واپس آنے کے بعد ۱۹۴۲ء میں ،کام کی رفتار کو تیز کرنے کے لئے حضورؓ نے علماء کا بورڈ مقرر فرمایا ۔اس میں حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓ ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ اور حضرت ملک غلام فرید صاحب ؓ شامل تھے۔ان بزرگان نے کام کو آگے بڑھانا شروع کیا ۔اکثر اوقات بورڈ کے ممبران ایک میز پر اکھٹے ہوتے اور ایک ایک لفظ پر بحث ہوتی ۔ایک ایک فقرہ بڑی احتیاط اور باہمی مشورے کے بعد لکھا جاتا ۔تشریح کرتے ہوئے یہ دیکھا جاتا کہ پرانے مفسرین نے اس آیت کی کیا تشریح کی ہے؟احادیث میں کیا لکھا ہے؟حضرت مسیح موعودؑ ،حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس کے کیا مطالب بیان فرمائے ہیں؟لغات کی اچھی طرح چھان بین کی جاتی ۔مخالفین کے اعتراضات کو مدِ نظر رکھا جاتا۔ان کے جوابات تیار کئے جاتے۔بعض اوقات چھپے چھپائے فرمے بھی رد کر کے نئے سرے سے مواد لکھنا پڑا۔اس دوران چوہدری ابو الہاشم صاحب مرحوم کو بھی خدمت کی توفیق ملی۔
ایک طویل اور صبر آزما جد و جہد کے بعد فروری ۱۹۴۷ء میںپہلے دس سپاروں پر مشتمل انگریزی تفسیر کی پہلی جلد تیار ہوئی۔ اس کی ایک خاص بات یہ تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے اس کے لئے ایک مقدمہ تحریر فرمایا جو۲۷۶ صفحات پر مشتمل تھا اور اپنی ذات میں خود ایک قابلِ قدر تصنیف کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ دیباچہ حضورؓ نے اردو زبان میں ڈکٹیٹ فرمایا تھا اور حضور ؓ کا ارادہ تھا کہ اس کی طباعت سے پہلے اس کی نظرِ ثانی فرمائیں گے مگر ۱۹۴۷ء اور ۱۹۴۸ء کے پُر آشوب دور میں حضور ؓ کی گوناں گوں مصروفیات کی وجہ سے اسے بغیر نظرِ ثانی کے شائع کرنا پڑا۔اس دیباچہ میں ضرورتِ قرآنِ مجید اور تمام بنی نوع انسان کے لئے اسلام کی ضرورت ،پرانی کتب میں تحریف کی وجہ سے پیدا ہونے والی خامیوں اور متضاد باتوں،ظہورِ آنحضرت ﷺ کی بابت پیشگوئیوں ،آنحضرت ﷺ کے حالات ِ زندگی اور آپ کی پاکیزہ سیرت ،قرآنِ کریم کی پیشگوئیوں اور معجزات جیسے اہم موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اس دیباچے کا ترجمہ پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب اور حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے کیا ۔اب تک دیباچہ تفسیر قرآن کا انگریزی ،فرنچ ،رشین اور انڈونیشین کی زبانوں میں تراجم شائع ہو چکے تھے۔ابھی پہلی جلد کے فرمے تیار ہوئے تھے کہ تقسیم ِ ملک کی وجہ سے پنجاب کے حالات خراب ہونا شروع ہو گئے اور یہ فرمے لاہور منتقل کئے گئے۔۱۹۴۸ء کے آغاز میں یہ جلد پڑھنے والوں کے ہاتھ میں پہنچی۔
آزادی کے معاََ بعد ترجمہ کرنے والے بورڈ کے انچارج حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓ انتقال فرما گئے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ پر بہت سی انتظامی ذمہ داریوں کا بوجھ آن پڑا ۔اب باقی ماندہ سارے کام کا بوجھ حضرت ملک غلام فرید صاحب ؓ کے کندھوں پر تھا گو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مشورہ میں شامل ہوتے تھے۔۱۹۶۰ء میں قرآنِ کریم کی انگریزی تفسیر کی دوسری جلد شائع ہوئی۔اس کے بعداشاعت اور تقسیم کے انتظامی کام اوریئنٹل اینڈ ریلجس پبلشنگ کارپوریشن ربوہ کے سپرد ہو گیا تو حضرت ملک غلام فرید صاحب ؓ اپنی تمام توجہ تصنیف اور تحقیق پر مرکوز کر سکے۔چنانچہ تیسری جلد صرف تین سال میں تیار ہو کر ۱۹۶۳ء میں شائع ہو گئی۔
(۱) دیباچہ تفسیر القرآن مصنفہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ص ۱و ۲
دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ اور ہندوستان میں
انتخابات کی تیاری
۱۹۴۵ء کے آغاز میں دوسری جنگِ عظیم کے ختم ہونے کے آثار تو نظر آرہے تھے لیکن ہندوستان کے افق پر مایوسی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔برطانوی حکومت نے ابھی ہندوستان کو آزادی دینے کے کسی معین پروگرام کا اعلان نہیں کیا تھا۔پنڈت جواہر لال نہرو،ابولکلام آزاد، ولبھ بھائی پٹیل اور کانگرس کے کئی اور لیڈر ابھی جیلوں میں تھے اور اس وجہ سے کانگرس اور حکومت کے درمیان تناؤ کی کیفیت تھی۔مسلم لیگ اور کانگرس کے درمیان خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی تھی۔ اسی طرح مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے اختلافات بھی منظرِ عام پر آ رہے تھے۔اور یہ خدشات ابھر رہے تھے کہ یہ صورتِ حال نئے مسائل اور فتنوں کو جنم نہ دے دے۔اس پس منظر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے سال کے آغاز میں تمام گروہوں کو اپیل کی کہ وہ آپس کے اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھائیں۔آپ نے فرمایا کہ گو جماعتِ احمدیہ کی تعداد قلیل ہے اور بہت سے حلقے اس اپیل کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے لیکن اگر تمام مبلغین اور مختلف ممالک میں قائم جماعتیں اپنا فرض ادا کریں اور اسے اپنے حلقہ میں پھیلائیں تو یہ آواز کروڑوں انسانوں تک پہنچائی جا سکتی ہے۔آپ نے واضح فرمایا کہ ہماری جماعت مذہبی جماعت ہے اور ہم سیاسیات میں ہر گز دخل نہیں دینا چاہتے لیکن یہ اختلافات ہم پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔پورے ملک میں احمدیوں پر مختلف گروہوں کا دباؤ پڑتا ہے کہ وہ ان کا ساتھ دیں ۔اور جب وہ ان کی طرف نہیں جاتے تو وہ ناراض ہوتے ہیں اور انہیں باغی قرار دیتے ہیں۔حالانکہ خدا تعالیٰ نے ہمیں ہر ایک کی خدمت کے لئے پیدا کیا ہے۔اس صورتِ حال میں احمدی راہنمائی کے لئے اپنے امام کی طرف دیکھتے ہیں۔ حضورؓ نے فرمایا کہ یہ اپیل سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی ہے اور دنیا میں صلح اور امن کو قائم کرنے کے لئے ہے۔ آپ نے انگلستان کو نصیحت فرمائی کہ وہ ہندوستان سے صلح کر لے اور اس میں انگلستان کا ہی فائدہ ہے۔کیونکہ اب ہندوستان کو وہ مرتبہ اور عزت ملنے والی ہے جو اس سے پہلے ان کو خواب میں بھی نصیب نہیں ہوئی۔انگلستا ن کے لئے ہندوستان میں ایسی وسیع منڈیاں ہیں جو اسے کہیں اور نہیں مل سکتیں ۔اور فرمایا کہ ہندوستان کو بھی یہی نصیحت ہے کہ وہ انگلستان کے ساتھ پرانے اختلافات بھلا دے تا کہ دونوں آپس میں جلد از جلد صلح کریں ۔حقیقت یہ ہے کہ کچھ دہائیوں تک ہندوستان کو ایک زبردست طاقت کی مدد کی ضرورت ہو گی ۔اور یہ ضروری ہے کہ مسلمان ،ہندو،کانگرس اور مسلم لیگ اور دوسری سیاسی پارٹیاں پہلے آپس میں صلح کریں۔موجودہ حالات میں ہندوستان کی قوموں کے آپس میں اختلافات ایسی شدت اختیار کر چکے ہیںکہ جب صلح کے سوال پر غور کرنے کے لئے بیٹھتے ہیں تو غصے میں آجاتے ہیں اور صلح کی بجائے طعن و تشنیع پر اتر آتے ہیں۔زمانہ تو یہ تھا کہ ہندو مسلمان اور دوسری قومیں بھی ایک دوسرے سے صلح کر لیتیںمگر ہو یہ رہا ہے کہ مسلمان بھی آپس میں لڑ رہے ہیں اور خواہ اوپر سے نظر نہ آئے ہندو بھی آپس میں پھٹ رہے ہیں۔اس صورتِ حال میں آپ نے ان الفاظ میں جماعت کو اپنا فرض یاد دلایا۔
’’پس یہ نیا سال جو شروع ہؤا ہے اس میں میں نے صلح کی آواز بلند کی ہے۔ہر احمدی کا فرض ہے کہ اسے ہر ملک ہر شہر ہر گاؤںہر گھر بلکہ ہر ایک کمرہ اور ہر ایک آدمی تک پہنچائے۔تا یہ دنیا کے کونہ کونہ تک پہنچ جائے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے صلح کا شہزادہ قرار دیا ہے۔اور ہم بھی جو آپ کی روحانی اولاد ہیں صلح کے شہزادے ہیں۔۔۔۔پس ہر احمدی جو صلح کا شہزادہ بننے کی کوشش نہیں کرتا وہ حضرت مسیح موعود ؑ کا سچا خادم نہیں۔‘‘(۱)
لندن میں مولانا جلال الدین شمس صاحب نے صلح کے اس پیغامِ کی اشاعت کے لئے بہت کوششیں کیں ۔مشہور جریدے ٹائمز میں اسے ایک مکتوب کی صورت میں شائع کروایا اور ایک دو ورقہ کی صورت میں شائع کروا کر اسے وزراء کے علاوہ چھ صد اراکینِ پارلیمنٹ کو بھی بھجوایا۔ان میں سے کئی اکابرین نے جواب میں شکریے کے خطوط لکھے اوران خیالات سے اتفاق کیا۔(۲)کینیا کالونی کے گورنر نے جب اس کا مطالعہ کیا تو اتنا متاثر ہوئے کہ ان کے حکم پر اس خطبہ کا مفہوم نیروبی ریڈیو سے براڈ کاسٹ کیا گیا۔(۳)
ویول سکیم اور حضور کی نصیحت:
۱۹۴۵ء کے آغاز میں جمود ٹوٹنا شروع ہؤا۔پہلے کانگرس کے لیڈر بھولا بھائی ڈیسائی صاحب اور مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل نواب زادہ لیاقت علی خان صاحب کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے۔دونوں نے اس با ت پر اتفاقِ رائے کیا کہ مرکز میں ایسی کابینہ تشکیل کی جائے جس میں کانگرس اور مسلم لیگ دونوں کے پاس چالیس چالیس فیصد وزارتیں ہوں اور بیس فیصد وزارتیں سکھ اور اچھوت اقوام سے تعلق رکھنے والوں کے لئے مخصوص کی جائیں ۔برطانوی وائسرائے اور کمانڈر انچیف بدستور کابینہ میں شامل رہیں۔یہ طے کیا گیا کہ جب یہ عارضی حکومت بن جائے تو اس کا پہلا قدم کانگرس کے گرفتار لیڈروں کو رہا کرانا ہو گا۔اس کے بعد مارچ ۱۹۴۵ء میںوائسرائے لارڈ ویول(Wavell) برطانوی وزیرِ اعظم سے مشورہ کرنے کے لئے لندن چلے گئے۔ہندوستان واپس آنے پر انہوں نے مرکز میں عبوری حکومت قائم کرنے کے لئے اپنی تجاویز پیش کیں ۔یہ تجاویز تاریخ میں ویول سکیم کے نام سے معروف ہیں۔اس سکیم میں تجویز کیا گیا تھامرکز میں ایک ایسی وزارت قائم کی جائے جس میں وائسرائے اور وزیرِ جنگ کے علاوہ تمام وزیر ہندوستان کے ہوں ۔مسلمانوں اور اعلیٰ ذات کے ہندؤں کے پانچ پانچ اراکین کابینہ میں شامل ہوں ۔ان کے علاوہ سکھوں اور اچھوت اقوام سے تعلق رکھنے والوں کو بھی نمایندگی دی جائے اور یہ کابینہ جاپان کی مکمل شکست تک جنگ جاری رکھے اور اس وقت تک حکومت کو چلائے گی جب تک ایک جدید دستور پر اتفاق نہ ہو جائے۔(۴،۵)
اس طرح ایک عرصہ کے بعد ہندوستانیوں کے لئے آزادی کی امید پیدا ہوئی مگر اس کے ساتھ ہی مختلف سیاسی جماعتوں کے باہمی اختلافات بھی زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آ نے لگے۔حضورؓ نے ۲۲ جون کے خطبہ جمعہ میں اس پیش کش کو ایک مثبت قدم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس پیش کش کو رد کر دینا ہندوستان کی بد قسمتی ہو گی کیونکہ اگر انگریزوں کے ہاتھ میں سو فیصد اختیارات کے ہوتے ہوئے ہندوستان آزادی کی امید رکھ سکتا ہے تو نوے فیصد اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لے کر آزادی کی امید کیوں نہیں رکھ سکتا۔حضورؓ نے ہندوستان میں پیدا ہونے والی غلامانہ ذہنیت کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ صرف گاندھی جی اورپنڈت جواہر لال نہروکو دیکھ کر یہ خیال کر لینا کہ ہندوستان ترقی کر رہا ہے محض حماقت ہے اور چند بڑے لیڈروں کی وجہ سے یہ سمجھ لیناکہ ہندوستان میں آزادی کی روح پیدا ہو گئی ہے ایک جہالت کی بات ہے۔ یہ دور اس وقت تک نہیں بدلے گا جب تک ان کے ذہنوں سے یہ نکل نہ جائے کہ ہم غلام ہیں۔آپ نے ان الفاظ میں سیاسی لیڈروں کو یکجہتی سے کام لینے کی اپیل فرمائی
’’چالیس کروڑ انسانوں کی ذہنیت نہایت خطرناک حالت میں بدل چکی ہے۔نسلاََ بعد نسلِِ وہ ذلت اور رسوائی کے گڑھے میں گرتے چلے جاتے ہیں۔وہ انگریز جس نے ہندوستان پر قبضہ کیا ہؤا ہے۔وہ ہندوستان کو آزادی دینے کا اعلان کر رہا ہے۔لیکن سیاسی لیڈر آپس میں لڑ رہے ہیں۔کہ تمہارے اتنے ممبر ہونے چاہئیں اور ہمارے اتنے۔اگر ہندوستان کی سچی محبت ان کے دلوں میں ہوتی تو میں سمجھتا ہوں ان میں سے ہر شخص کہتا کہ کسی طرح ہندوستان آزاد ہو جائے۔کسی طرح چالیس کروڑ انسان غلامی کے گڑھے سے نکل آئے۔چلو تم ہی سب کچھ لے لو مگر ہندوستان کی آزادی کی راہ میں روڑے مت اٹکاؤ۔‘‘(۶)
وائسرائے نے اس سکیم پر مذاکرات کے لئے اہم سیاسی لیڈروں کو شملہ مدعو کیا اور بہت سی امیدوں اور خدشات کے درمیان ۲۵ جون ۱۹۴۵ء کو وائسرائے لاج کے بال روم میں اس کانفرنس کا آغاز ہؤا۔ہندوستان کے بائیس چیدہ چیدہ لیڈر اس میں شرکت کر رہے تھے۔کانگرس کی نمایندگی ابوالکلام آزاد کر رہے تھے اور گاندھی جی بھی مذاکرات میں شرکت کے لئے شملہ آئے ہوئے تھے۔مسلم لیگ کی نمایندگی قائدِ اعظم محمد علی جناح صاحب کر رہے تھے ۔تمام پیش رفت ایک ہی اختلافی نقطے پر آکر رک جاتی تھی۔مسلم لیگ کا دعویٰ تھا کہ وہ مسلمانوں کی نمایندہ جماعت ہے اور نئی کابینہ میں مسلمانوں کی تمام نشستوں پر اس کے مقرر کردہ وزراء مقرر ہونے چاہئیں ۔جبکہ ہندوؤں کے لئے مخصوص نشستوں پر کانگرس کے نامزد کردہ وزراء مقرر ہوں۔لیکن کانگرس کا اصرار تھا کہ مسلم لیگ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی نمایندگی نہیں کرتی ۔اس لئے تمام مسلمان وزراء مسلم لیگ سے نہیں لئے جا سکتے۔اور بہت سے علماء بھی کانگرس کے موقف کی حمایت کر رہے تھے۔آخرمیں وائسرائے ویول کی رائے تھی کہ پانچ مجوزہ مسلمان وزراء میں سے چار مسلم لیگ کے ہوںاور ایک مسلمان وزیر مسلم لیگ سے باہر سے لیا جائے۔مگر مسلم لیگ کو یہ منظور نہیں تھا ۔تمام بحث و تمحیث کے بعد جولائی کے وسط میں یہ کانفرنس بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئی۔اس طرح باہمی تعاون اور افہام و تفہیم سے آزادی کی منزل کی طرف بڑھنے کا یہ سنہرا موقع ہاتھ سے نکل گیا۔وزیرِ ہند ایمرے نے وائسرائے ویول کے نام مراسلے میں لکھا کہ اب یا تو کانگرس کو پاکستان کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑے گا یا پھر انہیں جناح کے مقابل پر مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنی ہو گی۔کانگرس میں شامل مسلمانوں کے نمائشی چہرے سے کام نہیں چلے گا۔یہ ضروری نہیں ہے کہ آئندہ انتخابات میںمسلمان اکثریت کے صوبوں میں جناح کو کو مکمل کامیابی حاصل ہو لیکن اگر ایسا ہوگیا تو پھر اس دعوے کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ تمام مسلمان نمائندے مسلم لیگ سے ہی ہونے چاہئیں ۔(۷)
اس کانفرنس کے اختتام کے معاََ بعد وائسرائے نے تمام ہندوستان کے گورنروں کی میٹنگ طلب کی۔جب سیاسی اختلافات ایک بند راستے کے اختتام پر پہنچ جائیں تو پھر ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ انتخابات کرا کے عوام کی رائے معلوم کر لی جائے ۔اس میٹنگ میں بھی یہ تجویز زیرِ غور تھی۔پنجاب کے گورنر گلانسی کا خیال تھا کہ فوری انتخا بات نہیں کرانے چاہئیں۔بلکہ ایک اقتصادی منصوبہ بندی کانفرنس منعقد کرنی چاہئیے جس کے نتیجے میں مسلم لیگ پر نظریہ پاکستان کے سقم واضح ہو جائیں گے۔بنگال کے گورنر کا کہنا تھا کہ سوائے مسٹر جناح کے کسی کو علم ہی نہیں کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے۔(۷)
ابھی ہندوستان میں سیاسی منظر افراتفری کا شکار تھا کہ برطانیہ کے سیاسی پس منظر پر بھی ایک اہم تبدیلی رونما ہوئی۔جب لیبر پارٹی نے متحدہ حکومت سے علیحدگی اختیار کی تووزیرِ اعظم چرچل کی حکومت نے نئے انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا۔جولائی ۱۹۴۵ء کے آخر میں نئے انتخابات ہوئے اور غیر متوقع طور پر لیبر پارٹی انتخابات جیت گئی اب چرچل ۱۰ ڈاؤننگ سٹریٹ سے رخصت ہو رہے تھے اور ایٹلے نئے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے ذمہ واریاں سنبھالنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔
ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی تباہی اور حضورؓ کی طرف سے اس کی شدید مذمت
انہی دنوں میں پسِ پردہ خطرات کا ایک عفریت دبے پاؤں انسانیت کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ پوسٹ ڈیم (Postdam)کے مقام پرامریکہ،برطانیہ اور سوویت یونین کے لیڈروں کی ایک اہم کانفرنس ہو رہی تھی۔اور ہزاروں میل دور نیو میکسیکو کے مقام پر تاریخِ انسانی کے خوفناک ترین ہتھیار کے پہلے تجربے کی تیاریاں ہو رہی تھیں،جس کی تباہ کاری کے سامنے تمام سابقہ ہتھیار کھلونوں سے زیادہ حیثیت نہیںرکھتے تھے۔۱۶ جولائی ۱۹۴۵ء کو امریکی صدر ٹرومین کو پیغام ملا کہ نیومیکسیکو میں ہونے والا ایٹم بم کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔اگلے روز ہی صدر ٹرومین نے اعلیٰ سطح کی میٹننگ طلب کی۔اس وقت فوجی جنرلوں نے صدر کو یہی مشورہ دیا کہ اس بم کو استعمال کرنے کی بجائے،جاپان پر طے شدہ پروگرام کے مطابق حملہ کیا جائے۔صدر ٹرومین کے بعض مشیر اس کے استعمال کی حمایت کر رہے تھے،آخری فیصلہ صدر کے ہاتھ میں تھا۔ٹرومین نے ایٹم بم کو استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ان کا موقف تھا کہ یہ بم استعمال نہ کرنے کی صورت میں جنگ اور طویل ہوجائے گی اور امریکی فوج اور مخالفین کا مزید جانی نقصان ہو گا۔۲۴ جولائی کو ایئر فورس کے متعلقہ افسر کو ہدایت دی گئی کہ ۳ اگست کے بعدکے موسم کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جاپان کے ان تین شہروں میں سے کسی ایک پر ایک سپیشل بم گرانے کی تیا ریاں کی جائیں ۔اس کے ساتھ ہی جاپان کو ایک ایلٹی میٹم جاری کیا گیا ۔۲۸ جولائی کو جاپان ریڈیو نے اعلان کیا کہ جاپان جنگ جاری رکھے گا۔بالآخر ۶؍ اگست کو وہ دن آ گیا جو دنیا کی تاریخ کے سیاہ ترین دنوں میں سے ایک ہے۔ایئر فورس کاایک B.29جہاز ایٹم بم کو لے کر ہیروشیما کی طرف جا رہا تھا۔کرنل پال ٹیبٹس (Paul Tibbets) اس جہاز کی کمان کر رہے تھے ۔ستم ظریفی یہ کہ اس ایٹم بم کا نام ننھا لڑکا(little boy) رکھا گیا تھا۔شہر کے وسط میں پہنچ کر بم کو گرا دیا گیا۔زمین کی سطح سے قریباََ ۶۰۰ میٹر کے فاصلے پر بم پھٹ گیا۔ایک عظیم شعلہ تھا جس نے سارے شہر کو جھلس کر رکھ دیا۔ایک عظیم دھماکا تھا جس کے آگے ہر چیز خاک کے ذروں کی طرح بکھرتی گئی۔ایک موت کا پیغام تھا جس کے نتیجے میں اسی ہزار انسان تو فوراََ مر گئے اور ایک لاکھ سے زائد بعد میںریڈیائی شعاؤںکے اثر اور دیگر عوارض سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرے۔ صدر ٹرومین بحری جہازAugusta میں امریکہ واپس آرہے تھے کہ انہیں اس تباہی کی خبر دی گئی۔ان کے پاس اس بھیانک تباہی پر غمزدہ ہونے کا وقت نہیں تھا یا اس کی صلاحیت نہیں تھی۔اس بم کے استعمال کے مستقبل میںکیا مضمرات ہو سکتے ہیں اس کی انہیں کوئی فکر نہیں تھی۔وہ خود تحریر کرتے ہیں کہ انہوں نے اس وقت جہاز کے عملے کو مخاطب کر کے کہا ،’’This is the greatest thing in history‘‘یعنی یہ تاریخ کا عظیم ترین واقعہ ہے۔حیرت ہے کہ وہ عظیم ترین واقعے اور بھیانک ترین واقعے میں فرق نہیں کر پا رہے تھے۔اس کے بعد صدرِ امریکہ نے خود جہاز کے عملے کواوروہاں پرموجود فوجی افسران کویہ خبر سنائی۔پھر جہاز پر ہی ایک پریس کانفرنس منعقد کی گئی جس میں صدر ٹرومین نے اس کامیابی کا اعلان کیا۔جب فتح کے شادیانے بجائے جا رہے ہوں تو بسا اوقات لاکھوں انسانوں کی چیخ و پکار بھی سنائی نہیں دیتی۔(۸)
جب تین دن گذر گئے اور جاپان نے ہتھیار نہیں ڈالے تو پھردوسرے بم کو گرانے کا فیصلہ کیا گیا۔اب کے پائیلٹ کو ہدایت تھی کہ وہ جاپان کے شہر Kokuraپر یہ بم گرائے ۔جہاز شہر کے اوپر پہنچ گیا تو شہر بادلوں میں چھپا ہؤا تھا۔تین مرتبہ شہر پر سے گذرنے کے باوجودپائیلٹ کو موقع نہ ملا ،جہاز کا ایندھن ختم ہو رہا تھا۔مجبوراََ جہاز کا رخ ثانوی ٹارگٹ ناگاساکی کی طرف کر دیا گیا۔یہاں بھی بادل چھائے ہوئے تھے۔مگرپائیلٹ کو ان بادلوں میں ایک سوراخ نظر آیا اور جہاز نے نیچے آ کر بم کو ناگا ساکی پر گرا دیا۔ناگاساکی کا بھی وہی حشر ہؤا جو ہیروشیما کا ہو چکا تھا۔چند ہی لمحوں میں ۷۵۰۰۰ افراد لقمئہِ اجل بن گئے۔بعد میں تقریباََ اتنے ہی زخموں سے اور ریڈیائی شعائوں سے ہلاک ہوئے۔اب یہ واضح نظر آرہا تھا کہ اگر جاپان نے ہتھیار نہ ڈالے تو ایک ایک کر کے اس کے تمام شہرتباہ کر دیئے جائیں گے۔ناگا ساکی کے سانحے کے معاََ بعد جاپان کی حکومت نے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر دیا۔تاریخِ عالم کی سب سے خوفناک جنگ ختم ہو رہی تھی ۔لیکن اس کے آخری دنوں میں خون کی وہ ہولی کھیلی گئی کہ جس کے داغ آج تک انسانیت کے دامن کو بد نما بنا رہے ہیں۔ایٹم بم کو استعمال کرنے کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط۔ا’س وقت بھی اس مسئلے پر متضاد آراء سامنے آرہی تھیں اور آج تک اس پربحث مباحثے ہوتے رہتے ہیں۔سانحہِ ناگاساکی کے اگلے روز حضور نے خطبہِ جمعہ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا
’’یہ ایک ایسی تباہی ہے جو جنگی نقطہ گاہ سے خواہ تسلی کے قابل سمجھی جائے لیکن جہاں تک انسانیت کا سوال ہے اس قسم کی بمباری کو جائزقرار نہیں دیا جاسکتا ۔ہمیشہ سے جنگیں ہوتی چلی آئی ہیں۔اور ہمیشہ سے عداوتیں بھی رہی ہیں۔لیکن باوجود ان جنگوں کے اور باوجود ان عداوتوں کے ایک حد بندی بھی مقرر کی گئی تھی جس کوتجاوز نہیںکیا جاتا تھا ۔لیکن اب کوئی حد بندی نہیں رہی۔کون کہہ سکتا ہے کہ وہ شہر جس پر اس قسم کی بمباری کی گئی ہے وہاں عورتیں اور بچے نہیں رہتے تھے اور کون کہہ سکتا ہے کہ لڑائی کی ذمہ داری میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔اگر جوان عورتوں کو شامل بھی سمجھا جائے تو کم از کم بلوغت سے پہلے کے لڑکے اور لڑکیاں لڑائی کے کبھی بھی ذمہ دارنہیں سمجھے جا سکتے۔پس گو ہماری آواز بالکل بیکار ہو لیکن ہمارا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اعلان کردیں کہ ہم اس قسم کی خون ریزی کو جائز نہیں سمجھتے ۔خواہ حکومتوں کو ہمارا یہ اعلان برا لگے یا اچھا۔‘‘(۹)
پھر حضورؓ نے فرمایا
’’اور جب دنیا کے خیالات اس طرف مائل ہوں گے کہ جتنے زیادہ خطر ناک ہتھیار ملتے جائیں۔ان کو استعمال کرو ۔تو لازماََ دنیا میں فساد جنگ اور خون ریزی بڑھے گی۔پس میرا یہ مذہبی فرض ہے کہ میں اس کے متعلق اعلان کردوں۔گو حکومت اسے براسمجھے گی۔لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ امن کے رستے میں یہ خطرناک روک ہے۔اس لیئے میں نے یہ بیان کر دیا ہے کہ ہمیںدشمن کے خلاف ایسے مہلک حربے استعمال نہیں کرنے چاہئیں جو اس قسم کی تباہی لانے والے ہوں۔ہمیں صرف وہی حربے استعمال کرنے چاہئیں جو جنگ کے لیئے ضروری ہوں۔‘‘(۱۰)
ہندوستان میں انتخابات کا اعلان اور مسلم لیگ کی حمایت کا فیصلہ:
اس تباہی کے ساتھ دوسری جنگِ عظیم کا اختتام ہو گیا۔اور اب تاریخ کا ایک اہم باب شروع ہو رہا تھا ۔اس وقت ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ممالک یوروپی طاقتوں کے تسلط میں تھے۔اب ان کی آزادی کے دن قریب آ رہے تھے۔ستمبر ۱۹۴۵ء میں وائسرائے ہندنے اعلان کیا کہ اس سال کے آخر اور اگلے سال کے آغاز پر ہندوستان میں انتخابات کرائے جائیں گے۔اس وقت کے قانون کے مطابق ہر مذہب کے لوگ علیحدہ علیحدہ اپنے نمایندوں کا انتخاب کرتے تھے۔یہ بات تو واضح تھی کہ ہندو سیٹوں پر کانگرس بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جائے گی لیکن ویول سکیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بحث اس سوال کے گرد گھوم رہی تھی کہ مسلمانوں کی نمایند گی کا حق کس جماعت کو حاصل ہے ۔مسلم لیگ کا دعویٰ تھا کہ وہ مسلمانوں کی واحد نمایندہ جماعت ہے اور کانگرس اس بات کو تسلیم کرنے کے لیئے تیار نہیں تھی۔چنانچہ اس انتخاب میں زیادہ دلچسپی اس بات میں لی جارہی تھی کہ مسلمانوں کی سیٹوں پر کون سی پارٹی کامیابی حاصل کرتی ہے۔
ہر پارٹی کی کوشش تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کا ساتھ دیںاور یہ کوشش کئی سالوں سے چل رہی تھی۔ہندوستان کے باقی باشندوں کی طرح احمدیوں سے بھی رابطہ کیا جارہا تھا۔اورد وسرے رائے دہندگان کی طرح انہیں بھی اس بارے میں ایک فیصلہ کرنا تھا۔ایک طرف کانگرس مسلمانوں کو اپنے اندر شامل ہونے کی دعوت دے رہی تھی اور دوسری طرف مسلم لیگ کی کوشش تھی کہ مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے۔اکتوبر ۱۹۳۷ء میں اس مسئلے پر جماعت ِ احمدیہ کی شوریٰ کا خاص اجلاس بلایا گیا۔اس میں فیصلہ ہؤا کہ ناظر امورِ خارجہ دونوں جماعتوں سے خط و کتابت کر کے اگلی مجلسِ شوریٰ میں نتائج کو پیش کریں۔اس ضمن میں جماعت کے سامنے پہلا سوال مذہبی آزادی اور تبلیغ کی آزادی کا تھا۔چنانچہ کانگر س سے استفسار کیا گیا کہ تبلیغ اور مذہب تبدیل کرنے کی مکمل آزادی کے بارے میں اس کا مؤقف کیا ہے ؟ کیا وہ اس بات پر تیار ہیں کہ اپنے دستورِ اساسی میں اس کا واضح الفاظ میں اعلان کریں کہ ہندوستان میں ہر فریق کو مذہب اور تبلیغ کی آ زادی ہو گی۔اس استفسار کا پس منظر یہ تھا کہ برطانیہ کے زیرِ تسلط ہندوستان میں تو تبلیغ کرنے اور اپنا مذہب تبدیل کرنے کی قانونی آزادی تھی لیکن ہندوستان کی بہت سی ریاستوں میں تبدیلیِ مذہب پر قانونی قدغن لگائی گئی تھی۔سب سے پہلے ۱۹۳۶ء میں رائے گڑھ میں مذہب تبدیل کرنے کے خلاف قانون سازی کی گئی۔اس کے بعد پٹنہ،اودے پور،بیکانیر،جودھ پور اور دوسری ریاستوں میں ایسے قانون بنائے گئے جس کے نتیجے میں اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرنے کا بنیادی حق متاثر ہوتا تھا(۱۱)۔
گاندھی جی کا نظریہ تھا کہ جس طرز پر آج کل ہندوستان میں تبلیغ کرکے لوگوں کا مذہب تبدیل کیا جارہاہے وہ شاید دنیا میں امن قائم کرنے اور دنیا کی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ایک عیسائی اس بات کی کوشش کیوں کرتا ہے کہ ایک ہندو عیسائی ہو جائے وہ اس بات پر مطمئن کیوں نہیں ہوتا کہ ایک ہندو ہندو رہتے ہوئے اچھا اور خدا رسیدہ انسان بن جائے۔(۱۲)وہ اس بات کے قائل نہیں تھے کہ ایک انسان دوسرے انسان کا مذہب تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔(۱۳) ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے بس میں ہوتو ایسی تبلیغ کے خلاف قانون سازی کردیں جس کا مقصد لوگوں کا مذہب تبدیل کرنا ہو۔ان دنوں میں عیسائی مشنریوں نے بڑے پیمانے پر اچھوت اقوام میں تبلیغ کا کام شروع کیا تھا ۔گاندھی جی اس مہم کے سخت مخالف تھے۔ان کا مؤقف تھا کہ یہ لوگ پسماندگی اور تعلیم کی کمی کے باعث مذہبی معاملات میں ایک گائے سے زیادہ فہم نہیں رکھتے۔لہذا ن کو تبلیغ کرنے کا کیا فائدہ؟یہ اتنی سمجھ نہیں رکھتے کہ اپنا مذہب تبدیل کرنے کا صحیح فیصلہ کر سکیں۔(۱۳)
دوسری طرف جماعتِ احمدیہ کا ہمیشہ سے یہ مؤقف ہے کہ ہر شخص کو اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کی آزادی ہونی چاہئیے ۔ہر شخص اگر چاہے تو اپنا مذہب تبدیل کرسکتا ہے۔اگر ایک شخص کم علم ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسے اپنی مرضی کا مذہب اختیار کرنے کا حق حاصل نہیں۔وہ اس بارے میں جو فیصلہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے یا غلط۔یہ اس کا ذاتی مسئلہ ہے۔سٹیٹ کو ،قانون کو یا کسی سیاسی پارٹی کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہئیے کہ وہ اس پر کوئی پاپندی لگائے۔
اسی طرح جماعت کی طرف سے پیر اکبر علی صاحب نے مسلم لیگ کے ساتھ خط و کتابت شروع کی اور ناظر صاحب امورِ خارجہ بھی پنجاب مسلم لیگ کے صدر سے ملے۔پنجاب مسلم لیگ کا ایک طبقہ جماعت کو اپنے ساتھ شامل کرنے پر تیار نہیں تھا۔ا ن میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جواپنی پارٹی کے قانون میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کران پر مسلم لیگ کی رکنیت کے دروازے بند کرنا چاہتے تھے۔پنجاب مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر بعض علماء اس بات کا اعلان کر رہے تھے کہ جب تک انگریز اور ہندوؤں کی سیاست کا سامنا ہے اس کے مقابلے کے لئے قائدِ اعظم محمد علی جناح بہترین رہنما اور ترجمان ہیں ۔جب پاکستان قائم ہو جائے گا اس وقت علماء کے مشورے سے طرزِ حکومت قائم کی جائے گی۔اور علماء کہلانے والے اس گروہ کے جماعت ِ احمدیہ کے متعلق کیا عزائم تھے ؟اس سوال کا جواب بالکل واضح تھا۔ (۱۴)دوسری طرف مرکزی مسلم لیگ کا رویہ اس کے بالکل برعکس تھا۔وہ احمدیوں کو اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتے تھے۔بلکہ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب مسلم لیگ کے صدر بھی رہ چکے تھے۔جماعت احمدیہ مسلم لیگ کی قیادت کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ ان کی پارٹی کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ واضح طور پر اپنے قواعدِ اساسی میں یہ قاعدہ شامل کریں کہ ہر وہ جماعت جو اپنے آپ کو مسلمان کہے ،مسلم لیگ کی اغراض کے لیئے مسلمان تصور ہو گی اور جماعت کے مخالفین اس کے برعکس کوششیں کر رہے تھے۔
۱۹۳۸ء کی مجلس مشاورت میں یہ معاملہ دوبارہ پیش ہؤا۔حضورؓ نے ارشاد فرمایا کہ چونکہ مسلم لیگ اور کانگرس کی طرف سے کوئی قطعی جواب نہیں آیا۔اس صورت میں ہمیں جلدی کی کوئی ضرورت نہیں۔اس لئے میرے نزدیک اس معاملہ کے متعلق یہی بہتر ہے کہ اسے ملتوی کر دیا جائے۔دورانِ سال میں محکمہ خط و کتابت کرتا رہے۔اور اگر ضرورت محسوس ہو ۔تو اس کے لئے خاص میٹنگ کرلی جائے۔
اگست ۱۹۳۹ء میں کانگرس کی طرف سے واضح جواب موصول ہؤا۔کانگرس تبلیغ اور تبدیلیِ مذہب کے حوالے سے اپنے قواعدِ اساسی میں تبدیلی کرنے پر تیار نہیں تھی۔قواعدِ اساسی کی جو کاپی جماعت کو بھجوائی گئی وہ اس بارے میں مبہم تھی۔اس جواب کے پیشِ نظر کانگرس کے ساتھ خط و کتابت بند کرنی پڑی۔مسلم لیگ کے ساتھ خط و کتابت بھی مکمل طور پر نتیجہ خیز نہیں رہی۔ان کی طرف سے یہ عذر پیش کیا گیا کہ عملاََ ہر فرقہ کے مسلمان آل انڈیا مسلم لیگ کے ممبر ہیں اس لئے اگر قواعدِ اساسی میں یہ قاعدہ داخل کیا گیا کہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہے وہ مسلم لیگ کی اغراض کے لئے مسلمان سمجھا جائے گا تو اس سے بہت سے جھگڑوں کا دروازہ کھل جائے گا۔لیکن حقائق سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتی تھیں۔کچھ عرصہ قبل ہی پنجاب پارلیمنٹری بورڈمیں یہ سوال اٹھایا گیا کہ احمدی مسلمان ہیں کہ نہیں اور اس سوال پر احمدی ممبران کو خارج کر دیا گیا تھا۔گو وہ بورڈ خود کالعدم ہو گیا اور آل انڈیا مسلم لیگ نے اس کی تصدیق نہیں کی لیکن اس کی تردید بھی نہیں کی۔مگر تکفیر کا یہ شوق پنجاب مسلم لیگ تک ہی محدود تھا ۔مرکز اور باقی صوبوں کی مسلم لیگ کا رویہ اس کے بر عکس تھا ۔اس صورتِ حال میں ۱۹۴۰ء کی مجلسِ مشاورت میں یہ سفارش کی گئی تھی کہ مسلم لیگ سے خط و کتابت جاری رکھی جائے۔ (۱۵۔۱۸) تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب ایک طبقہ جماعتِ احمدیہ کی نا جائز مخالفت پر کمر بستہ ہوتا ہے تو پھر یہ طبقہ محض منفی سرگرمیوں میں ہی ترقی کرتا ہے۔رفتہ رفتہ اس طبقہ میں مثبت رحجانات کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے ۔یہی حال اُس وقت پنجاب مسلم لیگ کے اس گروہ کا تھا ۔ایک طر ف تویہ گروہ احمدیوں کے خلاف کفر کے فتوے دینے میں پیش پیش تھا اور دوسری طرف پنجاب کی مسلم لیگ اپنے بنیادی فرائض بھی ادا نہیںکر پا رہی تھی اور ان نازک حالات میں اس پر سکوتِ مرگ کی کیفیت طاری تھی۔چنانچہ اس صورتِ حال کا ماتم کرتے ہوئے اخبار زمیندارنے ،جس کے ایڈیٹر ظفر علی خان صاحب تھے،جو پنجاب مسلم لیگ کے لیڈر ہونے کے علاوہ ،جماعتِ احمدیہ کی مخالفت میں بھی پیش پیش تھے،اپنے اداریے میں لکھا
’لیکن افسوس حالات کی یہ نزاکت اور ماحول کی یہ فتنہ سامانی بھی مسلمانوں کو خود غرضیوں سے باز نہ رکھ سکی۔آج ہمیں سب سے زیادہ شکوہ پنجاب مسلم لیگ سے ہے ۔۔۔۔لیکن جہاں اغیار اس قدر سر گرمِ عمل ہیں وہاں پنجاب پراونشل مسلم لیگ پر سکوتِ مرگ طاری ہے ۔یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ پنجاب مسلم لیگ آج جن ہاتھوں میں ہے اور جن خاص مقاصد کے پیشِ نظر انہوں نے اس ادارہ پر قبضہ کیا ہے ان کی مصلحتیں اس ادارہ سے ذاتی اغراض حاصل کرنا تو چاہتی ہیں لیکن اسے بیکار نہیں دیکھ سکتیں ۔لیکن کیا ان کی اغراض کے مقابلے میں اسلامی مفاد کوئی وقعت نہیں رکھتے۔کیا وہ وقتی طور پر بھی اس ادارہ کی زندگی گوارا نہیں کر سکتے ۔اسی لاہور میں اینٹی پاکستان کانفرنس منعقد کی گئی لیکن پنجاب مسلم لیگ ٹیپ روڈ اور ایمپرس روڈ سے یہ تماشہ دیکھتی رہی ۔اسے یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ بھی پاکستان کانفرنس منعقد کر کے بڑھتے ہوئے فتنہ کا سدِ باب کرتی ۔آج مردم شماری کا مسئلہ تمام قوموں کی خصوصی توجہات کا مرکز بنا ہؤا ہے ۔اوران کی سرگرمیوں کا مرکز بھی پنجاب ہی ہے ۔کہیں مردم شماری کا ہفتہ منایا جا رہا ہے ۔کہیں کانفرنسیں منعقد کر کے مسلمانوں کی مردم شماری کے راستے میں کانٹے بکھیرنے کا سامان کیا جا رہا ہے ۔لیکن پنجاب مسلم لیگ کے بڑے آ دمیوں کو اس مردم شماری کے نتائج کی کوئی پروا ہی نہیں ہے۔
۔۔۔پنجاب مسلم لیگ جو زندہ دلوں کے صوبہ کی جماعت ہے جس مردہ دلی کا ثبوت دے رہی ہے اس سے مسلم لیگ کے ہر بہی خواہ کی گردن شرم سے جھک جاتی ہے ۔‘(۱۹)
بعد میں بعض مولویوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ۱۹۴۴ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں کوشش کی تھی کہ یہ قانون بن جائے کہ کوئی احمدی مسلم لیگ کا ممبر نہیں بن سکتا ۔کافی حمایت بھی حاصل کر لی گئی تھی لیکن خود قائدِ اعظم نے مداخلت کر کے یہ قرارداد واپس لینے پر آمادہ کر لیا۔(۲۰)
بنیادی سوالات سے گریز کا انجام:
بسا اوقات اگرکسی بنیادی اہمیت کے مسئلے پر دو ٹوک مؤقف اختیار نہ کیا جائے تو یا تو بعد میں اس کے بھیانک نتائج نکلتے ہیں یا پھر مدتوں تک اس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔اس وقت مرکزی مسلم لیگ نے مسلمان کی تعریف والے مسئلے پر مخالفانہ رویہ تو نہیں دکھایا مگر اس کو اصولی طور پر اپنے دستورِ اساسی میں وضاحت کے ذریعہ طے بھی نہیں کیا۔اس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ بعد میں اس بنیاد پرپاکستان میں فرقہ وارانہ تعصب کا دروازہ کھلتا گیا۔اور اس تعصب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا رحجان بھی بڑھتا گیا۔بالآخر ۱۹۷۴ء میں آئین میں ترمیم کے ذریعہ احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیا گیا اور ۱۹۸۴ء میں جماعت کے خلاف آرڈیننس جاری کر کے تعصب اور تنگ نظری کا ایک اور سیاہ باب رقم کیا گیا۔نفرت کا یہ طوفان صرف احمدیوں تک محدود نہ رہا بلکہ فرقہ وارانہ اختلافات نے وہ خونی شکل اختیار کی کہ ملک کا امن برباد ہو کر رہ گیا۔دوسری طرف بھارت میں مذہبی تعصب کو قانونی شکل دینے کے عمل نے یہ انتہائی شکل تو اختیار نہ کی مگر ۱۹۵۴ء اور ۱۹۶۰ء میںہندوستان کی پارلیمنٹ میں ایسے بل پاس کرانے کی ناکام کوشش ہوئی جس کے نتیجے میں تبلیغ اور تبدیلیِ مذہب کی آزادی متاثر ہو سکتی تھی۔ پھر ۱۹۶۷ء کے بعد پہلے اڑیسہ اور مدھیا پردیش کی ریاستوں نے ،ان کے بعد اروناچل پردیش اور آخر میں تامل ناڈو کی حکومتوں نے ایسے قوانین کی منظوری دی جس کے ذریعہ تبلیغ اور تبدیلیِ مذہب پر حکومت کو کنٹرول کا اختیار مل گیا اور ان بنیادی حقوق کی مکمل آزادی متاثر ہوئی۔(۱۱)
بہر حال اب ۱۹۴۵ء کے تاریخی الیکشن قریب تھے ۔ہندوستان کے احمدی راہنمائی کے لئے اپنے امام کی طرف دیکھ رہے تھے۔۲۲ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو الفضل میں حضورؓ کی طرف سے ایک تفصیلی اعلان شائع ہؤا۔اس میں حضور نے تحریر فرمایا
’’میری اور جماعتِ احمدیہ کی پالیسی شروع سے یہ رہی ہے۔کہ مسلمان ہندوؤں اور سکھوں اور دوسری اقوام میںکوئی با عزت سمجھوتہ ہو جائے۔اور ملک میں محبت اور پیار اور تعاون کی روح کام کرنے لگے۔مگر افسوس کہ اس وقت تک ہم اس غرض میں کامیاب نہیں ہو سکے۔۔۔۔
اگر کسی طرح ہندو اور مسلمان قریب لائے جا سکیں ۔تو پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کا آپس میں قریب لانا بھی مشکل نہ ہو گا۔ورنہ پاکستان یا اکھنڈ ہندوستان ہوں یا نہ ہوں۔پاکھنڈ ہندوستان بننے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں۔‘‘
کانگرس نے شملہ کانفرنس کی ناکامی سے بد دل ہو کر اعلان کیا تھا کہ وہ اب مسلم لیگ سے گفتگو نہیں کرے گی بلکہ براہِ راست مسلمانوں کو مخاطب کرے گی۔حضور نے واضح فرمایا کہ اگر شروع سے کانگرس کا یہ نظریہ ہوتا تو میں اسے حق بجانب سمجھتا مگر اب جب کہ مسلمان ایک متحدہ محاذ قائم کر چکے ہیں ان کا یہ فیصلہ ان کے لئے بھی تکلیف کا باعث ہؤا ہے جو کانگرس سے ہمدردی رکھتے ہیں۔گو ہم دل سے پہلے بھی ایسے اکھنڈہندوستان کے ہی قائل تھے جس میں مسلمان کا پاکستان اور ہندو کا ہندوستان برضا و رغبت شامل ہوں۔ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ ساری دنیا کی ایک حکومت قائم ہو تا انسانیت بھی اپنے جوہر دکھانے کے قابل ہومگر ہم اس کو آزاد قوموں کی آزاد رائے کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں جبر اور زور سے کمزور کو اپنے ساتھ ملانے سے یہ مقصد نہ دنیا کے بارہ میں پورا ہو سکتا ہے۔ اور نہ ہندوستان اس طرح اکھنڈ ہندوستان بن سکتا ہے۔اس تجزیے کے بعد حضور نے تحریر فرمایا
’’میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں ۔کہ آئیندہ الیکشنوں میں ہر احمدی کو مسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہئیے۔تا انتخابات کے بعد مسلم لیگ بلا خوفِ تردید کانگرس سے یہ کہہ سکے۔کہ وہ مسلمانوں کی نمایندہ ہے۔اگر ہم اور دوسری مسلمان جماعتیں ایسا نہ کرینگی۔تو مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کمزور ہو جائیگی ۔اور ہندوستان کے آیندہ نظام میں ان کی آواز بے اثر ثابت ہو گی۔۔۔
پس میں اس اعلان کے ذریعہ سے پنجاب کے سوا (جس کی نسبت میں آخر میں کچھ بیان کرونگا)تمام صوبہ جات کے احمدیوں کو مشورہ دیتا ہوں۔کہ وہ اپنی اپنی جگہ پر پورے زور اورقوت کے ساتھ آئیندہ انتخابات میںمسلم لیگ کی مدد کریں۔‘‘
(۱)الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۴۵ء ص۱ تا ۶
(۲)الفضل ۹ جون ۱۹۴۵ء ص۵
(۳) الفضل ۶ ستمبر ۱۹۴۵ء ص ۲
(۴)قائدِ اعظم اور ان کا عہد،حیاتِ محمد علی جناح ،مصنفہ رئیس احمد جعفری،ناشر مقبول اکیڈمی ص ۴۴۵۔۴۴۷
(۵)Jinnah of Pakistan by Stanley Wolpert,published by Oxford University Press Karacho 1989 page 239_243
(۶)الفضل۲۳ جون ۱۹۴۵ء ص۶
(۷)Jinnah of Pakistan by Stanley Wolpert,Oxford University Press Karachi 1989,page 243_247
(۸)Year of deciasions 1945 by Harry S. Truman, page345_357
(۹) الفضل ۱۶ اگست ۱۹۴۵ء ص۲(۱۰) الفضل ۱۶ اگست ص ۳
(۱۱) The Hindu 17 Dec 2002,open page on internet.
(۱۲)Harijan January 30 1937(internet)
(۱۳)Young India April 23 1931(internet)
(۱۴)A Book of Reading on the History of The Punjab1799-1947,by Ikram Ali Malik,published bt Research Society Of Pakistan,University of Punjab,April 1985 page 578.
(۱۵)رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۳۸ء ص۱۸۳ء
(۱۶)سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ۱۹۳۸ئ۔۱۹۳۹ء ص۲۳۶۔۲۳۸
(۱۷)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۴۰ئ۔۱۹۴۱ء ص ۱۵۶۔۱۵۷
(۱۸)رپورٹ مجلسِ شوریٰ ۱۹۴۰ء ص۱۵۱۔۱۵۲
(۱۹)زمیندار ،۱۲ جنوری ۱۹۴۰ء ایڈیٹوریل
(۲۰)نوائے وقت ۱۰ اکتوبر ۱۹۵۳ء ص ۱
برصغیر میں انتخابات،ہندوستان کی آزادی اور تقسیم ، داغ ہجرت
پنجاب میں انتخابات کے متعلق حضرت مصلح موعود کا فیصلہ:
پنجاب کی صورتِ حال کے متعلق حضور ؓ نے وضاحت فرمائی
’’میں نے پنجاب کو مستثنیٰ رکھا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسجگہ مسلم لیگ کے بعض کارکن بلاوجہ ہماری مخالفت کر رہے ہیں۔مسلم لیگ ایک سیاسی انجمن ہے اور اسے اپنے دائرہ عمل کے لحاظ سے ہر مسلمان کہلانے والے کو مسلمان سمجھ کر اپنے ساتھ شریک کرنا چاہئے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہماری جماعت تو ہر جگہ مسلم لیگ کا پروپیگنڈا کرتی رہی ہے مگر لاہور کے مسلم لیگ کے ایک جلسہ میںجماعتِ احمدیہ کو خوب خوب گالیاں دی گئیں۔ حالانکہ گالیاں دینا تو دشمن کے حق میں بھی روا نہیں۔کجا یہ کہ ایک ایسی جماعت کو گالیاں دی جائیں جو مسلم لیگ کے بارے میں بے تعلق بھی نہیں بلکہ اس کے حق میں ہے۔ہمیں کہا جاتا ہے کہ یہ گالیاں دینے والے تو چند افراد ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ جو جماعت چند افراد کا منہ بند نہیں کر سکتی وہ عام جوش کے وقت کسی اقلیت کی حفاظت کس طرح کر سکے گی۔
جماعتِ احمدیہ نے اپنا معاملہ مسٹر جناح کی خدمت میں پیش کیا تھاانہوں نے جواب دیا ہے کہ صوبہ جاتی سوال کو صوبہ کی کونسل ہی حل کر سکتی ہے۔مگر جہانتک میں نے غور کیا ہے صوبہ جاتی کونسل ابھی اس سوال کو حل کرنیکے اپنے آپ کو قابل نہیں پاتی۔دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ یونینسٹ پارٹی نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ مرکزی نمائندگی میں مسلم لیگ کے نمائندوں کا مقابلہ نہیں کرے گی یہ ایک نیک اقدام ہے۔۔۔۔۔۔
مگر یونینسٹ لیڈر جو فیصلہ کرینگے اس کا علم مجھے اس وقت نہیں اس لئے با دلِ نا خواستہ میں پنجاب کے متعلق یہ اعلان کرتا ہوںکہ پنجاب کے بارے میں ہم کوئی اصولی مرکزی پالیسی سرِ دست اختیار کرنے کاارادہ نہیں رکھتے۔‘‘(۱)
چنانچہ حضور کی ہدایت کے مطابق احمدیوں نے مرکزی اسمبلی کی سیٹوں پر مسلم لیگ کے امیدواروں کی حمایت کی اورپنجاب کے علاوہ باقی صوبائی اسمبلیوں کے لئے بھی مسلم لیگ کے امیدواروں کی حمایت کا فیصلہ کیا۔پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے متعلق حضورؓ کی ہدایت تھی کہ جو احمدی الیکشن میں کھڑے ہونا چاہیں وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ کے لئے کوشش کریں۔مگر اگر وہ سمجھیں کہ اسے اس کا جائز حق دینے سے انکار کیا جا رہا ہے تو وہ یہ اعلان کرکے ممبری کے لئے کھڑا ہو سکتا ہے کہ میں مسلم لیگ کی پالیسی سے متفق ہوں مگر چونکہ میرا حق نہیں دیا جارہا اس لئے میں مجبوراََ انڈیپنڈنٹ کھڑاہو رہا ہوں۔چنانچہ حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحبؓ قادیان والے حلقہ سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہوئے۔پنجاب کی مسلم لیگ کے ساتھ رابطہ کر کے یہ پیشکش کی گئی کہ اگر وہ یہ قطعی فیصلہ کردیں کہ مسلم لیگ میں احمدی شامل ہو سکتے ہیں اور ان کے حقوق دوسروں کے برابر ہوں گے تو پنجاب اسمبلی میں ان کے مقابل پر سب احمدی امیدوار بیٹھ جائیں گے مگر انہوں نے احرار وغیرہ کے ڈر سے اس کی جراء ت نہ کی۔پنجاب کے بعض لوکل حلقوں میںمسلم لیگ جماعت کی مخالفت کر رہی تھی اور بعض حلقوں میں ان کے ساتھ تعاون کر رہی تھی۔پنجاب اسمبلی کی ایک نشست پر ایک احمدی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑے بھی ہو رہے تھے۔اس وجہ سے پنجاب اسمبلی کے کچھ حلقوں پرجماعت مسلم لیگ کے امیدواروں سے تعاون کر رہی تھی اور بعض حلقوں میں یونینسٹ پارٹی یا آزاد امیدواروں سے تعاون کیا جارہا تھا۔آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کا رویہ اس کے بر عکس تھا۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے قادیان اپنے نمایندے سردار شوکت حیات صاحب کو خود بھجوایا ۔اس کی روئیداد سردار صاحب نے اپنی کتاب میں یوں بیان کی ہے۔
’’ایک دن مجھے قائدِ اعظم کی طرف سے پیغام ملا شوکت مجھے معلوم ہؤا ہے کہ تم بٹالہ جا رہے ہو جو قادیان سے پانچ میل کے فاصلے پر ہے تم وہاں جاؤ اور حضرت صاحب کو میری درخواست پہنچاؤ کہ وہ پاکستان کے حصول کے لئے اپنی نیک د عاؤں اور حمایت سے نوازیں ۔جلسے کے اختتام کے بعد میں نصف شب تقریباََ بارہ بجے قادیان پہنچاتو حضرت صاحب آرام فرما رہے تھے۔میں نے ان تک پیغام پہنچایا کہ میں قائدِ اعظم کا پیغام لے کر حاضر ہؤاہوں وہ اسی وقت نیچے تشریف لائے اور استفسار کیا کہ قائدِ اعظم کے کیا احکامات ہیں میں نے کہا کہ وہ آپ کی دعا اور معاونت کے طلب گار ہیں۔انہوں نے جواباََ کہا کہ وہ شروع ہی سے ان کے مشن کے لئے دعا گو ہیں اور جہاں تک ان کے پیروکا روں کا تعلق ہے۔کوئی احمدی مسلم لیگ کے خلاف انتخاب میں کھڑا نہ ہو گا اور اگر کوئی اس سے غداری کرے گا تو ان کی جماعت کی حمایت سے محروم رہے گا۔‘‘ (۲)
پھر سردار شوکت حیات صاحب بیان کرتے ہیں کہ قائد ِ اعظم نے انہیں مودودی صاحب کی طرف بھجوایا ۔مودودی صاحب سے ملنے کے لیے سردار شوکت حیات صاحب پٹھانکوٹ پہنچے ،جس کے قریب ایک زمیندار چوہدری نیاز صاحب کے گاؤں میں مودودی صاحب مقیم تھے ۔
جب انہیں قائد ِ اعظم کا پیغام دیا گیا کہ وہ پاکستان کے قیام کی حمایت کریں اور اس کے لئے دعا بھی کریں تو مودودوی صاحب نے جواب دیا کہ میں ناپاکستان کے لیے کیسے دعا کر سکتا ہوں اور پاکستان کیسے بن سکتا ہے جب تک پورا ہندوستان مسلمان نہیں ہو جاتا ۔جب آزادی کے معاََ بعد فسادات کا آغاز ہوا تو مودودی صاحب نے سردار شوکت حیات صاحب سے مدد طلب کی کہ انہیں ان فسادات میں وہاں سے نکال کر پاکستان پہنچایا جائے اور یہاں آکر انہوں نے بیان دیا کہ جو کشمیر کی جنگ میں مسلمان مارے جا رہے ہیں وہ شہید نہیں ہوں گے بلکہ کتے کی موت مریں گے(۲)
بہر حال الیکشن کا عمل شروع ہوا ۔پورے ملک کی مجموعی نشستوں میں کانگرس کو باقی پارٹیوں سے زیادہ نشستیں ملیں۔اور مرکزی اسمبلی کی تیس کی تیس مسلم نشستوں پر مسلم لیگ کے امیدوار جیت گئے۔صوبائی اسمبلی کی مسلم نشستوںپر بھی مسلم لیگ کو بھاری اکثریت سے کامیابی ہوئی۔چوہدری فتح محمد سیال صاحب ؓ بھی آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوئے ۔کامیابی کے معاََ بعد انہوں نے اپنے آپ کو مسلم لیگ کی ممبری کے لئے پیش کردیا۔اب کم از کم اس بحث کا فیصلہ ہو گیا تھا کہ مسلمانوں کی نمائندگی کون سی سیا سی جماعت کرتی ہے۔ (۳تا۶)
کرپس مشن کی ناکامی:
اب وزیرِ اعظم ایٹلے کی حکومت ہندوستان کو آزادی دینے کی تیاریاں کر رہی تھی۔۱۹ فروری ۱۹۴۶ء کو برطانوی حکومت نے ایک وزارتی مشن ہندوستان بھجوانے کا اعلان کیا۔لارڈ پیتھک لارنس (Pethick-Lawence)، سر سٹیفرڈ کرپس(Stafford Cripp)، اور اے وی الیگزینڈر (A.V.Alexander)اس کے ممبران تھے۔اس مشن کا کام وائسرائے لارڈ ویول کے ساتھ مل کر ہندوستان کی سیاسی راہنماؤں سے مذاکرات کرنا اور ہندوستان کے لئے ایک قابلِ عمل سیاسی ڈھانچہ تیار کرنا تھا۔۱۵ مارچ کو پارلیمنٹ میں بحث کے دوران وزیرِ اعظم نے کہا کہ انہیں احساس ہے کہ ہندوستان میں مختلف نسلوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ بستے ہیں۔اور اس وجہ سے بہت سی مشکلات پیدا ہوں گی ۔لیکن ہندوستانیوں کو خود ان مشکلات کا حل نکالنا ہو گا۔ہمیں اقلیتوں کے حقوق کا احساس ہے مگر اقلیتوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اکثریت کے آگے بڑھنے پر ویٹو کا حق استعمال کریں۔(۷)
۲۳ مارچ ۱۹۴۶ء کو کیبنٹ مشن دہلی پہنچ گیا۔۶اپریل کو حضور ؓ کا ایک مضمون ’پارلیمنٹری مشن اور ہندوستانیوں کا فرض‘ کے نام سے شائع ہؤا۔حضور نے اس کا آغاز ان الفاظ سے فرمایا
ــ’’ پارلیمنٹری وفد ہندوستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے ہندوستان میں وارد ہو چکا ہے۔مجھ سے کئی احمدیوں نے پوچھا ہے کہ احمدیوںکو ان کے خیالات کے اظہار کا موقع کیوں نہیں دیا گیا۔میں نے اس کا جواب ان احمدیوں کو یہ دیا۔کہ اول تو ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے۔(گو مسیحوں کی انجمن کو کمیشن نے اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی ہے)دوسرے جہاں تک سیاسیات کا تعلق ہے۔جو حال دوسرے مسلمانوں کا ہوگا وہی ہمارا ہوگا۔تیسرے ہم ایک چھوٹی سی اقلیت ہیں۔اور پارلیمنٹری وفد اس وقت ان سے بات کر رہا ہے ۔جو ہندوستان کے مستقبل کو بنا یا بگاڑ سکتے ہیں۔دنیوی نقطہ نگاہ سے ہم ان جماعتوںمیں سے نہیں ہیں۔‘‘
پھر حضرت مصلح موعودؓ نے مشن کے ممبران کو نصیحت فرمائی کہ سیاسی معاملا ت میں بھی اخلاقی اصولوں کی پیروی کرنا ضروری ہے۔اور اگر موجودہ حکومت سابقہ حکومت کے وعدوں کو درست نہیں سمجھتی تو پھر گول مول بات کرنے کی بجائے واضح اعلان کرنا چاہئیے۔اگر ایسی حالت پیدا کی گئی جس کے نتیجے میں ایک اقلیت اپنے حقوق لینے سے محروم رہ جائے تو یہ صورتِ حال خود انگلستان کو مجرم بنائے گی۔اگر مشن کے ممبران انصاف کو قائم رکھیں گے تو یقیناََ وہ ہندو مسلم سمجھوتا کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ہندوستان کے حالات انگلستان سے مختلف ہیں۔انگلستان کے تجربے کو ہندوستان پر ٹھونسنا غلطی ہو گی۔اس کے بعد حضورؓ نے فرمایا کہ میں مسلمانوں کے نمایندوں کو یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ ہندوستان ہمارا بھی اسی طرح ہے جس طرح ہندؤوں کا ہے۔ہمیں بعض زیادتی کرنے والوں کی وجہ سے اپنے ملک کو کمزور کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئیے ۔اور ہندوبھائیوں خصوصاََ کانگرس والوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ ایک طرف تو آپ لوگ عدم تشدد کے قائل ہیں اور دوسری طرف ان کے لیڈر دھمکیاں دے رہے ہیں کہ مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں ملک میں فساد ہو گا۔مذہبی آزادی کے حوالے سے حضور نے کانگرس کو یہ نصیحت فرمائی
’’ ایک نصیحت میں کانگرس کو خصوصاََ اور عام ہندوؤںکو عموماََ کرنا چاہتا ہوں ۔کہ تبلیغ مذہب اور تبدیلی ِمذہب کے متعلق وہ اپنا رویہ بدل لیں ۔مذہب کے معاملے میں دست اندازی کبھی نیک نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی۔وہ مذہب کو سیاست سے بدل کر کبھی چین نہیں پا سکتے۔تبلیغ مذہب اور مذہب بدلنے کی آزادی انہیں ہندوستان کے اساس میں شامل کر لینی چاہئیے۔اور اس طرح اس تنگ ظرفی کا خاتمہ کردینا چاہئیے ۔جو ان کی سیاست پر ایک داغ ہے۔‘‘(۸)
وزارتی مشن نے کام شروع کیا ۔پہلے مختلف لیڈروں سے مذاکرات ہوئے،پھر دونوں سیاسی پارٹیوں کے اہم لیڈروں کی کانفرنس منعقد کی گئی۔کانگرس کی تجویز تھی کہ ہندوستان کی ایک مشترکہ آئین ساز اسمبلی ہوجو نئی مملکت کا آئین تیار کرے۔کچھ اختیارات صوبائی حکومتوں کو دیئے جائیں یا پھر صوبوں کے گروپ بنا کر انہیں مقامی ذمہ داریاں سونپی جائیں۔مسلم لیگ کامؤقف تھا کہ بنگال،آسام پنجاب ،سندھ،سرحد اور بلوچستان کے صوبوں پر مشتمل ایک آزاد مملکت تشکیل دی جائے ،جس کی اپنی آئین ساز اسمبلی ہو۔اور باقی ہندوستان کی علیحدہ آئین ساز اسمبلی ہو۔مسلم لیگ مفاہمت کی غرض سے یہ تجویز ماننے کے لیئے تیار تھی کہ ان دونوں مملکتوں کی آئین ساز اسمبلی کا مشترکہ اجلاس ہو سکتا ہے جس میں دونوں طرف کے برابر کے نمایندے شامل ہوں اور تمام اہم فیصلے تین چوتھائی کی اکثریت سے کیئے جائیں۔
۱۶ مئی کو وزارتی مشن اور وائسرائے نے اپنی سکیم کا اعلان کیا ۔اس منصوبے میں مسلمانوں کے لیئے علیحدہ مملکت کا مطالبہ منظور نہیں کیا گیا تھا۔اس سکیم کے خدو خال یہ تھے کہ تمام ہندوستان ایک مرکزی حکومت اور ایک آئین ساز اسمبلی کے ماتحت رہے گا۔مرکزی حکومت کے ماتحت امورِ خارجہ ،دفاع،رابطہ اور وسائلِ آمد و رفت کے شعبے کام کریں گے۔ہندوستان کو تین یونٹوں میں تقسیم کیا جائے گا۔یونٹ اے ہندو اکثریت کے چھ صوبوں پر مشتمل ہو گا۔یونٹ بی میں پنجاب،سندھ،سرحد اور بلوچستان کے صوبے ہوں گے۔اور بنگال اور آسام مل کر یونٹ سی بنائیں گے۔ان یونٹوں کے ماتحت صوبوں کی حکومتیں ،اپنے اختیارات کے ساتھ کام کریں گی۔ہر یونٹ کے ممبران اسمبلی اگر چاہیں تو اپنے صوبوں کے لیئے مشترکہ قانونی ڈھانچہ بنا سکتے ہیں ۔مگر آزادی کے بعد پہلے الیکشن ہونے پر صوبوں کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ اگر پسند کریں تو اپنے یونٹ سے علیحدگی اختیار کر لیں۔اس سکیم میں فوری طور پر عبوری حکومت بنانے کا منصوبہ بھی شامل تھا جس کی کابینہ کے تمام اراکین ہندوستانی ہوں گے۔
اس کا اعلان ہونے کے بعد گاندھی جی نے اس کی بعض قانونی تشریحات پر مشتمل بیانات دیئے۔مثلاََ مرکزی آئین ساز اسمبلی کو اختیارہو گا کہ وہ مرکزی حکومت کے اختیارات میں حسبِ ضرورت اضافہ کرلے اور صوبوں کو یہ اختیار ہو گا کہ اگر وہ چاہیں تو شروع میں ہی اپنے یونٹ سے علیحدگی اختیار کر لیں ۔چناچہ کمشن کو اس بارے میں وضاحتی بیان جاری کرناپڑا،جس کا مقصد ان شبہات کا ازالہ کرنا تھا۔ اس سکیم پر غور کرنے کے لیئے جون کے آغاز میں مسلم لیگ کی کونسل کا اجلاس شروع ہؤا ۔اس سکیم میں مسلمانوں کے لیئے ایک علیحدہ مملکت کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔اس وجہ سے ممبران پر مایوسی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ تمام بحث و تمحیث کے بعد ۶ جون ۱۹۴۶ء کو مسلم لیگ کی کونسل نے اس منصوبے کو منظور کرنے کا اعلان کر دیا۔جون میں ہی کانگرس کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس شروع ہؤا اور ۲۶ جون کو کانگرس نے طویل المیعاد منصوبے کو منظور کر لیا مگر عبوری کابینہ کے متعلق تجاویز کی منظوری نہیں دی۔عبوری کابینہ کی تشکیل کے بارے میںاختلافات دور کرنے کے لیئے مذاکرات شروع ہوئے۔مگر ان کا سلسلہ طویل ہوتا گیا۔مفاہمت کی صورت پیدا ہوتی نظر نہیں آ رہی تھی۔جولائی ۱۹۴۶ء میں ابو الکلام آزاد صاحب کی جگہ پنڈت جواہر لال نہرو کانگرس کے صدر منتخب ہوئے۔ابولکلام آزاد اس سکیم کی حمایت کر رہے تھے۔کانگرس کا سوشلسٹ گروہ اس کی مخالفت پر کمر بستہ تھا۔۱۰ جو لائی ۱۹۴۶ء کو کانگرس کے نئے صدر نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ کانگرس آئین سازاسمبلی میں کسی معاہدے کی شرائط میں جکڑی ہوئی داخل نہیں ہو رہی۔اور اس بات کا حق محفوظ رکھتی ہے کہ آئین ساز اسمبلی کے ذریعہ وزارتی مشن کے منصوبے کو تبدیل کر دے۔اور وضاحت کی کہ ان کے خیال میں اس بات کا امکان ہے کہ اس منصوبے میں تجویز کردہ یونٹوں کے قیام کو منظور نہیں کیا جائے گا۔اور مرکزی حکومت اپنے اختیارات میں اضافہ بھی کر سکتی ہے۔ابوالکلام آزاد صاحب بیان کرتے ہیں کہ مسلم لیگ کے قائد ین کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا کہ انہوں نے کمشن کے منصوبے کو منظور کر کے پاکستان کے مطالبے کو ترک کردیا ہے۔ان پر یہ اعلان بم کی طرح گرا۔کانگرس کے سابقہ اعلان کے برعکس اب خود کانگرس کے صدر ہی اس منصوبے کو قبول کرنے سے انکار کر رہے تھے۔اس پس منظر میں مسلم لیگ کی کونسل کا اجلاس بلایا گیا اور لیگ نے اعلان کیا کہ اگرکانگرس حکومت ملنے سے قبل ہی کئے ہوئے وعدے سے پھر رہی ہے تو اس کے وعدے کا اعتبار نہیںکیا جا سکتا چنانچہ اب مسلم لیگ کو یہ منصوبہ منظور نہیں ہے۔اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ نے راست اقدام کا اعلان کردیا۔وہ ایک بار پھر مسلمانوں کے لئے ایک آزاد ملک کا مطالبہ کر رہے تھے۔جواہر لال نہرو نے یہ بیان دینے سے قبل کانگرس کی ورکنگ کمیٹی سے مشورہ نہیں لیا تھا۔ورکنگ کمیٹی نے مبہم الفاظ میں دوبارہ مشن کے پلان کو منظور کرنے کا اعلان کیا لیکن اپنے صدر کے بیان کی تردید بھی نہ کی ۔اس تردیدی بیان میں بھی یونٹوں کے قیام کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا گیا تھا ،بلکہ صوبوں کی خود مختاری پر زور دیا گیا تھا۔اور اس بات کو بھی واضح نہیں کیا گیا تھا کہ کانگرس آئین ساز اسمبلی میں اس منصوبے کے بنیادی خدو خال کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرے گی۔اب شکوک و شبہات کے بادل گہرے ہو چکے تھے ۔دونوں پارٹیوں میں اور ان کے حامیوں میں خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی تھی۔مفاہمت کا ایک اور موقع ہاتھ سے نکل چکا تھا۔(۹۔۱۰)
مسلم لیگ کے راست قدم کے اعلان کے متعلق جب حضورؓ سے دریافت فرمایا گیا کہ اس کے متعلق احمدیوں کا مسلک کیا ہونا چاہئیے تو حضور ؓ نے ارشاد فرمایا
’’مسلم لیگ نے ہمیں بحیثیت جماعت اپنے ساتھ شامل ہی نہیں کیا۔اس لئے اس کی طرف سے توکسی ہدایت کے ہم پاپند نہیں ہو سکتے۔پس جہاں تک مسلم لیگ کے نقطہِ نگاہ کا سوال ہے۔اگر ہم اس کے احکام کی پابندی نہ کریں تواسے کوئی شکوہ نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ وہ ہمیں اپنا حصہ ہی قرار نہیں دیتی۔اور جہاں تک ہمارے نقطہِ نگاہ کا تعلق ہے ہم جس حد تک جائز اور مناسب سمجھیں گے لیگ کی مدد کریں گے۔اگر لیگ ہمیں اپنے ساتھ شامل کرے تواس صورت میں بھی یہ سمجھوتہ کرنا پڑے گا کہ وہ ہم سے کوئی ایسا مطالبہ نہ کرے جسے ہم مذہباََ نا جائز سمجھتے ہوں۔‘‘
اس کے بعد حضورؓ نے فرمایا کہ اس وقت راست اقدام کی تفصیلات پر بحث کرنا مناسب نہیں۔ اگر اس موقع پر خاموشی اختیار کی جائے اورذمہ دار لوگوں کو موقع دیا جائے کہ وہ تمام نشیب و فراز دیکھ کر مناسب فیصلہ کریں تومسلم لیگ کے لئے زیادہ بہتر ہوگا۔ (۱۱)
فسادات کا آغاز اور جماعتِ احمدیہ کی خدمات:
۱۲ اگست ۱۹۴۶ء کو وائسرائے نے پنڈت جواہر لال نہرو کو عبوری حکومت بنانے کی دعوت دی۔انہوں نے مسلم لیگ کو کابینہ میں شامل ہونے کی دعوت دی مگر مسلم لیگ نے اسے فوراََ ہی مسترد کر دیا۔۱۶ اگست کو کلکتہ میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔کلکتہ میں ہندو اکثریت میں تھے۔ ۱۶؍اگست کو مسلمانوں کے ایک گروہ نے ہندوؤں پر حملہ کر دیا ۔جواب میں ہندوؤں نے مضافات میں مسلم آبادیوں پر ہلہ بول دیا۔اگلے روز سکھ بھی ہندوؤں کے ساتھ مل گئے۔کلکتہ کی تاریخ میں اتنی بہیمانہ قتل و غارت کبھی نہیں ہوئی تھی۔جلد ہی اس آگ نے بنگال کی حدود سے نکل کربہار اور یوپی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔بہار میں مسلمان اقلیت میں تھے ۔ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ہزاروں مسلمان موت کے گھاٹ اتار دئے گئے۔بنگال کے ایک گاؤں نواکھلی میں مسلمان اکثریت میں تھے۔ان کے ایک گروہ نے ہندؤں کی قتل و غارت شروع کر دی ۔ہرطرف نفرت کا آسیب رقص کر رہا تھا۔اب یہ فقط ایک سیاسی تنازع نہیں تھا ۔ہندوستان کے معاشرے کا تانا بانا ٹوٹ رہا تھا ۔لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔حالانکہ احمدی ہر لحاظ سے پر امن تھے اور اس قتل و غارت سے ان کا دور کا بھی تعلق نہ تھا مگر پھر بھی کلکتہ میں احمدیوں کی دکانیں لوٹی گئیں اور بعض زخمی ہوئے ۔لیکن کلکتہ کے احمدیوں نے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی توفیق کے مطابق بعض ہندؤوںاور سکھوں کو اپنے گھروں میں پناہ دی۔(۱۲) ۔حضور نے انہیں پیغام بھجوایا کہ اگر وہ سچے صبر اور توکل علی اللہ سے کام لیں گے تو یہ نقصان عارضی ہو گا اور وہ جلد ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائیں گے۔ڈھاکہ میں جماعت ِ احمدیہ کے دارالتبلیغ کو پہلے ہندو بلوائیوں نے لوٹا اور پھر آگ لگا دی۔اورمسجد احمدیہ کو جلا کر بالکل خاکستر کر دیا گیا۔قرآنِ کریم کے نسخوں ، لٹریچر اور دفتر کے ریکارڈ کو آگ لگا دی گئی۔مجبوراََ صوبائی جماعت کا دفتر برہمن بڑیہ منتقل کرنا پڑا(۱۳) ۔بہار میں ایک احمدی ڈاکٹر طبی خدمات کے لئے ایک میلے میں گئے تھے۔ہندو بلوائیوںنے انہیں بے دردی سے شہید کر دیا اور ان کی بیوی کو دریا میں پھینک دیا۔بہار میں بھاگلپور کی جماعت نے حضورؓ کی خدمت میں پیغام بھجوایا ’’ مسلمانانِ بہار پر مظالم کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔مظالم توڑنے میں عورت مرد اور بچے بوڑھے کا کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا۔اصل حالات کو مخفی رکھا جا رہا ہے۔۔۔۔مہربانی فرما کر دعا فرماویں ۔اور مرکزی حکومت کے ذریعہ اور پبلک میں اصل حققیت کے اظہار کے ذریعہ امداد فرماویں۔ ہماری جانوں کی حفاظت کے لئے یہ ایک ڈوبتے ہوئے جہاز کی صدا سمجھیں ‘‘(۱۴) ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہمیشہ سے جماعتِ احمدیہ بلا امتیاز ہر ظلم کی مذمت کرتی رہی ہے اور ہر مذہب اور قوم کے مصیبت زدگان کی خدمت میں پیش پیش رہی ہے۔گاندھی جی بنگال میں فسادات رکوانے کے لئے بنگال کا دورہ کر رہے تھے اور نواکھلی کے ہندو مظلومان کی مدد کے لئے بھی کوششیں کر رہے تھے۔جماعت کی طرف سے گاندھی جی کو نواکھلی کے متاثرین کی مدد کے لئے عطیہ بھجوایا گیا۔اور قائدِاعظم کو بہار کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لئے رقم بھجوائی گئی۔جواب میں ان کی طرف سے شکریے کا یہ پیغام موصول ہؤا
’’آپ کا خط اور چیک مل گیا۔آپ کی امداد کے لئے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں بہار کی امداد کے لئے حتی الوسع کوشش کر رہا ہوں ۔ہر طرف سے امداد کی سخت ضرورت ہے۔صورتِ حال بڑی نازک ہے ۔بہت بڑی مہم درپیش ہے۔‘‘(۱۵،۱۶)
بعد میں بہار کے حالات مزید بگڑ گئے تو حضورؓ نے جماعت کے ڈاکٹروں کو حکم فرمایا کہ وہ بہار میںریلیف کیمپ قائم کریں ۔چنانچہ حضور کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے متعدد احمدی ڈٖاکٹروں، طالبعلموں اور دیگر رضاکاروں نے بہار میں امدادی کیمپ قائم کئے اور بہت سے مظلوموں کی خدمت کی توفیق پائی۔صوبائی حکومت کے تعاون کا عالم یہ تھا کہ جب ایک موقع پر مسلم لیگ کے خواجہ ناظم الدین صاحب اور ان کے ساتھیوں نے کیمپ کا دورہ کرنا چاہا تو صوبائی حکومت نے اس کی اجازت نہ دی۔غازی پور میں چار امن پسند اور معزز احمدی مظلوم مسلمانوں کی مدد میں پیش پیش تھے اور ان کی جائز شکایات حکامِ بالا تک پہنچاتے تھے۔ حکومت نے ان کی خدمت کا یہ اجر دیا کہ پولیس نے ان پر جھوٹے الزامات لگا کر انہیں گرفتار کر لیا۔(۱۷تا۲۰)
حضور کا سفرِ دہلی اور مفاہمت کی کوششیں:
دانشمندی کا تقاضہ تو یہ تھا کہ مسلمان اور ہندو سیاستدان مل کر بیٹھیں اور ہندوستان کو اس بحران سے نکالنے کی کوشش کریں۔مگر ان کے باہمی تنازعات ختم ہونے کی بجائے بڑھتے جا رہے تھے۔وہ ایک دوسرے سے بات کرنے کو بھی تیار نہیں ہو رہے تھے۔یہ نظر آرہا تھا کہ اگر کسی طرح مسلم لیگ کانگرس کے ساتھ عبوری حکومت میں شامل ہو جائے تو فاصلے کم ہونے کی صورت نکل سکتی ہے۔
ستمبر میں حضورؓ حالات کا جائزہ لینے کی غرض سے دہلی تشریف لے گئے تا کہ ملک کی صورتِ حال کے پس منظر میں جماعتِ احمدیہ کی پالیسی کے متعلق فیصلہ کیا جا سکے۔اس وقت دہلی میں اکثر سیاسی قائدین بھی موجود تھے ۔۲ ستمبر کو پنڈت جواہر لال نہرو اور کانگرس کے مقرر کردہ دیگر وزراء حلف اٹھا چکے تھے۔اب کابینہ میں مسلم لیگ کے شامل ہونے یا نہ ہونے پر بات چیت چل رہی تھی۔۲۴ ستمبر کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ اورصدر مسلم لیگ قائدِ اعظم محمد علی جناح کے درمیان ملاقات ہوئی۔۲۷ ستمبر کو حضورؓ گاندھی جی سے ملے۔گاندھی جی اس وقت ہندوستان کے سب سے با اثر سیاسی قائد تھے۔حضورؓ نے ان سے فرمایا کہ آپ اور دوسرے سیاسی قائدین آپس میں لڑتے ہیں مگر اس کا وبال آپ لوگوں کی جان پر نہیں بلکہ ان ہزاروں لوگوں کی جان پر پڑتا ہے جو قصبوں اور دیہات میں رہتے ہیں اور تہذیب اور شائستگی نہیں سمجھتے ۔وہ ایک دوسرے کو ماریں گے،ایک دوسرے کو لوٹیں گے اور ایک دوسرے کے گھروں کو جلائیں گے۔اس لئے اب آپ کو صلح کے لئے کچھ کرنا چاہئیے۔گاندھی جی نے جواب دیا کہ یہ کام آپ ہی کر سکتے ہیں میں نہیں کر سکتا۔آپ ایک جماعت کے لیڈر ہیں اور میں تو صرف ایک گاندھی ہوں۔حضور نے فرمایا کہ میں تو صرف پانچ سات لاکھ کا لیڈر ہوں اور ہندوستان میں پانچ سات لاکھ کیا کر سکتا ہے۔مگر انہوں نے یہی اصرار کیا کہ جو کچھ کر سکتے ہیں آپ ہی کر سکتے ہیں میں نہیں کر سکتا۔ان کے علاوہ کانگرس کے لیڈروں میں سے حضور ؓ نے دو مرتبہ ابوالکلام آزاد صاحب اور پھر پنڈت جواہر لال نہرو صاحب سے ملاقات فرمائی۔ سروجنی نائیڈو صاحبہ کو دو مرتبہ تار دی گئی مگر ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ صلح کی اس مساعی میں حصہ نہیں لینا چاہتیں۔حضورؓ نے ایک خط وائسرائے ہند کے نام بھجوایا کہ گو جماعت احمدیہ مذہبی جماعت ہونے کے ناطے سے من حیث الجماعت مسلم لیگ میں شامل نہیں ہے مگر موجودہ سیاسی بحران میں اس کی تمام تر اصولی ہمدردی مسلم لیگ کے ساتھ ہے۔ا گر موجودہ گفت و شنید ناکام ہو جائے تو اسے ناکامی قرار دینے کی بجائے التواء کی صورت قرار دیا جائے مگر جس نقطہ پر ناکامی ہو اسے پبلک کے علم کے لئے ظاہر کر دیا جائے۔۔جماعت کا ایک وفد لیاقت علی خان صاحب ،سر سلطان احمد ،نواب صاحب چھتاری اور سر فیروز خان نون صاحب سے ملا۔بعد میں فیروز خان نون صاحب اور نواب صاحب چھتاری حضور ؓ سے ملاقات کرنے کے لئے آئے۔ایک دعوت میں خواجہ ناظم الدین صاحب اورسردار عبدالرب نشتر صاحب نے بھی حضورؓ سے ملاقات کی۔اسماعیلیوں کے پیشوا سر آغا خان صاحب نے لندن سے تار کے ذریعہ حضورؓ کی کوششوں کے بارے میں نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ان کے علاوہ حضور ؓ کی ایک اہم ملاقات نواب صاحب بھوپال سے ہوئی۔نواب صاحب بھوپال کے گاندھی جی سے دوستانہ مراسم تھے۔انہوں نے گاندھی جی اور صدر مسلم لیگ محمد علی جناح صاحب کی ملاقات کروائی۔دونوں نے اس ملاقات میں ایک تحریری بیان پر دستخط کر دیئے جس کی رو سے انہوں نے تسلیم کرلیا کہ چونکہ اس وقت مسلم لیگ مسلمانوں کی اکثریت کی نمایندگی کر رہی ہے اس لئے جمہوری روایات کی رو سے صرف اسے مسلمانوں کا نمایندہ کہلانے کا حق ہے۔مگر کانگرس اس بات کا اختیار رکھتی ہے کہ اگر چاہے تو کسی مسلمان کو اپنی طرف سے وزارت کے لئے نامزد کرے۔مگر پنڈت جواہر لال نہرو سمیت کانگرس کی قیادت نے گاندھی جی کے اس مؤقف کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔اس طرح گاندھی جی اسی طرح اکیلے گاندھی رہ گئے جس طرح انہوں نے حضورؓ سے ملاقات میں اپنے آپ کو ظاہر کیا تھا۔بہر حال بہت سے لوگوں کی مخلصانہ کوششیں رنگ لائیں اور ایک کے بعد دوسری رکاوٹ دور ہوتی گئی ۔بالآخر مسلم لیگ نے عبوری حکومت میں شمولیت کا فیصلہ کرلیا۔اور لیاقت علی خان صاحب،آئی آئی چندریگر،راجہ غضنفر علی صاحب اور سردار عبدالرب نشتر صاحب کے علاوہ ہریجن قوم سے تعلق رکھنے والے ایک ہندو سیاستدان جوگندرا ناتھ منڈل صاحب مسلم لیگ کے نمایندے کے طور پر کابینہ میں شامل کئے گئے۔(۲۱تا۲۹)
مگر صرف کابینہ کے اجلاس میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے سے فاصلے کم نہیں ہو سکتے تھے۔اس کے لئے باہمی اعتماد بحال کرنا ضروری تھا۔آپس میں تعاون کرنے کی ضرورت تھی۔مگر عملاََ کدورتوں کے بادل وقت کے ساتھ اور گہرے ہوتے جا رہے تھے۔وائسرائے ویول نے فیصلہ کیا کہ ایک اہم وزارت مسلم لیگ کو دی جائے گی۔کانگرس نے مسلم لیگ کو وزارتِ خزانہ کی پیشکش کی۔ابوالکلام آزاد صاحب لکھتے ہیں کہ کانگرس کے بہت سے لیڈروں کا خیال تھا کہ مسلم لیگ کے پاس اس اہلیت کا آدمی موجود نہیں جو یہ وزارت چلا سکے۔اگر مسلم لیگ اس پیشکش کو خود مسترد کرتی ہے تو کانگرس بری الذمہ ہو جائے گی اور اگر قبول کرتی ہے تو اس وزارت کو چلا نہیں پائے گی اور اس کو خفت اٹھانی پڑے گی۔صدر مسلم لیگ نے فوری طور پر اس پیشکش کو قبول نہیںکیا۔مگر چوہدری محمدعلی صاحب اور دیگر مسلمان سرکاری افسران نے مشورہ دیا کہ فوراََ اس وزارت کو قبول کر لینا چاہئیے۔ کیونکہ یہ وزارت سب سے با اثر وزارت ثابت ہو گی۔یہ کانگرس کی ایک بڑی غلطی تھی۔وزارتِ خزانہ کا عملاََ حکومت کے ہر شعبے میں عمل دخل ہوتا ہے۔جلد ہی کانگرس کے وزراء کو شکایت پیدا ہونے لگی کہ ان کی راہ میں بے جا روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔جب بجٹ پیش ہؤا تو اختلافات میں اور اضافہ ہو گیا۔اس بجٹ میں تجویز کیا گیا تھا کہ جنگ کے دوران بڑے بڑے تاجروں ا ور صنعت کاروں نے بے تحاشہ مالی فوائد حاصل کئے ہیں مگر انکم ٹیکس نہیں دیا ،ان سے انکم ٹیکس کے بقایا جات وصول کرنے کے لئے ایک تحقیقاتی کمیشن بنانے کی ضرورت ہے۔اور بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لئے زیادہ ٹیکس امراء پر لگانے کی تجویز دی گئی۔۔ان سرمایہ کاروں کی اکثریت ہندو تھی۔ اور ان میں سے بہت سے کانگرس کی مالی اعانت کرتے رہے تھے۔کانگرس میں ایک گروہ کا خیال تھا کہ یہ اقدامات محض انتقامی کاروائی کے طور پر کئے جا رہے ہیں اور ان سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچے گا۔مسلم لیگ کا مؤقف تھا کہ بجٹ کا خساراپورا کرنے کے لئے یہ اقدامات ضروری تھے اور یہ بوجھ سرمایہ داروں کو ہی اٹھانا پڑے گا۔غریب طبقہ پر مزید بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا۔
آئین ساز اسمبلی کا اجلاس ۱۱ دسمبر ۱۹۴۶ء کو طلب کیا گیا۔مسلم لیگ نے اعلان کیا کہ وہ اس وقت تک آئین ساز اسمبلی میں شریک نہیں ہو گی جب تک کانگرس کی طرف سے وزارتی مشن کے منصوبے کو مکمل طور پر قبول نہیں کیا جاتا۔اور اس بات کا اعلان نہیں کیا جاتا کہ آئین ساز اسمبلی میں اس منصوبے میں طے شدہ امور کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔مگر کانگرس اس پر آمادہ نہیں تھی۔چنانچہ آئین ساز اسمبلی کا اجلاس شروع ہو گیا اور مسلم لیگ کے ممبران کی نشستیں خالی رہیں۔آئین ساز اسمبلی نے جب اپنے مقاصد کے بارے میں قرارداد پاس کی تو مسلم لیگ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ یہ قرارداد وزارتی مشن کی ان تجاویز کے برخلاف ہے جن پر دونوں پارٹیوں نے اتفاق کیا تھا،اس لئے اس اسمبلی کو برطرف کر دینا چاہئیے۔اس کے جواب میں پنڈت جواہرلال نہرو نے مطالبہ کیا کہ چونکہ مسلم لیگ آئین ساز اسمبلی میں شرکت نہیں کررہی اس لئے اس کے وزراء کو برطرف کر دینا چاہئیے۔اب صلح اور مفاہمت کی امیدوں کا چراغ ٹمٹماتا نظر آرہا تھا۔
کشید گی میں اضافہ:
دوسری طرف ہندوستان بھر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی تھی۔جگہ جگہ فسادات ہو رہے تھے اور قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو رہی تھیں۔بنگال، بہار، یو پی، پنجاب اور بمبئی میں تو خون خرابہ ہو ہی رہا تھا،اب دہلی میں بھی چھرا گھونپنے کی وارداتیں روز کا معمول بن چکی تھیں۔سرحد وہ واحد مسلمان اکثریت کا صوبہ تھا جس کی صوبائی اسمبلی میں کانگرس نے مسلم لیگ سے زائد نشستیں حاصل کی تھیں اور وہاں پر ڈاکٹر خان صاحب کی قیادت میںکانگرس کی وزارت بنی تھی۔مگر اس صوبے میں بھی تیزی سے رائے عامہ مسلم لیگ کے حق میں ہونے لگی ۔حتیٰ کہ جب پنڈت جواہر لال نہرو نے سرحد کا دورہ کیا تو ان کا استقبال سیاہ جھنڈوں اور مخالفانہ نعروں سے کیا گیا۔ایک مشتعل ہجوم نے ان کی گاڑی پر پتھراؤ شروع کر دیا ۔ایک مرحلے پر ان شورش پسندوں کے حملے سے خطرہ اتنا بڑھا کہ خود وزیرِ اعلیٰ کو پستول نکال کر دھمکی دینی پڑی کہ اگر حملہ آور آگے بڑھے تو وہ گولی چلا دیں گے۔حالات کا سیلاب ہر چیز کو اپنے ساتھ بہائے لے جا رہا تھا۔
ان بگڑتے ہوئے حالات میں برطانوی حکومت سے امید کی جا سکتی تھی کہ وہ امن ِ عامہ کو بحال کرنے کی کوشش کرے مگر اس راہ میں بہت سی دشواریاں حائل تھیں۔گورنمنٹ سروس میں موجود مقامی لوگوں کی وابستگیاں اب برطانوی حکومت کی بجائے کسی نہ کسی سیاسی گروہ کے ساتھ ہو چکی تھیں ۔سول سروس اور فوج میں انگریز وں کی تعداد پہلے کی نسبت بہت کم تھی ۔پہلے ہندوستان میں موجود فوج میں گیارہ ہزارانگریز افسر تھے ۔اب یہ تعداد کم ہو کر چار ہزار رہ گئی تھی۔اب انگریز اپنے طور پر ہندوستان کا نظم و نسق چلانے کے قابل نہیں تھے۔اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد اب برطانوی حکومت یا برطانوی عوام مزید انگریزوں کو ہندوستان بھجوانے پر آمادہ نہیںتھے۔ظاہر ہے کہ اپنے ملک کی تعمیرِ نو ان کی اولین ترجیح تھی۔
وائسرائے لارڈ ویول کا خیال تھا کہ ابھی وزارتی مشن کے منصوبے کو کامیاب بنانے کے لئے مزید کوششوں کی ضرورت ہے اوراس مرحلے پر ہندوستان کی آزادی کی تاریخ کا اعلان کرنے سے پیچیدگیاں پیدا ہوں گی اوراس کے نتیجے میں خوفناک فسادات ہو سکتے ہیںجس کی ذمہ داری برطانوی حکومت پر عائد ہو گی۔مگر وزیرِ اعظم ایٹلے اس سے متفق نہیں تھے ان کا مؤقف تھا کہ اگر ہندوستان کی آزادی کی معین تاریخ کا اعلان کر دیا گیا تو اس مسئلے کو حل کرنا مقامی سیاستدانوں کی ذمہ داری بن جائے گی۔اس کے بغیر کوئی حل ممکن نہیں۔برطانیہ زیادہ دیر تک یہ بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔بالآخر لارڈ ویول نے استعفیٰ دے دیا۔اور۲۰ فروری ۱۹۴۷ء کو وزیرِ اعظم نے برطانوی دارالعوام میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ جون۱۹۴۸ء تک اقتدار ہندوستان کے نمایندوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔اور یہ اعلان بھی کیا گیاکہ ویول کی جگہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کے وائسرائے کا عہدہ سنبھالیں گے۔کانگرس کے اکثر قائدین لارڈ ویول سے خوش نہیں تھے ۔ ماؤنٹ بیٹن دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران جنوب مشرقی ایشیا میں اتحادی افواج کے کمانڈر رہ چکے تھے۔ جنگ کے خاتمے کے معاََ بعد جب نہرو سیر کے لئے سنگاپور گئے تو وہاں ان کی ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات ہوئی ۔اور یہیں سے دونوں کے درمیان دوستانہ مراسم کا آغاز ہؤا۔
رخصت ہونے سے قبل لارڈ ویول نے کابینہ کی آخری میٹنگ بلائی۔زیرِ غور امور کے بعد انہوں نے وزراء کو مخاطب کر کے کہا ــ’’ میں نے ایک مشکل دور میں وائسرائے کا عہدہ سنبھالا تھا ۔میں نے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ایسے حالات پیدا ہو گئے جس کے نتیجے میں مجھے استعفیٰ دینا پڑا۔اس مسئلے پر استعفیٰ دینے کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔ بہرحال میری آپ لوگوں سے اپیل ہے کہ جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کریں۔آپ لوگوں سے مجھے جو تعاون ملا ،اس کے لئے میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘ پیشتر اس کے کہ جواب میں کوئی کچھ کہتا ۔ انہوں نے اپنے کاغذات اٹھائے اور تیزی سے باہر نکل گئے۔اگلے روز لارڈ ویول ہمیشہ کے لئے دہلی سے رخصت ہو گئے۔(۲۱،۲۲)
مارچ ۱۹۴۷ء میں پنجاب بھی ہندو مسلم فسادات کی زد میں آگیا۔۴ مارچ کو لاہور سے ان فسادات کی ابتدء ہوئی اور جلد ہی امرت سر راولپنڈی ،ملتان اور گوجرانوالہ بھی اس آگ کی لپیٹ میں آگئے۔یہ خونریزی صرف شہروں تک محدود نہیں تھی ۔بہت سے دیہات میں بھی فسادات شروع ہوگئے۔بہت سے مقامات پر فوج کو بلوائیوں پر گولی چلانی پڑی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ اس وقت سندھ میں تشریف فرما تھے۔اِ ن دنوں میں قادیان بیرونی علاقوں سے بالکل کٹ گیاتھا۔نہ ریل کی آمد ورفت باقی رہی تھی اور نہ ڈاک،ٹیلیفوں یا تار سے کہیں رابطہ کیا جا سکتا تھا۔اُ س وقت قادیان میں احمدیوں کی بھاری اکثریت تھی۔یہاں پرامن و آشتی کی فضا قائم رکھنے کے لئے ایک امن کمیٹی بنا دی گئی جس میں ہندو سکھ اور غیر احمدی مسلمان بھی شامل تھے۔اس کمیٹی کے قیام سے کم از کم وقتی طور پر قادیان اور اس کے نواح پر اچھا اثر پڑا۔(۳۰تا۳۳)اس وقت امریکی حکومت ایسے چھوٹے جہاز فروخت کر رہی تھی جو دوسری جنگِ عظیم میں استعمال ہوئے تھے۔بمبئی کی ایک کمپنی نے ان میں سے کچھ جہاز خریدے اور ایک احمدی پائلٹ لطیف صاحب کو ان جہازوں کو بمبئی لانے پر مقرر کیا۔وہ ایک جہاز حضورؓ کی خدمت میں دکھانے کی غرض سے لے کر آئے۔اور حضور ؓ کے ارشاد پر یہ جہاز پانچ ہزار روپے میں خرید لیا گیا۔اور اسے والٹن ایئر پورٹ لاہور کے فلائنگ کلب میں رکھوا دیا گیا۔ممکن ہے اس وقت بہت سے احباب کو جہاز خریدنے کی اہمیت صحیح طرح سمجھ نہ آئی ہو مگر آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ ان جہازوں کو خریدنا ایک بر وقت اقدام تھا۔بعد میں یہ جہاز فسادات کے دوران بہت کار آمد ثابت ہوئے۔
تقسیمِ پنجاب کی تجویز:
ابھی نئے وائسرائے نے ہندوستان میں قدم نہیں رکھا تھا کہ ۸ مارچ ۱۹۴۷ء کو کانگریس نے ایک قرارداد پاس کی کہ گذشتہ سات ماہ میں ہونے والے فسادات کے نتیجے میں کانگرس مجبوراََ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اب پنجاب اور بنگال کی تقسیم ناگزیر ہو چکی ہے۔جبراََ ایک حصے کو دوسرے حصے کے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔لہذاٰ ان صوبوں کے جو اضلاع مسلم اکثریت کے علاقوں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے انہیں ان صوبوں سے علیحدہ کر دینا چاہئیے۔اگرچہ مجموعی طور پر بنگال اور پنجاب میں مسلمان اکثریت میں تھے مگر مشرقی پنجاب اور مغربی بنگال کے بہت سے اضلاع میں غیر مسلموں کی اکثریت تھی ۔۔اس مرحلے پر ہندوستان کی تقسیم نا گزیر نظر آرہی تھی۔مگر جب ۲۲ مارچ ۱۹۴۷ء کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن دہلی پہنچے تو ان کو برطانوی حکوت کی طرف سے یہی ہدایت دی گئی تھی کہ ان کی حکومت کی پہلی ترجیح یہی ہے کہ ہندوستان کی تقسیم نہ ہو اور انگریز اپنے پیچھے ایک متحدہ ہندوستان چھوڑ کر جائیں۔نئے وائسرائے نے سیاسی لیڈروں سے انفرادی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔حالات کا رخ دیکھتے ہوئے جلد ہی نہرو اور پٹیل جیسے لیڈروں نے عندیہ ظاہر کر دیا کہ وہ مسئلہ حل کرنے کے لئے ہندوستان کی تقسیم پر تیار ہیں ۔گاندھی جی نے شروع میں اس کی مخالفت کی مگر وہ بھی جلد متفق ہو گئے کہ ان حالات میں ملک کی تقسیم ناگزیر ہو چکی ہے۔قائدِ اعظم سے ملاقات میں وائسرائے نے اس بات کا اظہار واضح الفاظ میں کر دیا کہ ملک کی تقسیم ہوئی تو پنجاب اور بنگال کے صوبوں کو بھی تقسیم کیا جائے گا اور ہندو اکثریت کے اضلاع پاکستان میں شامل نہیں کئے جائیں گے۔کانگرس کے صدر نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان اس شرط پر بن سکتا ہے مگر ملک کا جو حصہ پاکستان میں شامل نہیں ہونا چاہتا اسے زبردستی پاکستان میں شامل نہ کیا جائے۔(۲۱تا۲۹)یہ سوال جماعت ِ احمدیہ کے لئے اک خاص اہمیت رکھتا تھا کیونکہ ہندوستان کی اکثر جماعتیں صوبہ پنجاب میں شامل تھیں۔
جماعتِ احمدیہ کا مؤقف یہ تھا کہ پنجاب ہر لحاظ سے ایک یونٹ ہے،اس لئے جس طرح ہندوستان کی تقسیم کے وقت دیگر صوبوں کو تقسیم نہیں کیا جارہا اسی طرح پنجاب کو بھی تقسیم نہیں کیا جانا چاہئیے۔چنانچہ حضور ؓ کی طرف سے وائسرائے کو مندرجہ ذیل تار دی گئی۔
ُُُُ’’آل انڈیا ریڈیو میں آج رات (یعنی مورخہ ۱۵ اپریل سے قبل کی رات ) اعلان ہؤا ہے۔کہ پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز زیرِ غور ہے۔میں اور میری جماعت تقسیمِ پنجاب کی تجویز کے خلاف پر زور احتجاج کرتے ہیں ۔اور خصوصاََ اس تجویز کے خلاف کہ وسطی پنجاب کو مغربی پنجاب سے علیحدہ کر دیا جائے ۔ہم مسلمان پنجاب کے وسطی حصوں میں کامل اکثریت رکھتے ہیں۔اور ہمیں ایسے ہی انسانی حقوق حاصل ہیں۔جو دنیا کے کسی حصے میں کسی بھی قوم کو حاصل ہو سکتے ہیں۔یقیناََ ہمارے ساتھ ان تجارتی اموال کا سا سلوک نہیں ہونا چاہئیے جو فروخت کے لئے منڈیوں میں بھجوائے جاتے ہیں۔‘‘(۳۴)
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ نظر آ رہا تھا کہ حکومت پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا پختہ ارادہ کئے ہوئے ہے۔اور کانگرس کی طرف سے یہ مطالبہ بھی کیا جارہا تھا کہ تقسیم کرتے ہوئے صرف یہ نہ دیکھا جائے ان اضلاع کی اکثریت کس طرف جانا چاہتی ہے بلکہ ان اضلاع کو بھی ہندوستان میں شامل کیا جائے جہاں کی آبادی کی اکثریت تو مسلمان ہے مگر زرعی زمینوں،جائدادوں اور صنعتوں کا بیشتر حصہ ہندوؤں اور سکھوں کی ملکیت میں ہے۔جماعت کا موقف یہ تھا کہ یہ فیصلہ اس بنیاد پر ہونا چاہئیے کہ متنازع علاقے کی اکثریت تقسیمِ ہند کے بعد کس ملک میں شامل ہونا چاہتی ہے۔اور یہ فیصلہ اس بنیاد پر نہ کیا جائے کہ کسی ضلع کے مالدار لوگوں کا رحجان کس ملک کی طرف ہے۔
ہندو اورمسلمانوں کے درمیان صلح کی خواہش:
اس صورتِ حال میں جبکہ ہر طرف نفرت کی آندھیاں چل رہی تھیںِحضرت مصلح موعود ؓ مسلسل اس خواہش کا اظہار فرما رہے تھے کہ ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان صلح کی کوئی صورت نکلے اور سب معاملات باہمی مفاہمت سے طے ہوں۔۳ اپریل کو اپنی ایک رؤیا بیان فرما کر حضورؓ نے ارشاد فرمایا’بہر حال ابھی ایسا وقت نہیں آیا کہ صلح کے امکانات ہی نہیں رہے۔ہمیں اس طرف سے توجہ نہیں اُٹھانی چاہئیے۔لوگوں کایہ خیال کہ صلح نہیں ہو سکتی غلط ہے۔۔۔۔میں نے جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے تعلق رکھنے والے امور پر غور کیا ہے میرا خیال یہی ہے کہ اگر مسلمانوں کے حقوق محفوظ ہو جائیں۔تو ہم سب کو مل کر رہنے میں ہی فائدہ ہے۔‘پھر حضورؓ نے ارشاد فرمایا کہ ہمیں ہندوسان کو اسلام کی تبلیغ کے لئے Baseبنانا چاہئیے اور جس طرح صبح کے وقت شمع کے گرد پروانوں کا ڈھیر ہوتا ہے اسی طرح ہمیں بھی شمع اسلام کے گرد قربان ہونا پڑے گا۔آپ نے فرمایا ،’بعض احمدی مجھے لکھتے رہتے ہیں کہ غیر احمدیوں نے ہم پر یہ یہ ظلم کئے ہیں۔مگر میں ہمیشہ ان کو یہی جواب دیتا ہوں کہ اس میں شک نہیں ہمیں غیر احمدی مسلمانوں کی طرف سے وقتاََ فوقتاََ تکالیف پہنچتی ہیں ۔مگر یہ تو بتاؤ کہ ہماری جماعت کے اندر ہندوؤں میں سے زیادہ لوگ آئے ہیں یا مسلمانوں میں سے ؟وہ ظلم بھی کرتے ہیں مگر آتے بھی تو وہی ہیں۔۔۔یہ سب حالات بتاتے ہیں کہ ہمارے اور ان کے درمیان ایک قدرتی اتحاد ہے۔اور ہم جسم کے ٹکڑوں کی طرح ایک دوسرے سے جدانہیں ہو سکتے ۔‘ (۳۵)
مئی ۱۹۴۷ء کے آغاز میں جماعتِ احمدیہ کی طرف سے قائدِ اعظم محمد علی جناح کو ان تجاویز پر مشتمل تار دی گئی۔اول تو جماعتِ احمدیہ تقسیم پنجاب کے خلاف ہے لیکن اگر یہ تقسیم ناگزیر ہو تو اسے ان شرائط سے مشروط کرنا ضروری ہے۔تمام ان علاقوں کو پاکستان میں شامل کیا جائے جہاں پر مسلمان اکثریت میں ہوں۔جن علاقوں میں کسی ایک گروہ کی واضح اکثریت نہیں وہاں پرمسلمان،ہندوؤں اور سکھوں کی رائے تو معلوم ہو چکی ہے،البتہ اچھوت اقوام اور عیسائیوں کی رائے ریفرنڈم کے ذریعہ معلوم کی جائے۔نہروںکے ہیڈ، بجلی کے پاور سٹیشنوں اور پہاڑی مقامات کو پندرہ برس کے لئے اُن مقامات سے وابستہ رکھا جائے جن کو وہ اس وقت فائدہ پہنچا رہے ہیں۔(۳۶)
ابھی سیاسی افق پر تو مبہم مناظر آرہے تھے لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ جماعت احمدیہ کو ہرممکن حالات کے لئے تیار فرما رہے تھے۔پنجاب مسلم لیگ نے تو آخر تک پیش آمدہ مسائل سے نمٹنے کی تیاری نہیں کی تھی مگر مئی کے آغاز میں ہی جماعت نے متعلقہ اعدادو شمار جمع کرنے شروع کر دیئے تھے۔(۳۷)اور جماعت کی طرف سے سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے نام اپیلیں شائع ہو رہی تھیں کہ وہ پنجاب کی تقسیم پر اصرار نہ کریں۔اس پس منظر میںبعض اخبارات نے لکھنا شروع کیا کہ اس وقت تو احمدی پاکستان کی حمایت کر رہے ہیں مگر جب پاکستان بن جائے گا تو ان کے ساتھ مسلمان پھر وہی سلوک کریں گے جو کابل میں کیا گیا تھا۔اس کے جواب میں حضورؓ نے فرمایا
’’قطع نظر اس کے کہ مسلم لیگ والے پاکستان بننے کے بعدہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔وہ ہمارے ساتھ وہی کابل والا سلوک کریں گے یا اس سے بھی بد تر معاملہ کریں گے۔اس وقت سوال یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے جھگڑے میں حق پر کون ہے اور ناحق پر کون ۔۔۔۔ہم نے بار بار ہندوؤں کو توجہ دلائی کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کو تلف کر رہے ہیں ۔یہ امر ٹھیک نہیں ۔ہم نے بار بار ہندوؤں کو متنبہ کیا کہ مسلمانوں کے حقوق کو اس طرح نظر انداز کر دینا بعید از انصاف ہے ۔اور ہم نے بار بار ہندو لیڈروں کو آگاہ کیا کہ یہ حق تلفی اور یہ نا انصافی آخر رنگ لائے گی ۔مگر افسوس کہ ہمارے توجہ دلانے ہمارے انتباہ اور ہمارے ان کو آگاہ کرنے کا نتیجہ کبھی کچھ نہ نکلا ۔‘‘(۳۸)
حضورؓ نے فرمایا کہ خواہ ملازمتوں کا معاملہ ہو یا تجارتوں کا، ہر معاملے میں ہندوؤں نے مسلمانوں سے نا انصافی کی ۔یہاں تک کہ جب احرار نے جماعتِ احمدیہ کی مخالفت شروع کی تو ہندوؤں نے احرار کی پیٹھ ٹھونکی اور ان کی مدد کرتے رہے ۔ان سے کوئی پوچھے کہ ان کا وفاتِ مسیح یا ختمِ نبوت کے مسائل سے کیا تعلق تھا؟احرار کی طرف سے ہندو وکلاء مفت پیش ہوتے تھے۔حضورؓ نے فرمایا کہ میں نے اس بارہ میں پنڈت نہرو کے پاس اپنا آدمی بھیجا کہ آپ لوگوں کی احرار کے ساتھ ہمدردی کس بناء پر ہے۔اور یہ طرفداری کیوں کی جارہی ہے۔انہوں نے ہنس کر کہا سیاسیات میں ایسا کرنا ہی پڑتا ہے۔یہ جو کچھ آج کل ہو رہا ہے ۔یہ سب گاندھی جی ،پنڈت نہرو اور مسٹر پٹیل کے ہاتھوں سے رکھی ہوئی بنیادوں پر ہو رہا ہے اور انگریزوں کا بھی اس میں ہاتھ تھا۔(۳۸)
ممکنہ بحران کی تیاری:
افق پر مستقبل میںپیش آنے والے حالات کے آثار نظر آرہے تھے۔چنانچہ حضور ؓ نے جماعت کو روزوں اور دعاؤں کی تلقین فرمائی۔آنے والے وقت میںجماعت کو قادیان کی حفاظت اور دیگر اہم ضروریات کے لئے مالی وسائل کی ضرورت تھی ۔ایک عام آدمی اس کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتا تھا لیکن حضورؓ کی دور بین نگاہ آنے والے خطرات کو واضح طور پردیکھ رہی تھی ۔پہلے فروری میں آپ نے حفاظتِ مرکز کے لئے چندہ جمع کرنے کی تحریک فرمائی اور پھر مئی میںحضورؓ نے تحریک فرمائی کہ زیادہ سے زیادہ احباب وقفِ جائیداد اور وقفِ آمد کی تحریک میں حصہ لیں اور ۲۰ مئی تک وقفِ جائیداد کرنے والوں کی فہرستیں تیار ہو کر قادیان پہنچا دی گئی تھیں۔ ان تحاریک کی وجہ سے وہ مالی وسائل پیدا ہوئے جن کی ضرورت مستقبل قریب میں پڑنے والی تھی۔آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ ان بر وقت اقدامات کی وجہ سے جماعتِ احمدیہ اُن خطرناک حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوئی جن کے سامنے حکومتی ادارے بھی بے بس اور لاچار نظر آتے تھے۔(۳۹)اس کے علاوہ قادیان میں گندم اور دیگر ضروریاتِ زندگی بڑی مقدار میں خرید کر محفوظ کر دی گئیں۔جب کچھ ماہ کے بعد مشرقی پنجاب کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی تو ان تیاریوں سے نہ صرف قادیان میں محصور احمدیوں کی جانیں بچیں بلکہ ان ہزاروں مسلمانوں کی خدمت بھی کی گئی جو دشمن کی چیرہ دستیوں سے مجبور ہو کر قادیان میں پناہ گزیں ہوئے تھے۔اور دوسری طرف جب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اُس وقت مسلمانانِ پنجاب کے لیڈر کیا تیاریاں کر رہے تھے تو یہ افسوسناک حقیقت نظر آتی ہے کہ آنے والے بحران کی تیاری کرنا تو درکنار ،وہ نوشتہ دیوار پڑھنے سے بھی قاصر تھے۔اس غفلت کا نتیجہ کیا نکلا؟ جب پنجاب میں خون کی ہولی کھیلی گئی تو مشرقی پنجاب کے مسلمان وحشیوں کے سامنے بے یار و مدد گار کھڑے تھے۔ہزاروں قتل ہو گئے ۔اکثریت کی تمام املاک لٹ گئیں ۔کتنی ہی مسلمان عورتیں اغوا کر لی گئیں۔
پنجاب کی تقسیم پر احتجاج:
گو کہ وقت کے ساتھ یہ ظاہر ہوتا جا رہا تھا کہ پنجاب کی تقسیم کا فیصلہ کیا جا چکا ہے مگر جماعت اس تقسیم کے خلاف اپنا مؤقف ہر سطح پر پیش کر رہی تھی۔چناچہ مئی کے آخر پر ناظرِ اعلیٰ کی طرف سے برطانیہ کے وزیرِ اعظم کو یہ تار دی گئی۔
’’احمدیہ جماعت پنجاب کی تقسیم کے سخت خلاف ہے۔کیونکہ وہ جغرافیائی اور اقتصادی لحاظ سے ایک قدرتی یونٹ ہے۔اور اسے ہندوستان کی تقسیم پر قیاس کرنا اور اس کا طبعی نتیجہ قرار دینا بالکل خلافِ انصاف اور خلافِ عقل ہے۔اگر صوبوں یعنی قدرتی یونٹوں کواس لئے تقسیم کیا جا رہا ہے کہ اقلیتوں کے لئے حفاظت کا سامان مہیا کیا جائے۔تو اس صورت میں یوپی کے ۸۴ لاکھ اور بہار کے ۴۷ لاکھ اور مدراس کے ۳۹ لاکھ مسلمان زیادہ حفاظت کے مستحق ہیں۔۔۔۔۔
یہ ادعا کہ پنجاب کی تقسیم آبادی کی بجائے جائیداد کی بنا ء پر ہونی چاہئیے۔نہ صرف جمہوریت کے تمام مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے۔بلکہ اس سے مادی اموال کو انسانی جانوں پر فوقیت بھی حاصل ہوتی ہے۔جو ایک بالکل ظالمانہ نظریہ ہے۔‘‘(۴۰)
ہندوؤں اور سکھوں کی حفاظت کرنے کا اعلان:
جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ اس وقت قادیان کی ۸۵ فیصد آبادی احمدی تھی اور ویسے بھی ضلع گورداسپور میں مسلمان اکثریت میں تھے۔ان وجوہات کی بنا پر قادیان میں رہنے والے ہندوؤں اور سکھوں کے دلوں میں اپنی حفاظت کے بارے میں خدشات پیدا ہونا ایک قدرتی امر تھا۔ اس پس منظر میں حضورؓ نے ۲۳ مئی کے خطبہ جمعہ میں یہ اعلان فرمایا
’’ میں قادیان کے ہندوؤں اور سکھوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم ان کی اپنے عزیزوں سے بڑھ کر حفاظت کریں گے اور اپنی طاقت کے مطابق ہر ممکن ذریعہ سے ان کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں گے۔قادیان کے ہندو اور سکھ کم سے کم یہ تو ضرور جانتے ہیں کہ میں جھوٹ نہیں بولتا ۔۔۔۔اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ میرے اس اعلان کو سن کروہ ضرور مطمئن ہو جائیں گے۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جو بات میں کہوں گا اس میں کسی قسم کا دہوکا نہیں ہو گا۔پس میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ یہ نہیں کہ صرف کمینگی اور ذلت کا سلوک ان سے نہیں کیا جائے گا۔بلکہ خطرے کی صورت میں ہم اپنے عزیزوں سے بڑھ کر ان کی حفاظت کریں گے۔‘‘(۴۱)
باؤنڈری کمیشن کی تشکیل:
۳ جون ۱۹۴۷ء کو حکومت نے اعلان کیا
’’ جونہی اس صوبے (پنجاب ) کی تقسیم کا فیصلہ ہؤا ،وائسرائے کی طرف سے ایک باؤنڈری کمیشن کی تشکیل کی جائے گی ۔متعلقہ فریقوں کے مشورے سے قواعد مقرر کیئے جائیں گے۔اس کے سپرد پنجاب کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کی اکثریت کے متصل علاقوں کے درمیان کی سرحد متعین کرنے کاکام ہو گا۔اس کو یہ بھی ہدایت دی جائے گی کہ دیگر عوامل کو بھی پیشِ نظر رکھے۔۔۔جب تک کہ یہ کمیشن رپورٹ نہیں پیش کرتا ،اس وقت تک ضمیمہ میں دکھائی گئی سرحد لاگو ہو گی۔‘‘
اس کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ بنگال کو تقسیم کرنے کے لیئے بھی ایسا ہی کمیشن قائم کیا جائے گا۔
اس اعلان میں موجود ’دیگر عوامل ‘کے ذکر نے،کمیشن کے چیئر مین کے لئے من مانی کرنے کے دروازے کھول دیئے۔دیگر عوامل کا ذکر تو کر دیا گیا لیکن یہ وضاحت نہ کی گئی کہ اس سے کیا مراد ہے اور یہ عوامل کس حد تک حد بندی کو تبدیل کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
کمیشن کی تشکیل کے لئے دو تجاویز پیش ہوئیں۔پہلی یہ کہ دونوں کمشنوں میں اقوامِ متحدہ کے توسط سے تین غیر جانبدار جج مقرر کئے جائیں اور طرفین کے تین تین نمایندے بھی شامل ہوں ۔ دوسری تجویز یہ تھی کہ دونوں کمیشنوں میں مسلم لیگ اور کانگرس کے نامزد کردہ دو دو جج شامل ہوں اور ان کا سربراہ ایک غیر جانبدار شخص کو مقرر کیا جائے۔مسلم لیگ اقوامِ متحدہ کے مقرر کردہ ممبرانِ کمیشن کو ترجیح دے رہی تھی مگر پنڈت جواہر لال نہرو کا کہنا تھا کہ اس طرح کمیشن کی تشکیل کا عمل غیر معمولی تاخیر کا شکار ہو جائے گا۔
مسلم لیگ کی طرف سے جسٹس محمد منیر اور جسٹس دین محمد صاحب کے نام پیش کئے گئے اور کانگرس کی طرف سے جسٹس مہر چند مہاجن اور جسٹس تیجا سنگھ کو نامزد کیا گیا۔کمیشن کے غیر جانبدار ممبر کا تقرر باقی تھا۔حضرت چوہدری ظفراللہ خان ؓ صاحب اس وقت بعض ریاستوں سے متعلقہ بعض معاملات برطانوی حکومت کے سامنے پیش کرنے کے لئے ملک سے باہر جانے والے تھے۔ قائدِاعظم نے انہیں بلایا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ چوہدری صاحب پنجاب کے کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کریں۔جب انہیں بتایا گیا کہ چوہدری صاحب برطانیہ جانے والے ہیں تو قائدِ اعظم نے کہا کہ تمام کیس تو لاہور کے وکلاء نے تیار کر کے رکھا ہوگا ،چوہدری صاحب کو صرف بنا بنایا کیس کمیشن کے سامنے پیش کرنا ہو گا۔حضرت چوہدری صاحب نے مشورہ دیا کہ برطانیہ کے لارڈز آف اپیل اچھی شہرت رکھتے ہیں اس لئے انہیں غیر جانبدار امپائر کے طور پر مقرر کرنا مناسب ہوگا۔جب یہ تجویز لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے سامنے پیش کی گئی تو انہوں نے یہ بودا عذر رکھ کر ٹال دیا کہ وہ تو بڑی عمر کے لوگ ہیں ہندوستان کا گرم موسم برداشت نہیں کر سکیں گے۔جب کمیشن کے چیئر مین کے نام پر اتفاق نہ ہو سکا تو یہ معاملہ برطانوی حکومت پر چھوڑنا پڑا۔چوہدری صاحب لند ن میں تھے کہ انہیں خبر ملی کہ سیرل ریڈ کلف کو بنگال اور پنجاب ،دونوں کے کمشن کا پانچواں ممبر اور چیئر مین مقرر کیا گیا ہے ۔آپ کے لیئے یہ خبر باعثِ تشویش تھی کیونکہ ریڈکلف ابھی پریکٹس کر رہے تھے اور عملی سیاست میں حصہ بھی لے رہے تھے۔اس طرح ان پر کئی طرح کے اثر ڈالے جانے کا امکان تھا۔ وقت نے ثابت کیاکہ یہ تشویش بے جا نہیں تھی۔ایک گہری سازش کا تانا بانا بنا جا رہا تھا۔اس سازش کا خمیازہ یہ خطہ آج تک بھگت رہا ہے۔
باؤنڈری کمیشن کے لئے تیاری:
متحدہ پنجاب کے ۲۹ اضلاع تھے۔جن میں سے ۱۷ میں مسلمانوں کی آبادی پچاس فیصد سے زائدتھی۔۱۲ اضلاع میں ہندو اور سکھ آبادی ملا کر پچاس فیصد سے زائد تھی۔حکومت نے پندرہ اضلاع کو متنازع قرار دے دیا ۔ان میں بعض مسلم اکثریت کے اضلاع بھی شامل تھے۔گورداسپور ضلع میں مسلمانوں کی آبادی پچاس فیصد سے زائد تھی۔اس کی چار میں سے تین تحصیلوں میں مسلمان اکثریت میں تھے۔صرف پٹھانکوٹ کی اکثریت ہندو تھی۔لیکن اس ضلع کو بھی متنازع اضلاع میں شامل کر دیا گیا۔چونکہ قادیان ضلع گورداسپور کی تحصیل بٹالہ میں واقع تھا۔ اب یہ مسئلہ جماعتی طور پر نہایت اہم ہو چکا تھا۔
حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ بعض ریاستوں کی نمایندگی کرنے کے لئے لندن گئے ہوئے تھے اور قائدِ اعظم اور چوہدری صاحب دونوں کا خیال تھا کہ باؤنڈری کمیشن کے سامنے پیش کرنے کے لئے پنجاب مسلم لیگ اور لاہور کے وکلاء کیس تیار کر رہے ہوں گے اور چوہدری صاحب کو یہ کیس صرف پیش کرنا ہو گا۔جب کہ حقیقت یہ تھی کہ اس اہم قومی معاملے میں خوفناک غفلت برتی جارہی تھی ۔نہ تو پنجاب مسلم لیگ نے اس کمیشن میں پیش ہونے کے لئے تیاری کی تھی اورنہ ہی کسی وکیل سے اس کیس کی کوئی تیاری کروائی گئی تھی۔صرف حضرت مصلح موعودؓ کی خداداد فراست ہی صورتِ حال کا صحیح تجزیہ کر رہی تھی۔اور قادیان میں آنے والی آزمائش کے لئے بھرپور تیاریاں کی جارہی تھیں۔تفصیلی اعدادو شمار جمع ہو رہے تھے۔جماعتی دفاتر کے کارکنان، مختلف رضاکار اور تعلیم الاسلام کالج اور تعلیم الاسلام سکول کے اساتذہ دن رات مختلف جگہوں کا سفر کر کے یہ اعدادوشمار جمع کر رہے تھے۔حضورؓ کے ساتھ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ،حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ،حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور دیگر بزرگان دن رات اس اہم ملی کام میں مصروف تھے۔حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے تعلیم الاسلام کالج کے اساتذہ اور طلباء کو اس کام پر لگا دیا تھا۔وہ سرکاری دفاتر سے اعداد وشمار جمع کر کے لاتے اور مختلف دیہات،قصبات،تحصیلوں اور ضلعوں کی مسلم اور غیر مسلم آبادی نوٹ کرتے۔قادیان میں کچھ راتیں ایسی بھی آئیں کہ کارکنان تمام رات جاگ کر کام کرتے رہے۔باؤنڈری کمیشن میں لازماََ بہت سے اہم قانونی نکات اٹھنے تھے۔بہت سا متعلقہ قانونی لٹریچر ہندوستان میں دستیاب ہی نہیں تھا ۔حضور نے اس بات کا انتظام فرمایا کہ بیرونی ممالک سے یہ لٹریچر منگوایا جائے۔اس تنازعہ میںبہت سے جغرافیائی امور پیش ہونے تھے اور پاکستان اور ہندوستان کے دفاع سے متعلقہ امور پر بحث بھی ہونی تھی ۔اس کی تیاری کے لئے حضورؓ نے انگلستان سے ایک چوٹی کے ماہرجغرافیہ دان پر وفیسر آسکرسپیٹ(Oskar Spate)کو بلوایا تا کہ وہ اس کیس کی تیاری میں ماہرانہ مدد دیں۔پروفیسر سپیٹ اس وقت لندن اسکول آف اکنامکس سے وابستہ تھے۔لیکن ان کی پیشہ وارانہ زندگی کا بیشتر حصہ جنوبی ایشیا میں بسر ہؤا تھا۔کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد وہ رنگون یونیورسٹی میں پڑھانے لگے۔یہاں پر انہیں جنوبی ایشیا میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں میں دلچسپی پیدا ہوئی۔دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو سپیٹ بطور رضاکار بھرتی ہوئے۔ایک جاپانی حملے میں شدید زخمی ہونے کے بعد انہیں علاج کے لیئے ہندوستان لایا گیا۔صحت یاب ہو کر انہوں نے Interservices Topographical Department میں کام شروع کیا ۔اس کے بعد پہلے سری لنکا اور پھر ۱۹۴۷ء میں انگلستان چلے گئے۔ بعد میں انہوں نے ایک جریدے Geographical Journalمیںاس بات کااظہار بھی کیا کہ یہ جماعتِ احمدیہ کی لیاقت اور ذہانت کی دلیل ہے کہ اس قسم کے تنازع میں جغرافیہ دان کی ماہرانہ مدد لینے کا خیال سوائے جماعتِ احمدیہ کے کسی اورکو نہیں آیا تھا۔(۴۲۔۴۴)
باؤنڈری کمیشن کی کاروائی شروع ہوتی ہے:
بہر حال ۱۵ جولائی ۱۹۴۷ء کو حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب کام ختم کر کے اپنے اندازے سے ایک دن قبل لاہور پہنچ گئے(۴۵)۔سٹیشن پر پنجاب مسلم لیگ کے صدر نواب افتخار حسین صاحب ممدوٹ اور دوسرے احباب استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے۔ان کی زبانی معلوم ہؤا کہ ریڈکلف لاہور پہنچ چکے ہیں اور کل گیارہ بجے فریقین کے وکلاء کو میٹنگ کے لیئے بلایا ہے۔نواب صاحب ممدوٹ نے چوہدری صاحب سے کہا کہ کل ڈھائی بجے دوپہر ان کی میٹنگ لاہور کے وکلاء سے کرائی جائے گی۔اس سے چوہدری صاحب کو مزید اطمینان ہو گیا کہ وکلاء کیس کی تیاری کر چکے ہیں۔ان کے ساتھ بیٹھ کر اب صرف یہ طے کرنا ہو گا کہ کیس کو پیش کس طرح کیا جائے۔ اگلے روز منگل کا دن تھا۔ریڈکلف کی میٹنگ وکلاء سے ہوئی اور انہیں بتایا گیا کہ جمعہ کے روز دوپہر تک فریقین کو اپنے تحریری بیانات داخل کرنے ہوں گے۔سوموار سے کمیشن وکلاء کی بحث کی سماعت شروع کرے گا۔ریڈکلف نے یہ عجیب انکشاف بھی کیا کہ وہ خود اس سماعت میں شریک نہیں ہوں گے بلکہ کمیشن کی کاروائی کی رپورٹ انہیں روزانہ بھیج دی جائے گی۔اتنے اہم مقدمہ میں صدرِ عدالت کا غیر حاضر رہنا یقیناََ ایک عجیب بات تھی اور یہ امر بھی چوہدری صاحب کی پریشانی میں اضافہ کرنے کا باعث بنا۔بہر حال اب حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب پنجاب مسلم لیگ سے ہونے والی میٹنگ کا انتظار کر رہے تھے۔اللہ اللہ کر کے اس میٹننگ کا وقت ہؤا۔پھر کیا ہؤا۔اس کے متعلق حضرت چوہدری صاحب تحدیثِ نعمت میں تحریر فرماتے ہیں۔
’’میں وقتِ مقررہ پر ممدوٹ ولا پہنچ گیاوہاں بہت سے وکلاء اصحاب موجود تھے۔۔۔۔ مجھے کسی قدر حیرت ہوئی کہ اتنے قانون دان اصحاب کو کیوں جمع کیا گیا ہے۔میں نے وکلاء صاحبان سے دریافت کیا کہ آپ میں سے کون کون صاحب اس کیس میں میرے رفیقِ کار ہیں ؟اس پر ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین صاحب نے فرمایا کہ کس کیس میں؟میں نے کہا اسی حد بندی کے کیس میں جس کیلئے میں حاضر ہؤا ہوں!خلیفہ شجاع الدین صاحب نے فرمایا کہ ہمیں تو کسی کیس کا کوئی علم نہیں۔ہم سے تو صرف یہ کہا گیا تھا کہ تم کیس کی پیروی کیلئے آئے ہو اور اس کمیشن کے روبرو مسلم لیگ کا کیس تم پیش کرو گے اور تمہیں ملنے کیلئے ہمیں اس وقت یہاں آنے کی دعوت دیگئی تھی۔میں نے نواب صاحب کی طرف استفساراََ دیکھا تو وہ صرف مسکرا دیئے۔میں نہایت سراسیمگی کی حالت میں اٹھ کھڑا ہوا وکلاء صاحبان سے معذرت خواہ ہوا کہ وقت بہت کم ہے اور مجھے کیس کی تیاری کرنی ہے۔اسلئے رخصت چاہتا ہوں۔‘‘
اس مرحلے پر بحث مباحثہ یا الزام تراشی بے کار تھی۔قائدِ اعظم اس وقت دہلی میں تھے ۔ان سے فون پر رابطہ کرنا مناسب نہ تھا اور یہ ذمہ داری پنجاب مسلم لیگ کی تھی۔اس مرحلے پر ان کی کوتاہی کی شکایت محض قائد ِ اعظم کی پریشانی میں اضافہ ہی کر سکتی تھی۔ چوہدری صاحب نے نواب صاحب ممدوٹ سے صرف یہ عرض کی کہ دو تیز سٹینو گرافر بمع دفتری سامان کے ان کی طرف بھجوا دیں۔نواب صاحب نے وعدہ کیا کہ صبح سات بجے یہ سامان پہنچا دیا جائے گا۔کمیشن کی کاروائی شروع ہوئی اور ختم بھی ہو گئی مگر نواب صاحب کے سٹینو گرافر نہ پہنچے۔پنجاب مسلم لیگ کی مستعدی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۸ جولائی کو سب فریقوں نے میمورنڈم بھجوانے تھے اور ۱۷ جولائی کے نوائے وقت میں پنجاب کے ایک مبر اسمبلی کی طرف سے اپیل شائع کی گئی کہ ،گو کمیشن کے روبرو پیش کرنے کے لئے اعدادو شمار اکھٹے کرنے کا کام پنجاب مسلم لیگ کا تھا لیکن وہ دیگر مصروفیات کی وجہ سے یہ کام نہیں کر سکے اس لئے مسلمانوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنے علاقوں کے اعدادو شمار بھجوائیں۔یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ اُس وقت کانگرس لاہور۔لائل پور اور منٹگمری کے اضلاع پر بھی دعویٰ کر رہی تھی،پاکستان کا مستقبل داؤ پر لگا ہؤا تھا ،اِس سے زیادہ اہم کام کیا ہو سکتا تھا اور اگر ایک روز پہلے اعدادوشمار کے جمع کرنے کی اپیل کی جا رہی تھی تو ان اعدادوشمار نے کب اکھٹا ہونا تھا اور کب اس کا تجزیہ ہو کر دلائل تیار کئے جانے تھے۔
اس کے بر عکس حضرت مصلح موعودؓ کی دور اندیشی ہر کام کے لئے وقت پر تیاری کرا رہی تھی۔ جماعتِ احمدیہ ان ضروری اعدادو شمار کو جمع کرنے کا کام کب کا مکمل کر چکی تھی۔اس کا اندازہ اِس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مئی ۱۹۴۷ء کے آغاز ہی میںیہ کام کافی حد تک ہو چکا تھا اور ۷ مئی کے الفضل میں یہ اعلان شائع ہؤا تھا کہ مردم شماری کی ایک جلد دستیاب نہیں ،جس احمدی کو یہ جلد ملے اسے فوراََ قادیان پہنچا دے ۔اس نازک صورت حال میں چوہدری صاحب نے وہی کیا جو ایسے مرحلے پر ایک احمدی کر سکتا ہے۔وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے کہ میں بے یار و مددگار ہوں تواپنی قدرت اور فضل و رحم سے میری مدد فرما۔نماز سے فارغ ہوئے تھے تو اطلاع ملی کہ کمشنر راولپنڈی خواجہ عبد الرحیم ملنے کو آئے ہیں۔خواجہ صاحب کہنے لگے کہ میں تمہارا زیادہ وقت نہیں لینا چاہتا۔میں یہ کچھ کاغذات لایا ہوں۔میں نے اپنے طور پر سرکاری ریکارڈ سے پنجاب کے دیہات،تھانہ جات،تحصیل اور اضلاع کے فرقہ وارانہ اعدادوشمار جمع کرائے ہیں۔یہ سارے صوبے کی آبادی کے نقشہ جات ہیں۔ممکن ہے تمہیں کیس کی تیاری میں ان سے کچھ مدد مل سکے۔اس کے علاوہ کوئی مدد درکار ہو تو میں حاضر ہوں۔چوہدری صاحب فرماتے ہیں کہ میرا دل اللہ تعالیٰ کے شکر سے بھر گیا۔خواجہ صاحب کے جاتے ہی چار مسلمان وکلاء آئے اور کہا کہ ہم اس کیس میں تمہارے ساتھ شریک ہونا چاہتے ہیں ۔ اوران بے لوث خادمانِ قوم نے دن رات چوہدری صاحب کے ساتھ کام کیا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ان دنوں لاہور میں ہی تشریف فرما تھے۔بدھ کے روز حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب ؓ درد آئے اور چوہدری صاحب سے کہا کہ حضرت صاحب نے یہ دریافت کرنے کے لئے مجھے بھیجا ہے کہ حضورؓ کس وقت تشریف لا کر آپ کو تقسیم کے متعلق بعض پہلوؤں کے متعلق معلومات بہم پہنچا دیں۔چوہدری صاحب نے کہا کہ جس وقت حضور ؓ کا ارشاد ہو خاکسار حضور کی خدمت میں حاضر ہو جائے گا۔درد صاحب نے کہا کہ حضور ؓ کا ارشاد ہے کہ تم نہایت اہم قومی فرض کی سر انجام دہی میں مصروف ہو تمہارا وقت بہت قیمتی ہے تم اپنے کام میں لگے رہو ہم وہیں آئیں گے۔چنانچہ حضور خود چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓسے ملنے آئے اور بٹوارے کے اصولوں کے متعلق بعض نہایت مفید حوالے چوہدری صاحب کو عطا فرمائے اور فرمایا کہ اصل کتب انگلستان سے منگوائی گئی ہیں،اگر وہ بروقت پہنچ گئیں تو وہ بھی بھجوا دی جائیں گی۔نیز ارشاد فرمایا کہ جماعت نے اپنے خرچ پر پروفیسر سپیٹ کی خدمات حاصل کی ہیں۔وہ لاہور پہنچ چکے ہیں اور نقشہ جات تیار کرنے میں مصروف ہیں ۔تم تحریری بیان تیار کرنے کے بعد ان سے مشورے کے لئے وقت نکال لینا۔وہ آکر تمہیں بعض پہلو سمجھا دیں گے۔چنانچہ متعلقہ کتب انگلستان سے قادیان پہنچیں اور وہاں سے انہیں بذریعہ موٹر سائیکل لاہور لایا گیا اور ان سے دورانِ بحث بہت مدد ملی۔پروفیسر سپیٹ نے چوہدری صاحب سے مل کر انہیں دفاعی پہلو کے متعلق نکات سمجھا دیئے۔چنانچہ جب کانگرس کے وکیل مسٹر ستیلواڈ کی طرف سے دفاعی پہلوؤں کو بنیاد بنا کر دریائے جہلم تک کے علاقے کو ہندوستان میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تو حضرت چوہدری صاحبؓ نے پروفیسر سپیٹ کے بنائے ہوئے نقشے اور بیان کردہ نکات کمیشن کے روبرو پیش کئے۔کانگرس کے وکیل کی طرف سے ان کا کوئی معقول جواب نہ دیا گیا۔ان واقعات پر سرسرسی نظر ڈالنے والا یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ پنجاب مسلم لیگ کا ایک طبقہ احمدیوں پر کفر کے فتوے لگانے اور ان پر مسلم لیگ کے دروازے بند کرنے کے لئے تو بہت زور لگاتا رہا تھا لیکن جب قوم پر اتنی بڑی آزمائش کا وقت آیا تو ان میں سے کوئی بھی خدمت کے لئے سامنے نہ آیا۔اور اس وقت خدمت کے لئے اگر کوئی جماعت پیش پیش تھی تو وہ جماعتِ احمدیہ تھی۔قوم پر آئے ہوئے بحران کا سامنا صرف جلسے جلوسوں اور اخباری بیانات سے نہیں کیا جاتا ،اس کے لئے بہت سی ٹھوس خدمات کرنی پڑتی ہیں۔
کاروائی محض ڈھونگ ثابت ہوئی:
حضورؓ کے تشریف لے جانے کے بعد کمیشن میں مسلم لیگ کے نامزد کردہ جج ،جسٹس دین محمد صاحب آئے۔وہ بہت پریشان تھے۔اور کہنے لگے تم اپنی طرف سے تحریری بیان تیار کرو اور جیسے بن پڑے بحث بھی کرنا لیکن میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ یہ سب کاروائی محض کھیل ہے۔حدبندی کا فیصلہ ہو چکا ہے اور اسی کے مطابق حد بندی ہو گی۔پھر انہوں نے وضاحت کی کہ ریڈ کلف نے جہاز پر علاقے کا معائینہ کرنے جانا تھا ۔صبح سات بجے والٹن ایئر پورٹ سے فلائیٹ تھی مگر گرد کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہؤا۔پائیلٹ کو جو ہدایات دی گئی تھیں ان میں ایک نقشہ بھی تھا اور اس پر ایک لائن بھی لگی ہوئی تھی جس پر جہاز نے پرواز کرنی تھی۔ریڈ کلف ابھی ہندوستان میں آیا ہی ہے اور ابھی فریقین کا مؤقف بھی اس کے سامنے پیش نہیں ہؤا۔ایسی صورت میں ایک مخصوص لائن پر پرواز کرنے اور اس کے نقشے پر حد بندی کی لائن کھینچنے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ حد بندی کے متعلق انہیں بریف کیا جا چکا ہے اور حد بندی کی لائن بھی ان کو دی جا چکی ہے جس کے متعلق انہیں فیصلہ کرنا ہے۔اور اس طے شدہ فیصلے میں مسلم اکثریت کے بعض علاقے ہندوستان کے حوالے کر دئے جائیں گے اور ضلع گورداسپور اور تحصیل بٹالہ بھی ہندوستان کو دے دیئے جائیں گے۔چوہدری صاحب سے ملاقات کرنے کے بعد جسٹس دین محمد صاحب دہلی قائدِ اعظم کے پاس گئے اور ان کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ اس صورتِ حال میں بہتر ہوگا کہ وہ اور جسٹس منیر استعفیٰ دے دیں کیونکہ غیر جانبدار امپائر طے شدہ فیصلہ ہی کرے گا۔ لیکن اس صورتِ حال میں قائدِ اعظم نے یہ تجویز منظور نہیں کی اور کہا کہ اپنی پوری کوشش کرو۔سب ٹھیک ہوجائے گا۔(۴۶)
یہ صرف جسٹس دین محمد صاحب کا وہم ہی نہیں تھا ۔جلد ہی یہ خبر پھیلنی شروع ہو گئی کہ باؤنڈری کمیشن صرف ڈھونگ ہے ۔بہت سے مسلم اکثریت کے علاقے ہندوستان کو دینے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔چنانچہ ۱۹ جولائی ۱۹۴۷ء کو نوائے وقت میں شائع ہونے والی اس خبر نے مسلمانوں میں تشویش کی ایک لہر دوڑا دی
’’پنجاب حد بندی کمیشن کی تمام کاروائی ایک فراڈ ثابت ہو گی‘‘
کمیشن کے چیئر مین نے ’دوسرے عوامل کی خود بھی تشریح نہیں کی
لاہور ۱۸ جولائی ۔پنجاب حد بندی کمیشن کے چیئر مین سر سیرل ریڈ کلف کے ورود ِ لاہور کے بعد با خبر سیاسی اور سرکاری حلقوں کی رائے یہ ہے کہ اس صوبائی کمیشن کی تمام کاروائی محض ایک مذاق ثابت ہو گی ۔کمیشن کے نہایت ہی اہم فرائض کے باوجودکمیشن کی کاروائی سے اس کے چیئر مین کی مسلسل علیحدگی کمیشن کے حق میں فالِ بددکھائی دیتی ہے…
اور ۱۳ اگست کو سرکاری طور پر اس ایوارڈ کا اعلان کر دیا جائے گا۔سب سے حیران کن امر یہ ہے کہ ارکانِ کمیشن کو غیر مبہم الفاظ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ تقسیمِ پنجاب کے سلسلہ میں انہوں نے کو ن کون سے اصول پیشِ نظر رکھنے ہیں ۔اس طرح جہاں ارکانِ کمیشن کے لئے کئی مشکلات پیدا کر دی گئی ہیں وہاں مختلف پارٹیاں ’ دوسرے عوامل ‘ کی مختلف تاویلات پیش کریں گی اور کمیشن کی تمام کاروائی ایک مذاق بن جائے گی ۔یوں معلوم ہوتاہے کہ دیدہ دانستہ ایسی صورتِ حال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں ارکانِ کمیشن متنازعہ فیہ علاقوں کے بارے میں باہمی مفاہمت سے کچھ طے نہ کر سکیں ۔اور ایوارڈ کا ٹھونسنا نا گزیر ہو جائے۔‘‘
یہ خبر پھیلنے کی دیر تھی کہ حکومت کی مشینری تیزی سے حرکت میں آگئی۔۱۹ جولائی کو حکومتِ پنجاب نے اخبارات کے نام یہ حکم جاری کیا کہ وہ حد بندی کے کمیشن کی کاروائی کے متعلق کوئی خبر ،کوئی تبصرہ کوئی مضمون اور کوئی تصویر سوائے سرکاری اعلان کے،حکومتِ پنجاب سے سینسر کرائے بغیر شائع نہ کریں۔ (۴۷) اب صورتِ حال واضح ہوتی جارہی تھی۔تعصب اور جانبداری کی دیوی کے چرنوں پر انصاف کی قربانی دی جارہی تھی۔
کمیشن میں بحث شروع ہوتی ہے،جماعت کا اصولی مؤقف :
جمعہ کے روز تحریری بیانات جمع ہوئے۔اور سوموار کو کمیشن کے سامنے بحث شروع ہوئی۔کانگرس کی طرف سے یہ مؤقف پیش کیا گیا کہ ایک علاقے کے متعلق فیصلہ کرتے ہوئے صرف یہ نہیں دیکھنا چاہئیے کہ اس علاقے کی اکثریت کس ملک کے ساتھ شامل ہونا چاہتی ہے بلکہ حکومت کے اعلان میں مذکور دیگر عوامل کو مدِ نظر رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔اور کانگرس کے پیش کردہ بعض اہم امور یہ تھے ۔ لائلپور ،منٹگمری اور شیخو پورہ کے اضلاع میں سکھ کافی تعداد میں ہیں اس لئے ان اضلاع کو ہندوستان میں شامل کرنا چاہئیے تا کہ سکھ قوم کی وحدت برقرار رہ سکے۔حقیقت یہ تھی کہ ان تینوں اضلاع میں مسلمان ساٹھ فیصد سے زائد تھے اور پاکستان کے حق میں واضح رائے دے چکے تھے۔گویا ان کا مطالبہ یہ تھا کہ اکثریت کے فیصلے کو نظر انداز کر دینا چاہئیے اور صرف سکھ قوم کی وحدت کو پیشِ نظر رکھ کر فیصلہ کرنا چاہئیے۔پھر ان کی طرف سے یہ درخواست پیش کی گئی کہ چونکہ شیخو پورہ ،گورداسپور اور لاہور کے اضلاع میں سکھوں کے مقدس مقامات ہیں اس لئے اگر ان اضلاع کو ہندوستان میں شامل نہ کیا گیا تو یہ بہت بڑی نا انصافی ہوگی۔اول تو یہ تینوں اضلاع مسلم اکثریت رکھتے تھے۔دوسرے یہ کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا تھا کہ گورداسپور میں قادیان ہے جو احمدیوں کا مقدس مقام ہے اور احمدی پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے اور اس طرح تو دہلی میں بہت سے مسلمان بزرگوں کے مزار ہیں ۔اس کلیے کی رو سے تو دہلی پاکستان کو ملنا چاہیے تھا۔لاہور میں ساٹھ فیصد آبادی مسلمان تھی۔لیکن لاہور کے متعلق کانگرس کی طرف سے یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ اگرچہ اکثر آبادی تو مسلمان ہے لیکن یہ بات پیشِ نظر رکھ کر لاہور کی قسمت کا فیصلہ کرنا چاہئیے کہ غیر مسلم لاہور کی ۶۷ فیصد زمین کے مالک ہیں ،اور مسلم آ بادی غیر مسلموں کی نسبت نصف ٹیکس دیتی ہے۔نہ صرف لاہور بلکہ لائلپور اور منٹگمری کی اکثر فیکٹریوں کے مالک غیر مسلم ہیں اور لاہور کے اکثر بینک غیر مسلم چلا رہے ہیں اور مسلمانوں کا ادا کردہ سیلز ٹیکس غیر مسلموں سے بہت کم بنتا ہے۔گویا کانگرس کے دلائل کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ نہیں دیکھنا چاہئیے کہ متنازع اضلاع کی اکثریت کس مک کے ساتھ ملنا چاہتی ہے بلکہ یہ دیکھنا چاہئیے کہ زیادہ زمینیں کس کی ملکیت ہیں ،بینک کون چلا رہا ہے،زیادہ مالدار کون ہے۔
عدالتی کاروائی میں ،مسلم لیگ کی قیادت کے کہنے پر،مسلم لیگ کے وقت میں،جماعت کا میمورنڈم بھی کمیشن کے سامنے پیش کیا گیا۔جماعتِ احمدیہ کا اصولی مؤقف تھا کہ ایک علاقے کو اسی ملک میں شامل کرنا چاہئیے جس ملک میں اس علاقے کی اکثریت شامل ہونا چاہتی ہے۔اگر ایک علاقے کو اس کی اکثریت کی مرضی کے خلاف دوسرے ملک میں صرف اس لئے دھکیل دیا جائے،کہ اس علاقے میں بسنے والی اقلیت کے پاس زیادہ جائیدادیں ہیں،اموال زیادہ ہیں،وہ زیادہ ٹیکس دینے کی اہلیت رکھتے ہیں اور زیادہ کالجوں کے مالک ہیں تو یہ اس دور میں غلاموں کی تجارت کی بدترین مثال ہو گی۔اموال اور جائیدادوں کا حساب تو پیش کیا گیا ہے لیکن یہ بتایا جائے کہ اگر کانگرس کا مؤقف مان لیا جائے تو کتنے مسلمان اس بناء پر آزادی کے بنیادی حق سے محروم کر دیئے جائیں گے۔ان بنیادوں پر تقسیم عقل اور ضمیر کے تقاضوں کے خلاف ہو گی۔اور یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ ہندو تجارت اور اموال کی دوڑ میں آخر کس طرح آگے نکلے۔چونکہ انگریزوں کے آنے سے قبل مسلمان ہندوستان پر حکومت کر رہے تھے۔اس لئے لارڈ کرزن سے قبل حکومت کی پالیسی یہی رہی کہ ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو مسلمانوں پر ترجیح دی جائے۔اس ظلم کی وجہ سے مسلمان اس دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔ایک تو پہلے یہ ظلم کیا گیا اور اب اس کو بنیاد بنا کر یہ دوسرا ظلم کیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کو اس لیئے اپنے حق سے محروم کر دو کیونکہ وہ جائیدادوں اور اموال اور تجارتوں میں دوسری اقوام سے پیچھے ہیں۔
اس میمورنڈم میں اس امر کی نشاندہی بھی کی گئی کہ کانگرس اس مفروضے پر چل کر اپنا کیس پیش کر رہی ہے کہ ہر جگہ عیسائی ہندوستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ گورداسپور کے عیسائی لیڈر ایس پی سنگھا نے پاکستان میں شامل ہونے کی حمایت کی ہے۔اور اس کے بعد سنٹرل کرسچن ایسوسی ایشن نے اُن پر اظہارِ اعتماد بھی کیا ہے۔اس طرح اس ضلع میں پاکستان کے حامیوں کی تعداد اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
قادیان کی پوزیشن اور اس کے متعلق جماعتی مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا گیا کہ قادیان گورداسپور کے ضلع میںہے اور اس ضلع میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔قادیان کی تحصیل بٹالہ ہے اور اس تحصیل میں بھی مسلمان اکثریت میں ہیں۔قادیان کی ذیل،قانون گو حلقہ اور تھانہ میں بھی مسلمان اکثریت میں ہیں اور خود قادیان کی بستی میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔اور یہ سب یونٹ مغربی پنجاب سے متصل ہیں۔اور ان کی حیثیت مشرقی پنجاب کے اندر ایک کٹے ہوئے جزیرے کی نہیں ہے۔یہ نشاندہی بھی کی گئی کہ وائسرائے نے ایک پریس کانفرنس میں ضلع گورداسپور میں مختلف مذاہب سے وابستہ آبادی کا جو تناسب بیان کیا تھا وہ پوری طرح صحیح نہیں تھا۔
چونکہ کانگرس کی طرف سے سکھوں کے مقدس مقامات کا سوال بڑے زور سے پیش کیا گیا تھا ،اس لیئے جماعت احمدیہ کا بھی حق تھا کہ اپنے مقدس مقامات کا سوال اٹھائے۔پھر اس میمورنڈم میں جماعتِ احمدیہ کا مختصر تعارف پیش کیا گیا اور واضح کیا گیا کہ عالمگیر جماعتِ احمدیہ کی نظروں میں قادیان کا ایک مقدس مقام ہے۔اور جماعتِ احمدیہ کی ۷۴ فیصد جماعتیں مغربی پنجاب میں ہیں ۔ اور اگر سکھوں کا یہ حق پیش کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک ملک میں ہوں تو ہماری جماعتوں کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے مرکز سے وابستہ رہیں۔
حکومتی اعلان میں مذکور دیگر عوامل (Other Factors)کے متعلق جماعت نے اس مؤقف کو پیش کیا کہ ان کو حد بندی میں خفیف ردو بدل کے لیئے ہی زیرِ غور لانا چاہئیے۔اصل بنیاد یہ ہونی چاہئیے کہ ایک علاقے میں اکثریت کس گروہ کی ہے۔اگر دیگر عوامل کو ہی بنیادبنایا گیا تو بہت سے ہندو اکثریت کے علاقے پاکستان میں شامل ہونے چاہئیں۔جیسا کہ پٹھانکوٹ کی تحصیل میںہندو اکثریت میں ہیں مگر دریاؤں کی کیفیت کی وجہ سے اسے مغربی پنجاب میں شامل کرنا چاہئیے۔
۲۵ اور ۲۶ جولائی کو مکرم شیخ بشیر احمد صاحب جماعت کا مؤقف پیش کرنے کے لئے باؤنڈری کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور خصوصیت کے ساتھ قادیان کے مقدس مقامات کی اہمیت کو واضح کیا۔نقشہ کے ذریعہ واضح کیا کہ قادیان اور ارد گرد کا علاقہ مسلمان اکثریت کے علاقے سے متصل ہے۔قادیان ایک عالمگیر جماعت کا مرکز ہے اور دنیا بھر سے طالب علم یہا ں پر دینی علوم سیکھنے کے لئے آتے ہیں۔اس مقام سے احمدیوں کی والہانہ وابستگی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس بڑی تعداد میں احمدی جلسہ کے موقع پر یہاں آتے ہیں اتنا بڑا مجمع ہندستان کے کسی اور مذہبی مقام پر جمع نہیں ہوتا۔دور دور سے لوگ یہاں آکرمستقل طور پر آباد ہو جاتے ہیں۔جب کہ سکھوں کے جن مقامات کا حوالہ کانگرس کے بیان میں دیا گیا ہے ان میں آباد سکھوں کی تعداد قادیان میں موجود احمدیوں کی تعداد سے کم ہے۔
مجلس ِاحرار کانگرس کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے تھی اور احمدیوں پر کفر کے فتوے لگانے میں پیش پیش تھی۔مسلم لیگ کے حامیوں میں پھوٹ ڈلوانے کے لئے یہ فتوے بہت مفید نسخہ تھے۔گورداسپور کے ضلعے میں مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن احمدیوں کو نکالنے سے یہ اکثریت اقلیت میں بھی بدل سکتی تھی۔ چنانچہ اس کاروائی کے دوران مسلم لیگ کے کیس کو کمزور کرنے کے لئے یہ ہتھیارکانگرس کے نامزد جج تیجا سنگھ صاحب نے استعمال کیا اور شیخ بشیر صاحب سے سوال کیا کہ احمدیت کا اسلام سے کیا تعلق ہے؟اس کے جواب شیخ صاحب نے صاف جواب دیا کہ احمدی ہر لحاظ سے مسلمانوں میں شامل ہوتے ہیں۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس نازک موڑ پر مسلم لیگ احمدیوں کو مسلم آبادی میں شامل کر رہی تھی اور اس وجہ سے ہی کم از کم گورداسپور کے بارے میں کیس مضبوط بنایا گیا تھا ۔
ایک مرحلے پر کانگرس کے وکیلوں نے یہ مسئلہ اٹھا دیا کہ اگرچہ گورداسپور میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے لیکن بالغ آبادی میں ہندوؤں کی تعداد زیادہ ہے ۔چونکہ ووٹ کا حق بالغ آبادی کو ہوتا ہے اس لئے اس ضلع کا الحاق ہندوستان کے ساتھ ہونا چاہئیے۔یہ امر احمدیوں کے لئے بہت پریشان کن تھا۔حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمدصاحب کو خیال آیا کہ اگر ۱۹۳۵ء کی مردم شماری کی رپورٹ اور ایک کیلکولیٹنگ مشین مل جائے تو یہ حساب لگایا جا سکتا ہے۔حضورؓ کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی گئی تو حضور نے مطلوبہ انتظام فرما دیا۔رات بھر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے ہزاروں مرتبہ ضربیں اور تقسیمیں دے کر حساب تیار کر لیا اور معلوم ہؤا کہ بالغ آبادی میں بھی مسلمان اکثریت میں ہیں ۔اگلے روزحضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے کانگرس کی دلیل کے رد میں صحیح حساب پیش کیا تو ہندو بہت گھبرائے کیونکہ وہ اپنے آپ کو حساب کا ماہر سمجھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو حساب نہیں آتا۔(۴۸)
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جس دن احمدیوں کے وکیل محترم شیخ بشیر احمد صاحب نے کمیشن کے روبرو دلائل پیش کرنے شروع کئے،اسی دن قادیان کے نواح میں سکھوں کے مسلح جتھے نے حملے شروع کر دیئے۔۲۵ جولائی کی رات کو جب ٹرین بٹالہ سے قادیان آرہی تھی تو وڈالہ گرنتھیاں ریلوے سٹیشن کے قریب پچیس تیس سکھوں نے گاڑی روک کر اس پر حملہ کر دیا۔ڈرائیور سمیت پانچ چھ اشخاص زخمی ہو گئے۔لیکن فائر مین نے ہوشیاری سے گاڑی چلا دی اور مزید نقصان نہیں ہؤاَ۔(۴۹)
کمیشن کی کاروائی جاری رہی۔کانگرس اور مسلم لیگ نے اپنا اپنا مؤقف پیش کیا۔مسلم لیگ کی طرف سے حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے اور کانگرس کی جانب سے مسٹر موتی لعل ستیلواڈ نے بحث کی ۔مختلف وکلاء مسٹر ستیلواڈ کی اعانت کر رہے تھے جن میںبخشی ٹیک چند صاحب زیادہ نمایاں تھے۔بحث ختم ہونے کے بعد مسٹر ستیلواڈ کو شیخ عبد الحق صاحب نے کھانے پر مدعو کیا تھا۔اس دعوت میں ستیلواڈ صاحب کہنے لگے کہ اگر پیش کردہ دلائل پر فیصلہ ہؤا تو تم لوگ بازی لے جاؤ گے(۵۰)۔باوجود تمام نا مساعد حالات کے چوہدری صاحب نے جس عمدہ طریق پر بحث کی اور مضبوط دلائل پیش فرمائے وہ اپنی مثال آپ ہے۔خواہ اپنے ہوں یا پرائے سب نے اس کو خراجِ تحسین پیش کیا۔جب ۱۹۵۳ء کے فسادات کے دوران بعض فتنہ پروروں نے باؤنڈری کمیشن کے حوالے سے چوہدری صاحب پر اعتراضات کئے تو جسٹس منیر نے ،جو باؤنڈری کمیشن کے رکن تھے اور ۱۹۵۳ء میں ہونے والے فسادت پر قائم ہونے وا لی تحقیقاتی عدالت کے رکن بھی تھے ،لکھا کہ
’عدالتِ ہذاٰ کا صدر جو اس کمیشن کا ممبر تھا۔اس بہادرانہ جد و جہد پر تشکر و امتنان کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چوہدری ظفراللہ خان نے گورداسپور کے معا ملے میں کی تھی۔یہ حقیقت باؤنڈری کمیشن کے کاغذات میںظاہر و باہر ہے اور جس شخص کو اس مسئلہ سے دلچسپی ہو وہ شوق سے اس ریکارڈ کا معائنہ کر سکتا ہے۔چوہدری ظفراللہ خان نے مسلمانوں کی نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں۔ان کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالتی تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا ہے وہ قابلِ شرم نا شکرے پن کا ثبوت ہے‘۔
بحث ختم ہونے کے بعد کمیشن کے اراکین لاہور سے شملہ چلے گئے۔۷ اگست کو کمیشن کا کام ختم ہو گیا۔ریڈ کلف وائسرائے کو رپورٹ دینے کے لئے دہلی چلے گئے۔انہوں نے روانہ ہونے سے قبل کمیشن کے اراکین کو استفسار کے با وجود یہ نہیں بتایا تھا کہ ان کا حتمی فیصلہ کیا ہو گا۔
چوہدری صاحب ابھی لاہور میں تھے کہ انہیں قائدِ اعظم کی طرف سے پیغام ملا کہ انہیں دہلی میں مل کر واپس بھوپال جائیں۔چوہدری صاحب جب شام کے کھانے پر قائدِ اعظم سے ملے تو قائدِاعظم نے ان سے معانقہ کیا اور کہا کہ میں تم سے بہت خوش ہوں اور تمہارا نہایت ممنون ہوں کہ تمہارے سپرد جو کام ہؤاتھا تم نے اسے اعلیٰ قابلیت اور احسن طریق پر کیا ہے۔پھر چوہدری صاحب نے قائدِ اعظم کو کاروائی کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔(۵۰)
تشویشناک اطلاعات:
۹ اگست کو چوہدری محمد علی صاحب ،جو بعد میں پاکستان کے وزیرِ اعظم بھی بنے ایک مالی مسئلے پر قائدِ اعظم سے ملنے کے لئے دہلی سے کراچی آئے۔لیاقت علی خان صاحب نے چوہدری محمد علی صاحب کو کہا کہ قائدِ اعظم کو باؤنڈری کمیشن کے فیصلے کے بارے میںاور خاص طور پر ضلع گورداسپور کی بابت بہت تشویشناک اطلاعات مل رہی ہیں ۔اور یہ بھی معلو م ہؤا ہے کہ جالندہر اور امرتسر کے اضلاع کے مسلم اکثریت کے علاقے بھی ہندوستان کو دینے کی تیاری ہو رہی ہے۔انہیں ہدایت دی گئی کہ دہلی جاکر لارڈ اسمے( Ismay) سے ملیں اور انہیں قائدِ اعظم کا یہ پیغام دیں کہ اگر انصاف سے فیصلہ نہ کیا گیا تو اس سے پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات پر برا اثر پڑے گا۔اور یہ برطانیہ کے انصاف اور عزت کا بھی سوال ہے۔جب چوہدری محمد علی صاحب لارڈ اسمے سے ملنے ان کے دفتر گئے تو انہیں معلوم ہؤا کہ وہ ریڈ کلف سے میٹنگ کر رہے ہیں۔ایک گھنٹے کے بعد میٹنگ ختم ہوئی تو چوہدری محمد علی صاحب نے انہیں قائدِ اعظم کا پیغام دیا ۔لارڈ اسمے نے کہا کہ انہیں تو یہ علم ہی نہیں کہ ریڈ کلف کیا فیصلہ کریں گے اور جو فیصلہ بھی ہو گا وہ لارڈ ریڈکلف کا ہو گا۔ہم اس پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔جب چوہدری صاحب انہیں اڑنے والی خبروںکی تفصیلات سمجھانے کے لئے دیوار پر لگے ہوئے نقشے کی طرف متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ نقشے پر ایک جگہ پر لائن لگی ہوئی تھی۔جس حد کے مقرر ہونے کی خبریں مل رہی تھیں یہ لائن بہت معمولی فرق سے عین اسی جگہ پر لگی ہوئی تھی۔چوہدری محمد علی صاحب نے اس سے کہا کہ مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ،آپ کے اپنے نقشے پر عین اسی مقام پر یہ لائن کس طرح نمودار ہو گئی۔لارڈ اسمے کا رنگ زرد ہو گیا ۔کہنے لگے یہ کون بیو قوف میرے نقشے کو خراب کرتا رہا ہے۔(۵۱)
۸ اگست کو حضورؓ نے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ موجودہ ایام میں ہماری جماعت ایسے خطرات میں سے گذر رہی ہے ۔کہ اگر تمہیں ان خطرات کا پوری طرح علم ہو اوراگر تمہیں پوری طرح اسکی اہمیت معلوم ہو ۔تو شاید تم میں سے بہت سے کمزور دلوں کی جان نکل جائے۔حضور ؓ نے ارشاد فرمایا کہ دعائیں کرو دعائیں کرو اور دعائیں کرو کیونکہ اس سے زیادہ دنیوی طور پر نازک وقت ہماری جماعت پر کبھی نہیں آیا۔خدا ہی ہے جو اس گھڑی کو ٹلا دے۔ہر ایک کی پشت پر کوئی نہ کوئی سفارش کرنے والا موجود ہے مگر ہماری پشت پر سوائے خدا کے کوئی نہیں۔آپ نے عمومی خیالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ عقلی طور پر ہماری بات معقول ہے اس لئے ہمیں امید رکھنی چاہئیے کہ ہماری بات مانی جائے گی۔لیکن اس دھینگا مشتی کے دور میں عقل کو کون پوچھتا ہے۔(۵۲)
جو بات بظاہر بہتر نظر آ رہی تھی اس کے لئے دن رات دعائیں کی جارہی تھیں ۔لیکن اس کے ساتھ حضورؓ کی راہنمائی میں ،ہر ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیئے تمام ظاہری تدابیر کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ خدا کا مقرر کردہ خلیفہ ایک ڈھال کی طرح جماعت کی حفاظت کر رہا تھا۔چنانچہ دس اگست ۱۹۴۷ء کو لائیڈز بینک(Lioyds Bank) امرتسر میں جماعت کے اکا ؤنٹ سے چار لاکھ اکیس ہزار روپے کی رقم بذریعہ تار کراچی کے لائیڈز بینک میں منتقل کر دی گئی اور اس کے ساتھ صدر انجمن احمدیہ کے خزانے کا ایک حصہ لاہور منتقل کر دیا گیا تاکہ وہاں سے کراچی منتقل کر دیا جائے۔ جب پاکستان میں جماعت کا انتظامی ڈھانچہ کھڑا کرنے ،نیا مرکز بنانے ،سلسلے کی روز مرہ اخراجات اور مہاجرین کی ضروریات پوری کرنے کے لئے مالی وسائل کی اشد ضرورت پڑی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان اقدامات کے تحت منتقل کی گئی رقوم سے یہ سب کام چلائے گئے۔(۵۳)سید محمد احمد صاحب ابن حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت ایئر فورس میں پائیلٹ تھے اور ان کی تقرری دہلی میں تھی۔انہیں رمضان میں ایک رات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کا خط ملا کہ جماعت کے جہاز کو لاہور سے لے کر فوراََ قادیان پہنچ جائیں ۔انہوں نے چھٹی کی درخواست بھجوائی اور جواب کا انتظار کئے بغیر لاہور روانہ ہو گئے۔چنانچہ یہ جہاز قادیان پہنچ گیا۔ارد گرد مختلف مقامات پر سکھوں کے جتھے جمع ہورہے تھے تا کہ مسلمانوں کی آبادیوں پر حملہ کیا جا ئے۔اس جہاز کے ذریعہ علاقے کا جائزہ لیا جاتا ،تا کہ معلوم ہو سکے کہ کس طرف سے خطرہ ہے۔اس پر خطر دور میں سڑک کے ذریعہ سفر دن بدن زیادہ غیر محفوظ ہوتا جا رہا تھا۔لہذا صدر انجمن احمدیہ کے خزانے کی رقوم ،ضروری دستاویزات ،اہم ڈاک اور بسا اوقات سلسلے کے کارکنان کو جہاز پر لاہور لے جایا جاتا۔ حضورؓ کی بصیرت نے اس خطرناک وقت کے لئے وہ تیاریاں کروائی تھیں جس کا کسی اور شخص کو خیال تک نہیں آسکتا تھا۔ پھر جماعت نے ایک اور جہاز بھی خرید لیا اور ایک اور احمدی پائیلٹ لطیف صاحب بھی مرکز کی حفاظت کے لئے حاضر ہو گئے۔
باؤنڈری کمیشن کے فیصلے کا اعلان ،ایک عظیم ابتلاء
پہلے اطلاعات تھیںکہ پنجاب کے باؤنڈری کمیشن کا اعلان ۱۲ اگست تک ہو جائے گا لیکن اس اعلان کو مؤخر کر دیا گیا۔اسی روز عصر کے بعد حضورؓ کو الہام ہؤا ’اَیْنَمَا تَکُوْنُوْا یَاْتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا‘ یعنی تم جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اکٹھا کر کے لے آئے گا۔حضور نے فرمایا کہ اس الہام میںتبشیر کا پہلو بھی ہے اور انذار کا پہلو بھی۔تفرقہ تو ایک رنگ میں پہلے ہو گیا ہے یعنی ہماری کچھ جماعتیں پاکستان کی طرف چلی گئی ہیں اور کچھ ہندوستان کی طرف۔ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان کے اکٹھا ہونے کی کوئی صورت پیدا کردے اگر ہمارا مرکز قادیان ہندوستان کی طرف چلا جاوے تو اکثر جماعتیں ہم سے کٹ جاتی ہیںکیونکہ ہماری اکثر جماعتیںمغربی پنجاب میں ہیں۔(۵۴)
عارضی تقسیم کے مطابق قادیان پاکستان کا حصہ تھا ۔اس لئے یومِ آزادی کے موقع پر قادیان پر پاکستان کا پرچم لہرایا گیا۔بالآخر ۱۷ اگست کو ریڈکلف ایوارڈ کا اعلان ہو گیا ۔بد ترین خدشات صحیح ثابت ہوئے۔بہت سے مسلم اکثریت کے علاقے ہندوستان میں شامل کر دیئے گئے اور شکر گڑھ کے علاوہ بٹالہ سمیت گورداسپور کی مسلم اکثریت رکھنے والی تحصیلیں بھی ہندوستان میں شامل کر دی گئیں ۔یعنی قادیان ہندوستان میں شامل ہو گیا ۔یہ خبر سن کر احمدیوں پر ایک قیامت گذر گئی۔ہر دل غمزدہ تھا اور ہر ذہن میں سینکڑوں خدشات اٹھ رہے تھے۔خدا تعالیٰ کے پیاروں کی اس جماعت پر ابتلاؤں کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔حضورؓ نے نمازِ مغرب ادا فرمائی اور پھر مجلس عرفان میں رونق افروز ہوئے۔آپ نے فرمایا
’’ ہم نہیں جانتے آئیندہ کیا نتائج نکلنے والے ہیں اور ہم میں سے کون زندہ رہ کر دیکھے گا اور کون مر جائے گا لیکن فتح بہر حال احمدیت کی ہوگی۔پس خدا تعالیٰ کے اس فعل کو اپنے لئے مضر نہیں سمجھنا چاہئیے کیونکہ خدا تعالیٰ کا کوئی فعل ہمارے لئے مضر نہیں ہو سکتا بلکہ وہ ہماری ترقیات کا پیش خیمہ ثابت ہو گا اور اللہ تعالیٰ مخالف حالات میں ہماری تائید اور نصرت فرما کر یہ بات واضح کر دے گاکہ وہ ہماری جماعت کیساتھ ہے۔‘‘
اگلے روز عید الفطر تھی۔خوشیوں کا یہ دن ایسے حالات میں آ رہا تھا جب ہر طرف سے مصائب کے طوفان امڈ رہے تھے۔ حضورؓ نے خطبہ میں فرمایا
’’جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ۔اور جب سے اللہ تعالیٰ کے رسول دنیا میں آنے شروع ہوئے ہیں۔یہ الہیٰ سنت چلی آتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے لگائے ہوئے درخت ہمیشہ آندھیوں اور طوفانوں کے اندر ہی ترقی کیا کرتے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ کی جماعت کا فرض ہوتا ہے ۔کہ وہ ان آندھیوں اور طوفانوں کو صبر سے برداشت کرے ۔اور کبھی ہمت نہ ہارے۔جس کام کے لئے الہیٰ جماعت کھڑی ہوتی ہے۔وہ کام خدا تعالیٰ کا ہوتا ہے بندوں کا نہیں ہوتا۔پس وہ آندھیاں اور طوفان جو بظاہر اس کام پر چلتے نظر آتے ہیں ۔ در حقیقت وہ بندوں پر چل رہے ہوتے ہیں۔۔۔
جب ہم اپنے توازن کو درست کر لیں گے۔اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کرلیں گے۔تو وہ حوادث خود بخود دور ہوتے چلے جائیں گے ۔بلکہ وہ حوادث ہمارے لئے رحمت اور برکت کا موجب بن جائیں گے۔رسولِ کریم ﷺ نے جب مکہ سے ہجرت کی ۔تو لوگوں نے سمجھا کہ ہم نے ان کے کام کا خا تمہ کر دیا ہے۔اور یہ حادثہ محمد ﷺ اور اس کے ساتھیوں کے لئے زبردست حادثہ ہے۔لیکن جس کو لوگ حادثہ سمجھتے تھے ۔کیا وہ حادثہ ثابت ہؤا یا برکت ؟دنیا جانتی ہے کہ وہ حادثہ ثابت نہ ہؤا ۔بلکہ وہ الہیٰ برکت بن گیا ۔اور اسلام کی ترقیات کی بنیاد اس پر پڑی۔‘‘(۵۵)
فسادات کی آگ:
باؤنڈری کمیشن کا اعلان ہوتے ہی پنجاب بھر میں امنِ عامہ کی حالت مزید ابتر ہو گئی۔قتل و غارت، لوٹ مار ، اغوا اور آتشزدگی کی وارداتیں روز کا معمول بن گئیں۔سکھوں کے مسلح جتھوں نے ،مسلمان دیہات پر حملے شروع کر دیئے۔جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی بڑی تعداد مشرقی پنجاب چھوڑ کر مغربی پنجاب جانا شروع ہو گئی۔دیکھتے دیکھتے ضلع گورداسپور میں مسلمانوں کی اکثریت اقلیت میں بدلنے لگی۔آہستہ آہستہ علاقے میں قادیان مسلمانوں کی آخری جائے پناہ رہ گئی ۔جو مسلمان مغربی پنجاب نہیں جا سکتے تھے وہ قادیان میں پناہ لینے لگ گئے۔۱۹ اگست سے سکھوں کے جتھوںنے قادیان کے سب راستے اور نہروں کے پل بند کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔جس سے حالات مزید مخدوش ہو گئے۔۲۱ اگست کو قادیان کے مغرب میں واقع احمدی گاؤں ونجواں پر حملہ ہؤا اور ۵۰ کے قریب آدمی شہید ہوئے اس طرح گاؤں خالی کر الیا گیا۔ہر نئے دن کے ساتھ بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا تھا۔(۵۶)
بگڑتے ہوئے ان حالات میں ۲۱ اگست کوحضورؓ اقدس نے ناظر صاحب اعلیٰ کی یہ تجویز منظور فرمائی کہ محاسب صدر انجمن احمدیہ کی ایک شاخ لاہور میں کھولی جائے تاکہ مغربی پنجاب، سندھ اور سرحد کی جماعتیں لاہور کی شاخ میں اپنا چندہ جمع کرا سکیں ۔طے کیا گیا کہ مرزا عبد الغنی صاحب ایک دو کارکنوں کے ساتھ لاہور چلے جائیں اور ۱۳ ٹمپل روڈ لاہور پر دفتر قائم کریں۔اس طرح یہ صدر انجمن احمدیہ کا پہلا دفتر تھا جو پاکستان میں قائم کیا گیا۔(۵۷)
۲۲ اگست کو حضورؓ نے عالمگیر جماعتِ احمدیہ کے نام پہلا پیغام بھجوایا۔یہ پیغام بذریعہ جہاز مکرم شیخ بشیر صاحب کو بھجوایا گیا اور پھر شائع کراکے پاکستان اور دوسرے ممالک کی جماعتوں کو ارسال کیا گیا۔اس میں حضورؓ نے تحریر فرمایا
’’فسادات بڑھ رہے ہیں۔قادیان کے گرد دشمن گھیرا ڈال رہا ہے۔آج سنا گیا ہے۔ ایک احمدی گاؤں پوری طرح تباہ کر دیا گیا ہے۔اس گاؤں کی آبادی چھ سو سے اوپر تھی۔ریل تار ڈاک بند ہے ۔ہم وقت پر نہ آپ کو اطلاع دے سکتے ہیں اور نہ جو لوگ قادیان سے باہر ہوںاپنے مرکز کے لئے کوئی قربانی کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔
آخر میں میں جماعت کو محبت بھرا سلام بھجواتا ہوں۔اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو۔ اگر ابھی میرے ساتھ مل کر کام کرنے کا وقت ہوتوآپ کو وفاداری سے اور مجھے دیانتداری سے کام کرنے کی توفیق ملے اور اگر ہمارے تعاون کا وقت ختم ہوچکا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور آپ کے قدم کو ڈگمگانے سے محفوظ رکھے۔سلسلہ کا جھنڈا نیچے نہ ہو۔اسلام کی آواز پست نہ ہو۔خدا تعالیٰ کا نام ماند نہ پڑے۔قرآن سیکھو اور حدیث سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ اور خود عمل کرو اور دوسروں سے عمل کراؤ۔زندگیاں وقف کرنے والے ہمیشہ تم میں سے ہوتے رہیں۔۔۔۔‘‘(۵۸)
حکومت مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کو تو نہ روک سکی لیکن۲۲ اگست کو قادیان میں ایک مبلغِ سلسلہ چوہدری شریف احمد صاحب کو سیفٹی آرڈیننس کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔
تمام دنیا کے احمدی اپنے پیارے امام اور قادیان کی حفاظت کے لئے پریشان تھے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کر رہے تھے۔اس وقت عملاََ قادیان باقی دنیا سے کٹ چکا تھا۔ایک کے بعد دوسرا مسلمان گاؤں خالی ہو رہا تھا۔قادیان کے گردگھیرا تنگ ہو رہا تھا۔ان حالات میں حضورؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ سے مشورہ طلب فرمایا۔۲۳ اگست کو ۲۴ صحابہ جمع ہوئے اور باہمی مشورے کے بعد حضور سے عرض کی کہ ان حالات میں یہی مناسب ہے کہ حضرت اماں جانؓ اور خاندانِ حضرت مسیح موعودؑ کی دوسری خواتین کو کسی محفوظ مقام پر پہنچا دیا جائے۔اور اس معاملے میں حضور ہدایت جاری فرمائیں ،مزید مشورہ نہ لیا جائے۔
اس پیغام کے اگلے ہی روزقادیان کے قریب شمال مغرب میں ایک احمدی گاؤں فیض اللہ چک پر ہزاروں سکھوں نے حملہ کر دیا۔گاؤں کے لوگوں نے بہادری سے مقابلہ شروع کیا اور دو مرتبہ ان وحشیوں کو پسپا کر دیا ۔مگر جب بھی حملہ آور کمزور پڑتے تو فوج اور پولیس ان کی مدد کو آجاتی۔آخر سارا قصبہ تباہ کر دیا گیا۔بہت سے احمدی شہید ہو گئے۔اب اس علاقے میں قادیان مسلمانوں کی آخری پناہ گاہ رہ گیا تھا۔ہزاروں کی تعدد میں مسلمان یہاں پر پناہ لے رہے تھے۔فوج،پولیس اور حکومتی مشینری بلوائیوں کا ساتھ دے رہے تھے۔اس سانحے کے بعد حضورؓ نے مکرم شیخ بشیراحمد صاحب کو تحریر فرمایا کہ کنوائیز کا انتظام کیا جائے تاکہ عورتوں اور بچوں کو قادیان سے حفاظت کے سا تھ باہر نکالا جائے۔
۲۵ اگست کو قادیان سے پہلا قافلہ روانہ ہؤا۔اس میں حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور خاندانِ حضرت مسیح موعود ؑ کی خواتین سفر کر رہی تھیں۔حضرت مصلح موعودؓ کی اہلیہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ اور حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب قادیان میں ہی ٹہری رہیں۔صبح کے وقت چند بسوں پر مشتمل یہ قافلہ قادیان سے روانہ ہؤا ۔حضرت نواب عبداللہ خان صاحب ؓ قافلے کے امیر تھے۔قافلے کے آگے حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی جیپ جا رہی تھی۔اور راستے کا جائزہ لینے کے لئے اور حفاظت کی غرض سے جماعت کا جہاز قافلے کے اوپر پرواز کر رہا تھا۔قافلہ تھوڑی دیر کے لئے بٹالہ رکا اور پھر لاہور کے لئے روانہ ہو گیا۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت اماں جان ؓ اور تمام قافلہ بخیرو عافیت لا ہور پہنچ گیا۔گو اس وقت یہی خیال تھا کہ کچھ ہی عرصہ بعد قادیان واپسی ہو جائے گی لیکن خدا تعالی ٰ کی تقدیر کچھ اور ہی ظاہر کرنے والی تھی ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام داغِ ہجرت کے پورا ہونے کا وقت آچکا تھا۔
مشرقی پنجاب میں صرف قادیان ہی ایسا مقام تھا جہاںپر ڈٹ کر ان دہشتگردوں کا مقابلہ کیا جا رہا تھا۔ان کی کوشش تھی کہ کم از کم یہاں سے اسلام کا نام ہی مٹا دیا جائے۔اور یہ ظالم بڑی حد تک اس مقصد میں کامیاب ہو چکے تھے۔ہندوستان کی فوج اور پولیس بلوائیوں کا ساتھ دے رہی تھی ۔وہ ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی مدد تو کرتے مگر جو اپنا علاقہ چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوتے ان کی حفاظت نہ کی جاتی بلکہ بسا اوقات پولیس اور فوج حملہ آوروں کی مدد کرتی نظر آتی۔نہ صرف صوبائی حکومت مسلمانوں کی داد رسی نہیں کر رہی تھی بلکہ مرکزی حکومت نے بھی آنکھیں بند رکھنے کی پالیسی اپنائی ہوئی تھی۔پنڈت جواہر لال نہرو پریس کانفرنسوں میں اخبار نویسوں کو یقین دہانی کراتے کہ حکومت مسلمانوں کی حفاظت کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ایک پریس کا نفرنس میں ایک احمدی صحافیہ محترمہ بیگم شفیع صاحبہ نے قادیان کی حفاظت کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ فوج کو مختلف جگہوں پر بھجوایا جا چکا ہے، مسلمانوں کے مقدس مقامات کی حفاظت کے احکامات جاری کئے جا چکے ہیں اور قادیان میں ہر طرح امن ہے۔جب کہ حقیقت یہ تھی کہ قادیان ہر طرف سے خطرات میں گھرا ہؤا تھا۔اس کے مضافات میں مسلمان دیہات تباہ کئے جا رہے تھے اور یہاں پر رہنے والوں کو نکلنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔جس فوج کو بھجوانے کا حوالہ دیا جا رہا تھا وہ بجائے مظلوموں کی حفاظت کرنے کے۔حملہ آوروں سے تعاون کر رہی تھی۔جب حضور کو فون پر وزیرِ اعظم کے اس بیان کی اطلاع دی گئی توآپ نے فرمایا کہ نہرو سے کہو جیسا امن قادیان میں ہے ایسا امن تمہارے گھر میں ہو(۵۸)۔ان حالات میں جبکہ قادیان کے رہنے والے اپنے مقدس مقامات کی حفاظت کر رہے تھے،اور مضافات میں بہت سے احمدی شہید ہو چکے تھے،فوج نے مزاحمت کو توڑنے کے لئے ایک اور قدم اٹھایا ۔۲۵ اگست کومیجر جنرل تھمایا(Thimmaya)قادیان کے معائنے کے لئے آئے اورکہا کہ یہ الزام لگایا گیا ہے کہ جماعت کے جہازوں سے سکھ آبادی پر حملہ کیا جاتا ہے اور اس بناء پر ان کی پرواز کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔حالا نکہ یہ جہاز بمباری کرنے کے قابل ہی نہیں تھے۔ان سے صرف علاقے کا جائزہ لیا جا سکتا تھا،ایک دو سواریوں کے سفر کرنے کے کام آسکتے تھے اور کچھ اشیاء کی ٹرانسپورٹ کا کام لیا جا سکتا تھا۔ایسی حالت میں جبکہ قادیان اکثر اوقات باقی دنیا سے منقطع رہتا تھا ،یہ جہاز رابطے کا واحد ذریعہ تھے۔سید محمد احمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ جہاز کے ذریعہ اکثر اوقات رقوم یا قیمتی اشیاء حفاظت سے لاہور پہنچائی جاتی تھیں۔یا ضروری کاغذات لے جائے جاتے تھے۔ایک مرتبہ حضور ؓ نے ارشاد فرمایا کہ آج میں اپنی سب سے قیمتی چیز لے جانے کے لئے دوں گا اور تم نے انہیں انہی الفاظ کے ساتھ شیخ بشیر صاحب کے حوالے کرنا ہے۔سیدہ حضرت مریم صدیقہ صاحبہ ایک چھوٹا سوٹ کیس لے کر آئیں۔اس کو کھولا تو اس کے اندر مختلف قسم کے کاغذ تھے ۔حضور ؓ نے فرمایا یہ تفسیری نوٹ ہیں جو میںنے مختلف وقتوں میں لکھے ہیں ۔اور آج تم نے انہیں لاہور پہنچانا ہے۔
۲۷ اگست کو مینیجر صاحب روزنامہ الفضل نے رپور ٹ دی کہ ان حالات میں جبکہ قادیان کا رابطہ بیرونی دنیا سے منقطع ہو چکا ہے۔ڈاک بھی نہیں بھجوائی جا سکتی تو یہاں سے شائع ہو کر الفضل باہر کی جماعتوں تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔چنانچہ اسے کسی باہر کے مقام سے شائع کرنے کا انتظام ہونا چاہئیے۔حضورؓ کی منظوری سے فیصلہ ہؤا کہ جتنی جلدی ممکن ہو اخبار لاہور سے جدید ڈیکلریشن لے کر شائع کیا جائے۔اور قادیان میںمقامی ضرورتوں کے مطابق دو چار صفحے کا اخبار شائع کیا جائے۔
اخلاقی قدروں کی حفاظت:
جہاں اس پر آشوب دور میں یہ ضروری تھا کہ انسانی جانوں اور مقدس مقامات کی حفاظت کی جائے ،وہاں ان اعلیٰ اخلاقی اقدار کی حفاظت بھی ضروری تھی جنہیں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے قائم فرمایا تھا۔حضرت مصلح موعودؓ نے ۲۹ اگست ۱۹۴۷ء کو جمعہ پڑھایا اور اس میں ارشاد فرمایا کہ حالات خواہ کچھ ہوںمومن کو بہر حال انصاف ،محبت ،شفقت اور رحم پر قائم رہنا چاہئیے اور اپنے دلوں کو بغضوں اور کینوں سے پاک رکھنا چاہئیے کہ نیک نمونہ دشمن کو بھی خیر خواہ بنا سکتا ہے۔ہمیں ہر ہندو اور سکھ عورت اور بچے کی اپنی بہن اور بچے کی طرح حفاظت کرنی چاہئیے۔اس وقت قادیان میں کثرت سے مسلمان پناہ گزین آرہے تھے اس لئے حضور ؓ نے فرمایا کہ قادیان میں پناہ گزینوںکی کثرت ہے۔اس لئے ضروریاتِ زندگی گندم لکڑی اور مٹی کے تیل کو چاندی کی طرح استعمال کرنا چاہئیے اور کم سے کم استعمال کرنا چاہئیے۔آخر میں حضورؓ نے فرمایا کہ دعاؤں میں کمی نہیں آنے دینی چاہئیے۔حالات خواہ کچھ ہوںلیکن بندے کا کام یہی ہے کہ وہ دعا مانگتا چلا جائے اور پھر خدا تعالیٰ جو کچھ کرے اس پر راضی رہے۔ یہ آخری جمعہ تھا جو حضورؓ نے قادیان میں پڑھایا تھا۔
حضورؓ کی ہجرت:
۳۱ اگست ۱۹۴۷ء کو حضور ؓ نے بیرونی جماعتوں کے نام ایک پیغام بھجوایا۔اس میں حضور ؓ نے تاکید فرمائی کہ اگر قادیان میں کوئی حادثہ ہو جائے تو جماعت کا پہلا فرض یہ ہو گا کہ شیخوپورہ یا سیالکوٹ میں ریل کے قریب لیکن نہایت سستی زمین لے کر ایک مرکز بنایا جائے ۔عمارات سادہ ہوں اور فوراََ کالج ،سکول ،مدرسہ احمدیہ اور جامعہ کی تعلیم کو جاری کیا جائے۔کوشش کی جائے کہ بڑے بڑے علماء پیدا ہوں۔اگر میں مارا جاؤں یا اورکسی طرح جماعت سے علیحدہ ہو جاؤںتو پہلی صورت میں فوراََ خلیفہ کا انتخاب ہو اور دوسری صورت میں ایک نائب خلیفہ منتخب کیا جائے۔جماعت با وجود ان تلخ تجربات کے قانون شکنی سے بچتی رہے اور اپنی نیک نامی کے ورثے کو ضائع نہ کرے۔ان مصائب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پر بد ظنی نہ کرنا ۔اللہ تعالیٰ جماعت کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔(۵۹) ۳۱؍اگست کو حضور ؓ کے ارشاد کے ماتحت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اہلِ قادیان کے لئے یہ ہدایت جاری فرمائی ۔جو احمدی عورتیں اور بچے ان حالات میں پاکستان جانا چاہیں انہیں اجازت ہے۔لیکن کوئی مرد بغیر اجازت کے نہیں جائے گا۔سلسلہ کی طرف سے کنوائیز کا انتظام کیا جا رہا ہے جس میں حسبِ گنجائش عورتوں، بچوں اور اجازت لے کر جانے والے مردوں کو موقع دیا جائے گا۔
صحیح تاریخ ایک عمدہ معلم ہے۔تاریخِ اسلام اس بات پر گواہ ہے کہ جب بھی خلیفہِ وقت کی حفاظت میں کسی قسم کی کوتاہی کی گئی یا دشمن کو ایسا موقع دیا گیا کہ وہ خلیفہ پر حملہ آور ہوسکیں تو اس سے بھیانک فتنوں کے دروازے کھل گئے۔حضرت عثمان ؓ کی شہادت ایک ایسا واقع ہے جسے پڑھ کر آج تک مسلمانوں کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔اسی طرح حضرت عمر ؓ اور حضرت علی کی شہادتیں ایسے واقعات نہیں جنہیں فراموش کیا جا سکے۔نظام صرف اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے جب اس کی قیادت امامِ وقت کے ہاتھ میں ہو۔ان حالات میں جب کہ قادیان باقی دنیا سے منقطع ہو چکا تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے لئے جماعت سے رابطہ رکھنا بھی ممکن نہیں رہا تھا اور مسلسل یہ اطلاعات مل رہی تھیںکہ فساد کرنیوالوں کا ارادہ ہے کہ ۳۱ اگست کے بعد مسلمانوں پر پہلے سے بھی زیادہ مظالم کئے جائیں کیونکہ اس تاریخ کے بعدپاکستان اور ہندوستان کی حکومتیں اپنے علاقہ کی حفاظت کی مکمل طور پر ذمہ ار ہوں گی۔ایک انگریز فوجی افسر جو بٹالہ میں لگا ہؤا تھا ،حضورؓ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ مجھے علم ہے کہ ۳۱ اگست کے بعد ان کے کیا منصوبے ہیں۔اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔یہ کہتے ہوئے اس پر خود بھی رقت طاری ہو گئی۔اب سب کا مشورہ یہی تھا کہ ان حالات میںیہی بہتر معلوم ہوتا ہے کہ حضورؓ قادیان سے باہر کسی محفوظ مقام پر تشریف لے جائیں۔اب قادیان میں رہتے ہوئے قادیان کی حفاظت کے لئے کوشش کرنا بھی ممکن نہیں رہا تھا کیونکہ بیرونی دنیا سے روابط منقطع ہو چکے تھے۔لیکن ان حالات میں تمام راستوں پر حالات مخدوش تھے ۔مقامی حکومت اور فوج کے ارادے خطرناک نظر آرہے تھے۔ایسی حالت میں حضور ؓ کے قافلے کی حفاظت کا انتظام کرنا ایک نہایت نازک کام تھا ۔بہت سی جگہوں پر رابطہ کر کے انتظامات کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔آخر کار یہ سعادت ایک احمدی کیپٹن مکرم عطاء اللہ صاحب کے حصے میں آئی۔انہوں نے تین گاڑیوں اور ان کی حفاظت کے انتظامات کئے اور انہیں لے کر قادیان پہنچ گئے۔حضورؓ ۳۱اگست کو سوا بجے بعد دو پہر قادیان سے روانہ ہوئے اور کیپٹن ملک عطاء اللہ صاحب کی اسکورٹ میں شام کے قریب لاہور پہنچ گئے۔اس قافلے میں حضرت مصلح موعودؓ کے ہمراہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ اور سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ بھی سفر کر رہی تھیں۔حضورؓ فرماتے ہیں کہ یہاںپہنچ کر میں نے پوری طرح محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا نہیں بلکہ ایک باغ کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے۔(۶۰۔۶۱)
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتا دیا تھا کہ آپ کی جماعت کو ہجرت کی آزمائش سے گذرنا پڑے گا۔۱۸ ستمبر ۱۸۹۴ء کو آپ کو ا لہام ہؤا ـ’داغِ ہجرت‘(۶۲)اس کے علاوہ آپ کا ایک الہام ہے’یاتی علیک زمن کمثل زمن موسیٰ‘یعنی تیرے پر ایک ایسا زانہ آئے گا جیسا کہ موسیٰ پر زمانہ آیا تھا۔(۶۳)اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ ہجرت نہایت بے بسی اور خطرے کی حالت میں ہو گی۔۱۹۳۸ء میں جب کہ ابھی آنے والے امتحان کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے،حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی خدمت میں تحریر کیاـــــ ـ’’آج کل میں تذکرہ کا کسی قدر بغور مطالعہ کر رہا ہوں۔مجھے بعض الہامات وغیرہ سے یہ محسوس ہوتا ہے۔کہ شائد جماعتِ احمدیہ پر یہ وقت آنے والا ہے۔کہ اسے عارضی طور پر مرکز سلسلہ سے نکلنا پڑے۔اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ صورتِ حال غالباََ گورنمنٹ کی طرف سے پیدا کی جائے گی۔۔۔۔‘‘اس کے جواب میں حضورؓ نے تحریر فرمایا’’میں تو بیس سال سے یہ بات کہہ رہا ہوں ۔حق یہ ہے کہ جماعت اب تک اپنی پوزیشن کو نہیں سمجھی۔ابھی ایک ماہ ہؤا میں اس سوال پر غور کر رہا تھا۔کہ مسجد اقصیٰ وغیرہ کے لئے گہرے زمین دوز نشان لگائے جائیں۔جن سے دوبارہ مسجد تعمیر ہوسکے ۔اسی طرح چاروں کونوں پر دور دور مقامات پر زمین دوز نشانات رکھے جائیں۔جن کا راز مختلف ممالک میں محفوظ کر دیا جائے۔ تا کہ اگر ان مقامات پر دشمن حملہ کرے۔تو ان کو از سرِ نو اپنی اصل جگہ پر تعمیر کیا جا سکے۔پاسپورٹوں کا سوال بھی اسی پر مبنی تھا۔‘‘(حضورؓ نے ہدایت فرمائی تھی کہ خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد اورسلسلہ کے اہم کارکنان کو اپنے پاسپورٹ تیار رکھنے چاہئیں۔)(۶۴)
(۱)الفضل ۲۲ اکتوبر ۱۹۴۵ء ص۱تا۶(۲)گم گشتہ قوم مصنفہ سردار شوکت حیات ص۱۹۵ء
(۳)الفضل ۱۹ جنوری ۱۹۴۶ء ص۱۰(۴) ا
لفضل۲۸ جنوری ۱۹۴۶ء ص ۵(۵)الفضل یکم فروری ۴۶ص ۲(۶) الفضل ۲۷ فروری ۱۹۴۶ء ص۲
(۷)The Emergence of Pkistan,by Chaudri Muhammad Ali ,Research Society of Pakistan,Oct 2003 page 52
(۸) الفضل ۶ اپریل۱۹۴۶ء ص۱تا۷
(۹)The Emergence of Pakistan ,by Chaudri Muhammad Ali,Research Society of Pakistan Oct 2003,page52-82
(۱۰)India Wins Freedom,by Maulana Abul Kalam Azad,Orient Langman,June 1988 page 145 -.174
(۱۱) الفضل ۱۹ ستمبر ۱۹۴۶ء ص۲(۱۲)الفضل ۲۷ ستمبر ۱۹۴۶ء ص ۱(۱۳)الفضل یکم اکتوبر ۱۹۴۶ء ص۲
(۱۴)الفضل ۹ نومبر ۱۹۴۶ء ص۲(۱۵)الفضل ۱۰ دسمبر ۱۹۴۶ء ص۱۰(۱۶) الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۴۶ء ص۲
(۱۷) الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۴۶ء ص۱(۱۸)الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۴۶ء ص۱
(۱۹)الفضل ۱۲ فروری ۱۹۴۷ء ص۸(۲۰)الفضل ۱۲ فروری ۱۹۴۷ء
(۲۱) The emergence of Pakistan,by Chaudri Muhammad Ali,Research Society of Pakistan Oct 2003 page 80-114
(۲۲)India Wins Freedom,by Maulana Abul Kalam Azad,Orient Langman June 1988 page 175-195
)۲۳)الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۴۶ء ص۲(۲۴)الفضل ۳۰ ستمبر ۱۹۴۶ء ص ۲(۲۵)الفضل ۷ اکتوبر ۱۹۴۶ء ص۲
(۲۶)الفضل ۳ اکتوبر ۱۹۴۶ء ص۲(۲۷)الفضل ۵ اکتوبر ۱۹۴۶ء ص۲(۲۸)الفضل ۱۱ اکتوبر ۱۹۴۶ء ص۲
(۲۹) الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۴۶ء ص ۴۔۶(۳۰)الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۴۷ء ص۶(۳۱)الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۴۷ء ص ۳
(۳۲) الفضل ۷مارچ ۱۹۴۷ء ص۸(۳۳)الفضل ۱۷مارچ ۱۹۴۷ء ص۴(۳۴)الفضل ۱۷ اپریل ۱۹۴۷ء ص۲
(۳۵)الفضل ۱۲ اپریل ۱۹۴۷ء ص۳(۳۶)الفضل ۶ مئی ۱۹۴۷ء ص ۵(۳۷)الفضل ۷ مئی ۱۹۴۷ء
(۳۸) الفضل ۲۱ مئی ۱۹۴۷ء ص ۱ تا ۲(۳۹)الفضل ۲۲مئی ۱۹۴۷ء ص ۱(۴۰) الفضل ۲۴ مئی ۱۹۴۷ء ص۳
(۴۱)الفضل ۲۹ مئی ۱۹۴۷ء ص۵
(۴۲)Dawn 16 March 2003,Unknown Articles -2,Partiton of Punjab and of Bengal
(۴۳)The Partition of The Punjab 1947,Vol 1,compiled by Mian Muhammad Saudullah,publised by National Documentation Centre Lahore,page VII_XIV
(۴۴)تحدیثِ نعمت مصنفہ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ،ناشر ڈھاکہ بینیولنٹ ایسوسی ایشن ڈھاکہ،دسمبر ۱۹۷۱ء ص ۴۹۸ ۔ ۵۰۰
(۴۵) نوائے وقت ،۱۶ جولائی ۱۹۴۷ء ص ۳
(۴۶)تحدیثِ نعمت مصنفہ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ ،ناشر ڈھاکہ بینیولنٹ ایسوسی ایشن ڈھاکہ دسمبر ۱۹۷۱ء ص ۵۰۰۔۵۰۸
(۴۷) نوائے وقت ۲۰ جولائی ۱۹۴۷ئ(۴۸) الفضل ۶ نومبر ۱۹۶۹ء ص۶(۴۹) الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۴۷ء ص۸
(۵۰)تحدیثِ نعمت مصنفہ حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ ،ناشر ڈھاکہ بینیولنٹ ایسوسی ایشن ڈھاکہ دسمبر ۱۹۷۱ء ص۵۰۹
(۵۱)The Emergence of Pakistan ,by Chaudri Muhammad Ali,published by Research Society of Pakistan Oct 2003,page 218 -219
(۵۲)الفضل ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء ص۱ تا ۳(۵۳) رجسٹر ریزولیشنز صدرانجمن احمدیہ قادیان
(۵۴) الفضل ۱۸ اگست ۱۹۴۷ء ص ۲(۵۵)الفضل ۲۵ اگست ۱۹۴۷ء ص۱۔۲
(۵۶) تاریخِ احمدیت جلد ۱۰ ص۷۱۹۔۷۲۰(۵۷)رجسٹر ریزولیشن صدر انجمن احمدیہ قادیان ۱۹۴۷ء
(۵۸) تاریخِ احمدیت جلد ۱۰ ص۷۲۲۔۷۲۳(۵۹)سوانح بیگم شفیع مصنفہ سیدہ نسیم سعید ناشر لجنہ اماء اللہ لاہور ص۷۷۔۷۸
(۵۹) تاریخِ احمدیت جلد ۱۰ ص۷۳۴۔۷۳۵(۶۰)الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۴۹ء ص۵۔۶
(۶۱)مظالمِ قادیان کا خونی روزنامچہ ،مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد ؓ صاحب ص۸
(۶۲)تشحیذ الاذہان جو و جولائی ۱۹۰۸ء ص ۱۴(۶۳)تذکرۃ الشہادتین ص۳تا ۷
(۶۴)الفضل ۲۵ مئی ۱۹۴۸ء

قیامِ لاہور،آزمائشوں کا طوفان
الٰہی جماعتوں پر ابتلاء آتے ہیں ۔اس لئے نہیں کہ وہ نابود ہو جائیں بلکہ اس لئے کہ وہ امتحانات سے سرخرو ہو کر نکلیں اور ان کا رب انہیں مزید انعامات سے نوازے۔انبیاء ،خلفاء اور اولیاء پر بھی آزمائشیں آتی ہیں اور ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں جب تمام دنیاوی امیدیں منقطع ہو جاتی ہیں۔لیکن وہ سب سے بڑھ کر صبر اور حوصلہ دکھاتے ہیں اور پھر دنیا دیکھتی ہے کہ ان کا خدا انہیں اپنی پناہ میں لے کر ہر خطرے سے بچاتا ہے اور پہلے سے بڑھ کر ترقیات اور انعامات سے نوازتا ہے۔ تاکہ سب جان لیں کہ ان کو بچانے والا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور باقی دنیا ان کے نزدیک محض ایک مرے ہوئے کیڑے کی حیثیت رکھتی ہے۔
ان حالات میں جماعت ِ احمدیہ کوبیک وقت بہت سے چیلنجوں کا سامنا تھا۔قادیان کی پیاری بستی جس کی خاک نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدم چومے تھے ہر طرف سے خوفناک خطرات میں گھری ہوئی تھی۔دشمن قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی کوشش کر رہاتھا۔حکومتِ وقت بلوائیوں کی پشت پناہی کر رہی تھی۔چودہ پندرہ ہزار احمدی تو صرف قادیان میں محصور تھے۔ان میں کمزور بچے عورتیں اور بوڑھے بھی شامل تھے۔عورتوں اور بچوں کو ان حالات میں وہاں سے نکالنا اپنی ذات میں ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔پورے مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی،ان کے اموال لوٹے جا رہے تھے،عورتوں کو اغوا کیا جا رہا تھا۔اور جو احمدی پناہ گزیں مشرقی پنجاب سے پاکستان پہنچ رہے تھے،ان میں سے اکثریت کے پاس نہ کھانے کو روٹی تھی ،نہ کپڑے تھے اور نہ سر وں کے اوپر چھت رہی تھی۔ان کو بنیادی ضروریاتِ زندگی مہیا کرنا اور ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ایک طویل جدو جہد کا تقاضا کرتا تھا۔قادیان تو باقی دنیا سے منقطع تھا اور حضورؓ لاہور تشریف لا چکے تھے۔ایسی صورت میںحالات کا تقاضہ تھا کہ پاکستان میںکم از کم وقتی طور پر جماعت کا مرکزی نظام قائم کیا جائے۔ سب سے پہلے ہم لاہور اور پاکستان میں نظامِ جماعت کے قیام کے عمل کا جائزہ لیتے ہیں اور اس کے بعد یہ دیکھیں گے کہ اگلے چند ماہ میں تمام خطرات کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے کس طرح قادیان کے مقاماتِ مقدسہ محفوظ رہے اور بلوائیوں کے تمام بدارادوں کے با وجود کیسے قادیان میں محصور ہزاروں عورتوں اور بچوں کو بحفاظت وہاں سے نکالا گیا۔
قیامِ لاہور کے ابتدائی دن،نظامِ جماعت کا احیاء :
حضورؓ کی آمد سے قبل ہی لاہور کی جماعت نے رہائش اور جماعتی دفاتر کی ضروریات کے پیشِ نظر میو ہسپتال کے قریب چار کوٹھیوں کا انتظام کر دیا تھا۔دفاتر کے قیام اور کارکنوں کی رہائش کے لئے جودھا مل بلڈنگ کاانتخاب کیا گیا اور حضور ؓ اور خاندانِ حضرت مسیح موعود ؑ کے افراد کی رہائش رتن باغ میں تھی اور جسونت بلڈنگ اور سیمنٹ بلڈنگ میں دیگر احباب کی رہائش تھی۔حضور ۳۱ اگست ۱۹۴۷ء کو لاہور تشریف لائے اور اگلے ہی روز نظامِ جماعت قائم کرنے کا کام شروع کر دیا گیا۔یکم ستمبر کو جودھا مل بلڈنگ کے صحن میں حضورؓ کی صدارت میں ایک میٹننگ منعقد ہوئی جس میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی بنیاد رکھی گئی(۱)۔اگرچہ ابھی لاہور میں بہت تھوڑے کارکنان پہنچے تھے لیکن یہ فیصلہ کیا گیا کہ صدر انجمن احمدیہ کے تمام دفاتر لاہور میں قائم کر دیئے جائیں۔۴ ستمبر کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد کے ماتحت لاہور کی صدر انجمن احمدیہ کے مندرجہ ذیل عہدیداران کی تقرری صدر انجمن احمدیہ قادیان کے ریزولیشن میں بھی ریکارڈ کی گئی۔حضرت نواب محمدعبد اللہ خان صاحب ؓ ناظرِ اعلیٰ مقرر ہوئے۔میاں عبد الباری صاحب ناظر بیت المال (مگر جب خان صاحب برکت علی لاہور پہنچ جائیں گے تو وہ ناظر بیت المال ہوں گے)،مولانا عبد الرحیم صاحب درد ؓ ناظر تعلیم، ناظر امورِ عامہ اور نا ظر امورِ خارجہ،نواب محمد الدین صاحب ناظر دعوت و تبلیغ و جوائنٹ ناظر امورِ خارجہ مقرر کئے گئے۔ناظر تنظیم کے نام سے ایک نیا عہدہ بنایا گیا اور اس پر مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب نے کام شروع کیا۔اور مرزا عبد الغنی صاحب پہلے ہی لاہور میں بطور محاسب کام کر رہے تھے۔پھر جلد ہی نئے اراکین شامل کر کے دس ممبران پر مشتمل انجمن تشکیل دی گئی اور اس کا اعلان ۱۸ ستمبر کے الفضل میں کیا گیا۔اس میں حضرت نواب عبد اللہ خان صاحبؓ ،حضرت مولانا عبد الرحیم درد صاحبؓ،اور مکرم نواب محمد دین صاحب انہی عہدوں پر کام کررہے تھے ۔اور مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب ناظر انخلاء آبادی و نو آبادی اور مکرم ملک سیف الرحمن صاحب ناظر ضیافت مقرر ہوئے۔ان کے علاوہ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ، مکرم چوہدری اسداللہ خان صاحب ، مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ،مکرم صوفی عبد القدیر صاحب نیاز اور مولوی محمد صدیق صاحب کو بھی صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا ممبر مقرر کیا گیا۔
حضورؓ نے ہدایت فرمائی کہ انجمن کے اراکین روزانہ دس سے بارہ بجے تک رتن باغ میں میٹنگ کے لئے آئیں اور اپنی رپورٹیں پیش کریں۔اور یہ فیصلہ ہؤاکہ مہاجر احمدی افراد اور جماعتوں کی نسبت معلوم کیا جائے کہ وہ کہاں ہیں اور انہیں ایک خاص نظام کے تحت بسایا جائے۔ صدر انجمن احمدیہ اور حضورؓ کی ان زمینوں کو جو رہن تھیں آزاد کرایا جائے۔اورجودھا مل کی بلڈنگ کے ماحول میں مزید کوٹھیاں حاصل کی جائیں۔
حضور ؓ کی لاہور آمد کے فوراََ بعد ہی یکم ستمبر ۱۹۴۷ء کو پاکستان میں مجلس تحریکِ جدید کے ۶نئے ممبران کا تقرر کیا گیا۔ یہ ممبران مکرم مولوی ابوالمنیر مولوی نورالحق صاحب،مکرم چوہدری محمد شریف صاحب، مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب،مکرم مولانا ملک سیف الرحمن صاحب،مکرم مولوی محمد صدیق صاحب اور حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ تھے۔حضورؓ نے ارشاد فرمایا کہ ان کے اختیارات باقی ممبران کے برابر ہوں گے ۔ان کا کورم حقیقی کورم سمجھا جائے گا اور حسبِ ضرورت یہ ممبران قادیان سے باہر لاہور یا کسی اورمقام پر اجلاس کر سکتے ہیں۔اور اس غرض کے لئے صدر اور سیکریٹری کا انتخاب بھی کیا جا سکتا ہے۔(۱۲)
لاہور میں پہلی مشاورت:
اس پس منظر میں ۷ ستمبر کو لاہور میں ایک مجلسِ مشاورت منعقد کی گئی۔اب تک یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ فوج اور پولیس بھی بلوائیوں کی پشت پناہی کر رہی تھی اور اس وجہ سے قادیان کے محصورین کی جانیں شدید خطرے میں تھیں اور دوسری طرف قادیان کو آباد رکھنا اور وہاں کے مقاماتِ مقدسہ کی حفاظت کا انتظام کرنا بھی نہایت ضروری تھا چنانچہ اس مجلسِ مشاورت میں حضورؓ کی منظوری سے فیصلہ کیا گیا کہ مشرقی پنجاب کے احمدی اپنی جگہوں پر رہیں ،البتہ عورتوں اور بچوں کو حفاظت کی غرض سے پاکستان بھجوا دیا جائے۔اور یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ تمام جماعتیں ۱۸ سال سے لے کر ۵۵ سال کے افراد کی فہرستیں بنا کر قرعہ ڈالیں اور ان میں سے 1/8حصہ قادیان کی حفاظت کے لئے وہاں جائے گا۔قادیان سے دفاتر کے کارکنوں کا ایک بڑا حصہ وہاں سے نکلوانا ضروری ہے کیونکہ انہوں نے گزشتہ تین ماہ میں دن رات کام کیا ہے ۔اور علماء اور اکابرِ سلسلہ جو کئی دہائیوں کی مساعی کا نتیجہ ہیں اگر ان کو ضائع ہونے دیا گیا توسلسلہ کی ترقی ایک لمبا عرصہ پیچھے جا پڑے گی۔اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ جن کے سپرد اہم جماعتی کام ہیں انہیں قادیان سے باہر نکال لیا جائے۔قادیان کے رہنے والوں کے متعلق فیصلہ ہؤا کہ ان میں سے جن کی عمر ۱۸ اور ۵۵ سال کے درمیان ہے اُ ن کا تیسرا حصہ قادیان میں ٹہرے گا۔حضور ؓ کی خدمت میں مشورہ پیش کیا گیا کہ خاندانَ حضرت مسیح موعودؑ کے افراد کو قادیان سے باہر نکال لیا جائے لیکن حضرت مصلح موعود ؓ نے ارشاد فرمایا کہ ان میں سے بھی ایک مقررہ حصہ قادیان میں رہنا چاہئیے۔
یہ سوال بھی زیرِ غور آیا کہ پاکستان میں نیا مرکز کہاں قائم کیا جائے ،حضورؓ نے ارشاد فرمایا کہ اس غرض کے لئے ضلع شیخوپورہ میں کسی مناسب جگہ کا انتخاب کیا جائے ۔فیصلہ ہؤا کہ نئے مرکز کے لئے جماعتیں پانچ لاکھ روپے کا چندہ جمع کریں۔(۳)
لاہور کی جماعت کو نصیحت:
جب جماعت ابتلاء کے دور سے گذر رہی ہو تو یہ وقت تقاضہ کرتا ہے کہ سب احمدی دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے خدمت پر کمر بستہ ہو جائیں۔خاص طور پر جو مقام اس وقت جماعتی سرگرمیوں کا مرکز ہو یا جہاں پر خلیفہ وقت موجود ہو وہاں کے احمدیوں کی ذمہ واریاں پہلے سے بہت بڑھ جاتی ہیں۔ایسے مواقع پر کسی قسم کی کوتاہی کے خوفناک نتائج نکل سکتے ہیں۔جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے محسوس فرمایا کہ لاہور کی جماعت کے بہت سے احباب وہ نمونہ نہیں دکھا رہے جس کا تقاضا یہ نازک حالات کر رہے تھے تو آپ نے اس امر کی اصلاح کے لئے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ قادیان کے احمدی تو جان ہتھیلی پر رکھ کر شعائراللہ کی حفاظت کر رہے ہیں اور ان کو بائیس بائیس گھنٹے بھی کام کرنا پڑتا ہے۔اور جو پندرہ بیس آدمی قادیان سے آئے ہیں انہیں دفتری کاموں سے کوئی فرصت نہیں کیونکہ بیس بیس آدمیوں کی جگہ ایک آدمی کو کام کرنا پڑ رہا ہے ۔حضورؓ نے اس بات پر اظہارِ ناراضگی فرمایا کہ جب کہ خلیفہ وقت یہاں پر موجود تھا لاہور کے اکثر احباب دن میں ایک نماز بھی خلیفہ وقت کے پیچھے پڑھنے کے لئے نہیں آتے اور نہ ہی انہوں نے شدید ضروریات کے باوجود اپنی خدمات جماعت کو پیش کیں۔ایک طرف تو اکثر جماعتوں نے حفاظتِ مرکز کے وعدے پورے بھی کر دئے مگرلاہور سے ابھی تک پورے وعدے بھی نہیں لکھوائے گئے۔حضور ؓ نے فرمایا
’’جب اس جگہ مرکز کا ایک حصہ آ چکا تھا آپ لوگوں کو اسے خدا تعالیٰ کا فضل سمجھنا چاہئیے تھا۔لیکن آپ لوگوں نے کوئی توجہ ہی نہیں کی۔چاہئیے تھا کہ سینکڑوں آدمی اپنے آپ کو خدمات کے لئے پیش کردیتے اور اگر ان کی ملازمتیں بھی جاتیں تواس کی پروا نہ کرتے۔ جیسے کراچی کے دوستوں نے نمونہ دکھایا ۔انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم قادیان جائیں گے اور چونکہ وہاں سرکاری محکموں میں احمدی زیادہ ہیں دفاتر والوں نے سمجھا کہ اگر سب احمدی چلے گئے تو کام بند ہو جائے گا۔اس لئے انہوں نے چھٹی دینے سے انکار کر دیا ۔اس پر کئی احمدیوں نے اپنے استعفے نکال کر رکھ دیئے۔کہ اگر یہ بات ہے تو ہم اپنی ملازمتوں سے مستعفی ہونے کے لئے تیار ہیں۔ایک اخبار جو احمدیت کا شدید ترین دشمن تھا ۔ میں نے خود اس کا ایک تراشہ پڑھا ہے جس میں وہ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ ہوتا ہے ایمان۔‘‘(۴)
ـلاہور میں الفضل کا اجراء اور مہاجرین کی مدد کے لئے اقدامات:
ان ایام میں جماعت کو ہر قسم کی مالی اور عملی مشکلات کا سامنا تھا مگر اس بات کی فوری ضرورت تھی کہ ان خطرناک حالات میں احبابِ جماعت سے رابطے اور ان تک حضورؓ کے ارشادات پہنچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے۔اس غرض کے لئے فوری اقدامات کر کے ۱۵ ستمبر ۱۹۴۷ء کو مکرم روشن دین تنویر صاحب کی ادارت میں لاہور سے روزنامہ الفضل کی اشاعت شروع کر دی گئی۔اس میں چھپنے والے مضامین صرف احمدیوں کے لئے نہیں تھے بلکہ عظیم مشکلات کے اس دور میں تمام اہلِ وطن کی ڈھارس بندھانے اور ان کی راہنمائی کے لئے بھی مضامین شائع ہوتے تھے۔
تاریخ میں چند ماہ کے اندر اتنی بڑی نقل ِمکانی شاید ہی کبھی ہوئی ہو،جتنی اس وقت مشرقی اور مغربی پنجاب کی سرحد پر ہو رہی تھی۔ہندو اور سکھ بڑی تعداد میں مغربی پنجاب کو چھوڑ کر مشرقی پنجاب میں داخل ہو رہے تھے اور مسلمان لاکھوں کی تعداد میں مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب منتقل ہو رہے تھے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ستمبر کے آخر تک سترہ لاکھ پچاس ہزار افراد پنجاب کی سرحد پر نقلِ مکانی کر چکے تھے(۵)۔مگر اب یہ صورتِ حال واضح نظر آرہی تھی کہ اکثر اضلاع میں پاکستان چھوڑنے والوںکی نسبت پاکستان میں آنے والوں کی تعداد کافی زیادہ تھی۔اس وجہ سے ان مہاجرین کے مسائل اور بھی بڑھ گئے تھے۔فوری طور پر انہیں رہائش اور خوراک کے مسائل درپیش تھے، انہیں کپڑوں کی ضرورت تھی اور آنے والے موسمِ سرما کے لئے مناسب بستروں کی ضرورت تھی۔ دوسرے مسلمانوں کی طرح احمدیوں کی ایک بڑی تعداد بھی مجبوراََ ہجرت کر کے بے سرو سامانی کے عالم میں مغربی پنجاب پہنچ رہی تھی۔ان میں سے اکثر کے پاس نہ تو رہنے کی جگہ تھی اور نہ کھانے کو روٹی تھی۔مہاجرین کی ایک بڑی تعداد محض تن پر موجود کپڑے اور اپنی جان ہی بچا کر پاکستان آنے میں کامیاب ہوئے تھے۔چنانچہ حضورؓ کے ارشاد کے تحت جودھا مل بلڈنگ سے متصل میدان میں سائبان لگا دیئے گئے اور وہاں پر آنے والے مہاجرین کے لئے خوراک اور عارضی رہائش کا انتظام کیا گیا۔خاندانِ حضرت مسیح موعود ؑ کے افراد کے کھانے کا انتظام حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے ہو رہا تھا۔حضورؓ اور آپ کے اہل ِخانہ بھی ایک وقت کے کھانے میں صرف ایک روٹی کھاتے تاکہ آنے والے مہاجرین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی جا سکے ۔جن کے رشتہ دار مغربی پنجاب میں موجود تھے،انہیں ان کے رشتہ داروں کے پاس پہنچایا گیا۔
جب موسمِ سرما شروع ہؤا تو مہاجرین کے پاس نہ تو مناسب بستر موجود تھے اور نہ ہی مالی وسائل تھے کہ وہ خود لحافوں کا انتظام کر سکیں۔حضورؓ نے جماعت کو بالخصوص سیالکوٹ کی جماعت کو مہاجرین کے لئے گرم کپڑے اور بستر مہیا کرنے کی تحریک فرمائی۔اور فرمایا کہ ہر احمدی گھرانا اپنی بنیادی ضرورت سے زائد کپڑے،بستر خصوصاََ کمبل ،لحاف اور توشک وغیرہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی خدمت میں پیش کرے۔اور ارشاد فرمایا کہ کسیر،گنوں کی کھوری اور دھان کے چھلکے جمع کر کے بھجوائے جائیں تاکہ ان کوبطور بستر استعمال کیا جا سکے۔
ان مہاجرین کے ذرائع معاش ختم ہو چکے تھے ۔فوری ضروریات پوری کرنے کے علاوہ اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ مہاجرین کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جائے۔اس غرض کے لئے فوراََ جودھامل بلڈنگ میں نظامت تجارت کا دفتر قائم کیا گیا۔مغربی پنجاب سے نقلِ مکانی کرنے والوں کے کاروبار حکومت کی طرف سے آنے والے مہاجرین کو الاٹ کئے جا رہے تھے۔یہ دفتر اس ضمن میں آنے والے احمدیوں کی راہنمائی کرتا اور ان کی مدد کرتا تا کہ وہ مناسب کا روبار شروع کر کے اپنے با عزت گذارے کی صورت پیدا کر سکیں۔حضرت امیرالمومنین کی ہدایت کے مطابق تین وفود نے ڈیڑھ ماہ کے لئے مختلف علاقوں کے دورے کئے۔ان دوروں کی غرض یہ تھی کہ وہ احبابِ جماعت جو اس وقت پراگندہ حالت میں مختلف مقامات میں اپنے لئے معاشی وسائل کی تلاش کر رہے تھے انہیں امداد بہم پہنچائی جائے۔اور جماعتوں کو توجہ دلائی جائے کہ وہ ان احباب کی ہر ممکن امداد کریں۔یہ دورے بہت کامیاب رہے اور سال کے اندر اندر قریباََ نوے فیصدی احباب ہجرت کے بعد آباد ہو چکے تھے(۹)۔الفضل میں اعلانات کراکے اور دیگر ذرائع استعمال کر کے مشرقی پنجاب سے آنے والی مختلف جماعتوں کے متعلق معلومات اکھٹی کی گئیں کہ وہ کہاں کہاں پر موجود ہیں تاکہ ان کی مناسب مدد اور راہنمائی کی جا سکے۔
بہت سے احمدیوں نے حضورؓ کی تحریک کے مطابق اپنی پس انداز کی ہوئی رقوم جماعت کے امانت فنڈ میں جمع کرائی تھیں۔ان کی رقوم نہ صرف محفوظ رہیں بلکہ ان کو فوری طور پر لاہور بھی منتقل کر دیا گیا اور جو اپنی امانت کو لاہور میں لینا چاہتا تھا ،اس کو وہیں اس کی ادئیگی کر دی گئی۔اس پر آشوب دور میں جہاں لاکھوں لوگ اپنی جمع پونجی سے محروم ہوگئے وہاں ان مخلصین کی امانتیں محفوظ رہیں اور انہوں نے ان سے اپنے کاروبار شروع کر دیئے۔وہ مصنفین جنہوں نے جماعت کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے اس حقیقت کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے کہ اس حکمتِ عملی کی برکت سے احمدی سب سے پہلے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے۔چنانچہ ہفت روزہ المنیر،جو فیصل آباد سے شائع ہوتا تھا، میں جماعت کے خلاف معاندانہ مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا مگر مصنف یہ اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکا۔
’’تقسیمِ ملک کے وقت مشرقی پنجاب کی یہ واحد جماعت تھی۔جس کے سرکاری خزانہ میںاپنے معتقدین کے لاکھوں روپے جمع تھے اور جب یہاں مہاجرین کی اکثریت بے سہارا ہو کر آئی۔تو قادیانیوں کا یہ سرمایہ جوں کا توں محفوظ پہنچ چکا تھا۔اور اس سے ہزاروں قادیانی بغیر کسی کاوش کے از سرِ نو بحال ہو گئے پھر یہ بات بھی مستحقِ توجہ ہے کہ یہ وہ واحد جماعت ہے کہ جس کے ۳۱۳ افراد تقسیم کے لمحہ سے آج تک قادیان میں موجود ہیں ۔ اوروہاں اپنے مشن کے لئے کوشاں بھی ہیں اور منظم بھی۔‘‘ (۶)
ان بروقت کوششوں کے نتیجے میں ہجرت کرنے والے وہ احمدی جن کی سب املاک لٹ چکی تھیں ،بہت کم مدت میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر با عزت طریق پر زندگی گذارنے لگے۔پنجاب کی آبادی کے ایک بڑے حصے پر قیامت گذر گئی تھی لیکن فرق یہ تھا کہ احمدی اپنے امام کی ڈھال کے پیچھے کھڑے ہو کر ان مشکلات کا سامنا کر رہے تھے۔اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ ان کے لئے دن رات دعائیں بھی کررہا تھا اور ان کی مشکلات دور کرنے کے لئے ہر قسم کی تدابیر بھی کی جا رہی تھیں۔ہزاروں مرد،عورتیں اور بچے بے سروسامانی کے عالم میں لاہور آکر آستانہ خلافت پر پڑے تھے۔ان کا ہمدرد امام ان کے لئے خور دونوش کا انتظام بھی کر رہا تھا،ان کی تن پوشی کے لئے کوششیں ہو رہی تھیں اور ان کو با عزت روزگار مہیا کرنے کا انتظام بھی کیا جا رہا تھا۔ان میںسے بہت سے صدمات سے نڈھال ہو رہے تھے۔ان کا امام اپنے روح پرور کلمات سے اِن کے حوصلے بڑھا رہا تھا اور ان کی دلجوئی کے سامان کر رہا تھا۔اس عظیم ابتلاء کے دور میں احمدی ایک مرتبہ پھر خدا تعالیٰ کا یہ اٹل وعدہ پورا ہوتا دیکھ رہے تھے کہ خلافت کی برکت سے ان کی خوف کی حالت امن سے بدل دی جائے گی۔
پاکستان میں تعلیمی اداروں کا اجرائ:
قادیان میں جماعت کے تعلیمی ادارے مستحکم ہو چکے تھے۔یہاں پر لڑکوں اور لڑکیوں کے اسکول تھے،کالج کا آغاز ہو چکا تھا۔مبلغین کی تیاری کے لئے مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کام کر رہے تھے۔ ہجرت کے ابتلاء میں ان اداروں پر غاصبانہ قبضہ کر لیا گیا۔اور احمدیوں کی اکثریت پاکستان منتقل ہو گئی۔اب حالات کا تقاضہ تھا کہ یہاں پر جماعت نئے سرے سے تعلیمی ادارے بنائے۔لیکن تعلیمی اداروں کا آغاز کر کے ان کو ترقی دینا کوئی آسان کام نہیں ہوتا ۔اور ان حالات میں جماعت کو مالی وسائل کی شدید کمی کا سامنا تھا ۔جب اس مسئلہ پر غور کرنے کے لئے میٹننگ ہوئی تو تمام احباب نے یہی عرض کی کہ ابھی جماعت پر کالج کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔حضور ؓ نے یہ آراء سن کر ایک جوش سے فرمایا
’آپ کو پیسوں کی کیوں فکر پڑی ہے۔کالج چلے گا اور کبھی بند نہیں ہو گا‘ اور پھر کالج کے پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب کو ارشاد فرمایا،’آسمان کے نیچے پاکستا ن کی سرزمین میں جہاں کہیں بھی جگہ ملتی ہے لے لو اور کالج شروع کر دو۔‘
چنانچہ جماعت نے شروع ہی سے مرکزی تعلیمی اداروں کو جلد از جلددو بارہ قائم کرنے کی کوشش شروع کر دی۔۳۱ اکتوبر کو تعلیم الاسلام ہائی اسکول کا سٹاف لاہور پہنچا۔جیسا کہ ہم بعد میں جائزہ لیں گے اس وقت تک جماعت نئے مرکز کے لئے، چنیوٹ سے قریب دریائے چناب کے کنارے چک ڈھگیاں کا انتخاب کر چکی تھی اور اس زمین کے حصول کے لئے کوششیں ہو رہی تھیں۔چنانچہ نومبر کے آغاز میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے ارشاد کے مطابق سکول کا عملہ چنیوٹ منتقل ہؤا ۔یہاں پر گورنمنٹ نے اسکول کے لئے بھگوانداس کی بلڈنگ جماعت کو دی۔اس بلڈنگ میں پہلے ہندو پناہ گزیں ٹھہرے ہوئے تھے جو جاتے ہوئے اس عمارت کی کھڑکیاں دروازے اور دیگر سامان نذرِ آتش کر گئے تھے ۔بہر حال ۲۵ طلباء کے ساتھ اس کسمپرسی کے عالم میں اسکول کا آغاز کیا گیا۔جلد ہی طلباء کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور حکومت کی طرف سے دیگر عمارات الاٹ ہونے کے علاوہ گرانٹ بھی ملنے لگی۔جلد ہی اسکول کے عمدہ نتائج نے اس کی نیک شہرت میں اضافہ کر دیا۔نومبر کے آغاز میں مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کے اساتذہ پاکستان پہنچے۔تین روز کے بعد دونوں ادارے لاہور میں شروع کر دیئے گئے۔مگر جگہ کی تنگی اور ہوسٹل نہ ہونے کے باعث ان کو بھی چنیوٹ منتقل کر دیا گیا ۔دو ماہ کے بعد ہی چک ڈھگیاں کے بالکل قریب احمد نگر میں ایک حویلی اس غرض کے لئے حاصل کر لی گئی اور یہ دونوں ادارے وہاں پر منتقل ہو گئے اور دونوں کو مدغم کر کے ایک ادارہ بنا دیا گیا اور حضرت مولانا ابو العطاء صاحب اس کے پرنسپل مقرر ہوئے۔جامعہ احمدیہ میں نہ صرف کلاسوں کا اجراء ہؤا بلکہ چند ماہ ہی میں اس عظیم ادارے میں تحقیق کا کام بھی شروع کر دیا گیا اور ایک سہ ماہی علمی مجلہ المنشور کی اشاعت بھی شروع کردی گئی(۱۰)۔اسی طرح رتن باغ کے پچھلے احاطہ میں لڑکیوں کے اسکول کا آغاز کر دیا گیا۔یہاں پر دھوپ اور بارش سے بچنے کا انتظام بھی نہیں تھا اور طالبات کو بیٹھنے کے لیے فقط ایک ایک اینٹ ہی میسر تھی۔اس نا گفتہ بہ حالت کی وجہ سے داخل ہونے والی طالبات کی تعداد بہت کم تھی۔اس لئے جنوری ۱۹۴۸ء میں حضورؓ کی منظوری سے فیصلہ کیا گیا کہ لڑکیوں کے ہائی اسکول کو بھی چنیوٹ منتقل کر دیا جائے اور مڈل اسکول لاہور میں ہی جاری رہے۔ (۱۱)جس دوران جماعت نئے مرکز کے لئے زمین کے حصول کی کوششیں کر رہی تھی،مجوزہ مقام کے قریب جماعت کے تعلیمی ادارے قائم ہو چکے تھے۔ا س طرح اس علاقہ میں ان اداروں کی حیثیت جماعت کے ہراول دستے کی تھی۔
پاکستان میں پہلا جلسہ سالانہ:
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قائم کردہ روایات میں جلسہ سالانہ ایک اہم جماعتی روایت ہے۔لیکن اس سال پورا برِ صغیر شدید بحران سے دوچار تھا۔خاص طور پر ہجرت کی وجہ سے جماعت کے پاس نہ تو مناسب جگہ تھی جہاں پر جلسہ کا انعقاد کیا جا سکے اور مالی مشکلات اس کے علاوہ تھیں۔مشرقی پنجاب سے آئی ہوئی جماعتیں ابھی مختلف مقامات پر منتشر تھیں اور آباد کاری کے تکلیف دہ مراحل سے گذر رہی تھیں۔پہلے تو خیال کیا جارہا تھا کہ اس سال جلسہ منعقد نہیں کیا جا سکے گا لیکن وسط دسمبر میں حضورؓ نے اعلان فرمایاکہ ۲۶ دسمبر کو جماعت کی مجلسِ مشاورت ہو گی اور ۲۶ اور ۲۷ کو محدود پیمانے پر جلسہ سالانہ منعقد ہو گا۔اس جلسہ میں مختلف جماعتوں کے دو ہزار احباب کو لاہور آنے کی دعوت دی گئی اور فیصلہ ہؤاکہ جو احباب اپنے قیام کا خود انتظام کر سکتے ہیں وہ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔چنانچہ مذکورہ تاریخ کو رتن باغ کے ہال میں مشاورت کا اجلاس ہؤا۔جس میں موجودہ صورتِ حال میں مالی وسائل پیدا کرنے،ذرائع تبلیغ ،جماعتی تنظیم اور قادیان کی حفاظت کے مسائل کا جائزہ لیا گیا۔اس مشاورت سے خطاب کرتے ہوئے حضورؓ نے اس اصول کو تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ جہاں پاکستان کے احمدیوں کا فرض ہے کہ وہ حکومتِ پاکستان کے وفادار رہیں اور اس کی مضبوطی اور ترقی کے لئے کوشش کریں ۔وہاں انڈین یونین میں رہنے والے احمدیوں کا فرض ہے کہ وہ انڈین یونین کے وفادار رہیں۔اگلے دو روز حسبِ پروگرام جلسہ کی کاروائی ہوئی ۔اس کے افتتاحی خطاب میں حضرت مصلح موعودؓ نے ارشاد فرمایا۔
’’پس ہمارے دل غمگین نہ ہوں تم پر افسردگی طاری نہ ہو کہ یہ کام کا وقت ہے اور کام کے وقت میں افسردگی اچھی نہیں ہوتی۔بلکہ کام کے وقت میں ہم میں نئی زندگی اور نئی روح پیدا ہو جانی چاہئیے ۔۔ہمارے بوڑھے جوان ہو جانے چاہئیں اور ہمارے جوان پہلے سے بہت زیادہ طاقتور ہو جانے چاہئیں۔ہم مذہبی لوگ ہیں۔حکومتوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ہمارا کام دلوں کو فتح کرنا ہے نہ کہ زمینوں کو۔‘‘
مغربی پنجاب کے احباب کثرت سے جلسہ سالانہ لاہور میں شامل ہوئے۔اکثر احباب نے اپنے خوردو نوش اور قیام کا انتظام خود کیا تھا۔اس طرح پاکستان کی زمین پر با وجود تمام نا مساعد حالات کے جلسہ سالانہ کی اہم روایت کا آغاز ہؤا۔(۷۔۸)
قیامِ لاہور کے پر آشوب دور سے گذرتے ہوئے جب ہم ان واقعات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ اگر چہ اس وقت ہر قسم کے ابتلاؤں کا سامنا تھا۔مالی وسائل کی شدید کمی تھی۔اس وقت کیفیت یہ تھی کہ رتن باغ کی نچلی منزل کے ہال میں حضور ایک چٹائی کے اوپر تشریف فرما ہوتے اور یہاں ڈاک ملاحظہ فرماتے، وہیں پر احباب ملاقات کرتے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو یہیں پر نماز ادا کر لی جاتی۔تجربہ کار کارکنان کی بھاری اکثریت قادیان میں محصور تھی۔جو ہجرت کر کے آچکے تھے،انہیں پیٹ بھر کے روٹی بھی میسر نہیں تھی۔اگر کسی کو سر چھپانے کو فقط چھت ہی مل جائے تو یہ بھی غنیمت تھا۔قریب ہی احمدی پناہ گزینوں کے خیمے نصب تھے۔ایک مرتبہ جمعداروں نے ہڑتال کردی ۔اگر صفائی نہ ہوتی تو وبا پھوٹنے کا اندیشہ تھا ۔چنانچہ حضورؓ نے ارشاد فرمایا کہ خدام نجاست صا ف کریں۔اس ارشاد کی تعمیل میں باقی خدام کے ساتھ صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب بھی صفائی کر رہے تھے کہ ایک راہ چلتی بڑھیا نے پنجابی میں کہا کہ
لڑکے تم تو کسی بہت اچھے خاندان کے لگتے ہو تم پر کیا بپتا پڑی ہے جو یہ کام کر رہے ہو(۱۳)۔ ان مشکلات کے علاوہ دل صدمات سے نڈھال تھے۔قادیان پر منڈلانے والے خطرات ہر وقت ہر احمدی کو بے چین کر رہے تھے اور وہاں پر محصورین کا انخلاء ایک صبر آزما جد و جہد کا تقاضہ کرتا تھا۔ لیکن ان مشکلات کے باوجود حضرت مصلح موعودؓ کی اولولعزم قیادت میںایک دن کے اندر اندر لاہور میں نظامِ جماعت جاری کر دیا گیا۔ہجرت کرنے والے بے سروسامان احمدیوں کی مدد اور ان کی بحالی کا کام بغیر کسی تاخیر کے شروع ہو گیا۔منتشر جماعتوں کی شیرازہ بندی حیران کن سرعت کے ساتھ مکمل کی گئی۔ایک دن کی تاخیر کے بغیر امانت فنڈ میں جمع کی گئی امانتیں لوگوں کو واپس کرنے کا عمل شروع ہو گیا۔اخبار اور رسائل جاری کئے گئے اور تعلیمی اداروں کو نئے سرے سے زندہ کیا گیا۔اس وقت ہر ممکن کوشش اور تمام دعائیں قادیان واپس جانے کے لئے کی جا رہی تھیں،مگر اس کے با وجود وقت ضائع کئے بغیر پاکستان میں نئے مرکز کے حصول کی جد وجہد شروع کر دی گئی۔حتیّٰ کہ ان حالات میں مجلسِ مشاورت اور جلسہ جیسی اہم جماعتی روایات کو بھی جاری رکھا گیا۔اور ابھی چند برس نہیں گزرے تھے کہ تمام جماعتی ادارے اپنی پرانی حالت سے بھی بہتر حالت میں آ گئے۔یہ سب اس لئے ممکن ہوا کہ حضرت مصلح موعودؓ کی دعائیں اللہ تعالی کے فضل کو جذب کر رہی تھیں اور جماعت ان دعاؤں کے حصار میں آگے بڑھ رہی تھی۔اور اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ خلیفہ کی اولولعزم قیادت میں جماعت ہر افسردگی او ر مایوسی کے خیال کو ذہنوں سے جھٹکتے ہوئی ایک عزم کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔
(۱)تاریخِ احمدیت جلد ۱۱ ص۱۰ (۲)رجسٹر ریزولیشن صدر انجمن احمدیہ قادیان
(۳)تاریخِ احمدیت جلد ۱۱ص۴۸۔۵۱ (۴)الفضل ۳۰ ستمبر ۱۹۴۷ء ص۱۔۲
(۵)The partition of India and prospects of Pakistan by O.K.H.Spate,The Geographocal Review XXXVIII 1948,page 18
(۶) ہفت روزہ المنیر ۲ ارچ ۱۹۵۶ء ص۱۰
(۷) تاریخِ احمدیت جلد۱۱ ص۴۴۵۔۴۶۱
(۸)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۴۸۔۴۷ ص۳۶
(۹) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۴۸۔۴۷ ص۱۲
(۱۰) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۴۷۔۴۸ ص۱۴ ۔۱۷
(۱۱) رجسٹر ریزولیشن صدر انجمن احمدیہ پاکستان جنوری ۱۹۴۸ء
(۱۲) رجسٹر ریزولشن تحریک جدید ۱۹۴۷ء
(۱۳)روایت صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ بنت حضرت مصلح موعود ؓ

قادیان خطرات کے گھیرے میں
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے حضورؓ نے ۳۱ اگست کو قادیان سے ہجرت فرمائی۔اس وقت حالات کے پیشِ نظر اس امر کو ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔اگلے روز دوپہر کو حضورؓ کا خط احباب کو سنایا گیا اور احباب نے حضورؓ کے بخیرو عافیت لاہور پہنچنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔طے شدہ پروگرام کے مطابق یکم ستمبر کو مسلمان ملٹری ضلع گورداسپور سے پاکستان جانی شروع ہوئی ۔اب یہاں پر تقریباََ مکمل طور پر ہندو اور سکھ ملٹری اور پولیس مقرر ہو چکی تھی۔اس کے ساتھ علاقے میں سکھوں کی نقل وحرکت میں اضافہ ہو گیا۔ ۲ ستمبر کو قادیان کے شمال میں ایک گاؤں سٹھیالی پر حملے کا آغاز ہؤا۔اس گاؤں میں احمدی اور دوسرے مسلمان رہتے تھے اور اس وقت ارد گرد کے دیہات کے مسلمان بھی وہاں پر جمع تھے۔سٹھیالی کے باشندوں نے مقابلہ شروع کیا ۔سکھ جتھوں نے دو دفعہ حملہ کیا مگر منہ کی کھانی پڑی ۔یہ دیکھ کر وہاں پر متعین فوج اور پولیس نے اس گاؤں کے مسلمان زمینداروں کو پکڑ کر زدو کوب کرنا شروع کیا۔حکومتی اداروں کے یہ تیور دیکھ کر سٹھیالی والوں کو اپنا گاؤں خالی کرنا پڑا اور وہ قادیان منتقل ہو گئے۔ پھرقادیا ن کے نواح میں ایک گاؤں عالمے کو نذرِ آتش کر دیا گیا ۔(۱)ستمبر کے پہلے ہفتے میںقادیان کے ارد گرد دیہات میں آٹھ احمدی شہید اور کچھ گرفتار ہوئے۔(۲)
اس وقت مسلمان لاکھوں کی تعداد میں ہجرت کر کے مغربی پنجاب جا رہے تھے یا کیمپوں میں منتقل ہو رہے تھے۔اسی طرح مغربی پنجاب سے ہندؤں اور سکھوں کی ایک بڑی تعداد مغربی پنجاب چھوڑ کر ہندوستان جا رہی تھی۔تاریخ میں اتنے کم وقت میں اتنی بڑی نقلِ مکانی کبھی نہیں ہوئی تھی۔ہر طرف افراتفری کا دور دورہ تھا۔اکثر مقامات پر بلوائیوں کا مقابلہ کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی جا رہی تھی۔اس کے نتیجے میں ہر طرح کے المیے جنم لے رہے تھے۔لوگوں کے اموال لوٹے جا رہے تھے۔عورتیں اغوا ہو رہی تھیں۔جائدادوں پر زبردستی قبضہ کیا جا رہا تھا۔ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔اس پس منظر میں ۷ ستمبر کوحضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے مشرقی پنجاب کی جماعتوں کو ہدایت دی کہ وہ اپنی جگہوں کو نہ چھوڑیں ۔عورتوں اور بچوں کو حفاظت کی غرض سے مغربی پنجاب بھجوادیا جائے ۔ حالات ٹھیک ہونے پر انہیں واپس بلایا جا سکتا ہے(۳۔۴)۔حضور ؓ کی ہدایت پاکستان ریڈیو سے بھی نشر کی گئی۔بظاہر دونوں حکومتیں بھی یہی اعلان کر رہی تھیں کہ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر نہ جائیں ۔کسی کو زبردستی نقلِ مکانی پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔دوسروں لوگوں کے برعکس قادیان کے احمدی منظم طریق پر اپنا جائز دفاع کر رہے تھے ۔قادیان کے نواح میں بہت سے دیہات میں احمدیوں کی بڑی تعداد موجود تھی ۔ان سے رابطہ رکھنے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے لئے قادیان سے مختلف احباب جیپوں میں جا کر ان سے مل کر ان کا حوصلہ بڑھاتے اور ان کی مشکلات کا جائزہ لیتے۔حضورؓ کی طرف سے اس اعلان کے فوراََ بعد ۹ ستمبر کو مقامی افسران نے یہ الزام لگایا کہ احمدی جیپوں میں علاقے کا دورہ کر کے مسلمانوں کو اس بات پر اکسا رہے ہیں کہ وہ سکھوں پر حملے کریں۔ ا س بودے الزام کو بنیاد بنا کر ان افسران نے علاقے میں جیپوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگا دی۔ حقیقت یہ تھی اس علاقے میں سکھوں پر کوئی حملے ہو ہی نہیں رہے تھے۔بلکہ ایک کے بعد دوسرا مسلمان گاؤں تباہ کیا جا رہا تھا ۔
قادیان میں پناہ گزینوں کا ہجوم:
اس پابندی کی وجہ سے قادیان اور نواحی جماعتوں کے درمیان رابطہ تقریباََ منقطع ہو گیا۔اس کے ساتھ ہی نواحی دیہات میں سکھ بلوائیوں نے اپنے حملے شدید تر کر دیئے ۔زندہ بچ جانے والے مسلمانوں نے پناہ لینے کے لئے قادیان کا رخ کیا ۔۱۱ اور ۱۲ ستمبر کو ماحولِ قادیان کے دیہات میں رہنے والے ہزاروں مسلمان اپنے گاؤںخالی کر کے قادیان میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔جلد ہی ان لٹے ہوئے پناہ گزینوں کی تعداد پچاس ہزار سے تجاوز کر گئی۔ان پناہ گزیں مسلمانوں کی بھاری اکثریت جماعت ِ احمدیہ سے تعلق نہیں رکھتی تھی۔قادیان کے محصور احمدی خود ہر طرح کے مصائب سے نبرد آزما تھے مگر اس کے با وجود ان مسلمان پناہ گزینوں کو کھلے دل کے ساتھ ہر قسم کی مدد پہنچائی گئی۔ قادیان کے دفاتر سکولوں ،کالج اور ان کے ہاسٹلوں اور احمدیوں کے مکانات میں ان پناہ گزینوں کو ٹھہرایا گیا۔مگر یہ جگہ کافی نہیں تھی۔بالآخر ہر باغ ،ہر میدان اور ہر راستہ پناہ گزینوں کا کیمپ بن گیا۔اکثر کو تو درخت کا سایہ بھی میسر نہیں تھا۔سردی کا موسم شروع ہو رہا تھا۔اکثر پناہ گزینوں کے کھانے کا انتظام جماعت کے لنگر کی طرف سے ہوتا رہا۔کچھ ماہ قبل حضورؓ کے ارشاد کے ماتحت قادیان میں بڑے پیمانے پر خوراک کے ذخائر جمع کر لئے گئے تھے۔ان مشکل ایام میں یہ ذخائر احمدیوں کے کام آنے کے علاوہ ان پناہ گزینوں کوبھی فاقوں سے بچا رہے تھے۔ مہمانوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ لنگر خانے میں ان سب کے لئے روٹیاں پکانا ممکن نہ رہا۔چنانچہ انہیں کچی رسد ، آٹا اور دال کی شکل میں دی جانے لگی(۵۔۷)۔عربی کی ایک ضرب المثل ہے کہ اَلْفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَائُ یعنی کسی کے حق میں سب سے افضل شہادت وہ ہے جو دشمن کے منہ سے نکلے۔ان خطرناک حالات میں احمدیوں نے بے کس مسلمانوں کی ایسی عظیم اور بے لوث خدمت کی کہ مخالفین بھی اس کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے۔زمیندار اخبار کے ایڈیٹر ،ظفر علی خان صاحب جماعت کی مخالفت میں پیش پیش رہے تھے۔لیکن جب ان حالات میں ان کے اخبار نے ضلع گورداسپور میں مسلمانوں کے پناہ گزین کیمپوں کا تجزیہ کیا تو یہ اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے
’’تیسرا کیمپ قادیان میں ہے اس میں شک نہیں مرزائیوں نے مسلمانوں کی خدمت قابلِ شکریہ طریق پر کی لیکن اب حالات بدل رہے ہیں جوانوں کے سوا تمام مرزائیوں کو قادیان سے نکالا جا رہا ہے۔۔‘‘ (۸)
کتاب ’کاروانِ سخت جان‘جسے ادارہ رابطہ قرآن،دفتر محاسبِ دفاع پاکستان نے شائع کیا تھا اس کے مصنف نے قادیان کے حالات کے متعلق تحریر کیا
’بٹالہ کو چھوڑ کر دوسرے نمبر پر قادیان ایک بڑا قصبہ ہے۔جہاں کی آبادی اٹھارہ ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔یہ مقام علاوہ اپنی صنعتی اور تجارتی شہرت کے جماعتِ احمدیہ کا مرکز ہونے کی وجہ سے مشہور ہے۔اس کے گردو نواح میں تمام تر سکھوں کی آبادی ہے۔چنانچہ فسادات کے ایام میں بیس بیس میل دور کے مسلمان بھی قادیان شریف میں پناہ لینے کے لئے آگئے۔یہ تعداد بڑھتے بڑھتے ۷۵ ہزار نفوس تک پہنچ گئی ۔چونکہ ن پناہ گزینوں کو ظالم اور سفاک سکھوں نے بالکل مفلس اور قلاش کر دیا تھا۔لہذا قادیان کے باشندگان نے ان بیچاروں کی کفالت کا بیڑا اٹھایا ۔ظاہر ہے اتنی بڑی جمیعت کے کیلئے خوراک اور رہائش کا بار اٹھانا کوئی معمولی کام نہیںہے۔اور خصوصاََ ایسے ایام میں جبکہ ضروریاتِ زندگی کی اتنی گرانی ہو۔۔۔۔قادیان سے واقف احباب اس کی صفائی اور نفاستِ تعمیر سے کما حقہ آگاہ ہوں گے۔لیکن پناہ گزینوں کی کثرت سے یوںمعلوم ہوتا تھا جیسے میدانِ حشر ہے۔‘‘(۹)
قادیان سے بچوں اور عورتوں کا انخلائ:
اب یہ صاف طور پر نظر آرہا تھا کہ فوج اور پولیس بلوائیوں کی کھلم کھلا مدد کر رہی ہے۔قادیان کے ارد گرد دیہات میں چھ سو کے قریب مسلمان عورتوں کو اغوا کیا جا چکا تھا۔عورتوں اور بچوں کو پاکستان منتقل کرنے کا فیصلہ تو پہلے ہی ہو چکا تھا اور اس پر عمل درآمد کا آغاز بھی کیا جا چکا تھا ۔اب اس بات کی ضرورت تھی کہ اس عمل کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔چنانچہ حضورؓ نے ۱۲ ستمبر کے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ قادیان میں آٹھ نو ہزار کے قریب عورتیں اور بچے محصور ہیں۔جن کو جلد وہاں سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ان کو وہاں پر غذا کی قلت کا سامنا ہے ۔اور بعض عورتیں تو ایسی دلیر ہیں کہ وہاں سے نکلنے سے انکار کر دیتی ہیں مگر چونکہ کئی عورتیں قادیان سے نکل چکی ہیں ،یہ دیکھ کر بہت سی عورتیں گبھرا رہی ہیں۔اس وقت ان کو وہاں سے نکالنے کے لئے کم از کم دو سو ٹرکوں کی ضرورت ہے۔حضور ؓ نے تحریک فرمائی کہ سب احمدی اپنے طور پر ٹرکوں کے حصول کی کوشش کریں۔ چونکہ فوج کے افسران کو باآسانی حکومت کی طرف سے اس غرض کے لئے ٹرک مل جاتے ہیں،اس لئے وہ اس غرض کے لئے خاص طور پر کوشش کریں۔اور ٹرک ملنے کی صورت میں جماعت سے رابطہ کریں تاکہ ان عورتوں اور بچوں کو بحافظت قادیان سے پاکستان منتقل کیا جا سکے۔ان ہزاروں عورتوں اور بچوں کو بحافظت نکال کر لے آنا کوئی معمولی کام نہ تھا۔تمام راستوں پر بلوائیوں کا راج تھا۔ایک ایک قافلے میں ہزار سے زائد افراد کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار ا جا رہا تھا۔اس قیامت میں قادیان سے آٹھ ہزار عورتوں اور بچوں کا بحفاظت لاہور منتقل کیا جانا ،حضرت مصلح موعودؓ کا ایک عظیم الشان کارنامہ ہے۔ سب سے پہلے تو اس مقصد کے لئے ٹرکوں کا انتظام کرنے کا عمل شروع کیاگیا ۔احباب جماعت نے حضورؓ کی تحریک کے مطابق اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔اور پھر ان قافلوں کے لئے مسلمان ملٹری کی حفاظت کے انتظامات کئے گئے،ان میں احمدی جوان اور افسران بھی شامل ہوتے۔جماعت کی طرف سے حفاظت کے انتظامات اس کے علاوہ تھے۔اس کے علاوہ ان قافلوں کو راستے کے تمام خطرات اور سازشوںسے بچانا ایک پر حکمت منصوبہ بندی کا تقاضہ کرتا تھا۔یہ عمل نومبر کے آغاز تک جاری رہا۔جب قافلوں میں عورتیں اور بچے سوار ہو چکتے توچلنے کے لئے ملٹری کے احکامات کے لئے انتظار کرنا پڑتا۔پھرملٹری ریلوے لائن کے قریب ان ٹرکوں کو رکوا کر ان کی تلاشی لینا شروع کر دیتی اور زبردستی بعض یا تمام سواریوں کو اتار کر ان کی جگہ ان پناہ گزینوں کو بٹھانے نے کی کوشش کرتی جو اپنی رہی سہی جمع پونجی ان کی نذر کر چکے ہوتے تھے۔بعض دفعہ اس عمل میں اتنی تاخیر ہو جاتی کہ قافلے کو رات کے وقت اس غیر محفوظ مقام پر ہی رکنا پڑتا ۔ان مسائل کی وجہ سے منتظمین کو جن میں سے اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے نوجوان تھے ،بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔
قادیان سے چلنے والے یہ قافلے جس طرح بخیرو عافیت اپنی منزل کو پہنچے اس کی مثال مشرقی پنجاب سے چلنے والے قافلوں میں کہیں نہیں ملتی۔دنیا کی آنکھوں نے تو ظاہری انتظامات کو سراہا۔ لیکن ان دنوں رتن باغ میں رہنے والوں نے یہ منظر بارہا دیکھا کہ جب کسی قافلے کے پہنچنے کا انتظار ہو رہا ہوتا تو حضرت مصلح موعود ؓ ہاتھ میں قرآن شریف لے کر بے چینی سے چلتے ہوئے تلاوت کر رہے ہیں اور جب قافلے کے خیریت کے ساتھ پہنچنے کی اطلاع آئی تو آپ وہیں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو گئے۔آپ کی ایک صاحبزادی بیان فرماتی ہیں کہ اس وقت آپ جس جائے نماز پر نوافل ادا کرتے تھے اکثر اس کی سجدہ والی جگہ آنسؤں سے تر ہو جاتی۔(۱۰) جب تک یہ قافلے پہنچتے رہے حضورؓ روزانہ صدقہ دیتے رہے۔سید محمد احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ قافلے کے پہنچنے میں غیر معمولی تاریخ ہو گئی اور رات پڑ گئی ۔حضور نے انہیں طلب فرمایا اور فرمایا کہ وہ جماعت کا ہوائی جہاز لے کر جائیں اورراستہ کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ گمشدہ قافلہ کہاں ہے ؟سید محمد احمد صاحب نے عرض کی اس جہاز پر روشنی کا ایسا انتظام موجود نہیں کہ رات کو زمین پر جائزہ لیا جاسکے۔لیکن حضور کی پریشانی کے پیشِ نظر مولانا عبد الرحیم صاحب درد نے کہا کہ ٹارچ سے دیکھنے کی کوشش کرو۔رات کو ایئر پورٹ پر مکمل اندھیرا تھا۔جہاز اڑانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ اندھیرے میں ایک گائے سے ٹکرا کر بیکار ہو گیا مگر جہاز پر سوار دو افراد کی جانیں بچ گئیں۔لیکن فوراََ ہی حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓنے حضور کی خدمت میں اطلاع بھجوائی کہ قافلہ بخیرو عافیت گورداسپور سے روانہ ہو گیا ہے۔ شاید کوئی تعجب کرے کہ جہاز سے ٹارچ کے ذریعہ زمین پر کسی قافلے کو کیسے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔یہاں یہ سوال نہیں کہ ایسا کرنا ممکن ہے کہ نہیں ۔اصل قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ ایک شفیق باپ احمدیوں کی حفاظت کے لئے دن رات بے قرار تھا ۔اس کے لئے ہر قسم کی کوششیں بھی کر رہا تھا اور ہر لمحہ ان کے لئے دعائیں بھی کر رہا تھا۔اور اصل میں ان دعاؤں کا حصار تھا جس کی حفاظت میں یہ سب قافلے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بخیرو عافیت اپنی منزل پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
جماعتی عہدیداروں کی گرفتاریاں:
یہ سب کو نظر آرہا تھا کہ مشرقی پنجاب میں کہیں پر بھی مسلمان منظم ہو کر اپنا قانونی دفاع نہیں کر رہے ۔ضلع گورداسپور میں بھی جہاں پہلے مسلمانوں کی اکثریت تھی مسلمان سراسیمگی کے عالم میں اپنی جانیں بچا کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے تھے۔صرف قادیان اور اس کے نواح میں احمدی منظم ہو کر بلوائیوں کے ارادوں کو جزوی طور پر ناکام بنا رہے تھے۔اوراس آڑے وقت میں یہاںپر بغیر کسی حکومتی مدد کے پناہ گزینوں کی مدد بھی کی جا رہی تھی۔اس مرحلے پر فوج اور پولیس نے قادیان میں مقیم جماعتی عہدیداروں پر ہاتھ ڈالنا شروع کیا۔۱۳ اور ۱۴ ستمبر کو حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحبؓ ناظر دعوۃ و تبلیغ مقامی کو ،جو پنجاب اسمبلی کے ممبر بھی تھے،اور مکرم سیدزین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امورِ عامہ کو قتل کا بے بنیاد الزام لگا کر گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس کا یہ اقدام صرف ظالمانہ ہی نہیں تھا بلکہ خلافِ عقل بھی تھا۔یہ بزرگ نہ صرف شریف اور معزز شہری تھے بلکہ عمر اور صحت کے اعتبار سے بھی اس حالت میں نہ تھے کہ ان سے قتل کروائے جاتے ۔ اور مکرم شاہ صاحب ضعیف اور بوڑھا ہونے کے علاوہ ایک ٹانگ میں لنگ بھی رکھتے تھے(۱۱)اس کے بعد بھی جماعت کے عہدیداروں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رہا۔اور جب مولوی عبد العزیز صاحب اور مکرم مولانا احمد خان نسیم صاحب کو گرفتار کیا گیا تو ان کا منہ کا لا کر کے دہاریوال کے بازاروں میں پھرایا اور لوگوں سے پٹوایا گیا ۔ مولوی احمد خان نسیم صاحب کو ہی قریباََ ایک ہزار جوتے مارے گئے ۔اور یہ اذیت دے کر بار بار پوچھا جاتا کہ بتاؤ ناظر امورِ عامہ کے اسلحہ کے ذخائر کہاں ہیں؟ ان بزرگوں نے نہایت صبر و شکر سے یہ ابتلاء برداشت کئے۔(۱۲)
اس مر حلے پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جماعت کے نام ایک اہم پیغام شائع فرمایا۔اس میں حضورؓ نے اس ابتلاء کے موقع پرنمازوں اور روزوں کی طرف توجہ دلائی۔حضورؓ نے فرمایا کہ آج ہی اپنے دل میں عہد کر لیں کہ قادیان کی حفاظت کرتے چلے جانا ہے اور اگر ہندوستانی حکومت کے دباؤ کی وجہ سے ہمیں اگر قادیان خدانخواستہ خالی کرنا پڑے تو ہر ایک احمدی قسم کھا لے کہ وہ اسے واپس لے کر چھوڑے گا۔اس مصیبت کے وقت احمدی زیادہ سے زیادہ کمائیں ،کم سے کم خرچ کریں اور زیادہ سے زیادہ چندہ دیں۔اس وقت ہر مسلمان سے ہمدردی کرنا ہمارا نصب العین ہونا چاہئیے ۔ اب اختلافات پر زور دینا اور احمدی اور غیر احمدی پر زور دینا ایک قومی غداری ہو گی۔حضورؓ نے تاکید فرمائی کہ کبھی کسی غریب اور بے کس پر ظلم نہ کرو۔ہرہندو اور سکھ بھی خدا تعالیٰ کا بندہ ہے۔ پس ان تمام اختلافات کے با وجود ایک ہندو بھی ہمارا بھائی ہے اور ایک سکھ بھی ہمارا بھائی ہے۔ہم اس کو ظلم نہیں کرنے دیں گے مگر ہم اس پر ظلم ہونے بھی نہیں دیں گے۔یہ بھی سوچو کسی دن یہ لوگ اسلام میں داخل ہو کر اسلام کی ترقی کا موجب ہوں گے۔کل جس باغ کے پھل ہمیں ملنے والے ہیں۔ہم اسے کیوں اجاڑیں ۔(۱۳)
قادیان کے گرد گھیرا تنگ ہوتا ہے:
یہ گرفتاریاں ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھیں کیونکہ ان کے ساتھ ہی قادیان اور اس سے بالکل متصل احمدی دیہات پر حملے شروع ہو گئے ۔اب تک جو گاؤں ان حملوں کا نشانہ بنے تھے وہ قادیان سے کچھ فاصلے پر تھے۔۱۶ ستمبر کو قادیان کے شمال مغربی محلے اسلام آباد پر سکھوں کا حملہ ہؤا۔۱۸ ستمبر کو شمال میں قادیان سے ملحقہ گاؤں موضع کھارا پر ہزاروں سکھوں نے ہندوستانی ملٹری کی موجودگی میں حملہ کیا اور اگلے روز یہ گاؤں خالی کرا لیا گیا۔اس کے ایک دن بعد قادیان کے شمالی محلے دارالسعۃ پر سکھ جتھوں نے پولیس کی مدد سے حملہ کیا اور اسے بھی زبردستی خالی کرالیا گیا۔۱۹ ستمبر کو قادیان کے جنوب پر حملے شروع ہوئے اور بہشتی مقبرہ سے ملحقہ گاؤں ننگل باغبان کو سکھ جتھوں نے پولیس کی مدد سے حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔اور اس کے اگلے روز حسب ِ سابق پولیس نے بلوائیوں کی مدد کی اور قادیان سے متصل گاؤں قادر آباد کو بھی خالی کرا لیا گیا۔ (۱۴)
مغربی پنجاب سے روزانہ ہزاروں ہندو اور سکھ مجبوری کی حالت میں مشرقی پنجاب پہنچ رہے تھے۔ ہندوستان کی حکومت ان کو وہ جائیدادیں اور مکانات الاٹ کر رہی تھی جن سے مسلمانوں کو زبردستی بے دخل کیا گیا تھا اور اس بات کا انتظار نہیں کیا جا رہا تھا کہ مسلمان حالات ٹھیک ہونے پراپنی جگہوں پر واپس آجائیں۔اگرچہ دونوں حکومتیں اعلانات کر رہی تھیں کہ کسی کو زبردستی اپنی جگہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔اگر یہ لوگ واپس آتے تو جاتے کہاں ان کا سب کچھ لٹ چکا تھا اور جائیدادیں دوسروں کو دے دی گئی تھیں ۔چنانچہ ستمبر کے وسط تک صرف ضلع امرتسر میں ،نقلِ مکانی کرنے والے ۲۵ ہزار ہندؤں اور سکھوں کو وہ زرعی زمینیں الاٹ کر دی گئی تھیں جن سے مسلمانوں کو بے دخل کیا گیا تھا۔اور اسی طرح اس وقت تک اسی فیصد مکانوں اور دوکانوں پر بھی قبضہ ہو چکا تھا۔(۱۵۔۱۶) اس منحوس چکر کو روکنے کے لئے دونوں حکومتوں میں مفاہمت بھی ہوئی مگر نتیجہ صفر نکلا۔ ۱۵ ستمبر کو وزیرِ اعظم پاکستان نے ہندوستان کی حکومت پر اس کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگایا اور واضح کیا کہ ان کے نزدیک مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا قتلِ عام ایک نا پاک سازش ہے جس کا مقصد پاکستان کی ریاست کو اس کے آغاز سے ہی ناکام بنا دینا ہے۔(۱۷)جواب میں وزیرِ اعظم ہندوستان پنڈت جواہر لال نہرو نے اس الزام کی تردید کی کہ پاکستان کو ختم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے اور کہا کہ ہندوستان کی فوج مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے ہر پناہ گزیں کیمپ اور نقلِ مکانی کرنے والے تمام قافلوں کی حفاظت کر رہی ہے۔(۱۸)
گو مشرقی پنجاب مسلمانوں سے خالی ہو رہا تھا لیکن فساد کرنے والوں کوقادیان میں بالکل علیحدہ صورتِ حال نظر آرہی تھی۔قادیان کے گرد گھیرا تنگ ہو چکا تھا ۔ملحقہ دیہات پر اور بعض مضافات پر فوج اور پولیس کی مدد سے بلوائی قبضہ کر چکے تھے۔دارالمسیح کے بالکل ساتھ ہندؤں کا محلہ تھا۔گو قادیان میں اب تک احمدیوں کی اکثریت تھی لیکن اتنے سالوں میں کبھی کسی ہندو یا سکھ کا بال بھی بیکا نہیں ہؤا تھا ۔مگر اب یہی لوگ جماعت کے خلاف زہر اگل رہے تھے اور سازشوں میں شریک تھے۔ اس صورت ِ حال میں عورتوںاور بچوں کو وہاں سے نکالا جا رہا تھا اور سلسلے کے اہم کارکنان اور بعض دیگر افراد بھی وہاں سے منتقل ہو رہے تھے ۔لیکن اس کے ساتھ باہر سے احمدی قادیان کی حفاظت کے لئے وہاں پہنچ رہے تھے اور اس بات کے کوئی آثار نہیں تھے کہ دوسری جگہوں کی طرح قادیان بھی مکمل طور پر خالی کر دیا جائے گا اور قادیان کے مقدس مقامات ان مفسدوں کے حوالے کر دیئے جائیں گے۔چنانچہ احمدیوں کی قوتِ مدافعت توڑنے کے لئے ایک علیحدہ طریقہ کار اپنایا گیا۔ایک طرف تو فوج نے خواتین اور بچوں کے قافلے بھجوانے کے راستے میں بے جا روکیں ڈالنی شروع کیں اور دوسری طرف ۲۱ ستمبر کو قادیان میں کرفیو لگا دیا گیا۔شروع میں یہ کرفیو شام سے صبح تک تھا مگر پھر اس کا دورانیہ بڑھا دیا گیا۔کرفیو کا اطلاق صرف مسلمانوں پر تھا۔ارد گرد دیہات کے سکھ غنڈے کرفیو کے دوران آزادانہ طور پر قادیان کی گلیوں میںگھومتے پھرتے نظر آتے۔ ہزاروںمسلمان پناہ گزیں ارد گرد کے دیہات سے آکرکھلے آسمان کے نیچے پڑے تھے یہ ظالم موقع ملنے پر ان کے اموال لوٹ لیتے اور ان کی عورتوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتے۔جب تشدد کا کوئی نیا کارنامہ سر انجام دینا ہوتا تو کرفیو کی گھنٹی بجا دی جاتی تا کہ کوئی جوابی کا روائی بھی نہ ہو سکے ۔ (۱۹)
حکومتی اداروں سے اپیل:
جماعت کی طرف سے حکومتی اداروں کو اس ظلم کی طرف توجہ دلانے کی ہر ممکنہ کوشش کی جا رہی تھی۔ ڈپٹی کمشنر اور ہوم منسٹر کو سارے حالات لکھے گئے لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا(۲۰)۔جماعت کا وفد صوبے کے وزیرِ اعظم اور ہوم منسٹر سے ملا انہوں نے بجائے بلوائیوں کو قابو کرنے کے الزام لگایا کہ احمدیوں نے قادیان کے قریب مہارا نامی گاؤں پر حملہ کر کے کچھ سکھوں کو مار ڈالا ہے۔حالانکہ اس نام کا گاؤں اس علاقے میں تھا ہی نہیں۔اور نہ ہی احمدیوں نے کہیں حملہ کیا تھا۔وہ تو صرف اپنا جائز دفاع کر رہے تھے(۲۱ تا۲۳) گاندھی جی کی طرف سے بیانات شائع ہو رہے تھے کہ ہندوستان سے مسلمانوں کو نہیں جانا چاہئیے ۔جماعت نے اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے اپیل کی کہ مشرقی پنجاب میں رہنے والے احمدی اپنی جگہوں پر رہنا چاہتے ہیں اور گاندھی جی کی توجہ قادیان میں محصور احمدیوں اور دیگر مسلمانوں کی حالت کی طرف مبذول کرائی جن کی زندگیاں خطرے میں تھیں۔اور انہیں تفصیلی رپورٹ بھی بھجوائی گئی۔ گاندھی جی کے نام یہ اپیل غیر از جماعت اخبارات نے بھی شائع کی۔لیکن حسبِ سابق مصلحت آمیز خاموشی کے علاوہ کوئی جواب نہ ملا۔(۲۲)
قادیان پر بڑے حملے کی تیاری:
اب یہ نظر آ رہا تھا کہ مفسدوں کی طرف سے کسی بڑے حملے کے لئے تیاری کی جا رہی ہے۔ فوج نے بجائے بلوائیوں کو لگام دینے کے احمدیوں کو ہی جائز اسلحہ سے محروم کرنا شروع کر دیا۔ ۲۲ستمبر کو فوج نے حضورؓ کے مکانات ،دفاتر ،دارالمسیح کے دیگر مکانات اور دوسرے دفاتر کی تلاشی لی اور جو لائسنس والا اسلحہ ملا اسے بھی اپنے قبضہ میں لے لیا۔ٹرنکوں کے قفل توڑ کر اور فرش کھود کر بھی تسلی کی کہ یہاں کچھ چھپایا تو نہیں گیا۔اس دن یہ خبر بھی ملی کہ امیر مقامی حضرت مرزا بشیر احمدؓ صاحب کو گرفتار کرنے کا منصوبہ ہے۔۲۳ ستمبر کو حضرت مصلح موعود ؓ نے حضرت مرزا بشیر احمد ؓ صاحب کو لاہور بلا لیا اور حضرت مرزا عزیز احمدؓ صاحب امیرِ مقامی مقرر ہوئے۔اگلے چند روز پولیس نے قادیان کے ایسے کئی مکانات کی تلاشی لی جن میں پناہ گزیں ٹہرے ہوئے تھے اور ان کی بہت سی قیمتی اشیاء غصب کرلیںاور فوج نے یہ کارنامہ کیا کہ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ کی کوٹھی پر قبضہ کر لیا ۔ چوہدری صاحب اس وقت اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی نمائیندگی کر رہے تھے،جب یہ خبر وہاں پہنچی تو اس سے ہندوستانی حکومت کی بہت بد نامی ہوئی ۔اس پر پنڈت جواہر لال نہرو صاحب کی بہن وجے لکشمی پنڈت نے بھی اپنے بھائی کو احتجاجی تار دی۔۲۷ ستمبر کا دن مویشیوں کی لوٹ کے لئے مخصوص کیا گیا ۔اس روز سکھ جتھوں نے پولیس کی مدد سے پناہ گزینوں اور قادیان کے احمدیوں کے تقریباََ ۲۵ ہزار مویشی لوٹے ۔۲۹ ستمبر کو قادیان کے مشرقی محلہ دارالانوار کے بہت سے مکانات سے سامان لوٹا گیا۔پھر فوج نے حضور ؓ کا ایک گھر دارالحمد خالی کرالیا ،اگرچہ حضور کے بیٹے اس وقت قادیان میں موجود تھے۔اب تقریباََ سارا علاقہ مسلمانوں سے خالی ہو چکا تھا جو مسلمان پاکستان نہیں جا سکے تھے وہ پناہ گزیں کیمپوں میں پڑے ہر قسم کے مظالم کا نشانہ بن رہے تھے۔ایسی صورت میں باوجود فوج اور پولیس کے مظالم کے اور بے سرو سامانی کے ایک قادیان میں ہی احمدی اپنے مقدس مقامات کا دفاع کر رہے تھے۔اس موقع پرغیر از جماعت اخبار بھی جماعت کی ہمت کی داد تو دے رہے تھے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی لکھ رہے تھے کہ یہ جد و جہد لا حاصل ہے ۔دشمن اب قادیان کو تباہ کر کے ہی رہے گا،ان حالات میں قادیان کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔اس لئے احمدیوں کو وہاں سے اپنی جانیں بچا کر نکل آنا چاہئیے۔روزنامہ احسان نے اپنی ۲۵ ستمبر کی اشاعت میں قادیان کے حالات کا تفصیلی تجزیہ کیا اور اس کی سرخی یہ تھی
’’قادیان کے باشندوں پر سکھ فوج اور پولیس کے بے پناہ مظالم ‘‘
’’ ان لوگوں نے آخری وقت تک مقابلہ کرنے کی ٹھان لی‘‘
اس تجزیے میں اخبار نے لکھا
’’آخر قادیان کے متعلق ہندوؤں اور سکھوں کی سازشیں بروئے کار آئیں۔ ۲۱ ستمبر سے شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔تازہ اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ سکھ پولیس اور ہندو ملٹری کی مدد سے قادیان میں تباہی مچانا چاہتے ہیں۔اس وقت قادیان میں کم از کم ڈیڑھ لاکھ پناہ گزیں جمع ہیں۔ہندو ملٹری اور سکھ پولیس کے ظلم و ستم اور آئین سوز حرکات کے باوجود قادیان کے نو جوان ہراساں نہیں ہوئے۔وہ خندہ پیشانی کے ساتھ موت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔۔۔۔
قادیان کے نوجوان ملٹری کے جبر و تشدد سے بالکل خوف زدہ نہیں۔وہ صرف اس بات کے خواہشمند ہیں۔کہ عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو یہاں سے نکال دیا جائے۔وہ خوب جانتے ہیں۔کہ اب وہ آہستہ آہستہ موت کے گھیرے میں آتے جاتے ہیں۔۔۔۔محکمہ حفاظت قادیان کے ماتحت کام کرنے والے نوجوان بعض اوقات چوبیس چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی ادا کرتے اور رات دن پہرا دیتے ہیں گو نیند اور بے آرامی کی وجہ سے ان کی صحت کمزور ہو چکی ہے مگر وہ موت کے ڈر سے بھاگنے کی بجائے موت سے مقابلہ کرنے پر آمادہ ہیں۔‘‘
روزنامہ احسان میں ہی اسی روز حضورؓ کے نام یہ اپیل شائع ہوئی کہ وہ اب قادیان کو تباہی سے بچانے کا خیال ترک کر دیں۔اس میں لکھا
’’خلیفہ صاحب قادیان میں اپنی جماعت کو یہی مشورہ دے رہے ہیں۔کہ وہ قادیان کی حفاظت کے لئے آخری دم تک وہیں رہے۔خلیفہ صاحب کی یہ ہمت قابلِ داد ضرور ہے۔۔۔۔لیکن حالات سے بے نیاز ہو کر کام کرنا اور ہزارہا نہتے لوگوں کواتنی آزمائش میں ڈالنا مناسب نہیں۔۔۔۔یہ محض خام خیالی ہے کہ وہاں بہت دیر تک مقابلے میں جمے رہنے سے اس بات کو اس قدر شہرت ملے گی۔کہ ہندوستان کی حکومت مرعوب ہو کر قادیان کو تباہ کرنے سے اپنا ہاتھ کھینچ لے گی۔‘‘
اب دشمن اس بات کی تیاری کر رہا تھا کہ ایک آخری حملہ کر کے قادیان کو مکمل طور پر خالی کرالیا جائے اور مقدس مقامات کو تہس نہس کر دیا جائے۔کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے ایک اور قدم یہ اٹھایا گیا کہ بجلی کی رو بند کر دی گئی۔پولیس نے حکماََ آٹا پیسنے والی برقی چکیاں بند کر دیں۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ محصورین کو گندم ابال کر کھانی پڑی اور ان میں پیچش کے امراض پھیل گئے۔اسی پر بس نہیں کی گئی بلکہ پولیس نے حکم دیا کہ کسی کے گھر میں دو بوری سے زیادہ گندم نہیں ہونی چاہئیے۔بقیہ غلہ پولیس نے ضبط کر لیا۔یہ سب مظالم احمدیوں کی قوتِ مدافعت توڑنے کے لئے کئے جا رہے تھے۔۲ اکتوبر کو فوج نے زبردستی احمدیوں اور دیگر پناہ گزینوں کوتعلیم الاسلام کالج سے بے دخل کر دیا۔حالانکہ اس کی مالک صدر انجمن احمدیہ قادیان میں قائم تھی ۔
۲ اکتوبر کو حضور ؓ نے بتیس لاریوں کا ایک قافلہ قادیان کے لئے روانہ فرمایا ۔اس میں کچھ خدام قادیان کی حفاظت کے لئے جا رہے تھے اوریہ لاریاں قادیان کے پناہ گزینوں کو لانے کے لئے بھجوائی جا رہی تھیں۔حضورؓ نے انہیں رخصت کرتے وقت فرمایا کہ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اس قافلے کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آنے والا ہے۔جب قافلہ بٹالہ سے آگے نکلنے لگا تو فوج نے یہ بہانہ کر کے اسے روک دیا کہ آگے بارش کی وجہ سے راستہ خراب ہے۔یہ صرف بہانہ تھا ،حقیقت یہ تھی کہ اب قادیان پر ایک بڑا حملہ کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا تھا۔بعد میں اس کنوائے پر حملہ بھی ہؤا۔۲ اکتوبر کو سکھوں نے دارالراحت محلہ پر حملہ کیا مگر انہیں واپس جانا پڑا۔
قادیان پر بڑا حملہ:
۲ اور ۳ اکتوبرکی درمیانی رات کو دارالمسیح میں موجود لوگوں نے مشرق کی طرف سے گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں ۔اس کے ساتھ نعروں کی آوازیں بھی بلند ہوئیں۔جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ مشرق میں قادیان سے متصل موضع بھینی پر سکھوں کا حملہ ہو گیا ہے۔ آدھی رات کو مسجد اقصیٰ میں ایک نہایت خوفناک دھماکہ ہؤا۔معلوم ہؤا کہ مسجد اقصیٰ میں بم پھینکا گیا ہے۔لیکن کوئی زیادہ نقصان نہیں ہؤا۔ ساری رات فضا گولیوں کی آوازوں اور زخمیوں کی آہ و بکا سے گونجتی رہی۔صبح کو مکانوں کی چھتوں سے دیکھا گیاکہ محلہ دارالرحمت کے قریب کھیتوں میں سکھوں کا جتھہ جمع ہو رہا ہے۔جلد ہی ان کی تعداد سینکڑوں سے بڑھ کر ہزاروں تک پہنچ گئی۔پولیس اور فوج بھی وہاں موجود تھی مگر ان کو روکنے کی بجائے انہیں کچھ ہدایات دیتی نظر آرہی تھی۔جلد ہی ان بلوائیوں نے محلہ دارالرحمت پر حملہ کیا مگر جب حفاظت پر مقرر خدام سامنے آئے تو یہ ہجوم بھاگنے پر مجبور ہوگیا۔یہ پسپائی دیکھ کر ایک مرتبہ پھر فوج اور پولیس کو بلوائیوں کی مدد کو آنا پڑا ۔پولیس اور ملٹری دوسری طرف سے محلہ میں داخل ہوئے اور گولیاں چلانی شروع کر دیں اور اس کے ساتھ سکھ جتھوں نے قطاریں بنا کر ایک بار پھر محلہ کی طرف بڑھنا شروع کیا۔فوجی اور سپاہی ہر دروازے پر جا کر کہتے کہ یہاں سے نکل جاؤ ورنہ گولی چلا دیں گے اور یہ حملہ آور تمہیں مار دیں گے۔ایسی صورت میں سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی تھی کہ عورتوں کو یہاں سے نکال کر حفاظت کے مقام پر پہنچایا جائے ۔احمدی عورتوں کو بورڈنگ تحریکِ جدید میں منتقل کرنے کا کام شروع ہؤا مگر سامنے تقریباََ دو ہزار سکھ اور پولیس والے حملہ کررہے تھے۔ چنانچہ احمدی نوجوانوں نے مورچہ بنا کر بہادری سے حملہ آوروں کا مقابل کرنا شروع کیا۔اور یہ نوجوان چار بجے تک اپنے مورچے سے فائرنگ کر کے حملہ آوروں کو روکتے رہے۔تیس چالیس حملہ آور مارے گئے۔مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام عورتوں کو بورڈنگ میں پہنچا دیا۔آخر کار فوج اور پولیس نے محلہ دارالرحمت کو بھی خالی کرالیا۔ ایک طرف تو محلہ دارالرحمت میں یہ قیامت بپا کی جا رہی تھی اور دوسری طرف مسجد اقصیٰ کے مغرب میں پولیس کے سپاہی اور سکھ حملہ آور، احمدیوں کے محلہ میں چھتیں پھلانگ کر داخل ہو گئے اور احمدیوں کا قتلِ عام شروع کر دیا ۔اسی وقت مسجد مبارک میں بندوق بردار لوگوں کی ڈیوٹی لگا دی گئی اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب جائزہ لینے کے لئے مسجد اقصیٰ کی طرف روانہ ہوئے ۔سب سے پہلے تو عورتوں کو ایک کھڑکی کے ذریعہ مسجد اقصیٰ میں لایا گیا۔ با وجود تمام مظالم کے اب تک احمدی اس بات سے احتراز کرتے رہے تھے کہ فوج یا پولیس سے مقابلہ کریں ۔گو کہ ان کی چیرہ دستیوں سے اکثریت کو اپنے گھر چھوڑنے پڑے تھے۔لیکن اب فوج اور پولیس کے آدمی قانون نافذ کرنے کی بجائے خود قتلِ عام کر رہے تھے۔اور اب یہ جنگ مقاماتِ مقدسہ تک پہنچ چکی تھی۔ان وحشیوں سے عورتوں کو بھی بچانا ضروری تھا ۔چنانچہ اب یہ فیصلہ کیا گیا کہ مینارۃ المسیح سے بگل بجا دیا جائے ۔یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اب ہر حملہ آور سے مقابلے کی اجازت ہے۔چونکہ حلقہ مسجد مبارک میں دارالرحمت کے حالات کا صحیح اندازہ نہیں تھا،اس لئے یہ اشارہ بھی تاخیر سے دیا جا رہا تھا۔جونہی مینارہ سے بگل کی آواز بلند ہوئی احمدیوں نے فائر کھول دیا اور باقاعدہ مقابلہ شروع ہو گیا۔ابھی بگل کی آواز کو زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ حملہ آور سر پر پاؤں رکھ کے بھاگے اور دیکھتے دیکھتے غائب ہو گئے۔ظالموں کی حرص بہت زیادہ مگر ہمت بہت تھوڑی ہوتی ہے۔ ۳ اکتوبر کے المناک دن تقریباََ دو سو احمدیوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ظالموں نے بہت سی لاشیں بھی احمدیوں کو نہیں دیں۔حضور ؓ نے ۱۰ اکتوبر کو ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور شہداء کے متعلق فرمایا’اب وہ ہماری یادگار اور ہماری تاریخ کی امانت ہیںاور ہماری جماعت ان کا نام ہمیشہ کے لئے زندہ رکھے گی۔اگر وہ بے نام ہیں تب بھی وہ جماعت ِاحمدیہ کی تاریخ میں زندہ رہیں گے‘(۲۴)۔ اکثر محلوں میں رہنے والے بورڈنگ اور دارالمسیح میں محصور ہو گئے۔لیکن قادیان کے مقاماتِ مقدسہ کو تباہ کرنے اور تمام احمدیوں کو یہاں سے نکالنے کی ناپاک کوشش ناکام ہو گئی ۔با وجود اس کے کہ فوج اور پولیس نے آٹھ نو ہزار حملہ آوروں کی معیت میں حملہ کیا تھا۔اوراپنی طرف سے ان ارادوں کو کامیاب بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔(۲۵ تا۲۷)اس خون آ لود پس منظر میں یہ تشویشناک خبریں موصول ہونے لگیں کہ ہندوستان کی حکومت اس تجویز پر غور کر رہی ہے کہ قادیان کو چھاؤنی بنا دیا جائے اور ضلع کے دوسرے دفاتر بھی گورداسپور کی بجائے قادیان منتقل کر دیئے جائیں۔روزنامہ احسان نے اس خبر کو شائع بھی کیا۔اب حکومت کے پاس تو قادیان میں ان مقاصد کے لیئے عمارات موجود نہیں تھیں۔اس سے صرف یہ مطلب نکلتا تھا کہ جماعتی عمارات اور احمدیوں کے نجی مکانات پر زبردستی قبضہ کر کے ان میں چھاؤنی اور دوسرے دفاتر قائم کیئے جائیں گے۔(۲۸)
بڑے حملے کے وقت قادیان کے محلے خالی کر کے ،عورتیں ،بچے اور مرد بورڈنگ میں جمع ہو گئے تھے۔مگر یہ بورڈنگ تو صرف چند سو لڑکوں کی رہائش کے لئے بنائی گئی تھی۔اس میں ہزاروں کی تعداد میں پناہ گزینوں کے لئے جگہ کہاں تھی۔عمارت کے اندر عورتوں اور بچوں کے ہجوم کی وجہ سے تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔مرد باہر شیڈ کے یا درختوں کے نیچے یا پھر کھلے آسمان کے تلے رہنے پر مجبور تھے۔بارشیں بہت ہوئی تھیں۔زمین گیلی تھی اور جگہ جگہ نشیبی زمین میں پانی جمع تھا۔یہ جگہ گذشتہ تین ماہ سے پناہ گزینوں کے کیمپ کے طور پر استعمال ہو رہی تھی۔اور یہاں پر حوائجِ ضروریہ کے لئے کوئی انتظام نہ تھا۔کھلے آسمان کے نیچے پڑے ہوئے لوگ رات کے اندھیرے میں جہاں موقع ملتا حوائجِ ضروریہ سے فراغت پا لیتے۔زمین گندگی سے اتنی اٹی ہوئی تھی کہ لیٹ کر سونا بھی محال تھا۔اب جبکہ ہزاروں احمدی بھی یہاں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تو کھانے کے لئے فقط ابلی ہوئی گندم ہی مل سکتی تھی۔پانی کے لئے ایک کنؤاں تھا اور ایک نلکہ۔باہر جا کر پانی تک لانا نا ممکن نظر آ رہا تھا۔کنویں پر پانی پینے والوں کا ہجوم ہؤا تو اسی تگا پو میں ڈول کنویں کے اندر گر گیا ۔بازار بند اورکرفیو نافذ۔اب نیا ڈول اور رسی کہاں سے آتی۔اب ان ہزاروں مظلوموں کو پانی مہیا کرنے کے لئے اب ایک نلکہ ہی رہ گیا تھا۔اسی بے بسی کے عالم میں ۱۵ اور ۱۶ اکتوبر کی درمیانی رات میں بارش ہو گئی۔درختوں پر جو پانی گرتا۔وہ ایک پتے سے دوسرے پتے پر منتقل ہوتا ہؤا ایک دھار کی صورت میں گرتا ۔کئی لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے اوک بنا کر سیر ہو کر پانی پیا۔یہ لوگ اسی حالت میں وہاں ٹھہرے رہے ۔جب عورتیں اور بچے اور بہت سے مرد بھی مختلف کنوائے کی صورت میں پاکستان روانہ ہو گئے اور صرف تین سو کے قریب افراد بورڈنگ میں رہ گئے تو یہ لوگ یہاں سے حلقہ مسجد مبارک منتقل ہوئے۔(۲۹)
حکومت کو شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے:
یوں تو پورے پنجاب میں قیامت برپا تھی۔ مشرقی پنجاب سے تمام مسلمان افراتفری کی حالت میں نکلنے پر مجبور تھے،اس دور ِ ابتلاء میں ان کی جانیں ،اموال اور عورتوں کی عزتیں محفوظ نہیں تھیں۔ ہر طرف بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔صرف قادیان کی چھوٹی سی بستی ایسی جگہ تھی جہاں پر جرأ ت مندانہ مزاحمت کی جا رہی تھی اور عورتوں اور بچوں کا منظم انخلاء کامیابی سے جا ری تھا۔ اس وقت غیر بھی اس بہادری کو سراہے بغیر نہ رہ سکے۔حکومت کی طرف سے کنوائے کی حفاظت کے لئے کچھ فوج کے افسران بھی مقرر کئے جاتے تھے۔ایک مرتبہ ان کے ساتھ ایک یوروپی میجر بھی آئے جو مذہباََ یہودی تھے۔وہ قادیان کے نوجوانوں کا جذبہ دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔جب ہندوستانی حکام نے قافلے کی تلاشی لینے کا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر تلاشی سے انکار کر دیا کہ دونوں حکومتوں کا معاہدہ ہے کہ تلاشی نہیں ہو گی۔تکرار بڑھی تو انہوں نے کہا کہ مجھے گولی مار دو مگر تلاشی نہیں ہو گی۔بعد میں یہ حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اعتراف کیا کہ میں نے قادیان میں جو نوجوان دیکھے ہیں وہ ان یہودی نوجوانوں سے بھی زیادہ بہادر ہیںجنہیں فوجی طور پر ٹرین کیا گیا ہے اور جو ہر قسم کے ہتھیاروں سے مسلح ہیں ۔آپ کے نوجوانوں نے اگر اپنی جانیں دے دیں تو بے شک ان کی موت شاندار موت ہو گی۔لیکن میں آپ سے در خواست کرتا ہوں کہ آپ انہیں مرنے نہ دیں کیونکہ اگر وہ زندہ رہے تو ان کی زندگی ان کی موت سے بھی زیادہ شاندار ہو گی۔(۲۶ و ۳۰)
اب قادیان کے حالات غیر از جماعت حلقوں میں بھی ایک اہمیت اختیار کر چکے تھے۔چنانچہ پاکستان ٹائمز نے ۴ اکتوبر ۴۷ ۱۹ کو قادیان کے عنوان سے اداریہ تحریر کیا۔اس وقت فیض احمد فیض پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے۔ابھی اس بڑے حملے کی اطلاع پاکستان نہیں ملی تھی۔اس اداریے میں تحریر کیا گیا کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر لوگ اپنے گھروں میں رہ کر بہادری سے خطرات کا مقابلہ کرتے تو اتنے وسیع پیمانے پرتباہیوں سے بچ جاتے اور اتنے زیادہ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت نہ کرنی پڑتی۔قادیان کے باشندوں نے اس سلسلے میں ایک آزمائشی مثال قائم کی ہے اوریہ لوگ وہیں پر ٹھہرے رہے ہیں۔اور یہ بات مشرقی پنجاب کی حکومت کے لئے ایک امتحان کی حیثیت رکھیتی ہے اور وہ اس امتحان میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔اگر احمدی اب تک بچے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ ان کی اعلیٰ درجے کی تنظیم ہے۔وہ پچاس ہزار مسلمانوں کو وہاں پر پناہ دے رہے ہیں اور انہیں خوراک بھی مہیا کررہے ہیں۔اگرچہ احمدی ہمیشہ ملکی حکومت کے وفادار رہے ہیں مگر اب حکومتی ادارے ہی ان پر ظلم کر رہے ہیں۔ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہاں سے عورتوں اور بچوں کو نکالنے کا انتظام کرے۔قادیان کے مرد وہیں پر ٹھہرنا چاہتے ہیں۔(۳۱)
جب قادیان پر ۳ اکتوبر کا بڑا حملہ ہؤا تو اس وقت قادیان کے احمدیوں کا لاہور سے رابطہ بالکل منقطع ہو چکا تھا۔دس روز سے نہ کوئی کنوائے آیا تھا اور نہ ہی فون پر حضورؓ کو اس کی اطلاع کی جا سکی تھی۔قادیان میں موجود آبادی صرف حلقہ مسجد مبارک ،بورڈنگ تحریک جدید اور دارالانوار کے کچھ گھروں تک مقید ہو کر رہ گئی تھی۔اس ابتلاء کے وقت ۶ اکتوبر کو قادیان والوں نے ریڈیو پاکستان پر حضرت مصلح موعود کا اہلِ قادیان کے نام پیغام سنا ۔اپنے امام کا پیغام سن کر سب کے دلوں کو ڈھارس ہوئی۔شروع میں حکومت نے یہ خبر چھپانے کی کوشش کی۔ لیکن اس نے تو بہر حال ظاہر ہونا تھا۔اس سے حکومتِ ہندوستان کی بہت بدنامی ہوئی کیونکہ قادیان میں حکومتی اداروں نے مرکزی حکومت کے دعووں کے بالکل برعکس رویہ دکھایا تھا۔حکومتِ پاکستان کی طرف سے وفاقی وزیر غضنفر علی خان صاحب نے قادیان پر اس وحشیانہ حملے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں پر ہونے والے حملوں میں سے یہ حملہ سب سے زیادہ بزدلانہ تھا۔قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سازش میں شریک تھے۔مشرقی پنجاب کی حکومت کا فرض ہے کہ اس سانحے کی وضاحت پیش کرے (۳۲)۔۷ اکتوبر کو ڈپٹی کمشنر اور ایس پی قادیان کا جائزہ لینے آئے۔امیر مقامی حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ؓنے سارے حالات انہیں سنائے اور کھول کر بیان کیا کہ تمہارے لوگوں کی طرف سے یہاں پر یہ ظلم کیا گیا ہے۔انہوں نے بظاہر انکار کیا کہ یہ ان کے حکم پر ہؤا ہے لیکن ساتھ احمدیوں کو ہراساں کرنے کے لئے یہ بھی کہا کہ اگر پاکستان اور ہندوستان میں جنگ چھڑی تو آپ لوگوں کو دشمن تصور کیا جائے گا اور ختم کر دیا جائے گا۔اس سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ وہ یہاں سے ہر قیمت پر احمدیوں کو نکالنا چاہتے ہیں۔اگلے روز بھارتی فوج کے جی او سی میجر جنرل تھمایا بھی قادیان کا جائزہ لینے آئے(جنرل تھمایا بعد میں ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف بنے تھے)۔ ان کے ساتھ پاکستانی فوج کے احمدی افسران برگیڈیئر افتخارجنجوعہ ، برگیڈیئر نذیرصاحب اور حضرت مولانا عبد الرحیم درد صاحبؓ بھی تھے۔جنرل تھمایا نے حالات کا جائزہ لیا اور اسوقت اعتراف کیا کہ قادیان پر ایک بڑا حملہ کرایا گیا ہے اور مظالم کئے گئے ہیں۔اور یہ کہ کرفیو لگانا قطعاََ غلط تھا۔یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ واپس جا کر مسلمان ملٹری قادیان بھجوائیں گے۔لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آپ لوگوں کی حفاظت کرنا مشکل ہو گا۔حالانکہ یہ حفاظت مہیا کرنا ان کا فرض تھا اس بات کا مقصد صرف احمدیوں کو ہراساں کرکے قادیان چھوڑنے پر آمادہ کرنا تھا۔لیکن دو روز بعد ہندوستان ریڈیو نے یہ خبر نشر کی کہ قادیان پر حملے کی اطلاع ملتے ہی جنرل تھمایا نے پاکستانی افسران اور جماعت احمدیہ کے نمائندے کے ہمراہ قادیان کا دورہ کیا اور ان تحقیقات سے معلوم ہؤا ہے کہ قادیان پر سرے سے کوئی حملہ ہؤا ہی نہیں۔ایسی صورت میں جب یہ خبر اچھی طرح مشتہر ہو چکی تھی یہ سفید جھوٹ حقائق کو چھپانے کی ایک بھونڈی کوشش تھی۔جماعت کی طرف سے فوراََ حقائق پر مشتمل بیان جاری کیا گیا اور ناظر امورِ خارجہ حضرت مولانا عبد الرحیم درد صاحبؓنے،جو اس دورے پر جنرل تھمایا کے ہمراہ تھے،اس خبر کی تردید میں ایک تفصیلی پریس سٹیٹمنٹ جاری کی ۔اس طرح یہ خبر حکومت کے لئے خفت کا باعث بنی۔ابھی یہ معاملہ ختم نہیںہؤا تھا کہ وزیرِ اعظم ہندوستان پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک بیان جاری کیا کہ قادیان میں احمدیوں کو نہ تو گرفتار کیا گیا اور نہ ہی ہراساں کیا گیا ہے اور ہندوستان کی ملٹری ان کی حفاظت کر رہی ہے۔اس پر ایک بار پھر جماعت نے حقائق پر مشتمل تردیدی بیان جاری کیا اور وزیرِ اعظم کو تار بھی بھجوائی اور اس میں حقائق پیش کرنے کے علاوہ لکھا کہ یہ ویسی ہی پرانی کہانی دہرائی جا رہی ہے جیسا کہ برٹش دور میں حکومت کانگرس کے لیڈروں کو ہراساں کرتی تھی اور پھر اس کی تردید بھی کر دیتی تھی۔اور کانگرس اس پراپیگنڈا کے سامنے بے بس ہوتی تھی۔
تشدد کے خوف سے نقلِ مکانی کو روکنے کے لئے دونوں ممالک کی طرف سے بیانات تو دیئے جا رہے تھے لیکن صورتِ حال بد سے بد تر ہوتی جا رہی تھی۔۷؍ اکتوبر کو پاکستان میں بسنے والے ہندؤں اور سکھوں کے نام قائدِ اعظم کا ایک پیغام گورنر سندھ نے پریس کو پہنچایا ۔اس پیغام میں کہا گیا تھا کہ سندھ میں بسنے والے ہندو اور سکھوں کو چاہئیے کہ وہ پاکستان میں ہی ٹہریں۔اور انہیں یاد دلایا کہ گاندھی جی نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ لوگ اپنی اپنی جگہ جگہ پر ٹہرے رہیں۔اور نقلِ مکانی نہ کریں۔(۳۳)لیکن عملاََ صورتِ حال یہ تھی کہ اکتوبر ۱۹۴۷ء کے تیسرے ہفتے میں یہ اعلان کیا گیا کہ صرف امرتسر سے موصول شدہ اطلاعات کے مطابق گذشتہ ایک ہفتہ میں ہی ساڑھے سولہ لاکھ سے زائد افراد نے نقلِ مکانی کی ہے۔ان میں سے دس لاکھ مسلمان تھے اور ساڑھے چھ لاکھ سے کچھ اوپر غیر مسلم تھے۔چار لاکھ پنتیس ہزار غیر مسلموں اور چار لاکھ اکیانوے ہزار مسلمانوں کو تو صرف اس ہفتہ کے دوران پیدل چل کر نقلِ مکانی کرنی پڑی تھی۔(۳۴)
۱۴ اکتوبر کو حضورؓ کے حکم پر حضرت مرزا عزیز احمد ؓ صاحب لاہور کے لئے روانہ ہوئے اور مولانا جلال الدین صاحب شمس امیر مقامی مقرر ہوئے۔
قادیان پر ہونے والے مظالم کو چھپانا ممکن نہیں رہا تھا۔ حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب اقوامِ متحدہ میں موجود تھے اس داستان کی بازگشت وہاں بھی سنائی دی۔برطانیہ کے بہت سے اخبارات نے قادیان پر ہونے والے مظالم شائع کئے۔تنزانیہ کی جماعت کی طرف سے بھی ہندوستان کی حکومت کو لکھا گیا کہ وہ ان مظالم کو بند کرائے، بلجین کونگو سے بھی تاریں دی گئیں۔ برما، ارجنٹائن اور ایران کے اخباروں میں بھی ان مظالم کا چرچا ہؤا(۳۵۔۳۹)۔انہی دنوں میں Relief and Rehabilitationکے وزیر Mr.K.C.Neogyنے بھی قادیان کا دورہ کیا اورکالج میں موجود مسلمان پناہ گزینوں سے گفتگو کی۔ (۴۰)
قادیان کا معرکہ برِ صغیر کے اخبارات کی توجہ کا مرکز بھی بن رہا تھا۔ چنانچہ ہندوستان کے کثیرالاشاعت اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ایڈیٹر ایف ڈبلیو بسٹن (F.W.Buston)نے ۲۳؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو ’Qadian a Test Case‘کے عنوان سے اداریہ لکھا۔اس کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا تھا کہ اب ،دنیا کی نظروں میں،قادیان ہندوستان کی حکومت کے لئے ایک زندہ امتحان بن چکا ہے اور اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ ہندوستان کی حکومت اقلیتوں سے کیسا سلوک کرنا چاہتی ہے۔پھر قادیان میں ہونے والے مظالم کا ذکر کر کے لکھا کہ جب یہ لوگ اپنے دفاع کے لئے کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو اسے جارحیت قرار دے دیا جاتا ہے۔پھر پنڈت نہرو کے بیان پر حیرت کا اظہار کیا کہ انہوں نے قادیان میں گرفتاریوں اور اہلِ قادیان کو ہراساں کرنے کی تردید کی ہے جب کہ آزاد مبصرین ان باتوں کی تصدیق کر چکے ہیں۔پھر وزیرِ اعظم ہندوستان سے اپیل کی کہ اب تردیدی بیان جاری کرنے کی بجائے اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ مثبت اقدامات اٹھائیں۔تا کہ دنیا کو پتہ چلے کہ ہندوستان کے ترجمان کے بیانات محض الفاظ نہیں ہوتے۔
اگرچہ اُس وقت پورا برِ صغیران حالات سے گذر رہا تھا مگر احمدیوں نے جس بہادری سے اپنے مقدس مقامات کی حفاظت کی ،برطانیہ کے اخبارات بھی اس کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔ڈیلی گرافک (Daily Graphic) کے نمائیندے Jossleyn Hennessyنے فساد زدہ پنجاب کا دورہ کیا اور اپنے اخبار کو قادیان کے متعلق رپورٹ بھجوائی جو اس سرخی کے ساتھ شائع ہوئی
‏Moslems Trapped in Mosque Choose Death
مسجد میں محصور مسلمانوں نے اپنے لئے موت کا انتخاب کر لیا۔
اس رپورٹ میں اس صحافی نے لکھاــ"۳۵۰۰ کے قریب گمشدہ احمدی مسلمان قادیان کے مقدس شہر میں محصور ہیں۔قادیان امرتسر کے شمال مشرق میں ۳۵ میل کے فاصلے پر ہے۔احمدیوں کا فرقہ Quakersکی طرح عدم تشدد کا قائل ہے۔ان کی مسجد کے ارد گرد کا علاقہ ان سے بھرا ہؤا ہے۔اور انہوں نے اس بات کا تہیہ کیا ہؤا ہے کہ یہ لوگ بغیر جنگ کئے مر جائیں گے مگراپنے نبی کے مزار کو نہیں چھوڑیں گے ۔
انہوں نے سکھوں کے محاصرے کے امکان کو پہلے ہی بھانپ لیا تھا اورایک سال کے لئے خواراک کا ذخیرہ کر لیا تھا۔۔۔۔
جب میں اُس طرف سڑک پر گاڑی میں جا رہا تھا تو لاشوں کی بد بو میری ناک میں بسی ہوئی تھی۔ایک ہفتے سے اس قصبے پر سکھ حملہ کر رہے ہیں۔اور ارد گرد صرف سکھ ہی آزادانہ طور پر گھومتے نظر آتے ہیں۔اس شہر کی ۸۸ فیصد آبادی مسلمان تھی مگر اب سکھوں نے زیادہ تر گھروں پر قبضہ کر لیا ہے۔)"۴۱)
ان حالات میں جب کہ فوج اور پولیس نے بلوائیوں کے ساتھ مل کر قادیان میں مظالم کی انتہا کر دی تھی ۔خود وزیرِ اعظم ہندوستان کے نمائیندہ نے بھی حالات ملاحظہ کر لئے تھے اور پوری دنیا کو اس کی خبر ہو چکی تھی۔بہت سے احمدیوں نے جب ۲۴ اکتوبر کا اخبار دیکھا تو یہ خبر پڑھ کر حیران رہ گئے
قادیان کے مسلمانوں کی حفاظت
پنڈت نہرو کا برقیہ
معلوم ہؤا ہے کہ پنڈت نہرو نے وزیرِ اعظم پاکستان کو ایک تار کے ذریعہ مطلع کیا ہے کہ یہ خبر بالکل غلط ہے کہ قادیان کے مسلمانوں کو گرفتار کر کے ان پر ظلم و ستم کیا جا رہا ہے ۔ پنڈت نہرو نے لکھا ہے کہ قادیان کے احمدیوں کی پوری حفاظت کی جا رہی ہے۔اور اس کے لئے ایک مجسٹریٹ مقرر کر دیا گیا ہے۔(۴۲)
اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔

حالات بدلنا شروع ہوتے ہیں:
اب حکومتی اداروں کو بھی احساس ہوتا جا رہا تھا کہ قادیان پر ہاتھ ڈال کر وہ خود بدنام ہو رہے ہیں۔اکتوبر کے شروع میں گاندھی جی ،وزیرِ اعظم پنڈت نہرو اور وزیرِ داخلہ ولبھ بھائی پٹیل کو قادیان کے حالات کے متعلق رپورٹیں بھجوائی گئی تھیں مگر ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہؤا تھا۔حضورؓ نے گاندھی جی سے اپیل کی کہ دہلی میں فسادات رکوانے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں ۔لیکن دہلی تو سب کی نظروں میں ہے اس لئے اگر وہ مشرقی پنجاب آکراپنا اثرو رسوخ استعمال کر کے فسادات رکوانے کی کوشش کریں تو زیادہ بہتر ہو گا۔اس کے جواب میں گاندھی جی نے لکھا کہ جو کام میں پنجاب میں کر سکتا ہوں وہی یہاں کر رہا ہوں۔اگر کر سکا تب ہی آگے بڑھنے کی بات ہو گی۔
اب قادیان کے حالات کا نوٹس لینا ضروری ہو گیا تھا۔۲۱ اکتوبر کو مردولا سارا بھائی (Mirdula Sarahbhai)جو پنڈت نہرو کی نمائیندہ کی حیثیت سے پناہ گزینوں اور نقلِ مکانی کرنے والوں کے لئے کام کر رہی تھیں،کرشنا مورتی کے ہمراہ قادیان آئیں۔اور حالات کا جائزہ لیا۔پھر ۲۳ اکتوبر کو جنرل تھمایا ایک بار پھر قادیان آئے۔اس مرتبہ ان کے ہمراہ بنگال کے مشہور مسلم لیگی لیڈر حسین شہید سہر وردی ( جو بعد میں پاکستان کے وزیرِ اعظم بھی بنے ) اور گاندھی جی کے نمائیندے ڈاکٹر ڈنشا مہتا بھی تھے۔انہوں نے ایک بار پھر قادیان میں ہونے والے مظالم کا جائزہ لیا۔آخر میں جنرل تھمایا نے ہنس کر کہا میں تو اب Fed upہو چکا ہوں اور قادیان کے معاملے میں تو اب گھبرا گیا ہوں۔I want to wash my hands off Qadian(میں قادیان کے معاملے سے اپنے ہاتھ دھونا چاہتا ہوں)۔حسین شہید سہروردی صاحب نے ہنس کر کہاNo they wont let you, They will Cling to you(نہیں یہ تمہیں ایسا نہیں کرنے دیں گے،یہ تم سے چمٹے رہیں گے)۔اس وفد نے وعدہ کیا کہ سارے حقائق وزیرِ اعظم کو بتائے جائیں گے اور تجویز کیا کہ قادیان میں ڈھائی تین سو آدمیوں کو رہنے دیا جائے ان کی حفاظت کا انتظام کر دیا جائے گا۔اس کے بعد مقامی حکام کا یہی اصرار رہا کہ مقاماتِ مقدسہ کی حفاظت کے لئے یہاں تین سو کے قریب احمدی رہ جائیں اور باقی پاکستان منتقل ہو جائیں۔
بڑے حملے کی ناکامی کے بعد بلوائیوں کواس طرح کی جسارت تو نہیں ہوئی۔البتہ اکتوبر کے شروع میں مظالم کا سلسلہ حسبِ سابق جاری رہا۔جو احمدی کرفیو ختم ہونے کے بعد اپنے گھروں کی حالت دیکھنے جا رہے ہوتے ۔قانون نافذ کرنے والے ادارے ان پر گولیاں چلانا شروع کر دیتے۔اور چن کر احمدیوں کو نشانہ بنایا جاتا،تاکہ کوئی مزاحمت کرنے والا نہ رہے۔سات سے زائد احمدیوں کو اس طرح شہید کر دیا گیا۔دوکانیں لوٹی گئیں ،احمدیوں سے بیگار لیا گیا،اسکول اور نور ہسپتال پر جبراََ قبضہ کر لیا گیا۔جماعت کی لائیبریری سر بمہر کر دی گئی اور بعض مساجد کے مینار منہدم کر دئے گئے۔۱۰ اکتوبر کو مسلمان ملٹری بھی قادیان پہنچ گئی اور کشمیر کی جنگ کی وجہ سے قادیان کے قریب متعین ملٹری کی بھاری اکثریت بھی وہاں سے منتقل ہو گئی۔اس کے بعد بلوائیوں کوپہلے کی طرح کا حوصلہ نہیں ہؤا۔اور جانے والے قافلوں کی تلاشی کا ظالمانہ سلسلہ بھی بند ہو گیا۔
(۲۶،۲۷،۳۱،۳۵ تا ۳۹،۴۳)
جماعتِ احمدیہ کا مؤقف یہی تھا کہ قادیان کی تمام احمدی آبادی کو وہیں پر رہنا چاہئیے لیکن حکومتی افسران کا کہنا تھا کہ تین سو کے قریب احمدی مقاماتِ مقدسہ کی حفاظت کے لئے وہاں پر ٹھہرے رہیں اور باقی نقلِ مکانی کر کے پاکستان چلے جائیں۔چنانچہ جماعت کے تین سو کے قریب مرد وہاں پر حفاظت کے فرائض سر انجام دینے کے لئے موجود رہے اور باقی قافلوں کی صورت میں پاکستان منتقل ہو گئے۔حفاظتِ مرکز کی ڈیوٹی بدلتی رہتی تھی۔نومبر اور دسمبر میں بھی مقامی افسران کی طرف سے ہراساں کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں۔مگر اب بلوائیوں کے زور میں کمی آتی چلی جا رہی تھی۔اور اکثر ا حمدی آبادی کو ویسے ہی پاکستان بھجوا دیا گیا تھا۔اس سلسلے میں آخری قافلہ ۱۶ نومبر ۱۹۴۷ء کو قادیان سے روانہ ہؤا۔اس قافلے میں مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس اور حضرت صاحبزادہ مرزاناصراحمد صاحب بھی شامل تھے۔اس قافلے کی روانگی کے وقت جو ضبط کر سکتے تھے وہ ضبط کر رہے تھے ،مگر ان کی سرخ آنکھیں ان کے راز کو فاش کر رہی تھیں۔جن کو ضبط کی طاقت نہ تھی وہ اس طرح بلک بلک کر روتے تھے جس طرح کوئی بچہ اپنی ماں سے جدا ہوتے وقت روتا ہے۔رخصت ہوتے وقت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے نہایت درد بھرے الفاظ میں کہا ’اے قادیان کی مقدس سرزمین!تو ہمیں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ پیاری ہے۔لیکن حالات کے تقاضہ سے ہم یہاں سے نکلنے پر مجبور ہیں۔اس لئے ہم تجھ پر سلامتی بھیجتے ہوئے رخصت ہوتے ہیں۔‘اس کے بعد اس کرب و الحاح سے دعا مانگی گئی ۔دعا کے شروع ہوتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر پڑھا
یا الٰہی فضل کر اسلام پر اور خود بچا
اس شکستہ ناؤ کے بندوں کی اب سن لے پکار
یہ شعر سننا تھا کہ دعا میں ایک خاص رقت اور سوز پیدا ہو گیا ۔شدتِ گریہ سے کئی افراد کی چیخیں نکل رہی تھیں۔ وہاں پر موجود غیر احمدی اور غیر مسلم ملٹری کے لوگ حیرت زدہ تھے کہ چار ماہ موت کے منہ میں رہنے کے بعد بھی رخصت ہوتے ہوئے ان کی یہ حالت ہو رہی ہے۔ پر سوز لمبی دعا کے بعد قافلہ روانہ ہؤا اور درویشانِ قادیان مخالفین کی قہر آلود نظروں میں اپنے علاقے کی طرف روانہ ہوئے۔(۴۴،۱۰،۲۸،۴۵،۴۱،۴۲،۲۹)
قادیان میں دورِ درویشی کا آغاز
یہاں سے قادیان کے دورِ درویشی کا آغاز ہوتا ہے۔جو خوش نصیب قادیان میں رہ گئے ،ان کے اندر ایک عظیم روحانی تغیر پیدا ہونا شروع ہؤا۔ان کے ایام خدمتِ دین ،نمازوں، نوافل ، تلاوت اور ذکرِ الٰہی سے معمور تھے۔رات کو روزانہ مغرب سے فجر تک کرفیو رہتا تھا اور یہ سلسلہ مارچ ۱۹۴۸ئ؁ئتک جاری رہا۔ان یام میں نمازِ فجر اور عشاء بارہ مقامات پر ہوتی تھی ۔اور ان سب مقامات پر اذان بھی ہوتی تھی تاکہ معلوم ہوتا رہے کہ خیریت ہے۔احمدیوں کے قبضے میں باقی علاقے کو چھ حصوں میں تقسیم کر کے جو مکانات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے ،ان کی دیواروں میں سوراخ کر دیئے گئے تھے تا کہ اگر رات کو کسی مقام پر نا خوشگوار واقعہ ہو تو وہاں پر گلیوں اور بازاروں سے گذرے بغیر مدد پہنچائی جاسکے ۔مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے اور قادیان میں موجود درویشوں کی بنیادی ضروریات مہیا کرنے کے لئے فوری طور پر کچھ کام شروع کئے گئے۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کے تحت قادیان کے ارد گرد ایک کچی دیوار بنائی گئی۔ جو گلیاں کھلی تھیں،انہیں اس دیوار کے ذریعہ بند کیا گیا۔یہ دیوار دو فٹ چوڑی اور آٹھ فٹ لمبی تھی۔موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر ،بہشتی مقبرہ کے ارد گرد دیوار بنانا اب نا گزیر ہو گیا تھا۔اس لئے درویشوں کی اکثریت اس کام پر جُت گئی۔سورج کی روشنی ظاہر ہونے سے لے کر غروبِ آفتاب تک یہ کام جاری رہتا تھا۔خاص طور پر جنوبی دیوار کو بہت مضبوط رکھا گیا۔جنوب مغربی اور جنوب مشرقی کونوں پر حفاظتی عملہ کے قیام کے لئے دو منزلہ کمرے بھی بنائے گئے۔اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار اور قریب کی قبروں کے ارد گرد جو چار دیواری پہلے سے موجود تھی اس کے شمال مشرقی کونہ پر بھی دو منزلہ حفاظتی کمرے تعمیر کیے گئے۔
جو مکانات جماعت کے قبضہ میں تھے اس کے سامان کو مستقبل کی ضروریات کے لئے محفوظ کرنے کا اہم کام فوری توجہ کا تقاضہ کرتا تھا۔اس سامان میں کھانے پینے کی اشیاء مثلاََ آٹا ،چاول، گھی، اور تیل وغیرہ بھی شامل تھے۔جلسہ سالانہ کے لئے ذخیرہ کی گئی گندم کی پانچ ہزار بوری بھی موجود تھی اور مختلف گھروں سے ایک ہزار بوری بھی جمع کی گئی۔گندم کے ذخیرے کو دوائی ڈال کر محفوظ کیا گیا ۔ گندم اور دیگر اشیائِ خورد و نوش مرزا گل محمد صاحب کے مکان میں جمع کی گئیں ۔جو مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ کے درمیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکانات کے بالکل قریب تھا۔ادویات وغیرہ مرزا رشید احمد صاحب کے مکان میں سٹور کی گئیں۔اور گھروں کا دیگر سامان فہرستیں بنا کر مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ میں جمع کر دیا گیا۔بارشوں کی کثرت اور دیکھ بھال کی کمی کے باعث بعض مکانات گر گئے تھے اور جن کی حفاظت نہیں کی جا سکتی تھی وہ مکانات از خود گرا دئے گئے اورتعمیر کا جو سامان کار آمد ہو سکتا تھا اسے مستقبل کے لئے محفوظ کر لیا گیا۔اس کام پر بھی جو عملہ مقرر تھا اُس نے یہ مشکل کام دو ماہ کے اندر مکمل کر دیا۔
ایک طرف درویش ان کاموں میں مصروف تھے اور دوسری طرف مخالفین اپنے طور پر ان کوششوں میں لگے ہوئے تھے کہ یہ چند لوگ بھی یہاں سے بھاگ جائیں۔جب ۱۶ نومبر کو آ خری کنوائے بھی روانہ ہو گیا تو ان کی سرگرمیوں میں تیزی آ گئی۔جو ہندو اور سکھ پاکستان سے نقلِ مکانی کر کے یہاں آ ئے تھے انہیں احمدیوں کے خلاف بھڑکایا گیا کہ وہ بھی احمدیوں کے خلاف حملے کرنے میں اُن کا ساتھ دیں۔اور مضافات کے لوگوں کو بھی اس سکیم میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جب ایک رات اُن کی میٹنگ ہوئی تو ان میں سے ایک جہاندیدہ شخص نے انہیں سمجھایا کہ تشدد کا راستہ نہ اختیار کرو۔یہ چند لوگ جو یہاں ٹہرے ہیں وہ بھی تو کچھ کر گزرنے کا عزم لے کر ٹھہرے ہیں۔ایسا نہ ہو کہ تم چند سو کو مارنے کے لئے نکلو اور اپنے دو چار ہزار آدمی مروا کر تمہیں پتہ چلے غلطی کر بیٹھے ہو۔اور یہ لوگ سرکار کی اجازت سے ٹہرے ہیں۔ایسی صورت میں سرکار کا عتاب بھی تم لوگوں پر پڑے گا ۔یہ سن کر سب سوچ میں پڑ گئے ۔بالآخر یہ طے ہؤاکہ ایک تو ان لوگوں کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے۔جب ان کو ضروریاتِ زندگی نہیں ملیں گی تو خود ہی بھاگ جائیں گے۔دوسرے حکومت کے پاس ان کی شکایتیں کی جائیں کہ ان لوگوں نے بہت سا اسلحہ چھپا رکھا ہے۔چنانچہ قادیان کے سب باشندوں نے مظلوم درویشوں کا بائیکاٹ کر دیا۔اور یہ افواہیں بھی پھیلائی گئیں کہ ننکانہ صاحب میں مقیم سارے سکھوں کوموت کی گھاٹ اُتار دیا گیا تا کہ قادیان میں آباد سکھوں میں احمدیوں کے خلاف اشتعال پھیلے۔کوئی دوکاندار کھانے پینے کی اشیاء درویشوں کے ہاتھ فروخت نہیں کرتا تھا ۔حتیّٰ کہ خاکروب بھی صفائی کے لئے نہیں آتے تھے۔نہ ہی چکیاں آٹا پیس کر دیتی تھیں۔پسا ہؤا آٹا چند روز میںختم ہو گیا۔پھر وہی گندم ابال کر کھانے کا نسخہ کام آیا ۔بس فرق یہ تھا کہ اس مرتبہ اس میں ڈالنے کے لئے نمک مرچ میسر تھا۔چار پانچ بھینسیں احمدیوں کی چھوڑی ہوئی موجود تھیں ۔ان کا دودھ پینے کے کام آتا تھا۔قادیان میں احمدیوں کے خلاف اس قدر تعصب پھیلایا گیا تھا کہ ایک مرتبہ صوبائی وزیر سردار ایشر سنگھ قادیان آ ئے اور اُنہوں نے سکھوں اور ہندؤں کے مجمع سے خطاب کیا۔اس موقع پر ایک مقرر نے کہا کہ ہندوستان کے ساڑھے چار کروڑ مسلمانوں کا تو ہم بندوبست کر لیں گے آپ مہربانی کر کے ان تین سو تیرہ سے ہمیں نجات دلا دیں۔
ایک طرف تو بائیکاٹ سے درویشوں کے لئے مسائل پیدا کئے جا رہے تھے اور دوسری طرف حکومت کے پاس مسلسل احمدیوں کے خلاف شکایتیں کی جا رہی تھیں۔پہلے گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر اور قادیان کے مجسٹریٹ کے پاس شکایت کی کہ ان لوگوں کے پاس اسلحہ ہے اس لئے ہمیں ان سے شدید خطرہ ہے۔ان الزامات کی بازگشت دہلی تک سنائی دی۔آخر مرکزی حکومت نے اپنے ایک مرکزی وزیر گیانی کرتار سنگھ صاحب کو تحقیقات کے لئے قادیان بھجوایا۔وہ ایک وفد کے ساتھ قادیان آئے شہر والوں سے بھی ملے اور جماعت کے افسران سے بھی ملاقات کی۔اور بعض مقامات مثلاََ مسجد اقصیٰ کے سٹور بھی دیکھے۔پھر شہر والوں کو کہا کہ آپ لوگ خواہ مخواہ شور کرتے ہیں۔آپ کی شکایت میں کوئی وزن نہیں ہے ۔بھلا ان چند افراد سے بھارت جیسے بڑے ملک کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔اگر ان کے پاس ایک ایک توپ بھی ہو تو بھی یہ لوگ بھارت کی لاکھوں کی فوج کے لئے کوئی خطرہ نہیں بن سکتے۔گیانی کرتار سنگھ صاحب نے یہ شرافت بھی دکھائی کہ احمدیوں کے حالات سن کر انہیں ایک آٹا پیسنے والی چکی بھی الاٹ کر دی۔اس طرح آٹے کا مسئلہ تو حل ہؤا۔جلد ہی بائیکاٹ کی مہم بھی بعض شریف ہندؤںکی مداخلت کی وجہ سے دم توڑ گئی۔نور ہسپتال تو جماعت کے ہاتھوںسے نکل چکا تھا ۔کسمپرسی کے حال میں ایک احمدیہ شفا خانہ قادیان میں کام کر رہا تھا ۔جس میں پہلے ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب اور ان کے پاکستان جانے کے بعد مکرم ڈاکٹر کیپٹن بشیر احمد صاحب کام کرتے رہے۔(۲۹)
تقسیمِ ملک کے بعد پہلا جلسہ سالانہ
اس پس منظر میں،دسمبر کے آخرمیں جلسہ سالانہ کے ایام آگئے۔جب حضرت مسیح موعود ؑ نے جلسہ سالانہ کا آغاز فرمایا توجلسہ مسجد اقصیٰ میں منعقد ہوتا تھا ۔پھر جب آنے والوں کی تعداد بڑھتی گئی تو جلسہ باہر منتقل کرنا پڑا۔ہجرت سے معاََ پہلے جلسے دارالعلوم میں منعقد ہو رہے تھے۔اس جلسے کے موقع پر نہ صرف قادیان بلکہ مشرقی پنجاب کی اکثر جماعتیں پاکستان ہجرت کر چکی تھیں۔اور اتنے خراب حالات میں ہندوستان کی باقی جماعتوں کے لئے جلسے کے لئے قادیان آنا ممکن نہیں تھا۔اب ایک بار پھر یہ جلسہ مسجد قصیٰ میں منعقد کیا جا رہا تھا۔اور اس میں صرف ۳۱۵ نفوس شامل تھے۔ان میں ۲۵۳ درویش اور ۶۲ ہندو اور سکھ مہمانوں کے علاوہ سات خواتین اور ایک بچی نے اس جلسہ میں شرکت کی ۔اس کے آغاز پر حضورؓ کا پیغام امیر مقامی حضرت مولوی عبد الرحمن جٹ صاحبؓ نے پڑھ کر سنایا۔اس میں حضور نے درویشانِ قادیان کو ارشاد فرمایا
’جو لوگ اس وقت ہمارے مکانوں اور ہماری جائداد پر قابض ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کا قبضہ قبضہء مخالفانہ ہے۔لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ وہ لوگ مجبور اور معذور ہیں۔وہ لوگ بھی اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیںاور ان کی جائدادوں سے انہیں بیدخل کیا گیا ہے۔۔۔آپ لوگ بھی انہیں اپنا مہمان سمجھیں۔ان سے بھی اور تمام ان شریف لوگوں سے بھی جنھوں نے ان فتنہ کے ایام میں شرافت کا معاملہ کیا ہے محبت اور درگذر کا سلوک کریں اور جو شریر ہیں اور انہوں نے ہمارے احسانوں کو بھلا کر ان فتنے کے ایام میں ڈاکوؤں اور چوروں کا ساتھ دیا ہے ۔آپ لوگ ان کے افعال سے بھی چشم پوشی کریں کیونکہ سزا دینا یاخدا تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے یا حکومت کے سپرد کیا ہے۔۔‘
حضورؓ نے صبر کی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ جس حکومت میں رہو اس کے فرمانبردار بن کر رہو۔اپنی آنکھیں نیچی رکھو مگر نگاہ آسمان کی طرف بلند کرو۔اس جلسہ کے افتتاح پرناظرِ اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ قادیان مکرم صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب ابن حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ نے جان نثار درویشوں کے ہمراہ دعا کرائی اور اس کے اختتام پر مکرم صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب ابن حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے امیر صاحب مقامی کے ارشاد پر دعا کرائی۔(۴۶)
قادیان میں محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی خدمات کا آغاز:
قادیان میں ٹھہرنے والوں کے لئے ابتدائی طور پر یہ سکیم تھی کہ ہر دو مہینہ کے بعد تبادلہ ہؤا کرے گا اور پرانے رضاکاروں کی جگہ لینے کے لئے نئے رضاکار بھجوائے جائیں گے۔مئی ۱۹۴۸ء تک تین مرتبہ اس کے لئے کوششیں کی گئیں۔لیکن ہر مرتبہ دس پندرہ سے زیادہ لوگوں کا تبادلہ نہ ہو سکا۔ کیونکہ اب دونوں حکومتیں مستحکم ہو رہی تھیں،اس لئے عارضی بنیادوں پر آنے والے افرادکو ہندوستان کے مستقل شہریوں کا درجہ نہیں مل سکتا تھا۔حضرت مصلح موعود ؓ کا فیصلہ تھا کہ خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک نہ ایک فرد اور خود حضور کے بیٹوں میں سے ایک قادیان میں موجود رہے گا۔ پہلے صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب ابن حضرت مصلح موعود ؓ اور صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب ابن حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؓ قادیان میں مقیم رہے۔مگر جب جنوری ۴۸ ۱۹ میں یہ دونوں حضرات پاکستان واپس گئے تو کچھ عرصہ کے لئے تبادلہ میں حائل دشواریوں کی وجہ سے خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی فرد قادیان میں موجود نہیں تھا۔ایک درویش مکرم بدرالدین عامل صاحب ان دنوں کے متعلق اپنی یاداشت میں تحریر فرماتے ہیں۔
’اگلے دو ماہ مارچ کی ۱۳ تاریخ تک خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی فرد درویشانِ قادیان میں نہیں رہا۔یہ دن بھی عجیب اداسی کے دن تھے ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے بارات بغیر دولہا کے ہو ۔بڑی دعائیں کرتے ہوئے یہ وقت گزرا اور وہ روزِ سعید آیا کہ ایک بس میں حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ اور پندرہ مزید افراد درویشان میں شامل ہونے کے لئے آن پہنچے۔یہ دن بڑی خوشی کا دن تھا گویا عید آ گئی ہو۔‘(۲۹،۴۷)
اس طرح مکرم و محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے قادیان میں اپنی خدمات کا آ غاز فرمایا۔اُس وقت تک ابھی آپ زیرِ تعلیم تھے اور ابھی آپ کی شادی نہیں ہوئی تھی۔پہلے یہی فیصلہ تھا کہ آپ عارضی طور پر قادیان میں رہیں گے اور کچھ ماہ کے بعد خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی اور فرد آپ کی جگہ قادیان ڈیوٹی کے لئے آئے گا۔لیکن جب واپسی کا مقررہ وقت آیا تو تبادلہ میں بہت سی مشکلات حائل تھیں اور اس کے بعد جب واپس جانے کا موقع آیا توآپ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمرے میں ایک لمبی دعا کے بعد رضا کارانہ طور پر اپنے آپ کو مستقل طور پر قادیان میں رہنے کے لئے پیش کیا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی یہ درخواست قبول فرمالی۔آپ نے حضرت عبد الرحمن جٹ صاحب کی وفات کے بعد ایک طویل عرصہ صدر انجمن احمدیہ کے ناظرِ اعلیٰ اور قادیان کے امیر مقامی کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔افسوس کہ اس کتاب کی تالیف کے دوران آپ کا انتقال ہو گیا۔انا للہ و انا الیہ رٰجعون۔
ایک بار رسولِ کریم ﷺ سے سوال کیا گیا کہ کن لوگوں پر سب سے زیادہ آ زمائشیں آتی ہیں۔آپﷺ نے فرمایا کہ انبیاء پر ،پھر صالحین پر اور پھر ان کی طرح کے لوگوں پر۔ہر شخص کو اس کے دین کی مضبوطی کے حساب سے آ زمایا جاتا ہے۔جس کا دین مضبوط ہو اس پر زیادہ آزمائشیں آتی ہیں اور جس کے دین میں کمزوری ہو اس پر کم آ زمائشیں آتی ہیں۔اور یہ آ زمائشوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا یہاں تک کہ بندہ اس حالت میں زمین پر چلتا ہے کہ اس کی کوئی خطا باقی نہیں رہتی۔(۴۵)الہی جماعتوں پر ابتلاء اس لئے آتے ہیں تاکہ وہ ان سے سرخرو ہو کر نکلیں اور پہلے سے زیادہ رفعتوں کی طرف اپنا سفر شروع کریں۔ ۱۹۴۷ء کا ابتلاء ایسا ہی ایک مرحلہ تھا ۔اور یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ جماعت اس شان سے امتحان میں کامیاب ہوئی کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اس کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے۔اور بعد کی تاریخ گواہ ہے کہ اس ابتلاء کے بعد کسی بھی لحاظ سے جماعت کا قدم پیچھے نہیں ہٹا ،جماعت کے حوصلے پست نہیں ہوئے بلکہ ترقی کا سفر پہلے سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے جاری رہا۔
مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے قانونی کوششیں:
فسادات کے باعث اور مناسب نگہداشت نہ ہونے کے باعث قادیان کی بہت سی مساجد کو مرمت کی ضرورت تھی۔درویشانِ قادیان نے خود محنت کر کے اور وقارِ عمل کر کے ان مساجد کو صاف کیا اور ان کی مرمت کر کے ان کو اپنی اصلی حالت میں بحال کیا ۔غیر مسلموں کاایک شریر گروہ ان مساجد پر قبضہ کر کے ان مقدس مقامات کی توہین کر رہا تھا۔درویشانِ قادیان حکومتی افسران سے مل کر اس ضمن میںمسلسل قانونی کوششیں کر رہے تھے ۔مئی ۱۹۴۸ء میں ڈپٹی کمشنر گورداسپور نے یہ حکم جاری کیا کہ قادیان کی مساجد شر نارتھیوں سے خالی کرائی جائیں اور آئندہ بھی ان میں کسی کو آباد نہ کیا جائے۔مقدس عمارات کے حوالے سے اور صدر انجمن احمدیہ کی مملوکہ عمارات کے حوالے سے بہت سی مشکلات کا سامنا تھا۔دارالمسیح جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی مبارک زندگی کے ایام گزارے،جہاں پر بیت الدعا اور بیت الفکر کے مقدس مقامات موجود تھے،اسے بعض حکومتی اداروں نے متروکہ جائیداد قرار دے دیا تھا۔اس کا نتیجہ یہ ہو سکتا تھاکہ یہ مقدس مقامات نقلِ مکانی کرنے والے کسی ہندو یا سکھ کو الاٹ کر دیئے جاتے۔حالانکہ ان کی حیثیت ایک عام مقام کی نہیں تھی بلکہ ایک ایسے مقدس مقام کی تھی جن سے لاکھوں احمدی والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔چنانچہ جماعتِ احمدیہ بھارت کا ایک وفد جس میں مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب بھی شامل تھے وزیرِ اعظم بھارت پنڈت جواہر لال نہروصاحب سے ملا اور ساری حقیقت ان کے سامنے پیش کی ۔انہوں نے اظہارِہمدردی کیا اور کہا کہ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں لیکن انہیں بھی پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔اس لئے یہ انتظام کیا جا سکتا ہے کہ ان مقامات کی نیلامی نہ کی جائے ورنہ یہ خدشہ ہو سکتا تھا کہ کوئی از راہِ شرارت زیادہ بولی لگائے جو جماعت کیلئے ادا کرنا ممکن نہ ہو ۔بلکہ حساب فہمی کر کے جماعت سے ان کی قیمت وصول کر لی جائے۔جماعت کے وفد کے ایک رکن نے وزیرِ اعظم صاحب سے عرض کی کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ چند لوگ آپ سے ملنے آئے ہیں ۔ساری دنیا کے احمدیوں کی نظریں اس بات پر ہیں کہ آپ کی حکومت اس ضمن میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔وزیرِ اعظم صاحب نے بھی جواب میں اس بات کا اظہار کیا کہ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں۔چنانچہ کچھ اونچ نیچ بعد ان عمارات کی اُس وقت کی قیمت طے کی گئی اور صدر انجمن احمدیہ نے قسطیں ادا کر کے ان کے مالکانہ حقوق حاصل کر لئے ۔اسی طرح حکومتی اداروں نے صدر انجمن احمدیہ کی جائیداد کو بھی متروکہ جائیداد قرار دے دیا تھا ۔حالانکہ صدر انجمن احمدیہ بدستور قادیان میں قائم تھی اور اس نے ایک روز کے لئے بھی کام بند نہیں کیا تھا۔چنانچہ صدر انجمن احمدیہ نے ایک طویل جد و جہد کا آغاز کیا کہ یہ جائیداد متروکہ جائیداد نہیں ہے اور ان کی مالک تنظیم قادیان میں کام کر رہی ہے ۔کئی سال کی کاوشوں کے بعد حکومت نے یہ موقف تسلیم کرلیاکہ صدر انجمن احمدیہ تارکین وطن میں شامل نہیںہے اور وہ اپنی جائیداد پر قبضہ کا حق رکھتی ہے۔(۴۸)
قادیان کے گھر آباد ہوتے ہیں:
تقسیمِ ملک کے بعد شروع کے تین سال قادیان میں صرف مرد آباد تھے۔سارے ماحول میں بچے کے رونے کی آواز تک سنائی نہیں دیتی تھی۔درویشانِ قادیان میں سے جو شادی شدہ تھے ان کے اہلِ و عیال پاکستان تھے۔جو غیر شادی شدہ تھے اُن کی شادی کا سوال پیدا ہونا تو ایک طرف رہا شروع شروع میں ان کے لئے بازار جانا بھی ایک ایسا مرحلہ تھا جس کے لئے حفاظتی نقطہ نگاہ سے یہ طریقہ کار مقرر تھا کہ چار پانچ درویش مل کر بازار جاتے تھے اور جانے سے پہلے ایک دفتر میں اپنے ناموں کا اندراج کراتے تا کہ اگر کوئی نا خوشگوار واقعہ ہو جائے تو باقیوں کو ڈھونڈنے میں آسانی رہے ۔جب ماحول بہتر ہونے لگا تو یہی مناسب معلوم ہوتا تھا کہ کچھ گھرانے بھی قادیان آ باد ہوں تا کہ زندگی کسی قدر معمول پر آئے۔چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک فرمائی کہ بھارت کے کچھ گھرانے قادیان میں آباد ہوں۔۱۹۵۰ء کے نصف آخر میںامروہہ ،شاہجہانپور اور ضلع بریلی سے کچھ گھرانے ہجرت کر کے قادیان میں آباد ہوئے۔اور ان کی گہما گہمی محلہ احمدیہ کے کوچوں میں نظر آنے لگی۔ان خاندانوں کی چند نوجوان لڑکیوں سے غیر شادی شدہ درویشوں کے رشتے طے ہوئے اور ان کی شادی کی تقریب نہایت سادگی سے قادیان میں منائی گئی۔لنگرخانہ سے جو کھانا ملتا وہی سب مل کر کھا لیتے ،ایک میٹھا اس تقریب کی وجہ سے زائد پکا لیا جاتا ۔بس اس طرح دعوتِ ولیمہ ہو جاتی۔حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ کی طرف سے یہ ارشاد بھی موصول ہؤا کہ غیر شادی شدہ درویش ہندوستان میں شادی کریں۔ان درویشوں کے ساتھ تو ان کے بزرگ بھی نہیں تھے۔آخر سلسلہ جنبانی شروع ہو تو کس طرح۔آخر ایک بزرگ حضور ؓ کے خط کی مصدقہ نقل لے کر نکلے اور پنجاب سے نکل کر قریب کی جماعتوں میں گئے اور وہاں حضور کا خط دکھا کر تحریک کی یہ گھرانے اپنی بیٹیوں کے رشتے درویشوں میں کریں۔یہ درویش تو محض مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے دھونی رما کر بیٹھے ہوئے تھے۔نہ کوئی ذریعہ آمد ،نہ کوئی جائیداد،نہ اس بات کا کوئی امکان کہ یہ دنیا میں نکل کر اپنی حالت بہتر کریں گے۔اس پر مستزاد یہ کہ ہر وقت خطرات میں گھری ہوئی زندگی گزار رہے تھے۔اس کے باوجود بہت سے احمدی گھرانوں نے اپنی بچیوں کے رشتے قادیان کے درویشوں سے کر دیئے۔اور اس طریق پر بہت سے درویشوں کے گھر آباد ہوئے۔اس کے علاوہ کچھ درویشوں کے اہل و عیال پاکستان سے ہجرت کر کے ہندوستان میں آباد ہو گئے۔اب رفتہ رفتہ قادیان کی رونقیں کسی حد تک بحال ہو رہی تھیں۔
قادیان میں ۱۹۴۹ء کا جلسہ سالانہ:
ان حالات کے ذکر کے بعد ہم ۱۹۴۹ء کے آخر کی طرف واپس آتے ہیں۔ وقت آہستہ آہستہ گذر رہا تھا۔دسمبر میں ۱۹۴۹ء کے جلسہ سالانہ کے دن آ گئے۔اس جلسے میںساڑھے تین سو کے قریب درویشوں کے علاوہ پاکستان سے آئے ۹۷ افراد نے بھی شرکت کی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے اپنے پیغام میں ہندوستان کی جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ کے دل بے شک اس صدمہ سے چور ہوں گے کہ ایک بڑی جماعت کٹ کر ٹکڑے ہو گئی ہے۔اور آپ ہندوستان جیسے وسیع ملک میں تھوڑے سے رہ گئے ہیں لیکن آپ کی تعداد ان لوگوں سے زیادہ ہے جو حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانے میں ابتدائی جلسوں میں شریک ہوئے تھے۔لیکن ان شروع کے سالوں میں قادیان میں جمع ہونے والے لوگ ہر سال اس یقین سے معمور ہوتے چلے جاتے تھے کہ ہم دنیا پر غالب آنے والے ہیں ۔آپ کی مالی حیثیت بھی ان سے زیادہ ہے ۔آپ کی دنیاوی تعلیم بھی ان سے زیادہ ہے ۔صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ آپ لوگ ان لوگوں جیسا ایمان پیدا کریں۔حضور ؓ نے فرمایا
’کیا یہ سچ نہیں کہ ہمارا خدا سب دنیاکو پیدا کرنے والا خدا ہے۔کیا یہ سچ نہیں کہ دنیا کا ذرّہ ذرّہ اس کا مملوک اور غلام ہے ۔کیا یہ سچ نہیں کہ دنیا کی تمام بادشاہتیں اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتیں جتنا ایک مچھر ایک ہاتھی کے مقابلہ میں حیثیت رکھتا ہے۔پھر آپ کے حوصلوں کو پست کرنے والی کیا چیز ہے ؟صرف ارادے کی کمی ہے ورنہ نشانوں کی کوئی کمی آپ کے پاس نہیں ہے ۔آج آپ لوگ یہ عہد کرلیں کہ ہم احمدیت کو نئے سرے سے پھر ہندوستان میں قائم کریں گے ۔اس کے گوشے گوشے میں احمدیت کا پیغام پہنچا دیں گے ۔اس کے خاندان خاندان سے احمدیت کے سپاہی نکال کر لائیں گے۔ اس کی قوم قوم کو احمدیت کا غلام بنا کر چھوڑیں گے اور یہ کام مشکل نہیں ہے ۔حق ہمیشہ غالب ہوتا ہے اور ناراستی ہمیشہ مغلوب ہوتی ہے۔‘
اُس دور میں جب قادیان کے گرد کئی سو میل تک کوئی جماعت نہیں تھی۔احمدی بڑی تعداد میں ہجرت کر کے پاکستان جا چکے تھے۔دور دور کی جماعتوں کے لئے قادیان آنا جانا تو ایک طرف رہا رابطہ رکھنا بھی مشکل تھا ۔یہ بات نا ممکن نظر آرہی تھی کہ ایک مرتبہ پھر ہندوستان کی جماعت ایک نئی شان سے اُٹھے گی ۔ہم اپنے وقت پر جائزہ لیں گے کہ وقت آنے پر یہ انہونی ہو کر رہی ۔اور دنیا نے خدا تعالیٰ کے فضلوں سے یہ نظارہ دیکھا کہ حضور کی خواہش کے مطابق ہندوستان کی مختلف اقوام سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ احمدیت کی آغوش میں پناہ لیتے چلے گئے ۔اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کا یہ سفر جاری ہے۔
ہندوستان میں الفضل پر پابندی اور دونوں ممالک کے لئے حضورؓ کا پیغام:
نومبر ۱۹۴۷ء میں ہندوستان کے کئی صوبوں میں الفضل کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔آخر میں یہ صورتِ حال ہو گئی کہ سوائے دارالحکومت دہلی باقی کے باقی سارے ہندوستان میں الفضل کے داخلے پر پابندی لگ گئی۔جب ہندوستان کی مرکزی حکومت سے اس بارے میں احتجاج کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ مرکزی حکومت نے الفضل کے خلاف کوئی قدم نہیں اُ ٹھایا ،جہاں تک صوبائی حکومتوں کا تعلق ہے تو وہ ان معاملات میں خود مختار ہیں۔جب ہندوستان کے صوبوں نے یہ پابندی لگانی شروع کی تو جماعت نے یہ فیصلہ کیا کہ الفضل میں کسی سیاسی موضوع پر مضمون شائع نہ کیا جائے ۔لیکن اس کے با وجود دوسرے صوبوں میں بھی الفضل پر پابندیاں لگتی رہیں۔چنانچہ جماعت نے الرحمت کے نام سے ایک اور اخبار جاری کیا جائے تا کہ ہندوستان میں رہنے والی جماعتوں کی تربیت اور تنظیم میں کوئی روک نہ پیدا ہو ۔اس کے پہلے شمارے میں حضورؓ کا پیغام شائع ہؤا۔اس پیغام میں حضور ؓ نے تحریر فرمایا
’ہمیںنہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کئی ہندوستانیوں نے مسٹر گاندھی کے ان اعلانات کو بھلا دیا ہے کہ ہر ہندو اور سکھ اور غیر مسلم کو جوپاکستان میں رہتا ہے پاکستان کا مخلص اور وفادار شہری ہو کر رہنا چاہئیے اور کئی مسلمانوں نے قائدِ اعظم کے ان اعلانات کو بھلا دیا ہے کہ ہر مسلمان کو جو ہندوستان میں رہتا ہے ہندوستانی حکومت کا مخلص اور وفادار شہری ہو کر رہنا چاہئیے ۔ان لیڈروں کے منشا کے خلاف کچھ لوگ ایسے پیدا ہو گئے ہیںجو یہ سمجھتے ہیں کہ کسی غیر مسلم کو پاکستان میں رہنا ہی نہیں چاہئیے یا یہ کہ کسی مسلمان کو ہندوستان میں رہنا ہی نہیں چاہئیے ۔۔۔۔۔اگر گاندھی جی اور قائدِ اعظم کے بیانات نہ بھی ہوتے تب بھی یہ جذبہ اور روح نہایت افسوسناک اور مذہب اور اخلاق کے خلاف تھی۔مگر ان دو زبردست ہستیوں کے اعلانات کے خلاف اس قسم کے جذبہ کا پیدا ہونا نہایت ہی تعجب انگیز اور افسوسناک ہے ۔ہندوستان کی موجودہ دو علاقوں میں تقسیم بعض مصلحتوں کے ماتحت ہوئی تھی۔ان مصلحتوں کو زیادہ کھینچ تان کر اس مسئلہ کو کوئی اور شکل دینا کسی صورت مین جائز نہیں ہو سکتا۔جب تقسیم اٹل ہو گئی تھی تو میں نے اُس وقت یہ اعلان کیا تھاکہ اگر یہ تقسیم ہونی ہی ہے تو پھر کوشش کرنی چاہئیے کہ پاکستان اور ہندوستان کا دفاع ایک ہو ۔ہر پاکستانی کو ہندوستانی شہریت کے حقوق حاصل ہوں اور ہر ہندوستانی کو پاکستانی شہریت کے حقوق حاصل ہوں۔دونوں ملکوں کے باشندوں کو ایک دوسرے کے ملک میں بغیرپاسپورٹ کے آنے جانے کی اجازت ہو۔تجارت پر کسی قسم کی کوئی پابندیاں نہ ہوں۔لیکن افسوس اُس وقت میری آواز صدا بصحراء ثابت ہوئی ۔اور شایدآج بھی یہ آواز صدا بصحراء ثابت ہوگی۔اگر میری بات کو مان لیا جاتا تو وہ خون ریزی جو مشرقی پنجاب اور کشمیر میں ہوئی ہے ہر گز نہ ہوتی ۔ہم کلّی طور پر آزاد بھی ہوتے مگر ہماری حیثیت ان دو بھائیوں سے مختلف نہ ہوتی جو اپنے والدین کی جائیداد تقسیم کر کے اپنے چولہے الگ کر لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔
میں چاہتا تھا کہ اس غلط روح کو کچل دیا جائے اور بھائیوں بھائیوں کی طرح مسلمان اور ہندو اپنی آبائی جائیداد کی تقسیم کا فیصلہ کرلیںمگر میری اس آواز کو اُس وقت نہ سنا گیا۔میری اس آواز کو بعد میں بھی نہ سنا گیا۔پاکستان کے ایک متعصب عنصر نے میرے ان خیالات کی وجہ سے مجھے پاکستان کا ففتھ کالمسٹ قرار دیا اور انہوں نے یہ نہ سوچا کہ میں وہی کہہ رہا ہوں جس کا اعلان بار بار قائدِ اعظم نے کیا تھا۔صرف فرق یہ تھا کہ قائدِاعظم نے ایک مجمل اصل بیان کیا تھا اور میں شروع سے ان تفاصیل کو بیان کر رہا تھا جن تفاصیل کے ذریعہ سے ہی قائدِ اعظم کا بیان کردہ اصل عملی صورت اختیار کر سکتا تھا ۔ میرے ان خیالات کی وجہ سے ہندوستان کے احمدیوں کو بھی ہندوستان میں کشتنی و گردن زدنی سمجہا گیا ۔شاید کسی اور مسلمان فرقہ کو اس قدر نقصان ہندوستان میں نہیں پہنچا ۔جس قدرکہ احمدی جماعت کو پہنچا ہے اور اسکی وجہ صرف تھی کہ ان کا امام گاندھی جی کے بیان کردہ اصل کی ترجمانی کے صحیح طریق ان کے سامنے پیش کر رہا تھا۔ہم نے ایک سچائی کے لئے دونوں ملکوں میں تکلیف اُٹھائی اور شاید لوگوں کے ہاتھوں سے آئندہ بھی ہم دونوں ملکوں میں تکلیف اُٹھائیں۔لیکن ہم اس دائمی سچائی کو جو قرآنِ کریم میں بار بار بیان کی گئی ہے کبھی نہیں چھوڑ سکتے ۔‘(۴۹)
افسوس کہ وقت پر ان نصائح کی قدر نہیں کی گئی اور دونوں ممالک ایک دوسرے کی مخالفت میں بڑھتے ہی گئے۔علماء کا ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو ان خیالات کا اظہار کر رہا تھا کہ کسی دیانتدار مسلمان کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ بطور مسلمان ہندوستان میں زندگی بسر کر سکے(۵۰)۔ان لغو خیالات کی تشہیر سے قبل وہ یہ بھی نہیں سوچ رہے تھے کہ ان لغو نظریات سے ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں پر کیا بیتے گی۔یہ ایک مسلمہ بات ہے ایک خطہ کا امن و سلامتی اور ترقی اس بات سے وابستہ ہوتی ہے کہ اس خطے کے ممالک ایک دوسرے سے اچھے تعلقات رکھتے ہوں ۔اقتصادی معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہوں۔اور آزاد تجارت کے باہمی معاہدے رکھتے ہوں۔اس دور میں جب یورپین یونین،آسیان(ASEAN) اور سارک کی تنظیمیں بنا کر ان مقاصد کے حصول کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں تو اس امر کی اہمیت کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔لیکن برِ صغیر میں بہت سی دہائیاں باہمی جنگوں اسلحے کی دوڑ اور نفرتوں کی نذر ہو چکی ہیں۔اب بھی دونوں ممالک میں معمول کے تعلقات بھی قائم نہیں کئے جا سکے۔ابھی تک پاکستان اور ہندوستان بداعتمادی کی خلیج کو پاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
(۱)تاریخِ احمدیت جلد ۱۱ ص۱۵۱
(۲)مظالمِ قادیان کا خونی روزنامچہ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمدؓ ص۸
(۳)الفضل ۸ ستمبر ۱۹۴۷ء ص ۴
(۴)الفضل ۱۲ ستمبر ۱۹۴۷ء ص۳
(۵)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۴۷۔۴۸ ص۳۴۔۳۵
(۶) الفضل ۶ نومبر ۱۹۴۷ء ص۳
(۷)مظالمِ قادیان کا خونی روزنامچہ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمدؓ صاحب ص۹
(۸)زمیندار ۳ اکتوبر ۱۹۴۷ء زیرِعنوان ضلع گورداسپور کے پناہ گزیں
(۹)کاروانِ سخت جان،ناشر ادارہ رابطہ قرآن،ص۱۴۳۔۱۴۴
(۱۰) انٹرویو صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ
(۱۱)الفضل ۱۸ ستمبر ص۴
(۱۲)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ص۴۵
(۱۳)الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۴۷ء ص ۱
(۱۴)مظالمِ قادیان کا خونی روزناچہ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ص۱۰۔۱۱
‏(۱۵)The Civil and Military Gazette 17 Sept.1947 page 1
‏(۱۶)The Civil and Military Gazette 19 Sept.1947
‏(۱۷)The Civil and Military Gazette ,16 Sept.1947,page 1
‏(۱۸)The Civil and Military Gazette,18 Sept.1947 page 1
(۱۹) روزنامہ احسان۲۴ ستمبر ۱۹۴۷ء زیرِ عنوان قادیان پر حملہ و قادیان میں کرفیو
‏(۲۰) Qadian A Test Case ,by Hazat Mirza Bashir Ahmad page ,13 -24
(۲۱)الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۴۷ء
‏(۲۲)The Civil and Military Gazette,20 Sept. 1947 page 5
(۲۳)روزنامہ احسان ۲۵ ستمبر ۱۹۴۷ء
(۲۴)الفضل ۱۸ اکتوبر ۱۹۴۷ء ص۲
(۲۵)مظالمِ قادیان کا خونی روزنامچہ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد ؓ صاحب ص۱۷۔۱۹
(۲۶)غیر مطبوعہ ڈائری مکرم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب
(۲۷) تاریخِ احمدیت جلد ۱۱ ص۲۰۳۔۲۰۹
(۲۸)احسان ۲۵ اکتوبر ۱۹۴۷ء ص ۱
(۲۹) غیر مطبوعہ ڈائری بدر الدین عامل صاحب ،درویشِ قادیان
(۳۰) الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۴۷ء ص۳
‏(۳۱) 4 Oct 1947 page 4 Pakistan Times
‏(۳۲)The Civil and Military Gazette 9 Oct.1947 page 4
‏(۳۳)Statesman,October 8,1947p5
‏(۳۴)The Statesman,18 October,1947,p1
(۳۵) تاریخِ احمدیت جلد ۱۱ ص ۲۵۹۔۲۶۵
(۳۶)الفضل ۱۱ ستمبر ۱۹۴۷ء ص۳
(۳۷)الفضل ۱۶ اکتوبر۱۹۴۷ء
(۳۸) الفضل ۱۸ اکتوبر ۱۹۴۷ء ص ۴
(۳۹) الفضل ۲۲ اکتوبر ۱۹۴۷ء ص۵
‏(۴۰)Statesman,18 October 1947p 1
‏(۴۱)Daily Graphic,October 13,1947 page 2,column 2,3
(۴۲)احسان۲۴ اکتوبر ۱۹۴۷ء ص ۵
‏(۴۳)Qadian a test case,by Hazrat Mirza Bashir Ahmad ,page 5 -81
(۴۴)تاریخِ احمدیت جلد ۱۱ ص ۳۶۷
(۴۵) مسند امام احمد بن حنبل،مسند سعد بن ابی وقاص ؓ،جلد ۱ ص ۱۷۲ ،المکتب الاسلامی للطباعۃ و النشر بیروت ۱۹۷۸ء
(۴۶)تاریخِ احمدیت جلد ۱۱ ص۴۳۷ تا ۴۴۵
(۴۷) تاریخِ احمدیت جلد ۱۳ ص ۷۲ پر محترم صاحبزادہ صاحب کی آمد کی تاریخ ۱۵ مارچ ۱۹۴۸ء لکھی ہے
(۴۸)تاریخِ احمدیت جلد ۱۳ ص۷۰ تا ۸۰
(۴۹)الرحمت۲۱ نومبر ۱۹۴۹ء ص ۳ ،۴
(۵۰) نوائے وقت ۱۰ اکتوبر ۱۹۵۳ء ،بیان مولوی عبدالحامد بدایونی
(۲۲)الفرقان ستمبر ۱۹۶۴ء ص۲۵۔۳۴
ربوہ آباد کیا جاتا ہے
نیا مرکز آباد کرنے کا فیصلہ:
ؓ حضورؓ نے قادیان سے لاہور ہجرت فرمانے سے قبل ہی ہدایت فرما دی تھی کہ اگر قادیان میں کوئی حادثہ ہو جائے تو پاکستان میںایک نہایت سستا قطعہِ زمین لے کر اس پر جماعت کا نیا مرکز آباد کیا جائے۔بعد میں حالات نے ایسا رخ اختیار کر لیا کہ اس صورتِ حال میں قادیان میں جماعت کا مرکز رکھنا ممکن نہیں نظر آ رہا تھا۔اس لئے پاکستان میں مطلوبہ زمین کی تلاش شروع کی گئی۔اس سلسلے میں بہت سی جگہیں زیرِ غور آئیں۔یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ لاہور ، شیخو پورہ ،سیالکوٹ یا پسرور کے شہروں میں زمین لے کر وہاں پر مرکز آباد کیا جائے(۱)۔اس وقت پاکستان کی حکومت ان مہاجرین کو جو اپنی جائیدادیں ہندوستان میں چھوڑ کر آئے تھے ان ضائع شدہ جائیدادوں کے عوض وہ جائیدادیں الاٹ کر رہی تھی جو پاکستان میں ہندوؤں اور سکھوں کی نقلِ مکانی کی وجہ سے خالی ہوئی تھیں۔حضور کی ہدایت تھی کہ قادیان ہمارا مقدس مقام ہے اور ہم اس پر اپنے حق سے کسی طرح دستبردار نہیں ہونا چاہتے،اس لئے کوئی احمدی قادیان کی جائیداد کے بدلے کسی اور جائیداد کا مطالبہ نہیں کرے گا۔اس طرح قادیان سے اپنی وابستگی کی وجہ سے احمدی بہت بڑا مالی نقصان برداشت کر رہے تھے اور اپنا قانونی حق چھوڑ رہے تھے۔لاہور،کراچی اور کوئٹہ کے بعض چوٹی کے آدمیوں نے حضورؓ کی خدمت میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ حضورؓ ان کے شہروں میں رہائش اختیار کریں۔اور جماعت کو شہروں میں بھی زمین مل سکتی تھی۔مگر حضورؓ نے ارشاد فرمایا کہ جماعت کی تعلیم و تربیت اور تنظیم کے جو تقاضے ہیں وہ بڑے شہروں میں پورے نہیں ہو سکتے۔اس لئے کسی الگ جگہ کی تلاش شروع کی گئی۔(۲)
۱۹۴۱ء میں حضورؓ کو رؤیا میں دکھایا گیا تھا کہ حضورؓ کے مکان پر ایک غنیم نے حملہ کر دیا ہے اور دشمن غالب آ گیا ہے ۔اور یہ تباہی صرف قادیان تک محدود نہیں بلکہ بہت بڑی تباہی ہے۔اور جالندھر میں بھی تباہی آئی ہے۔مگر مسجد مبارک کا حلقہ اب تک لڑ رہا ہے۔اس پر حضورؓ فرماتے ہیں کہ اگر مسجد مبارک کا حلقہ اب تک لڑ رہا ہے تب تو کامیابی کی امید ہے۔حضورؓ کو وہاں سے نکلنا پڑا ہے۔وہاں سے نکل کر سب سوچ رہے تھے کہ اب کہاں جائیں کہ حضورؓ کو ایک ایسی جگہ لے جایا جاتا ہے جہاں پہاڑیاں ہیں اور ان پہاڑیوں پر ایک ہموار میدان ہے۔حضور کو یہ جگہ بہت پسند آتی ہے اور اسے نئے مرکز کے لئے منتخب کر لیا جاتا ہے۔مگر خواب میں ہی حضورؓ کو احساس ہوتا ہے کہ یہ جگہ بھی محفوظ نہیں ہے ۔یہ خواب ۱۹۴۱ء میں شائع بھی ہو گئی تھی(۳)۔اس خواب کا ایک حصہ پورا ہو چکا تھا۔ایسے خطرناک حالات میں قادیان سے نکلنا پڑا تھا کہ جالندھر سمیت مشرقی پنجاب اور ہندوستان کے دیگر علاقوں پر بھی بہت بڑی تباہی آئی تھی۔اور عملاََ قادیان کے تمام احمدی محلے خالی کرالئے گئے تھے اور احمدی صرف حلقہ مسجد مبارک میں محصور ہو کر اپنا دفاع کر رہے تھے۔اب اس خواب کا دوسرا حصہ یعنی نئے مرکز کی تلاش والا حصہ پورا ہونا باقی تھا۔ابتداء میں شیخو پورہ اور ننکانہ صاحب کا علاقہ زیرِ غور تھا۔
چک ڈھگیاں کی زمین کی تجویز:
نئے مرکز کے لئے زمین کی تلاش کی جا رہی تھی۔ایک مخلص احمدی مکرم چوہدری عزیز احمد باجوہ صاحب،جو اس وقت سرگودھا میں سب جج کے عہدے پر کام کر رہے تھے، نے حضور ؓ کی خدمت میں ضلع جھنگ میں ایک زمین کی نشاندہی کی۔یہ زمین چنیوٹ کے قریب دریا کے پار تھی اور بنجر ہونے کے باعث خالی پڑی تھی۔ (۴)۔اس وقت گورنمنٹ کے کاغذوں میں یہ قطعہ زمین چک ڈھگیاں کے نام سے درج تھا۔اس جگہ کے علاوہ سرگودھا کو جانے والی سڑک پر ہی کڑانہ کی پہاڑیوں کا علاقہ بھی نئے مرکز کے لئے زیرِ غور آیا۔قادیان کے محصور احمدیوں کا انخلاء اب بڑی حد تک مکمل ہو چکا تھا۔ان دنوں حضورؓ کو دن رات ایک ہی فکر اور بے قراری تھی کہ کسی جگہ زمین لیکر دوسرا مرکز جلد از جلد قائم کیا جائے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓروزانہ صبح کے وقت مرکزی عہدیداران کی میٹننگ طلب فرماتے تھے ۔اس میں چک ڈھگیاں کی تجویز کا ذکر آیا ۔اس مجلس میں راجہ علی محمد صاحب ،ناظر بیت المال بھی موجود تھے ۔انہوں نے عرض کی کہ یہ رقبہ میں نے کئی مرتبہ دیکھا ہؤا ہے۔یہ قطعہ زمین تھوہر اور کلر سے بری طرح متاثرہے اور زراعت کے قابل نہیں ہے۔اس پر صرف ایک بوٹی لانی اگتی ہے جو خود زمین کے نا قابلِ زراعت ہونے کا ثبوت ہوتی ہے۔ (۵)بہر حال اس کے بعد جائزہ لینے کا کام شروع ہؤا تو پہلے حضورؓ کے ارشاد پر چوہدری عزیز احمد صاحب باجوہ نے اس جگہ کا جائزہ لیا۔حضورؓ نے اس جگہ کا خود معائنہ فرمانے کا فیصلہ فرمایا ۔۱۷ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو حضورؓ نے کچھ اور بزرگان کے ہمراہ چک ڈھگیاں تشریف لے گئے اور دو گھنٹے تک اس رقبے کا جائزہ لیا اور قریبی گاؤں احمد نگر تشریف لے جا کر سیلاب کے دنوں میں پانی کی صورتِ حال اور دیگر امور کے متعلق مقامی زمینداروں سے معلومات حاصل فرمائیں۔اس کے بعد حضورؓ نے کڑانہ کی پہاڑیوں کے دامن میں موجود خالی قطعہ زمین کا بھی معائنہ فرمایا ۔شام کو آپ واپس لاہور تشریف لے آئے ۔اسی روز آپ نے یہ فیصلہ فرمالیا کہ حکومت سے چک ڈھگیاں کی زمین خریدنے کی درخواست کی جائے۔(۶)اگلے روز حضورؓ نے حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر سے فرمایا کہ،’’کل میں وہ جگہ دیکھ کر آیا ہوں جو پہاڑیوں کے درمیان ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے رؤیا میں دکھائی تھی۔‘‘(۷)یہ وہ زمین تھی جو بالکل بنجر اور نا قابلِ زراعت تھی۔جس کے ساتھ کوئی نہر نہیں لگتی تھی۔اس زمین کو بعض سرمایہ داروں نے گورنمنٹ سے پٹے پر لے کر آباد کرنے کی کوشش کی تھی مگر بھاری نقصان اٹھا کر ناکام ہو چکے تھے۔لیکن یہ رقبہ ان خامیوں کی وجہ سے سستے داموں مل سکتا تھا۔ان حالات میں اچھی اور مہنگی زمین لینا جماعت کی استطاعت سے باہر تھا۔
زمین کا حصول:
حضورؓ کے ارشاد پر زمین کے حصول کی کاروائی شروع کی گئی۔چنانچہ ناظر اعلیٰ حضرت نواب عبداللہ خان صاحب ؓ نے ڈپٹی کمشنر صاحب کو درخواست دی کہ جماعتِ احمدیہ قادیان نہیں چھوڑنا چاہتی تھی لیکن بلوائیوں کے مسلسل حملوں اور ان حملوں میں ہندوستانی پولیس اور فوج کی مدد کی وجہ سے قادیان کی اکثریت کو جبراََ اپنے گھر چھوڑنے پڑے ہیں اور اب انہیں بسانے کے لئے کسی جگہ کی ضرورت ہے۔اس غرض کے لئے چک ڈھگیاں کا قطعہ اراضی جماعت کو فروخت کر دیا جائے۔(۸)ابتدائی مراحل تو تیزی سے طے ہو گئے مگر بعد میں قدرے سست روی کے ساتھ حکومت نے اس اراضی کی فروخت کی کاروائی مکمل کی۔اس مقصد کے لئے مکرم نواب محمد دین باجوہ صاحب نے انتھک محنت کی۔ان کی وفات کے چند روز کے بعد حضورؓ نے ان کی کاوشوں کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا
’جماعت ہمیشہ ان کی قربانیوں کو یاد رکھے اور اس بات کو مت بھولے کہ کس طرح ایک اسی سالہ بوڑھے نے جو محنت اور جفا کشی کا عادی نہیں تھا۔۔۔۔۴۷ سے ۴۹ تک باوجود اس کے کہ اس کی طبیعت اتنی مضمحل ہو چکی تھی کہ وہ طاقت کا کوئی کام نہیں کر سکتا تھا۔اپنی صحت اور آرام کو نظر انداز کرتے ہوئے رات اور دن ایک کر دیا اس لئے کہ کسی طرح جماعت کا نیا مرکز قائم کر دیا جائے۔سینکڑوں دفعہ افسروں سے ملے ،ان سے جھگڑے کئے لڑائیاں کیں ،منتیں اور خوشامدیں کیں اور پھر مرکز کی تلاش کے لئے بھی پھرتے رہے۔‘(۹)
بالآخر۱۱ جون ۱۹۴۸ء کو حکومت نے اس زمین کی فروخت کی منظوری دے دی۔منظوری دینے سے قبل حکومت نے اس اراضی کی فروخت کے متعلق اخبار میں اشتہار بھی دیا۔لیکن اس کا کوئی اور خریدار سامنے نہ آیا۔یہ زمین اتنی بنجر تھی کہ کوئی اسے برائے نام قیمت پر لے کر بھی آباد کرنے کو تیار نہیں تھا۔چند دن میں ہی جماعت نے۱۰۳۴ ایکڑ کی مطلوبہ قیمت اور اخراجاتِ رجسٹری بارہ ہزار روپے جمع کراکے زمین کی رجسٹری کی کاروائی مکمل کرالی ۔
مخالفین کا شور:
قبضہ لینے کی کاروائی ہو رہی تھی کہ احراریوں اور جماعت کے دیگر مخالفین نے شور مچا دیا کہ احمدیوں کو یہ زمین کوڑیوں کے مول دے دی گئی ہے ۔احراریوں کے اخبار آزاد نے اور زمیندار نے اپنی یکم اگست ۱۹۴۸ء کی اشاعت میں دعویٰ کیا کہ اس اراضی کو تو بعض لوگ پندرہ سو روپے ایکڑ پر لینے کو تیار تھے۔اور بعض دیگر اخبارات اور حلقے بھی اس مخالفت میں شامل ہو گئے۔جہاں تک احرار یا جماعت کے مخالف علماء کا تعلق ہے تو اب انہیں اپنی سیاسی موت نظر آرہی تھی۔کیونکہ تقسیم سے قبل ان میں سے اکثر مسلمانوں کا حقیقی نمائیندہ ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے اور ان کی سیاسی ہمدردیاں کانگرس کے ساتھ تھیں۔اور مولویوں کا یہ گروہ مسلم لیگ کی مخالفت میں پیش پیش تھا۔جیسا کہ احراری لیڈر عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے ۱۹۳۹ء میں،سندھ پراونشل احرار کانفرنس کے موقع پر واضح الفاظ میں کہا تھا
’مسلم لیگیوں میں خودداری کا ذرا مادہ نہیں ہے ۔وہ برطانوی گورنمنٹ کے اشارے پر ناچتے ہیں اور ہندوستان کو ہمیشہ غلام رکھنا چاہتے ہیں۔یہ امر افسوسناک ہے کہ مسلم لیگی مہاتما گاندھی کے ممنون ہو نے کی بجائے اپنی ذاتی اغراض کیلئے کانگرس سے جھگڑ رہے ہیں۔‘اس کے بعد انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ کانگرس میں شامل ہوں۔(۱۰)
جمیعۃ العلماء اور احرار واضح طور پر اس موقف کا اظہار کرتے رہے تھے کہ ’مسلم لیگ ایک رجعت پسند جماعت ہے جو ملک و ملت کی ترقی کی راہ میں بھاری رکاوٹ ہے۔اور ان کے یہ بیانات ہندو اخبارات بڑے فخریہ انداز میں شائع کرتے تھے۔(۱۱)
دوسری طرف جماعتِ احمدیہ نے انتخابات میں مسلم لیگ کا ساتھ دیا تھا۔ انتخابات میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت نے مسلم لیگ کے حق میں فیصلہ دے دیا اور مولویوں کے اس گروہ کو بھاری ندامت اٹھانی پڑی۔آزادی کے معاََ بعد فسادات کے نتیجے میں بھی عوام الناس میں پاکستان کی مخالفت کرنے والے گروہوں کے خلاف جذبات اور بھی انگیخت ہو گئے اور ان فسادات میں علماء کے گروہ نہ تو مسلمانوں کی کوئی خدمت کر سکے اور نہ ہی ان خطرناک حالات میں ان کے دفاع کے لئے کسی جراء ت کا مظاہرہ کرنا انہیں نصیب ہؤا۔جماعتِ اسلامی کا مرکز بھی مشرقی پنجاب میں پٹھانکوٹ کے مقام میں تھا۔پہلے تو ان کے سربراہ پاکستا ن کو ناپاکستان قرار دیتے رہے اور جب قائد ِ اعظم کا پیغام لے کر سردار شوکت حیات پہنچے تو مودودی صاحب نے پاکستان کی جد وجہد میں عملی حصہ لینا تو درکنار ،اس کے لئے دعا کرنے سے بھی انکار کر دیا۔پھر جب فسادات شروع ہوئے تو جماعتِ اسلامی نے مشرقی پنجاب کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لئے کچھ بھی نہ کیا اور صرف اپنی جانیں بچانے کی فکر کی۔مودودی صاحب بالآخر اسی پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے جسے کل تک وہ نا پاکستان کہہ رہے تھے۔دوسری طرف جماعتِ احمدیہ نے فسادات میں مسلمانوں کی ایسی نمایاں خدمت کی کہ غیر بھی اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے۔پاکستان بننے کے بعد قائدِ اعظم نے وزارتِ خارجہ کا قلمدان حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کے سپرد کردیا اور جلد ہی کشمیر،فلسطین اور عالمِ اسلام کے دیگر مسائل پر حضرت چوہدری صاحب ؓ نے ایسی نمایاں خدمات سر انجام دیں کہ سارے عالمِ اسلام نے ان کا اعتراف کیا۔اس پس منظر میں علماء کی جماعتوں کو اپنی سیاسی موت نظر آرہی تھی۔ اس سیاسی موت سے بچنے کے لئے ان جماعتوں کو یہی راستہ نظر آیا کہ فرقہ واریت کو ہوا دے کر اپنا سیاسی الو سیدھا کیا جائے۔اور یوں پاکستان میں احمدیت کی مخالفت کا آغاز ہؤا۔ہم ۱۹۵۳ء کے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان عوامل کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔ ربوہ کی زمین خریدنے کے ساتھ ہی اس مخالفت میں ایک نیا جوش پیدا ہؤا۔اور یہ واویلا شروع کیا گیا کہ اتنی قیمتی زمین احمدیوں کو برائے نام قیمت پر دی جا رہی ہے اور پاکستان کا نقصان ہو رہا ہے۔
ان الزامات کے جواب میں اگست ۱۹۴۸ء کے آغاز میں ناظر صاحب امورِ خارجہ نے اس زمین کی فرضی قیمت کے متعلق اخباری دعووں کا حوالہ دے کر الفضل میں مندرجہ ذیل اعلان شائع کروایا
…اس اراضی کو پندرہ سو روپیہ فی ایکڑ کے حساب سے خریدنے کے لئے تیار تھے۔سو اگر یہ درست ہے تو واقعی حکومت کو سخت نقصان پہنچا ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی امام جماعتِ احمدیہ گورنمنٹ کے اس نقصان کو قطعاََ برداشت نہیں کر سکتے۔اس لئے حضور نے مجھے ہدایت فرمائی کہ میں یہ پریس جاری کروں کہ ہم یہ رقبہ جو ۱۰۳۴ ایکڑ ہے مندرجہ بالا پیش کردہ قیمت پر فروخت کرنے کو تیار ہیں۔اور علاوہ ازیں ہم یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اس رقم کا( جو پندرہ لاکھ اور اکاون ہزار بنتی ہے )وصول ہوتے ہی ایک ایک روپیہ فوراََ حکومتِ پاکستان کے خزانے میں داخل کرادیں گے۔اخیر میں ہم پاکستان کے شہریوں کو یقین دلاتے ہیں کہ اس معاملہ کے متعلق اخبار ’’ آزاد‘‘ کا لفظ لفظ کذب بیانی پر مشتمل ہے‘ (۱۲)
چونکہ یہ پراپیگنڈا وسیع پیمانے پر کیا جا رہا تھااس لئے حکومت کو بھی اس کا جواب دینا پڑا اگست ۱۹۴۸ء میں حکومت کی طرف سے یہ اعلان شائع کیا گیا۔
’۔۔الزام یہ ہے کہ تقسیم کے بعد بعض مسلم انجمنیں اس زمین کو پندرہ سو روپیہ فی ایکڑ کے حساب سے خریدنا چاہتی تھیں۔یہ اعتراض بھی کیا گیا ہے کہ جب ضلع وار آباد کاری کی تجویز کو منظور نہیں کیا گیا تو جماعتِ احمدیہ کو یہ موقع کیوں دیا گیا ہے کہ ایک مخصوص علاقے میںاپنی کالونی بنائے ۔
یہ رپورٹ گمراہ کن اور اصلیت سے دور ہے۔جس زمین کے متعلق یہ اعتراض کیا گیا ہے وہ بنجر ہے اور عرصہ سے اسے زراعت کے نا قابل سمجھا گیا ہے ۔اسے جماعت احمدیہ کے ہاتھ فروخت کرنے سے پہلے حکومت نے اس کا اشتہار اخبارات میں دے دیا تھا۔اور پورے ایک مہینہ کسی شخص نے اس پرکوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔
جہاں تک قیمت کا تعلق ہے حکومت کو آج تک پندرہ سو روپے فی ایکڑ اس زمین کی قیمت کسی فرد یا کسی جماعت کی طرف سے پیش نہیں کی گئی
۔۔۔جماعتِ احمدیہ اس علاقے میں ایک نئی بستی آباد کرنا چاہتی ہے جس میں قادیان کے اجڑے ہوئے لوگ آباد ہوں گے۔‘(۱۳)
نئے مرکز کی منصوبہ بندی:
اس اعلان کے جواب میں پندرہ لاکھ تو درکنار کسی کو پندرہ ہزار کی پیشکش کرنے کی توفیق بھی نہ ہوئی۔حقیقت یہ تھی کہ اس کلر والی زمین کو تو کوئی مفت لے کر بھی آباد کرنے کو تیار نہیں تھا۔ابھی جماعت کو زمین کا قبضہ بھی نہیں ملا تھا کہ حضور کے حکم کے تحت نئے مرکز کو آباد کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی گئی۔حضور نے ارشاد فرمایا کہ نئے مرکز کو آباد کرنے اور بنیادی ضروریات کو مہیا کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنائی جائے جو جائزہ لے کہ مرکزی دفاتر اور ادارے کہاں پر بنائے جائیں گے۔پانی لگانے اورٹیوب ویل لگانے کا کام فوراََ شروع کیا جائے،مٹی کے تیل کا کوٹہ منظور کرایا جائے،سال کی ضروریات کے لئے پانچ چھ ہزار من غلہ جمع کیا جائے،ربوہ سے قریب احمد نگر میں دودھ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے بھینسیں خرید کر رکھی جائیں،پانی کا انتظام ہونے پر پھلدار اور دیگر درخت لگانے کی منصوبہ بندی کی جائے،شہر بنانے کے لئے فوراََ وہاں پر کچھ آبادی کی ضرورت ہوگی غور کیا جائے یہ آبادی کس طرح ہو گی۔حضورؓ نے فرمایا کہ سب سے پہلے مسجد کی بنیاد رکھی جائے مگر فیصلہ کیا جائے کہ باقی مکانات کس ترتیب سے بنائے جائیں۔جو لوگ زمین خریدنا چاہیں ان کو ایک ماہ تک پچاس روپیہ کنال کے حساب سے زمین ملے گی مگر قبضہ مکان بناتے ہوئے دیا جائے گا۔ایک ماہ کے بعد نئی قیمت کا اعلان کیا جائے گا۔قادیان کے احمدی باشندوں کو اور قادیان کے ان غیر احمدی باشندوں کو جو ہماری مخالفت نہ کرتے ہوں دس مرلہ زمین مفت دی جاے گی۔مگر چھ ماہ کے اندر مکان کی تعمیر شروع کرنی ہو گی۔زمین کی دو تہائی قیمت انجمن اور ایک تہائی قیمت تحریک ادا کرے گی۔اس نسبت سے دونوں انجمنیں علاقے کی مالک ہوں گی۔میاں عبدالرشید صاحب نئے مرکز کا نقشہ تیار کر چکے تھے،حضرت مصلح موعود ؓ نے ارشاد فرمایا کہ اس پر تفصیلی غور کے لئے اس کو بڑے سکیل پر تیار کرایا جائے۔ان خطوط پر سرعت سے بنیادی کام کا آغاز کیا گیا۔ حسبِ ارشاد نئے مرکز کے قیام کے لئے کمیٹی بنائی گئی۔ابتدائی دنوں میں اس کے ممبر تبدیل ہوتے رہے اورستمبر اکتوبر ۱۹۴۷ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ کی صدارت میں کمیٹی اپنے فرائض ادا کر رہی تھی اور مکرم شیخ خورشید احمد صاحب اس کے سیکریٹری تھے۔(۱۴)
حکومت کی طرف سے اس زمین کا با ضابطہ قبضہ دینے میں تاخیر کی گئی ۔لیکن کافی دوڑ دھوپ کے بعد بالآخر ۸ اگست ۱۹۴۸ء کو صدر انجمن احمدیہ کو قبضہ دے دیا گیا۔ جماعت کی طرف سے قبضہ لیتے ہی تیرہ افراد کا وفدچک ڈھگیاںروانہ کر دیا گیا۔اس وفد میں عبدالرزاق خان صاحب اور ایک استادمولوی ابو الفاروق ممتاز علی بنگالی صاحب بھی شامل تھے۔ دریائے چناب کے کنارے کچھ فوجی ایک بنگلے میں رہ رہے تھے اور قریب ایک طیارہ شکن توپ نصب تھی۔ایک اور بنگلہ تقسیم ملک کے بعد خالی پڑا تھا۔اس گروپ کو یہیں پر سر چھپانے کی جگہ مل گئی۔کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ سونے کے لئے بستر تو درکنار چارپائی تک میسر نہیں تھی۔فرش پر چادر بچھا کر سو جاتے اورتکیے کی جگہ پتھررکھ لیتے۔پینے کے لئے دریا کا پانی ہی مل سکتا تھا جسے پھٹکڑی ڈال کر صاف کر لیا جاتا۔تنگدستی کی وجہ سے صابن نہ مل سکتاتو کلر سے ہی کپڑے دھو لیے جاتے۔غلہ خرید کر احمد نگر میں جمع کرنا شروع کیا گیا۔اس خطہ بے آب و گیاہ میں سانپوں اور بھیڑیوں سے خطرہ بھی تھا چنانچہ ایک ماہ کے اندر ہی پہلے وفد کے رکن عبد الرزاق خان صاحب کو زہریلے سانپ نے کاٹ لیا۔حالت بگڑی تو انہیں لاہور کے ایک ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔(۱۵)
نئے مرکز کا نام:
نئے مرکز کے لئے بہت سے نام تجویز کئے گئے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس کا تجویز کردہ نام’’ ربوہ‘‘ منظور فرمایا۔اس کے لغوی معانی ’بلند جگہ یا ٹیلے ‘کے ہیں۔یہ لفظ قرآنِ کریم کی اس آیت میں استعمال ہؤا ہے جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کے پناہ لینے کاذکر ہے۔


یعنی’اور ابنِ مریم کو اور اس کی ماں کو بھی ہم نے ایک نشان بنایا تھااور ان دونوں کو ہم نے ایک مرتفع مقام کی طرف پناہ دی جو پر امن اور چشموں والا تھا۔‘(۱۶)
چونکہ یہاں کی زمین ارد گرد کی زمین سے قدرے بلند تھی اس لئے بھی یہ نام موزوں تھا۔
ربوہ کے افتتاح کے لئے۲۰ ستمبر ۱۹۴۸ء کی تاریخ مقرر ہوئی ۔ایک روزقبل مولوی محمد صدیق صاحب اور عبد السلام اختر صاحب کو کچھ خیمے،چھولداریاں اور سائبان دے کر ایک ٹرک پر روانہ کیا گیا۔ سیلاب کی وجہ سے راستے کٹے ہوئے تھے اس لئے لمبے راستے سے آنا پڑا۔اس وقت تعلیم الاسلام اسکول چنیوٹ میں کام کر رہا تھا۔یہ دونوں احباب چنیوٹ میں ہیڈ ماسٹر سید محموداللہ شاہ صاحب کو کہتے آئے کہ کچھ لڑکوں کو لالٹین دے کر بھجوا دیں۔جب ربوہ کی جگہ پر پہنچے تو سورج ڈوب رہا تھا۔اندازہ کیا کہ اراضی کا وسط کہاں پر بنے گا اور وہاں پر سامان اتارنا شروع کیا ۔چند راہگیر حیران ہو کر دیکھ رہے تھے کہ اس بے آب و گیاہ ویرانے میں یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔سامان اتار کر مزدور اور ڈرائیور رخصت ہو گئے۔رات پڑ رہی تھی،خیمے لگائے گئے۔سنسان وادی میں دونوں ساتھی تنہا تھے۔ہر طرف خاموشی تھی۔مولوی صدیق صاحب نے کہا اختر بھائی کچھ سناؤ۔اختر صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے کچھ اشعار بآوازِ بلند سنانے شروع کئے۔آواز پہاڑیوں سے ٹکرا کر گونج پیدا کرر ہی تھی ۔اتنے میں دور سے ہلکی سی روشنی دکھائی دی۔اسکول کے تین بچے چھ میل دور چنیوٹ سے لالٹین دینے آئے تھے۔ان میں سے دو بچے بنگال کے اور ایک بچہ سیلون کا تھا۔اپنے وطن سے ہزاروں میل دور یہ بچے اپنے احمدی بھائیوں کولالٹین دینے آئے تھے۔نصف شب کے قریب احمد نگر سے کھانا بھی آگیا اور اسے کھا کر دونوں ساتھی سو گئے۔اس وادیِ غیر ذی ذرع کی ویرانی جلد ہجومِ خلائق میں تبدیل ہونے والی تھی۔(۱۷)
ربوہ کا افتتاح:
اگلے روز حضورؓ ایک قافلے کے ہمراہ ایک بج کر بیس منٹ پر ربوہ پہنچے۔ارد گرد کے اضلاع سے ۶۱۹ احباب ربوہ کے افتتاح کی با برکت تقریب میں شرکت کے لئے پہنچ چکے تھے۔حضور کی امامت میں نمازِ ظہر ادا کی گئی۔نماز کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کا خطاب شروع ہؤا۔پہلے آپ نے وہ قرآنی دعائیں پڑھیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو آباد کرتے ہوئے پڑھی تھیں۔حضورؓ نے فرمایا
’آج دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم انسان محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم ہے۔جو بھی اٹھتا ہے مصنف کیا اور فلسفی کیا اور مؤرخ کیا وہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔اگر ہمارے دلوں میں اسلام کی کوئی بھی غیرت باقی ہے اگر ہمارے دلوں میں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی کوئی بھی محبت باقی ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے آقا کی کھوئی ہوئی عزت کو پھر دوبارہ قائم کریں۔اس میں ہماری جانیں،ہماری بیویوں کی جانیں،ہمارے بچوں کی جانیں بلکہ ہماری ہزارہا پشتیں بھی اگر قربان ہو جائیں تو یہ ہمارے لئے عزت کا موجب ہو گا۔
ہم نے یہ کام قادیان میں شروع کیا تھا مگر خدائی خبروں اور اس کی بتائی ہوئی پیشگوئیوںکے مطابق ہمیں قادیان کو چھوڑنا پڑا اب انہی خبروں اور پیشگوئیوں کے ماتحت ہم ایک نئی بستی اللہ تعالیٰ کے نام کوبلند کرنے کے لئے اس وادیِ غیر ذی زرع میں بسا رہے ہیں۔ہم چیونٹی کی طرح کمزور اور نا طاقت سہی مگر چیونٹی بھی جب دانہ اٹھا کر دیوار پر چڑھتے ہوئے گرتی ہے تو وہ اس دانے کو چھوڑتی نہیں بلکہ دوبارہ اسے اٹھا کر منزلِ مقصود پر لے جاتی ہے۔اسی طرح ہمارا وہ مرکز جو حقیقی اور دائمی مرکز ہے دشمن نے ہم سے چھینا ہؤا ہے لیکن ہمارے ارادے اور عزم میں کوئی تزلزل واقع نہیں ہؤا۔دنیا ہم کو ہزاروں جگہ پھینکتی چلی جائے وہ فٹ بال کی طرح ہمیں لڑھکاتی چلی جائے،ہم کوئی نہ کوئی ایسی جگہ ضرور نکال لیں گے جہاں کھڑے ہو کر ہم پھر دوبارہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کردیں۔ــ‘‘(۱۸)
اس کے بعد حضور ؓ نے ایک پر سوز دعا کرائی اور پھر اس اراضی کے چاروں کونوں اور وسط میں پانچ بکروں کی قربانی دی گئی۔اس با برکت تقریب کے بعد چنیوٹ کے احمدیوں کی طرف سے دعوتِ طعام دی گئی اور شام کے وقت حضورؓ واپس لاہور تشریف لے گئے۔
دفاتر کی منتقلی:
اب جماعتی دفاتر کو ربوہ منتقل کرنے کا مرحلہ شروع ہؤا۔اور سب سے پہلے نظارت تعلیم و تربیت کے فعال دفتر نے یہاں پر کام شروع کیا ۔اس سے قبل ہی جامعہ احمدیہ کا آغاز احمد نگر میں ہو چکا تھا اور چنیوٹ میں تعلیم الاسلام ہائی اسکول نہ صرف کام کر رہا تھا بلکہ میٹرک میں پاس ہونے والے طلبہ کے تناسب کے لحاظ سے پورے صوبے میں اول بھی رہا تھا۔ان کے علاوہ بیت المال، بہشتی مقبرہ ،امورِ عامہ،ضیافت کی نظارتوں اور دارالقضاء کے شعبے کو بھی ستمبر ۱۹۴۸ء میں ہی ربوہ منتقل کر دیا گیا۔یہ تبدیلی اس طرح کی نہیں تھی جیسے ایک عمارت یا ایک شہر سے کوئی دفتر دوسری عمارت یا دوسرے شہر میں منتقل ہو جاتا ہے۔ابتداء میںدفاتر کے لئے کچی کو ٹھریاں تک میسر نہیں تھیں، خیموں اور چھولداریوں میں دفاتر شروع کئے گئے۔ان میں بھی جگہ کی تنگی کا سامنا تھا۔ تقریباََبارہ ماہ کے عرصے میں تیسری جگہ پر دفاتر کو منتقل کیا جا رہا تھا۔مالی تنگی کی وجہ سے ہر شعبے میں عملے کو کم کرنا پڑا تھا۔ریکارڈ رکھنے کی جگہ بھی مشکل سے ملتی تھی۔اس بے آب و گیاہ وادی میں کارکنان کو رہائش کی گوناں گوں تکالیف ان کے علاوہ تھیں۔ چھ ماہ کے بعد دفاتر کو کچی بیرکیں مل سکیں ۔ شروع شروع میں ان میں بھی جگہ کی قلت تھی۔بجلی جیسی بنیادی سہولت کا بھی نام و نشان نہیں تھا۔ ان تمام تکالیف کے با وجود کارکنان نے لگن اور استقلال سے کام کو جاری رکھا۔ (۱۹)حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بھی کام کا جائزہ لینے اور کارکنان کی حوصلہ افزائی کے لئے کچھ عرصہ بعد ربوہ تشریف لاتے۔اس وقت عمارات تو بنی نہیں تھیں۔ایک خیمے میں دری بچھا دی جاتی،جس پر آپ رونق افروز ہوتے۔ وہیں پر آپ مختلف صیغہ جات کے کارکنان سے میٹنگ کر کے کام کا جائزہ لیتے اور ربوہ کی منصوبہ بندی کے متعلق ہدایات دیتے۔(۲۰)پہلے یہ منصوبہ تھا کہ حضورؓ دفاتر کی منتقلی کے کچھ ہی عرصہ بعد ربوہ منتقل ہو جائیں گے مگر پھر مختلف وجوہات کی بنا پر اسے کچھ ماہ کے لئے مؤخر کرنا پڑا ۔(۲۱)
ربوہ کا پہلا جلسہ سالانہ :
جلسہ سالانہ دسمبر میں ہوتا ہے لیکن اس سال فیصلہ کیا گیا کہ اپریل۴۹ میں جلسہ سالانہ نئے مرکز میں منعقد کیا جائے۔لیکن اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ ربوہ میں بنیادی سہولیات کا مکمل فقدان تھا۔نہ رہائش کے لئے گھر تھے،اور نہ ہی پانی اور بجلی کی سہولیات مہیا تھیں۔یہاں پر ہزاروں مہمانوں کے کھانے کا انتظام کرنا بھی مشکل نظر آ رہا تھا۔لیکن ایک عزم کے ساتھ جلسے کی تیاریاں شروع کی گئیں۔بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ نا مساعد حالات کی وجہ سے یہ جلسہ منعقد نہیں ہو سکے گا۔رہائش کے لئے فیصلہ کیا گیا کہ پچاس عدد کچی بیرکیں تعمیر کی جائیں ۔چوہدری عبدالطیف اوور سیئر صاحب اس تعمیر کے نگران تھے۔پہاڑی کے دامن میں گودام بنائے گئے۔اور کچی اینٹیں بنانے کا کام شروع ہؤا۔روزانہ پچاس ساٹھ ہزار کچی اینٹ بنتی تھی۔فیملیوں کو ایک ساتھ ٹہرانا تو ممکن نہیں تھا۔لہذاٰ عورتوں اور مردوں کی علیحدہ بیرکیں ریلوے سٹیشن کے قریب تعمیر کی گئیں۔ ان بیرکوں کی چھتیں سرکنڈوں کی بنائی گئی تھیں۔خیموں کا انتظام اس کے علاوہ تھا۔حضور کی رہائش کے لئے کچا مکان بھی بنایا گیا۔پانی کے لئے کوششیں بھی ہو رہی تھیں مگر اب تک جو پانی ملا تھا وہ پینے کے قابل نہیں تھا اور اس کا کڑوہ ذائقہ دیر تک منہ میں رہتا تھا۔مہمانوں کو پانی مہیا کرنے کے لئے گورنمنٹ نے ٹینکر مہیا کئے۔ روٹی پکانے کے لئے چالیس تندور لگائے گئے۔(۲۲۔۲۳)
۱۵ اپریل ۱۹۴۹ء کو اس تاریخی جلسے کا افتتاح ہؤا۔افتتاحی تقریر کے آغاز میں حضور ؓ نے ارشاد فرمایا کہ یہ جلسہ محض تقریروں کا جلسہ نہیں ہے یہ دعاؤں کا جلسہ ہے۔اس جلسہ میں شامل ہونے والے افراد محض ایک جلسہ میں شامل نہیں ہو رہے بلکہ وہ ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنانے میں حصہ لے رہے ہیں۔اس کے بعد حضورؓ نے کچھ قرآنی دعائیں پڑھیں اور ارشاد فرمایا کہ تمام شرکاء ان کو دہرائیں۔تقریر کے بعد آپ نے پہلے ہاتھ اٹھا کر ایک لمبی دعا کرائی اور پھر کچھ ہدایات دینے کے بعد فرمایا،’ سجدے میں گر کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرنااپنے اندر مخصوص برکات رکھتا ہے۔لہذا اب میں سجدے میں گر کر دعا کروں گا۔احباب بھی میرے ساتھ سجدہ کریں۔‘چنانچہ خلیفہ وقت کے آستانہ الوہیت پر گرتے ہی تمام جبینیں سجدہ ریز ہو گئیں۔اور فضا میں درد وکرب سے بھری ہوئی صداؤں سے کہرام مچ گیا۔(۲۴)
جلسے کے دوسرے روز حضورؓ نے قادیان سے نکلنے کے پس منظر اور قادیان کی واپسی کے متعلق خدائی وعدوں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ہمارے اصل مرکز قادیان سے دائمی طور پر جدا نہیں رکھ سکتی۔ہم نے خدائی ہاتھ دیکھے ہیں اور آسمانی فوجوں کو اترتے دیکھا ہے۔اگر ساری طاقتیں بھی خدائی تقدیر کا مقابلہ کرنا چاہیں۔تو وہ یقیناََ ناکام رہیں گی۔اور وہ وقت ضرور آئے گا جب قادیان پہلے کی طرح جماعتِ احمدیہ کا مرکز بنے گا۔پھر آپ نے وقفِ زندگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ سلسلہ کی اہم ترین ضروریات میں سے ایک وقف ِزندگی کی تحریک ہے۔کچھ عرصہ سے اس اہم تحریک کی طرف سے احبابِ جماعت کی توجہ ہٹ گئی ہے۔لوگ زمینیں خریدنے اور تجارتوں کو وسیع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔حالانکہ بغیر وقفِ زندگی کے جماعت کے کام نہیں چل سکتے۔اس لئے نوجوانوں کو چاہئیے کہ وہ خدمتِ اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں۔(۲۵)
اس تاریخی جلسے میںسترہ ہزار افراد شامل ہوئے۔انتظامات نا کافی ثابت ہوئے اور بہت سے مہمانوں کو تاخیرسے کھانا ملنے کی وجہ سے تکلیف اٹھانی پڑی ،رہائش کے مسائل اس کے علاوہ تھے۔مشکلات کا اندازہ اس سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے ہی دن نو با ورچی بیہوش ہو گئے۔لیکن کسی مہمان کے لبوں پر حرفِ شکایت نہ آیا ۔
ربوہ کو آباد کرنے کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ یہ پیش آرہی تھی کہ اب تک پینے کے قابل پانی نہیں نکلا تھا۔ ربوہ سے لاہور واپسی سے ذرا قبل حضرت مصلح موعودؓ کو الہام ہؤا
جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب
پاؤں کے نیچے سے میرے پانی بہا دیا
حضورؓ نے ۲۲ اپریل ۱۹۴۹ئکے خطبہ میں اس الہام کو بیان فرمایا اور فرمایا
’اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ الہام کس رنگ میں پورا ہو ۔ممکن ہے کہ ہمیں نہر سے پانی مل جائے یا دریا سے پانی لے لیا جائے ۔۔بہر حال یہ ایک نہایت خوشکن الہام ہے۔‘(۲۶)
اس الہام کے کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب بور کیا گیا اور ربوہ میں ایسا پانی مل گیا جو پینے کے قابل تھا۔اس طرح یہ با برکت جلسہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ اس خوش خبری پر اختتام پذیر ہؤا۔
کچے مکانات کی تعمیر:
اس جلسے کے بعد جلسے کے لئے بنائی گئی بیرکوں کو تقسیم کر کے چھوٹی چھوٹی رہائش گاہیں بنائی گئیں۔اور کچے مکانات اور دفاتر کی تعمیر شروع کر دی گئی۔(۲۲)ایک ایک کرکے کارکنان ربوہ منتقل ہونا شروع ہوئے۔ان کے اہلِ خانہ بھی نئے مرکز میں منتقل ہونے لگے۔جب نئے آنے والے ربوہ پہنچتے تو انہیں سنگلاخ پہاڑیوں میں گھری ہوئی ایسی وادی نظر آتی جس میں دور دور تک کسی درخت یا سبزے کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ایک چٹیل میدان تھا جس کی سطح پر کلر کی وافر مقدار اس کے نا قابلِ زراعت ہونے کا یقین دلا رہی ہوتی۔ایک جگہ پر چند کچے مکانوں کی موجودگی سے معلوم ہوتا تھا کہ کچھ لوگ اس بے آب و گیاہ وادی کو بسانے کی کوشش کرر ہے ہیں۔ان کچے مکانوں کے اندر اس دور کی بنیادی ضروریات بھی موجود نہیں تھیں۔باہر تو دروازے لگے ہوئے تھے مگر گھروں کے اندر کمروں کے درمیان دروازے تک موجود نہیں تھے۔اکثر گھروں میں بیٹھنے کے لئے ایک کرسی بھی موجود نہیں تھی۔کھانے کا وقت آتا تو زمین پر چٹائی بچھا کر کھانا کھا لیا جاتا۔سقہ دور سے پانی کی مشکیں بھر کر لاتا جسے مٹکوں میں استعمال کے لئے محفوظ کرلیا جاتا۔عام دنوں میں جب لوگ کچے راستوں پر نکلتے تو پاؤں مٹی میں دھنس رہے ہوتے۔اگر بارش ہوجاتی تو کیچڑ جوتوں سے چمٹ کر چلنا دوبھر کر دیتا۔یہاں پر نہ درخت تھے اور نہ ابھی عمارتیں بنی تھیں۔ایسی حالت میں آندھیاں بہت آتی تھیں ۔جب آندھی آتی تو سب گھروں کے اندر جانے کی کرتے۔بسا اوقات آندھی اتنی شدید ہوتی کہ صحنوں میں پڑی ہوئی چارپائیوں اور بستروں کو اڑا کر لے جاتی۔بعدمیں یہ اشیاء کافی فاصلے پر پڑی ہوئی ملتیں۔شام پڑتے ہی لوگ اپنے گھر کی لالٹینوں کو درست کر نے لگتے تا کہ رات کو روشنی کا انتظام ہو سکے۔لڑکوں کا اسکول چنیوٹ میں تھا ۔اور لڑکیوں کے لئے اسکول کی ایک کچی عمارت بنائی گئی تھی۔ربوہ میں آباد ہونے والوں میں ایسے بھی تھے جو اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہ چکے تھے،انگلستان اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں رہ چکے تھے،جو اب بھی وسیع جائیدادیں رکھتے تھے اور بڑے شہروں میں مکانات کے مالک تھے۔وہ اس سے پہلے اس قسم کی زندگی کے عادی نہیں تھے اور اب بھی اگر چاہتے تو کسی بڑے شہر میں آرام کی زندگی گذار سکتے تھے۔ان میں سے اکثر اس بات کا قانونی حق رکھتے تھے کہ مشرقی پنجاب میں چھوڑے ہوئے مکانات کے بدلے پاکستان میں کوئی مناسب مکان حاصل کر لیں۔لیکن وہ اپنی مرضی اور خوشی سے اس زندگی کو اختیار کر رہے تھے تا کہ ان کے امام کی خواہش کے مطابق جماعت کا نیا مرکز جلد آباد ہو ۔وہ ان حالات میں بھی مطمئن اور مسرور تھے۔
حضرت مصلح موعودؓ کی مستقل تشریف آوری:
جماعت کی تاریخ میں ۱۹ ستمبر ۱۹۴۹ء کا دن ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔اس سے قبل حضور کئی مرتبہ ربوہ تشریف لے جا چکے تھے لیکن ابھی تک حضورؓ کی سکونت رتن باغ لاہور میں ہی تھی۔اس تاریخ کو حضور مستقل رہائش کے لئے ربوہ تشریف لے آئے۔حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی حضورؓ کے ساتھ ہی ربوہ تشریف لائیں۔چناب کا پل اتر کر حضورؓ نے گاڑیاں رکوا دیں اور قافلے کے شرکاء کے ہمراہ قبلہ کی طرف منہ کر کے ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا دہرائی۔ ۔یہ دعا کئی دفعہ نہایت سوز اور رقت سے دہرائی گئی۔اس کے بعد سب دوبارہ موٹروں میں سوار ہو کر ربوہ میں اس وقت بنے ہوئے مکانات کی طرف روانہ ہوئے۔اہل ربوہ اور ارد گرد سے آئے ہوئے سینکڑوں احمدی ایک شامیانہ کے نیچے حضورؓ کا استقبال کرنے کے لئے جمع تھے۔ناظرِ اعلیٰ حضرت مرزا عزیز احمد صاحب اور دیگر بزرگان نے حضورؓ کا استقبال کیا۔اس وقت حضور وہی دعا دہرا رہے تھے۔نمازِ ظہر کے بعد حضور نے فرمایا کہ میں امید رکھتا تھا کہ آنحضرتﷺ کی ہجرت کی سنت کو سامنے رکھ کر آپ لوگ رستہ تک آگے آکر استقبال کریں گے۔تا کہ ہم متحدہ دعاؤں کے ساتھ ربوہ کی سرزمین میں داخل ہوتے۔مگر آپ نے ایسا نہیں کیا ۔اس لئے اب میں اس کمی کو پورا کرنے کے لئے پھر اس دعا کو دہراتا ہوں۔اور سب دوست بلند آواز سے میرے پیچھے اس دعا کو دہراتے جائیں۔چنانچہ سب احباب نے حضورؓ کی اتباع میں یہ دعا دہرائی۔حضور کے لئے ایک دو منزلہ کچا مکان تیار کیا گیا تھا اور اس کے قریب ہی ایک کھلے چھپر کی صورت میں نماز پڑھنے کے لئے جگہ تیار کی گئی تھی۔اب ربوہ کی آبادی ایک ہزار نفوس تک پہنچ چکی تھی۔حضرت مصلح موعود ؓ کی با برکت آمد کے ساتھ ہی اب ربوہ با قاعدہ طور پر جماعت کا مرکزبن گیا تھا۔
آہستہ آہستہ ربوہ کا منظر بدلنا شروع ہؤا۔سب سے پہلے بننے والی پکی عمارت مسجد مبارک تھی۔پھر ایک ایک کر کے کچی عمارتوں کی جگہ پکی عمارتیں نظر آنے لگیں۔محلے آباد ہونے لگے ۔ربوہ پھیلنے لگا۔۱۹۵۴ء میں ربوہ میں بجلی کی سہولت بھی مہیا ہو گئی۔دفاتر کی وسیع عمارتیں تعمیر ہوئیں۔ایک کے بعد دوسری مسجد بننے لگی۔لق و دق زمین کی جگہ کہیں کہیں سبزہ نظر آنے لگا ۔پھر اس زمین پر جسے سائنسی طور پر کچھ بھی اگانے کے قابل نہیں سمجھا گیا تھا،طرح طرح کے درخت اگنے لگے۔اب ربوہ کا منظر بدل رہا تھا ۔حضرت مصلح موعود کی پیدائش سے قبل حضرت مسیح موعودؑ کو الہاماََ بتایا گیا تھا کہ پیدا ہونے والا موعود بیٹا اپنے کاموں میں اولوالعزم ہو گا۔یہ وصف پورے طور پر ظاہر نہیں ہو سکتا تھا جب تک ایسے حالات پیدا نہ ہوں جن میں ہر طرف مایوسی کے بادل چھا رہے ہوں اور تمام دنیاوی اسباب منقطع ہو چکے ہوں۔تقسیمِ ملک کے وقت پیدا ہونے والے حالات اور پھر ہجرت کے واقعات اور اہلِ قادیان کا بخیروعافیت وہاں سے نکل آنا اور پھر بغیر کسی تاخیر کے نظامِ جماعت کا ایک بار پھر جاری ہو جانا ۔اور با وجود تمام مشکلات کے نئے مرکز کا آباد ہونا ،یہ سب واقعات گواہی دے رہے ہیں کہ خدا کے پاک مسیح کی پیشگوئی سچی نکلی ۔وہ موعود بیٹا یقیناََ اولو العزم تھا۔
مخالفین کا حسد:
جماعت کے مخالفین کو خود تو توفیق نہ ہوئی کہ وہ آنے والے مہاجرین کے لئے کوئی بستی آباد کرتے۔البتہ جب ربوہ آباد ہونا شروع ہؤا تو یہ امر ان کے حسد میں اضافے کا باعث ضرور بن گیا۔اور جماعت کے مخالف اخبارات نے ربوہ کے متعلق بہت کچھ لکھنا شروع کیا۔اخبار آزاد نے اپنی ۲۰ نومبر ۱۹۵۰ء کی اشاعت میں ربوہ کے نام سے ایک مضمون شائع کیا۔اس کے آغاز پر اپنے اعتراضات کا یہ خلاصہ جلی حروف میں شائع کیا
’لوگ حیران ہیں کہ انگریز گورنر کو قادیانیوں سے کیا انس تھا۔اور اسے کیا ضرورت تھی کہ حکومت کی پالیسی پریس کی رائے اور عوام کے فائدے کے خلاف انہیں برائے نام قیمت پر زمین دے کر جدا شہر آباد کروایا۔اور چند دنوں کے اندر ہی سڑک سٹیشن اور دیگر تمام ضرورت کے اہتمام کا انتظام کیا۔فرانسس مودی کے اس عمل اور قادیانی جماعت کی گذشتہ تاریخ کی روشنی میں اگر ہم یہ کہیں کہ ربوہ پاکستان میں انگریز کا کھونٹا ہے تو بے جا نہ ہو گا‘(۲۷)
اول تو انگریز گورنر کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہ تھا۔زمین کی فروخت کی کاروائی ڈپٹی کمشنر کی سطح سے شروع ہوتی تھی اور وہ مسلمان تھے۔پنجاب میں مسلم لیگ کی وزارت قائم تھی اور زمین اس حکومت کی طرف سے فروخت کی گئی تھی۔یہ الزام کہ یہ زمین حکومت کی پالیسی کے برخلاف فروخت کی گئی تھی مضحکہ خیز ہے کیونکہ حکومت ہی نے تو یہ زمین فروخت کی تھی۔اور اس کا اعلان اپنے گزٹ میں شائع کیا تھا۔یہ موشگافی بھی خوب ہے کہ ربوہ کو چند دن کے اندر سڑک مہیا کی گئی تھی کیونکہ ربوہ کو سڑک مہیا نہیں کی گئی تھی،بلکہ ربوہ کو ایک سڑک کے اوپر بنایا گیا تھا۔یہ سڑک تو ربوہ کے بننے سے کئی دہائیاں قبل ہی بن چکی تھی۔اور رہی ربوہ کی اندرونی سڑکیں تو وہ تو اس معرکۃ الآراء مضمون کی اشاعت کے بیس سال بعدبنی تھیں۔اس مضمون میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ربوہ کے لئے تمام ضروریات کا اہتمام چند روز میں کر دیا گیا تھا ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک تو ربوہ میں بجلی کی سہولت بھی موجود نہیں تھی۔اور رہا یہ الزام کہ ربوہ پاکستان میں انگریزوں کا کھونٹا ہے اور احمدی انگریزوں کے ایجنٹ ہیں تو ہم اس کا جائزہ ذرا ٹھہر کر لیں گے لیکن یہ یاد کراتے جائیں کہ چند برس قبل احراری یہی الزام مسلم لیگ کے لیڈروں کے متعلق لگا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ مسلم لیگ کے لیڈر انگریزوں کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔
(۱)تاریخ ِ احمدیت جلد ۱۱ ص۲۸۱تا ۲۸۶ (۲) الفضل جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۶۴ء ص۸
(۳)الفضل ۲۱ دسمبر ۱۹۴۱ء ص۳ (۴)الفضل جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۶۴ء
(۵)الفضل ۷ جون ص۵ (۶)باجوہ خاندان ص۷۷
(۷)الفضل ۱۸ صلح ۱۳۴۸ہش ص ۲(۸) تاریخِ احمدیت جلد ۱۱ص۲۹۰۔۲۹۱
(۹)الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۴۹ء ص۳(۱۰) روزنامہ پرتاب ۱۸ جون ۱۹۳۹ء ص۹
(۱۱)روزنامہ پرتاب ۹ جون ۱۹۳۹ء ص ۷(۱۲)الفضل ۴ اگست ۱۹۴۸ء ص۱
(۱۳)انقلاب ۳۱ اگست ۱۹۴۸ء (۱۴) رجسٹر ریزولیشن صدر انجمن احمدیہ پاکستان
(۱۵)تعمیرِ مرکز ربوہ کے ابتدائی حالات اور ایمان افروز واقعات مصنفہ خان عبد الرزاق مطبع ضیا ء الاسلام پریس ربوہ ص۲۴تا ۲۸
(۱۶)سورۃ المومنون آیت۵۱(۱۷)الفضل ۲ اکتوبر۱۹۴۸ء ص۵
(۱۸)الفضل سالانہ نمبر ۱۹۶۴ء ص۶(۱۹)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۴۸ئ۔۱۹۴۹ء
(۲۰)الفضل ۱۷ اکتوبر ۱۹۴۸ء ص۴
(۲۱) رجسٹر کاروائی مجلس ناظران و وکلاء رجسٹر ۲ ص۴۲ ،تاریخ ۴۹۔۱۔۱۵
(۲۲) انٹرویو لطیف اوور سیئر صاحب ،یہ انٹرویو ایم ٹی اے پاکستان سٹوڈیو نے ریکارڈ کیا
(۲۳)روزنامہ الفضل ۲۷ مارچ ۱۹۴۹ء ص۴(۲۴) الفضل ۲۰ اپریل ۱۹۴۹ء ص۳
(۲۵) الفضل ۲۰ اپریل ۱۹۴۹ء ص ۴(۲۶) الفضل ۱۸ اگست ۱۹۴۹ء ص۵
(۲۷)آزاد ۲۰ نومبر ۱۹۵۰ء ص۲

تبلیغِ اسلام کے نئے میدان
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی مشہور نظم’نو نہالانِ جماعت سے خطاب ‘کا ایک شعر ہے
عسر ہو یسر ہو تنگی ہو کہ آسائش ہو
کچھ بھی ہو بند مگر دعوتِ اسلام نہ ہو
یہ صرف ایک شعر یا جذبات کا اظہار نہیں تھا۔حضورؓ نے خطرناک ترین حالات میں اس پر عمل کر کے دکھایا اور آپ کی قیادت میں جماعت نے اس کو اپنا لائحہ عمل بنایا۔تقسیمِ ملک کے معاََ بعد جماعت کو ہر قسم کی مشکلات کا سامنا تھا۔قادیان میں محصور احمدیوں کی جانیں خطرے میں تھیں۔ بہت سے شہید ہو چکے تھے۔نئی جگہ پر نظامِ جماعت کو پھر سے قائم کرنا ایک طویل جد و جہد کا تقاضا کر رہا تھا۔نئے مرکز کو آباد کرنے کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی ہو رہی تھیں۔مالی وسائل کی شدیدکمی کا سامنا تھا۔یہاں تک کہ ایک وقت میںیہ پابندی بھی لگانی پڑی کہ کوئی ایک روٹی سے زیادہ نہ کھائے۔ربوہ بنا تو خلیفہ وقت کی رہائش بھی کچے مکان میں تھی۔قادیان کی جدائی کے زخم ابھی بالکل تازہ تھے۔دل زخموں سے چور سہی،سب مشکلات اپنی جگہ پر لیکن ایک فرض تھا جس سے جماعت کسی قیمت پر غافل نہیں ہو سکتی تھی۔اور وہ فرض پوری دنیا میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا پیغام پہنچانے کا فرض تھا۔چنانچہ ان حالات میں بھی صرف اگست ۱۹۴۷ء سے لے کر ۱۹۴۸ء کے آخر تک دس مبلغین برِ صغیر سے باہر روانہ کئے گئے۔اور ان مبلغین نے اٹلی ، برطانیہ ، ارجنٹائن، نائیجیریا، سیرالیون ، غانا اور مشرقی افریقہ پہنچ کر تبلیغِ اسلام کا فریضہ ادا کرنا شروع کیا۔اس کے علاوہ نئے ممالک اور علاقوں میں مشنوں کا قیام عمل میں آیا۔ہم مختصراََ ان نئے مشنوں کے قیام کا جائزہ لیتے ہیں۔
جرمنی:
جرمنی میں پہلی مرتبہ جماعت کا مشن دسمبر ۱۹۲۳ء میں مولوی مبارک علی صاحب بنگالی اور ملک غلام فرید صاحب کے ذریعہ قائم ہؤا تھا مگر مئی ۱۹۲۴ء میں اسے بند کرنا پڑا تھا۔دوسری جنگِ عظیم کے معاََ بعد جرمنی جنگ کی تباہ کاریوں سے سنبھل رہا تھا۔جنوری ۱۹۴۹ء میں جماعت کے مبلغ مکرم چوہدری عبد الطیف صاحب مشن قائم کرنے کے لیئے جرمنی میں پہنچے اور ہمبرگ میں جماعت کا مشن قائم کیا۔چند جرمن باشندوں نے سویٹزرلینڈ میں احمدیت کو قبول کیا تھا۔ان میں سے ایک نو مسلم عبدالکریم ڈنکر صاحب نے اخلاص و وفا کے ساتھ تبلیغی کوششوں میں چوہدری عبد الطیف صاحب کا ہاتھ بٹانا شروع کیا۔پہلے سال میں چند آدمیوں کی ایک مختصر جماعت قائم ہوئی۔چوہدری صاحب کا قیام ایک نو احمدی کے گھر میں تھا ،اس شخص نے جماعت سے علیحدگی اختیار کر کے ملک میں آپ کا رہنا دوبھر کر دیا ۔اس کے بعد آپ کو رہائش کی شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑا۔۱۹۵۲ء تک صرف ہمبرگ میں جماعت تھی،۱۹۵۲ء میں نیورمبرگ میں بھی تین نفوس پر مشتمل جماعت بنی۔اور ایک نومسلم عمر ہوفر(Hoffer) صاحب وہاں پر آنریری مبلغ مقرر ہوئے۔
سکاٹ لینڈ:
یہ برطانیہ عظمیٰ کا سب سے شمالی حصہ ہے۔نسلی طور پر اس کے لوگوں میں سیلٹک سکاٹ (Celtic Scots) اور اینگلو سیکسن (Anglo Saxon)کے خون کی آمیزش ہے۔یہاں کی اکثریت عیسائی ہے اور سکاٹ لینڈ کا سب سے بڑا چرچ ،چرچ آف سکاٹ لینڈ ہے۔اس کے علاوہ رومن کیتھولک چرچ اور Scottish Episcopal Churchکا بھی اثرو رسوخ ہے۔دوسری جنگِ عظیم کے دوران، جن دنوں میں لندن پر شدید بمباری ہو رہی تھی،دو سکاٹش باشندوں مس وائٹ لو(Whitelow)اور مسٹر فیرشا(Fareshaw)نے لندن میںبیعت کی تھی۔سکاٹ لینڈ میں با قاعدہ مشن کے قیام کی سعادت انگریز احمدی مبلغ مکرم بشیراحمد آرچرڈ صاحب کو حاصل ہوئی۔آپ نے ۱۹۴۹ء میں سکاٹ لینڈ کے سب سے بڑے شہر گلاسکو میں جماعت کا مشن قائم کیا۔ابتدائی دنوں میں وہاں پر مقیم کچھ پاکستانی احمدیوںاور چند افریقی طالب علموں کو تبلیغ کی گئی اور یونیٹیرین چرچ میں آنحضرت ﷺ کی تعلیمات پر لیکچر دینے کا موقع ملا۔(۱)
شروع کے مہینوں میں آرچرڈ صاحب کی تبلیغی سرگرمیاںگلاسکو تک محدود تھیں یہاں پر تبلیغی میٹنگوں کا سلسلہ شروع ہؤا۔ اور پہلے دو ماہ میں ایک پاکستانی کے علاوہ ایک سکاٹش عبد الحق پنڈر (Pinder)جماعت میں داخل ہوئے۔ (۲۔۳)آپ نے گلاسکو میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت شروع کی اور سائیکلوسٹائل مشین پر ایک رسالہ مسلم ہیرلڈ بھی نکالنا شروع کیا۔کئی لوگ آپ کے دیئے ہوئے اشتہار دیکھ کر سخت برہم ہوتے اور بعض تو ان کو پھاڑ کر پھینک دیتے۔آپ نے استقلال سے تبلیغ کو جاری رکھا۔ساڑھے تین سال بعد آپ کومبلغ بنا کر ٹرینیڈاڈ بھجوا دیا گیا۔(۴)
اردن:
اردن کا ملک دوسری جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ کے تسلط سے آزاد ہو گیا تھا۔اور عبد اللہ بن حسین اس کے بادشاہ مقرر ہوئے تھے۔یہاں پر پہنچنے والے پہلے مبلغ مکرم رشید احمد صاحب چغتائی تھے جو پہلے فلسطین میں بطور مبلغ کام کر رہے تھے اور پھر حیفا سے اردن آگئے۔اس وقت فلسطین کے حالات خراب تھے اور حیفا سے کچھ احمدی بھی ہجرت کر کے اردن میں غریب الوطنی کے دن گذار رہے تھے۔چغتائی صاحب کو بھی ایک احمدی کے ساتھ مل کرایک کرایہ کا کمرہ لے کر تنگی سے گذارا کرنا پڑا۔اردن میں آپ کا قیام سوا سال رہا ۔اس دوران آپ نے اردن کے بادشاہ سے ملاقات کر کے انہیں حضورؓ کا پیغام پہنچایا اور کئی با اثر شخصیات سے بھی ملاقات کی۔بعض اخبارات اور جرائد نے بھی آپ کی تبلیغی مساعی کا ذکر کیا۔اردن کے پہلے احمدی الکرک شہر کے عبد اللہ محمد المعایطہ اور ان کے اہلِ خانہ تھے۔
مسقط:
مسقط میں جانے والے پہلے مبلغ مکرم مولوی روشن دین صاحب تھے۔جو ایک پاکستانی احمدی کے ساتھ فروری ۱۹۴۹ء میں مسقط گئے ۔یہ پاکستانی احمدی وہاں پر فوڈ آفیسر تھے۔مولوی روشن دین صاحب کو مرکز کی طرف سے خرچ نہیں ملتا تھا۔وہ ملازمت کر کے اخراجات برداشت کرتے۔مگر تبلیغ کی پاداش میں انہیں کئی دفعہ ملازمت سے برخواست کیا گیا۔آپ ۱۹۶۱ء تک وہاں پر اس طرح خدمات بجا لاتے رہے۔
(۱)الفضل۲۰ مارچ ۱۹۴۹ء ص۴(۲)الفضل ۱۹ مئی ۱۹۴۹ء ص۵(۳) الفضل ۱۲ جون ۱۹۴۹ء ص۲(۴)الفضل ۲۲ اکتوبر ۱۹۵۲ء ص۱
ٹرنیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو:
یہ دو جزائر جنوبی امریکہ کے انتہائی شمالی ساحل کے قریب واقع ہیں۔۱۸۹۷ء سے ان دونوں پر برطانیہ کا قبضہ تھا اور ۳۱ اگست ۱۹۶۲ء کو یہ ایک آ زاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوئے۔اس چھوٹے سے ملک کا کل رقبہ ۱۹۸۰ء مربع میل ہے اور یہاں کی اکثریت افریقی باشندوں کی ہے۔اور ان کے علاوہ ہندو،یورپین،چینی بھی یہاں آباد ہیں۔یہاں پر بسنے والوں کی اکثریت عیسائی ہے۔
یہاں پر سب سے پہلے احمدیت کا پیغام ۱۹۲۴ء میں پہنچا۔وہاں ایک احمدی دوست مکرم شیخ ابراہیم منڈیزی (Mandazi)مقیم تھے جو اپنے طور پر تبلیغ کرتے رہتے تھے۔اور قادیان سے خط و کتابت سے رابطہ بھی رکھتے تھے۔اُس وقت ان کے علاوہ بعض اور احمدی مثلاََ داراب خان صاحب ،مسٹر ولیم بارکر اور مسٹر سٹوارٹ عبد الصادق بھی وہاں پر مقیم تھے۔اور اسی وقت سے وہاں پر احمدیت کی مخالفت بھی شروع ہو گئی تھی۔
یہاں پر باقاعدہ مشن کا آ غاز مکرم محمد اسحٰق صاحب ساقی کے ذریعہ ہؤا،جو ۷ مئی ۱۹۵۲ء کو ٹرینیڈاڈ پہنچے ۔اور وہاں پر انفرادی رابطوں اور پبلک لیکچروں کے ذریعہ کچھ عرصہ تبلیغ کی۔نومبر ۱۹۵۲ء میں مکرم بشیر آرچرڈ صاحب ،جو اس سے پہلے سکاٹ لینڈ میں بطور مبلغ کام کر رہے تھے ،ٹرینیڈاڈ میں پہنچے۔مکرم محمداسحٰق صاحب کے زمانے میں زیادہ تر تبلیغ مسلمانوں میں کی جا رہی تھی مگر مکرم بشیر آرچرڈ صاحب نے عیسائیوں میں بھی اسلام کی تبلیغ کا کام زیادہ مؤثر انداز میں شروع کیا۔اور ۱۹۵۳ء میں ایک رسالہ ’احمدیت ‘کے نام سے جاری کیا گیا۔ اور جنوری ۱۹۵۳ء میں حضور ؓ کی منظوری سے عہدیداران کا انتخاب عمل میں آیااور اس طرح نظامِ جماعت قائم کیا گیا۔اس ملک میں احمدیت کے فروغ کے لئے ضروری تھا کہ وہاں کے مقامی احمدی مرکز آ کر دینی تعلیم حاصل کریں اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد احمدیت کی تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیں۔چنانچہ دسمبر ۱۹۵۴ء میں وہاں سے مکرم محمد حنیف یعقوب صاحب ربوہ آئے اور جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا۔اور ۱۹۵۸ء میں وطن واپس جا کر اپنی عملی خدمات کا آ غاز کیا۔
۱۹۶۰ء کے آغاز پر ٹرینیڈاڈ میں لکڑی اور ٹین کی ایک چھوٹی سی مسجد بنائی گئی،جس کا نام مسجد احمدیہ رکھا گیا۔۱۹۶۰ء میں مکرم بشیر آرچرڈصاحب کو برٹش گیانا میں مبلغ مقرر کیا گیا اور مکرم محمد حنیف صاحب ٹرینیڈاڈ کے مشنری انچارج مقرر ہوئے۔
حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال
حضرت اماں جانؓ کا وجود جماعت کے لئے بہت سی برکات کا باعث تھا۔آپ حضرت مسیح موعود ؑ اور جماعت کے درمیان ایک زندہ واسطہ تھیں۔آپ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رفاقت کے لئے منتخب فرمایاتھا۔اور آپ سے شادی سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہؤا تھا’ اُشْکُرْ نِعْمَتِیْ رَئَیْتَ خَدِیْجَتِی‘میراشکر کر تو نے میری خدیجہ کو پا لیا۔(۱)۱۹۴۷ء کے حالات اور قادیان سے جدائی پوری جماعت کی طرح آپ کے لئے بھی صدمے کا باعث تھی لیکن آپ نے اس ابتلاء کو بلند حوصلے کے ساتھ برداشت کیا۔ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا آپ کی عظیم شخصیت کا ایک نمایاں وصف تھا۔جب حضرت مسیح موعود ؑ کا وصال ہؤا تو آپ نے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن کہا اور خاموش ہو گئیں۔ بعض مستورات نے رونا شروع کیا ،تو آپ نے انہیں ڈانٹ کر فرمایا کہ میرے تو خاوند تھے میں نہیں روتی تم رونے والی کون ہو ۔بچوں کی وفات اکثر ماؤں کے صبر کا امتحان بن جاتی ہے۔جب آپ کا پہلا بیٹابشیر اول فوت ہونے لگا تو اس وقت نماز کاوقت آگیا۔تو آپ نے فرمایا کہ میں اپنی نماز کیوں قضاء کروں اور نماز پڑھنی شروع کر دی۔اسی دوران بچے کی وفات ہو گئی۔ جب صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کی وفات ہوئی اور حضرت مسیح موعودؑ نے آپ کو فرمایا کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے تو آپ نے شکر و رضا کا اظہار کیا اور کہا الحمد للہ میں تیری رضا پر راضی ہوں۔ آپ کے اس صبر پر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظریں پڑتی تھیں۔چنانچہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعودؑ کو رؤیا میں دکھایا گیا کہ حضرت اماں جانؓ کہتی ہیں کہ میں نے خدا کی مرضی کے لئے اپنی مرضی چھوڑ دی ہے۔اس پر حضرت مسیح موعودؑ جواب میں فرماتے ہیں کہ’ اسی سے تو تم پر حسن چڑھا ہے‘۔جب قادیان سے ہجرت کرنی پڑی تو آپ کی عمر اسی سال سے زیادہ تھی۔یہ صرف جذباتی آزمائش نہیں تھی بلکہ اس صبر آزما دور میں ہر قسم کی مشکلات سے گذرنا پڑ رہا تھا۔آپ کی طبیعت نڈھال رہتی تھی مگر ہمت اور حوصلہ برقرار تھا۔جب حضرت مصلح موعودؓ مستقل سکونت کے لئے ربوہ تشریف لائے تو اس وقت کچے گھروں میں قیام تھا اور آپ کی وفات تک ربوہ میں بجلی بھی نہیں تھی۔لیکن با وجود اس عمر کے آپ حضورؓ کے ہمراہ ربوہ تشریف لے آئیں۔اور باقی احباب کی طرح چند کمروں کے کچے گھر میں قیام فرمایا۔کمزوری بڑھ رہی تھی لیکن ابھی بھی آپ ؓ فجر کے بعد سیر کے لئے تشریف لے جاتیں اور آ کر ناشتہ کر کے لیٹ جاتیں۔جن دنوں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ربوہ تشریف لاتے وہ آپ کو جیپ پر ربوہ سے قریب احمد نگر لے جاتے اور آپ وہاں پر چہل قدمی فرماتیں۔اکثر شام کو آپ گھر کے لڑکوں سے قرآن شریف یا حدیث نبوی ﷺ سنتیں۔(۲۔۳)
حضرت مصلح موعودؓ ۲۶ فروری ۱۹۵۲ء کو سندھ تشریف لے جا رہے تھے۔ایک روز قبل آپ حضرت اماں جان سے ملنے کے لئے تشریف لائے تو آپ کو احساس ہؤا کہ حضرت اماں جان ؓ کو بخار ہے۔آپ نے صاحبزادہ ڈاکٹرمرزا منور احمدصاحب کو کہلابھجوایا کہ آکر حضرت اماں جان کو دیکھ جائیں۔معائنے پر معلوم ہؤا کہ آپ کو بخار ہے ۔علاج شروع کیا گیا۔مگر وقفے سے بخار ہوتا رہا۔ گردوں میں انفکشن کی تشخیص کی گئی ۔لاہور سے کچھ اور ڈاکٹروں کو بھی بلا کر دکھایا گیا مگر بیماری بڑھتی گئی اور کمزوری میں بھی بہت اضافہ ہو گیا۔ آپ کی علالت کے پیشِ نظر۲۶ مارچ کو حضورؓ سندھ میںاپنا قیام مختصر کرکے واپس ربوہ پہنچے۔حضورؓ کی طرف سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کو ہدایت تھی کہ راستے کے سٹیشنوں پر فون کر کے حضرت اماں جان کی طبیعت کے متعلق اطلاع دیتے رہیں۔ہر اسٹیشن پر حضورؓ پیغام کے متعلق دریافت فرماتے۔اور راستے میں بیقراری سے ٹہل کرقرآن شریف کی تلاوت فرماتے رہے ۔اسٹیشن پر حضورؓ نے کسی سے ملاقات نہیں فرمائی اور تیزی سے چلتے ہوئے حضرت اماں جان کے گھر پہنچے اور آپ کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دعائیں شروع کر دیں۔(۴)
علاج جاری تھا مگر بیماری کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔دل میں کمزوری کی علامات ظاہر ہو رہی تھیں اور گردے کام کرنا چھوڑ رہے تھے۔آخر میں بار بار غنودگی رہنے لگ گئی۔ لیکن شدید بیماری کے ایام میں بھی آپ نے کئی مرتبہ خود کہہ کر قرآنِ مجید کی تلاوت سنی۔جب کسی نے طبیعت پوچھی تو جواب میں یہی کہا کہ اچھی ہوں۔۲۰ اپریل ۱۹۵۲ء کی رات کو آپ کی طبیعت یکدم بہت خراب ہو گئی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اپنی عظیم والدہ کے سرہانے بیٹھے دعائیں فرمارہے تھے۔اسی دوران حضرت اماں جان نے آنکھیں کھول کر آپ کو دیکھا اور دونوں ہاتھ اٹھا کر اشارے سے دعا کے لئے کہا۔حضرت صاحب بڑے سوز اور رقت سے دعائیں کرتے جاتے تھے اور کبھی آپ کی آواز بلند بھی ہو جاتی تھی۔ مگر خالقِ حقیقی کا بلاوا آ چکا تھا۔رات قریباََ ساڑھے گیارہ بجے آپ کی روح اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گئی(۵)۔ حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک الہام ہے یا احمد اسکن انت و زوجک الجنۃ یعنی اے احمد تو اور تیری رفیق جنت میں رہو۔اب اس الہام کے ایک نئے رنگ میں پوارا ہونے کا وقت آ گیا تھا۔
(۱)تذکرہ ،ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ص۲۹
(۲) سیرت حضرت اماں جان مرتبہ شیخ محمود احمد عرفانی و شیخ یعقوب علی عرفانی مطبوعہ انتظامی پریس حیدر آباد دکن ،یکم دسمبر ۱۹۴۳ء ص۱۹۴۸ء
(۳)نصرت الحق مصنف حکیم محمد عبد الطیف صاحب ص۱۰۔۱۳
(۴)انٹرویو صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ بنت حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ
(۵)مصباح مئی جون ۱۹۵۲ء ص۱۲ ۔۱۷
قیامِ پاکستان کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے لیکچر

آزادی کے معاََ بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے پاکستان کے مختلف مقامات پر کچھ اہم موضوعات پر لیکچر دیئے۔ایک نئی مملکت ہونے کی وجہ سے اُس وقت پاکستان طرح طرح کے مسائل اور چیلنجوں میں گھرا ہؤا تھا ۔حضورؓ نے ان لیکچروں میں انہی مسائل کو موضوع بنایا ۔ہم ان میں سے دو اہم لیکچروں کا مختصراََ ذکر کریں گے۔
غیر ملکی قرضے نہ لینے کی نصیحت:
قیامِ پاکستان کے فوراََ بعد ملک کو شدید مالی بحران کا سامنا تھا۔تقسیم کی طے شدہ تفصیلات کے مطابق جو ملک کو اثاثے ملنے چاہئیے تھے وہ ابھی تک نہیں ملے تھے۔اس صورت حال میں فوری طور پر اس بحران سے نمٹنے کے لئے امریکہ سے قرضہ حاصل کرنے کی کوششیں شروع کی گئیں۔آزادی کے پندرہ روز کے بعد ہی وزیرِ خزانہ غلام محمد صاحب نے کراچی میں امریکی ناظم الامور سے غیر رسمی بات چیت میں عندیہ دے دیا تھا کہ پاکستان امریکہ سے قرضہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔اس کے بعد پہلے خصوصی ایلچی اور پھر امریکہ میں پاکستان کے سفیر اصفہانی صاحب نے امریکی بینک اور وزارتِ خارجہ میں اس قرضے کے حصول کے لئے کوششوں کا آغاز کیا۔ابتداء میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔پاکستانی حکومت کی کوشش تھی کہ ایک مالی مشن امریکہ کا دورہ کرکے قرضے کے حصول کے لئے بات چیت کرے ۔مجوزہ قرضے کی رقم کچھ تھوڑی نہیں تھی بلکہ یہ تجویز کیا جا رہا تھا کہ بیس کروڑ سے لے کر ساٹھ کروڑڈالر تک کی رقم کا قرضہ لیا جائے۔ اخباروں میں بھی اس کی بابت خبریں شائع ہورہی تھیں۔(۱)
حضرت مصلح موعودؓ نے ۷ اگست ۱۹۴۷ء کو لاہور میں ایک لیکچر دیا ۔اور اس لیکچر میں حضور ؓ نے ملک کو درپیش مالی مسائل کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ،’لیکن بیرونی سلطنتوں خصوصاََ امریکہ سے قرضہ لینا ہماری آزادی کے لئے زبردست خطرے کا باعث ہوگا لہذاٰ اس کا علاج صرف یہ ہے کہ بیرونی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ لگانے کی مشروط اجازت دی جائے ۔ان فرموں کو چالیس فیصد حصے دیئے جائیں اور چالیس فیصدی حکومت ِپاکستان دے ۔باقی بیس فیصدی حصوں کے مالک پاکستان کے عوام ہوں ۔اس سلسلے میں فرموں سے یہ شرط بھی کی جائے ۔کہ وہ ہمارے حصے داروں کو ساتھ کے ساتھ ٹریننگ دیں گے،‘یہ لیکچر فیروز خان نون صاحب کی صدارت میں ہؤا۔جو بعد میں ملک کے وزیرِ اعظم بھی بنے۔زمیندار جیسے مخالف اخبار نے اس لیکچر کی خبر اس سرخی کے ساتھ شائع کی ’امریکہ سے قرضہ لینا پاکستان کی آزادی کو خطرے میں ڈالنا ہے۔‘اور اپنی رپورٹ میںاس لیکچر کو پاکستان کی زراعت ،اقتصادیات اور معاشیات پر ایک فصیح و بلیغ لیکچر قرار دیا۔اگلے لیکچر میں حضور ؓ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہؤا ہے کہ قرضے کی وہ شکل نہیں ہو گی جو اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔تاہم میرے نزدیک اس تجویز پر عمل کرنے سے قبل متعدد اہم امور پر غور کرنا ضروری ہے۔اور ان امور کی وضاحت کرتے ہوئے اس امر پر بھی زور دیا کہ اس تجویز کے متعلق ملک کی اسمبلی کی منظوری حاصل کر لینی چاہئیے۔(۲۔۳)
واضح رہے کہ یہ انتباہ ا’س وقت کیا گیا تھا جب کہ ابھی پاکستان نے امریکہ یا کسی اور جگہ سے ایک قرضہ بھی حاصل نہیں کیا تھا ۔ اس لیکچر کے کچھ دن کے بعد ۱۷ دسمبر کو امریکہ نے پاکستان کو قرضہ دینے سے حتمی انکار کر دیا۔لیکن افسوس حکومتِ پاکستان کی ترجیحات میں قرضوں کا حصول بدستور شامل رہا ۔اور بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ جب قرضے ملنے لگے تو بغیر کسی منصوبہ بندی کے ملک پر اتنے قرضوں کا بوجھ ڈال دیا گیا کہ وہ تمام خدشات درست ثابت ہوئے جن کا اظہار حضورؓ نے اپنے لیکچر میں فرمایا تھا ۔اور اس وقت کوئی آواز قرضہ لینے کے خلاف نہیں اُٹھ رہی تھی۔
قرضوں کا بوجھ تیزی کے ساتھ بڑھتا گیا۔۱۹۸۰ء میں بیرونی قرضوں کا بوجھ دس ارب ڈالر تھا۔ ۱۹۹۰ء تک یہ بوجھ بڑھ کر بیس ارب ڈالر ہو چکا تھا۔اور مئی ۱۹۹۸ء تک پاکستان ۴۲ ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کے بوجھ کے نیچے دبا ہؤا تھا۔ملک کی بر آمدات سے کمائے گئے زرِ مبادلہ کا دو تہائی تو محض قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی کی نذر ہوتا رہا ہے (۴)۔بجٹ کا سب سے بڑا حصہ قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتا ہے۔۰۵ـــ۔۲۰۰۴ کے مالی سال میں ۲۶۵۳۳۰ ملین روپے debt servicingپر خرچ ہوئے جبکہ ترقیاتی اخراجات پر اس سے تقریباََ نصف رقم خرچ کی گئی ۔اس صورتِ حال کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کی ترقی بری طرح متاثر ہوئی کیونکہ بجٹ کا بڑا حصہ تو قرضوں اور سود کی ادائیگی میں خرچ ہورہا ہے (۵)۔اور جو قرضے لئے گئے تھے وہ بھی صحیح طور پر استعمال نہیں کئے گئے۔اور پھر ان قرضوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے لینے پڑے ۔جس کے نتیجے میں بوجھ بڑھتا ہی گیا۔اور جیسا کہ حضور ؓ نے انتباہ فرمایا تھا ،اس کے نتیجے میں ملک کی حقیقی آزادی بھی گروی رکھنی پڑی۔جب ایک مقروض حکومت اپنی پالیسی بنانے کے لئے بیٹھتی ہے تو اسے ان ممالک اور عالمی اداروں کی ہدایات کی پیروی کرنی پڑتی ہے جن کے دیئے گئے قرضوں کے تلے ملکی معیشت کی کمر دوہری ہو رہی ہے۔
پاکستان میں اسلامی آئین:
پاکستان کی آزادی کے بعد جب آئین سازی کا سوال ا’ٹھا تو خاص طور پر مذہبی جماعتوں کی طرف سے یہ مطالبہ زورسے پیش کیا گیا کہ پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ،اس لئے یہاں پر ایک اسلامی آئین نافذ ہونا چاہئیے۔یہ جماعتیں انتخابات میں کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہیں کر سکی تھیں اور انہوں نے قیامِ پاکستان کی مخالفت بھی کی تھی۔ان وجوہات پر انہیں عوام کی اکثریت کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ بہر حال ۱۹۴۷ء کے آخر تک یہ سوال ایک اہمیت اختیار کر چکا تھا اور بہت سے ذہنوں میں اس بابت سوال اُٹھ رہے تھے۔حضورؓ نے دسمبر ۱۹۴۷ء میں ایک مجلسِ عرفان میں اس سوال پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا ،
’اسلامی احکام یہ ہیں کہ ہر قوم کو اپنے مذہب کی ہدایات پر چلنے کی اجازت ہے۔ قرآنِ مجید میں صاف طور آتا ہے کہ مذہب سے تعلق رکھنے والے امور کے متعلق اہلِ انجیل کو انجیل کی تعلیم کے مطابق اور اہلِ تورات کو تورات کی تعلیم کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں۔یہ اصول تمام دیگر مذاہب کے متعلق چسپاں ہو گا۔پس جہاں تک اپنے اپنے مذہب کے طریق پر چلنے اور اس کے مطابق فیصلہ کرنے کا سوال ہے۔اسلام کسی مذہب میں بھی دخل اندازی نہیں کرتا۔اس کا تو صاف حکم ہے کہ کہ ہر شخص کو اپنے اپنے طریق پر چلنے کی اجازت ہے۔‘(۱)
بد قسمتی سے مذہبی جماعتوں کے ذہنوں میں یہ بات بری طرح چھائی ہوئی تھی کہ دینِ اسلام کے مقاصد صرف ایک مذہبی حکومت کے قیام سے ہی پورے ہو سکتے ہیں۔لیکن اسلامی حکومت میں قانون سازی کے بنیادی اصول کیا ہوں گے، اس بنیادی سوال پر بہت کم توجہ کی جاتی تھی۔اسی طرح یہ حقیقت بھی فراموش کردی جاتی تھی کہ اکثرقرآنی احکامات تو انفرادی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ جب تک معاشرے کا ایک بڑا حصہ ان احکامات کی پیروی نہ کر رہا ہو اُس وقت تک محض قانون سازی سے یا ایک حکومت کا نام اسلامی حکومت رکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔جنوری ۱۹۴۷ء میں حضورؓ نے لاہور میں ایک لیکچر دیا جس کا عنوان تھا ’پاکستان کا آئین ‘۔اس میں حضورؓ نے ارشاد فرمایا کہ اسلام کے بیان کردہ قوانین کا ایک حصہ غیر متبدل ہے اور ایک حصہ ایسا ہے جس میںزمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق مناسب تغیر و تبدل کی اجازت دی گئی ہے۔حضورؓ نے قرآنِ کریم سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام نے قانون سازی کے یہ بنیادی اصول مقرر کئے ہیں(۱) ہر قانون حکمت اور دلائل پر مبنی ہونا چاہئیے(۲) ہر نہی کسی نقصان کو دور کرنے کے لئے ہونی چاہئیے(۳)کوئی قانون کسی فردیا کسی پارٹی کو نقصان پہنچانے یا کسی خاص طبقہ کی ترقی میں روک ڈالنے کے لئے وضع نہ کیا جائے(۴) اس بات کو بھی مدِ نظر رکھا جائے کہ ایک قوم کو دوسری قوم پر ناجائز دباؤ ڈالنے کا موقع نہ ملے۔حضور ؓ نے فرمایا کہ اس سلسلے میں اسلام نے سب سے زیادہ زور انفرادی اصلاح پر دیا ہے کیونکہ کوئی قانون قلبی اصلاح کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا ۔ جب تک ایک ملک کے باشندے خود اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ڈھالتے ،اس ملک میں اسلامی آئین جاری نہیں ہو سکتا۔اگر افراد اسلامی احکامات پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جائیں تو پھر اسلامی آئین نافذ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی آپ ہی آپ اسلامی آئین نافذ ہو جائے گا۔چونکہ اسلامی آئین کے نفاذ کا مطلب ہی یہ ہے کہ مسلمانوں سے اسلامی احکامات پر عمل کرایا جائے نہ کہ غیر مسلموں سے بھی اسلئے ہمیں بار بار یہ نہیں کہنا چاہئیے کہ ہم ملک میں اسلامی حکومت قائم کریں گے کیونکہ اس طرح غیر مسلم سمجھتے ہیں کہ شاید ہم سے بھی جبراََ اسلام پر عمل کرایا جائے گا۔اس خیال سے انڈین یونین کے ہندوؤں میں بھی یہ رو چل پڑے گی کہ ہم بھی مسلمان کو ہندو مذہب جبراََ عمل کرانے کی کوشش کریں۔یہ چیز یقیناََ وہاں کے مسلمانوں کے لئے تباہ کن ثابت ہو گی۔اقتصادی پہلو کے متعلق حضورؓ نے ارشاد فرمایا کہ اسلام نے حکومت کا فرض قرار دیا ہے کہ وہ لوگوں کے لئے روٹی پا نی کپڑا اور رہائش کا انتظام کرے۔ (۳)اس موضوع کی اہمیت کے پیشِ نظر حضرت خلیفۃ اکمسیح الثانی ؓ نے مارچ ۱۹۴۸ء میں کراچی میں ایک لیکچر میں دوبارہ اس موضوع کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔حضورؓ نے مختلف اسلامی احکامات کا ذکر کرکے فرمایا کہ اگر مسلمان ان احکامات کا جو بھی مفہوم سمجھتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں ۔اگر وہ ان احکام پر اپنی اپنی جگہ پر عمل کرتے ہیں تو پھر تو بے شک وہ اسلامی حکومت کے مطالبے میں سنجیدہ سمجھے جا سکتے ہیں لیکن اگر وہ ان احکامات پر عمل نہیں کرتے تو وہ اسلامی حکومت کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔اگر آپ لوگ یہاں سے اٹھنے سے پہلے یہ فیصلہ کرلیں کہ اسلام کے جن احکامات پر عمل کرنا آپ کے اپنے بس میں ہے اور جن پر عمل کرنے کے لئے کسی حکومت کسی قانون اور کسی طاقت کی ضرورت نہیں ،ان پر عمل کرنا شروع کر دیں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ شام سے پہلے پہلے اسلامی حکومت قائم ہو جائے گی۔(۶)
جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں وہ جماعتیں جنہیں عرفِ عام میں مذہبی جماعتیں کہا جاتا ہے، ان کا اصرارتھا کہ پاکستان کا آئین ایک اسلامی آئین ہونا چاہئیے۔اور اسلامی آئین سے مراد یہ تھی کہ جو اسلامی احکامات کی تشریح وہ کرتے ہیں، اس آئین کی تشکیل کی بنیاد ان تشریحات پر رکھی جائے۔ اور جیسا کہ بعد میں ذکر آئے گا اسلامی آ ئین کے مطالبے سے اصل غرض یہ تھی کہ ہمارے ہاتھوں میں عنانِ اقتدار آ جائے۔پہلے یہ ذکر آ چکا ہے کہ جس وقت پاکستان کے حصول کے لئے تحریک چل رہی تھی ،اُس وقت علماء کی اکثریت تو مطالبہ پاکستان اور مسلم لیگ اور بانیِ پاکستان کی مخالفت کر رہی تھی ۔جو چند علماء مسلم لیگ کا ساتھ دے رہے تھے ان کے ارادے بھی اس مثال سے واضح ہو جاتے ہیں۔
۱۹۴۵ء میں قصور میں مسلم لیگ کا ایک جلسہ ہؤا ۔ایک مولوی بشیر احمد نگر صاحب نے بھی اس میں تقریر کی ۔تقریر کے دوران انہوں نے اعلان کیا
’’جب تک انگریز اور ہندو کی سیاست اس ملک میں موجود ہے اس کے مقابلہ کے لئے قائدِ اعظم محمد علی جناح مسلمانانِ ہند کے بہترین رہنما اور ترجمان ہیں۔جب پاکستان قائم ہو جائے گا ۔اس وقت علمائِ دین کے مشورہ سے طرزِ حکومت قائم کی جائے گی۔‘(۷)
اصل اغراض ابھی سے سامنے آ رہی تھیں ۔جب تک تو تحریک چل رہی ہے ،قربانیاں دینے کا وقت ہے اُس وقت تک تو قائدِ اعظم بہترین لیڈر ہیں۔گویا بعد میں ان کی ضرورت نہیں ہو گی ۔جب ملک مل جائے گا اور حکومت کرنے کا وقت آئے گا تو جس طرح علماء کہیں گے اسی طرح حکومت چلائی جائے گی۔لیکن خود قائدِ اعظم کا اس بارے میں کیا خیال تھا؟۱۹۴۲ء میں ایک صحافی نے آپ سے سوال کیا۔
جب آپ اسلامی اصول کے تصوراور طریق دونوں میں بہترین اور برترین حکومت یقین فرماتے ہیں۔اور اجمالاً بھی کہتے ہیں کہ وہاں وہ اپنے ذہنی میلان اور حیات کے تصور ات کو ممانعت کے بغیر روبہ کار اور روبہ ترقی لا سکیں تو پھر اس میں کون امر مانع ہے کہ زیادہ تفصیل اور توضیح کے ساتھ مسلم لیگ اپنی جد و جہد کی مذہبی تعبیر اور تشریح کرے؟
اس کا جواب قائدِ اعظم نے یہ دیا
’مذہبی تعبیر کے ساتھ ہی کام کی نو عیت ،اس کی حقیقی تقسیمِ عمل اوراس کے اصلی حدود کو سمجھے بغیر ہمارے علماء کی ایک جماعت ان خدمات کو صرف چند مولویوں کی اجا رہ داری خیال کرتی ہے ۔با وجود اہلیت اور مستعدی کے آپ کے یا میرے جذبہ خدمت پورا کرنے کی کوئی صورت نہیں پاتی ۔پھر اس منصب کی بجا آوری کے لئے جن اجتہادی صلاحیتوں کی ضرورت ہے ان کو میں ا لّا ما شا ء اللہ ان مولویوں میں نہیں پاتا ۔وہ اس مشن کی تکمیل میںدوسروں کی صلاحیتوں سے کام لینے کا سلیقہ بھی نہیں جانتے۔‘(۸)
اس جواب سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ قائدِ اعظم کو اس بات کا احساس تھا کہ مولویوں کا ایک طبقہ اس بات کے لئے کوشاں ہو گا کہ قانون سازی کے کام پر اُن کی اجارہ داری ہو اور بانیِ پاکستان یہ بھی بخوبی جانتے تھے کہ یہ گروہ اس کام کا اہل نہیں ہے۔
مجلسِ احرار جیسی جماعتیں کس طرح کانگرس کی حمایت اور مسلم لیگ کی مخالفت کر رہی تھیں اس کا جائزہ ہم ۱۹۵۳ء کے فسادات کے پس منظر میں لیں گے۔لیکن اس وقت ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اُس وقت علماء کا یہ گروہ اُ ن لوگوں کے متعلق کن خیالات کا اظہار کر رہا تھا جو پاکستان کے حصول کے لئے جد و جہد کر رہے تھے۔یہاں پر ہم مودودی صاحب اور ان کی پارٹی جماعتِ اسلامی کے خیالات کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیں گے کیونکہ گذشتہ ساٹھ برس میںپاکستان کے اندر ان کی پارٹی نے سیاسی اقتدار کی دوڑ میں اسلامی نظام کے نام کو سب سے زیادہ استعمال کیا ہے۔مودودی صاحب مسلم لیگ کے قائدین کی کاوشوں کا جائزہ لے کر لکھتے ہیں
’یہ اپنی قومی اور دنیوی لڑائی میں بار بار اسلام اور مسلم کا نام لیتے ہیںجس کی وجہ سے اسلام خواہ مخواہ ایک فریقِ جنگ بن کر رہ گیا ہے اور غیرمسلم قومیں اس کو اپنا سیاسی اور معاشی حریف سمجھنے لگیں ہیں۔اس طرح انھوں نے نہ صرف اپنے آپ کو اسلام کی دعوت کے قابل نہیں رکھا ہے بلکہ اسلام کی اشاعت کے لئے اتنی بڑی رکاوٹ پیدا کر دی ہے کہ اگر دوسرے مسلمان بھی یہ کام کرنا چاہیں گے تو غیر مسلموں کے دلوں کو اسلام کے لئے مقفل پائیں گے۔‘(۹)
تو گویا جب برِ صغیر پاک و ہند مین مسلمانوں نے اپنے سیاسی حقوق کے نام پر تحریک چلائی تو مودودی صاحب کا خیال تھا کہ یہ اسلام کی ترقی کی راہ میں خواہ مخواہ کی ایک روک پیدا کی جا رہی ہے۔پھر تحریکِ پاکستان کا جائزہ اپنی مرصع اردو میں یوں لیتے ہیں
’اس میں شک نہیں کہ اس قوم پرستانہ دعوت کے ساتھ یہ لوگ کبھی کبھی اسلام کی خوبیاں اور اس کے اصولوں کی فضیلت بھی بیان کیا کرتے ہیں ۔مگر اول تو قوم پرستی کے پس منظر میں یہ چیز ایک اصولی دعوت کے بجائے محض ایک قومی تفاخر بن کر رہ جاتی ہے اور مزید برآں دعوتِ اسلام کے ساتھ جن دوسری باتوں کی یہ آمیزش کرتے ہیں وہ بالکل اس دعوت کی ضد ہیں ۔ایک طرف اسلامی نظام ِ حکومت کی تبلیغ اور دوسری طرف اُن مسلمان ریاستوں اور حکومتوں کی حمایت جن کا نظام بالکل غیر اسلامی ہے ۔ایک طرف اسلامی نظام ِ معاشی کی تشریح اور دوسری طرف خود اپنی قوم کے قارونوں کی تائید اور مدافعت ۔۔۔
ایک طرف بے غرضانہ حق پرستی کا دعویٰ اور دوسری طرف شب و روز اپنی دنیوی مفاد کا ماتم ۔ایک طرف اسلامی تہذیب و تمدن پر فخر و ناز اور اس کی حفاظت کے لیے پُرشور لام بندی اور دوسری طرف اسی تہذیب و تمدن کے باغیوں اور قاتلوں کی سرداری اور پیشوائی۔ یہ دونوں چیزیں آخر کس طرح ایک ساتھ نبھ سکتی ہیں ؟‘(۱۰)
تو مودودی صاحب کا نظریہ تھا کہ پاکستان کی تحریک چلانے والے خود اسلامی تہذیب و تمدن کے باغی اور قاتل ہیں۔اور قارون طبع لوگوں کی تائید کر رہے تھے۔مودودی صاحب کو مسلم لیگ کی ایک اور پالیسی پر شدید اعتراض تھا۔مسلم لیگ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے نام پر وجود میں آئی تھی اور کم از کم مرکزی مسلم لیگ کی پالیسی یہ تھی کہ اس کے دروازے ہر اُس شخص کے لئے کھلے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔اس اصول پر نکتہ چینی کرتے ہوئے مودودی صاحب لکھتے ہیں
’اب دیکھیے کہ یہ اپنی جماعت کی تشکیل کس ڈھنگ پر کرتے ہیں ۔ان کا قاعدہ یہ ہے کہ یہ اُن سب لوگوں کو جو از روئے پیدائش مسلمان مسلمان قوم سے تعلق رکھتے ہیں اپنی جماعت کی رکنیت کا بلاوا دیتے ہیںاور جو اسے قبول کرے اسے ابتدائی رکن بنا لیتے ہیں۔۔۔
یہ انبوہِ عظیم جس کو مسلمان قوم کہا جاتا ہے ،اس کا حال یہ ہے کہ اس کے ۹۹۹ فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں ،نہ حق اور باطل کی تمیز سے آشنا ہیں ،نہ ان کا اخلاقی نقطہ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے۔باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آرہا ہے اس لیے یہ مسلمان ہیں۔نہ انھوں نے حق کو حق جان کر اسے قبول کیا ہے ،نہ باطل کو باطل جان کر اسے ترک کیا ہے ۔ان کی کثرت رائے کے ہاتھ میں باگیں دے کر اگر کوئی شخص یہ امید رکھتا ہے کہ گاڑی اسلام کے راستے پر چلے گی اس کی خوش فہمی قابلِ دید ہے۔‘(۱۱)
تو مودودی صاحب لکھ رہے ہیں مسلمانوں کی اکثریت اصل میں مسلمان ہے ہی نہیں ۔بس مسلمان کا نام اُن کے ساتھ لگا ہؤا ہے کیونکہ وہ مسلمان گھرانے میںپیدا ہوئے تھے۔اور اگر ان کی رائے پر چلا گیا تو نظامِ اسلامی کبھی قائم نہیں ہو سکتا ۔اس سوچ کے پیچھے اصل میں علماء کی ایک مخصوص سوچ کارفرما ہے اور وہ یہ کہ اصل میں صرف ہم ہی اس بات کے حقدار ہیں کہ ہماری رائے کو وقعت دی جائے۔اور اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلامی نظام لانا ہے تو ہماری آمریت قائم ہونی چاہئیے۔ پھر مسلم لیگ کے قائدین پر ایک اور وار ان الفاظ میں کرتے ہیں
’اس موقع پر یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مسلم لیگ کے کسی ریزولیشن اور لیگ کے ذمہ دار لیڈروں میں سے کسی کی تقریر میں آج تک یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ ان کا آخری مطمحِ نظر پاکستان میں اسلامی نظامِ حکومت قائم کرنا ہے ۔بر عکس اس کے ان کی طرف سے بصراحت اور بتکرار جس چیز کا اظہار کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ان کے پیشِ نظر ایک ایسی جمہوری حکومت ہے جس میں دوسری غیر مسلم قومیں بھی حصہ دار ہوں ۔‘(۱۲)
اب یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ مودودی صاحب کے نزدیک مسلم لیگ اور اس کے ذمہ دار لیڈروں نے کبھی اسلامی نظام کے نفاذ کا وعدہ کیا ہی نہیں تھا۔اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ مودودی صاحب کے نزدیک کسی ملک میں اگر جمہوریت ہو یا وہاں پر حکومت میں غیر مسلم بھی شامل ہوں تو وہاں اسلامی نظام قائم نہیں ہو سکتا۔
اب تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہوتا ہے ۔اور پاکستان وجود میں آتا ہے۔قائدِ اعظم پاکستان کے گورنر جنرل بنتے ہیں اور وہی ہوتا ہے جس کا ان علماء کو ڈر تھا۔اور روزِ اول سے ہی وہ اس نئی مملکت کے لئے جو راہنما اصول بیان کرتے ہیں وہ مولویانہ خیالات کے لئے زہرِ ہلا ہل سے زیادہ خطرناک ہیں۔یہ اصول ایک جدید مملکت کے لئے آبِ حیات تو ہو سکتے ہیں لیکن مولوی صاحبان ان اصولوں سے اتنا ہی ڈرتے ہیں جتنا ایک Rabiesکا مریض پانی کو دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتا ۔اور اُس کا سانس رکنے لگتا ہے۔۱۱ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی مجلسِ قانون سے خطاب کرتے ہوئے بانیِ پاکستان نے اعلان کیا
’ میں اس چیز پر جتنا بھی زور دوں کم ہے۔ہم کام کا آغاز اس جذبے سے کر رہے ہیں کہ وقت کے ساتھ اقلیتی اور اکثریتی فرقوں کا فرق،ہندو اور مسلمان فرقوں کا فرق مٹ جائے گا۔کیونکہ مسلمانوں میں بھی پٹھان پنجابی ،شیعہ سنی موجود ہیں اور ہندوؤں میں بھی برہمن ،وشناواس ،کھتری اور بنگالی اور مدراسی وغیرہ موجود ہیں۔اگر آپ مجھ سے پوچھتے ہیں تو یہ چیز ہماری آزادی کے حصول میں سب سے زیادہ رکاوٹ بنی رہی ہے۔۔۔
آپ آزاد ہیں۔آپ اپنے گرجاؤں میں جانے کے لئے آزاد ہیں،آپ اپنی مساجد میں جانے کے لئے آزاد ہیں،یا جو بھی آپ کی عبادت کی جگہ ہو آپ پاکستان کی ریاست میں وہاں جانے کے لئے آزاد ہیں۔آپ کسی بھی ذات یا کسی بھی عقیدہ سے تعلق رکھتے ہوں۔حکومت کے کام کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔
میرا خیال ہے اب ہمیں اس چیز کو اپنے مطمح نظر کے طور پر اپنے سامنے رکھنا چاہئیے۔آپ دیکھیں گے کہ وقت کے ساتھ ہندو ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان مسلمان نہیں رہے گا۔ایسا مذہبی طور پر نہیں ہو گا ،کیونکہ وہ ہر فرد کے ذاتی ایمان کا معاملہ ہے۔مگر ایسا سیاسی طور پر پاکستان کے شہری کی حیثیت سے ہو گا۔‘(۱۳)
اگر پہلے کسی کے دل میں کوئی شک بھی تھا تو اس تقریر کے بعد دور ہو گیا کہ قائدِ اعظم پاکستان میں مولوی خیالات کے لوگوں کا تسلط کبھی برداشت نہیںکریں گے۔اور آپ کی سربراہی میں پاکستان کی ریاست میں،حکومت کا مذہبی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہو گا ۔یہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہو گا۔
پھر ڈھاکہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے یہ ذکر کرنے کے بعد کہ اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ آپ جو کچھ بھی ہیں آپ مسلمان ہیں اور ایک قوم سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ ملک پنجابی ،سندھی ،پٹھان یا بنگالی کا نہیں ،یہ آپ کا ملک ہے۔آپ نے واضح کیا
’کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔پاکستان کوئی مذہبی ریاست یا اس سے ملتی جلتی کوئی چیز نہیں ہے۔اسلام ہم سے مطالبہ کرتاہے کہ ہم دوسروں کے عقائد کو برداشت کریں۔اور ہم ہر اُس شخص کو جو پاکستان کے سچے اور وفادار شہری کے طور پر ہمارے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہے اپنے قریب ترین ساتھی کے طور پر خوش آمدید کہتے ہیں۔‘(۱۴)
فروری ۱۹۴۸ء میں امریکہ کے لوگوںکو اپنا خطاب ریکارڈ کراتے ہوئے آپ نے فرمایا
’اسلام اور اس کے نظریات ہمیں جمہوریت سکھاتے ہیں۔اور اسی نے ہمیں انسانوں میں مساوات عدل اور ہر ایک سے انصاف کا برتاؤ سکھایا ہے۔۔ہم ایک عظیم روایت کے وارث ہیں اور پاکستان کے آئین کو بنانے والوں کی حیثیت سے ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا پورا احساس ہے۔بہر حال پاکستان کو مذہبی ریاست نہیں بنایا جائے گا ۔جس پرپجاری کسی آسمانی مشن کے ساتھ حکومت کر رہے ہوں۔ہمارے پاس غیر مسلم ،ہندو ،عیسائی اور پارسی بھی ہیں۔مگر وہ سب پاکستانی ہیں۔ان کو پاکستان کے باقی شہریوں کی طرح تمام حقوق اور مراعات حاصل ہوں گی اور وہ پاکستان کے معاملات میں اپنا استحقاق استعمال کریں گے۔‘(۱۵)
قائدِ اعظم کے نظریات اور مودودی صاحب اور ان جیسے دوسرے علماء کے خیالات کے درمیان ایک خلیج ہی نہیں بلکہ ایک وسیع سمندر نظر آتا ہے ۔مودودی صاحب تو جس حکومت کے قائل ہیں اُس میں غیر مسلم تو درکنار مسلمانوں کی بھاری اکثریت کی حیثیت صرف ایک ایسے مرید کی سی ہے جو اپنے لب سی کر ایک مختصر سے گروہِ صالحین کے منہ کی طرف تک رہا ہے کہ وہ کیا ارشاد فرماتے ہیں اور مودودی صاحب کے نزدیک یہ گروہِ صالحین ان کی اپنی جماعت تھی۔کیونکہ ان کے نزدیک ہزار میں سے ۹۹۹ مسلمان تو صرف نام کے مسلمان تھے۔مودودی صاحب صرف ایک مذہبی ریاست کے ہی نہیں بلکہ ایکOligarchy کے قائل تھے،جس میں حکومت ایک مختصر سے گروہ کے ہاتھ میں ہو جو باقی ساری قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہو۔وہ اپنی کتاب ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ کے صفحہ ۹۳ پر یہ اعلان بڑی وضاحت سے کر چکے تھے کہ اگر مغرب کی نقل میں جمہوری طرزِ حکومت اپنایا گیا تو پاکستان نہیں بلکہ ناپاکستان وجود میں آئے گا اور قائدِ اعظم مسلسل ایک جمہوری مملکت کا خاکہ پیش کر رہے تھے جس میں ہر عقیدہ کے لوگ نہ صرف برابر کے حقوق رکھیں گے بلکہ امورِ مملکت چلانے میں غیر مسلم بھی مسلمانوں جتنا ہی حق رکھیں گے۔بلکہ حکومت کالوگوں کے مذہبی خیالات سے کوئی سرو کار نہیں ہو گا۔یہ تقاریر تو بجلی بن کر بہت سے علماء کی خواہشوں پر برس رہی تھیں لیکن اس کے ساتھ ایک اور مسئلہ یہ پیدا ہؤا کہ مودودی صاحب اور بہت سے علماء جو پاکستان کے مخالف تھے انہیں حالات سے مجبور ہو کر پاکستان میں پناہ لینی پڑی۔لیکن اس نقلِ مکانی کے ساتھ انہیں اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لئے ایک ممکنہ راستہ نظر آنے لگا۔پاکستان تو اب بن چکا تھا ۔ابھی تو اس کی حکومت تو مسلم لیگ کے ہاتھ میں تھی لیکن اس کے اقتدار کے حصول کے لئے طبع آزمائی تو کی جا سکتی تھی۔حصولِ اقتدار کے لئے آسان ترین طریقہ یہ تھا کہ اس نئی مملکت میں نظامِ اسلامی کا نعرہ لگایا جائے ۔پاکستان کی بد نصیبیوں کا آ غاز ہو چکا تھا۔
مودودی صاحب اور اُن جیسے دوسرے علماء اگر اپنے خیالات پر قائم رہتے تو ایک لحاظ سے یہ قابلِ قدر بات ہوتی کہ انہوں نے جو سمجھا اُس پر اصول پسندی کے ساتھ ڈٹے رہے۔جیسا کہ ان کی تحریروں سے صاف نظر آتا ہے کہ اُن کے نزدیک اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ پاکستان بننے کے بعد اس میں اسلامی نظام نافذ ہو گا بلکہ وہ اسے اس مقصد کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔اب انہوں نے اور ان جیسے علماء نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ پاکستان تو بنا ہی اس لئے تھا کہ یہاں پر نظامِ اسلامی کا نفاذ کیا جا سکے ۔جب کہ آزادی سے پہلے وہ اس بات کا ماتم کر رہے تھے کہ تحریکِ پاکستان کے ذمہ دار قائدین نے تو کبھی یہ کہا ہی نہیں کہ نئی مملکت میں اسلام کا نظام نافذ کیا جائے گا۔یہ بات قابلِ توجہ ہے اور مندرجہ بالا حوالوں سے واضح ہو جاتی ہے کہ جب بانیِ پاکستان کہتے تھے کہ پاکستان کی قانون سازی اسلامی اصولوں پر کی جائے گی اور جب مودودی صاحب نظام ِاسلامی کی اصطلاح استعمال کرتے تھے تو دونوں کے مطالب میں بہت فرق ہوتا تھا۔بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ سوائے ظاہری الفاظ کے ہمیںان میں کوئی چیز قدرِ مشترک نہیں نظر آتی۔
چنا نچہ پاکستان کے قیام کے معاََ بعد جماعتِ اسلامی نے پاکستان میں اسلامی دستور کا نام لے کر اپنی سیاسی طبع آ زمائی کا آ غاز کیا۔اور دستور بنانے کے مسئلہ پر ریڈیو پر مذاکرے ہو رہے تھے تومودودی صاحب کو بھی اس میں اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔پھر لاء کالج میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے مطالبہ کیا کہ ،’جب پاکستان اسلام کے نام سے اور اسلام کے لئے مانگا گیا ہے اور اسی بنا پر ہماری یہ مستقل ریاست قائم ہوئی ہے تو ہماری اس ریاست ہی کو وہ معمار طاقت بننا چاہیے جو اسلامی زندگی کی تعمیر کرے۔اور جب کہ یہ ریاست ہماری اپنی ریاست ہے اور ہم اپنے تمام قومی ذرائع وسائل اس کے سپرد کر رہے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس تعمیر کے لئے کہیں اور سے معمار فراہم کریں ‘ ۔ (۱۶)
اس طرح روزِ اول سے مودودی صاحب کے خیالات اُن نظریات کے بالکل برعکس تھے جو حضرت مصلح موعود ؓ نے پیش فرمائے تھے۔جیسا کہ پہلے ذکرآ چکا ہے حضرت مصلح موعود ؓ نے فرمایا تھا کہ اسلام نے سب سے زیادہ زور قلبی اصلاح اور انفرادی اصلاح پر دیا ہے۔جب تک کسی ملک کے لوگ اپنی اپنی زندگیوں میں اسلامی احکامات پر عمل شروع نہیں کرتے اسلامی آئین کا مطالبہ ایک سنجیدہ مطالبہ نہیں کہلا سکتا اور ظاہر ہے کہ یہ مقصد حکومت کی کاوشوں سے حاصل نہیں ہو سکتا ۔اس کے لئے وعظ و نصیحت اور دلوں کی تطہیر ضروری ہے۔اور اگر لوگ اپنی اپنی زندگیوں میں انقلاب لا کر اسلامی احکامات پر عمل شروع کر دیںتو پھرحقیقی طور پر اسلامی آئین نافذ ہو گا۔دوسری طرف موودی صاحب اس بات کا اظہار کر چکے تھے کہ ہزار میں سے ۹۹۹ مسلمان صرف نام کے مسلمان ہیں۔ان کی زندگیوں میں اسلام کا کوئی دخل نہیںاب پاکستان بن جانے کے بعد مودودی صاحب یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ مسلمانوں میں اسلامی زندگی رائج کرنے کے لئے اور اسلامی معاشرے کے قیام کے لئے حکومت اپنے وسائل اور اپنی طاقت استعمال کرے ۔اور مودودی صاحب کو اس کی کوئی وجہ نہیں نظر آتی تھی کہ یہ کام ریاست اور حکومت کے علاوہ اور کوئی کرے۔اور اسی تقریر میں انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اسلامی زندگی کی تعمیر میں پہلا قدم یہ ہونا چاہئیے دستور ساز اسمبلی اس ضمن میں قانون سازی کرے کہ ملک میں شریعت ِ خداوندی نافذ ہو گی۔اور دوسری طرف قائدِ اعظم یہ اعلان کر رہے تھے کہ آپ کا جو بھی عقیدہ ہے یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیںہو گا۔
شروع سے آخر تک قرآنِ کریم پڑھ جائیں سب سے زیادہ زور ایمان اور تقویٰ پر ملے گا۔اور عقل بھی یہی تجویز کرتی ہے کہ جب تک لوگوں کی دلوں میں ایمان اور تقویٰ نہیںہو گا ،اگر اُن سے زبردستی زکوۃ لے لی بھی جائے یا اسلامی تعزیرات نافذ کردی جائیں تو بھی اسلامی معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا۔اگر مودودی صاحب کی بات مان بھی لی جائے تو کیا حکومت یا ریاست اپنے وسائل اور اس کی طاقت استعمال کر کے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کریں گے ؟۔کیا حکومت کا یہ کام ہوگا کہ لوگوں کی ذاتی زندگیوں پر نظر رکھ کر اسے اپنے زعم میں اسلامی نظریات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے ۔ان کے دلوں میں ایمان اور تقویٰ پیدا کرے ۔اگر ایسا ہے اور مودودی صاحب کی تحریروں اور تقریروں سے ایسا ہی لگتا ہے تومودودی صاحب کی اسلامی ریاست کا نظریہ ریاست کے اُس نظریے سے ملتا ہے جو مشہور مصنف جارج آ رول (George Orwell) نے اپنے ناول 1984میں ایک تمثیلی ناول کی صورت میں پیش کیا تھا۔اس ناول میں ایک ایسی حکومت دکھائی گئی ہے جو ایک مخصوص گروہ کے ہاتھوں میں ہے ۔یہ حکومت صرف لوگوں کے جسموں پر اپنا تسلط قائم نہیں کرتی اور ان کی زندگی کے معلومات کو اپنے کنٹرول میں نہیں رکھتی بلکہ جبراََ ،تشدد کے ذریعہ، مسلسل جھوٹ بول کر ان کے ذہنوں کو بھی ماؤف کر دیتی ہے اور انہیں اپنا ہم نوا بنا لیتی ہے ۔اگر کوئی ڈکشنری بنتی ہے تو حکومت کی پالیسی کے مطابق ،شادی ہوتی ہے تو حکومت کی رضا سے،حتیّٰ کہ چوبیس گھنٹے لوگوں کے گھروں میں بھی ایک کیمرہ کے ذریعہ اُن کی نگرانی ہوتی ہے ۔اس حکومت کا سربراہ Big Brother کے نام سے موسوم ہے اور ایک جملہ اس کتاب میں بار بار دہرایا جاتا ہے
Big Brother is watching you
یعنی بڑا بھائی تمہیں دیکھ رہا ہے۔مودودی صاحب چاہے اس نظریے سے متاثر ہو گئے ہوں لیکن قرآنِ کریم بہر حال اس قسم کے نظریات کو رد کرتا ہے۔قرآنِ کریم تو اعلان کرتا ہے دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔قرآنِ کریم تو ہر شخص کو اختیار دیتا ہے کہ وہ اگر پسند کرے تو اس آسمانی حق کو قبول کرے اور اگروہ اس کو اپنے لئے نہیں پسند کرتا تو اسے اس دنیا میں انکار کا اختیار دیا گیا ہے۔اگلے جہاں وہ آپ ہی اپنے کئے کی سزا پائے گا۔سورۃ کہف میں اللہ تعالیٰ نبیِ اکرم ﷺکو مخاطب کر کے فرماتا ہے

(الکہف: ۳۰)
ترجمہ:اور کہہ دے کہ حق وہی ہے جو تمہارے رب کی طرف سے ہو۔پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے سو انکار کر دے۔
لیکن یہ سوال رہ جاتا ہے کہ اگر مودودی صاحب ایسی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں جس کا نقشہ1984میں کھینچا گیا ہے تو اس ریاست کاBig Brother کون ہو گا ۔لوگوں کی زندگیوں میں مداخلت کر کے انہیں سنوارنے کا اختیار کسے حاصل ہو گا۔اس سوال کا جواب مودودی صاحب کی اس تحریر میں مل جاتا ہے۔
’زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں فساق و فجار کی رہنمائی اور قیادت میںچل رہا ہے اور معاملاتِ دنیا کی زمامِ کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آ گئی ہے،ہم یہ دعوت دیتے ہیںکہ اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت نظری و عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین و صالحین کے ہاتھ میں منتقل ہو ۔‘(۱۷)
پہلے انہوں نے ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم‘‘ ایک آخری حصہ میں یہ تمہید باندھی کہ ایک صالح جماعت ہونی بہت ضروری ہے ،پھر اس کتاب میں لکھا کہ ابھی مسلمانوں کی کوئی جماعت اس معیار پر پوری نہیں اترتی اس لئے میں جماعتِ اسلامی کے نام سے ایک نئی جماعت بنا رہا ہوں تا کہ مسلمانوں میں صالحین کی ایک جماعت تو ہو۔اور پھر اعلان کیا کہ معاملاتِ دنیا کی زمامِ کار صالحین کے ہاتھوں میں منتقل ہونی ضروری ہے۔قصہ مختصر یہ کہ صرف ہم ہی اقتدار کے حقدار ہیں۔
کچھ دیر ٹھہر کر دیکھتے ہیں علماء کی اس خیالی مملکت کے نمایاں خدو خال کیا تھے۔پہلی بات یہ ہے کہ مودودی صاحب کے نزدیک حکومتی معاملات میں جمہوریت لا دینیت کے ہم معنی تھی اور اسلام اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے تھے۔جیسا کہ آزادی سے معاََ قبل انہوں نے اعلان کیا تھا
’مسلمانوں سے میں صاف صاف کہتا ہوں کہ موجودہ زمانے کی بے دین قومی جمہوریت (Secular National Democracy) تمہارے دین و ایمان کے قطعاََ خلاف ہے ۔تم اس کے آگے سر تسلیم خم کرو گے تو قرآن سے پیٹھ پھیرو گے،اس کے قیام و بقا میں حصہ لو گے تو اپنے رسول ﷺ سے غداری کرو گے اور اس کا جھنڈا اڑانے کے لئے اٹھو گے تو اپنے خدا کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرو گے۔جس اسلام کے نام پر تم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہواس کی روح اس ناپاک ( سیکولر ) نظام کی روح سے اس کے بنیادی اصولوں سے اور اس کا ہر جز اس کے ہر جز سے بر سرِ جنگ ہے۔‘(۱۸)
بعد میں جب ۱۹۵۳ء میں فساداتِ پنجاب پر تحقیقات ہوئیں تو تحقیقاتی عدالت میں علماء نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ اگر ’پاکستان میں اصولِ اسلامی کے مطابق حکومت قائم کی گئی تو اس کی شکل جمہوری نہیں ہو گی۔‘(۱۹)
اور بعض علماء تواس معاملے مین اس قدر انتہا پسند تھے کہ ان کے نزدیک اب کوئی نئی قانو ن سازی کرنا بھی نا قابلِ معافی جرم تھا۔مثلاََ عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کا نظریہ تھا،’ہمارا دین کامل و مکمل ہے اور مزید قوانین وضع کرنا کفر کے برابر ہے۔‘(۲۰)
مطلب بالکل واضح ہے اس نام نہاد اسلامی مملکت میں صرف نام نہاد علماء کو ہی اختیار ہو گا کہ وہ لوگوں کے لئے جو چاہیں اسلامی قوانین کے نام پر قوانین نافذ کریں ۔اگر کسی اور نے قانون سازی کی جسارت کی تو فوراََ اسے کافر قرار دے کر زندگی کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا جائے گا۔اس فرضی سلطنت کو سمجھنے کے لئے یہ جائزہ لیتے ہیں کہ جو حکومت لوگوں کی دینی حالت سدھارنے کے لئے کوشاں ہو گی اس کے زیرِ سایہ لوگوں کو اپنے ضمیر کے مطابق مذہب اختیار کرنے کی کس قدر اجازت ہو گی۔چنانچہ مودودی صاحب اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں
’مثلاََ اسلام اپنی مملکت کے کسی مسلم شہری کو یہ آزادی نہیں دیتا کہ وہ اس ملک کے اندر رہتے ہوئے اپنا دین تبدیل کرلے،یا ارکانِ دین کی بجا آ وری سے انکار کرے۔۔۔لہذا شخصی آزادی کی یہ تعبیر دوسرے دستوروں میں چاہے جیسی کچھ بھی پائی جاتی ہو ،ہم کو اپنے دستور میںصاف صاف اس آزادی کی نفی کرنی پڑے گی۔‘(۲۱)
قرآنِ کریم میں تو اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں لیکن مودودی صاحب خدا تعالیٰ کے ارشاد کی نفی کر کے نام نہاد اسلامی مملکت کی بنیاد ہی جبر پر رکھ رہے ہیں۔اور نہ صرف یہ بلکہ اس ملک کی حکومت اس ملک کے باشندوں کو ارکانِ دین کی پابندی بھی کرائے گی۔ اور وہ خواہ اسے پسندنہ کریں حکومت کی خواہش کے مطابق ارکانِ دین کی پابندی کرنے پر مجبور ہوں گے۔اس سے تو یہی لگتا ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے لوگوں کو زبردستی نمازیں پڑھا رہے ہوں گے،ان کے گھروں میں جا جا کے دیکھیں گے کہ لوگ روزے بھی رکھ رہے ہیں کہ نہیں۔اگر کسی نے حج نہیں کیا تو اسے پہلے حبسِ بیجا میں رکھا جائے گا اور پھر زبر دستی حج کرنے کے لئے لے جایا جائے گا۔ظاہر ہے کہ اتنے وسیع پیمانے پر انتظامات کرنے کے لئے پولیس کی تعداد میں لاکھوں کا اضافہ کرنا پڑے گا اور مودودی صاحب کے مطابق ہزار میں صرف ایک مسلمان اس قابل ہے کہ اسے مسلمان کہا جا سکے تو سمجھ میں نہیںآتا کہ صالحین کی یہ پولیس آئے گی کہاں سے؟اور مودودی صاحب حکومت کا فرض یہ بیان کرتے ہیں کہ
’وہ اس ملک میں اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوۃ کا انتظام کرے ۔حج کی تنظیم کرے اور مسلمانوں کو احکامِ اسلامی کا پابند بنائے۔
وہ مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کو ان برائیوں سے پاک کرنے کا انتظام کرے جو قرآن و سنت میں ممنوع ہیں۔‘(۲۱)
اب یہ بھی ظاہر ہے کہ حکومت لوگوں کو نیکیوں پر کاربند کرے گی اور ان کی زندگیوں کو برائیوں سے پاک کرے گی ،تو یہ حق بھی حکومت کو ہی حاصل ہو گا کہ وہ فیصلہ کرے کہ نیکی کسے کہتے ہیں اور ان سب نیکیوں کو بجا لانے کا صحیح طریق کیا ہے ۔اور وہ ان بنیادی مسائل کو طے کر کے نیکی نافذ کرنے والے ادارے تشکیل دے گی جو لوگوں کو نیکیوں پر قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوں گے۔یہ سب سلوک تو مسلمانوں سے ہو رہا ہو گا لیکن اس ملک میں جو غیر مسلم ہوںگے ،ان کی حیثیت کیا ہو گی؟ جب اس کے متعلق ۱۹۵۳ء کی تحقیقاتی عدالت میں ابوالحسنات صاحب سے سوال کیاگیا تو مولوی صاحب نے جواب دیا
’ان کی وضع قانون میں کوئی آواز نہیں ہو گی ۔قانون کی تنفیذ میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہو گا۔اور سرکاری عہدوں پر فائز ہونے کا کوئی حق نہ ہو گا۔‘ (۲۲)
مولوی احمد علی صاحب نے اس استفسار کا یہ جواب دیا
’وضع قانون میں انکی کوئی آ واز نہ ہو گی۔نہ تنفیذ قانون کا حق ہو گا ۔البتہ حکومت ان کو کسی سرکاری عہدے پر فائز ہونے کی اجازت دے سکتی ہے ۔‘(۲۳)
مودودی صاحب سے پوچھا گیاگیا کہ حکومت کے اصولوں کو تسلیم کرنے کے بعد کیا ایک ہندو بھی امورِ مملکت میں شامل ہو سکتا ہے تو انہوں نے جواب دیا
’شاید آپ نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اسلامی حکومت کے اصولوں پر ایمان لے آنے کے بعد ہندو ہندو کب رہے گا ،وہ تو مسلم ہو جائے گا۔‘(۲۴)
مودودی صاحب اور ان جیسے دیگر علماء کی رائے تھی ایک اسلامی حکومت میں ارتداد کی سزا موت ہے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذہب کی اعلانیہ تبلیغ کی اجازت نہیںہو گی(۲۵) اور صرف غیر مسلم ہی نہیں اس حکومت میں عورتوں کو بھی کوئی ذمہ داری کا منصب سونپا نہیں جا سکتا (۲۶)
اگر ان خلافِ اسلام عقائد کو ایک اسلامی ملک میں رائج کر دیا جائے تو لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اُن ممالک میں جہاں پرمسلمان اقلیت میں ہیںمسلمانوں کے حقوق متاثر ہوں گے۔ ۱۹۵۳ء کی تحقیقاتی عدالت نے یہ سوال ان علماء کے سامنے رکھا۔ابوالحسنات صاحب صدر جمیعت علمائِ پاکستان کے سامنے جب یہ سوال رکھا گیا کہ اگر ان کی اس فرضی حکومت کے نتیجے میںہندوستان کے ہندو ہندوستان میں ہندو دہرم نافذ کریں اورمسلمانوں سے ملیچھوں اور شودروں جیسا سلوک کریں تو کیا اُن کو کوئی اعتراض ہو گا۔ان کا سفاکانہ جواب تھا
’جی نہیں‘۔
مودودی صاحب سے جب یہ پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا
’یقیناََ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گاکہ حکومت کے اس نظام میں مسلمانوں سے ملیچھوں اور شودروں کا سا سلوک کیا جائے ۔‘(۲۷)
غازی سراج الدین صاحب سے جب یہ سوال ہؤا تو انہوں نے یہ لا یعنی جواب دیا کہ ہم اس سے پہلے یہ کوشش کریں گے کہ ان کی سیاسی حاکمیت ختم کر دی جائے۔یہ بات ظاہر و باہر ہے کہ ان جیسے علماء کو اگر غرض ہے تو یہ کہ ان کو اقتدار مل جائے ۔اگر اس کے نتیجے میں کروڑوں مسلمانوں کے سر پر قیامت بھی گذر جائے تو انہیں کوئی پرواہ نہیں۔ان کی ہوس اور خود غرضی قابلِ دید ہے۔اس کے برعکس حضرت مصلح موعود ؓ شروع ہی سے اس بات پر زور دے رہے تھے ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے حقوق کا خیال رکھناہمارا فرض ہے۔آپ نے دسمبر ۱۹۴۷ء میں ایک انٹرویو میں فرمایا
’مسلم لیگ کے مطمح ِ نظر کی از سرنو توضیح کرنا ہندوستان میں بسنے والے ساڑھے چار کروڑ مسلمانوں کی حفاظت کے لئے نہایت ضروری ہے جنہوں نے پاکستان کے قیام کے لئے غیر معمولی قربانیاں کی ہیں۔۔اگر ہم پاکستان کے غیر مسلموں کو گلے لگا لیں ۔تو لازمی طور پر ہندوستان کے ہندو مسلمانوں سے اپنی عداوت ترک کردیں گے۔اور یہ ظاہر ہے کہ ہم ان مسلمانوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘(۲۸)
یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ مسلمانوں کا حقیقی درد کس کے دل میں تھا اور کون صرف حصولِ اقتدار کے لئے کوشاں تھا۔
ستمبر ۱۹۴۸ء میں جب قائدِ اعظم کی علالت دن بدن تشویشناک ہوتی جا رہی تھی۔ایک سوال کے جواب میںمودودی صاحب نے لکھا
’ایک یہ کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت زمامِ کار ہے وہ اسلام کے معاملہ میں اتنے مخلص اور اپنے ان وعدوں کے بارے میں جو انہوں نے اپنی قوم سے کئے تھے اتنے صادق ہوں کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کی جو اہلیت ان کے اندر مفقود ہے اسے خود محسوس کرلیں اور ایمانداری کے ساتھ یہ مان لیں کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد ان کا کام ختم ہو گیا ہے اور یہ کہ اب یہاں اسلامی نظام کی تعمیر کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو اس کے اہل ہوں ۔‘(۲۹)
مودودی صاحب بڑی وضاحت سے یہ کہہ رہے ہیںکہ موجودہ حکومت،جس کے سربراہ اُس وقت قائدِ اعظم تھے،اس اہل نہیں کہ اسلامی حکومت کو چلا سکے۔جب تک قربانیاں دینے اور جد و جہد کا وقت تھا تو مودودی صاحب اور ان جیسے علماء تو پاکستان کی مخالفت کر رہے تھے۔مگر اب جب کہ حکومت کرنے کا وقت ہے توان کے خیال میں یہی مناسب تھاکہ عوام کے منتخب کردہ نمائیندے رخصت ہو جائیں اور اقتدار ان کے حوالے کر دیا جائے۔بہر حال اس رسالہ کی اشاعت کے چند روز بعد قائدِ اعظم محمد علی جناح انتقال کر گئے۔اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن ۔ایک با اصول سر براہ مملکت رخصت ہو گیا تھا ۔اب مولویوں کے لئے میدان خالی تھا۔
(۱) الفضل ۱۹ دسمبر ،۱۹۴۷ء ص ۴
(۱)پاکستان میں امریکہ کا کردار ،مصنف ایم۔ ایس ۔ وینکٹے رامانی ،ترجمہ قاضی جاوید ص۱ ۳۵
‎(۲)زمیندار ،۱۰ دسمبر ۱۹۴۷ء ص۵(۳) تاریخ ِ احمدیت جلد ص ۴۲۰۔۴۲۱ٌٌ(۳)الفضل ،۱۸ جنوری ۱۹۴۷ء ص۱۔۲ (۴)Economic Management In Pakistan 1999_2002,byIshrat Hussain,Oxsford Universit Press,page 6
(۵)Economic Survey 2004_2005,Table 4.1
(۶) الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۴۸ء
(۷)A Book of Reading on the History of Punjab 1799_ 1947 P578
(۸)احسان ۷ جنوری ۱۹۴۲ء ص ۶
(۹) مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم ،شائع کردہ مکتبہ جماعتِ اسلامی دارالاسلام ،جمال پور پٹھانکوٹ ص ۱۲۸
(۱۰) مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم ،شائع کردہ مکتبہ جماعتِ اسلامی دارالاسلام ،جمال پور پٹھانکوٹ ص ۱۲۸۔۱۲۹
(۱۱) مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم ،شائع کردہ مکتبہ جماعتِ اسلامی دارالاسلام ،جمال پور پٹھانکوٹ ص ۱۳۰
(۱۲) مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم ،شائع کردہ مکتبہ جماعتِ اسلامی دارالاسلام ،جمال پور پٹھانکوٹ ص ۱۳۰
(۱۳)Quaid e Azam Speeches p 9
(۱۴)From Jinnah To Zia,by Justice Munir,Vanguard Books1980p.32
(۱۵)Quaid e Azam Speeches,p 67
(۱۶)جماعتِ اسلامی کی دستوری جد وجہد ،مصنفہ میاں طفیل محمد ،ادارہ معارفِ اسلامی ص۳۴،ص ۳۵
(۱۷) دعوتِ اسلامی اور اس کے مطالبات ،ابولاعلیٰ مودودی،امین اصلاحی ،طفیل محمد ،اسلامک پبلیکیشنز ۱۹۶۴ء ص۱۳ و ۱۴
(۱۸) جماعتِ اسلامی کی دستوری جد وجہد ،مصنفہ میاں طفیل محمد ،ادارہ معارفِ اسلامی ص ۱۴
(۱۹) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب۱۹۵۳ء ص۲۲۶
(۲۰) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب۱۹۵۳ء ص۲۲۸
(۲۱) رسائل و مسائل حصہ دوئم ،مصنفہ ابولاعلیٰ مودودی ،اسلامک پبلیکیشنز ،اگست ۱۹۹۷ء ص ۳۱۷۔۳۱۸
(۲۲) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب۱۹۵۳ء ص۲۲۹
(۲۳) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب۱۹۵۳ء ص۳۳۰
(۲۴) رسائل و مسائل حصہ اول ،مصنفہ ابولاعلیٰ مودودی ،اسلامک پبلیکیشنز ،اگست ۱۹۹۸ء ص۲۶۹
(۲۵)رپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب۱۹۵۳ء ص۲۳۸
(۲۶) جماعتِ اسلامی کی دستوری جد وجہد ،مصنفہ میاں طفیل محمد ،ادارہ معارفِ اسلامی ص۴۷
(۲۷)رپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب۱۹۵۳ء ص۲۴۵ ۔۲۴۷
(۲۸) الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۴۷ء ص ۱
(۲۹) رسائل و مسائل حصہ اول ،مصنفہ ابولاعلیٰ مودودی ،اسلامک پبلیکیشنز ،اگست ۱۹۹۸ء ص۳۳۴و ۳۳۵
فلسطین کا المیہ اور جماعتِ احمدیہ
اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں بنی اسرائیل پر نازل ہونے والے عذابوں کے ذکر کے بعد فرماتا ہے
(الاعراف:۱۶۹)
ترجمہ :اور ہم نے انہیں زمین میں قوم در قوم بانٹ دیا ۔ان میں نیک لوگ بھی تھے اور اُنہی میں اس کے علاوہ بھی تھے۔اور ہم نے ان کو اچھی اور بری حالتوں سے آزمایا تا کہ وہ (ہدایت کی طرف )لوٹ آ ئیں۔
اور پھر قرآن کریم ان کے مستقبل کے بارے میں یہ پیشگوئی کرتا ہے
(بنی اسرائیل : ۱۰۵)
ترجمہ :اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ موعودہ سرزمین میں سکونت اختیار کرو ۔پس جب آ خرت کا وعدہ آ ئے گاتو ہم تمہیں پھر اکٹھا کر کے لے آئیں گے۔
یہاں پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب وعد الآخرۃ آئے گا تو ہم تمہیں یعنی بنی اسرائیل کو پھر اکھٹا کر کے لے آئیں گے۔یہاں پر مفسرین نے یہ بحث اُٹھائی ہے کہ وعد الآخرۃ سے کیا مراد ہے ؟جس کے ظہور کے ساتھ بنی اسرائیل کو ایک مرتبہ پھر اکٹھا کر کے ارض ِ موعود یعنی فلسطین میں جمع کیا جائے گا۔بہت سے مفسرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وعد الآخرۃسے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ہے ۔چنانچہ تفسیر فتح البیان فی مقاصد القرآن میں لکھا ہے کہ وعد الآخرۃ سے حضرت عیسیٰ ؑ کا آ سمان سے نزول کرنا بھی لیا گیا ۔اور پرانے علماء کی پیروی کرتے ہوئے بعد کے علماء بھی یہ لکھتے آئے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ ؑ کا ظہور ہے۔چنانچہ نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی تفسیر ترجمان القرآن بلطائف البیان میں لکھتے ہیں،’اب تم زمین شام و مصر میں جہان وہ تمہارا نکالنا چاہتا تہا اچھی طرح سے رہو پہر جب وعدہ آ خرت کا آئیگا یعنے قیامت آ ئیگی یا نوبت دیگر یا ساعت دیگر جس سے نفخہ ثانیہ مراد ہے یا نزول عیسیٰ علیہ السلام آ سمان پر سے تو ہم تم سب کو موقف قیامت میں جمع کریں گے ۔‘(۱)اسی طرح علامہ ثناء اللہ عثمانی اپنی تفسیر ،تفسیرِ مظہری میں لکھتے ہیں،’کلبی کے نزدیک وعدہ آ خرت آنے سے مراد ہے حضرت عیسی ٰ کا آ سمان سے آنا اور جئنا بکم لفیفا کا یہ مطلب ہے کہ ادھر اُ دھر ہر طرف سے مختلف اقوام آئیں گی۔‘(۲)
اس آیتِ کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ تحریر فرماتے ہیںاور تفسیرِ کبیر کا یہ حصہ پہلی مرتبہ ۱۹۴۰ء میں شائع ہؤا۔
’پھر جس طرح موسیٰ ؑ سے تیرہ سو سال بعد حضرت مسیحؑ کے صلیب کے واقعہ کے بعد جب کہ گویا وہ بظاہر اس ملک کے لوگوں کے لئے مر گئے تھے بنی اسرائیل کو ارض ِ مقدس سے دوبارہ بیدخل کر دیا گیا ۔اسی طرح اس زمانہ میں جبکہ رسولِ کریم ﷺ کی وفات پر اتنا ہی عرصہ گذرا ہے مسلمانوں کی حکومت پھر ارضِ مقدس سے جاتی رہی ہے۔اور جیسا کہ قرآنِ کریم نے فرمایا تھا مسلمانوں کا یہ دوسرا عذاب یہود کے لئے ارضِ مقدس میں واپس آنے کا ذریعہ بن گیاہے۔‘(۳)
تاریخی پس منظر:
چنانچہ قرآنِ کریم میں مذکور پیشگوئی کے مطابق جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور کا وقت آیا تو یہودیوں کے دلوں میں اس خواہش نے شدت سے اُ ٹھنا شروع کیا کہ وہ دوبارہ ارضِ موعود میں آ باد ہونے کی کوشش شروع کریں ۔۱۸۹۶ء میں آسٹریا کے یہودی لیڈر تھیوڈر ہرل (Theodre Herzl)نے اپنی کتاب یہودی ریاست (Jewish State) شائع کی جس میں فلسطین میں یہودیوں کی ریاست قائم کرنے کا نظریہ پیش کیا گیا تھا۔اور اس میں لکھا گیا تھا کہ اس ریاست کے قیام سے پوری دنیا میں یہودیوں کو پیش آ نے والے مصائب ختم ہو جائیں گے۔۱۸۹۷ء میں پہلی عالمی صیہونی کانگرس منعقد کی گئی جس میں فلسطین میں یہودیوں کے لئے ایک وطن بنانے کے عزم کا اعلان کیا گیا ۔یہ علاقہ اُس وقت ترکی کے سلطان کے ماتحت تھا ۔پہلے یہودیوں نے ترکی کے سلطان سے رابطہ کر کے فلسطین میں آباد کاری کی اجازت مانگی اور ایک مرحلہ پر یہ پیشکش بھی کی کہ اگر اس کی اجازت دے دی جائے تو ترکی کے قرضہ کا ایک حصہ یہودی ادا کریں گے،ترکی کی بحریہ کو بنانے میں مدد کرنے کے علاوہ ترکی کے سلطان کی عالمی سطح پر مدد کی جائے گی ۔لیکن اس کوشش میں کامیابی نہیں ہوئی اور انہیں یہ جواب ملا کہ یہودی کو صرف اس صورت میں فلسطین ملے گا جب ترکی سلطنتِ عثمانیہ ٹوٹ جائے گی۔صیہونی شروع ہی سے سلطنتِ برطانیہ کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔۱۹۰۲ء میںتھیوڈر ہرل نے برطانیہ کے لارڈ راتھس چائیلڈ(Rothschild)کو اپنا ہم نوا بنانے کی کامیاب کوشش کی ۔اس دوران بینک بنا کر ،فرمیں بنا کر اور فلسطین میںکچھ زمین لے کر ابتدائی کام کا آ غاز بھی کر دیا گیا تھا۔
پہلی جنگِ عظیم میں ترکی کی سلطنت ِ عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیااور شکست کے بعد فاتح طاقتوں نے اس سلطنت کے حصے بخرے کر دیئے۔۱۹۱۷ء میں سلطنتِ برطانیہ نے ایک اعلانیہ جاری کیا جو Lord Rothschildکے نام ،جو صیہونی لیڈروں کے عزائم کی حمایت کر رہے تھے ،ایک خط کی صورت میں تھا۔اس کے الفاظ یہ تھے
His Majesty's Government view with favour the establishment in Palestine of a national home for the Jewish people, and will use their best endeavours to facilitate the achievement of this object, it being clearly understood that nothing shall be done which may prejudice the civil and religious rights of existing non-Jewish communities in Palestine, or the rights and political status enjoyed by Jews in any other country.
یعنی برطانیہ کے بادشاہ کی حکومت اس بات کی حمایت کرتی ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کے رہنے کے لئے ایک وطن بنایا جائے اور حکومت اس مقصد کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گی۔اور یہ بات واضح ہے کہ ایسا کوئی قدم نہیں اُ ٹھایا جائے گا جس سے فلسطین میں آ باد غیر یہودی گروہوں کے شہری یا مذہبی حقوق متاثر ہوں۔یا دوسرے ممالک میں موجود یہودیوں کے حقوق یا سیاسی حیثیت متاثر ہو ۔
صیہونیوں کے لئے یہ ایک بڑی کامیابی تھی ۔ اس اعلان کا یہ نقطہ نا قابلِ فہم ہے کہ کوئی طاقت زبردستی کسی قوم کے ملک میں کسی اور قوم کو آ باد کر دے اور پھر اُس قوم کے حقوق بھی پامال نہ ہوں۔ فلسطین میں رہنے والوں کے حقوق تو بہر حال پامال ہونے تھے اور ایسا ہی ہؤا ۔
پھر جب ۱۹۲۲ء میں لیگ آف نیشنز نے فلسطین کے علاقہ پر برطانیہ کو مینڈیٹ دیا تو اس کے ساتھ جو ہدایات اس بین الاقوامی تنظیم نے دی تھیں اس کے آرٹیکل ۲میں لکھا ہؤا تھا کہ برطانیہ فلسطین میں ایسے سیاسی،اقتصادی اور انتظامی حالات پیدا کرے گا کہ یہاں پر یہودیوں کا وطن قائم ہو جائے۔آرٹیکل ۴ میں لکھا ہؤا تھا کہ برطانیہ اس مقصد کے لئے Zionist Organization سے تعاون کرے گا ۔اور آرٹیکل ۷ میں یہ ہدایت کی گئی تھی کہ برطانیہ ایسی قانون سازی کرے گا جس کے نتیجے میں جو یہودی فلسطین میں آ کر آ باد ہوں انہیں یہاں کی شہریت مل جائے ۔ان مینڈیٹ میں ساتھ یہ راگ بھی الاپا گیا تھا کہ یہ سب کچھ ایسے طریق پر کیا جائے کہ مقامی لوگوں کے حقوق متاثر نہ ہوں۔گویا ایک ملک پر قبضہ کر کے وہاں پر آزادی دینے کی بجائے ،لاکھوں غیر ملکیوں کو بھجوا دو اور انہیں وہاں کی شہریت بھی دے دو اور ان کا ملک بھی وہیں بنا دو اور وہاں کے اصل با شندوں کے حقوق متاثر بھی نہ ہوں۔لیکن یہ کہیں نہیں ہدایت دی گئی تھی کہ یہود کو یہاں پر آ باد کرنے سے قبل فلسطین کے مقامی لوگوں سے بھی مشورہ کر لیا جائے کہ انہیں یہ منظور ہے بھی کہ نہیں۔
دوسری جنگ عظیم سے قبل کے حالات:
بہر حا ل یہودی دنیا بھر سے آ کر فلسطین میں آ باد ہونے لگے۔ان کی بستیاں بننے لگیں ۔ان کے پاس مال و دولت تو فلسطین کے باشندوں کی نسبت بہت زیادہ تھا۔وہ زرخیز زمینوں کے مالک بننے لگے۔ان کاسیاسی رسوخ بڑھتا رہا اور فلسطین کے باشندوں کو یہ صاف نظر آنے لگا کہ اب یہ نووارد اس ملک کے مالک بننے کی تیاری کر رہے ہیں۔پورے فلسطین میں یہودیوں کی دہشت گرد تنظیمیں تیزی سے اپنا جال پھیلا رہی تھیں۔فلسطین کے نہتے با شندوں نے اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے کوششیں شروع کیں مگر ان میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ صیہونی سازشوں اور برطانوی حکومت کی جانبداری کا مقابلہ کر سکتے اور نہ ہی عرب اس قابل یا اتنے چو کنا تھے کہ وہ عالمی سطح پر اس سازش کا تدارک کر نے کے قابل ہوتے۔بہت سے عرب لیڈروں کی باگ ڈور بھی مغربی طاقتوں کے ہاتھوں میں تھی۔فلسطین کا علاقہ دیکھتے دیکھتے عربوں کے ہاتھوں سے نکل رہا تھا۔ان سب واقعات کی تفاصیل کو چھوڑتے ہوئے ہم ۱۹۴۷ء میں تاریخ کے اُس اہم موڑ پر آ تے ہیں۔جب صیہونی تنظیم اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے اب فلسطین کے علاقہ کو تقسیم کرنے کا مطالبہ کر رہی تھی تاکہ وہ اس کے ایک حصہ پر اپنی ریاست بنائیں اور پھر پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے تحت اس کو وسیع کرنے کا مرحلہ شروع ہو۔اس مرحلے کا جماعت کی تاریخ سے دو طرح کا تعلق ہے۔اُن دنوںحضرت مصلح موعود ؓ نے بارہا ان حالات کا تجزیہ ، مضامین کی صورت میںشائع فرمایا تا کہ مسلمان عوام اور ان کی حکومتوں کو میں یہ احساس پیدا کیا جا سکے کہ ان کے ارد گرد ایک خوفناک سازش کا جال بچھایا جا رہا ہے۔اور بعد کے واقعات نے حضور ؓ کے خدشات کی تصدیق کی۔جس وقت یہ مسئلہ اقوام ِ متحدہ میں پیش کیا جا رہا تھا اُس وقت حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ کو اقوامِ متحدہ میں پاکستان کا نمائیندہ مقرر کیا گیا تھا ۔ابھی پاکستان کے پہلے وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے آپ کا تقرر نہیں ہؤا تھا ۔آپ نے عالمی سطح پر فلسطین کے مظلوم عوام کے حقوق کے لئے جو جد وجہد کی ،غیر بھی اُس کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے۔یہاں پر ہم حضرت چوہدری محمدظفراللہ خان صاحب کی خدمات کا تفصیل سے جائزہ لیں گے کیونکہ مخالفین نے اس حوالے سے جماعت پر اور حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کی شخصیت پر بار بار اعتراضات کیے ہیں اور یہ عمل اب تک جاری ہے۔اس مقصد کے لیے ان مخالفین نے بہت سی غلط بیانیوں سے کام لیا ہے اور بہت سے حقائق کو چھپایا ہے۔اس لئے قدرے تفصیل کے ساتھ صحیح حقائق کا ذکر ضروری ہے۔
حضرت چوہدری محمدظفراللہ خان صاحب کو پہلے ہی سے مسئلہ فلسطین میں بہت دلچسپی تھی۔ ۱۹۳۴ء تک صیہونیت فلسطین میں اپنا قدم جما چکی تھی اور اس کا اقتدار بڑھ رہا تھا۔اس سال حضرت چوہدری صاحب لندن گئے تو انہوں نے وزیر ِ ہند سے اپنے خدشات کا ذکر کیا کہ اور کہا کہ اس صورتِ حال کی ذمہ داری برطانوی حکومت پر عائد ہوتی ہے ،اس لئے حکومت کو لازم ہے کہ وہ کوئی مؤثر اصلاحی اقدام کرے ۔مثلاََ عرب زرعی اراضیات کا انتقال غیر عرب خریداروں کے نام قانوناََ روکا جائے ۔وزیرِ ہند نے کہا کہ مجھے ان تفصیلات کا علم نہیں لیکن میں نوآ بادیات کے وزیر سر فلپ کنلف لسٹر سے یہ ذکر کروں گا اور انہیں کہوں گا کہ تمہیںبلا کر تمہارا نقطہ نظر معلوم کریں اور ان خدشات کے تدارک کی کوشش کریں۔دو تین دن بعد نوآبادیات کے وزیر نے حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کو ملاقات کے لئے بلایا اور کہا کہ خوش قسمتی سے سر آرتھر وانچوپ ،ہائی کمشنر فلسطین بھی لندن آ ئے ہوئے ہیں۔میں نے انہیں بھی بلایا ہے تا کہ وہ بھی تمہارے خیالات سے واقف ہو جائیں۔حضرت چوہدری صاحب نے ان دونوں کے سامنے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ اس پر وزیر موصوف نے کہا کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ آہستہ آ ہستہ عرب اراضی غیر عربوں کے قبضے میں جا رہی ہے لیکن اس کا تدارک تو عرب ہی کر سکتے ہیں ،حکومت اس سلسلے میں کیا کر سکتی ہے ۔ چوہدری صاحب نے فرمایا کہ حکومت اس انتقالِ اراضی کو قانوناََ روک سکتی ہے ۔وزیر صاحب نے کہا کہ میرے علم میں تو ایسا قانون کہیں پر رائج نہیں ۔میں اپنے رفقاء کو اس پر کیسے آمادہ کرلوں؟ اس کے جواب میں چوہدری صاحب نے فرمایا کہ قانون کی ضرورت مسلم ہو تو پھر نظائر کی ضرورت نہیں رہتی۔ لیکن اس قسم کے قانون کی مثال ہندوستان کے صوبہ پنجاب میں موجود ہے ۔جہاں پر پنجاب انتقالِ اراضی ایکٹ کے تحت زرعی اراضی کا انتقال ایک غیر زراعت پیشہ مشتری کے حق میں نہیںہو سکتا۔ اس کے بعد آپ نے اس قانون کے عملی حصہ کی کیفیات مختصر طور پر بیان فرمائیں۔اور مسئلہ فلسطین کے بعض پہلؤ وں کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔لیکن وزیر موصوف کے رویہ پر چوہدری صاحب کو بہت مایوسی ہوئی کیونکہ یہ نظر آ رہا تھا کہ انہیں عربوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔(۴)
حالات بگڑتے رہے۔پورے فلسطین میںخون ریز فسادات ہو رہے تھے ۔صورتِ حال حکومت کے ہاتھوں سے نکل رہی تھی۔آخر کار۱۹۳۹ء میںبرطانوی حکومت کو وہی اقدامات اُ ٹھانے پڑے جن کا مشورہ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے ۱۹۳۴ء میں دیا تھا۔حکومت کی طرف سے ایک قرطاسِ ابیض شائع کیا گیا۔اس میں یہ واضح کیا گیا کہ برطانوی حکومت کو لیگ آف نیشنز کی طرف سے جو مینڈیٹ ملا تھا اور بالفور اعلانیہ(Balfour Decleration)میں فلسطین کے اندر ایک Jewish Homeبنانے کا ذکر تھا ۔اس سے مراد صرف یہ تھی کہ یہودیوں کو فلسطین میں نقلِ مکانی کرنے اور وہاں پر آباد ہونے کی سہولیات مہیا کی جائیں گی۔لیکن بعض حلقے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اس سے مراد یہ تھی کہ فلسطین میں یہودیوں کی ایک علیحدہ ریاست قائم کی جائے گی۔یہ تاثر غلط ہے۔فلسطین کو تقسیم کرنے کی تجویز نا قابلِ عمل ہے ۔برطانوی حکومت کا منصوبہ ہے کہ دس سال کے اندر فلسطین کو خود مختاری دے دی جائے اور ایک ایسی ریاست قائم کی جائے ،جس کی حکومت میں یہودی اور مسلمان دونوں شرکت کریں۔اور اب فلسطین میں مزید یہودیوں کی آمد سے فلسطین کے مقامی لوگوں کے حقوق پر اثر پڑتا ہے ۔اس لئے آ ئیندہ پانچ سال میں صرف ۷۵۰۰۰ ہزار یہودیوں کو یہاں آنے کی اجازت دی جائے گی۔اور اس کے بعد مزید یہودیوں کو صرف اُس صورت میں فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت ہو گی اگر مقامی عرب آ بادی کو اس پر اعتراض نہ ہو۔اور عربوں کی زرعی زمین کو غیر عربوں کے نام منتقل ہونے پر کنٹرول کیا جائے گا اور فلسطین میں مقیم ہائی کمشنر اس ممانعت کی نگرانی کرے گا اور اسے کنٹرول کرے گا۔
اس اعلان کی اشاعت کے کچھ ہی عرصہ کے بعد دوسری جنگِ عظیم کا آ غاز ہو گیا اور تمام دنیا اور برطانوی حکومت کی توجہ دوسرے امور کی طرف ہو گئی۔
فلسطین کا مسئلہ اقوام ِ متحدہ میں پیش ہوتا ہے:
دوسری جنگِ عظیم کے بعد عالمی صورتِ حال بالکل بدل چکی تھی۔اور اب فلسطین کا مسئلہ ایک بار پھر دنیا کی توجہ کا مرکز بن رہا تھا۔۱۹۴۷ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دو اجلاسوں میں فلسطین کا مسئلہ پیش ہؤا۔ستمبر ۱۹۴۷ء میں منعقد ہونے والے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایک ایڈہاک کمیٹی قائم کی گئی ۔اس کمیٹی کو فلسطین کے مسئلہ پر تجاویز مرتب کرنے کا کام سونپا گیا۔اب تک یہ بات تو واضح ہو چکی تھی کہ امریکہ نہ صرف مکمل طور پر یہودیوں کی تجویز کی حمایت کر رہا ہے کہ فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اورایک حصہ یہودیوں کو دیا جائے اور دوسرا حصہ فلسطین کے مقامی لوگوں کے سپرد کیا جائے،بلکہ وہ دیگر ممالک پر بھی ہر قسم کا دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اس تجویز کی حمایت کریں۔لیکن اس کے ساتھ سوویت یونین کے رویہ میں بھی ایک پُر اسرار تبدیلی آ ئی۔اب سے پہلے تو وہ عربوں کی حمایت کا دم بھر رہا تھا لیکن اچانک اس نے اپنے تیور بدلے اور یہودیوں کی علیحدہ ریاست کی بھر پورحمایت شروع کر دی۔اب صورتِ حال یہ تھی کہ دنیا کی دو سب سے بڑی طاقتیں یہودی ریاست کی حمایت بھی کر رہی تھیں اور دوسرے ملکوں پر بھی دباؤ ڈال رہی تھیں کہ وہ بھی فلسطین کو تقسیم کر دینے کیے حق میں ووٹ دیں۔اُس وقت تک چند مسلمان ممالک آزادی حاصل کر کے اقوامِ متحدہ کے ممبر بنے تھے۔ان کو کسی قسم کی طاقت بھی حاصل نہیں تھی۔اور وہ میدان میں تقریباََ مکمل طور پر تنہا نظر آ رہے تھے۔
ایڈہاک کمیٹی کام شروع کرتی ہے:
۲۵ ستمبر کو اس ایڈہاک کمیٹی کا اجلاس ہؤا اور آ سٹریلیا کے مندوب مسٹر ایوٹ(H.V.Evatt) کو اس کمیٹی کا صدر سیام( موجودہ تھائی لینڈ)کے مندوب پرنس سبھا سواستی(Subha Svasti) کو نائب صدر اور آئس لینڈ کے نمائندے کو کمیٹی کا Rapporteur منتخب کیا گیا۔اب تک یہ صورتِ حال تھی کہ دو تجاویز سامنے آ رہی تھیں پہلی تجویز جس کی حمایت سوویت یونین ،امریکہ اور یہودیوں کی تنظیم کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ایک حصہ میں یہودیوں کی ریاست بنے اور دوسرے حصہ میں فلسطین کی ریاست ہو۔دونوں حصے آ زاد ہوں اور ان کے درمیان اقتصادی اتحاد ہو۔چند سال قبل حکومتِ برطانیہ نے تقسیم کی تجویز کو نا قابلِ عمل قرار دیا تھا۔بلکہ یہودیوں کی فلسطین آمد پر پابندیاں لگانے کا اعلان بھی کیا تھا ۔کیونکہ اس سارے عمل سے فلسطین کے مقامی با شندوں کے حقوق بری طرح متاثر ہوتے تھے۔لیکن آج اسی تجویز کو نوزائدہ اقوامِ متحدہ سے منظور کرانے کے لئے ہر قسم کا نا جائز دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔اور دوسری تجویز مسلمان ممالک سعودی عرب اور عراق کی طرف سے پیش کی گئی تھی کہ فلسطین پر برطانوی اقتدار ختم کر کے اسے ایک آزاد مملکت کا درجہ دیا جائے اور اس کی وحدت برقرار رکھی جائے۔
ابھی پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے زیادہ عرصہ نہیں ہؤا تھا اور خود عرب ممالک بھی پاکستان کی پالیسی کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے اُس وقت کے ماحول کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے۔
’جب پاکستان کی طرف سے میں نے پہلی بار تقریر شروع کی تو عرب نمائندگان کو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ میری تقریر کا رخ کس طرف ہوگا۔پاکستان ایک دو دن قبل ہی اقوامِ متحدہ کا رکن منتخب ہؤا تھا ۔عرب ممالک کے مندوبین ہمیں خاطر میں ہی نہیں لاتے تھے اور ہماری طرف سے بالکل بے نیاز تھے ۔میری تقریر کا پہلا حصہ تو تاریخی اور واقعاتی تھا جس کے بعض حصوں سے بعض عرب مندوبین بھی نا واقف تھے ۔جب میں نے تقسیم کے منصوبے کا تجزیہ شروع کیا اور اس کے ہر حصہ کی نا انصافی کی وضاحت شروع کی تو عرب نمائیندگان نے توجہ سے سننا شروع کیا۔ تقریر کے اختتام پر ان کے چہرے خوشی اور طمانیت سے چمک رہے تھے ۔اس کے بعد اس معاملہ میں عرب موقف کا دفاع زیادہ تر پاکستان کا فرض قرار دے دیا گیا ۔‘(۵)
اگر چہ عرب نمائیندگان میں سے بعض کی تقاریر بٹھوس آ راء سے مرصع تھی مگر چونکہ انہوں نے اُس وقت تک کسی مرکزی ہدایت کے تحت اپنی تقاریر کو اور دلائل کو ترتیب نہیں دیا تھا اس لئے بہت سا وقت غیر متعلقہ دلائل میں صرف ہو گیا۔اُن کا مؤقف ہر لحاظ سے اتنا مضبوط اور قرینِ انصاف تھا کہ غیر متعلقہ دلائل کی طرف رجوع کرنا مؤقف کو کمزور کرنے کے مترداف تھا۔شروع سے ہی یہ بات ظاہر و باہر تھی کہ کمیٹی میں فیصلہ دلائل کی بنیاد پر نہیں ہو گا۔نیوزی لینڈ کی نمائیندگی سر کارل کر رہے تھے۔چوہدری صاحب کی ایک تقریر کے بعد کمیٹی سے نکلتے ہوئے انہوں نے حضرت چوہدری صاحب ؓ سے کہا کیسی اچھی تقریر تھی ،صاف ،واضح ،دلائل سے پر اور نہایت مؤثر ۔چونکہ وہ خود نہایت اچھے مقرر تھے اس لئے چوہدری صاحبؓ کو اُن کے تبصرے سے خوشی ہوئی۔اُن کا شکریہ اد کیا اور دریافت کیا ’سر کارل پھر آپ کی رائے کس طرف ہو گی۔‘وہ خوب ہنسے اور کہا’’ ظفراللہ رائے بالکل اور معاملہ ہے۔‘‘(۵)
ایڈہاک کمیٹی کے صدر نے دو سب کمیٹیاں تشکیل دیں ۔پہلی سب کمیٹی میں وہ ممالک شامل تھے جو فلسطین کی تقسیم کی حمایت کر رہے تھے۔اس میں امریکہ ،سوویت یونین اور جنوبی امریکہ سمیت دس ممالک شامل تھے۔دوسری سب کمیٹی میں وہ ممالک شامل کئے گئے جو عربوں کے مؤقف کی حمایت کر رہے تھے اور تقسیم کے خلاف تھے۔اس میں مصر ،شام ،سعودی عرب ،عراق،یمن ،پاکستان، افغانستان ،کولمبیا اور لبنان شامل تھے۔ان دو سب کمیٹیوں کے سپرد یہ کام تھا کہ وہ اپنی آراء کو حتمی شکل دے کر ایڈہاک کمیٹی میں رائے شماری کے لئے پیش کریں۔ پہلے کولمبیا کو دوسری کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا اور پاکستان کے نمائندے حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ کو کمیٹی کا Rapporteur بنایا گیا۔۲۳ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو ان سب کمیٹیوں کے اجلاس شروع ہوئے۔ کچھ ہی دیر میں کولمبیا کے مندوب نے اسی میں عافیت سمجھی کہ وہ سب کمیٹی کی صدارت سے معذرت کرلیں۔آخری رائے شماری میں بھی کولمبیا غیر جانبدار رہا۔کمیٹیوں میں کمیٹی کا صدر ایک مندوب اور اس کا Rapporteurدوسرے ملک کا سفارتکار ہوتا ہے۔کولمبیا کے میدان چھوڑنے کے بعد سب کمیٹی کے اراکین نے جن کی اکثریت عرب ممالک پر مشتمل تھی یہی فیصلہ کیا کہ پاکستان کے نمایندے حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ کمیٹی کے صدر اورRapporteurدونوں کے فرائض سر انجام دیں۔
دونوں سب کمیٹیوں نے جو تجاویز مرتب کرنی تھیں ان کے لئے کافی وقت درکار تھا ۔اس لئے دونوں سب کمیٹیوں نے تیاری کے لئے کچھ اور وقت مانگا۔جس کمیٹی میں امریکہ ا ور روس شامل تھے۔اس میں کچھ اختلافات امریکہ اور روس کے مؤقفوں میں بھی ظاہر ہورہے تھے۔گو دونوں ممالک فلسطین کی تقسیم کی پر زور حمایت کر رہے تھے لیکن اس بات پر اختلاف ہورہا تھا کہ یروشلم کی تقسیم کی جائے یا اسے بین الاقوامی نگرانی میں رکھا جائے اور جب اقوامِ متحدہ تقسیم کی منظوری دے دے تو پھر اس کی تنفیذ کس طرح کی جائے۔امریکہ کا کہنا تھا کہ عبوری دور میں جنرل اسمبلی فلسطین کی نگرانی کرے۔مگر روس کا اصرار تھا کہ جنرل اسمبلی نگرانی کا کمیشن منتخب کرے مگر یہ کمیشن سیکیورٹی کونسل کو جواب دہ ہو (۴)۔حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ کی سب کمیٹی نے پہلے کام مکمل کرلیا مگر درخواست کی کہ دونوں تجاویز ایک ساتھ ہی ایڈہاک کمیٹی میں پیش کی جائیں۔
بالآخر ۱۹ نومبر ۱۹۴۷ء کو ایڈہاک کمیٹی کے اجلاس میں دونوں سب کمیٹیوںکی تجاویز پیش کی گئیں۔جب سب کمیٹیاں اپنی تجاویز کو مرتب کرنے کا کام کر رہی تھیں ۔اُس دوران ۸ نومبر ۱۹۴۷ء کو سیام (موجودہ تھائی لینڈ )میں فوجی بغاوت ہوئی اور حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔سیام ایڈہاک کمیٹی کا نائب صدر تھا اور اُس وقت تک یہ ملک تقسیمِ فلسطین کی مخالفت کر رہا تھا۔بہر حال کمیٹی کی کاروائی شروع ہوئی اورپہلی سب کمیٹی نے فلسطین کی تقسیم کی تجویز پیش کی۔دوسری سب کمیٹی جس میں عرب ممالک اور پاکستان شامل تھے ،کی طرف سے حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے تین قراردادوں میں تجاویز پیش کیں۔اور ان میں سے پہلی قرارداد نے معاملے کو بالکل نیا رخ دے دیا۔ پہلی قرارداد یہ تھی کہ اس معاملے میں جنرل اسمبلی پہلے بین الاقوامی عدالتِ انصاف سے رائے لے کہ آیا اقوامِ متحدہ کو یہ اختیار بھی ہے کہ وہ فلسطین کے عوام کی اکثریت کی مرضی کے خلاف کوئی حل اُن پر مسلط کرے ۔اور دیگر قانونی پہلؤں پر عالمی عدالت سے استفسار کیا جائے۔حقیقت یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت بھی اس بین الاقوامی ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ایک خطے کو اُس کے باشندوں کی اکثریت کی مرضی کے خلاف کسی اور قوم کے حوالے کر دے یا کسی ملک کو از خود تقسیم کر نے کا اعلان کر دے۔صیہونی دباؤ اور سازشوں نے اقوام ِ متحدہ کو اُ س راستے پر ڈال دیا تھا جس پر چل کر اس کی ابتداء ہی ایک ظالمانہ اور غیر قانونی فیصلے سے ہو رہی تھی۔دوسری قرارداد یہ تھی کہ جو یہودی گذشتہ سالوں میں مختلف جگہوں سے نکالے گئے ہیں انہیں اقوامِ متحدہ کے ممبران کے تعاون سے مختلف مقامات پرآباد کیا جائے۔تیسری قرارداد یہ تھی کہ فلسطین پر برطانوی اقتدار ختم کر کے اسے فلسطینیوں کی ایک عبوری حکومت کے حوالے کیا جائے جو ایک قانون ساز اسمبلی کا انتخاب کرائے۔ اورفلسطینیوں کی منتخب کی ہوئی یہ قانون ساز اسمبلی ملک کا آ ئین تیار کرے۔
اب ایڈہاک کمیٹی میںان آراء پر بحث شروع ہوئی۔صیہونی منصوبے کی تائید کرنے والا گروہ اپنے منصوبے کو منظور کرانے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے جس بے تکلفی سے استعمال کر رہا تھا ،اُس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔۲۲ نومبر کو جب اجلاس شروع ہؤا تو پہلی سب کمیٹی نے ، جس کے ممبروں میں امریکہ اور روس بھی شامل تھے،تقسیم کی تجویز کے ساتھ ایک نقشہ بھی پیش کیا جس میںمجوزہ تقسیم کو ظاہر کیا گیا تھا۔اس تقسیم کے مطابق نجف کا علاقہ یہودیوں کی ریاست کو دینے کی تجویز تھی۔جب اس نقشے کی نقول ممبران کو دی گئیں تو اچانک حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے نشاندہی کی کہ نقشہ غلط بنا ہؤا ہے ۔سارا نقشہ ایک سکیل پر بنایا گیا تھا اور نجف کا حصہ چار گنا چھوٹے سکیل پر بنایا گیا تھا۔سرسری نظر سے دیکھنے پر یہ تاثر ملتا تھا کہ یہ ایک چھوٹا سا علاقہ یہودی ریاست کو دیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ یہ علاقہ کافی زیادہ تھا۔اس نشاندہی پر ایڈہاک کمیٹی میں ایک کھلبلی پیدا ہو گئی۔(۶)
بہت سے ممالک بڑی طاقتوں کے دباؤ کے تحت تقسیم کے حق میں ووٹ تو دینے کو تیار ہو گئے تھے لیکن خود اُن کے نمائندے محسوس کر رہے تھے کہ یہ زیادتی ہو رہی ہے اور دباؤ میںآ کر ایک قوم پر ظلم کیا جا رہا ہے۔جب تقسیم کے منصوبے کے تفصیلی حصہ پر بحث شروع ہوئی تو ڈنمارک کے مندوب حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ واقعات اور تمہارے دلائل سے یہ صاف ظاہر ہے کہ تقسیم کا منصوبہ بالکل غیر منصفانہ ہے اور اس سے عربوں کے حقوق پر نہایت نہایت مضر اثر پڑے گا ۔سکینڈے نیویا کے تمام ممالک کے نمائیندوں کی یہی رائے ہے۔ معلوم ہوتا ہے تقسیم کی تجویز ضرور منظور ہو جائے گی کیونکہ امریکہ کی طرف سے ہم پر زور ڈالا جا رہا ہے ۔ میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ کمیٹی میں عام طور پر یہ احساس ہے کہ ہم امریکہ کے دباؤ کے ماتحت ایک بے انصافی کا فیصلہ کرنے والے ہیں۔اس احساس کا تمہیں فائدہ اُ ٹھانا چاہئیے ۔تم نے اپنی تقریروں میںیہ بھی ثابت کیا ہے کہ اس کی بعض تجاویز ظاہراََ طور پر عرب کے حقوق کو غصب کرنے والی ہیں مثلاََ یافہ کا شہر جس کی اکثر آ بادی عرب ہے اسے اسرائیل میں شامل کیا گیا ہے ۔اسی طرح اور بہت سی ایسی خلافِ انصاف تجاویز ہیں ۔اس وقت کمیٹی کی کاروائی بڑی جلدی میں ہو رہی ہے ۔ اگر تم ان تجاویز کے متعلق ترامیم پیش کرتے جاؤ اور مختصر سی تقریر ہر ترمیم کی تائید میں کر دو تو ہم سکنڈے نیویا کے پانچوں ممالک کے نمائندے تمہاری تائید میں رائے دیں گے اور کمیٹی کی موجودہ فضامیں تمہاری تمام ترمیمیں منظور ہو جائیں گی۔اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اگر تقسیم منظور بھی ہو گئی تو بہت سے امور میں عربوں کی اشک شوئی ہو جائے گی۔چوہدری صاحبؓ کو یہ تجویز پسند آ ئی اور انہوں نے یہ دیکھنے کے لئے کہ ان کا اندازہ درست بھی ہے کہ نہیںایک معمولی سی ترمیم پیش کی۔اس پر فوری رائے شماری ہوئی اور تجویز منظور ہو گئی ۔اس پر فلسطین کے نمائندے نے حیران ہو کر اس کی وجہ پوچھی۔ اس پر چوہدری صاحب ؓ نے انہیں ڈینش مندوب کی بات بتائی اور کہا کہ ہم رائے تقسیم کے خلاف دیں گے لیکن اس طرح تقسیم کا منصوبہ کمزور ہو جائے گا اور اگر تجویز منظور بھی ہو گئی تو اتنا زیادہ نقصان نہیں ہو گا۔لیکن اس پر فلسطینیوں کے نمائندے السید جمال الحسینی نے کہا کہ مشکل یہ ہے کہ اگر تقسیم واضح طور پر ہمارے حقوق کو غصب کرنے والی نہ ہوئی تو ہمارے لوگ اس کے خلاف جنگ پر آ مادہ نہیں ہوں گے اور ہمیں سخت نقصان پہنچے گا ۔اس لئے تم مہربانی کر کے کوئی اور ترمیم نہ پیش کرو۔ اس پر حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ کو خاموش ہونا پڑا۔لیکن یہ فلسطینی راہنماؤں کی سخت غلطی تھی وہ جنگ کے لئے تیار نہیں تھے اور بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ جب جنگ شروع ہوئی تو رہے سہے علاقے بھی ان کے ہاتھوں سے نکل گئے اور اس کا فائدہ یہودیوں کو ہی پہنچا۔(۷)
معلوم ہوتا ہے کہ حضرت چوہدری صاحبؓ نے نجف کے علاقے کے متعلق نقشہ میں جس نقص کی نشاندہی کی تھی ،اس سے تقسیم کی حمایت کرنے والوں نے کچھ خجالت ضرور محسوس کی تھی کیونکہ کمیٹی کے اٹھائیسویں اجلاس میں یہودیوں کی نمائندے نے یہ پیشکش کی کہ تقسیم کی تجویز میں یہ ترمیم کر دی جائے کہ مصر کے ساتھ نجف کا کچھ علاقہ اور بیر شیبا کو عربوں کی ریاست میں شامل کر دیا جائے۔ بہرحال اب تک یہ واضح ہو چکا تھا کہ بڑی طاقتیں تقسیم ِ فلسطین کی تجاویز منظور کرا کر رہیں گی۔
ایڈہاک کمیٹی میں رائے شماری ہوتی ہے:
جب۲۴ نومبر ۱۹۴۷ء کو ایڈہاک کمیٹی میں رائے شماری کا وقت آیا تو اُس دوسری سب کمیٹی کی آراء پر رائے شماری شروع ہوئی،جس کی اراکین میں پاکستان اور عرب ممالک شامل تھے۔پہلا مسئلہ اُن قانونی مسائل کا تھا جن کی نشاندہی حضرت چوہدری صاحب نے فرمائی تھی ۔یہ کل آٹھ نکات تھے جن کو ایک سوال کی صورت میں عالمی عدالتِ انصاف کی طرف بھجوانے کی سفارش کی جا رہی تھی۔فرانس کے نمائندے نے تجویز دی کہ پہلے سات نکات کے متعلق ایک ساتھ رائے شماری کی جائے اور آٹھویں نکتہ کے بارے میں علیحدہ رائے شماری ہو ۔آٹھواں نکتہ یہ تھا کہ کیا اقوامِ متحدہ کو یہ اختیار ہے کہ وہ فلسطین کی عوام کی منظوری کے بغیر اُس کی مستقبل کی حکومت کے متعلق یا اُس کی تقسیم کے متعلق کسی تجویز کو منظور کر کے فلسطین کے لوگوں پر اسے نافذ کرے؟اور یہ بڑا اہم سوال تھا۔اگر اقوامِ متحدہ کو یہ اختیار ہی نہیں تھا تو پھر کسی تجویز کی منظور ہونے یا نا منظور ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں رہتا تھا۔پہلے آٹھ سوالوں کے بارے میں رائے شماری ہوئی تو اس بات کے حق میں کہ ان سوالات کے بارے میں عالمی عدالت ِ انصاف سے استفسار کیا جائے اٹھارا ،اس کے خلاف پچیس ووٹ ڈالے گئے اور گیارہ ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا اور غیر جانبدار رہے۔جب سب سے اہم آٹھویں سوال پر رائے شماری ہوئی تو بیس ممالک نے یہ رائے دی کہ اقوامِ متحدہ کو یہ حق حاصل نہیں ہے اور اس بارے میں عالمی عدالت ِ انصاف سے استفسار کرنا چاہیے۔اکیس ممالک نے یہ رائے دی کہ اقوامِ متحدہ یہ قدم اُٹھا سکتی ہے اور تیرہ ممالک غیر جانبدار رہے۔تمام تر دباؤ کے باوجود اس بنیادی مسئلہ پرابھی تک پچاس فیصد اراکین بھی بڑی طاقتوں کے ہمنوا نہیں بنائے جا سکے تھے اور ایک بڑی تعداد غیر جانبدار رہنے پر مجبور تھی۔سب سی بڑی بات یہ تھی کہ بعض ممالک جو دباؤ کے تحت امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہو چکے تھے اس نکتے پر حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ کی تجویز کی حمایت کر رہے تھے کہ پہلے عالمی عدالتِ انصاف سے استفسار کرنا چاہئیے کہ آیا جنرل اسمبلی قانونی طور پر اس فیصلہ کی مجاز بھی ہے کہ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے۔چنانچہ فرانس،یونان،برازیل اور ایلسیلوا ڈور نے بھی اس تجویز کی حمایت میں ووٹ دیا اور برازیل کے پاس اُس وقت اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدارت بھی تھی۔غالباََ اس طرح یہ ممالک اپنے ضمیر کا بوجھ بھی ہلکا کرنا چاہتے تھے اور عالمی عدالتِ انصاف کی طرف بھجوا کر اس مسئلہ سے اپنی جان بھی چھڑانا چاہتے تھے۔لیکن چونکہ کمیٹی کے اندر جس رائے کی طرف زیادہ اراکین کی آ راء ہوں وہ منظور ہو جاتی ہے ۔اس لئے یہ تجویز منظور نہ ہو سکی کہ یہ سوال عالمی عدالتِ انصاف کی طرف بھجوایا جائے۔ فلسطینیوں کی حمایت میں اچانک اس طرح کا قانونی سوال اُ ٹھ جانا اور اس کی تائید میں اچھے خاصے اراکین کا رائے دینا اُن بڑی طاقتوں کو ایک آ نکھ نہیں بھا رہا تھا جو تقسیم کی حمایت میں مہم چلا رہی تھیں۔ اور یہ امر اُن کی لئے خاصی پریشانی کا باعث تھا۔۲۵ نومبر کے اجلاس میں سوویت یونین کے نمائندے نے جھنجلائے ہوئے انداز میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوال Mandatory Power یعنی برطانیہ کی طرف سے پہلے نہیں اُ ٹھایا گیا تھا۔پہلے یہ سوال جنرل اسمبلی کے اجلاس میں نہیں اُ ٹھایا گیا تھا ۔پہلے یہ سوال فلسطین پر سپیشل کمیٹی میں نہیں اُ ٹھایا گیا تھا ۔اب اچانک کچھ لوگ سامنے آ کر کہہ رہے ہیں کہ جنرل اسمبلی کو یہ اختیار ہی نہیں ہے۔اسی کارروائی میں حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ تقسیم فلسطین کی تجویز کو چار سوالوں کی کسوٹی پر پرکھنا چاہئیے۔پہلے یہ کہ قانونی طور پر اس فیصلے کو کرنے کا اختیار بھی ہے کہ نہیں؟ دوسرے یہ کہ کیا یہ فیصلہ قابلِ عمل بھی ہے کہ نہیں؟تیسرے یہ کہ کیا یہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے؟چوتھے یہ کہ کیا اس سے یہ مسئلہ حل ہو گا؟ان سب سوالات کے جواب میں اقوامِ متحدہ صرف نفی میں ہی دے سکتی ہے۔حضرت چوہدری صاحب نے نمائیندگان کی توجہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی طرف مبذول کرائی اور فرمایا کہ اس چارٹر کی رو سے جنرل اسمبلی کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہی نہیں۔مصر کے نمائندے نے انتباہ کیا کہ اس فیصلے کے نتیجے میں نہ صرف فلسطین میں بلکہ دوسرے اسلامی ممالک میں بھی یہودیوں کی جانوں کو خطرہ ہو جائے گا۔(۸)
جب یہ تجویز پیش کی گئی کہ فلسطین کو ایک متحدہ اور جمہوری ریاست کی شکل دینی چاہئیے جس میں اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دی جائے۔اس تجویز کے حق میں صرف بارہ ،اس کے خلاف انتیس ووٹ ملے اور چودہ اراکین نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔اس طرح یہ تجویز نا منظور ہو گئی۔
اب وہ ترمیم شدہ تجویز پیش کی گئی جو اُس سب کمیٹی نے تیار کی جس کے ممبروں میں امریکہ اور سوویت یونین بھی شامل تھے ۔اس تجویز میں فلسطین کو تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا تھااور ایک یہودی ریاست کی تجویز پیش کی گئی تھی۔اس تجویز کی تائید میں پچیس ووٹ آئے ۔اس کے خلاف تیرہ ووٹ اور سترہ اراکین نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا ۔کمیٹی کے اندر یہ تجویز منظور تو ہو گئی لیکن یہ امر ظاہر تھا کہ ابھی اس تجویز کو پچاس فیصد اراکین کی حمایت بھی حاصل نہیں اور ایک بڑی تعداد غیر جانبدار رہنے میں عافیت سمجھ رہی ہے۔اب یہ تجویز جنرل اسمبلی میں پیش ہونی تھی۔بڑی طاقتوں کو یہ مشکل درپیش تھی کہ جنرل اسمبلی کے اندر قرارداد کو منظور کرانے کے لئے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے ۔اور اس تناسب کے ساتھ یہ قرارداد وہاں منظور نہیں ہو سکتی تھی۔ابھی مختلف ممالک پر مزید دباؤ ڈالنے کی ضرورت تھی تا کہ وہ بھی بڑی طاقتوں کی پیش کردہ تجویز کی حمایت پر آمادہ ہو جائیں۔ وہ تیرہ ممالک جو اب تک اس قرارداد کی مخالفت پر قائم تھے وہ افغانستان،کیوبا ،عراق ،مصر ، بھارت، ایران، لبنان،پاکستان ،سعودی عرب ،سیام،شام ،ترکی اور یمن تھے۔اس طرح عرب ممالک اور مسلمان ممالک کے علاوہ صرف بھارت، کیوبا اور سیام ہی اس قرارداد کی مخالفت کر رہے تھے۔اور ان میں سے ایک ملک یعنی سیام کی حکومت اس کاروائی کے دوران تبدیل ہو چکی تھی۔عرب ممالک کی طرف سے شدید جذبات کا اظہار ہو رہا تھا ۔سعودی عرب کے نمائندے شہزادہ فیصل (جو بعد میں سعودی عرب کے بادشاہ بنے )نے بیان دیا کہ اگر جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم کی قرارداد منظور کی تو سعودی عرب جنرل اسمبلی سے علیحدہ ہو جائے گا۔ اس کی تائید میںیہ بیانات آنے شروع ہوئے کہ اگر یہ قرارداد منظور ہوئی تو عرب ممالک کو اقوامِ متحدہ کی رکینیت چھوڑ دینی چاہئیے۔(۹)
قرارداد جنرل اسمبلی میں پیش ہوتی ہے:
مگر صرف بیانات سے عالمی سازشوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔اب اس قرارداد کو جنرل اسمبلی میں پیش کرنے کا وقت آ رہا تھا۔
جنرل اسمبلی میںہر اہم قرارداد کی منظوری کے لئے دو تہائی اکثریت حاصل ہونا ضروری ہوتی ہے۔ابھی تک تقسیمِ فلسطین کے حامیوں کوواضح طور پر یہ اکثریت حاصل نہیں ہو سکی تھی ۔لیکن دوسری جنگِ عظیم کے معاََ بعد غریب ممالک تو ایک طرف رہے خود یورپ کے ترقی یافتہ ممالک بھی انتہائی کمزوری کی حالت میں تھے اور بہت سے امور میں امریکہ کے مرہونِ منت تھے یا پھر باقی ممالک سوویت یونین کے زیرِ اثرتھے۔اس لئے ان طاقتوں کا دباؤ رائے کو بدلنے کا باعث بن رہا تھا۔
بعض ممالک کے متعلق ابھی پختہ علم نہیں تھا کہ وہ کس طرف رائے دیں گے ان میں سے ایک لائیبیریا بھی تھا۔لائیبیریا ایڈہاک کمیٹی میںتقسیمِ فلسطین کی تجویز پر غیر جانبدار رہا تھا لیکن جب حضرت چوہدری صاحب کی تجویز پیش ہوئی کہ پہلے عالمی عدلات سے یہ استفسار کرنا چاہئیے کہ جنرل اسمبلی یہ فیصلہ کرنے کی مجاز بھی ہے کہ نہیں تو اس نے اس تجویز کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔اور ابھی اس کی طرف سے اظہارِ رائے نہیں ہؤا تھا۔جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جانے سے پہلے حضرت چوہدری صاحب لائیبیریا کے مندوب مسٹر ڈینس سے ملنے اُن کے ہوٹل گئے۔اور ان کی رائے کے متعلق استفسار کیا ۔انہوں نے کہا کہ میری ذاتی ہمدردی تو عربوں کے ساتھ ہے اور اب تک ہماری حکومت کی ہدایت بھی یہی ہے کہ تقسیم کے خلاف رائے دی جائے ۔لیکن ہم پر امریکہ کا دباؤبڑھ رہا ہے۔ تم کوشش کرو کہ آج رائے شماری ہو جائے ۔اس صورت میں ہم تقسیم کے خلاف رائے دیں گے۔لیکن اگر آج رائے شماری نہ ہوئی تو معلوم نہیں کیا صورت ہو۔پھر حضرت چوہدری صاحب کی موجودگی میں اپنی سیکریٹری کو کہا کہ میں اسمبلی کے اجلاس کے لئے جا رہا ہوں اگر میرے نام کوئی پیغام آئے تو مجھے مت بھجوانا ۔پھر چوہدری صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ دیکھ لیں میں نے آج کا تو انتظام کر دیا ہے۔اس سے یہی لگتا ہے کہ انہیں بھی خدشہ تھا کہ اگر دباؤ جاری رہا تو جلدان کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔لیکن اپنی ذاتی شرافت کی وجہ سے وہ یہی چاہتے تھے کہ وہ تقسیم کی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیں۔
سیام ایڈہاک کمیٹی کا نائب صدر تھا لیکن اسی دوران سیام ( موجودہ تھائی لینڈ )میں بغاوت ہو گئی اور حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا یا تختہ الٹوا دیا گیا ۔اس کے بعد اُن کے نمائندے نے خود ہی ایڈہاک کمیٹی کے اجلاسات میں شرکت بند کر دی۔ان کی ہمدردیاں عربوں کے ساتھ تھیں۔حضرت چوہدری صاحب اُن کے پاس گئے اور کہا کہ آپ کے ملک میں ایک حکومت قائم ہے اور اس حکومت نے آپ کی نامزدگی کو منسوخ نہیں کیا ۔اس لئے آپ کو اجلاسات میں شرکت سے صرف مفروضوں کی بنا پر نہیں رکنا چاہئیے۔اس پر وہ ایڈہاک کمیٹی کے اجلاس میںشریک ہوئے اور انہوں نے تقسیم کے خلاف ووٹ دیا ۔لیکن جب وہ جنرل اسمبلی میں پہنچے تو اس وقت جنرل اسمبلی کے صدر کو تار موصول ہوئی کہ سیام نے اپنے وفد کی نامزدگی کو منسوخ کر دیا ہے۔یہ بات قابل ِغور ہے کہ حکومت تبدیل ہونے کے بعد تقریبا سولہ دن تک سیام کی حکومت نے اپنے مندوب کی نامزدگی کو منسوخ نہیں کیا تھا لیکن جہاں سیام کا مندوب تقسیم کی تجویز کے خلاف ووٹ دیتا ہے اور جنرل اسمبلی میں معاملہ پہنچتا ہے ،اسی وقت ایک تار موصول ہوتی ہے کہ ہم اپنے نمائندے کی نامزدگی منسوخ کرتے ہیں ،چنانچہ سیام نے جنرل اسمبلی کے اندر رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔اب یہ بات واضح ہوتی جا رہی تھی کہ بڑی طاقتیں ہر قیمت پر تقسیم کی قرارداد منظور کرانا چاہتی ہیں۔چاہے اُس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے۔ان کے دباؤ کے تحت ایک کے بعد دوسرا ملک ان کے کیمپ میں منتقل ہو رہا تھا۔
۲۶ نومبر کو صبح گیارہ بجے جنرل سمبلی کا اجلاس شروع ہؤا۔برازیل کے آرانا(Aranha) جنرل اسمبلی کی صدارت کر رہے تھے۔پھر آئس لینڈ کے مندوب نے ایڈہاک کمیٹی کے Reporter کی حیثیت سے ایک مختصر رپورٹ پڑھی۔اس کے بعد مختلف ممالک کے مندوبین نے اس مسئلہ پر تقاریر کرنی تھیں۔سب سے پہلے سویڈن کے نمائندے نے تقریر کی ۔سویڈن پہلے ہی تقسیم کے حق میں رائے دے چکا تھا اور اس تقریر میں بھی انہی خیالات کو دہرایا گیا۔اس کے بعد فلپائن کے نمائندے کی باری تھی۔فلپائن کی طرف سے ابھی اظہارِ رائے نہیں ہؤا تھا۔اس لئے سب کو دلچسپی تھی کہ فلپائن کا ووٹ کس طرف جائے گا۔فلپائن کی طرف سے جنرل رومیلو (Romulo) نے تقریر شروع کی۔ جنرل رومیلو ایک فصیح البیان مقرر تھے۔ان کی تقریر کا پہلا جملہ ہی چونکا دینے والا تھا۔انہوں نے نے کہا کہ ہمارا وفد اس بحث کے آ خری مرحلہ میں بہت سے شکوک و شبہات کے ساتھ شامل ہو رہا ہے۔اس کے بعد انہوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ تمام کارروائی کے سننے اور رپورٹ کے مطالعہ کے بعد ان کی حکومت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وہ تقسیمِ فلسطین کی تجویز کی حمایت نہیں کر سکتی۔اپنے مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے تمام قانونی آراء کا مطالعہ کیا ہے ، خواہ Mandatory Power کو بین الاقوامی معاہدے کے نتیجے میں اختیار ملا ہو ، فلسطین کے باشندوں کو اس بنیادی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے وطن کی وحدت کو برقرار رکھیں۔ ماضی قریب میں ہمارے ملک کو بھی ایک طاقت نے اس قسم کی وجوہات کا سہارا لے کر تقسیم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن فلپائن کے لوگوں نے بڑی قوت سے اس کوشش کا مقابلہ کیا تھا۔اور یونائیٹڈ اسٹیٹس کی کانگرس میں اپنے مؤقف کو بڑے زور سے پیش کیا تھا۔اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج فلپائن کی وحدت قائم ہے اور وہ اقوامِ متحدہ میں فلسطین کے متعلق اس تجویز کی مخالفت کر رہا ہے۔ مسٹر رومیلو نے کہا کہ ہم اُن مظالم سے غافل نہیں ہیں جو یہودیوں پر ہوئے ہیں۔جب ہٹلر کے جرمنی میں یہودیوں پر مظالم ہو رہے تھے تو فلپائن اُن چند ممالک میں سے تھا جس نے اپنے دروازے اُن کے لئے کھول دیئے تھے۔لیکن اگر یہودیوں کو کچھ ممالک سے نکلنے پر مجبور کیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اُن کی ایک علیحدہ ریاست قائم کر دی جائے۔اپنی تقریر کے آ خر میں انہوں نے کہا
’اس مختصر تبصرے کے آخر پر میں اپنی حکومت کی طرف سے یہ بیان دینا چاہتا ہوں کہ ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہم نہ ہی کسی ایسے منصوبے کی تائید کر سکتے ہیں اور نہ ہی ایسے منصوبے میں حصہ لے سکتے ہیں جس میں فلسطین کی سیاسی تقسیم کی گئی ہویا ایسے عمل کی حوصلہ افزائی کی گئی ہو جس کے نتیجے میںاس مقدس سرزمین کی قطع و برید کی جائے۔‘
فلپائن کا دو ٹوک اظہار اُن طاقتوں کے لئے خطرے کی گھنٹی تھا جو فلسطین کی تقسیم پر تلی بیٹھی تھیں۔ اس کے بعد یمن کے مندوب نے تقسیم کی تجویز کے خلاف تقریر کی اور کہا کہ فلسطین کے عرب با وجود اس حقیقت کے کہ فلسطین کے اکثر یہودی کچھ عرصہ قبل نقلِ مکانی کر کے فلسطین میں آئے ہیں،ان یہودیوں کو اپنے ملک میں برابر کے حقوق دینے کو تیار تھے مگر اس کے با وجود فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز جنرل اسمبلی کے سامنے پیش کی گئی ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے اس تجویز کو غیر قانونی اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے خلاف قرار دیا۔ کینیڈا کے سفیر نے تقسیم کی تجویز کی حمایت کی اور اس کی دو اہم وجوہا ت یہ بیان فرمائیں کہ اگر چہ برطانوی مینڈیٹ کے خاتمہ پر ایک متحدہ فلسطین ریاست کو اقتدار منتقل ہونا چاہئیے تھا لیکن اس راستے میں مشکل یہ حائل ہے کہ بالفور اعلانیہ اور لیگ آف نیشنز کے مینڈیٹ کے نتیجے میں لاکھوں یہودی فلسطین منتقل ہو گئے ہیں اور فلسطین میںچھ سو ملین کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں اس لئے یہ حل قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔اور دوسری دلیل انہوں نے یہ بیان فرمائی کہ ابھی تو یہودیوں اور فلسطینیوں میں اس بارے میں بہت اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن اگر تقسیم کی تجویز کو قبول کر لیا جائے تو دونوں گروہوں کے لیڈروں کے دل بدلنے کے امکانات زیادہ ہوں گے کیونکہ دونوں عظیم ترین طاقتیں اس تجویز کی حمایت کر رہی ہیں۔اس تقریر کی منطق بھی خوب تھی۔یعنی وہ یہ کہہ رہے تھے کہ بڑی طاقتوں نے پہلا ظلم یہ کیا تھا کہ فلسطین کے باشندوں کی مرضی کے خلاف یہودیوں کو وہاں آباد کرنا شروع کیا ۔جب وہ وہاں پہنچ گئے تو پہلے ظلم کو دوسرے ظلم کی دلیل بنا لیا کہ اب کیونکہ یہ یہودی یہاں آ گئے ہیں اور یہ تم سے امیر بھی زیادہ ہیں اور انہوں نے اس امارت کی بنا پر اتنے ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے ،اس لئے اب ہمیں یہ اختیار ہے کہ تماری مرضی کے خلاف تمہارے ملک کے دو ٹکڑے کریں اور اچھا ٹکڑا یہودیوں کو دے دیں،اور کیونکہ بڑی طاقتیں تقسیم کی حمایت کر رہی ہیں اس لئے ،کوئی مسئلہ نہیں ہم بعد میں تمہارے لیڈروں کے خیالات کو بھی بدل دیں گے۔اور پھر اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے کینیڈاکے مندوب نے یہ موشگافی کی کہ آخرکار یہودی پہلے اس ملک کے باشندے تھے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں خود کینیڈا کے باشندے اور امریکہ اور آ سٹریلیا کے باشندے پہلے یورپ میں آباد تھے۔لیکن اب اس بنا پر وہ یورپ کی حکومتوں سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتے کیونکہ پہلے ہمارے آباؤ اجداد یہاں سے گئے تھے اس لئے تم پابند ہو کہ اگر تمہارے ملک کے باشندے اسے نہ بھی پسند کریں تو بھی ہمیں اپنے ملک کی شہریت کے حقوق دو ۔اور جب ہم یہاں آ جائیں گے تو تمہیں چاہئیے کہ اپنے ملک کا ایک حصہ ہمیں اس لئے دے دو تاکہ ہم اس میں اپنے لئے ایک علیحدہ ریاست بنائیں۔ باوجود تمام طاقت کے یہ ممالک یورپ کے کسی ملک سے یہ مطالبہ کرنے کی جراء ت نہیں کرسکتے۔مگر فلسطین کے عربوں کے حقوق پامال کرتے ہوئے ہر بے سر و پا بات کو دلیل بنا لیا گیا تھا۔کینیڈا کے بعد یونان کے مندوب کو تقریر کے لئے بلایا گیا۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب حضرت چوہدری صاحب کی مرتب کردہ تجویز ایڈہاک کمیٹی میں پیش ہوئی کہ یہ سوال کہ اقوامِ متحدہ یہ فیصلہ کرنے کی مجاز بھی ہے کہ نہیں ،عالمی عدالتِ انصاف کی طرف بھجوانا چاہئیے تو یونان نے بھی اس کے حق میں ووٹ دیا تھا اور اس کے بعد جب یہ تجویز پیش ہوئی کہ فلسطین کو ایک ملک رہنا چاہئیے اور جب امریکہ اور روس کی تجویز پیش ہوئی کہ فلسطین کو دو آ زاد ریاستوں میں تقسیم کر دینا چاہئیے تو یونان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا تھا ۔اس لئے اب سب منتظر تھے کہ یونان اب کس طرح اپنے ووٹ کا استعمال کرے گا۔یونان کے نمائندے نے ایک بہت مختصر تقریر کی۔اور کہا کہ یونان کو یہ امید تھی کہ دونوں فریق کسی مفاہمت پر پہنچ جائیں گے اور اسی لئے اُس نے پہلے سپیشل کمیٹی کے حق میں ووٹ دیا تھا لیکن اب یہ واضح ہے کہ دونوں فریق کسی مفاہمت پر نہیں پہنچ سکے اور عرب تقسیمِ فلسطین کی اس تجویز پر راضی نہیں ہیں اور یہ واضح ہے کہ اس کو منظور کرنے کے نتیجے میںبہت سے مسائل پیدا ہوں گے اور خون ریزی ہو گی ۔اس لئے یونان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ تقسیم کی تجویز کی مخالفت میں ووٹ دے گا۔یونا نی مندوب کا بیان تقسیم کی حامیوں کے لئے سخت دھچکا تھا ۔اب یہ محسوس ہو رہا تھا کہ تمام تر دباؤ کے با وجود ان کی تجویز دو تہائی حمایت حاصل کرتی نہیں نظر آ رہی۔ جبکہ فریقین کے دلائل تفصیل سے سامنے آ چکے تھے جنرل اسمبلی میں اُن کی بازی الٹتی نظر آ رہی تھی۔پھر برازیل نے حسبِ سابق تقسیم کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ۔زیادہ تر رائے شماری میں برطانیہ غیر جانبدار رہا تھا ۔ابھی بھی اُس کے نمائندے نے یہی اظہار کیا کہ یہودیوں اور عربوں کے درمیان مفاہمت نہیں ہو سکی۔اور زبردستی کوئی حل مسلط نہیں کیا جا سکتا۔اس کے بعد تقسیم کے ایک مجوز امریکہ کے نمائندے کھڑے ہوئے اور اپنی تجویز کے حق میں دلائل پیش کئے۔ان کا مؤقف تھا کہ یہ ساری تجویز اقوامِ متحدہ کے عمل کے نتیجے میں تیار ہوئی ہے ۔اور اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اقوامِ متحدہ اس مسئلہ پر فیصلہ کرنے کی مجاز ہے کیونکہ جنرل اسمبلی اس بات کی مجاز ہے کہ وہ کسی مسئلہ کا پُر امن حل تجویز کرے۔اور فلسطین ایک ایسا علاقہ تھا جو زیرِ انتظام (Mandatory)تھا۔(مرادیہ تھی کہ لیگ آف نیشنز نے اسے اپنے زیرِ انتظام لیا تھا)۔اور یہ معاملہ بین الاقوامی نوعیت کا ہے داخلی معاملہ نہیں ہے ۔کیونکہ اس کے نتیجے میں مختلف ممالک میں تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔گویا وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ پہلے بڑی طاقتوںنے وہاں پر ،وہاں کے باشندوں کی مرضی کے خلاف یہودیوں کو آ باد کیا اور اس کے نتیجے میں یہ معاملہ بین الاقوامی نوعیت کا ہو گیا ہے،اس لئے اب دوسرے ممالک کو یہ اختیار بھی مل گیا ہے کہ وہ فلسطین کو وہاں کی اکثریت کی مرضی کے خلاف اپنی خواہشات کے مطابق تقسیم کریں۔یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ اختیارات کی اس عجیب و غریب تقسیم میں اختیارات سارے دوسرے ممالک کے حصے میں آ تے تھے اور اُ س ملک کے باشندوں کو صرف کامل فرمانبرداری کی نصیحت کی جا رہی تھی۔دوپہر کے وقفے سے پہلے ایران کے نمائندے نے مختصرتقریر میں اس تجویز کو غیر قانونی قرار دیا اور پھر مصر کے نمائندے نے اپنی تقریر میں یہ واضح کیا کہ اگر یہ تجویز منظور بھی ہو گئی تو مصر کے نزدیک اس کی حیثیت صرف ایک سفارش کی ہو گی اور مصر کے لئے اس کا تسلیم کرنا ضروری نہیں ہو گا۔اس کے بعد بارہ بج کر پچاس منٹ پر جنرل اسمبلی کے اس اجلاس میں وقفے کا اعلان کیا گیا۔
جنرل اسمبلی میں رائے شماری ملتوی کرائی جاتی ہے:
اب تک جن آ راء کا اظہار ہؤا تھا ،اس سے یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ ابھی تک امریکہ اور روس کی تجویز کو دو تہائی کی اکثریت حاصل نہیں ہے اور یہ توقع کی جا رہی تھی کہ آج ہی رائے شماری کرائے جائے گی۔لیکن اس کے ساتھ اس بات کا برملا اظہار کیا جا رہا تھا کہ بڑی طاقتیں دوسرے ممالک پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ اس تجویز کے حق میں رائے دیں اور لائیبیریا کے نمائندے نے تو حضرت چوہدری ظفراللہ خاں صاحب ؓ کے سامنے کہہ بھی دیا تھا کہ اب تک تو یہی ہدایت ہے کہ اس تجویز کے خلاف ووٹ دینا ہے ،مگر دباؤبڑھ رہا ہے،کل تک پتہ نہیں کیا ہو جائے ۔سہ پہر کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے عراق کے وزیرِ خارجہ پریشانی کی حالت میں حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آج کا اجلاس بغیر رائے شماری کے ملتوی ہو رہا ہے ۔یہ دونوں مل کر جنرل اسمبلی کے صدر مسٹر رانیا کے پاس گئے ۔ صدر جنرل اسمبلی نے کہا کہ کل Thanks giving Dayکی وجہ سے تعطیل ہے اور سیکریٹری جنرل کہتے ہیںکہ اسمبلی کا سٹاف آج دیر تک کام کرنے پر آمادہ نہیں ہو گا۔یہ صرف عذرِ لنگ تھا ،اگر اقوامِ متحدہ کا سٹاف اتنا ہی گیا گذرا تھا کہ دنیا کے اتنے اہم مسئلے کی بابت فیصلہ ہونا تھا اور وہ چند گھنٹے زائد کام کرنے پر آمادہ بھی نہیں ہو سکتا تھا تو پھر اس کی حالت کسی تیسرے درجے کی کمپنی سے بھی گئی گذری تھی۔مگر حقیقت یہ تھی کہ انہوں نے زائد کام کرنے سے انکار کیا ہی نہیں تھا اورصرف دو روز قبل جب ایڈہاک کمیٹی کا اجلاس ہو رہا تھا جس میں چند کے علاوہ باقی سب ممبرانِ جنرل اسمبلی شریک ہوئے تھے اور یہ نظر آ رہا تھا کہ ایڈہاک کمیٹی میں تقسیم کی تجویز مطلوبہ سادہ اکثریت حاصل کر لے گی تو یہ اجلاس رات کو سوا گیارہ بجے تک جاری رہا تھا ۔اُ س وقت تو عملے کے فرضی اراکین نے زائد کام کرنے سے انکار نہیں کیا تھا اور دوپہر کے وقفے کے وقت تک ابھی صرف ایک گھنٹہ پچاس منٹ اجلاس کی کارروائی ہوئی تھی اور ابھی سے اتنی تھکاوٹ شروع ہو گئی تھی کہ اس روز رائے شماری محال نظر آ رہی تھی ۔ جب جنرل اسمبلی کے صدر صاحب سے کہا گیا کہا کہ آج کے اجلاس کے اختتام پر رائے شماری ہو جانی چاہئیے۔وہ فرمانے لگے کہ اس کے لئے وقت نہیں ہو گا۔ابھی پانچ تقریریں باقی ہیں اور ممکن ہے بعض مندوبین رائے شماری سے پہلے اپنی رائے کی وضاحت کرنا چاہیں۔اس پر چوہدری صاحب نے کہا کہ پانچ میں سے دو تو ہم ہیں ۔آپ بیشک ہمارے نام اس فہرست سے کاٹ دیں ۔ اور جہاں تک آراء کی وضاحت کا تعلق ہے تو وہ رائے شماری کے بعد پیش کی جا سکتی ہے۔مگر صدر صاحب آمادہ نہ ہوئے۔اُن پر دباؤ بھی نہیں ڈالا جا سکتا تھا کیونکہ اگر وہ مان بھی جاتے تو کثرتِ رائے سے رائے شماری ملتوی کرائی جا سکتی تھی۔لیکن اس میں شک نہیں کہ جنرل اسمبلی کے صدر صاحب اور اقوام ِمتحدہ کے سیکریٹری جنرل صاحب دباؤ کے تحت یا ذاتی رحجانات کی وجہ سے صیہونیوں کی تائید کر رہے تھے۔اور اگر التوا کی تجویز پیش ہوتی تو اس کی منظوری کے لئے صرف سادہ اکثریت درکار ہونی تھی اور اب تک اتنے ممالک امریکہ اور سوویت یونین کے ساتھ مل چکے تھے۔اُس وقت امریکہ کے صدر ٹرومین کو انتخابات میں یہودی ووٹوں کی اشد ضرورت تھی۔اور وہ اس مقصد کے لئے امنِ عالم کو بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کر رہے تھے۔جس طرح طاقت کا نشہ اندھا اور بہرہ بنا دیتا ہے اسی طرح حکومت کی خواہش بھی اندھا اور بہرہ کر دیتی ہے۔
بہر حال تین بجے اجلاس دوبارہ شروع ہؤا ۔پہلے پولینڈ کے نمائندے نے تقسیم کی حمایت میں تقریر کی۔اور اس کے بعد صدر جنرل اسمبلی نے اعلان کیا کہ اور ممالک کے نمائیندوں نے اظہارِ رائے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور اب ان کی تعداد بڑھ کر تیرہ ہو چکی ہے۔اس کے بعد سعودی عرب کے مندوب شہزادہ فیصل کی تقریر شروع ہوئی ۔(شہزادہ فیصل بعد میں سعودی عرب کے بادشاہ بنے تھے)۔انہوں نے ایک مختصر خطاب میں کہا کہ آج فلسطین کا نہیں اقوامِ متحدہ کا دن ہے اگر تقسیم کو منظور کیا گیا تو یہ ایک جارح کو ملک کا ایک حصہ دینے کے مترادف ہو گا۔انہوں نے جذباتی الفاظ میں ممبران سے اپیل کی کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق تقسیم کے خلاف ووٹ دیں ۔اب تک مسلمان ممالک تجویز کی مخالفت میں اظہار تو کر رہے تھے لیکن ان بیانات میں ٹھوس دلائل ِ ، اور اعداد و شمار اورحقائق کی بجائے ایک جذباتی رنگ زیادہ نمایاں تھا ۔وہ اس تقسیم کے خلاف مضبوط قانونی دلائل نہیں پیش کر رہے تھے اور اس تقسیم کی تفاصیل میں بھی جو عرب آ بادی کے ساتھ واضح مظالم روا رکھے گئے تھے ،اُن کا منظم طریق پر تجزیہ بھی نہیں کر رہے تھے۔شہزادہ فیصل نے اپنی تقریر میں کوئی خاص دلیل پیش ہی نہیں کی تھی،صرف جذبات کا اظہار کیا تھا ۔ان کے بعد شام کے سفیر نے تقریر کی تو غیرمتعلقہ دلائل میں الجھ گئے اور اس رو میں بہت آ گے نکل گئے۔انہوں نے Jewish Encyclopedia اور امریکہ کے ایک مصنف اور کولمبیا یونیورسٹی کے دو پرو فیسروں کے حوالے دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یورپ کے یہودی اصل میں تو روس کے ایک قبیلے خازار سے تعلق رکھتے ہیں اور حضرت ابراہیم کی نسل سے نہیں ہیں۔اس بحث سے فارغ ہوئے تو انہوں نے پولینڈ کے نما ئیندے کو یاد کرایا کہ جب ان کے ملک کو تقسیم کرنے کی سازش ہو رہی تھی تو سلطنتِ عثمانیہ کی سلطنت نے اس کی مخالفت کی تھی ۔پھر وہ امریکہ کے نمائندے کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں باور کرایا کہ وہ دنیا میں ہر جگہ کمیونزم کے خلاف مالی وسائل خرچ کر رہا ہے تو پھر وہ اس بات کو برداشت کیوں کر رہا ہے کہ سوویت یونین سے اتنی بڑی تعداد میں یہودی نقلِ مکانی کر کے فلسطین منتقل ہو رہے ہیں ۔عربوں کا مؤقف سراسر انصاف اور قانون کے مطابق تھا۔اور تقسیم کی تجویز ہر لحاظ سے خلافِ انصاف تھی۔اتنے مضبوط مؤقف کے ہوتے ہوئے کمزور دلائل کی طرف رجوع کرنا صرف اپنے آپ کو کمزور کرنے کے مترادف تھا۔ ایڈہاک کمیٹی میں تو حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے ہی تقریباََ تمام ترامیم اور دلائل پیش کئے تھے ۔لیکن جنرل اسمبلی میں ہر مندوب کو اپنے خیالات کا اظہار خود کرنا تھا تو ان تقاریر میں منصوبہ بندی اور ربط کا فقدان صاف ظاہر ہو رہا تھا ۔یہ سب کاروائی اور تقاریر انٹر نیٹ پر اقوامِ متحدہ کی سائٹ پر موجود ہیں ۔ہر کوئی انہیں پڑھ کر ان حقائق کو پرکھ سکتا ہے۔شام کے بعد لبنان کے مندوب کی تقریر ایک خوشگوار تبدیلی تھی۔لبنان بھی تقسیم کی تجویز کی مخالفت کر رہا تھا۔انہوں نے بھی جذبات کا اظہارکیا لیکن ساتھ اپنے بیان کے حق میں ٹھوس دلائل بھی پیش کئے ۔آغاز میں ہی انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ مختلف ممالک پر ووٹ حاصل کرنے کے لئے نا جائز دباؤ ڈالا جا رہا ہے اورنوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ مختلف ممالک کے نمائیندوں کو اُن کے بستروں کے اندر بھی Tackleکیا جا رہا ہے ۔ ان کواقتصادی پابندیوں کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔پھر انہوں نے کہا کہ ایڈہاک کمیٹی میں کینیڈا کے مندوب نے سوال اُ ٹھایا کہ کس قانونی اصول کی بنیاد پر فلسطین ایک متحدہ ریاست کا سوال اُ ٹھایا جا رہا ہے۔تو پاکستان کے مندوب نے فوراََ جواب دیا کہ چارٹر کی بنیاد ہی حقِ خود اختیاری پر ہے ۔انہوں نے کہا کہ میں یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ فلسطین کی ایک متحدہ ریاست کی بنیاد اسی دلیل پر ہے ،جس دلیل پر کینیڈا کی ایک متحدہ ریاست قائم ہے ۔اس کے بعد انہوں نے سوویت یونین کی طر ف سے پیش کئے گئے بعض دلائل کا رد کیا ۔ اور سویڈن کے مندوب کے بیان کا حوالہ دیا کہ اگرچہ یہ پلان بہت مناسب نہیں ہے لیکن ہم اسے اس لئے قبول کر رہے ہیں کیونکہ اس کا متبادل سامنے نظر نہیں آ رہا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ضمیر وں کو کیا ہو گیا ہے کہ ہم ایسے منصوبے کو منظور کرنے کی بات کر رہے ہیں ،جس پر ہمیں خود اطمینان نہیں ہے ۔اگر یہ منصوبہ مسترد بھی ہو جائے تو دوبارہ ایڈہاک کمیٹی کام شرو ع کر سکتی ہے اور ایک اور بہتر منصوبہ بنایا جا سکتا ہے۔لبنان کے مندوب کی تقریرکے بعد یورا گوئے کے سفیر نے تقسیم کی حمایت میں ایک طویل تقریر کی۔ہیٹی کے ملک کی طرف سے بھی ابھی واضح اظہار نہیں ہؤا تھا کہ اس کی رائے کس طرف جائے گی ۔اس لئے اس کے نمائندے کی تقریر کا بیتابی سے انتظارکیا جا رہا تھا۔ہیٹی کے نمائندے نے آ غاز میں کہا کہ میں اپنے ووٹ کی وضاحت کرنے کے لئے ایک مختصر بیان دوں گا ۔اورکچھ تمہید بیان کرنے کے بعد واضح طور پر اعلان کیاکہ میری حکومت کے نزدیک سب کمیٹی کی تجویز تسلی بخش نہیں ہے اور اس لئے ہیٹی کا نمائندہ اپنی حکومت کے نظریے کے مطابق فلسطین کی تقسیم کے خلاف ووٹ دے گا۔یہ اعلان بڑی طاقتوں کے کیمپ میں کھلبلی مچانے کے لئے کافی تھا ۔اگر انہیں حالات میں رائے شماری ہوئی تو دو تہائی ووٹ حاصل کرنا نا ممکن نظر آ رہا تھا۔ہالینڈ کے نمائندے نے کہا کہ اُن کے نزدیک متحدہ فلسطین کی تجویز ناقابلِ عمل ہے ۔پھر نیوزی لینڈ اور ہالینڈ کے سفیروں نے تقسیم کی حمایت میں تقریریں کیں۔اس کے بعد سوویت یونین کی طرف سے گرومیکو اپنی رائے کی وضاحت کے لئے آئے ۔گرومیکو ایک بہت طویل عرصہ سوویت یونین کے وزیرِ خارجہ رہے اور ان کے گھاگ سیاستدانوں میں سے سمجھے جاتے تھے۔انہوں نے تقسیم کے حق میں ایک طویل تقریر کی اور ابتداء ہی میں کہا کہ ہم نے پہلے بھی نشاندہی کی تھی کہ فلسطین کو ایک متحدہ ریاست کی شکل دی جا سکتی ہے اگر یہودی اور عرب آپس میں مل کر رہنے کے لئے تیار ہو جائیں لیکن یہودی اور عرب دونوں ہی اس کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ یہ اُن کی غلط بیانی تھی کیونکہ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ کی صدارت میں جو کمیٹی کام کر رہی تھی اور جس کی تجویز کو تمام عرب نمائندگان کی حمایت حاصل تھی اس نے تو یہی تجویز دی تھی کہ متحدہ فلسطین کی ریاست میں یہودی اور عرب برابر کے شہریوں کی حیثیت سے رہیں۔اور قانون میں اقلیت کے حقوق کی ضمانت دی جائے۔اس کے بعد گرومیکو نے اُن عرب ممالک پر شدید نکتہ چینی کی جنہوں نے اس مرحلہ پر سوویت خارجہ پالیسی پر تنقید کی تھی۔اور برطانیہ پر تنقید کی کہ وہ اپنی تمام ذمہ داریاں نہیں ادا کر رہا۔انہوں نے کہا کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران یورپ میں یہودیوں پر بہت مظالم ہوئے ہیں ۔یہ بھی خوب دلیل تھی کہ یورپی ممالک میں یہودیوں پر مظالم کئے اور اس کی سزا فلسطین کے باشندوں کو دی جا رہی تھی۔گرومیکو کی تقریر کے بعد صدر نے رائے شماری کرائی کہ کیا مندوبین چاہتے ہیںکہ رات کو اجلاس کرایا جائے یا نہیں ۔اور ساتھ یہ بھی بیان دیا کہ ابھی گیارہ مندوبین کی تقاریر باقی ہیں۔اور رائے شماری بھی ہونی ہے ۔اور Credential committeکی رپورٹ بھی پڑھی جانے ہے اور ا ٓ خر میں سیکریٹری جنرل اور ان کی تقریر بھی ہونی ہے۔اکیس نمائیندوں نے کہا کہ رات کا اجلاس ہونا چاہئیے اور چوبیس نمائیندوں نے کہا کہ اسے پرسوں صبح تک ملتوی کر دینا چاہئیے۔اس طرح رائے شماری ملتوی کر دی گئی ۔اور بڑی طاقتوں کو کچھ اور ممالک کی رائے میں تبدیلی کے لئے ایک پورا دن مل گیا ۔اس فیصلہ کے بعد بلجیم کے نمائندے نے اپنی تقریر میں اعتراف کیا کہ ہمیں اس تجویز کے متعلق بہت سے شبہات ہیں ۔اور ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ منصفانہ ہے ۔اور اس کے نتیجے میں بہت سے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں ۔اور مجوزہ نقشے پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی ان خدشات کی تصدیق ہو جاتی ہے ۔لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں اس لئے ہم اس کے حق میں رائے دیں گے۔ان کے خطاب کے بعد یہ اجلاس برخواست ہو گیا اور اقوامِ متحدہ میں اگلا دن تعطیل کا دن تھا۔
اس ایک دن کے دواران کیا ہؤا ۔اس کاا ندازہ ۲۸ اور ۲۹ نومبر کی کاروائی سے بخوبی ہو جاتا ہے۔
۲۸ نومبر کا اجلاس شروع ہوتا ہے اور حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ
کا خطاب:
۲۸ نومبر کی صبح تک یہ بات صاف نظر آ رہی تھی کہ بڑی طاقتیں ہر قیمت پر دو تہائی اکثریت حاصل کر کے رہیں گی ۔خواہ اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے صبح گیارہ بجے اجلاس شروع ہؤا۔جنرل اسمبلی کے صدر نے سب سے پہلے یہ اعلان کیا کہ چونکہ ممبران کی تمام تر توجہ اس مسئلہ پر غور و فکر کی طرف ہونی چاہئیے اس لئے تقریر کے دوران کسی قسم کا اظہارِ تحسین(Applause) نہیں ہونا چاہئیے۔صدر اسمبلی نے اجلاس اس کاروائی کے دوران کسی اور موقع پر نہیں کیا تھا ۔اس احتیاطی تدبیر کے بعد انہوں نے کہا کہ اب میں پاکستان کے نمائندے کو تقریر کی دعوت دیتا ہوں۔اس پر حضرت چوہدری ظفراللہ خاں صاحب تشریف لائے اور آپ نے اپنی تقریر شروع کی۔گذشتہ کچھ ہفتوں سے اقوامِ متحدہ طرح طرح کی سازشوں کا مرکز بنی ہوئی تھی۔بڑی طاقتوں نے ایسا ماحول پیدا کر دیا تھا کہ اکثر ممالک ووٹ دیتے ہوئے اپنی ضمیر کی آواز نہ سنیں ،یہ نہ دیکھیں کہ انصاف کے تقاضے کیا ہیں بلکہ جس طرف ووٹ ڈالنے کے لئے ان پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا اسی طرف ووٹ ڈالیں۔اُس وقت اقوامِ متحدہ اپنی زندگی کا آ غاز کر رہی تھی اور یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ اگر یہی رنگ ڈھنگ رہا تو اس عالمی ادارے سے کسی خیر کی امید رکھنا عبث ہو گا۔بہت سے ممالک تو دباؤمیں آکر اپنی رائے بدل رہے تھے یا پھر خاموش رہنے میں عافیت سمجھ رہے تھے لیکن حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے کسی لمبی چوڑی تمہید کے بیان پر وقت ضائع کئے بغیر اسی اہم نکتے سے اپنی تقریر کا آ غاز فرمایا ۔آپ نے فرمایا
’جنابِ صدر یہ امر قابلِ اطمینان ہے کہ آپ اس کے مقصدلئے کوشاں ہیں کہ کم از کم یہاں پر اس سوال کے متعلق بغیر کسی خلل یا اثر اندازی کے بحث ہو ۔ کیا رائے شماری بھی اسی طرح آزادانہ اور بغیر کسی اثر اندازی کے ہو گی ۔اب اس بارے میں کوئی اطمینان نہیں پایا جا تا۔میں اس پر زیادہ وقت نہیں لوں گا۔
وہ لوگ بھی جو اس بات کا علم نہیں رکھتے کہ پسِ پردہ کیا ہو رہا ہے ،پریس کے ذریعہ بہت کچھ جان چکے ہیں۔یہ تو صرف ایک مسئلہ ہے اب تو یہ اندیشہ جنم لے رہا ہے کہ جو عظیم ادارہ دنیا کے مستقبل کے لئے امیدوں کا مرکز بنا ہؤا ہے ،اس عظیم ادارے میں جب بھی کوئی اہم مسئلہ پیش ہوگا اور اس پر سوچ بچار ہو گی تو اس عمل کو آ زاد نہیں چھوڑا جائے۔
یہ ایک اہم لمحہ ہے ۔دنیا کی تاریخ کا ایک اہم لمحہ ہے۔اور اس عظیم۔۔۔کم از کم ہمیں اس معاملے میں پُر امید رہنے دیں کہ یہ ایک عظیم ادارہ ہے ،اس عظیم ادارے کی تاریخ کا ایک اہم لمحہ ہے۔آج اقوام ِ متحدہ کٹہرے میں کھڑی ہے۔اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ کیا یہ سرخرو ہو کر نکلتی ہے کہ نہیں۔شاید یہ پہلو اتنا اہم نہیں ہے کہ تقسیم منظور ہوتی ہے یا اس تجویز کو مسترد کیا جاتا ہے ۔زیادہ اہم یہ سوال ہے کہ آیا اہم مسائل پر اپنے ضمیر کے مطابق دیانتدارانہ اور منصفانہ فیصلے کرنے کا کوئی امکان باقی رہا ہے کہ نہیں۔‘
حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ نے فرمایا کہ عموماََ ہم تاریخ کو ماضی میں پیچھے جاتے ہوئے پڑھتے ہیں۔یہ ایک غلط طریق ہے۔تاریخ کو ماضی سے حال کی طرف آتے ہوئے پڑھنا چاہئیے۔اس کے بعد آپ نے گذشتہ بتیس سال کے حقائق کا مختصر جائزہ پیش فرمایا کہ کس طرح جب پہلی جنگِ عظیم کے دوران اتحادی ایک گھمسان کی جنگ میں الجھے ہوئے تھے ،انہوں نے عربوں کی مدد حاصل کرنے کے لئے کوششیں شروع کیں اور ان سے وعدہ کیا کہ جنگ کے بعد وہ اپنے اپنے ملکوں میں آ زاد ہوں گے۔اور معاہدے کی رو سے عربوں کا جو فرض تھا انہوں نے ادا کر دیا۔اس کے بعد مغربی طاقتوں کے ایفائے عہد کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا
’اُن سے کئے گئے وعدے کس طرح پورے کئے گئے؟ہمیں اکثر یاد دلایا جاتا ہے کہ ان وعدوں کے دس حصوں میں سے نو حصے تو پورے کر دیئے گئے۔اور اسے کافی سمجھنا چاہئیے ۔اگر ایسا ہی ہے تو ذرا ٹھہریں اور سوچیں کہ کیا اس کے بعد کسی عہد و پیما ن بالخصوص مغربی طاقتوں کے عہد و پیمان پر بھروسہ کیاجائے گا؟اے مغربی اقوام یاد رکھو !شاید کل تمہیں دوستوں کی ضرورت پڑے۔شاید تمہیں مشرقِ وسطیٰ میں اتحادیوں کی ضرورت پڑے۔میں تم سے درخواست کرتا ہوں کے اُن ممالک میں اپنے اعتماد کو برباد نہ کرو ،اسے خاک میں نہ ملاؤ۔‘
اس کے بعد آپ نے فریقِ مخالف کے دلائل کو ایک ایک کر کے لیا اورقانونی اور عقلی دلائل سے ان کا رد فرمایا۔ آپ نے فرمایا کہ اس بات کو بہت زور دے کر بیان کیا گیا ہے کہ اس مسئلے کو انسانی ہمدردی کے پہلو سے دیکھنا چاہئیے۔یہ صرف یہودی پناہ گزینوں تک محدود نہیں جو شخص بھی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو اس کی تکالیف کاا زالہ کرنا چاہئیے۔لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس مقصد کے لئے فلسطین نے اب تک کیا کیا ہے؟ پہلی جنگِ عظیم کے بعد چار لاکھ یہودی فلسطین میں پناہ لے چکے تھے اور جب نازیوں نے جرمن یہودیوں پر مظالم شروع کئے تو مزید تین لاکھ یہودی فلسطین منتقل ہو گئے۔اور ان اعداد و شمار میں وہ یہودی شامل نہیں جو غیر قانونی طور پر فلسطین میں داخل ہوئے ۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جو ممالک انسان دوستی کے اصولوں کی باتیں کر رہے ہیں اور اُن کی مالی حیثیت سب سے بڑھ کر ہے انہوں نے اس مسئلہ کے حل کے لئے اپنی جیب سے سب سے کم حصہ ڈالا ہے۔مگر جب عربوں کے کھاتے سے حل تجویز کرنے کی بات ہو تو وہ نہ صرف اس کے لئے تیار ہیں بلکہ مشتاق نظر آتے ہیں۔ہمیں تاریخ میں ایسے بہت کم دور نظر آتے ہیں جب یورپ کے کسی نہ کسی حصہ میں یہودیوں پر مظالم نہ کئے گئے ہوں۔انگریز بادشاہ اور نواب اگر کبھی اُن سے نرم سلوک کرتے تھے تو یہودی تاجروں اور ساہو کاروں کے دانت نکلوایا کرتے تھے تا کہ اُن کو اقتصادی مدد دینے کے لئے آمادہ کیا جا سکے ۔اور اُس وقت یہ یہودی عرب سپین میں آ کر پناہ لیا کرتے تھے۔ اور عربوں کی یہ سلطنت اُن کے لئے پناہ گاہ تھی۔اور آج یہ کہا جا رہا ہے کہ بیچارے یہودیوں پر یورپ میں بڑے مظالم ہوئے ہیں،اس لئے فلسطین کے عربوں کو چاہئیے کہ سپین کے عربوں کی طرح نہ صرف انہیں ٹھکانا مہیا کریں ،انہیں پناہ دیں بلکہ ایک ریاست بھی دیں تاکہ وہ عربوں پر حکومت کر سکیں۔ کیا ہی سخاوت ہے۔کیا ہی انسانیت ہے۔جب دوسری سب کمیٹی نے یہ تجویز پیش کی کہ یہودی پناہ گزینوں کو ان کے اپنے ممالک میں رہنے کی جگہ دی جائے تو آسٹریلیا نے انکار کر دیا،کینیڈا نے انکار کر دیا ،ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے انکار کر دیا۔ایک پہلو سے یہ بات حوصلہ افزا تھی کہ شاید یہ پناہ گزین سابقہ خوفناک تجربات کی بنا پر انہی ممالک میں جانا پسند نہ کریں جہاں سے وہ نکلے تھے ۔جب یہ تجویز کیا گیا کہ سب ممبر ممالک اپنی اپنی استعدادکے مطابق ان پناہ گزینوں کو جگہ دیں تو کیا ہؤا؟کیاآسٹریلیا کوئی چھو ٹا ملک تھا؟کثرتِ آبادی کا شکار تھا ؟اس نے کہا نہیں ! نہیں!نہیں!کیا کینیڈا میں بھی آبادی بہت زیادہ ہو گئی تھی؟اس نے بھی کہا کہ نہیں!اور امریکہ ،ایک عظیم انسانیت دوست ملک،اس کا رقبہ بھی چھوٹا ہو گیا ،اس کے پاس وسائل نہیں تھے۔اس نے بھی کہا کہ نہیں! کیا یہ ممالک انسان دوستی کے اصولوں کے لئے یہی کچھ کر سکتے ہیں۔مگر پھر یہی ممالک کہتے ہیں کہ ان یہودیوں کو فلسطین جانے دو وہاں تو بہت زیادہ علاقہ پڑا ہے،فلسطین کے پاس بہت زیادہ اقتصادی وسائل ہیں ۔اس سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہو گا۔
ایک طرف تو مغربی حکومتیں جمہوریت کی علمبردار بن رہی تھیں اور دوسری طرف وہ فلسطین کے عوام کو یہ حق دینے پر تیار نہیں تھیں کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔جیسا کہ مغربی ممالک میں عوام کو حق ہے کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں لیکن ان کی حکومتیں فلسطین کے عوام کو یہ حق دینے کو تیار نہیںتھیں۔حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ نے اس تضاد کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایاکہ مغربی حکومتیںعملاََ اس بات کا اعلان کر رہی ہیں
’ہم فلسطین کو آزاد اور خود مختار کہیں گے لیکن عملاََ یہ ہماری ملکیت ہو گا۔پہلے ہم فلسطین کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کریں گے۔تین ٹکڑے یہودی ٹکڑے ہوں گے اور تین ٹکڑے عرب ٹکڑے ہوں گے۔پھر ہم جافا کے حصے کو کاٹ کر علیحدہ کریں گے۔اور فلسطین کا دل ، یروشلم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک بین الا قوامی شہر رہے گا۔یہ آغاز ہے اُس صورت کا جو فلسطین کو دی جائے گی۔جب فلسطین کے جسم کو اس طرز پر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا تو پھر ہم اس جسم کو جس سے خون رس رہا ہو گا ہمیشہ کے لئے صلیب پر کھینچ دیں گے۔اور یہ عارضی نہیں ہو گا ۔یہ صورتِ حال مستقل رہے گی۔فلسطین کبھی بھی اپنے باشندوں کی ملکیت نہیں بن سکے گا ۔یہ ہمیشہ کے لئے مصلوب رہے گا۔
اقوامِ متحدہ کو یہ قدم اُ ٹھانے کا کیا حق حاصل ہے۔کون سا جائز حق ؟کون سا قانونی حق حاصل ہے؟کہ ایک آزاد ملک کو ہمیشہ کے لئے اقوامِ متحدہ کا غلام بنا دیا جائے؟‘
امریکہ کے نمائندے کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا
’یونائیٹڈ اسٹیٹس کے نمائندے نے کہا ہے کہ اس مسئلہ کی کوئی نظیر نہیں موجود ۔ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اس کا پہلے سے اندازہ نہیں تھا اس لئے چارٹر میں اس کی گنجائش نہیں رکھی گئی۔مگر کیا وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر اٹھتیس ممالک اس تقسیم کو تسلیم کر لیں تو یہ از خود ایک قانون بن جائے گا۔یونائیٹڈ اسٹیٹس کے اس بیان کی جو پہلے کمیٹی میں اور پھر پریس کو دیاگیا کیا اہمیت ہے؟کیا اس کی یہ اہمیت نہیں ہے کہ یہ سکیم اپنے اندرکوئی قانونی،منصفانہ اور آئینی جواز نہیں رکھتی۔اور آپ کو اس سکیم کو ایک سکیم کے طور پر منظور کرنا ہو گا۔‘
آپ نے اس سکیم کی انتظامی تفصیلات کا جائزہ بیان کر کے اُن پر تنقید کی اور ان کا نا قابلِ عمل اور غیر منصفانہ ہونا ثابت فرمایا۔اس کے بعد آپ نے فرمایا
’ فلسطین میں تیرہ لاکھ عرب اور ساڑھے چھ لاکھ یہودی موجودہیں۔اور مزید یہودیوں کے لئے جگہ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔اس مسئلہ کا حل نظر نہیں آ رہا تو کہا جا رہا ہے کہ ہمیں فلسطین کی تقسیم کرنے دو کیونکہ یہ انصاف سے بعید ہوگا اگر تنتیس فیصد یہودیوں کو، جو آج فلسطین میں یہود کی آبادی ہے،ایک متحدہ ریاست میں ایک اقلیت کی حیثیت سے رہنا پڑے۔تو اب ہم ایک منصفانہ حل بتاتے ہیں۔عربوں کو اُن کی ریاست ملے گی اور یہودیوں کو اُن کی ریاست ملے گی۔اور اس کے مطابق سرحد کھینچی جائے گی۔عرب ریاست تو ان معنوں میں عرب ریاست ہو گی کہ اس میں صرف دس ہزار یہودی اور تقریباََ دس لاکھ عرب ہوں گے۔بہت خوب اب دیکھتے ہیں کہ یہودی ریاست کیسی ہو گی؟اس میں۴۶۵۰۰۰ یہودی اور ۴۳۵۰۰۰ عرب ہوں گے۔یہودیوں کو عرب ریاست میں اقلیت بن کر نہیں رہنا ہوگا مگر عربوں کو یہودی ریاست میں اقلیت بن کر رہنا ہوگا۔اگر ان میں سے ایک حل انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیںہے تو دوسرا حل بھی انصاف کے مطابق نہیں ہے ۔اگر ان میں سے ایک مسئلے کا حل نہیں کہلا سکتا تو پھر دوسرا بھی مسئلے کاحل نہیں کہلا سکتا۔
اب ہمیں ایک لمحے کے لئے متعین سرحدوں کا جائزہ لینے دیں۔یہودیوں کی آبادی ۳۳ فیصد اور عربوں کی آبادی ۶۷ فیصد ہے مگر فلسطین کا ۶۰ فیصد رقبہ یہودیوں کی ریاست میں شامل کیا جائے گا۔اس علاقے کی کیفیت کیا ہے۔ایک لمحے کے لئے ہم صحراء کو جس کا ذکر میں بعد میں کروں گا،نظر انداز کرتے ہیں۔قابلِ کاشت اراضی میں سے موٹے طور پر میدانی علاقہ یہودیوں کو پہاڑی علاقہ عربوں کو دیا گیا ہے۔
برطانیہ کے نمائندے کی طرف سے نمائندگانِ کمیٹی کوایک دستاویز بھجوائی گئی تھی ۔ اس کے مطابق جس زمین کو پانی مہیا ہے اور جو قابلِ کاشت ہے اس کا ۸۴ فیصد یہودیوں کی ریاست کو جائے گا اور ۱۶ فیصد عربوں کی ریاست کو جائے گا ۔کیا ہی منصفانہ تقسیم ہے ایک تہائی آبادی کو ۸۶ فیصد رقبہ ملے گا اور دو تہائی آبادی کو ۱۶ فیصد رقبہ ملے گا۔‘
اس کے بعد چوہدری صاحب ؓ نے زراعتی در آمدات اور دیگر حقائق بیان کر کے ثابت کیا کہ کس طرح یہ تقسیم نہ صرف غیر قانونی بلکہ اقتصادی لحاظ سے بھی نہایت غیر مصنفانہ ہے ۔آپ نے صنعتی اعدادو شمار بیان فرمائے کہ کس طرح مجوزہ تقسیم میں جن صنعتوںکے مالک یہودی ہیںتقریباََ ساری کی ساری یہودیوں کی ریاست میں شامل کی گئی ہیں،جبکہ عربوں کی صنعتوں میں سے بھی چالیس فیصد حصہ یہودیوں کی ریاست میں شامل کر دیا گیا ہے۔اپنی اس معرکۃ الآراء تقریر کے اختتام پر آپ نے فرمایا
’آج اگر ہم اپنے ووٹوں سے تقسیم کی تائید نہ کریں تو اس مسئلے کو حل کرنے کے باقی راستے بند نہیں ہو جاتے ۔لیکن اگر آج ہم اپنے ووٹوں سے تقسیم کو منظور کر لیں تو پر امن حل کی تمام امیدیں ختم ہو جاتی ہیں۔جو اس کی ذمہ داری لینا چاہتا ہے اسے ایسا کرنے دیں۔میری آپ سے یہ اپیل ہے کہ اس امید کو ختم نہ کریں۔اقوامِ متحدہ کو تو چاہئیے کہ لوگوں کو متحد کرنے اور یکجا کرنے کے کے راستے ڈھونڈے ،نہ کہ ان کو تقسیم کر کے علیحدہ کرے۔
یونائیٹڈ اسٹیٹس کے نمائندے نے میری اُس دعا اور خواہش کا ذکر کیا تھا جس کا اظہار میں نے ایڈہاک کمیٹی میں اپنی تقریر کے اختتام پر کیا تھا۔میں اب پھر اس دعا کو عاجزی، خلوص اور آرزوسے دہراتا ہوں۔وہ جو سب دلوں پر اختیار رکھتا ہے، وہ جو دلوں کے پوشیدہ خیالات اور منصوبوں کو جانتا ہے۔وہی ہے جو ہر چیز کی صحیح قدرو قیمت کو جانتا اور انسانوں کے اعمال کے نتائج سے با خبر ہے۔ہمیں اپنے فضل سے آج ایسا فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس سے امن اور خوشحالی پیدا ہو ۔اس کی سب مخلوق کا بھلا ہو ۔ اسرائیلی ،عرب، غیر اسرائیلی سب اس کی شانِ کبریائی سے فیض پاتے رہیں۔آخر دعونا الحمد للہ رب العلمین ۔‘
یہ تو خلاصہ ہے ۔اور بہر حال ترجمہ میں اصل تقریر کی شوکت پوری طرح ظاہر نہیں ہوتی۔لیکن یہ خطاب ایک تقریر سے زیادہ ایک تازیانہ تھا ۔اس کے دلائل،اس کا زور دار اندازِ بیان، اس کا ربط اور اس میں بیان کردہ بے باک تجزیہ ایسے نہیں تھے جنہیں نظر انداز کر دیا جاتا ۔اور جس طرح چند سال بعد ہی پاکستان میں حضرت چوہدری صاحب ؓ کے خلاف تحریک چلائی گئی یا چلوائی گئی ،اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس تازیانے کو بھلایا نہیں گیا تھا۔
حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ کے بعد چین کے نمائندے نے غیر جانبدار رہنے کا اعلان کیا اور پھر گوئٹے مالا کے مندوب نے تقسیم کی حمایت کا اعلان کیا ۔اور عربوں کو الزام دیا کہ ان کے دلوں میں یہودیوں کے خلاف بہت نفرت پیدا ہو چکی ہے اور مسلسل پروپیگینڈا کے نتیجے میں وہ اب یہودیوں کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔اس کے بعد کیوبا کے نمائندے کو بلایا گیا۔کیوبا کے نمائندے نے تقسیم کی تجویز کے خلاف ایک جاندار تقریر کی اور کہا کہ ان کی حکومت اس لئے اس تجویز کی مخالفت کر رہی ہے کیونکہ یہ نہ قانونی تقاضوں کے مطابق ہے اور نہ ہی منصفانہ ہے۔بالفور اعلانیہ اور لیگ آف نیشنز کے اعلانات تقسیم کی دلیل نہیں بن سکتے ۔کیونکہ حکومتِ برطانیہ یا لیگ آ ف نیشنز فلسطین کے مالک نہیں تھے کہ ان کا فیصلہ قبول کیا جائے۔ فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ فلسطین کے عوام کی خواہشوں کے مطابق ہونا چاہئیے اور ان کی رائے معلوم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔آخر میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ،باوجود اس کے کہ ہم پر بہت دباؤڈالا گیا ہے کہ ہم اس کی تائید کریں ہم تقسیم کے خلاف ووٹ دے رہے ہیں ۔
لبنان کی نمائندے نے اپنی تقریر میں کہا تھاکہ دباؤ ڈال کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہاں تک کہہ گئے کہ دباؤ ڈالنے والے مندوبین کی خواب گاہوں تک ہی نہیں ان کے بستروں میں بھی پہنچ گئے ہیں۔حضرت چوہدری صاحب ؓ نے واضح طور پر کہا کہ یہ رائے شماری آزادانہ نہیں ہو رہی اور یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ اقوامِ متحدہ میں اب کبھی بھی آ زادانہ رائے شماری نہیں ہو گی۔یہی الزام کیوبا کہ مندوب نے بھی لگایا کہ ہم پر دباؤ ڈال کر تقسیم کے حق میں ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اگر ایک میونسپل انتخاب میں بھی ناجائز دباؤڈال کر ووٹ لینے کا الزام لگایا جائے تو اس کا نوٹس لیا جاتا ہے ،تحقیقات کرائی جاتی ہیں۔لیکن تین ممالک کھلم کھلا یہ الزام لگا چکے تھے۔نہ صاحبِ صدر نے نہ کسی اور ذمہ دار آ دمی نے یہ تکلف کیا کہ اسکا کوئی نوٹس لیا جائے یا کچھ نہیں تواس کی تردید کی جائے۔سب کچھ کھلم کھلا ہو رہا تھا اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی۔پھر عراق کے مندوب نے آ کر تقسیم کے خلاف دلائل دیئے اور اس کے ساتھ یہی الزام بھی دہرایا کہ کہ بڑی طاقتیں تقسیم کی منظوری کے لئے دباؤ ڈال رہی ہیں۔دوپہر کے وقفے کے بعد کولمبیا کے مندوب نے اپنی تقریر میں یہ تجویز پیش کی کہ ایڈہاک کمیٹی کو یہودیوں اور عربوں میں مفاہمت کرانے کے لئے مزید وقت ملنا چاہئیے اور تجویز کیا کہ فروری کی ۲۹ تاریخ تک کا وقت دینا مناسب ہو گا ۔اس مرحلے پر فرانس کے نمائندے نے اظہارِ رائے شروع کیا اور ایڈہاک کمیٹی کے طریقہ کار پر تنقید کی اور کہا کہ جو طریقہ اختیار کیا گیا تھا اس کے نتیجے میں دونوں فریق اور دور ہو گئے ہیں اور کہا کہ کیونکہ آج صبح کچھ مفاہمت کی فضا بنتی نظر آ رہی ہے ،اس لئے صلح کی کوششوں کو کچھ اور وقت ملنا چاہئیے اور ووٹنگ چوبیس گھنٹے ملتوی ہو جانی چاہئیے۔پھر ایتھوپیا کے نمائندے نے اپنے غیر جانبدار رہنے کا اعلان کیا۔معلوم ہوتا ہے کہ اب تک تقسیم کے حامیوں کو یقین ہو چکا تھا کہ انہیں مطلوبہ ووٹ حاصل ہو جائیں گے کیونکہ جب صدر نے فرانس کی تجویز پیش کی کہ چوبیس گھنٹے کے لئے ووٹنگ ملتوی کر دی جائے تو تقسیم کے حامی پولینڈ نے بڑی شد و مد سے اس کی مخالفت شروع کر دی اور کہا کہ کافی عرصہ سے یہ مسئلہ زیرِ بحث ہے ،اب مزید انتظار نہیں کیا جا سکتا ۔اس لئے رائے شماری ابھی ہونی چاہئیے۔لیکن ڈنمارک اور لکسمبرگ نے فرانس کی تجویز کی حمایت کی اور جب ووٹنگ کرائی گئی تو اکثریت نے چوبیس گھنٹے االتواء کی حمایت کی لیکن اب سوویت یونین اور امریکہ ووٹنگ میں التواء کی مخالفت کر رہے تھے ۔رائے شماری اُس وقت ملتوی کی گئی جب بڑی طاقتوں کو اپنی کامیابی کا یقین ہو گیا تھا ۔ ۲۹ نومبر کو ووٹنگ کرانے کے اعلان پر اجلاس ختم کردیا گیا۔فرانس کے مندوب کی غیر متوقع تجویز پر ایک بار پھر ووٹنگ ملتوی کر دی گئی تھی۔لیکن چوبیس گھنٹے کے اندر تو اس مسئلہ کا حل نہیں نکل سکتا تھا۔اس کے لئے تو جس طرح کولمبیا کے مندوب نے تجویز دی تھی کچھ عرصہ درکار تھا۔ اُس وقت جنرل اسمبلی میں کیا ہو رہا تھا اس کے متعلق اُس وقت کی ایک اخباری رپورٹ کاایک حصہ درج کیا جاتاہے
’سر ظفراللہ خان (پاکستان)،جن کا تقسیم کی تجویز کے خلاف جد و جہد میں ایک بڑا حصہ ہے کل رات کے ڈرامائی التواء سے یقینی طور پر خوش نظر آ رہے تھے۔جونہی انہوں نے لابی میں سعودی عرب کے امیر فیصل اور عرب ہائر کمیٹی کے جمال حسینی سے گفتگو ختم کی انہوں نے پریس کو بیان دیا کہ ’میرے خیال میں اس التواء کے دوران کوشش ضرور کرنی چاہئیے۔ممکن ہے کہ کولمبیا کے مندوب کی تجویز کہ یہ معاملہ فلسطین کمیٹی میں واپس بھجوایا جائے ،پر پھر غور ہو۔ہم یقینی طور پر کولمبیا کے وفد کی تجویز کی حمایت کریں گے۔۔
اس تناؤ کو مدھم پڑنے کے لئے کچھ وقت دینا چاہئیے۔اور پھر کمیٹی دوبارہ مل کر مفاہمت کی کوشش کر سکتی ہے ۔مزید التواء بہتر ہوگا کیونکہ اس وقت عربوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہوئی ہے۔اور جو کچھ گذشتہ چند دنوں میں ہؤا ہے اس کے نتیجے میں یہودی محسوس کریں کہ ہاتھ میں آئی کامیابی کو اُن سے چھین لیاگیا ہے ۔‘
جب اُن سے پوچھا گیا کہ یہودی اور عربوں کے درمیان مفاہمت کی بنیاد کیا ہو سکتی ہے تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ’کہ اگر وہ مجھے ثالث مقررکر دیں تو میں انہیں ایک حل دے سکتا ہوں۔‘(۱۰)
رائے شماری ہوتی ہے:
لیکن تقسیم کے حامی بڑی مشکل سے دباؤ ڈال کر مطلوبہ ووٹوں کے قریب پہنچے تھے۔وہ کسی قیمت پر اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ صلح اور مفاہمت کے نام پرمزید وقت لیا جائے اور اُن کا منصوبہ ناکام ہو جائے۔اس دوران ہیٹی کے نمائندے حضرت چوہدری صاحب ؓ سے ملے اور ان کی آ نکھوں میں آ نسو تھے ۔انہوں نے کہا کہ میری رائے تو آپ سن چکے ہیں لیکن اب میری حکومت نے مجھے ہدایت دی ہے کہ ہم تقسیم کے حق میںرائے دیں۔۲۹ نومبر کی شام کو دوبارہ اجلاس شروع ہؤا۔۔لبنان نے ممکنہ مفاہمت کے کچھ خدو خال بیان کئے۔ایران اور شام نے کوشش کی کہ دوبارہ معاملہ ایڈہاک کمیٹی کی طرف بھجوایا جائے تاکہ غور کر کے مفاہمت کی کوئی صورت نکل آئے۔لیکن امریکہ اور سوویت یونین کا اصرار تھا کہ ابھی رائے شماری کرائی جائے۔جنرل اسمبلی کے صدر نے رائے شماری کرائی تقسیم کے حق میں ۳۳ ووٹ آئے،خلاف ۱۳ ووٹ ملے اور دس ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔اس طرح تقسیم کی قرار داد منظور ہو گئی اور دنیا کی سیاست میں ایک اور سیاہ باب کا آ غاز ہؤا۔فلپائن اور ہیٹی جنہوں نے دو روز قبل واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ اس تجویز کے خلاف ووٹ دیں گے انہوں نے بھی اس کی تائید میں ووٹ دیا۔اگر ان کے ووٹ شامل نہ ہوتے تو یہ قرارداد مطلوبہ حمایت حاصل نہیں کر سکتی تھی۔لائیبیریا نے بھی تقسیم کے حق میں رائے دی۔نا جائز دباؤکا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہو سکتا تھا کہ دو دن میں کچھ ممالک کی آراء بالکل بدل گئیں۔کیا اس دوران فلسطین کے عربوں کی تعداد کم ہو گئی تھی یا یہودیوں کی تعددا زیادہ ہو گئی تھی یا فلسطین کا جغرافیہ تبدیل ہو گیا تھا ۔آخر کیا ہؤاتھا کہ ان کی رائے تبدیل ہو گئی ؟
حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب عرب حکومتوں کو صورتِ حال سے مطلع کرتے ہیں:
جنرل اسمبلی کے برخواست ہونے کا وقت قریب آ رہا تھا۔اوریہ بھی نظر آ رہا تھا کہ فیصلہ کیا ہو گا۔اب حسبِ ہدایت حضرت چوہدری صاحبؓ نے بہت جلد وطن واپس جانا تھا۔متوقع فیصلہ کے پیشِ نظر شام کے صدر نے آزادعرب ریاستوں کے سیکریٹریانِ خارجہ کی میٹنگ دمشق میں بلائی ہوئی تھی تاکہ صورتِ حال پر غور کر کے فیصلہ کیا جا سکے کہ آ ئیندہ کیا لائحہ عمل اپنانا مناسب ہو گا؟۔ یہ میٹنگ بہت اہمیت کی حامل تھی اور یہ ضروری تھا کہ اس میٹنگ کے شرکاء اقوامِ متحدہ کے اندر ہونے والی کاروائی سے صحیح طرح مطلع ہوں ۔فارس خوری نے جو اقوامِ متحدہ میں شام کے نمائندے تھے، حضرت چوہدری ظفراللہ خانصاحبؓ سے در خواست کی کہ وہ واپسی پر دمشق میں کچھ دیر ٹھہر کر اس میٹنگ کے شرکاء کو صورتِ حال سے خود مطلع کریں۔چنانچہ جس روز ووٹنگ ہوئی اسی روز حضرت چوہدری صاحب دمشق کے لئے روانہ ہو گئے۔
فیصلہ کے بعد مختلف ممالک کی طرف سے مختصر بیانات دیئے گئے۔ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے اپنا بیان تحریر کر کے پاکستانی وفد کے محمد ایوب صاحب کو دیا تھا تاکہ وہ اسے اُن کی طرف سے ا قوامِ متحدہ میں پڑھ دیں۔چنانچہ محمد ایوب صاحب نے حضرت چوہدری صاحب کا یہ پیغام جنرل اسمبلی میں پڑھ کر سنایا۔
’ایک ایسا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے خوفناک نتائج نکلیں گے۔ اوراب یہ ناگزیر ہو چکا ہے۔ امریکہ کے عظیم ترین شخص کے الفاظ میں،’خدا ہمیں جو حق دکھا رہا تھا ہم نے اسی کے لئے جد و جہد کی ۔‘ہم اس کوشش میں کامیاب ہو گئے تھے کہ ہم جس حق کو دیکھ رہے ہیں ،ہمارے ساتھی مندوبین کی کافی تعداد بھی اُسے تسلیم کرلے۔لیکن انہیں اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اُ س فیصلہ کا ساتھ دیں جسے وہ صحیح سمجھ رہے تھے۔ہمارے دل غمگین ہیں لیکن ہمارا ضمیر مطمئن ہے۔ہمیں کوئی دوسرا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئیے تھا۔
سلطنتیں عروج پاتی ہیں اور ان کا زوال بھی ہوتا ہے۔ہمیںتاریخ میںاہلِ بابل، مصریوں اور رومیوں اور عربوں اور اہلِ فارس اور ہسپانیہ کی سلطنتوں کا ذکر ملتا ہے۔آج کل زیادہ تر ذکر امریکیوں اور روسیوں کا ہو رہا ہے۔قرآنِ مجید کہتا ہے ہم اقوام کے درمیان ترقی اور تنزل کے ادوار کو دیکھیں گے ۔اور یہ گردش ہماری توجہ اس آفاقی قانون کی طرف متوجہ کراتی ہے کہ زمین پر اسی کو ثبات بخشا جاتا ہے جو خدا کی مخلوق کے لئے فائندہ مند ہو۔۔۔۔
ہمیں اس بات کا سخت اندیشہ ہے کہ اگر اس تجویز سے کوئی فائدہ ہؤابھی تو وہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فساد کی نسبت بہت تھوڑا ہو گا۔یہ کلیتاََ قانونی جواز سے عاری ہے۔ ہمیں ان دوستوں اور ساتھی مندوبین سے کوئی گلہ نہیں جنہیں شدید دباؤ کے تحت مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی رائے بدلیں اور ایسی تجویز کے حق میں ووٹ دیں جو عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں تھی۔ہمیں تو ان سے ہمدردی ہے کہ انہیں اِس شرمندگی سے دوچار ہونا پڑا کہ ایک طرف ان کی اپنی رائے اور ان کا ضمیر تھا اور دوسری طرف وہ دباؤ تھا جو اُن کی حکومتوں پر ڈالا جا رہا تھا۔
جو فیصلہ ابھی کیاگیا ہے پاکستان اس کی ذمہ داری سے اپنے ہاتھ دھونا چاہتا ہے۔اس لئے اقوامِ متحدہ کا جو کمیشن اس فیصلہ پر عمل درآمد کرانے کے لئے قائم کیا جائے گا پاکستان اس کی تشکیل میں کوئی حصہ نہیں لے گا۔‘
امریکہ سے واپس آتے ہوئے حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب شام ٹھہرے جہاں عرب ممالک کا اجلاس ہو رہا تھا ۔آپ نے شام کے صدر صاحب المعالی شکری القوتلی کو تمام تفاصیل سے آ گاہ کر دیا۔ اس دواران انہوں نے حضرت چوہدری صاحبؓ سے مشورہ لیا کہ ہم اسرائیل کے قیام کے خلاف جنگ کریں یا نہ کریں ؟اس کے جواب میں حضرت چوہدری صاحب ؓ نے فرمایا کہ اس معاملے میں میری رائے کوئی معنی نہیں رکھتی کیونکہ مجھے آپ کی جنگی طاقت کا کوئی علم نہیں البتہ میں اس قدرعرض کر دیتا ہوںکہ اس سوال پر غور کرتے ہوئے آپ صاحبان یہ امر ضرورذہن میں رکھیںکہ اسرائیل کے لئے سمندر کھلا ہو گا ۔امریکہ کے یہودی طبقہ کی طرف سے جو بہت مالدار ہے اسرائیل کو ہر قسم کی مدد پہنچنے کی توقع ہو سکتی ہے اور اسرائیل کی جنگی تیاری اور تربیت آپ کے اندازے سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔(۱۱)
وقت نے ثابت کیا کہ چوہدری صاحب کا خدشہ بالکل درست تھا ۔عرب ممالک کو اسرائیل کی تیاری کا صحیح اندازہ نہیں تھا ۔جب جنگ شروع ہوئی تو اس کا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ فلسطین کے مظلوم عرب باشندوں کے ہاتھ سے رہے سہے علاقے بھی نکل گئے۔اور اسرائیل نے ان پر غاصبانہ قبضہ کر کے ان کو اپنے وطن سے باہر دکھیل دیا ۔
حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ ۵ دسمبر کو کراچی پہنچے۔ آپ نے اخباری نمائیندوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ اقوامِ متحدہ کی اخلاقی عزت کے لئے ایک بڑا دھچکا ہے۔ اس سے پوری دنیا پر ظاہر ہو گیا ہے کہ اس میدان میں طاقت کی سیاست ہی چلتی ہے صرف طریقے اور ہتھیار تبدیل ہو گئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ مشرقی ممالک کو یقین ہو گیا ہے کہ ابھی اس بات کی امید نہیں کی جا سکتی کہ انہیں بین الاقوامی معاملات میں بیرونی اثر اندازی کے بغیر انصاف ملے گا۔اسی شام کو حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے قائدِ اعظم سے ملاقات کی ۔اب قائدِاعظم آپ کو پاکستان کا پہلا وزیرِ خارجہ مقرر کرنے کا اظہار وزیرِ اعظم کے سامنے کر چکے تھے۔
حضرت مصلح موعود ؓ کا تجزیہ:
اقوامِ متحدہ میں جس طرح فلسطین کے مسلمانوں کی حق تلفی ہوئی تھی،اور جس طرح بڑی طاقتوں نے نا جائز دباؤ ڈال کر حق و انصاف کا خون کیا تھا،اِس صورتِ حال نے تمام دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں کئی اندیشوں کو جنم دیا تھا۔فلسطین کے مسلمانوں کو ان کے وطن سے محروم کیا جا رہا تھا اور بڑی طاقتیں اس خطے میں اپنا رسوخ بڑھانے کے لئے فلسطین کے علاقے کو ایک اڈہ بنانے کے لئے کھیل کھیل رہی تھیں۔یہ صورتِ حال اپنے اندر مسلمانوں کے لئے بہت سے خطرات لئے ہوئے تھی۔ اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ وہ صرف جذباتی نعروں پر اکتفا کرنے کی بجائے سب سے پہلے حالات کا صحیح تجزیہ کریں۔۱۱ دسمبر ۱۹۴۷ء کو حضرت مصلح موعود ؓنے الفضل میں’فلسطین کا فیصلہ‘ کے نام سے ایک مضمون شائع فرمایا۔اس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ جس طرح فلسطین کے مختصر سے علاقے کو اتنے بہت سے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے اس میں ایک پائیدار حکومت کیسے قائم ہو سکتی ہے ،یہ معمہ صرف یو این او کے تجربہ کار لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔(وقت کے ساتھ جب صحیح صورتِ حال سامنے آئی تو یہ ثابت ہو گیا کہ یہ تو صرف ابتداء تھی اصل منصوبہ یہ تھا کہ فلسطین کے عربوں سے اُن کے حصے کا علاقہ بھی چھین کر انہیں باہر نکال دیا جائے۔)اس کے بعد حضورؓ نے تحریر فرمایا
’ہمارے نزدیک جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیںیونائیٹڈ اسٹیٹس امریکہ اس انتظام کی تائید میں اس لئے ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ فلسطین کی تحریک کے چلانے میں امریکن یہودیوں کا بہت حصہ ہے اسوجہ سے یہودیوں کے زور پکڑنے پرفلسطین میں یو ایس اے کا دخل سب سے زیادہ رہیگا ۔اس کے بر خلاف روس یہ خیال کرتا ہے کہ اس نے مشرقی یورپ سے بھاگنے والے یہودیوں کے پردے میں بہت سے ایجنٹ فلسطین میں آ باد کر دئے ہیں ۔اور ان کے علاوہ ایک اچھی خاصی کھیپ روسی کارخانوں میں طیار شدہ یہودیوں کی فلسطین میں آنے کے لئے تیار کھڑی ہے ۔اس لئے اس کا پلّہ امریکہ سے بھاری ہو گا۔۔۔
انگریز عجیب مشکل میں ہیں ۔وہ ایک طرف تو اس بات کے شاکی ہیں کہ انہیں فلسطین میں باامن حکومت کرنے کا موقعہ نہیں دیا گیا ۔بلکہ امریکن ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ہمیشہ وہاں فساد پیدا کیا جاتا رہا ہے۔دوسری طرف انہیں یہ بھی خطرہ ہے کہ اگر روس نے فلسطین میں قدم جما لئے تو سب سے زیادہ نقصان انگریزوں کو پہنچے گا۔لیکن ساتھ ہی وہ نہ عربوں سے بگاڑ کرنا چاہتے ہیں ۔نہ یہودیوں سے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ جلد جلد فلسطین کے خالی کر دینے کا اعلان کر رہے ہیں۔جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ تقسیم ِ فلسطین کے فیصلے پر ناراض ہیںلیکن دوسری طرف وہ یہودیوں کو خوش کرنے کی بھی کوشش میں ہیں۔اور یہ کام پھر اسدفعہ جنرل سمٹس کے سپرد کیا گیا جو ہمیشہ ایسے موقع پر برطانوی گورنمنٹ کے کام آیا کرتا ہے ۔‘(۱۲)
حضورؓ نے جنرل سمٹس کے بعض بیانات کا حوالہ دے کر تحریر فرمایا کہ ان کا اشارہ کسی ایسے معاہدے کی طرف ہے جو ابھی دنیا پر ظاہر نہیں ہؤا۔برطانیہ اقوامِ متحدہ میں رائے شماری کے وقت غیرجانبدار رہا تھا لیکن اب یہ شبہ پیدا ہو رہا ہے کہ اس غیر جانبداری کے پیچھے کچھ اور سکیمیں پوشیدہ تھیں۔ایک پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضورؓ نے تحریر فرمایا کہ یہ خبر دی گئی ہے کہ دسمبر تک انگریزی فوجیں بعض عرب اور یہودی علاقوں سے نکل جائیں گی ۔ان فوجوں نے جن یہودی علاقوں سے نکل جانا ہے ان کے نام ظاہر کر دیئے گئے ہیں مگر جن عرب علاقوں کو خالی کرنا ہے ان کے نام ظاہر نہیں کئے گئے ۔صرف قیاس آ رائیاں کی جا رہی ہیں۔یہودی مخفی فوجیں دیر سے تیار کی جا رہی تھیں جبکہ عرب فوجیں اب تیار ہونی شروع ہوئی ہیں۔عربوں کو بندر گاہ مل جانے کا ان کو اتنا فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ عرب سمندر کی طرف سے نہیں آ رہے لیکن یہودی سمندر کی طرف سے آ رہے ہیں ۔پس قبل از وقت ان علاقوں کو چھوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ یہودی زیادہ سے زیادہ اور یہودیوں کو اپنے علاقے میں داخل کر سکیں اور ان کی طاقت مضبوط ہو ۔پس تل عودد کا چھوڑ دینا یہودیوں کی طاقت بڑھانے کا باعث ہو گا لیکن یافہ کو چھوڑنے سے صرف عربوں کی تجارت کو فائدہ ہو سکتا ہے ۔ برطانیہ کی اس سکیم میں یہودیوں کو فائدہ ہے ۔(۱۳)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے بر وقت انتباہ فرمایا تھا کہ تقسیم کے فیصلے کے بعد بھی فلسطین میں عربوں کے ارد گرد ایک خوفناک سازش کا جال بنا جا رہا تھا ۔کچھ علاقہ اقوامِ متحدہ کے ذریعہ ہتھایاگیا تھا اور کچھ جنگ کر کے ہتھیانے کی تیاری ہو رہی تھی۔لیکن بد قسمتی سے عرب نہ تو یہودیوں کی تیاری کا صحیح اندازہ لگا پا رہے تھے اور نہ انہیں آنے والے خطرات کا کوئی اندازہ تھا۔
تقسیم کے اس منصوبے نے نہ قابلِ عمل بننا تھا اور نہ بنا۔دسمبر ۱۹۴۷ء میں پورا فلسطین خونریز فسادات کی زد میں آ چکا تھا۔اور ۱۹۴۸ء کے آ غاز میں جگہ جگہ پر مسلح تصادم ہو رہے تھے۔نتیجہ یہ نکلا کہ یہ مسئلہ اب اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے سامنے پیش ہؤا۔اب امریکہ کے مندوب سیکیورٹی کونسل میں یہ تجویز پیش کر رہے تھے کہ ان حالات میں فلسطین میں اقوامِ متحدہ کی ٹرسٹی شپ قائم کر دی جائے ۔اور فلسطین پر ایک گورنر جنرل مقرر کیا جائے۔اور اپریل میں بھی جو جنرل اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا اس میں بھی امریکہ کی طرف سے ٹرسٹی شپ کی تجویز پیش کی گئی۔ابھی سیاسی منظر پر یہ لے دے جا ری تھی کہ برطانیہ نے ایک اور قدم اُ ٹھایا۔قانوناََ فلسطین پر برطانیہ کا مینڈیٹ یکم اگست تک جاری رہ سکتا تھا لیکن ۱۴ مئی کو برطانیہ نے فلسطین پراپنا مینڈیٹ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔اور فوراََ ہی یہودیوں کی کونسل نے فلسطین میں اسرائیل کے نام سے یہودی ریاست قائم کرنے کا اعلان کر دیا ۔ جب اس کی اطلاع صدر ٹرومین کو ملی تو انہوں نے پانچ منٹ کے اندر اس نئی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔یہ سب کچھ اتنی عجلت میں کیا گیا کہ خود اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر بھی حیران رہ گئے۔وہ بیچارے ابھی تک نیویارک میںٹرسٹی شپ کی تجویز کے لئے تگ و دو کر رہے تھے۔جلد ہی روس اور دیگر ممالک نے بھی اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرنا شروع کر دیا۔اور فوراََ ہی یہودی فوج اور عرب ممالک میں جنگی تصادم شروع ہو گیا (۱۳)۔لیکن بد قسمتی سے جیسے پہلے حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ اور حضرت مصلح موعود ؓ نے متنبہ فرمایا تھا ،مسلمان اور عرب نہ تواُن بھیانک خطرات کو سمجھ پا رہے تھے جو اُن کی طرف بڑھ رہے تھے۔نہ انہوں نے ان حالات سے نمٹنے کے لئے کوئی منظم تیاری کی ہوئی تھی اور نہ ہی انہیں دشمن کی تیاری اور قوت اور عزائم کا صحیح اندازہ تھا۔اس نازک موڑ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے الکفر ملّۃ واحدۃ کے نام سے ایک تاریخی مضمون تحریر فرمایا۔اس میں آپ نے تحریر فرمایا
’وہ دن جس کی خبر قرآنِ کریم اور احادیث میں سینکڑوں سال پہلے سے دی گئی تھی،وہ دن جس کی خبر تورات اور انجیل میں بھی دی گئی تھی ۔وہ دن جو مسلمانوں کے لئے نہایت ہی تکلیف دہ اور اندیشناک بتایا جاتا تھا۔معلوم ہوتا ہے کہ آن پہنچا ہے۔فلسطین میں یہودیوں کو پھر بسایا جا رہا ہے۔امریکہ اور روس جو ایک دوسرے کا گلاکاٹنے پر آ مادہ ہو رہے ہیں۔اس مسئلہ میں ایک بستر کے دو ساتھی نظر آ تے ہیں۔اور عجیب بات یہ ہے کہ کشمیر کے معاملے میں بھی یہ دونوں متحد تھے۔دونوں ہی انڈین یونین کی تائید میں تھے۔اور اب دونوں ہی فلسطین کے مسئلہ میں یہودیوں کی تائید میں ہیں۔آخر یہ اتحاد کیوں ہے۔یہ دونوں دشمن مسلمانوں کے خلاف اکھٹے کیوں ہو جاتے ہیں۔اس کے کئی جواب ہو سکتے ہیں۔۔۔
شاید یہ دونوں ہی اپنی دوربین نگاہ سے اسلام کی ترقی کے آ ثار دیکھ رہے ہیں۔شاید اسلام کا شیر جو ابھی ہمیں سوتا نظر آ تا ہے بیداری کی طرف مائل ہے ۔شاید اس کے جسم پر ایک خفیف سی کپکپی وارد ہو رہی ہے ۔جو ابھی دوستوں کو تو نظر نہیں آتی مگر دشمن اس کو دیکھ چکا ہے۔‘
آپؓ نے یہودیوں کی نئی سازش کے بھیانک پہلؤوں کی طرف مسلمانوں کی توجہ مبذول کراتے ہوئے فرمایا
’یہی دشمن ایک مقتدر حکومت کی صورت میں مدینہ کے پاس سر اُ ٹھانا چاہتا ہے۔شاید اس نیت سے کہ اپنے قدم مضبوط کر لینے کے بعد وہ مدینہ کی طرف بڑھے گا ۔جو مسلمان یہ خیال کرتا ہے کہ اس بات کے امکانات بہت کمزور ہیں ۔اس کا دماغ خود کمزور ہے۔ عرب اس حقیقت کو سمجھتا ہے ۔عرب جانتا ہے کہ اب یہودی عرب میں سے عربوں کو نکالنے کی فکر میں ہیں۔اس لئے وہ اپنے جھگڑے اور اختلاف کو بھول کر یہودیوں کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہو گیا ہے ۔مگر کیا عربوں میں یہ طاقت ہے؟کیا یہ معاملہ صرف عرب سے تعلق رکھتا ہے۔ظاہر ہے کہ نہ عربوں میں اس معاملہ کی طاقت ہے اور نہ یہ معاملہ صرف عربوں سے تعلق رکھتا ہے۔سوال فلسطین کا نہیں سوال مدینہ کا ہے ۔سوال یروشلم کا نہیں سوال خود مکہ مکرمہ کا ہے۔سوال زید اور بکر کا نہیں۔سوال محمدرسول اللہ ﷺ کی عزت کا ہے۔دشمن با وجود اپنی مخالفتوں کے اسلام کے مقابل پر اکٹھا ہو گیا ہے۔کیا مسلمان باوجود ہزاروں اتحاد کی وجوہات کے اس موقع پر اکٹھا نہیں ہو گا ۔امریکہ کا روپیہ اور روس کے منصوبے اور ہتھکنڈے ،دونوں ہی غریب عربوں کے مقابل پر جمع ہیں۔جن طاقتوں کا مقابلہ جرمنی نہیں کر سکا ۔عرب قبائل کیا کر سکتے ہیں۔ہمارے لئے یہ سوچنے کا موقعہ آ گیا ہے کہ کیا ہم کو الگ الگ اور باری باری مرنا چاہئیے یا اکٹھے ہو کر فتح کے لئے کافی جدوجہد کرنی چاہئے۔۔۔۔
مصر شام اور عراق کا ہوائی بیڑہ سو ہوائی جہازوں سے زیادہ نہیں ۔لیکن یہودی اس سے دس گنا بیڑہ نہایت آ سانی سے جمع کر سکتے ہیں۔اور شاید روس تو ان کو اپنا بیڑہ نذر کے طور پر پیش بھی کر دے۔‘
بعض مسلمانوں میںیہ عادت ہے کہ جب ان کا ایک دشمن سے واسطہ پڑے تو اس کے مخالف کو خواہ مخواہ اپنی امیدوں کا مرکز بنا لیتے ہیں۔خواہ عالمِ اسلام کے متعلق اُس کے ارادے نہایت برے ہی کیوں نہ ہوں۔حضور ؓ نے ان الفاظ میں اس غلطی کی طرف توجہ دلائی۔
’میں نے متواتر اور بار بار مسلمانوں کو توجہ دلائی ہے ۔کہ روس مسلمانوں کا شدید دشمن ہے۔ لیکن مسلمانوں نے سمجھا نہیں ۔جو بھی اُ ٹھتا ہے نہایت محبت بھری نگاہوں سے روس کی طرف دیکھنے لگ جاتا ہے۔اور روس کو اپنی امیدوں کی آماجگاہ بنا لیتا ہے۔حالانکہ حق یہی ہے کہ سب سے بڑا دشمن مسلمانوں کا روس ہے۔۔۔۔
یقیناََ روس کے عمل کا محرک امریکہ کے عمل کے محرک سے زیادہ خطرناک ہے۔لیکن چونکہ عمل دونوں کا ایک ہے ۔اس لئے بہر حال عالم اسلامی کو روس اور امریکہ دونوں کا مقابلہ کرنا ہو گا۔مگر عقل اور تدبیر سے ۔اتحاد اور یک جہتی سے۔‘
اس کے بعد حضورؓ نے اس طرف توجہ دلائی کہ جب مسلمانوں پر حملہ ہو تو انہیں متحد ہو کر اس کا مقابلہ کرنا چاہئیے۔اور خواہ انہیں اپنی جائیدادوں کا ایک ایک فیصد بھی فلسطین کے مسلمانوں کو دینا پڑے انہیں ایسا کرنا چاہئیے۔اس طرز پر ایک خاطر خواہ رقم جمع ہو سکتی ہے۔اور یورپ کی منڈی سے ہر چیز مل سکتی ہے۔مگر زیادہ بولی لگانی پڑے گی۔جیب بھری ہوئی ہونی چاہئیے۔جب ساری طاقتیں مل کر مسلمانوں پر حملہ کر رہی ہیں تو مسلمانوں کو بھی چاہئیے کہ وہ متحد ہو کر اپنا دفاع کریں۔اور اس طرح اسلام کے خلاف جو رو چل رہی ہے وہ الٹ جائے گی۔اور مسلمان ایک دفعہ پھر بلندی اور رفعت کی طرف قدم بڑھانے لگیں گے۔(۱۴)
لیکن عرب ابھی اتنی منظم سازش کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔اس جنگ کا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ کہ جیسا کہ پہلے ہی سے منصوبہ تھا فلسطینیوں کو اس تھوڑے سے علاقے سے بھی محروم کر دیا گیا جو کہ اقوامِ متحدہ میں ہونے والی بندر بانٹ کے نتیجے میں انہیں دیا گیا تھا۔ لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے گھروں اپنے علاقوں سے نکل کر وطن بدر ہونا پڑا۔وہ گھر سے بے گھر ہوئے اپنی جائیدادوں سے محروم ہوئے۔ان کی املاک ان کی نہ رہیں ۔ان کی جگہ اب یہودیوں کو آ باد کیا جا رہا تھا۔یہ سب تاریخ کے معروف حقائق ہیں ۔آج تک عالمی منظر پر فلسطین ایک رستا ہؤا زخم ہے ۔
لیکن یہ سازش صرف فلسطین کے اُن علاقوں تک محدود نہیں تھی جن پر اب تک قبضہ کیا جا چکا تھا۔بڑی طاقتوں کے عزائم بہت گہرے تھے ۔۱۰ ستمبر ۱۹۴۸ء کو حضرت مصلح موعود ؓ نے ایک خطبہ جمعہ میں مسلمانوں کو خبردار فرمایاکہ مسلمانوں کو اب فیصلہ کر لینا چاہئیے کہ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہر حال بہترہے حضور نے فرمایا کہ اس میںشبہ نہیں کہ مسلمانوں میں بیداری پیدا ہو چکی ہے۔ لیکن یہ بیداری جس رنگ میں ہو رہی ہے مستقبل قریب میں اس سے مثبت نتائج کی توقع نہیں کی جا سکتی۔حضورؓ نے قومی اخلاق کی ترقی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایاکہ اس وقت نہ مسلمانوں کے قومی اخلاق اعلیٰ ہیں اور نہ ہی انفرادی اخلاق اعلیٰ ہیں۔اور انفرادی اخلاق کے بغیر روحانی فتح نہیں ہوسکتی اور قومی اخلاق کے بغیر جسمانی اور مادی ترقی نہیں ہو سکتی۔سب سے پہلے لیڈروں اور راہنماؤں کو چاہئیے کہ وہ اپنے اندر خاص تبدیلی پیدا کریںمگر اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔اگر وہ شان و شوکت کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیںانفرادی اخلاق کو بدلنا پڑے گا۔سچ، محنت، حسنِ سلوک ،حسنِ معاملہ، دیانت، امانت وغیرہ ان سب اخلاق کو پیدا کرنا پڑے گا۔جہاں تک قومی اخلاق کا تعلق ہے مسلمان ترقی کی طرف جا رہے ہیںلیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اتنی جلدی ترقی حاصل کر لیں گے جتنی جلدی لڑائی شروع ہو رہی ہے بظاہر یہ ممکن نہیں۔اب تو ایک ہی چارہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان متحد ہو جائیں کیونکہ اب کسی بھی ملک کے مسلمان محفوظ نہیں۔حضورؓ نے تحریر فرمایاکہ منصوبہ یہ ہے کہ ایک زبردست یہودی سلطنت قائم کی جائے۔کیونکہ یہودیوں کا خیال ہے کہ وہ اس کے بغیر عزت کی زندگی نہیں گذارسکتے۔وہ صرف اس حصہ کو نہیں لینا چاہتے جو ابھی انہیں دیا گیا ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے اس حصہ کو لے لیا تو وہ آ سانی سے باقی حصہ پر بھی قبضہ کر لیں گے۔اس لئے انہوں نے یہ تجویز کی ہے کہ پہلے فلسطین کے ایک حصہ پر قبضہ کر لو پھرآہستہ آہستہ باقی فلسطین پر قبضہ کر لیا جائے۔پھر اردن ،شام، لبنان اور مصر کے علاقوں پر قبضہ کرلیا جائے ۔
وقت نے ثابت کیا کہ حضورؓ کا اندیشہ بالکل درست تھا۔۱۹۶۷ء کی جنگ میں اسرائیل نے اپنے اس منصوبہ کے ایک حصہ کو عملی جامہ پہنا بھی دیا اور شام ،اردن اور مصر کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا ۔اور اس بنا پر یہ خطہ اب تک ایک آتش فشاں کی صورت اختیار کر چکا ہے۔با وجود کئی دہائیوں کی مصالحتی کوششوں کے اب تک یہ مسئلے حل نہیں ہو سکے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے افغانستان کے متعلق روس کے عزائم کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا
’اب روس سمجھتا ہے کہ انگریزوں کے ہندوستان سے چلے جانے کی وجہ سے اُس کے لئے موقع ہے اس لئے روس کی طرف سے کوشش کی جا رہی ہے اور یہ روسی ایجنٹ ہی ہیں جو افغانستان کو پاکستان کی حکومت کے خلاف بھڑکا رہے ہیں کیونکہ اگر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خراب ہو جائیں تو جب وہ افغانستان میں داخل ہو گا تو افغانستان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔اب روسیوں نے افغانستان کے شمالی علاقوں کے متعلق دعوے کرنے شروع کر دئے ہیں ۔جس کی وجہ سے ملک میں ایک گبھراہٹ سی پیدا ہو گئی ہے۔ اور پاکستان کی مخالفت اب دب رہی ہے کیونکہ انہیں یہ نظر آ رہا ہے کہ انہیں ہڑپ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘ (۱۴)
اُس وقت افغانستان پاکستان کے کچھ علاقوں پر دعوے کر رہا تھا۔لیکن یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ حضورنے ۱۹۴۸ء میں یہ انتباہ فرمایا تھا اور ۱۹۷۰ء کی دہائی میں یہ خدشات سو فیصد درست ثابت ہوئے اور روس نے افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کر دیں۔اور افغانستان میں ایک طویل خانہ جنگی کا آغاز ہؤاجس کے دوران مسلمان ممالک بڑی طاقتوں کا آلہ کار بن گئے۔ اور بجائے اپنے ملک یا عالمِ اسلام کے مفادات مدِ نظر رکھنے کے کسی نہ کسی بڑی طاقت کی خوشنودی اُن کا مطمحِ نظر بن کر رہ گئی۔خدا کرے کہ مسلمان ممالک کی آنکھیں کھلیں اور وہ بڑی طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں اور ایک دوسرے کے خلاف میدان میں ا ُ ترنے کی بجائے ایک دوسری کی حقیقی مدد کرنے والے ہوں۔
(۱) ترجمان القرآن بلطائف البیان مصنفہ نواب صدیق حسن خان ص۱۸۴ (۲)تفسیرِ مظہری جلد ہفتم ص ۱۶۰
(۳)تفسیرِ کبیر جلد چہارم ص ۸۳۹(۴) تحدیثِ نعمت ، مصنفہ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ،ص۴۹۸
(۴)تحدیثِ نعمت ، مصنفہ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ ص ۵۳۳۔۵۳۴
‏(۵) The Civil & Military Gazette,Nov 11 1947p 7
‏(۶) The Civil & Military Gazette,November 23,p1
(۷) تحدیثِ نعمت مصنفہ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ص ۵۳۴۔۵۳۵
The Civil & Military Gazette,November 26,1947(۸)
The Civil & Military Gazette,November 12,1947 (۹)
‏(۱۰)The Civil & Military Gazette,November 30,1947 p
(۱۱)تحدیثِ نعمت مصنفہ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ ص ۵۳۳تا ۵۳۹
(۱۲) الفضل ۱۱ دسمبر ۱۹۴۷ء ص۳
‏(۱۳)The State of Israel by ,Galina Nikitina,Progress Publishers Moscow,50_56
(۱۴) الفضل ۲۱ مئی ۱۹۴۸ء

ریاستوں کا الحاق اور کشمیر کا المیہ
ہندوستان میں ۵۶۲ ریاستیں موجود تھیں۔ہندوستان کی ایک چوتھائی آبادی ان ریاستوں میں رہتی تھی اور ملک کا ایک تہائی رقبہ ان کے زیرِ نگیں تھا۔اکثر ریاستوں کا رقبہ بیس مربع میل سے بھی کم تھا ۔مگر حیدر آباد،کشمیر اور میسور جیسی ریاستیں بھی موجود تھیں جو بہت سے آزاد ملکوں سے بڑی تھیں۔ گو یہ ریاستیں برطانوی سلطنت کے ماتحت تھیں لیکن اندرونی طور پر ان پر نوابوںاور راجوں کی حکومت تھی۔ان کے محلات ،ان کی شان و شوکت ، ان کا رعب و دبدبہ، ان کے دربار ،بیتے زمانوں کی یاد دلاتے تھے۔مگر وقت کے تقاضے تیزی سے بدل رہے تھے۔ان میں سے زیادہ تر ریاستیں برطانوی ہندوستان کی نسبت بہت زیادہ پسماندہ تھیں۔اور اکثر والیانِ ریاست کو اپنی رعایا کا اعتماد حاصل نہیں تھا۔ان ریاستوں کے برطانوی سلطنت کے ساتھ مختلف قسم کے معاہدے تھے،جن کے مطابق ان کا نظم و نسق چلایا جاتا تھا۔اب ہندوستان آزاد ہو رہا تھا اور برطانوی حکومت یہاں سے رخصت ہو رہی تھی۔اس کے ساتھ یہ معاہدے بھی ختم ہو رہے تھے۔قانونی طور پر تو یہ ریاستیں آزاد تھیں۔لیکن ان کی جغرافیائی پوزیشن ، اقتصادی حالات یاانتظامی اور سیاسی صورت ِ حال ایسی تھی کہ عملاََ یہ ریاستیں اس قابل نظرنہیں آرہی تھیں کہ علیحدہ اور آزاد ممالک کی حیثیت برقرار رکھ سکیں۔اس صورتِ حال میں برطانوی حکوت نے اعلان کیا کہ ان ریاستوں کو اختیار ہے کہ وہ پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ملک سے الحاق کر لیں یا ان میں سے کسی ملک کے ساتھ باہمی رضامندی سے کوئی معاہدہ کر لیں ۔ریاستوں کا مسئلہ زیادہ تر ہندوستان سے تعلق رکھتا تھا۔کیونکہ ۵۶۲ میں سے صرف ۱۴ ریاستیں پاکستان کے علاقے میں آ رہی تھیں اور باقی ہندوستان کی سرحدوں کے اندر واقع تھیں۔لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اس معاملے میں ہندوستان کی کافی مدد کی اور آزادی کا سورج طلوع ہونے سے قبل جو ریاستیں ہندوستان میں آ رہی تھیں ان میں حیدر آباد اور جونا گڑھ کے سوا ہندو اکثریت والی تمام ریاستیں ہندوستان سے الحاق کا اعلان کر چکی تھیں۔حیدر آباد اور جونا گڑھ کے حکمران مسلمان تھے اور ان کے باشندوں کی اکثریت ہندو تھی۔اپنی وسعت کی وجہ سے حیدر آباد کا مسئلہ ایک خاص اہمیت رکھتا تھا ۔ان کے علاوہ کپور تھلہ نے بھی ہندوستان سے الحاق کر لیا تھا۔ اگرچہ اس کی ۶۴ فیصد آبادی مسلمان تھی اور یہ ریاست مسلم اکثریت والے علاقوں کے ذریعہ پاکستان سے ملحق بھی تھی مگر اس کے حکمران مسلمان نہیں تھے۔یہ ظلم صرف یہاں تک محدود نہیں رہا بلکہ جلد ہی انتہا پسند سکھوں اور ھندوؤں کے مسلح جتھے ،ریاستی حکمرانوں کے تعاون سے ریاست میں داخل ہونا شروع ہوئے اور مسلمانوں کے خون کی ہولی شروع ہو گئی۔دیکھتے دیکھتے مشرقی پنجاب کی طرح کپورتھلہ سے بھی مسلمانوں کی صف لپیٹ دی گئی۔جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہاں اب دیکھنے کو بھی مسلمان نہیں ملتا تھا۔دیگر مسلمانوں کی طرح کپور تھلہ کے احمدیوں کو بھی اس قیامت کا سامنا کرنا پڑا۔کشمیر کی ریاست کی اکثریت بھی مسلمان تھی مگر اس کے راجہ ہندو تھے۔کشمیر کا علاقہ پاکستا ن سے ملحق تھا مگر جب باؤنڈری کمیشن نے ضلع گورداسپور کے مسلم اکثریت والے علاقے ہندوستان کے حوالے کئے تو ہندوستان کو بھی کشمیر تک رسائی حاصل ہو گئی۔
اس کے برعکس آزادی کے دن تک پاکستان کے علاقے میں واقع مسلم اکثریت والی ۱۴ ریاستوں میں سے کسی ایک نے بھی پاکستان سے الحاق کا اعلان نہیں کیا تھا۔(۱)
قوموں کی تاریخ میں بسا اوقات ایک غلطی دوسری غلطی کو جنم دیتی ہے اور ایک ظلم دوسرے ظلم کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔کشمیر کا المیہ ایک ایسی ہی کہانی ہے۔مارچ ۱۸۴۶ء سے قبل ،کشمیر سکھوں کی سلطنت کا ایک صوبہ تھا۔جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے سکھوں کو شکست دی تو باقی علاقے کو تو اپنے انتظام میں لے لیا لیکن کشمیر کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔آج یہ بات نا قابلِ یقین لگتی ہے لیکن اس وقت حقیقت میں کشمیر کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا تھا۔ہندو ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ سکھ سلطنت کے ایک اہم ستون تھے ۔اور کشمیر پر بطور گورنر کام کر رہے تھے۔انگریزوں نے ڈیڑھ لاکھ پونڈ کے عوض کشمیر اور گلگت کا علاقہ ان کے ہاتھ فروخت کر دیا۔اور اس طرح سلطنتِ برطانیہ کی سرپرستی میں رہتے ہوئے راجہ گلاب سنگھ کو کشمیر کا حکمران تسلیم کر لیاگیا۔کمپنی بہادر کو ڈیڑھ لاکھ پونڈ ملے راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ کشمیر کی حکومت آئی اور کشمیر کے عوام آج تک اس سودے بازی کی قیمت چکا رہے ہیں۔ کشمیر کی اکثریت مسلمان ہے ۔ان کے حکمران نسلاََ اور مذہباََ کشمیریوں سے بالکل مختلف تھے۔ کشمیر کے نئے حکمرانوں کی ترجیحات میں رعایا کے فلاح و بہبود کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیر کے مسلمان ایک دبی ہوئی غلامانہ حیثیت میں زندگی گذارنے لگے۔ان کی مدد کے لئے حضرت مصلح موعود ؓ کی بے لوث کاوشوں کا ذکر کتاب کے حصہ اول میں آ چکا ہے۔
جب ہندوستان کی آزادی کا دن قریب آیا تو بہت سی ریاستوں کی طرح کشمیر بھی ایک دو راہے پر کھڑا تھا۔ہندوستان کی خواہش تھی کہ کشمیر ہندوستان سے الحاق کا اعلان کرے اور پاکستان کا مؤقف تھا کہ کیونکہ کشمیر کی اکثریت مسلمان ہے اس لئے اسے پاکستان کا حصہ بننا چاہئیے۔مہاراجہ ہری سنگھ سے یہ امید کم ہی تھی کہ وہ کشمیریوں کی خواہش کو پیشِ نظر رکھ کر کوئی فیصلہ کریں گے۔انہوں نے فوری طور پر کسی فیصلے کا اعلان نہیں کیا۔لیکن اگست ۱۹۴۷ء کے شروع ہی سے کشمیر کے سیاسی منظر پر ہلچل نظر آنے لگی تھی۔یکم اگست سے گاندھی جی نے کشمیر کا تین روزہ دورہ شروع کیا۔اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ تیس سال قبل انہوں نے کشمیر کے مہاراجہ آ نجہانی پرتاپ سنگھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کشمیر آ ئیں گے ۔اس وعدے کو پورا کرنے کے لئے وہ کشمیر جا رہے ہیں۔اس کے معاََ بعد کشمیر کے وزیرِ اعظم رام چند کاک کو برطرف کر دیا گیا۔ رام چند کاک پاکستان سے کشمیر کے الحاق کے لئے مسلم لیگ سے بات چیت کر رہے تھے۔ان کی جگہ جنک سنگھ کو کشمیر کا وزیرِ اعظم مقرر کیا گیا۔جنک سنگھ نسلاََ کشمیری نہیں تھے ان کا تعلق ڈوگرہ راجپوتوں کے ہندو گھرانے سے تھا۔اُس وقت شیخ عبداللہ اور کشمیر نیشنل کانفرنس کے دیگر راہنما مہاراجہ کے خلاف تحریک چلانے کی پاداش میں جیل میں تھے۔نیشنل کانفرنس کا نگرس کی حامی تھی ۔مہاراجہ کے حکم پر ان راہنماؤں کو رہا کر دیا گیا ۔کشمیر مسلم کانفرنس کے راہنما ہندوستان سے الحاق کے مخالف تھے۔ان کی سزاؤں میں کسی تخفیف کا اعلان نہیں کیا گیا۔کل تک نیشنل کانفرنس والے مہاراجہ کو کشمیر سے نکالنے کی تحریک چلا رہے تھے۔اب وہ مہاراجہ بہادر کی جے اور جنرل جنک سنگھ زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔لیکن بات سیاست کی بساط پر مہروں کو آگے پیچھے کرنے تک محدود نہ رہی۔ریاست میں متعصب ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کے مسلح گروہ اور مسلح سکھ جتھوں کی سرگرمیاں واضح طور پر نظر آنے لگیں۔ریاست میں موجود مسلمان فوجیوں کو غیر مسلح کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا۔عام شہریوں کا اسلحہ ضبط کر لیا گیا۔مہاراجہ نے اپنے افسر نیپال تک بھجوا دیئے تا کہ وہاں سے گورکھا سپاہی بھرتی کئے جائیں ۔مہاراجہ کشمیر نے ریاست پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے دورے شروع کئے۔اور مہاراجہ کے لئے جلسوں کا اہتمام کیا گیا۔پونچھ کے علاقے میں جلسہ ہؤا تو وہاں کے مسلمانوں نے مہاراجہ کی خدمت میں درخواست کی کہ کشمیر کا الحاق پاکستان سے کر دیا جائے۔اب یہ آوازیں ریاست کے مختلف مقامات سے اٹھ رہی تھیں۔ان کو دبانے کے لئے فوجی قوت کا سہارا لیا گیا۔ڈوگرہ فوجیوں اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے کارکنوں اور سکھ جتھوں نے ریاست میں داخل ہونا شروع کیا۔مغربی پاکستان سے جو سکھ اور ہندو پناہ گزیں کشمیر میں داخل ہو رہے تھے انہیں مسلح کرنے کے عمل کا آ غاز کر دیا گیا۔اور اس کے برعکس حکومتِ کشمیر نے کئی علاقوں میں مسلمانوں کو ہدایت دی کہ وہ اپنا لائنسنس والا اسلحہ بھی حکومت کے پاس جمع کرادیں۔اور اسی پر بس نہیں کی گئی بلکہ کشمیرکی فوج کے مسلمانوں کو بھی غیر مسلح کر دیا گیا(۲)۔پونچھ ،میر پور اور دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کی قتل و غارت شروع کر دی۔ بے قصور مسلمانوں کو بے دریغ قتل کیا گیا ۔عورتوں کی عصمت دری کی گئی مسلمانوں کے گھر نذرِآتش کئے گئے۔ بہت سے مسلمان دیہات کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا۔جو مسلمان پاکستا ن جانا چاہتے ان کو بحافظت پاکستان جانے دیا جاتا لیکن جو اپنے گھروں میں رہنا چاہتے ان کو ہر قسم کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا۔پاکستان کے علاقے سے جلنے والے دیہات نظر آ رہے تھے۔تحصیل باغ میں ایک جگہ مسلمان جلسے کے لئے جمع ہوئے تو ڈوگرہ فوج نے نہتے شہریوں پر فائر کھول دیا ۔دیکھتے دیکھتے بے شمار شہریوں کو اپنے خون میں نہلا دیا گیا۔پاکستا ن کی سرحد پر دیہات کو جبراََ خالی کرانے کا عمل شروع کیا گیا ۔کشمیر میں بہت سے مقامات پر احمدی آ باد تھے ۔جب کشمیر پر یہ قیامت گذر رہی تھی تو یہ امر سب احمدیوں کے لئے تشویش کا باعث بن رہا تھا۔
پونچھ کے علاقے میں پچاس ہزار سے زائدمسلمان دوسری جنگِ عظیم کے دوران فوج میں کام کر چکے تھے ۔انہوں نے عورتوں اور بچوں کو پاکستان بھجوایا اور خود قبائلی علاقے سے اسلحہ حاصل کر کے اپنا مسلح دفاع شروع کر دیا ۔اور دیکھتے دیکھتے پونچھ اور میر پور کے اکثر علاقے ریاستی حکومت کے ہاتھ سے نکل گئے۔(۳تا۶)
دوسری طرف جونا گڑھ کی ریاست میں بھی حالات تیزی سے بدل رہے تھے۔جونا گڑھ کے نواب مسلمان تھے اور یہاں کے لوگوں کی اکثریت ہندو تھی۔ جوناگڑھ ایک ساحلی ریاست تھی جس کے ارد گرد ہندوستان کا علاقہ تھا۔اور پاکستان سے اس کا رابطہ سمندر کے ذریعہ ہی ہو سکتا تھا۔آزادی کے فوراََ بعد نواب جونا گڑھ نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا۔کچھ تاخیر کے بعد پاکستان نے اس الحاق کو منظور کرلیا ۔ہندوستان کی حکومت نے اس الحاق پر حکومتِ پاکستان سے احتجاج کیا اور اس الحاق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔کاٹھیاوار ڈیفنس فورس کے نام سے ایک فوج تیار کی گئی۔اور ہندوستان کی فوج اور ملحقہ ہندو ریاستوں کی فوجیں جوناگڑھ کی سرحدوں پر جمع ہونا شروع ہو گئیں۔ اور یکم اکتوبر ۱۹۴۷ء کوگاندھی جی کے ایک قریبی رشتہ دار سملداس گاندھی کی صدارت میں بمبئی میں جوناگڑھ کی ایک متوازی حکومت قائم کر دی گئی۔
اس کے بعد ریاستوں کا مسئلہ بالکل ایک نیا رخ اختیار کر گیا ۔اگر راجہ سے اختلاف کی وجہ سے جوناگڑھ کے لوگوں کا حق تھا کہ وہ اپنی حکومت کا اعلان کر دیں تو پھر یہ حق کشمیر کے لوگوں کو بھی حاصل تھا۔اور کشمیر میں تو مسلمان قتل و غارت کا نشانہ بنے ہوئے تھے ۔ان کے دیہات جلائے جا رہے تھے۔ان کو اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔جبکہ جوناگڑھ میں یہ صورتِ حال نہیں تھی۔ اگر ہندوستان کو یہ حق حاصل تھا کہ مطالبہ کرے کہ جوناگڑھ کا الحاق صرف حکمران کی مرضی کی مطابق نہیں بلکہ عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہئیے تو یہ حق پاکستان کو بھی تھا کہ یہ مطالبہ کرے کہ کشمیر کا الحاق وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق ہو،صرف کشمیر کے راجہ کو فیصلے کا حق نہیں ہونا چاہئیے۔مگر دوسری طرف یہ واضح نظر آ رہا تھا کہ کشمیر کا راجہ پاکستان سے الحاق نہیں کرے گا۔
کشمیر کی متوازی حکومت:
اس سے پہلے بھی وزیرِ اعظم پاکستان کی صدارت میں ایک اجلاس ہو چکا تھا،جس میں کشمیری لیڈر بھی شامل ہوئے تھے اور اس اجلاس میںکشمیر میں متوازی حکومت بنانے کے سوال کو زیرِ غور لایا گیا تھا۔ کشمیر ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ،محمد یوسف صراف صاحب بیان کرتے ہیںکہ اس میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے علاوہ ،میاں افتخار الدین صاحب، فیض احمد فیض اور چوہدری حمید اللہ صاحب بھی شامل تھے۔اس کمیٹی کے سپرد کشمیر کا اعلانِ آزادی تیار کرنا تھا)۷)۔کشمیر کی مسلم کانفرنس کے بہت سے لیڈر پاکستان میں پناہ لئے ہوئے تھے۔انہوں نے یکم اکتوبر کو اس بات کا اعلان کر دیا کہ اب کشمیر کے عوام کشمیر کی ایک عبوری حکومت تشکیل دیں گے۔(۲)حضرت مصلح موعودؓ بہت سے مواقع پر کشمیر کے بے کس اور مظلوم مسلمانوں کی راہنمائی اور مدد فرما چکے تھے۔اس نازک موڑ پر بھی آپ نے ان کی مدد فرمائی۔
پاکستان میںکشمیری لیڈروں کی ایک میٹنگ بلائی گئی،جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بھی شرکت فرمائی۔اس میں فیصلہ کیا گیا کہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ایک عبوری حکومت قائم کی جائے۔تاکہ کشمیر کے مسلمانوں کو مہاراجہ کے مظالم سے نجات دلانے کی کوئی صورت بنے۔جیسا کہ بعد میں ذکر آئے گا کہ ابتداء میں اس عبوری حکومت کے صدر نے ایک نہایت اہم اور خطرناک فریضہ سر انجام دینا تھا ۔اس لئے اس منصب کو قبول کرنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ سب سے پہلے مفتی ضیاء الدین صاحب کو صدارت سنبھالنے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے معذرت کرلی ،پھر محمد عبداللہ قادری صاحب کو صدر بنانے کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے بھی اس کی حامی نہیں بھری۔بالآخر ایک احمدی لیڈر غلام نبی گلکار صاحب یہ فریضہ ادا کرنے پر آمادہ ہوئے۔اور سردار ابراہیم صاحب کشمیر کے عبوری وزیرِ اعظم مقرر ہوئے۔چونکہ ابھی ان میں سے بعض احباب نے سری نگر جا کر کشمیری عوام کا متحدہ محاذ قائم کرنے کی کوشش کرنی تھی،اس لئے اس حکومت کا اعلان کرتے ہوئے اصلی ناموں کی بجائے کو ڈ نام استعمال کئے گئے۔ گلکار صاحب کا کوڈ نام انور رکھا گیا۔۴؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو اس حکومت کا با قاعدہ اعلان کر دیا گیا ۔اور اس کے پہلے پریس ریلیز میں اعلان کیا گیا کہ چونکہ ہندوستان میں سلطنتِ برطانیہ کا خاتمہ ہو چکا ہے،اس لئے مہاراجہ گلاب سنگھ اور انگریزوں کے درمیان ہونے والا معاہدہ اب کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔اس لئے اس اعلان کے بعد کشمیر کے عوام نے حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لی ہے اور مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت کے خاتمے کا اعلان کیا جاتا ہے۔اب سے جو شخص مہاراجہ ہری سنگھ یا اُس کے کسی رشتہ دار کے احکامات کی تعمیل کرے گا اسے سزا دی جائے گی۔اس حکومت کا صدر مقام مظفر آباد ہو گا(۸تا۱۰)۔مسٹر انور کو اس حکومت کا صدر مقرر کیا گیا ہے۔۴ اور ۵ اکتوبر کو اس حکومت کے قیام کا اعلان بار بار ریڈیو پر کیا گیا۔اس وقت کشمیر کے المناک حالات کی وجہ سے مسلمانوں میں شدید اضطراب پایا جاتا تھا۔اس اعلان سے ان میں ایک نیا ولولہ پیدا ہؤا۔افق پر امید کی ایک نئی کرن نظر آئی۔اس کاا ندازہ اُس وقت پاکستان کے سب سے زیادہ کثیر الاشاعت اردواخبار ’احسان‘ کے صفحہ اول کی سب سے بڑی سرخی سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے الفاظ یہ تھے
’’زندہ باد مسلمانانِ کشمیر
کشمیر کے غیور مسلمانوں نے مہاراجہ کی حکومت کے مقابلے پر اپنی متوازی حکومت قائم کرلی۔ عارضی جمہوری حکومت کا ہیڈ کوارٹر مظفر آباد قرار پایا ہے۔اس حکومت نے اعلان کر دیا ہے کہ ہری سنگھ کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں رہا۔ریاست کشمیر کے تمام با شندوں کو ہدایت کردی گئی ہے کہ آج سے ہری سنگھ یا ان کے رشتہ داروں یا مقرر کردہ افسروں کا کوئی حکم نہ مانیں
مسٹر انور عارضی جمہوری حکومت کے صدر منتخب ہوئے ہیں
کشمیر میں مہاراجہ کی حکومت نے ان اخبارات اور رسائل کے خلاف سخت کاروائی شروع کر دی جو پاکستان کے ساتھ الحاق کی حمائت کر رہے تھے۔(۱۱)‘‘
یہ تو نظر آ رہا تھا کہ مہاراجہ کشمیر کا الحاق ہندوستان کے ساتھ کر دے گا ۔مگر اس راستے میں یہ مسئلہ درپیش تھا کہ کشمیر کا بیرونی دنیا سے رابطہ پاکستان سے گذر کر تھا۔باؤنڈری کمیشن نے مسلم اکثریت کا ضلع گورداسپور ہندوستان کے حوالے کر کے ہندوستان کو کشمیر سے متصل علاقہ تو مہیا کر دیا تھا لیکن ضلع گورداسپور کی تحصیل پٹھانکوٹ اور کشمیر کے درمیان کوئی پل موجود نہیں تھا۔ان مخدوش حالات میں یہ اطلاع موصول ہوئی کہ راوی کے اوپر پل بنا کر مشرقی پنجاب اور کشمیر کے درمیان رستہ بنایا جا رہا ہے۔اور اس کے ساتھ ہی اخبارات میں یہ خبریں شائع ہونے لگ گئیں کہ اس راستے کے قابلِ استعمال ہوتے ہی کشمیر ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دے گا۔(۱۲) مسلمانانِ کشمیر کی تحریک کے ایک اہم کارکن کیانی صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ سے جماعت کا ہوائی جہاز لے کر اس پل کی تعمیر کا معائنہ کیا تو انکشاف ہؤا کہ راوی پر کشتیوں کا پل تعمیر کیا جا چکا ہے۔(۱۳)
طے شدہ پروگرام کے بعد غلام نبی گلکار صاحب تمام خطرات کے با وجودسرینگر چلے گئے۔ان حالات میں یہ بہت جرا ء ت مندانہ قدم تھا ۔کیونکہ مہاراجہ کی حکومت ہر مخالف پر ہاتھ ڈال رہی تھی۔بہت سے علاقوں میں تو خون ریزی کا بازار گرم تھا۔یہاں تک کہ مشہور کشمیری لیڈر پریم ناتھ بزاز صاحب نے اپنی کتاب میں اس قدم کو بچگانہ اور عجیب و غریب قرار دیا ہے(۹) کیونکہ کچھ عرصہ بعد غلام نبی گلکار صاحب کوگرفتار کر لیا گیا تھا۔ لیکن گلکار صاحب کے وہاں جانے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ تنِ تنہا جا کر مہاراجہ کو گرفتار کر لیں گے جیسا کہ بزاز صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے۔اُس وقت کشمیری لیڈر دو گروہوں میں تقسیم ہو چکے تھے۔ضرورت اس بات کی تھی کہ کشمیری اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں ۔اور جمہوری طرز پر کشمیری عوام کی رائے معلوم کی جائے۔مہاراجہ اور ہندوستان کی حکومت اپنے مقاصد کے لئے شیخ عبداللہ صاحب پر انحصار کر رہے تھے۔گلکار صاحب کے شیخ عبداللہ صاحب سے قریبی تعلقات تھے۔شیخ عبداللہ صاحب کے دورِ حکومت میں گلکار صاحب کو قید تو رکھا گیا لیکن وہ گلکار صاحب سے بہت زیادہ متاثر بھی تھے ۔یہاں تک کہ برسوں بعدجب اُنہوں نے اپنی سوانح حیات ’آتشِ چنار‘ تحریر کی تو اس میں گلکار صاحب کے متعلق تحریر کیا۔
’خواجہ غلام نبی گلکار کی علیحدگی تو ذاتی طور پر میرے لئے بے حد تکلیف دہ ثابت ہوئی ۔ وہ میرے ہم سن تھے اور میرے اولین رفیقوں میں سے ایک۔پڑھے لکھے بھی تھے لیکن اس سے بڑھ کر یہ کہ بڑے با ہمت ،حوصلہ مند اور جری تھے۔تھے تو بڑے پُر خلوص لیکن قادیانی عقیدے کی وجہ سے سیاسی مسائل پر ان کی ہی رہنمائی قبول کرتے تھے ان کو قوم کی زبوں حالی کا بڑا ہی احساس تھا۔ان کا زرخیز دماغ لمبی چوڑی اور دور دراز کار سکیموں کا تانا بانا بنتا رہتا تھا ۔۔۔۔۔مجھے یقین ہے کہ ان کا جسدِ خاکی لحد میں بھی مادرِ کشمیر کے آنچل میں پہونچنے کے لئے بے قرار ہو گا۔‘(۱۴)
گلکار صاحب کی شیخ صاحب سے ملاقات بھی ہوئی تھی اور وقتی طور پرشیخ صاحب اِس بات پر آمادہ بھی ہو گئے تھے کہ وہ قائدِ اعظم سے ملاقات کریں گے۔اگر اُس وقت کشمیری لیڈر آپس میں متحد ہو جاتے تو اُن کی قوم کو ان المیوں کا شکار نہ ہونا پڑتا جن سے وہ گذشتہ پچاس برسوں سے نشانہ بن رہے ہیں۔وہ وقت یہ سوچنے کا نہیں تھا کہ مجھے کیا خطرہ ہے۔وہ وقت سب کچھ قربان کر کے قوم کو بچانے کا تھا۔اورگلکار صاحب نے یہ قربانی دی۔اگر سب لیڈر اسی جذبے سے اپنے مفادات کی قربانی پیش کرتے تو آج کشمیر کا یہ حال نہ ہوتا۔
ریاستوں کے مسئلے پر حضرت مصلح موعودؓ کا بیان:
۱۵ اکتوبر کو مہاراجہ نے مہر چند مہاجن صاحب کو کشمیر کا نیا وزیرِ اعظم مقرر کر دیا۔یہ وہی مہر چند مہاجن صاحب تھے جنہیں کانگرس کی طرف سے باؤنڈری کمیشن میں جج نامزد کیا گیا تھا اور جنہوں نے کمیشن میں ضلع گورداسپور کے مسلم اکثریت کے علاقے ہندوستان کو دلوانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی تھی۔اور جب اس فیصلے سے ہندوستان کو کشمیر تک رسائی مل گئی تو انہیں کشمیر کا وزیرِ اعظم مقرر کیا گیا۔ان کا تعلق کشمیر سے نہیں تھا ۔انہوں نے وزیرِ اعظم بنتے ہی بیان دیا کہ جو لوگ موجودہ حکومت کے مقابل پر متوازی حکومت بنا رہے ہیں ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جیسا سلوک باغیوں سے کیا جاتا ہے۔انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان کشمیر میں مسلح باغی بھجوا رہا ہے اور تعاون کرنے پر حکومتِ ہندوستان کا شکریہ ادا کیا۔(۱۵( مہاجن صاحب کا اگلا قدم یہ تھا کہ انہوں نے کشمیر ی پنڈت راہنماؤں کو بلاکر انہیں مسلح کرنے کی پیشکش کی۔مگر شیخ عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس میں انہیں خاص کامیابی نہیں ہوئی۔ریاست کی افواج کو اب متوقع جنگ کے لئے مختلف مقامات پر بالخصوص پاکستان کے ساتھ سرحد پر بھجوانے کا عمل شروع کر دیا گیا ۔ ڈوگرہ فوج نے سر حد کی خلاف ورزی کرکے پاکستان کے دیہات پر حملہ کر نے کا سلسلہ شروع کر دیا۔اور اس وقت پاکستان کی حکومت اس حالت میں نہیں تھی کہ اپنی ساری سرحد کی حفاظت کر سکے،البتہ اس پر کشمیر کی حکومت سے احتجاج کیا گیا (۱۶تا۱۸)۔ایک دوسرے پر اعتماد کے فقدان کے باعث مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی تھی۔اب باہمی تناؤ کی کیفیت سے لگ رہا تھا کہ اس مسئلے پر دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہو سکتی ہے۔اس مرحلے پر صورتِ حال یہ تھی کہ کشمیر کا راجہ ہندو تھا اور رعایا کی اکثریت مسلمان تھی اور ابھی کشمیر نے کسی ملک کے ساتھ الحاق کا اعلان نہیں کیا تھا مگر آثار واضح تھے کہ جلد ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا جائے گا۔پاکستا ن کا مؤقف تھا کہ کشمیر کا الحاق پاکستا ن کے ساتھ ہونا چاہئیے ۔حیدر آباد کا حکمران مسلمان تھا اور رعایا کی اکثریت ہندو تھی حیدر آباد کی ریاست نے بھی ابھی کسی ملک کے ساتھ الحاق کا اعلان نہیں کیا تھا مگر ہندوستان کی حکومت کا اصرار تھا کہ حیدر آباد کا الحاق ہندوستان کے ساتھ ہونا چاہئیے ۔جوناگڈھ کے مسلمان نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا تھا لیکن ہندو آبادی کی اکثریت ہندوستان کے ساتھ الحاق کی خواہاں تھی اور ہندوستان کا مؤقف تھا کہ جوناگڈھ کا الحاق عوام کی مرضی کے مطابق ہندوستان کے ساتھ ہونا چاہئیے اور اس الحاق کو حکومتِ ہندوستان نے تسلیم نہیں کیا تھا ۔اس مرحلے پر حضرت مصلح موعود ؓ نے ایک پریس کانفرنس میں یہ بنیادی اصول بیان فرمایا۔
’پاکستان یا ہندوستان میں ریاستہائے کشمیر و حیدر آباد کی شمولیت کا فیصلہ بیک وقت ہونا چاہئیے ۔خواہ حکمران یا خواہ عوام کو شمولیت کے فیصلے کا مجاز قرار دیا جائے لیکن دونوںریاستوں کے فیصلہ کا معیار ایک ہی ہونا چاہئیے ۔‘
ساتھ ہی حضور نے ارشاد فرمایا کہ کشمیر کا پاکستان میں شامل ہونا اشد ضروری ہے ۔کیونکہ اگر کشمیر ہندوستان میں شامل ہو گیا تو پاکستان کی سرحدپانچ سو میل لمبی ہو جائے گی۔اور حملے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ (۱۹)
حقیقت یہی تھی کہ ریاستوں کے معاملے میں بنیادی اصول طے کئے بغیر اس تنازع کو حل کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی تھی۔اگر صحیح وقت پر ایک اصول وضع کر کے یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جاتی تو یہ خطہ بہت سے مصائب سے بچ سکتا تھا۔
مہاراجہ ہندوستان سے الحاق کا اعلان کرتا ہے:
لیکن اب حالات کو سنبھالنا کسی کے بس میں نہیں تھا۔ایک طرف تو کشمیری مسلمانوں کی آزاد فوج جسے اس وقت عوامی فوج کہا جاتا تھاضلع پونچھ کے بیشتر علاقے پر قابض ہو چکی تھی اور یہاں پر صرف پونچھ شہر پر ڈوگرہ فوج کا قبضہ تھا۔اس کے علاوہ اکھنور تک راجوری اور میر پور کے اضلاع پر بھی آزاد افواج کا قبضہ تھا ۔یہاں پر مہاراجہ کی فوج نوشہرہ کی مضبوط چھاؤنی میں اپنے قدم جمائے ہوئے تھی۔مظفر آباد کے محاذ پر بھی عوامی فوج سری نگر کی طرف بڑھ رہی تھی۔(۲۰)
۲۰ اکتوبر کو سرحد کے گورنر کو اطلاع ملی کہ محسود قبیلے کے نو سو افراد لاریوں میں کشمیر کی طرف روانہ ہوئے ہیں۔ان کو ایک مقام پر روکنے کا حکم دیا گیا مگر یہ قافلہ پہلے ہی اِس مقام سے نکل چکا تھا۔ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔دو ہزار کے قریب قبائلی ایبٹ آباد سے ہوتے ہوئے۲۲ اکتوبر کو کشمیر میں داخل ہو گئے۔محسود کے علاوہ آفریدی اور وزیر قبیلے کے بہت سے مسلح افراد کشمیر میں داخل ہو رہے تھے۔سرحد پر ریاست کشمیر کی فوج ایسی پوزیشن میں موجود تھی کہ وہ ان غیرمنظم حملہ آوروں کو روک سکتے تھے مگر ان کے مسلمان دستوں نے اپنی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی۔ جس کے نتیجے میں ڈوگرہ فوج کوئی خاص مزاحمت نہ کر سکی۔اور قبائلی حملہ آور تیزی سے آگے بڑھنے لگے۔اورجب قبائلی دستے دو میل اور مظفر آباد سے آگے نکلے تو ان شہروں سے شعلے بلند ہو رہے تھے ۔آزاد کشمیر کی عبوری حکومت نے الزام لگایا کہ مہاراجہ کی فوج کی فورتھ ڈوگرہ رائفل نے پسپا ہوتے ہوئے آگ لگائی تھی اور ہندوستان نے الزام لگایا کہ یہ آگ قبائلی حملہ آوروں نے لگائی تھی۔وجہ کچھ بھی ہو اب اس علاقے کے عوام کو نئے مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔(۲۱)بہت سے مقامات پر مسلمانوں اور ھندوؤں کو بھی مختلف گروہوں کی طرف سے لوٹ مار،قتل و غارت اور انسانیت سوز مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔
اس وقت تک گلکار صاحب تو گرفتار ہو چکے تھے۔پونچھ میں پلندری کے مقام پر کشمیر کی عبوری حکومت کی تشکیلِ نو کا اعلان کیا گیا۔اور سردار ابراہیم جو گذشتہ اعلان میں وزیرِ اعظم تھے ،نئے صدر مقرر ہوئے۔سردار ابراہیم نے اعلان کیا کہ اب سے اس حکومت کا صدر مقام پلندری ہو گا۔اب کشمیر کا بہت سا حصہ اس عبوری حکومت کے قبضے میں آ چکا تھا(۲۲) دوسری طرف۲۵ اکتوبر کو قبائلی حملہ آوروادیِ جہلم میں آگے بڑھتے ہوئے اُوڑی کے مقام تک جا پہنچے۔مہاراجہ اپنے محل میں دسہرہ کی تقریبات منا رہے تھے کہ یکلخت بجلی کی رو منقطع ہو گئی۔جلد انکشاف ہؤا کہ قبائلی فوجیوں نے اُس بجلی گھر پر حملہ کر دیا ہے۔یہ خبر مہاراجہ کے اوسان خطا کرنے کے لئے کافی تھی۔بجائے دارالحکومت سری نگر میں رہ کر دفاع کرنے کے مہاراجہ کشمیر اور ان کے وزیرِ اعظم مہاجن صاحب سری نگر سے عجلت میں فرار ہو کر جموں چلے گئے ،جو ہندو اکثریت کا علاقہ تھا۔اب مہاراجہ کو جلد فیصلہ کرنا تھا ۔اس پس منظر میںبھارتی سیاستدان وی پی مینن مذاکرات کے لئے کشمیر پہنچے ۔انہوں نے ۲۶؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا اور ایمر جنسی حکومت قائم کر کے شیخ عبداللہ کو وزیرِ اعظم کا معاون مقرر کیا گیا۔ہندوستان نے یہ الحاق قبول کرتے ہوئے کشمیر میں فوجیں اُتارنی شروع کر دیں۔اگلے چار پانچ روز میں ۵۰ ڈکوٹا جہازوں کے ذریعہ ۶ بٹالین فوج کشمیر بھجوائی گئی اور اس کے ساتھ پٹھانکوٹ سے مزید فوج جموں کے لئے روانہ کی گئی(۲۳)۔ ہندوستان کے گورنر جنرل نے الحاق کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے لکھا کہ بعد میں ان کی حکومت کی پالیسی کے مطابق کشمیر کے مستقبل کے متعلق وہاں کے عوام کی مرضی معلوم کی جائے گی اور اِس کے مطابق کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے گا۔)۲۴)
اب قبائلی لشکروں اور عوامی فوجوں کا ٹکراؤ مہا راجہ کی ڈوگرہ فوج سے نہیں بلکہ اپنے سے کہیں زیادہ مسلح اور تربیت یافتہ ہندوستانی فوج سے تھا۔قائدِ اعظم کوہندوستانی فوج کے کشمیر میں داخل ہونے کی اطلاع لاہور میں ملی۔آپ نے پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو حکم دیا کہ وادیِ جہلم کے راستے پاکستانی افواج کشمیر میںداخل کر لی جائیں۔اس عذر کی بنا پر اس حکم کی تعمیل نہ ہوسکی کہ پاکستان کی فوج ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ یہ مہم شروع کی جا سکے۔یکم نومبر ۱۹۴۷ء کوریاست کشمیر کے صوبے گلگت میں بغاوت ہو گئی۔اس علاقہ کی اکثریت مسلمان تھی اورمسلمانوں پر مشتمل گلگت سکاؤٹ نے وہاں پر ڈوگرہ فوج کا صفایا کر دیا۔اس بغاوت کا دائرہ تیزی سے پھیلنے لگا اور جلد بلتستان ، ہنزہ اور نگر جیسے شمالی علاقوں نے مشترکہ طور پر پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔سردار ابراہیم کی عبوری حکومت نے پاکستان سے فوجی مدد کی درخواست کی اور ساتھ ہی اقوام متحدہ میں درخواست دی کہ ڈوگرہ فوج کے ظلموں سے ایک لاکھ شہری مارے جا چکے ہیں،اس لئے اقوامِ متحدہ مظلوم کشمیریوں کی مدد کو آئے۔)۲۵،۲۶)ہندوستان کے وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے ریڈیو پر خطاب کرتے ہوئے اس مؤقف کا اعادہ کیا کہ امن قائم ہوتے ہی کشمیر میں ریفرنڈم کرایا جائے گا کہ وہاں کے عوام کس ملک کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔اور اس کے ساتھ پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ قبائلی حملہ آوروں کی مدد کر رہا ہے۔(۲۷)
جونا گڑھ پر ہندوستان کا قبضہ:
اسی وقت کشمیر سے بہت دور جنوب میں جوناگڑھ کی ریاست میں بھی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے۔جب ریاست کے ارد گرد کاٹھیاوار کے لوگوں کی آزاد فوج کے علاوہ ہندوستان کی فوج کو جمع ہوتا دیکھا تو جوناگڑھ کے مسلمان نواب اکتوبر کے آخر میں ریاست چھوڑ کر کراچی آ گئے۔اس آزاد فوج کو ہندوستان کی حکومت کی حمایت حاصل تھی اور یہ ریاست کی سرحدوں پر ہندوستان کے علاقے میں مسلح اور منظم ہو رہی تھی۔پہلے مناودر پر قبضہ کیا گیا اور پھر ۷ نومبر کو یہ فوج جوناگڈھ میں داخل ہو گئی۔اور پھر ہندوستان نے اس ریاست کا نظم و نسق سنبھال لیا۔پاکستان کی حکومت اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ جوناگڑھ میں اپنی فوجیں بھجوا سکتی۔ہندوستان کی حکومت نے پاکستان کی حکومت کو تار کے ذریعہ اطلاع دی کہ جوناگڈھ کے دیوان(وزیرِ اعظم)شاہنواز بھٹو کی درخواست پر ہندوستان کی حکومت نے جوناگڑھ کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔حکومت پاکستان نے اس پر احتجاج کیا کہ جوناگڈھ اب پاکستان کا حصہ بن چکا تھا۔اب قانونی طور پر دیوان یا کسی اور اس شخص کو یہ اختیار نہ تھا کہ اس معاملے میں مذاکرات کرتا۔اس لئے ہندوستان اس ریاست سے نکل جائے۔ معاملہ اقوامِ متحدہ کی طرف بھجوایا گیا مگر کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہؤا۔ (۲۸)دوسری طرف یہ اشارے ملنے لگ گئے کہ ہندوستان کی حکومت حالات ٹھیک ہونے کے بعد کشمیر میں عوام کی رائے معلوم کرنے کے لئے کوئی رائے شماری کرانے کا رادہ نہیں رکھتی۔چنانچہ شیخ عبداللہ صاحب نے جو اُس وقت کشمیری حکومت کے سب سے با اثر رکن تھے ،سری نگر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ شاید اگلی بہار تک کشمیر میں ریفرنڈم نہ کرایا جائے ۔اور جو کہ اب تک ہو چکا ہے اُس کی روشنی میں شاید یہاںپر سرے سے کوئی رائے شماری نہ کرائی جائے۔اور نہ یہاں کے لوگ ایسی رائے شماری کی کوئی پرواہ کرتے ہیں۔اس بیان سے ان کے ارادے واضح ہو گئے۔(۲۹)
مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ میں:
اب کشمیر میں جنگ کی آگ پوری طرح بھڑک اٹھی تھی۔ہندوستان کی باقاعدہ افواج کو اپنے مدِ مقابل پر برتری حاصل تھی۔مظفر آباد کے محاذ پر آزاد فوج جو سری نگر کی طرف پیش قدمی کر رہی تھی اسے چکوٹھی تک پسپائی اختیار کرنی پڑی۔اور گلگت سے آزاد فوج نے سری نگر سے تیس میل تک لداخ کا تمام علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔اس برفانی علاقے میں بنیادی سہولیات سے محروم ہونے کے با وجود یہ پیش رفت حیران کن تھی۔بعد میں جنرل تھمایانے(جن کا ذکر قادیان کے حالات میں آ چکا ہے)لداخ پر ہندوستانی قبضے کو بحال کرایا۔اور قبائلی حملہ آور بالکل غیر منظم تھے۔دوسرے وہ اپنے علاقے سے اتنا دور کبھی نہیں لڑے تھے اور اس مرحلے پر اپنا عقب محفوظ کئے بغیر آگے نکلتے گئے۔ان میں کچھ جاسوسوں نے افواہ مشہور کردی کہ ان کے مقابل دشمن ٹینک لے کر آرہا ہے۔ان میں سے بہت سے چھوٹے چھوٹے گروہوں کی صورت میں محاذ سے غائب ہو گئے اور اس وجہ سے ساتھ کے علاقے میں لڑنے والے مشکلات میں مبتلاء ہو گئے ۔لیکن ان کامیابیوں کے با وجود ہندوستان کی فوج کو محاذ پر بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔اور جنگ طول پکڑتی جا رہی تھی۔اور انہیں مقامی آبادی کی اکثریت کی مخالفت کا بھی سامنا تھا۔دونوں ممالک کے گورنر جنرلوں اور پھر دونوں کے وزرائِ اعظم کے درمیان مذاکرات ہوئے مگر بات صرف دلائل کے تبادلے تک ہی محدود رہی۔اب اطلاعات مل رہی تھیں کہ ہندوستان یہ قضیہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جانا چاہتا ہے۔آزادی کے معاََ بعد دونوں ممالک کے درمیان یہ تنازعات انتہائی افسوسناک تھے۔اور ان کی وجہ سے اس خطے کے لوگ طرح طرح کے مصائب میں مبتلاء ہو رہے تھے۔لیکن با اثر لوگوں کا ایک طبقہ امن کی کوششوں کی بجائے دونوں ممالک کے درمیان جنگ کی باتیں کر رہا تھا۔اخباروں میں شائع ہونے والی یہ خبر سب کے لئے تشویش کا باعث بنی کہ ہندوستان کے جنرل کرائپا (Cariapa) نے لندن میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان کی افواج چار پانچ سال میں پھر سے پاکستان اور ہندوستان کو متحد کر دیں گی(۳۰)۔اس صورتِ حال میں جلتی پر تیل چھڑکنے کے لئے مشہور سکھ لیڈر تارا سنگھ صاحب نے بیان دیا کہ اب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ نا گزیر ہو چکی ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس کے جواب میں ایک پریس کانفرنس میں فرمایا کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہونے کی صورت میں اس خطے میں ایک تیسری طاقت کو پاؤں جمانے کا موقع مل جائے گا اور غیر ملکی زنجیروں سے آزادی کے معاََ بعد کوئی بھی دوبارہ اپنی گردن پر ایک نیا جؤا پسند نہیں کرے گا۔ حضوؓر نے تجویز پیش فرمائی کہ دونوں ممالک جنگ کرنے کی بجائے مل کر مشترکہ دفاع تیار کریں۔(۳۱)افسوس اس بر وقت نصیحت کی قدر نہیں کی گئی۔اور وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک میں اختلافات گہرے ہوتے گئے۔اور یہاں کے لوگوں کوایک طویل عرصہ اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور یہ المیہ اب تک جاری ہے۔حضورؓ نے دسمبر ۱۹۴۷ء میں الفضل میں ایک مضمون میں تحریر فرمایا کہ تقسیمِ ہند کے المیے میں لاکھوں آدمیوں کے ہلاک ہونے کے بعد بھی ہندوستان اور پاکستان میں کچھ لوگ ایک دوسرے کے علاقہ کو فتح کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔اور چونکہ ہندوستان ایک بڑا ملک ہے اس لئے ایسے لوگ ہندوستان میں زیادہ ہیں ۔آپ نے دونوں ممالک کے درمیان صلح کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تحریر فرمایا ،
’اس حالت کے بدل جانے پر اور مسلمانوں کا ایک علیحدہ وجود بن جانے پر اگر کوئی ایسی صورت نکل سکے کہ پاکستان اور ہندوستان اپنی آزادیوں کوقائم رکھتے ہوئے پھر متحد ہو جائیں تو اس سے زیادہ اچھی بات اورکیا ہو سکتی ہے۔ایسا متحدہ ہندوستان یقیناََ ایشیا میں ایک بہت بڑا درجہ حاصل کر سکتا ہے۔۔۔ہندوستان اور پاکستان کے اتحاد کے ہر گز یہ معنے نہیں کہ دونوں طاقتوں میں سے کوئی بھی اپنی آزادی کو کھو دے۔ان آزادیوں کو قائم رکھتے ہوئے بھی یہ دونوں ملک ایک ہو سکتے ہیں۔اس سے بھی زیادہ ایک جتنا کہ وہ ایک ہندوستان کے وقت میں تھے۔اور پھر یہی قدم مزید اتحاد کے لئے رستہ کھول سکتا ہے۔ ہمیں جذبات کی رو میں نہیں بہنا چاہئیے۔ہمیں موجودہ صورتِ حال کو تسلیم کرتے ہوئے اختلافات کی جھیل کو پاٹنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔‘ (۳۲)
لیکن افسوس اُ س وقت کے ماحول میں بہت کم لوگ صلح کا پیغام سننے پر آمادہ تھے۔
پاکستانی خارجہ پالیسی کی زبوں حالی:
دسمبر کے آخر تک ابھی کسی کو پاکستان کا وزیرِ خارجہ مقرر نہیں کیا گیا تھا۔اس وزارت کا قلمدان ابھی تک وزیرِ اعظم کے پاس تھا ۔اور ان خطرناک حالات میں پاکستان کی خارجہ پالیسی طرح طرح کی مشکلات میں گھری ہوئی تھی۔اور خود ملکی اخبارات بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بے بسی پر اعتراضات کی بوچھاڑ کر رہے تھے۔چنانچہ ۱۹ نومبر ۱۹۴۷ء کے اداریے میں اخبار احسان نے اپنے اداریے میں ان امور کے بارے میں وزیرِ اعظم کے بیانات کو محض اپنی بے بسی اور بے کسی کا ڈھنڈوراپیٹنا قرار دیتے ہوئے لکھا
’علاوہ ازیں یو این او پر ہم بھروسہ بھی کیا کر سکتے ہیں۔خصوصاََ ایسی صورت میں جبکہ ہندوستان کے بین الاقوامی گھاگوں کے مقابلے میں ہمارے وکیل اصفہانی اور بیگم تصدق حسین قسم کے افراد ہیں۔آخر وہ کون سی تیاری ہے جس کے بل پر ہم یقین کریں کہ یو این او کی بین الاقوامی عدالت ہمارے معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کر کے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے گی؟ہم تو آجتک ان اسلامی ممالک کو بھی اپنا ہمنوا نہ بنا سکے جو بغیر کسی جد و جہد کے محض اسلامی تڑپ کی بنا پر ہماری آواز میں آواز ملا نے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔کشمیر پر اغیار کا قبضہ ہو گیا۔جونا گڑھ چھین لیا گیا۔ منادر کو ہڑپ کرلیا گیا مگر دنیا کی حکومتوں کو چھوڑیئے کیا کسی ایک اسلامی حکومت کو بھی ہم نے ان حالات کے متعلق کوئی ایسی واقفیت بہم پہنچائی جس کے نتیجے میں ہمارے بین الاقوامی ہمدردوں کا دائرہ وسیع ہو سکتا؟پھر کیا ہم انہی تیاریوں کے ساتھ یو این او میں جائیں گے؟‘ اور پھر وزیرِ اعظم کے بیان کے متعلق لکھا کہ اس میں ہم وفاداروں کے لئے کوئی پیامِ امید نہیں صرف پیامِ بدحواسی ہے اس طرح انہوں نے قوم کے حوصلے کو بلند نہیں کیا الٹا پست کیا ہے۔‘
حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ وزیرِ خارجہ بنتے ہیں:
اب اس بات کی ضرورت تھی کہ ایسے شخص کو پاکستان کا وزیرِ خارجہ مقرر کیا جائے جو ان نامساعد حالات میںعالمی سطح پر پاکستان کے مؤقف کو پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔اس وقت بین الاقوامی سٹیج پر ہندوستان کا طوطی بول رہاتھا۔اور اسی بھروسے پر ہندوستان کی حکومت کشمیر کا مسئلہ یو این او میں لے جانے کی تیاری کر رہی تھی۔جب حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب اقوامِ متحدہ سے پاکستان واپس آ ئے تو قائد ِ اعظم نے انہیں کہا تھا کہ اب انہیں نواب بھوپال کی ملازمت ترک کر کے پاکستان کے لئے خدمات سر انجام دینی چاہئیں۔اور وزیر ِ اعظم نے کہا تھا کہ قائدِ اعظم کی خواہش ہے کہ حضرت چوہدری صاحب پاکستان کے وزیرِ خارجہ کا منصب سنبھالیں۔
۲۵ دسمبر ۱۹۴۷ء کو قائدِ اعظم کا یوم ِ پیدائش تھا ۔ان کے اعزاز میں کراچی میں ایک تقریب منعقد کی گئی۔ان کی آمد پر وزیرِ اعظم لیاقت علی خان صاحب نے حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ کو اشارہ کیا کہ وہ قائدِ اعظم کی بائیں طرف بیٹھ جائیں۔قائدِ اعظم نے بیٹھتے ہی کہا ’ظفراللہ خان وزارتِ خارجہ کے منصب کا حلف لے گا۔اور حضرت چوہدری صاحب نے اس منصب کا حلف اٹھایا۔اسی مجلس میںقائدِ اعظم نے چوہدری صاحب کو برما کے یومِ آزادی کے موقع پر برما جانے کا کہا۔یکم جنوری کو چوہدری صاحب رنگون کے لئے روانہ ہوئے ۔اسی دن ہندوستان نے کشمیر کا معاملہ سلامتی کونسل میں پیش کر دیا۔اور اس درخواست کی سماعت کے لئے ۱۲ جنوری کی تاریخ مقرر ہوئی۔چوہدری صاحب ۷ جنوری کو کراچی پہنچے تو ڈپٹی سیکریٹری نے انہیں بتایا کہ انہیں سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لئے کل ہی نیو یارک کے لئے روانہ ہونا پڑے گا۔ ایک بار پھر چوہدری صاحب ؓ کو کیس کی تیاری کے لئے مناسب وقت نہیں مل سکا تھا۔جلدی میں کاغذات سمیٹے گئے۔ بے سروسامانی کا یہ عالم تھا کہ ان کے لئے بکس تک میسر نہیں تھا۔چنانچہ ان کو بوریوں میں بند کیا گیا۔ خوش قسمتی سے چوہدری محمد علی صاحب ( جو بعد میں پاکستان کے وزیرِ اعظم بھی بنے )وفد میں شامل تھے۔ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ کے الفاظ میں ان کی لیاقت،تدبر اور تبحرِ علمی سے پورا پاکستان واقف ہے۔اور ان کی موجودگی باعثِ اطمینان تھی۔طیارے میں خرابی کی وجہ سے راستے میں لندن رکنا پڑا۔اسی ایک دن میں وہاں پاکستانی ہائی کمیشن میں تیاری شروع کی۔اور پاکستان کا بیان تیار کیا گیا۔اس وقت کے ہوائی سفر بھی بہت طویل ہوتے تھے۔جب گینڈر کے ہوائی اڈے پر رکے تو برفانی طوفان جاری تھا۔رات کو ایئر پورٹ میں ہی قیام کیا اور وہیں پر سٹینو گرافر نے مسودہ ٹائپ کیا اور بیچ میں صرف لکڑی کی دیوار تھی۔ٹا ئپ رائیٹر کے شور نے وفد کو صحیح سے سونے بھی نہ دیا۔ اگلی صبح جب جہاز نیو یارک پہنچا تو پاکستان کے سفیر نے بتایا کہ جہاز لیٹ ہونے کی وجہ سے سلامتی کونسل کا اجلاس ۱۵ تک ملتوی کر دیا گیا۔اسطرح مزید دو روز تیاری کے لئے مل گئے ۔وفد نے اس پر اللہ کا شکر ادا کیا۔اس بیان کا مقصد یہ ہے کہ جب حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے وزارتِ خارجہ کا منصب سنبھالا تو یہ کوئی پھولوں کی سیج نہیں تھی۔غیر تو غیر اپنے بھی کہہ رہے تھے کہ پاکستان کے سفارتکار ہندوستان کے کہنہ مشق سیاستدانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔اور جن سہولیات کے ساتھ یہ کام شروع کیا گیا تو اس کا اندازہ تو مندرجہ بالاحقائق سے بخوبی ہو جاتا ہے۔
سلامتی کونسل کے اجلاس کا آغاز:
۱۵ جنوری کو اس تاریخی اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی ۔قاعدے کے لحاظ سے ہندوستان اس قضیہ میں مستغیث تھا ۔ان کے وفد کے سربراہ آینگر تھے اور ان کے ہمراہ ستیلواڈ صاحب (جو باؤنڈری کمیشن میں کانگرس کے وکیل تھے)اور گرجا شنکر باجپائی اور شیخ عبداللہ صاحب بھی ہندوستان کے وفد میں شامل تھے۔پہلے آینگر صاحب نے تقریر شروع کی،جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مہاراجہ کشمیر نے خود کشمیر کا الحاق پاکستان سے کیاتھا۔اور پاکستان نے قبائلیوں سے حملہ کراکے خون خرابہ کیا اوربین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی۔چنانچہ پاکستان کو چاہئیے کہ حملہ آوروں کو فوری طور پر واپس بلائے اور الحاق کے متعلق ہندوستان کا مؤقف یہ ہے کہ جہاں راجہ ایک مذہب کا ہو اور رعایا کی اکثریت دوسرے مذہب کی ہو ایسی ریاست میں حکومتِ ہندوستان امن قائم ہونے کے بعد اس کا فیصلہ رعایا کی اکثریت کی رائے کے مطابق کرے گی۔بعد میں دوسرے سفارتکاروں نے اعتراف کیا کہ اس تقریر کے بعد اراکین کی اکثریت کا تاثر تھا کہ پاکستان نے آزادی کے فوراََ بعد فساد کا راستہ اختیار کیا ہے اور اس طرح عالمی امن کے لئے ایک خطرہ پیدا کر دیا ہے۔اس کے بعد حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے جواب دینا شروع کیا۔تقریر کے آ غاز میں آپ نے فرمایا کہ میری تقریر طویل ہو گی لیکن سلامتی کونسل کے اراکین کو تقسیم ہند کے تمام پس منظر سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ یہ تقریر تین اجلاسوں میں جاری رہی۔چوہدری صاحب ؓنے پوری تفاصیل بیان فرمائیں کہ ہندوستانی نمائیندے نے عمداََ اس قضیہ کے بہت سے پہلوؤں کو پسِ پردہ رہنے دیا ہے۔ اور نہ صرف کشمیر بلکہ پنجاب اور کپورتھلہ میں ہونے والے اندوہناک واقعات بیان فرمائے۔اور پھر پورا پس منظر بیان فرمایا کہ کس طرح کشمیر میں بھی مسلمانوںکا قتلِ عام شروع کیا گیا اور پھر وہاں کے حالات بگڑتے بگڑتے یہاں تک پہنچے ۔اور ان پیچیدہ تفاصیل سے ظاہر کیا کہ اس جھگڑے میں قصور حکومتِ ہندوستان کا بنتا ہے ۔
تقریر کے اختتام پر حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے فرمایا
’مجھے احساس ہے کہ میں نے اس مسئلہ پرسیکورٹی کونسل کا کافی شاید بہت زیادہ وقت لیا ہے ۔مجھے کوئی شک نہیں کہ آپ یہ جان چکے ہیں کہ یہ ایک نہایت اہم مسئلہ ہے ۔جس کا تعلق لاکھوں افراد کی زندگیوں سے ہے۔اس کے علاوہ اس کے بہت سے عواقب ہو سکتے ہیں۔سیکیورٹی کونسل ،پاکستان اور ہندوستان کے کندھوں پر ایک اہم اور سنگین ذمہ داری کا بوجھ ڈالا گیا ہے۔اگر میں نے ایک طویل سہ پہر کو ایک روز دوپہر سے پہلے اس ادارے کا وقت اس لئے لیا ہے تاکہ اس معاملے کے با رے میں اپنا نقطہ نظر بیان کر سکوں، تو مجھے یقین ہے کہ مجھے قابلِ معافی سمجھا جائے گا۔اگر میں اکتاہٹ کا باعث بنا ہوں یا بعض مواقع پر ان تفاصیل میں گیا ہوں جو ممبرانِ کونسل کے نزدیک اہم نہیں تھے تو میں یقین دلاتا ہوں کہ میں نے ایسا آپ کی معاونت کی روح کے ساتھ کیا ہے تاکہ اس صورتِ حال کے تمام عوامل سامنے آ سکیں۔‘
چوہدری صاحب کی تقریر کے بعد سیکیورٹی کونسل کے صدر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بہت اہم ،فوری نوعیت کا اور پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس پر فیصلہ کرتے ہوئے کچھ وقت لگ سکتا ہے۔اور دونوں حکومتوں سے اپیل کی کہ اگر صورتِ حال میں کوئی تبدیلی ہو تو کونسل کو مطلع کیا جائے۔ اس کے بعد صدر سیکیورٹی کونسل نے ممبران کو تبصرہ کرنے کی دعوت دی ۔اس کے جواب میں سب سے پہلے سوویت یونین کے نمائندے گرومیکو نے یہ عجیب تجویز پیش کی کہ اب اس معاملے کو اگلے اجلاس تک ملتوی کر دیا جائے۔جب صدر کونسل نے اس تجویز پر رائے شماری کرائی تو اس کے حق میں صرف سوویت یونین اور یوکرین کے ووٹ آئے۔اور اس طرح یہ تجویز مسترد ہو گئی۔یوکرین بھی عملاََ سوویت یونین کا حصہ تھا ۔سوویت یونین اس مسئلہ پر بھارت کا ساتھ دے رہا تھا اور ظاہر ہے کہ یہ تجویز اس کی ہمدردی میں اور اس کی مرضی کے مطابق پیش کی جا رہی تھی۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب بھارت کے نمائندے مسٹر آینگر کی تقریر کے اختام پر حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے فرمایا تھا کہ اس تقریر میں اتنے مختلف نکات اٹھائے گئے ہیں کہ ان کا جواب دینے کے لئے انہیں کچھ وقت درکار ہو گا۔تو اس پر آینگر صاحب نے کہا تھا کہ یہ معاملہ تو فوری نو عیت کا ہے اور کسی قسم کی تاخیر مناسب نہیں ہو گی۔اور اب چوہدری صاحب کی تقریر کے بعد اب بھارت کے اتحادی کوشش کر رہے تھے کہ فوری طور پر بحث شروع نہ کی جائے۔
اگلے روز سلامتی کونسل کا اجلاس بیلجیئم کے مندوبLangehoveکی صدارت میں شروع ہوا اور انہوں نے ایک قرارداد کا مسودہ پیش کیا۔اس قرارداد میں ایک سہ رکنی کمیشن قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی جو سلامتی کونسل کی ہدایات کے تحت کشمیر جا کر تحقیقات کرے اور مفاہمت پیدا کرنے کی کوشش کرے اور سلامتی کونسل کو صحیح صورتِ حال سے مطلع کرے۔اور جب سلامتی کونسل یہ ہدایت دے تو یہ کمیشن پاکستان اور ہندوستان کے مابین دیگر اختلافات کے بارے میں مفاہمت کے لیے کام کرے گا۔حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے ایک مسودہ سلامتی کونسل میں پیش کیا تھا جو ان دیگر شکایات پر مشتمل تھا جو پاکستان کو بھارت سے تھیں۔آینگر کا اصرار تھا کہ یہ دیگر اختلافات آپس میں بات چیت کے ذریعہ طے کرلیے جائیں گے،اس وقت سلامتی کونسل کشمیر کے قضیہ کا فیصلہ کرے۔یہ قرارداد ان توقعات کے مطابق نہیں تھی جن کو لے کر ہندوستان سلامتی کونسل میں آیا تھا۔ان کو امید تھی کہ با آسانی پاکستان کو جارح قرار دے کر ایک قرارداد کے ذریعہ پاکستان سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ کشمیر میں مداخلت بند کرے ۔اس پر مزید یہ کہ اس کمیشن کے دائرہ اختیار میں پاکستان اور ہندوستان کے مابین دیگر اختلافات کو بھی داخل کر دیا گیا تھا ۔اس کے نتیجے میں جوناگڑھ جیسے مسائل بھی زیرِ غور آ سکتے تھے اور بھارت کے مندوب آینگر اس امر پر بھی خوش نہیں تھے۔ برطانیہ کے وزیر نوئل بیکر نے قرارداد پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ کشمیر کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر جلد حل ہوا چاہیے اور پاکستان کی حکومت کا یہ حق ہے کہ وہ دیگر معاملات کو سلامتی کونسل کے روبرو پیش کرے۔
۲۳ جنوری کو بھارتی مندوب مسٹر سٹیلواڈ نے سیکیورٹی کونسل سے خطاب کیا ۔اب تک یہ بحث ایک المیہ کے واقعات کے ارد گرد گھوم رہی تھی۔لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اب تک جو ہوا وہ ہندوستان کے لیے غیر متوقع تھا۔انہیں اس معاملہ میں اپنی فتح کا یقین تھا ۔لیکن اب معاملات ان کے نقطہ نظر سے الجھ گئے تھے۔مسٹر سٹیلواڈ نے اپنی تقریر کا آ غاز ہی حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ پر ذاتی حملہ سے کیا ۔اور تمام تقریر میں وہ حضرت چوہدری صاحب پر اپنا غصہ نکالتے رہے اور الزامات لگاتے رہے۔انہوں نے اپنی تقریر کے آ غاز میں کہا کہ پاکستان کے مندوب نے سکیورٹی کونسل میںپانچ گھنٹہ طویل تقریر کر کے ایک ریکارڈ قائم کیا ہے۔مجھے ان کی تقریر کی طوالت سے کوئی اختلاف نہیں۔لیکن اس تقریر نے ہندوستان کے سوچے سمجھے زہر کے اگلنے کا بھی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ پاکستان کے مندوب نے بہت سے غیر متعلقہ حقائق بیان کیے ہیں (ان کے نزدیک مشرقی پنجاب اور کپورتھلہ میں مسلمانوں کا قتلِ عام اور جوناگڈھ پر قبضہ غیر متعلقہ امور تھے)، بہت سے متعلقہ حقائق کو چھپایا ہے اور بہت سے حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کیا ہے۔ہندوستان کی حکومت پر غلط اور جھوٹے الزامات لگائے گئے ہیں۔انہوں نے تقریر کے درمیان میں بھی بہت غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری صاحب نے عمداََ حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کیا ہے اور وہ یہ بات بار بار دہراتے رہے ،جس سے یہ تقریر ذاتی حملوں سے بھرپور ایک شاہکار کی صورت اختیار کر گئی۔ چوہدری صاحب نے مغربی پنجاب میں مسلمانوں کے گھروں کی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرا بھی ایک گھر تھا ۔اب میرا وہ گھر نہیں رہا(یعنی قادیان میں چوہدری صاحب کی کوٹھی)۔مسٹر سٹیلواڈ نے طنزاََ کہا کہ پاکستان کے مندوب نے بڑا نقشہ کھینچا ہے کہ کبھی میرا ایک گھر تھا اب وہ نہیں رہا ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا گھر سلامت ہے اور گو اس کا کچھ سامان لوٹا گیا تھا لیکن اکثر سامان بحافظت لاہور منتقل کردیا گیا ہے۔(جیسا کہ چوہدری صاحب نے جواب میں فرمایا کہ حقیقت یہ تھی کہ خود فوج اور پولیس نے کئی روز تفصیل کے ساتھ لوٹا تھا)۔مسٹر سٹیلواڈ نے کہا کہ صرف انہی کا نقصان نہیں ہوا بلکہ ہمارے وفد کے اراکین کا بھی نقصان ہوا ہے۔اس کے علاوہ مسٹر سٹیلواڈ نے قادیان کا ذکر بھی بڑی برہمی سے کرتے ہوئے کہا کہ کہ انہوں نے اپنے قصبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ قادیان میں ۱۳۰۰۰ مسلمان تھے اور اب صرف دو سو تین سو لوگ اپنے مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے رہ گئے ہیں۔اس کے جواب میں مسٹر سٹیلواڈ نے کہا کہ قادیان کا نقصان اس نقصان کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا جو مغربی پنجاب میں ہندوئوں اور سکھوں کو اٹھانا پڑا ہے۔
یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ انہیں بہت سی تفصیلات کا علم بھی نہیں تھا اور چوہدری صاحب ؓ کے بیان کے بہت سے حصے ان کے لئے حیران کن اور نا قابلِ یقین تھے۔لیکن اس دباؤ نے ہندوستانی وفد کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ اس بات کو غیر مبہم انداز میں دہرائیں کہ کشمیر کا الحاق مستقل تب ہی ہو گا جب وہاں کی اکثریت اس کے حق میں اظہارِ رائے کرے گی۔ جب اگلے روزحضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب اس کا جواب دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو بہت سے اراکین کا خیال تھا کہ اب درشت کلامی کا جواب درشت کلامی سے دیا جائے گا۔ چوہدری صاحب نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ میرے فاضل دوست جنہوں نے کل بھارت کی طرف سے سلامتی کونسل میں تقریر کی تھی،ایک بہت قابل وکیل ہیں اور میرے نزدیک وہ ہندوستان میں وکالت کرنے والوں میں قابل ترین وکیل ہیں۔میں ہمیشہ سے انہیں نہ صرف ایک قابل بلکہ ایک انصاف پسند وکیل بھی سمجھتا ہوں ۔کل انہوں نے مجھے قائل کرنے کی بہت کوشش کی ہے کہ میں ان کی دیانت کے متعلق اپنی رائے بدل لوں۔لیکن میرے خیال میں یہ ایک استثنائی صورت تھی۔انہوں نے میرے متعلق بہت سخت الفاظ استعمال کرنا پسند کیا ہے لیکن میں ان کے متعلق اپنی پرانی رائے پر قائم ہوں۔اور اس کے بعد چوہدری صاحب نے ان کے دلائل کا موثر رد پیش کیا۔
حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے کہا کہ بھارتی مندوب نے کلکتہ کی قتل و غارت کی تمام ذمہ داری مسلمانوں پر ڈالی ہے اور کہا ہے کہ ان فسادات کی عدالتی تحقیق ہو رہی تھی اور اب وہ تحقیق ۱۵ اگست کے بعد روک دی گئی ہے لیکن بھارتی مندوب نے یہ نہیں بتایا کہ جس صوبہ میں یہ عدالتی تحقیق روکی گئی ہے وہاں پرخود کانگرس کی حکومت ہے۔اور کلکتہ کے بعد نواکھلی میں فسادات کا افسوسناک اور قبلِ مذمت واقع ہوا اور وہاں کے گورنر Mr.Burrowsکا اندازہ ہے کہ اس میں ۲۰۰ ہندو اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اس کے بعد بہار کے فسادات میں ۳۰ ہزار مسلمانوں کو موت کی گھاٹ اتار دیا گیا۔اور اس واقعہ میں پورے کے پورے دیہات کو نذرِ آتش کر دیئے گئے۔چوہدری صاحب نے دیگر واقعات بیان کر کے فرمایا کہ بھارتی مندوب نے کپورتھلہ کے متعلق ایک لفظ نہیں کہا ،جہاں پر مسلمانوں کی آبادی اب صفر رہ گئی ہے۔چوہدری صاحب نے پنجاب کے بعض سکھ لیڈروں کی تقاریر کا حوالہ دیا جن میں انہوں نے کہا تھا کہ سکھ اور ہندو مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلیں گے اور ایسے بیانات کے بعد پنجاب میں فسادات شروع ہوئے۔پھر آپ نے کراچی اور دہلی کے حالات کا موازنہ بیان کیا اور کراچی کے غیر مسلموں کے بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے صوبہ سندھ کے حکام کی تعریف کی تھی کہ انہوں نے بہت مستعدی سے فسادت پر قابو پایا اور دہلی میں اگرچہ گاندھی جی نے موت تک بھوکے رہنے کا اعلان کیا مگر پھر بھی حالات قابو میں نہ آئے۔اس کے بعد آپ نے کشمیر میں رونما ہونے والے حالات بیان کیے کہ کس طرح وہاں پر مہاراجہ کی فوج نے مسلمانوں کا قتلِ عام شروع کر دیا تھا اور اس کے بعد کس طرح مسلمانوں کا جائز ردِ عمل ظاہر ہوا۔تقریر کے اختتام پر آپ نے یقین دلایا کہ پاکستان اس مسئلہ کے حل کے لیے ہر ممکن تعاون کرے گا۔
اب سلامتی کونسل میں دونوں طرف سے کافی دلائل کا تبادلہ ہو چکا تھا اور پچھلے چند ماہ میں برصغیر میں جو افسوسناک فسادات ہوتے رہے تھے ان کے متعلق بھی فریقین کا نقطہ نظر سلامتی کونسل کے سامنے آچکا تھا۔کشمیر کے بارے میں بھی طویل تقا ریر ہو گئی تھیں۔اب سلامتی کونسل کو کوئی راستہ نکالنا تھا کہ جنگ کی بجائے مفاہمت کے ذریعہ اس مسئلہ کا حل نکالا جائے۔سب سے پہلے برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا کے مندوبین نے اپنی مختصر تقاریر میں اس بات پر زور دیا کہ سلامتی کونسل کے صدر دونوں ممالک کے نمائندوں کے ساتھ مل کر اس مسئلہ کا حل نکالیں۔اس کے بعد فرانس کے مندوب نے اپنی تقریرکے آخر میں تین تجاویز پیش کیں۔پہلی یہ کہ کشمیر سے تمام باہر سے آئی ہوئی افواج نکل جائیں۔کشمیر کے وہ رہنے والے خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان جو فسادات کی وجہ سے وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوئے تھے ،انہیں واپس اپنے گھروں میں آباد کیا جائے۔اور ایک آزاد انتظامیہ قائم کی جائے جو کشمیر کے لوگوں پر کوئی دباؤ ڈالے بغیر وہاں پر آزادانہ رائے شماری کرائے۔شام کے سفیر نے بھی اس بات کی حمایت کی کہ وہاں سے تمام افواج اور آئے ہوئے قبائلی بھی نکل جائیں اور پھر کشمیر کے عوام آزادی سے اپنا حقِ خود ارادیت استعمال کریں۔یہ صورتِ حال ہندوستان کی امیدوں کے خلاف تھی۔ان کا مطالبہ تھا کہ کشمیر کا ہندوستان سے الحاق ہو چکا ہے اور پاکستان نے کشمیر پر حملہ کیا ہے۔پاکستان اپنے بھجوائے ہوئے قبائلی واپس بلائے اور پھر ہندوستان کی حکومت خود وہاں پر رائے شماری کرائے گی۔لیکن اب سلامتی کونسل کا یہ رحجان نظر آ رہا تھا کہ یہ فیصلہ کیا جائے کہ نہ صرف قبائلی وہاں سے نکلے بلکہ ہندوستان بھی اپنی بھجوائی ہوئی افواج واپس بلائے اور ایک آزاد انتظامیہ وہاں پر رائے شماری کرائے۔
۲۸ جنوری کو جب سلامتی کونسل کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو پاکستان اور ہندوستان کا موقف زیادہ واضح طور پر سامنے آیا ۔ہندوستان کا اصرار تھا کہ شیخ عبد اللہ کے تحت ایک حکومت کشمیر میں کام کرے اور پاکستان قبائلیوں کو واپس بلائے۔ پہلے کشمیر میں لڑائی کو روکا جائے۔پھر اقوامِ متحدہ کے تحت رائے شماری کرائی جائے لیکن سب سے پہلی ترجیح یہ ہے کہ لڑائی کو روکا جائے رائے شماری کا معاملہ بعد میں دیکھا جائے گا۔بھارتی مندوب آینگر کا گلابیٹھ چکا تھا ۔پاکستان کا موقف تھا کہ سلامتی کونسل کا مقرر کردہ کمیشن ایک غیر جانبدار حکومت قائم کرے اور پھر رائے شماری کرائی جائے۔اور سلامتی کونسل رائے شماری کا معاملہ ابھی طے کر ے تا کہ یہ اطمینان ہو کہ کشمیر کے لوگوں کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کا اختیار ملے۔۲۸ جنوری کو جب حضرت چوہدری ظفرا للہ خان صاحب ؓ کی تقریر ختم ہوئی تو کاروائی ختم ہونے سے قبل بر طانیہ کے وزیر نوئل بیکر اظہار ِ رائے کے لیے کھڑے ہوئے ۔ان کی رائے ایک خاص اہمیت رکھتی تھی۔انہوں نے بڑے نپے تلے انداز میں اس بات کا اظہار کیا کہ سلامتی کونسل کو پہلے کشمیر میں رائے شماری کے متعلق فیصلہ کرنا چاہیے تاکہ کشمیر کے عوام خود فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں یا ہندوستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔کیونکہ قوت کے ذریعہ اس جنگ کو ختم نہیں کیا جا سکتا جو اس وقت کشمیر میں جاری ہے۔اگر اہلِ کشمیر کو یقین ہو جائے کہ انہیںجمہوری طریق پر اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا موقع ملے گا تو جنگ کی کیفیت خود ہی ختم ہونا شروع ہو جائے گی۔اور یہ رائے شماری اقوامِ متحدہ کی زیر نگرانی مکمل غیر جانبداری سے کرائی جائے۔ اب اس بات کے امکان ختم ہوتے جا رہے تھے کہ سلامتی کونسل کا فیصلہ بھارت کی حکومت کی امیدوں اور خواہش کے مطابق ہو گا۔اگلے روز ۲۹ جولائی کو جب کاروائی شروع ہوئی تو صدر کونسل بلجیئم کے مندوب نے دو قرار دادیںپیش کیں ۔ایک میں کہا گیا تھاکہ کشمیر میںاقوامِ متحدہ کے تحت مکمل غیر جانبدار رائے شماری کرائی جائے۔اور دوسری قرار داد یہ تھی کہ سلامتی کونسل کے قائم کردہ کمیشن کا فرض ہوگا کہ وہ کشمیر میں جنگ کی حالت کو ختم کرنے کے لیے کاوشیں کرے۔اس کے بعد امریکہ ،کینیڈا،چین،فرانس،شام اور برطانیہ کے مندوبین نے مختصر تقاریر کیں اور سب نے ان قراردادوں کی حمایت کی۔اب صورتِ حال بالکل بھارتی حکومت کی خواہش کے بر عکس رخ اختیار کر رہی تھی۔بھارت کی حکومت اس لیے اس معاملہ کو سلامتی کونسل میں لے کر گئی تھی کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور پاکستان نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر میں جارحیت کی ہے۔اس لیے پاکستان کو جارح قرار دے کر مجبور کیا جائے کہ وہ پاکستان کی طرف سے کشمیر میں داخل ہونے والے قبائلیوں کو کشمیر سے نکالے۔لیکن اب یہ قرار داد پیش کی جا رہی تھی کہ اقوامِ متحدہ خود کشمیر میں رائے شماری کرائے گی کہ وہ کس ملک میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔اور اقوامِ متحدہ کا مقررکردہ کمیشن کشمیر میں جنگ کی حالت ختم کرانے کی کوشش کرے گا۔اور اب تمام ممالک کے نمائندے ایک ایک کر کے اس قرارداد کی حمایت کر رہے تھے۔اب یہ صورتِ حال بھارتی مندوب آینگر کے لیے نا قابلِ برداشت ہو چکی تھی۔اب وہ تقریر کے لیے کھڑے ہوئے ۔اور کہا کہ یہ قرارداد شاید پاکستان کے مندوب کے لیے قابلِ قبول ہو لیکن میری حکومت کے لئے ان قراردادوں کے ایک بڑے حصہ کو قبول کرنا ممکن نہیں ۔انہوں نے بڑا زور دے کر کہا کہ میری حکومت کا موقف ہے کہ کشمیر جل رہا ہے اور ہم یہاں سارنگی بجا رہے ہیں۔ان کا تمام زور اس بات پر تھا کہ پہلے کشمیر میں جنگ بند کرائی جائے ،باقی معاملات بعد میں دیکھے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک بالکل بے ضرر سی قرارداد ہے پاکستان کشمیر پر حملہ کرنے والوں کو مدد فراہم کر رہا ہے اور اسے روکنا چاہیے۔ ابھی ان کی تقریر جاری تھی کہ صدر کونسل نے اجلاس کے ختم کرنے کا اعلان کیا۔اس مسئلہ پر اگلا اجلاس ۳ فروری ۱۹۴۸ء کو کینیڈا کے مندوب کی صدارت میں شروع ہوا اور ایک بار پھر بھارت کے مندوب نے اپنی تقریر شروع کی ۔انہوں نے کہا کہ قرارداد میں یہ تبدیلی کی جائے کہ کہ اس میں یہ االفاظ ہوں کہ سلامتی کونسل یہRecommendکرتی ہے کہ کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے۔اور یہ اقوامِ متحدہ کے تحت نہ کرائی جائے بلکہ اس کی حیثیت ایک مبصر کی ہو اور کشمیر کی موجودہ حکومت اس رائے شماری کا انتظام کرے۔جو قرارداد سلامتی کونسل میںپیش ہوئی تھی اس کے الفاظ یہ تھے
‏The security council is of the opinion that such a plebiscite must be organized, held and supervised under its authority.
اور یہ الفاظ بھارت کی حکومت کو منظور نہیں تھے۔
اب فریقین میں ایک بار پھر بحث شروع ہو گئی۔حضرت چوہدری صاحب نے جواب میں یاد دلایا کہ کشمیر کی زمین سے افواج پاکستان کے اندر حملے کر رہی ہیں۔اور جموں کے ساتھ پاکستانی علاقہ پر بھارتی ہوائی جہازوں نے پاکستان کی ہوائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے۔آپ نے بھارتی مندوب کے لگائے گئے الزامات کا ایک ایک کرکے جواب دیا اور پاکستان کا موقف مؤثر طریق پر پیش کیا ۔حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ کی تقریر ۴ فروری کو بھی جاری رہی۔آپ نے بھارت کے وزیر ِ اعظم کی تقریر کا حوالہ پیش کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بھارت اقوامِ متحدہ کے تحت کشمیر میں رائے شماری کرانے پر تیار ہے۔سلامتی کونسل میں ایک بار پھر دونوںفریقوں نے بھرپور انداز میں اپنا موقف پیش کیا تھا ۔صدر نے ایک بار پھر سلامتی کونسل کے ممبران کو اظہارِ خیال کی دعوت دی۔سب سے پہلے ارجنٹائن کے مندوب نے تقریر کی اور کہا کہ ان کی حکومت کسی ایسی قرارداد کی حمایت نہیں کرے گی جس میں اقوامِ متحدہ کے تحت رائے شماری کرانے کا حصہ شامل نہ ہو۔ کسی جگہ کی قسمت کافیصلہ کرنے کا اختیار وہاںکے عوام کو ہونا چاہیے نہ کہ کسی راجہ کو۔
اس کے بعد بحث اور مذاکرات کا سلسلہ چلا۔ہندوستان اس بات پر زور دے رہا تھا کہ سلامتی کونسل صرف یہ کرے کہ قبائلیوں اور رضا کاروں کو کشمیر سے و اپس کرائے اور آزاد کشمیر کے لوگوں کو لڑائی سے ہاتھ روکنے کا انتظام کر دے باقی سب ہندوستان پر چھوڑ دیا جائے۔
مگر سلامتی کونسل کی بھاری اکثریت نے یہ قرارداد تیار کی کہ ہندوستان اور پاکستان کی افواج مل کر امن قائم کریں ۔ تمام irregular forces ریاست سے نکل جائیں۔سیاسی قیدی رہا کئے جائیں ۔امن قائم ہونے پر باقاعدہ افواج بھی کشمیر سے نکل جائیں۔ایک عبوری حکومت قائم کی جائے جس پر عوام اعتماد کرتے ہوں۔اور سلامتی کونسل کی نگرانی میں رائے شماری کرائی جائے کہ کشمیر کے لوگ کس ملک کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں۔یہ نتیجہ ہندوستان کی امیدوں کے بر عکس تھا۔ہندوستانی وفد نے اس قرارداد پر شدید نکتہ چینی کی۔برطانیہ کے کامن ویلتھ کے وزیر نوئل بیکر اس قرارداد کی بہت حمایت کر رہے تھے اور کشمیرمیں قیامِ امن کے لئے نمایاں کاوشیں کرتے نظر آرہے تھے۔جب رائے شماری کا وقت آیا توہندوستانی وفد نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ اس کی حکومت نے اسے مشورے کیلئے ہندوستان طلب کیا ہے لہذاٰ اس قرارداد پر ووٹنگ کو ان کی واپسی تک ملتوی کر دیا جائے۔بہت سے نمائندوں نے اس پر احتجاج کیا اور کولمبیا کے سفیر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ آپ کو یاد ہو گا کہ ہندوستان کے نمائندے نے شکوے کے طور پر کہا تھا کہ کشمیر جل رہا ہے اور سلامتی کونسل ستار بجا رہی ہے۔کیا میں یہ دریافت کرنے کی جرأ ت کر سکتا ہوں کہ اب کیا کشمیر کو جلانے والی آگ ٹھنڈی ہو چکی ہے؟اور اگر نہیں تو اب کون ستار بجا رہا ہے؟ مگر سب بے سود۔ ووٹننگ کو ملتوی کرنا پڑا۔ یہ تو سب نے سمجھ لیا کہ نیت بخیر نہیں۔اب پسِ پردہ سیاسی چالوں کا سلسلہ شروع ہو گا۔
جب التواء کچھ طویل ہونے لگا توخدشات پیدا ہوئے کہ یہ التواء مستقل صورت اختیار کر جائے گا۔ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ کا اندازہ تھا کہ یہ قرارداد اب لندن اور دلی کے درمیان زیرِ بحث ہے ۔ چنانچہ لندن پہنچ کر معلوم ہؤا کہ یہ بد ترین خدشات درست تھے اور اس معاملے میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور کرپس وزیرِ اعظم پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔وزیرِ خارجہ ارنسٹ بیون صاف گو انسان تھے انہوں نے چوہدری صاحب سے ملاقات میں اس بات کا خود اقرار کیا۔وزیرِ اعظم ایٹلے سے ملنے پر ان خدشات کی مزید تصدیق ہو گئی۔وہ نظر ملانے سے بھی گریز کر رہے تھے۔اور پیش کردہ قرارداد کی بجائے دوسرا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔کامن ویلتھ کے وزیر نوئیل بیکر امن کے لئے مؤثر راستہ تلاش کرنے کے لئے کوشاں تھے مگر اب اس معاملے میں وزیرِ اعظم اور ان کے اختلافات بڑھ چکے تھے۔چوہدری صاحب کی تقریر کے بعد جس طرح انہوں نے پاکستان کی حمایت شروع کر دی تھی،یہ بات ماؤنٹ بیٹن اور وزیر اعظم ایٹلے کو بہت نا گوار گذری تھی۔شیخ عبداللہ صاحب نے تو اپنی کتاب میں اس بات کا بہت شکوہ کیا ہے کہ نوئل بیکر نے ہندوستانی وفد کے اراکین سے سخت رویہ اختیار کر کے پاکستان کی حمایت شروع کر دی تھی(۳۳)۔چنانچہ جب سلامتی کونسل کی کاروائی دوبارہ شروع ہوئی تو پہلی قرارداد کی بجائے ایک اور قرارداد پیش کی گئی۔یہ قرارداد ان تجاویز کے مطابق تھی جو حضرت چوہدری صاحب سے ملاقات کے دوران وزیراعظم ایٹلے نے پیش کی تھیں۔ایٹلے شروع ہی سے تحریکِ پاکستان کے حق میں نہیں تھے۔اس نئی قرارداد میں اس قضیئے کے لئے ایک تین رکنی کمیشن قائم کیاگیا جو کشمیر میں رائے شماری کا اہتمام کرائے اور طے پایا کہ اس رائے شماری کو امن قائم ہونے پر کرایا جائے گا اور اقوامِ متحدہ کا سیکریٹری جنرل اس کام کے لئے ایک ایڈمنسٹریٹر مقرر کرے گا جو ریاست کے ایک افسر کی حیثیت سے کام کرے گا۔لیکن اس قرارداد میں کشمیر سے مختلف افواج کی واپسی کا پلان نہیں دیا گیا تھا۔یہ قرارداد گذشتہ قرارداد سے کمزور تھی ۔اب حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب اور آپ کے ساتھیوں نے اسے مضبوط بنانے کی کاوشیں شروع کیں۔ اور کچھ ترامیم منظور بھی کی گئیں لیکن اس کا ڈھانچہ وہی رہا جو ایٹلے نے تجویز کیا تھا۔ باوجود اس کے کہ اب ہندوستان سے رعایت بھی کی گئی تھی۔جب قرارداد پیش کی گئی تو پاکستان نے اس پر تنقید کرنے کے با وجود اسے تسلیم کرلیا۔لیکن ہندوستان نے ایک بار پھر اس پر احتجاج کیا کیونکہ یہ قرارداد ان سابقہ امیدوں کے بالکل برعکس تھی کہ سلامتی کونسل صرف قبائلی لشکروں اور رضاکاروں کو نکالے اور باقی معاملہ ہندوستان پر چھوڑ دیا جائے۔اور اس کے منظور ہونے سے رائے شماری کرانا ایک قانونی تقاضہ بن جاتا تھا۔لیکن بہر کیف یہ قرارداد منظور کر لی گئی۔اور آج تک جب بھی پاکستان کی طرف سے کشمیر پر اپنا مؤقف پیش کیا جاتا ہے تو یہ قرارداد اس مؤقف کی بنیاد ہوتی ہے۔با وجود تمام ترامیم کے اس کا منظور ہو جانا ہندوستان کے لئے ایک ناکامی تھی۔وہ مدعی بن کر گئے تھے لیکن ان کو مدعا علیہ بن کر باہر آنا پڑا۔آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار ابراہیم وہاں پر موجود تھے وہ لکھتے ہیں کہ
’سلامتی کونسل کے اجلاس میں ناکامی کے بعد بھارتی مندوب سر گوپال سوامی آئینگر اور شیخ عبداللہ کے درمیان آپس میں تلخ کلامی بھی ہوتی رہی۔کیونکہ شیخ عبد اللہ صاحب سرآئینگر پر الزام لگاتے تھے کہ وہ پاکستانی مندوب اور وزیرِ خارجہ چوہدری ظفراللہ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔‘
لیکن یہ ایک المیہ ہے کہ اب اقوامِ متحدہ میں صحیح فورم پر کیس پیش کرنے کی بجائے پسِ پردہ سیاسی چالوں کا دور شروع ہو رہا تھا۔آہستہ آہستہ سلامتی کونسل میں ہونے والی تقریریں مختصر اور پھسپھسی ہونے لگیں اور اس نے کٹھ پتلی کے تماشے کی شکل اختیار کر لی۔برطانوی وزیر نوئیل بیکر کو کامن ویلتھ کی وزارت سے علیحدہ کر کے ایندھن کا وزیر بنا دیا گیا اور پھر انہیں کابینہ سے باہرنکلنا پڑا۔البتہ انہیں امن کے نوبل پرائز سے ضرور نوازا گیا جو ان کی کاوشوں کے شایانِ شان تھا۔
سلامتی کونسل میں اس معرکے سے حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ کی قابلیتیں عالمی منظر پر نمایاں ہو کر سامنے آئیں جس کا سب نے اعتراف کیا۔ چنانچہ پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم چوہدری محمد علی صاحب جو اس وفد میں شامل تھے لکھتے ہیں
"Zafarullah Khan's masterly exposition of the case convinced the security council that the problem was not simply one of expelling so called raiders from Kashmir".
ظفراللہ خان نے اس ماہرانہ انداز میں واقعات پیش کئے کہ سلامتی کونسل کو یقین ہو گیا کہ یہ معاملہ فقط کشمیر سے نام نہاد حملہ آوروں کو باہر نکالنے کا نہیں ہے۔‘ (۳۴)
آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار ابراہیم جو اس موقع پر موجود تھے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں
’پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں جو بھارت کی شکایت پر بلایا گیا تھا۔بھارت کے ایک ایک الزام کو غلط اور بے بنیاد ثابت کر دیاـ۔ـ‘ (۳۵)
چوہدری صاحب نے اس بحث میں دوسرے فریق کے بیانات کو اس مہارت سے استعمال کیا کہ اس کا اعتراف ان کے مصنفین بھی کرتے ہیں چنانچہ بال راج مدھک سلا متی کونسل میں ہونے والی بحث کے متعلق لکھتے ہیں
’انہوں نے (یعنی شیخ عبد اللہ نے ) مختلف مواقع پر جو بیانات دیئے تھے اور جو تقریریں کی تھیں اور اسی طرح پنڈت نہرو کی تقریروں نے ظفراللہ کے ہاتھ میں ایسی چھڑی پکڑا دی تھی جس سے وہ ہندوستان کی پٹائی کرتے رہے۔‘
‏(Kashmir Storm center of the world,chapter8,by Bal Raj Madhok)
شیخ عبد اللہ صاحب ہندوستان کے وفد میں شامل تھے اور انہوں نے اپنے مؤقف کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اپنی کتاب میںبہت کچھ لکھا ہے۔لیکن چوہدری صاحب کے کامیاب انداز کے متعلق وہ لکھتے ہیں۔
’پاکستانی وفد کی قیادت وزیرِ خارجہ چودھری سر ظفراللہ خان کر رہے تھے۔مجھے بھی ہندوستان کے وفد میں شامل کیا گیا۔۔۔سر ظفراللہ ایک ہوشیار بیرسٹر تھے۔انھوں نے بڑی ذہانت اور چالاکی کا مظاہرہ کر کے ہماری محدود سی شکایت کو ایک وسیع مسئلے کا روپ دے دیا اور ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے سارے پر آشوب پس منظر کو اس کے ساتھ جوڑ دیا۔ ہندوستان پر لازم تھا کہ وہ اپنی شکایت کا دائرہ کشمیر تک محدود رکھتا۔لیکن وہ سرظفراللہ کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر رہ گیا اور اس طرح یہ معاملہ طول پکڑ گیا۔ بحثا بحثی کا سلسلہ ایسا شروع ہؤا کہ ختم ہونے میں ہی نہ آتا تھا۔ہمارے کان پک گئے اور قافیہ تنگ ہونے لگا۔ہم چلے تو تھے مستغیث بن کر لیکن ایک ملزم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑے کر دیئے گئے۔‘(۳۶)
فرقان بٹالین:
اقوامِ متحدہ کی طرف سے اس مسئلہ کے حل کرنے کے لئے ایک کمیشن قائم کر دیا گیا ۔لیکن ابھی کشمیر میں جنگ جاری تھی۔سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد پاکستانی فوج بھی کشمیر میں داخل ہوگئی۔اور ان علاقو ں میں اپنی پوزیشن سنبھالنی شروع کر دی جن پر آزاد فوج اور قبائلی لشکروں نے قبضہ کیا تھا۔جس طرح ہر ملک میں رہنے والا احمدی اپنے ملک کا وفادار ہوتا ہے،پاکستان میں بسنے والے احمدی پاکستان کے وفادار شہری تھے۔اور اس موقع پر جب مختلف رضاکار اس جنگ میں حصہ لے رہے تھے،احمدی رضاکاروں نے بھی اپنے ملک کی عسکری خدمات سر انجام دیں۔
یہ سلسلہ ضلع سیالکوٹ سے شروع ہؤا۔بھمبر میں متعین ڈوگرہ فوج نے پاکستانی سر حدوں کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ان کے دستے سیالکوٹ اور گجرات کے دیہات پر حملے کر کے لوٹ مار کرتے اور فوراََ کشمیر کے علاقے میں واپس چلے جاتے۔یہ حملے وقت کے ساتھ بڑھتے رہے اور دسمبر ۱۹۴۷ء میں ان کی وجہ سے ایک تشویش ناک صورتِ حال پیدا ہو گئی۔ان اضلاع میں کشمیر سے آئے ہوئے بہت سے مہاجرین بھی پناہ گزین تھے۔پاکستانی فوج ابھی اتنی وسیع سرحد سنبھالنے کے قابل نہیں تھی۔جموں سے آئے ہوئے کچھ مہاجرین نے سرحد کی نگہبانی کے لئے اپنی خدمات پیش کیں اور پھر کچھ قبائلی بھی ان کے ساتھ مل گئے اور یہ مشترکہ فورس برق فورس کہلانے لگی۔ضلع سیالکوٹ میں بہت سے احمدی دیہات کو بھی ان خطرات سے گذرنا پڑ رہا تھا اور ان کی حفاظت کے لئے بھی ٹھوس اقدامات کی ضرورت تھی۔چنانچہ حضورؓ کے ارشاد پر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی قیادت میںچالیس احمدی رضاکاروں کا ایک دستہ ،سیالکوٹ اور جموں کی سرحد پر واقع گاؤں معراجکے بھجوایا گیا۔اس دستے نے وہاں پر پاکستانی علاقے کی حفاظت کے فرائض سر انجام دیئے اور دو احمدیوں نے وہاں پر جامِ شہادت نوش کیا ۔ابھی یہ دستہ معراجکے میں مصروفِ خدمت تھا کہ حکومتِ پاکستان کی طرف سے منشا ظاہر ہونے پر احمدی رضاکاروں کی ایک بٹالین تشکیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو کشمیر میں خدمات سر انجام دے سکے۔اس کے لئے حضورؓ کی تحریک پر رضاکار وں نے اپنے آپ کو عسکری خدمات کے لئے پیش کیا۔یہ لوگ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے تھے۔سب سے پہلا مرحلہ ان کی ٹریننگ کا تھا۔ان کے لئے سرائے عالمگیر کے قریب ایک گاؤں سوہن میں کیمپ لگایا گیا۔معراجکے کے رضاکار بھی اس کیمپ میں شامل ہو گئے۔ایک مہینہ ان افراد کی عسکری تربیت کی گئی۔کم وقت کے پیشِ نظر یہ ٹریننگ رات کے اوقات میں بھی جاری رہتی۔اس مختصر ٹریننگ کے بعد جولائی ۱۹۴۸ء میں اس بٹالین کو محاذِ جنگ بھجوا دیا گیا۔اور اسے برگیڈیئر کے ایم شیخ کے زیرِ قیادت ۱۰۰ برگیڈ کا حصہ بنا دیا گیا۔ایک مخلص احمدی کرنل محمد حیات قیصرانی اس بٹالین کی قیادت کر رہے تھے۔با وجود اس کے کہ ان رضاکاروں کی ٹریننگ نہ ہونے کے برابر تھی انہیں بھمبر جیسے اہم سیکٹر میں ،سعد آباد وادی کے محاذ پر خدمات سپرد کی گئیں۔
اس سے قبل آزاد فوج اور قبائلی دستے سعد آباد وادی میں موجود تھے اور مئی ۱۹۴۸ء میں پاکستانی فوج بھی اس سیکٹر میں ان کی مدد کو آگئی تھی۔بھمبر کے شمال مشرق میں سعد آباد وادی تھی اور سعد آباد وادی کے شمال مشرق میں نوشہرہ کے مقام پر ہندوستانی فوج کا ایک اہم مرکز تھا۔یہ وادی چھ میل لمبی اور ۴ میل چوڑی ہے۔
اس وادی میں فرقان بٹالین سے قبل آزاد فوج کرنل اعظم صاحب کی قیادت میں خدمات سرانجام دے رہی تھی۔مدِ مقابل فوج کو ہتھیاروں کی نمایاں برتری حاصل تھی۔اس کی طرف سے فضائی حملے بھی ہو رہے تھے۔کرنل اعظم کی بٹالین کو سعد آباد وادی خالی کرنی پڑی تھی۔جون ۱۹۴۸ء کے آغاز تک سعد آباد وادی کے شمال میں عسکری لحاظ سے دو اہم مقامات جنہیں مینڈک فارمیشن اور ریچھ فارمیشن کہا جاتا تھا ،آزاد افواج اور قبائلیوں کے قبضے میں تھے۔مگر ۲ جون کو ہندوستانی افواج کے توپخانے نے اور ہوائی جہازوں نے ان مقامات پر شدید بمباری شروع کر دی۔اس بمباری کو ایک بڑے حملے کا پیش خیمہ خیال کیا گیا اور اعظم بٹالین،شاہین آزاد بٹالین اور خان کشمیرا خان کی فورس نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی یہ علاقہ بغیر مقابلے کے خالی کر دیا۔چار روز کے بعد ہندوستانی افواج نے ان مقامات پر اپنے مورچے قائم کر لئے ۔آزاد فوج نے اب باغسر کی تنگ پہاڑی گزرگاہ میں مورچے سنبھالے ہوئے تھے۔اب یہ خدشہ تھا کہ اگر ہندوستانی فوج نے باغسر پر بھی تسلط حاصل کرلیا تو وہ کشمیر کے علاقے سے نکل کر پاکستان کی سرحدوں میں داخل ہو جائے گا۔ اس لئے کہ اب قدرتی سرحد ختم ہو چکی تھی۔اب فرقان بٹالین نے کرنل اعظم کی بٹالین کی جگہ فرائض سنبھالنے تھے۔ اِس وقت ہندوستانی فوج کے گشتی حصے شب خون مارا کرتے تھے ،جس وجہ سے حالات مخدوش تھے۔
۱۰ جولائی کو فرقان بٹالین محاذ کی طرف روانہ ہوئی۔موسلا دھار بارشوں کیوجہ سے راستے معدوم ہو گئے تھے،اس لئے رات کو ادیالا گالا کے قریب سیکٹر ہیڈ کوارٹر میں قیام کرنا پڑا۔نصف شب کے قریب ہندوستانی فوج کی طرف سے شدید گولہ باری شروع ہو گئی اور فضا دھماکوں سے گونج اُٹھی۔ اگلے روز معلوم ہؤا کہ جاسوسوں نے مدِ مقابل فوج کو نئی بٹالین کے بڑھنے کی اطلاع کر دی تھی اور یہ اہتمام اِن کے استقبال کے لئے کیا گیا تھا ۔نہ صرف رات کو مدِمقابل فوج کے دستے اگلے مورچوں تک بلا روک ٹوک پہنچتے تھے بلکہ ان کے جاسوس بھی مورچوں کے عقب میں کثرت سے پھیلے ہوئے تھے۔فرقان بٹالین نے اپنی جد وجہد کا آغاز کیا۔اور شب و روز کی محنت سے سعد آباد وادی پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔اور ان کے دستے دشمن کے عقب میں جا کر جائزہ بھی لے آتے۔اس کے علاوہ عقب میں مخالف جاسوسوں کا جال بھی ختم کر دیا گیا۔آگے حملہ کرنے کا منصوبہ بھی بنالیا گیا تھا مگر اوپر سے کسی مصلحت کی بنا پر اجازت نہیں ملی۔یہ صورت مخالف فوج کے لئے پریشان کن تھی ۔انہوں نے فر قان بٹالین کی چوکیوں پر توپوں اور ہوائی جہازوں سے شدیدبمباری شروع کر دی۔رسد کی مشکلات کی وجہ سے راشن کی کمی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ہندوستانی جہاز سارا دن چکر لگاتے اور جہاں پر بار برداری کے جانور دیکھتے بمباری شروع کر دیتے۔ مگر اپنا کھویا ہؤا علاقہ واپس نہیںلے سکے ۔بلکہ وہ اپنے مورچوں پر فرقان بٹالین کے حملوں سے اتنا تنگ آئے کہ انہوں نے اپنے مورچوں کے آگے بارودی سرنگیں بچھانی شروع کیں۔۔اس محاذپر آزاد افواج اور پاکستانی افواج نے Little Venusکے نام سے ایک حملے کا پلان بنایا تھا۔اور فرقان بٹالین بھی آگے بڑھنے کے لئے تیار تھی مگر اسوقت کے حالات کیوجہ سے اس کی اجازت نہ مل سکی حتیٰ کہ سیز فائر کا معاہدہ ہو گیا۔سردار محمد حیات قیصرانی کے بعد صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اس بٹالین کی قیادت کرتے رہے۔ اورحضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے بھی اس مہم میں نمایاں حصہ لیا۔رضاکاروں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی تھیں۔مجموعی طور پر ۶ ہزار کے قریب رضاکاروں نے مختلف اوقات میں یہاں پر فرائض ادا کئے۔ اس بٹالین کی تاریخ کا اہم تریں دن وہ تھا جس دن حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ از راہِ شفقت خود حوصلہ بڑھانے کے لئے محاذ پر تشریف لائے۔ حضورؓ دریافت فرماتے رہے کہ جوان کہاں سوتے ہیں،کہاں رہتے ہیں۔جب آپ کو وہ پتھر دکھایا گیا جہاں پر بیٹھ کر عموماََ مشورے کئے جاتے تھے اور کوائف جمع کئے جاتے تھے تو آپ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لئے۔یکم جنوری ۱۹۴۹ء کو سیز فائر کا معاہدہ عمل میں آیا۔حکومت نے فیصلہ کیا کہ سب رضا کار محاذ سے واپس بلا لئے جائیں اور ۱۷؍جون ۱۹۵۰ء کو اس بٹالین کی سبکدوشی عمل میں آئی۔اس طرح یہ بہادر رضا کار محاذ سے سرخرو واپس آئے۔ان میں سے بعض مقامِ شہادت پر سرفراز ہوئے۔ان کی سبکدوشی کے وقت پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف نے اپنے پیغام میں لکھا کہ’کشمیر میں محاذ کا ایک اہم حصہ آپ کے سپرد کیا گیا۔اور آپ نے ان تمام توقعات کو پورا کر دکھایا جو اس ضمن میں آپ سے کی گئی تھیں۔دشمن نے ہوا سے اور زمین سے آپ پر شدید حملے کئے لیکن آپ نے ثابت قدمی اور اولو العزمی سے اس کا مقابلہ کیا اور ایک انچ زمین بھی اپنے قبضہ سے نہ جانے دی۔ ‘ (۳۷)
کشمیر کا المیہ جاری رہا۔دونوں ممالک کی حکومتیں ایک دوسرے پر الزامات تو لگاتی رہیں لیکن کشمیر میں رائے شماری نہ ہوئی۔یہ واقعات تاریخ کا حصہ ہیں لیکن ہم یہاں اِن تفصیلات میں نہیں جائیں گے۔ستمبر ۱۹۴۸ء میں بھارتی افواج نے حیدر آباد پر بھی قبضہ کر لیا اور اِس کی آزاد حیثیت ختم ہوگی۔باہمی کدورتیں بڑھتی رہیں اور شکوک کے بادل گہرے ہوتے گئے۔تین جنگوں کے بعد انجام یہ ہؤا کہ دونوں ممالک ہتھیاروں کی دوڑ سے بڑھ کر اب جوہری ہتھیاروں سے بھی لیس ہو چکے ہیں۔اگر ابتداء میں افہام و تفہیم کا ماحول پیدا کیا جاتا اور جیسا کہ حضورؓ نے ارشاد فرمایا تھا پہلے یہ طے کیا جاتا کہ کن اصولوں کے مطابق ان تنازعات کا فیصلہ کیا جائے گا تو آج یہ خطہ امن کا گہوارہ بھی ہو سکتا تھا مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا۔
(1) The Emergence of Pakistan,by Chaudri Muhammad Ali,published by Research Society of Pakistan, Oct 2003,page222-236
(۲)زمیندار ۳ اکتوبر ۱۹۴۷ء ص۲
(3) The Emergence of Pakistan,by Chaudri Muhammad Ali,published by Research Society Of Pakistan,Oct 2003p287-290
(4) The History of Struggle for freedom in Kashmir ,by Prem Nath azaz, published by Kashmir Publishing Comopany, New Dehli,1954,page317-322
( ۵)آتشِ چنار،مصنفہ شیخ عبداللہ ،مطبع جے کے آفسٹ پریس ،جامع مسجد دہلی،۱۹۸۶ء ص۳۹۹(۶)زمیندار ۲۵ ستمبر ۱۹۴۷ء ص۲
(۷)Kashmir Fights For Freedom,Vl 2,by Muhammad Yusuf Saraf,Ferozsons Ltd.,1979,p859
(۸)تاریخِ احمدیت جلد ۶ ص ۶۵۵۔۶۶۰
(۹) The History of struggle for freedom in Kashmir ,by Prem Nath Bazaz,Kashmir Publishing Company New Dehli,1954,page621
(۱۰)Two Nations and Kashmir,by Lord Birdwood,published by Robert Hale Ltd.London,1956,page 81
(۱۱)احسان ۶؍اکتوبر ۱۹۴۷ء ص ۱
(۱۲) The Pakistan Times,October 17,1947p5
(۱۳)Kasmiris Fight For Freedom,byMuhammad Yusuf Saraf,Ferozsons Ltd Lahore,1979,p885
(۱۴)آتشِ چنار مصنفہ شیخ عبداللہ،مطبع جے کے آفسٹ پریس ،جامع مسجد دہلی،۱۹۸۶ء ص۱۴۶
(۱۵)Pakistan Times,October21 ,1947,page 4
(۱۶)احسان ۲۳ اکتوبر ۱۹۴۷ء ص ۱(۱۷)احسان ۲۵ اکتوبر ۱۹۴۷ء ص ۱
(۱۸)The Civil and Military Gazette ,Oct 26p1
(۱۹)زمیندار۱۹ اکتوبر ۱۹۴۷ء ص۵(۲۰)کشمیر کی جنگِ آزادی ،مصنفہ سردار محمد ابراہیم خان ،دین محمدپریسلا ہور،۱۹۶۶ء ص۱۱۸
(۲۱)Pakistan Times,Oct 29,1947p1
(۲۲)Pakistan Times,Oct 25,1947p1
(۲۳)Pakistan Times,November 2,1947p1
(۲۴)Pakistan Times Oct 28,1947,p1&12
(۲۵)زمیندار ۳ نومبر ۱۹۴۷ء ص۱
(۲۶)Pakistan Times,Nov 4,1947,p1
(۲۷)Pakistan Times Nov.4,1947p5
(۲۸)The Emergence of Pakistan,by Chaudri Muhamad Ali,Researc
h Society of Pakstan,Oct 2003p278
(۲۹)The Civl&military Gazette,Nov.12,1947,p1
(۳۰)Pakistan Times,Nov. 6,1947,p5
(۳۱)The Pakistan Times,Dec 21,1947
(۳۲) الفضل ۴ دسمبر ،۱۹۴۷ء ص۳۔۴(۳۳)آتشِ چنار،مصنفہ شیخ عبد اللہ،جے کے آفسٹ پرنٹر ،جامع مسجد دہلی ۱۹۸۶ء ص۴۷۹
) ۳۴)The Emergence of Pakistan,by Chaudri Muhammad Ali,research Society of Pakistan,Oct.2003,p301
(۳۵)کشمیر کی جنگِ آزادی ،مصنفہ سرادار محمد ابراہیم ،طابع دینِ محمدی پریس لاہور۱۹۶۶ئ،ص۱۲۶
(۳۶)آتشِ چنار،مصنفہ شیخ محمد عبداللہ،مطبع جے کے آفسٹ پرنٹرز ،جامع مسجد دہلی۔۱۹۸۶ء ص۴۷۳
(۳۷)الفضل ۲۳ جون ۱۹۵۰ء ص۸
اقوامِ متحدہ کے مستقبل کے متعلق حضور ؒ کا ارشاد
بیسویں صدی کا سورج طلوع ہوا تو پوری دنیا میں اس بات کی ضرورت محسوس ہونے لگی کہ کوئی ایسی تنظیم ہو جس میں دنیا کے تمام ممالک شامل ہوں ۔اور یہ تنظیم دنیا میں امن قائم کرے اور جب مختلف ممالک میں اختلافات پیدا ہوں تو یہ تنظیم ان میں صلح کرائے اور اس طرح اس کے ذریعہ دنیا کو خوفناک جنگوں کی تباہ کاری سے بچایا جائے۔پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنزکے نام سے ایک تنظیم بنائی گئی ۔یہ تنظیم ناکام ہوئی تو دنیا کو دوسری جنگِ عظیم کے شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور جب دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاریاں ختم ہوئیں تو اقوامِ متحدہ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ہم جس دور کا ذکر کر رہے ہیں اس وقت اقوامِ متحدہ نئی نئی قائم ہوئی تھی اور اس سے بہت سی توقعات وابستہ کی جا رہی تھیں۔یہ جائزہ لینے سے پہلے کہ حضرت مصلح موعود ؓ نے اقوامِ متحدہ کے مستقبل کے متعلق کیا ارشاد فرمایا تھے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جب لیگ آف نیشنز قائم کی گئی تھی تو اس وقت حضور ؒ نے اس کی کامیابی کے امکانات کے متعلق کیا فرمایا تھا۔جب پہلی جنگِ عظیم کا خاتمہ ہؤا تو ۱۹۱۹ء میں لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں آیا۔۱۹۲۴ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓویمبلے کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن تشریف لے گئے اور اس کانفرنس کے لیے جو مضمون آپ نے تحریر فرمایا اس میں آپ مختلف اقوام کے درمیان جھگڑے مٹانے کے ،متعلق تحریر فرماتے ہیں
’ جھگڑوں کو مٹانے کے لیے ایک عجیب حکم دیا ہے جسے آج ہم لیگ آف نیشنز کی شکل میں دیکھتے ہیں لیکن ابھی تک یہ لیگ ویسی مکمل نہیں ہوئی جس حد تک اسلام اس کو لے جانا چاہتا ہے اسلام یہ حکم دیتا ہے (الحجرات:۱۰) یعنی اگر دو قومیں مسلمانوں میںسے آپس میں لڑ پڑیں تو ان کی آپس میں صلح کرادو۔یعنی دوسری قوموں کو چاہیے کہ بیچ میں پڑ کران کو جنگ سے روکیں اور جو وجہ جنگ کی ہے اس کو مٹائیں اور ہر ایک کو اس کا حق دلائیں لیکن اگر با وجود اس کے ایک قوم باز نہ آئے اور دوسری قوم پر حملہ کر دے اور مشترکہ انجمن کا فیصلہ نہ مانے تو اس قوم سے جو زیادتی کرتی ہے سب قومیں مل کر لڑو یہاں تک کہ خدا کے حکم کی طرف وہ لوٹ آئے یعنی ظلم کا خیال چھوڑ دے۔پس اگر وہ اس امر کی طرف مائل ہو جائے تو ان دونوں قوموں میں پھر صلح کرادو مگر انصاف اور عدل اور مروت سے کام لو۔اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اس آیت میں بین الا قوامی صلح کے قیام کے لئے مندرجہ ذیل لطیف گُر بتائے گئے ہیں۔
سب سے اول جب دو قوموں میں لڑائی اور فساد کے آ ثار ہوں معاََ دوسری قومیں بجائے ایک یا دوسری کی طرف داری کرنے کے ان دونوں کو نوٹس دیں کہ وہ قوموں کی پنچایت سے اپنے جھگڑے کا فیصلہ کرائیں۔اگر وہ منظور کر لیں تو جھگڑا مٹ جائے گا۔ لیکن اگر ان میں سے ایک نہ مانے اور لڑائی پر تیار ہو جائے تو دوسرا قدم یہ اُ ٹھایا جائے کہ باقی سب اقوام اس کے ساتھ مل کر لڑیں۔ اور یہ ظاہر ہے کہ سب اقوام کا مقابلہ ایک قوم نہیں کر سکتی ضرور ہے کہ جلد اس کو ہوش آ جائے اور وہ صلح پر آمادہ ہو جائے۔پس جب وہ صلح کے لئے تیار ہو تو تیسرا قدم یہ اُ ٹھائیں کہ ان دونوں قوموں میں جن کے جھگڑے کی وجہ سے جنگ شروع ہوئی تھی صلح کرادیں ۔یعنی اس وقت اپنے آپ کو فریقِ مخالف بنا کر خود اس سے معاہدات کرنے نہ بیٹھیں بلکہ اپنے معاہدات جو پہلے تھے وہی رہنے دیں۔ صرف اسی پہلے جھگڑے کا فیصلہ کریں جس کے سبب سے جنگ ہوئی تھی اس جنگ کی وجہ سے نئے مطالبات قائم کر کے ہمیشہ کے فساد کی بنیاد نہ ڈالیں ۔
چوتھے یہ امر مد نظر رکھیں کہ معاہدہ انصاف پر مبنی ہو یہ نہ ہو چونکہ ایک فریق مخالفت کر چکا ہے اس لئے اس کے خلاف فیصلہ کر دو بلکہ با وجود جنگ کے اپنے آپ کو ثالثوں کی ہی صف میں رکھو فریقِ مخالف نہ بن جاؤ۔ان امور کو مدِ نظر رکھ کر اگر کوئی انجمن بنائی جائے تو دیکھو کہ کس طرح د نیا میں بین الاقوامی صلح ہو جاتی ہے ۔۔۔
اب رہا یہ سوال کہ جو اخراجات جنگ پر ہوں گے وہ کس طرح برداشت کئے جاویں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اخراجاتِ جنگ سب قوموں کو خود بر داشت کرنے چاہئیں اور یہ بوجھ ہر گز زیادہ نہیں ہو گا ۔اول تو اس وجہ سے کہ مذکورہ بالا انتظام کی صورت میں جنگیں کم ہو جائیں گی اور کسی قوم کو جنگ کرنے کی جرا ء ت نہ ہو گی۔دوسرے چونکہ اس انتظام میں خود غرضی اور بو الہوسی کا دخل نہ ہو گا سب اقوام اس کی طرف مائل ہو جائیں گی اور مصارفِ جنگ اس قدر تقسیم ہو جائیں گے کہ ان کا بوجھ محسوس نہ ہو گا۔
تیسرے چونکہ اس انتظام کا فائدہ ہر اک قوم کو پہنچے گا کیونکہ کوئی قوم نہیں جو جنگ میں مبتلا ہونے کے خطرہ سے محفوظ ہو اس لئے انجام کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ خرچ موجودہ اخراجات سے جو تیاریِ جنگ کی نیت سے حکومتوں کو کرنے پڑتے ہیں کم ہوں گے اور اگر بفرضِ محال کوئی زائد خرچ کرنا بھی پڑے تو جس طرح افراد کا فرض ہے کہ امنِ عامہ کے قیام کی خاطر قربانی کریں اقوام کا بھی فرض ہے کہ قربانی کر کے امن کو قائم رکھیں۔ وہ اخلاق کی حکومت سے بالا نہیں ہیںبلکہ اس کے ماتحت ہیں۔
میرے نزدیک سب فساد اسی اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جو قرآنِ کریم کی پیش کردہ تجویز سے کیا جاتا ہے۔(۱) یعنی آپس کے انفرادی سمجھوتوں کی وجہ سے جو پہلے سے کئے ہوتے ہیں۔حالانکہ ان کی بجائے سب اقوام کا ایک معاہدہ ہونا چاہئے۔
(۲)جھگڑے کو بڑھنے دینے کے سبب سے ۔
(۳)حکومتوں کے جنبہ داری کو اختیار کر کے ایک فریق کی حمایت میں دخل دینے کے سبب سے۔
(۴) شکست کے بعد اس قوم کے حصے بخرے کرنے اور ذاتی فوائد اٹھانے کی خواہش کے پیدا ہو جانے کے سبب سے۔
(۵) امنِ عامہ کے لئے قربانی کرنے کے لئے تیار نہ ہونے کے سبب سے۔
ان پانچوں نقائص کو دو کر دیا جائے توقرآنِ کریم کی بتائی ہوئی لیگ آف نیشنز بنتی ہے اور اصل میں ایسی ہی لیگ کوئی فائدہ بھی دے سکتی ہے نہ وہ لیگ جو اپنی ہستی کے قیام کے لئے لوگوں کی مہربانی کی جستجو میں بیٹھی رہے۔(۱)
بہر حال ایک اور عالمگیر جنگ کے خطرات دنیا کی طرف بڑھتے رہے اور لیگ آف نیشنز بے بس تماشائی بنی رہی اور یہ تنظیم دنیا کو دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاری سے بچانے میں ناکام رہی ۔دوسری جنگِ عظیم کے آ غاز نے اس تنظیم کے وجود کو بے معنی بنا دیا تھا۔دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہی ایک نئی عالمی تنظیم کے قیام کی جد و جہدشروع ہو گئی تھی ۔اور جرمنی اور جاپان سے نبرد آزما بڑی طاقتیں اپنے زاویہ نگاہ سے ایک نئی عالمی تنظیم کے بارے میں سوچ رہی تھیں اور ایک دوسرے سے مذاکرات کر رہی تھیں۔ ۱۹۴۵ء میں ۵۰ ممالک امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں ایک کانفرنس میں شریک ہوئے تا کہ اس نئی عالمی تنظیم کا چارٹر تیار کیا جائے۔پہلے امریکہ ،روس،برطانیہ اور چین نے اس ضمن میں تجاویز تیار کی تھیں ۔اس کانفرنس میں ان تجاویز پر غور و فکر کیا گیا۔۲۶ جون ۱۹۴۵ء کو ان پچاس ممالک نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر دیے اور باقاعدہ طور پر ۲۴ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو اقوامِ متحدہ وجود میں آ گئی۔
اُس وقت اقوامِ متحدہ کے قیام سے جو امیدیں وابستہ کی جا رہی تھیں،اس کا اندازہ امریکی صدر ٹرومین کی اُس تقریر کے ابتدائی الفاظ سے ہو تا ہے جو انہوں نے ۲۵ اپریل ۱۹۴۵ء کو یونائیٹڈ نیشن کانفرنس کے سامنے کی۔انہوں نے اس تقریر کے آ غاز میں کہا
"The world has experienced a revival of an old faith in the everlasting moral force of justice. At no time in history has there been a more important conference, nor a more necessory meeting, than this one in San Fransisco, which you are opening today."
دنیا میں دائمی انصاف کی اخلاقی قوت کا احیاء ہو رہا ہے ۔ آج ہم سان فرانسسکو میں منعقد ہونے والی جس کانفرنس کا افتتاح کر رہے ہیں ،اس سے زیادہ اہم کانفرنس دنیا کی تاریخ میں کبھی منعقد نہیں ہوئی اور نہ ہی اس سے زیادہ ضروری مجلس کبھی منعقد ہوئی ہے ۔
یہ الفاظ کا ہیر پھیر تھا ، ملمع سازی تھی یا انتہائی خوش فہمی ۔کچھ بھی تھا لیکن آج کوئی بھی اس میں شک نہیں کر سکتا کہ نئی عالمی تنظیم سے وابستہ یہ امیدیں بہر حال صحیح ثابت نہیں ہوئیں۔حضرت مصلح موعود ؓ نے اقوامِ متحدہ کی ناکامی کے متعلق اسی وقت اپنے تجزیہ بیان فرما دیا تھا۔
۹ اکتوبر ۱۹۴۶ء کوحضرت مصلح موعود ؓ نے دہلی میں ایک لیکچر دیا جس کا عنوان تھا ’دنیا کی موجودہ بے چینی کا اسلام کیا علاج پیش کرتا ہے‘۔اس میں حضور ؓ نے اقوامِ متحدہ کی کامیابی کے امکانات پر بھی روشنی ڈالی۔حضور ؓ نے فرمایا
’پس سارے جھگڑے پارٹی بازی کی وجہ سے ہیں مختلف حکومتوں کو یہ یقین ہے کہ ان کی قومیں صرف اس خیال سے کہ وہ ان کی حکومتیں ہیںان کا ساتھ دینے کو تیار ہیںاس لئے وہ بے خوف ہو کر دوسری حکومتوں پر حملہ کر دیتی ہیں۔اس وقت قومی تعصب اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اپنی قوم کا سوال پیدا ہوتا ہے تو سب لوگ بلا غور کرنے کے ایک آواز پر جمع ہو جاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اگر ہماری حکومت کی غلطی ہے تو ہم اسے سمجھا دیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زیادتی کرنے والی حکومت کو زیادتی سے روکو اور ان حکومتوں کی آپس میں صلح کرادو اور کوئی نئی شرائط پیش نہ کرو اور نہ ہی تم اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کرو لیکن موجودہ جنگ کا ہی حال دیکھ لو کہ حکومتیں طاقت کے زور پر اپنے حصے مانگ رہی ہیں اور چھوٹی چھوٹی حکومتوں کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس طریق کو اختیار کرنے سے کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا جیسی آزادی کی ضرورت روس کو ہے یا جیسی آزادی کی ضرورت برطانیہ کو ہے یا جیسی آ زادی کی ضرورت امریکہ کو ہے اسی طرح آزادی کی ضرورت چھوٹی حکومتوں کو بھی ہے ۔آزادی کے لحاظ سے یونٹ سب کے لئے ایک جیسا ہے ۔ یہ نہیں کہ ان بڑی حکومتوں کے دماغ تو انسانوں کے دماغ ہیں لیکن چھوٹی حکومتوں کے دماغ جانوروں کے دماغ ہیں۔جیسے وہ انسان ہیں ویسے ہی یہ انسان ہیں اور آزادی کا جیسا احساس ان بڑی حکومتوں کو ہے ویسا ہی ان چھوٹی حکومتوں کو ہے ۔کیا ہالینڈ کا ایک آدمی ویسے ہی احساسات نہیں رکھتا جیسے احساسات بر طانیہ کا آدمی رکھتا ہے۔ جب احساسات ایک جیسے ہیں تو تو پھر بڑی حکومت کا چھوٹی حکومت پر دباؤ ڈالنا انصاف پر مبنی نہیں ہو سکتا ۔اگر ایک شخص چار فٹ کا ہو اور دوسرا شخص سات فٹ کا ہو اور سات فٹ کا آدمی چار فٹ والے کو کہے کہ میرا حق ہے کہ میں تمہیں گالیاں دے لوںیا تمہارے منہ تھپڑ مار لوں کیونکہ میں سات فٹ کا ہوں اور تم چار فٹ کے ہو تو کیا کوئی حکومت اسے جائز سمجھے گی؟ وہ کہے گی کہ جیسادماغ سات فٹ والے کا ہے ویسا ہی دماغ چار فٹ والے کا ہے اور جو حقوق سات فٹ والے کے ہیں وہی حقوق چار فٹ والے کے ہیں لیکن جب آزادی اور حریت کا سوال آ تا ہے تو چھوٹے ملکوں اور بڑے ملکوں میںامتیاز کیا جاتا ہے اور چھوٹے ملکوں کے لیے حریت ضروری نہیں خیال کی جاتی حالانکہ آزادی کی ضرورت جیسے بڑی حکومتوں کو ہے ویسی ہی ضرورت چھوٹی حکومتوں کو ہے ۔۔
۔۔۔پس اسلام کہتا ہے کہ ان چار چیزوں کے بغیر امن نہیں ہو سکتا
اول لیگ کے پاس فوجی طاقت ہو
دوم عدل اور انصاف کے ساتھ آپس میں صلح کرائی جائے۔
سوم جو نہ مانے اس کے خلاف سارے مل کر لڑائی کریں
چہارم اور جب صلح ہو جائے تو صلح کرانے والے ذاتی فائدہ نہ اُٹھائیں
یہ چار اصول لیگ آف نیشنز کے قرآنِ کریم نے بیان فرمائے ہیںجب تک ان پر عمل نہیں ہو گا حقیقی امن پیدا نہیں ہو سکتا۔
پہلی لیگ آف نیشنز بھی ناکام رہی اوراب دوسری لیگ آف نیشنز بھی ناکام رہے گی۔ پس ضروری ہے کہ دنیا اسلام کے اصولوں کو اپنائے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے کیونکہ جب تک یہ پارٹی سسٹم جاری ہے اور جب تک یہ امتیاز باقی ہے کہ یہ چھوٹی قوم ہے اور وہ بڑی قوم ہے اور یہ کمزور حکومت ہے اور وہ طاقتور حکومت ہے اس وقت تک دنیا کے امن کے خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتے۔پس ضروری ہے کہ اس امتیاز کو دلوں سے مٹایا جائے جب تک یہ چیز باقی رہے گی کہ یہ بڑی جان ہے اور یہ چھوٹی جان ہے اس وقت تک دنیا امن اور چین کا سانس نہیں لے سکتی۔‘(۲)
پھر حضور ؓ نے جدید دنیا میں بین الاقوامی تعلقات کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا
’پس لیگ آف نیشنز تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب وہ اسلام کے اصولوں کے مطابق بنائی جائے اور اسلام کے حکموں کے مطابق کام کرے ۔لیگ آف نیشنز کے بعد اگر دنیا امن حاصل کرنا چاہے تو اسے مندرجہ ذیل چار چیزوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اگر یہ چیزیں اکھٹی کر دی جائیں تو وہ دنیا میں ایک حکومت کے قائم مقام ہو سکتی ہے۔
(۱) سکہ اور ایکسینج
(۲) تجارتی تعلقات
(۳)بین الاقوامی قضاء
(۴)ذرائع آمد و رفت یعنی ہر انسان کو سفر کی سہولتیں میسر ہونی چاہئیں تاکہ وہ آ زادی سے ایک ملک سے دوسرے ملک میں جا سکے۔‘(۳)
اب اکیسویں صدی کے آ غاز میں بہت محدود پیمانے پر مندرجہ بالا اقدامات کے ذریعہ کچھ خطوں کے ممالک آپس میں معاہدے کر کے ترقی اور تعاون کے لیے سازگار فضا پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یوروپی یونین جیسی تنظیمیں آپس میں تعاون کو ان خطوط پر بڑھا رہی ہیں لیکن پوری دنیا میں یہ نظام جاری کرنے سے جو عالمی فوائد حاصل ہو سکتے تھے ،محدود پیمانے پر یہ اقدامات اُٹھانے سے وہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے۔
(۱)انوارالعلوم جلد ۸ص۳۱۱تا ۳۱۶
(۲) انوارالعلوم جلد ۱۸ ص۴۳۱تا ۴۳۴
(۳)انوارالعلوم جلد ۱۸ ص۴۳۳۔۴۳۴
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۱۹۵۳ء کے فسادات اور اُن کا پس منظر
جیسا کہ کتاب کے حصہ اول میں ذکر آ چکا ہے کہ جب جماعتِ احمدیہ نے کشمیر کے مسلمانوں کی بے مثال خدمت شروع کی اور ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی تو جہاں انصاف پسند گروہ نے اسے قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا وہاں یہ امر ایک گروہ کے حسد کو بھڑکانے کا باعث بھی بن گیا۔ مجلسِ احرار احمدیوں کے خلاف آگ بھڑکانے میں پیش پیش تھی۔اصول پسندی اس نیم مذہبی اور سیاسی تنظیم کا شعار نہیں تھی۔ ۱۹۳۹ء کی آل انڈیا احرار کانفرنس کے خطبہ صدارت میں افضل حق صاحب نے بڑے اعتماد سے احمدیت کو ختم کرنے کا دعویٰ ان الفاظ میں کیا تھا،
’ احرار کا وسیع نظام باوجود مالی مشکلات کے دس برس کے اندر اندر اس فتنے کو ختم کر کے چھوڑے گا ۔با خبر لوگ جانتے ہیں کہ جا نبازِ احرار نے کس طرح مرزائیت کو نیم جان کر دیا ہے۔‘(۱)
اس اعتماد کی وجہ یہ تھی کہ کچھ انگریز عہدیدار بھی ان کی پیٹھ ٹھونک رہے تھے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس سازش کا تفصیلی ذکر کر کے فرمایا تھا کہ اگر حکومت نے آزاد کمیشن بٹھایا تو ہم ان افسران کے نام اور حالات ظاہر کر دیں گے۔مگر حکومت نے ایسا نہیں کیا۔(۲)۔جب احرار جماعت احمدیہ کے خلاف اپنی مہم چلا رہے تھے تو انہیں کانگرس کی حمایت بھی حاصل تھی۔ہندو وکلاء احرار کی طرف سے مفت پیش ہوتے تھے۔حضرت مصلح موعودؓ نے اپنا نمائیندہ پنڈت نہرو کی طرف بھیجا کہ آپ لوگوں کی ہمدردی احرار کے ساتھ کس بناء پر ہے اور یہ طرفداری کیوں کی جا رہی ہے۔انہوں نے ہنس کر کہا کہ سیاسیات میں ایسا کرنا پڑتا ہے(۳)۔احرار نے تو آگ بھڑکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی مگر ان کی تحریک کا انجام اس آیت ِکریمہ کے مطابق ہؤا

ترجمہ:ان کی مثال اس شخص کی حالت کی مانند ہے جس نے آگ بھڑکائی۔پس جب اس (آگ )نے اس کے ماحول کو روشن کر دیا۔اللہ ان (بھڑکانے والوں )کا نور لے گیا اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ وہ کچھ دیکھ نہیں سکتے تھے۔(البقرۃ ۱۸)
آزادی کے بعد یہی احرارایک بار پھرجماعت کے خلاف آگ بھڑکانے کا محرک بنے۔ان کے کردار اور طریقہ واردات کا تجزیہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ بعد میں عالمِ اسلام اور بالخصوص پاکستان میں جماعتِ احمدیہ کے خلاف جتنی بھی تحریکیں اٹھیں،وہ کسی حد تک ۱۹۵۳ء کی شورش کا رنگ لئے ہوئے تھیں۔گو وقت کے ساتھ انداز میں کچھ نہ کچھ تبدیلی توآتی رہی مگر تمام مخالفین بنیادی امور میں اُنہی کی پیروی کرتے رہے ۔اس لئے اگر ان کی لاش کا پوسٹ مارٹم کر لیا جائے تو اکثر مخالفین کی نفسیات اور اُن کے کردار کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔اسی طرح اگر ۱۹۵۳ء کے فسادات کے محرکات کو سمجھ لیا جائے اور یہ جائزہ لیا جائے کہ اِس شرارت نے کس طرح سر اُٹھانا شروع کیا اور کس طرح حکومت نے اپنے مقاصد کے لئے اس فتنہ کو بھڑکایااور بالآ خر کس طرح یہ فتنہ خود حکومت اور ملک کے امن و امان کو برباد کرنے کا باعث بناتو اِس کے بعد جماعت کی مخالفت کی تاریخ کو سمجھنا مشکل نہیں رہتا۔
مولویوں اور مسلم لیگ کا تنازع:
مجلس ِ احرار نے جماعت کے خلاف اپنی ناکامی کی خفت تو اٹھائی ہی تھی لیکن اس کے بعد انہیں ایک اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔اِنہیں یہ دوسری ناکامی سیاست کے میدان میں اٹھانی پڑی ۔آزادی سے معاََ قبل مسلمانوں کی اکثریت تو مسلم لیگ کا ساتھ دے رہی تھی لیکن علماء کی اکثرتنظیمیں کانگرس کے ساتھ تھیں۔ مجلس ِاحرار اور جمیعۃ العلماء جیسی جماعتیں نہ صرف کانگرس کے ساتھ تھیں بلکہ انہیں مسلم لیگ کے ساتھ سخت بغض تھا۔پرتاب جیسے کانگرس کے حامی اخبارات ان کے ایسے بیانات بہت نمایاں کر کے چھاپتے تھے کہ’ مسلم لیگ ایک رجعت پسند جماعت ہے جو ملک و قوم کی ترقی کی راہ میںبھاری رکاوٹ ہے۔‘(۴)
احمدیت کی مخالفت کی طرح اس سوقیانہ بیان بازی میں احراریوں کے لیڈر اور ان کے امیرِ شریعت ، عطاء اللہ شاہ بخاری سب سے نمایاں تھے۔۱۹۳۹ء کے سال میں جب ہندوستان کے سیاسی منظر پر ہلچل مچی ہوئی تھی تو ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے کہا کہ
’مسلم لیگیوں میں خودداری کا ذرا مادہ نہیں۔وہ برطانوی گورنمنٹ کے اشارے پر ناچتے ہیں اور ہندوستان کو ہمیشہ غلام رکھنا چاہتے ہیں۔یہ امر افسوسناک ہے کہ مسلم لیگی مہاتما گاندھی کے ممنون ہونے کی بجائے اپنے ذاتی اغراض کیلئے کانگرس سے جھگڑا کر رہے ہیں۔‘
اسی جلسے میں اُنہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ کانگرس میں شامل ہوں۔(۵)عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب صرف مسلم لیگ ہی سے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں سے بھی بہت نالاں تھے۔چنانچہ جون ۱۹۳۹ء میں انہوں نے سندھ کا دورہ کیا تا کہ وہاں پر مسلم لیگ کے مقابل پر احرار کی تنظیمیں قائم کریں۔اسی ضمن میں ایک پولیٹیکل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا،
’ہندوستان کے مسلمانوں کو شرم آنی چاہئیے ۔کہ اِن کے ہندو بھائی تو آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔اور اسلام کے نام لیوا جن کا مسلک ہی آزادی ہے۔ان کے راستے میں رخنے ڈال رہے ہیں۔‘
یہاں پر بھی انہوں نے ایک بار پھر مسلمانوں سے کانگرس میں شامل ہونے کی اپیل کی۔اور اسی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایک اور احراری لیڈر مظہر علی اظہر صاحب نے انتباہ کیا کہ کانگرس سے علیحدہ رہ کر مسلمان کہیں کے نہ رہیں گے۔(۶)رفتہ رفتہ یہ نوبت آئی کہ احرار نے کانگرس اور سکھوں کی اکالی پارٹی کے ساتھ یومِ آزادی کے مشترکہ جلسوں کا انعقاد شروع کر دیا۔(۷)
جب کیبنٹ مشن ہندوستان پہنچا تو اس اہم موقع پر مجلسِ احرار کی مجلسِ عاملہ نے یہ قرارداد منظور کی
’جہاں تک مسلم لیگ کے نظریہ پاکستان کا تعلق ہے مجلسِ عاملہ کسی صورت میں بھی اس سے اتفاق نہیں کر سکتی۔۔۔مسلم لیگ کی قیادت مسلمانوں کو ایک غیر منظم قوم اور بے ہنگام گروہ کی حیثیت دینا چاہتی ہے۔لہذاٰ یہ اجلاس ایک بار پھر اعلان کرتا ہے،کہ مسلم لیگ کی قیادت قطعی غیر اسلامی ہے۔اس کا عمل آج تک ملتِ اسلامیہ کے مفاد کے منافی رہا ہے۔مرکزی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میںاسلامی قوانین کی مخالفت اس کا مستقل شعار ہے۔اس لئے مسلمان سیاسی ،مذہبی،تمدنی راہنمائی کی توقع مسلم لیگ کی غیر اسلامی قیادت سے نہیں کر سکتے،اور مسلم لیگ کے کسی فیصلے کو اسلامی ہند کا فیصلہ نہیں قرار دیا جاسکتا۔‘(۸)
احرار اور اُن جیسے دوسرے مولویوں کا یہ خاص طریقہ ہوتا ہے کہ وہ مخالف پر ذاتی حملے کرتے ہیں،دشنام طرازی سے بڑھ کر گالی گلوچ پر ا’تر آتے ہیں۔اُس کے ہر فعل پر خلافِ اسلام ہونے کا فتویٰ جڑ دیتے ہیں ۔چنانچہ۱۹۳۹ء کی آل انڈیا احرار کانفرنس کے خطبہ صدارت میں افضل حق صاحب نے کہا،’لیگ کے اربابِ اقتدار جو عیش کی آغوش میں پلے ہیں۔اسلام جیسے بے خوف مذہب اور مسلما نوں جیسے مجاہد گروہ کے سردار نہیں ہو سکتے ۔مردوں سے مرادیں مانگنا اتنا بے سود نہیں جتنا لیگ کی موجودہ جماعت سے کسی بہادرانہ اقدام کی توقع کرنا۔‘اسی تقریر میں انہوں نے مسلمانوں کو انتباہ کیا ،’سوچ لو پاکستان کی تحریک بھی برطانوی جھانسہ نہ ہو۔‘(۹)
اپریل ۱۹۴۶ء میں دہلی کے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے کہا
’تحریکِ پاکستان کی قیادت کرنے والوں کے قول و فعل میں بنیادی تضاد ہے۔۔۔۔ یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ جو لوگ اپنی اڑھائی من کی لاش اور چھ فٹ قد پراسلامی قوانین نافذ نہیں کر سکتے،جن کا اٹھنا بیٹھنا ،جن کا سونا جاگنا،جن کی وضع قطع ،رہن سہن ، بول چال،زبان لباس غرض کوئی چیز اسلام کے مطابق نہ ہو،وہ ایک قطعہ زمین پر اسلامی قوانین کیسے نافذ کریں گے۔‘(۱۰)
عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے بہت مرتبہ اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ صدر مسلم لیگ قائدِاعظم محمد علی جناح سے ملاقات کر کے پاکستان کے متعلق اپنے شکوک و شبہات دور کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اغلباََ ان کی مشکوک شہرت کی وجہ سے قائدِ اعظم کبھی بھی ان سے ملاقات پر آمادہ نہیں ہوئے۔(۱۱) جوں جوں قائدِ اعظم کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا،ان کے خلاف احرار کا غیض و غضب بھی بڑھتا گیا۔ وہ اب بازاری انداز میں مخالفت پر اتر آئے تھے۔احراری لیڈروں نے پاکستان کو پلیدستان قراردیا اور قائد اعظم کو کافر کہنا شروع کر دیا۔ایک مشہور احراری لیڈر مظہر علی اظہر کا یہ شعران کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے
اک کافرہ کے واسطے اسلام کو چھوڑا
یہ قائدِ اعظم ہے کہ ہے کافرِ اعظم (۱۲)
یہ دشنام طرازی صرف احرار تک محدود نہیں تھی۔مولویوں کے دوسرے گروہ بھی اس میں پیش پیش تھے۔اور ان کے نزدیک مسلم لیگ ایک غیر اسلامی تنظیم تھی۔جماعتِ اسلامی کے بانی مودودی صاحب نے اپنی کتاب ’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘ میں قائدِ اعظم پر ان الفاظ میں طعن و تشنیع کی
’مگر افسوس کہ لیگ کے قائدِ اعظم سے لے کر چھوٹے مقتدیوں تک ایک بھی ایسا نہیں جو اسلامی ذہنیت اور اسلامی طرزِ فکر رکھتا ہواور معاملات کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھتا ہو۔ یہ لوگ مسلمان کے معنی و مفہوم اور اس کی مخصوص حیثیت کو بالکل نہیں جانتے۔‘(۱۳)
یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ مودودی صاحب نے کس دھڑلے سے تمام اراکینِ لیگ پر فتویٰ جڑ دیا ہے جب کہ ان میں سے اکثریت کو وہ جانتے بھی نہیں تھے۔جس طرح وہ ہر ایک کے دل میں جھانک کے آئے ہیں۔اوراُن کی دوربین نگاہ نے ہر ممبر مسلم لیگ کے کردار کو خوب اچھی طرح پرکھ لیا ہے کہ بالکل غیر اسلامی ہے۔اسی کتاب میں مودودی صاحب پاکستان بنانے کی تجویز کے متعلق تحریر کرتے ہیں
’پس جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ اگر مسلم اکثریت کے علاقے ہندو اکثریت کے تسلط سے آزاد ہو جائیں اور یہاں جمہوری نظام قائم ہو جائے تو اِس طرح حکومتِ الٰہی قائم ہو جائے گی ،ان کا گمان غلط ہے۔دراصل اِس کے نتیجے میں جو کچھ حاصل ہو گاوہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہو گی۔‘(۱۴)
یہ صورتِ حال مسلم لیگ کے لئے پریشانی کا باعث تھی۔اس پس منظر میں اخبارات میں یہ خبریں بھی چھپنے لگیں کہ مسلم لیگ کے بعض قائدین کا خیال ہے کہ علماء روپے کے لالچ کی بناء پر کانگرس کا پرچار کرتے ہیں اس لئے مناسب ہو گا کہ ان کے لئے روزگار کاکوئی مناسب انتظام کر دیا جائے۔(۱۵)مسلم لیگ کے قائدین اب برملا علماء پر غداری کا الزام لگا رہے تھے۔چنانچہ ظفرعلی خان صاحب نے لاہور میں تقریر کرتے ہوئے کہا
’اگر مسلمانوں میں سے علمائِ کرام مولانا حسین احمد مدنی،مولانا کفایت اللہ ،مولانا احمد سعید اور مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کٹ کرہندوؤں سے نہ ملتے۔تو آج کانگرس مسلمانوں سے مصالحت کر لیتی۔مگر یہ علماء خدا کو چھوڑ کر جواہر لال نہرو کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔‘(۱۶)
قائدِ اعظم نے عطا ء اللہ شاہ بخاری صاحب جیسے لوگوں کی سطح پر ا’تر کر جواب تو نہیں دیا لیکن وہ ایک قانون دان تھے۔اور ان کی نظریں مستقبل میں پیدا ہونے والے خطرات کو دیکھ رہی تھیں۔چنانچہ ایک انٹرویو میں انہوں نے علماء کے متعلق کہا
’مذہبی تعبیر کے ساتھ ہی کام کی نوعیت اس کی حقیقی تقسیمِ عمل اور اس کی اصل حدود کو سمجھے بغیر ہمارے علماء کی ایک جماعت ان خدمات کو صرف چند مولویوں کا ایک اجارہ خیال کرتی ہے ۔با وجود اہلیت اور مستعدی کے ،آپ کے یا میرے جذبہ خدمت کو پورا کرنے کی کوئی صورت نہیں پاتی ۔پھر اس منصب کی بجا آوری کے لئے جن اجتہادی صلاحیتوں کی ضرورت ہے ان کو میں الا ما شا ء اللہ ان مولویوں میں نہیں پاتا ۔وہ اس مشن کی تکمیل میں دوسرو ں سے کام لینے کا سلیقہ بھی نہیں جانتے۔‘(۱۷)
اس سے ظاہر ہے کہ قائدِ اعظم کے نزدیک مولوی طبقہ اِس بات کی اہلیت نہیں رکھتا تھا کہ وہ مذہب کو بنیاد بنا کر قانون سازی کا کام کریں یا سیاست میں دخل دیں۔اگرچہ یہ طبقہ یہی سمجھ رہا تھا کہ ان امور پر صرف اُنہی کی اجارہ داری ہونی چاہئیے۔
مسلم لیگ کی کامیابی اور مولویوں کی زبوں حالی:
بہر حال اس تناظر میں ہندوستان میں انتخا بات ہوئے اور مسلم سیٹوں پر مسلم لیگ کو تقریباََ مکمل کامیابی ملی اور دوسری طرف احرار جیسے گروہوں کو مسلمان عوام نے مکمل طور پر مسترد کر دیا ۔ احرار کا زیادہ تر اثر پنجاب میں تھا۔آزادی کے بعد ہونے والے فسادات کی وجہ سے مشرقی پنجاب میں بسنے والے احراریوں کو بھی پاکستان میں پناہ لینی پڑی۔اُن کے لئے یہ صورتِ حال کئی وجوہات کی بناء پر مایوس کن تھی۔کل تک جس ملک کو وہ پلیدستان کہہ رہے تھے ،آج وہ اُسی ملک میں پناہ لینے پر مجبور تھے ۔کل تک جن کی ہر بات کو خلافِ اسلام قرار دیا جا رہا تھا،وہ آج قوم کے ہیرو اور حکمران بن چکے تھے۔جس شخصیت کو احرار کافرِ اعظم کہتے رہے تھے آج اُس شخصیت کو پوری قوم قائدِ اعظم کہہ رہی تھی۔یہ علماء کل تک جن لوگوں کے متعلق کہہ رہے تھے کہ وہ ہندوستان کو ہمیشہ غلام رکھنا چاہتے ہیں،اُنہوں نے ہی قوم کو آزادی دلائی تھی۔اور اُس پُر آشوب دور میں پاکستان میں احرارایوں کو کیا سمجھا جا رہا تھا اور پاکستان میں اُن کا کس طرح استقبال کیا گیا تھا، اس کا اندازہ ایک مشہور احراری لیڈر تاج الدین انصاری صاحب کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے
ُُُُُ ُُ ’’غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئیں تو ہمیں ماضی کی تلخیاں بھول گئیں۔کیا آپ ہماری اِس وقت کی خوشیوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں ذرا تصور تو کیجئے کہ کن امنگوں اور ولولوں سے ہم نے واہگہ(ہندوستان کی سرحد پر پاکستان کا پہلا مقام)کے اس پار قدم رکھا ہو گا ۔مگر جونہی ہم نے آزادی کے دروازہ میں قدم رکھا چاروں طرف سے اپنوں نے بیگانہ وار چلانا شروع کیا ’غدار غدار‘۔جب اِس طرح ہمارا استقبال ہؤا تو ہم ٹھٹھک کر رہ گئے۔ہمارا دل بیٹھنے لگا ۔ہم نے حسرت بھری نگاہوں اوردکھ بھرے دل سے مالکِ حقیقی کو پکارا ۔خدایا ہماری قوم کو کیا ہو گیا ہے؟‘(۱۸)
جب سیاسی عزائم رکھنے والے کسی گروہ کو نہ صرف انتخابات میں مکمل شکست کا سامنا کرنا پڑے بلکہ چاروں طرف سے غدار غدار کی آوازیں بھی بلند ہو رہی ہوں تو اِس گروہ کو یہ صورتِ حال موت سے بھی بد تر معلوم ہوتی ہے۔اِس وقت احراریوں کے سب سے نمایاں لیڈر عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کی کیا کیفیت تھی،اپریل ۱۹۴۸ء میں وہ خود اِس کو اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
’لیکن میری تو کوئی سنتا ہی نہیں۔میرا تو شکاری کتے کا سا حال ہے جو شکار کو دیکھ کر بھونکتا ہے،وہ جو کچھ اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے اُسی کی آواز لگاتا ہے۔وہ دوڑتا ہے کودتا ہے ، پھدکتا ہے پھڑکتا ہے کہ شکار سے لپٹ جاؤں،اور بھونکتا ہے کہ اپنے مالک سے اِس کی خبر کر دوں ۔اسی طرح میں دیکھ رہا تھا شکار کو ،اورتمہارے دروازے پر بھونکا ۔جس دروازے پر گیا اُسی نے لاٹھی رسید کی’بے ایمان سونے نہیں دیتا۔‘ ‘ (۱۹)
آزادی کے معاََ بعد احرار کی حالت کیا تھی ،اس کے متعلق ۱۹۵۳ء کے فسادات پر تحقیق کے لیے قائم ہونے والی تحقیقاتی عدالت کا تبصرہ یہ تھا
’۱۹۴۷ء کی تقسیم اور پاکستان کا قیام احرار کے لئے بہت بڑی مایوسی کا پیغام تھا۔کیونکہ اس سے ہر قسم کا اقتدار کانگرس یا مسلم لیگ کی طرف منتقل ہو گیا۔اور احرار کے لئے ہندوستان یا پاکستان میں سیاسی سرگرمی کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی ۔پاکستان کی نئی مسلم مملکت کے قیام سے انہیں شدید صدمہ ہوا۔اِن کے نظام عقاید کی عمارت متزلزل ہو گئی۔ وہ ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے بالکل ختم ہو گئے۔کچھ مدت تک وہ اسی ناکامی اور مایوسی کی حالت میں رہے۔انہیں اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ نہ سوجھتا تھا۔‘(۲۰)
اس کے برعکس سب جانتے تھے کہ جماعتِ احمدیہ نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا تھا۔جب قادیان پر ہر طرف سے حملے ہو رہے تھے تو احمدیوں نے بہادری سے نہ صرف اپنا دفاع کیا تھا بلکہ ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کی مدد بھی کی تھی ۔حتیٰ کہ مخالفین بھی اِس کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے۔باوجود سخت مشکل حالات کے جماعت نے نہ صرف فوری طور پر پاکستان میں نظامِ جماعت کو قائم کیا بلکہ نئے مرکز کی تعمیر بھی شروع کر دی ۔اور پوری دنیا میں تبلیغِ اسلام کے کام کو بھی پہلے سے زیادہ وسعت دینے کا کام شروع کر دیا تھا۔جماعت کے اشد مخالفین یوں تو گلے پھاڑ پھاڑ کے جماعت پر یہ الزام لگاتے تھے کہ احمدی جہاد کے قائل نہیں۔مگر جب پاکستان کو عسکری خدمات کی ضرورت پڑی تو یہ گروہ اپنے ملک کی کوئی خدمت نہ کر سکا بلکہ مودودی صاحب نے تو کشمیر میں اُس وقت کی جانے والی جدوجہد کو نا جائز قرار دے دیا۔اور ان کے اس فتوے کو ہندوستانی ریڈیو اور شیخ عبد اللہ صاحب کی حکومت نے بہت اُچھالا(۲۱)۔مگر پاکستانی احمدیوں نے فرقان بٹالین کے ذریعہ اپنے ملک کے دفاع میں بہت کامیابی کے ساتھ حصہ لیا۔مخالفین کے حسد کی اُس وقت کوئی انتہا نہ رہی جب حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ کو ملک کا وزیرِ خارجہ مقرر کیا گیا۔اور دیکھتے دیکھتے حضرت چوہدری صاحب نے نہ صرف پاکستان کی نمایاں خدمت کی بلکہ اقوامِ متحدہ میں اسلامی ممالک کے حقوق کے لئے اِس کامیابی سے آواز بلند کی کہ اپنے پرائے سب عش عش کر ا’ٹھے۔ اب جماعت کے مثبت کام سب کو نظر آرہے تھے اور احرار کے دامن میں منفی نعروں کے سوا کچھ نہ تھا۔
مولویوں کا نصب العین :سیاسی اقتدار
اگرچہ احرار دعویٰ کرتے تھے کہ وہ مذہبی مقاصد رکھتے ہیں لیکن وہ مذہب کا نام صرف سیاست کی دوکان چمکانے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ان کا عقیدہ تھا کہ سیاسی رسوخ حاصل کرنا ہی اصل مذہبی مقصد ہے۔یہ پوچ نظریہ اُن کے ذہنوں میں بری طرح رچ بس گیا تھا ۔۱۹۳۹ء کی آل انڈیا احرار کانفرنس کے خطبہ صدارت میں افضل حق صاحب نے یہ پالیسی ان الفاظ میں بیان کی ۔
’احرار اس یقین پر قائم ہیں کہ نیکی بغیر قوت کے زندہ نہیں رہ سکتی۔مذہب صرف اس کا زندہ ہے جس کی سیاست زندہ ہے۔اگرچہ بعض تبلیغی اوراصلاحی امور بھی احرار سے متعلق ہیں۔تا ہم سیاسی قوت حاصل کرنا ہمارا نصب العین ہے جس کے بغیر ہر اصلاحی تحریک تضیعِ اوقات ہے۔‘(۲۲)
مگر اب ان کا سیاسی اثر صفر ہو چکا تھا۔ان کا دعوی تھا کہ دس برس میں وہ احمدیت کو ختم کردیں گے۔ مگر جب یہ مدت پوری ہونے کو آئی تو احمدیت تو ترقی کر رہی تھی لیکن خود مجلسِ احرار کی بقا خطرے میں پڑی ہوئی تھی۔اب اپنی سیاسی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے انہیں کچھ نہ کچھ کرنا تھا۔
احرار رنگ بدلتے ہیں:
مئی ۱۹۴۸ء میں احرار کی ایک کانفرنس لائل پور میں منعقد ہوئی اُس میں احمدیوں کے خلاف اشارے کئے گئے اور پاکستان سے اظہارِ وفاداری کیا گیا۔کل تک جسے وہ پلیدستان کہہ رہے تھے،آج وہ اسی سے اظہارِ وفاداری کرنے پر مجبور تھے۔پھر جون میں لاہور میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا اور اِس میں پاکستان کی حمایت میں زیادہ وضاحت سے اظہارِ جذبات کیا گیا اور اِس کے ساتھ یہ اشارہ بھی کیا گیا کہ احرار مسلم لیگ میں اِس لئے شامل نہیں ہو سکتے کیونکہ اِس میں چوہدری ظفراللہ خان اور میاں افتخار الدین جیسے لوگ شامل ہیں جن کے عقائد اسلام کے خلاف ہیں۔گویا کل تک یہی لوگ کہہ رہے تھے کہ مسلم لیگ والے تو انگریز کے اشارے پر ناچتے ہیں اور ان میں خودداری کا مادہ بالکل نہیں ہے اور آج یہ لوگ صرف اِس لئے مسلم لیگ میں شامل نہیں ہو رہے تھے کہ اِس میں حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب جیسے عقائد رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔اور کوئی مسئلہ نہیں ۔احرار نے جنوری ۱۹۴۹ء میں لاہور کے مقام پر اپنی کانفرنس منعقد کی اور اعلان کیا کہ اب مجلسِ احرار کی سیاسی حیثیت ختم کردی گئی ہے۔اب نہ صرف اس بات پر آمادگی ظاہر کی جا رہی تھی کہ سیاسی محاذ پر احراری مسلم لیگ کی پیروی کریں گے بلکہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ آزادی سے پہلے بھی احرار اور مسلم لیگ کے درمیان کوئی خاص اختلافات موجود نہیں تھے۔اس موقع پر عطا ء اللہ شاہ بخاری صاحب نے کہا
’مسلم لیگ سے ہمارا اختلاف صرف یہ تھا کہ ملک کا نقشہ کس طرح بنے۔یہ نہیں کہ ملک نہ بنے بلکہ یہ کہ اس کا نقشہ کیونکر ہو۔۔یہ کوئی بنیادی اختلاف نہیں تھا،نہ حلال حرام کا، نہ گناہ و ثواب کا ،اور نہ مذہب کا ،وہ تو ایک نظریے کا اختلاف تھا ۔۔۔۔پس اب ہمارا مسلم لیگ سے کوئی اختلاف نہیں،نہ پہلے ہمارے اور اُن کے درمیان مذہبی اختلاف تھا نہ خدا نہ رسول کا،نہ ہم ولی ہیں نہ لیگ والے قطب۔‘(۲۳)
اس بیان کا سابقہ بیانات سے موازنہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ احرار اصول پسندی کے مفہوم سے نا آشنا تھے۔وہ سفید جھوٹ بول کر مستقبل کی چالوں کی راہ ہموار کر رہے تھے۔ا’ن کے پیروکاروں کی اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتی تھی جو زیادہ علم نہیں رکھتے اور نہ ہی تحقیق کر کے حقیقت کو جان سکتے ہیں ۔اب احرار مسلم لیگ کے خلاف تو کچھ کر نہیں سکتے تھے لیکن انہیں ایک ایشو درکار تھا جس کے چور دروازے کو استعمال کر کے وہ ایک بار پھر لوگوں کی نظر میں آسکیں۔چنانچہ انہوں نے ایک بار پھر احمدیت کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا اور اسی جلسے میں بخاری صاحب نے کہا
’مجلس احرار اب مذہبی اور اصلاحی کاموں میں سر گرم رہے گی ۔مسئلہ ختمِ نبوت اس کا بنیادی مسئلہ ہے۔سیا سیات اب ہماری منزل نہیں ،وہ جانے اور مسلم لیگ۔ ‘ (۲۴)
اس کے ساتھ احرارنے جماعت کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا۔جیسا کہ ہم بعد میں وضاحت کریں گے احرار گوشہ گمنامی سے خود باہر نہیں آرہے تھے بلکہ کچھ ہاتھ اپنے مقاصد کے لئے انہیں باہرنکال کر لا رہے تھے۔اس تحریک میں شروع ہی سے اُن کا طریق تھا کہ جو عیب خود اُن میں تھے انہیں جماعتِ احمدیہ کی طرف منسوب کرنا شروع کر دیا تاکہ لوگوںکی مخالفت اور شکوک کا رخ جماعتِ احمدیہ کی طرف ہو جائے۔ اور ان کا اصول تھا کہ جھوٹ بولو اور مسلسل بولتے جاؤ۔یہ گروہ اخلاقی قیود جیسی چیزوں کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھتا تھا۔ احرار کو گوشہ گمنامی سے نکالنے والے ہاتھ کون تھے، اِس کا ذکر تو بعد میں آئے گا مگراب مسلم لیگ کا ایک گروہ بھی اِن کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا تھا ۔اب تک مسلم لیگ کے اراکین پر پاپندی تھی کہ وہ مسلم لیگ کے رکن ہوتے ہوئے مجلسِ احرار کے رکن نہیں بن سکتے۔مگر دسمبر ۱۹۴۹ء میں یہ پابندی اٹھا لی گئی۔اس کے ساتھ جماعت احمدیہ کے خلاف احرار کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہو گیا۔ (۲۵)آزادی سے قبل بھی احرار دو مرتبہ کوشش کر چکے تھے کہ مسلم لیگ میں شامل ہو کر اس پر قبضہ کریں چنانچہ یکم دسمبر ۱۹۴۱ء کواحراری لیڈر افضل حق صاحب نے قصور میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا،
’ہم نے لیگ میں دو دفعہ گھس کر کوشش کی تا کہ اس پر قبضہ جمائیں۔ دونوں دفعہ قاعدے اور قانون نئے بنا دئے گئے تاکہ ہم بیکار ہو جائیں۔‘ (۲۶)
اب قائدِ اعظم کی وفات کے بعد یہ رکاوٹ اُٹھا دی گئی تھی۔اور پنجاب مسلم لیگ کی نا عاقبت اندیشی نے احرار کے لئے راہ ہموار کر نی شروع کر دی تھی۔
جماعتِ احمدیہ کے خلاف زہر اگلا جاتا ہے:
کہنے کو تو احرار اپنے آپ کو اسلام سے منسوب کر رہے تھے لیکن وہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو سوشلزم کے زیادہ قریب محسوس کرتے تھے۔اور اپنے خام خیال میں وہ سوشلزم یا کمیونزم کا جو بھی سمجھ پائے تھے اُسی کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے تھے۔یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہئیے کہ اُس وقت سرخ دنیا پر سٹالن کی شخصیت چھائی ہوئی تھی۔چنانچہ ۱۹۳۹ء کے تاریخی سال ان کے اجلاس میں یہ واضح اعلان کیا گیا تھا،
’سوشلسٹ ذہن کے اعتبار سے بین الاقوامی اور دل میں مساوات کا جذبہ رکھنے کی وجہ سے احرار کے قریب ہے۔ان دو راہروانِ ترقی کو ایک اکیلا رہنے کی بجائے دشمنوں کو ایک اور ایک گیارہ دکھائی دینا چاہئیے۔‘ (۲۷)
آہستہ آہستہ یہ واضح ہوتا جائے گا کہ احرار اپنے دشمنوں کے خلاف ویسی ترکیبیں لڑاتے تھے جیسا کہ اپنے ناقص مطالعہ کی وجہ سے وہ خیال کرتے تھے کہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ انقلاب لانے کے لئے استعمال کرنا ضروری ہیں۔
اب احرار مطالبہ کر رہے تھے کہ قانونی طور پر جماعتِ احمدیہ کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔وہ غلط عقائد جماعت کی طرف منسوب کر کے لوگوں کے جذبات کو انگیخت کر رہے تھے۔چونکہ پاکستان میں خود اُن پر غداری کا الزام لگایا گیا تھا ،اِس لئے اِن حقائق سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے وہ پروپیگنڈا کر رہے تھے کہ اصل میں پاکستا ن میں بسنے والے احمدی پاکستان کے وفادار نہیں ہیں اور ملک سے غداری کر رہے ہیں۔اور در حقیقت پاکستان کی حقیقی تمنا کرنے والے تو احرار تھے۔چنانچہ جب احرار نے کینچلی بدلنی شروع کی تو اُن کے اخبار آزاد نے لکھا:۔
’تیسری قسم کے لوگ جو یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ پاکستان تو ضرور بنے لیکن کچھ عرصہ کے لئے پاکستان کے ہندوستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات ضرور قائم رہیں۔یہ وہ لوگ تھے جو مجلسِ احرار سے تعلق رکھتے تھے۔۔۔غور طلب امر یہ ہے کہ مرزائی جو پاکستان کے سرے ہی سے مخالف اور اِس کی کامیابی میں روڑے اٹکانے والے تھے آج سب کچھ حاصل کرنے کے بعد ظاہرہ طور پر اپنے کو پاکستانی کہتے ہیں۔مگر احرار جن کی حقیقی تمنا پاکستان تھی جو اِس میں اپنے عقیدہ حکومتِ الہیہ کی عملی تصویر دیکھنا چاہتے تھے۔اِن کو یہ مرزائی اچھل اچھل کر غیر پاکستانی کہہ کر اپنے جرم کر چھپانا چاہتے ہیں۔‘(۲۸)
ان کے علاوہ اب بعض اور اخبارات بھی جماعت کے خلاف زہر اگلنے میں پیش پیش تھے۔جن میں زمیندار بھی شامل تھا۔حضرت مصلح موعود ؓ نے ان کی کاروائیوں کا بر وقت نوٹس لیتے ہوئے جنوری ۱۹۴۹ء کی ایک میٹنگ میں ارشاد فرمایا تھا کہ زمیندار میں شائع ہونے والے مضامین کی تردید کے لئے مکمل تحقیق کی جائے اور یہ تجویز بھی زیرِ غور آئی تھی کہ ایک علیحدہ روزنامہ کراچی سے نکالا جائے جس میں اپنے سیاسی نظریات پیش کئے جائیں۔(۲۹)
اگر آدمی حقائق کا علم رکھتا ہو تو یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اگر احرار پاکستان بنانے کے اتنے ہی حامی تھے تو اِن کی مجلسِ عاملہ نے یہ قرارداد کیوں منظور کی تھی کہ ہم کسی صورت میں نظریہ پاکستان کو قبول نہیں کر سکتے۔مسلم لیگ کے لیڈروں کو برا بھلا کیوں کہتے رہے۔مسلمانوں کو یہ ترغیب کیوں دلاتے رہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کانگرس میں شامل ہوں۔اور اگر احمدی ہی پاکستان کی راہ میں روڑے اٹکا رہے تھے تو انہوں نے الیکشن میں مسلم لیگ کو ووٹ کیوں دیئے تھے۔احرار کا طریقہ کار یہی تھا کہ اگر ایک جھوٹ کا ثبوت دینے کی ضرورت پیش آئے تو اُس سے بڑا جھوٹ بول دو۔پھر بھی بات نہ بنے تو تیسرا جھوٹ گھڑ لو۔ البتہ اُن کے لیڈر عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے یہ فیصلہ کرنے کے لئے کہ محبِ وطن کون ہے اور غدار کون ہے ایک طریقہ بھی تجویز کیا تھا جو یہ تھا
’میں اپنی حکومت سے اپنے وزراء سے سردار عبد الرب نشتر سے بصد احترام درخواست کرتا ہوں کہ خدارا آپ اِس جھگڑے کو ختم کرادیجئیے ۔آپ مجھے اور مرزا بشیرالدین محمود امیر جماعت احمدیہ دونوں کو بیک وقت گرفتار کر لیجیئے ۔دونوں کو اکھٹی ہتھکڑی لگایئے اور اکھٹے ہی سات دن کے لئے حوالات میں رکھئے ۔کھانے کو پانی اور نمک کے سوا کچھ نہ دیجیئے اور پھر آپ سات دن تک تحقیقات کیجئے اور ہم دونوں کو عدالت میں پیش کر دیجئے۔‘ (۳۰)
اس معرکۃ الآراء بیان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اِن کی بیان بازی کے مخاطب زیادہ تر وہی لوگ ہوتے تھے جنہیں علم اور عقل کی تقسیم میں کم حصہ ملا ہوتا ہے ۔احراری مولوی بھانڈوں کی طرح ان لوگوں کو ہنسا کر مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔اب وہ اپنے جلسوں میںجماعت کے خلاف ہر قسم کے الزامات لگا کر نفرت کے طوفان اُٹھا رہے تھے۔وہ لوگوں کو اکسا رہے تھے کہ احمدیوں کا بائیکاٹ کریں۔وہ الزام لگا رہے تھے کہ احمدی نا جائز الاٹمنٹیں کرا کے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔احمدیوں نے کشمیر میں خدمات سر انجام دیں تو اُس کے جواب میں احرار نے پروپیگنڈا شروع کیا کہ در اصل احمدی کشمیری مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوا رہے ہیں۔اور فرقان فورس در اصل اپنے آپ کو مسلح کرنے کا ایک بہانہ ہے۔اِن کا اخبار آزاد خاص طور پر تمام اخلاقی قیود سے آزاد ہو چکا تھا۔اِس میں ایسے بیانات دیئے جا رہے تھے جن میں بزرگانِ سلسلہ کو گالیاں دی ہوتی تھیں۔اور احمدی فوجی افسران کی لسٹیں شائع کی جاتی تھیں اور اِس خدشے کا اظہار کیا جاتا تھا کہ یہ احمدی ایک دن ملک میں فوجی انقلاب لانے کا باعث بنیں گے(۳۰)۔
حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ اپنی خدمات کی وجہ سے عالمِ اسلام میں ایک نمایاں مقام حاصل کر چکے تھے ۔اس لئے اس ٹولے کی دل آزاری اور الزامات کا سب سے زیادہ نشانہ بھی چوہدری صاحب ہی بنے ۔احرار برملا کہہ رہے تھے کہ چوہدری ظفراللہ خان غدار ہے اور اسے فوری طور پر برطرف کرنا چاہئیے۔صرف اِس کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔(چوہدری صاحب کے استعفے کو نصف صدی سے زاید عرصہ گذر چکا ہے ۔کشمیر کا مسئلہ حل ہونا تو درکنار ،آپ کے بعد اس مسئلے پر ایک انچ کی پیش رفت بھی نہیں ہوئی۔جو پیش رفت ہوئی آپ کے دورِ وزارت میں ہوئی۔)
یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ احمدیوں کو تمام کلیدی اسامیوں سے بر طرف کیا جائے۔احرار اپنے جلسوں میں احمدیوں کے بزرگوں کو فحش گالیاں نکال رہے تھے ۔لیکن حکومتِ پنجاب نے اِس عذر کی بناء پر کوئی کاروائی نہیں کی کہ اِس طرح احرار کو اور مقبولیت حاصل ہو جائے گی۔
احمدیوں کو قتل کرنے کی تحریک:
لیکن یہ سب کافی نہیں تھا ۔ابھی ان مخالفین کا صحیح چہرہ ظاہر ہونا باقی تھا۔اب اُن کی حکمتِ عملی یہ تھی کہ لوگوں کو احمدیوں کی قتل و غارت پر اکسایا جائے۔چنانچہ اِن لوگوں نے ایک پراناکتابچہ شائع کرایا جو مسلم لیگ کے ایک مولوی شبیراحمد عثمانی صاحب کا لکھا ہؤا تھا ۔اِس کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے اور احمدی مرتد ہیں اِس لئے احمدی واجب القتل ہیں۔احراری اپنے جلسوں میں اس کا حوالہ بکثرت دینے لگے۔اور اپریل ۱۹۵۰ء میں راولپنڈی میں ہونے والے جلسے میں ہر مقرر نے اپیل کی کہ لوگ یہ کتابچہ ضرور پڑھیں۔اشتعال دلانے کیلئے ان کے جلسوں میں یہ اعلان بھی کئے جاتے کہ جو لوگ احمدیوں کو قتل کرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کرنا چاہتے ہیں وہ ہاتھ کھڑے کریں۔نتیجہ یہ نکلا کہ اِن کے جلسوں میں لوگ کھڑے ہو کر اپنے آپ کو پیش کرنے لگے کہ وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ اور حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کو قتل کرنے کو تیار ہیں۔ عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے بارہا اپنے جلسوں میں کھڑے ہو کر کہا کہ اگر بانی سلسلہ احمدیہ اُن کی زندگی میں دعویٰ کرتے تو وہ انہیں اپنے ہاتھوں سے قتل کر دیتے۔اس نفرت انگیز مہم کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب کے مختلف مقامات پر معصوم اور بے قصور احمدیوںکو شہید کرنے کا سلسلسہ شروع ہو گیا۔ احراریوں کی سازشوں کا دائرہ وسیع ہو رہا تھا۔(۳۱)دوسری جنگِ عظیم کے آغاز پر جب احرار نے کانگرس کے ساتھ مل کر فوجی بھرتی کے خلاف مظاہرے شروع کئے تو انگریز حکومت نے اُنہیں گرفتار کرنا شروع کر دیا اور سخت رویہ اپنالیا۔جب احراریوں نے حکومت کے یہ تیور دیکھے تو بہت سے احراریوںنے اپنی روایتی لال قمیصیں جلانی شروع کر دیں اور حکومت سے معافی مانگی کہ ہم آئندہ ایسی تحریک میں حصہ نہیں لیں گے۔اور تو اور جب عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ سرکاری رپورٹ بالکل غلط ہے ۔ میں تو عدم تشدد پر قائم رہنے کا عہد کر چکا ہوں اور کسی متشدد جماعت سے تعلق نہیں رکھتا ۔(۳۲،۳۳) جو شخص انگریز حکومت کے سامنے عدم تشدد کا پرچار کر رہا تھا ،آج معصوم احمدیوں کے قتل و غارت پر لوگوں کو اکسا رہا تھا۔
وقت کے ساتھ یہ بات بھی ظاہر ہوتی جا رہی تھی کہ یہ مہم صرف احراری نہیں چلا رہے ۔کچھ اور ہاتھ بھی اُن کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔گورنمنٹ کی مشینری کا ایک حصہ اِس وسیع سازش میں شامل تھا۔ کئی حکومتی کارندے جب احراریوں کے جلسوں کی رپورٹ دیتے تو اِس میں احراریوں کی طرف سے دی جانے والی قتل کی دھمکیاں اور دیگر خلافِ قانو ن حرکات کا ذکر حذف کر دیا جاتا ۔اور جب حضرت مصلح موعود ؓ کی تقریروں کی رپورٹیں بھجوائی جاتیں تو اُس میں خلافِ واقعہ باتیں شامل کردی جاتیں۔اِن حرکات کا مقصد یہی تھا کہ حکومتی عہدیدار مکمل طور پر جماعتِ احمدیہ کے خلاف ہو جائیں اور جب یہ ٹولہ جماعت کے خلاف ایک آخری ضرب لگائے تو کوئی اُن کی راہ میں حائل نہ ہو ۔مگر بعض شریف افسران ایسے بھی تھے جنہوں نے جراء ت کر کے اس تضاد کی نشاندہی کرنی شروع کر دی۔حضورؓ نے ۲۳ جون ۱۹۵۰ء کے خطبے میں ان امور کا ذکر فرمانے کے بعد جماعت کو دعاؤں اور زیادہ تندہی سے تبلیغ کرنے کی تلقین فرمائی۔حضورؓ نے تقسیم ِ ہند کے پُر آشوب دور کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا
’اس واقعہ کے بعد ہمیں سمجھ لینا چاہئیے تھا کہ ہمارا یہ خیال کہ ہم صاحبزادوں کی طرح اپنی زندگیاں گذاردیں گے۔اور گذشتہ نبیوں کی جماعتوں کے سے حالات میں سے نہیں گزریں گے محض ایک دھوکہ ہے۔مگر یہ نہایت ہی حیرت انگیز اور قابلِ افسوس بات ہے کہ میں اب بھی دیکھتا ہوں کہ بجائے اس کے کہ ہم میں اب یہ احساس پیدا ہو جاتا کہ ہمیں بھی آگ اور خون کی ندیوں میں سے گزرنا پڑے گا ہم اس واقعہ کو بھول گئے۔اور ،ہماری جماعت نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیںکیا ۔۔۔۔کس طرح پاکستان میں ہمارے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور مجلسوں میں لوگوں کو اکسایا جاتا ہے کہ وہ ہمارے آدمیوں کو قتل کردیں اور ہماری جا ئیدادوں کو لوٹ لیں۔اور دوسرے لوگوں کو یہ تحریک کی جاتی ہے کہ وہ اپنے مکانات پر نشانات لگا لیں تا قتلِ عام کے وقت انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔سارے پاکستان میں ایسا ہورہا ہے مگر کیا کسی نے اس پر نوٹس لیا ہے۔کیا تم اتنے بیوقوف ہو کہ اِن باتوں کو سمجھ نہیں سکتے۔کہ کسی وقت بھی ایسا ہو سکتا ہے ۔اور تمہیں اِن حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئیے۔گورنمنٹ بھی افراد سے بنتی ہے اور جو لوگ ہمیں گالیاں دیتے ہیں ان میں سے بعض گورنمنٹ کے رکن ہیں۔گورنمنٹ کا کام امن قائم کرنا ہے ۔گورنمنٹ کا کام اس قسم کے فتنوں کو دبانا ہے۔مگر وہ دیکھ رہی ہے اور اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتی ۔‘(۳۴)
خواجہ حسن نظامی کا انتباہ:
ان دنوں میں خواجہ حسن نظامی جو دہلی کے مسلمانوں میں ایک معتبر ہستی سمجھے جاتے تھے اور حضرت نظام الدین اولیاء کی درگاہ سے وابستہ تھے پاکستان آئے۔اور انہوں نے ایک جلسے میں خطاب کرتے ہوئے یہ معنی خیز بیان دیا
’مسلمانوں میں اتحاد کی سخت ضرورت ہے ۔ اس وقت مسلمانوں کے فرقوں شیعہ سنی حنفی وہابی مقلد غیر مقلد دیوبندی بریلوی قادیانی غیر قادیانی کا الجھاؤ پاکستان کے استحکام کے سخت خلاف ہے ۔اور جولوگ اِس وقت مسلمان فرقوں اور خصوصاََ قادیانیوں کے خلاف تقریریں کرتے پھرتے ہیں۔وہ بھارت کے ایجنٹ اور ہندوؤں کے تنخواہ دار ہیں۔‘
بھارت کے ایک مسلمان لیڈر کی زبان سے یہ بیان ایک خاص اہمیت رکھتا تھا۔ظاہرہے یہ سن کر مخالفینِ جماعت کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔انہوں نے اپنے اخبار میں شائع کیا کہ اصل میں خواجہ حسن نظامی کو قادیانیوں کے عقائد کی خبر ہی نہیں تھی۔جب انہیں اُن کے عقائد بتائے گے تو انہوں نے قادیانیوں کو بہت برا بھلا کہا۔یہ بات ہی خلافِ عقل تھی۔خواجہ صاحب عرصہ پچاس سال سے جماعت کوجانتے تھے بلکہ حضرت مسیح موعود ؑ اور حضرت مصلح موعودؓ سے ذاتی تعارف رکھتے تھے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ انہیں جماعت کے عقائد کا ہی علم نہ ہو ۔(۳۵)
اپنی کامیابیوں کے جھوٹے دعوے اور سیاست میں واپسی:
اب احراریوں نے اپنی تحریک کے کچھ نتائج بھی دنیا کے سامنے پیش کرنے تھے۔یہ بھی دکھانا تھا کہ اب تک ہماری تحریک نے احمدیت کی ترقی پر کیا اثرات ڈالے ہیں۔اس کے لئے بھی اُنہوں نے اپنے پرانے اور آزمودہ ہتھیار جھوٹ کا سہارا لیا۔چنانچہ ۶ جولائی ۱۹۵۰ء کو اِن کے اخبار آزاد نے بڑے فخر سے یہ خبر شائع کی کہ احراریوں کی چھ ماہ کی سرگرمیوں نے ساٹھ سالہ قادیانی قصر کو سر سے جڑ تک ہلا دیا ہے اور اِس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ مرزائیوں نے ربوہ کی تعمیر بالکل بند کردی ہے۔(۳۶)ایک تو یہ جھوٹ بولا اور پھر یہ بھول بھی گئے کہ ہم یہ جھوٹ بول چکے ہیں۔اِس کے چار روز بعد ہی اسی اخبار نے یہ خبر شائع کی کہ قادیانیوں کا عظیم الشان نیا مرکز بجلی کی رفتار سے تیار ہو رہا ہے۔اور تو اور اِس خبر میں ربوہ کا رقبہ بھی دس ہزار ایکڑ بیان کیا گیا جب کہ اصل میں یہ رقبہ ایک ہزار ایکڑ تھا۔(۳۷)اس کے علاوہ بعض احمدیوں کے ارتداد کی غلط خبریں بھی شائع کی گئیں تا کہ عوام الناس پر یہ تاثر ڈالا جا سکے کہ احرار کی شورش کو بہت کامیابی مل رہی ہے۔لیکن جماعتی جرائد بالخصوص الفضل میں ان خرافات کا موثر جواب شائع ہوتا رہا ۔جس سے کم از کم انصاف پسند طبقے پر حقیقت آشکار ہوتی رہی۔الفضل نے اِس پر آشوب دور میں جس دلیری کے ساتھ مخالفین کے تمام اعتراضات کا جواب دیا اور ا’ن کا تعاقب کیا،وہ تاریخِ احمدیت کا ایک درخشندہ باب ہے۔(۳۸)
جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد،اپنی ناکامیوں کے پیشِ نظر احرار نے اعلان کیا تھا کہ اب وہ سیاست سے دستبردار ہو رہے ہیں ۔اب اُن کی جماعت صرف ایک مذہبی جماعت کی حیثیت سے کام کرے گی۔لیکن یہ صرف ملمع سازی تھی۔انتخابات میں مسترد ہونے کے بعد وہ چور دروازے سے مذہب کا نام لے کر سیاسی دنیا میں داخل ہوناچاہتے تھے اور اِس غرض کے لئے جماعت کے خلاف یہ مہم چلائی جا رہی تھی۔مگر حقیقت زیادہ دیر چھپی نہیں رہ سکتی تھی۔چنانچہ دسمبر ۱۹۵۰ء میں ملتان میں اِنہوں نے ایک بڑی کانفرنس کا اہتمام کیا۔جب احراریوں کے امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب اِس کانفرنس میں آئے تو لوگوں کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اُنہوں نے لال قمیص پہنی ہوئی تھی جو اُن کی سیاسی سرگرمیوں کی علامت تھی۔لوگوں نے دریافت کیا کہ آپ نے تو سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کر دیا تھا ۔اِس پر بخاری صاحب نے مسکرا کر کہا کہ
’ ابھی تو میں زندہ ہوں اور یہ قمیص میری سیاسی زندگی کا نشان ہے ۔سیاست مذہب کا جزوہے اور ہم نے تو صرف الیکشنوں سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔‘(۳۹)
احمدیوں کی تبلیغ پر پابندی لگانے کا مطالبہ:
مخالفینِ سلسلسہ بالعموم دلائل سے مقابلہ کرنے سے کتراتے ہیں۔کیونکہ اُن کے پاس جماعت کے دلائل کا جواب نہیں ہوتا ۔اِس لئے اُن کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ کسی طرح جماعتِ احمدیہ کی تبلیغ پر پابندی لگ جائے۔یعنی وہ تو جتنا چاہیں زہر اگلیں لیکن احمدیوں کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہئیے کہ وہ اُن کا جواب دیں۔یا اپنے عقائد کے حق میں دلائل دیں۔چنانچہ اسی کانفرنس میں بڑے زور سے یہ مطالبہ پیش کیا گیا
’گورنمنٹ کے بعض افسر اور بعض تعلیمیافتہ حضرات کو اکثر یہ کہتے سنا گیا ہے کہ آخر مسلمانوں کی طرح مرزائیوں کو بھی تبلیغ کا حق حاصل ہے ۔میں اِن لوگوں کی توجہ کے لئے پوری ذمہ داری سے علی الاعلان کہتا ہوں انہیں غور سے سن لینا چاہئیے کہ مسلمانوں کی سلطنت میں یہودی اور عیسائی اپنے خیالات کی تبلیغ کر سکتا ہے۔اور دوسرے کافروں کو بھی اجازت دی جا سکتی ہے۔مگر یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اسلامی سلطنت میں ایک مرتد کو بھی کفر و ارتداد کی تبلیغ کی اجازت دی جائے۔‘
اس جلسے میں شرکاء سے کہا گیا کہ وہ کسی مقام پر بھی احمدیوں کا جلسہ نہ ہونے دیں۔(۴۰) گویا اِن کے نزدیک یہودی اور عیسائی تو پاکستان میں مسلمانوں کو یہودی یا عیسائی بنا سکتے ہیں۔لیکن احمدی تبلیغ نہیں کر سکتے کیونکہ اگر لوگ احمدی ہوں گے تو یہ کفر و ارتداد ہو گا ،جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔لیکن یہ بات نا قابلِ فہم ہے کہ اگر مسلمان اپنامذہب تبدیل کرکے عیسائی یا یہودی بن جائیں گے تو یہ احرار کے نزدیک کیا ارتداد نہیں ہوگا بلکہ عین اسلام کے مطابق ہوگا۔اور اِس کے نتیجے میں اُن کے کان پر جوں بھی نہیں رینگے گی۔
جب جماعت کے خلاف اِس قسم کی تحریک کا آغاز ہوتا ہے تو جلد دوسرے گروہ بھی اِس میں شامل ہونے لگتے ہیں اور احمدیت کے خلاف اپنی سرگرمیاں تیز کر دیتے ہیں۔اِس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ تاکہ وہ بھی اِس آڑ میں اپنے سیاسی مقاصد حاصل کریں ۔چنانچہ ۱۹۵۱ء میں بھی یہی تاریخ دہرائی جا رہی تھی۔جماعتِ اسلامی کا جماعت ِ احمدیہ سے ایک بنیادی نظریاتی اختلاف تھا۔جماعتِ احمدیہ کا پختہ ایمان ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مہدی کی آ مد کے متعلق جو پیشگوئیاں فرمائیں وہ بر حق ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات میں وہ پیشگوئیاں پوری ہو کر ایک نشان بن گئیں۔مہدی کی آ مد کے متعلق پیشگوئیوں کے بارے میںجماعت ِ اسلامی کے بانی مودودی صاحب ایک مخمصے میں مبتلا رہے ۔اپنی تحریروں میں ایک طرف تو وہ ان پیشگوئیوں کو غیرمعتبر قرار دیتے ہیں اور ان پیشگوئیوں کے مسلمانوں کے نظریات کے متعلق تمسخر کرتے ہیں۔اور یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ پیشگوئیاں چونکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نہیں اس لئے قابلِ اعتبار نہیں اور دوسری طرف اس خیال کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ آنے والا مہدی اپنی طرز کا جدید ترین لیڈر ہو گا ۔ وقت کے تمام علوم ِجدیدہ پر اسے مجتہدانہ بصیرت حاصل ہو گی۔جنگی مہارت ایسی حاصل ہو گی کہ وہ اپنی جنگی مہارت کا تمام دنیا پر سکہ بیٹھا دے گا ۔بہت جدید خیالات کا حامل ہو گا ۔آمدِ مہدی کے متعلق مسلمانوں میں رائج خیالات پر طنز کرتے ہوئے اوران خیالات کا مذاق اُ ڑاتے ہوئے مودودی صاحب مہدی کے متعلق لکھتے ہیں
’تلوار تو محض شرط پوری کرنے کے لیے برائے نام چلانی پڑے گی۔اصل میں سارا کام برکت اور روحانی تصرف سے ہو گا پھونکوں اور وظیفوں سے میدان جیتے جائیں گے۔‘
گویا مودودی صاحب کے نزدیک اصل مقصد تو تلوارچلانا ہے ۔اور پھر لکھتے ہیں
’مہدی کے کام کی نوعیت کا تصور جو میرے ذہن میں ہے وہ بھی ان حضرات کے تصور سے بالکل مختلف ہے مجھے اس کے کام میں کرامات و خوارق کشوف و الہامات اور چلوں اور مجاہدوں کی کوئی جگہ نظر نہیں آ تی ۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک انقلابی لیڈر کو دنیا میں جس طرح شدید جد و جہد اور کشمکش کے مرحلوں سے گذرنا پڑتا ہے انہی مرحلوں سے مہدی کو بھی گذرنا پڑے گا۔‘
یہ بات واضح ہے کہ مودودی صاحب کے ذہن میں یہ تصور بیٹھا ہؤا ہے کہ آنے والا مہدی کشوف و الہامات کی نعمت سے نا آشنا ہو گا اور تلوار تو خوب چلائے گا لیکن اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے مجاہدوں کی تکلیف کبھی گوارا نہیں کرے گا۔گویا نہ رسولِ کریم ﷺ کی اتباع کرے گا اور نہ ان نعمتوں سے کوئی حصہ پائے گا جو آپ ﷺ کو عطا ہوئی تھیں۔وہ یہ ذکر نہیں کرتے کہ وہ لوگوں کا تزکیہ نفس بھی کرے گا کہ نہیں یا اسلام کی تبلیغ کی طرف بھی کچھ توجہ ہو گی کہ نہیں۔قرآنی معارف اور علوم سے انسانیت کو بہرہ ور کرے گا کہ نہیں۔ان کے ذہن میں تو صرف یہ خیال بسا ہؤا ہے کہ وہ ایک سیاسی لیڈر ہو گا اور اپنی عسکری صلاحیتوں کا سکہ بٹھا دے گا اور بس۔
لیکن مودودی صاحب کا خیال تھا کہ نہ صرف کہ وہ اپنے مہدی ہونے کا اعلان نہیں کرے گا بلکہ اسے اپنے مہدی ہونے کی کوئی خبر نہ ہو گی۔دنیا اس کی موت کے بعد خود ہی اس راز سے پردہ ہٹائے گی کہ یہ مہدی تھے ۔یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ دنیا کو اُس کی موت کے بعد تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ مہدی تھے ،اس کی زندگی میں جب کہ اس کے تمام کارنامے سامنے نظر آ رہے ہوں گے ،اس وقت دنیا اس بات سے کیوں بے خبر رہے گی کہ مہدی ان کی نظروں کے سامنے موجود ہے۔اور یہ بھی ایک معمہ ہے کہ وہ جنگی مہارت میں تو بے نظیر ہو گا مگرکیا اسے رسول ِ کریم ﷺ کی پیشگوئیوں کی کچھ خبر نہ ہو گی ۔دنیا کو تو علامات سے پتہ چل جائے گا کہ ان پیشگوئیوں کا مصداق یہ شخص ہے لیکن وہ تمام عمر اس سے بے خبر رہے گا اور اسی عالم میں اُس کا انتقال ہو جائے گا(۴۱)۔ان کے بہت سے ہم عصر علماء نے مودودی صاحب کے ان خیالات سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ مودودی صاحب خود مہدی بننے کے لئے راستہ ہموار کر رہے ہیں۔مثلاََ محمد ذکریا صاحب لکھتے ہیں۔
’ مودودی صاحب دل سے مہدی بننا چاہتے ہیں اور مقتدیانہ سیرت سے ا پنی لیڈری کی وجہ سے عاجز ہیں۔‘(۴۲)
یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ان خیالات کی وجہ سے مودودی صاحب اور ان کے ہمنوا جماعت ِ احمدیہ سے شدید بغض رکھتے تھے ۔جماعت ِ احمدیہ تو ایسے مہدی اور مسیح پر ایمان لاتی ہے جس نے دعاؤں اور مجاہدوں کے ذریعہ ایک ایسا جہاد کرنے کی تلقین کی جس میں غیروں کو قرآنی معارف اور دلائل سے قائل کیا جائے ۔اور انہی دلائل اور خوارق کے ہتھیاروں سے باطل کا استیصال کیا جائے۔اور یہ تبلیغ بھی نرمی اور عاجزی سے کی جائے۔
پاکستان بننے سے قبل وہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان کی حکومت ایک کافرانہ حکومت ہی ہو سکتی ہے۔پاکستان بننے کے بعد انہوں نے حصولِ اقتدار کے لئے اعلان کیا کہ جماعتِ اسلامی پاکستان میں حکومتِ الہیٰ قائم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔اس بنیاد پر انتخا بات میں حصہ لیا تو ایک نشست بھی نہ ملی ۔پہلے جماعتِ اسلامی کے دستوری مطالبات کے آٹھ نکات تھے ۔ابھی انہوں نے جماعت کے خلاف اپنے عزائم کھلم کھلا ظاہر نہیں کئے تھے۔جب اُنہیں نظر آیا کہ جماعت کی مخالفت کا طوفان اُٹھ رہا ہے اور اب وقت ہے کہ مسئلہ ختمِ نبوت کی آڑ لے کر سیاسی فوائد حاصل کئے جائیںتو ان مطالبات میں ایک اورکا اضافہ کر کے جماعت کے مخالف شق بھی اپنے مطالبات میں شامل کر لی۔اور احرار کے شانہ بشانہ جماعت کے خلاف شورش برپا کرنے لگے۔خاص طور پر حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ کی شخصیت ان کے حملوں کا نشانہ بن رہی تھی۔جماعتِ اسلامی کی مجلسِ عاملہ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ چوہدری ظفراللہ خان صاحب کو وزارتِ خارجہ سے ہٹایا جائے اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ ملک کی بڑی اکثریت کو ان پر اعتماد نہیں (۴۳)۔یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ اُن کے نزدیک حضرت چوہدری صاحب کو تو اس لئے برطرف کر دینا چاہئیے تھا کیونکہ ان کا دعویٰ تھا کہ ملک کی اکثریت کو ان پر اعتماد نہیںہے۔لیکن جماعتِ اسلامی کی اپنی مقبولیت کا یہ حال تھا کہ انتخابات میں انہیں ایک بھی نشست نہیں ملی تھی ۔مگر عوامی حمایت سے محروم ہونے کے باوجود وہ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں اختیار ہے کہ ملک کے متعلق ہر فیصلہ وہ کریں اور حکومت انہیں تسلیم نہ کرے تو پھر شورش کا راستہ اختیار کریں۔بہر حال مصلحتِ وقت ہمیشہ جماعتِ اسلامی کے اصولوں کو بدلتی رہی ہے۔۱۹۵۲ء میں انہوں نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اسلامی قانون پہلے نافذ ہونا چاہئیے اور اس کے ساتھ ہی احمدیوں کو ذمی اقلیت قرار دینا چاہئیے۔لیکن ۱۹۷۴ء میں انہوں نے اس اصول کو بھی الوداع کہہ دیا اور جبکہ اس وقت ان کے نزدیک اسلامی قانون نافذ نہیںہؤا تھا بلکہ اس پارٹی کی حکومت تھی جن کے لیڈروں کے متعلق جماعتِ اسلامی کا دعویٰ تھا کہ وہ اسلام سے بالکل لا تعلق ہیں۔لیکن اس حالت میں انہوں نے اسلامی قانون کے مطالبے پر زور دینے کی بجائے احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی حمایت کی۔
جولائی ۱۹۵۲ء میں جماعتِ اسلامی کی مجلسِ شوریٰ میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں احمدیوںکو ایک ذمی اقلیت قرار دینے کی حمایت کی گئی۔اور ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ خالص اسلامی دستور نافذکیا جائے اور اس میں مسلم اور ذمی کی تعریف کی جائے۔اس طرح قادیانیوں کی جدا گانہ حیثیت واضح ہو جائے گی۔اسی قرارداد میں یہ الزام لگایا گیا کہ مسلم لیگ قادیانیوں کی پشت پناہی کر رہی ہے(۴۳)۔مسلم لیگ پر نیش زنی کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کے خلاف شورش برپا کرنے کا اصل مقصد حصولِ اقتدار تھا ۔اگر ان کے مطالبات تسلیم کر لئے جاتے لیکن ایوانِ اقتدار پر قبضہ نہ ہوتا تو ان کے اصل مقاصد حاصل نہ ہوتے ۔اس لئے احمدیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے علاوہ بر سرِ اقتدار پارٹی پر الزام تراشی کرنا بھی ضروری تھا۔
دعاؤں کی تحریک:
اس مرحلے پر جماعت احمدیہ ہر ممکن طریق پر دلائل سے مخالفین کی نیش زنی کا جواب دے رہی تھی تا کہ کم از کم شرفاء کا طبقہ اِن کی افترا پردازیوں سے متاثر نہ ہو ۔حکومت کو بھی ان کی شرارتوں سے مطلع رکھا جا رہا تھا ۔لیکن یہ تو ظاہری تدابیر تھیں۔ہر ابتلاء میں جماعت کا سب سے اہم ہتھیار دعا ہی رہا ہے ۔چنانچہ حضورؓ نے جماعت کو دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا :۔
’ہماری جماعت پر بھی یہ مصائب مختلف رنگوں اور مختلف زمانوں میں آئے ہیں۔ہم پر وہ وقت بھی آیا جب ہماری مخالفت اتنی شدید ہو گئی کہ اس کا مقابلہ ہماری طاقت سے بالا تھا۔ایسے موقع پر ہم نے ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور اسی سے مدد مانگی ۔اور جب ہماری دعائیں اور گریہ و زاری اس مقام پر پہنچ گئی۔جب عرش بھی ہل جایا کرتا ہے تو وہ سنی گئیں اور مخالفت ھَبَائً مُنْبِثًّا ہو کر رہ گئی۔یہ زمانہ بھی ہم پر ایسا آرہا ہے۔جب اندونی اور بیرونی طور پر اور نیز بعض حکام کی طرف سے بھی اور رعایا کی طرف سے بھی۔ علماء کی طرف سے بھی اور امراء کی طرف سے بھی غرض ہر جتھہ اور ہر گروہ میں ایک حصہ ایسا ہے جو احمدیت کی مخالفت پر تلاہؤا ہے ۔بہت سی باتیں تم جانتے بھی نہیں اور بہت سی باتیں ہم تمہیں بتانا بھی نہیں چاہتے۔اس لئے اگر ان باتوں کو ظاہر کیا جائے تو ہمارے مقابلہ کی طاقت کمزور پڑ جائے گی۔۔۔اس قسم کے نازک مواقع پر میں جماعت کو اتنے حصہ میں شریک کرتا رہا ہوں۔کہ میں انہیں دعا کی طرف تحریک کیا کرتا ہوں۔اور مخلصین نے ہمیشہ میری اِس تحریک کو قبول کیاہے۔‘
اس کے بعد حضورؓ نے جماعت کو چالیس روز کے لئے خاص دعاؤں کی تحریک فرمائی اور فرمایا کہ اس دوران احمدی سات روزے رکھیں۔اور نوافل اور تہجد میں خاص طور پر سلسلے کے لئے دعائیں کریں۔(۴۴)
پنجاب مسلم لیگ کے اراکین کی مخالفت:
مارچ ۱۹۵۱ء میں پنجاب میں انتخابات کا عمل مکمل ہؤا اور ممتاز دولتانہ صاحب پنجاب کے نئے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئے۔۶ اکتوبر ۱۹۵۱ء کو راولپنڈی کے ایک جلسہ عام میں وزیرِ اعظم لیاقت علی خان صاحب ایک قاتل کی گولی کا نشانہ بن گئے اور خواجہ ناظم الدین صاحب کو ملک کا نیا وزیرِ اعظم منتخب کر لیا گیا۔لیکن دولتانہ صاحب کے سیاسی عزائم بلند تھے ۔اب اُن کی نظریں ملک کے سب سے بڑے عہدے پر تھیں۔لیکن یہ خواہش اُس وقت تک پوری نہیں ہو سکتی تھی جب تک مرکز میں وزیرِاعظم خواجہ ناظم الدین صاحب کی حکومت مستحکم تھی۔دولتانہ صاحب نے سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کا ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا لیکن ابھی یہ حقائق پردے میں تھے۔البتہ اُن کے منتخب ہونے کے ساتھ یہ تبدیلی ضرور نظر آنے لگی کہ مسلم لیگ کے ممبرانِ صوبائی اسمبلی اب احرار کے جلسے جلوسوں میں بینڈ باجوں کے ساتھ شرکت کر رہے تھے۔ پنجاب کے اعلیٰ سرکاری افسران بھی جماعت کے خلاف ہونے والے جلسوں کی صدارت کرنے لگے۔ایک سے زیادہ مرتبہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر نے ان جلسوں کی صدارت کی اور ان جلسوں میں یہاں تک الزامات لگائے گئے کہ احمدیوں نے وزیرِ اعظم کا قتل کرایا ہے۔اب احرار کے مطالبات میں بھی شدت آتی جا رہی تھی ۔وہ یہ مطالبہ تو کر رہے تھے کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دیا جائے لیکن اس کے ساتھ یہ راگ بھی الاپنے لگے تھے کہ احمدیوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دینا چاہئیے۔اب احراری دفاعِ پاکستان کے نام پر جلسے کر کے چندے جمع کر رہے تھے اور ان جلسوں میں بھی اصل موضوع جماعت احمدیہ کی مخالفت ہی ہوتا تھا۔(۴۵)تشدد کے اس پرچار کا یہ اثر ہؤا کہ سمندری میں جماعت کی ایک چھوٹی سی مسجد پر احراریوں نے حملہ کیا اور وہاں پر موجود احمدیوں کو زد و کوب کرنے کے بعد مسجد کو آگ لگا دی۔(۴۶) ظاہری طور پر پنجاب مسلم لیگ کے اراکین کو اس سے روکنے کے لئے ایک دو سرکلر بھی کئے گئے مگر در پردہ اِن کی حوصلہ افزائی کی جا رہی تھی۔
احرار کا جھوٹا پروپیگنڈا:
جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ مخالفینِ سلسلہ کے نزدیک جھوٹ بولنا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔اور نہ ہی اس سے اُن کے ضمیر پر کوئی بوجھ پڑتا تھا۔وہ اپنے جلسوں میں حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب کا صفحہ نمبر سمیت حوالہ پڑھتے اور اُس صفحے پر وہ فقرات تو درکنار اُس موضوع کا بھی نام و نشان نہ ہوتا۔اور یہی تقریریں اُن کے اخبارات بھی اسی طرح شائع کر دیتے۔یا پھر اس طرح کی تحریف کرتے جیسا کہ ملتان کانفرنس میں اُن کے ایک مولوی نے بڑے زور سے دعویٰ کیا کہ مرزا صاحب نے اپنی کتاب نورالحق کے صفحہ ۱۲۱ پر کہا ہے کہ جو شخص میری تحقیر کرے اُس پر ہزار بار *** ۔جب کہ اِس مقام پر حضرت مسیح موعودؑ نے تحریر فرمایا تھا کہ جو دشمنانِ اسلام اِن دلائل کا رد نہ لکھ سکیں اور پھر بھی توہینِ قرآنِ کریم کی عادت کو نہ چھوڑیں اور نہ رسول اللہ ﷺ کی دشنام دہی سے باز آئیں اور نہ اس بیہودگی سے اپنے تئیں روکیں کہ قرآنِ کریم فصیح نہیں ہے اور نہ توہین اور تحقیر کے طریق کو چھوڑیں ان پر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہزار *** ہے۔صاٖ ف ظاہر ہے کہ اِن دونوں باتوں میں بہت فرق ہے۔نہ معلوم کہ جب اُن لوگوں پر *** کی گئی جو رسول کریم ﷺ کے متعلق دشنام دہی سے کام لیتے ہیں تو احراری کیوں سیخ پا ہو گئے۔اسی جلسے میں ایک مقرر نے حوالہ پیش کیا کہ مرزا صاحب نے انوارالاسلام کے صفحہ ۳۳ پر لکھا ہے کہ جو شخص میری صداقت کا قائل نہیں ہے تو اسے صا ف سمجھ لینا چاہئیے کہ وہ ولد الحرام ہے ۔پھر اس کے بعد حاضرین کو اشتعال دلایا کہ مرزا صاحب نے تمہیں ولدالحرام لکھا ہے ۔حالانکہ مذکورہ صفحے پر اس جملے کا نام و نشان تک نہیں ۔ (۴۷)اب انہوں نے جعلی اشتہارات شائع کرنا شروع کر دیئے۔ظاہر کیا جاتا تھا کہ یہ اشتہار کسی احمدی نے لکھا ہے اور اصل میں ان کو احراری لکھتے تھے اور وہی تقسیم کرتے تھے۔ان میں جماعت کے عقائد کو غلط رنگ میں پیش کیا جاتا تھا اور ایسی باتیں درج کر دی جاتی تھیں جن سے لوگوں میں احمدیوں کے خلاف اشتعال پھیلے۔الفضل میں ان کے فریب کی حقیقت شائع کی گئی مگر یہ لوگ اُس مٹی سے نہیں بنے ہوئے تھے جو اپنا جھوٹ کھلنے پر شرمندگی محسوس کرتے۔(۴۸،۴۹)
مخالفت کے لئے اخباراور علماء خریدے جاتے ہیں:
اُس دور میں ریڈیو اور ٹی وی جیسے ذرئع تو ابھی عام نہیں ہوئے تھے۔پروپیگنڈا کا بہترین ذریعہ اخبار ہؤا کرتے تھے۔احراریوں کا سہ روزہ آزاد تو مخالفت میں مادر پدر آزاد ہونے کا ثبوت دے رہا تھا۔لیکن اس کے ساتھ بعض دوسرے اخبارات بھی احمدیت کے خلاف شر انگیزی میں شامل ہو گئے۔یہ صرف کسی نظریاتی یا مذہبی اختلاف کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ حکومتِ پنجاب ان اخبارات کو اس کام کے عوض خاطر خواہ مدد مہیا کر رہی تھی۔اور یہ مدد ر ازداری کے ساتھ تعلیمِ بالغاں کے فنڈ سے نکال کر ان اخبارات کو دی جا رہی تھی۔اور بعد میں تحقیقاتی عدالت نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اخبارات میں سے زمیندار،احسان ،مغربی پاکستان اورآفاق نے خطیر رقوم وصول کیں اور یہی اخبارات اس شورش کو سب سے زیادہ ہوا دے رہے تھے۔اور آفاق اخبار نے تو جون ۵۲ میں لکھا کہ ہمارا اخبار فرقہ واریت کے خلاف ہے اور پھر گورنمنٹ سے رقم وصول کر کے ایک ماہ کے بعد ہی جماعت احمدیہ کے خلاف لوگوں کو بھڑکانا شروع کر دیا۔اور اس کی کاپیاں مساجد میں مفت تقسیم کی گئیں۔ زمیندار کے ایڈیٹر اختر علی خان صاحب احمدیت کے پرانے دشمن ظفر علی خان صاحب کے بیٹے تھے ۔وہ اس رشوت کے حصول سے اتنے خوش ہوئے کہ اپنے اخبار میں یہ اعلان نکلوا دیا،
’کوئی مانے یا نہ مانے مگر ہے یہ حقیقت کہ جب سے مرزا بشیرالدین نے اپنی بددعاؤں کا سلسلہ اخبار زمیندار کے خلاف جاری کررکھا ہے،تب سے خدائے محمد مصطفیٰ و احمد مجتبیٰ صلعم کی غیرت جوش میں آ چکی ہے۔آج زمیندر کے وارے نیارے ہیں۔ وہ لاکھوں میں کھیلتا ہے اور ہزاروں کی خیرات کرتا ہے۔اس کے خزانہ میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔‘(۵۰)
یہ وارے نیارے کس طرح ہو رہے تھے اس کا عقدہ تو تحقیقاتی عدالت میں کھلا۔
البتہ پاکستان ٹائمز ،سول اینڈ ملٹری گزٹ، ڈان، نوائے وقت اور امروز نے اُس وقت جماعت کے خلاف مہم میں حصہ نہیں لیا۔یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بہت سے اخبار نویسوں نے شرافت کا ثبوت دیتے ہوئے کھلم کھلا احراریوں کی مذمت کی اور حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔اس کے علاوہ دولتانہ صاحب کی حکومت نے محکمہ اسلامیات کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ۔اور اس کے تحت کچھ علماء کو بظاہر اِس غرض کے لئے معاوضے پیش کئے کہ ان سے کالجوں اور جیلوں میں لیکچر دلوائے جائیں گے ۔تحقیقاتی عدالت میں یہ بات ثابت ہوئی کہ جن علماء کو نوازا گیا تھا ان کی اکثریت نے جماعتِ احمدیہ کے خلاف تحریک میں سرگرمی کے ساتھ کام کیا۔ایک طرف تو دولتانہ صاحب یہ اظہار کر رہے تھے کہ احرار پر نظر رکھی جائے گی اور دوسری طرف وہ حکومت کی رقم جماعت کے خلاف مخالفت کی آگ بھڑکانے کے لئے بے دریغ خرچ کر رہے تھے۔دولتانہ صاحب اِن چالوں سے اپنا سیاسی قد بڑھانا چاہ رہے تھے ۔یہ پاکستان کا المیہ ہے کہ اہلِ پاکستان کے ٹیکس کی رقوم کو ا’ن ہی کے ملک میں منافرت اور فساد پھیلانے کے لئے استعمال کیا گیا ۔(۵۱)
فرقہ واریت کا دائرہ پھیلنا شروع ہوتا ہے:
ایک طرف تو جماعتِ احمدیہ کے خلاف ہر قسم کا پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا ،دوسری طرف پوری کوشش کی جا رہی تھی کہ احمدیوں کی آواز کو دبا دیا جائے۔جب بھی جماعت کی طرف سے کوئی جلسہ منعقد کیا جاتا ،مخالفین اِ س کو رکوانے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔ چنانچہ جب فروری ۱۹۵۲ء میں سیالکوٹ کی جماعت نے اپنا جلسہ منعقد کیا تو مخالفین لاؤڈ سپیکروں پر اعلان کرتے ہوئے آئے کہ وہ یہ جلسہ نہیں ہونے دیں گے۔اور جلسہ گاہ پر حملہ آور ہوتے رہے۔پولیس نے حملہ آوروں کو روکا۔ان کے پتھراؤ سے چالیس پچاس آدمی زخمی ہو گئے۔پھر بلوائیوں نے شہر میں ہلڑ بازی کی اور جلسے سے لوٹنے والے احمدیوں پر پتھراؤ کر دیا ۔
جب گھر کے ایک حصے کو آگ لگے تو یہ آگ وہیں تک محدود نہیں رہتی بلکہ دوسرے حصوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔اب یہ واقعات احمدیوں تک محدود نہیں رہے تھے ۔بلکہ دوسرے فرقے بھی اس قسم کے واقعات کا نشانہ بن رہے تھے۔اسی طرح کے حملے شیعہ مجالس پر بھی شروع ہو گئے تھے۔(۵۲)اس معاملے میں پہلے ہی سی آئی ڈی حکومت کو رپورٹ دے چکی تھی کہ بات صرف احمدیوں تک محدود نہیں رہی بلکہ شیعہ سنی اور وہابی سنی اختلافات بھی بڑھ کر امن کے لئے خطرہ بن رہے ہیں۔اور مختلف فرقوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے پنجاب میں اضطراب بڑھ رہا ہے۔(۵۳)افسوس کہ وقت پر اِن خطرات کو محسوس نہیں کیا گیا۔جماعتِ احمدیہ تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں تھی لیکن احمدیت کی مخالفت کی آڑ میں فرقہ واریت اور تعصب کے ایسے خطرناک بیج بوئے گئے ،جن کا نتیجہ پاکستان کے عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔
اس ماحول میں جب مخالفین احمدیوں کے ارتداد کی جھوٹی خبریں شائع کر رہے تھے ۔سعید روحیں احمدیت کی آغوش میں پناہ لے رہی تھیں اور احراریوں میں سے بھی کچھ لوگ جب اُن کی اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں دیکھتے توبیزار ہو کر ان کا ساتھ چھوڑتے اور احمدیت میں داخل ہو جاتے۔(۵۴)کئی ایسے محبِ وطن افسران بھی تھے جو اِس سازش کی تہہ تک پہنچ کر حکومت کو خبردار کر رہے تھے۔اُن کی رائے تھی کہ احمدیوں کے خلاف تحریک چلانے والے بیرونِ ملک عناصر سے ساز باز رکھتے ہیں ۔ جب احراریوں کے ایک جریدے شعلہ نے احمدیوں کے خلاف زہر چکانی کی تو ایک ڈی آئی جی نے حکامِ بالا کو یہ رپورٹ بھجوائی
’سی آئی ڈی اِس اخبار کے ایڈیٹر عبد الرشید اشک سے واقف ہے ۔بہت سے دوسرے احراریوں کی طرح یہ بھی کانگرسی ہے۔۱۹۴۷ء میں یہ شخص پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ کے ماتحت نظر بند کر دیا گیا تھا کیونکہ یہ بھارت کے سیاسی ورکروں کے ساتھ سازباز رکھتا تھا۔۔۔۔احراریوں کو یہ احساس ہے کہ مسلم لیگ اُن کی پشت پر ہے ۔ورنہ اِن کا ماضی اسقدر تاریک ہے کہ انہیں کبھی سیاسی میدان میں داخل ہونے کی جرأ ت نہیں ہو سکتی تھی۔یہ کانگرس کے پٹھو تھے اور ان میں سے بعض اب بھی کا نگرس کے ہی وفادار ہیں۔ مشہور احراری حبیب الرحمن تقسیم کے بعد اِس صوبے کو چھوڑ کر بھارت چلا گیا۔بعض احراری اپنے دلوں کی گہرائیوں میں اب تک پاکستان کے غدار ہیں۔‘ (۵۵)
کراچی میں جماعتِ احمدیہ کاجلسہ اور حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان ؓ صاحب کی تقریر:
مئی ۱۹۵۲ء میں کراچی میں جماعتِ احمدیہ کا جلسہ تھا۔اور اِس میں چوہدری محمدظفراللہ خان صاحب ؓ نے بھی ’اسلام زندہ مذہب ہے ‘کے عنوان پر تقریر کرنی تھی۔ایک بار پھر مخالفین نے طوفان اُٹھا دیا کہ پاکستان کا وزیرِ خارجہ جماعت ِ احمدیہ کے جلسے پر تقریر کیسے کر سکتا ہے۔وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین صاحب نے اِس بات کو پسند نہیں کیا کہ حضرت چوہدری صاحب جماعت کے جلسے پر تقریر کریں۔ یہ بات قابل ِتوجہ ہے کہ اُس وقت بھی حکومتی پارٹی کے اہم اراکین جماعت کے خلاف ہونے والے جلسوں کی صدارت کر چکے تھے ۔اُن کی طرف سے جماعت کے عقائد کے خلاف بیان بازی اِس کے بعد بھی شدت سے جاری رہی۔اور تو اور ایک طبقہ جس میں وزیر ِاعلیٰ پنجاب سب سے پیش پیش تھے، سرکاری اموال کو جماعت کے خلاف تحریک چلانے والوں کی اعانت کے لئے بھی خرچ کر رہا تھا۔لیکن اگر اعتراض تھا تو چوہدری صاحب کی تقریر پر تھا۔حضرت چوہدری صاحب نے وزیرِ اعظم صاحب کو جواب دیا کہ اب تو میں تقریر کرنے کا وعدہ کر چکا ہوں لیکن اگر آپ کو یہ بات ناپسند ہے تو میرا استعفیٰ حاضر ہے۔اس تقریر میں حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے بیان فرمایا کہ قرآن آخری الہامی کتاب ہے اور یہ عالمِ انسانیت کے لئے آخری ضابطہ حیات مہیا کرتا ہے۔اور اسلام کی ختمیت اور برتری بیان فرمائی۔اور فرمایا کہ رسو ل اللہ ﷺ کے وعدے کے مطابق ایسے اشخاص آتے رہیں گے جو تجدیدِ دین پر مامور ہوں۔اور تقریر کے آخر میں کہا کہ احمدیت ایک ایسا پودا ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود لگایا ہے ،اگر یہ پودا اکھیڑ دیا گیا تو اسلام ایک زندہ مذہب کی حیثیت سے باقی نہ رہے گا اور دوسرے مذاہب پر اپنی برتری کے ثبوت مہیانہ کر سکے گا۔(۵۶)
جیسا کہ توقع تھی مخالفین نے اس جلسے کے موقع پر بھی فتنہ و فساد برپا کرنے کی کوشش کی۔جلسے کے ارد گرد بلوائیوں کا ایک ہجوم جمع ہو گیا۔اُنہوں نے آوازے کسے،گندی اور فحش گالیاں دیں، اشتعال انگیز نعرے لگائے،تالیاں پیٹیں اور سیٹیاں بجائیں۔اس کے علاوہ ناچنے کودنے کے مناظر بھی نظر آئے۔جب اس پر بھی دل نہیں بھرا تو جلسہ گاہ میں داخل ہو کر فساد کی کوشش کی اور بجلی کے تار کاٹ دیئے۔اس پر پولیس نے انہیں جلسہ گاہ سے باہر نکال دیا تو پتھراؤ کا آغاز کر دیا گیا۔ جب مقررین ،اسلام اور قرآنِ کریم کے فضائل بیان کر رہے تھے تو باہر ان اخلاق کا مظاہرہ ہو رہا تھا۔ دوسرے روز جب پھر فسادات شروع ہوئے تو پولیس کو اشک آور گیس استعمال کرنی پڑی۔ کراچی شہر میں بھی احمدیوں کی املاک پر کئی حملے کئے گئے اور بعض عمارات کو آگ لگا دی گئی۔(۵۷) جماعت کے خلاف شورش کا اصل چہرا اب واضح نظر آ رہا تھا۔
بیرونی ہاتھ:
اس واقعے کے بعدکرا چی کے کمشنر نقوی صاحب نے پریس کانفرنس میں کہا کہ احمدی بھی پاکستانی ہیں اور جب تک وہ قانون کی پابندی کرتے ہیں انہیں جلسے کرنے کا پورا حق ہے۔کراچی میں کسی آدمی کو اِس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر امن شکنی کرے۔ (۵۸) سول اینڈ ملٹری گزٹ اور ڈان جیسے اخبارات نے فساد کرنے والوں کی شدید مذمت کی اور حضرت چوہدری صاحب کی ذات پر حملوں کوشرمناک قرار دیا۔کراچی کے ایک ہفت روزہ سٹار نے ۲۴ مئی کی اشاعت میں ۔ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا ’غیر ملکی ہاتھ،کراچی کا بلوہ کس نے کرایا ‘۔اس اشارے کا مطلب تھا کہ ان فسادات کے پیچھے کسی بیرونی طاقت کی سازش کارفرما ہے۔ مئی ۱۹۵۲ء میں ہی پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے ایک یادداشت بھجوائی جس میں اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ احرار آزادی کے معاََ بعد ایسے شخص سے ساز باز کر رہے تھے جو بعد میں بھارت چلا گیا ۔اور اُس وقت بعض احراریوں کو کانگرس کے نمایاں سیاستدانوں نے جائیددا کی صورت میں فوائد بھی پہنچائے تھے۔(۵۹)
بہتر فرقے اکھٹے ہوتے ہیں:
ان واقعات کے بعد احرار نے اپنی کاوشوں کو مزید تیز کر دیا۔مخالفین نے مختلف فرقوں کے مولویوں اور مختلف مذہبی جماعتوں کے لیڈروں اور پیروں اور سجادہ نشینوں کے نام دعوت نامے جاری کئے کہ وہ ۱۳ جولائی ۱۹۵۲ء کو لاہور میںایک کنونشن میں شرکت کریں تاکہ عقیدہ ختمِ نبوت کے لئے لائحہ عمل تیار کیا جائے۔جب یہ کنونشن منعقد کیا گیا تو لاہور میں دفعہ ۱۴۴ کے نفاذ کی وجہ سے جلسوں کی ممانعت تھی مگر حکام نے عمداََ اس کنونشن کو نہ روکنے کا فیصلہ کیا۔اس کنونشن کے شرکاء ایک دوسرے پر بھی کفر و الحاد کے فتوے لگاتے رہے تھے لیکن اب وہ اس لئے جمع ہوئے تھے کہ سب مل کر احمدیوں کے خلاف فتویٰ لگائیں۔چناچہ ایک مجلسِ عمل کا قیام عمل میں آیا تا کہ آئیندہ لائحہ عمل کا فیصلہ کیا جا سکے۔اس مرحلے پر ایک اعلیٰ افسر مسٹر قربان علی نے حکام کو لکھا :۔
’یہ سب حلقوں میں تسلیم کیا جا رہا ہے کہ احرار کو کسی نہ کسی سے مدد مل رہی ہے۔ان میں سے یا ان کی پشت پناہی کرنے والوں میں سے بعض لوگوں نے اپنی چالاکی کی وجہ سے یہ اندازہ کر رکھا ہے کہ وہ جماعتیں جو مذہبی کہلاتی ہیں ان میں سے کوئی ایسی احمق نہ ہو گی کہ جس مسئلے پر ہر مسلمان احمدیوں کے خلاف شدید ترین جذبات رکھتا ہے اس میں کسی سے پیچھے رہ جائیں۔۔۔۔اب وقت بالکل ضائع نہ کرنا چاہئیے ۔یہ ایک دوڑ ہے جس میں حکومت کو سر توڑ مقابلہ کرنا ہے۔اس لئے اسے فی الفور آمادہ عمل ہونا چاہئیے ۔اور حالات کو بگڑنے کا موقع نہ دینا چاہئیے۔‘(۶۰)
اس مرحلے پر جب حکومت نے دفعہ ۱۴۴ کے ذریعہ جلسوں کوروکنے کی کوشش کی تو ان مفسدوں نے نمازِ جمعہ کے بعد مساجد میں اپنے جلسے کرنے شروع کر دیئے تاکہ جب اُن کے خلاف کاروائی ہو تو اس بناء پر وہ لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کر سکیں کہ حکومت قادیانیوں کی خاطر مسلمانوں کو مساجد کے اندر واعظ سے روک رہی ہے۔اب مساجد کے اندر اشتعال انگیز تقاریر کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔اور مساجد کے اندر جماعت کے خلاف نعرہ بازی کی جاتی اور لوگوں کو فساد پر آمادہ کیا جاتا۔اس طرح پاکستان میں مساجد کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا افسوسناک سلسلہ شروع ہؤا جو بد قسمتی سے اب تک جاری ہے۔اب اس سازش کا دائرہ وسیع ہو رہا تھا ۔ہر کوئی اِس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کر اپنے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا۔(۶۱)
ان دنوں مخالفین یہ الزام لگا رہے تھے کہ احمدی ملک میں سیاسی غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ،جبکہ اس شورش کی آ ڑ میں وہ خود سیاسی غلبہ حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔جولائی ۱۹۵۲ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے لندن کے ڈیلی میل کے نمائیندے کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے سیاسی جماعت نہیں ہے۔حضور ؓ نے ارشاد فرمایا کہ احمدی عددی لحاظ سے ملک کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔اور اگر بالفرض ان حالات میں یہ اقتدار حاصل کر لیں تو اگلے ہی روز معاند اکثریت کے ہاتھوں اُن کا خاتمہ ہوجائے گا۔اور اِن حالات میں تو کوئی پاگل ہی اس کا سوچ سکتا ہے۔حضورؓ نے فرمایا کہ میں اِس تحریک کو اس لئے نا پسند نہیں کرتا کہ اس سے جماعت کو نقصان پہنچے گا بلکہ اس لئے نا پسند کرتا ہوں کہ اس سے اسلام کا نام بدنام ہو رہا ہے۔حضورؓ نے فرمایا کہ ہم سے کچھ لوگوں نے رابطہ کیا ہے کہ اُن کے پاس ایسے ثبوت ہیں کہ احرار کو سرحدپار سے مدد مل رہی ہے اور ہمیں بھی ایسے شواہد ملے ہیں کہ بعض احراریوں کو ہندوستان کے بعض گروہ مدد دے رہے ہیں۔ہم ان شواہد پر تحقیق کر رہے ہیں۔(۶۲،۶۳)
پنجاب حکومت مفسدوں کی اعانت کرتی ہے:
جب ان میں سے کچھ لیڈروں پر دفعہ ۱۴۴ کی خلاف ورزی پر مقدمات چلائے گئے اور عدالت سے سزائیں سنائی گئیں تو ان کے لیڈر وں نے یہ اعلان کیا کہ انہوں نے اب تک کوئی خلافِ قانون حرکت نہیں کی اور وہ حکومتِ پنجاب کو اپنی حکومت سمجھتے ہیں۔اگر گرفتار شدگان کو رہا کر دیا جائے تو وہ ایسی تقریریں بھی نہیں کریں گے جس سے امن عامہ میں خلل پڑے۔اُن کے ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ یہ محض ایک جھوٹ ہے لیکن وزیرِ اعلیٰ پنجاب دولتانہ صاحب نے یہ مقدمات واپس لینے کا فیصلہ کیا اور بڑی عجلت میں یہ فیصلہ ڈپٹی کمشنروں تک پہنچایاگیا۔اور گرفتار شدہ احراریوں کو رہا کر دیا گیا۔اس سے فساد کرنے والوںکی حوصلہ افزائی ہوئی اور معاشرے پر قانون کی گرفت کمزور پڑ گئی۔اور اب اُنہیںیہ جرأ ت بھی ہونے لگی تھی کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مراکز کو اپنے حملوں کا نشانہ بنائیں۔جس روز یہ فیصلہ ہؤا کہ یہ مقدمات واپس لے لئے جائیں گے اسی روز کُپ ضلع ملتان کے سب انسپکٹر نے دفعہ ۱۴۴ کی خلاف ورزی کرنے پر ایک جلسہ عام اور جلوس کو بزور منتشر کرادیا ۔اس پر مفسدوں نے اِس سب انسپکٹر پر الزام لگائے کہ یہ شخص نہایت گستاخ اور بے ادب ہے اور اس نے رسولِ کریم ﷺ کی توہین کی ہے۔اگلے روز پانچ ہزار کے غضبناک ہجوم نے اس تھانے کو گھیرے میں لے لیا اور تھانے میں داخل ہو گئے۔ باوجود سمجھانے کے ہجوم نے پتھراؤ کیا اور عمارت کو آگ لگانے کی کوشش کی ۔پولیس نے اپنے دفاع میں گولی چلادی جس کے نتیجے میں چھ شخص ہلاک اور تیرہ زخمی ہو گئے۔مرنے والوں کی ہمدردی کے لئے متعدد مقامات پر جلسے منعقد ہوئے۔عدالت نے تحقیقات کیں تو اِس نتیجے پر پہنچے کہ گولی چلانا حق بجانب تھا۔
اب جن بوتل سے باہر آچکا تھا ۔اور ملک کے قانون کو اپنے ہاتھوں میں کھلونا سمجھ رہا تھا۔اب ان کے جلسے جلوسوں اور گالیوں میں شدت آگئی تھی ۔سرِ عام احمدیوں کو ،اُن کے بزرگوں کو اور حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کو فحش گالیاں دی جاتی تھیں۔عوام الناس کو ہر ممکن طریق سے احمدیوں کے خلاف اکسایا جا رہا تھا۔چنانچہ لائلپور کے ایک جلسے میں ایک مقرر نے ان کے مطالبات کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا،’مرزائیو ہمارا احسان مانو کہ ہم تمہیں اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ورنہ قرآن کی زبان سے پوچھا جائے تو وہ کہتا ہے کہ تمہیں انسانیت کے دائرے سے خارج کر دیا جائے۔‘(۶۴)اب وہ برملا کہہ رہے تھے کہ اگر وزراء نے ہمارے مطالبات کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا تو انہیں حکومت چھوڑنی پڑے گی۔(۶۵)
لیکن بہت سے اربابِ اقتدار ابھی بھی سمجھ رہے تھے کہ وہ اِس صورتِ حال کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کر کے اس جن کو قابو کر لیں گے۔مگر تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہؤا۔اب دہشت کی ایسی فضا قائم کی جا رہی تھی کہ جو شریف آدمی اِن کی حرکات سے اختلاف کرے اور اُنہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھے وہ بھی خاموش رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھے۔چنانچہ جب جولائی ۱۹۵۲ء میں ہوم سیکریٹری نے پنجاب کے صوبے میں بگڑتی ہوئی صورتِ حال دیکھی تو انہوں نے اختر علی خان ایڈیٹر زمیندار اور دیگرایسے اخبارات کے ایڈیٹروں سے بات چیت کی اور اُن کو صورتِ حال سمجھائی۔ وہ اپنے طور پر کوششیں کر رہے تھے کہ صورتِ حال سنبھل جائے ۔اُس وقت یہ لوگ مطمئن ہو کر واپس گئے لیکن سوائے ایک کے کسی اور نے اپنے اخبار میں کوئی کلمہ خیر لکھنے کی تکلیف گوارا نہ کی۔بلکہ اپنے اخبارات میں احرار کے اقوال و دعاوی کی تائید کو جاری رکھا۔پھر ہوم سیکریٹری نے حمید نظامی ایڈیٹر نوائے وقت اور مظہر علی خان صاحب کو بلایا اور اُن پر واضح کیا کہ ا’ن کو بلانے کا مقصد اِس کے سوا کچھ نہیں کہ انہیں پوری پوزیشن سمجھا دیں ۔اس کے بعدوہ آزاد ہیں کہ جو چاہیں تاویل کریں۔مسٹر حمید نظامی نے کہا کہ اگر وہ ا پنے اخبار میں صحیح خیالات کی ترجمانی شروع کر دیں تو سب سے پہلے حکومت کے منظورِ نظر اور مسلم لیگی اخبارات ہی مجھے احمدی قرار دے دیںگے تاکہ اپنی اشاعت میں اضافہ کرلیں۔انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ احرار کے انسداد کے لئے کوئی قدم اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اخبارات اِس کام میں تعاون نہ کریں۔اور اپنے کالموں کے ذریعہ زہر پھیلانا بند نہ کریں۔مسٹر مظہر علی خان نے صاف کہا کہ اس تمام مصیبت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے خود مذہب کو اپنے نعروں کا موضوع اور اپنی قوت کا سرچشمہ بنا رکھا ہے اور اگر ایک گروہ اپنے مقاصد کے لئے مذہب کو استعمال کر سکتا ہے تو دوسرے کو کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کی خاطر مذہب کو آلہِ کار نہ بنائیں۔(۶۶)
لیکن اصل مقصد صرف صحافیوں کو دہشت زدہ کرنا نہیں تھا۔اِن کی اصل منزل تو اقتدار کے اعلیٰ ایوان تھے۔سکیم یہ تھی کہ بر سرِاقتدار طبقے کو یہ باور کرا دو کہ اگر تم نے ہماری ہاں میں ہاں نہ ملائی تو تمہارا سیاسی مستقبل ختم ہو جائے گا۔ہم تمہیں قادیانی اور قادیانی نواز قرار دے کر تمہیں کہیں کا نہ چھوڑیں گے۔تب سے اب تک بلیک میلنگ کا یہ آلہ مولویوں کے ہاتھ میں موجود رہا ہے۔اور جتنا ہی کوئی اِس سے خوف زدہ ہو یہ آلہ اُتنی ہی فراوانی سے استعمال کیا جاتا ہے۔اب اس بلیک میلنگ سے مرعوب ہو کر اور اپنا سیاسی قد بڑھانے کے لئے پنجاب میں بر سرِ اقتدار مسلم لیگ کے کئی اراکین اور کئی شاخیں جماعت احمدیہ کے خلاف قرارداد یں پاس کر رہے تھے۔مطالبے کر رہے تھے کہ اِن کو اقلیت قرار دو ،چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓکو برطرف کرو،احمدیوں کو کلیدی اسامیوں سے ہٹاؤ۔ مختصر یہ کہ احمدیوں کے سب حقوق سلب کر دو۔(۶۷)
دشمن تشدد،جھوٹ اور بلیک میلنگ کے ہتھیاربے دریغ استعمال کر رہا تھا ۔اور اس نازک موڑ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے احمدیوں کو ا’ن کے ہتھیاروں کی طرف متوجہ فرمایا۔آپ نے ۴ جولائی ۱۹۵۲ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا
’ابتلاء صبر و صلوۃ کے ساتھ دور ہو سکتے ہیں۔اور خوفِ خدا رکھنے والوں پر یہ بات مشکل نہیں۔امن کی گھڑیوں میں انسان کبر و نخوت کا شکار ہو جاتا ہے ۔مگر مصائب و آلام اسے آستانہٗ رب العزت پر جھکانے کے لئے ممد ہوتے ہیں۔پس ہماری جماعت کو بھی اِس وقت صبر دعا اور نماز کی طرف توجہ کرنی چاہئیے۔۔۔۔۔اللہ سے استمداد کرنے والا بہرحال غالب ہو گا۔اگر خدا ہے تو سیدھی بات ہے کہ اِس سے زیادہ کوئی طاقتور نہیں۔ اس لئے چاہے جتنی مخالفتیں ہوں ۔جلسے جلوس ہوں ،قتل و غارت ہو،*** ملامت ہو جیتے گا وہی جس کے ساتھ خدا ہے۔‘(۶۸)
۲ اگست کو جماعت کے نام حضورؓ نے اپنے پیغام میں ارشاد فرمایا
’کوئی بات ایسی نہ کرو جس سے دوسرے کو اشتعال آئے۔دنیا پر ثابت کر دو کہ اشتعال تمہارا دشمن دلاتا ہے۔اور تم صبر اور عفو کا اعلیٰ نمونہ دکھاتے ہو۔اور ساتھ ہی بہادری کا بھی۔ کیونکہ مومن کبھی بزدل نہیں ہوتا۔ایمان اور بزدلی کبھی جمع نہیں ہوتے۔پس ڈر کو دل سے نکال دو ۔ اور دنیا پر ثابت کر دو کہ دنیا کا کوئی ظلم دنیا کا کوئی ستم،دنیا کا کوئی جبر تم کو صداقت سے پھرا نہیں سکتا۔محمد رسول اللہﷺ کی روح اپنے متبعین سے ایک دفعہ پھر ایثار اور قربانی کا مطالبہ کر رہی ہے۔پس تم اِس ایثار اور اس قربانی کا نمونہ پیش کرو جو تمہیںصحابہ کا مثیل بنا دے۔تا رسولِ کریم ﷺ کی روح خوش ہو جائے۔‘(۶۹)
بعض لیڈروں کی شرافت ،وزیرِ اعظم کی ۱۴ اگست کی تقریر:
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس موقع پر بہت سے لیڈروں نے شرافت اور اصول پسندی کا مظاہرہ کیا۔صوبہ سرحد کے وزیرِ اعلیٰ خان عبد القیوم خان صاحب نے واضح اعلان کیا کہ ان کے صوبے میں احرار احمدی تنازع موجود نہیں ہے اور اگر کسی نے صوبے کی پر امن فضا کو اِس قسم کی کشمکشوں سے خراب کرنے کی کوشش کی تو وہ ایسے عناصر کو سختی سے دبا دیں گے۔مسلم لیگ ایک سیاسی جماعت ہے اِس میں جماعتِ احمدیہ کے متعلق قرارداد زیرِ بحث لانا مناسب نہیں تھا۔‘(۷۰)بعض کشمیری لیڈر تو جماعت کے خلاف بیان بازی میں شامل ہو گئے لیکن کچھ شریف النفس لیڈروں نے مشترکہ بیان میں جماعت کے خلاف تحریک کی مذمت کی اور اندیشہ ظاہر کیا کہ اس قسم کے جھگڑے بہت زیادہ اہم مسائل سے قوم کی توجہ ہٹا دیں گے اور قومی اتحاد پارہ پارہ ہو جائے گا۔اور کشمیر کو آزاد کرانے کا قومی عزم کمزور ہو جائے گا۔‘(۷۱)
مخالفین میں سے اختر علی خان صاحب نے خواجہ ناظم الدین صاحب وزیرِ اعظم پاکستان سے ملاقات کی۔ وہ اِ س ملاقات کے بعد بہت پُر امید تھے اور یہ اعلان شائع بھی کر دیا گیا کہ ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو وزیرِ اعظم علماء کی خواہش کے مطابق احمدیوں کے متعلق اعلان کریں گے۔پھر ۱۳؍ اگست کو مولویوں کا ایک وفد وزیرِ اعظم سے ملا اور مطالبات پیش کئے کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دیا جائے ،وزیرِ خارجہ چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ کو برطرف کیا جائے۔اور احمدیوں کو تمام کلیدی عہدوں سے ہٹایا جائے۔اب مخالفین کے کان وزیرِ اعظم کی اُس تقریر پر لگے ہوئے تھے جو یومِ آزادی کو ہونی تھی ۔اپنی کامیابی کو یقینی بنانے اور حکام اور عوام کو احمدیوں سے بد ظن کرنے کے لئے ۱۴ اگست ۱۹۵۲ء سے چند روز قبل مخالفینِ جماعت نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ احمدی ملک میں مسلح بغاوت کی تیاری کر رہے ہیں اور ربوہ میں خوفناک اسلحہ اس بڑی تعداد میں جمع کرلیا گیا ہے کہ شاید حکومت کے لئے بھی اُس کا مقابلہ کرنا دشوار ہو(۷۲)۔جیسا کہ بعد میں حالات نے ظاہر کیا، حقیقت یہ تھی کہ یہ لوگ خود ملک میں بغاوت کرنے کی تیاری کر رہے تھے اور شکوک کا رخ پھیرنے کے لئے جماعتِ احمدیہ پر بغاوت کاالزام لگا رہے تھے۔
جب یہ تقریر شروع ہوئی تو اُن کی امیدوں پر پانی پھِر گیا۔اس میں مولویوں کے مطالبات منظور کرنے کا ذکر تک نہ تھا ۔اس کی بجائے اُنہوں نے کہا کہ فرقہ واریت کے نام پر لا قانونیت کو ہوا دینے والے اور اخباروں کے ذریعہ جھوٹی خبریں پھیلانے والے قوم و ملک کے دشمن ہیں۔میں ایسے لوگوں کو کہوں گا لا تفسدو ا فی الارض کی آیت یاد رکھو اور جولانیِ طبع کی خاطر پاکستا ن کو خطرے میں نہ ڈالو۔اگر قائدِ اعظم کے ذریعہ قائم ہونے والے اتحاد کی رسی ہاتھوں سے چھوٹ گئی تو پھر پاکستان کا قائم رہنا مشکل ہے۔(۷۳)تا ہم اسی روز مرکزی حکومت کی طرف سے یہ پُر اسرار اعلان شائع کیا گیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ حکومت ِپاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ صوبائی یا مرکزی وزارتوں کا کوئی رکن اُن اشخاص میں جن کے ساتھ اس کا واسطہ پڑتا ہے کسی فرقہ وار عقیدے کی تبلیغ کے لئے اپنی سرکاری پوزیشن کو استعمال نہیںکرے گا۔اگر کوئی اِس کی خلاف ورزی کرے گا تو اُس کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔گو یہ اعلان عمومی نوعیت کا تھا مگر سمجھا جا رہا تھا کہ اِس کا روئے سخن حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ اور دیگر احمدیوں کی طرف ہے اِس لئے حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے ایک بیان جاری فرمایا ،جس میں آپ نے فرمایا
’۔۔۔۔ میں اس امر کو خلافِ دیانت اور خلاف ِتعلیماتِ اسلامی سمجھتا ہوں کہ کوئی شخص اپنے سرکاری عہدہ و اختیار کو بالواسطہ یا بلا واسطہ استعمال کر کے اپنے مذہبی عقائد کو زبر دستی دوسروں پر منڈھ دے۔یا اسی قسم کے اثرو نفوذ سے کام لے کر کسی شخص کو اس کے حقیقی عقائد ترک کرنے پر مجبور کرے۔میں جس جماعت سے تعلق رکھتا ہوں اس میں اس اصول کی وسیع تعلیم دی جاتی ہے ۔اگر مجھے یہ معلوم ہو کہ اِس جماعت کا کوئی فرد اس صحیح اور مفید اصول کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو یقیناََ مجھے بے حدحیرت اور اذیت ہو گی۔۔۔۔
اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔جس جماعت کے خلاف بعض حلقے جو عظیم اکثریت ہونے کے دعویدار ہیں برابر غلط بیانی اور جبر و ظلم میں مصروف ہیں ۔اِس جماعت کے ارکان اس قسم کے طور طریقے اختیار کر ہی نہیں سکتے۔‘
مجلسِ عمل کے اراکین دوبارہ وزیرِ اعظم سے ملے ۔اب وزیرِ اعظم نے اِن کے مطالبات تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔اِ س دوران حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے وزیرِاعظم کو ایک سے زائد مرتبہ اپنے ا ستعفے کی پیش کش کی لیکن وزیرِ اعظم نے کہا کہ اِس سے حالات اور بگڑ جائیں گے۔(۷۴)
دولتانہ صاحب کی بیان بازی۔مخالفین کی خام خیالی:
علماء تو وزیرِ اعظم صاحب کے خلاف بھڑک اُٹھے لیکن اس صورتِ حال نے دولتانہ صاحب کو ایک موقع فراہم کر دیا کہ وہ ایوانِ وزیرِ اعظم کی طرف اپنے قدم بڑھائیں ۔ جیسا کہ تحقیقاتی عدالت نے اپنی رپورٹ میں لکھاانہوں نے حضوری باغ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا
’آج دنیا بھر میں پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جو اسلامی حکومت قائم کرنے کا دعویدار ہے۔تمام دنیا ہمارے اس تجربے کو غور سے دیکھ رہی ہے۔اور اگر ہم اس ذمہ داری کی تکمیل میں ناکام رہ گئے تو دنیا کو یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ دنیا میں حکومت کی اسلامی ہیئت کے لیے کوئی گنجائش نہیں ۔ختمِ نبوت کے مسئلے میں میرا وہی عقیدہ ہے جو ایک مسلمان کا ہونا چاہئیے ۔میرے نزدیک وہ تمام لوگ خارج از اسلام ہیں۔جو رسولِ کریم صلعم کو آخری نبی نہیں مانتے ۔اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہتا ہوں کہ عقیدہ ختمِ نبوت پر کوئی بحث اُ ٹھانا کفر کے برابر ہے۔کیونکہ بحث کی گنجائش صرف اس مسئلے میں ممکن ہے جس میں کسی قسم کا شبہ وارد ہوتا ہو۔عقیدہ ختم ِ نبوت ہمارے ایمان کا جزو ہے ۔اس لئے ہر بحث اور منطق سے بالا تر ہے ۔مرزائیوں کے خلاف جو نفرت پیدا کی گئی ہے اس کی ذمہ داری خود انہی پر ہے کیونکہ ان کے رحجانات علیحدگی پسندانہ ہیں۔‘(۷۵)
مخالفینِ سلسلہ کی سطحی سوچ اُن کو سبز باغ دکھا رہی تھی۔وہ اِ ن خیالوں میں تھے کہ اگر کسی طرح چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کو وزارتِ خارجہ سے ہٹا دیا جائے اور احمدیوں کو اقلیت قرار دے دیا جائے تواُن کے خلاف نفرت کی ایسی فضا قائم ہو چکی ہے کہ پھر احمدیت کا خاتمہ یقینی ہے۔ اکتوبر ۱۹۵۲ء میں لائلپور میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلسِ احرار کے مرکزی صدر تاج الدین انصار ی صاحب نے بڑے اعتماد سے اعلان کیا
’سنو میں تمہیں ایک بات بتاتا ہوں۔جس دن ظفراللہ وزارتِ خارجہ سے علیحدہ ہو گیا۔تو اس روز آدھے مرزائی مسلمان ہو جائیں گے اور جس روز ان کو اقلیت قرار دے دیا گیا ۔اس روز مرزا بشیر الدین محمود ڈھونڈتے پھریں گے کہ میرے ابا کی امت کہاں گئی ہے۔‘(۷۶)
اسی طرح جب شیعہ ،سنی،بریلوی،اہلِ حدیث وغیرہ سب نے مل کر جماعتِ احمدیہ کے خلاف آل پارٹیز مسلم کانفرنس قائم کی تو اِس کا ایک اجتماع راولپنڈی میں بھی منعقد کیا گیا۔اس میں بڑے طمطراق سے یہ اعلان کیا گیا
’تم دیکھو کہ جس روز اعلان ہؤا کہ سر ظفراللہ گئے ۔اسی روز پچاس فیصد ی مرزائی اِ دھر آجائیں گے ۔اور باقی ادھر آنا شروع ہو جائیں گے ۔مرزائی مذہبی جماعت نہیں ہے۔ سیاسی ٹولی ہے ۔یہ سائیکولوجی ہے۔سیاسی ٹولی کا ذہن منفعت کی طرف جاتا ہے۔‘(۷۷)
آج چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو مستعفی ہوئے پچاس برس سے زائد عرصہ گذر چکا ہے۔ آدھی جماعت تو ایک طرف رہی ،ایک احمدی نے بھی اس وجہ سے ارتداد کی *** کو قبول نہیں کیا۔اور احمدیوں کو اقلیت قرار دیئے ہوئے بھی تیس برس سے اوپر کا عرصہ بیت گیا جماعت ختم ہونے کی بجائے ترقی پر ترقی کرتی گئی۔اللہ تعالیٰ نے مخالفین کی کوئی حسرت باقی نہیں چھوڑی کہ وہ یہ سوچیں کہ اگر یہ ہو جاتا تو احمدیت ختم ہو جاتی ،اگر وہ ہو جاتا تو احمدیت ختم ہو جاتی۔کیونکہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہؤا پودا تھا ۔دنیا کا کوئی ہاتھ اسے تباہ نہیں کر سکتا۔
مخالفت کا رخ وزیرِ اعظم کی طرف ہوتا ہے:
بہر حال اُس وقت یہ ٹولہ یہی سوچ رہا تھا کہ راستے میں صرف خواجہ ناظم الدین حائل ہیں۔ اگر اُن کی جگہ ہمارا کوئی آدمی ہوتا تو خوب تھا۔چنانچہ اب اُن کے خلاف پرانے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے۔ بہاولپور میں منعقدہ تحفظِ ختمِ نبوت کنونشن میں ایک مقرر نے کہا
’تم ظفراللہ کو کہتے ہو مگر ناظم الدین کو نہیں کہتے ہو جس نے ظفراللہ کو گود میں جگہ دے رکھی ہے۔۔۔جب تک مرزائیت کو ختم نہ کیا گیا تو یہ ملک ہر گز ہر گز نہیںمحفوظ رہ سکتا۔ جب تک ناظم الدین ہے مرزائیت کا استیصال نا ممکن ہے ۔مرزائیت کے استیصال کے لئے پہلے ناظم الدین کو نکالنا ضروری ہے۔‘(۷۸)
اب دل کی بات منہ پر آرہی تھی۔اصل مقصد تو اقتدارِ اعلیٰ پر قبضہ تھا ۔ووٹوں سے نہ مل سکا تو چور دروازے کا راستہ اختیار کیا گیا۔یہ علیحدہ بات ہے کہ خواجہ ناظم الدین کو وزارتِ عظمیٰ سے علیحدہ ہوئے نصف صدی سے زیادہ عرصہ بیت گیا مگر ان کے من کی مراد پھر بھی نہ پوری ہوئی۔وزیرِ اعظم کو جماعت احمدیہ کے خلاف فیصلہ کرنے پرمجبور کرنے کے لئے احرار اپنے پرانے ہتھکنڈے استعمال کر رہے تھے۔ کراچی میں تقریر کرتے ہوئے ،عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے کہا
’مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا خواجہ ناظم الدین بھی مرزا بشیر الدین محمود کے ہاتھ پر بیعت کر کے مرزائی ہو گئے ہیں۔مجھے خصوصی حلقوں سے معلوم ہؤا ہے کہ خواجہ ناظم الدین اور مرزائیوں کے درمیان کوئی رشتے ناطے بھی ہو چکے ہیں۔اگر یہ صحیح ہے تو مسلمان اسے کسی قیمت پر بھی برداشت نہیں کریں گے۔‘(۷۹)
اب یہ لوگ وزیرِاعظم کی تحقیر و تضحیک کے لئے ،اپنی تقریروں میں بھوکا بنگالی ، چٹو وٹا، تیل کا کپا، کچھو کمہ ، بدھو ،لعین، احمق جیسے الفاظ استعمال کر رہے تھے۔ (۸۰) بد قسمتی سے اُس وقت آئین سازی کا مسئلہ بھی چل رہا تھا اور پنجاب کے لیڈروں اوربنگال کے لیڈروں میں پاکستان کے دونوں حصوں میں نمائیندگی کے تناسب کے بارے میں اختلافات بھی سامنے آ چکے تھے ۔خود دولتانہ صاحب اور وزیرِ اعظم کے درمیان شدید اختلاف موجود تھا۔دولتانہ صاحب اس قسم کے بیانات دے رہے تھے کہ پنجاب ایک اکائی کا دوسرے اکائیوں پر تسلط برداشت نہیں کرے گا۔(۸۱) اس پس منظر میں پنجاب میں بنگالی وزیرِ اعظم کی اس طرح تذلیل ،مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان فاصلے بڑھانے کا باعث بن رہی تھی۔بد قسمتی سے یہ سلسلہ بعد میں جاری رہا اورفاصلے بڑھتے رہے ،جس کے نتیجے میں آخر کار ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔
ڈائرکٹ ایکشن کی دھمکی:
مخالفین کی بنائی ہوئی مجلسِ عمل کا ایک وفد ۲۲ جنوری ۱۹۵۳ء کو وزیرِ اعظم سے ملا اور احمدیوں کے بارے میں اپنے مطالبات پیش کئے اور ایک مہینے کا نوٹس دیا۔وزیرِ اعظم نے اُن سے اظہارِ ہمدردی تو کیا لیکن کہا کہ میں مطالبات تسلیم کرنے سے قاصر ہوں۔اور علماء سے کہا کہ وہ ان کی مشکلات کو نہیں سمجھتے ،مسئلہ کشمیر اور دیگر بین الاقوامی تنازعات کی وجہ سے چوہدری صاحب کو ہٹانا ممکن نہیں۔علماء نے جواب میں کہا کہ اگر چوہدری صاحب کے بغیر کام نہیں چل سکتا تو احمدیوں کواقلیت قرار دے دیا جائے(۸۲)۔اس تحریک کے قائدین اب حکومت کو ڈائرکٹ ایکشن کی دھمکیا ںدے رہے تھے۔جب حکومت نے گرفت کی تو اُس وقت جماعتِ اسلامی نے دعویٰ کیا کہ وہ ڈائرکٹ ایکشن کی حمایت نہیں کر رہے تھے۔اور یہ موقف تحقیقاتی عدالت میں بھی پیش کیا گیا ۔ لیکن عدالت میں جو شواہد پیش کئے گئے ان سے عدالت نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ جماعتِ اسلامی کا یہ عذر صحیح نہیں تھا۔ڈائرکٹ ایشن کی دھمکی سے فسادات کے آ غاز تک جماعتِ اسلامی نے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا تھا کہ وہ اس دھمکی کی حمایت نہیں کرتے۔اور اس تحریک میں شامل دیگر علماء نے بھی یہی گواہی دی کہ جب ڈائرکٹ ایکشن کی قرارداد منظور کی گئی تو مودودی صاحب نے اس کی کوئی مخالفت نہیں کی تھی۔یہ بات اُس وقت بنائی گئی جب حکومت نے گرفت شروع کر دی (۸۳،۸۴) اس کے بعد مولویوں کے وفود نے لاہور اور کراچی میں وزیرِ اعظم سے ملاقاتیں کیں ۔ اب وزیرِاعظم پر دباؤ بڑھ رہا تھا ۔جیسا کہ انہوں نے بعد میں تحقیقاتی عدالت کے سامنے اعتراف کیا کہ اُس وقت اُنہیں برابر اطلاعات مل رہی تھیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب دولتانہ صاحب خود اِس تحریک کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کے متعلق اُنہیں بعض لوگوں نے شکایت کی کہ وہ احمدیوں کی اعانت کرتے ہیں اور دوسرے فرقے کے لوگوں کو احمدی کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب وزیرِ اعظم نے اس سلسلے میں کوئی ٹھوس شکایت پیش کرنے کو کہا تو خواجہ ناظم الدین صاحب نے اعتراف کیا کہ یہ گروہ ایسی شکایت پیش کرنے سے قاصر رہا۔(۸۵)اوپر سے احرار اور اُن کے ہمنوا مولویوں نے دھمکی دے دی کہ اگر فوراََ اُن کے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو وہ ڈائرکٹ ایکشن کا قدم اُٹھائیں گے۔اب احراریوں کو اتنی جراء ت ہو گئی تھی کہ وہ ہڑتال کی اپیل کرتے تھے اور اگر کوئی حصہ نہ لے توزبردستی دوکانیں بند کرائی جاتی تھیں۔جو دوکان بند نہ کرے اس کا منہ کالا کردیا جاتا۔وہ لوگوں کو اکسا رہے تھے کہ احمدیوں سے اچھوتوں والا سلوک کیا جائے۔دوکانوں میں اِن کے برتن علیحدہ کر دیئے جائیں،مجلسی مقاطعہ کیا جائے،ان کی دوکانوں پر پکٹنگ کر دی جائے۔شورش کا لہجہ نہایت پست اور بازاری صورت اختیار کر گیا تھا۔وزیرِ اعظم اب دباؤ میں آ کر یہ تجویز بھی پیش کررہے تھے کہ حضرت مصلح موعودؓ کو یہ بیان جاری کرنے کو کہا جائے کہ وہ اور ان کے مقلد پاکستان کے مسلمانوں کو احمدی نہیں بنائیں گے تاکہ یہ تحریک ختم ہو جائے(۸۵) یہ تجویز سراسر ظالمانہ تھی ۔احمدیوں پر ارتداد کے لئے تو ہر قسم کا دباؤ ڈالا جا رہا تھا،ان کے خلاف اور اُن کے عقائد کے خلاف تو ہر قسم کا زہریلا پراپیگینڈا کیا جا رہا تھا،اُن کو اور اُن کے بزرگان کو تو گالیاں نکالی جا رہی تھیں،ان کے جائز حقوق تلف کرنے کے لئے تو تحریک چلائی جا رہی تھی اور ہر قسم کے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے تھے،لیکن حکومت نے اب تک اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا تھا اور اب اگر کچھ کرنے کا خیال آیا تو یہ کہ احمدی یک طرفہ طور پر تبلیغ بند کر دیں۔
جب وزیرِ اعظم پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ صورتِ حال روز بروز نازک ہوتی جا رہی ہے تو ۲۶ فروری ۱۹۵۳ء کو کابینہ کا ایک اجلاس بلایا گیا جس میں پنجاب اور سرحد کے نمائیندوں کو بھی مدعو کیا گیا۔یہ معنی خیز بات تھی کہ گورنر پنجاب اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب دولتانہ صاحب مدعو تھے لیکن انہوں نے نا معلوم مصروفیات کی وجہ سے شرکت نہیں کی ۔مگر ساتھ ہی اپنے نمائندے اس رائے کے ساتھ بھجوا دیئے کہ حکومتِ پنجاب کی رائے میں مطالبات نامعقول ہیں اور سختی ہونی چاہئیے۔ اس کانفرنس میں یہ تجاویز منظور کی گئیں کہ اس شورش کے نمایاں لیڈروں کو گرفتار کر لیا جائے۔اخبارات میں سے آزاد اور زمیندار کی اور اِس کے ساتھ ہی الفضل کی اشاعت بھی روک دی جائے۔تحریک کے رضا کاروں کو کراچی آنے سے روکا جائے۔اور حضرت مصلح موعود ؓ کو تنبیہ کی جائے کہ وہ ربوہ سے باہر نہ جائیں اور نہ ہی کوئی ایسی بات کریں جس سے اشتعال پھیلے۔(اب تک صرف احمدیوں کے خلاف ہی اشتعال پھیلایا جا رہا تھا،اُن پر مظالم ہو رہے تھے،اُن کے اشتعال پھیلانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا)۔
اس کے ساتھ ہی حکومتِ پنجاب کو پیغام بھجوایا گیا کہ احمدی ہوں یا کوئی اور طبقہ ہو انہیں زبردستی اقلیت بننے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا اور نہ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ کسی گروہ کو زبردستی اقلیت بنائے۔نہ ہی مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو کلیدی اسامیوں سے ہٹایا جا سکتا ہے اور نہ ہی وزیرِ خارجہ کو اس لئے برطرف کیا جا سکتا ہے کہ ایک طبقہ ڈائریکٹ ایکشن کی دھمکی دے رہا ہے۔(۸۶)
الفضل پر پابندی اور حضورؓ کا پیغام:
جب الفضل پر پابندی لگائی گئی تو اس موقع پر حضور نے جماعت کے نام یہ پیغام شائع فرمایا
’الفضل کو ایک سال کے لئے بند کر دیا گیا ہے ۔احمدیت کے باغ کو جو ایک ہی نہر لگتی تھی اس کا پانی روک دیا گیا ہے۔پس دعائیں کرو اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو اس میں سب طاقت ہے ۔ہم مختلف اخباروں میں یا خطوں کے ذریعہ سے آپ تک سلسلہ کے حالات پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔اور انشاء اللہ آپ کو اندھیرے میں نہیں رہنے دیں گے۔ آپ بھی دعا کرتے رہیں میں بھی دعا کرتا ہوں انشا ء اللہ فتح ہماری ہے ۔کیا آپ نے گذشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا کہ خدا نے مجھے چھوڑ دیا ؟تو کیا اب وہ مجھے چھوڑ دے گا ؟ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ انشاء اللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑیگا۔سمجھ لو کہ وہ میری مدد کے لئے دوڑا آرہا ہے۔وہ میرے پاس ہے ،وہ مجھ میں ہے ۔خطرات ہیں اور بہت ہیں مگر اس کی مدد سے سب دور ہو جائیں گے۔تم اپنے نفسوں کو سنبھالو اور نیکی اختیار کرو سلسلہ کے کام خدا خود سنبھالے گا۔‘
پنجاب کی حکومت تمام فسادات میں تو خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہی بلکہ مفسدوں کی پشت پناہی کرتی رہی مگر اس پیغام پر تڑپ اُٹھی اور حضورؓ کے نام نوٹس جاری کر دیا کہ آپ احراریوں اور احمدیوں کے تنازع کے متعلق کچھ نہ کہیں۔بعض افسروں نے کہا کہ آپ کے اس فقرے سے اشتعال پیدا ہوتا ہے کہ خدا میری مدد کے لئے دوڑا آ رہا ہے تو آپ ؓ نے فرمایا کہ جب مجھے خدا آتا ہؤا نظر آتا ہے تو کیا میں جھوٹ بولوں؟
مفسدین کی گرفتاریاں :
اس شورش کے لیڈروں نے فیصلہ کیا کہ پنجاب سے دارالحکومت جتھے بھیجے جائیں جو کہ پانچ پانچ کے گروہوں کی صورت میںوزیرِ اعظم اور گورنر جنرل کی رہائش گاہوں کے سامنے جائیں اور اپنے مطالبات پیش کریں۔اور وہاں پر دھرنا مار کر بیٹھیں۔اس تحریک کے لئے قربانی کی کھالوں کے حصول کے ذریعہ،تحریکِ ختمِ نبوت کے نوٹ چھاپ کر اور انہیں فروخت کر کے اور چندے جمع کر کے کافی رقم جمع کی گئی تھی جو ایڈیٹر زمیندار اختر علی خان صاحب کے پاس جمع تھی مگر جب ان رضاکاروں کو کراچی بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا تو اختر علی خان صاحب نے اصرار کیا کہ ان رضاکاروں کو بغیر ٹکٹ کے ریل گاڑی کے ذریعہ کراچی بھجوایا جائے مگر دوسروں نے اعتراض کیا تو وہ کچھ رقم دینے پرآمادہ ہوئے۔کچھ باہمی اختلافات کے بعد کچھ رضاکار کراچی روانہ کئے گئے ۔(۸۷)
حسب ِ فیصلہ اس شورش کے لیڈروں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں۔لاہور سے کراچی جو جتھے فساد کرانے آرہے تھے راستے میں اِن کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔پہلے راست اقدام کرنے والوں کا خیال تھا کہ کراچی سے فسادات کی ابتداء کی جائے گی .لیکن ان گرفتاریوں سے ملک کے دارالحکومت میں بڑے پیمانے پر فساد برپا کرنیکا منصوبہ ناکام ہو گیا ۔اس کے علاوہ بنگال اور بلوچستان میں یہ شورش کوئی خاص حمایت نہ حاصل کرسکی تھی اور سرحد میں بھی وہاں کی حکومت کے دو ٹوک اعلان کے باعث انہیں وہاں پر فساد کرنے کی جراء ت نہیں ہوئی ۔اب پنجاب ان کی توجہ کا مرکز تھا۔یہاں پر صوبائی حکومت اپنے عزائم کے لئے ان کی پشت پناہی کر رہی تھی۔حکمران مسلم لیگ کے بہت سے سیاستدان اس سازش میں شامل تھے اور سرکاری مشینری کے بہت سے کل پرزے بھی ان کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔چنانچہ لاہور ،سیالکوٹ،گوجرانوالہ،راولپنڈی،لائل پور اور منٹگمری کے شہروں میں فسادات اور لاقانونیت کا ایک طوفان برپا ہو گیا۔
اب فساد کرنے والوں کے قدم ایوانِ اقتدار کی طرف بڑھ رہے تھے اور حکومت کے لئے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ بالآخر پاکستانی عوام کے سامنے حقائق کو رکھے۔چنانچہ ۲۷ فروری کو پاکستان کی مرکزی حکومت نے ایک اعلان جاری کیا کہ یہ شورش پاکستان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے اور ملک کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے شروع کی گئی ہے۔اس فتنے کے بانی مبانی اصل میں احرار تھے اور بعد میں دوسرے گروہ اس میں شامل ہوتے گئے ۔احرار شروع ہی سے قائدِ اعظم اور تحریکِ پاکستان کے مخالف تھے اور حکومت کے پاس با وثوق شواہد موجود ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد بھی انہوں نے اس کے قیام کو تسلیم نہیں کیا اور اس تحریک کو چلانے کے لئے پاکستان کے دشمن اُن کی مدد کر رہے ہیں تا کہ مسلمانوں میں اختلافات پیدا کئے جائیں اور ملک کے استحکام کو نقصان پہنچایا جائے(۸۸،۸۹)۔اس اعلان سے پڑھے لکھے طبقے کی اکثریت پر حقیقت آشکار ہو گئی کہ یہ فساد بیرونی ہاتھ کی مدد سے پیدا کیا جا رہا ہے۔لیکن افسوس حکومت نے ان شواہد کے معاملے میں عوام کو اُس وقت تک اعتماد میں نہیں لیا جب تک فسادات شدت نہیں اختیار کر گئے ۔اس مصلحت آمیز خاموشی سے مفسد گروہ کو تقویت ملی۔
اس شور ش کے کئی ایسے قائدین بھی تھے جو پہلے تو بہت بلند و بانگ دعوے کر رہے تھے مگر جب انہیں گرفتاری سامنے نظر آنے لگی تو ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔اختر علی خان صاحب نے جو ظفر علی خان صاحب کے بیٹے اور اخبار زمیندار کے ایڈیٹر تھے ایک ختمِ نبوت کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے احمدیت کے خلاف اپنے عزائم کا ذکر کر کے کہا تھا’اگر اس نصب العین کی خاطر مجھے تختہ دار پر بھی لٹکادیا جائے تو میں اس سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں‘(۹۰)۔مگر جب ۲۷ فروری کو انہیں گرفتاری کا وارنٹ دکھایا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر مجھے گرفتار نہ کیا جائے تو میں لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ میرا اس شورش سے کوئی تعلق نہیں۔چنانچہ تحقیقاتی عدالت کے تبصرے کے مطابق انہوں نے ایک ذلت آمیز معافی نامے پر دستخط کئے جس میں انہوں نے تحریکِ ختم نبوت کی موجودہ روش کے خلاف بہت کچھ لکھا۔تب جا کر ان کی جان بخشی ہوئی اور ان کے اخبار کو جاری رہنے دیا گیا۔اور وہ اپنے گاؤں کرم آباد چلے گئے۔(۹۱)
پنجاب میں شدید فسادات کا آغاز:
اب حکومت اور بلوائیوں کی ٹکر نا گزیر ہو چکی تھی۔۲۸ فروری کو لاہور میں پانچ چھ ہزار کا جلوس نکلا اور چونتیس رضا کاروں نے گرفتاریاں پیش کیں اور مقامی افسران نے فیصلہ کیا کہ جلسے جلوسوں پر پابندی لگا دی جائے۔اسی روز پنجاب میںجہلم ،راولپنڈی،لائل پور،منٹگمری اور شیخوپورہ کے شہروں میں گرفتاریوں کے خلاف ہڑتال ہوئی(۹۲)۔۲۸ فروری کوحضورؓ نے جماعت ِ احمدیہ کے نام ایک پیغام بھجوایا اور اس میں احراری لیڈروں کی گرفتاری کا ذکر فرما کے جماعت کو ارشاد فرمایا
’ممکن ہے بعض کمزور طبع احمدی ان خبروں کو سن کر مجالس یا ریلوے سفروں میں یا لاری کے سفروں میں یا تحریر یا تقریر کے ذریعہ سے ایسی لاف زنی کریں جس میں کہ ان واقعات پر خوشی کا اظہار ہو۔اور بعض طبائع میں اس کے خلاف غم و غصہ پیدا ہو ۔اس لئے میں تمام احباب کو ان کے اخلاقی اور مذہبی فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ایسے دن جب آتے ہیں تو مومن خوشی اور لاف و گزاف سے کام نہیں لیتے بلکہ دعاؤں اور استغفار سے کام لیتے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ ان کے گند بھی صاف کرے اور اور ان کے مخالفین کو بھی سمجھ دے کہ آخر وہ بھی ان کے بھائی ہیں۔۔۔اللہ تعالیٰ نے ایک لمبے عرصہ کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کو آزادی اور حکومت بخشی ہے۔ہماری کوشش ہونی چاہئیے کہ حکومت کو ضعف نہ پہنچے ۔اور خدا تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئیے کہ ہمیں اور دوسرے پاکستانی مسلمانوں کو وہ ایسے اعمال کی توفیق دے کہ جس سے پاکستان مضبوط ہو ۔‘(۹۳)
اس ا بتلاء کے دوران جماعتِ احمدیہ دن رات کوشش کررہی تھی کہ کسی طرح سچائی لوگوں کے علم میں آتی رہے اور ملک دشمن عناصر اپنی مذموم سازش میں کامیاب نہ ہوں۔مخالفین کے پراپیگنڈا اور سازشوں کا رد کیا جا رہا تھا۔ان دنوں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ با وجود بیماری اور کمزور صحت کے دن رات مصروف رہتے تھے۔کام کا بوجھ اتنا تھا کہ آپ کو روزانہ رات دو دو تین تین بجے تک کام کرنا پڑتا تھا۔چھ ماہ تک یہ حالت رہی کہ کوئی ہی رات ایسی آتی تھی کہ آپ چند گھنٹے کے لئے سوتے ہوں۔ اکثر راتیں جاگتے ہوئے کٹ جاتی تھیں۔(۹۴)
حکومت نے جب اعلان کیا کہ اس تحریک کو شروع کرنے والے احراریوں کو اس کام کے لئے پاکستان کے دشمنوں کی طرف سے مدد مل رہی ہے تو اس سے شورش کر نے والوں کے کیمپ میں کھلبلی پیدا ہوئی ۔اگلے ہی روز ان کی طرف سے بیان جاری ہؤا کہ تحریکِ ختمِ نبوت کو مجلسِ احرار کی تحریک کہنا سراسر بہتان طرازی ہے ۔اس میں مسلمانوں کے تمام فرقے شامل ہیں۔(۹۵)یکم مارچ کا دن جلوسوں اور گرفتاریوں کا دن تھا۔ جب لوگوں کو یہ خبر ملی کہ اُن کو اکسانے والے اختر علی خان خود معافی مانگ کر اپنے گاؤں چلے گئے ہیں تو وہ غضبناک ہو گئے اور ایک ہجوم اُن کے گھر کے گرد جمع ہو گیا مگر وہ وہاں پرنہیں تھے۔لاہور میں تین بڑے جلوس نکلے جنہیں پولیس نے روکا اور ہجوم نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا۔اب احمدیوں کے گرد خطرات کا گھیرا تنگ ہو رہا تھا۔ احمدیوں کی دوکانوں پر پکٹنگ کی جا رہی تھی اور کسی کو اُن سے سودا نہیں لینے دیا جاتا تھا۔لاہور ، لائل پور، منٹگمری،سیالکوٹ،راولپنڈی ،اوکاڑہ وغیرہ میں احمدیوں کو دھمکیاں مل رہی تھیں کہ یا تو تم احمدیت چھوڑ دو یا ہم تمہیں قتل کر دیں گے ،تمہاری عورتوں کو اغوا کر لیں گے اور تمہارا گھر بار لوٹ لیں گے۔ مولوی مختلف مقامات پر اشتعال انگیز تقاریر کر رہے تھے کہ احمدی کتوں سے بد تر ہیں ان کا مکمل بائیکاٹ کر دینا چاہئیے ۔بہت سے غیر احمدی دوست احباب یا تو نظریں چرا رہے تھے یا نظریں بدل رہے تھے۔مشہور کیا جا رہا تھا کہ جس طرح پہلے ہندوؤں اور سکھوں کو ملٹری یہاں سے لے گئی تھی اسی طرح یا تو احمدیوں کو قتل کردیا جائے گا اور یا انہیں ملٹری لے جائے گی۔۲ مارچ کو لوگ اختر علی خان صاحب کو *** ملامت کر کے واپس لاہور لائے اور انہوں نے دس ہزار کے جلوس کے ہمراہ گرفتاری پیش کی۔دوسرے لیڈروں کو بھی گرفتار کیا گیا۔اچانک ایک ہزار کے ہجوم نے اینٹوں ،ڈبوں اور بوتلوں سے پولیس پر حملہ کردیا۔ایک سو بلوائیوں کو گرفتار کیا گیا۔اس نام نہاد تحریکِ ختمِ نبوت والوں کی اخلاقی حالت کا یہ عالم تھا کہ اس دن لاہور کی سڑکوں پر ان لوگوں نے ٹریفک روک کر بھنگڑے ڈالے، فحش گالیاں دیں، ہلڑ بازی کی اور اپنے میں سے کچھ لوگوں کا منہ کالا کر کے بھانڈوں جیسی حرکتیں کیں(۹۶)۔حالات کے پیشِ نظر پولیس نے فوج کی مدد طلب کر لی۔گوجرانوالہ احراریوں کا ایک گڑھ تھا یہاں پر خود حکمران مسلم لیگ کے عہدے داروں نے حکومت سے تعاون کرنے سے انکار کردیا اور بلوائیوں کو اتنی جرا ء ت ہو گئی کہ انہوں نے ٹرین کو زبردستی روک لیا ۔پولیس نے ہوا میں فائرنگ کر کے ہجوم منتشر کیا۔سیالکوٹ میں جلوس نے ایک ممبر صوبائی اسمبلی کو اس کے دفتر سے نکالا اور اُس کا منہ کالا کر کے بازار میں اسے پھرایا۔اب یہ حالت ہو گئی تھی کہ بہت سے لوگ جو اس شورش کی مذمت کر رہے تھے انہیں بھی عملاََ اس کے خلاف کچھ عملی قدم اُٹھانے کی جرا ٔ ت نہیں ہو رہی تھی مبادا انہیں بھی مرزائی قرار دے دیا جائے۔ختمِ نبوت کے نام پر مولوی اس قسم کی بازاری حرکات کر رہے تھے کہ جنہیں دیکھ کر کسی بھی شریف آدمی کا سر شرم سے جھک جائے۔
چنانچہ ۲ مارچ کو لاہور کے پانچ جرائد کے ایڈیٹروں نے یہ مشترکہ بیان جاری کیا
’۔۔ختمِ نبوت مسلمانوں کے ایمان کا جزو ہے لیکن اس مقدس نام پر بھنگڑے سوانگ رچانا، مغلظ گالیاں بکنا، اور اخلاق سوز حرکات کرنا مسلمانوں کے لئے باعثِ شرم ہے۔‘(۹۷)
۳ مارچ کو فوج نے لاہور کا راؤنڈ کیا تو نسبتاََ خاموشی رہی۔چھوٹے چھوٹے جلوس نکلے ۔بعض مقامات پر پولیس نے راؤنڈ چلائے مگر کوئی جانی نقصان نہیں ہؤا۔اب پنجاب میں یہ عالم ہو چکا تھا کہ احمدیوں کے گھروں پر تو حملے اور پتھراؤ کئے جا رہے تھے اور انہیں ارتداد نہ کرنے کی صورت میں جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں مگر جو ان مفسدوں کو خوفِ خدا دلاتا اسے بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔سیالکوٹ میں ایک غیر احمدی کا مکان صرف اس لئے لوٹ لیا گیا کہ اس نے تشدد سے روکا تھا۔
۴مارچ کو ایک منظم سازش کے تحت لاہور میں شدید اشتعال پھیلایا گیا۔افواہ پھیلائی گئی کہ پولیس والوں نے قرآنِ کریم کو ٹھوکریں مار کر کلام اللہ کی توہین کی ہے ۔اس مضمون کے جھوٹے اشتہارات شائع کئے گئے کہ سرگودھا اور جھنگ میں ایک ہزار افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا ہے، حالانکہ تحقیقاتی عدالت میں ثابت ہؤا کہ اس دن ان دو شہروں میں ایک گولی بھی نہیں چلائی گئی تھی۔ یہ جھوٹی خبر پھیلائی گئی کہ احمدی موٹر کاروں میں سوار ہو کر اندھا دھند گولیاں چلا رہے ہیں۔یہ خبر بھی پھیلائی کہ ضلع پولیس اور سرکاری دفاتر کے ملازمین بلوائیوں کے ساتھ مل گئے ہیں۔مسجد وزیر خان کے قریب پولیس نے جلوس کو روکا تو دو پولیس افسران کو اغوا کر لیا گیا ۔جب ڈی ایس پی ان کو لینے کے لئے گیا تو اُس کو چھرے مار کر ہلاک کردیا اور ان کی لاش پر ۵۲ زخموں کے نشانات تھے۔مولوی عبد الستار نیازی کو گرفتار کرنے کا فیصلہ ہؤا مگر وہ مسجد وزیر خان میں چھپے ہوئے تھے اور اب وہاں پر پولیس جانے کی جرا ء ت نہیں کر سکتی تھی۔شہر میں کرفیو لگایا گیا اور پولیس نے بلوائیوں پر فائر کیا جس سے کچھ جانی نقصان ہؤا۔پورا شہر ایک ہنگامہ زار بنا ہؤا تھا ۔رات گئے تک مہیب اور ہولناک شور کی آواز آتی تھی۔اس روز بلوائیوں کے دستے تیزی سے شہر میں داخل ہو رہے تھے تا کہ تشدد کی اس مہم کو اور تیز کر سکیں۔لاہور میں ایک ہفتے کے لئے کرفیو لگا دیا گیا۔صوبے بھر میں جگہ جگہ احمدیوں پر حملے ہو رہے تھے ۔سیالکوٹ میں شورش کے چھ لیڈروں کو گرفتار کیا گیا تو بلوائیوں نے دفعہ ۱۴۴ کی خلاف ورزی کی اور پولیس پر حملہ کردیا ۔جواب میں فائرنگ ہوئی اور جلوس کے چار شرکاء ہلاک ہو گئے۔یہاں پر بھی حالات خراب کرنے کے لئے تحریکِ ختمِ نبوت والوں نے لاہور والے ہتھکنڈوں سے کام لیا۔مولویوں نے تقریریں کیں کہ پولیس نے قرآنِ کریم کی توہین کی ہے اور یہ جھوٹ بھی بولا کہ ایک مسجد پر پولیس نے ساڑھے تین گھنٹے فائرنگ کی ہے ،نہ معلوم کتنے مسلمان مارے گئے ہیں۔ اس اشتعال انگیزی کی وجہ سے سیالکوٹ میں دو احمدیوں کو شہید کر دیا گیا۔سیالکوٹ میں بھی فوج کو امن قائم کرنے کے لئے بلا لیا گیا۔ لائل پور میں بھی کشیدگی میں اضافہ ہو گیا۔اب صورتِ حال یہ ہو گئی تھی کہ جو لیڈر اس وقت خاموش رہنا چاہتا تھا ،اس پر بھی دباؤ ڈالا جاتا کہ وہ اس فتنے کے حق میں بیان بازی کرے۔چنانچہ مشہور سیاسی لیڈر حسین شہید سہر وردی اُس وقت ٹرین پر جا رہے تھے تو ا’ن کے ڈبے کو گھیر کر مظاہرہ کیا گیا کہ ان کی خاموشی کی وجہ کیا ہے ۔اس پر انہوں نے بلوائیوں کی رضا جوئی کے لئے بیان دیا کہ ختمِ نبوت کے مقدس عقیدے پر کسی مسلمان کو اختلاف نہیں ہو سکتا اور ان کی پارٹی کی میٹنگ میں اس تحریک کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔(۹۸،۹۹)
یہاں پر ضمناََ یہ ذکر کرنا مناسب ہے کہ جب یہ تحریک ناکام ہو گئی تو اس شورش کو برپا کرنے والوں نے حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرنے کا سلسلہ شروع کیا ۔مثلاََ مودودی صاحب سے جب اس شورش کی بابت سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا
’رہے وہ فسادات جو مارچ ۵۳ میں ہوئے تھے تو یہ بات بالکل خلافِ واقعہ ہے کہ وہ قادیانیوں کے خلاف تھے ۔ان کو قادیانیوں کے خلاف ہنگاموں (Anti Qadiani Disturbances)کا نام بالکل غلط دیا گیا ہے،جس سے نا واقفِ حال لوگوں کو خواہ مخواہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ یہاں کے عام مسلمان شاید قادیانیوں کو قتل و غارت کرنے پر تل گئے ہوں گے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ فسادات حکومت اور اور عوام کے درمیان اس کشمکش کی وجہ سے برپا ہوئے تھے کہ ایک طرف عوام قادیانیوں کے بارے میںمذکورہ بالا مطالبہ تسلیم کرانے کے لئے حکومت پر دبا ؤ ڈالنا چاہتے تھے اور دوسری طرف حکومت ان کے اس ایجی ٹیشن کو طاقت سے دبادینا چاہتی تھی۔پس تصادم دراصل حکومت اور عوام کے درمیان ہؤا تھا نہ کہ قادیانیوں اور عوام کے درمیان ۔قادیانیوں کی جان و مال پر عوام نے صرف اس وقت حملہ کیا جب انہیں یقین ہو گیا (اور اس پر یقین کے لئے اچھے خاصے وزنی وجوہ تھے)کہ فسادات کے دوران میں پولیس اور فوج کی وردیاں پہن کر بعض قادیانی مسلمانوں کو قتل کرتے پھر رہے ہیں۔(ملاحظہ ہو تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۱۵۶)‘(۱۰۰)
اب تو حقائق پیش کئے جا چکے ہیںان کی روشنی میں مودودی صاحب کی اس غلط بیانی کی لمبی چوڑی تردید کی ضرورت نہیں۔لیکن مندرجہ ذیل امور قابلِ توجہ ہیں
۱)جس دن شورش پھیلانے والوں نے یہ افواہ پھیلائی کہ احمدی فوجیوں اور پولیس کی وردی پہن کر گولیاں چلا رہے ہیں، وہ ۴ مارچ ۱۹۵۳ء کا دن تھا۔تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کے پہلے ڈیڑھ سو صفحے اس بات پر گواہ ہیں کہ اس سے بہت پہلے احمدیوں کو شہید کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا ۔ان کے گھروں پر اور ان کی دوکانوں پر حملے کئے جا رہے تھے۔ان پر ارتداد کے لئے ہر قسم کا ناجائز دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔اب مودودی صاحب کا یہ کہنا کہ اس سے قبل یہ فساد صرف حکومت اور ان جیسی جماعتوں (جن کو وہ عوام کا نام دے رہے ہیں )تھا بالکل غلط ہے۔
۲)تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کا حوالہ دے کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جیسے عدالت میں اس بات کو ثابت کر دیا گیا تھا کہ احمدیوں نے یہ وردیاں پہن کر لوگوں پر فائرنگ کر رہے تھے۔تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کے صفحہ نمبر ۱۵۶ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس صفحہ پر اس بات کا کوئی ذکر نہیں۔البتہ صفحہ نمبر ۱۵۹ پر جو ذکر ہے وہ من و عن درج کیا جاتا ہے۔اس رپورٹ میں لکھا ہے:۔
’شورش پسندوں نے حکام کے خلاف نفرت پھیلانے کے لئے جو دوسری چالیں اختیار کیں وہ حسبِ ذیل تھیں
۱) اس مضمون کے اشتہار شائع کئے گئے کہ جھنگ اور سرگودھا میں ایک ہزار سے زائد اشخاص گولیاں مار مار کر ہلاک کر دیئے گئے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اس دن ان مقامات پر ایک گولی بھی نہیں چلائی گئی تھی۔
۲) یہ افواہ پھیلائی گئی کہ احمدی موٹر کاروں میں سوار ہو کر اندھا دھند لوگوں پر گولیاں چلا رہے ہیں۔
۳) مسجد وزیر خان سے یہ اعلان کیا گیا کہ سرکاری ملازموں نے ہڑتال کر دی ہے اور تحریک میں شامل ہو ئے ہیں
۴) یہ خبریں پھیلائی گئیں کہ ضلع کی پولیس نے گولی چلانے سے انکار کر دیا ہے اور اب صرف بارڈر پولیس اور کنسٹیبلری پولیس گولیاں چلا رہی ہے۔
یہ بیان کہ بعض احمدی فوجی وردیاں پہنے ایک جیپ میں سوار ہو کر لوگوں کو اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بنا رہے تھے۔۔ہمارے سامنے موضوعِ ثبوت بنایا گیا ۔اور اس کی تائید میں متعدد گواہ پیش کئے گئے ۔اگرچہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک پر اسرار گاڑی میں بعض نامعلوم آ دمی اس دن شہر میں گھومتے رہے ۔لیکن ہمارے سامنے اس امر کی کوئی شہادت نہیں کہ اس گاڑی میں احمدی سوار تھے یا وہ گاڑی کسی احمدی کی ملکیت تھی۔‘(۱۰۱)
یہ بات واضح ہے کہ اس دن فسادات کے کرتا دھرتا جن میں مودودی صاحب کی پارٹی بھی شامل تھی جھوٹی افواہیں پھیلا کر لوگوں کو بھڑکا رہے تھے ۔ایک افواہ یہ بھی پھیلائی جا رہی تھی کہ احمدی فوجی وردیاں پہن کر گولیاں چلا رہے ہیں۔زیادہ سے زیادہ صرف یہ ثابت ہؤا تھا کہ اس دن ایک گاڑی شہر کا چکر لگاتی رہی تھی۔اس میں احمدیوں کی موجودگی یا اس گاڑی سے اندھا دھند گولیوں کے چلنے کے حق میں شواہد موجود نہیں تھے۔اس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جھوٹی افواہ بھی ان فسادات کو برپا کرنے والوں نے پھیلائی تھی تاکہ جب فوج یا پولیس فسادات کو قابو کرنے کے لئے نکلے تو لوگ مقابلہ کریں اور ملک میں بغاوت کا ماحول پیدا ہو جائے۔اور مودودی صاحب قولِ سدید سے کام لینے کی بجائے غلط بیانی سے کام لے کر تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس دن احمدیوں کو قتل کیا جا رہا تھا،ان کے مکانات جلائے جا رہے تھے،ان کی املاک لوٹی جا رہی تھیں۔اور پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔اگر احمدیوں نے کہیں گولیاں چلانی تھیں تو اپنی جانوںاپنی املاک کی جائز حفاظت میں چلاتے۔نہ کہ ادھر اُدھر اندھا دھند فائرنگ کرتے پھریں۔ عقل ہی اس الزام کو رد کر دیتی ہے۔
۵ مارچ کا المناک دن:
۵ مارچ اور چھ مارچ کو احمدیوں کے خلاف تشدد اپنے عروج پر اور شورش کی اخلاقی حالت پستی کی انتہا کو پہنچ گئی۔دشمن اس خیال میں تھا کہ پنجاب کی حکومت کوکچھ اپنا ہم نوا بنا کر اور کچھ بے بس کر کے اور معاشرے میں احمدیوں کے خلاف نفرت پھیلا کر اب وہ اپنی منزل کے قریب پہنچ چکا ہے۔وہ اس خیال میں تھے کہ چند روز میں وہ جبر و تشدد کا ایسا طوفان اُٹھائیں گے کہ یا تو احمدیوں کو صفحہِ ہستی سے مٹا دیا جائے گا یا پھر اُنہیں ارتداد پر مجبور کر دیا جائے گا۔مخالفین یہ خیال کر رہے تھے کہ احمدی بھی اُن جیسی فطرت رکھتے ہیں۔یہ اُن کی سب سے بڑی بھول تھی۔اب صوبہ پنجاب کے اکثر مقامات پر روزانہ جلوس نکل رہے تھے جو احمدیوں کے گھروں کا محاصرہ کر لیتے۔احمدیوں کو فحش گا لیاں نکالی جاتیں،ان کے خلاف نعرے لگائے جاتے اور ارتداد نہ کرنے کی صورت میں جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی جاتیں۔اپنی فطرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسخروں جیسی حرکات کی جاتیں تا کہ احمدیوں کو زیادہ سے زیادہ اذیت پہنچے ۔یہ سب کچھ تو صرف آغاز میںہوتا ۔پھر اکثر مقامات پر پتھراؤ شروع کر دیا جاتا کھڑکیاں دروازے توڑ دیئے جاتے تا کہ گھروں کا مال و اسباب لوٹنے میں آسانی ہو اور بہت سی جگہوں میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ مچائی جاتی یا سامان نذرِ آتش کیا جاتا یا گھر کو آگ لگائی جاتی ۔اہل خانہ کو زد و کوب کیا جاتا ۔بہت سے بلوائی نام نہاد ہمدرد بن کر آتے اور کہتے کہ جان سے مارے جاؤ گے احمدیت سے انکار کر دو اور اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے یہ جھوٹ بھی بولتے کہ فلاں فلاں اہم احمدی مرتد ہو گیا ہے۔لیکن جب بلوائیوںنے احمدیوں کو صبرواستقلال پر قائم دیکھا تو ان کی جھنجلاہٹ میں اضافہ ہو گیا۔اب وہ احمدیوں کے خون کے پیاسے ہو کرچاقو چھریاں لے کر پھر رہے تھے کہ جہاں احمدی نظر آئے تو اسے قتل کر دیا جائے یا پھر احمدیوں کو اغوا کرکے لے جاتے تا کہ ان سے کلمہ پڑھوائیں ۔یہ بد نصیب بلوائی اتنا نہیں سمجھتے تھے کہ یہ احمدی ہی تھے جو پوری دنیا کو دلائل سے قائل کر کے کلمہ پڑھوانے کے لئے دن رات کام کر رہے تھے ورنہ ان کے قائدین کوکبھی توفیق نہیں ہوئی تھی کہ دنیا میں اسلام کی تبلیغ کے لئے بھی کچھ کوشش کرتے۔بعض جگہ پر لوگوں نے قسمیں کھائیں کہ ان میں سے ہر ایک، ایک احمدی کو قتل کرے گا۔ جب جلوس کسی جگہ پر پہنچتا تو بسا اوقات ارد گرد کے لوگ اُن کی راہنمائی کرتے تا کہ انہیں احمدیوں کا گھر ڈھونڈنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔یہ تھی ہمسایوں کے حقوق کی ادائیگی۔کئی غیر احمدی رشتہ دار آتے تو بجائے ہمدردی کرنے کے دھمکیاں دے کر رخصت ہوتے۔اُن دنوں میں پنجاب کا معاشرہ عمومی طور پستی کی اس حالت کو پہنچ چکا تھا کہ سکول کے بچے بھی اس غلاظت میں دھنسنا شروع ہو گئے اور ایسے نظارے بھی دیکھے گئے کہ سکول کے بچوں نے معصوم احمدی بچوں کو مار پیٹ کر زخمی کر دیا حتیٰ کہ بچیوں نے بھی احمدی بچیوں کو مارا پیٹا اور گالیاں دیں۔جب بلوائی احمدیوں کے گھروں یا دیگر عمارات پر حملہ آور ہوتے تو اکثر اوقات پولیس کے چند سپاہی جو وہاں پر کھڑے ہوتے وہاں سے غائب ہو جاتے اور پولیس با وجود رپورٹ کرنے کے مدد کو نہ آتی۔ایسا بھی ہؤاکہ جب احمدی رپورٹ کرنے کے لئے پولیس اسٹیشن پہنچے تو دیکھا کہ پولیس والے فون پر فخر سے احمدیوں پر ہونے والے مظالم چسکے لے لے کر سنا رہے ہیں۔اور مولوی دن رات لوگوں کو اکسا رہے تھے کہ یہ قتل و غارت باعثِ ثواب ہے۔(۱۰۲)
ہر صاحبِ شعور کو یہ نظر آ رہا تھا کہ اسلام کے نام پر چلائی جانے والی اس تحریک میں شامل ہونے والے گرے ہوئے اخلاق کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔چنانچہ ۵ مارچ کو روزنامہ مغربی پاکستان نے لکھا،
’اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ تحریک غلط ہاتھوں میں جا کر خوفناک صورت اختیار کرے۔ وزیروں کو گالیاںدینا،سوانگ رچانا ،بھنگڑا ناچ کرنا کیا ان سب کا تعلق ختمِ نبوت سے ہے۔۔۔اور پھر آقائے نامدار کے ساتھ اس تحریک کو وابستہ کرکے جس طرح گالی گلوچ، بیہودہ گوئی اور شر انگیزی سے کام لے رہے ہیں،یقیناََ اس سے مذہب کے نام پر بٹہ لگ رہا ہے۔‘(۱۰۳)
۵ مارچ کو لاہور بلوائیوں کی سرگرمیوں کی آماجگاہ بنا ہؤا تھا ۔سارا دن شہر میں حکومت اور احمدیوں کی املاک کو لوٹنے اور آگ لگانے کا سلسلہ جاری رہا۔دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ کیا گیا تھا اور ایک مقام پر پانچ سے زیادہ افراد کے جمع ہونے کی ممانعت تھی مگر فساد کرنے والے اس حکم کو خاطر میں نہیں لا رہے تھے۔حکومت کی مشینری جو پہلے بے بس بنی رہی اب حقیقت میں بے بس ہو چکی تھی۔ دو ڈاک خانوں کو پہلے لوٹا گیا اور پھر آگ لگا دی گئی،حکومت کی اومنی بسیں اور گاڑیاں جلا دی گئیں،بہت سے کاروباری مراکز لوٹ لئے گئے ۔باغبانپورہ میں ایک احمدی مدرس منظور احمد صاحب کو شہید کر دیا گیا۔اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہو رہا تھا۔دیواروں پر اشتہار لگائے گئے جن میں پولیس کو کہا گیا تھا کہ وہ ہتھیار ڈال دے کیونکہ یہ جہاد ہو رہا ہے۔پنجاب کی حکومت اس صورتِ حال میں اجلاسات منعقد کرنے پر ہی اکتفا کر رہی تھی۔مودودی صاحب کو بلایا گیا تو انہوں نے کہا کہ خانہ جنگی شروع ہو چکی ہے۔مگر شام تک پنجاب حکومت نے مظلوم احمدیوں کی حفاظت کے لئے تو کوئی عملی قدم نہ اٹھایا مگر بلوائیوں کی سہولت کے لئے یہ ہدا یت جاری کی کہ گولی نہ چلائی جائے اور کر فیو کی معمولی خلاف ورزی پر توجہ نہ دی جائے ۔پولیس کے جو اہلکار صورتِ حال کو قابو کرنے کی کوشش کررہے تھے ان کے حوصلے بھی پست ہو گئے۔اس روز شورش کرنے والوں کی تمام توجہ صوبائی دارالحکومت پنجاب پر تھی باقی جگہوں پر نسبتاََ کم واقعات ہوئے۔۵ مارچ کو پنجاب حکومت نے یہ پر اسرار بیان جاری کیا کہ حالات ابھی اتنے خراب نہیں ہوئے کہ لاہورکا نظم و نسق فوج کے حوالے کیا جائے ۔(۱۰۴)بلوائیوں کے لئے یہ واضح اشارہ تھا کہ اب انہیںکھلی چھٹی دی جا رہی ہے۔
۵ مارچ کو حضرت مصلح موعود ؓ کا ایک پیغام جماعت میں تقسیم کیا گیا۔اس میں حضورؓ نے فرمایا کہ سرحد،سندھ،بلوچستان اور بنگال میں مخالفین کی شورش ناکام ہو چکی ہے۔بنگال میں با اثر علماء بھی اچھا نمونہ دکھا رہے ہیں۔البتہ پنجاب کے بعض مقامات پر افسران بزدلی دکھا رہے ہیں اور لاہور سیالکوٹ اور لائل پور میں شورش زیادہ ہے۔حضورؓ نے فرمایا
’آپ لوگ صبر سے کام لیں۔دعاؤں میں لگے رہیں۔فتنہ کی جگہوں سے بچیں۔ایک دوسرے کی خبر لیتے رہیں ۔مرکز سے تعلق بڑھانا چاہئیے۔افسروں سے تعاون کریں۔اور خدا پر پورا توکل کریں کہ جو آخر تک صبر سے کام لے گا اور ایمان پر قائم رہے گا ،وہی دائمی جنت کا وارث ہو گا۔اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرے گا ۔۔۔خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہارے لیے اُتر رہے ہیں اور اس کی نصرت بارش کی طرح برس رہی ہے۔جس کی آنکھیں ہیں وہ دیکھتا ہے اور جو اندھا ہے اسے تو کچھ بھی نظر نہیں آتا۔‘(۱۰۵)
۶ مارچ کا فیصلہ کن دن:
آخر چھ مارچ کا فیصلہ کن دن آ گیا۔اب تک تحریک چلانے والوں کی ذہنیت کھل کر سامنے آتی جا رہی تھی۔روزنامہ احسان اس تحریک کی پشت پناہی کرتا رہا تھا لیکن ۶ مارچ کے اداریے میں وہ بھی جماعتِ احمدیہ کے خلاف تحریک چلانے والوں کے متعلق یہ لکھنے پر مجبور تھا۔
’ ہم صاف صاف بتا دیں کہ یہ عناصر ہمارے ملک کے دشمن اور ہمارے دشمنوں کے دوست ہیں اور انہی کے اشارے پر یہ خونیں کھیل کھیل رہے ہیں۔‘(۱۰۶)
سچ تو بولا گیا مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی ۔حالات قابو سے باہر نکل چکے تھے۔
یہ جمعہ کا روز تھا ۔مسجد وزیر خان فساد کا مرکز بنی ہوئی تھی۔صبح سویرے تمام اطراف سے جلوس مسجد وزیر خان پہنچ رہے تھے۔حکومت کے دفاتر میں کام بند ہو گیا ۔مزدور کام چھوڑ کر اس فتنے سے ہمدردی کرنے کے لئے باہر نکل آئے۔بلوائیوں نے کوتوالی کا محاصرہ کر کے مطالبہ شروع کر دیا کہ جن پولیس افسران نے گولی چلائی تھی انہیں ان کے حوالے کیا جائے۔پولیس نے اس بات کا اظہار شروع کر دیا کہ حکومت کی کمزور پالیسی پولیس کے حوصلوں کو پست کر رہی ہے۔صوبائی سیکریٹیریٹ میں بھی ملازمین نے کام بند کر کے مطالبات کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دیئے۔گورنر ہاؤس کی بجلی کاٹ دی گئی۔ریلوے کی پٹری توڑ دی گئی اور انجن شیڈ پر بلوائیوں نے قبضہ کر کے انجنوں کو نکلنے سے روک دیا۔تین احمدیوں کو شہید کیا جا چکا تھا اور ان میں سے ایک کی لاش کو نذرِ آتش کر دیا گیا تھا۔احمدیوں کی دوکانیں لوٹی جا رہی تھیں۔پنجاب کے گورنر اور وزیرِ اعلیٰ بجائے حالات سنبھالنے کے کراچی فون کر کے وزیرِاعظم کو یہ اطلاع دے رہے تھے کہ حالات بہت خراب ہو چکے ہیں اور فون کاٹے جا رہے ہیں ۔اب شاید ہم بھی فون پر بات نہ کر سکیں۔اب لاہور کو بچانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ فسادیوں کے مطالبات تسلیم کر لئے جائیں۔یعنی معصوم احمدیوں کو قتل کیا جا رہا تھا،ان کی املاک کو لوٹا جا رہا تھا ،ان کو مرتد کرنے کے لئے وحشیانہ مظالم کئے جا رہے تھے اور بجائے ان کی حفاظت کرنے کے لئے وزیرِ اعلیٰ پنجاب وزیرِ اعظم کو مشورہ دے رہے تھے کہ احمدیوں کو بنیادی حقوق سے محروم کر دینا چاہئیے۔اس کے ساتھ انہوں نے اپنی مرکزی حکومت کی اعلان کردہ پالیسی کے خلاف اعلان جاری کیا کہ انہوں نے احمدیوں کے خلاف مطالبات کو اپنی تائید کے ساتھ مرکزی حکومت کو بھجوا یا ہے کہ کیونکہ یہ قوم کے متفقہ مطالبات ہیں۔اور یہ پر زور سفارش کی جا رہی ہے کہ چوہدری ظفراللہ خان کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا جائے۔ وزیرِ اعلیٰ دولتانہ صاحب کی چال یہ تھی کہ اس طرح وہ تحریکِ ختمِ نبوت کے ہیرو کے طور پر سامنے آئیں گے۔اور لوگوں کو یہ نظر آئے گا کہ ان کے دباؤ کے آگے مرکزی حکومت نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔اور اس کے نتیجے میں وہ آسانی سے وزیرِاعظم بن سکیں گے۔جیسا کہ انہوں نے تحقیقاتی عدالت کے روبرو اعتراف کیا کہ اس وقت وزیرِاعظم سے ان کے تعلقات سخت کشیدہ ہو چکے تھے۔اور یہ مطالبہ بھی خوب تھا کہ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا جائے ۔گویا اگر وزیرِ اعلیٰ پنجاب اپنے صوبے کے حالات کو قابو کرنے کے اہل نہیں ہے تو اس کی پاداش میں وزیرِ خارجہ کو مستعفی ہو جانا چاہئیے۔لیکن ان کے ا ندازے غلط نکلے۔جس وقت انہوں نے وزیرِ اعظم سے فون پر بات کی ،اس وقت مرکزی کابینہ کا اجلاس ہو رہاتھا۔وزیرِ اعظم نے سراسیمگی کے عالم میں اپنے وزراء سے پوچھا کہ اب کیا کرنا چاہئیے۔ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ نے تو اس موقع پر کچھ کہنا نہیں تھا۔مگر کابینہ کے دیگر اراکین نے سخت ردِ عمل دکھایا۔اور کہا کہ یہ کیسی حکومت ہے کہ جو ملک میں امن قائم رکھنے کے بھی قابل نہیں ۔اور بجائے مطالبات تسلیم کرنے کے مضبوط اقدامات کے حق میں رائے دی۔اتنے میں گورنر پنجاب نے دباؤ ڈالنے کے لئے دوبارہ فون کیا کہ فوراََمطالبات تسلیم کئے جائیں ورنہ لاہور راکھ کا ڈھیر بن جائے گا ۔حقیقت یہ تھی کہ وہاں پر احمدیوں کے گھر اور دوکانیں جلائی جا رہی تھیں۔یہ صرف ملک کے ایک حصے کو یر غمال بنا کر اپنی مرضی کا فیصلہ کرانے کی کوشش تھی ۔ وزیرِ اعظم نے دفاع کے سیکریٹری کو ہدایت دی کہ لاہور میں جنرل اعظم صاحب سے رابطہ کر کے حالات معلوم کئے جائیں۔جنرل صاحب نے جواب دیا کہ حالات تو خراب ہیں لیکن اگر حکومت ہدایت دے تو فوج ایک گھنٹے میں حالات کو قابو کر سکتی ہے۔چنانچہ مرکزی حکومت کی ہدایت پر لاہور کے علاقے میں مارشل لاء کا نفاذ کر دیا گیا اور حالات تیزی سے معمول پر آنا شروع ہو گئے۔(۱۰۷)
مارشل لاء کے نفاذ کے بعد :
اس سے قبل تو شورش برپا کرنے والے کہہ رہے تھے کہ وہ خون کے آخری قطرے تک جد و جہد کریں گے لیکن جب قانون نافذ کرنے والوں نے فساد کرنے والوں سے رو رعایت بند کردی تو لاہور میں جلد ہی ان کے حوصلے پست ہو گئے۔دوسرے انہیں یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ اب عوام ان کی حمایت نہیں کر رہے۔ایجی ٹیشن کرنے والوں نے مساجد سے نکل کر گرفتاریاں دینی شروع کر دیں اور ۸ مارچ تک تو لاہور میں امن و سکون بحال ہو گیا۔(۱۰۸)مسجد وزیر خان اس فساد کو برپا کرنے والوں کا سب سے بڑا مرکزتھا۔اور ادھر عبد الستار نیازی صاحب اشتعال انگیز کا روائیوں میں پیش پیش تھے۔جب انہیں یہ خطرہ دکھائی دیا کہ شاید انہیں گرفتار کر لیا جا ئے تو انہوں نے ایک استرے کی مدد حاصل کی۔کسی پر حملہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنی داڑھی سے نجات حاصل کرنے کے لئے ۔اس طرح وہ بھیس بدل کر کے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے مگر کچھ روز کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا۔اور سول اینڈ ملٹری گزٹ کی رگِ ظرافت پھڑکی تو ان کی دو تصویریں ’Before‘اور ’After‘ کے عنوان کے ساتھ شائع کردیں۔ایک میں موصوف ایک ضخیم داڑھی کے ساتھ تھے اور دوسری میں داڑھی غائب تھی۔(۱۰۹)
۶ ما رچ کے بعد لاہور کے علاوہ پنجاب کے دوسرے مقامات پر کچھ روز تک فسادات ہوتے رہے۔۶ مارچ کو جب دولتانہ صاحب کی اپیل ریڈیو پر نشر ہوئی تو ا‘س سے پورے پنجاب میں یہ تاثر لیا گیا کہ حکومت نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں،اور فسادات بالکل قابو سے باہر ہو گئے۔سیالکوٹ میں جلسے جلوس دوبارہ شروع ہو گئے اور ۷ مارچ کو جماعت کے مخالف مقررین پولیس اور فوج سے مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں۔۱۰ مارچ تک سیالکوٹ میں فسادات پر قابو پا لیا گیا۔
گوجرانوالہ کی صورتِ حال یہ تھی کہ ۸ مارچ کو جب فوج گوجرانوالہ میں داخل ہوئی تو ان کی آمد پر نعرے لگائے گئے’پاکستانی فوج نے گولی چلانے سے انکار کر دیا،پاکستانی فوج زندہ باد ‘اور ایسے پوسٹر لگائے گئے جن میں فوج اور پولیس سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور بلوائیوں کے ساتھ شامل ہو جائیں ۔ یہاں احمدیوں پر تشدد کیا جا رہا تھا کہ وہ احمدیت چھوڑ دیں۔پولیس نے احمدیوں کی مدد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔۱۱ اور ۱۲ مارچ کو یہاں پربھی حالات قابو میں آ گئے۔
راولپنڈی میں بھی فوج کو طلب کرنا پڑا ۔
جب ۶ مارچ کو راولپنڈی میں یہ اطلاع ملی کہ حکومت ِ پنجاب نے مطالبات تسلیم کر لئے ہیں تو حالات اور بھی نازک ہو گئے ۔اور احمدیوں کی ایک مسجد کو آگ لگا دی گئی۔ انتظامیہ نے ۷ مارچ کو فوج طلب کر لی۔۸ مارچ کو بھی جلوس نکالے گئے اور پولیس پر خشت باری کی گئی۔فائرنگ سے ایک آدمی ہلاک ہو گیا ۔شورش کے ایک ہزار سے زائد رضاکاروں نے گرفتاریاں دیں۔یہاں پر مسلم لیگ کے عہدیدار دوغلی پالیسی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ وہ بظاہر حکام کے حامی تھے مگر در پردہ شورش کی مدد کررہے تھے۔ مارچ کے تیسرے ہفتے میں راولپنڈی میں بھی حالات قابو میں آ گئے۔
اب لائلپور کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔یہاں پر جب دولتانہ صاحب کا اعلان پہنچا تو یہ تاثر لیا گیا کہ حکومت نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔اس سے فسادات میں اور تیزی آ گئی۔بعض مسلم لیگی ممبرانِ اسمبلی اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کر رہے تھے۔۷ مارچ غنڈے پن کا دن تھا۔دس ہزار کے مجمع نے کچہریوں پر حملہ کر دیا۔دوکانوں کی لوٹ مار کی گئی۔ٹرینیں روک کر مسافر عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ اور ستم یہ کہ پنجاب مسلم لیگ کے بعض ممبرانِ اسمبلی خود جلوسوں کی قیادت کر رہے تھے۔۱۰ مارچ کو تحریک ٹھنڈی پڑ گئی۔
۶ مارچ کو مظاہرین نے اوکاڑہ میں ٹرین کو روک لیا اور مسافر عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ یہ تھی اس تحریک کے چلانے والوں کی اخلاقی حالت ۔ٹیلیگرام کے تار کاٹ دیئے گئے تا کہ یہاں سے کہیں پر رابطہ کرنا ممکن نہ ہو۔اور احمدیوں کو اغوا کر کے زبردستی ارتداد کرانے کی کوشش کی گئی۔دولتانہ صاحب کے بیان سے جو صورتِ حال پیدا ہوئی تھی، اکثر مقامات پر چند روز میں اُس پر قابو پالیا گیا۔(۱۱۰،۱۱۱۱)۔بعد میں قائم ہونے والی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں شورش کی یہ تفاصیل شواہدکے ساتھ جمع کر کے شائع کی گئیں۔
یہ طوفانِ بد تمیزی صرف پنجاب تک محدود تھا۔پاکستان کے دوسرے صوبوں میں ایسی صورتِ حال پیدا نہیں ہوئی تھی۔لاہور میں مارشل لاء لگنے کے اگلے ہی روز یعنی ۷ مارچ کو سرحد کی صوبائی اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس میں سرحد کے عوام کو خراجِ تحسین پیش کیا کہانہوں نے حالیہ فسادات سے دور رہ کر سیاسی تدبر کا ثبوت دیا ہے۔سرحد کے وزیرِاعلیٰ خان عبد القیوم خان نے کہا
’ہمارے ملک میں ایسے سیاسی کھلاڑی موجود ہیں جو اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنی ہوشیاری سے علماء کرام کو استعمال کر رہے ہیں۔جن لوگوں کو سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی فکر ہے وہ راہنمایانِ دین کو اپنا آلہ کار بنا رہے ہیں۔‘(۱۱۲)
حضورؓ کا اہم پیغام:
حضور نے ۸ ؍مارچ کو جماعت کے نام اپنے پیغام میں فرمایا
’ریلوے اور لاریوں میں احمدیوں پر حملے کئے جا رہے ہیں۔لیکن اصل خطرناک بات یہ ہے کہ اب یہ لوگ اپنے اصل مقاصد کی طرف آ رہے ہیں۔سرکاری عمارتوں پر اور سرکاری مال پر حملہ کیا جا رہا ہے۔سرگودھا اور جھنگ کے بعض مقامات پر ہندوستان زندہ باد اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگا ئے گئے ۔سکھیکی پر ایک ٹرین میں چڑھے ہوئے افراد نے پاکستانی فوج مردہ باد کے نعرے لگائے۔اس سے ملک دشمنی اور غداری کی روح کا صاف پتہ چلتا ہے۔۔۔۔خدائی جماعتوں پر یہ دن آیا کرتے ہیں پس گبھرانے کی بات نہیں۔اپنے لیے اور اپنے ملک اور حکومت کے لئے دعا کرتے رہو۔اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ ہو۔‘(۱۱۳)
جب اس شورش کے کرتا دھرتا لوگوں نے دیکھا کہ اب وہ بازی ہار رہے ہیں تو ایک اور چال چلی ۔انہوں نے ایسے بیانات دیئے کہ اب دولتانہ صاحب اس تحریک کی قیادت خود سنبھال لیں ۔مگر اب دولتانہ صاحب اس پوزیشن میں نہیں رہے تھے کہ مزید سیاسی چالیں چلتے۔چنانچہ یہ کوشش بھی ناکام ہو گئی۔(۱۱۴)دولتانہ صاحب اب اپنے آپ کو بچانے کے لئے رنگ بدل رہے تھے۔انہوں نے اپنے ۶ مارچ کے اعلان کو منسوخ قرار دیتے ہوئے بیان دیا کہ اب تحریکِ ختمِ نبوت کے رہنماؤں سے بات چیت اور ان کے مطالبات پر غور کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔(۱۱۵)
۲۷ مارچ ۱۹۵۳ء کو حکومتِ پنجاب نے پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ کی دفعہ پانچ کے تحت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام حکم جاری کیا کہ وہ احرار اور احمدیوں کے اختلافات یا احمدیوں کے خلاف تحریک کے متعلق کسی قسم کا بیان نہ دیں ،نہ تقریر کریں اور نہ کوئی ایسی اطلاع یا مواد شائع کریں جس سے مختلف طبقوں میں نفرت یا دشمنی کے جذبات پیدا ہونے کا اندیشہ ہو(۱۱۶)۔حالانکہ اب تک ساری اشتعال انگیزی اور ظلم جماعت کے مخالفین کی طرف سے ہؤا تھا اور پنجاب حکومت بمع اپنے گورنر صاحب کے نہ صرف خاموش تماشائی بنی رہی تھی بلکہ مفسدین کی اعانت بھی کرتی رہی تھی۔ جیسا کہ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں تسلیم کیا گیابزرگانِ سلسلہ کو ایسی فحش گالیاں دی گئیں تھیں جن کے نتیجے میں اشتعال پھیلنا ایک قدرتی بات تھی۔احمدیوں کو شہید کیا گیا،ان کی املاک لوٹی گئیں۔اس وقت پنجاب حکومت کو صوبے میں قیامِ امن کا خیال نہ آیا اور اب جماعت ِ احمدیہ کے امام پر یہ پابندی لگادی گئی کہ وہ جماعت کے دفاع میں کچھ نہ کہیں کیونکہ اس سے اشتعال پھیلتا ہے۔ حضورؓ نے نوٹس لانے والے پولیس افسرسے فرمایا
’بے شک میری گردن آپ کے گورنر کے ہاتھ میں ہے لیکن آپ کے گورنر کی گردن میرے خدا کے ہاتھ میں ہے۔آپ کے گورنر نے میرے ساتھ جو کرنا تھا وہ کر لیا اب میرا خدا اپنا ہاتھ دکھائے گا۔‘
بہر حال حقیقت کا جزوی اعتراف خود گورنر صاحب نے۲۱ مارچ کو ریڈیو پر خطاب کرتے ہوئے ان الفاظ میں کیا
’پنجاب کے لوگ ہمیشہ اپنی حب الوطنی کے لئے مشہور رہے ہیں ۔اور انہیں بجا طور پر فخر رہا ہے کہ کڑی سے کڑی آزمائش میں بھی انہوں نے اپنے شعور اور نیک و بد میں تمیز کرنے کی صلاحیت کو قائم رکھالیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پچھلے دنوں ان میں سے بعض نے ملک کے دشمنوں کے فریب میں آ کر ایسی مذموم حرکات کیں جن سے پنجاب کے نام کو ایک بد نما دھبہ لگ گیا ۔خدا کا شکر ہے کہ بد امنی کی جو لہر پھیل گئی تھی اس پر قابو پالیا گیا ہے اور صوبہ میں تقریباََ ہر جگہ پھر امن و سکون کی فضا پیدا ہو گئی ہے ۔
بد امنی کی یہ تحریک بظاہر ختمِ نبوت کے تحفظ کے لئے شروع کی گئی لیکن جو مطالبات اس تحریک کے نام پر پیش کئے گئے وہ سراسر سیاسی تھے ۔عوام کو دھوکا دینے کے لئے انہیں مذہبی رنگ دیا گیا۔ یہ پراپیگنڈا غلط ہے کہ حکومت یا اس کے وزراء ختمِنبوت کو نہیں مانتے۔ لیکن اس مسئلہ کو بد امنی یا قانون شکنی کی دلیل بنانا اور ڈائرکٹ ایکشن کی ابتداء کرنا ایک خطرناک سازش تھی جس کی بیشتر ذمہ داری جماعتِ احرار پر عائد ہوتی ہے۔ یہ وہ جماعت ہے جو شروع سے پاکستان کی دشمن رہی۔ اور قیامِ پاکستان سے اب تک شاید ہی کوئی ایسا حربہ ہو جو اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال نہ کیا ہو ۔یہاں تک کہ احراریوں نے بانی پاکستان کی محترم ذات پر بھی حملے کرنے سے دریغ نہیںکیا۔
اس تحریک کا اصل مقصد ملک میں انتشار اور بد امنی پھیلانا تھا ۔اس لئے اس غدارانہ سازش میں بعض اور جماعتیں بھی شامل ہو گئیں جن کا مدعا ان ذرائع سے سیاسی اقتدار حاصل کرنا تھا ۔ سادہ لوح پنجابیوں کو غلط راستہ پر ڈالنے کے لئے ان کی آنکھوں پر مذہب کی پٹی باندھ دی گئی اور ان کے جذبات کو اشتعال انگیز تقریروں سے بھڑکایا گیا ۔اور ہرممکن کوشش کی گئی کہ حکومت کا نظام معطل ہوجائے۔۔۔۔
ان کے علاوہ ہمارے یہاں با شعور اور سمجھ دار لوگوں کا ایک طبقہ ایسابھی موجود تھا جو حالات کو اچھی طرح سمجھتا تھا ۔اور جانتا تھا کہ فسادی عناصر کی منزل کیا ہے ۔مگر ان میں سے اکثر خوف و ہراس کی وجہ سے خاموش رہے بلکہ کچھ لوگ تو تشدد کے ذریعے ہڑتالوں اور جلوسوں میں بھی شامل ہوتے رہے۔ چنانچہ جہاں کہیں شرفا کی پگڑی اچھالی گئی یا عورتوں کی بے عزتی ہوئی کسی نے بھی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ نہ کیا ۔حالانکہ ان مہذب شہریوں کا فرض تھا کہ آگے بڑھ کر ہمت سے ان اخلاق سوز حرکات کو روکتے ۔اس اخلاقی جرأ ت کی کمی کا نتیجہ یہ ہؤا کہ غنڈا گردی اندھا دھند پھیلنے لگی اور اس کی زد سے وہ لوگ بھی نہ بچ سکے جنہوں نے اس طوفانِ بد تمیزی سے الگ رہنے کی کوشش کی تھی ۔‘ (۱۱۷)
اس تقریر کو سن کر یا پڑھ کر پہلا سوال یہ پیداہوتا ہے کہ چندریگرصاحب عوام کو تو کوس رہے ہیں لیکن جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو وہ اس وقت صوبے کے گورنر تھے ۔وہ خود اُس وقت کہاں پر غفلت کی نیند سو رہے تھے؟انہوں نے تو اس شورش کو روکنے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔بلکہ جب غریب احمدیوں کو قتل کیا جا رہا تھا ،ان کی املاک کو لوٹا جا رہا تھا،ان کے گھروں کو نذرِ آتش کیا جا رہا تھا ،اس وقت چندریگر صاحب اور وزیرِ اعلیٰ دولتانہ صاحب وزیرِ اعظم کو فون کر کے دباؤ ڈال رہے تھے کہ فسادیوں کے مطالبات تسلیم کر لئے جائیں ۔اُس وقت ان کی اپنی اخلاقی جرأت کہاں تھی؟
فسادات دشمن کی مدد سے برپا کئے گئے،وزیرِ اعظم کا اعلان:
۱۹ مارچ کو ملک کی پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس تھا ۔اس میں تقریر کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے کہا کہ اس تحریک میں مذہب کے نام پر وحشیانہ حرکات کی گئی ہیں ۔احرار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ علماء قائدِ اعظم کو کافرِ اعظم کہتے تھے اور پاکستان کو پلیدستان کے نام سے پکارتے تھے۔انہوں نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی۔آج تک انہوں نے ملک سے باہر روابط رکھے ہوئے ہیں اور اُنہوں نے سیاسی دنیا میں واپس آنے کے لئے یہ طریقہ استعمال کیا ہے۔(۱۱۸)۔ ۲۴ مارچ کو وزیرِ اعظم کے دباؤ کے نتیجے میں دولتانہ صاحب کو مستعفی ہونا پڑا۔فسادات کے دنوں میں ان کی حکومت نے جو کارگذاری دکھائی تھی وہ سب کے سامنے تھی۔ایک صحافی نے اس استعفے پر اپنے مضمون کا آغاز ان الفاظ سے کیا
"Only a crocodile would shed tears on the fall of
Daultana Ministry"
دولتانہ وزارت کے استعفے پر صرف ایک مگر مچھ ہی آنسو بہا سکتا ہے۔(۱۱۹)
دولتانہ صاحب ختمِ نبوت کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے تھے۔لیکن ان چالبازیوں کے نتیجے میں ان کے حصے میں صرف سیاسی زوال ہی آیا۔بعد میں انہوں نے اپنی سیاسی جماعت بھی بنائی مگر انتخابات میں عبرتناک شکست سے دوچار ہوئے اور یہ جماعت اپنی موت آپ مر گئی۔ایک مرحلے پر ان کو پاکستان کا سفیر بنایا گیا ۔ان کی زندگی کے آخری ایام میں ان کی سیاسی حیثیت بالکل ختم ہو چکی تھی اور اسی ناکامی کی حالت میں وہ اس عالمِ فانی سے رخصت ہو گئے۔ فاعتبرو ا یا اولی الابصار
حکومت کی طرف سے احمدیوں پر مظالم:
اب تک جماعت کے مخالف مولویوں کے خلاف کاروائی ہو رہی تھی،ان کی گرفتاریاں ہو رہی تھیں اور ان کو سزائیں مل رہی تھیں کیونکہ یہی لوگ ملک میں فساد برپا کرنے والے تھے۔لیکن اب حکام کو یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ اس طرح کہیں اُن پر مرزائی نواز ہونے کا الزام نہ آ جائے۔جب کہ دوسری طرف اُ ن کے علم میں تھا کہ جماعت احمدیہ ایک امن پسند جماعت ہے اور فتنہ و فساد سے اُن کا دور کا تعلق بھی نہیں۔چنانچہ تحقیقاتی عدالت میں پولیس افسران نے یہ اعتراف کیا،
’اگر احمدیوں نے کچھ کیا ہے تو وہ صرف زبانی الفاظ یا اخباروں میں مقالات کی اشاعت تک محدود تھا۔اس کے برعکس احرار کچھ ایسے کام کر رہے تھے جو قانون شکنی اور تشدد کی طرف لے جانے والے تھے۔‘(۱۲۰)
سردار عبد الرب نشتر اُس وقت مرکزی کابینہ میں وزیر تھے اور عمومی طور پر جماعت کے مخالف سمجھے جاتے تھے لیکن انہوں نے بھی عدالت کے روبرو اقرار کیا ،
’مجھے جماعتِ احمدیہ سے کسی بد امنی کا خدشہ نہیں تھا۔‘(۱۲۱)
لیکن کاروائی میں نام نہاد توازن پیدا کرنے کے لئے احمدیوں کے خلاف بھی کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
یکم اپریل کو فجر کے وقت فوجیوں نے رتن باغ لاہور کا محاصرہ کرلیا ۔جہاں اُس وقت خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ گھرانے مقیم تھے۔اور تلاشی لینے کا عمل شروع ہؤا ۔ لیکن جب کوئی قابلِ اعتراض چیز نہیں ملی تو پھر دن چڑھنے کے بعد دوبارہ تلاشی لی گئی اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو گرفتار کر لیا گیا۔ اور ان دونوں مقدس وجودوں کو جن الزامات کی بنا پر گرفتار کیا گیا ،وہ حکام کے ذہنی عدم توازن کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی بیگم صاحبہ مالیر کوٹلہ کے نواب خاندان سے تھیں۔اور وہاں کے رواج کے مطابق انہیں بھی جہیز میں ایک ایسا سجانے والا چھ سات انچ کا خنجر دیا گیا تھا جس کی دونوں اطراف کند بنائی جاتی ہیں اور وہ صرف سجانے کے ہی کام آ سکتا ہے۔ راقم الحروف نے وہ نام نہاد خنجر خود دیکھا ہے اور اس کی دونوں اطراف پر ہاتھ پھیر کر بھی دیکھا۔اس خنجر سے تو کوئی بینگن یا آلو بھی نہیں کاٹ سکتا کجا یہ کہ امنِ عامہ کا کوئی مسئلہ پیدا ہو۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کو اس سے بھی عجیب و غریب الزام لگا کر گرفتار کیا گیا۔آپؓ کا بندوق بنانے کا کارخانہ تھا ۔پاکستانی فوج آپ سے کچھ سنگینیں تیار کروانا چاہتی تھی۔جیسا کہ ایسی خریداری میں معمول کی بات ہوتی ہے ان کو نمونے کی سنگین تیار کر کے بھجوائی گئی اور ان کی طرف سے جواب بھی موصول ہؤا کہ اس آرڈر کے لئے سنگینیں اس طرز پر بنائی جائیں۔اور پاکستانی فوج کی طرف سے ملنے والے خطوط بھی آرمی کے حکام کو دکھائے گئے ۔لیکن حضرت مرزا شریف احمدؓ صاحب کو فوجی حکام نے اُس نمونے کی سنگین کی بنا پر گرفتار کر لیا جو خود پاکستانی فوج نے ہی تیار کروائی تھی۔ گرفتار کرنے والوں نے تو ان الزامات کے تحت ان دونوں بزرگان کو گرفتار کیا تھا ، فوجی عدالت اُن سے بھی بڑھ کر نکلی۔ان نام نہاد جرائم کی پاداش میں،حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کو ایک سال قید با مشقت اور پا نچ ہزار روپیہ جرمانہ اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو پانچ سال قید با مشقت نیز پانچ سو روپیہ جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔ان کے ساتھ بعض اور احمدیوں کو بھی گرفتار کیا گیا تھا ۔ان بزرگان اور ان کے ہمراہ گرفتار شدہ احمدیوں نے اسیری کے یہ دن نہایت صبر و رضا کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے بسر کئے۔ با وجود اس کے کہ مارشل لاء کے تحت سخت ترین سزائیں دی جا رہی تھیں اور کئی لوگوں کو سزائے موت بھی سنائی گئی تھی لیکن اس کے با وجود یہ دونوں مقدس وجود احمدی گرفتار شدگان کو یہی تلقین کرتے رہے کہ کسی صورت میں سچائی کا دامن نہیں چھوڑنا اور ہر حال میں سچی بات ہی کہنی ہے۔مگر خدا کا شکر ہے کہ دو ماہ کے بعد ان دونوں بزرگان کو رہا کر دیا گیا۔اور باقی احمدی اسیران بھی جلد رہا کر دیئے گئے۔
یکم اپریل کو ہی ربوہ میں ایس پی صاحب پولیس ضلع جھنگ پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ قصرِ خلافت میں آ گئے ۔انہیں یہ حکم ملا تھا کہ وہ قصرِ خلافت کی تلاشی لیں۔انہوں نے کہا کہ وہ حضورؓ سے ملنا چاہتے ہیں۔مگر انہوں نے شریفانہ رویہ دکھایا اور عرض کی کہ ہم تلاشی نہیں لیں گے اور رپورٹ دے دیں گے کہ تلاشی لی گئی تھی لیکن کوئی قابلِ اعتراض چیز نہیں ملی لیکن حضورؓ نے ارشاد فرمایا کہ آپ ا حکامات کی پیروی کریں اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو میں اخبار میں اعلان کرادوں گاکہ یہ بالکل غلط ہے انہوں نے تلاشی نہیں لی۔چنانچہ انہوں نے حضورؓ کے گھر کی تلاشی لی اور اسی روز صدرانجمن احمدیہ کے دفاتر کی تلاشی بھی لی گئی اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو خبرناموں کی بناء پر گرفتار کیا مگر پھر ضمانت لے کر رہا کر دیا۔
دولتانہ صاحب تو مستعفی ہو چکے تھے ۔اپنی تقریر میں سارا الزام عوام پر لگا کر گورنر چندریگر صاحب نے اپنی کرسی بچانے کی کوشش کی تھی لیکن ۲۲ اپریل کو گورنر جنرل پاکستان نے انہیں برطرف کر کے امین الدین صاحب کو پنجاب کا گورنر مقرر کر دیا۔ اور نئے گورنر صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے نام نوٹس واپس لینے کا اعلان کر دیا۔(۱۲۲۔۱۲۳)
فساد شروع کرنے والوں کا انجام:
۱۹۵۳ء کے فسادات کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتِ احمدیہ تو پہلے سے زیادہ تیزرفتاری سے ترقی کرتی رہی مگر اس شورش کو شروع کرنے والے عبرتناک انجام کو پہنچے۔مجلسِ احرار کا شیرازہ بکھرنے لگا ۔اس کے لیڈر اپنے امیرِ شریعت عطا ء اللہ شاہ بخاری صاحب کو چھوڑ کر دوسری سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے لگے ۔جب عطا ء اللہ شاہ بخاری صاحب کو خبر ملی کہ اُن کے رفقاء اُن کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور بار بارپنجابی کے دوہے پڑھتے تھے جس کا مطلب تھا کہ ’جن کا دعویٰ تھا کہ ہم تیرے ساتھ مریں گے وہ لوگ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے ۔‘(۲۷)۔و ما یعدھم الشیطن الا غرورا(بنی اسرائیل ۶۵) شیطان جو وعدے بھی کرتا ہے فریب کی نیت سے ہی کرتا ہے۔عطا ء اللہ شاہ بخاری صاحب کو آخری عمر میں جب سب چھوڑ چھاڑ گئے تو وہ اکثر اپنی عبرتناک حالت کا ذکر بڑی حسرت سے کرتے تھے۔آخری عمر میںایک بار ایک صحافی آپ کے پاس آیا تو دیکھا کہ ملتان میں ایک کچے سے مکان میں آپ کی رہائش ہے۔اُس نے پوچھا کہ اب جب کہ آپ اتنے بیمار ہیں ،کیا کبھی آپ کو کبھی کوئی پوچھنے بھی آیا ہے؟انہوں نے بڑی حسرت سے کہا ،
’ بیٹا جب تک یہ کتیا ( زبان )بھونکتی تھی ، سارا بر صغیر ہند و پاک ارادت مند تھا ۔اس نے بھونکنا چھوڑ دیا ہے تو کسی کو پتا ہی نہیں رہا کہ میں کہاں ہوں۔‘(۱۲۶)
خدا کی شان ہے کہ اسی زبان نے ہزارہا مرتبہ حضرت مسیح موعودؑ کی شانِ اقدس میں گستاخی کی تھی۔اور اب شاہ جی خود اسے کتیا کا نام دے رہے تھے۔
مودودی صاحب اور ان کی جماعتِ اسلامی نے پہلے تو یہ موقف اختیار کئے رکھا کہ قادیانیوں کی مخالفت جس طرز پر ہو رہی ہے وہ ان کو کوئی نقصان پہنچانے کی بجائے ان کی تقویت کا موجب ہو رہی ہے۔اگر ان کا ابطال کرنا ہی ہے تو چاہئیے کہ سنجیدہ،علمی اور سائینٹیفیک طریقے پر ان کی تنقید کی جائے۔ لیکن جب انہیں یہ نظر آیا کہ وہ اس طرح سیاسی فوائد اُٹھا سکتے ہیں تو وہ بھی اس شورش میں شامل ہو گئے۔ڈاکٹر اسرار احمد صاحب جو اُس وقت جماعتِ اسلامی میں شامل تھے مگر پھر یہ دوغلی پالیسی دیکھ کر علیحدہ ہو گئے لکھتے ہیں
’اس داستان کا المناک ترین باب ’مسئلہ قادیانیت ‘ میں جماعتِ اسلامی کا طرزِ عمل ہے! اس کے دوران جماعت اور اس کے قائدین نے جس طرح اپنے اصولوں کی بجائے عوام کے چشم و ابرو کے اشاروں پر حرکت کی ہے۔اسے دیکھ کر انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ اتنی قلیل مدت میں ایک جماعت کا مزاج اس درجہ بھی بدل سکتا ہے؟‘(۱۲۴)
آخر میں مودودی صاحب کے ساتھیوں کو اعتراف کرنا پڑا کہ یہ تحریک سیاسی مقاصد کے تحت چلائی گئی تھی ۔جیسا کہ مودودی صاحب کے حالاتِ زندگی بیان کرتے ہوئے اسعد گیلانی صاحب لکھتے ہیں،
’پنجاب کی حکومت نے بیورو کریسی کے ساتھ مل کر اپنی ہی مرکزی حکومت کے خلاف مورچہ لگایا۔قادیانی مسئلہ خود اُٹھایا تا کہ مذہبی عناصر کو بد نام کر کے کچلا جا سکے ۔ اس طرح نظریہ پاکستان اسلام کے لیے پاکستان میں ہی سارے دروازے بند کر دیے گئے ‘(۱۲۵)
پاکستان پر شورش کے اثرات:
۱۹۵۳ء کے فسادات صرف جماعتِ احمدیہ کی تاریخ کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ کا بھی ایک اہم سنگِ میل ہیں۔حکومت کی طرف سے ان فسادات پر تحقیق کے لئے تحقیقاتی عدالت بھی قائم کی گئی جس نے اپنے طور پر ان واقعات کی تحقیق کی ۔جہاں تک جماعتِ احمدیہ کا تعلق ہے تو جماعت کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت پہلے سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرتی رہی اور اس آزمائش سے سرخرو ہو کر نکلی۔لیکن اس شورش نے پاکستان کی مملکت کو جڑوں سے ہلا دیا اور کئی پہلؤں سے نا قابلِ تلافی نقصان پنچایا۔ہم مختصراََ ان میں سے چند پہلؤں کا ذکر کریں گے۔
۱)پاکستان میں فرقہ واریت کے نام پر فسادات برپا کرنے کا آغاز ہؤا۔جو آگ جماعتِ احمدیہ کے خلاف بھڑکائی گئی تھی اس سے اللہ تعالیٰ نے جماعت کو تو سلامتی کے ساتھ نکال لیا مگر پاکستان میں مذہب کے نام پر منافرت کا سیاہ باب شروع ہو گیا ۔پچاس سال سے زیادہ عرصہ گذر گیا شیعہ سنی فسادات جیسی *** نے ملک کا امن برباد کیا ہؤا ہے۔قتل و غارت ،فسادات ،نمازیوں کو گولیوں سے چھلنی کر دینا،دھماکے ،یہ سب کچھ آج مذہب کے نام پر کیا جا رہا ہے۔
۲) ملک میں مذہب کا نام استعمال کر کے سیاسی فوائد حاصل کرنے کا آغاز ہؤا۔افسوس سیاستدانوں نے دولتانہ صاحب کے انجام سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور مسلسل مذہبی منافرت پھیلا کر سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔جس سے ملک کا سیاسی اور معاشی ڈھانچہ بری طرح تباہ ہؤا ہے۔
۳)ان فسادات کے ساتھ مساجد کو دہشت گردی کے اڈوں میں تبدیل کرنے کے مذموم عمل کا آغاز ہؤا۔حکومت کی غفلت کی وجہ سے یہ عمل اب اتنا بڑھ چکا ہے کہ پاکستانی حکومت اب اس کے ہاتھوں عاجز آ چکی ہے۔ملک کا امن علیحدہ برباد ہؤا ہے اور بہت دفعہ اس طریق کار کو حکومتِ پاکستان کے خلاف استعمال کیا گیا ہے۔اس وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان بد نام ہو چکا ہے۔
۴)یہ پہلی مرتبہ تھا کہ پاکستان میں انتخابات کی بجائے سڑکوں پر فسادات کرا کے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔اور مطالبات منوانے کے لئے بلوے کرائے گئے۔اس مثال کے قائم ہونے کے بعد ہر چند سالوں کے بعد ملک میں یہ عمل دہرایا جاتا رہا اور اس طرح بار بار ملک کی معاشی زندگی مفلوج ہوتی رہی۔
۵) اس شورش نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ ملک میں پہلی مرتبہ مارشل لاء لگانا پڑا ۔گو یہ محدود جگہ پر اور محدود وقت کیلئے لگایا گیا تھا۔مگر اس کے بعد پاکستان کی تاریخ میں بار بار مارشل لا ء لگتے رہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں سیاسی عمل کا تسلسل ختم ہو گیا۔
۶) ان فسادات نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ ہی عرصہ کے بعد گورنر جنرل نے۱۷ ،اپریل ۱۹۵۳ئ؁کو وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین صاحب کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ سربراہ ِمملکت نے سربراہِ حکومت کو برطرف کیا ۔اُس وقت سے یہ عمل شروع ہؤا اور اب تک اس پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ملک کی تاریخ میں بار بار حکومتوں کو برطرف کیا گیا،جس سے مسائل بڑھتے گئے۔
۱۹۵۳ء کے فسادات کے سیاسی نتائج کے متعلق ڈاکٹر صفدر محمود صا حب اپنی کتاب ’مسلم لیگ کا دورِ حکومت‘ میں لکھتے ہیں
’بہر حال اس سے دولتانہ صاحب اور خواجہ صاحب میں ٹھن گئی۔چنانچہ دولتانہ صاحب خواجہ صاحب کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے کی ترکیبیں سوچنے لگے تا کہ خود قبضہ کر سکیں۔۔۔ چنانچہ دولتانہ صاحب نے اینٹی قادیانی تحریک کو غنیمت جانا اور اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعما ل کا منصوبہ بنا لیا ۔اس تحریک کو احرار نے جنم دیا ،علماء نے پروان چڑھایا، خواجہ ناظم الدین کے مذہبی جھکاؤ ،کاہلی،علماء سے خوف اور نا اہلی نے پھلنے پھولنے کا موقع بہم پہنچایا اور جب اس تحریک کی لگائی ہوئی آگ بھڑک اُٹھی تو دولتانہ صاحب نے اس کا رخ مرکزی حکومت کی طرف پھیر دیا ۔حتیٰ کہ اس آگ نے جہاں خواجہ صاحب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔وہاں دولتانہ صاحب کا سیاسی آشیاں بھی جلا کر راکھ کر دیا ۔غلام محمد نے سیاسی راہنماؤں کے نفاق سے فائیدہ اٹھا کر خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر دیا۔‘
ہمیں کچھ کیں نہیں بھائیو نصیحت ہے غریبانہ:
مخالفین جماعت نے پاکستان کے بعد بہت سے ممالک میں ایسی ہی طرز پر تحریکیں ا’ٹھانے کی کوششیں کی ہیں۔اور بہت سے ممالک میں تو پاکستان سے گئے ہوئے علماء فساد کرانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ان علماء نے پہلے پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھ میں آلہ کار بن کر پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ۔اور اب یہ دوسرے ممالک میں فتنے اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان ممالک کی حکومتوں اور عوام کو پاکستان کی مثال سے سبق حاصل کرنا چاہئیے۔اپنے ملک سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ کا بغور جائزہ لیں کہ ان علماء نے پاکستان کو کیا کیا نقصانات پہنچائے ہیں۔اور پھر دیکھیں کہ جب کسی حکومت نے ان سے رو رعایت کرنا شروع کی اور ان کی قانون شکنی اور اشتعال انگیزیوں کا بر وقت نوٹس نہیں لیا تو اس حکومت کا کیا انجام ہؤا۔اور عالمِ اسلام کے سیاستدانوں کویہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہئیے کہ جماعت کی مخالفت کر کے اور ختمِ نبوت کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر کے آج تک کوئی سیاستدان کامیاب نہیں ہو سکا۔ جہاں بھی ملا کو اس بات کی اجازت دی جائے گی کہ وہ احمدیوں کے خلاف فسادات برپا کرے، یہ آکاس بیل اس ملک کا خون چوس کر اِس کومعاشی ،مذہبی اور سیاسی طور پر تباہ کر دے گی۔احمدیوں کو اپنے مستقبل کے متعلق کوئی خوف نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ا’ن کا پیار کرنے والا خدا ہمیشہ اُن کی حفاظت کرتا رہا ہے لیکن یہ خوف ضرور ہے کہ کہیں ملا کے پیچھے لگ کر بہت سے مسلمان ممالک اپنی دنیا اور عاقبت تباہ نہ کر لیں۔
(۱) خطباتِ احرار جلد اول ،مرتبہ شورش کاشمیری،مکتبہ احرار لاہور ،مارچ ۱۹۴۴ء ص۳۷
(۲)خطباتِ محمود جلد ص۴۳۶ ۔۴۵۷(۳)الفضل ۲۱ مئی ۱۹۴۷ء ص۲
(۴)پرتاب ۹ جون ۱۹۳۹ء ص ۹(۵)پرتاب ۱۸ جون ص ۹
(۶)پرتاب ۱۶ جون ۱۹۳۹ء ص۵(۷)زمیندار ۲۸ جنوری ۱۹۴۰ء
(۸)حیاتِ امیر شریعت،مصنفہ جانباز مرزا،ثنائی پریس لاہور نومبر ۱۹۶۹ء ص۳۵۲۔۳۵۶
(۹) حیات امیرشریعت جلد اول، مرتبہ شورش کاشمیری ،مکتبہ احرار لاہور،مارچ ۱۹۴۴ء ص۲۱۔۲۲وص۴۲
(۱۰)حیاتِ امیرِ شریعت،مصنفہ جانباز مرزا ،ثنائی پریس لاہور،نومبر ۱۹۶۹ء ص۳۲۳۔۳۲۴
(۱۱) حیاتِ امیرِ شریعت ،مصنفہ جانباز مرزا ،ثنائی پریس لاہور نومبر ۱۹۶۹ء ص۳۵۲
(۱۲)رپورٹ تحقیقاتی عدالت ،فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۱۱
(۱۳)مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ،حصہ سوم،مصنفہ سید ابو الاعلیٰ مودودی ص۳۰
(۱۴) مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ، مصنفہ سید ابو الاعلیٰ مودودی،مکتبہ جماعتِ اسلامی،دارالاسلام ۔جمال پور پٹھانکوٹ ص۱۳۶
(۱۵)پرتاب ۴ اکتوبر ۱۹۳۹ء زیرِ عنوان ’مسلمانوں کی اقتصادی اور سیاسی بہبود کیلئے ایک اور پاکستانی سکیم‘
(۱۶) پرتاب ۱۵ جنوری ۱۹۳۹ء ص۳۲(۱۷)احسا ن ۷ جنوری ۱۹۴۲ء ص ۶(۱۸)آزاد ،۲۶ دسمبر ۱۹۵۰ء ص ۴
(۱۹) حیاتِ امیرِ شریعت، مصنفہ جانباز مرزا،ثنائی پریس لاہور،نومبر ۱۹۶۹ء ص۳۹۱۔۳۹۲
(۲۰)رپورٹ تحقیقاتی عدالت ،فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ء ص۱۲
(۲۱)جماعت اسلامی کا رخِ کردار ،مرتبہ چوہدری حبیب احمد ،پاکستان ٹائمز پریس لاہور ،دوسرا ایڈیشن،ص۹۶ ،مکتبہ جماعتِ اسلامی ،دارالاسلام ۔جمال پور ۔پٹھانکوٹ ،ص۳۷
(۲۲)خطباتِ احرار جلد اول ،مرتبہ شورش کاشمیری،مکتبہ احرار لاہور ،مارچ ۱۹۴۴ئ،ص۱۷۔۱۸
(۲۳)حیاتِ امیرِ شریعت ، مصنفہ جانباز مرزا،ثنائی پریس لاہور نومبر ۱۹۶۹ئ،ص۴۰۲۔۴۰۳
(۲۴)حیاتِ امیرِ شریعت،مصنفہ جانباز مرزا،ثنائی پریس لاہور نومبر ۱۹۶۹ء ص۴۰۶
(۲۵)رپورٹ تحقیقاتی عدالت ،فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ء ص۱۳
(۲۶) خطباتِ احرار جلد اول ،مرتبہ شورش کا شمیری ،مکتبہ احرار لاہور،مارچ ۱۹۴۴ء ص۹۵
(۲۷) خطباتِ احرار جد اول ِمرتبہ شورش کاشمیری،مکتبہ احرار لاہور ،مارچ ۱۹۴۴ء ص۳۲ (۲۸)آزاد ،۴ دسمبر ،۱۹۵۰ء ص ۲
(۲۹) رجسٹر کاروائی مجلس ناظران و وکلاء رجسٹر ۲،ص۴۲ ،تاریخ ۴۹۔۱۔۱۵(۳۰)آزاد ۳۰ اپریل ۱۹۵۰ء ص ۵
(۳۱)تحقیقاتی رپورٹ فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ء ص۱۸۔۲۸ (۳۲)احسان ۶ اکتوبر ،۱۹۳۹ء
(۳۳)پرتاب یکم اکتوبر ۱۹۳۹ئ(۳۴)الفضل ۵ جولائی ۱۹۵۰ء ص۳۔۵(۳۵) آزاد، ۲۸ جون۱۹۵۰ء صحفہ آخر
(۳۶)آزاد ،۶ جولائی ۱۹۵۰ء ص۵(۳۷)آزاد ۱۰ جولائی ۱۹۵۰ء ص۷(۳۸)الفضل ۱۵ جون ۱۹۵۱ء ص۱
(۳۹)آزاد ۴ دسمبر ۱۹۵۰ء ۵۔۶(۴۰)آزاد ،کانفرس نمبر ،۲۶ دسمبر ۱۹۵۰ء ص۲۱و۱۴
(۴۱)تجدید و احیائے دین ،مصنفہ مودودی صاحب ،ناشر اسلامک پبلیکشنز،مارچ ۱۹۶۱ء ص ۵۳ تا ۵۸
(۴۲)مودودی صاحب اور ان کی تحریروں کے متعلق چند اہم مضامین ،مصنفہ سید حسین احمد مدنی ،محمد ذکریا صاحب ،مفتی محمد شفیع صاحب وغیرہ،ناشر دارالاشاعت کراچی ص۲۶۳
(۴۳) جنگ کراچی ،۱۱ جولائی ۱۹۵۲ء (۴۴)الفضل ۱۱ فروری ۱۹۵۱ء ص ۱ ۔۲
(۴۵) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۲۹۔۳۰۔۳۶
(۴۶) تحقیقاتی رپورٹ فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ء ص۳۰(۴۷) آزاد ۲۶ دسمبر ۱۹۵۰ء ص(۴۸) الفضل ۲۶ اپریل ۱۹۵۱ء (۴۹)الفضل ۳۱ مئی ۱۹۵۱ء ص ۶(۵۰) زمیندار ،۲ جنوری ۱۹۵۳ء ،گولڈن جوبلی نمبر،ص۳۴
(۵۱) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب۱۹۵۳ء ص۸۳۔۸۸
(۵۲)الفضل ۱۹ فروری ۱۹۵۲ء ص۱و۳(۵۳)رپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ء ص۳۴۔۳۵
(۵۴)الفضل ۲۴ فروری ۵۲ ۱۹ ص۷(۵۵) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ء ص۴۹
(۵۶)رپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ء ص۷۷(۵۷)الفضل ۲۸ مئی ۱۹۵۳ء ص۵
(۵۸)الفضل ۲۱ مئی ۱۹۵۲ء ص۱(۵۹) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ص۵۷
(۶۰) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ء ص۸۲
(۶۱)رپورٹ تحقیقاتی عدلت فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ء ص۶۳۔۷۱
‏(۶۲)The Civil & Military Gazette ,22 July,1952, p1
‏(۶۳)The Civil & Military Gazette,25 July 1952 p3
(۶۴)آزاد ، ۵ اکتوبر ۱۹۵۲ء ص۱(۶۵)آزاد ۳ جون ۱۹۵۲ء ص۱
(۶۶) اپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۶۵ ۔۶۶
(۶۷) رپورٹ تحقیقاتی عدالت ،فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ء ص۹۳۔۹۸(۶۸) الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۵۲ء ص۱
(۶۹) الفضل ۲ اگست ۱۹۵۲ء ص۲(۷۰)الفضل ۳ اگست ۱۹۵۲ء ص ۸(۷۱) الفضل ۸ اگست ۱۹۵۲ء ص۱
(۷۲)آزاد ۱۳ اگست ۱۹۵۲ء ص۱ و ۶(۷۳) الفضل ۱۶ اگست ۱۹۵۲ء ص۱
(۷۴) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۱۲۷ ۔۱۳۱
(۷۵) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ء ص۹۷۔۹۸(۷۶)آزاد ،۵ اکتوبر ۱۹۵۲ء ص ۲
(۷۷)آزاد ،۲۸ ستمبر ۱۹۵۲ء ص ۱(۷۸)آزاد ، ۷ دسمبر ۱۹۵۲ء ص ۱ (۷۹)حکومت ۱۴ فروری ۱۹۵۳ء ص۱
(۸۰)ملت ۱۸ دسمبر ۱۹۵۳ء ص۶(۸۱)زمیندار ۱۷ جنوری ۱۹۵۳ء ص ۱(۸۲)نوائے وقت ۱۰ اکتوبر ۱۹۵۳ء
(۸۳) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۲۶۱ تا ۲۷۲ (۸۴) نوائے وقت ۱۰ اکتوبر ۱۹۵۳ء
(۸۵) ملت ۴ دسمبر ۱۹۵۳ء ص۱۹۵۳ء ص ۱(۸۶)رپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ء ص۱۳۴۔۱۵۲
(۸۷)نوائے وقت ۱۰ اکتوبر ۱۹۵۳ء
‏(۸۸) The Civil & Military Gazette,28 Feb,1952,
‏(۸۹)The Sind Observer,28 Feb 1952,p1
(۹۰) آزاد ۵ نومبر ۱۹۵۲ء ص ۳
(۹۱)رپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ء ص۱۵۳ ۔۱۵۴(۹۲)آفاق یکم مارچ ۱۹۵۳ء ص۱
(۹۳)تاریخِ احمدیت جلد ۱۶ ص۲۰۶۔۲۰۷(۹۴) الفضل ۹ فروری ۵۵ ۱۹ ص۵(۹۵)آفاق ۲ مارچ ۱۹۵۳ء ص۱
(۹۶)آفاق ،۴ مارچ ۱۹۵۳ء ص۱ (۹۷) احسان ۴ مارچ ۱۹۵۳ء ص ۱
‏(۹۸)The Civil & Military Gazette 5 March 1953 p1&5
(۹۹)آفاق ،۶ مارچ ۱۹۵۳ء ص ۱ و آخر(۱۰۰) رسائل و مسائل حصہ سوئم ،ابولاعلیٰ مودودی ،اسلامک پبلیکیشنز ،ص۲۰
(۱۰۱)رپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ء ص۱۵۹(۱۰۲)تاریخِ احمدیت جلد ۱۶ ص ۲۳ ۔۲۰۲
(۱۰۳)مغربی پاکستان ۵ مارچ ۱۹۵۳ء ص ۳(۱۰۴)احسان ۷ مارچ ۱۹۵۳ء ص ۱
(۱۰۵)تاریخ احمدیت جلد ۱۶ ص۲۱۰
(۱۰۶)احسان ،۶ مارچ ۱۹۵۳ء ص ۳
(۱۰۷)تحدیثِ نعمت ،مصنفہ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ،ناشر بینیولنٹ ایسوسی ایشن ڈھاکہ،دسمبر ۱۹۷۱ء ص۵۷۵ (۱۰۸) آفاق ،۱۰ مارچ ۱۹۵۳ء ص ۱(۱۰۹)The Civil&Military gazette,March 24,1953,
(۱۱۰) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص ۱۵۳ ۔۱۹۱ء
(۱۱۱) تحدیثِ نعمت،مصنفہ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ،ڈھاکہ بینیویلنٹ ایسوسی ایشن ،دسمبر ۱۹۷۱ء ص۵۸۲۔۵۸۶
(۱۱۲) شھباز ، ۹ مارچ ۱۹۵۳ء ص ۱(۱۱۳)تاریخ احمدیت جلد ۱۶ ص۲۱۳
(۱۱۴) تعمیر ،۱۳ مارچ ۱۹۵۳ء ص ۱
(۱۱۵)آفاق ۱۲ مارچ ۱۹۵۳ء ص۱
(۱۱۶) نوائے وقت ۲۹ مارچ ۱۹۵۳ء ص۱
(۱۱۷) نوائے وقت ۲۳ مارچ ۱۹۵۳ء
‏(۱۱۸)The Civil&MilitaryGazette,20March,1953 P1
‏(۱۱۹)The civil& Military Gazette 27 March,1953 p2
(۱۲۰) ملت لاہور ۱۵ دسمبر ۱۹۵۳ء ص ۷(۱۲۱)ملت ۲۸ نومبر ۱۹۵۳ء
(۱۲۲) تاریخ احمدیت جلد ۱۶ ص۲۳۹۔۲۴۹ (۱۲۳) نوائے وقت ۲۲ اپریل ۱۹۵۳ء ص ۱
(۱۲۴)تحریکِ جماعتِ اسلامی ایک تحقیقی مطالعہ ،مصنفہ ڈاکٹر اسرار احمد ،دارالاشاعت اسلامیہ لاہور،مارچ ۱۹۶۶ء ص۱۸۸۔۱۹۰ء
(۱۲۵) سید مودودی دعوت و تحریک ،مصنفہ سید اسعد گیلانی ،اسلامک پبلیکیشنز ،مارچ ۱۹۸۰ئ،ص ۱۶۵
(۱۲۶)حیات امیر شریعت از جانباز مرزا ص۵۴۶
سواحیلی ترجمہ قرآن
جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے سواحیلی زبان مشرقی افریقہ کے ایک وسیع علاقہ میں بولی جاتی ہے۔ عیسائی مشنری اس زبان میں کثرت سے اپنا لٹریچرشائع کر چکے تھے۔لیکن سواحیلی میں اسلامی لٹریچر بہت کم موجود تھا۔سواحیلی میں قرآنِ کریم کا ایک ہی ترجمہ موجود تھا اور وہ بھی ایک پادری گاڈفری ڈیل (Godfrey Dale)صاحب نے کیاتھا ۔یہ ترجمہ ناقص تھا اور اس کے حواشی میں اسلامی تعلیمات پر اپنے نقطہ نگاہ سے حملے کئے گئے تھے۔بعض آیات کا ترجمہ چھوڑ دیا گیا تھا اور بعض آ یات کا ترجمہ اس انداز سے کیا گیا تھا کہ قرآنی تعلیمات پر اعتراضات وارد ہوں(۱)۔اس پس منظر میں اس بات کی ضرورت تھی کہ مسلمانوں کا کیا ہؤا ایک ترجمہ شائع کیا جائے۔چنانچہ مشرقی افریقہ میں جماعت کے مشن کے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعدمکرم شیخ مبارک صاحب نے اس کام کا آغاز کر دیا۔اس سے قبل بھی کچھ مسلمان اس کام کو سر انجام دینے کی کوشش کر چکے تھے۔چنانچہ سب سے پہلے میرٹھ کے مولوی عبد العلیم صاحب نے نیروبی کے ایک عالم مولوی سید عبداللہ شاہ صاحب کی وفات پر ان کی نعش کے سامنے مسلمانوں سے عہد لیا تھا کہ وہ سواحیلی میں قرآنِ کریم کا ترجمہ کریں گے۔ایک کثیر رقم بھی جمع کی گئی مگر ابتدائی جد و جہد کے بعد یہ معاملہ جلد ختم ہو گیا ۔پھر ایک کوشش مسلم ویلفیئر سوسائٹی کی طرف سے کی گئی ۔اس تنظیم کو سر آغا خان نے قائم کیا تھا ۔مگر چونکہ ترجمہ کرنے والے مخلصین مہیا نہیں ہو سکے تھے اس لئے یہ منصوبہ بھی جلد ختم ہو گیا۔مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے ۱۷ نومبر ۱۹۳۶ء کو ،جو رمضان المبارک کا پہلا دن تھا ،اس اہم کام کا آ غاز کیا ۔اس وقت شیخ صاحب ٹبورا ،تنزانیہ میں مقیم تھے۔(۲)اس کام میں کچھ مقامی احمدی اساتذہ مکرم شیخ صاحب کی اعانت کر رہے تھے۔اور مسودہ ساتھ کے ساتھ ٹائپ بھی کیا جا رہا تھا۔(۱)
۱۹۴۳ء میں ابتدائی مسودہ مکمل ہوگیا۔اور اسے رائے کے لئے Inter-territorial Languages Committe for Swahili کو بھجوایا گیا ۔اِن کے ماہرین نے اس ترجمہ کا تفصیلی جائزہ لیا اور ان کے ماہرین نے کئی صفحات پر مشتمل آ راء بھجوائیں ۔انہوں نے اس ترجمے کے معیار کی تعریف کی اور بعض مقامات پر تبدیلیوں کے متعلق آراء دیں ۔ان میں سے بعض تجاویز کو قبول کیا گیا ۔اس بات کی ضرورت تھی کہ اہل ِ زبان میں سے کوئی موزوں شخص اس ترجمہ کا بغور جائزہ لے کر اسے خوب سے خوب تر بنائے۔۱۹۴۵ء میں مکرم امری عبیدی صاحب نے اس اہم پراجیکٹ پر کام شروع کیا۔ان کے علاوہ مکرم مولانا محمد منور صاحب ،مبلغِ سلسلہ نے بھی ترجمہ اور تفسیری نوٹوں کو مکمل کرنے اور ان پر نظرِ ثانی کرنے پر انتھک محنت کی۔مکرم امری عبیدی صاحب سواحیلی زبان کے بلند پایہ شاعر تھے اور انہوں نے اس فن کے اصولوں کے متعلق ایک کتاب بھی تحریر کی تھی(۳) دیگر خوبیوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زبان دانی کا بھی ملکہ عطا فرمایا تھا۔ان کی عرقریزی نے اس ترجمہ کا معیار بلند کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ۔جب ترجمہ کی اشاعت کا وقت قریب آ رہا تھا تو انہیں اس میں اتنا انہماک تھا کہ دن اور رات کا فرق مٹ گیا تھا۔کثرتِ کار کی وجہ سے ان کی نیند اڑ گئی تھی ۔نہ دن کو سو سکتے تھے ، نہ رات کو ۔ اور روزانہ سولہ سترہ گھنٹے کام کرنے کے عادی تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے اس ترجمہ کے لئے دیباچہ تحریر فرمایا ۔حضور ؓ نے رسولِ کریم ﷺ کے مبارک زمانہ میں نجاشی کے اُ س انصاف کا ذکر فرمایا جو اس نے مسلمانوں سے کیا تھا ۔ اورمشرقی افریقہ کے با شندوں کو مخاطب کر کے فرمایا
’’اے اہلِ افریقہ !ایک دفعہ پھر اپنے اپنے عدل اور انصاف کا ثبوت دو اورپھر ایک سچائی کے قائم کرنے میں مدد دو جو سچائی تمہارے پیدا کرنے والے خدا نے بھیجی ہے۔ جس سچائی کو قبول کرنے کے بغیر غلام قومیں آ زاد نہیں ہو سکتیں۔مظلوم ظلم سے چھٹکارا نہیں پا سکتے۔قیدی قید خانوں سے چھوٹ نہیں سکتے ۔امن، رفاہیت اور ترقی کا پیغام میں تمہیں پہنچاتا ہوں ۔پیغام میرا نہیں بلکہ تمہارے اور میرے پیدا کرنے والے خدا کا پیغام ہے۔‘
تمام تر تحقیق اور نظرِ ثانی کے بعد۱۹۵۳ء میں ایسٹ افریقہ سٹینڈرڈ کے پریس میں اس ترجمہ کی دس ہزار کاپیاں شائع کی گئیں۔اس وقت کینیا میں آ زادی کے لئے ماؤ ماؤ کی تحریک چل رہی تھی اور اس وجہ سے کینیا کے بہت سے باشندے حالتِ اسیری میں تھے۔اُن کیمپوں میں یہ ترجمہ بہت مقبول ہؤا ۔اور اس کے مطالعہ کے بعد بہت سے تعلیم یافتہ قیدیوں نے اسلام قبول کیا ۔مسٹر جومو کنیاٹا ،جو بعد میں کینیا کے پہلے صدر بنے ،اس وقت قیدمیں تھے۔انہوں نے قید کی حالت میں چار مرتبہ اس ترجمہ کا مطالعہ کیا۔(۴)
اس ترجمہ کی اشاعت مشرقی افریقہ کی اسلامی تاریخ کا اہم سنگِ میل ہے۔جہاں اس ترجمہ کی اشاعت پر بہت سے غیر احمدیوں نے جماعت کی اس مساعی کی برملا تعریف کی وہاں جماعت کی یہ کامیابی کچھ لوگوں کے حسد کو بھڑکانے کا باعث بھی بن گئی۔زنجبارکے ایک عالم شیخ عبداللہ صالح تھے۔وہ اس بات کا برملا اظہار کرتے تھے کہ میں جماعتِ احمدیہ کے عقائد سے اختلاف رکھتا ہوں مگر احمدی اس بات کو قطعاََ برداشت نہیں کر سکتے کہ اسلام کے خلاف کچھ لکھا جائے۔جب تک وہ اس کا جواب دے کر دشمنِ اسلام کو خاموش نہ کرا لیں اُس وقت تک دم نہیں لیتے۔(۵)لیکن اس ترجمہ کی اشاعت کے ساتھ انہیں بھی مقابلہ پر اپنا ترجمہ شائع کرنے کا خیال آ یا۔اور انہوں نے اپنا ترجمہ شائع کرنا شروع کیا ۔مگر حالت یہ تھی کہ ترجمہ کا ایک بڑا حصہ حرف بحرف نقل کیا گیا تھا،مگر حواشی میں جماعتی عقائد کی مخالفت کی گئی۔کہیں کہیں جماعت کے شائع کردہ ترجمہ سے مختلف ترجمہ پیش کیا جاتا ورنہ ان کی کاوش جماعت کے شائع کردہ ترجمہ کو نقل کرنے تک محدود تھی۔اس ترجمہ کو نیروبی کی اسلامک فاؤنڈیشن نے شائع کیا مگر خود جماعت کے مخالفین نے شور مچایا کہ شیخ عبداللہ صالح تو جماعتِ احمدیہ کے ترجمہ کی نقل کر رہے ہیں۔(۶)یوں تو ترجمہ کے بیشتر حصہ میں اس بات کے شواہد صاف نظر آتے ہیں کہ یہ ترجمہ جماعت کے ترجمہ کی نقل کر کے لکھا گیا ہے۔لیکن اس کی ایک دلچسپ مثال یہ ہے کہ یوں تو جہاں جہاں سورتوں کے آ غاز پر بسم اللہ الرحمن الرحیم آتی ہے وہاں پر دکھانے کے لئے شیخ عبداللہ صالح صاحب نے جماعت کے ترجمہ سے مختلف ترجمہ کیا ہے لیکن جہاں پر سورۃ نمل میں سورۃ کے درمیان میں بسم اللہ الرحمن الرحیم آتی ہے وہاں اس کا ترجمہ حرف بحرف وہی لکھا ہے جو جماعت کے ترجمہ میں لکھا گیا ہے اور اپنے ترجمہ کو ترک کردیا گیا ہے۔اس ترجمہ میں خواہ آغاز میں سورۃ اٰلِ عمرٰن یا سورۃ النسا کو دیکھیں یا قرآنِ کریم کے آخر میں سورۃ الناس،سورۃ الفلق ، سورۃ الاخلاص ،سورۃ الکافرون کو دیکھیں یا درمیان میں سورۃ طٰہٰ پر نظر ڈالیں شیخ عبد اللہ صالح کا ترجمہ جماعت کے ترجمہ سے نقل کر لکھا گیا ہے۔کہیں کہیں ایک دو لفظ تبدیل کر دیئے گئے یا شاذ کے طور پر کسی آیت کا ترجمہ جماعت کے ترجمہ سے مختلف کر دیا گیا ۔ورنہ نقل صاف نظر آتی ہے اور یہ ترجمہ اب تک اسی طرح شائع کیا جا رہا ہے۔اب جماعت کا ترجمہ تو ان کے ترجمہ سے کافی پہلے شائع کیا گیا تھا ۔اس لئے یہی ممکن ہے کہ شیخ عبد اللہ صالح صاحب نے جماعت کے ترجمہ سے نقل کی ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ مودودی صاحب اور ان کے ہم نوا بھی عالمی سطح پر خدمتِ قرآن کا دعویٰ کرتے ہیں۔ جب ان کے مداح عالمی سطح پر ان کے بڑے بڑے کارناموں کا ذکر کرتے ہیں تو ان میں شیخ عبداللہ صالح کے ترجمہ قرآن کا ذکر ضرور کرتے ہیں ۔اور یہ حقیقت ظاہر و باہر ہے کہ اس ترجمہ کا اکثر حصہ اس ترجمہ کی نقل ہے جو جماعت احمدیہ نے شائع کیا تھا۔چنانچہ خلیل احمد الحامدی صاحب اپنی کتاب ’تحریکِ اسلامی کے عالمی اثرات ‘ کے صفحہ ۱۹۴ء پر لکھتے ہیں۔
’اسلامک فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام سب سے زیادہ عظیم الشان کام جو سر انجام دیا گیا ہے،وہ سواحیلی زبان میں قرآنِ کریم کا ترجمہ ہے ،یہ سواحیلی زبان کا پہلا قابلِ اعتماد ترجمہ ہے ۔اس سے پہلے قادیانیوں اور مستشرقین کے تراجم رائج ہیں ۔یہ ترجمہ ایک لاکھ کے قریب تقسیم ہو چکا ہے اور ابھی تک یہ کارِ خیر جاری ہے۔‘
یہ تھا مودودی صاحب کا عالمی کارنامہ یعنی احمدیوں کا کیا ہؤا ترجمہ تو نا قابلِ اعتبار تھا ،اس لئے انہوں نے احمدیوں کے کئے ہوئے ترجمہ کو ایک اور نام سے شائع کرکے قابلِ اعتبار کا نام دے دیا۔
اس طرح اِس ترجمہ کی اشاعت سے مشرقی افریقہ میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کے ایک نئے باب کا ا ٓ غاز ہؤا۔
(۱)الفضل ،۸ خاء ،۱۳۱۹ ھش ص۵
(۲) کیفیاتِ زندگی ،مصنفہ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب ،ص۸۳
(۳) الفضل ۲۷ اکتوبر ۱۹۶۴ء ص ۳
(۴) الفضل ،۲۶ اگست ،۱۹۶۲ء ص ۳
(۵) الفضل ۱۵ دسمبر ۱۹۵۰ء ص ۵
(۶) کیفیاتِ زندگی ،مصنفہ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب،ص۱۱۰۔۱۱۱

حضرت مصلح موعود ؓ پر قاتلانہ حملہ
۱۹۳۰ء کی دہائی میں احراریوں کے فتنے کے دوران،۱۹۴۷ء کے پُرآشوب دور میںاور پھر ۱۹۵۳ء کے فسادات کے نتیجے میں جماعتِ احمدیہ اوپر تلے بہت سے ابتلاؤں سے گذری۔لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے اولو العزم امام کی قیادت میں جماعت ہر ابتلاء سے سرخرو ہو کر نکلتی رہی۔یہ ادوار جماعت کے لئے بہت سی مشکلات لائے لیکن جماعت کو ایک نئی تیز رفتاری سے منزل کی طرف بڑھا کر رخصت ہوتے رہے۔اب مخالفین کے دل غیظ و غضب سے بھرے ہوئے تھے۔ان کا چلایا ہؤا ہر تیر پلٹ کر ان ہی کے سینے میں پیوست ہو چکا تھا ۔ وہ یہ خیال کرتے تھے کہ ہر مشکل میں جماعتِ احمدیہ کا امام انہیں بچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ان کے دل معرفت سے خالی تھے اس لئے تائیدِ الہیٰ کا مضمون سمجھنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔اور نہ ہی وہ ایسی روحانیت رکھتے تھے کہ یہ سمجھ پاتے کہ خلافت تو ایک جاری امر ہے ۔وہ تو صرف یہی سوچ سکتے تھے کہ اگرایک مرزابشیرالدین محمود احمد ؓ کو راستے سے ہٹا دیا جائے تو پھر جماعتِ احمدیہ کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ پھر اس مقصد کے لئے اتنے پاپڑ بیلنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔حضرت مصلح موعودؓ کو شہید کرنے کی پہلے بھی کئی کوششیں ہو چکی تھیں۔ ایک بار ۱۹۴۳ء کے جلسے کی تقریر کے دوران ایک نامعلوم شخص نے ملائی کی پیالی ایک اور آدمی کو دی کہ حضور کو ضعف ہو رہا ہے یہ پیالی آپ کو پیش کر دی جائے اور بعد میں دریافت ہؤا کہ اس میں زہر ملا ہؤا تھا۔ایک مرتبہ ایک دیسی پادری جے میتھیوز نے اپنی بیوی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا بعد میں اُس نے عدالت میں اعتراف کیا کہ اصل میں میں مرزا صاحب کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن اس دوران میرا اپنی بیوی سے جھگڑا ہؤا اور میں نے اسے قتل کر دیا۔ ایک بار ایک پٹھان حضرت مصلح موعودؓ کو قتل کرنے کے لئے قادیان میںحضور ؓ کے ایک گھر دارالحمد کے دروازے تک چاقو لے کر آیا مگر ایک احمدی کو شک ہؤا تو اسے پکڑ لیا گیا۔اس کے علاوہ بھی ایسے ہی کچھ اورواقعات ہوئے مگر اللہ تعالیٰ کی خاص تائید نے حضورؓ کی حفاظت کی۔۱۹۵۳ء کے فسادات میں احراری مسلسل لوگوں کو اس بات پر اکساتے رہے تھے کہ امام جماعتِ احمدیہ کو قتل کر دینا نہ صرف کوئی غلط بات نہیں بلکہ موجبِ ثواب ہو گا ۔ ۱۹۵۳ء کی شورش کی ناکامی کے بعداب بعض مخالفین نے زیادہ منظم طریق پر حضورؓ کے قتل کی سازش تیار کی۔(۱)
مارچ ۱۹۵۴ء کے شروع میں ایک سولہ سترہ سال کا نوجوان ربوہ آیا جس کا نام عبد الحمید تھا۔ عبد الحمید چک ۲۲۰۔گ ب ضلع لائلپور کا رہنے والا تھا۔تقسیم سے قبل اس کے گھرانے کی رہائش جمال پور ضلع جالندھر میں تھی۔چونکہ وہ حضرت مصلح موعودؓ کے ایک پہریدار نور محمد کے علاقے کا رہنے والا تھا ، اس لئے اُس کے ہاں ربوہ کے قریب ایک گاؤں احمد نگر میںٹھہرنے میں کامیاب ہو گیا۔ کچھ دن اِس نے ربوہ کے حالات دیکھے۔پہلے تو اُس نے حضورؓ سے ملاقات کرنے کی کوشش کی مگر جب اِس میں کامیابی نہ ہوئی تو اس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ احمدی ہونا چاہتا ہے ۔اس امید پر کہ اس طرح اسے علیحدگی میں ملاقات کرنے کا موقع مل جائے گا،اس نے بیعت فارم بھی پُر کر دیا۔ لیکن جب اس کے بعد بھی اُسے حضورؓ سے ملاقات کا موقع نہیں ملا تو اس نے اپنے مقصد کوپورا کرنے کے لئے ایک راستہ تلاش کیا۔۱۰ مارچ کو وہ مسجد مبارک میں عصر کی نماز میں شامل ہؤا۔ جب حضرت مصلح موعودؓ نماز کے بعد مسجد سے باہر تشریف لے جا رہے تھے اور پہریدار کا منہ بھی دوسری طرف تھا تو اُس نے آگے بڑھ کر حضورؓ کے بائیں کندھے کو زور سے پکڑا۔اس سے غرض غالباََ یہ تھی کہ حضور بائیں طرف دیکھیں تو وہ دائیں طرف سے آپ کی شہ رگ پر حملہ کر دے ۔مگر اس متوقع ردِ عمل کی بجائے حضورؓ نے اپنے کندھے کو زور سے جھٹکا دیاتو اُس نے پیچھے ہی سے دائیں طرف حضورؓ کی گردن میں چاقو گھونپ دیا ۔یہ وار اِس زور سے کیا گیا تھا کہ چاقو کا پھل ٹیڑھا ہو گیا اور تین انچ چوڑا اور سوا دو انچ گہرا زخم آیا جو شہ رگ کے بالکل قریب تھا۔حضورؓ حملے کی شدت سے لڑکھڑا کر گرنے لگے پہریدار نے حضورؓ کو سنبھالا۔حملہ آور نے ایک اور وار کیا مگر حضورؓ کے پہریدار محمداقبال صاحب بیچ میں آ گئے اور یہ وار اُن کو لگا۔اتنے میں کچھ احباب نے حملہ آور کو پکڑا ۔اُس وقت حملہ آور یا علی کے نعرے لگا رہا تھا۔اس کو قابو کرتے ہوئے اور احباب بھی زخمی ہوئے۔ حضورنے زخم پر ہاتھ رکھ لیا ۔زخم سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا ۔حضورؓ کے تمام کپڑے خون سے تربتر ہو گئے۔حضورؓ کے ساتھ چلنے والوں کے کپڑوں پر بھی خون کے قطرات گرے اور راستے میں زمین پر بھی خون گرتا رہا۔حضورؓ نے بعد میں بیان فرمایا کہ اُس وقت حضورؓ کو احساس نہیں ہؤا تھا کہ آپ پر کسی نے حملہ کیا ہے بلکہ یہ احساس ہو رہا تھا کہ جیسے کوئی بڑی سل آپ کی گردن پر گری ہے۔ اورآپ کو اس وقت پوری طرح نظر نہیں آرہا تھا ۔قریب کھڑے لوگوں کے چہرے بھی دھندلے نظر آرہے تھے۔حضورؓ کو مسجد سے باہر لے جایا گیا۔جب حضرت مولانا ابو العطاء صاحب نظر آئے تو حضور نے دریافت فرمایا کہ کیا ہؤا ہے؟ اس پر عرض کی گئی کہ آپ پر کسی شخص نے حملہ کیا ہے۔اس پر حضورؓ کو خون کے نکلنے کا احساس ہؤا۔اس حالت میں بھی حضورؓ نے تاکید فرمائی کہ حملہ آور کو مارا نہ جائے۔ آپ کی زبان پر تسبیح و تمحید کے کلمات تھے۔حملہ آور کو بڑی مشکل سے قابو کر کے پولیس کو اطلاع دی گئی۔ حملہ کی اطلاع ہونے پر مکرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور حضرت ڈاکٹرحشمت اللہ صاحب ؓ نے آکر زخم کو صاف کر کے ٹانکے لگائے۔ (۲تا۵)
یہ خبر ایک بجلی بن کر ہر احمدی کے دل پر گری۔جس احمدی کو اس حملے کی خبر ملی وہ بیتاب ہو کر دعاؤں میں لگ گیا۔ربوہ میں لوگ بڑی تعداد میں قصرِ خلافت میںجمع ہونے لگے۔حضورؓ نے مرہم پٹی کے بعد جماعت احمدیہ کے نام یہ پیغام اپنے دستِ مبارک سے لکھا ۔اس پیغام کو بذریعہ تار پوری دنیا کی جماعتوں میں بھجوایا گیا۔
’برادران!آپ نے مجھ پر ایک نادان دشمن کے حملہ کرنے کے بارے میں سن لیا ہے۔ خدا تعالیٰ ان لوگوں کو آنکھیں کھولنے اورانہیں اسلام اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق اپنے فرائض سمجھنے کی توفیق دے۔میرے بھائیو !دعاکرو اگر میرا وقت آپہنچا ہے۔تو اللہ تعالیٰ میری روح کو اطمینان بخشے اورا پنے فضل نازل فرمائے۔اور یہ بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے آپ کو ایسا راہنما دے جو اس کام کے لئے مجھ سے زیادہ اہل ہو۔
میں ہمیشہ آپ لوگوں سے اپنی بیویوں اور بچوں سے بھی زیادہ محبت کرتارہا ہوں۔اور اسلام و احمدیت کے لئے ہر پیاری سے پیاری چیز قربان کرنے کے لئے تیار رہا ہوں۔ میں آپ سے اور آپ کی آئندہ آنے والی نسلوں سے یہ بھی توقع رکھتا ہوں کہ آپ بھی ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے۔خدا آپ کے ساتھ ہو۔‘(۶)
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے مشہور سرجن ڈاکٹر امیرالدین صاحب سے کہا کہ وہ ربوہ جا کر حضورؓ کا معائنہ کریں۔مگر یونیورسٹی امتحانات کی وجہ سے انہوں نے معذرت کی۔پھرامیرالدین صاحب کے کہنے پر سرجن ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب ربوہ جا کر حضورؓ کا معائنہ کرنے پر تیار ہوئے۔ رات کو لاہور سے بھی ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب اور دوسرے ڈاکٹر صاحبان جن میں احمدی ڈاکٹر صاحبان بھی شامل تھے ربوہ پہنچ گئے۔جب زخم کا معائنہ کیا گیا تو ڈاکٹروں نے رائے قائم کی کہ اندر خون بہہ رہا ہے اور کوئی رگ پھٹی ہوئی ہے۔اس لئے دوبارہ آپریشن کرنا پڑے گا۔حضورؓ نے فرمایا کہ رات کے ایک بجنے والے ہیں اور مجھے اتنی کوفت ہو چکی ہے،اس لئے اگر صبح تک انتظار کر لیا جائے تو کیا حرج ہے۔ جب ڈاکٹروں نے اس بارے میں مشورہ کیا تو ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب نے تشویش کا اظہار کیا کہ انتظار خطرناک ہو سکتا ہے اس لئے ابھی آپریشن کرنا پڑے گا ۔انیستھیزیا کے ڈاکٹر صاحب کلوروفورم دینے کے لئے موجود تھے لیکن حضورؓ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے بیہوش نہ کیا جائے۔ خدا تعالیٰ توفیق دے میں اسے برداشت کرلوں گا۔چنانچہ Local Anaesthesia دیا گیااور ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب نے آپریشن شروع کیا ۔اُس وقت بجلی بھی نہیں تھی روشنی کے لئے مٹی کے تیل سے جلنے والے گیس لیمپ جلائے جاتے تھے ۔اس لئے رات کے وقت آپریشن کے لئے نا کافی روشنی میں سرجنوں نے اپنا کام کیا۔آپریشن تقریباََ سوا گھنٹا جاری رہا۔اور معلوم ہؤا کہ زخم ابتدائی اندازے سے زیادہ گہرا تھا اور ایک بڑا عصبہ ( Nerve)، دو خون کی درمیانی سائز کی رگیں اورسوا دو انچ لمبا عضلہ (Muscle)کا حصہ کٹ گیا ہے۔اور ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب کا کہنا تھا کہ چاقو کی نوک بالکل دماغ کی بڑی وین (Jugular Vein) کے بالکل قریب پہنچ گئی تھی۔اس کے بعد کئی دن حضورؓ کو بخار ،زخم میں درد اور نقرس کی تکلیف رہی۔لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے کمال حوصلے سے اس تکلیف کو برداشت کیا۔دوردور سے احمدی بے قرار ہو کر ربوہ پہنچ رہے تھے تاکہ آپ کی خیریت معلوم کریں۔حضورؓ نے ان احباب کو ملاقات سے روکا نہیں ۔وہ کمرے میں آتے اور حضورؓ کی زیارت کر کے رخصت ہو جاتے۔(۷)اس تکلیف کے با وجود حضورؓ ضروری جماعتی کام سر انجام دیتے رہے۔
اس قاتلانہ حملے کے کئی پہلو قابلِ توجہ تھے۔حملہ آور ایک کم عمر نوجوان تھا اور سکول میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔اس کی عمر سولہ سترہ برس ظاہر کی گئی تھی۔اور یہ حملہ چاقو سے کیا گیا تھا ، پستول جیسا ہتھیار استعمال نہیں کیا گیا تھا۔سرسری طور پر ان حقائق کو دیکھنے پر کوئی کہہ سکتا تھا کہ یہ حملہ کسی وسیع سازش کا حصہ نہیں تھا اور فقط ایک جنونی کا فعل تھا۔لیکن دوسرے حقائق بالکل بر عکس نتیجہ ظاہر کر رہے تھے۔حملے کے لئے ایسی عمر کے شخص کا انتخاب کیا گیا تھا جو کہ کامیابی سے قتل بھی کر سکے اور پکڑے جانے کی صورت میں عمر کی بناء پر کم از کم سزا کا فیصلہ کرانا آسان ہو۔حملہ آور ایک تنو مند نوجوان تھا ۔اور اخبارات کی ابتدائی رپورٹوں میںبھی اس کی غیر معمولی صحت کا ذکر کیا گیا تھا(۸تا۱۰) ۔ مجرم پہلے حضورؓ کے ایک پہریدار کے ہاںٹھہرا کیونکہ وہ اُس کے علاقے کا رہنے والا تھا اور ایک سوچے سمجھے انداز میں حضورؓ سے ملاقات کی کوشش کرتا رہا اور اس طرح اُس نے اپنے آپ کو پہریداروں کے لئے ایک مانوس وجود بھی بنا لیا تاکہ بغیر اس کے کہ کوئی اُس پر شک کرے وہ آسانی سے حملہ کر سکے۔یہ منصوبہ بندی ایک کم عمر کا دیہاتی لڑکا نہیں کر سکتا۔ اس کا وار کرنے کا طریقہ ظاہر کرتا تھا کہ اسے اس کام کے لئے تربیت دی گئی ہے۔اس نے ایک پیشہ ور قاتل کی طرح پیچھے سے آکر شہ رگ پر وار کیا تھا۔صرف اللہ تعالیٰ کی حفاظت نے بچایا ورنہ وہ ایک ہی وار میں اپنے مقصد میں تقریباََ کامیاب ہو گیا تھا۔یہ حقائق الفضل میں شائع کر دیئے گئے۔
مختلف اخبارات حضور پر قاتلانہ حملے کی پر زور مذمت کر رہے تھے۔کچھ سرکاری افسران حضورؓ کی عیادت کے لئے ربوہ آئے۔گورنر اور وزیرِ اعظم صاحب نے فون پر عیادت کی۔مجلسِ احرار کے لیڈر اپنے جلسوں میں لوگوں کو اکساتے رہے تھے کہ وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو قتل کر کے ثواب کمائیں ،مگر اب وہ اس حملے کی مذمت میں بیان دے رہے تھے۔
حملہ آور عبد الحمید کو جب پولیس کی تحویل میں دیا گیا تو پہلے تواُس نے اپنے آپ کو گونگا ظاہر کیا۔ (۸) پھر اُس نے اپنا غلط نام بتایا اور بدل بدل کر مختلف نام پولیس کو بتاتا رہا۔(۹)اس حرکت کا مقصد صرف یہی معلوم ہوتاہے کہ وہ کسی وجہ سے اپنی شناخت اور پولیس کی تفتیش کو مؤخر کرنا چاہتا تھا۔ پھر اُس نے ایک اور رنگ بدلا اور کہا کہ میں مرزاصاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتا تھا لیکن جب اِس میں ناکام رہا تو میں نے اُن پر چاقو سے حملہ کر دیا۔اس تفتیش کی نگرانی ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ملتان ڈویژن کر رہے تھے۔صرف ایک سال پہلے ہی احمدیوں کے خلاف ایک شورش برپا کی گئی تھی اس لئے اس حملے کے بعد پورے صوبے کی پولیس کو چوکنا کر دیا گیا ۔(۱۰،۱۱)ان دنوں میں جب مجرم حوالات کے اندر اپنے بیانات بدل کر اور دوسرے حیلوں سے تفتیش کے عمل کو مؤخر کر رہا تھا، حوالات سے باہر جماعت کے مخالفین اپنے پرانے ہتھیار استعمال کر کے ایک اور کھیل کھیل رہے تھے۔
احرار سے تعلق رکھنے والے اور دیگر مخالفین اس قاتلانہ حملے کی مذمت میں بیانات دے رہے تھے۔پہلے اُنہی کے جلسوں میں لوگوں کو اشتعال دے کر احمدیوں بالخصوص حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے قتل پر اُکسایا جاتا تھا۔(۱۲،۱۳)وہ یہ افواہیں اڑا رہے تھے کہ حملہ آور ایک احمدی تھا۔اور یہ قاتلانہ حملہ جماعت کے اندرونی اختلافات کا نتیجہ ہے۔چنانچہ داؤد غزنوی صاحب نے بیان جاری کیا کہ انہیں شبہ ہے کہ یہ حملہ قادیانیوں کے باہمی اختلافات کا نتیجہ ہے۔(۱۴)غازی سراج الدین صاحب امیر تحریک اسلام و مجاھدین المسلمین نے ایک بیان میں جماعت کی طرف سے جاری کردہ بیانات کو گمراہ کن پروپیگینڈا قرار دیا اور کہا کہ’مرزا بشیر الدین محمود پر حملہ کا تعلق ربوہ کے اندرونی خلفشار اور اختلاف سے ہے ۔۔۔ربوہ میں بسنے والے قادیانیوں کی ایک زبردست اقلیت مرزا بشیر الدین صاحب سے شدید اختلاف رکھتی ہے ۔‘ اور اُنہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ نہ صرف اس واقعہ کی تحقیقات کرائی جائیں بلکہ ربوہ میں موجود اندرونی نظام اور متوازی حکومت کے متعلق بھی تحقیقات کرائی جائیں۔مرزا صاحب پر جس کسی نے بھی حملہ کیا ہو وہ بہر حال مرزائی ہے اور اس کا تعلق ربوہ کی اس قادیانی جماعت سے ہے جو قادیانی خلافت کی باغی ہے۔(۱۵)اخبار الاعتصام نے احمدیوں سے کچھ ہمدردی کا اظہار کر کے لکھا
’اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس امر کی خصوصیت سے سرکاری طور سے تحقیقات کرائی جائے کہ آخر ایک احمدی یا کم از کم نیم احمدی نے ہی مرزا صاحب پر کیوں قاتلانہ حملہ کیا ؟اس نے ربوہ پہنچ کر ایسی کون سی شے دیکھ لی جس نے اس کو اتنے بڑے فعل کے ارتکاب پر مجبور کر دیا۔کیا اس کا یہی ایک سبب ہے کہ مرزا صاحب نے اسے ملاقات کرنے اور بیعت ہونے کا وقت نہیں دیا ۔یا اس میں کوئی اور بھید بھی ہے۔‘(۱۴)
اسی طرح سے اخبار کوہستان نے جس کے مدیر مشہور مصنف نسیم حجازی تھے نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ باخبر ذرائع سے معلوم ہؤا ہے کہ حملہ آور قادیانی تھا۔(۱۶)ہندوستان کے ہندو اخبارات میں پرتاب، آزادی سے قبل احرار کی سرگرمیوں اور بیانات کو اپنے صفحات میں نمایاں جگہ دے رہا تھا اور اُن کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا۔اس موقع پر اس اخبار نے خبر شائع کی،’احمدی جماعت کے خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود احمد پر جبکہ وہ نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکل رہے تھے چاقو کے تین وارکئے۔ان کی گردن پر زخم تو آئے لیکن نہ ایسے کہ تشویش پیدا ہو۔۔۔۔۔احمدیوں کے خلاف پاکستانیوں کے جو جذبات بھڑکائے گئے اس کے پیشِ نظر یہ وار تعجب خیز نہیں۔تعجب ہے تو یہ کہ یہ وار اس سے پہلے کیوں نہ ہؤا۔احمدیوں کو شکایت نہیں ہوسکتی۔کیونکہ وہ خود بھی تشدد سے کام لیتے ہیں۔متحدہ پنجاب میںایک احمدی نے ایک ایسے مسلمان کو جو احمدی جماعت کے خلاف لکھتا اور بولتا رہتا تھا بس میں قتل کر دیا تھا۔‘(۱۷)۔گویا چند برس پہلے قادیان میں جو سینکڑوں احمدی شہید ہوئے تھے وہ پرتاب کو یاد نہیں رہے۔گذشتہ سال پاکستان میں جو احمدیوں پر مظالم ہوئے تھے ان کو بھی قابلِ توجہ نہیں سمجھا گیا۔ان سب حقائق کو نظر انداز کر کے اس موقع پر جب احمدیوں کے امام پر قاتلانہ حملہ کر کے احمدیوں کے دلوں کو زخمی کیا گیا تو پرتاب نے جماعتِ احمدیہ پر ہی تشدد کا الزام لگا دیا۔مگر ہندوستان کے مسلمان اخبارات میں سے ایسے بھی تھے جنہوں نے شریفانہ رویہ دکھایا۔مدراس کے ہفتہ وار ’دلچسپ‘ نے اپنے اداریہ میں لکھا ،
’اس ملک میں جہاں اسلامی قوانین کے لئے رات دن چیخ و پکار ہوتی رہتی ہے۔اس اسلامی قانون ہی کی خلاف ورزی عمل میں آرہی ہے۔یہ مسلم قوم کی بد قسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک طرف تو بلند و بانگ اسلامی دعوے ہوں اور دوسری طرف ان دعووں کا رد عمل شروع ہو جائے۔اس سلسلے میں حال کی افسوسناک اطلاع سے بخوبی ظاہر ہو سکتا ہے کہ لاہور سے سو میل کے فاصلے پر ربوہ نامی مقام پر مولانا بشیر الدین محمود احمد امام جماعتِ احمدیہ پر دن دھاڑے حملہ ہؤا اور وہ بھی کسی غیر قوم کے فرد سے نہیں بلکہ ایک مسلمان ہی کے ہاتھوں۔۔۔۔۔احمدی سوائے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے اور کسی چیز کو اپنا مقصد نہیں بتاتے ۔ہاں یہ سچ ہے کہ وہ حضرت مسیح ناصری کے متعلق اپنے عقائد ہم سے کچھ جداگانہ رکھتے ہیں لیکن اس بناء پر تو کوئی دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا اور نہ اس سے اسلام کے بنیادی اصولوں میں کوئی اختلاف پیدا ہوتا ہے۔اس سے جداہو کر اگر دیکھا جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ وہ ہم سے کہیں زیادہ مذہب و ملت کے قائل ہیں اور اپنا جینا اور مرنا بھی تو اس کے لئے ہی بتاتے ہیں۔اوربات ہے بھی کچھ ایسی ہی کہ ان احمدیوں کے اشاعتِ اسلام والے کارنامے بہت شاندار ہیں ۔جن کا ہم اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔‘(۱۸)
اسی طرح پاکستان کے بعض اخبارات بھی اس حملے کی شدید مذمت کر رہے تھے۔آزاد کشمیر کے ہفت روزہ’ آوازِ حق ‘نے اپنے اداریے میں لکھا ،
’اگر اس قسم کی حرکتوں کو کچل کر نہ رکھ دیا گیا تو پاکستان میں کسی کی بھی جان محفوظ نہیں ہے۔بڑے سے بڑے حکمران ،سیاسی تا مذہبی لیڈر کاروباری آدمی کو ایک بزدل کرائے کا ٹٹوموت کی گھاٹ اُتار سکتا ہے۔‘(۱۹)
پشاور کے اخبار تنظیم نے اس حملے کی مذمت کرنے کے بعد لکھا،
’ہم اس حادثہ میں مرزا صاحب اور ان کے تمام مریدوں سے دلی طور پر ہمدردی کااظہار کرتے ہیں ۔اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نیک مقاصد کے لئے مسلمانوں کی خدمت کے لئے دینِ اسلام کی تقویت کے لئے حضرت مرزا صاحب کو صحت اور شفائے کلی عطا فرمائے۔‘(۲۰)
چند دنوں میں یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ یہ شخص غیر احمدی تھا اور حضورؓ پر قاتلانہ حملے کی نیت سے ہی ربوہ میں آیا تھا۔الفضل میں ان افواہوں کی تردید شائع کی گئی کہ یہ شخص احمدی تھااور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ اس امر کی تحقیق کرے کہ یہ غلط افواہیں کس غرض کے لئے پھیلائی جا رہی ہیں۔(۲۱،۲۲) مخالفین نے ایک مرتبہ پھر اوچھا وار کیا تھا اور نا کام رہے تھے۔قاتلانہ حملے میں ناکامی کے بعد ان کی کوشش تھی کہ کسی طرح جماعت میں فتنہ پیدا کیا جائے اور یہ ظاہر کیا جائے کہ احمدیوں میں شدید اختلافات پیدا ہو گئے ہیں ۔اس طرح ایک طرف تو جماعت میں فتنہ پیدا کیا جائے اور دوسرے اپنے اوپر شبہ نہ آنے دیا جائے ۔مگر ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی وہ ناکام رہے۔
جب حملہ کرنے والے پرمقدمہ چلنے کا مرحلہ آیا تو مقامی انتظامیہ نے ایسا رویہ اپنایا جیسا کہ وہ اس معاملے کو رفع دفع کرنا چاہتے ہیں۔ایسے فوجداری مقدمات میں گورنمنٹ خود مدعی ہوتی ہے۔ خود مضروب کا بھی حق نہیں ہوتا کہ وہ مدعی بن جائے۔پہلے پولیس نے خود خون آلود کپڑے مانگے کیونکہ ایسے مقدمات میں خون آلود کپڑے بھی ایک شہادت ہوتے ہیں تا کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ زخم شدید تھا اور جان لیوا بھی ہو سکتا تھا۔لیکن اس کے بعد پیشی سے قبل اُن کا آدمی کپڑے نہیں لینے آیا۔ جب پیغام بھجوایا گیا کہ کپڑے منگوالئے جائیں تو اُنہوں نے کہا کہ چونکہ زخم واضح ہیں اس لئے کپڑوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
وکیل مہر فلک شیر بھروانہ بطور وکیل پیش ہوئے۔یہ صاحب پہلے پولیس میں ملازم تھے پھر برخواست ہو کر ایل ایل بی کیا۔۲۶ مارچ کی پیشی میں عدالت نے حکم دیا کہ ۳۱ مارچ تک چالان مکمل کر کے پیش کیا جائے،پھر ۲ اپریل کو ملزم کو پیش کیا جائے اور دوسرے گواہان پیش کئے جائیں۔ ۲؍اپریل کو پیشی ملتوی ہو کر نئی تاریخ ۷ اپریل کی مقرر ہوئی۔وکیل مہر فلک شیر نے کہا کہ ہم بار والے ملزم کی طرف سے پیش ہو رہے ہیں۔اس پر دوسرے وکیلوں نے کہا کہ تمہیں یہ کہنے کا حق نہیں یہ حق بار کے صدرکو ہے۔اس پر مہر فلک شیر نے کہا کہ اچھا میں خود ملزم کی طرف سے پیش ہو رہا ہوں۔ ۲؍ اپریل کی پیشی میں مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر عدالت میں جماعت کی طرف سے پیش ہوئے۔ ۷ اپریل کی پیشی میں جماعت کی طرف سے مکرم مرزا عبد الحق صاحب پیش ہوئے اور ان کے ساتھ مکرم چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ بھی پیش ہوئے۔۷ اپریل کو پیشی ملتوی ہوئی اور اگلی تاریخ ۱۵ اپریل کو مقرر ہوئی۔۷اپریل کو جج کے بیمار ہونے کی وجہ سے پیشی ملتوی کی گئی تھی۔ ۱۵؍اپریل کی پیشی میں ملزم حاضر نہیں ہؤا اور یہ سرٹیفیکیٹ پیش کیا گیا کہ ملزم بیمار ہے۔تو اگلی تاریخ ۱۹؍اپریل کی مقرر کی گئی۔
کچھ تاخیر کے بعد مقدمے کی کاروائی شروع ہوئی۔جب ۱۲ مئی ۱۹۵۴ء کو عدالت میںڈاکٹر ریاض قدیر صاحب کا بیان لیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب دس مارچ ۱۹۵۴ء کورات کے سوا گیارہ بجے انہوں نے زخم کا معائنہ کیا تو دائیں کان کے پیچھے سوا دو انچ چوڑا ایک زخم تھا جس پر ٹانکے لگے ہوئے تھے اور اس کے اوپر ساڑھے تین انچ کے قطر کی ورم تھی اور اور مجھے بتایا گیا کہ کہ ٹانکے لگنے کے بعد سوج میں اضافہ ہو گیا ہے ۔اس سے مجھے شبہ ہؤا کہ ابھی اندر خون بہہ رہا ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ زخم کو دوبارہ کھولنا پڑے گا ۔مناسب تیاری کے بعد سوا تین بجے رات کے زخم کو دوبارہ کھولا گیا۔ زخم کے کھولنے پر معلوم ہؤا کہ تمام زخم خون کے لوتھڑے سے بھرا ہؤا تھا اور درمیانے سائز کی ایک رگ (Artery) سے ابھی تک خون بہہ رہا تھا اور زخم کی گہرائی سے اور Sternocleidomastoid پٹھے کے کٹے ہوئے حصے سے بھی ابھی تک خون رس رہا تھا ۔زخم سوا دو انچ گہرا تھا ۔پھر آپریشن کی تفصیلات بتانے کے بعد ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب نے یہ حیران کن بیان دیا کہ قانونی طور پر زخم Simpleتھا اور اس سے حضرت مصلح موعودؓ کی زندگی کو خطرہ نہیں تھا ۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے جس دن حضورؓ پر حملہ ہؤا ہے اُس دن سب سے زیادہ ریاض قدیر صاحب تشویش کا اظہار کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ انتظار خطرناک ہو سکتا ہے،آپریشن ابھی کرنا پڑے گا۔ اور اگر زخم خفیف تھا تو ان جیسے ماہر سرجن کو زخم کا آپریشن کرنے میں سوا گھنٹہ کیوں لگا تھا۔ (ریاض قدیر صاحب منشی غلام قادر فصیح صاحب کے بیٹے تھے جنہوں نے پہلے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی تھی مگر کچھ عرصہ کے بعدپیچھے ہٹ گئے تھے۔ریاض قدیر صاحب کو بعد میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا پرنسپل بنایا گیا اور پھروہ مودودی صاحب کے سمدھی بھی بنے)۔اس کے بعدصاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ زخم سے حضورؓ کی زندگی کو خطرہ تھا۔ یہاں پر ہم ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب کے بیان کا قانونی طور پر جائزہ لیتے ہیں۔ اس وقت کے رائج Pakistan Penal Codeکے Chapter16کی شق نمبر 320کے مطابق ہر زخم جس کے نتیجے میں بیس روز یا اُس سے زیادہ عرصہ تک درد ہوتی رہے یا اس کے نتیجے میں اس عرصہ تک آدمی اپنی معمول کی زندگی دوبارہ شروع نہ کر سکے ،وہ زخم شدید نوعیت کا زخم (Grievous Hurt) کہلاتا ہے اور ہر وہ زخم جس سے مضروب کی زندگی کو خطرہ ہو وہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ اور اس حملے پر ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصہ گذر جانے کے بعد بھی حضور نہ تو معمول کے مطابق مسجد میں نماز با جماعت پڑھانے کے لئے تشریف لا رہے تھے اور نہ ہی حضورؓ کی صحت اس قابل تھی کہ وہ خطبہ جمعہ پڑھا سکیں۔اور خود حکومت کے ڈاکٹر نے یہ سرٹیفیکیٹ دیا تھا کہ عدالت میں پیشی کے وقت حضور کی صحت اس قابل بھی نہیں تھی کہ وہ جھنگ کا سفر بھی کر سکیں جہاں پر اس عدالت نے منعقد ہونا تھا ۔ حالانکہ جھنگ ربوہ سے اتنا دور بھی نہیں ہے ۔اور عدالت نے اس رائے کو تسلیم کرتے ہوئے کاروائی لالیاں میں منعقد کی تھی۔اور ہر زخم جس کے نتیجے میں زندگی خطرے میں پڑے وہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے(۲۳)۔یہ تو طب کا معمولی علم رکھنے والا بھی بتا سکتا ہے کہ گردن میں جو زخم شہ رگ کے قریب تین انچ چوڑا اور سوا دو انچ گہرا ہو اورہڈی تک پہنچا ہو اس سے تو یقیناََ جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔اور خود ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب یہ گواہی بھی دے رہے تھے کہ زخم کے لگنے کے گیارہ گھنٹے کے بعد بھی ابھی درمیانے سائز کی Arteryسے خون بہہ رہا تھا۔اتنی دیر ایک درمیانے سائز کی Arteryسے خون بہنے سے تو ویسے ہی مریضShockمیں جا سکتا ہے اور اس کی زندگی کو خطرہ ہوتا ہے۔
جب ملزم کو پیش کیا گیا تو اُس نے اقرار کیا کہ میں نے جان بوجھ کر نیتِ قتل سے حملہ کیا کیونکہ اس نے میرے محبوب نبی کریم ﷺ کی توہین کی تھی۔کس طرح اور کب یہ فرضی توہین کی گئی تھی اس کے متعلق مجرم نے کچھ نہیں کہا۔عدالت میں اپنی روحانیت کا رعب جمانے کے لئے مجرم نے کچھ ڈرامائی حرکات بھی کیں۔ایک موقع پر اپنی تسبیح کا امام حضورؓ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس میں سب کچھ نظر آتا ہے اس میں دیکھ کر آپ سب کچھ مان جائیں گے۔اس میں مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی شبیہ نظر آتی ہے۔جب حضورؓ نے فرمایا کہ میں نے نعروں کی آواز نہیں سنی تو مجرم نے اونچی آواز میں حق کا نعرہ لگایا۔قرائن ظاہر کر رہے تھے کہ مجرم کو سزا سے بچانا تو ممکن نہیں تھا،اس کی سزا میں تخفیف کے لئے اہتما م کیا جا رہا تھا۔
بہر حال ۲۶ مئی ۱۹۵۴ء کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ چوہدری محمد اسحاق صاحب نے مقدمے کا فیصلہ سنایا ۔عدالتی فیصلے میں ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب کے بیان کو با وجود اس بیان کے اندرونی تضادات کے بہت نمایاں کر کے بیان کیا گیا۔اور یہ نتیجہ نکالا گیا کہ چونکہ ڈاکٹر مرزا منور احمد نے زخم کا تفصیل سے جائزہ نہیں لیا تھا اور صرف اوپر سے ٹانکے لگائے تھے اس لئے ان کا بیان صحیح تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ زخم سے زندگی خطرہ میں پڑ سکتی تھی۔اور ہمیں ڈاکٹر ریاض قدیر کا بیان صحیح تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ زخم خفیف تھا اور اس سے زندگی کو خطرہ نہیں پیدا ہؤا تھا۔عدالت نے اپنے فیصلہ میں چاقو کو ایک قلم تراش قرار دیا بلکہ ایک مقام پر یہ بھی لکھا کہ زخم خفیف تھا اور ملزم کو یہ بھی اندازہ ہوگا کہ وہ با جماعت نماز میں قتل نہیں کر سکتا ۔عقل اس نتیجہ کو بھی قبول نہیں کر سکتی کیونکہ دنیا کی تاریخ میں بہت سے قتل بھرے مجمع میں اور شدید ترین حفاظتی انتظامات کے با وجود بھی ہوئے ہیںاور چند ہی سطروں کے بات جج کو یہ لکھنا پڑا کہ ملزم کے دوسرے وار سے قتل کرنے کا ارادہ ظاہر ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملزم خود یہ اقرار کر رہا ہے کہ اس نے قتل کرنے کے ارادہ سے وار کیا تھا۔ اس کے بعد ارادہ قتل پر شک کرنے کا جواز باقی نہیں رہتا۔
عبد الحمید کو پانچ سال قید با مشقت سنائی گئی۔اگرچہ جج نے مجرم کو سزا سنائی لیکن فیصلے کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جج نے یہ سزا صرف مجرم کے اقبالِ جرم کی وجہ سے صرف مجبوری میں دی تھی ورنہ جج اس کے فعل کو ایک طرح حق بجانب سمجھتا تھا ۔جیسا کہ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا۔
’چونکہ ملزم نے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ اس کا ارادہ قتل کرنے کاتھا لہٰذاٰ میرے لئے اس کے سوا چارہ کار نہیں کہ میں ملزم کو ۳۰۷تعزیراتِ پاکستان کا مجرم قرار دوں۔‘
اور سزا دیتے ہوئے جج نے ملزم پر نرمی کرنے کا ہر ممکن جواز پیدا کرنے کی کوشش کی اور فیصلہ کے آخرپر لکھا
’اب میں سزا سنانے کے مشکل سوال کی طرف آتا ہوں ملزم ابھی چھوٹی عمر سے تعلق رکھتا ہے ۔اور اقدامِ قتل کا مقصد نہ تو سیاسی ہے اور نہ مالی لالچ کی وجہ سی ایسا کیا گیا ہے اور نہ ہی ذاتی انتقام کی خاطر یہ قدم اُ ٹھایا گیا ہے بلکہ اس کا مقصد خالصتاََ مذہبی تھا اور یہ ایک مذہبی جنونی کی روح کی پکار ہے اور ایک عادی قاتل کا اقدام نہیں ہے ۔اس لئے میرے خیال میں انتہائی سزا دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔اس کا اقرارِ جرم اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مجرم شہید بننا چاہتا ہے۔‘
اس فیصلہ سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت کے نزدیک اگر مذہبی اختلاف کی بنیاد پر قاتلانہ حملہ کیا جائے تو مجرم سے نرمی کا سلوک کرنا چاہئیے ۔یہ رویہ تو مذہبی قتل و غارت کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔اوراسی رویہ کی وجہ سے پاکستان میں مذہب کے نام پر قتل و غارت کا وہ طوفان برپا کیا گیا کہ پورے ملک کا امن برباد ہو گیا۔اکثر قاتل کوئی عادی قاتل نہیں ہوتے ۔یہ ان کی زندگی کا پہلا اور آخری قتل ہوتا ہے لیکن مندرجہ بالا حوالے سے تو یہ لگتا ہے جیسے اگر کوئی پہلی مرتبہ اقدامِ قتل کرے تو اسے معمولی بات سمجھ کر نظر انداز کر دینا چاہئیے۔
عدالتوں کے ذریعہ دی جانے والی سزاؤں کا سب سے بڑا مقصد جرائم کی روک تھام ہوتا ہے مگر اس فیصلے میں تو اقدامِ قتل کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔اور کہا گیا تھا کہ ’اس کا اقرارِ جرم اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مجرم شہید بننا چاہتا ہے۔‘مگر یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ اگر مجرم شہادت کے لئے اتنا ہی بے قرار تھا تو وہ گرفتاری کے معاََ بعد گونگا کیوں بنا رہا۔اپنی شناخت چھپانے کے لئے جھوٹ کیوں بولتا رہا۔ اسے تو فوراََ اقبالِ جرم کرکے سزائے موت کی درخواست کرنی چاہئیے تھی۔مگر اس کی طرف سے پیش ہونے والے وکلاء تو اس کی سزا میں تخفیف کے لئے کوشاں رہے۔اگر اس فیصلے کی منطق کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ اگر کوئی شخص مذہبی جنون یا جذبات کی وجہ سے قتل کرتا ہے تو اس کی سزا میں کمی کر دینی چاہئیے ،خواہ اس نے جرم باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعہ کیا ہو ۔اقبالِ جرم اس بات کا جواز نہیں بن سکتا کہ مجرم کے جرم کی نوعیت کو کم درجہ کے جرم میں تبدیل کر دیا جائے۔مختصر یہ کہ خفیف سزا دینے کے با وجود یہ فیصلہ مذہبی جنون کی آڑ میں قتل و غارت کی حوصلہ افزائی کے مترادف تھا اور اس کے بعد پاکستان میں یہ تاریخ بار بار دہرائی گئی ۔اس کے نتیجے میں یہ قتل و غارت صرف احمدیوں تک محدود نہ رہی بلکہ پورے ملک میں رواداری اور امن و امان کا جنازہ نکل گیا ۔اور اس المیہ میں عدلیہ کا وقار بھی محفوظ نہ رہا ۔ہم بعد میں اس عمل کا تفصیل سے جائزہ لیں گے۔ (۲۴،۲۵)
اس فیصلہ میں ایک سے زیادہ جگہ جج نے مجرم کے اس فعل کو جائز قرار دینے کی کوشش کی ۔ جیسا کہ ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے۔’ملزم نے دل کی گہرائیوں سے سوچا کہ یہ توہین ہے(یعنی توہینِ رسالتﷺ ہے) اور اس کی مناسب سزا ما سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ توہین کرنے والے کا خاتمہ کر دیا جائے۔‘ اور پھر لکھا کہ ’ملزم کی بے پایاں محبت جو کہ اُس کو حضورِ اکرم ﷺ کے ساتھ ہے اور جو کہ اسے قدرت نے عطا کی اسی عقیدت نے اس اقدام کے لئے اس کی راہنمائی کی ۔‘ ان سطور میں مجرم کی مدح سرائی تو کی گئی ہے لیکن اس اہم امر کی وضاحت نہیں کی گئی کہ مجرم نے یا عدالت نے یہ نتیجہ کس طرح اخذ کر لیا کہ جس پر قاتلانہ حملہ کیا گیا ہے اس نے رسول کریم ﷺ کی توہین کی تھی۔اگر جرم کا محرک یہی امر تھا تو مجرم کو بتانا چاہئیے تھا کہ اس نے اس موقع پر دیکھا یا سنا تھا کہ توہینِ رسالت کی جا رہی ہے۔اور اس بات کو ثابت کرنا چاہئیے تھا ۔اس طرح ایک مفروضہ قائم کرکے جرم کو برحق قرار دینے کی کوشش کی جا رہی تھی۔اور سب سے بڑا ظلم یہ کہ جو اُس دور میں رسولِ کریم ﷺ کا سب سے بڑا عاشق تھا اسی پر توہینِ رسالت کا الزام لگایا جا رہا تھا۔
جج نے ایک سال قبل احمدیوں کے خلاف برپا ہونے والی شورش کا مختصر ذکر کر کے لکھا کہ ملزم کا ذہن اس سے متاثر ہؤا تھا اور پھر یہ رائے دی
’یہ پس منظر جرم کی اہمیت کو کم کر دیتا ہے اور خاص طور پر جس غیر پیشہ وارانہ انداز میں مجرم نے وار کیا اور جس صفائی سے اُس نے اقرارِ جرم کیا جسے اس اقرار کے بغیر ثابت کرنا مشکل تھا ۔‘
حقیقت یہ تھی کہ یہ وار انتہائی پیشہ وارانہ انداز میں کیا گیا تھا۔ایک ہی وار میں حملہ آور تقریباََ شہ رگ تک پہنچ گیا تھا ۔اور گردن پر شہ رگ کے قریب اتنے گہرے زخم سے صرف یہ ہی نتیجہ نکالا جا سکتا تھا کہ مجرم کا رادہ قتل کا تھا۔اور یہ بات نا قابلِ فہم ہے کہ اگر کسی شورش سے متاثر ہو کر اقدامِ قتل کیا جائے تو اس کی بنا پر مجرم رحم کا مستحق کس طرح ہو جاتا ہے۔
فیصلہ کے اقتباسات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جج کو حملہ آور سے پوری ہمدردی تھی۔اس ہمدردی کی وجہ بھی عیاں ہے۔جج نہ صرف جماعتِ احمدیہ کے عقائد سے اختلاف رکھتا ہے بلکہ اس اختلاف کو وہ اپنے عدالتی فرائض پر بھی اثر انداز ہونے کا موقع دے رہا ہے۔جیسا کہ فیصلہ میں لکھا گیا ،’عقیدہ ختمِ نبوت ہر مسلمان کے ایمان میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور حضور اکرم ﷺ کے بعد ہر وہ شخص جس نے حضور کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا اسے ہر ملک اور ہر دور میں مسلمانوں نے نفرت کی نگاہ سے دیکھا ۔اسے نظر انداز کیا اور اس کے دعوے کا مضحکہ اڑایا ۔‘
حالانکہ پوری دنیا میں یہ ایک مسلمہ بات سمجھی جاتی ہے کہ عدالت کو غیر جانبدار ہونا چاہئیے اور جج کے ذاتی خیالات،نظریات اور پسند اور نا پسند کو عدالتی فیصلہ یا عدالتی کاروائی پر اثر انداز نہیں ہونا چاہئیے ۔ اور آئینِ پاکستان میں اعلیٰ عدالتوں کے لئے جو حلف رکھا گیا ہے اُس میں یہ عہد بھی شامل ہے کہ جج کے ذاتی موافقانہ یا مخالفانہ خیالات اس کے فرائضِ منصبی کی ادائیگی کی راہ میں حائل نہیں ہوں گے۔فاضل جج نے اپنے فیصلے میںنہ صرف جماعتِ احمدیہ اور حضرت بانیِ سلسلسہ احمدیہ کے عقائد سے اختلاف کیا بلکہ انہیں مضحکہ خیز بھی قرار دیا۔ایسی صورتِ حال میں جج کو غیر جانبدار نہیں قرار دیا جا سکتا۔
سب سے بڑا ظلم یہ کیا گیا کہ اس گھناؤنے جرم کو رسول کریم ﷺ کی محبت کا نتیجہ بیان کیا گیا۔ حالانکہ آنحضرتﷺ تو تمام عمر اپنے جانی دشمنوں کی بھی خیر خواہی کرتے رہے تھے۔ایسا مجرم ابوجہل کے نقشِ قدم پر چلنے والا تو کہلا سکتا ہے ،عاشقِ رسول ہر گز نہیں کہلا سکتا۔اور سیشن عدالت کا کام صرف یہ تھا کہ اس قاتلانہ حملے کے مقدمے کا فیصلہ کرے ۔ختمِ نبوت کے مسئلے پر اپنی ذاتی رائے کے اظہار کا یہ موقع نہیں تھا۔
اور یہ تمہید اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کا حصہ تھی کہ یہ حملہ کسی سازش کا حصہ نہیں تھا بلکہ انفرادی فعل تھا ۔جج نے اپنے فیصلہ میں بہت زور دے کر لکھا
’اس بات کا ذرہ بھر بھی ثبوت نہیں ملتا کہ یہ اقدام کسی سازش کا حصہ تھا۔یا یہ لڑکا کسی کے ہاتھ میں ہتھیار بنا ہؤا تھا۔‘
اب ہم حملہ آور کے حالات اور پس منظر کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ یہ ایک انفرادی فعل تھا یا یہ لڑکا کچھ ہاتھوں میں آلہ کار بنا ہؤا تھا۔مجرم چک ۲۲۰ جج والا کا رہنے والا تھا جو لائلپور سے دو میل دور جھنگ کی سڑک پر تھا۔اس کا باپ منصب دار ساٹھ ستر سال کا معمر شخص اور جوڑوں کے درد میں مبتلا تھا۔اور تقسیمِ ہند سے قبل جمال پور گاؤں ضلع جالندھر میں رہتا تھا ۔یہ گاؤں جالندھر سے سترہ اٹھارہ میل کے فاصلے پر تھا۔گذارہ تنگی سے ہوتا تھا۔چار بھائی تھے ۔بڑے بھائی معمولی ملازمت کرتے تھے یا ایک بھائی قلیل اراضی پر کاشتکاری کا کام کرتا تھا۔چک ۲۲۰ جج والا میں جماعت کی کوئی خاص مخالفت نہیں تھی اور نہ ہی ۱۹۵۳ء کے فسادات میں یہاں جماعت کے خلاف شورش میں کوئی خاطر خواہ حصہ لیا گیا تھا۔مجرم عبد الحمید لائلپور کے سٹی مسلم ہائی اسکول میں پڑھتا تھا اور پڑھائی میں نا لائق طالب علم سمجھا جاتا تھا۔البتہ مذہبی مسئلے مسائل پر بہت گفتگو کیا کرتا تھا ۔جامع مسجد لائلپور میں مولوی محمد یونس صاحب نام کا مولوی ہوتا تھا جو خطرناک احراری اور جماعت احمدیہ کے بہت خلاف تھا۔اس مولوی نے ۱۹۵۳ء کی شورش میں حصہ لیا تھا۔اور جب پنجاب سے جتھے دارالحکومت کراچی بھجوائے گئے تو یہ بھی جتھہ لے کر کراچی گیا تھا مگر خود گرفتار نہیں ہؤا تھا اور حالات کے پرُسکون ہونے کے بہت بعد واپس لائلپور آیا تھا۔ عبد الحمید کا اس مولوی کے پاس کافی آنا جانا تھا اور اس سے کافی مراسم تھے ۔یہ مولوی ۱۹۵۳ء میں لائلپور میں فسادات کی آگ بھڑکانے میں پیش پیش تھا ۔مگر اس واقعہ سے ایک ڈیڑھ ماہ قبل یہ مولوی اس دنیا سے کوچ کر گیا تھا ۔اور اس کی جگہ جو مولوی صاحب مقرر ہوئے وہ جامع مسجد کی خطیب ہونے کے علاوہ سٹی مسلم ہائی سکول میں پڑھاتے بھی تھے۔اور ان کا نام مولوی شبیر تھا۔ اور مودودی صاحب کے پیرو کار تھے۔فسادات کے بعد انہوں نے جماعت ِ اسلامی کے لئے گواہی بھی دی تھی۔ان سے بھی عبد الحمید کے تعلقات تھے ۔اور عبد الحمید کا ان کے پاس آنا جانا تھا۔
مسلم سٹی ہائی سکول میں آنے سے پہلے عبد الحمید ایم بی ہائی سکول میں پڑھا کرتا تھا۔اس سکول میں ماسٹر تاج محمود نام کے ایک استاد پڑھاتا تھا ۔جن کا تعلق مجلسِ احرار سے تھا جماعت کے شدید مخالف تھا۔۱۹۵۳ء میں جب پولیس نے ان کو گرفتار کرنے کے لئے چھاپے مارنے شروع کئے تو یہ مجرم عبد الحمید کے گاؤں چک ۲۲۰ جج والا کے قریب کے ایک گاؤں میں رو پوش ہو گیا اور وہاں پولیس نے انہیں پاتھیوں میں چھپا ہؤا پکڑ کر گرفتار کیا۔اور حضور ؓ پر حملہ سے کچھ ہی عرصہ قبل یہ شخص رہا ہو کر واپس آیا تھا اور اس کا سکول کے طلبا نے استقبال بھی کیا تھا۔عبد الحمید کے مولوی تاج محمود سے بھی قریبی تعلقات تھے۔اور جماعت کے مخالف ایک مولوی محمد اسلم نام کا بھی اس وقت سٹی مسلم ہائی سکول میں پڑھاتا تھا اور یہاں پر آنے سے پہلے وہ ایم بی ہائی سکول میں پڑھایا کرتا تھا۔ (یہ وہی سکول ہے جہاں پر پہلے عبد الحمید پڑھا کرتا تھا۔)۔یہ شخص جماعت کا شدید مخالف تھا اور کلاس میں کھلے بندوں جماعت احمدیہ کے خلاف بولا کرتا تھا۔اور اس نے ۱۹۵۳ء کی شورش میں اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے بھی پیش کیا تھا۔
گو کہ مجرم کے گھریلو حالات اچھے نہ تھے لیکن خاندانی طور پر اس کا تعلق عزیز دین نام کے ایک ایم ایل اے کے سسرال سے تھا جو دولتانہ صاحب کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے۔
قاتلانہ حملہ سے قبل عبد الحمید نے کئی ساتھیوں سے کہا کہ اب میں نے چلے جانا ہے اور پھر نہیں آنا۔اور اپنی یہ خواب بھی سنائی کہ میں نے مرزا محمود کو چاقو مارا ہے اور پھر خود کو مارا ہے مگر میں بچ گیا ہوں۔ عبد الحمید سکول میں صرف حاضری لگایا کرتا تھا اور اس کا زیادہ تر وقت سکول سے باہر ہی گذرتا تھا۔اس کے سکول یعنی سٹی مسلم ہائی سکول میں طلبہ میں نظم و ضبط با لکل نہیں تھا اور ماحول ایسا تھا کہ اس قاتلانہ حملہ سے چار پانچ ماہ قبل ایک طالب علم نے ایک اور طالب علم کو چاقو مار کر قتل کردیا تھا۔ اور اسی سال جنوری میں ایک طالب علم نے مفلر سے ایک اور طالب علم کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی تھی مگر بر وقت امداد سے اُس لڑکے کی جان بچ گئی۔مندرجہ بالا حقائق سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ باوجود اس کے کہ عبد الحمید ایک کم عمر نوجوان تھا اور اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔مگر اس کے جماعت احمدیہ کے نمایاں مخالفین سے قریبی تعلقات تھے اور ان کے پاس آنا جانا تھا۔اور یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اس کے ارد گرد جماعت کے مخالف اور تشدد پسند مولویوں کا ایک جال بچھا ہؤا تھا۔اور اس کے ذہن کو انتہائی اقدامات کے لئے تیار کیا گیا تھا تا کہ اس آلہ کار کے ذریعہ اپنے مقاصد حاصل کئے جا سکیں۔ حتی کہ مجرم کو اس طرح کی خوابیں بھی آنی شروع ہو گئی تھیں ۔ یہ سب حقائق یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ایک منظم سازش کے تحت اس لڑکے کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ پر قاتلانہ حملہ کے لئے تیار کیا گیا تھا ۔اور اب جب کہ اس واقعہ کو نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے ،شدت پسند مولوی حضرات اس قسم کے طریقہ کار کو بہت بڑے پیمانے پر استعمال کر رہے ہیں اور اسی انداز میں کم علم اور کچے ذہن کے نوجوانوں کے ذہنوں کو تیار کیا جاتا ہے کہ اس قسم کے قاتلانہ حملے کرنا عین نیکی ہے اور پھر ان سے مختلف وارداتیں کرائی جاتی ہیں۔اس بہیمانہ اور خلافِ اسلام طریق سے پورے ملک کا امن برباد ہو چکا ہے ۔جب حضرت مصلح موعود ؓ پر اس طرز کا قاتلانہ حملہ کرایا گیا تھا تو اسے اس بنیاد پر نظر انداز کر دیا گیا تھا کہ یہ تو احمدیوں کے خلاف ہے اس پر کیا توجہ دینی۔احمدیوں کی حفاظت تو اللہ تعالیٰ کر رہا ہے لیکن اس خوفناک غلطی کا خمیازہ پاکستان اب تک بھگت رہا ہے اور اللہ تعالیٰ رحم کرے نہ معلوم کب تک اہلِ پاکستان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔لیکن اس قسم کی سازشوں کا تدارک کرنے کی بجائے سیشن عدالت کے فیصلے میں شدت پسندی کی حوصلہ شکنی کی بجائے جماعت احمدیہ کے عقائد پر نکتہ چینی کی گئی تھی۔
بہر حال جماعت کی در خواست پر جولائی ۱۹۵۵ء میں ہائی کورٹ نے ،جماعتِ احمدیہ کے خلاف ریمارکس عدالتی فیصلے سے حذف قرار دے دیئے۔(۲۶)
(۱) الموعود،تقریر حضرت مصلح موعود ؓ ،جلسہ سالانہ ۲۸ دسمبر ۱۹۴۴ء ص۱۷۸تا ۱۸۲
(۲)الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۵۴ء ص۳
(۳) الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۵۴ء ص ۱
(۴)الفضل ۲۷ اکتوبر ۱۹۵۵ء ص۳
(۵) بدر۱۶ مارچ ۱۹۵۴ء ص۱
(۶)المصلح ۱۲ مارچ ۱۹۵۴ء ص۱۔۲
(۷)الفضل ۲۷اکتوبر۱۹۵۵ء ص۴
(۸)ملت ۱۳ مارچ ۱۹۵۴ء ص۱
(۹) زمیندار ۱۲ مارچ ۱۹۵۴ء ص۱
(۱۰)جنگ ۱۳ مارچ ۱۹۵۴ء ص۱ و۶
(۱۱)نوائے پاکستان ۱۳ مارچ ۱۹۵۴ء ص۱
(۱۲)نوائے وقت ۱۴ مارچ ۱۹۵۴ء ص۵
(۱۳)نوائے وقت ۱۶ مارچ ۱۹۵۴ء ص۶
(۱۴) الاعتصام ۱۹ مارچ ۱۹۵۴ء ص۲
(۱۵)آفاق ۲۲ مارچ ص۶
(۱۶)کوہستان ۱۲ مارچ ۱۹۵۴ء ص ۱
(۱۷)پرتاب ۱۵ مارچ ۱۹۵۴ء ص ۲
(۱۸)دلچسپ ۲۰ مارچ ۱۹۵۴ء ص ۱
(۱۹)آوازِ حق ۲۱ مارچ ۱۹۵۴ء ص۱
(۲۰) تنظیم ۲۱ مارچ ۱۹۵۴ء ص۲(۲۱)
الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۵۴ء ص۱
(۲۲)المصلح ۱۹ مارچ ۱۹۵۴ء ص۱
‏(۲۳) Pakistan Penal Code,chapter XVI,320
(۲۴)ملت ۱۵ مئی ۱۹۵۴ء ص۲
(۲۵)ملت ۲۸ مئی ۱۹۵۴ء ص۲
(۲۶)الفضل ۶ جولائی ۱۹۵۵ء ص۱
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ پر بیماری کا حملہ اور دورئہ یورپ
قاتلانہ حملے کے بعد حضورؓ کی صحت کمزوررہنے لگی تھی۔کمزور صحت اور ۶۶ برس کی عمر کے با وجود حضورؓ کوجماعتی امور کی ادائیگی کے لئے دن رات مصروف رہنا پڑتا تھا۔۲۶ فروری ۱۹۵۵ء کوحضور ؓ نے حسبِ پروگرام عورتوں میں قرآنِ کریم کا درس دیا۔ مغرب کی نماز کے بعد حضورؓ لیٹے ہوئے تھے، جب حضورؓ نے اٹھنا چاہا تو حضورؓ گر پڑے اور بیہوشی طاری ہو گئی۔حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ اس وقت آپ کے پاس تھیں۔انہوں نے بمشکل آپ کو سہارا دے کر چارپائی پر لیٹایا۔اُسوقت آپ کے جسمِ مبارک کا بایاں حصہ فالج کی حالت میں تھا اور زبان پر بھی کسی قدر اثر تھا۔معائنہ ہونے پر معلوم ہؤا کہ آپ کا بلڈ پریشر زیادہ ہے۔مکرم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے حضور کاعلاج شروع کیا اور لاہور سے ماہر ڈاکٹروں کو بھی بلایا گیا۔جب مساجد میں دعاؤں کے لئے اعلان کرایا گیا تو بے شمار احباب بے قراری کی حالت میں قصرَِ خلافت پہنچنا شروع ہو گئے۔وہ رات اہلِ ربوہ نے دعاؤں اور نوافل میں مشغول گذاری۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلد ہی جسم سے فالج کا اثر ختم ہونا شروع ہؤا اور حس واپس آنی شروع ہوئی۔اور حضورؓ جلد ہوش میں آگئے۔اگلے روز تک صرف بائیں ہاتھ کی انگلیوں پر اور کسی قدر زبان پر اثر تھا ۔باقی حصے سے بیماری کا اثر غائب ہو چکا تھا ۔بعض ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ حضورؓ کو Cerebral Thrombosisکا حملہ ہؤا ہے اور بعض کی رائے تھی کہ یہ حملہ دماغ کی رگوں کے Vasospasmکی وجہ سے تھا۔پوری جماعت صدقات اور دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا فضل طلب کر ہی تھی۔۶ مارچ تک حالت بہتر ہو رہی تھی لیکن ابھی بائیں حصے کی حرکت مکمل نہیں تھی اور کسی قدر اثر حافظہ اور زبان پر تھا۔۷مارچ کو ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق چند قدم چلایا گیا اور آپ آدھے گھنٹے کے لئے کرسی پر رونق افروز رہے۔اس سے آپ کی طبیعت میں بشاشت پیداہوئی۔۹ مارچ کو حضورؓ علاج کے لئے لاہور تشریف لے گئے۔
حضرت مصلح موعودؓ کی صحت کے پیشِ نظر ڈاکٹر صاحبان مشورہ دے رہے تھے کہ آپ مکمل طور پر آرام فرمائیں اور آپ کو ہر قسم کے تفکرات اور پریشانیوں سے دور رکھا جائے۔اس کے ساتھ یہ رائے بھی دی جا رہی تھی کہ بیشتر اس کے کہ بیماری کا اثربڑھے بہتر ہو گا کہ آپ علاج کے لئے بیرونِ ملک تشریف لے جائیں ۔امریکہ جانے کی تجویز تھی مگر وہاں کے لئے زرِ مبادلہ حاصل کرنا مشکل نظر آ رہا تھا۔حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ نے بذریعہ تار مشورہ دیا کہ اب یورپ میں علاج کی بہت سی سہولتیں پیدا ہو گئی ہیں اس لئے مناسب ہو گا اگر حضورؓ علاج کے لئے یورپ تشریف لے آئیں ۔(۱۔۷)
حضورؓ نے ۱۱ مارچ کو جماعت کے نام ایک پیغام میں اپنی علالت کی تفصیلات بیان فرمائیں اور اس پیغام کے آخر میں آپ نے تحریر فرمایا
’ اپنے پرانے حق کی بناء پر جو پچاس سال سے زیادہ عرصہ کا ہے۔تمام بہنوں اور بھائیوں سے در خواست کرتا ہوں کہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے بے عملی کی زندگی سے بچائے۔کیونکہ اگر یہ زندگی خدانخواستہ لمبی ہونی ہے تو مجھے اپنی زندگی سے موت بھلی معلوم ہو گی۔سو میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے خدا جب میرا وجود اس دنیا کے لئے بیکار ہے۔تو تو مجھے اپنے پاس جگہ دے ۔جہاں میں کام کر سکوں۔سو اگر چاہتے ہو کہ میری نگرانی میں اسلام کی فتح کا دن دیکھو تو دعاؤں اور قربانیوں میں لگ جاؤ ۔تا کہ خدا تمہاری مدد کرے اور جو کام ہم نے مل کر شروع کیا تھا۔وہ ہم اپنی آنکھوں سے کامیاب طور پر پورا ہوتا دیکھیں۔(۸)‘
یورپ جانے کا فیصلہ ہوتا ہے:
اس سے قبل ۱۹۵۴ء کی مجلس مشاورت میں حضورؓ کی خدمت میں عرض کی گئی تھی کہ حضورؓ علاج کے لئے امریکہ تشریف لے جائیں ۔مگر اُس وقت حضورؓ نے مختلف وجوہات کی بنا پر یہ مشورہ قبول نہیں فرمایا تھا ۔اور یہ بھی فرمایا تھا کہ میری صحت اس سفر کی اجازت نہیں دیتی ۔مگر اب طبی ضروریات کی بنا پر یہ سفر ضروری ہو گیا تھا۔علاوہ ازیں یورپ کے ممالک میں جماعت کے مشن بھی ایک طویل عرصہ سے اس بات سے محروم تھے کہ خلیفہ وقت خود وہاں رونق افروز ہوں اور ان کی براہ راست راہنمائی فرمائیں ۔اس بات کا منصوبہ بھی بنایا جا رہا تھا کہ یورپ میں جماعت کے مبلغین کی ایک کانفرنس منعقدکی جائے اور حضورؓ اس میں بنفسِ نفیس شامل ہوں۔(۹)
جب یہ طے ہو گیا کہ حضورؓ ۲۳ مارچ کو ربوہ سے لا ہور تشریف لے جائیں گے تا کہ وہاں سے پہلے کراچی اور پھر یورپ تشریف لے جا سکیں تو آپ ؓ نے ان حالات میں جماعت کے نام ایک پیغام میں منافقین کی طرف سے ممکنہ فتنہ سے خبردار کرتے ہوئے تحریر فرمایا
’احباب کو چاہئیے کہ دعاؤں میں لگے رہیں ۔تاکہ اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو ۔میں بھی انشاء اللہ جس حد تک مجھے توفیق ملی ۔دعائیں کرتا جاؤں گا ۔۔۔
احباب کو خوب یاد رکھنا چاہئیے کہ جب کبھی ذمہ دار افسر اِدھر اُدھر ہوتا ہے ۔تو شریر لوگ فتنہ پیدا کرتے ہیں۔ہماری جماعت بھی اسیے شریروں سے خالی نہیں ۔بعض لوگ اپنے لئے درجہ چاہتے ہیں۔بعض لوگ اپنے لئے شہرت چاہتے ہیں۔ایسا کوئی شخص بھی پیدا ہو یا کوئی بھی آواز اُٹھائے خواہ کسی گاؤں میں یا شہر میں یا علاقہ میں تو اس بات کو کبھی برداشت نہ کریں ۔کبھی یہ نہ سمجھیں کہ یہ معمولی بات ہے۔فساد کوئی بھی معمولی نہیں ہوتا ۔حدیثیں اس پر شاہد ہیں۔جب کوئی شخص اختلافی آوازاُٹھائے فوراََ لاحول اور استغفار پڑھیں۔‘(۱۰)
حضور نے اپنی عدم مو جودگی میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓصاحب کو امیرِ مقامی اور مکرم میاں غلام محمد صاحب اختر کو ناظرِ اعلیٰ مقرر فرمایا ۔(۱۱)
ربوہ سے روانگی:
۲۳ مارچ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ ربوہ سے لاہور روانہ ہوئے۔تقریباََ نو بجے آپ قصرِخلافت کے اُس دروازے سے باہر تشریف لائے جو مسجد مبارک کے عقب کی جانب ہے۔ آپ نے اپنے داماد مکرم سید داؤد احمد صاحب کے کندھے کا سہارا لیا ہؤا تھا۔حضورؓ نے گاڑی میں بیٹھ کر اجتمائی دعا کرائی۔احباب اس عاجزی اور الحاح سے دعائیں کررہے تھے کہ مسجد مبارک اور قصرِ خلافت سے ملحقہ سارا علاقہ ہچکیوں اور سسکیوں کی درد انگیز آوازوں سے گونج رہا تھا۔ جب حضورؓ کی موٹر حرکت میں آئی تو فضا فی امان اللہ اور بسلامت روی و باز آئی کی آوازوں سے گونج اُٹھی۔اسی وقت صدرانجمن احمدیہ اور تحریکِ جدید کی طرف سے بکروں کی قربانی کی گئی اور جب حضور کی کار احاطہ مسجد مبارک کے گیٹ سے باہر نکلی ربوہ کی مقامی جماعت کی طرف سے بکروں کی قربانی کی گئی۔تمام راستوں پر خدام اپنے آقا کو الوداع کہنے کے لئے کھڑے تھے۔ حضورؓ قصرِخلافت سے حضرت اماں جان ؓ کے مزار پر تشریف لے گئے اور کار میں بیٹھے ہوئے حضور ؓ نے دعا کی۔ جب حضورؓ کی گاڑی لاہور جانے والی پختہ سڑک پر پہنچی تو بہت سے احباب دوڑ کر اس سڑک کے کنارے جمع ہو چکے تھے۔۔اس کے بعد قافلہ لاہور کے لئے روانہ ہو گیا۔جب تک حضورؓ کی کار نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئی احباب پختہ سڑک کے کنارے کھڑے حضورؓ کی کار کو دیکھتے رہے اور پھر دعائیں کرتے ہوئے واپس اپنے گھروں کو لوٹے۔(۱۲)
کچھ عرصہ لاہور میں قیام کے بعد حضورؓ کراچی تشریف لے گئے۔کراچی جا کر حضورؓ کی خدمت میں ڈاکٹروں نے عرض کی کہ اگر حضورؓ نمازِ جمعہ کے لئے مسجد تشریف لے جائیں لیکن خطبہ مختصر ارشاد فرمائیں تو یہ حضورؓ کی طبیعت کے لئے بہتر ہو گا۔چنانچہ حضورؓ نے۱۵ اپریل ۱۹۵۵ء کو جمعہ پڑھایا اور ایک مختصر خطبہ ارشاد فرمایا۔اس میں آپ نے فرمایا
’چند دنوں کے اندر اندر ہم انشاء اللہ چلے جائیں گے پھر اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کون ملے گا اور کون نہیں۔میں جاتے ہوئے جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے پاس ایک ایسا خزانہ ہے۔جو کسی کے پاس نہیں ہے اور وہ خزانہ دعا کا ہے۔ہم نے ہمیشہ اس سے پہاڑ اُڑتے اور سمندر خشک ہوتے دیکھے ہیں۔اس خزانہ کومضبوطی سے پکڑو اور ہاتھ سے جانے نہ دو۔‘(۱۳)
بنگال میں چند معترضین کی طرف سے فتنہ:
جب کراچی میں حضورؓاور آپ کے قافلے میں شامل احباب یورپ جانے کے لئے تیاری کررہے تھے اور مخلصینِ جماعت دن رات اس سفر کی کامیابی اور حضورؓ کی کامل شفا کے لئے دعا گو تھے تو منافقین کا ایک مختصر ٹولہ اس وقت اپنی ریشہ دوانیوں میں مشغول تھا۔اور حضور کی بیماری اور دورے کو اپنے لئے ایک نادر موقع خیال کر رہا تھا۔بنگال میں چند معترضین نے یہ پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ خلیفہ بھی غلطی کر سکتا ہے اور جب خلیفہ غلطی کر سکتا ہے تو پھر اس کے حکم کی ا طاعت ضروری نہیں ہے۔جب حضورؓ کو اس فتنہ کی اطلاع ملی تو آپ نے مشرقی بنگال کے احمدیوں کے نام ایک خط تحریر فرمایا جو الفضل میں بھی شائع کیا گیا۔اس میں حضورؓ نے تحریر فرمایا
’ مجھے حال ہی میں ایک رپورٹ ملی ہے کہ برہمن بڑیہ کے دولت احمد خان اور ڈھاکہ کے شاہجہان صاحب چند دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کراس خیال کو ہوا دے رہے ہیں۔ چونکہ خلیفہ غلطی کر سکتا ہے اس لئے اس کی اطاعت لازمی حکم کا درجہ نہیں رکھتی ۔اگر یہ صحیح ہے تو پھر یہ بھی صحیح ہے کہ صوبائی امیر محمد صاحب ڈھاکہ کے شاہجہان صاحب اور برہمن بڑیہ کے دولت احمد صاحب بھی غلطی کر سکتے ہیں۔سو برادران جب صورت یہ ہے کہ خلیفہ غلطی کر سکتا ہے،صوبائی امیر غلطی کرسکتا ہے ،شاہجہان صاحب غلطی کر سکتے ہیں۔ دولت احمد صاحب غلطی کر سکتے ہیں تو پھر اس صورت میں خلیفہ کی آواز کو لازماََ فوقیت دینی پڑے گی کیونکہ وہی ایک ایسا شخص ہے کہ جسے ساری جماعت منتخب کرتی ہے۔کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ یہ مذکورہ بالا حضرات ایک طرف تو یہ کہتے ہیںکہ چونکہ خلیفہ غلطی کر سکتا ہے۔اس لئے وہ جماعت کے افرادسے یہ توقع نہیں رکھ سکتا کہ وہ اس کے احکام کی تعمیل کریں۔لیکن دوسری طرف وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر چند کہ وہ خود بھی غلطی کر سکتے ہیں تاہم ان کی رائے خلیفہ اور اسکے مشیروں پر فائق سمجھی جانی چاہئیے۔اس لئے ان کے اپنے خیال میں انہیں اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ وہ خلیفہ کے سامنے کھڑے ہو کر کہیں کہ چونکہ وہ غلطی کر سکتا ہے اس لئے اسے جماعت سے اطاعت کی توقع رکھنے کا حق حاصل نہیں۔ اور یہ کہ جہاں تک اطاعت کی توقع رکھنے کا سوال ہے۔یہ صرف بنگال کے صوبائی امیر کا حق ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔یاد رکھو کہ یہ لوگ تمہارے ایمانوں پر ڈاکہ ڈالنے پرتلے ہوئے ہیںاور تمہیں صدیوں تک کے لئے اس طرح تباہ کرناچاہتے ہیں جس طرح کہ ماضی میں مسلمان تباہی سے دوچار ہوئے ۔‘(۱۴)
اس خط میں حضورؓ نے بنگال کے احمدیوں کو تلقین فرمائی کہ اگر وہ اپنے مرکز اور خلیفہ سے محبت رکھتے ہیں تو وہ حتمی طور پر ان معترضین سے اپنا تعلق ختم کر لیں اور ان سے کسی قسم کا کوئی واسطہ نہ رکھیں۔آخر میں حضورؓ نے تحریر فرمایا ،
’میں تم سے صرف یہ کہتا ہوں کہ خدا میرے ساتھ ہے۔اور جو کوئی بھی میرے خلاف اُٹھتا ہے وہ یقیناََ خدا کی طرف سے سزا پائے گا۔اور اس کا اور اس کی پارٹی کا اثرو رسوخ اسے خدا کے غضب سے نہیں بچا سکے گا۔‘
مخالف اخبارات کی فتنہ پردازی:
جماعت کے مخالفین اِس موقع پر بھی اپنی ذہنیت کا مظاہرہ کرنے سے باز نہیں آئے۔پہلے ۱۹۵۳ء میں جماعت کے خلاف فسادات برپا کئے گئے ۔جب اس سے مقاصد حاصل نہیں ہوئے تو اگلے برس ۱۹۵۴ء میںحضو ر پر قاتلانہ حملہ کرایا گیا ۔اس کے ساتھ یہ افواہ پھیلائی گئی کہ جماعتِ احمدیہ میں پھوٹ پڑ گئی ہے اور یہ قاتلانہ حملہ بھی ایک احمدی نے کیا تھا۔جب دونوں سازشوں میں ناکامی ہو گئی تو اب حضورؓ کی بیماری کو اپنے لئے ایک موقع سمجھتے ہوئے اس گروہ نے ایک بار پھر اپنی سرگر میاں شروع کردیں۔اس بار بھی کچھ اخبارات کو اپنا آلہ کار بنایا گیا ۔اس سے پہلے بھی تحقیقاتی عدالت میں یہ بات ثابت ہوئی تھی کہ جماعت کے مخالفین نے کئی اخبارات کو خریدکر انہیں جماعت کی مخالفت کی آگ بھڑکانے کے لئے استعمال کیا تھا۔اب بھی کچھ اخبارات فتنہ انگیزی کی اس مہم میں پیش پیش تھے۔اور اس قسم کی خبریں شائع کر رہے تھے کہ امام جماعتِ احمدیہ اپنے تمام خاندان سمیت یورپ جا رہے ہیں۔اور اس وجہ سے احمدیوں میں شدید بد دلی اور مایوسی پھیل گئی ہے ۔اورجماعتِ احمدیہ میں سازشوں کا جال بچھ گیا ہے اور مختلف گروہ جانشینی کے مسئلہ پر ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں اور جماعتِ احمدیہ میں ایک مضبوط گروہ متوازی جماعت بنانے کی کوششیں کر رہا ہے جو اپنا ایک علیحدہ امیر منتخب کرے گا۔وغیرہ وغیرہ چنانچہ اخبار مغربی پاکستان نے یہ خبر شائع کی
ـ’’… چنانچہ مرزا بشیر الدین محمود کے اپنے خاندان سمیت کراچی پہنچنے کے بعد ربوہ میں مرزائیوں میں ایک عام مایوسی ،بددلی اور ہیجان اور اضطراب کی لہردوڑ گئی۔اور سازشوں کا جال بچھ گیا۔اور مرزائیوں کی مختلف پارٹیاں اور افراد مرزا بشیرالدین محمود کی جانشینی کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے لگے۔
چنانچہ مستند اور با خبر حلقوں کا بیان ہے ۔کہ اس وقت ربوہ کی آبادی میں بہت ہیجان اور اضطراب برپا ہے۔اور ہر پارٹی یہ چاہتی ہے کہ جماعت کی عنانِ اقتدار اس کے ہاتھ میں آجائے۔مضبوط عنصر اس کوشش میں ہے کہ جماعت کی امارت پر قبضہ کر لیا جائے۔یا متوازی جماعت جنم دے کر نیا امیر منتخب کر لیا جائے۔‘ ‘(۱۵)
افواہیں اڑانے کا مقصد یہ تھا کہ کسی طرح جماعت میں انتشار اور مایوسی پیدا کی جائے۔اور اس طریق پر منافقین کے اُس گروہ کو بھی شہ دی جائے جن کی پرورش وہی ہاتھ کر رہے ہوتے ہیںجو ان اخبارات کو غیبی مدد دے کر جماعت کی مخالفت پر آمادہ کر تے ہیں۔چنانچہ ان اخبارات نے جن میں زمیندار اورمغربی پاکستان بھی شامل تھے یہ خبریں شائع کرنا شروع کردیں کہ اب جماعت کا مرکز ربوہ سے انڈونیشیا میں منتقل کیا جا رہا ہے۔اور زمیندار نے تو پوری کہانی بنا کر شائع کی کہ چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ کے وزیرِ خارجہ ہوتے ہوئے احمدیوں کو یہ ڈھارس تھی کہ حکومت میں ہمارا نمائندہ ہے مگر ان کے استعفیٰ کے ساتھ اب احمدی اپنے تبلیغی ذرائع کو محدود پاتے ہیں۔اس لئے وہ اب اپنا مرکز انڈونیشیا منتقل کررہے ہیں۔اور اس غرض کے لئے مرزا ناصر احمد صاحب نے انڈونیشیا کا دورہ بھی کیا ہے۔(حالانکہ آپ تمام عمر کبھی انڈونیشیا نہیں گئے تھے۔)(۱۶،۱۷)
ایسے اخبارات جب مستند اور با خبر ذرائع کا حوالہ دیتے ہیں تو اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ ایک ایڈیٹر یا صحافی نے دفتر کی کرسی پر بیٹھے بیٹھے ایک خبر گھڑی اور کاتب یا سٹینو گرافر کو لکھنے کے لئے دے دی۔ان کے با خبر ہونے کا عالم یہ تھا کہ یہ خبر چھاپتے ہوئے زمیندار نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا نام تک غلط لکھا ہؤا تھا اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو حضورؓ کا ایک قریبی عزیز لکھا ہؤا تھا ۔جب کہ وہ صرف آپ کے عزیز نہیں بیٹے تھے۔لیکن جماعت کی تاریخ میں بارہا اس انداز میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔خاص طور پر جب بھی خلیفہ وقت علیل ہوں تواس انداز میں فتنہ برپا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سازش ہمیشہ ناکام ہوتی رہی ہے مگر سورۃ الناس کی روشنی میں مومنوں کی جماعت کو ہمیشہ ان وسوسہ اندازوں سے ہوشیار رہنا چاہئیے اور اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنی چاہئیے۔اور قرآنِ کریم کا حکم ہے کہ جب مومنوں کے پاس مختلف قسم کی افواہیں پہنچتی ہیں تو چاہئیے کہ وہ انہیں رسول اور اولی الا مر کے پاس پہنچائیں تاکہ وہ ان سے حقیقت معلوم کرلیں جب کہ منافقین کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان خبروں کو مشہور کر دیتے ہیں۔( النساء ۸۴)۔بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ یہ اخبارات ایک منظم سازش کا حصہ بن کر یہ خبریں شائع کر رہے تھے۔
اس صورتِ حال میں حضر ت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ؓ الفضل میں ایک نوٹ شائع فرمایا جس کا عنوان تھا۔’ربوہ کے متعلق ایک مفتریانہ پراپیگنڈا کی تردید۔جماعت کو فتنہ انگیزوں کی طرف سے ہو شیار رہنا چاہئیے۔‘ اس میں آپ نے تحریر فرمایا
’پنجاب اور کراچی کے بعض اخباروں میں اس قسم کے فتنہ انگیز نوٹ شائع ہوئے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ کے ربوہ سے تشریف لے جانے کے بعد ربوہ میں نعوذ بااللہ پارٹی بازی اور سازشوں کا بازار گرم ہے اور مختلف پارٹیاں اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور نو جوان سروں پر کفن باندھے پھرتے ہیں اور ہر لحظہ خونریزی کا خطرہ ہے۔
جماعت کے احباب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ رپورٹیں از سر تا پا افترا اور سو فیصدی جھوٹ ہیں جو ہمارے ایسے مخالفین نے جنہیں جھوٹ سے کوئی پرہیز نہیں اپنے قدیم طریق کے مطابق حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی غیر حاضری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے فتنہ پیدا کرنے کی غرض سے مشہور کرنی شروع کی ہیں تا کہ ایک طرف تو جماعت کے مخالف عناصر کو جماعت کے خلاف یہ خیال پیدا کر کے اکسایا جائے کہ اب یہ جماعت کمزور ہو رہی ہے اور دوسری طرف خود جماعت کے سادہ لوح اور نا واقف طبقہ کے دلوں میں یہ گبھراہٹ اور بے چینی پیدا کی جائے کہ نا معلوم جماعت کے مرکز میں کیا ہو رہا ہے جس سے ہم دور افتادہ لوگ بالکل بے خبر ہیں۔۔۔۔۔
باقی رہا جماعت کا سوال سو علاقہ وار امراء اور صدر صاحبان کو میری یہ نصیحت ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقہ میں نا واقف اور دور افتادہ دوستوں کو اس قسم کے فتنوں کے متعلق با خبر اور ہوشیار رکھیں اور انہیں بتا دیں کہ یہ سب جھوٹا اور مفتریانہ پراپیگنڈا ہے جو بعض مخالفین کی طرف سے جماعت اور مرکز کی طرف سے کیا جا رہا ہے بلکہ حق یہ ہے کہ یہ پراپیگنڈا ان خدشات کی عملی تصدیق ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اید ہ اللہ بنصرہ العزیز نے سفر پر جانے سے قبل جماعت پر ظاہر کر کے اسے متنبہ کیا تھا کہ امام کی غیر حاضری میں اس قسم کے فتنے اُٹھ سکتے ہیں۔جماعت کو اس خطرہ کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہئیے۔۔۔۔
پس دوستوں کو چاہئیے کہ ان ایام میں خاص طور پر دعاؤں اور صدقہ و خیرات سے کام لیں اور اپنے اندر تقویٰ اور طہارتِ نفس پیدا کریں۔۔۔‘ (۱۸)
کراچی سے یورپ کے لیے روانگی:
یورپ جانے کے لئے حضور ؓ کے قافلہ کو تین حصوںمیں تقسیم کیا گیا تھا۔پہلا قافلہ مکرم و محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی زیرِ نگرانی ۲۶ اپریل کو کراچی سے لنڈن کے لئے روانہ ہؤا۔ اس میں حضرت سیدہ ام ِ ناصرؓ صاحبہ ،حضرت سیدہ امِ وسیم صاحبہ مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ اور بیٹی اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور حضرت مصلح موعود ؓ کے چار اور بیٹے، حضورؓ کے داماد مکرم میر داؤد احمد اپنی بیگم صاحبہ اور دو بچوں کے ہمراہ،اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ شامل تھے۔حضورؓ کے ہمراہ حضورؓ کی بیگمات حضرت سیدہ امِ متین صاحبہ اور حضرت سیدہ مہر آپا، حضورؓ کی دو صاحبزادیاں محترمہ امتہ المتین صاحبہ اور محترمہ امتہ الجمیل صاحبہ ،مکرم ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب اور حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب ؓ نے روانہ ہونا تھا۔ اور حضورؓ کے ساتھ روانہ ہونے والے قافلہ نے عرب ممالک سے ہو کر یورپ جانا تھا۔اور تیسرے قافلے میں مکرم شریف اشرف صاحب ،مکرم قریشی عبد الرشید صاحب،ملک مبارک احمد صاحب ، کیپٹن محمد حسین چیمہ صاحب اور عبد اللطیف صاحب شامل تھے۔تیسرا قافلہ عملہ کے اراکین پر مشتمل تھا اور اس نے ۳ مئی کو کراچی سے لنڈن روانہ ہونا تھا۔
۲۹ اور ۳۰ اپریل کی درمیانی شب کو حضرت مصلح موعودؓ کراچی سے یورپ جانے کے لئے روانہ ہوئے۔ سفر کے پہلے مرحلے میں آپ نے کراچی سے دمشق جانا تھا۔رات کو حضور کو رخصت کرنے کے لئے احبابِ جماعت حضورؓ کی قیام گاہ کوئٹہ والا بلڈنگ مالیر میں جمع ہو چکے تھے۔حضورؓ کے ارشاد کے ماتحت مکرم مولانا عبد المالک صاحب نے لاؤڈ سپیکر پر مسنون دعائیں پڑھیں اور احباب کو ان کو دہرانے کی تلقین کی۔ رات سوانو بجے حضور باہر تشریف لائے اورکرسی پر تشریف فرما ہو کر لمبی اور پرسوز دعا کرائی۔حضور نے کے ایل ایم کی فلائیٹ میں نصف شب کے بعد روانہ ہونا تھا ۔حضور کو رخصت کرنے کے لئے بہت سے خدام ایئر پورٹ پر صفیں بنا کرموجود تھے۔دو تین صفوں نے حضور سے شرفِ مصافحہ حاصل کیا اس کے بعد حضورؓ کی کمزوریِ طبیعت کی بنا پر باقی لوگ حضور کے سامنے سے ہدیہ سلام پیش کر کے گذرتے رہے۔رات کے سوا ایک بجے حضورؓ سیدہ امِ متین اور سیدہ مہر آپا صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ،اپنی دو صاحبزادیوں اور مکرم چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ کے ہمراہ ہوائی جہاز کے اندر تشریف لے گئے۔پونے دو بجے شب جہاز دمشق کے لئے روانہ ہو گیا۔ جب تک جہاز کی سرخ بتیاں آسمان پر نظر آتی رہی کراچی ایئر پورٹ پر موجود خدام جو مختلف مقامات سے آئے ہوئے تھے،پر نم آنکھوں کے ساتھ جہاز کو دیکھتے رہے ۔ عین اس وقت ربوہ میں احباب مسجد مبارک میں جمع ہو کر اجتماعی دعا میں اللہ تعالیٰ کے حضورؓ دعائیں کر رہے تھے۔حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ کی تجویز تھی کہ حضورؓ راستے میں عرب ممالک کے کچھ مقامات پر بھی قیام فرمائیں ۔ حضور ؓ نے یہ تجویز قبول فرمائی تھی۔سفر میں حضور ؓ کا پہلا قیام دمشق میں ہونا تھا۔
شام میں قیام:
سفر میں سردی کی وجہ سے حضورؓ کی تکلیف میں اضافہ ہو گیا۔حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب اور مکرم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب ساری رات حضورؓ کو آرام پہنچانے کی کوششیں کرتے رہے۔ حتی کہ حضورؓ کو حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓکا نڈھال چہرہ دیکھ کر وہم ہو گیا کہ آپ بھی بیمار ہو گئے ہیں۔جب صبح ہوئی تو جہاز ریگستان پر پرواز کر رہا تھا۔آٹھ بجے حضور ؓ نے ناشتہ فرمایا۔ جب دمشق قریب آیا تو نیچے سبزہ نظر آنے لگا اور پھر باغات اور نہریں دکھائی دینے لگیں۔دس بجے کے قریب جہاز دمشق کے ہوائی اڈے پر اترا۔ مکرم منیر الحصنی صاحب اور دمشق کی جماعت کے دیگر احباب نے حضورؓ کا استقبال کیا۔جماعت کے مبلغ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ جو دو دن قبل یورپ سے دمشق پہنچے تھے اور پاکستانی سنٹر کے لال شاہ بخاری صاحب بھی بمعہ اپنے عملہ کے حضورؓ کے استقبال کے لئے موجود تھے۔حضور کا قیام مکرم بدر االدین صاحب حصنی کے گھر میں تھا۔ یہ خاندان کافی امیر تاجر تھامگر اپنا تمام گھر حضورؓ اور آپ کے قافلے کے لئے خالی کر کے اخلاص سے خدمت کررہا تھا۔بیروت سے جماعت کے مبلغ مکرم شیخ نور احمد منیر صاحب بھی دمشق میںحضور ؓ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔حضورؓ نے ایک ہفتہ دمشق میں قیام فرمایا۔یہاں آکر حضورؓ کو وطن کی یاد آ رہی تھی اور حضورؓ نے حضرت مرزا بشیر احمد ؓ صاحب کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا کہ اس وقت دل چاہتا تھا کہ اُڑ کر اپنے وطن چلا جاؤں مگر مجبوری اور معذوری تھی۔(۱۹) مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب حضورؓ کی طبیعت بہتر ہو رہی تھی۔اور وہاں سے اپنی طبیعت کے متعلق حضرت مرزابشیراحمد ؓ صاحب کو تار بھجوائی Improving۔حضور شام کے احمدیوں کے ہمراہ مجلسِ عرفان میں بھی رونق افروز ہوتے اور عموماََ ظہر اور عصر کی نماز احبابِ جماعت کے ساتھ ادا کرتے۔حضور ؓ نے ایک مجلس میں بہائیوں کے حالات بھی دریافت فرمائے (۲۰)۔دمشق میں اپنے قیام کے دوران حضور ؓ یہاں پر تبلیغ کو وسیع کرنے اور ایک اسکول قائم کرنے کے منصوبے پر غور فرماتے رہے۔ ایک روز حضرت مصلح موعود ؓ دمشق سے پانچ میل کے فاصلے پر ایک مقام دمّر تشریف لے گئے۔وہاں نہر کے کنارے ایک کیفے میں تشریف فرما رہے۔۶ مئی کو حضور ؓ کے اعزاز میں دمشق کے احمدی احباب کی طرف سے جماعت کے مرکز زاویۃ الحصنی میں دعوت تھی ۔لیکن اس ایک روز بعض احباب کو ایسی خوابیں آئیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ حضور کو خطرہ در پیش ہے لیکن انجام بخیر ہے۔ظاہری تدبیر کے طور پر یہ قدم اُٹھایا گیا کہ حضور زاویۃ الحصنی نہ تشریف لائیں بلکہ احباب کھانے کے بعد حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہو جائیں(۲۱)۔۷ مئی کو حضرت مصلح موعود ؓ دمشق سے بیروت کے لئے روانہ ہوئے۔ ایک روز قبل جمعہ کا دن تھا ۔حضور ؓ نے بدرالدین حصنی صاحب کے مکان میں فصیح و بلیغ عربی زبان میں ایک مختصر خطبہ پڑھا ۔جس کا مفہوم یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آج سے تقریباََ نصف صدی قبل جب کہ آپ میں سے اکثر ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام فرمایا تھا یدعون لک ابدال الشام و صلحاء العرب یعنی تیرے لئے شام کے ابدال اور عرب کے نیک بندے دعائیں کرتے ہیں۔آج تمہارے وجود میں یہ نشان پورا ہو رہا ہے۔نمازِ جمعہ کے بعد حضور کافی دیر احباب میں رونق افروز رہے ۔اگلے روز صبح حضورؓ بمع قافلہ بیروت کے لئے روانہ ہو گئے۔ دمشق کے کچھ مخلصین بھی حضورؓ کے ہمراہ بیروت روانہ ہوئے۔(۲۲)
راستے میں حضورؓ نے بعلبک کے آثارِ قدیمہ کی دلچسپی سے سیر کی۔جماعت کے ایک وفد نے بیروت سے بارہ میل باہر آکر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکا استقبال کیا ۔ان میں مقامی احباب کے علاوہ جماعت کے مبلغ مکرم شیخ نور احمد منیر صاحب بھی شامل تھے۔بیروت میں حضور ؓ کا قیام برج اجی حیدر محلہ میں ایک احمدی دوست السید محمد درخبانی کے مکان میں تھا ۔مقامی جماعت کی طرف سے سیکریٹری جنرل مکرم محمد توفیق الصفدی نے ایڈریس پیش کیا۔اس موقع پر طرابلس اور برجا سے بھی احمدی احباب اپنے امام کی زیارت کے لئے آئے ہوئے تھے۔حضورں نے بیروت میں گاڑی میں ساحلِ سمندر کی سیر کی۔اگلے روز ۸ مئی کی صبح کو حضور ؓ اپنے قافلے سمیت سویٹزر لینڈ کے لئے روانہ ہو گئے۔حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ روم تک حضورؓ کے ساتھ آئے اور پھر ہالینڈ روانہ ہو گئے ۔روم سے فلائیٹ تبدیل کر کے حضور TWA کے جہاز میں جنیوا روانہ ہوئے ۔(۲۳)
سویٹزر لینڈ میں ورودِ مسعود :
حضور کا طیارہ جنیوا پہنچا ۔سویٹزر لینڈ میں مبلغِ سلسلہ مکرم شیخ ناصر احمد صاحب نے جہاز تک آکر حضورؓ کا استقبال کیا۔ حضورؓ کی علالت کے پیشِ نظر وسیع پیمانے پر پریس کو حضورؓ کی آمد کی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔تاہم رائٹر کا نمائیندہ اس موقع پر موجود تھا(۲۴)۔قافلہ رات کو جنیوا لیک کے کنارے ایک ہوٹل میں ٹھہرا۔ جنیوا سے اگلے روز حضورؓ بذریعہ ریل گاڑی زیورک روانہ ہو گئے جہاںپر حضور ؓ کے طبی معائنوں کا آغاز ہونا تھا۔زیورک میں حضور ؓ کے قیام کا انتظام نمبر ۲ Bagonien Strasse پر ایک مکان میں کیا گیا تھا۔اسی شام کو مکرم مشتاق باجوہ صاحب بھی جنیوا سے زیورک پہنچ گئے۔اگلے روز ۱۰ مئی ۱۹۵۵ء کو پروفیسر روسیو (Rossier) نے حضورؓ کا معائنہ کیا اور یہاں پر حضور کا علاج بنیادی طور پر انہی کی زیرِ نگرانی ہؤا۔پروفیسر روسیو نے مختلف ٹسٹ تجویز کئے۔اور اسی روز حضور کا خون کا ٹسٹ اور ای سی جی ہوئی۔۱۱ مئی کو حضور ؓ کے تفصیلی ایکسرے ہوئے۔اس روز حضورؓ کی طبیعت میں بہت گبھراہٹ تھی۔۱۲ مئی کو حضور ؓ نے ایک ہومیو پیتھ ڈاکٹر کو دکھایا۔اور اس روز مکرم ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب بھی انگلستان سے زیورک پہنچ گئے ۔اس روز حضور ؓ کی طبیعت بشاش تھی۔اگلے روز حضور ؓ نے جمعہ خود پڑھایا اور خطبہ میں دوستوں کو اس سفر کے با برکت ہونے کے لئے دعا کی تحریک فرمائی اور پھر زیورک سے باہر کھیتوں میں سیر کے لئے تشریف لے گئے۔۱۴ مئی کو دانتوں کے ڈاکٹر نے حضور ؓ کا معائنہ کیا اورGold Fillingکی۔اگلے روز اتوار کو ایک انگریز نو مسلم مسٹر لاسن(Lowson ) جو مشرقی افریقہ میں کام کرتے تھے لندن سے حضور ؓ سے ملاقات کے لئے تشریف لائے۔مسٹر لاسن نے شام کی چائے اور رات کا کھانا حضورؓ کے ساتھ کھایا اور کچھ روز زیورک میں ہی ٹھہرے۔۱۸ مئی کو ڈاکٹر ہیس(Hess) نے حضور ؓ کے تفصیلی ٹسٹ کئے۔۱۹ کو حضرت مصلح موعود ؓ ہومیو پیتھ ڈاکٹر Giselکو دکھانے گئے۔یہ ڈاکٹر صاحب بہت خوش مزاج آ دمی تھے اور حضورؓ کی بہت عزت کرتے تھے۔ ان کو دکھانے کے بعد حضورؓ کی طبیعت میں بشاشت پیدا ہو جاتی تھی۔اسی روز حضور ؓ ظہر اور عصر کی نماز کے بعد زیورک کی جھیل میں کشتی کی سیر کے لئے تشریف لے گئے۔۲۰ مئی کو حضور ؓ نے پندرہ منٹ تک خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور پھر ڈاکٹر روسیو سے مشورہ کے لئے تشریف لے گئے۔ڈاکٹر روسیو نے رائے دی کہ ٹسٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ دائیں طرف دماغ کے پچھلے حصہ میں خون کی رگوں میں بیماری کا حملہ ہؤا تھا اور اب آپ کی صحت بالکل ٹھیک ہے۔اس وقت آپ کو جو تکلیف معلوم ہوتی ہے اس کے لئے میں آپ کو ادویات لکھ دیتا ہوں۔البتہ انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ حضور کو قاتلانہ حملہ میں جو زخم لگا تھا وہ خطرناک تھا اور پاکستان میں ڈاکٹر کی رائے درست نہیں تھی کہ یہ زخم خطرناک نہیں تھا۔چاقو کی نوک اندر ہی رہ گئی تھی اور ایکسرے میں ریڑھ کی ہڈی کے قریب نظرآ رہی ہے (۲۵)۔۲۱ مئی کو حضرت سیدہ امِ وسیم صاحبہ اور حضرت سیدہ امِ ناصر صاحبہ ؓ اور محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کچھ عرصہ کے لئے لندن سے زیورک آ گئے۔۲۲ مئی کو حضور ؓ نے پھر ہومیو پیتھ ڈاکٹر Gisel کو دکھایا ۔۲۴ مئی کو عید تھی۔اس دن حضورؓ کی طبیعت خراب تھی اس لئے آپ نے عید کی نماز نہیں پڑھائی۔مگر عید کے بعد حضور ؓ نے یورپ کے کچھ نو مسلمین کو شرفِ ملاقات بخشا۔۲۸ مئی کو۲ حضور ؓ نے ایک چوٹی کے Neurologistکو دکھایا انہوں نے مشورہ دیا کہ حضورؓ کی طبیعت اب بہتر ہے اور اگر مزید احتیاط کی جائے تو بیماری کے مزید حملے کا خطرہ نہیں ہے۔تین ماہ آ رام کیا جائے اور پھر ہلکا ہلکا کام شروع کر دیا جائے اور یہ احتیاط کی جائے کہ کوفت نہ ہو۔ان دنوں میں پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد صاحب علاج کی غرض سے زیورک آ ئے ہوئے تھے۔حضرت مصلح موعود ؓ ،حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ کے ہمراہ ان سے ملاقات کے لئے گئے اور ان کی صحت کے لئے دعا کی ۔غلام محمد صاحب نے اس پر حضور ؓ کا شکریہ ادا کیا۔
۳۰ مئی کو حضرت مصلح موعود ؓ نے جنیوا میں ایک مشہور ہومیوپیتھ ڈاکٹرSmichtکو دکھانے کی غرض سے جنیوا روانہ ہو گئے۔حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے اس روز ہیگ واپس جانا تھا لیکن آپ حضورؓ کی معیت میںلیک لوسرن تک آئے اور وہاں سے شیخ ناصر احمد صاحب کے ہمراہ واپس چلے گئے۔مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب،مکرم مشتاق باجوہ صاحب اور حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ بھی قافلے میں شامل تھے۔راستے میں دوسری گاڑی حضورؓ کی گاڑی سے بچھڑ گئی۔اس وجہ سے حضور کو بہت پریشانی ہوئی اور حضور کی طبیعت خراب ہو گئی۔رات کو جنیوا کے ایک ہوٹل میں قیام کیا۔اگلے روز صبح کو حضورؓ اُس ہومیوپیتھ ڈاکٹر صاحب کو دکھانے گئے۔اس ڈاکٹر نے حضورؓ کے ہاتھ دیکھ کر کہا کہ آپ کی انگلیوں کی ساخت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کام کو فوری سرانجام دینا پسند کرتے ہیں۔اگلے روز حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ واپس زیورک تشریف لے آئے۔ ۵جون ۱۹۵۵ء کو حضرت مصلح موعود ؓ نے سوئٹزرلینڈ کے مقامی نو مسلم احباب کو ہوٹل Belvoir Parkمیں چائے کی دعوت پر مدعو کیا۔حضور ؓ نے انہیں انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آج سے تیس سال قبل جب میں آپ کے ملک میں سے گزرا تھاتو اس کے قدرتی مناظر مجھے بہت اچھے لگے تھے۔مگر آج میں آپ لوگوں کو پا کر اس سے بھی زیادہ خوش ہؤا ہوں۔ آپ میرے روحانی بیٹے ہیںاور روحانی بیٹوں کو پانے کی خوشی اس سے کہیں زیادہ ہے جو ایک باپ کو اپنے جسمانی بیٹوںسے ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کو اپنا قرب عطا فرمائے اور آپ کو دینِ اسلام کو اپنے ملک میں پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔جواب میں نو مسلم حضرات نے اپنے اخلاص اور جذبات کا اظہار کیا۔واپس اپنی رہائش گاہ آتے ہوئے فرمایا کہ اس ملک میں ایسا اخلاص پیدا ہونا ایک عجیب نشان معلوم ہوتا ہے۔۶ جولائی کو ایک مقامی اخبار Neue Zurcher Zeitungکے بیرونی ایڈیٹر ڈاکٹر سٹرائف ( Streiff) نے حضور ؓ سے ملاقات کی۔ ۹ جولائی کو حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ زیورک آ گئے تاکہ حضور ؓ کے ساتھ اس سفر میں شامل ہو سکیں۔
اس موقع پر سویس ٹی وی نے حضورؓ کا انٹرویو نشر کرنے کا پروگرام بنایا۔پہلے اُن کا پروگرام تھا کہ یہ انٹرویو عید کے موقع پر ریکارڈ کیا جائے گا مگر چند دقتوں کے باعث ایسا نہیں ہو سکا۔ پھر براہِ راست انٹرویو نشر کرنے کا پروگرام بنا۔۸ جون ۱۹۵۵ء کو حضور ؓ رات نو بجے سے قبل ٹی وی سٹیشن تشریف لے گئے اور پہلے سٹودیو کے دفتر میں ٹیلی ویژن کے پروگرام ملاحظہ فرماتے رہے۔ Dr.Tilgenkampحضور کا انٹرویو کر رہے تھے۔انہوں نے پہلے حضور کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تعارف کرایا۔حضورؓ نے جواب میں اُن کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ میں سویس لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اتنا شاندار ہسپتال بنایا ہے جہاں انسان اُن بیماریوں کا علاج بھی کرا سکتا ہے جن کے علاج کے لئے اُس کے اپنے ملک میں سہولتیں مہیا نہیں ہیں۔ایک سوال کے جواب میں حضورؓ نے فرمایا کہ رمضان ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ بڑائی حاصل کرنے سے پہلے ہمیں قربانی کرنی چاہئیے ۔ یورپ میں اپنے دورہ کے پروگرام کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ آپ یورپ میں اپنے مشنوں کا دورہ بھی فرمائیں گے اور مزید نئی جگہوں مثلاََ اٹلی اور فرانس میں بھی مشن کھولنے کا ارادہ ہے۔آپ نے فرمایا کہ احمدیت اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ کر نے اور اسلام کی صحیح شکل دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے وجودمیں آئی ہے۔یہ پہلا موقع تھا کہ خلیفہ وقت کا انٹرویو ٹی وی پر نشر ہؤا تھا اور یہ اعزاز سویس ٹی وی کے حصے میں آیا۔(۲۴)
اس دوران بھی حضورؓ ضروری ڈاک ملاحظہ فرماتے رہے اور یورپ میں تبلیغ ِ اسلام کو وسیع کرنے کا منصوبہ بھی زیرِ غور رہا۔حضور ؓ نے ہدا یت فرمائی کہ امریکہ کے دو پرانے مبلغین اور یورپ کے مبلغین کو اطلاع دے دی جائے کہ وہ تیار رہیں انہیں تار دے کر یورپ میں ہونے والی مبلغین کی کانفرنس کے لئے بلا لیا جائے گا(۲۶)۔
اس وقت حضرت چوہدری صاحب ؓ عالمی عدالت انصاف کے جج تھے اور ہالینڈ میں مقیم تھے۔اور اس سفر میں حضورؓ کے آرام کی خاطر حضورؓ کے ہمراہ رہتے اور سیر کے دوران بھی حضورؓ کی گاڑی میں اگلی سیٹ میں بیٹھتے۔ڈاکٹر نے حضور کو دیہی علاقے میں سیر کا مشورہ دیا تھا ۔اس لئے چوہدری صاحب ؓ خود حضور ؓ کے سفر کے لئے ایسے راستے کا انتخاب کرتے جو پر فضا دیہاتی علاقے سے گذرتا ہو۔ حضورؓ بھی حضرت چوہدری صاحب پر بہت شفقت فرماتے ۔ذیابیطیس کی وجہ سے حضرت چوہدری صاحب کو راستے میں کچھ کھانے کی ضرورت پڑتی تھی ۔حضورؓ روانہ ہونے سے قبل ازراہِ شفقت خود چوہدری صاحب ؓ کے لئے گاڑی میں مالٹے رکھنے کی ہدایت فرماتے۔حضورؓ نے جماعت کے نام اپنے ایک پیغام میں حضرت چوہدری صاحب کی ان خدمات کے متعلق تحریر فرمایا
’عزیزم چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓنے ساری عمر دین کی خدمت میں لگائی ہے۔ اور اس طرح میرا بیٹا ہونے کا ثبوت دیا ۔۔۔۔کیا کسی ایسے مولوی اور پیر کی خدمت کا موقع خدا تعالیٰ نے کسی ایسے شخص کو دیا جو چوہدری ظفراللہ خانصاحب کی پوزیشن رکھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمت کو بغیر معاوضہ کے نہیں چھوڑیگا۔اور ان کی محبت کو قبول کریگا۔اور اس دنیا اور اگلی دنیا میں اس کا ایسا معاوضہ دیگا کہ پچھلے ہزار سال کے بڑے آدمی اس پر رشک کریں گے۔‘ (۲۷)
جب حضورؓ زیورک تشریف لائے تو رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔عید کے موقع پر حضورؓ نے دنیا بھر کی جماعتوں کے نام یہ پیغام بھجوایا۔
’پاکستان ،ہندوستان اور دنیا کے تمام احمدی بھائیوں کو عید مبارک ہو۔میں ان کی مشکلات اور تکالیف کے دور ہونے اور روحانی ترقی کے لئے دعا کرتا ہوں۔‘(۲۸)
کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے متعلق خطبات:
دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا میں ایک نئی طرز کی تقسیم سامنے آ رہی تھی۔پہلے تو صرف سوویت یونین میں کمیونسٹ حکومت بر سرِ اقتدار تھی ۔مگر جب سوویت یونین کی افواج نے مشرقی یورپ کے ان ممالک پر قبضہ کیا جو پہلے نازی جرمنی کے تسلط میں تھے تو ان ممالک میں بھی کمیو نسٹ حکومتیں قائم کر دی گئیں۔اس طرح بلغاریہ ،چیکو سلویکیا،مشرقی جرمنی،ہنگری،پولینڈ ،رومانیہ، یوگوسلاویہ اور البانیہ کمیونسٹ بلاک میں چلے گئے۔اسی طرح ایشیا میں شمالی کوریا ،شمالی ویت نام اور چین میں کمیونسٹ حکومتیں قائم ہو گئیں۔دوسری طرف امریکہ ،انگلستان اور دیگر مغربی ممالک کیپیٹلسٹ بلاک کی قیادت کر رہے تھے۔دونوں گروہوں کا دعویٰ تھا کہ وہ بہتر نظامِ حکومت مہیاکرتے ہیں۔اور دونوں گروہوں میں تناؤ اور دنیا پر تسلط کے لئے دوڑ نے امنِ عالم کے لئے ایک خطرناک صورت پیدا کر رکھی تھی۔ اور اسلحے کی دوڑ میں جوہری ہتھیاروں کے اضافے نے انسانیت کے لئے خطرات میں بے پناہ اضافہ کر دیا تھا۔
کمیونسٹ دنیا میں تو مذہب کو ایک شجرِ ممنوعہ قرار دیا جاتا تھا،مگر اس کے ساتھ مغربی دنیا کے کیپیٹلسٹ بلاک میں بھی اکثریت رفتہ رفتہ دہریت کی طرف جھک رہی تھی۔اور مذہبی خیالات پر دقیانوسیت اور تنگ نظری کا لیبل لگا کر ان کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔اور یہ سوال اُٹھایا جاتا تھا کہ آخر معاشرے کو مذہب کی ضرورت ہی کیا ہے۔بغیر کسی آسمانی راہنمائی کے ہمارے نظام میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ پوری دنیا کو ترقی،امن اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کر سکے۔چند سال قبل حضورؓ ڈلہوزی گئے تو وہاں ایک روز حضورؓ دوپہر کے وقت آپ کو الہام ہؤا کہ دنیا میں امن کے قیام اور کمیونزم کے مقابلہ کے لئے سارے گُر سورہ فاتحہ میں موجود ہیں ۔پھر آپ کو عرفانی طور پر اس کی تفسیر سمجھائی گئی۔ پہلے حضورؓ کا ارادہ تھا کہ اس کے متعلق تفصیلی رسالہ تحریر فرمائیں گے۔مگر بیماری کے آغاز کے بعد حضور ؓ نے مناسب خیال فرمایا کہ خطبات کے ایک سلسلے میں یہ تفسیر بیان فرمائیں۔چنانچہ اس دورے کے دوران مئی اور جون میں حضورؓ نے چارخطبات میں یہ تفسیر مختصراََبیان فرمائی۔حضورؓ نے فرمایا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ دنیا میں امن اور کمیونزم اور کیپیٹلزم کے جھگڑے کے استیصال کے گُر سورہ فاتحہ میں موجود ہیں۔حضورؓ نے فرمایا کہ الحمد للہ رب العلمین میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر قسم کی مدح کا وہی مستحق ہوتا ہے جس کی ربوبیت کسی خاص قوم اور فرقہ سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ وسیع ہوتی ہے۔امریکہ اپنے آپ کو ڈیماکرسی کا لیڈر سمجھتا ہے اور روس اپنے آپ کو عوامی تحریکوں کا لیڈر سمجھتا ہے۔لیکن اگر دونوں کو دیکھا جائے تو امریکنوں کی ساری طاقت امریکنوں کی ترقی پر خرچ ہوتی ہے اور روس کی ساری طاقت روسیوں کی ترقی پر خرچ ہوتی ہے۔روس اگر کرتا ہے تو یہ کہ اپنے خیالات دوسرے لوگوں میں پھیلا دیتا ہے تا وہ لوگ اپنی حکومت کے خلا ف کھڑے ہو جائیں۔اسی طرح اگر امریکن دوسرے لوگوں کوامداد دیتے ہیں تو اس میں بھی اپنے فوائد مد ِ نظر ہوتے ہیں۔دونوں گروہ دوسرے ممالک کو مدد دیتے ہوئے اپنے فوائد کو مدِ نظر رکھتے ہیں نہ کہ عوام الناس کے فوائد کو ۔حقیقی مدح اسی وقت ہوتی ہے جب بغیر غرض کے لوگوں کو اونچا کیا جائے۔حقیقی تعریف کی مستحق وہی حکومت ہو گی جو اس آیت کے ماتحت کام چلائے گی۔اور وہی ٹھیک امن قائم کرسکے گی۔
پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے اگلی آیت الرحمن الرحیم کی تفسیر میں فرمایا کہ جو رحمن اور رحیم ہو گا وہ ساری قوموں کی تعریف کا مستحق ہو گا۔رحمن کے معنی قرآنِ کریم سے یہ معلوم ہوتے ہیں کہ جس نے کوئی نیک کام اور کوئی خدمت نہ کی ہو اس کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کرنے والا اور جس کے پاس کچھ نہ ہواسے وہ ذرائع مہیا کر دینے والا ہو جن ذرائع کی وجہ سے وہ اعلیٰ ترقی حاصل کر سکے۔اور رحیم کہ معنی یہ ہیں کہ ہر شخص جو کام کرتا ہے اس کام کا بدلہ متواتر جاری رہے۔اگر دنیوی حکومتیں ان اصولوں کو قبول کرلیں تو وہ بھی الحمد کی مستحق ہو جائیں گی اور ان میں لڑائی جھگڑے اور فساد بند ہو جائیں گے۔اگر دنیا اس اصول پر عمل کرے تو سارے جھگڑے کپیٹلزم اور کمیونزم کے ختم ہو جاتے ہیں۔ملک یوم الدین والے حصے کے متعلق حضورؓ نے فرمایا کہ دنیا میں حکومت کی بڑی غرض یہی سمجھی جاتی ہے کہ ہنگامی حالات emergencies میں کام آئے۔عام حالات میں افراد خود اپنا انتظام کر لیتے ہیں۔حکومت کا کام یہی ہوتا ہے کہ جب ایک جتھہ اور گروہ یا ایک قوم کوئی شرارت کرے تو اس وقت اس کو سنبھال لے لیکن عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ حکومت ایسے کام سے عہدا برآ نہیں ہوتی۔اصل مطلب یہ ہے کہ قومی یا مجموعی خرابی یا مجموعی طور پر اچھے کام کے اجزاء اور فیصلہ کے وقت بعض دفعہ گورنمنٹ ڈر جاتی ہے ۔کہ پبلک ہم سے کل پوچھے گی۔یا بعض دفعہ وہ جزا دینے میں کوتاہی کر جاتی ہے کیونکہ جزا اس کی طاقت سے بڑھ جاتی ہے۔تو ملک یوم الدین میں بتایا کہ یہ بھی ایک طریقہ ہے جس سے حمد حاصل ہوتی ہے اگر کوئی حکومت ملک یوم الدین بن کر رہے تو پھر عوام الناس اور ارد گرد کے لوگوں میں بغض کبھی پیدا نہیں ہو سکتا بلکہ تعریف ہی ہوتی ہے۔ان چار خطبات میں حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا کہ سورہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں امن قائم کرنے کے گُر بیان فرمائے ہیں۔اور وہ تعلیم اور حکومت کے وہ اصول بیان فرمائے ہیں جن پر عمل کر کے اشتراکیت اور سرمایہ داری نظام کے جھگڑے کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ (۲۹تا۳۲)
یورپ کے دیگر مقامات کا سفر:
۱۰ جولائی کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ زیورک سے روانہ ہوئے اور رات کو لوگانو کے پارک ہوٹل میں ٹہرے۔اور اگلے روز لوگانو سے اٹلی کے شہر وینس پہنچے۔۱۲ جولائی کو حضور ؓ نے گنڈولا قسم کی کشتی میں وینس کی سیر کی ۔حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ،حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب حضور ؓ کے ساتھ کشتی میں سوار تھے۔۱۴ جولائی کو حضرت مصلح موعود وینس سے آ سٹریا کے لئے روانہ ہوئے۔رات کو حضور نے آ سٹریا کے شہر انز برک کے ہوٹل Kreid میں قیام فرمایا۔صبح سویرے قافلہ جرمنی کے شہر نیورمبرگ کے لئے روانہ ہؤا۔شام کو چھ بجے نیورمبرگ پہنچ گئے ۔جماعت کے مبلغ مکرم عبد اللطیف صاحب نے حضور کا استقبال کیا اور یہاں کے نو مسلم جرمن دوستوں نے حضورؓ کے ساتھ ملاقات کا شرف حاصل کیا۔یہاں پر حضورؓ اور آپ کے قافلے کا قیام ہوٹل کیسر ہاف (Keiserhof)میں تھا۔۱۶ جولائی کو حضرت مصلح موعود ؓ نے آرلنگن یونیورسٹی کے ایک Neurologistکو دکھانے کے لئے تشریف لے گئے ۔اور حضور ؓ نے مقامی احمدیوں کے ساتھ ایک میٹنگ میں شرکت فرمائی اور یہاں پر تبلیغ کا کام وسیع کرنے اور مسجد کی تعمیر کے معاملات پر غور ہؤا۔اور اسی روز یہاں کی جماعت نے حضور ؓ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا۔حضور ؓ نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ جرمن قوم کو اللہ تعالیٰ نے بہت ہمت عطا فرمائی ہے، وہ با وجود لڑائیوں کی تباہ کاری کے پھر ترقی کر جاتی ہے۔۱۷ کو حضور ؓ نیورمبرگ سے باڈ گاڈرسبرگ کے لئے روانہ ہوئے۔یہاں پاکستان کے سفارت خانے کے سامنے ہو ٹل رہائن لینڈٖ میں قافلے کی رہائش کا انتظام تھا۔یہاں پر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اور مکرم میر داؤد احمد صاحب اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔۱۸ جون کو حضرت مصلح موعود ؓ اہلِ قافلہ کے ہمراہ ہالینڈ کے لئے روانہ ہوئے۔اور دوپہر کو ہالینڈ میں داخل ہوئے۔پانچ بجے کے قریب قافلہ ہیگ کے مضافات میں داخل ہؤا۔ہیگ شہر سے ہوتے ہوئے قافلہ ویسنار(Wassenaar) پہنچا، جہاں پر ایک مکان کا انتظام کیا گیا تھا۔یہاں پر حضور کو خوش آ مدید کہنے کے لئے ایک مقامی مبلغ مکرم غلام احمد بشیر صاحب اور انڈونیشین احمدی مبلغ مکرم محمد ابوبکر ایوب صاحب اور کچھ نو مسلم دوست موجود تھے۔ہالینڈ آکر حضورؓ کی طبیعت مضمحل رہنے لگی تھی۔حضور ؓ چند مرتبہ سیر کے لئے مختلف مقامات پر تشریف لے گئے ۔۲۴ جولائی کو حضور ؓ نے جمعہ پڑھایا اور انگریزی زبان میں تقریباََ آ دھے گھنٹے کا خطبہ ارشاد فرمایا ۔اس خطبہ میں آپ نے ڈچ زبان میں ترجمہ قرآن کے متعلق اور ہالینڈ میں مسجد کے بارے میں راہنمائی فرمائی۔نماز ِ جمعہ و عصر کے بعد ایک نو مسلم احمدی مسٹر عبداللطیف دلیوں صاحب نے خطبہ کا ڈچ زبان میں ترجمہ احباب کو سنایا۔بہت سے نو مسلم دوستوں نے نمازِ جمعہ میں شرکت کی۔۲۵ جون کو حضرت مصلح موعود ؓ بذریعہ ہوائی جہاز جرمنی کے شہر ہمبرگ کے لئے روانہ ہوئے۔ہوائی جہاز سوا تین بجے سکفول (Schiphol)کے ہوائی اڈے سے روانہ ہؤا اور تقریباً ساڑھے چار بجے ہمبرگ کے ہوائی اڈے پر پہنچا۔اس روز ہمبرگ میں مطلع ابر آلود تھا۔ یہاں کے مبلغ عبد الطیف صاحب اور نو مسلم عبد الکریم ڈنکر صاحب نے حضور کا استقبال کیا ۔ حضور کا قیام ہوٹل Europesharhof میں تھا۔ہوٹل پہنچ کر حضورؓ کچھ دیر تک یہاں کے نومسلم جرمن احباب سے گفتگو فرماتے رہے۔اگلے روز حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ہمبرگ یونیورسٹی کے مشہور Neurologistڈاکٹر پیٹے ( Pette) کو دکھانے کے لئے تشریف لے گئے۔ڈاکٹر صاحب نے معائنہ کے بعد رائے دی کہ اب حضور کی صحت کافی بہتر ہے۔البتہ آ ئندہ کام کی زیادتی کوکم کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے بعدایک پریس فوٹو گرافر نے حضور ؓ سے کچھ فوٹوز لینے کے لئے درخواست کی اور حضور ؓ نے اس درخواست پر تصویریں کھچوائیں جو بعد میں اخبارات نے شائع کیں۔ اور اس کے بعد ایک زیرِ تبلیغ مستشرق نے علیحدگی میں حضرت مصلح موعود سے ملاقات کی اور اسلام قبول کر کے بیعت کر لی لیکن ساتھ یہ درخواست کی کہ فی الحال ان کی بیعت کو مخفی رکھا جائے ۔ جب حضورؓ ساتھ والے کمرے میں نماز کے لئے تشریف لے گئے ،جہاں مختلف نو مسلم دوست آئے ہوئے تھے تو یہ صاحب خود ہی نماز میں شامل ہو گئے۔اس طرح انہوں نے خود ہی اپنے قبولِ اسلام کو ظاہر کر دیا۔ان کا اسلامی نام زبیر رکھا گیا۔اس روز حضور دیر تک مقامی احمدی احباب سے گفتگو فرماتے رہے۔اور ہمبرگ میں مسجد کی تعمیر کے سلسلے پر بھی گفتگو ہوتی رہی۔
جرمنی میں قیام کے دوران حضورؓ نے بعض ماہر ڈاکٹروں سے اپنی بیماری کی بابت مشورہ کیا۔ ایک ماہرDr.Petteنے حضورؓ کا تفصیلی معائنہ کیا اور حضورؓ کی صحت یابی پر اطمینان کا اظہار کیا اور مشہور سرجن ڈاکٹر جمپر(Jumper) نے رائے دی کہ چاقوکی نوک جو اندر رہ گئی تھی اسے نکالنے کی ضرورت نہیں۔بعض پریس کے نمائندوں نے حضورؓ سے ملاقات کر کے انٹرویو لئے۔ان میں Contipressکے نمائندے اور مشہور صحافی مسٹر Pirathبھی شامل تھے ۔ Dr. Ahel اور Mr.Kamour جیسے نمایاںمستشرق بھی حضورؓ سے ملاقات کے لئے آتے رہے۔Mr. Kamour پر تو حضورؓ سے ملاقات کا ایسا اثر ہؤا کہ انہوں نے دوسری ملاقات میں ہی بیعت کر کے اسلام قبول کر لیا۔ ہمبرگ کی جماعت نے حضورؓ کے اعزاز میں ٹاؤن ہال میں ایک تقریب کا اہتمام کیا ۔اس میں احمدیوں کے علاوہ ہمبرگ کے معززین بھی شامل ہوئے۔جرمن احمدی عبد الکریم ڈنگر (Dangar)صاحب نے جماعت ہمبرگ کی طرف سے حضورؓ کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا جس کے جواب میں حضورؓ نے نصف گھنٹہ انگریزی میں تقریر فرمائی ۔اس میں حضورؓ نے ربوہ کے قیام اور ترقی کا ذکر فرمایا کہ کس طرح چند خیموں سے یہ ایک پر رونق شہر میں تبدیل ہو گیا اور بظاہر وہاں پر پانی ملنے کی کوئی امید نہیں نظر آرہی تھی مگر اللہ تعالیٰ کی دی گئی خوشخبری کے مطابق پانی بھی مل گیا۔حضورؓ نے جرمن قوم کی تعریف کرتے ہوئے فرمایاکہ:
’ جرمن قوم کا کیریکٹر بلند ہے اور انہوں نے ہمبرگ شہر کو اتنی جلد تعمیر کر لیا ہے۔اور جرمن قوم اس زندہ روح کے ساتھ جلد از جلد اسلام کو قبول کرے گی۔‘
اس تقریب میں ہمبرگ حکومت کے ایک وزیر Von Flsenne نے حضور کا خیر مقدم کیا اور وہاں کے اخبارات نے اس کی خبریں شائع کیں۔ (۲۴)
۲۷ جون کو ایک ماہر سرجن ڈاکٹر یُنکر(Yunker)نے حضور کا معائنہ کیا اور رائے دی کہ چاقو کی نوک جو اندر رہ گئی تھی وہ اس کے ارد گرد کا Tissueاب ٹھیک طرح Organizeہو چکا ہے۔اور اس کا سائز چھوٹا ہے۔اب اس کو چھیڑنا بالکل مناسب نہیں۔کیونکہ اس کو نکالنے کے لئے بہت سے حصہ کو کاٹنا پڑے گا۔اس لئے مناسب یہی ہے کہ اسے اسی طرح اندر رہنے دیا جائے۔ شروع میں پروگرام تھا کہ حضور ؓ ۲۷ جون کو ہمبرگ سے ہالینڈ جائیں گے مگر یہاں کی آ ب و ہوا اور ہمبرگ کی جماعت کا اخلاص دیکھ کر حضور ؓ نے ایک اور دن یہاں پر ٹھہرنے کا فیصلہ فرمایا اور ۲۸جون کو آپ بذریعہ ہوائی جہاز واپس ہیگ کے لئے تشریف لے گئے۔اسی روز ہیگ کی جماعت نے حضور ؓ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا تھا۔اس موقع پر رپیس کے نمائندے اور کئی معززین بھی مدعو تھے۔پہلے مکرم ابوبکر ایوب صاحب نے تلاوت کی اور پھر ہالینڈ کے نومسلم دوست مکرم عبداللطیف دلیوں نے ایڈریس پیش کیا۔اور مسز نصیرہ زیر مان نے بھی ایک مختصر ایڈریس پیش کیا۔حضور ؓ نے انگریزی میں تقریر فرمائی جس کا ترجمہ دلیوں صاحب نے کیا۔یکم جولائی کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے مشن ہاؤس میں نمازِ جمعہ پڑھائی اور نصف گھنٹہ انگریزی میں خطبہ ارشاد فرمایا۔ اگلے روز ۲ جولائی ۱۹۶۷ء کو حضور بحری جہاز کے ذریعہ انگلستان کے لئے روانہ ہوئے۔صبح کو قافلہ بندرگاہ ہکفن ہالینڈ (Hokfon Holland) پہنچا اور ساڑھے گیارہ بجے بحری جہاز جس کا نام Princess Bathrisea تھا سوار ہؤا۔شروع میں چکروں کی وجہ سے حضور کی طبیعت خراب ہوئی اور آپ اپنے کیبن میں تشریف لے گئے۔لیکن سفر کے اختتام پر آپ ڈیک پر تشریف لے آئے اور دیر تک سمندر کا نظارہ کرتے رہے۔ساڑھے چھ بجے جہاز انگلستان کے ساحل پر لگا۔امام مسجد لندن اور دیگر احمدی احباب نے حضور کا استقبال کیا۔اور وہاں سے حضور لندن تشریف لے آئے۔
حضور ؓ کی انگلستان آمد:
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ ۳ جولائی کو بذریعہ سمندر انگلستان پہنچے۔امام مسجد لندن اور دیگر احمدی احباب بندر گاہ پر استقبال کے لئے موجود تھے۔وہاں سے قافلہ کاروں میں لندن روانہ ہؤا۔مسجد فضل لندن میں احمدی احباب نے حضورؓ کے استقبال کی سعادت حاصل کی۔حضورؓ کا قیام ۶۱میلروزروڈ پر تھا ۔
۴ جولائی کو حضور ؒ اعصابی امراض کے مشہور ماہر چارلس سائمنڈ (Charles Symond) کو دکھانے کے لئے تشریف لے گئے۔ڈاکٹر سائمنڈ نے اس بات کا اظہار کیا کہ حضور کو جو بیماری کا حملہ ہؤا تھا وہ Artery Carotidکے Thrombosisکی وجہ سے تھا۔اس سے حضورؓ کی طبیعت میں بہت گھبراہٹ پیدا ہوئی،جس کا اثر چند روز تک حضور کی طبیعت پر رہا۔کراچی اور لاہور کے ڈاکٹروں کو بھی ڈاکٹر سائمنڈ کی رائے کے متعلق لکھا گیا۔پھر ایک اور ماہر ڈاکٹر سر رسل برائین کو دکھایا گیا ۔انہوں نے کچھ تسلی دلائی ۔زیورک کے ڈاکٹر روسیو سے بھی فون پر بات کی گئی۔اگلے چند روز کے دوران حضور نے ناک ،دانتوں اور جوڑوں کے ماہر ڈاکٹروں سے مشورہ کیا۔
لندن آمد کے بعد نزلہ زکام کی وجہ سے حضورؓ کی طبیعت پہلے خراب ہوئی مگر پھر جلد طبیعت میں بہتری شروع ہو گئی(۳۶)۔لندن میں حضورؓ کے قیام کے دوران ایک اہم پروگرام دنیا کے مختلف ممالک میں مبلغینِ سلسلہ کی کانفرنس تھی جس کی صدارت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے فرمانی تھی۔ اس کانفرنس کا فیصلہ حضور ؒ نے زیورک میں قیام کے دوران ،وسط جون میں ہی فرما لیا تھا۔چنانچہ یورپ، امریکہ اور نائیجیریا کے مبلغین کو زیورک ہی سے ایجنڈا بمعہ ایک سوالنامہ کے بھجوادیا گیا تھا۔ تاکہ تمام مبلغین مقامی جماعتوں اور دوسرے مبلغین سے مشورہ کر کے اور پوری تیاری کر کے کانفرنس میں شامل ہوں۔اس کانفرنس کے افتتاح کے لئے حضورؓ کی لندن آمد کے بیس روز کے بعد ۲۳ جولائی ۱۹۵۵ء کا دن مقرر کیا گیا تھا۔اس میں شرکت کے لئے پہلے ہی امریکہ ، غرب الہند، افریقہ اور یورپی ممالک میں متعین مبلغین کو اطلاع بھجوائی جا چکی تھی اور وہ سب اس کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔کانفرنس سے دو روز قبل حضور کی طرف سے اس بارے میں بذریعہ تار یہ پیغام ملا جو کہ الفضل میں شائع کیا گیا۔
’حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ کے بعد کل پہلی مرتبہ دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی تجاویز پر غور کرنے کے لئے لنڈن میںایک نہایت اور عظیم الشان کانفرنس شروع ہو رہی ہے۔کانفرنس میں امریکہ۔غرب الہند۔افریقہ۔اور یورپ کے تقریباََ تمام اہم ممالک میں متعین احمدی مبلغین شامل ہوں گے۔۲۲ جولائی سے چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب بھی اس کانفرنس میں شامل ہو رہے ہیں۔دوست کانفرنس کی نمایاں کامیابی اور اس کے وسیع ترین کامیاب نتائج کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دردِدل سے دعا کریں۔‘(۳۳)
اس کانفرنس کے لئے وسط جون میں ایک سوالنامہ ایجنڈے سمیت مبلغین کو بھجوایا جا چکا تھا تاکہ شرکاء اپنے ملکوں کے مبلغین سے مشورہ کر کے پوری تیاری کے ساتھ کانفرنس میں شرکت کریں(۳۴)۔یہ تاریخی کانفرنس ۶۳ میلروز روڈ پر واقع مشن ہاؤس میں منعقد ہوئی۔یہ کانفرنس ۲۲جولائی سے شروع ہو کر تین روز جاری رہی اور اس میں پانچ اجلاس ہوئے ۔مبلغین کی اس کانفرنس میں شرکت کے لئے نائیجیریا سے مکرم نسیم سیفی صاحب،امریکہ سے مکرم خلیل احمد ناصر صاحب، سوٹزرلینڈ سے مکرم شیخ ناصر احمد صاحب،سپین سے مکرم کرم الٰہی ظفر صاحب،جرمنی سے مکرم عبد اللطیف صاحب، ہالینڈ سے مکرم غلام احمد صاحب بشیر اور ٹرینیڈاڈ سے مکرم محمد اسحٰق صاحب تشریف لائے ۔برطانیہ سے جماعت کے مبلغ مکرم مولود احمد صاحب اور مکرم میر محمود احمد صاحب سیکریٹری لندن مشن اورمرکزی عہدیداران میں سے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اور وکیل التجارت قریشی عبد الرشید صاحب اور حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ نے شرکت فرمائی۔
ان سب اجلاسوں میں حضورؓ نے شرکت فرمائی۔جس وقفے میںحضورؓ کچھ دیر کے لئے تشریف فرما نہیں ہوتے تھے ،اس وقفے میں مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کانفرنس کی صدارت فرماتے تھے(۳۵)۔ان اجلاسوں میں ایک ایک ملک کی رپورٹ کو لے کر اُس پر غور کیا گیا۔مشنوں کی ترقی،نئے مشنوں کے قیام،مختلف زبانوں میں اسلامی لٹریچر کی تیاری اور اشاعت اور مساجد کی تعمیر کے متعلق فیصلے کئے گئے۔ تمام مبلغین انفرادی طور پر بھی حضورؓ سے ملاقات کر کے ہدایات حاصل کرتے رہے۔اور حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے بھی اس کانفرنس میں ہونے والے مشوروں میں شرکت فرمائی۔اسلام کی عالمی تبلیغ کو تیز تر کرنے کے لئے اور اس مقصد کے لئے ضروری ذرائع مہیا کرنے کے لئے آخری رپورٹ کافی بحث و تمہیث کے بعد منظور کر لی گئی۔کانفرنس کے اختتام پر تمام مبلغین نے ازسرِنو اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرنے کا عہد کیا۔اس طرح یہ کانفرنس کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔(۳۶)
مخالفین کی مایوسی:
گذشتہ چند برسوں میں مخالفین جماعت کا ایک کے بعد دوسرا منصوبہ ناکام ہوتا گیا تھا۔ ۱۹۵۳ء کی شورش کے نتیجے میں وہ اپنی بدنامی کے سوا کچھ نہیں حاصل کر سکے تھے اور جماعت کو مٹانے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے تھے۔پھرحضرت مصلح موعودؓ پر قاتلانہ حملہ کرایا گیا اور اُس میں ناکامی ہوئی ۔حضرت مصلح موعودؓ کی بیماری شروع ہوئی تو جماعت کے اندر شدید اختلافات کی جھوٹی خبریں شائع کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی اس میں بھی کامیابی نہ ہوئی۔اب ان میں سے نسبتاََ حقیقت پسند طبقہ اس بات کا اعتراف کر رہے تھے کہ یہ سازشیں جماعتِ احمدیہ کی ترقی کو روکنے میں ناکام رہی تھیں اور ان پر اپنی سوچ کی سطحیت واضح ہو رہی تھی۔چنانچہ جب لندن میں ہونے والی کانفرنس منعقد ہوئی تو جماعت کے ایک شدید مخالف جریدے المنیر نے بڑی حسرت سے یہ خبر اس تبصرے کے ساتھ شائع کی:۔
’کیا ایسی تحریک کو اشتعال انگیزوں کے ذریعہ ختم کیا جا سکتا ہے؟کیا ایسے منظم ادارے کو خواہ وہ سو فیصد بد دیانتی پر قائم ہو گدھے اور کتے کے جلوس نکالنے سے ناکام بنایا جا سکتا ہے؟؟کیا ایشیا اور یورپ میںایک پلان کے تحت قائم کرنیوالے باطل کو کہاوتوں کی پھبتیوں اور استہزاء کے قہقہوں سے دنیا بدر کیاجا سکتا ہے؟؟؟۔۔۔
خدارا غور کیجئے کتنی دور رس سکیم ہیــ"تمام دنیامیں وسیع پیمانہ پر اسلامی لٹریچر کی اشاعت"ایک اسی شق کو سامنے رکھیئے اور بتلائیے آپ کی شور و غل بپا کرنے والی جماعتیں اس کا توڑ کیا مہیا کر رہی ہیں؟ اور جیسی معیاری تقریریں ہمارے ہاں قادیانیوں کے خلاف کی جارہی ہیں کیا وہ اُس منصوبے کا توڑ ہو سکتی ہیں۔۔
خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کام کا جواب نعروں سے؟مسلسل جد وجہد کا توڑ اشتعال انگیزی سے،علمی سطح پر مساعی کو ناکام بنانے کا داعیہ صرف پھبتیوں بیہودہ جلسوں اور ناکارہ ہنگاموں سے پورا نہیں ہو سکتا اس کے لئے جب تک وہ انداز اختیار نہ کیا جائے جس سے فکری اور عملی تقاضے پورے ہوں ۔ہنگامہ خیزی کا وہی نتیجہ بر آمد ہو گا جس پر مرزا صاحب کا الہام انی مھین من اراد اھانتک صادق آئے گا۔‘(۳۷)
خطبہ عید اور لندن میں آ خری ایام:
کانفرنس کے دنوں میں حضورؓ آنے والے مبلغین سے ملاقات کر کے ،ان کے ممالک کے حالات دریافت فرماتے رہے اور انہیں ہدایات دیتے رہے۔اس کے علاوہ آپ نے کانفرنس کے تمام اجلاسوں میں شرکت فرمائی۔ان وجوہات کی بنا پر حضورپر غیر معمولی کام کا بوجھ پڑا ۔ان مصروفیات سے حضورؓ کی صحت پر نا خوشگوار اثر پڑا اور آپ کی طبیعت پھر سے خراب رہنے لگی۔(۳۸)حضورؓ کا قیام تین منزلہ عمارت کی سب سے نچلی منزل میں تھا۔حضورؓ کھانے کے وقت دوسری منزل پر تشریف لاتے اور اہلِ خانہ کے ساتھ کھانا تناول فرماتے۔آپ ناشتہ اپنے کمرے میں ہی فرماتے اور اس کے بعد ڈاک ملاحظہ فرماتے اور حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ آپ کی خدمت میں ڈاک پیش فرماتیں۔آپ بسا اوقات باہر سیڑھیوں پر کرسی پرتشریف فرما ہوتے۔
ابھی حضورؓ لندن میں مقیم تھے کہ عید الاضحیٰ کا مبارک موقع آ گیا۔حضورؓ کی موجودگی کی وجہ سے عید کی تقریبات ایک خاص اہمیت اختیار کر گئی تھیں۔بہت سے غیر احمدیوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔احمدی رضاکار ایک رات پہلے جاگ کر اس تقریب کے لئے تیاریاں مکمل کرتے رہے۔(۳۹) حضورؓ نے مختصرخطبہ عید میں حضرت اسمٰعیلؑ کی قربانی کا واقعہ اور اُس سے حاصل ہونے والا سبق بیان فرمایا ۔اور بائیبل اور قرآنِ مجید کے بیان کردہ بیانات کا موازنہ بیان فرمایا۔خطبہ کے آخر میں حضورؓ نے ارشاد فرمایا
’آخر میں میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلد آئے اور اس عید کا سبق ساری دنیا یاد کرے۔اور ساری دنیا اپنے پیدا کرنے والے خدا کے آگے جھک جائے۔اور فساد اور لڑائی جھگڑا دنیاسے مٹ جائے ۔ہر دل کعبہ بن جائے یعنی خدا کا گھراور جس طرح خدا عرش پر ہے اسی طرح خدا انسان کے دل میں بھی ہو۔‘(۴۰)
اس تقریب میں مختلف ممالک کے سفراء کے علاوہ لند ن کے میئر فرانک براؤن بھی شامل ہوئے۔اس تقریب میں شا ڈسمنڈ (Shaw Desmond)بھی شریک تھے۔وہ کئی کتب کے مصنف تھے اور روحانیت کی طرف میلان رکھتے تھے۔اس سے قبل بھی وہ کئی مرتبہ جماعت کے مشن میں ہونے والی تقریبات میں شریک ہو چکے تھے اور وہ اپنے تقریروں میں آنحضرت ﷺ کی شان میں اپنے خیالات کا اظہار کیا کرتے تھے(۳۵)۔۱۹۵۶ء میں ان کی ایک کتاب God's Englishmanشائع ہوئی تھی۔جس میں انہوں نے دیگر امور کے علاوہ اس بات پر بھی بحث کی تھی کہ کمیونزم کا مقابلہ سیاستدان نہیں کر سکیں گے بلکہ مذہبی دنیا ہی کمیونزم کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اور وہ کمیونزم اور عیسائیت کے درمیان مقابلے کو روشنی اور تاریکی کے درمیان مقابلہ قرار دیتے تھے۔اور اُن کے نزدیک انگریز قوم کو اس جنگ میں ایک اہم کردار ادا کرنا تھا۔جب حضورؓ تقریب کے اختتام پر واپس جانے لگے تو شا ڈسمنڈ ا رخصت ہونے کے با وجود دوبارہ آپ سے ملنے کے لئے آگے بڑھے۔اور سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ جب میں تقریر کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ محمدﷺ سب سے بڑے امن پسند نبی ہیں تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ میری زبان سے خدا بول رہا ہے مگر لوگوں پر اثر نہیں ہوتا ۔حضورؓ نے فرمایاکہ خدا جب بولتا ہے تو دل میں بولتا ہے اور تم لوگوں کے کان میں بولتے ہو۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں۔جس دن خدا لوگوں کے دلوں میںبھی بولا ان پر بھی اثر ہو جائے گا۔ شا ڈسمنڈ ہنس پڑے اور کہنے لگے معلوم ہوتا ہے بات یہی ہے۔حضور نے فرمایا کہ تم انتظار کرو اور اللہ تعالیٰ سے دعاؤں مانگو جس دن وہ لوگوں کے دلوں میں بھی بولنے لگے گا۔لمبی چوڑی تقریروں کی ضرورت نہیں رہے گی۔سارا یورپ تمہاری بات ماننے لگ جائے گا۔
اگست میں بھی حضورؓ کی طبیعت بے خوابی کی وجہ سے قدرے نا ساز تھی ۔سب ڈاکٹروں کا یہی مشورہ تھا کہ حضورؓ کو آرام کی ضرورت ہے۔۱۷ اگست کو حضورؓ نے ربوہ بذریعہ تار یہ ہدایت بھجوائی۔
’چونکہ ڈاکٹروں نے مجھے مکمل آرام کرنے کا مشورہ دیا ہے۔اس لئے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جب تک ڈاکٹر مجھے کام شروع کرنے کا مشورہ نہ دیں اس وقت تک کے لئے میں صدر انجمن احمدیہ ربوہ اور صدر انجمن احمدیہ کراچی کو یہ اختیار دیتا ہوں کہ وہ میری بجائے کام کرتی رہیں۔‘(۴۱)
اللہ تعالیٰ کے پیارے وجودوں کی صحبت انسان کی کایا پلٹ دیتی ہے ۔ایک سویس مسٹر سٹڈر (Studer) جو اس سفر میں حضورؓ کے ڈرائیور کے فرائض سرانجام دے رہے تھے، لندن میں بیعت کر کے مسلمان ہو گئے۔(۴۲)اب حضورؓ کی وطن واپسی کا وقت قریب آرہا تھا۔۲۳ اگست کو جماعت احمدیہ لندن نے حضورؓ کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا۔اس میں دیگر مہمانوں کے علاوہ لندن کے میئر ،ممبرانِ پارلیمنٹ اورپاکستان کے ہائی کمشنر اور اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے بھی شریک ہوئے۔حضورؓ نے پاکستانی افراد کو تلقین فرمائی کہ وہ پاکستان کے مفاد کو مدِ نظر رکھیں اور اپنے آپ کو پوری طرح پاکستان کے وفاداراور دیانتدار شہری ثابت کریں ۔حضورؓ نے یورپین باشندوں کو کہا کہ وہ مادی اسباب کی بجائے خدا تعالیٰ کی ذات پر توجہ دیں۔صرف اس صورت میں ایٹم بم جیسی خطرناک طاقتیں بھی تباہی و بربادی کی بجائے امن قائم کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ (۴۴)
وطن واپسی:
پاکستان کے احمدی احباب اب بے تابی سے حضورؓ کی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے یہ اشعار اس وقت لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔
صد مبارک آ رہے ہیں آج وہ
روز و شب بے چین تھے جن کے لئے
آگیا آخر خدا کے فضل سے
دن گنا کرتے تھے جس دن کے لئے
۵ دسمبر ۱۹۵۵ء کی شام کو حضورؓ بخیر و عافیت کراچی پہنچ گئے۔ ناظرِ اعلیٰ میاں غلام محمد صاحب اختر نے دیگر احباب کے ساتھ حضورؓ کا استقبال کیاْپاکستان کی مختلف جماعتوں کے نمائیندگان بھی حضورؓ کے استقبال کے لئے کراچی آئے ہوئے تھے۔جب حضورؓ کی آمد کی خبر تار کے ذریعہ ربوہ پہنچی تو ربوہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔اور حضور ؓ کے استقبال کی تیاریاں تیز کر دی گئیں۔کچھ عرصہ کراچی قیام فرمانے کے بعد حضورؓ ۲۵ ستمبر کو ربوہ تشریف لائے۔جب مسجد مبارک کے لاؤڈ سپیکر سے یہ اعلان کیا گیا کہ حضور آج شام کو چناب ایکسپریس سے تشریف لائیں گے تو احباب حضورؓ کا دیدار کرنے کے لئے راستوں پر جمع ہونا شروع ہو گئے۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ،حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ، صحابہ کرام ؓ،ناظران اور وکلاء صاحبان پلیٹ فارم پر استقبال کے لئے موجود تھے۔جب سات بجے دور سے ریل گاڑی کی روشنی نظر آنی شروع ہوئی تو احباب میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔حضورؓ جب گاڑی سے نیچے تشریف لائے تو سب سے پہلے امیر مقامی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ نے اور پھر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؓ نے حضورؓ کا استقبال کیا۔پھر حضور ؓ اُس جگہ پر تشریف لائے جہاں دیگر احباب منتظر تھے۔حضور کی آمد پر حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہؓ کی حالت شدتِ جذبات سے غیر ہوئی جا رہی تھی۔جوشِ مسرت سے ان پر رقت طاری تھی۔اُن میں سے بعض ہاتھ پھیلائے ہوئے حضورؓ کی طرف دوڑ پڑے۔حضورؓ نے انہیں شرفِ مصافحہ سے نوازا اور ان کا حال پوچھا۔اس کے بعد حضورؓ کار میں قصرِ خلافت روانہ ہوئے۔سب سے پہلے حضورؓ مسجد مبارک تشریف لے گئے اور حضور ؓ نے قبلہ رخ کھڑے ہو کر نہایت رقت انگیز دعا کرائی اور اس کے بعد اپنی رہائش گاہ تشریف لے گئے ۔حضور کی آمد کی خوشی میں اس بستی کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ ربوہ کی عمارات پر چراغاں کیا گیا تھا۔گھروں کی چھتوں پر دیئے جلائے گئے تھے۔دفاتر اور تعلیمی اداروں کی عمارات پر بجلی کے قمقموں سے چراغاں کیا گیا تھا۔ربوہ کی جنوب مشرقی پہاڑی پر تیز روشنی کا ا ہتمام تھا۔۔اہلِ ربوہ مساجد اور گھروں میں شکرانے کے نوافل پڑھ رہے تھے۔اس طرح حضورؓ کا دوسرا سفرِ یورپ بخیروخوبی ا ختتام پذیر ہؤا۔احباب حضورؓ کی آ مد کی خوشیاں منا رہے تھے مگر دشمن ایک اور وار کی تیاری میں مشغول تھا۔اس سازش کا ذکر ہم اگلے چند صفحات میں کریں گے۔(۴۴)

(۱)الفضل ۲۷ فروری ۱۹۵۵ء ص۱(۲)الفضل ۲۸ فروری ۱۹۵۵ء ص۱(۳) الفضل ۱ مارچ ۱۹۵۵ء ص۱
(۴) الفضل ۲ مارچ ۱۹۵۵ء ص۱(۵) الفضل ۴ مارچ ۱۹۵۵ء ص۱ (۶) الفضل ۸مارچ۱۹۵۵ء ص۱
(۷)الفضل ۱۰ مارچ ۱۹۵۵ء ص ۱ (۸) الفضل ۱۳ مارچ ۱۹۵۵ء ص ۱ و۲ (۹) الفضل ۶ جولائی ۱۹۵۵ء ص ۱
(۱۰) الفضل ۲۳ مارچ ۱۹۵۵ء ص۱(۱۱)الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۵۵ء ص۱(۱۲)الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۵۵ء ص۱
(۱۳)الفضل ۲۰ اپریل ۱۹۵۵ء ص ۳(۱۴) الفضل ۲۱ اپریل ۱۹۵۵ء ص ۲(۱۵) مغربی پاکستان ۱۴ اپریل ۱۹۵۵ء ص۵
(۱۶)مغربی پاکستان ۲۱ مارچ ۱۹۵۵ء ص۶(۱۷) زمیندار ۲۱ مارچ ۱۹۵۵ء ص۷(۱۸) الفضل ۲۱ اپریل ۱۹۵۵ء ص ۱ (۱۹)الفضل ۱۰ مئی ۱۹۵۵ء ص۱۔۲(۲۰)الفضل ۱۵ مئی ۱۹۵۵ء ص(۲۱) الفضل ۲۲ مئی ۱۹۵۵ء ص۳
(۲۲) الفضل ۱۶ مئی ۱۹۵۵ء ص۳(۲۳)الفضل ۱۲ مئی ۱۹۵۵ء ص۱
(۲۴)رپورٹ شیخ ناصر احمد صاحب مبلغ سویٹزر لینڈ بابت دورہ سویٹزر لینڈ،وکالتِ تبشیر ربوہ
(۲۴)الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۵۵ء ص ۳(۲۵) الفضل ۲۴ مئی ص۱(۲۶) الفضل ۳۱ مئی ۱۹۵۵ء ص ۳
(۲۷)الفضل ۲۹ مئی ۱۹۵۵ء ص ۱(۲۸)الفضل ۲۲ مئی ۱۹۵۵ء ص۱(۲۹) الفضل ۳۱ مئی ۱۹۵۵ء ص۲
(۳۰) الفضل ۱۶ جون ۱۹۵۵ء ص۲(۳۱) الفضل ۲۲ جون ۱۹۵۵ء ص ۳و۴(۳۲)الفضل ۳۰ جون ۱۹۵۵ء ص۳
(۳۳)الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۵۵ء ص ۱(۳۴) الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۵۵ء ص۳(۳۵) انٹرویو مکرم میر محمود احمد صاحب
(۳۶) الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۵۵ء ص ۱(۳۷) المنیر ۱۰ اگست ص۱۰و ۱۱(۳۸) الفضل ۳ اگست ۱۹۵۵ء ص۱
(۳۹) رپورٹ لندن مشن ،عید لاضحی ۱۹۵۵ئ،ریکارڈ وکالتِ تبشیر ربوہ(۴۰)خطباتِ محمود جلد ۲ ص۷۸۳
(۴۱) الفضل ۲۰ اگست ۱۹۵۵ء ص۱(۴۲) الفضل ۱۸ اگست ۱۹۵۵ء ص۱(۴۳) الفضل ۲۵ اگست ۱۹۵۵ء ص۱
(۴۴)ازڈائری صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب
ایک فتنہ کی ناکامی
خلافتِ راشدہ اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم انعام ہے۔ اس کے ذریعہ دین کو تمکنت عطا کی جاتی ہے اورمومنوں کی خوف کی حالت امن میں بدل دی جاتی ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

یعنی تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ تعالیٰ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔وہ میری عبادت کریں گے۔میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ۔ اور جو اُس کے بعد بھی نا شکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نا فرمان ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ میری امت میں فتنوں کا دور آئے گا اور یہ راہنمائی بھی فرما دی تھی کہ اس دور میں مومنوں کاکیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہئیے۔ حضرت حذیفہ ؓ آنحضرتﷺ سے آنے والے فتنوں کی بابت سوال کیا کرتے تھے۔آپ نے ایک مرتبہ آنحضرتﷺ سے دریافت کیا کہ کیا ان اچھے دنوں کے بعد بھی پہلے کی طرح برے دن آئیں گے آپ نے فرمایا کہ ہاں پھر اس کی علامات بیان فرمانے کی بعدآپ نے فرمایا کہ گمراہی کی طرف بلانے والے لوگ کھڑے ہوں گے ایسے حالات میں اگر تم اللہ کا کوئی خلیفہ دیکھو تو اس سے چمٹے رہو اگرچہ اس وجہ سے تمہارا جسم لہولہان کر دیا جائے اور تمہارا مال لوٹ لیا جائے۔ (۱)۔ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے مسجد میں ایسا وعظ فرمایا جس کو سن کر لوگ رونے لگے اور اُن کے دل ڈر گئے۔ ایک شخص نے عرض کی کہ یہ تو الوداعی وعظ لگتا ہے ۔آپ نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی میرے بعد زندہ رہا تو بہت بڑے اختلافات دیکھے گا ۔پس تم پر میری اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کی پیروی کرنا فرض ہے۔(۲)
نظامِ خلافت کے خلاف فتنوں کا تاریخی پس منظر:
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب اسلام کے دشمن بیرونی حملوں کے ذریعہ سے اسلام کو مٹانے اور نقصان پہنچانے میں ناکام ہو گئے تو پھر سازشوں کے ذریعہ اندرونی فتنے پیدا کئے گئے اور ان فتنوں کا نشانہ نظامِ خلافت تھا ۔حضرت عثمانؓ کی خلافت کے ابتدائی سالوں میںمسلمانوں کی حکومت کا دائرہ تیزی سے پھیلتا گیا۔فارس کا باقی ماندہ حصہ فتح ہو گیا،افریقہ کے بہت سے حصے فتح ہوئے اور آرمینیا بھی مسلمانوں کے زیرِ نگین آ گیا۔اُس دور میںمسلمانوں کے دشمن میدانِ جنگ میں مسلمانوں پر غالب نہیں آ سکتے تھے ۔اب مخالفین نے سازشوں کا جال پھیلا کر خلیفہ وقت کی شخصیت کو نشانہ بنایا۔ ابتدائی زمانہ میں فتنہ برپا کرنے والوں کے حالات کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ بعد میں پیدا ہونے والے فتنہ پروروں نے با وجود بالکل مختلف حالات اور زمانے کے بہت سے بنیادی امور میں انہی کی پیروی کی۔اس لئے ہم حضرت عثمان ؓ کے دور کے تاریخی حقائق کا مختصر جائزہ لیں گے۔ان سازشو ں کا بانی مبانی ایک یہودی عبداللہ بن سبا تھا جس نے بظاہر اسلام قبول کر لیا مگر روزِ اول سے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے اور لوگوں کو حضرت عثمان ؓ کے خلاف بھڑکانے میں مشغول تھا۔اس کے ایجنٹ مسلمانوں کے اہم شہروں میں جا کر پہلے تو عمومی وعظ و نصیحت کرتے اور پھرجب اُن کا ایک حلقہ اثر بن جاتا تو ان میں وسوسے پھیلانا شروع کرتے۔پہلے انہوں نے حضرت عثمان ؓ کے مقرر کردہ گورنروں کے خلاف لوگوں کو اکسانا شروع کیا اور مختلف علاقوں میں جا کر افواہیں پھیلائیں کہ دوسرے مقامات پر گورنر بہت مظالم کر رہے ہیں ۔اور مختلف شہروں کی طرف خطوط لکھنے شروع کر دیئے ،جن میں گورنروں کے فرضی مظالم کا ذکر ہوتا تھا۔جب حضرت عثمانؓ نے صحابہ سے تحقیقات کرائیںتو یہ الزامات جھوٹے ثابت ہوئے۔ مگر جب مسلسل پروپیگنڈا سے ایک طبقہ بھیڑ چال میں آکرگورنروں کے خلاف ہو گیا اور بہت سے لوگوں نے بھولپن میں ان الزامات کی تشہیر شروع کردی تو اس سازشی گروہ نے حضرت عثمان ؓ کے خلاف الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔اور خاص طور پر یہ الزام لگانا شروع کیا کہ حضرت عثمان نے اپنے رشتہ داروں یعنی بنو امیہ کے بہت سے افراد کو مختلف علاقوں میں گورنر لگایا ہؤا ہے۔یہ اعتراض سراسر افترا تھا ،حضرت عثمان کے عہد میں نئے صوبوں کے اضافے کی وجہ سے بیس صوبے بن چکے تھے جن میں سے صرف چار میں بنو امیہ سے تعلق رکھنے والے گورنر مقرر تھے۔لیکن بد قسمتی سے بہت سی طبائع ایسی ہوتی ہیں جو غور کئے بغیر اعتراض کو جلد قبول کر کے اسے دوسروں کے سامنے بیان بھی کرنا شروع کر دیتی ہیں۔اور ایسا ہی اُس وقت ہؤا ورنہ حقیقت یہ تھی کہ نبی کریم ﷺ نے خود جن افراد کو گورنر اور عمال مقرر فرمایا تھا ان میں بنو امیہ کے افراد کی تعداد دوسرے خاندانوں کی نسبت زیادہ تھی اور اسی طرح حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمرؓ کے عہد میں بھی بنو امیہ کے اتنے ہی افراد اعلیٰ عہدوں پر مقرر رہے تھے۔(۳)اس کے ساتھ یہ پراپیگنڈا شروع کر دیا گیا کہ حضرت عثمان ؓ اپنے رشتہ داروں کو مال و دولت سے نواز رہے ہیں۔حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ حضرت عثمان نے شروع ہی سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال کو پانی کی طرح بہایا تھا اور اکثر اوقات تو اعتراض کرنے والوں کی بتائی ہوئی رقوم اتنی تھوڑی ہوتیں کہ حضرت عثمان جیسے مالدار آدمی کے لئے ایسی رقوم کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔اور حقیقت یہ تھی کہ حضرت عثمان ؓ نے اپنے ذاتی مال سے اپنے رشتہ داروں کی مدد کی تھی۔جبکہ ان فتنہ پروروں کو اللہ کی راہ میں کسی مالی قربانی کی توفیق نہیں ملی تھی۔اور نہ ہی انہوں نے کسی اور رنگ میں اسلام کی خدمت کی تھی۔
یہ گروہ بصرہ،کوفہ،فسطاط جیسے اہم شہروں میں منظم انداز میں افواہیں پھیلا رہا تھا اور عبداللہ بن سبا کا ذہن اس سازش کے پیچھے کا رفرما تھا۔ایسے بھولے بھالے لوگ بھی تھے جو کہ ان اعتراضات کو قبول تو نہ کرتے مگر یہ خیال کر کے کہ ایسی باتیں کرنے والے معمولی لوگ ہیں اور کوئی اہمیت نہیں رکھتے انہیں نظر انداز کر دیتے۔اور عموماََ یہی خیال کیا جاتا کہ مختلف جگہوں پر اعتراضات کی مہم چلانے والوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔حالانکہ ایک منظم سازش کے تحت جگہ جگہ فتنہ برپا کیا جا رہا تھا اور سازش کی اس بساط پر ان مہروں کو ایک ہی ہاتھ حرکت دے رہا تھا۔ جب اس مہم کو کچھ عرصہ گذرا تو ان مفسدوں کو یہاں تک جرأ ت ہو گئی کہ انہوں نے حضرت عثمانؓ کو معزول کرنے کی باتیں شروع کر دیں۔عبداللہ بن سبا نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے اور آنحضرت ﷺ کے وصی حضرت علیؓ ہیں اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان ؓ نے آپ کا حق تلف کیا ہے۔اس نے اس خیال کی تشہیر شروع کر دی کہ آنحضرت ﷺ اس دنیا میں واپس تشریف لائیں گے۔اس سے غرض یہی معلوم ہوتی تھی کہ خلیفہ وقت سے لوگوں کی عقیدت کم ہو اور لوگ فرضی رجعت کی بحثوں میں پڑ جائیں اور بعض لوگ اس فتنے میں مبتلا بھی ہو گئے ۔بعض روایتوں کے مطابق اس کا انجام یہ ہؤا کہ بعد میں اس کی فتنہ پروریوں کی وجہ سے حضرت علیؓ نے اپنے عہد میں اسے سزائے موت دی تھی۔مفسدین جہاں ایک طرف حضرت عثمان ؓ کو معزول کرنے کا مطالبہ پیش کر رہے تھے ،وہاں دوسری طرف ان کے مختلف گروہ آئندہ خلیفہ کے لئے مختلف کبار صحابہ کا نام لے رہے تھے۔اور ان کا طریق یہ ہوتا تھا کہ حج کے لئے روانگی جیسے موقع پر جب ایک مجمع جمع ہوتا ہے ان کے ایجنٹ ایسے اشعار پڑھتے جس میں یہ ذکر ہوتا ہے کہ آئندہ خلیفہ کون ہو گا۔اور ایک شعر میں ہی دو تین اصحاب کے نام لے کر یہ ذکر کیا جاتا کہ یہ لوگ بھی خلیفہ بننے کے لئے موزوں ہیں۔ ایک خلیفہ کی زندگی میں آئندہ ہونے والے خلیفہ کے متعلق اس طرح ذکر کرنا ایک رذیل حرکت تھی اور اس کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح اپنے فتنے کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ایسے مواقع پر بہت سے لوگ یہی گمان کرتے کہ ایک ان پڑھ بدو شعر پڑھ رہا ہے اور اس کا سختی سے نوٹس نہ لیتے۔ مفسدینِ مصر حضرت علیؓ کا ،کوفہ کے فتنہ پرداز حضرت زبیرؓ کا اور بصرہ سے تعلق رکنے والے مفسدین حضرت طلحہؓ کا نام لے رہے تھے۔یہ لوگ ہر ایک کی ذہنیت کو اپنے جیسا سمجھتے تھے۔ان کا خام خیال تھا کہ اس طرح یہ صحابہ ان کے ہمنواہو جائیں گے ۔ جب ان فسادیوں نے مدینہ پر ہلہ بولا تو انہوں نے ذو المرہ اور ذو خشب کے مقامات پر ڈیرہ لگایا ۔پھریہ لوگ ان صحابہ کے پاس گئے اور اپنے خیالات کا اظہار کیا تو حضرت علیؓ ،حضرت زبیرؓ اور حضرت طلحہؓ نے انہیں دھتکار دیا ۔ اوران تینوں صحابہ نے مفسدوں کو بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ان مقامات پر ڈیرہ لگانے والے لشکر *** ہوں گے۔مگر مدینہ سے باہر یہ لوگ عوام الناس میں طرح طرح کے جھوٹ بول کر لوگوں کو گمراہ کر رہے تھے۔کبھی ایک صحابی کا نام لیتے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں اور کبھی دوسرے کا نام لیتے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں اور ان کی طرف سے جعلی خط بھی بنا لیتے۔مدینہ کے اکثر لوگ صحابہ کی موجودگی کی وجہ سے باغیوں کے بہکانے میں نہیں آئے۔صرف چند لوگ اُن کے ساتھ ملے جن میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کا بیٹامحمد بن ابی بکر اور محمد بن ابی حذیفہ شامل تھے۔محمد بن ابی حذیفہ کو حضرت عثمانؓ نے پالا تھا اور اُس پر بہت سے احسانات کئے تھے لیکن اس نے اِس بنا پر کہ اُس کی خواہش کے با وجود حضرت عثمان نے اُسے گورنر کیوں نہیں مقرر کیا، آپ کی مخالفت شروع کر دی۔پھر عبداللہ بن سبا اور اس کے ساتھیوں کی ریشہ دوانیوں سے عمرو بن العاص جیسے لوگ بھی ان کے ساتھ حضرت عثمان ؓ کے خلاف افواہیں اڑانے والوں میں شامل ہو گئے۔عمرو بن العاص کو اس کی نا اہلیوں کی وجہ سے حضرت عثمانؓ نے گورنری سے ہٹایا تھا اوراس کے دل میں آپ کے خلاف کینے کی آگ سلگ رہی تھی۔ یہاں تک کہ جب اسے آپ کی شہادت کی خبر ملی تو اس نے فخر سے شعر پڑھے کہ میں نے ان کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا یہاں تک پہاڑی پر ر ہنے والے چرواہے کو بھی میں نے ہی ان کے خلاف بھڑکایا تھا۔
ان لوگوں کی ہمت اسی وقت تک ہوتی تھی جب تک ان سے نرمی کا برتاؤ کیا جائے یا پھر وہ طاقت میں اپنے مدِ مقابل سے زیادہ ہوں۔جب کوئی گورنر ان سے نرمی کا معاملہ کرتا تو وہ اس کے ساتھ بد تمیزی سے پیش آتے مگر جب عبد الرحمن بن خالد بن ولید جیسے گورنر ان پر جائز سختی بھی کرتے تو وہ فوراََ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے اور ان میں سے اشتر جیسے سرکش بھی حضرت عثمان ؓ سے عاجزی سے معافیاں مانگنا شروع کر دیتے۔حضرت عثمان ؓ ان سے کمال شفقت کا معاملہ کرکے انہیں معاف کرتے تو کچھ عرصہ بعد یہ فتنہ پرور پہلے سے بھی زیادہ شرارتیں شروع کر دیتے۔
ان مفسدین کا طریقہ یہ تھا کہ کسی پبلک جگہ پر مثلاََ حج کے موقع پر ،جب لوگوں کا مجمع دیکھتے تو کسی سے حضرت عثمان ؓ کے متعلق اعتراض کے رنگ میں سوال کرنا شروع کر دیتے۔تاکہ سننے والوںمیں سے کمزور طبع لوگوں کے دل میں وسوسہ ڈالا جا سکے۔حضرت عبد اللہ بن عمرؓ جیسے زیرک لوگ اس فتنے کو بھانپ کر پوری وضاحت سے ایسا جواب دیتے کہ اعتراض خود بخود غلط ہو جاتا(۴) مگر اکثر لوگ ایسی ذہانت نہیں رکھتے تھے کہ اس فتنے کی سنگینی کا اندازہ لگا سکیں اور بر وقت اس کا سدِباب کر سکیں ۔ اس لئے کچھ نہ کچھ لوگ ان وسوسوں میں مبتلا ہو تے رہے۔جب ایک حصہ اُن کا ہمنوا بن گیا تو انہوں نے حضرت عثمانؓ کے ایسے جعلی خط بنانے شروع کئے جن کو بنیاد بنا کر وہ الزام لگا سکیں کہ نعوذ باللہ حضرت عثمان نے اُن میں سے کچھ لوگوں کو قتل کرانے کی سازش کی ہے۔مگر واقعات سے جعل سازی اتنی واضح نظر آتی تھی کہ ان کی روئیداد سنتے ہی اکثر صحابہ نے یہی کہا کہ یہ تمہارا بنایا ہؤا مکر ہے۔بہر حال اللہ تعالیٰ کی تقدیر اس طرح تھی کہ ان فتنہ پروروں کو پھلنے پھولنے کا اتنا موقع مل گیا کہ بالآخر انہوں نے حضرت عثمانؓ کو شہید کردیا۔جب یہ مفسدین مدینہ پر قابض ہوئے تو وہ لوگ جو کل تک انہیں کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے ،ان پر قابو پانے سے قاصر رہے۔ جب حضرت عثمانؓ کو شہید کرنے کے لئے باغیوں نے مدینہ پر یورش کی تو عبداللہ بن سبا مصر سے مدینہ کے قریب تک آ کر ارد گرد منڈلاتا رہا مگر مدینہ میں داخل نہیں ہؤا۔دنیا سامنے اور چہرے دیکھ رہی تھی مگر اصل میں کسی اور کا ہاتھ اس سازش کے پیچھے کار فرما تھا۔ اس شہادت کے بعد مسلمانوں میں اختلافات کا المناک باب شروع ہو گیا۔حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی معرکۃ الآراء تصنیف’اسلام میں اختلافات کا آغاز میں‘ان حالات کا جائزہ اس انداز میں پیش فرمایا ہے ،جس سے شبہات کی دھند چھٹ کر حقائق سامنے نظر آنے لگتے ہیں۔اور اس فتنے کی حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔
فتنے کے المناک نتائج:
اس عظیم سانحے کے ساتھ مسلمانوں کے ایک گروہ کے دلوں میں خلافت کی اہمیت ختم ہو گئی ۔ اور جب مسلم معاشرے میں ایسے خیالات پنپنے لگے تو پھر اس بد نصیبی کی کوکھ سے خوارج نے جنم لیا۔ ان کا آغاز جنگِ صفین کے موقع پر ہؤا جب حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کی افواج ایک دوسرے کے مقابل پر صف آ راء تھیں۔خوارج ہزاروں کی تعداد میں حضرت علی ؓ کے خلاف یہ نامعقول اعتراض کرکے علیحدہ ہو گئے کہ انہوں نے ثالث مقرر کرنے کا فیصلہ قبول کر کے غلطی کی ہے کیونکہ الحکم للہ ، حکم تو صرف خدا کے لئے ہے اور صرف کتاب اللہ کی رو سے ہونا چاہئیے۔حالانکہ فیصلہ ہؤا ہی یہ تھا کہ ثالث فیصلہ قرآنِ کریم کی رو سے کریں گے۔خوارج کئی گروہ بنے اور ان کے مختلف فرقوں کے عقائد ایک دوسرے سے مختلف تھے لیکن خلافت کے خلاف سرکشی ان میں ایک قدرِ مشترک تھی۔ان میں سے نجدیہ فرقہ کا نظریہ تھا کہ امام کا مقرر ہونا ضروری نہیں اور پھر یہ نظریہ ان میں رائج ہونے لگا کہ اگر لوگ ایک دوسرے سے انصاف کا برتاؤ کریں تو امام کی یا حکومت کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ان میں سے بعض گروہ ایک شخص کو امام تسلیم کر کے اُس کی بیعت کرتے اور پھر جب اُس سے اختلاف ہوتا تو اسے معزول کر دیتے۔ان کے ذہنوں میں یہ بات سمائی ہوئی تھی کہ اُن کی ناقص عقل قرآن کریم کا جو بھی مطلب سمجھ پائی ہے وہی حرٖفِ آخر ہے اور اس ناقص فہم کی بنا پر انہیں یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ وہ جب چاہیں خلیفہ وقت کی نا فرمانی کریں،اسے معزول کرنے کا مطالبہ کریں یا چاہیں تو اُس پر کفر کا فتویٰ لگا دیں۔ان کی زبانوں پر الحکم للہ کا نعرہ تھا اور اصل میں غرض یہ تھی کہ ہمارا حکم چلے۔اسی لئے ان کے بہت سے فرقے اپنے سے اختلاف رکھنے والے مسلمانوں کی قتل و غارت جائز سمجھتے تھے۔ان کی سرکشی ایک نا قابلِ علاج مرض بن چکی تھی ۔اور ان کی ریشہ دوانیوں نے عالمِ اسلام کو بہت نقصان پہنچایا۔
اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اور مزید فتنوں کی پیشگوئی:
آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کے مطابق حضرت علیؓکے بعد خلافتِ راشدہ کی نعمت مسلمانوں سے واپس لے لی گئی۔مگر جب ظہورِ مسیحؑ موعود کا زمانہ آیا تو آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کے مطابق ہی دوبارہ خلافت علیٰ منہاج النبوت قائم ہوئی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتا دیا گیا تھا کہ جماعت احمدیہ میں بھی خوارج جیسے لوگ فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ ایک رؤیا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’سو اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ میں علی مرتضیٰ ہوں اور ایسی صورت واقع ہے کہ ایک گروہ خوارج کا میری خلافت کا مزاحم ہو رہا ہے یعنی وہ گروہ میری خلافت کے امر کو روکنا چاہتا ہے اور اس میں فتنہ انداز ہے۔تب میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس ہیں اور شفقت اور تودد سے مجھے فرماتے ہیں کہ
یاَ عَلِیُّ دَعھُم وَ اَنصَارَھُم وَ زِرَاعَِِتَھُم
یعنی اے علی! ان سے اور ان کے مدد گاروں اور ان کی کھیتی سے کنارہ کر اور ان کو چھوڑ دے اور ان سے منہ پھیر لے۔۔‘(۵)
چنانچہ جیسا کہ کتاب کے حصہ اول میں تفصیلی ذکر آچکا ہے کہ خلیفۃ المسیح الاول کی خلافت کے دوران ایک طبقے نے نظامِ خلافت اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول پراعتراضات شر وع کئے اور پھر آپ کی وفات پر اس طبقہ نے خلافت کو غیر ضروری قرار دے کر اس نعمت سے کلیتاََ انحراف کر لیا تھا۔ اس کے بعد بھی بعض فتنے خلافتِ حقہ کے خلاف بڑے بڑے دعووں کے ساتھ سر اُٹھاتے رہے۔مگر خداتعالیٰ انہیں ناکام کرتا رہا۔ہم ان میں سے ایک فتنے کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیں گے۔ کیونکہ ان فتنوں کی ایک خاص طرز ہے ۔الٰہی جماعتوں کی مخالفت ،الٰہی جماعتوں کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہوتی ہے ۔اور بیرونی اشاروں کے ایماء پر پیدا کئے گئے یہ فتنے تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔ اور ان سے کئی اہم سبق حاصل کئے جا سکتے ہیں۔تاریخ کے اس عمل کو سمجھنے کے لئے ہم ۱۹۵۶ء میں سر اُ ٹھانے والے فتنے کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیں گے ۔اگرچہ یہ فتنہ ابتدائی مرحلے میں ہی مکمل طور پر ناکام بنا دیا گیا لیکن فتنوں کی طرز کو سمجھنے کے لئے ایک فتنہ کا تفصیلی جائزہ ضروری ہے۔
اگر تاریخی حقائق کا موازنہ کیا جائے توبا وجود اِس فرق کے کہ حضرت عثمان ؓ کے زمانے میں حکومت مسلمانوں کے قبضہ میں تھی اور اِس دور میں جماعتِ احمدیہ حضرت عیسیٰ ؑ کے متبعین کی طرح ایک غریب جماعت تھی جسے کسی قسم کا اقتدار حاصل نہیں تھا،یہ فتنہ اُس فتنہ سے گہری مماثلت رکھتا تھا جو حضرت عثمان ؓ کے زمانے میں برپا کیا گیا تھا۔ جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس فتنہ کے دوران جماعت کے نام اپنے ایک پیغام میں فرمایا تھا،
’اس فتنہ کے بانی اچھی طرح حضرت عثمان ؓ کے قاتلوں کی سکیم کا مطالعہ کر رہے ہیں۔اور ان کی سکیم پر چلنا چاہتے ہیں۔‘(۶)
بعد میں جوں جوں حالات واضح ہوتے گئے اس ارشاد کی سچائی کھل کر سامنے آ گئی۔
یہ فتنہ اُس وقت شروع ہؤا جب۱۹۵۳ء میں جماعت کو بیرونی حملوں کے ذریعہ سے ختم کرنے کی سازش ناکام ہو چکی تھی اور حضرت مصلح موعود ؓ پر قاتلانہ حملہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ناکام ہو گیا تھا۔اس سازش میں بہت سے گروہ شریک تھے جو کم از کم آغاز میں ایک دوسرے سے لا تعلق دکھائی دیتے تھے مگر بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ یہ سب ایک ہاتھ کے اشاروں پر حرکت کر رہے تھے۔ ان کا ایک حصہ تو مرکز میں بیٹھا ہؤا تھا ۔اور بعض پبلک مقامات پر بیٹھ کر حضرت مصلح موعود ؓ پر اعتراضات کرتا تھا ۔ان کے بظاہر سادہ اور کم عقل دکھائی دینے والے کارندے مختلف شہروں کے دورے کرتے اور یہ ذکر چھیڑتے کہ حضرت مصلح موعودؓ کے بعد کون خلیفہ ہوگا اور پھر خود ہی کہتے کہ حضرت مصلح موعود ؓ اپنے بیٹے کو خلیفہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ حق دوسرے لوگوں کا ہے ۔ اور جیسا کہ حضرت عثمان ؓ کے زمانے میں ہؤا یہ مفسدین آئندہ خلیفہ کے لئے کبھی ایک شخص کا نام لیتے اور کبھی دوسرے شخص کا نام لیتے۔زیادہ تر جماعتیں پنجاب میں تھیں اور لاہور پنجاب کا صدر مقام تھا۔ حضرت عثمان ؓ کے دور کے فتنہ پروروں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے،ان میں سے بعض نے لاہور میں یہ پراپیگنڈا کرنا شروع کر دیا کہ اب خلیفہ بوڑھا ہو گیا ہے ۔انہیں معزول کرکے کسی اور خلیفہ مقرر کرنا چاہئیے ۔جب سازش واضح ہونے لگی تو خلافت سے منحرف پیغامیوں نے اپنے اخبار پیغامِ صلح میں اس سازش کی پشت پناہی شروع کردی ۔اور یہ پشت پناہی صرف پیغامِ صلح تک محدود نہ تھی بلکہ ملک کے بعض چوٹی کے اخبارات بھی ایک منظم انداز میں اس سازش کا ساتھ دے رہے تھے۔ جس طرح حضرت عثمان ؓ کے وقت میں آنحضرت ﷺ کے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق کا ایک بد نصیب بیٹا حضرت عثمان ؓ کے خلاف فتنہ میں شامل ہو گیا تھا،اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی اولاد بھی ۱۹۵۶ء کے فتنے میں شامل ہو گئی۔اس فتنہ کے شروع ہونے سے چند ماہ قبل حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کے صاحبزادے عبد السلام صاحب عمر کی وفات ہوئی ۔جودھا مل بلڈنگ لاہور میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب نے نمازِ جنازہ پڑھائی ۔ابھی آپ نے پہلی تکبیر کے لئے ہاتھ اُٹھائے تھے کہ آپ پر کشفی حالت طاری ہو گئی ۔آپ نے دیکھا کہ آپ کے دائیں طرف حضرت خلیفۃ المسیح الاول تشریف لائے ہیں ،آپ کا قد کافی لمبا نظر آتا ہے اور آپ کچھ جھکے ہوئے ہیں اور افسردہ نظر آ رہے ہیں۔اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ نے اپنی طبیعت کے بر عکس یہ کشف الفضل میں شائع بھی کرادیا۔اُس وقت یہی تعبیر کی گئی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ اپنے صاحبزادے کی وفات کی وجہ سے اداس نظر آ رہے ہیں۔مگر بعد کے حالات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں آنے والے فتنہ میں آپ کی اولاد سے کئی افراد کے مبتلا ہونے کی طرف اشارہ تھا۔(۷)
۱۹۵۶ء کے فتنہ کا پس منظر:
یہ گروہ پہلے بھی جماعت کے اندر اعتراضات کر کے اپنے خیالات لوگوں میں پھیلانے کی کوشش کر رہا تھا اور پیغام صلح اور ملکی اخبارات بھی پہلے بھی جماعت اور خلافتِ احمدیہ کے خلاف لکھتے رہے تھے لیکن اب اچانک ان کا ایک ساتھ ایک منظم مہم کا حصہ بن جانے کی ایک وجہ تھی اور وہ وجہ حضرت خلیفۃ المسیح لثانیؓ کی بیماری تھی۔جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں ۱۹۵۵ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ پر بیماری کا شدید حملہ ہؤا اور پھر یورپ تشریف لے جانے تک آپ چند مواقع کے علاوہ نماز پڑھانے یاخطبہ دینے کے لئے تشریف نہ لا سکے۔اس کے ساتھ ملکی اخبارات نے خبریں لگانی شروع کیں کہ حضورؓ کی بیماری کی وجہ سے جماعتِ احمدیہ میں پھوٹ پڑ گئی ہے اور جانشینی کے مسئلہ پر اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔اور جب حضورؓ علاج کے لئے یورپ تشریف لے جا رہے تھے تو مولوی عبد الوہاب صاحب نے، جو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے بیٹے تھے ،لاہور میں احمدیوں میں یہ باتیں شروع کردیں کہ خلیفہ کا دماغ خراب ہو گیا ہے(نعوذ باللہ )،خلیفہ بوڑھا ہو گیا ہے،لوگ پاگل ہیں جو پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ان کو چاہئیے کہ نیا خلیفہ مقرر کر لیں۔کیوں نہ چوہدری ظفراللہ خان صاحب یا مرزا بشیر احمد صاحب جیسے لائق آدمیوں میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کر لیا جائے۔ان کے علاج پر اتنی رقم خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔پھر اس کے ساتھ انہوں نے یہ باتیں شروع کردیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی تحریر فرمودہ تفسیر کبیر کی بجائے مسجد میں کوئی عام فہم درس ہونا چاہئیے۔ اور اس قسم کی بحثیں چھیڑنے کی کوششیں کی گئیں کہ خلیفہ غلطی کر سکتا ہے اور بنیادی باتوں میں بھی خلیفہ وقت سے اختلاف جائز ہے۔اکثر لوگ تو یہ باتیں سن کر منہ پر سنا دیتے لیکن چند لوگ ایسے بھی تھے جو ان کے ساتھ مل کر اس قسم کا پراپیگنڈا کر رہے تھے۔اور مولوی وہاب صاحب با وجود منع کرنے کے جماعتِ احمدیہ کی مسجد میں تقریر بھی کرنے کی کوشش کرتے اور ان خیالات کا اظہار کرتے۔(۸)
یہ پہلی دفعہ نہیں تھا کہ مولوی عبد الوہاب صاحب اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے تھے۔ کئی سال سے پیغامیوں اور اُن کے روابط تھے۔جب حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وفات کے بعدپیغامی خلافت سے منحرف ہو کر علیحدہ ہوئے تو انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے صاحبزادے عبد الحی صاحب سے رابطہ کیا جو اُس وقت پندرہ سال کے تھے اور کہا کہ اگر آپ خلیفہ بن جاتے تو ہم آپ کی اطاعت کرتے۔اسپر باوجود کم عمری کے صاحبزادہ عبد الحی صاحب نے جواب دیا کہ آپ کو آپ کے نفس دھوکہ دے رہے ہیں یا آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔میں سچ کہتا ہوں کہ اگر میں خلیفہ بنتا تو بھی آپ میری اطاعت نہ کرتے۔میں اب بھی تمہیں حکم دوں تو تم ہر گز نہ مانو۔ اس پر اُن سے رابطہ کرنے والوں میں سے ایک نے کہا کہ آپ ہمیں حکم دیں پھر۔پھر دیکھیں ہم آپ کی فرمانبرداری کرتے ہیں یا نہیں۔صاحبزادہ عبد الحی صاحب نے کہا کہ اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ جاؤ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی بیعت کر لو۔یہ بات سن کر وہ شرمندہ ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ تو نہیں ہو سکتا۔اور ۱۹۳۷ء میں مولوی عبد الوہاب صاحب نے خود اپنے ایک مضمون میں یہ واقعہ لکھا تھا (۹) اس کے بعد پیغامیوں نے حضرت اماں ؓجی حرم حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رابطہ کر کے کہا کہ ہم تو آپ کے بیٹے کی بیعت کرکے انہیں خلیفہ بنانا چاہتے ہیں۔حالانکہ جیسا کہ کتاب کے حصہ اول میں ذکر آ چکا ہے یہ لوگ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے دورِ خلافت میں انہیں طرح طرح کی تکالیف دیتے رہے تھے۔ اورحضرت اماں جیؓ نے اس بات کا ذکر خود حضرت مصلح موعودؓ سے کیا تھا(۱۰)۔لیکن ان ابتدائی کوششوں کی ناکامی کے بعد منکرینِ خلافت نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی چھوٹی اولاد کو اپنا نشانہ بنا کر کوششیں شروع کیں کہ وہ خلافت کے خلاف سازش میں اُن کے آلہ کار بن جائیں۔ پھرحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو اطلاعات ملیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے بیٹوں نے اپنے بھانجے مولوی اسماعیل غزنوی کے ساتھ مل کر حضرت مصلح موعودؓ کے خلاف مہم چلانے کا ایک منصوبہ بنایا ہے ۔مولوی اسماعیل غزنوی جماعت کے شدید مخالفین میں سے تھے ۔اس مہم کے پہلے حصہ میں مالی الزامات لگائے گئے ،مگر جب اس میں ناکامی ہوئی تو پھر اخلاقی الزامات لگانے کا منصوبہ بنایا گیا۔حضورؓ کی ہدایات کے تحت حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ مدیر الحکم اور حضرت عبد الرحیم صاحب درد ؓنے تحقیقات کیں اور بر وقت کاروائی سے یہ منصوبہ ناکام بنا دیا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کے کچھ بیٹے مسلسل حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ پر اعتراضات کرتے رہتے۔اور یہ باتیں ان کے لئے روزمرہ کا معمول تھیں۔یہ دیکھتے ہوئے حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے حضورؓ کی خدمت میں لکھا کہ اب تو یہ حد سے بڑھ چکے ہیں، باتیں سن سن کر کان پک چکے ہیں،دل جل اُٹھا ہے۔اب آپ کو کچھ کرنا چاہئیے۔اس پر حضورؓ نے جواب دیا کہ اکبر نے اپنے کوکا(دودھ شریک بھائی)کی شکایت سن کر کہا تھا کہ اس کے اور میرے درمیان دودھ کا دریا بہتا ہے تو ان کے اور میرے درمیان دودھ کے سات دریا بہتے ہیں۔ جب تک مجھ میں طاقت ہے صبر ہی کرتا جاؤں گا ۔یہانتک کہ حالات مجھے مجبور نہ کردیں کوئی قدم اُن کے خلاف نہ اُٹھاؤں گا(۱۱)۔
مولوی عبدالوہاب صاحب تقسیم ِ ہند کے بعد کچھ عرصہ کے لئے قادیان رہے۔یہاں پر بھی ان کی حرکات کی وجہ سے مسلسل مسائل پیدا ہوتے رہے ۔اور وہ اس حد تک بڑھ گئے کہ انہوں نے بعض درویشوں کو یہاں تک کہہ دیا کہ تم یہاں مفت کی روٹیاں کھا رہے ہو ،جاؤ جاکر کوئی کام کرو یہاں پر کیا رکھا ہے۔ان پر سلسلہ کے اموال فروخت کرنے کا الزام بھی ثابت ہؤا۔آخر ان کی حرکات سے تنگ آکر انہیں پاکستان بھجوا دیا گیا۔مولوی عبد الوہاب صاحب کے چھوٹے بھائی عبد المنان صاحب عمر بھی حضرت مصلح موعود ؓ کے خلاف نیش زنی میں پیش پیش تھے۔اور ان کا انداز یہ ہوتا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پر اعتراض کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔مثلاََ اگر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خدام لاحمدیہ کے اجلاس میں اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی تلقین کرتے تو یہ لوگوں کے کان میں کہنا شروع کر دیتے کہ ان سے پوچھو کہ یہ خود گھر کے کتنے کام کرتے ہیں؟ماسٹر ابراہیم جمونی صاحب کہتے ہیں کہ ایک بار میں نے ان کے بہکانے پر یہ سوال حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سے کر دیا ۔اس پر آپ نے تحمل سے ان کاموں کی طویل فہرست گنوائی جو سلسلہ کی طرف سے آپ کے سپرد تھے اور پھر فرمایا کہ کیا آپ کے خیال میں یہ سب کام کرنے کے بعد میرے پاس کوئی وقت بچ سکتا ہے کہ میں اپنے گھر کے کام کروں۔ابراہیم صاحب کہتے ہیں کہ مجھے فوراً اپنی غلطی کا احساس ہؤا کہ میں نے غلط سوال کیا ہے۔(۱۲) نظامِ خلافت کے خلاف فتنہ اُٹھانے والے اندرونی عناصر کا ہمیشہ سے یہ طریق رہا ہے کہ یہ لوگ موقع بھی ملے توصحیح فورم پر اپنے اعتراضات پیش نہیں کرتے ۔کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اعتراضات غلط ہیں۔اگر ان پر تحقیق کی گئی تو یہ اعتراضات غلط ثابت ہوں گے۔لیکن یہ گروہ ادھر اُدھر لوگوں کے سامنے اعتراضات کرکے وسوسے پھیلانے کے لئے ہر وقت کوشاں رہتا ہے۔اس فتنے میں ملوث دیگر افراد کی طرح مولوی عبد المنان صاحب کا بھی یہی طریق تھا۔اور جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی بیماری شروع ہوئی تو اس وسوسہ اندازی نے ایک اور خطرناک انداز اختیار کر لیا۔۱۹۵۵ء کی مجلسِ شوریٰ حضور کی بیماری کے دوران ہو رہی تھی۔اور مولوی عبد المنان صاحب مجلسِ شوریٰ کی مالی سب کمیٹی کے ممبر تھے۔اور اس ممبر کی حیثیت سے وہ سب کمیٹی کے اجلاس میںکسی بھی مالی معاملے کے متعلق سوالات اُٹھا سکتے تھے ۔لیکن شوری ٰ میں یا سب کمیٹی کے اجلاس میں انہوں نے کوئی اعتراض پیش نہیں کیا۔مگر جب پرائیویٹ مجلس میں مکرم چوہدری انور حسین صاحب امیر ضلع شیخو پورہ (جو خود بھی مالی سب کمیٹی کے ممبر تھے) سے ملے تو یہ اعتراضات شروع کر دیئے کہ لاکھوں کا حساب جماعت کے سامنے رکھا ہی نہیں جاتا۔باہر والوں کو پتہ ہی نہیں کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔اور حضرت صاحبزادہ مرز اناصر احمد صاحب کے متعلق ولیعہد کا لفظ استعمال کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ کوکین استعمال کرتے ہیں ۔ان مواقع پر بعض اور عہدیدار بھی موجود تھے۔مکرم چوہدری انورحسین صاحب ذاتی طور پر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو اچھی طرح جانتے تھے ،اس لئے انہوں نے سختی سے ان لغو الزامات کی تردید کر دی۔لیکن ان کو یہ خیال ضرور آیا کہ اگر ان کا کوئی واقف اس قسم کی گفتگو کے دوران انہیں ملنے آ ئے تو وہ غلط اثر قبول کر سکتا ہے۔(۱۳)
ان باتوں کے با وجود حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو نائب وکیل التصنیف مقرر فرمایا ۔تاکہ اس طرح خدمت ِ دین میں آکر آپ میں مثبت رحجانات پیدا ہوں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ نے مسند امام احمد بن حنبل کی تبویب کا کام شروع کیا تھا جو نامکمل رہ گیا تھا۔مولوی عبد المنان صاحب نے جامعہ احمدیہ کے بعض طلبہ کے ساتھ مل کر اسے مکمل کرنے کا کام کیا(۱۴)۔(مسند میں راویوں کے حساب سے احادیث درج کی ہوتی ہیں یعنی ایک راوی کی بیان کردہ احادیث ایک ساتھ درج ہوتی ہیں۔ تبویب میں ان احادیث کو موضوعات کے حساب سے درج کردیا جاتا ہے۔)حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓکی اولاد میں آپ علمی ذوق رکھنے والے تھے۔حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ کی کوشش سے آپ کو ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک سیمینار پر مدعو کیا گیا۔چنانچہ آپ پندرہ جون کو ربوہ سے امریکہ کے لئے روانہ ہو گئے۔پروگرام تھا کہ سیمینار کے اختتام پر آپ یوروپی ممالک اور کچھ اسلامی ممالک سے ہوتے ہوئے پاکستان واپس آئیں گے۔جب یہ فتنہ منظرِ عام پر آیا تو آپ ابھی امریکہ میں ہی تھے۔(۱۵)
اس گروہ کے روابط ایسے شریر گروہ کے ساتھ تھے جو ربوہ میں رہ کر نظام ِ جماعت کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا تھا۔یہ گروہ ربوہ کی ابتدائی کچی عمارت کا مذاق اُڑاتا اور حضرت مصلح موعودؓ کے خلاف ہر قسم کے اعتراضات کر کے لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرنے کی کوشش کرتا(۱۶)۔ ان کا طریق کیا تھا ؟اس کے متعلق مکرم چوہدری محمد علی صاحب جو اس وقت تعلیم الاسلام کالج میں لیکچرار تھے فرماتے ہیں کہ میں جلسہ کے موقع پر جو عارضی ریستواران بنتے ہیں ان میں سے ایک کے پاس سے گذرا ۔اس میں عبد الحمید ڈاہڈا اور اس کے ساتھی بیٹھے ہوئے تھے۔انہوں نے اصرار کر کے چوہدری صاحب کو اپنے ساتھ بٹھا لیا ۔عبد الحمید نے الفضل کا سالانہ نمبر نکال کر دکھایا جس میں حضرت مصلح موعودؓ کی تصویر شائع ہوئی تھی اور کہا کہ مرزا صاحب نے اپنی تصویر تو شائع کرادی ہے مگر خلیفۃ المسیح الاولؓ کی تصویر شائع نہیں کی۔اس پر چوہدری صاحب نے کہا کہ تصویر شائع کرنے کا تعلق تو الفضل کی انتظامیہ سے ہے نہ کہ حضرت صاحب سے۔یہ کہہ کر وہ غصے سے باہر چلے گئے۔تو ایک عرصہ سے اس قسم کے اعتراضات کرنا اور وسوسے پھیلانا ان لوگوں کا معمول تھاجیسا کہ حضرت عثمان کے عہد میں ہؤا۔ ان میں سے اکثر لوگ بظاہر کم حیثیت کے لگتے تھے جو پبلک مقامات یا اجتماعات پر اس قسم کی باتیں کرتے نظر آتے تھے۔اس لئے بہت سے لوگ ان کو اس قابل نہ سمجھتے کہ ان کی حرکات کو سنجیدگی سے لیا جائے لیکن جیسا کہ بعد کے حالات نے ظاہر کیا کہ ان کی باگ ڈور ایک ہاتھ میں تھی اور ایک ذہن اس سازش کے پیچھے کارفرما تھا ۔یہ ذہن ایک موقع کی تلاش میں تھا ،جس سے فائدہ اُٹھا کر فتنے کی اس آگ کو پوری طرح بھڑکا دیا جائے۔اور جب حضورؓ کی بیماری شروع ہوئی تو اس سازش کے کرتا دھرتا افراد نے یہی سمجھا کہ جس موقع کی تلاش میں ہم تھے وہ موقع اب آگیا ہے۔(۱۷) بعد میں تحقیقات پر معلوم ہؤا کہ جب جلسہ سالانہ کے موقع پر یہ گروہ ان ریشہ دوانیوں میں مصروف ہوتا تھا،مولوی عبد المنان صاحب جو حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے چھوٹے بیٹے تھے، ان کو جلسہ سالانہ کے بجٹ میں سے مالی مدد مہیا کرتے تھے۔اس رقم کو پیشگی ادائیگی ظاہر کیا جاتا اور اس کا حساب کبھی نہ دیا جاتا۔(۱۶)
فتنہ سر اُ ٹھاتا ہے:
۱۹۵۶ء میں ان کے ایک ایجنٹ نے مختلف جماعتوں کا دورہ کر کے پراپیگنڈا شروع کر دیا ۔یہ ایجنٹ اللہ رکھا نامی ایک شخص تھا ۔یہ شخص آزادی سے قبل بھی سلسلہ کے عہدیداران کے خلاف مختلف مقامات پر جاکر زہر اگلتا رہتا تھا۔اور اس کے مطابق اس کے علاوہ باقی سب لوگ بد دیانت اور اسکے مخالف تھے۔ان کے پراپیگنڈا کی وجہ سے حضورؓ نے اگست ۱۹۴۵ء میں الفضل میں ان کے متعلق ایک اعلان بھی شائع کروایا تھا(۱۸)۔ تقسیم ِہند کے بعدیہ کسی طرح قادیان پہنچ گیا اور وہاں پر اس نے درویشوں کو تنگ کرنا شروع کیا اور بعض مقامی افسران کے ساتھ ساز باز کر کے بے کس درویشوں کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔ان کے خلاف مقدمات قائم کئے ،جن میں درویشوں کو اپنی ضمانتیں کروانی پڑیں۔جن دنوں میں مولوی عبد الوہاب صاحب وہاں پر مقیم تھے یہ مولوی صاحب کی سرگرمیوں میں ان کی معاونت کرتا تھا۔اللہ رکھابعض مقامی افسران کے ساتھ مل کر جماعت کے خلاف ساز باز کرتا ۔قادیان اور اس کے نواح میں کچھ ایسے افسران متعین تھے جن کی جانیں مغربی پنجاب کے فسادات میں احمدیوں نے بچائی تھیں ،یہ افسران جماعت پر حسنِ ظن رکھتے تھے ۔مولوی صاحب ان افسران کے سامنے ایسی باتیں کہتے جن کے نتیجے میں اگر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نہ ہوتا تو غریب اور بے کس درویشوں کے سروں پر مصائب کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑتا (۹)۔ بالآخر کسی طرح قادیان کے درویشوں نے اللہ رکھا صاحب سے نجات حاصل کی اور یہ پاکستان آگئے۔اور مولوی وہاب صاحب کو بھی پاکستان بلوالیا گیا۔لیکن اللہ رکھا صاحب کے مفسدانہ طرزِعمل کی وجہ سے ،حضرت مصلح موعودؓ نے ان کا اخراج از جماعت فرما دیا۔پاکستان آنے کے بعد ۱۹۵۰ء میں اللہ رکھا صاحب پیغامیوں کے ہیڈ کواٹر احمدیہ بلڈنگز میں مقیم ہو گئے اور ان کو وہاں پر سہولیات مہیا کی گئیں۔یہ سب کچھ پیغامیوں کے امیرصاحب کے حکم کے تحت ہو رہا تھا۔ وہ اس وقت بھی ان کا کچھ کام کرتے تھے مگر عملی طور پر ان کی سرگرمیاں ۱۹۵۶ء تک پردہ راز میں ہی رہیں۔ جب یہ فتنہ شروع ہؤا تو پیغامی ان حقائق سے انکار کرتے رہے کہ ان کا اللہ رکھا صاحب سے کوئی تعلق ہے مگر عرصہ بعد ۱۹۷۴ء میں جب اللہ رکھا کا ان سے بھی جھگڑا ہو گیا تو اس نے خود یہ حقائق ایک خط کی صورت میں روزنامہ امروز کی ۲۱ مئی ۱۹۷۴ء کی اشاعت میں شائع کروا دیئے اور اس جھوٹ کی پردہ دری ہو گئی ۔
بہر حال ۱۹۵۶ء کے شروع میں انہوں نے مختلف جماعتوں کا دورہ شروع کیا ۔اور یہ ظاہر کیا کہ وہ جماعتِ احمدیہ مبائعین سے تعلق رکھتے ہیں۔اور جو ان کی سابقہ حرکات سے واقف تھے انہیں یہ کہتے کہ مجھے اپنی سابقہ حرکات کی معافی مل چکی ہے اور اس کے ثبوت میں وہ مولوی عبد الوہاب صاحب کا خط دکھاتے جو بظاہر ان کی والدہ کی وفات پر تعزیت کے جواب میں لکھا گیا تھا ۔مگریہ حقیقت قابلِ توجہ ہے کہ یہ خط حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓکی بیگم صاحبہ کی وفات کے نو ماہ بعد لکھا گیا تھا اور اس میں لکھا گیا تھا کہ آپ کے تو ہمارے ساتھ بھائیوں والے تعلقات ہیں۔اور اللہ رکھا صاحب جماعت کے کچھ بزرگان کا نام لے کر کہتے کہ انہوں نے بھی مجھے خطوط لکھے ہیں لیکن وہ اس وقت میرے پاس نہیں ہیں۔جب انہیں جماعت کی کسی مسجد یا مہمان خانے میں ٹھہرا لیا جاتا تو یہ اپنا مخصوص پراپیگنڈا شروع کر دیتے کہیں پر کہتے کہ اب حضرت صاحب بوڑھے ہو گئے ہیں اور خلافت کے قابل نہیں رہے،کہیں پر مقامی امیر کے خلاٖف زہر اگلا اور کہیں پرکہا کہ حضورؓ کی وفات کے بعد میاں ناصر کو خلیفہ بنانے کی سازش ہو رہی ہے اور ہم ان کی ہر گز بیعت نہیں کریں گے،اگر عبد المنان عمر صاحب خلافت کا اعلان کریں تو ہزاروں ان کی بیعت کرنے کے لئے تیار ہو جائیں، ایک انقلاب آنے والا ہے۔دوسال میں پھر خلافت کا جھگڑا کھڑا ہونے والا ہے۔مری میں جب اس کی حرکات کی وجہ سے اسے خیبر لاج سے نکالا گیا تو اس نے طیش میں آ کر کہا کہ ڈیڑھ سال میں مجھے نکالنے والوں پر تباہی آئے گی(۱۰،۱۹)۔اس طرح اس نے سرحد، پنجاب اور کشمیر کی بہت سی جماعتوں کے دورے کئے اور لوگوں کو بھڑکانے کی کوششیں کیں۔بہت سی جماعتوں میں مقامی احمدیوں نے اسے صاف کہہ دیا کہ تو ہمارے خلیفہ کی موت کا متمنی ہے اس لئے ہم تجھ سے بیزار ہیں تو یہاں سے فوراََ نکل جا ۔ان سفروں کے دوران بھی اس کے اور پیغامیوں کے روابط ظاہر ہوتے رہے ۔یہ پیغامیوں کا لٹریچر تقسیم کرتا رہا اور ان کے عمائدین کو خطوط لکھتا رہا۔اور کئی مرتبہ یہ ان کے پاس جا کر ٹھہرا اور خاص طور پر پیغامیوں کے ایک سرکردہ لیڈر میاں محمد صاحب کی خاص طور پر تعریف کرتا رہا اور بعد میں تحقیق پر معلوم ہؤا کہ پیغامیوں میں اس کا تعلق میاں محمد صاحب کے گروہ سے تھا(۲۰،۲۱،۱۰،۱۹)۔یہ شخص دیکھنے میں کم علم دکھائی دیتا تھا اور لگتا یہی تھا کہ یہ شخص کوئی ہوشیار شخص نہیں ہے لیکن اس کی مہار جن کے ہاتھوں میں تھی اُن کی مکاری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ایک صا حبزادے سے وقتی طور پر ناراض ہوئے تو یہ اللہ رکھا اُن کے پاس کوہاٹ جا پہنچا اور ان کو مل کر کہنے لگا کہ دیکھیں میاںناصر احمد صاحب کو خلیفہ بنانے کی سازش کی جا رہی ہے ،حالانکہ حق تو میاں بشیر احمد صاحب کا ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓکے ان صاحبزادے نے جب یہ سنا تو مومنانہ رویہ دکھاتے ہوئے سختی سے اس کی لغویات کو رد کر دیا اور اسے اپنے پاس ٹھہرنے بھی نہیں دیا۔اور فوراً سارا واقعہ لکھ کر حضورؓ کی خدمت میں بھجوا دیا۔ان سے رابطہ کرنے والوں کومعلوم نہیں تھا کہ وہ اس وقت تک دفتر نہیں جاتے تھے جب تک حضورؓ کی خدمت میں معافی کا خط سپردِ ڈاک نہ کردیں ۔اور روزانہ ایسا ہی کرتے رہے جب تک حضورؓ کی ناراضگی دور نہیں ہو گئی۔ (۲۱)
جیسا کہ حضرت عثمانؓ کے وقت میں ہؤا تھا یہ مفسدین بھی کبھی آئندہ ہونے والے خلیفہ کے لئے کسی کا نام لیتے اور کبھی کسی کا ۔لیکن اب ایک پراپیگنڈ امسلسل کیا جا رہا تھا کہ اگر آئندہ مرزا ناصر احمد صاحب کو خلیفہ بنایا گیا تو ہم بیعت نہیں کریں گے بلکہ ہم تو صرف مولوی عبد المنان صاحب کو ہی خلیفہ تسلیم کریں گے ۔(۲۲)اور تو اور ان کے بعض ایجنٹ عیسائی بھی تھے جو احمدیوں سے مل کر کہتے تھے کہ حضرت مصلح موعودؓ اپنے بیٹوں کو آگے لانے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ مولوی عبدالمنان صاحب مرزا ناصر احمد صاحب سے زیادہ عالم اور موزوں ہیں۔حالانکہ ایک عیسائی نہ آنحضرتﷺ پر ایمان لائے اور نہ حضرت مسیح موعود ؑ پر،اسے آپ کی خلافت سے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔(۲۳)
فتنہ بے نقاب کیا جاتا ہے:
کئی دہائیوں سے یہ گروہ حضور کو تکالیف پہنچا رہا تھا لیکن حضورؓ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓکی محبت اور احترام کی وجہ سے پردہ پوشی سے کام لے رہے تھے اور ان کی اصلاح کے لئے کوششیں فرما رہے تھے۔مگر اب اس سازش کا وہ رخ ظاہر ہو رہا تھا جس سے واضح ہو تا تھا کہ اب ان کو آلہ کار بنا کر مخالفین نظام ِ خلافت پر ایک خوفناک حملہ کرنا چاہتے ہیں اور عبد اللہ بن سبا کی طرح جگہ جگہ افواہوں اور الزام تراشیوں کو استعمال کر کے اپنا جال بچھایا جا رہا تھا۔اور اب یہ گروہ ایک ڈیڑھ سال اچھی طرح پراپیگنڈا کرنے کے بعداس فتنے کو پوری طرح بھڑکانا چاہتا ہے۔اس صورت ِ حال میںحضورؓ نے ان لوگوں کی ریشہ دوانیاں کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ فرمایا ۔چنانچہ ۲۵ جو لائی کو اللہ رکھا کے متعلق اور۲۸ جولائی ۱۹۵۶ء کو مولوی عبد الوہاب صاحب کے منافقانہ پروپیگنڈا کے متعلق شہادتیں الفضل میں شائع کردی گئیں۔اس سے یکلخت اس سازش سے پردہ ہٹ گیا اور اس میں ملوث لوگ ننگے ہو کر سامنے آ گئے ۔بہت سے لوگ اپنی اپنی جگہ پر یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ یہ باتیں صرف ان کے محدود حلقے میں ہی کی گئیں ہیں لیکن ان شہادتوں سے یہ امر سب پر عیاں ہو گیا کہ یہ پراپیگنڈا وسیع پیمانے پر اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا جا رہا ہے ۔اور کچھ ہاتھ ان کٹھ پتلیوں کو حرکت دے رہے ہیں۔ حضورؓ نے اس بات پر بھی اظہارِ ناراضگی فرمایا کہ جب مختلف لوگوں اور ذمہ دار احباب کے علم میں یہ باتیں آ چکی تھیں تو ان کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئیے تھا بلکہ فوراََ حضورؓ کے علم میں لانا ضروری تھا یا جماعتی عہدیداروں کو مطلع کرنا چاہئیے تھا۔یہ صورتِ حال فتنہ پردازوں اور ان کے آقاؤں کے لئے بہت پریشان کن تھی کیونکہ جس قسم کی وسوسہ اندازی وہ کر رہے تھے وہ صرف اس صورت میں کارگر ہو سکتی تھی جب کہ اُن کے اصلی چہرے لوگوں سے پوشیدہ ہوں مگر اب ان کی حقیقت کھل کر سب کے سامنے آ رہی تھی۔جلد ہی تمام جماعتوں ، جماعتی اداروں اور احبابِ جماعت نے انفرادی طور پر بھی حضورؓ کی خدمت میںاپنا اظہارِ وفاداری پیش کیا اور اس مہم کو چلانے والوں سے مکمل بیزاری ظاہر کی۔ یہ ردِ عمل اتنا واضح اور شدید تھا کہ اس سے فتنہ پروروں کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ان کی سازش کا جال بڑی تیزی سے بکھر رہا تھا۔جیسا کہ حضرت عثمان ؓ کے عہد میں ہؤا تھا ،جب مفسدین اپنے آپ کو گھرا ہؤا پاتے تو فوراََ معافیاں مانگنے پر آ جاتے اور کچھ دیر بعد پھر ریشہ دوانیاں شروع کر دیتے،اس مر حلے پر مولوی عبد الوہاب صاحب نے حضورؓ کی خدمت میں ایک خط تحریر کیا اور درخواست کی اسے بھی شائع کر دیا جائے ۔اس میں لکھا کہ اصل میں اللہ رکھا کے متعلق ان کا خیال تھا کہ اسے معافی مل چکی ہے،اس لئے انہوں نے اس کے خط کا جواب دیا۔ورنہ وہ ہر طرح سے خلافت کے دامن سے وابستہ ہیں۔مگر انہوں نے ان شہادتوں کا کوئی ذکر نہ کیا جن کی رو سے وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے خلاف زہر اگلتے رہے تھے۔مگر چونکہ یہ شہادتیں بہت سے لوگوں کی تھیں اور روز بروز ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا،اس لئے شاید انہیں ان سب کی جھوٹی تردید کی ہمت نہ ہوئی ہو۔ان کا خط الفضل میں شائع کر دیا گیا اور ساتھ ہی حضور کا جواب بھی شائع ہؤا۔اس میں حضورؓ نے ان کی توجہ ان بیسیوں حلفیہ شہادتوں کی طرف مبذول کرائی جو ان کی کاروائیوں کے متعلق الفضل میں شائع ہو رہی تھیں اور جن کے متعلق انہوں نے اپنے خط میں کوئی وضاحت پیش نہیں کی تھی۔اس کے آخر میں حضورؓ نے تحریر فرمایا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہؤا تھا جسے حضرت اُمّ المؤمنین نہیں سمجھی تھیں اور گھبرا گئی تھیں۔حضرت مسیح موعودؑ نے یہ الہام لکھ کرحضرت خلیفہ اولؓ کو بھجوایا تھا اور حضرت خلیفہ اول نے اسے پڑھ کر حضرت ام المؤمنین کو تسلی دی تھی کہ یہ الہام آپ کے لئے برا نہیں ہے۔اس الہام کا مضمون یہ تھا کہ جب تک حضرت خلیفہ اول اور آپ کی بیوی زندہ رہیں گے آپ کی اولاد سے حسنِ سلوک کیا جائے گا لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ ان کو ایسا پکڑے گا کہ پہلے کسی کو نہیں پکڑا ہو گا۔اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر اس طرح پر ظاہر ہوئی کہ حضرت خلیفہ اول کی بیگم حضرت اماں جیؓ کی زندگی تک یہ فتنہ دبا رہا مگر ان کی وفات کے بعد جلد ہی ظاہر ہو گیا۔حضورؓ نے تحریر فرمایا کہ میں نے آپ کے ہاتھ سے گذشتہ تیس سال میں بہت سی خنجریں کھائی ہیں مگر اب چونکہ مسیح موعود ؑ کے کلام اور سلسلہ احمدیہ کی حفاظت اور وقار کا سوال تھا اس لئے مجھے بھی جواب دینا پڑا۔ اگر وہ کڑوا لگتا ہے تو اپنے آپ کو ملامت کریں یا موت کے بعد حضرت خلیفہ اولؓ کی ملامت سن لیں۔(۲۴)یہ معاملہ ایسا نہیں تھا کہ محض ایک معافی مانگنے پراسے ختم متصور کیا جاتا۔جماعت کے خلاف ایک طویل عرصہ ایک منظم سازش جاری رکھی گئی تھی اور بار بار کی پردہ پوشی کے با وجود یہ لوگ اپنی سازشوں میں بڑھتے ہی گئے تھے۔
اس مرحلہ پر بعض سادہ مزاج احمدی بھی یہ خیال کر رہے تھے کہ شاید یہ فتنہ اتنا زیادہ سنگین نہیں کہ اس پر اتنی توجہ دی جائے۔حضورؓ نے اپنے ایک پیغام میں فرمایا
’بعض کمزور طبع احمدی کہتے ہیں کہ کیا چھوٹی سی بات کو بڑھا دیا گیا ہے۔لاہور کا ہر شخص جانتا ہے کہ عبد الوہاب فاترالعقل ہے۔پھر ایسے شخص کی بات پر اتنے مضامین اور اتنے شور کی ضرورت کیا تھی۔حضرت عثمان ؓ کے وقت میں جن لوگوں نے شور کیا تھا ۔ان کے متعلق بھی صحابہ یہی کہتے تھے کہ ایسے زٹیل آدمیوں کی بات کی پرواہ کیوں کی جاتی ہے۔۔
پھر وہ لوگ بتائیں کہ حضرت عثمان ؓ کے وقت میں شرارت کرنے والے لوگوں کو حقیر قرار دینے والے لوگ کیا بعد میں اسلام کو جوڑ سکے۔اگر وہ اس وقت منافقوں کا مقابلہ کرتے تو نہ ان کا کوئی نقصان تھا نہ اسلام کا کوئی نقصان تھا۔مگر اس وقت کی غفلت نے اسلام کو بھی تباہ کر دیا۔اور اتحادِ اسلام کو بھی برباد کر دیا۔‘(۲۵)
مخالفین کے اس الزام پر کہ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو خلیفہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے تحریر فرمایا
’ناصر احمد کے خلیفہ ہونے کا کوئی سوال نہیں خلیفے خدا بنایا کرتا ہے۔جب اس نے مجھے خلیفہ بنایا تھا تو جماعت کے بڑے بڑے آدمیوں کی گردنیں پکڑوا کر میری بیعت کروا دی تھی ۔جن میں ایک میرے نانا ،دو، میرے ماموں ایک میری والدہ ایک میری نانی ایک میری تائی اور ایک میرے بڑے بھائی بھی شامل تھے۔‘(۲۶)
اگست میں حضور کو الہام ہؤا ،’کہ آؤ ہم مدینہ والا معاہدہ کریں‘۔اس کی تشریح بیان کرتے ہوئے حضورؓ نے فرمایا،
’یعنی جماعت سے پھر کہو یا تو تم مجھے چھوڑ دو اور اور میری تصنیفات سے فائدہ نہ اُ ٹھاؤ ۔نہیں تو میرے ساتھ وفاداری کا ویسا ہی معاہدہ کرو جیسا کہ مدینہ کے لوگوں نے مکہ کی عقبیٰ جگہ پررسول اللہ ﷺ سے معاہدہ کیا تھا ۔اور پھر بدر کی جنگ میں کہا تھا یا رسول اللہ!یہ نہ سمجھیں کہ خطرہ کے وقت میں ہم موسیٰ کی قوم کی طرح آپ سے کہیں گے کہ جا تو اور تیرا خدا لڑتے پھرو ہم یہیں بیٹھے ہیں۔یا رسول اللہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑینگے بائیں بھی لڑینگے اور آگے بھی لڑیں گے پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن اسوقت تک آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہؤا آگے نہ آئے۔‘(۲۷)
جولائی کے مہینے میں اس فتنہ کے متعلق شہادتیں کثرت سے شائع ہوئیں۔اب اس سازش کو پہلے کی طرح آ گے بڑھانا ممکن نہیں نظر آ رہا تھا۔ چنانچہ اگست میں اس کی پشت پناہی کرنے والوں کو کھل کر سامنے آنا پڑا۔بعض اخبارات نے ان کی اعانت کے لئے جھوٹی خبریں شائع کرنا شروع کیں۔اخبار نوائے پاکستان اور سفینہ اس میں پیش پیش تھے۔کبھی یہ خبر لگائی کہ اللہ رکھا نے مرزا بشیرالدین محمود احمد کے خلاف عدم اعتماد کی مؤثر تحریک چلائی ہوئی ہے۔کبھی یہ سرخی جمائی کہ جماعتِ احمدیہ چنیوٹ نے بغاوت کر دی ہے۔اور جب زیادہ سنسنی پھیلانی مقصود ہوئی تو یہ شائع کردیا کہ چوہدی ظفراللہ خان نے خلیفہ قادیان سے مرعوب ہونے سے انکار کر دیا ۔اور اس افواہ سازی کا انجام یہ ہؤا کہ جماعت ِ احمدیہ چنیوٹ نے اپنا اظہارِ وفاداری شائع کروا کر جھوٹوں پر *** بھیجی اور اللہ رکھا کے اپنے حقیقی بھائیوں نے اس سے اظہارِ بیزاری شائع کرا کے اعلان کیا کہ وہ خلافت سے وفاداری کو ہر رشتہ داری پر مقدم رکھتے ہیں اور اس سے کوئی تعلق بھی نہیں رکھنا چاہتے۔اور حضرت چوہدری صاحبؓ نے حضورؓ کی خدمت میں ایک عریضہ میںلکھا کہ
’جو عہد حضورؓ نے طلب فرمایا ہے دل و جان اس کے مصدق ہیں جو کچھ پہلے حوالہ کر چکے ہیں ۔ وہ اب بھی حوالہ ہے۔‘(۲۸تا۳۱)
اس موقع پر اخبار زمیندار پیچھے نہیں رہ سکتا تھا۔۱۹۵۳ء میں ہونے والی ناکامیوں کے زخم ابھی بھرے نہیں تھے۔اس اخبار نے خبر شائع کی کہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اللہ رکھا سے ستر ہزار روپیہ قرض لیا تھا اور واپس نہیں کیا ۔حالانکہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے خطبہ جمعہ میں اس کی واپسی کا وعدہ بھی کیا تھا(۳۲)۔زمیندار کو جھوٹی خبر لگانے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا تھا تبھی باوجود اتنا پرانا اخبار ہونے کے اس کو چند سالوں کے بعد بند کرنا پڑا ۔اللہ رکھا لنگر خانے میں ایک معمولی ملازم تھا ،اس کے پاس اتنا روپیہ کہاں سے آیا کہ وہ اتنی بڑی رقوم کے قرضے دیتا پھرے۔ اور جس خطبہ جمعہ کا حوالہ گھڑا گیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف زمیندار کے ایڈیٹر نے ہی سنا تھا اور کسی کو اس کی کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔جب بھی اس طرح کا فتنہ کھڑا کیا جاتا ہے تو ،سازش میں شریک اخبارات کا ایک خاص طریق یہ ہوتا ہے کہ فوراََ یہ خبر لگائی جاتی ہے کہ احمدیوں میں بہت بد دلی پھیل گئی ہے اور بہت سے احمدی اب جماعتِ احمدیہ کو چھوڑ رہے ہیں۔اس طرح وہ ایک طرف تو ناواقف احمدیوں میں پریشانی پیدا کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف اپنے اُن آ قاؤں کو اپنی نام نہاد کار کردگی دکھانا چاہتے ہیں جن کی مدد کا سہارا لے کر فتنہ کھڑا کیا جا رہا ہوتا ہے۔اس مرتبہ بھی ان اخبارات نے یہی حربہ استعمال کرنے کی کوشش کی۔(۳۳)اور پھر ۹ اگست ۱۹۵۶ء کی اشاعت میں اخبار نوائے پاکستان نے صفحہ اول پر خبر شائع کی کہ مرزا محمود قادیانیوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور قادیانی ان دھمکیوںکو عدالت میں چیلنج کریں گے۔اور اب قادیانیوں کے نئے خلیفہ کے انتخاب کا قضیہ سنگین صورت اختیار کر گیا ہے ۔اور اسی روز کے اداریے میں اس اخبار نے الزام لگایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو قتل کی دھمکیاں دینی شروع کر دی ہیں اور یہ فرضی مظلوم بجائے پولیس کے پاس جانے کے ،خوفزدہ ہو کرسیدھا نوائے پاکستان کے مدیر کے پاس آئے ہیں ۔بالکل اسی انداز میں حضرت عثمان ؓ کے عہد میں منافقین نے ان الزام پر مشتمل افواہیں اڑانی شروع کی تھیں کہ حضرت عثمان ؓ اپنے مخالفین کو قتل کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ اور پھر نوائے پاکستان نے ۱۲ اگست کو یہ لا یعنی خبر شائع کی کہ حضرت مصلح موعودؓ نے مخالفین کو ان کی جائیدادوں سے محروم کر دیا ہے اور ان کا مخالف گروپ عبد المنان عمر صاحب کو خلیفہ بنانا چاہتا ہے۔ اس سے مقصد یہ تھا کہ منافقین کو ایک مظلوم کے روپ میں پیش کر کے ان کے لئے ہمدردیاں حاصل کی جائیں۔
اب جبکہ اس سازش میں پیغامیوں کا نام آ چکا تھا اور یہ حقائق بھی شائع ہو چکے تھے کہ اس سازش کے کرتا دھرتا لوگ پیغامیوں کے ساتھ مل کر یہ فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ غالباََ پیغامی اس صورتِ حال کے لئے پوری طرح تیار نہیں تھے اور ان کا خیال تھا کہ وہ ایک لمبا عرصہ یہ پروپیگنڈا کرتے رہیں گے اور اس منصوبے کا کوئی خاطر خواہ نوٹس نہیں لیا جائے گا ۔حتیٰ کہ جب ماحول ان کے لئے پوری طرح سازگار ہو جائے گا تو پھر وہ اس فتنہ کا آخری مرحلہ شروع کر دیں گے۔ جب وہ نظامِ خلافت سے منکر ہو کر علیحدہ ہوئے تو انہیں امید تھی کہ اپنی مداہنت کی وجہ سے انہیں مبائعین کے مقابلہ پر تبلیغ میں نمایاں کامیابی ملے گی۔لیکن نتیجہ اس کے بالکل بر عکس نکلا۔ خلافت سے وابستہ جماعت تیزی سے ترقی کرتی رہی اور غیر مبائعین کی جماعت مردنی کا شکار ہوتی رہی۔ اب وہ اپنے میں زندگی کی رمق پیدا کرنے کے لئے کوشش کر رہے تھے کہ خلافت سے وابستہ جماعت کو خلافت سے بد ظن کرکے اپنا ہم نوا بنا لیں۔لیکن ایک ماہ کے اندر تیزی کے ساتھ ان کی سازش کی حقیقت سب ظاہر ہوگئی اور یہ بھی ظاہر ہونے لگا کہ اس فتنے کو بھڑکانے کی کوششوں میں وہ بھی بنیادی کردار ادا کر رہے تھے۔اب انہوں نے یہ حکمتِ عملی اپنائی کہ ان کے ترجمان ’پیغامِ صلح ‘ نے یہ لکھناشروع کیا کہ ان لوگوں نے خواہ مخواہ بات کا بتنگڑ بنا لیا ہے،اللہ رکھا تو مفلوک الحال سا شخص ہے۔(۳۴)اور خواہ مخواہ ہمارے پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ ہم نے اللہ رکھا کو اس کام پر لگایا ہؤا ہے ۔ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔وہ تو ایک معمولی جھلا سا درویش ہے ۔یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہر شخص سے اس کی جان پہچان ہو۔کئی شہادتوں سے یہ معلوم ہؤا تھا کہ اللہ رکھا اور پیغامیوں کے ایک لیڈر میں میاں محمد صاحب کا آپس میں تعلق ہے۔اس لئے میاں محمد صاحب نے پیغامِ صلح میں لکھا کہ میں نے ہر گز اُس کے ساتھ کوئی ساز باز نہیں کی وہ کچھ مرتبہ میرے پاس آیا تھا اور میں نے اسے غریب جان کر اس کی مدد کر دی۔اور اس سے زیادہ ہمارا اس کے ساتھ کچھ تعلق نہیں۔(۳۵)پیغامِ صلح نے اس الزام کا ذکر کرتے ہوئے کہ اللہ رکھا کا پیغامی جماعت کے قائدین سے کوئی تعلق ہے لکھا،
’ہم ان کے تمام بیانات کو پڑھ کر حیران ہیں کہ جو قیاس آرائیاں انہوں نے حضرت مولنا صدرالدین صاحب یا جناب میاں محمد صاحب کے متعلق کی ہیں انہیں ان کی کسی خاص دماغی کیفیت کا نتیجہ قرار دیں یا فتنہ منافقین کا اثر۔کم از کم ان شہادتوں میں اللہ رکھا یا دوسرے منافقین کے متعلق وہ پیش کر رہے ہیں،حضرت مولٰنا صدرالدین صاحب یا جناب میاں محمد صاحب یا جماعتِ لاہور کے کسی اور فرد کا کوئی ذکر نہیں پایا جاتا،پھر انہوں نے کس طرح ان کو اس ناپاک سازش میں ملوث قرار دے دیا۔خلیفہ صاحب کو معلوم ہونا چاہئیے کہ حضرت مولانا صدرالدین صاحب اور جناب میاںمحمد صاحب کا مقام اس سے بہت بلند ہے،جو اُنہوں نے سمجھا ہے۔۔۔‘(۳۴)
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اللہ رکھا تو ایک نیم دیوانہ سا شخص ہے اس کی باتوں کو سنجیدگی سے کیا لینے کی ضرورت ہے۔تو مندرجہ ذیل حقائق ہی اس بات کو خلافِ عقل قرار دے دیتے ہیں۔ ۱۹۴۵ء سے پہلے سے یہ شخص مختلف مقامات پر جا کر جماعتی عہدیداروں کے خلاف بد ظنیاں پھیلا رہا تھا ۔حتیٰ کہ حضور کو اس کے متعلق الفضل میں اعلان شائع کرانا پڑا ۔۱۹۴۷ء کے پر آشوب دور میں جب کہ مشرقی پنجاب مسلمانوں سے تقریباََ مکمل طور پر خالی ہو چکا تھا اور کوئی مسلمان آزادی سے باہر بھی نکل سکتا تھا ،اُس وقت یہ شخص قادیان جا پہنچتا ہے اور نہ صرف غریب درویشوں کو تنگ کرتا ہے بلکہ ایسے مقامی افسران سے تعلقات بھی بنا لیتا ہے جو مسلمانوں سے تعصب رکھتے تھے اور ان کے ساتھ مل کر درویشوں کے خلاف مقدمات بھی بنا نے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔پھرپاکستان میں یہ شخص جگہ جگہ پھر کر مہم چلاتا ہے اور جب الفضل میں اس مہم کی حقیقت شائع ہوتی ہے تو ایک سے زیادہ ملکی اخبارات اس کی مدد شروع کر دیتے ہیں۔اور اسکے الزامات اور چیلنجوں کو اتنی اہمیت دی جاتی ہے کہ کوہستان اخبار جس کے ایڈیٹر نسیم حجازی صاحب تھے جو کہ کئی کتابوں کے مصنف تھے،اللہ رکھا صاحب کے الزامات پر تین تین کالم کے مضامین لکھتے ہیں(۳۶) اوراخبار نوائے پاکستان نے اس کے الزا مات اور سرگرمیوں کو اپنے اخبار کے صفحہ اول پر جگہ دی۔گیارہ بارہ سال پر محیط ان سب حقائق کی موجودگی میں اگر کوئی یہ اصرار کرے کہ اس شخص کی کاروائیوں کو سنجیدگی سے کیا لینے کی ضرورت ہے تو پھر ایسی دانشمندی کا کوئی علاج نہیں۔اصل میں ایسی سازشیں صرف اُس وقت پنپتی ہیں جب الٰہی جماعت ان خطرات کا پوری طرح اندازہ نہ کرے اور سب اس سے آگاہ نہ ہوں۔ جب سازش کرنے والوں نے دیکھا کہ پوری جماعت ہوشیار ہو گئی ہے تو پیغامِ صلح کے ذریعہ تھپک تھپک کر سلانے کی کوشش کی گئی کہ کوئی خطرہ نہیں غفلت کی نیند سو جاؤ۔ جہاں تک پیغامیوں کے اس دعویٰ کا تعلق ہے کہ ان کا اس سازش سے کوئی تعلق نہیں اور الفضل میں شائع ہونے والی شہادتوں میں بھی ان کے قائدین کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں پایا جاتا تو نہ معلوم لکھنے والے نے کس ذہنی رو میںایسا لکھ دیا تھا کیونکہ اس دعویٰ کی اشاعت سے صرف چند روز پہلے ہی ۲۸ اور ۲۹ جولائی کو ایسی واضح شہادتیں شائع ہو ئی تھیں کہ یہ شخص پیغامیوں کا لٹریچر تقسیم کرتا رہا،ان کے قائدین سے بار بار ملا، ان کے ہاں کھانا بھی کھاتا رہا ۔اور سب سے دلچسپ بات یہ کہ پیغامِ صلح میں شائع ہونے والے اس دعوے کی قلعی ۱۹۷۴ء میں پوری طرح کھل گئی جب اللہ رکھا کا غیر مبایعین سے جھگڑا ہو گیا اور اس نے امروز میں اظہارِ حقیقت کے نام سے اپنا ایک بیان شائع کرایا جس کا آغاز ہی اس اعتراف سے ہوتا ہے کہ اللہ رکھا صاحب ۱۹۵۰ء سے نہ صرف پیغامیوں سے منسلک تھے بلکہ اُن کے ہیڈ کوارٹر احمدیہ بلڈنگز میں بھی مقیم تھے اور ان کا کام کرتے تھے۔اور پھر انہوں نے غیر مبایعین پر مالی الزامات کے علاوہ اپنے خلاف سازش کرنے کے بھی الزامات لگائے۔اس طرح خدا نے اس جھوٹ کی پردہ دری کردی۔(۳۷)
حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کو اللہ تعالیٰ نے بہت زیرک طبیعت عطا فرمائی تھی۔اس مرحلے پر جبکہ بہت سے احمدی اس فتنہ کی گہرائی کو نہیں بھانپ رہے تھے ،آپؓ نے ۳ اگست ۱۹۵۶ء کو الفضل میں ایک مختصر مضمون شائع فرمایا ۔حالانکہ آپ کی طبیعت میں ایک حجاب تھا اور آپ نے بہت کم مضمون تحریر فرمائے ہیں۔آپ نے احبابِ جماعت کو اس فتنہ میں اپنے لئے اور اپنے اہل و عیال کی دعاؤں کے لئے تلقین فرمائی اور تحریر فرمایا
’بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا فتنہ ہے اور ایک ادنیٰ درجہ کا ذلیل آدمی اس کا پراپیگنڈا کر رہا ہے۔اس کے خلاف حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو اس شد و مد سے مخالفت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔فتنے ہمیشہ ابتدائََ چھوٹے ہؤا کرتے ہیں اور اگر وقت پر ان کو نہ سنبھالا جائے تو اتنے پھیل جاتے ہیں کہ پھر کسی انسان کے کے بس کی بات نہیں رہتی ۔۔۔۔کسی فتنہ کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئیے خصوصاََ جبکہ مرکز اس کو اہمیت دیتا ہو۔کیونکہ مرکز میں ایسے حالات پہنچتے ہیںجن کا عام جماعت کو پتہ بھی نہیں ہوتا ۔اس لئے میں پھر آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس فتنہ کو چھوٹا نہ سمجھیں بلکہ بہت بڑا فتنہ سمجھیں ۔یہ صرف اللہ رکھا کی کاروائی نہیں ہے ۔بلکہ اس کے پیچھے ایک گروہ ہے۔اگرچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے میں سمجھتا ہوں کہ وہ منافق جو اپنے آپ کو ہماری جماعت سے منسوب کرتے ہیں۔ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔مگر باہر سے مدد کرنے والے کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ ‘(۳۸)
بیرونی مدد گاروں میں سے کچھ سامنے آ تے ہیں:
زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی بات بالکل صحیح ثابت ہو گئی۔ منافقین کی پشت پناہی کرنے والا گروہ کھل کر ان کی مدد کو آ گیا۔اگست کے آخر اور ستمبر کے شروع میں بہت سے ملکی اخبارات اس فتنہ کی اعانت کھل کر کرنے لگے۔اخبار کوہستان خاص طور پر ان مفسدین کی اعانت کر رہا تھا اور عملاََ یہ صورتِ حال تھی کہ ہر دوسرے دن اس میں اس فتنہ کے متعلق کوئی نہ کوئی شر انگیز خبر شائع ہوتی تھی۔عملاََ یہ اخبار مفسدین کے ترجمان کا کردار ادا کر رہا تھا۔اور ان کے بیانات اور خطوط کو بڑے اہتمام سے شائع کرتا تھا اور ان پر ہونے والے فرضی مظالم کی خبر بنا کراس کو شائع کرتا ، پھر اس کی مذمت اس خبرکے ساتھ شائع کی جاتی(۳۹،۴۰)۔
کوہستان نے ایک طویل اداریہ لکھا اور اس میں عبد المنان صاحب عمر اور اللہ رکھا صاحب کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش بھی کی۔اس اداریے میں لکھا
’مرزا صاحب اس خلفشار کو چند شریر آدمیوں کے سر منڈھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن حقائق کچھ اور ہیں۔اللہ رکھا ،عبد المنان عمر اور چند ایک طالب علم صرف اس بغاوت کے حقیقی کردار نہیں ہیں۔یہ خلفشار ایک ذہنی انقلاب کی تمہید ہے۔یہ بات صرف یہاں تک محدود نہیں ہے کہ قادیانی قوم کے کچھ افراد مرزا صاحب کو خلافت سے اس لئے اتارنا چاہتے ہیں کہ وہ بوڑھے ہو گئے ہیں۔یا ان کی ذہنی صحت اور جسمانی قویٰ جواب دے چکے ہیں۔۔
یہ صرف تخت کے وارثوں کا جھگڑا نہیں ہے جو لوگ اب تک ان کو آنکھیں بند کر کے نعوذ باللہ نبی ولی مہدی ملہم اور امیر المومنین سمجھتے تھے۔ان کی آنکھوں سے پٹیاں کھل رہی ہیں۔وہ محسوس کر رہے ہیں کہ زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے۔جس تقدس ،الہام ،نبوت ،علمِ کلام اور سلسلہ اوھام و خرافات کو وہ حقیقت اور دین سمجھ بیٹھے تھے وہ دکان داری اور دھوکہ ہے اور ایک شخص اپنی چالاکی اور ہوشیاری سے انہیں اب تک بیوقوف بناتا رہا ہے۔۔
ہمارے نزدیک اب اس مذہب کو تاریخی قوتوں کے حوالے کر دینا چاہئیے۔وہ خود ہی اس سے نبٹ لیں گی۔‘(۴۱)
تاریخ نے کیا شہادت دی؟اس اداریہ کے بعد جماعت نے ترقی کی یا تنزل کا شکار ہوئی۔ان سوالات کے جواب میں کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔مخالفین کی عادت ہے کہ ہر کچھ سالوں کے بعد انہیں جماعت کی تباہی کے خواب آنے شروع ہو جاتے ہیں اور جلد ہی ان کی خوش فہمیاں دم توڑ دیتی ہیں۔اس مرتبہ بھی یہی ہؤا ۔کوہستان کی خام خیالی جلد ہی دم توڑ گئی ۔یہ اخبار بند ہو کر ماضی کا قصہ بن گیا مگر جماعت ِ احمدیہ پہلے سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرتی رہی۔
پاکستان ٹائمز نے خبر لگائی کہ چالیس سال کے بعد ایک بار پھر جماعت ِاحمدیہ میں خلافت کے مسئلہ پر تفرقہ پڑ گیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگرکسی ایسے شخص کو لیڈر بنایا گیا جس کی پوری جماعت عزت نہیں کرتی تو جماعت پھر تقسیم ہوجائے گی۔اور لکھا کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے بار باخطبات میں متنبہ کیا ہے کہ تفرقہ پیدا کرنے والوں سے ہوشیار رہیں اور ان کی نگرانی کریں۔ عبد المنان عمر کو ان حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے علم اور روحانی فضیلت کی بنا پر نوجوان نسل میں بہت مقبول ہو گئے ہیں۔دوسری طرف مخالفین محسوس کرتے ہیں کہ مرزا ناصر احمد کو غیر رسمی طور پر جماعت کو چلانے کے اختیارات دیئے جا رہے ہیں۔انہیں انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کا صدر مقرر کر دیا گیا ہے۔(۴۲) روزنامہ نوائے وقت نے اداریہ لکھا کہ احمدیوں نے جن کے خلاف منافقت کا الزام لگایا ہے اُن کاسوشل بائیکاٹ کر کے ان پر ظلم کیا ہے۔ پھر مرزا صاحب احمدیوں کے سوشل بائیکاٹ کی کس منہ سے شکایت کر تے ہیں۔(۴۳)۔اور نوائے پاکستان نے بھی یہی الزام لگاتے ہوئے لکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے حکم پر مولوی عبدالوہاب صاحب کا سوشل بائیکاٹ کر دیا گیا ہے تا کہ انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جائے(۴۴) ۔ یہ ویسے ہی مضحکہ خیز الزام تھا ۔اُس وقت تک جن مفسدین کے نام سامنے آ رہے تھے،وہ لاہور اور دیگر ایسے شہروں میں رہ رہے تھے جہاں پر احمدیوں کی تعداد دو تین فیصد سے زیادہ نہیں تھی۔خود مولوی عبدالوہاب صاحب لاہور میں رہائش پذیر تھے۔احمدیوں کے لئے کسی طرح یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ ان کا ایسا بائیکاٹ کریں کہ یہ لوگ بنیادی حقوق سے ہی محروم ہو جائیں۔بلکہ ایسے شہر میں جہاں احمدی صرف دو تین فیصد ہوں وہاں پر اُن کی طرف سے کسی قسم کے بائیکاٹ کی مہم چلانا ایک بے معنی بات تھی۔لیکن ایسی صورت میں جب مفسدین اس قسم کے الزام لگا رہے تھے کہ جس میں آپس کے میل ملاپ سے اشتعال پیدا ہونے کا اندیشہ تھا تو اگر احمدیوں نے ان سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔
مخالفین اس فتنہ سے بہت سی امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔اور بہت سے اخبارات اور رسائل اپنے بچگانہ جوش کا اظہار کر رہے تھے ۔ہفت روزہ المنیر نے اس یقین کا اظہار کیا کہ
’بظاہر اس امر کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ ان کے جانشین خواہ مرزا ناصر ہوں یا ظفراللہ یاعبدالمنان ہوں یا کوئی دوسری شخصیت قادیانی جماعت کا اسپر متحد ہونا اور منظم رہ کر جوں کا توں پاکستان میں ربوہ کی ریاست کو قائم رکھنا اور بیرونِ پاکستان اپنے کام کو وسیع کرتے چلے جانے کا سلسلہ حسبِ سابق باقی رہے سوائے اس کے کہ قادیانیوں کی مخالفت کرنے والی بعض جماعتیں حسبِ سابق ایسی حماقتوں اور غلط کاریوں کو نہ اپنائیں جو قادیانیوں کو منظم ہونے پر مجبور کر دیں۔‘(۴۵)
ایک طرف تو المنیر یہ اعتراف کر رہا ہے کہ اب تک احمدیت کی مخالفت کرنے والی جماعتیں جو پالیسی اپنائے ہوئی تھیں،اس میں حماقت کا عنصر غالب تھا اور دوسرے اس المنیر کی اس پیشگوئی کو اب پچاس برس کا عرصہ گذر گیا،جماعت کا شیرازہ بکھرنے کا خواب پورا نہیں ہؤا اور احمدیت ترقی پر ترقی کرتی گئی،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ المنیر کی یہ خام خیالی بھی سوائے خوش فہمی کے کچھ نہیں تھی۔
اس پس منظر میں جب کہ بہت سے لوگ فتنہ پروروں کی مدد پر کمر بستہ نظر آتے تھے۔ نوائے پاکستان نے بڑے فخر سے خبر شائع کی کہ اکثر قادیانیوں نے تنگ آ کر ربوہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے(۴۶)۔اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کہ مخالفین کو پوری امید ہو چکی تھی کہ وہ اپنی سازشوں سے جماعت ِ احمدیہ کے ایک کثیر حصہ کو نظامِ خلافت سے بد ظن کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
۳۱ ؍اگست اور یکم ستمبر کی درمیانی رات کو حضورؓ کو ایک رؤیا دکھائی گئی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ مفسدین کے مددگار ان کی مدد سے ہاتھ کھینچ کر انہیں تنہا چھوڑ دیں گے۔حضورؓ فرماتے ہیں
’میں نے دیکھا کہ اماں جی (حضرت خلیفۃالمسیح اول ؓکی بیگم) بھی اس دنیا میں آئی ہوئی ہیں اور فرشتے سارے جوّ میں وہ آیتیں پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہیں۔جو قرآنِ شریف میں یہودیوں اور منافقوں کے لئے آئی ہیں۔اور جن میں یہ ذکر ہے کہ اگر تم کو مدینہ سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی مدینہ سے نکل جائیں گے۔اور اگر تمہارے سے لڑائی کی گئی ۔تو ہم بھی تمہارے ساتھ ملکر مسلمانوں سے لڑائی کریں گے ۔لیکن قرآنِ کریم منافقوں سے فرماتا ہے۔کہ نہ تم یہودیوں کے ساتھ ملکر مدینہ سے نکلو۔اور نہ ان کے ساتھ ملکر مسلمانوں سے لڑو گے۔یہ دونوں جھوٹے وعدے ہیں اور صرف یہودیوں کو انگیخت کرنے کے لئے اور فساد پر آمادہ کرنے کے لئے ہیں۔اس آخری حصہ پر فرشتے زیادہ زوردیتے ہیں۔‘(۴۷)
اور ستمبر میں ہی آپ کو ایسی رؤیا دکھائی گئی جس میں اس قسم کے فتنوں کے ظاہر ہونے کی حکمت بیان کی گئی تھی۔حضورؓ فرماتے ہیں
’میں نے خواب میں دیکھا جیسے کوئی غیر مرئی وجودمجھے کہتا ہے ( اغلباََ فرشتہ ہی ہو گا)کہ اللہ تعالیٰ جو وقفہ وقفہ کے بعد جماعت میں فتنہ پیدا ہونے دیتا ہے تو اس سے اسکی یہ غرض ہے کہ وہ ظاہر کرے کہ جماعت کس طرح آپ کے پیچھے پیچھے چلتی ہے۔یا جب آپ کسی خاص طرف مڑیں تو وہ کس سرعت سے آپ کے ساتھ مڑتی ہے ۔یا جب آپ اپنی منزلِ مقصود کیطرف جائیں۔تو وہ کس طرح اسی منزلِ مقصود کو اختیار کر لیتی ہے۔جب وہ فرشتہ یہ کہہ رہا تھا تو میری آ نکھوں کے سامنے جلاہوں کی ایک لمبی تانی آئی جو بالکل سیدھی تھی۔اور میرے دل میں ڈالا گیا ۔کہ یہ صراطِ مستقیم کی مثال ہے جس کی طرف آپکوخدا لے جا رہا ہے۔اور ہر فتنہ کے موقع پر وہ دیکھتا ہے کہ کیا جماعت بھی اسی صراطِ مستقیم کی طرف جا رہی ہے کہ نہیں۔‘(۴۸)
جیسا کہ ۱۹۵۳ء کے حالات کے بیان میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ مختلف اخبارات اور رسائل نے صوبائی حکومت سے مالی مدد وصو ل کر کے ایک سازش کے تحت جماعت کی منظم مخالفت کی تھی اور تحقیقاتی عدالت نے اپنی رپورٹ میں اس سازش کی تفاصیل درج کی تھیں۔اب ایک بار پھر مختلف اخبارات اُسی پرانے انداز میں جماعت کے خلاف مہم چلا رہے تھے۔فتنہ پروروں کا جھوٹاپراپیگنڈا بہت اہتمام سے شائع کیا جاتا تھا اور جماعت کی طرف سے اس کی تردید شائع نہ کی جاتی۔الفضل میںتردید تو شائع ہو جاتی مگر ملکی اخبارات نے جماعت احمدیہ کے بیانات کا بائیکاٹ کیا ہؤا تھا۔ یہاں تک بھی ہوتا کہ ایک شخص کے متعلق اخبار کوہستان میں شائع ہوتا کہ ربوہ میں اُس پر بہت ظلم کئے جا رہے ہیںکیونکہ وہ عبد المنان عمر صاحب کے دفتر میں کام کرتا تھا ،حتیّٰ کہ خلیفہ صاحب کے حکم پر اُس کے بیوی بچے بھی اُس سے چھین لئے گئے ہیں اور اُس بیچارے کو اس کی کانوں و کان خبر بھی نہ ہوتی اور ملکی اخبارات کے دروازے تردید شائع کرنے کے لئے بند ہو تے، چنانچہ وہ شخص الفضل میں تردید شائع کراتا کہ مجھ پر کوئی ظلم نہیں ہؤا،میرے بیوی بچے تو میرے پاس ہیں (۴۹تا۶۷)۔ لیکن ان اخبارات کے جھوٹے پراپیگنڈے کے پیچھے بھی سطحی ذہنیت نظر آتی تھی۔یہ جھوٹ بھی اس طرح بولتے تھے کہ صاف نظر آئے کہ جھوٹ بولا جا رہا ہے۔اخبار کوہستان نے اگست میں یہ سنسنی خیز خبر شائع کی کہ ربوہ میں مظالم اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ،’میاں عبدالمنان عمر (مرزا ناصر کے متوقع حریف)کی امریکہ کو روانگی کے وقت جو لوگ انہیں الوداع کہنے کے لئے گئے تھے ان کی فہرست تیار کی جا رہی ہے ۔اور یہ بھی انتظامات کئے جا رہے ہیں کہ کسی طرح انہیں مجبور کر کے اظہارِ ندامت پر مجبور کیا جائے‘(۶۷)۔اس فتنہ کے شروع ہونے سے قبل ۱۶ جون ۱۹۵۶ء کے الفضل میں ان لوگوں کے نام شائع ہوئے تھے جو مولوی عبد المنان عمر صاحب کو الوداع کہنے کے لئے سٹیشن پر آئے تھے اور ان میں سب سے نمایاں نام خود حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا ہی تھا۔
اس موقع پر اخبارات نے وہی پرانا راگ منظم انداز میں الاپنا شروع کیا کہ ربوہ ریاست کے اندر ایک ریاست بن چکا ہے۔۷ ستمبر کی ا شاعت میں الفضل نے اس صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا
’’ان اخبارات میں سے جنہوں نے ایک پلان کے مطابق ایک ہی مضمون ’ریاست در ریاست‘پر ایک دو دن کے اندر اندر ادارئیے لکھے ہیں ایک سفینہ بھی ہے۔اس سے پہلے چٹان ،نوائے وقت،آفاق کے اداریوں کا جائزہ لیا جا چکا ہے۔اور جو الزامات ان اداریوں میں ایک سوچی سمجھی ہوئی تجویز کے مطابق جماعتِ احمدیہ اور اس کے نظام پر لگائے گئے ہیں۔ان کا کسی قدر تفصیلی جواب ہم دے چکے ہیں۔۔۔
کوہستان، سفینہ اور آ فاق تو ابتداء ہی سے جماعتِ احمدیہ کے خلاف جو افترائیں گھڑی جا رہی ہیں،احراری اخبار نوائے پاکستان کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔البتہ نوائے وقت اور چٹان اپنے معمولی راستہ سے ذراہٹ کر د ’’اداریہ نویسی ‘‘کی اس مہم میں شامل ہو گئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ غور کرنے والا دماغ آ سانی سے سمجھ سکتا ہے کہ یکدم ایک ہی مضمون پرتقریباََ ایک ہی انداز سے ان اخبارات کا لکھنا کوئی خاص معنی رکھتا ہے۔اور کوئی ایک ہاتھ ہے ،جس نے ان مختلف اخبارات کو ایک ہی وقت میں ایسے اداریوں پرقلم اُٹھانے کی تکلیف دی ہے۔‘‘(۵۰)
اس کے جواب میں سب سے زیادہ سرگرمی سے نوائے وقت نے تردید کی ۔اور ۹ ستمبر ۱۹۵۶ء کو ایک اداریہ ’’الفضل کا نا پاک بہتان‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔اس میں الفضل کے اداریے کا ذکر کر کے لکھا
’’ہمیں یقین ہے کہ ہمارے معاصرین ’الفضل ‘ کو اس بہتان کا مناسب جواب دیں گے ۔ ہم نوائے وقت کی طرف سے اس ناپاک الزام کے جواب میں صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ *** اللہ علی الکاذبین! معاصر الفضل عقلِ سلیم سے کام لیتا توشاید اسے یہ بات بھی سوجھ جاتی کہ نوائے وقت آفاق چٹان کوہستان سفینہ نوائے پاکستان ایک ہی ادارہ کے اخبار نہیں ہیں۔نہ ان سب کا ایک ہی سیاسی مسلک ہے ۔نہ ایک ہی پالیسی ۔نہ یہ سب ایک ہی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ مختلف الخیال اخبارات احمدیوں یا قادیانیوں کی موجودہ روش پر بیک زبان معترض ہیں تو شاید جماعت کی اس روش میں ہی کوئی نقص ہو جس نے ان سب اخبارات کو ایک ہی انداز میں سوچنے پر مجبور کر دیا ہو ؟ مگر جہاں اندھی عقیدت نے دماغ کو ماؤف کر رکھا ہو وہاں عقل سے کون کام لیتا ہے ؟ اندھی عقیدت کو یہ کمال حاصل ہے کہ جہاں گدھے گھوڑے نظر آ تے ہیں وہاں بے نظر رسی پر بھی گماں گذرتا ہے کہ سانپ ہے۔‘‘(۵۱)
اس تحریر کی تلخی کو نظر نداز کرتے ہوئے اگر ہم اس تحریر کا تجزیہ کریں تویہ بات واضح نظر آتی ہے کہ حمید نظامی صاحب ایڈیٹر نوائے وقت یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ مذکورہ اخبارات ایک ہاتھ کے اشارے پر ایک منصوبہ بندی کے تحت احمدیت کے خلاف لکھنا شروع کردیں کیونکہ ان کا تعلق مختلف اداروں اور سیاسی جماعتوں سے ہے۔اول تو عقل ہی اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کیونکہ مالی لالچ دے کر ،دباؤ ڈال کر یا کسی گروہ کی مخالفت اگر آپس میں قدرِ مشترک ہو تو مختلف اداروں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف سیاسی ذہنیت رکھنے والے اخبارات بھی کسی گروہ کے خلاف مشترکہ مہم چلا سکتے ہیں۔اور صحافت کی تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ اور حمید نظامی صاحب کو یہ بات نہیں لکھنی چاہئیے تھی کیونکہ۱۹۵۳ء میں جب مختلف اداروں کے ماتحت نکلنے والے اور مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اخبارات نے مشترکہ طور پر جماعتِ احمدیہ کے خلاف شر انگیز پراپیگنڈا شروع کیا تو سب سے پہلے حمید نظامی صاحب نے ہی وزیرِ اطلاعات کے سامنے الزام لگایا تھا کہ مختلف اخبارات کی اس مہم کے پیچھے ایک ہی ہاتھ ہے اور ایک سرکاری افسر میر نور احمد صاحب کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا کہ یہی صاحب اس تحریک کے سب مضامین لکھوا رہے ہیں۔(۵۲) اور تحقیقاتی عدالت کے سامنے انہوں نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ مختلف اخبارات میں جماعت کے خلاف چھپنے والے مضامین کے نکات ایک ہی صاحب فراہم کرتے تھے اوریہ شکوہ بھی کیا تھا کہ ان کے اخبار کو سرکاری اشتہارات سے اس کا حصہ نہیں ملتا رہا تھا(۵۳)۔۱۹۵۳ء کے فسادات کے دوران انہوں نے وزیرِ اعظم پاکستان کے سامنے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ یہ سب مختلف اخبارات حکومتِ پنجاب سے اعانت لے کر جماعتِ احمدیہ کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ حمید نظامی صاحب کویہ سب کچھ اُس وقت عقلِ سلیم کے خلاف نہیں لگ رہا تھا مگر اب جب وہ خود جماعتِ احمدیہ کے خلاف چلنی والی رو میں بہہ گئے توانہوں نے اُسی بات کو خلافِ عقل کہنا شروع کر دیا جس کو سب سے پہلے بیان کرنے والے وہ خود تھے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ جب اخبارات اور رسائل نے اس فتنہ کے دوران جماعت کے خلاف مہم شروع کی تو اُس وقت جیسا کہ حوالہ دیا جا چکا ہے یہ اخبارات لکھ رہے تھے کہ جماعتِ احمدیہ میں بغاوت ہو گئی ہے اور یہ خلفشار ایک ذہنی انقلاب کی تمہید ہے، احمدیوں کی آنکھوں سے اندھی عقیدت کی پٹیاں کھل رہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔اور اب چند ماہ کے بعد یہ رونا رو رہے تھے کہ اندھی عقیدت نے ان لوگوں کے دماغوں کو ماؤف کر دیا ہے اور یہ عقل سے کام نہیں لیتے،اس لئے انہیں گدھا بھی گھوڑا دکھائی دیتا ہے ۔اس تبدیلی کی وجہ یہ تھی کہ اب انہیں یہ نظر آ رہا تھا کہ چند منافقین کے علاوہ ساری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت کے دامن سے چمٹی ہوئی ہے اور یہ سازش ناکام ہو رہی ہے۔ حضورؓ کی زیرِ نگرانی نظامِ جماعت اور جماعتی جرائد خصوصاََ الفضل نے اس طرح پوری جماعت کو ہوشیار کیا تھا کہ مخالفین اور منافقین کا پراپیگنڈا نا کام ہو گیا تھا۔جب یہ سازش شروع ہوئی تو اس کے کرتا دھرتا اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ وہ احمدیوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر اب اپنی ناکامی پر کچھ جھنجلائے ہوئے لگ رہے تھے۔ان دنوں میں رسالہ چٹان میں ایک مضمون نگار نے لکھا
’ویسے قادیانی کچھ مجنون سے ہیں۔وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہیں۔چونکہ خلیفہ صاحب ’’دین‘‘ اور حکومت ’’دنیا ‘‘ ٹھہری اس واسطے وہ اپنے عقائد سے مجبور ہو کر خلیفہ صاحب کے برپا کردہ نظام کو حکومت کے نظام پر ترجیح دیتے ہیں۔وہ انکم ٹیکس نہ دیں ۔یا اس سے گریز و فرار اختیار کریں ،چندے سے ان کو مفر نہیں۔اگر ایسا ہو کہ وہ چندہ دیںیا انکم ٹیکس ۔وہ دین کو دنیا پر مقدم کریں گے۔وہ چندہ ادا کریںگے۔‘‘(۶۸)
مندرجہ بالا سطور میں یہ ماتم واضح نظر آ رہا ہے کہ ہم نے بعض اربابِ اقتدار کو بھی احمدیوں کے خلاف کر کے دیکھ لیا مگر یہ ایسے مجنون ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم کئے چلے جا رہے ہیں۔اسی بات کا رونا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ احمدی سب سے زیادہ قانون کی پابندی کرنے والے ہوتے ہیں۔
جس وقت اس فتنے کا آغاز ہؤا ،اُسوقت حضرت خلیفۃالمسیح اولؓ کے چھوٹے صاحبزادے ،مولوی عبد المنان عمر صاحب امریکہ میں تھے۔جب امریکہ کے مشنری انچارج صاحب کو حضرت مصلح موعودؓ کے ابتدائی پیغامات پر مشتمل الفضل ملے تو اُنہوں نے نیو یارک میں جماعت کے مبلغ مکرم نورالحق انور صاحب کو ہدایت دی کہ وہ بوسٹن پہنچ کر مولوی عبد المنان صاحب سے رابطہ کریں۔ مولوی نو رالحق انور صاحب۷ اگست کو بوسٹن پہنچے اور انہیں اخبار الفضل کے تازہ پرچے پڑھنے کے لئے دیئے۔یہ الفضل پڑھ کر اُنہوں نے بجائے اظہارِ ندامت کے کچھ ایسا اظہار کیا کہ بات کچھ نہیں تھی امیر صاحب لاہور ،مکرم چوہدری اسداللہ خان صاحب کی عبد الوہاب عمر صاحب کے ساتھ کچھ ناراضگی تھی ،جس کا انہوں نے بدلہ لیا ہے۔مولوی نورالحق صاحب نے اُن کو اُن گواہیوں کی طرف توجہ دلائی جو مختلف لوگوں نے دی تھیں ،اسداللہ خان صاحب نے نہیں دی تھیں۔مگر وہ اسی بات پر مصر تھے کہ بات کا بتنگڑ بنا لیا گیا ہے۔البتہ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ ا’ن کے اور مولوی عبد الوہاب صاحب کے اللہ رکھا صاحب سے دیرینہ تعلقات ہیں اور وہ ربوہ آ کر بھی اُنہیں ملتے رہے ہیں۔اور کہا کہ اُن سے مولوی عبد الوہاب صاحب نے یہ کہا تھا کہ حضورؓ پر کام کا بوجھ زیادہ ہے اس لیے حضورؓ کسی کو اپنا قائم مقام بنا دیں اور یہ اظہار بھی کیا کہ پیغامی اُن سے جتنا تعلق رکھتے ہیں،اتنا تعلق جماعت کے لوگ بھی نہیں رکھتے اور ربوہ میں بھی دور دور سے سفر کر کے ان سے ملنے آتے رہے ہیں۔ستمبر کے پہلے ہفتہ میں مولوی عبد المنان صاحب امریکہ سے ربوہ پہنچ گئے۔ حسبِ سابق اخبار نوائے پاکستان نے اُن کی آ مد کی خبر بہت نمایاں کر کے شائع کی اور لکھا کہ ان کی آ مد کے ساتھ اب جماعتِ احمدیہ میں ضرور بغاوت زور پکڑ جائے گی۔چنانچہ ۱۳ ستمبر ۱۹۵۶ء کے روز نوائے پاکستان نے صفحہ اول پر سب سے نمایاں سرخی شائع کی
’مسٹر عبد المنان عمر کی امریکہ سے واپسی پر قادیانی خلافت کی کشمکش تیز ہو جائے گی‘
’اکثر قادیانی ترکِ مرزائیت کر کے مشرف با سلام ہو رہے ہیں‘
اس کے نیچے یہ خبر درج تھی کہ خلافت کے امیدوار عبد المنان عمر امریکہ سے واپس ربوہ پہنچ گئے ہیں۔ ربوہ سٹیشن پر مسٹر عبد المنان عمر کے حامیوں نے ان کا پر جوش خیر مقدم کیا اور مسٹر عبد المنان کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا۔اور مزید لکھا کہ جلد مرزا محمود کے خلاف تحریک ِ عدم اعتماد پیش ہونے والی ہے ۔وغیرہ وغیرہ ۔اس خبر کو لکھتے ہوئے اس اخبار نے جھوٹ بولنے کے اپنے ہی قائم کردہ سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے۔لیکن یہ ضرور ظاہر ہو اجاتا ہے کہ مخالفینِ سلسلہ اس فتنہ سے کیا کچھ امیدیں وابستہ کئے بیٹھے تھے۔
مولوی عبد المنان صاحب کے سامنے ایک راستہ کھلا تھا کہ وہ خلافت سے اپنی وابستگی کا اعلان کرتے اور جو ان کا نام لے کر منافقین پراپیگنڈا کر رہے تھے اور اس بات کا اظہار کر رہے تھے کہ آئندہ خلیفہ اُنہیں ہونا چاہئیے اس سے اظہارِ بیزاری کرتے اور اخبارات میں ان کا نام لے کر جو پراپیگنڈا کیا جا رہا تھا اس کی بھی واضح تردید کرتے۔مگر اُنہوں نے ایسا نہیں کیا۔۱۴ ستمبر کو حضورؓ نے مری میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرمایا
’موجودہ فتنہ میں بھی یہ راستہ کھلا تھاکہ وہ لوگ جنہوں نے اس میں حصہ لیا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے کہ الٰہی ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔مگر میں نے دیکھا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے ان دنوں جماعت سے بعد اختیار کیا ہے ان میں سے صرف ایک شخص ایسا ہے جس نے صحیح راستہ اختیار کیا ہے۔ باقی کسی نے بھی صحیح طریقہ اختیار نہیں کیا۔اس نے پہلی توبہ کی مگر جب اس سے کہا گیا تمہاری توبہ کا کیا اعتبار ہے تو اس نے جھٹ ایک مخالف اخبار کے بیان کی تردید لکھ کر اسے بھجوا دی کہ مجھ پر کوئی ظلم نہیں کیا گیا اور میرے بیوی بچے بھی میری تحویل میں ہیں ۔اور پھر اس کی ایک نقل الفضل میں بھی بھجوا دی اور لکھا کہ میں احمدیت پر قائم ہوں یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیںکہ مجھ سے میرے بیوی بچے چھین لئے گئے ہیں ۔مگر باقیوں کو یہ توفیق نہیں ملی کہ وہ یہی طریقہ اختیار کرتے ۔۔۔۔
اگر یہ لوگ سیدھی طرح صداقت اختیار کر لیںتو نہ کوئی سزا رہتی ہے اور نہ جماعت سے اخراج کا کوئی سوال رہتا ہے۔اگر ایک شخص الفضل والوں کو اپنے دستخطوں کے ساتھ یہ لکھ کر بھجوا دیتا ہے کہ میرے متعلق جو یہ کہا جاتا ہے کہ میں خلافت کا امیدوار ہوں یہ بالکل جھوٹ ہے۔ایک خلیفہ کی موجودگی میں میں خلافت کے امیدوار پر *** بھیجتا ہوں ۔اور اگر کوئی دوست میری نسبت ایسے خیال کا اظہار کرتا ہے کہ خلیفہ کی موجودگی میں یا اس کے بعد یہ شخص خلافت کا مستحق ہے تو میں اس کو بھی *** سمجھتا ہوں۔اسی طرح جو پیغامی یہ کہتے ہیں کہ جماعت مبایعین حضرت خلیفہ اول کی ہتک کرتی ہے۔میں اس کو بھی جھوٹا سمجھتا ہوں۔ گزشتہ بیس سال میں میں دیکھ چکا ہوں کہ پیغامی جماعت حضرت خلیفہ اولؓ کی ہتک کرتی رہی ہے ۔اور مبایعین ان کا دفاع کرتے رہے ہیں۔تو اس کے بعد ہر احمدی سے کہہ سکتے تھے کہ اب ہم اور کیا طریق اختیار کریں۔‘‘(۵۵)
اس خطبہ میں حضورؓ نے اس فتنہ میں ملوث افراد کو ایک بڑی سیدھی راہ دکھائی تھی جس پر چل کر وہ اگر چاہیں تو اپنی بریت کا سامان کر سکتے تھے۔اور اپنی سابقہ غلطیوں کے ازالے کی کوشش کر سکتے تھے۔کیونکہ اگر وہ یہی سمجھتے تھے کہ ایک خلیفہ کی زندگی میں کسی دوسرے شخص کوآئندہ خلافت کے لئے مستحق قرار دیا جا سکتا ہے یا اُن کا یہی خیال تھا کہ پیغامیوں کا یہ پراپیگنڈا کہ جماعت احمدیہ مبایعین حضرت خلیفہ اولؓکی توہین کرتی رہی ہے تو ویسے ہی ان کا جماعتِ احمدیہ مبایعین کے عقائد سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن اگر ایسا نہیں تھا تو پھر مذکورہ بالا بیان کے اظہار میں کوئی تاخیر یا تردد نہیں ہونا چاہئیے تھا۔اس پر عمل کرنے کی بجائے مولوی عبد المنان صاحب عمر نے پیغامیوں کے اخبار پیغام ِ صلح میں اپنا ایک اعلان شائع فرمایا جس میں قولِ سدید سے کام لینے کی بجائے یہ عبارت بھی درج تھی۔
’میرا یہ عقیدہ ہے کہ ایک خلیفہ کی مو جو دگی میں دوسرے کے لئے تجویز خواہ وہ اُس کی وفات کے بعد کیلئے ہی کیوں نہ ہوحتماََ نا جائز ہے خلافتِ حقہ اپنے ساتھ بے انتہا برکتیں رکھتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ہاتھ اُس کے اوپر ہوتا ہے۔وہ جماعتی اتحاد و ائتلاف کے قیام اور الٰہی نور کے اظہار کا ذریعہ ہے۔لیکن جو خلافت منصوبوں ،سازشوں ،اور چالبازیوں اور ظاہر یا مخفی تدبیروں سے قائم کی جائے وہ اپنی ساری برکتیں کھو دیتی ہے۔اسے اقتدار یا حکومت کا نام تودیا جا سکتا اسے یزیدی خلافت تو کہا جا سکتا ہے لیکن وہ خلافتِ راشدہ نہیں ہو سکتی۔نہ اس کی برکات سے اسے حصہ ملتا ہے۔‘اس کے بعد انہوں نے تحریر کیا کہ میرا اس قسم کی سازشوں سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ ذو معنی بیان اس طریق کے مطابق ہر گز نہیں تھا جو حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا تھا ۔اس میں واضح مؤقف بیان کرنے کی بجائے دوسروں کو خوش کرنے کے راستے کھلے رکھے گئے تھے ،تبھی انہوں نے بخوشی اسے شائع کر بھی دیا تھا۔
لیکن وقت گذرتا گیا اور انہوں نے اس طریق پر عمل نہیں کیا جو حضرت مصلح موعود ؓ نے بیان فرمایا تھا۔ مولوی عبد المنان صاحب اور ان کے ساتھی حضورؓ کی طرف سے دی جانے والی مہلت کا بھی کوئی فائدہ نہیں اُٹھا رہے تھے۔اس دوران یعنی ستمبر اور اکتوبر کے مہینے میںان کی پشت پناہی والے اخبارات کی حکمتِ عملی یہ تھی کہ وہ دو تین مفسدین کے نام سے خطوط شائع کر رہے تھے کہ ہمارے پر ظلم کیا جا رہا ہے اور ہمارا سوشل بائیکاٹ کرکے ہمارا جینا محال کردیا گیا ہے۔جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے جو لوگ ربوہ سے باہر رہ رہے تھے ان کا یہ کہنا کہ احمدیوںنے ہمارا سوشل بائیکاٹ کر کے ہم پر بہت ظلم کیا ہے ایک بے معنی بات تھی کیونکہ ربوہ سے باہر پاکستان میں احمدی تو فقط دو تین فیصد تھے وہ اس پوزیشن میں ہی نہیں تھے کہ کسی کا سوشل بائیکاٹ کریں بلکہ انہیں تو اقلیت ہونے کے ناطے خود بارہا سوشل بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔(۵۶)ہاں اتنا ضرور تھا کہ اس فتنے میں ملوث کچھ اشخاص کے والدین اور بھائیوں نے اس بات کی شہادت دی تھی کہ یہ لوگ شرارتوں میں ملوث ہیں اور ان سے قطع تعلق کر لیا تھا ۔اور یہ لوگ ربوہ سے باہر رہتے تھے اور اس طرح اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ انہوں نے یہ فیصلہ کسی نا جائز دباؤ کے تحت کیا تھا۔(۵۷،۵۸)کسی شخص کو یہ مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ اگر اُس کا کوئی قریبی رشتہ دار مفسد ہو اور اُسے تکلیف پہنچائے اور جن شخصیات سے وہ عقیدت رکھتا ہے اُنہیں سب و شتم کا نشانہ بنائے تو وہ اس سے ضرور تعلق رکھے۔یہ مفسد کوئی شیر خوار بچے تو نہیں تھے کہ اگر اُن کے والدین یا بھائیوں نے اُن سے قطع تعلق کر لیا تو ان کے بنیادی حقوق متاثرہو گئے ۔اور پاکستان کے بہت سے اخبارات جو اس پر سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے وہ خود معمولی رقوم لے کر روزانہ تھوک کے حساب سے اشتہارات شائع کرتے تھے کہ فلاں نے اپنے بیٹے کو نا فرمانی کی وجہ سے عاق کر دیا یا اُس سے قطع تعلق کر لیا۔
لیکن معلوم ہوتا ہے کہ خلافِ توقع اِن اخبارات کو ایسے چند احمدی بھی نہیں مل رہے تھے جو انہیں اظہارِ مظلومیت سے بھرپور خطوط مہیا کریں تا کہ انہیں اِن اخبارات کی زینت بنایا جائے کہ کیونکہ اب پاکستان ٹائمز اور کوہستان جیسے اخبارات کوگمنام خطوط اور مراسلے شائع کرنے کی ضرورت پڑ رہی تھی ۔کبھی ان کے نام کی جگہ صرف ایک احمدی درج ہوتا اور کبھی ’ایک واقفِ حال احمدی ‘کے نام سے لمبی لمبی داستانیں ملکی اخبارات میں چھپ رہی تھیں۔(۵۹تا۶۶)اور تو اور جب پیغامِ صلح نے اپنی طرف سے ربوہ میں ہونے والے بے پناہ مظالم کے ایک عینی شاہد گواہ کا مضمون شائع کیا تو اس پر نام کی بجائے فقط یہ لکھا ہؤا تھا’ربوہ کے ایک صاحبِ نظر نوجوان کے قلم سے‘ اور اس مضمون کے مطابق ربوہ میں ہر قسم کے مظالم کا بازار گرم تھا ۔کوئی دو شخص اپنی مرضی سے کھڑے ہو کر بات بھی نہیں کر سکتے تھے،ہر وقت دیواروں سے جاسوس چمٹے رہتے تھے،سوشل بائیکاٹ کر کے لوگوں کی زندگی اجیرن کی جا رہی تھی۔وغیرہ وغیرہ اور یہ صاحبِ نظر نوجوان بیچارا ایک عرصہ سے منتظر تھا کہ لاہور آ کر بقول اُسکے پیغامِ صلح میں لکھنے والے پاک اور نظیف مٹی سے بنے ہوئے احباب کی زیارت سے فیضیاب ہو سکے(۶۰)۔لیکن اس صاحبِ نظر نوجوان کو صرف پوسٹ بکس تک کا راستہ ہی نظر آتا تھا جہاں آکر اس گمنام مظلوم نے پیغامِ صلح میں چھپنے کے لئے اپنا مضمون سپردِ ڈاک کیا۔ اگر ذرا سامنے نظر دوڑا کر دیکھتا اور فقط دومنٹ چلنے کی زحمت گوارا کر لیتا تو مین روڈ پر پہنچ جاتا اور بس میں بیٹھ کر ہمیشہ سے ایسے قصبے سے نکل جاتا جہاں پر بقول اُس کے کسی قسم کی آزادی حاصل نہیں تھی اور زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی تھی۔ اُس وقت تو ربوہ میں کئی بنیادی سہولیات بھی مہیا نہیں تھیں۔ ابھی تو کچے مکانوں سے پکے مکانوں میں منتقل ہونے کا عمل بھی مکمل نہیں ہؤا تھا۔پانی کے لئے بھی ماشکی کا منتظر رہنا پڑتا تھا اور کسی قسم کی اقتصادی ترقی کے راستے نہیں کھلے تھے۔وہاں تو کوئی مخلص احمدی بھی بہت قربانی کر کے اور اسے جماعت کا مرکز سمجھ کر ہی رہ سکتا تھا ۔پھر یہ تمام گمنام مظلوم صرف مضمون نویسی پر اکتفا کیوں کر رہے تھے وہاں سے نکل کر آزادی کی فضا میں کیوں سانس نہیں لیتے تھے۔بہر صورت اُس وقت بہت سے اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں ،خبروں سے زیادہ کسی غیر معیاری جاسوسی ڈائجسٹ کی کہانیاں معلوم ہوتی تھیں۔اور ان خبروں کو سنسنی خیز بنانے کے لئے دھماکہ خیز سرخیوں کا سہارا لیا جاتا ۔ایک دن سرخی لگائی جاتی ’خلافت کے دعوے داروں میں زبردست مقابلہ شروع۔خلافتِ ربوہ کے رضاکاروں نے مسٹر عبد المنان کے بچوں کو اُن سے چھین لیا۔‘(۶۱)پھر یہ دیکھ کر کہ اس کا تو کوئی اثر نہیں ہؤا یہ سرخی جمائی جاتی،’ربوہ کا انتظام سابق قادیانی فوجیوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا ۔مرزا بشیر الدین محمود کے مخالفوں کی خانہ تلاشیاں ہو رہی ہیں۔‘(۶۲)
اس شور وغوغا کو کچھ دیر کے لئے چھوڑ کر ہم اصل واقعات کی طرف واپس آتے ہیں۔جب ان مفسدین نے حضورؓ کی طرف سے بتائے گئے طریق سے کوئی استفادہ نہیں کیا تو پھر حسبِ قواعد نظامِ جماعت حرکت میں آیا اور ربوہ ،لاہور اور دوسری جماعتوں نے ریزولیشن کی صورت میں ۱۳ مفسدین کے متعلق سفارش بھجوائی کہ اپنی حرکات کی وجہ سے انہوں نے خود جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی ہے اس لئے ان کے اخراج از نظامِ جماعت کی سفارش کی جاتی ہے ۔اس پر کاروائی کرتے ہوئے صدر انجمن احمدیہ نے حضورؓ کی خدمت میں مولوی عبد المنان صاحب ،مولوی عبد الوہاب صاحب ، غلام رسول صاحب ،عبد الحمید صاحب ڈاہڈا صاحب وغیرہ کے اخراج از نظامِ جماعت کی سفارش کی۔ اور حضورؓ نے یہ سفارش منظور فرمالی اور یہ اعلان ۲۳ اکتوبر ۱۹۵۶ء کے الفضل میں شائع کر دیاگیا۔
مفسدین کی مایوسی ،ایک اور زہریلا وار:
پہلے تو فتنہ پروروں کو یہ امید تھی کہ احمدیوں کی ایک خاطر خواہ تعداد اُن کا ساتھ دے گی اور نظامِ خلافت سے بد ظن ہو جائے گی ۔چنانچہ نوائے پاکستان نے یہ دعویٰ شائع کیا کہ اخراج از جماعت کے اعلان کے بعد بہت جلد جماعت کے عہدیداروں کی ایک بڑی تعداد نظامِ خلافت کے خلاف اُٹھ کھڑی ہو گی اور دنیا حیران رہ جائے گی اور یہ بھی لکھا کہ جلد مرزا بشیر الدین محمود احمد پاکستان سے چلے جانے پر مجبور ہو جائیں گے(۶۹)۔مگر وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہے تھے۔جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ کو رؤیا میں دکھایا گیا تھا ان کی پشت پناہی کرنے والے چند منافقین نے بھی انہیں تنہا چھوڑ دیا اور وہ بڑی حسرت سے اپنی سازش کو ناکام ہوتا دیکھ رہے تھے۔کوئی بھی ان کا ساتھ دینے پر آ مادہ نہیں ہو رہا تھا۔ جماعت پر ان کی حقیقت کھل چکی تھی۔ایسی صورت میں ہمیشہ دشمن غیظ و غضب سے بھر کر پہلے سے بھی زیادہ زہریلا وار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اس موقع پر بھی ایسا ہی ہؤا۔چند دن بعد ۲۶ اکتوبر ۱۹۵۶ء کو جماعت کے اشد مخالف اخبار آزاد میں یہ خبر شائع ہوئی کہ جماعتِ احمدیہ میں اسلام کے نام پر ظلم و تشدد کے خلاف اور روحانیت کے نام سیاسی ہتھکنڈوں کو بے نقاب کرنے کے لئے ’حقیقت پسند پارٹی ‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی گئی ہے اور اُس کے عہدیداروں کا اعلان بھی کیا گیا۔اور یہ اپیل کی گئی کہ ہر وہ شخص اس کا ممبر بن سکتا ہے جو روحانیت کے نام پر کئے گئے سکینڈل کو بے نقاب کرنے کو تیار ہو۔(۶۳)۔اس مرحلے پر بھی پیغامِ صلح فتنہ کو بھڑکانے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔چنانچہ اکتوبر ۱۹۵۶ء میں پیغامِ صلح کے ایک مضمون میں یہ اعلان شائع ہؤا۔اس کی نا شائستہ زبان کا کچھ حصہ من و عن اس لئے دیا جا رہا ہے تا کہ ان کے اندازِ تحریر کا کچھ اندازہ ہو سکے
’محمودیت نے اپنے پیرؤوں میں سے آزادیِ رائے مسلوب کر رکھی ہے ۔استبدادیت کی زنجیریں دن بدن محکم سے محکم تر کی جا رہی ہیں۔جب جورو ستم حد سے زیادہ بڑھ جائیں تو اس کا ایک زبردست ردِ عمل ہوتا ہے۔اب خود ربوہ میںایک زبر دست تحریک ِ آزادی اٹھی ہے جس کا علمبردار نوجوانوں کا ایک ترقی پسند طبقہ ہے۔جو شاید اس طلسم کو توڑ کر رکھ دے۔اس تحریک سے خلیفہ بوکھلا اُٹھا ہے ۔اس کا دماغی توازن قائم نہیں رہا… تمہارے اور ہمارے درمیان اب صرف محمودیت ہی کا پردہ ہے اس کو بھی چاک چاک کر دو۔ ہم ربوہ کے آزادی پسند عناصر کا خیر مقدم کرتے ہیں۔اس تحریکِ آزادی میں جو علماء اور مبلغین حصہ لے رہے ہیں ۔وہ جونہی محمودیت کے حصار سے آزاد ہوںوہ ہمارے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں ۔ہمارے ہاں ان کے لئے عزت کی جگہ ہے۔تبلیغ کے لئے مواقع ہیں ۔ تقریر کے لئے سٹیج ہے ۔تبلیغ کے لئے تنظیم ہے۔‘(۷۰)
پہلے تو پیغامی یہ کہہ رہے تھے کہ ان کا اس ناپاک سازش سے کوئی تعلق نہیں اور اب یہ اعلان کر رہے تھے کہ ہم تمہارا ساتھ دیں گے،اپنا سٹیج تمہیں پیش کریں گے اور ہماری تنظیم تمہاری مدد کرے گی۔ علاوہ ازیں یہ اندازِ تحریر اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ اس فتنہ کی پشت پناہی والے خود بوکھلا رہے ہیں کیونکہ وہ اس گمان میں تھے کہ انہوں نے احمدیوں کو خلافت سے بد گمان کرنے کے لئے بہت عمدہ مکر و فریب کئے ہیں۔لیکن عملاََ ہو یہ رہا تھا کہ نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ممالک کی جماعتیں بھی مفسدین کی حرکات سے اظہارِ نفرت کر رہی تھیں۔اور منافقین کی حقیقت نہ صرف سب پر ظاہر ہو گئی تھی بلکہ یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ وہ تنہا ہیں اور کوئی احمدی اُن کا ساتھ دینے کو آ مادہ نہیں۔
حقیقت پسند پارٹی کے نام پر وجود میں آ نے والے اس گروہ کا کام تھا کہ وہ جماعت ِ احمدیہ اور اس کی مقدس ہستیوں کے خلاف نہایت فحش الزامات پر مشتمل لٹریچر شائع کرتا ۔ان کا لٹریچر اس قدر غلیظ ہوتا کہ کوئی شریف آدمی اسے دہرا بھی نہیں سکتا ۔یہ لٹریچر احمدیوں اور غیر احمدیوں میں تقسیم کیا جاتا اور اس پر کبھی ساگر ہوٹل لاہور اور کبھی لٹن روڈ لاہور کا ایڈریس تحریر ہوتا ۔اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ یہ فحش الزامات پڑھ کر کوئی احمدی اشتعال میں آئے اور انہیں اس بہانے جماعت احمدیہ کے خلاف از سرِ نو فتنہ بھڑکانے کا بہانہ ملے۔ان کا خیال تھا کہ وہ یہ ہتھکنڈے استعمال کر کے اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن یہ گروہ بھی جلد خائب و خاسر ہو گیا۔اس پارٹی کی پشت پناہی بھی بیرونی ہاتھ کر رہا تھا۔اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے ہو سکتا ہے۔ایک بار مکرم صاحبزادہ مرزاانس احمد صاحب ابن حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب مری میں ایک ہومیوپیتھ ڈاکٹر صاحب سے ملے اور اُس سے کچھ تبلیغی گفتگو ہوئی۔پھر ان ڈاکٹر صاحب نے لاہور میں صاحبزادہ صاحب کی ایک ریستوران میںدعوت کی۔اور کہا کہ ایک اور صاحب بھی احمدیت میں دلچسپی رکھتے ہیں،آپ سے ملواتا ہوں۔اس پر ایک شخص آیا اور کہا کہ میں راحت ملک ہوں۔یہ وہی صاحب تھے جن کا نام حقیقت پسند پارٹی کے سیکریٹری کی حیثیت سے شائع ہوتا تھا۔اس پر صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب نے کہا کہ میں آپ سے ملنا نہیں چاہتا اس لئے یا تو آپ یہاں سے چلے جائیں یا میں چلا جاتا ہوں۔اس پر وہ چلے گئے ۔ایک دو دن میں ہی اخبار نو ائے پاکستان میں خبر شائع ہوئی کہ مرزامحمود نے مخالف گروپ کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔اور ان کے پوتے مرزا انس احمد نے حقیقت پسند پارٹی کے سیکریٹری راحت ملک صاحب سے ملاقات کر کے یہ پیشکش کی ہے کہ وہ صلح کر لیں ۔(۶۵)جب صاحبزادہ صاحب واپس ربوہ پہنچے تو بس کے اڈے پر مولانا محمد شفیع صاحب اشرف آپ کے منتظر تھے اور کہا کہ حضورؓ نے آپ کو بلایا ہے ۔صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب نے سارا واقعہ حضورؓ کی خدمت میں عرض کر دیا۔حضورؓ نے اسی وقت ار شاد فرمایا کہ لاہور جا کر اِن ڈاکٹر صاحب کی گواہی لے آئیں چنانچہ اسی وقت لاہور جا کر اِن ڈاکٹر صاحب کی تحریری گواہی لے لی گئی۔
یہ مد نظر رہنا چاہئیے کہ اس وقت حضورؓ ایک خطرناک علالت سے نکلے تھے اور ڈاکٹر وں نے آپ کو ہر حال میں آرام کا مشورہ دیا تھا ۔لیکن جب اس فتنے نے سر اُٹھایا تو آپ نے اپنا آرام ترک کرکے دن رات اس فتنے کی نگرانی فرمائی اورسرکوبی فرمائی۔جب حضورؓ پر بیماری کا حملہ ہؤا تو یورپ جانے سے قبل حضورؓ کی طبیعت اتنی علیل تھی کہ حضورؓ نمازیں اور جمعہ پڑھانے بھی نہیں آ سکتے تھے۔جو گروہ جماعت میں تفرقہ پیدا کرنا چاہتا تھا اس نے خیال کیا کہ اُن کی کاروائیوں کے لئے مناسب ترین وقت آ گیا ہے۔اور انہوں نے برملا اس بات کا اظہار کرنا شروع کر دیا کہ حضورؓ کی صحت بحال ہونا اب ممکن نہیں اور جو پیغام حضورؓ کے نام سے شائع ہو رہے ہیں ان کو بھی حضرت مرزابشیر احمد صاحبؓ درست کر کے شائع کرواتے ہیں(۷۱)۔لیکن یورپ پہنچ کر حضورؓ کی صحت تیزی سے بہتر ہونی شروع ہو گئی اور واپس آ کر حضور ؓ نے نہ صرف خود اس فتنے کی نگرانی فرمائی بلکہ چند ماہ میں تفسیرِصغیر مکمل کرنے کا عظیم الشان کام بھی چند ماہ میں مکمل فرمایا۔لیکن جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی بہتر صحت کی خبریں یورپ سے موصول ہو رہی تھیں تو یہ گروہ ان خبروں کو خودساختہ خیال کر کے اپنی سازش کو آگے بڑھا نے میں مشغول تھا۔اور حضورؓ کی آ مد تک یہ معاملہ اتنا آگے بڑھ چکا تھا کہ اسے واپس لینا ان کے لئے ممکن نہیں تھا۔
اخراج از نظامِ جماعت کے بعد ان لوگوں کے سامنے ایک سیدھا راستہ کھلا تھا کہ وہ حضورؓ سے معافی کے طلبگار ہوتے اورجو مختلف شہادتوں میں ان پر الزامات لگائے گئے تھے ان کی وضاحت پیش کرتے یا سابقہ حرکات پر توبہ کر کے یقین دلاتے کہ آ ئندہ وہ اس قسم کی حرکات کے مرتکب نہیں ہوں گے۔ان میں ایسے مفسدین بھی شامل تھے جو پہلے حضور کو معافی کا خط لکھتے اور لکھتے کہ وہ کچھ اور لوگوں کے بہکانے میں آ گئے تھے،لیکن اس سے مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ کچھ دیرجماعت میں رہ کر اپنا کام جاری رکھ سکیں کیونکہ کچھ ہی عرصہ بعد وہ صاف انکار کر دیتے کہ ہم نے تو کوئی معافی مانگی ہی نہیں تھی اور پھر اپنی شرارتیں شروع کر دیتے(۷۲) ۔
لیکن اس کی بجائے کہ حضورؓ کی خدمت میں خط لکھا جاتا یا کسی جماعتی دفتر کو لکھا جاتامولوی عبدالمنان عمر صاحب نے کوہستان جیسے اشد مخالف اور فتنہ پرور اخبار میں اپنا ایک خط شائع فرمایا جس پر سرخی تھی ،’ قادیانی خلافت سے دستبرداری ‘ اور اس میں لکھا کہ میں خلافتِ احمدیہ پر ایمان رکھتا ہوں ۔ اور یقین رکھتا ہوں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور معزول نہیں ہو سکتا۔ ایک خلیفہ کی زندگی میں یہ کہنا ناجائز ہے کہ فلاں شخص خلیفہ ہو گا یا اسے نہیں ہونا چاہئیے یہ نا جائز ہے ۔اور اس فتنہ کو کھڑا کرنے والوں سے بیزار ہوں۔اور میں حضرت خلیفۃ المسیح کے وجود کو ایک عظیم نعمت سمجھتا ہوں۔(۷۳)
یہ اخبار تو پہلے ہی لکھ رہا تھا کہ اس فتنہ میں مولوی عبد المنان عمر وغیرہ ملوث نہیں ہیں اور ان پرخواہ مخواہ الزامات لگائے جا رہے ہیں ۔یہ خط دوبارہ اسی اخبار میں شائع کروایا گیا اور اس کے بعد اس کی ایک کاپی الفضل کو بھجوا دی گئی۔ظاہر ہے کہ اس خط پر معافی کی کوئی کاروائی نہیں ہو سکتی تھی ،یہ کاروائی صرف اس صورت میں ہو سکتی تھی جب حضورؓ یا متعلقہ دفتر میں اس کے لئے لکھا جائے۔ سلسلہ کے دشمن اخبار میں اسے شائع کرانے سے توغرض صرف پراپیگنڈا ہی ہو سکتی تھی،حضور ؓ نے الفضل میں ایک اعلان کے ذریعہ انہیں ایک بار پھر توجہ دلائی کہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ براہِ راست حضورؓ سے معافی طلب کریں پھر اس پر غور کیا جائے گا۔لیکن مولوی عبد المنان صاحب اور ان کے ساتھیوں نے ایک بار پھر اس سیدھے سادھے طریق سے اعراض کیا۔(۷۴)اور سب پر حقیقت ظاہر ہو گئی۔
جلد ہی مولوی عبدالمنان صاحب اور مولوی عبدالوہاب صاحب اور اس سازش میں دیگر احباب پیغامی جماعت میں شامل ہو گئے۔اور مولوی عبد المنان صاحب نے تو ۱۹۷۴ء میں جو وفد پیغامی جماعت کی طرف سے پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش ہؤا اس میں بھی شرکت کی۔اُس وقت تو مولوی عبد المنان صاحب یہی دعوے ر رہے تھے کہ مجھ پر ظلم کیا جا رہا ہے اور میں خلافتِ احمدیہ پر ایمان رکھتا ہوں اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خلافت پر دل و جان سے ایمان رکھتا ہوں۔لیکن سچ ہمیشہ چھپا نہیں رہتا۔ پہلے تو جب انہوں نے پیغامی جماعت میں شمولیت اختیار کی تو اس سے ہی واضح ہو گیا کہ ان کے سابقہ دعوے غلط تھے۔کیونکہ غیر مبایعین میں شمولیت کے اعلان سے ہی واضح ہو جاتا تھا کہ ان کا نظامِ خلافت پر اعتقاد نہیں ہے۔لیکن حقیقت اُس وقت زیادہ واضح ہو کر سامنے آگئی جب ۲۰۰۲ میں ان کے انٹرویوز کا ایک سلسلہ انٹر نیٹ پر نشر ہؤا۔اس میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ
’ میں نے کبھی مرزا محمود احمد صاحب کو خلیفہ راشد ،خلیفہ برحق تسلیم نہیں کیا۔۔نہ میرا کوئی ایسا خط روزنامہ کوہستان کے نام ہے نہ کسی اور کے نام۔‘
ان کے اس بیان کے بعد کسی بحث و تمحیص کی گنجائش نہیںرہتی۔ان کے متعلق تو نظامِ جماعت کی طرف سے یہی کاروائی ہوئی تھی کہ ان کے متعلق یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ان کا اب جماعتِ احمدیہ مبایعین سے کوئی تعلق نہیں۔اگر انہوں نے کبھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو خلیفہ راشد ہی تسلیم نہیں کیا تھا تو پھر یہ اعلان بالکل برحق اور ان کے نظریات کے مطابق تھا۔انہیں کسی قسم کے شکوے کی بجائے اس پر خوش ہونا چاہئیے تھا۔اور لازماََ ایسا شخص جو جماعتِ احمدیہ مبایعین کے مذہبی نظریات سے ہی متفق نہ ہو ،اُن کی مذہبی تنظیم کا عہدیدار نہیں ہو سکتا۔ان کے اعتراف سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ان پر لگائے جانے والے الزامات بالکل درست تھے اور وہ جو اتنا عرصہ گاہے بگاہے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے اظہارِ عقیدت کرتے رہے تھے،یہ سوائے ملمع سازی کے کچھ نہ تھا۔تقریباََ ایک سال قبل مولوی عبدالمنان صاحب اور ان کی اہلیہ کا کیا ہؤا انگریزی ترجمہ قرآن شائع ہؤا۔اس کے پیش لفظ میں حضرت خلیفۃ المسیح الا ول ؓ کے حالاتِ زندگی بھی درج تھے ۔اور ان حالاتِ زندگی میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کے جموں تک جانے کا ذکر تو تھا مگر نہ قادیان آنے یا قادیان ہجرت کرنے کا ذکر کیا گیا تھا اور نہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے کا کوئی ذکر کرنے کی زحمت کی گئی تھی۔ یہ گروہ صداقت کا خون کس آ سانی سے کر سکتا تھا ،اس کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔اس دیدہ دلیری سے حضرت خلیفۃ لمسیح الا ولؓ کی مبارک سوانح سے وہ حصہ حذف کیا گیا ہے جو ان کی زندگی کا اہم ترین حصہ تھا ۔اس پر سوائے انا للہ و انا الیہ رٰجعون پڑھنے کے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔
(۱) مسند امام احمد بن حنبل جلد ۵ ص ۴۰۳ ،مطبوعہ المکتب الاسلامی للطباعۃ و النشر بیروت
(۲) ترمذی کتاب العلم باب الاخذ با لسنۃ(۳) سیرت حضرت عثمان ؓ مصنفہ محمود احمد ظفرص۵۹۴تا ۶۱۲
(۴)مسند ا حمد بن حنبل ،مسند حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ ،حدیث نمبر ۵۵۱۱،۵۷۳۹، صحیح بخاری ،فضائل اصحاب النبیﷺ
(۵) تذکرہ ص۱۷۹ ایڈیشن چہارم(۶) الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۵۶ء ص ۱(۷) الفضل ۲۴ اپریل ۱۹۵۶ء ص ۳
(۸) الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۵۶ء ص۲۔۴(۹) الفضل ۴ اگست ۱۹۳۷ء ص ۴(۱۰)الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۵۶ء ص ۵
(۱۱) ماہنامہ ،خالد دسمبر ۱۹۶۴ء ص ۱۶۸(۱۲) یہ روایت خاکسار نے خود ماسٹر ابراہیم صاحب سے سنی ہے
(۱۳) نظامِ آ سمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر،الناشر الشرکۃ الاسلامیہ،ص ۵۲ ۔۵۳
(۱۴) نظامِ آ سمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر،ناشر الشرکۃ الا سلامیہ ،ص۱۱۷(۱۵) الفضل ۱۶ جون ۱۹۵۶ء ص ۱و ۸
(۱۶) نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظرص ۹۵ تا ۹۷ مطبع ضیاء الاسلام پریس ربوہ
(۱۷) انٹرویو چوہدری محمد علی صاحب (۱۸) الفضل ۳۰ اگست ۱۹۴۵ء ص ۵(۱۹)الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۵۶ء ص ۱
(۲۰) تاریخِ احمدیت جلد ۱۹ ص ۱ تا ۲۷(۲۱) روایت محترمہ بیگم صاحبہ برگیڈیئر ڈاکٹر مبشر احمد صاحب
(۲۲) نظامِ آ سمانی کی مخالفت اور اس کے اسباب ۔ناشر الشرکۃ الاسلامیہ ص۷۴
(۲۲) نظامَ آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر ،الناشر الشرکۃ الاسلامیہ ص۱۰۷۔۱۰۸
(۲۳)الفضل ،۲۷ اگست ۱۹۵۶ء ص۳(۲۴)الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۵۶ء ص ۱و ۲
(۲۵) ضمیمہ الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۵۶ء ص ا(۲۶)الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۵۶ء ص۳(۲۷) الفضل ۴ اگست ۱۹۵۶ء ص ۳و۴
(۲۸)الفضل ۱۴ اگست ۱۹۵۶ء ص۱(۲۹) الفضل ۲۸ اگست ۱۹۵۶ء ص۱(۳۰)الفضل ۲۹ اگست ۱۹۵۶ء ص ۱
(۳۱)الفضل ۳۰ اگست ۱۹۵۶ء ص۱(۳۲) زمیندار ۱۷ اگست ۱۹۵۶ء ص۶(۳۳) نوائے پاکستان،۲ اگست ۱۹۵۶ء ص ۱
(۳۴) پیغامِ صلح ،یکم اگست ۱۹۵۶ء ص۴(۳۵) پیغامِ صلح ،۲۲ اگست ۱۹۵۶ء ص۷تا۹(۳۶)کوہستان ۱۹ ستمبر،۱۹۵۶ء ص ۳
(۳۷)امروز ،۲۱ مئی ۱۹۷۴ء ص۴ ، کوہستان،۲۳ اگست ،۱۹۵۶ء ص۲(۳۸) بحوالہ الفضل ۴ جنوری ۱۹۶۲ء ص ۳ و۴
(۳۹) کوہستان ۲۹ اگست ۱۹۵۶ء ص۲(۴۰)کوہستان ،۲۸ اگست ۱۹۵۶ء ص ۶(۴۱) کوہستان ،۲۹ اگست ۱۹۵۶ء
‏(۴۲) ُPakistan Times ,30 August,1956,(۴۳)نوائے وقت،یکم ستمبر ۱۹۵۶ء ص ۳
(۴۴) نوائے پاکستان،۲۳ اگست ۱۹۵۶ء ص۱(۴۵) المنیر،۳ ستمبر ۱۹۵۶ء ص۱۳
(۴۶) نوائے پاکستان ،۲۹ اگست ،۱۹۵۶ء ص ۱(۴۷)الفضل ۷ ستمبر ۱۹۵۶ء ص۱(۴۸) الفضل ۵ ستمبر ۱۹۵۶ء ص۱
(۴۹) الفضل ۷ ستمبر ۱۹۵۶ء ص۱(۵۰) الفضل ۷ ستمبر ۱۹۵۶ء ص ۲(۵۱)نوائے وقت ،۹ ستمبر ۱۹۵۶ء ص۳
(۵۲) رپورٹ تحقیقاتی عدالت،فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ئ،ص۱۰۷،۳۷۵(۵۳) ملت ۲۵ دسمبر ۱۹۵۳ء ص۷
(۵۴) الفضل ۲۲ ستمبر ۱۹۵۶ء ص ۵(۵۵)الفضل ۲۲ ستمبر ۱۹۵۶ء ص ۵و ۶(۵۶) امروز ،۱۲ ستمبر ۱۹۵۶ء ص۴
(۵۷)الفضل ۲۹ اگست ۱۹۵۶ء ص۱ (۵۸) الفضل ۲۸ اگست ۱۹۵۶ء ص ۸
‏(۵۹) Pakistan Times,30 Sept.1956p4 (۶۰) پیغامِ صلح ،۷ نومبر ۱۹۵۶ء ص ۲
(۶۱) آزاد،۱۴ اکتوبر ۱۹۵۶ء ص ۶(۶۲)آزاد،۲۱ اکتوبر ۱۹۵۶ء ص ۲
(۶۳) آزاد ،۲۶ اکتوبر ۱۹۵۶ء ص۴(۶۴) پیغامِ صلح ،۳ اکتوبر ۱۹۵۶ء ص ۲(۶۵) الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۵۶ء ص۱
(۶۶) کوہستان،۲۳ اگست ۱۹۵۶ء ص۲(۶۷) کوہستان ۲۸ اگست ۱۹۵۶ء ص۶
(۶۸)چٹان لاہور،۲۴ ستمبر ۱۹۵۶ء ص۲۰( ۶۹) نوائے پاکستان، ۲۵ اکتوبر ۱۹۵۶ء ص ۱
(۷۰) پیغامِ صلح ۳۱ اکتوبر ۱۹۵۶ء ص ۶(۷۳)کوہستان ،۱۲ نومبر ۱۹۵۶ء ص ۴
(۷۴) الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۵۶ء ص ۱و ۸
(۷۱) نظام ِ آ سمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر،الناشر الشرکۃ الا سلامیہ ،ص۱۱۰
(۷۲) الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۵۶ء ص ۱
قواعد انتخاب خلافت
جب ایک خلیفہ راشد کی وفات ہوتی ہے تو یہ وقت الٰہی جماعتوں کے لئے بہت نازک ہوتا ہے۔ ایک قسم کی قیامت برپا ہوتی ہے۔اُس وقت جہاں اپنے گھبرائے ہوتے ہیں وہاں دشمن اس امید سے جماعت کو دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ شاید اب ان میں انتشار پیدا ہو۔اُس لمحے ہر مؤمن اس دعا میں مصروف ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا ہاتھ دکھائے اور پھر سب ایک ہاتھ پر جمع ہو جائیں ۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس مرحلہ پر ذرا سی غفلت کا خمیازہ صدیوں تک بھگتنا پڑتا ہے۔اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں جماعت کو اپنی وفات کے بعد ایک دوسری قدرت کے ظہور کی خوشخبری دی وہاں اللہ تعالیٰ کے اس انعام کو حاصل کرنے کے لئے دعاؤں کی تلقین بھی فرمائی۔ جیسا کہ آپ فرماتے ہیں
’ سو تم خدا کی قدرتِ ثانی کے انتظار میںاکھٹے ہو کر دعا کرتے رہو۔اور چاہئیے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکھٹے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھا دے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے۔‘(۱)
تاریخِ اسلام میں ایسا بھی ہؤا ہے کہ ایک خلیفہ نے اپنی زندگی میں اگلے خلیفہ کو نامزد کر دیا اور ایسا بھی ہؤا ہے کہ خلیفہ وقت نے ایک مجلس نامزد کر دی جو اُس کی وفات کے بعد نئے خلیفہ کا انتخاب کرے۔ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور تجویز کیا کہ امیر انصار میں سے ہو یا ایک امیر انصار میں سے اور ایک امیر مہاجرین میں سے ہو ۔اور اس طرح تفرقہ کا خطرہ پیدا ہؤا۔لیکن جب حضرت ابو بکر ؓ نے وہاں جا کر تقریر کی تو لوگوں کے دل بدلنے شروع ہوئے ۔ اور سب نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کی ۔اور اس طرح اسلام میں خلافتِ راشدہ کا با برکت آغاز ہؤا۔حضرت ابوبکرؓ نے اپنی آخری بیماری میںحضرت عمرؓ کو خلیفہ نامزد فرمایا۔اور اس مضمون کی تحریر حضرت عثمانؓ کو لکھوائی جو لوگوں کو پڑھ کر سنا دی گئی۔جب حضرت عمر ؓ پر قاتلانہ حملہ ہؤاتو آپ نے حضرت عثمانؓ ،حضرت علیؓ،حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ،حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ،حضرت زبیرؓ اور حضرت طلحہؓ پر مشتمل ایک مجلس قائم فرمائی جو آپ کی وفات کے بعد اپنے میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کرے۔حضرت عثمان ؓ کی شہادت جن دردناک حالات میں ہوئی اس کا ذکر گذر چکا ہے۔اُس وقت نہ تو حضرت عثمان ؓنے کسی کو خلیفہ نامزد کیا تھا اور نہ ہی کوئی مجلس قائم فرمائی تھی جو نئے خلیفہ کا انتخاب کرے ۔جب حضرت عثمانؓ کی شہادت کے معاََ بعدصحابہ جمع ہوئے تو صحابہؓ نے حضرت علی سے عرض کی کہ لوگوں کے لئے ایک نہ ایک امام کی ضرورت ہے جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔اور آج ہم روئے زمین پر آپ سے زیادہ کسی کو اس کا حقدار نہیں پاتے ۔حضرت علی نے فرمایا کہ بہتر ہے کہ تم کسی اور کو اپنا امیر بنا لو اور مجھے اُس کا وزیر رہنے دو۔مگر وہاں پر موجود صحابہ ؓ نے آپ کی بیعت پراصرار کیا ۔اس پر حضرت علی نے فرمایا کہ جب تم مجھے مجبور کر رہے ہو تو بیعت مسجد میں ہونی چاہئیے۔تاکہ لوگوں پر میری بیعت مخفی نہ رہے۔پھر مہاجرین اور انصار نے مسجد نبوی میں جمع ہو کر آپ کی بیعت کی(۲)۔مگر اُس وقت کے فتنہ کی آگ ہر طرف بھڑکی ہوئی تھی،اس لئے مسلمانوں میں انتشار کا آغاز ہؤا ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد تمام جماعت نے حضرت حکیم نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کی اوراسطرح آپ خلیفۃالمسیح اوّل قرار پائے ۱۹۱۰ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الاول گھوڑی پر سے گر کر زخمی ہوئے تو آپ نے ایک بند لفافے میں آ ئیندہ خلیفہ کے متعلق وصیت لکھ کر اپنے ایک شاگرد کو دی۔مگر طبیعت صحیح ہونے پر اس کو واپس لے لیا۔اپنی آخری بیماری کے دوران ۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو آپ نے یہ وصیت فرمائی کہ
’میرا جانشین متقی ہو۔ہر دلعزیز عالمِ با عمل،حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک چشم پوشی درگزر کو کام میں لاوے۔میں سب کا خیر خواہ تھا وہ بھی خیر خواہ رہے۔‘(۳)
چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وفات کے بعد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کو خلیفۃ المسیح الثانی ؓ منتخب کیا گیا اورمسجد نور میں آپ کی بیعت کی گئی ۔اس مرحلہ پر منکرین خلافت علیحدہ ہو گئے اور لاہور میں اپنی ایک علیحدہ تنظیم قائم کر لی۔۱۹۱۸ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ پر انفلوائنزا کا شدید حملہ ہؤا۔اس حالت میں حضورؓ نے اپنی وصیت حضرت مولوی شیر علی کو لکھوائی اور اُن کی ہی تحویل میں دی گئی۔اس میں حضورؓ نے گیارہ اصحاب پر مشتمل ایک مجلس قائم فرمائی اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب کو اس کا صدر مقرر فرمایا کہ اگر حضورؓ کی وفات ہو جائے تویہ مجلس نئے خلیفہ کا انتخاب کرے ۔حضورؓ نے ارشاد فرمایا کہ پہلی کوشش یہ کی جائے کہ سب ممبران ایک نام پر متفق ہو جائیں ۔اگر ایسا نہ ہو سکے توسب ممبران رات کو اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی سے دعا کریں کہ خدایا ہم پر حق کھول دے۔اگر اگلے روز بھی یہ ممبران ایک نام پر اتفاق نہ کر سکیں تو پھر جس نام کے حق میں 3/5ممبران رائے دیں ،صدر مجلس اُس کی خلافت کا اعلان کرے اور سب اُس کی بیعت کریں۔پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضورؓ کی صحت بہتر ہونی شروع ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ایک لمبے عرصہ تک حضرت خلیفۃالمیسح الثانی ؓ کو یہ توفیق بخشی کہ آپ جماعت کی قیادت فرماویںاور ۱۹۱۸ء ؁ میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی نے یہ قاعدہ بنایا کہ خلیفہ وقت کی وفات کی صورت میں مجلس شوریٰ کا اجلاس بلایا جائے جو نئے خلیفہ کا انتخاب کرے۔لیکن ۱۹۵۶ء ئ؁ میں ظاہر ہونے والے فتنے نے حضورؓ کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ تمام ممبرانِ شوریٰ کا جمع ہونا ایک لمبا کام ہے ،اور یہ خطرہ ہے کہ کہیں اس سے فائدہ اُٹھا کر منافق کوئی فتنہ کھڑا کر دیں ۔اس لئے حضور ؓ نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء کے موقع پر فرمایا کہ مجلسِ شوریٰ کے ممبران کی بجائے صرف ناظران صدر انجمن احمدیہ ،ممبرانِ صدر انجمن احمدیہ ،وکلاء تحریک جدید ،خاندانِ حضرت مسیح موعودؑ کے زندہ افراد(اس سے مراد صرف حضرت مسیح موعودؑ کے بیٹے اور داماد تھے)جامعۃ المبشرین اور جامعہ احمدیہ کے پرنسپل اور مفتیِ سلسلہ جن کی تعداد اُس وقت تین تھی مل کر آئیندہ خلیفہ کا انتخاب کریں گے۔ جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء ؁کے بعد حضورؓ نے مختلف احباب سے مشورہ کے بعد مجلسِ انتخابِ خلافت میں ان اراکین کا اضافہ فرمایا(۱) مغربی پاکستان کا امیر۔ اگر اُس وقت مغربی پاکستان کا ایک امیر مقرر نہ ہو تو علاقہ جات مغربی پاکستان کے امراء (۲)مشرقی پاکستان کا امیر (۳) کراچی کا امیر(۴) تمام اضلاع کے امرائ(۵)تمام سابق امراء جو دو دفعہ کسی ضلع کے امیر رہ چکے ہوں۔گو انتخاب خلافت کے وقت امیر نہ ہوں۔(ان کے اسماء کا اعلان صدر انجمن احمدیہ کرے گی۔) (۶) امیر جماعتِ احمدیہ قادیان (۷) ممبران صدر انجمن احمدیہ قادیان (۸) تمام زندہ صحابہ کرام۔اس غرض کے لئے صحابی وہ ہو گا جس نے حضرت مسیح موعودؑ کو دیکھا ہو،آپ کی باتیں سنی ہوں اور آپ کی وفات کے وقت اس کی عمرکم از کم بارہ سال ہو۔صدر انجمن احمدیہ تحقیق کے بعد ان کے اسماء کا اعلان کرے گی۔(۹) حضرت مسیح موعودؑ کے وہ صحابہ جن کا ذکر حضرت مسیح موعود ؑ نے ۱۹۰۱ء سے قبل کی کتب میں فرمایا ہے اگر وہ زندہ نہیں ہیں ،ان کا بڑا بیٹا بھی اس مجلس کا رکن ہو گا۔ان کے ناموں کا اعلان صدر انجمن احمدیہ کرے گی(۱۰) ایسے تمام مبلغینِ سلسلہ جنہوں نے کم از کم ایک سال بیرونِ ملک کام کیا ہو اور انہیں کسی الزام کے تحت فارغ نہ کیا گیا ہو۔ (۱۱) ایسے تمام مبلغینِ سلسلہ جنہوں نے پاکستان کے کسی صوبہ یا ضلع میں رئیس التبلیغ کے طور پر کم از کم ایک سال کام کیا ہو اور انہیں کسی الزام کے تحت فارغ نہ کیا گیا ہو۔حضورؓ نے ارشاد فرمایا کہ جو ممبران حاضر ہوں گے وہ انتخاب کرنے کے مجاز ہوں گے۔غیر حاضر افراد کی غیر حاضری انتخاب پر اثر انداز نہ ہو گی۔انتخاب خلافت کے مقام اور وقت کا اعلان کرنا مجلس شوریٰ کے سیکریٹری اور ناظرِاعلیٰ کی ذمہ داری ہو گی۔نئے خلیفہ کا انتخاب چوبیس گھنٹے کے اندر ہونا چاہئیے۔مجبوری کی صورت میں زیادہ سے زیادہ تین دن کے اندر انتخاب ہونا ضروری ہے۔ اس دوران صدر انجمن احمدیہ پاکستان جماعت کے جملہ کاموں کو سرانجام دینے کی ذمہ دار ہو گی۔اگر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کی زندگی میں یہ انتخاب ہو تو وہ اس انتخاب کی صدارت کریں گے ۔ورنہ ناظران یا وکلاء میں سے سب سے سینیئر اس کی صدارت کریں گے۔اجلاس شروع ہونے سے قبل اس مجلس کا ہر رکن مجوزہ حلف اُٹھائے گا اور جب خلافت کا انتخاب عمل میں آجائے گاتو منتخب شدہ خلیفہ کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ لوگوں سے بیعت لینے سے قبل یہ حلف اُٹھائے۔
’میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اعلان کرتا ہوں کہ میں خلافتِ احمدیہ پر ایمان رکھتا ہوں اور میں ان لوگوں کو جو خلافتِ احمدیہ کے خلاف ہیں با طل پر سمجھتا ہوں اور میں خلافتِ احمدیہ کو قیامت تک جاری رکھنے کے لیے پوری کوشش کرونگا اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے انتہائی کوشش کرتا رہوں گا ۔اور میں ہر غریب اور امیر احمدی کے حقوق کا خیال رکھوں گا اور قرآن شریف اور حدیث کے علوم کی ترویج کے لیے جماعت کے مردوں اور عورتوں میں ذاتی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی کوشاں رہوں گا ۔‘
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے ایک مجلسِ علمائِ سلسلہ بھی مقرر فرمائی جو انتخابِ خلافت کے قوانین کو ایک ریزولیوشن کی صورت میں تیار کرے اور پھر اسے مجلسِ شوریٰ میں پیش کیا جائے۔ چنانچہ ۱۹۵۷ء کی مجلسِ شوریٰ میںمکرم و محترم مولانا عبد العطاء صاحب نے اس ریزولیوشن کو پیش کیا، یہ اجلاس حضرت مصلح موعودؓ کی صدارت میں منعقد ہؤا۔سب سے پہلے حضورؓ نے دعا کروائی۔اس کے بعد مکرم مولانا عبد العطاء صاحب نے ریزولیوشن پیش کرنے سے قبل ایک تقریر کی جس میں خلافت کی اہمیت بیان کرنے کے بعد کچھ شواہد پیش کئے جن سے پتہ چلتا تھا کہ ابھی بھی ایک گروہ نظامِ خلافت کے خلاف فتنہ پروریوں میں مصروف ہے۔مکرم مولانا صاحب نے فرمایا،
’حضورؓ نے واضح فرمایا ہے کہ خلیفہ خدا ہی مقرر فرماتا ہے۔اس کے لئے کوشش کرنا ناجائز ہے۔خلافت ایک مقدس امانت ہے اور جماعت کا فرض ہے کہ وقت آنے پر نئے خلیفہ کا انتخاب کرے۔لیکن ان جاہ طلب اور فتنہ پرداز لوگوں کو مایوس کرنے اور جماعتی اتحاد کو مستحکم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ابھی سے خلافت کے انتخاب کے متعلق کوئی قطعی فیصلہ کرے ۔‘
بعدہ قواعد انتخاب خلافت جو مجلس علماء سلسلہ نے تجویز کیے تھے مجلس شوریٰ کے سامنے پیش کیے گئے ان قواعد میں ایک بنیادی قانون بھی پیش کیا گیا اور وہ یہ کہ آئندہ خلافت کے انتخاب کے لئے یہی قانون جاری رہے گا ۔سوائے اس کے کہ خلیفہ وقت کی منظوری سے شوریٰ میں یہ مسئلہ پیش کیا جائے اور شوریٰ کے مشورہ کے بعد خلیفہ وقت کوئی اور تجویز منظور کرے۔
اس پر رائے شماری سے قبل حضور ؓ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض جماعتوں نے اپنے نمائندوں سے قسمیں لی ہیں کہ وہ شوریٰ میں اس ریزولیوشن کی تائید کریں ۔اور اس کے خلاف ووٹ نہ دیں ۔بعض لوگوں نے اس پر اعتراض کیا ہے اور وہ اعتراض یہ ہے کہ ہم نے تو اپنے ایمان کی بناء پر اور یہ بتانے کے لئے کہ ہمیں خلافت کے ساتھ وابستگی ہے اور ہم خلافتِ احمدیہ کو کسی صورت میں تباہ نہیں ہونے دیں گے اس ریزولیوشن کی تائید کرنی تھی۔لیکن ہؤا یہ ہے کہ جماعتوں نے ہم سے اس بات کے متعلق حلف لیا ہے کہ ہم ضرور اس ریزولیوشن کی تائید کریں ۔اس طرح گویا ہمارے ثواب کا راستہ بند ہوتا ہے اور ہم اپنے اخلاص کا اظہار نہیں کر سکتے ۔حضورؓ نے فرمایا کہ ان کی یہ بات معقول ہے اس لئے میں انہیں اس حلف سے آ زاد کرتا ہوں۔خلافتِ احمدیہ کو خدا نے قائم کرنا ہے۔اگر کوئی شخص اپنے ایمان میں کمزور ہے اور وہ کوئی ایسا راستہ کھولتا ہے جس کی وجہ سے خلافت احمدیہ خطرہ میں پڑ جاتی ہے تو اس کے ووٹ کی نہ خلافتِ احمدیہ کو ضرورت ہے اور نہ خدا کو ضرورت ہے ۔حضورؓنے واضح فرمایا کہ اس ریزولیوشن کے بعض حصے ایسے ہیں جن پر آئیندہ زمانوں میں دوبارہ غور کی ضرورت ہو گی ۔لیکن جب تک کوئی دوسرا ریزولیوشن منظور نہیں ہو گا اس وقت تک یہ ریزولیوشن قائم رہے گا۔
شوری کے اس اجلاس میں تمام جماعتوں کے۳۴۱ نمائیندگان موجود تھے ۔ان سب نے اس ریزولیوشن کے حق میں رائے دی۔چنانچہ ۱۹۶۵ء ؁ میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ کے وصال پر خلافت ثالثہ کا انتخاب ان قواعد کے تحت ہوااسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے وصال پر خلافت رابعہ کا انتخاب بھی انہی قواعد کے مطابق ہوا۔ خلافت رابعہ کے دور میں ۱۹۸۴ء ؁ اور ۱۹۹۶ء ؁ میں جیسا کہ ہم ذکر کریں گے بعد میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی منظوری سے ان قوانین میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں لیکن بنیادی طور پر انہی قوانین کے تحت خلافتِ ثالثہ ،خلافتِ رابعہ اور پھر خلافتِ خامسہ کا انتخاب عمل میں آیا۔یہ حضرتِ مصلح موعود کا ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے کہ حضورؓ نے انتخابِ خلافت کے جو قوانین مقرر فرمائے ،وہ نظام اتنا با برکت ثابت ہؤا ۔۱۹۵۶ء کا فتنہ بہت سے پہلؤوں سے جماعت کے لئے ایک تکلیف دہ واقعہ تھا مگر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کوخلافت کی برکات کو جاری رکھنے کے لئے ایک مستقل نظام عطا ہؤا۔
جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے ارشاد فرمایا تھا ، وقت کے ساتھ ان قواعد میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں۔۱۹۸۴ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو ہجرت کر کے لندن آنا پڑا ۔اُس وقت حکومتِ پاکستان نے جماعتِ احمدیہ کے خلاف ایسے حالات پیدا کر دیے تھے کہ یہ خطرہ پیدا ہؤا کہ اگر ان حالات میں انتخابِ خلافت کا وقت آ جائے تو مخالفِ احمدیت عناصر اس کاروائی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ارشاد پر انتخابِ خلافت کا ادارہ پاکستان سے باہر منتقل کردینے کی عملی شکل کے بارہ میں مشورہ پیش کرنے کے لئے لاہور میں ایک خصوصی مجلسِ شوریٰ کا اجلاس بلایا گیا۔یہ مجلسِ شوریٰ اسی مسئلہ پر غور کرنے کے لئے بلائی گئی تھی۔اس مجلسِ شوریٰ کی رپورٹ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی خدمت میں پیش کی گئی۔اس پر حضورؒ نے بعض اور پہلوؤں پر غور کر نے کے لئے لندن میں ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی ۔اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ حضورؒ کی خدمت میں پیش کی۔اس کے بعد پاکستان اور بیرونِ پاکستان بعض اور صائب الرائے احباب سے مشورہ لیا گیا۔بعض اور تجاویز پر غور کرنے کے لئے حضورؒ نے ناظر صاحب اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان کو ہدایت فرمائی کہ ممبرانِ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ،تحریکِ جدید انجمن احمدیہ پاکستان اورمجلس وقفِ جدید پاکستان اور بعض امراء اور صائب الرائے احمدیوں پر مشتمل ایک مجلسِ شوریٰ برائے انتخابِ خلافت کا اجلاس منعقد کیا جائے۔یہ اجلاس ۱۰ اکتوبر ۱۹۸۵ء کو پاکستان میں منعقد ہؤا۔ اور اس مشاورت کی سفارشات حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت میں بھجوائی گئیں۔متذکرہ بالا طریق پر غور و فکر اور مشوروں اور دعاؤں کے بعد ۱۹۵۷ء میں منظور شدہ قوانین میں مندرجہ ذیل ترامیم منظور کی گئیں۔ممبرانِ مجلسِ انتخابِ خلافت میں وکلائِ تحریکِ جدید کے علاوہ ممبرانِ تحریکِ جدید کو اور ممبرانِ وقفِ جدید کو بھی شامل کیا گیا۔۱۹۵۷ء میں یہ قاعدہ بنا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے اولین صحابہ یعنی وہ جن کا ذکر حضرت مسیح موعودؑ نے ۱۹۰۱ء سے پہلے کی کتب میں فرمایا ہے وہ اگر فوت ہو چکے ہوں تو اُن کا بڑا لڑکا اس مجلس کا ممبر ہو گا۔اگر جماعت ِ احمدیہ مبایعین میں شامل ہو اور صدر انجمن احمدیہ ان ناموں کا اعلان کرے گی۔اب یہ ترمیم کی گئی کہ صدر انجمن احمدیہ ان ناموں کی فہرست حضرت خلیفۃ المسیح کی منظوری سے تیار رکھے گی ۔ ’’ایسے تمام مبلغین سلسلہ احمدیہ جنہوں نے کم از کم ایک سال بیرونی ممالک میں تبلیغ کا کام کیا ہو اور بعد میں تحریک جدید نے کسی الزام کے ماتحت انہیں فارغ نہ کر دیا ہو(اُن کو تحریک جدید سرٹیفیکیٹ دے گی اور اُن کے ناموں کا اعلان کرے گی ۔ )ایسے تمام مبلیغین سلسلہ احمدیہ جنہوںنے پاکستان کے کسی صوبہ یا ضلع میں رئیس التبلیغ کے طور پر کم از کم ایک سال کام کیا ہو اور بعد میں اُن کو صدر انجمن احمدیہ نے کسی الزام کے تحت فارغ نہ کر دیا ہو (اُنہیں صدر انجمن احمدیہ سرٹیفیکیٹ دے گی اور اُن کے ناموں کا اعلان کرے گی)‘‘ ۱۹۵۷ء میںبننے والے قوانین میں جو مربیان اور مبلغین شامل کئے گئے تھے ،اس میں یہ ترمیم کی گئی کہ مبلغین اور مربیان کی اس قدر تعداد جو مجلسِ انتخاب کی کل تعداد کا ۲۵ فیصد ہو مجلسِ انتخاب کے رکن ہوں گے۔ اس غرض کے لئے صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید مشترکہ اجلاس میں مبلغین اور مربیان کی سینیارٹی لسٹ تیار کریں گے اور مذکورہ تعداد میں ایسے سینیئر ترین مبلغین کی فہرست حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کریں گے ۔اس فہرست میں کسی ایسے مربی یا مبلغ کا نام شامل نہیں کیا جائے گا جسے کسی الزام کے تحت فارغ کیا گیا ہو۔یہ اضافہ بھی کیا گیا کہ تمام ملکی امراء بحیثیت امیر جماعت ملک اس مجلس کے رکن ہوں گے۔مقامِ انتخاب کے متعلق یہ ترمیم کی گئی کہ تااطلاعِ ثانی انتخاب خلافت ربوہ کی بجائے اسلام آباد یو کے میں ہو گا۔ناظرِ اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ ربوہ اگر انتخابِ خلافت کا موقع پیش آ نے پر یو کے میں موجود نہ ہوں تو ان کی عدم موجودگی میں ناظرِاعلیٰ کے فرائض ادا کرنے کے لئے تین ایڈیشنل ناظرِ اعلیٰ مقرر کئے گئے۔یہ ترمیم بھی منظور کی گئی کہ اگرکسی اشد مجبوری کی وجہ سے انتخابَ خلافت تین دن کے اندر نہ ہو سکے تو صدر انجمن احمدیہ اس بات کی مجاز ہو گی کہ وہ تین دن کے اندر انتخاب کی شرط کو نظر انداز کر دے۔اگر ناظرِ اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ ربوہ اس موقع پر یو کے پہنچ جائیں تو نظارتِ علیا کے جملہ اختیارات انہی کے پاس ہوں گے ۔ لیکن اگر وہ یو کے نہ پہنچ سکیں تو جو ایڈیشنل ناظرِ اعلیٰ لندن میں موجود ہوں گے وہ یہ فرائض ادا کریں گے۔ اور اس دوران صدر انجمن احمدیہ کے جو اراکین لندن میں موجود ہوں گے ان پر مشتمل انجمن جماعتِ احمدیہ کے جملہ امور کی نگران ہو گی۔اور اس دوران صدر انجمن احمدیہ کے جو ممبران پاکستان میں موجود ہوں گے اور ناظرِ اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ موجود پاکستان اور جملہ جماعت ہائے احمدیہ عالمگیر لندن میں موجود ایڈیشنل ناظرِ اعلیٰ او رممبران ِصدر انجمن احمدیہ موجود لندن کے جملہ فیصلہ جات کو من و عن تسلیم کرنے کے پابند ہوں گے۔یو کے میں صدر انجمن احمدیہ کے اجلاسات ایڈیشنل صدرصدر انجمن احمدیہ کی زیرِ صدارت ہوں گے ۔اور اس غرض کے لئے مکرم صاحبزادہ مرزا مظفراحمدصاحب کو ایڈیشنل صدر صدر انجمن احمدیہ مقرر کیا گیا ۔یہ بھی قرار پایا کہ ناظران اور وکلاء کی سینیارٹی لسٹ کی منظوری حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ سے حاصل کی جائے گی۔سیکریٹری مجلسِ شوریٰ مجلسِ انتخابِ خلافت کاسیکرٹری ہوتا ہے اس کے متعلق یہ قاعدہ منظور کیا گیا کہ تا اطلاعِ ثانی مکرم عطاء المجیب راشد صاحب اس مجلس کے سیکریٹری ہوں گے اور اگر وہ اس موقع پر لندن میں موجود نہ ہوں تو جو بھی عملاََ حضورکے پرائیویٹ سیکرٹری کے فرائض سر انجام دے رہا ہو وہ سیکریٹری کے فرائض ادا کرے گا۔سیکرٹری مجلسِ شوریٰ بحیثیت سیکرٹری شوریٰ ووٹنگ ممبر نہیں ہوں گے ۔حضور نے یہ تجویز بھی منظور فرمائی کہ ہر وہ شخص جس نے کسی وقت نظامِ خلافت کے استحکام کے خلاف کسی قسم کی کاروائی میں حصہ لیا ہو یا جو ایسے لوگوں کے ساتھ ملوث رہا ہو اس کا نام انتخابِ خلافت کے لئے پیش نہیں ہو سکے گا ،صدر انجمن احمدیہ ایسے افراد کے ناموں کی فہرست تیار کرکے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ سے اس کی منظوری حاصل کرے گی۔انتخاب ِ خلافت حاضر اراکین کی سادہ اکثریت سے ہو گا اور جس کے حق میں سب سے زیادہ آ راء ہوں گی وہی منتخب خلیفہ ہو گا ۔اور کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہو گا ۔اور تمام افراد جماعتہائے احمدیہ عالمگیر منتخب خلیفہ کی بیعت کریں گے۔۲۳ نومبر ۱۹۸۵ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے دستخطوں سے ایک سرکلر جاری ہؤا اور ان ترمیم شدہ قوانین کو حتمی حیثیت حاصل ہو گئی۔
۱۹۹۹ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی بیماری شروع ہوئی تو حضورؒ نے بعض احتمالات کے پیشِ نظر ان قواعد میں بعض ترامیم کی ضرورت محسوس کی ۔چنانچہ مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیلِ اعلیٰ تحریکِ جدید اورمرزا خورشید احمد ناظر امورِ خارجہ صدر انجمن احمدیہ (جو ان دنوں لندن آئے ہوئے تھے ) نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی ہدایات کے مطابق بعض ترامیم مرتب کیں۔ اور پھر حضورؒ کی ہدایات کے مطابق ان مجوزہ ترامیم کو صدر انجمن احمدیہ پاکستان،تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان اور وقفِ جدید انجمن احمدیہ پاکستان کے اراکین پر مشتمل شوریٰ کو مشورے کے لئے بھجوایا گیا ۔اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ قواعدِ انتخابِ خلافت کا اکثر حصہ تو اسی طرح برقرار رہے گا جو ۱۹۸۵ء میں کچھ ترامیم کے بعد منظور کیا گیا تھا لیکن اب ان میں مندرجہ ذیل ترامیم کی جائیں گی۔جو فوری طور پر نافذ العمل ہوں گی۔۱۹۸۵ء میں یہ ترمیم کی گئی تھی کہ تااطلاعِ ثانی انتخابِ خلافت ربوہ کی بجائے اسلام آ با دیو کے میں ہو گا ۔اب یہ ترمیم کی گئی کہ تااطلاعِ ثانی یہ انتخابِ مسجد فضل لندن یو کے میں ہو گا۔یہ ترامیم بھی منظور کی گئیںکہ اگر انتخابِ خلافت لندن میں ہو تو ایڈیشنل ناظرِ اعلیٰ مقیم لندن کا فرض ہو گا کہ جب تک ناظرِ اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان لندن نہ پہنچیں وہ جملہ فرائض ناظرِ اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی ہدایات کے مطابق ان کی نمائندگی میں ان کے اٹارنی کے طور پر ادا کرے۔اگر کسی اشدمجبوری کی وجہ سے یہ فیصلہ کرنا پڑے کہ انتخابِ خلافت تین دن کے اندر نہیں ہو سکتا تو صدر انجمن احمدیہ پاکستان یہ فیصلہ کرنے کی مجاز ہو گی اور اس درمیانی عرصہ میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان جماعت کے جملہ کاموں کو سرانجام دینے کی ذمہ دار ہو گی۔بیرونِ پاکستان مقیم کچھ احباب کو حضورؒ نے صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا ممبر مقرر فرمایا تھا ،اس ضمن میں حضورؒ نے یہ قاعدہ منظور فرمایا کہ اگر انتخابِ خلافت لندن میں ہو تو انگلستان میں موجود صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے اراکین پر مشتمل انجمن کا فرض ہو گا کہ جب تک صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے اراکین لندن نہ پہنچیں وہ اپنے جملہ فرائض صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی نمایندگی میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی ہدایات کے مطابق ان کے اٹارنی کے طور پر ادا کرے۔ انگلستان میں صدر انجمن احمدیہ کے اجلاسات صدر، صدر انجمن احمدیہ یا ایڈیشنل صدر، صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی صدارت میں ہوں گے۔اگر وہ انگلستان میں موجود نہ ہوں تو صدارت کے اختیارات ناظرِ اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان کو اور ان کی عدم موجودگی میں یہ اختیارات ایڈیشنل ناظرِ اعلیٰ کو حاصل ہوں گے۔حضورؒ نے بعض ترامیم کی نشاندہی فرمائی جو اس احتمال کے پیشِ نظر کہ اگر انتخابِ خلافت کا موقع لندن میں پیش آ ئے کی گئی ہیں۔حضورؒ نے ارشاد فرمایا کہ اگر انتخابِ خلافت ربوہ میں ہو تو یہ ترامیم منسوخ ہو جائیں گی۔

(۱)رسالہ الوصیت،روحانی خزائن جلد ۲۰،ص۳۰۶
(۲) تاریخ ِ طبری ،حصہ سوم،ترجمہ اردو از حبیب الرحمن صدیقی،نفیس اکیڈمی،ص ۲۶
(۳) حیاتِ نورالدین ،مصنفہ عبد القادر ،پنجاب پریس وطن بلڈنگ لاہور ص ۳۰۷

دونئے مشنوں کا قیام
لائیبیریا میں مشن کا قیام :
اب تک مغربی افریقہ میں غانا، سیرالیون اورنائیجیریا میں جماعت کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔یہ تینوں جماعتیں حضرت مولانا عبد الرحیم نیر صاحبؓ کے ذریعہ ۱۹۲۱ء میں قائم ہوئی تھیں۔اس کے بعد ان ممالک میں تو احمدیت ترقی کرتی رہی مگر ایک لمبا عرصہ مغربی افریقہ کے کسی اور ملک میں جماعت کا قیام عمل میں نہیں آ یا۔ ۱۹۵۵ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مغربی افریقہ کے ایک اور ملک لائیبیریا میں جماعت کا مشن قائم کرنے کی ہدایت جاری فرمائی۔لائیبیریا کا احمدیت سے پہلا رابطہ اُس وقت ہؤا جب ۱۹۱۷ء میں وہاںکے ایک پروفیسر نے لندن مشن سے جماعت کا لٹریچر منگوایا(۱)۔ جماعت کے مبلغ حضرت مولانا نیر صاحب ؓ ۱۹۲۱ء میں غانا ،بحری جہاز پر تشریف لے جا رہے تھے۔جہاز لائیبیریا کے دارالحکومت اور بندر گاہ منروویا کے قریب لنگر انداز رہا ۔حضرت نیرصاحبؓ کی خواہش تھی کہ وہ یہاں پر اتر کر تبلیغ کریں مگر جہاز کے کپتان نے یہ کہہ کر اجازت نہ دی کہ وقت کم ہے(۲)۔۱۹۴۳ء میں سیرالیون کے ایک آنریری مبلغ مکرم الفا عبد اللہ صاحب نے تین ماہ کے لئے لائیبیریا کا تبلیغی دورہ کیا(۳)۔فروری ۱۹۵۲ء میں حضورؓ نے سیرالیون میں متعین جماعت کے مبلغ مکرم محمد صدیق امرتسری صاحب کو حضورؓ نے ارشاد فرمایا کہ آپ کا کام صرف سیرالیون تک محدود نہیں ہمسایہ ممالک میں بھی تبلیغ کا انتظام کریں۔آپ نے دوسرے ممالک کے علاوہ لائیبیریا بھی بذریعہ ڈاک جماعت کا لٹریچر بھجوانا شروع کیا۔پھر سیرالیون کی جماعت بو کے دو فدائی احمدیوں الحاج علی صاحب اور الحاج سعیدو بنگورا صاحب نے لائیبیریا میں تبلیغی سروے کے لئے ایک ماہ کا وقف کیا۔ان دو بزرگوں نے لائیبریا کے غیر معروف علاقوں کے دورے کئے اورگاؤں گاؤں شہر شہر احمدیت کا تعارف وہاں کے لوگوں تک پہنچایا۔اس دوران انہوں نے طویل پیدل سفر بھی کئے۔اس دوران آپ کے شاگرد محمد کمارا صاحب بھی شریکِ سفر تھے۔۱۹۴۴ء سے لے کر ۱۹۷۶ء میں اپنے انتقال تک صدر ٹب مین اس ملک کے صدر رہے اور لائیبیریا کے سیاسی افق پر چھائے رہے۔اُس وقت بھی ٹب مین ملک کے صدر تھے۔مولوی محمدصدیق صاحب کی درخواست پر صدر ٹب مین نے ایگزیٹیو مینشن میں ایک غیر رسمی تقریب کا اہتمام کیا جس میں ان کے علاوہ دیگر وزراء اور عمائدینِ حکومت بھی شریک ہوئے۔صدیق امرتسری صاحب نے جماعت کا تعارف کرایا اور شرکاء کو جماعت کا لٹریچر پیش کیا۔صدرِ مملکت نے اس کے جواب میں کہا کہ حکومت جماعت کا مشن کھولنے مین تعاون کرے گی۔کچھ دنوں کے بعد صدر ٹب مین بیمار ہو گئے تو آپ نے مولوی صاحب کو دعا کے لئے بلایا۔مکرم صدیق امرتسری صاحب نے ان کے کمرے میں جا کر ان کے لئے دعا کی ۔(۴)
۱۹۵۵ء میں حضرت مصلح موعود ؓ نے لائیبیریا میں مشن کے قیام کے لئے مکرم صوفی محمد اسحق صاحب کو مقرر فرمایا۔صوفی اسحق صاحب آٹھ سال سے مغربی افریقہ میں خدمات سر انجام دے رہے تھے۔مکرم صوفی صاحب جنوری کے آ غاز میں لائیبیریا پہنچے ۔یہاں کے اخبار Listenerنے آپ کی آ مد کی خبر نمایاں کر کے شائع کی۔پہلے کچھ عرصہ ایک شامی کے ہاں قیام کیا پھر کچھ تگ و دو کے بعد ایک کرایہ کا کمرہ لے کر کام شروع کیا۔لائیبیریا میں مقامی مذاہب سے وابستہ افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں۔لیکن اُس وقت امریکہ سے آ کر آ باد ہونے والے لائیبیریا پر چھائے ہوئے تھے اور ان کی اکثریت عیسائی تھی۔کچھ عرصہ قبل جب صدر ٹب مین نے امریکہ کا دورہ کیا عیسائیت کے ایسے مبلغ بھی لائیبیریا آ ئے جو روحانی علاج کرنے اور بیماروں میں سے خبیث روحوں کو نکالنے کا دعویٰ کرتے تھے۔(۵،۶)اور اس طرح ضعیف الا عتقاد لوگوں کی ضعیف الاعتقادی کا فائدہ اُٹھاتے۔
مکرم صوفی اسحق صاحب کی در خواست پرصدر ٹب مین نے مشن کی طرف سے عمائدینِ حکومت کو ایڈریس پیش کرنے کے لئے مدعو کیا ۔اور تقریب میں صدرِ مملکت کے علاوہ وزراء اور دیگر اہم شخصیات بھی اس موقع پر مدعو تھے۔مکرم صوفی اسحق صاحب کے ساتھ اس موقع پر امریکہ کے ایک احمدی اور ایک غیر احمدی امام صاحب اور بعض دوسرے غیر احمدی احباب بھی اکھٹے شرکت کے لئے گئے۔ صوفی صاحب کے ایڈریس کے بعد صدر ٹب مین نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جماعت احمدیہ کے مشن کی زمین کے لئے سروے کر لیا جائے جس طرح عیسائی مشنوں کے لئے زمین مہیا کی جاتی ہے اس طرح احمدیہ مشن کے لئے بھی زمین مہیا کی جائے گی۔یہاں کے چیف امام زمین کے حصول کے سلسلے میں جماعت کے ساتھ تعاون کرتے رہے۔اُس وقت سیاسی مصالح کی بنا پرحکومت نے ایک شامی کو مسلمانوں کا پبلک ریلیشن آ فیسر مقرر کیا ہؤا تھا ۔یہ صاحب فری میسن سوسائٹی کے ممبر بھی تھے۔تاہم یہاں پر بعض مسلمانوں نے شرافت کا رویہ بھی دکھایا۔مراکش سے آئے ہوئے ایک عالم نے لیکچر دیتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ احمدی سچے مسلمان ہیں اور اسلام کی بہت خدمت کر رہے ہیں ،اس لئے ان کی کوئی مخالفت نہیں کرنی چاہئیے ۔(۷)انفرادی تبلیغ اور لیکچروں کے ذریعہ کام کا آ غاز کیا گیا ۔جماعت کا لٹریچر تقسیم اور فروخت کیا گیا ۔نائیجیریا سے شائع ہونے والا جماعتی جریدہ Truthبھی تبلیغ کے لئے ممد و معاون ثابت ہو رہا تھا۔لائیبیریا کے قبائل میں سے وائی قبیلہ کے لوگ احمدیت میں زیادہ دلچسپی لے رہے تھے۔۔یہ قبیلہ مغربی افریقہ کے دوسرے علاقوں سے یہاں آ کر آ باد ہؤا تھا اور یہ یہاں آ نے والے قبیلوں میں سے پہلا قبیلہ تھا جو مسلمان تھا۔ان سے قبل آ نے والے قبائل اپنے آبائی مذہب پر تھے اور مڈنگو سے تعلق رکھنے والے ملانے مخالفت میں پیش پیش تھے۔دو ماہ کے اندر فروری ۱۹۵۶ء میں مکرم صوفی محمد اسحق صاحب نے حضور کی خدمت میںپہلی دو بیعتوں کی خوش خبری بھجوائی۔مارچ ۱۹۵۶ء کی رپورٹ میں صوفی صاحب نے ایک عربی عالم اسمعیل مالک صاحب کے احمدی ہونے کا ذکر کیا ہے ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی خواہش تھی کہ ہر ملک کے مقامی باشندے دینی علم حاصل کر کے خدمتِ دین کے کام میں آگے آئیں۔چنانچہ حضورؓ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ اسمعیل مالک صاحب کو احمدیت کی تعلیم دے کر مدرس کیوں نہیں بنا لیتے؟(۸)
یہاں پر بہائیوںنے اپنے مشن کا جال خوب پھیلا رکھا تھا اور یہ اپنے لٹریچر کی خوب اشاعت کر رہے تھے،جس میں اسلامی تعلیمات کو غلط رنگ میں پیش کیا جاتا تھا ۔افریقی ممالک میں لائیبیریا میں ہی بہائیت کا سب سے زیادہ اثر تھا۔مکرم و محترم صوفی محمد اسحق صاحب نے ان کے پریذیڈنٹ صاحب سے مل کر تبادلہ خیالات کی دعوت کی۔حشرِ اجساد پر بحث ہوئی تو صوفی صاحب نے دلائل دیئے کہ قیامتِ کبریٰ کے انکار سے تمام انبیاء کی تکذیب لازم آ تی ہے ۔جب بہائیوں کے پریذیڈنٹ صاحب سے کوئی جواب بن نہ پڑا تو کہنے لگے تم پاگل ہو ۔اس پر صوفی اسحق صاحب نے ان کا شکریہ ادا کیا۔صوفی صاحب کی آ مد کے تقریباََ ایک سال بعدایک امریکی اپنی بیوی کے ہمراہ بہائیت کی تبلیغ کے لئے لائیبیریا آیا ۔اور اپنے مذہب کی پرجوش تبلیغ شروع کی۔صوفی صاحب نے اس سے تبادلہ خیالات کیا تو آخر دلائل سے تنگ آکر اس کی بیوی نے کہا کہ اب میں تمہارے کہنے سے انیس برس کے بعد بہائیت تو نہیں چھوڑ سکتی۔حضور کو اس کی رپورٹ پہنچی تو حضور نے تحریر فرمایا کہ ان سے کہو کہ تم انیس سال بعد بہائیت نہیں چھوڑ سکتی تو ہم ساڑھے تیرہ سو سال بعد اسلام کیسے چھوڑ دیں۔(۷،۸)۔حضورؓ کی خواہش ہوتی تھی کہ جماعت کے مبلغین جب بھی تبلیغ کریں تو مضبوط علم اور قوی دلائل کے ساتھ کریں۔چنانچہ جب بہائیوں میں صوفی صاحب کی تبلیغی مساعی کی رپورٹیں حضور تک پہنچیں تو حضورؓ نے ان میں تبلیغ کی ہدایات دیتے ہوئے فرمایا ،
’مگر بہائیت کا مطالعہ پہلے کرلیں۔تبشیر مولوی ابو العطاء صاحب والی بہائیت کے متعلق دونوں کتب ان کو بھجوا دیں۔‘(۹)
اس طرح لائیبیریا میں جماعت کا قیام عمل میں آیا اور ایک مختصر جماعت کے ذریعہ اس ملک میں تبلیغ کا آ غاز ہؤا۔
(۱) تاریخِ احمدیت ،جلد ۱۸ ص ۳۲۹
(۲) الفضل ۵ مئی ۱۹۲۱ء ص ۱
(۳)الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۴۳ء ص۴
(۴)روح پرور یادیں ،مصنفہ صدیق امرتسری صاحب ،ص۴۰۶ ۔ ۴۰۹
(۵) الفضل ۹ دسمبر ۱۹۵۵ء ص ۶ ( ۶) الفضل ۱۰ اپریل ۱۹۵۶ء ص ۳
(۷) الفضل ۱۲ ستمبر ،۱۹۵۷ء ص ۳و۴(۸) ریکارڈ وکالتِ تبشیر ربوہ
(۹) الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۵۷ء ص ۳و۴
سکینڈے نیویا میں مشن کا قیام:
سکینڈے نیویا یورپ کا وہ حصہ ہے جس میں سویڈن،ڈنمارک اور ناروے کے ممالک شامل ہوتے ہیں۔جب حضور ؓ یورپ کے دورے پر تشریف لے گئے تو ایک سویڈش نوجوان مسٹر گنار ایرکسن (Gunnar Ericsson)نے حضورؓ سے ملاقات کی اور درخواست کی کہ سکینڈے نیویا میں جماعت اپنا مشن کھولے۔یہ نوجوان اسلام سے متاثر ہو کر مسلمان ہو چکے تھے اور انجمنِ اسلامی کے سیکریٹری تھے(۱)۔اس سے قبل ۱۹۲۰ء میں جب مکرم نیر صاحب لندن میں قیام فرما تھے تو ناروے کی ایک خاتون نے نیر صاحب کے ذریعہ بیعت کر کے احمدیت قبول کی تھی۔چنانچہ حضور ؓ نے سکینڈے نیویا میں مشن کھولنے کے لئے مکرم کمال یوسف صاحب کو مقرر فرمایا۔ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نمازِ عصر کے بعد مجلسِ عرفان میں تشریف فرما تھے۔مکرم کمال یوسف صاحب بھی مجلس میں حاضر تھے حضورؓ نے کمال یوسف صاحب کو ارشاد فرمایا کہ فن لینڈ میں ایک مدت سے ترک آباد ہیں وہاں جا کر ان سے بھی ملنا چاہئیے۔اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب آئینہ کمالاتِ اسلام اور حقیقۃ الوحی اور بعض دیگر کتب کا مطالعہ کرنے کا ارشاد فرمایا۔(۲)
اُ س وقت مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب مغربی جرمنی میں جماعت کے مبلغ تھے ، حضور ؓ نے انہیں ہدایت فرمائی کہ وہ بھی کمال یوسف صاحب کے ساتھ جائیں۔چنانچہ یہ دونوں احباب ۱۴جون ۱۹۵۶ء کو سویڈن کے شہر گوٹن برگ میں وارد ہوئے ۔سویڈن ایک خوبصورت ملک ہے ۔ اس کی جھیلیں اور خوبصورت مناظر دیکھتے ہوئے بے اختیار چوہدری عبد اللطیف صاحب کے دل سے دعا نکلی کہ اے خدا جس طرح تو نے اس سرزمین کو ظاہری حسن کے زیور سے آ راستہ کیا ہے اسی طرح اس ملک کے بسنے والوں کے قلوب کو اپنے نور کی کرنوں سے روشن کردے۔گوٹن برگ میں ایک کمرہ کرایہ پر حاصل کرکے تبلیغ کے کام کا آ غاز کیا گیا۔گوٹن برگ کے ایک روزنامہ gotibors_Posten نے۲۲ جون کی اشاعت میں مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب کا انٹرویو شائع کیا(۳)۔مسٹر ایرکسن جنہوں نے لندن میں حضورؓ سے سویڈن میں جماعت ِ احمدیہ کا مشن کھولنے کی درخواست کی تھی،یہاں پر سب سے پہلے بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے۔ اُنہوں نے اگست ۱۹۵۶ء میں بیعت کی ۔مکرم کمال یوسف صاحب نے زبان سیکھنے کے لئے رات کی کلاسز میں داخلہ لیا۔اور اس کے ساتھ تبلیغ کا کام بھی جاری رکھا۔مختلف مذہبی اور دیگر تنظیموں نے مکرم کمال یوسف صاحب کو لیکچروں پر بلانا شروع کیا اور اخبارات اور رسائل نے انٹرویو لینے شروع کئے ۔اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کا یہ راستہ خود بخود نکل آیا۔ ڈنمارک کے مکرم عبدالسلام میڈسن صاحب اور اس خطے میں پہلے پہل بیعت کرنے والے احمدیوں سے بعض اس سے قبل ووکنگ میں اہلِ پیغام کے مبلغ کے زیرِ اثر تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فقط ایک مجدد خیال کرتے تھے۔لیکن جب مکرم کمال یوسف صاحب نے حقیقۃ الوحی سے حوالہ پیش کیا جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام واضح ہوتا تھا تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کو فوراََ تسلیم کرلیا۔اُ س دور میں غیر از جماعت پاکستانی سکینڈے نیویا میں آ نا شروع ہوئے اور ان کے ساتھ ان کے کچھ علماء بھی داخل ہوئے۔ان پاکستانی مولویوں نے حقیقۃ الوحی کی عربی عبارت کے ایک حصہ کے ترجمہ میں تحریف کر کے اس کی بنیاد پر احمدیت کے خلاف زہر گھولنا شروع کیا ۔لیکن جب احمدی مبلغ نے صحیح عبارت دکھائی تو اس زہر کا تریاق ہو گیا۔کچھ عرصہ کے بعد مشن گوٹن برگ سے سویڈن کے شہر سٹاک ہالم منتقل کر دیا گیا کیونکہ وہاں پر تین ہزار مسلمان موجود تھے اوراسلامی سوسائٹی بھی موجود تھی۔وہاں پر کمال یوسف صاحب نے ڈیڑھ سال تک تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اس علاقے میں تبلیغِ اسلام کی مہم میں گہری دلچسپی لے رہے تھے۔ اس کاا ندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب مشن کو گوٹن برگ سے سٹاک ہالم منتقل کیا جا رہا تھا تو حضورؓ نے ہدایت جاری فرمائی کہ
’ تبشیر فوری توجہ کرے ۔چپ کر کے نہ بیٹھ جائے۔ رپورٹ کرنی ہے۔ ہر ہفتہ ایک دفعہ رپورٹ آ ئے کہ کیا کر رہے ہیں؟‘
اکتوبر ۱۹۵۶ء میں مرکز کی طرف سے کمال یوسف صاحب کو ہدایت بھجوائی گئی کہ مسجد اور مشن ہاؤس کیلئے زمین خریدنے کی کوشش کی جائے۔ایک طرف تو جماعت احمدیہ اسلام کی تبلیغ کے لئے کوشاں تھی اور دوسری طرف بعض مسلمان اس راہ میں روڑے اٹکا رہے تھے۔چنانچہ جلد ہی مصری سفارت خانے نے عرب اور ترک مسلمانوں کو تحریک کی کہ وہ احمدی مبلغ سے کسی قسم کا تعاون نہ کریں۔اس وقت وہاں پر متعین سفیر صاحب جماعت کی مخالفت کرتے رہتے تھے۔(۱)
لیکن ایک ایک کر کے سعید روحوں پر اسلام کی حقانیت آشکار ہو رہی تھی۔کچھ عرصہ سٹاک ہالم میں مشن کام کرتا رہا ،پھر اگست ۱۹۵۸ء میں اسے ناروے کے شہر اوسلو میں منتقل کر دیا گیا ۔اور وہاں سے سکنڈے نیویا میں اسلام کی تبلیغ کا کام شروع کیا گیا۔سکینڈے نیویا میں جب جماعت نے تبلیغ کے کام کا آ غاز کیا تو مبلغ صرف ایک کمرہ کو ہی کرایہ پر لے سکتا تھا اور اسی کمرے کو مشن ہاؤس کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔جب لوگوں کا آنا جانا شروع ہوتا تو گھر والے تنگ پڑ جاتے اور یہ کمرہ خالی کرالیا جاتا ۔اس وجہ سے ابتداء میں کمال یوسف صاحب کو بار بار رہائش تبدیل کرنی پڑی ۔ایک بار ڈنمارک میں بہت اچھی رہائش ملی ۔وہاں پر یورپ میں جماعت کے مبلغین کی کانفرنس ہو رہی تھی۔ سپین کے مبلغ مکرم کرم الٰہی صاحب ظفر کمال یوسف صاحب کی رہائش دیکھنے آئے اور دیکھ کر چلے گئے۔اس وقت کرم الٰہی ظفرصاحب نے پگڑی پہن رکھی تھی ۔کمال یوسف صاحب جب گھرواپس آئے تو دیکھا کہ اہلِ خانہ منہ بسورے بیٹھے ہیں۔اور انہیں دیکھ کر کہنے لگے کہ ہمارا گھر چھوڑ دو کیونکہ ہمارے ہمسائے پوچھ رہے تھے کہ یہ پگڑی والا کون تھا۔اس طرح ہماری انگشت نمائی ہوتی ہے۔جب کمال یوسف صاحب ناروے آئے تو تقریباََ لگاتار چھ ماہ یوتھ ہاسٹل میں رہنا پڑا کیونکہ کوئی کمرہ کرایہ پر نہیں ملتا تھا۔یوتھ ہاسٹل میں صرف تین دن رہنے کا حق ہوتا ہے۔اس کے بعد وہ وارڈن کے رحم و کرم پر تھے۔ (۲)
جماعتی زندگی میں مساجد ایک مرکز کی حیثیت رکھتی ہیں۔جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔یہ خانہ خدا ہوتا ہے۔جس گاؤں یا شہر میںہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی ۔ اگر کوئی ایساگاؤں ہو یا شہرجہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوںاور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنا دینی چاہیے پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا ۔لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو۔محض للہ اسے کیا جاوے ۔نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہر گز دخل نہ ہو تب خدا برکت دے گا۔‘(۴)
مساجد کی اس اہمیت کے پیشِ نظر جب حضرت مصلح موعود ؓ نے محسوس فرمایا کہ مسجد کی تعمیرمیں غیر معمولی تاخیر ہو رہی ہے تو نومبر ۱۹۵۸ء کی رپورٹ پر حضور ؓ نے فرمایا،
’’ اب تک آپ نے سٹاک ہالم میں مسجد کے لئے جگہ نہیں لی ۔بڑا کام بیعتیں نہیں ہے بلکہ مسجد کی تعمیر ہے ۔‘‘(۱)
ان ممالک میں اسلام قبول کرنے والے احباب خود اپنی ذات میں تبلیغ کا ایک مؤثر ذریعہ بن جاتے تھے۔چنانچہ ڈ نمارک میں وہاں کے ایک نو احمدی مکرم عبد السلام میڈیسن صاحب کو ڈنمارک کے ریڈیو نے مذہبی مذاکرے میں مدعو کیا اور اسی طرح سویڈن کے ایک نو احمدی دوست کو بھی وہاں کے ریڈیو نے ایک مذاکرے میں بلایا ۔ان نو مسلم احباب نے بڑی کامیابی کے ساتھ اس موقع کا فائدہ اُ ٹھا کر تبلیغ کی۔( ۵)
جنوری ۱۹۵۹ء میں جماعت کی طرف سے ایک رسالہ ایکٹو اسلام کا اجرا کیا جو سویڈش، نارویجین اور ڈینش زبانوں میں شائع ہوتا تھا۔اس سے تبلیغ کے کام کو ایک نئی وسعت ملی۔اس طرح یورپ کے اس خطے میں اسلام اور احمدیت کے پیغام کو پہنچانے کے کام کا آ غاز ہؤا۔اور ان ممالک میں چھوٹی چھوٹی جماعتیں وجود میں آ نے لگیں۔
(!) ریکارڈ وکالتِ تبشیر
(۲) تحریری روایت از مکرم کمال یوسف صاحب
(۳) الفضل ۱۴ جولائی ۱۹۵۶ء ص ۳
(۴) ملفوظات،جلد چہارم ص ۹۳
(۵) الفضل ۷ دسمبر ۱۹۵۸ء ص ۳
وقفِ جدید کاآغاز
وقت کے ساتھ جوں جوں جماعت پھیلتی جا رہی تھی ،جماعت کی تربیت کے اور احمدیت کی تبلیغ کو سب تک پہچانے کے نئے نئے تقاضے بھی سامنے آ رہے تھے۔جماعت کے مربیان کی موجود تعداد تنہا تبلیغ اور تربیت کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتی تھی۔دیہاتی جماعتوں میں ان مسائل کو حل کرنا بالخصوص زیادہ مشکل ہوتا تھا کیونکہ چھوٹی چھوٹی جماعتیں وسیع علاقہ پر پھیلی ہوتی تھیں اور شہروں کی نسبت ان سے رابطہ رکھنا اور ان کی نگرانی کرنا زیادہ مشکل کام ہوتا تھا۔پاکستان کے دیہاتی علاقوں میں یہ ممکن نہیں تھا کہ ہر جگہ ایک مربی مقرر کیا جائے۔اس وجہ سے خصوصاََ نئی نسل میں تربیت کی کمزوری کے آ ثار شروع ہو گئے اور ان میں سے بعض دین کی بنیادی باتوں سے بھی بے خبر ہو گئے تھے۔حضرت مصلح موعود ؓ نے بشدت محسوس کیا کہ ایسی تحریک جاری کرنے کی ضرورت ہے جس کی توجہ کا مرکز دیہاتی تربیت سے ہو ۔
حضور ؓ نے ۹ جولائی ۱۹۵۷ء کو عید الاضحی کے خطبہ میں ارشاد فرمایا
’’ میں چاہتا ہوں کہ اگر کچھ نوجوا ن ایسے ہوں جن کے دلوں میں یہ خواہش پائی جاتی ہو کہ وہ حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی اور حضرت شہاب الدین صاحب سہر وردی کے نقشِ قدم پر چلیں تو جس طرح جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں تحریکِ جدید کے ماتحت وقف کرتے ہیں ۔وہ اپنی زندگیاں براہِ راست میرے سامنے وقف کریں۔تاکہ میں ان سے ایسے طریق پر کام لوں کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دینے کا کام کرسکیں۔وہ مجھ سے ہدائتیں لیتے جائیں اور اس ملک میں کام کرتے جائیں۔ہمارا ملک آ بادی کے لحاظ سے ویران نہیں ہے لیکن روحانیت کے لحاظ سے بہت ویران ہو چکا ہے۔۔۔۔
پس میں چاہتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان ہمت کریں اور اپنی زندگیاں اس مقصد کے لئے وقف کریں۔وہ صدر انجمن یا تحریکِ جدید کے ملازم نہ ہوں بلکہ اپنے گذارہ کے لئے وہ طریق اختیار کریں جو میں انہیں بتاؤں گا ۔ اور اس طرح آ ہستہ آ ہستہ دنیا میں نئی آبادیاں قائم کریں اور طریق آ بادی کا یہ ہو گا کہ وہ حقیقی طور پر تو نہیں ہاں معنوی طور پر ربوہ اور قادیان کی محبت اپنے دلوں سے نکال دیں اور باہر جا کر نئے ربوے اور نئے قادیان بسائیں۔ابھی اس ملک میں کئی علاقے ایسے ہیں،جہاں میلوں میل تک کوئی بڑا قصبہ نہیں۔وہ جا کر ایسی جگہ بیٹھ جائیں اور حسبِ ہدایت وہاں لوگوں کو تعلیم دیں۔لوگوں کو قرآنِ کریم اور احادیث پڑھائیں۔اور اپنے شاگرد تیار کریں جو آ گے اور جگہوں پر پھیل جائیں۔اس طرح سارے ملک میں وہ زمانہ دوبارہ آ جائے گا جو پرانے صوفیاء کے زمانے میں تھا۔‘‘
اس کے بعد حضور ؓ نے بعد کے زمانے میں حضرت سید احمد صاحب بریلوی صاحب کا ذکر فرمایا جنہوں نے اپنے شاگردوں کو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بھجوایا تھا۔ان میں سے مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی نے دیوبند کا مدرسہ قائم فرمایا تھا ۔اور فرمایا کہ اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث نے بھی اپنے وقت میں بڑا کام کیا تھا۔اور یہ بزرگان اپنے اپنے زمانہ کے لئے اسوہ حسنہ تھے۔(۱)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے ابھی اس نئی تحریک کے چندبنیادی خدوخال بیان فرمائے تھے اور تفصیلات ابھی جماعت کے سامنے نہیں آ ئی تھیں۔لیکن بہت سے احباب نے اپنے آپ کو اس نئے وقف کے لئے پیش کر دیا۔حضورؓ نے ان دوستوں کو ارشاد فرمایا کہ میں جلسہ سالانہ کے موقع پر اس طرز کے وقف کی تفصیلات بیان کروں گا ،اگر ان کو سن کر تم میں ہمت پیدا ہوئی تو پھر تم اپنے آپ کو پیش کرنا۔جلسہ سالانہ کے موقع پر حضور ؓ نے ۲۷ دسمبر کی تقریر کے آ خر پر اس سکیم کی کچھ مزید تفصیلات بیان فرمائیں۔حضور ؓ نے فرمایا کہ اس سکیم کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک معلمین کا جال بچھا دیا جائے اور اس کے لئے ہزاروں معلمین درکار ہوں گے ۔لیکن ابتداء میں دس معلمین سے کام شروع کیا جائے گا۔ان معلمین کو مرکز کی طرف سے گذارہ کے لئے کچھ الاؤنس دیا جائے گا مگر یہ معلمین اپنے علاقوں میں رہ کر کام بھی کریں گے۔کسی کو دوکان کھول کر دی جائے گی،یا جہاں پر ضرورت ہو وہاں پر ان کو عطاری کی دوکان کھلوا دی جائے گی یا یہ معلمین اپنی جگہ پر مدرسہ کھولیں گے جو ابتداء میں پرائمری تک ہو گا۔حضور ؓ نے فرمایا کہ بڑے زمینداروں کو تحریک کی جائے گی کہ وہ اس سکیم کے تحت اپنی زمین کے آٹھ دس ایکڑ وقف کریں ۔اس زمین پراس سکیم کے واقفینِ زندگی اپنا مکان بنائیں گے اور باغ لگائیں کے ۔اس طرح انہیں سلسلہ بھی مدد دے گا اور وہ خود بھی کمائی کر سکیں گے اور ان کا گذارہ عمدگی سے چل سکے گا۔وہ لوگوں کو تعلیم دیں گے اور واعظ اور مبلغ بن کر کام کریں گے۔(۲)
بالکل ابتداء میں وقفِ جدید کی تحریک میں اپنے آپ کو پیش کرنے والوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔اس پر حضرت مصلح موعود ؓ نے فرمایا
’مجھے افسوس ہے کہ جلسہ سالانہ سے پہلے تو بعض نوجوانوں کی در خواستیں آ تی رہیں کہ ہم اپنے آپ کو اس سکیم کے ماتحت وقف کرتے ہیںلیکن جب میں نے وقف کی شرائط بیان کیں تو پھر ان میں سے کسی نے بھی نہیں کہا۔کہ ہم اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں۔ پس میں جماعت کے دوستوں کو ایک بار پھر اس وقف کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہئیے کہ اگر وہ ترقی کرنا چاہتی ہے تو اس کو اس قسم کے وقف جاری کرنے پڑینگے اورچاروں طرف رشد و اصلاح کا جال پھیلانا پڑے گا۔‘(۳)
حضورؓ کے اس ارشاد کے بعد اس تحریک میں شرکت کے لئے بہت سے احباب نے اپنے آپ کو پیش کرنا شروع کر دیا ،اور دو ماہ کے اندر ربوہ کے علاوہ پشاور ،ملتان ،بہاولپور ،خیر پور اور حیدر آباد ڈویژن کی جماعتوں کی طرف سے اس سکیم کے لئے واقفین بھجوائے گئے۔اور دو ماہ کے اندر ان واقفین کی تعداد ۲۴۵ تک پہنچ گئی۔اور بنگال میں بھی اس تحریک کی طرف توجہ پیدا ہونی شروع ہوئی۔حضور ؓنے ارشاد فرمایا کہ ان کے کام کو چیک کرنے کے لئے انسپکٹر مقرر کئے جائیں ۔ربوہ میں مقیم انسپکٹر کے علاوہ کراچی میں بھی انسپکٹر مقرر کیا جائے جو نواب شاہ تک کے علاقے کے معلمینِ وقفِ جدید کے کاموں کا جائزہ لے اور اس کے بعد ایک انسپکٹر صوبہ سرحد سے لیا جا سکتا ہے جومردان،نو شہرہ ،ایبٹ آ باد اور راولپنڈی کے علاقوں کا کام سنبھال سکتا ہے۔ان دو ماہ میں سالانہ چندے کے وعدے ستر ہزار کے ہو چکے تھے۔لیکن کام کے پھیلاؤ کے لحاظ سے مزید مالی قربانی کی ضرورت تھی۔(۴)
اس نئی تنظیم کے کام کو سنبھالنے اور ترقی دینے کے لئے حضور ؓ نے ایک تنظیمی ڈھانچہ قائم فرمایا۔اور مجلس وقفِ جدید کا قیام عمل میں آ یا۔۔مکرم منیر احمد صاحب باہری نے اس کے سیکریٹری کے فرائض سنبھالے ۔حضور ؓ نے ابتداء میں انہیں ارشاد فرمایا کہ فلاں دفتر سے کاغذ،قلم اور فٹ لے لو اور پرائیویٹ سیکریٹری سے رابطہ کر کے ایک کمرے کا انتظام ہو جائے تو وہیں دفتر بنا لو چنانچہ دفتر پرائیویٹ سیکریٹری میں ہی وقفِ جدید کا پہلا دفتر بنا ۔کچھ عرصہ بعد ایک پرائیویٹ گھر میں دفتر منتقل کیا گیا(۵)۔حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر اس کے صدر مقرر ہوئے۔وقف جدید کے مختلف شعبوں کو نظامت کا نام دیا گیا اور معلمین کی کاوشوں کی نگرانی نظامت ارشاد کے سپرد کی گئی۔اس کے علاوہ نظامت تعلیم،مال اور جائیداد بھی قائم کی گئیں۔حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب آ غاز سے ہی اس تنظیم کے ممبر تھے اور منصبِ خلافت پر سرفراز ہونے تک آپ اس تنظیم میں ناظم ارشاد کے عہدے پر فرائض ادا کرتے رہے۔
یکم مارچ ۱۹۵۸ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے ارشاد کے تحت بھارت میں بھی وقفِ جدید کا قیام عمل میں آیا۔مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اس کے انچارج مقرر کئے گئے اور آپ سمیت سات احباب کو اس مجلس کا ممبر مقرر کیا گیا۔۱۹۶۳ء تک اس مجلس کے تحت ۶ معلمین پونچھ، جموں، کیرالہ، میسور وغیرہ میں اپنے فرائض ادا کر رہے تھے۔ایک دو مقامات پر چھوٹے چھوٹے مدرسے بھی قائم تھے جن میں طلبہ کی تعداد ۷۷ تھی۔
اس نئی مجلس نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی نگرانی میں کام کا آ غاز کیا۔وقف جدید کے پہلے دو بجٹ جنوری اور اپریل ۱۹۵۸ء میں حضور کے ارشادات کے ماتحت پروگراموں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تیار کئے گئے تھے۔اور تیسرا بجٹ دسمبر ۱۹۵۸ء میں ،سالِ اول کے وعدوں اور آمد کو مدِ نظر رکھ کر تیار کیا گیا۔اس عرصہ میں کام کا سارا زور نئے مراکز کے قیام پر تھا۔اور یہ کوششیں ثمر آ ور ہوئیں اور اپریل ۱۹۶۰ء تک مغربی پاکستان میں ساٹھ سے زائد مراکز قائم کئے گئے۔اور مشرقی پاکستان میں بھی چار معلمین اور ایک انسپکٹر کا تقرر کیا گیا۔ابتداء میں معلمین کی تعلیم اور تیاری کے لئے کوئی باقاعدہ مدرسہ یا نظام موجود نہیں تھا محض دو ماہ کے عرصہ کے لئے مسجد مبارک میں ہی معلمین کو مختلف علمائِ سلسلہ کچھ تعلیم دیا کرتے تھے۔پڑھانے والے ان علماء میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، مکرم مولانا ابوالمنیرنورالحق صاحب اور مکرم مولانا ابو العطاء صاحب،مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مکرم سید زین العابدین شاہ صاحب شامل تھے۔حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب نے ان طلباء کو طب کے کچھ نسخے سکھائے اور حضرت مرزا طاہر احمد صاحب نے ہومیو پیتھی کے متعلق ابتدائی تعلیم دی(۶)۔ ۱۹۵۸ء میں فروری مارچ تک چھ معلمین کو میدانِ عمل میں بھجوادیا گیا تھا(۵)۔ جب کام شروع ہؤا تو اس تنظیم کی کاوشوں سے کئی احباب بیعت کر کے جماعت میں داخل ہوئے۔ پاکستان کے دیہات میں تبلیغ و تربیت کے علاوہ ملک میں غیر مسلموں میں تبلیغ بھی وقفِ جدید کی کاوشوں کا مرکز تھی۔ابتداء میں کچھ احباب نے سندھ میں کچھ زمین اس تحریک کے ماتحت وقف بھی کی۔لیکن مرکزی دفتر میں عملہ کی کمی بلکہ نایابی کے باعث چندوں میں حسبِ ضرورت اضافہ نہ ہو سکاجس کے باعث ۱۹۶۰ء میں پیش کیا جانے والا بجٹ بھی خسارہ کا بجٹ تھا۔اور اخراجات آمد سے زیادہ تھے۔اب تک عملاََ وقفِ جدید کے مرکزی دفتر میں سارا کام یکجا ہو رہا تھا،اس صورتِ حال کے پیشِ نظر مجلس نے یہ فیصلہ کیا کہ دفتر کے کام کو مختلف نظامتوں میں تقسیم کر دیا جائے اور ملک کے مختلف حصوں میں انسپکٹروں سے نیچے محصلین مقرر کئے جائیں جو اپنے اپنے حلقوں میں بروقت وعدے حاصل کرنے اور ان کی وصولی کے ذمہ دار ہوں گے۔ صدر انجمن احمدیہ میں حصہ آ مد کا چندہ ادا کرنے والے صرف وہ افراد ہوتے ہیں جو خود کوئی ذریعہ آ مد رکھتے ہیں جب کہ وقفِ جدید کا چندہ ان کے گھروں کے دیگر افراد بھی ادا کر سکتے ہیں۔حضرت مصلح موعود ؓ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ صدر انجمن احمدیہ کے ہر چندہ دہند کے مقابل پر وقفِ جدید کے چھ چندہ دہند ہونے چاہئیں۔اس پہلو سے صورتِ حال کافی قابلِ توجہ تھی ۔جب یہ اعلان کیا گیا تو صدر انجمن احمدیہ کے انیس ہزار چندہ دہندگان موجود تھے اور وقفِ جدید کے پہلے سال میں صرف چھ ہزار افراد نے اس تحریک میں چندہ دیا۔۶۳۔۶۴ کے مالی سال میں یہ تعداد بڑھ کر انیس ہزار ہو گئی۔اور ۱۹۶۴ء کی مجلسِ شوریٰ میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے کا بجٹ رکھا گیا لیکن چندہ کی وصولی اس ہدف سے اکیاون ہزار روپے کم رہی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی خواہش تھی کہ وقفِ جدید کے معلمین کی تعداد کو سو تک پہنچایا جائے لیکن مالی وسائل کی کمی کے باعث ۱۹۶۵ء تک اس خواہش کے پوارا ہونے کے سامان پیدا نہ ہو سکے۔لیکن ان مسائل کے با وجود یہ تنظیم رفتہ رفتہ آگے بڑھ رہی تھی اور اس کے نیک ثمرات بھی ظاہر ہو رہے تھے۔اس طرح نظام ِ جماعت کی اس نئی تنظیم نے اپنے سفر کا آ غاز کیا۔
(۱) الفضل ۶ فروری ۱۹۵۸ء ص۳ تا ۵
(۲) الفضل ۱۶ فروری ۱۹۵۸ء ص۳ ،۴
(۳) الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۵۸ء ص ۲
(۴) الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۵۸ء ص ۲،۳
(۵) روایات مکرم منیر احمد باہری،گل محمد صاحب، عبد الناصر صاحب(موخرالذکر دو صاحبان ابتدائی معلمین میں سے تھے)
(۶) روایت مکرم رشید احمد طارق صاحب رامہ ،سابق معلم وقفِ جدید

تفسیرِ صغیر کی اشاعت
قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے جو مسلمانوں کو عطا کی گئی ہے۔اس سے فائدہ اُٹھانے اوراس پر عمل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر مسلمان اس کو پڑھے اور اس پر عمل کرے۔لیکن اکثریت اتنی علمی استعداد نہیں رکھتی کہ عربی زبان میں پڑھ کر اس کو سمجھ سکے۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآنِ کریم کا ترجمہ موجود ہو۔لیکن قرآن کریم کا ترجمہ کرنا ایک نازک امر ہے۔ اس کے لئے نہ صرف عربی اور جس زبان میں ترجمہ ہو رہا ہو اس زبان کی اعلیٰ علمی صلاحیتیں درکار ہیں بلکہ ضرور ی ہے کہ ترجمہ کرنے والے کو قرآنی معارف سے بھی حصہ ملا ہو ۔ورنہ جو غلطی دنیاوی نظر میں معمولی غلطی دکھائی دیتی ہے وہ قرآنی تعلیمات کو غلط رنگ میں پیش کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔اور قرآنِ کریم کے منشا کے برخلاف نظریات ترجمہ کے نام پر دنیا کے سامنے پیش کئے جا سکتے ہیں۔
حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آ مد کے بعد یہ ضروری تھا کہ آپ کے بیان کردہ آسمانی معارف کی روشنی میں قرآنِ کریم کے صحیح تراجم دنیا کے سامنے پیش کئے جائیں۔چنانچہ تفسیرصغیر کی اشاعت سے قبل حضرت میر محمد اسحق صاحب ؓکا کیا ہؤا ترجمہ شائع ہو چکا تھا۔
حضرت پیر منظور محمد صاحب قرآنِ کریم کی کتابت کے بہت بڑے ماہر تھے۔آپ نے قرآنِ کریم کی کتابت کا ایسا انداز اختیار کیا تھا جس کو ہر شخص بڑی آ سانی سے پڑھ سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ایسا ملکہ ودیعت ہؤا تھا کہ آپ نے بچوں کے لئے ایک قاعدہ،قاعدہ یسرنا القراٰن کے نام سے تصنیف فرمایا ۔اسے ایسے انداز میں ترتیب دیا گیا تھا کہ اسے پڑھ کر بچے آسانی سے قرآنِ کریم شروع کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔حضرت مسیح موعودؑ نے خود اس قاعدے کی تعریف فرمائی ہے۔ یہ قاعدہ جلد ہی پورے ہندوستان میں مقبول ہو گیا اور اس کی اشاعت سے لاکھوں روپے کی آمد شروع ہو گئی۔حضرت پیر منظور محمد صاحب ؓ ایک بے نفس بزرگ تھے انہوں نے ۱۹۳۸ء میںاس قاعدے کی آمد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو ہبہ کردی۔یہ ہبہ کرتے ہوئے انہوں نے حضور کو تحریک فرمائی کہ اگر حضورقرآنِ کریم کا ترجمہ کردیں تو وہ اسے قاعدہ یسرنا القرآن کی طرز پر شائع کر دیں گے۔ ان کی تحریک پر حضور ؓ نے ۱۹۳۸ء میں قرآنِ کریم کے ترجمے کا کام شروع فرمایا۔اور اُس وقت سات آٹھ سیپاروں کا ترجمہ مکمل بھی کرلیا گیا (۱)۔مگر پھراللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تحت یہ اہم کام ایک لمبا عرصہ کے لئے معرضِ التواء میں پڑ گیا۔حتیٰ کہ ۱۹۵۶ء کا سال آ گیا۔قاتلانہ حملہ اور پھر بیماری کے حملے کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کی صحت بہت کمزور ہو چکی تھی۔ڈاکٹروں کا اصرار تھا کہ حضورؓ کی صحت کے لئے ضروری ہے کہ حضور مکمل آ رام فرمائیں اور ہر قسم کی کوفت اور پریشانی سے اپنے آپ کو بچائیں ۔جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے اسی سال جماعت میں نظامِ خلافت کے خلاف فتنہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔حضور ؓ نے دن رات اس فتنہ کی سرکوبی فرمائی حتیٰ کہ اس فتنہ کا تارو پود بکھر کر عبرت کا سامان بن گیا۔اور اس کے ساتھ حضور نے قرآنِ کریم کے ترجمہ کا کام پھر سے شروع فرما دیا۔اور اس کی وجہ سے حضور کو متواتر دن رات کام کرنا پڑا۔اور ان تمام امور کے ساتھ جماعت کے دیگر امور کی نگرانی بھی ساتھ کے ساتھ ہو رہی تھی۔۱۹۵۶ء میں حضور ؓنے اس ترجمہ کو دوبارہ شروع فرمایا۔اس ترجمہ کی طرز تفسیری ترجمہ کی رکھی گئی تا کہ پڑھنے والے قرآنی معارف سے استفادہ کر سکیں ۔اور مختصر تشریحی نوٹس بھی دیئے گئے ۔حضورؓ نے یہ کام مری اور جابہ میں قیام کے دوران مکمل فرمایا۔گو یورپ سے واپسی کے وقت آپ کی صحت وقتی طور پر کچھ بہتر ہوئی تھی مگر طبیعت میں کافی کمزوری باقی تھی ڈاکٹر مشورہ دیتے تھے کہ آپ آرام فرمائیں مگر آپ کو ایک ہی دھن تھی کہ قرآنِ کریم کے ترجمہ کا کام جلد ختم ہوجائے۔حضرت سیدہ مریم صدیقہ اس ترجمہ کی املاء لیتی تھیں اور جب آپ کو کوئی کام ہوتا تو حضور مولوی محمد یعقوب صاحب کو ترجمہ لکھواتے۔حضورؓ اس کام کو جلد ختم کرنے کے لئے اس قدر فکر مند تھے جب آخری سورتوں کا ترجمہ لکھوایا جا رہا تھا تو حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کو بخار ہو گیا۔ آپ نے حضورؓ سے گذارش کی کہ میں نے دوائی کھائی ہے آج یا کل بخار اُتر جائے گا ۔دو دن آپ بھی آرام کر لیں اورآخری حصہ مجھ سے ہی لکھوائیںتا کہ میں ثواب حاصل کر سکوں۔مگر حضور نہیں مانے کہ میری زندگی کا کیا اعتبار۔تمہارے بخار اُترنے کے انتظار میں اگر مجھے موت آ جائے تو ؟اور پھر سارا دن ترجمہ اور نوٹس لکھواتے رہے اور شام کے قریب تفسیرِ صغیر کو ختم کر دیا۔
مگر ابھی نظرِ ثانی کا اہم اور صبر آ زما مرحلہ باقی تھا۔کچھ ماہ کے لئے اس کام کو ملتوی کرنا پڑا پھر نظرِ ثانی شروع ہوئی۔مئی ۱۹۵۷ء تک صرف ترجمہ کے کام پر روزانہ آٹھ نو گھنٹے کام کر کے اس کی نظرِ ثانی ہو چکی تھی مگر اس کے بعد نظرِ ثالث کا فیصلہ کیا گیا اور اس مرتبہ نظرِثانی سے زیادہ وقت لگ رہا تھا۔حضور فرماتے تھے کہ ان دنوں میں بعض اوقات کام کرتے کرتے میں مدہوش ہو جاتا ہوں۔ بعض دفعہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ میں گر جاؤں گا ۔مولوی یعقوب صاحب عرض کرتے کہ حضور کام بہت زیادہ ہو گیا ہے اب بس کر دیں۔مگر حضورؓ اس حالت میں بھی کہتے کہ کام کرتے جاؤ۔ابھی تفسیرِ صغیر کی اشاعت بھی نہیں ہوئی تھی کہ کلام اللہ کی عظمت کے پیشِ نظر حضورؓ نے یہ نصیحت فرمائی۔
’خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ قرآنِ کریم میں جو مضامین بیان ہوئے ہیں۔اگر ساتوں سمندر سیاہی بن جائیں اور سات سمندر اور ان میں ڈال دئے جائیں۔تب بھی وہ مضامین ختم نہیں ہوں گے۔اور پھر ان کو کوئی انسان ترجمہ کے اندر کیسے لا سکتا ہے ۔وہ تو اپنی طرف سے یہی کرے گا کہ ایک ناقص چیز پیش کردے۔۔۔
اس لئے یہ بات تو سرے سے ہی غلط ہے کہ میں کوئی کامل ترجمہ قرآنِ کریم کا کروں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ کامل وہی ہے جو عربی زبان میں خدا تعالیٰ نے اُتارا ہے ۔میں جو ترجمہ کروں گا وہ بہر حال ناقص ہی ہو گا ۔اور مجھ سے پہلوں نے جو کچھ کیا ہے وہ بھی ناقص ہے ۔مجھے ان کے تراجم میں نقائص نظر آتے ہیں۔اور ہزار سال بعد آنے والوں کو میرے ترجمہ میں نقص نظر آئیں گے۔قرآنِ کریم کے مقابلہ میں جو کچھ بھی ہو گا وہ ناقص ہی ہو گا۔‘(۱)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۲ اکتوبر ۱۹۵۸ء کو سارا ترجمہ مکمل ہو گیا ۔(۲) تفسیرِ کبیر کے کام کی طرح مکرم مولانا ابولمنیر نورالحق صاحب کو تفسیرِ صغیر کے کام میں بھی حضورؓ کی معاونت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔اور اسی طرح مولانا جلال الدین شمس صاحب نے بھی اس سعادت سے حصہ پایا۔ جب تفسیرِ صغیر کی ہزار کے قریب جلدیں چھپ چکیں تو حضورؓ نے ارشاد فرمایا انڈیکس یعنی قرآنی کریم کے مضامین کی فہرست بھی لگا دی جائے ۔تاکہ اس کے مطالعہ کے بعد ہر احمدی کی آنکھوں کے سامنے قرآنِ کریم کے مطالب کا خلاصہ آ جائے۔۔مکرم مولوی ابولمنیر نورالحق صاحب نے پندرہ روزکے اندر یہ انڈیکس مرتب فرمایا اور اسے بھی تفسیرِ صغیر میں شامل کردیا گیا۔اس کی اشاعت سے قبل جماعت میں اس کا اس شدت سے انتظار تھا کہ بعض لوگ دور دور سے آ کر اس کی انتظار میں ربوہ میں بیٹھے ہوئے تھے ۔اور اس کے پریس سے نکلنے سے قبل پریس میںجا کر اسے پڑھ کر تسکین حاصل کرتے تھے۔(۳)دسمبر میں جلسہ سالانہ کے موقع پر تفسیرِ صغیر احباب کے ہاتھوں میں پہنچ گئی اور دنیا نے اس سے استفادہ کرنا شروع کر دیا۔ حضورؓ نے بیماری کے با وجود دن رات تفسیرِ صغیر کی تیاری کے لئے کام کیا۔لیکن حضورؓ کے دل میں قرآنِ کریم کی خدمت کے لئے اتنا جوش اور اتنی امنگ تھی کہ حضورؓ کی دلی تمناء تھی کہ وہ اور بھی زیادہ وقت اس عظیم کام کو دے سکتے۔حضور نے ان جذبات کا اظہار ایک خطبہ جمعہ میں ان الفاظ میں فرمایا
’عمر اور بیماری کے ساتھ انسان کی کیفیتیں بدلتی چلی جاتی ہیں۔مجھے یاد ہے ۲۲ء ؁ میں میں نے سارے رمضان میں درس دیا تھا۔اگست کا مہینہ تھا اور گرمی بڑی سخت تھی۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ میں ساری رات درس کے نوٹ لکھا کرتا تھا۔اور صبح روزہ رکھ کر درس دیتا تھا۔ دوپہر کے بعد جب میں باہر نکلتا۔تو گرمی کی شدت کی وجہ سے حکیم محمد عمر صاحب جو اب بہت بڈھے ہو گئے ہیں۔مسجد کے کنوئیں سے پانی بھر لاتے اور میرے سر پر ڈالتے۔ اس کے بعد میں پھر واپس جا کر درس دینا شروع کر دیتا ظہر آ جاتی عصر آجاتی پھر شام آ جاتی میں درس دیتا چلا جاتا ۔کئی دفعہ ایسا ہؤا کہ درس دیتے دیتے روزہ کھل جاتا۔ غرض کوئی بارہ تیرہ گھنٹے ہم درس دیتے تھے۔۔تفسیرِ کبیر کی جو جلد پہلے چھپی تھی۔ وہ اس درس کے نوٹو ں کی وجہ سے ہے۔لیکن اب بیماری کی وجہ سے جسم میں وہ برداشت نہیں رہی۔ پھر عمر کا تقاضہ بھی ہے۔‘(۱)
(۱) الفضل ۳۱ مئی ۱۹۵۷ء ص۳،۴
(۲) الفضل ۸اکتوبر ۱۹۵۷ء
(۳) الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۵۷ء ص ۱

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیماری
کی شدت میں اضافہ
جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے ،قاتلانہ حملہ کے بعد اور پھر بیماری کے حملے کے نتیجے میں حضور کی صحت خراب رہنے لگی تھی۔یورپ سے واپسی پر طبیعت قدرے بہتر تھی ۔ڈاکٹروں کی ہدایت تھی کہ حضور ؓ زیادہ سے زیادہ آ رام فرمائیں اور آپؓ کو ہر قسم کے تفکرات سے بچایا جائے ۔جب ۱۹۵۶ء میں جماعت میں فتنہ برپا کرنے کی کوشش کی گئی تو حضور ؓ نے با وجود علالت کے اس کی سرکوبی فرمائی۔اس کے بعد تفسیرِ صغیر کو مکمل کرنے کے لئے حضورؓ نے دن رات کام فرمایا اور اس غیر معمولی محنت سے بھی آپ کی صحت پر اثر پڑا اور آپ کی کمزوری میں اضافہ ہو نا شروع ہو گیا ۔۱۹۵۷ء میں آپ نے مسجد مبارک ربوہ میں خطبہ عید الفطر اور عید الاضحی ارشاد فرمایا ،۱۹۵۸ء میں آپ نے مری میں عید الاضحی کی نماز پڑھائی اور خطبہ ارشاد فرمایا اور ۱۹۶۰ء کی عید الفطر کے موقع پر پر نماز مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب نے پڑھائی اور خطبہ حضور ؓ نے ارشاد فرمایا ۔حضور ؓ نے ۱۹۶۰ء کی مجلس شوریٰ کا افتتاح فرمایا اور افتتاحی دعا بھی فرمائی۔مگر اس سال مجلسِ شوریٰ کے اختتامی اجلاس میں حضور ؓ شرکت نہیں فرما سکے۔ اس کے بعد منعقد ہونے والی مجالسِ مشاورت کی صدارت حضور ؓ کے حکم کے ماتحت حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے فرمائی اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓکی وفات کے بعد یہ فرض حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر نے ادا کیا ۔دسمبر ۱۹۶۰ء میں منعقد ہونے والے والے جلسہ سالانہ کا افتتاح حضور ؓ نے فرمایا اور افتتاحی تقریر بھی فرمائی ۔مگر اختتامی اجلاس میں حضور ؓ ناسازیِ طبع کے باعث تشریف نہیں لا سکے اور حضور ؓ کے حکم کے تحت مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے حضورؓ کی تحریر فرمودہ تقریر پڑھ کر سنائی ۔اس کے بعد حضور ؓ جلسہ سالانہ میں شرکت نہیں فرما سکے۔
ان بیماری کے ایام میں حضور کا کمرہ قصرِ خلافت کی دوسری منزل کے ایک کمرے میں تھا۔اور حضور کا دفتر بھی حضور ؓ کے کمرے کے قریب ہی تھا ۔اسی کمرے میں حضور ؓ ڈاک ملاحظہ فرماتے۔یا بیماری کے آ غاز میں اپنے دفتر تشریف لے جا کر کچھ دیر کام فرماتے ۔پرائیویٹ سیکریٹری مکرم عبدالرحمن انور صاحب یا حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ حضور کو ڈاک پڑھ کر سناتیں اور حضورؓ پیش ہونے والے معاملات پر اپنے ارشادات املاء فرماتے۔آخری سالوں میں زیادہ تر حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ ہی حضور کی خدمت میں ڈاک پیش کرتیں۔بیماری کے آ غاز میں مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب یا مولوی یعقوب صاحب حضور ؓ کے بیان فرمودہ درسوں سے مرتب نوٹ حضور کو پڑھ کر سناتے رہے ۔حضور نے سورۃ بقرۃ پر یہ درس اپنے زمانہ خلافت کے آ غاز پر قادیان میں دیئے تھے۔ ۱۹۶۲ء میں یہ مرتب کردہ نوٹس دسمبر ۱۹۶۲ء میں سورۃ بقرۃ کے دسویں رکوع سے لے کر اس سورۃ کے آخر تک کی تفسیر کی صورت میں شائع ہوئے۔حضورؓ اپنی علالت کے باعث ان مسودات پر نظرِ ثانی نہیں فرما سکے تھے۔
شام کے وقت حضور کار میں ربوہ کے قریب احمد نگر سیر کے لئے تشریف لے جاتے اور وہاں پر کرسی پر رونق افروز رہتے۔مکرم میر داؤد احمد صاحب ،مکرم سید عبد الرزاق شاہ صاحب ،مکرم غلام محمد صاحب اختر ،حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ؓ اور بعض دیگر بزرگان حضور ؓ کے ہمراہ احمد نگر تشریف لے جاتے۔
یوں تو حضور کی علالت ہر وقت تمام احمدیوں کے دلوں کو غمزدہ کر رہی تھی لیکن جلسے کے ایام میں یہ دکھ پہلے سے بہت بڑھ جاتا ۔جب ہزاروں کی تعداد میں عشاق ربوہ میں جمع ہوتے اور حضور کا خطاب سننے سے محروم رہتے۔یہ احباب قطاروں کی صورت میں حضور ؓ کے کمرہ میں زیارت کے لئے حاضرہوتے اور سلام کر کے رخصت ہو جاتے ۔ان حالات میں حضور کے چہرہ مبارک کی زیارت ان احباب کے لئے تسکین کا باعث ہوتی۔
اکتوبر ۱۹۶۲ء میں ڈنمارک کے مشہور ڈاکٹر ،ڈاکٹر میتھی سن صاحب کو حضور ؓ کے علاج کے لئے ربوہ بلایا گیا ۔یہ صاحب فزیو تھراپی کے ماہر تھے ۔ مالش اور ورزشیں شروع کرائی گئیں تاکہ جو کمزوری شروع ہو گئی تھی اور جو سختی حضور ؓ کے گھٹنوں میں پیدا ہو گئی تھی اس کو دور کیا جا سکے ۔پہلے تو کچھ افاقہ ہؤا مگر پھر نہ صرف کہ مزید فائدہ نہ ہؤا بلکہ کمزوری میں اضافہ شروع ہو گیا اور ان ورزشوں سے حضور تکلیف محسوس فرماتے تھے۔کنیڈا کے ایک ماہر ڈاکٹر کو حضور کی بیماری کی تفاصیل بھجوائی گئیں اور انہوں نے انہی خطوط پر علاج جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے کلکتہ کے ایک ماہر ہومیو پیتھ ڈاکٹر سے رابطہ فرمایا اور ان کا مجوزہ علاج بھی شروع کیا گیا۔اور کچھ دیسی ادویا ت بھی استعمال کی گئیں۔ ۱۹۶۲ء کے دوران اور ۱۹۶۳ء کے شروع میں حضورؓ کی بیماری کی کیفیت تقریباََ ایک جیسی رہی ،نہ تو بظاہر کوئی ترقی محسوس ہوئی اور نہ ہی کوئی کمی محسوس ہوئی۔ ستمبر ۱۹۶۳ء میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی وفات کا حضور کی طبیعت پر بہت گہرا اثر پڑا۔ اور حضور کو بے چینی کی تکلیف زیادہ ہو گئی۔۔پھر جلسہ سالانہ کے بعد آپ کو انفلو ائنزہ کا شدید حملہ ہؤا ۔اور اس سے کمزوری میں اضافہ ہو گیا ۔۱۹۶۳ء میں حضور ؓ کے علاج کی نگرانی کے لئے چار ڈاکٹروں کا ایک بورڈ قائم کیا گیا ۔اس بورڈ نے طے کیا کہ کراچی کے اعصابی امراض کے مشہور ماہر ڈاکٹر ذکی حسن صاحب ہر ماہ آ کر حضور کو دیکھتے رہیں اور علاج تجویز کریں ۔چنانچہ مکرم ڈاکٹر ذکی حسن صاحب کے زیرِ نگرانی علاج شروع ہؤا۔اس سال ہومیوپیتھ ڈاکٹروں کے ایک وفد نے حضور کا معائنہ کیا اور ایک مشہور طبیب حکیم محمد نبی خان صاحب جو دہلی کے نامور طبیب ،حکیم اجمل خان صاحب کے پوتے تھے ،نے بھی حضور کا معائنہ کر کے کچھ ادویات تجویز کیں۔
حضورؓ ان دنوں میں بھی اپنی بیماری کے با وجود جماعتی فرائض ادا فرما رہے تھے۔حضور ؓ جماعت کے نام پیغامات خود املا ء فرماتے تھے،صدر انجمن احمدیہ ،تحریک جدید کی طرف سے پیش ہونے والے امور کے علاوہ دیگر اہم امور بھی حضور کی خدمت میںپیش کئے جاتے اور حضور ان پر مناسب احکامات صادر فرماتے۔جن گذارشات کی منظوری عطا فرمانی ہوتی حضور ان کو منظور فرماتے اور جن کو نامناسب خیال فرماتے انہیں نا منظور فرما دیتے۔۱۹۶۴ء میں مارچ سے جون تک حضور کی طبیعت قابلِ تشویش حد تک خراب رہی اور کراچی سے مکرم ڈاکٹر ذکی حسن صاحب اور لاہور سے دو اور ماہرین بلوائے گئے۔انہوں نے کچھ ٹیکے شروع کرائے جن سے حالت سنبھلنی شروع ہوئی۔ انہی دنوں میں اس قسم کی بیماری کے لئے رومانیہ میں ایک دوائی کا کامیا ب تجربہ کیا گیا ۔اس دوائی کے موجد ڈاکٹر اینا آسلان صاحب سے رابطہ کیا گیا اور ان کے مشورے کے بعد اس دوائی کے ٹیکوں کے کورس شروع کرائے گئے ۔ان کے استعمال کے بعد حضور کی علامات میںبہتری شروع ہوئی۔ لیکن ڈاکٹر اینا آ سلان صاحب کا خیال تھا کہ چونکہ حضور کی بیماری لمبی ہو گئی ہے اس لئے اس دوائی کو لمبا عرصہ استعمال کرنا پڑے گا۔نومبر ۱۹۶۵ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی وفات تک حضور کی طبیعت میں اسی طرح اُ تار چڑھاؤ آ تا رہا۔(۱تا ۴)
یہ دن پوری جماعت کے لئے جذباتی تکلیف کے دن تھے۔پچاس سال سے زائد عرصہ سے تمام نظامِ جماعت نہ صرف حضورؓ کی نگرانی اور تربیت میں کام کر رہا تھا بلکہ حقیقت یہ تھی کہ نظامِ جماعت کے بیشتر حصہ کی پرورش آپ ہی کے مبارک ہاتھوں میں ہوئی تھی۔ہر چھوٹی چھوٹی بات بھی آپ کی ہدایات تمام اداروں کی راہنمائی کرتی تھیں۔اس سے بھی بڑھ کر آپ ہر احمدی کے لئے ایک شفیق باپ تھے۔ذاتی زندگی میں بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو یا کوئی راہنمائی درکار ہو ، ہر احمدی آپ کی عظیم ذات کا سہارا لیتا تھا۔مختصر الفاظ میں یہ کہ آپ کا وجود ایک ڈھال تھا جس کی پناہ میں ساری جماعت اپنی زندگی کے دن گذار رہی تھی۔مگر ان برسوں میں حضورؓ کی بڑھتی ہوئی علالت نے احبابِ جماعت کے دلوں کو غمزدہ کیا ہؤا تھا۔طبی نقطہ نگاہ سے حالات خواہ کتنے ہی مایوس کن کیوں نہ نظر آرہے ہوں مگر تمام ہاتھ دعا کے لئے اُٹھ رہے تھے کہ قادرِ مطلق حضور کو شفا عطا کرے اور آپ کا بابرکت سایہ جماعت کے سر پر سلامت رہے۔
(۱) رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۶۰ء ص ۳،۴
(۲)رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۶۳ء ص ۲۴۳۔۲۴۴
(۳)رپورٹ مجلسِ مشاورت۱۹۶۴ء ص ۱۳۶ تا ۱۳۸
(۴)رپورٹ مجلسِ مشاورت۲۰۵تا ۲۰۸

گیمبیا مشن کا قیام
جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے اب تک نائیجیریا،سیرالیون ،غانا اور لائیبیریا میں جماعتیں قائم ہو چکی تھیں۔اور ان ممالک میںمشن بھی کام شروع کر چکے تھے۔برصغیر اور انڈونیشیا کی طرح برطانوی مغربی افریقہ میں بھی بڑی بڑی جماعتیں قائم ہو رہی تھیں۔گیمبیا افریقہ کے مغربی ساحل کے اوپر ایک چھوٹا سا ملک ہے ۔اس کا رقبہ دریائے گیمبیا کے ارد گرد ایک پٹی تک محدود دو ہزار مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے۔
افریقہ کے مغربی ساحل پر جماعتِ احمدیہ پھیل رہی تھی لیکن گیمبیا ابھی تک اس سے محروم تھا۔ محدود وسائل کی وجہ سے ابھی گیمبیا میں مبلغ بھجوانے کا پروگرام بھی نہیں تھا۔خدا کا کرنا ایسا ہؤا کہ گیمبیا کی ایک خاتون تعلیم کے لئے سیرالیون گئیں اور وہاں ایک گھر میں انہیں نماز کے متعلق جماعت کی شائع کردہ ایک کتاب ملی۔انہوں نے یہ کتاب گیمبیا میں پنے ایک عزیز کو بطور تحفہ بھجوائی۔اس شخص کے ایک دوست لامین بارا انجائے صاحب (Lamin Barra Njie) نے یہ کتاب اصرار کر کے تین دن کے لئے عاریتاََ لی۔لامین صاحب کے والد ایک پرانی طرز کے متدین عربی دان اور عالم تھے لیکن ۳۳ سالہ لامین کو مذہب کے متعلق صرف یہی علم تھا کہ وہ مسلمان ہیں اور مسلمان والدین کی اولاد ہیں۔لامین بارا انجائے صاحب نے یہ کتاب پڑھی تو بہت متاثر ہوئے۔اس کتاب پر جماعت کے نائیجیریا مشن کا پتہ درج تھا۔انہوں نے نائیجیریا مشن کو لکھا کہ انہیں کچھ لٹریچر بھجوایا جائے۔اُس وقت مولانا نسیم سیفی صاحب نائیجیریا کے امیر اور مغرنی افریقہ کے رئیس التبلیغ تھے۔ نسیم سیفی صاحب نے انہیں لٹریچر بھجوایا اور خط میں ا نہیں اپنے ملک میں اسلام کی تبلیغ کرنے کی تحریک بھی کی۔اللہ تعالیٰ نے لامین بارا انجائے صاحب کو سعید فطرت عطا کی تھی اور ان کا سینہ قبولِ حق کے لئے کھول دیا تھااور انہوں نے سنجیدگی سے دینی مطالعہ شروع کر دیا۔ان کے والد اپنے بیٹے میں یہ تبدیلی دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔لامین صاحب نے باقاعدہ بیعت تو ۱۹۵۸ء میں کی لیکن اس سے پہلے بھی وہ گیمبیا میں جماعت کے مشن کے قیام کے لئے مسلسل کوششیں کر تے رہے۔ آپ نے مکرم مولانا نسیم سیفی صاحب کو لکھا کہ گیمبیا میں بھی احمدیہ مشن قائم ہونا چاہئیے اور یہ بھی لکھا کہ آپ خود یہاں آکر یہاں کے حالات کا مطالعہ کریں۔نسیم صاحب نے گیمبیا آنے کی اجازت طلب کی مگر حکومت نے انہیں ویزا دینے سے انکار کر دیا۔ان کے علاوہ سیرالیون سے بھی بعض مبلغین نے گیمبیا کے ویزے کی درخواست دی مگر انہیں بھی ویزا نہیں دیا گیا۔حالانکہ اُس وقت سیرالیون ،گیمبیا اور نائیجیریا کے ممالک برطانوی حکومت کے ماتحت تھے(۱)۔آپ نے ۱۵ اگست ۱۹۵۵ء کو گیمبیا کے انگریز گورنر کے نام خط لکھ کر درخواست کی کہ جماعتِ احمدیہ کے مبلغ کو گیمبیا میں آنے کی اجازت دی جائے۔جب دو ماہ تک کوئی جواب نہیں آیا تو آپ نے یاد دہانی کا خط لکھا۔دفتر کی طرف سے جواب آیا کہ مذکورہ خط ریکارڈ میںنہیں مل رہا ،اس لئے اس خط کی نقل بھجوائی جائے۔جب یہ نقل انہیں بھجوائی گئی تو مبلغ کو گیمبیا میں داخل ہونے کی اجازت دینے کی بجائے حکومت نے یہ معاملہ مسلم کانگرس گیمبیا کے حوالے کردیا ۔اور دارالحکومت باتھرسٹ(جس کا نام اب بانجل ہے)کے امام صاحب کو ہدایت دی گئی کہ وہ مسلمان زعماء کی میٹنگ میں اس بارے میںمشورہ کر کے اپنے فیصلے سے حکومت کو مطلع کریں۔امام صاحب باتھرسٹ حکومت سے بالواسطہ طور پر تنخواہ پاتے تھے اور جماعت کے مشن کے قیام کے نتیجے میںان کی لیڈر شپ کو خطرہ ہو سکتا تھا۔اس لئے انہوں نے میٹنگ کے بعد حکومت کو رپورٹ دی کہ گیمبیا میں احمدیہ مشن کا قیام مناسب نہیں کیونکہ یہ نہ مالکی ہیں نہ حنفی نہ شافعی نہ حنبلی اور نہ ہماری اقتداء میں نمازیں پڑھتے ہیں(۱) جب یہ رپورٹ حکومت کو ملی تو اس نے احمدی مبلغ کو گیمبیا میں داخل ہونے کا جازت نامہ دینے سے انکار کر دیا۔حکومت سے خط و کتابت کر کے فیصلہ پر نظرِ ثانی کی اپیل کی گئی مگر یہ کوشش بے سود ثابت ہوئی۔
اس دوران مکرم لامین بارا انجائے صاحب نے باقاعدہ بیعت کر لی اور کئی مسلمان نوجوانوں کو اپنا ہم خیال بنا لیا ۔نوجوانوں کا یہ گروہ گیمبیا میں جماعت کے مشن کے قیام کے لئے کوشاں تھا۔ان دنوں میں سیرا لیون کے ایک مسلمان لیڈر مصطفیٰ سنوسی صاحب جو بعد میں سیرالیوں کے وزیرِ خزانہ بھی بنے، گیمبیا آئے۔انہوں نے گیمبیا کے مسلمان زعماء کی ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے زور دے کر یہ بات کہی کہ وہ جماعتِ احمدیہ کے مبلغ کو گیمبیا میں آنے سے نہ روکیں کیونکہ اس میں اُن کا ہی نقصان ہے۔جماعت کے مخالفین پر تو اس کا کوئی اثر نہیں ہؤا مگر کچھ روشن خیال مسلمان اس بات کے حق میں ہو گئے کہ جماعت کے مبلغ کو یہاں آنے سے نہیں روکنا چاہئیے۔آخر لامین صاحب اور ان کے ساتھ چند نوجوانوں کو امام صاحب کے مقابلہ پر آنا پڑا۔انہوں نے ایک پرائمری سکول کے ہال مین ایک میٹنگ منعقد کی ۔اس میں تقریر کرتے ہوئے لامین صاحب نے کہا کہ احمدیہ مشن والے لوگوں کو اسلام سکھاتے ہیں ،عیسائیت سے بچاتے ہیں۔سیرالیون،گولڈ کوسٹ اور نائیجیریا میں انہوں نے اسلام کی شاندار خدمات سر انجام دی ہیں۔اس لئے ہمارے ملک میں بھی احمدیہ مشن قائم ہونا چاہئیے۔امام صاحب کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ گیمبیا میں عیسائیوں مشنریوں کے کام کرنے پر کوئی اعتراض نہ کریں،مگر احمدیہ مشن کے قیام کی مخالفت کریں۔جواب میں مخالفین نے بھی تقاریر کیں۔ اس طرح یہ اجلاس بغیر کسی نتیجے پر پہنچے ختم ہو گیا۔مگر اس کے بعد امام صاحب کے کچھ حریفوں نے گورنر کو لکھا کہ ہمیں امام صاحب باتھرسٹ کی رائے سے اتفاق نہیں اور جماعتِ احمدیہ کے مشن پر اعتراض نہیں ہونا چاہئیے۔(۱)
اس صورتِ حال میں مکرم وکیل التبشیر صاحب نے فیصلہ کیا کہ اگر پاکستانی مبلغ کو وہاں جانے کی اجازت نہیں مل رہی توافریقہ کے کسی ملک سے وہاں کے مقامی مبلغ کو گیمبیا بھجوا دیا جائے ۔ ۱۹۵۹ء کے آخر تک حالات اتنے سازگار ہو چکے تھے کہ نائیجیریا سے ایک مبلغ مکرم حمزہ سنیالو (Hamza Sanyalo)صاحب کو عارضی ویزا پر گیمبیا بھجوایا گیا ۔سنیالو صاحب تقریباََ تین ماہ تک گیمبیا رہے اور اس دوران کئی احباب بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔اسی دوران جماعتِ احمدیہ گیمبیا کے عہدیداران کا انتخاب عمل میں آیا اور یہاں پر باقاعدہ نظامِ جماعت کا آغاز ہؤا۔سنیالو صاحب کے دورہ کے دوران گیمبیا کی اہم مسلمان شخصیات کے ساتھ میٹنگ کا اہتمام کیا گیا۔ اس میٹنگ میںمقررین نے احمدیہ مشن کے قیام کے حق میں تقاریر کیں اور حاضرین نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا۔اس کے بعد جماعت گیمبیا کے پریذیڈنٹ ھاؤسن مصطفیٰ کیٹا صاحب (Howson Mustapha Keita) نے اس میٹنگ کا حوالہ دے کر حکومت کو درخواست کی کہ گیمبیا میں جماعت کے مرکزی مبلغ کو آنے کی اجازت دی جائے۔حکومت نے پھر امام باتھرسٹ سے اس بارے میں مشورہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔احمدیوں نے بہت سے سرکردہ مسلمانوں سے رابطے کئے مگر یہ لوگ جماعت کے مشن کے قیام کی مخالفت کرتے رہے البتہ رائے عامہ بڑی حد تک جماعت کے حق میں ہموار ہو چکی تھی۔جون ۱۹۶۰ء میں صدر جماعت احمدیہ گیمبیا نے حکومت کو تین صفحے کا خط لکھا جس میں بعض مسلمان زعماء کی مخالفت کو بلا جواز ثابت کیا۔اس خط پر سات سو زیادہ افراد کے دستخط تھے ،جن میںبہت سے سرکردہ مسلمان بھی شامل تھے۔
اب گیمبیا کی جماعت آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی۔ان کی تربیت کے لئے وہاں پر کسی مبلغ کا ہونا ضروری تھا۔دوسری طرف اس ضمن میں گیمبیا کی حکومت کوئی واضح جواب نہیں دے رہی تھی۔چنانچہ جولائی ۱۹۶۰ء میں غانا سے جماعت کے مبلغ مکرم احمد جبرائیل سعید صاحب گیمبیا پہنچے اور مرکزی مبلغ کی آمد تک وہیں پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔جماعت کے خط پر گورنر نے امام باتھرسٹ کو لکھا کہ اب رائے عامہ احمدیہ مشن کے قیام کے حق میں ہے تو اب آپ کیا مشورہ دیتے ہیں۔اس کے جواب میں امام صاحب نے لکھا کہ آپ جیسا مناسب سمجھیں فیصلہ کر لیں۔چنانچہ اب حکو مت کوبھی مشن کے قیام پر کوئی اعتراض نہ رہا۔مرکزِ سلسلہ نے مکرم مولانا چوہدری محمد شریف صاحب کو ،جو پاکستان سے باہر تبلیغ کا وسیع تجربہ رکھتے تھے ،گیمبیا کے لئے مبلغ مقرر کیا۔آپ ۱۲ فروری ۱۹۶۱ء کو ربوہ سے روانہ ہوئے اورمشرقی وسطیٰ سے ہوتے ہوئے ۲۶ فروری کو نائیجیریا کے دارالحکومت پہنچ گئے۔ آپ نائیجیریا سے غانا گئے جہاں آپ نے تین روز قیام کیا اور۹ مارچ کو بذریعہ ہوائی جہاز گیمبیا پہنچ گئے۔اس وقت آپ کی جیب میں صرف پچاس پاؤنڈ کی رقم تھی ۔اور قدرتاََ یہ فکر دامنگیر تھی کہ نہ جانے اب کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔مگر جہاز کے رکتے ہی گیمبیا کے احمدیوں نے بڑی محبت سے آپ کا استقبال کیا۔شہر میں جانے کے لئے بس کا انتظام کیا ہؤا تھا۔شہر کی حدود میں داخل ہوتے ہی سب احباب نے اونچی آواز میں لا الٰہ الااللّٰہ کا ورد شروع کر دیا اور اس طرح سارے شہر کا چکر لگایا۔یہ گویا احمدی مبلغ کی آمدکا اعلان تھا۔شروع میں مکرم چوہدری محمدشریف صاحب کی رہائش کا انتظام لامین بارا انجائے صاحب کے گھر میں تھا ۔لامین بارا صاحب کی سادہ سی رہائش گاہ میں غانا سے آئے ہوئے مبلغ مکرم احمد جبرائیل سعید صاحب بھی قیام پزیر تھے۔ لامین صاحب اور اُن کے اہلِ خانہ نہایت اخلاص سے مبلغین کی خدمت کر رہے تھے۔یہ رمضان کا مہینہ تھا،اس لئے درسِ قرآن اور نمازِ تراویح کا سلسلہ شروع کیا گیا۔اور مکرم چوہدری محمدشریف صاحب نے شہر میں رابطے شروع کئے اور جلد ہی لنکاسٹر سٹریٹ پر ایک مکان لے کر مشن ہاؤس کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔یہ مشن ہاؤس شہر کے وسط میں تھا۔وہاں پر بہائیوں کا سینٹر بھی قائم تھا۔(۲،۳)
گیمبیا میں احمدیوں کے علاوہ دیگر مسلمانوں کو بھی دینی تعلیم کی اشد ضرورت تھی۔مکرم چوہدری محمدشریف صاحب نے قرآنِ کریم ناظرہ پڑھانے کے لئے کلاس کا آغاز کیا۔اس میں احمدیوں کے علاوہ غیر احمدی مسلمان بھی شامل تھے۔تین ماہ کے عرصہ میں بیس سے زاید بالغ افراد نے قرآنِ کریم ناظرہ پڑھنا سیکھا۔ان احباب میں لامین بارا انجائے صاحب اور الحاج فاریمانگ سنگھاٹے صاحب بھی شامل تھے۔دو تین ماہ میں جماعت کا ایسا تاثر پیدا ہو چکا تھا کہ جب عید الاضحی کا دن آیا تو بہت سے غیر احمدیوں نے بھی احمدیوں کے ساتھ نمازِ عید ادا کی۔جب مکرم چوہدری محمد شریف صاحب گیمبیا پہنچے تو صرف باتھرسٹ(موجودہ بانجل) میں ہی جماعت قائم تھی۔چند ماہ کے قیام کے بعد آپ نے باتھرسٹ کے نواح میں واقعہ دیہات اور قصبوں میں دورے کر کے احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ آہستہ آہستہ آپ کی تبلیغی کاوشوں کا دائرہ وسیع ہو رہا تھا۔جون ۶۱ میں آپ نے ویسٹرن ڈویژن کا تبلیغی دورہ کیا ۔
اس کے ساتھ مختلف سکولوں میں لیکچروں کا سلسلہ بھی کامیابی سے شروع کیا گیا۔اور اس کے ساتھ اانگریزی میں پمفلٹوں کی اشاعت کا آغاز ہؤا ۔ان پمفلٹوں میں حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کا پیغام اہلِ گیمبیا تک پہنچایا گیا تھا ۔وہاں پر بہائی بھی کام کر رہے تھے چنانچہ ایک پمفلٹ Discovery of Bahaismبھی شائع کیا گیا۔پہلے سال میں ہی کرایہ کی دکان پر احمدیہ بک ڈپو قائم کیا گیا۔بعد میں اسے مشن ہاؤس منتقل کردیا گیا(۴)۔ان مساعی کے نتیجہ میں پڑھے لکھے گیمبین حضرات میں بھی جماعتِ احمدیہ میں دلچسپی پیدا ہو رہی تھی۔چنانچہ ۱۹۶۱ء میں ہی جسٹس آف پیس الحاج عثمان ناجی بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔غیر احمدی مسلمانوں میںسے بہت سے جماعت کی کاشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔چنانچہ غیر احمدیوں کی طرف سے منعقد کئے گئے جلسہ سیرت النبی ﷺ میں جماعتِ احمدیہ کے مبلغ کو بھی تقریر کی دعوت دی گئی۔دوسری طرف بعض دوسرے عناصر کی طرف سے جماعت کی مخالفت کا بھی آ غاز ہو رہا تھا۔چنانچہ ایک سوڈانی عالم محمد احمد منگتا نے جماعت کی مخالفت شروع کر دی ۔(۲)لیکن اس کے باوجود ایک ایک کر کے سعید روحیں احمدیت کو قبول کر رہی تھیں۔چوہدری محمد شریف صاحب کی آمد سے پہلے جماعت کے مداح تو بہت تھے لیکن عملاََ بہت کم لوگوں نے بیعت کی تھی۔مگر اب بیعت کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔۱۹۶۲ء کے آخر تک گیمبیا میں احمدیوں کی تعداد۵۰۰ تک پہنچ چکی تھی۔ گو اس سے قبل فاریمان سنگھاٹے صاحب احمدیہ مشن سے تعلق رکھتے تھے اور مشن میں منعقد ہونے والی قرآن کلاس میں بھی آتے رہے تھے ۔مئی ۱۹۶۳ء میں آپ با قاعدہ بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے۔ اور ۱۹۶۵ء میں آپ جماعتِ احمدیہ گیمبیا کے صدر مقرر ہوئے۔
ابتداء میں مکرم چوہدری محمدشریف صاحب کا حلقہ تبلیغ زیادہ تر بانجل اور اس کے نواح تک محدود تھا۔گو کہ اس دوران بھی دوسرے ذرائع سے ملک بھر میں جماعت کا پیغام پہنچ رہا تھا۔بانجل سے دور کچھ مقامات مین جن میں جارج ٹاؤں بھی شامل تھا کچھ لوگ بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو چکے تھے۔۱۹۶۳ء میں آپ نے ملک کے دوسرے مقامات کے دوروں کا آغاز کیا۔سب سے پہلے آپ دریائی جہاز پر سفر کر کے مشرقی سرحد پر واقعہ قصبے بصے(Basse) پہنچے اور وہاں پر احمدیت کا پیغام پہنچایا۔اس کے بعد آپ نے جارج ٹاؤن،ساپو(Sapo)،مانساکونکو (Mansakonko)، فیرا فینی کے دورے کئے۔ان دوروں میں مقامی احباب بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ان دوروں کا بہت اچھا نتیجہ برآمد ہؤا اور ان علاقوں میں بھی احمدیت کا بیج بویا گیا۔(۵تا۷)
بڑھتے ہوئے کام کے ساتھ اس بات کی ضرورت تھی کہ مقامی احباب بھی آگے آ کر تبلیغ کا کام سنبھالیں اور اسے وسعت دیں۔مکرم مولانا محمد شریف صاحب نے ۱۹۶۳ء میںگیمبین احمدیوں کو اس فریضہ کی طرف توجہ دلائی۔اس تحریک پر سب سے پہلے احمد گئی (Gaye)صاحب اور مکرم عبد القادر جکنی(Jikni) صاحب نے لبیک کہا۔مکرم احمد گئی صاحب کو بانجل کے نواح میںمبلغ مقرر کیا گیا۔ مکرم عبد القادر جکنی صاحب پہلے جماعت کے مخالف علماء میں سے تھے ۔آپ کے سپرد شمالی علاقے کئے گئے۔وقف کے بعد آپ نے نہایت اخلاص اور مستقل مزاجی سے اپنے عہد کو نبھایا اور اللہ تعالیٰ نے خلافتِ رابعہ تک آپ کو شاندار خدمات کی توفیق عطا فرمائی۔
مسجد اور مشن ہاؤس جماعت کی تبلیغی اور تربیتی مساعی میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔وقت کے ساتھ بانجل کا مشن ہاؤس لوگوں کی توجہ کا مرکز بن رہا تھا۔سارا سال مختلف زائرین مشن ہاؤس آتے اور جماعت احمدیہ کے متعلق معلومات حاصل کرتے۔ان زائرین میں عام لوگوں کے علاوہ وزرائ،کونسلرز ،مجلسِ قانون ساز کے ممبران ،اور حکومتی افسران بھی شامل تھے۔ایک مرتبہ سینیگال کے سفارتکار ،دو بڑے علماء کے ہمراہ ملنے آئے ۔کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد کہنے لگے کہ میں نے سنا ہے کہ احمدی لوگ جو قرآنِ کریم شائع کرتے ہیں ان میں تو شائع کیا جاتا ہے لیکن کے الفاظ حذف کر دیئے جاتے ہیں۔مکرم مولانا محمد شریف صاحب نے اسی وقت جماعت کے شائع کردہ انگریزی ترجمہ قرآن میں سے یہ آیت نکال کر سامنے رکھ دی۔جب انہوں نے اس نسخے میں کے الفاظ دیکھے توہنس کر کہنے لگے کہ یہ ہمارے علماء بڑے بے ایمان ہیں جھوٹ بولتے ہیں اور لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔
اُس وقت نظامِ تعلیم پر مکمل طور پر عیسائی مشنریوں کا قبضہ تھا اور وہ دنیاوی تعلیم کی آڑ میں عیسائیت کی تبلیغ بھی کرتے تھے۔جس سے بہت سے مسلمان کم علمی کے باعث متاثر ہو جاتے تھے۔ یکم جون ۱۹۶۳ء کو بانجل سے آٹھ میل کے فاصلے پر جسونگ کے مقام پر گیمبیا کے پہلے احمدیہ مدرسہ کا آ غاز ہؤا۔پہلے سال میں چالیس طلباء اور طالبات داخل ہوئے۔ایک مراکشی احمدی الحاج محمد امین الحسینی اس میں مدرس کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ایک سال بعد اسے بند کر دیا گیا تاکہ اس کی جگہ ایک سکول قائم کرکے اس میں دیگر مضامین کے ساتھ عربی اور اسلامیات کی تعلیم بھی دی جائے(۴) ۔ بہت سے احمدی والدین اپنے بچوں کو اسلامی ماحول میںتعلیم دلانے کے لئے انہیں بَو (سیرالیون) کے اسکول بھجوا دیتے تھے۔اس طرح ابتدائی احمدیوں کے بچے جماعتی ماحول میں تعلیم پانے لگے۔ہمسایہ ممالک میں جماعت کے اسکولوں کی نیک شہرت گیمبیا بھی پہنچ چکی تھی۔ایک مرتبہ ملک کے وزیرِ زراعت نے جو کہ غیر احمدی مسلمان تھے مولانا محمد شریف صاحب کو کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ اپنے بیٹے کو بو کے احمدیہ اسکول میں پڑھنے نکے لئے بھجوا دوں کیونکہ میرا تجربہ ہے کہ آپ کا ماحول اسلامی ہے اور میں اپنے بیٹے کو صحیح اسلامی رنگ میں ڈھالنا چاہتا ہوں۔۱۹۶۴ء کے آغاز میں گیمبیا میں پہلے احمدیہ ہائی اسکول کا افتتاح عمل میں آیا اور اس طرح یہاں پر جماعت کی تعلیمی خدمات کا آ غاز ہؤا۔(۲)
مکرم مولانا محمد شریف صاحب تین سال سے گیمبیا میں خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ ۱۹۶۴ء میںمرکز نے آپ کو ربوہ بلا کر آپ کی جگہ مکرم مولانا غلام احمد صاحب بد و ملہی کو گیمبیا کا امیر اور مشنری انچارج مقرر کیا۔آپ ۹ مئی ۱۹۶۴ء کو گیمبیا پہنچ گئے اور مکرم مولانا محمد شریف صاحب آپ کو چارج دینے کے بعد ۵ جون ۱۹۶۴ء کو مرکزِ سلسلہ کے لئے روانہ ہو گئے۔
۱۸ فروری ۱۹۶۵ء کو گیمبیا ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہؤا۔تقریبِ آزادی میں باقی مذہبی عمائدین کے ساتھ مکرم مولانا غلام احمد صاحب بد و ملہی اور کچھ اور احمدی احباب بھی مدعو تھے۔دیگر مذہبی عمائدین کی طرح آپ نے بھی مختصر دعائیہ تقریر کی جو کہ ریڈیو گیمبیا سے نشر کی گئی۔مئی ۱۹۶۵ء میں مکرم میر مسعود احمد صاحب نے مرکزی نمایندے کے طور پر گیمبیا کا دورہ کیا۔اور اسی سال مکرم الحاج فاریمان سنگھاٹے صاحب جماعتِ احمدیہ گیمبیا کے صدر مقرر ہوئے ۔ بہت جلد آپ کے کندھوں پر ملک کے اہم ترین منصب کی ذمہ داریاں بھی پڑنے والی تھیں۔(۲)
(۱) ۲۱ جولائی ۱۹۸۳ء ص۳ تا ۵
(۲)فائیل گیمبیا،ریکارڈ وکالتِ تبشیر
(۳) الفضل۶ اکتوبر ۱۹۷۶ء ص۳و۴
(۴) تحریک ِ جدید جون ۱۹۸۱ء ص ۸
۵) الفضل ۲۹ جون۱۹۶۳ء ص ۳۔۴
(۶)الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۶۳ء ص ۵
(۷) الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۶۳ء ص۵


فجی میں مشن کاقیام
فجی جنوبی بحر الکاہل میں واقع چھوٹے چھوٹے جزائر کا مجموعہ ہے۔اس ملک میں کئی قومیتوں کے لوگ آ باد ہیں۔ان میں سب سے زیادہ تعداد ہندوستانی باشندوں اور یہاں کے مقامی لوگوں کی ہے۔یہاں کی آبادی میں عیسائی سب سے زیادہ ہیںاور ان کے بعدہندو مت سے وابستہ لوگ یہاں زیادہ تعداد میں آ باد ہیں۔مسلمانوں آبادی کا تقریباََ سات فیصد ہیں۔جب ہندوستان میں شدھی کی تحریک چلی تو اس کا اثر فجی بھی پہنچا اور ان کی طرف سے یہ کوششیں شروع کی گئیں کہ کمزور مسلمانوں کو ہندو بنا لیا جائے۔
فیجی میں سب سے پہلے احمدیت کا تعارف ایک احمدی مکرم چوہدری عبد الحکیم صاحب کے ذریعہ پہنچا جو ۱۹۲۵ء میں کاروبار کے سلسلے میں فجی منتقل ہوئے ۔انہوں نے یہاں پر نادی کے مقام پر قیام کیا اور مرکز کے ساتھ رابطہ رکھنے کے علاوہ کچھ جماعتی لٹریچر منگوا کر اپنے واقف کاروں میں تقسیم کیا۔لیکن اس وقت یہاں پر باقاعدہ جماعت کا قیام عمل میں نہیں آ سکا۔مگر یہاں کے کچھ باشندے پیغامیوں کی انجمن اشاعت اسلام کے ساتھ وابستہ تھے۔جب یہاں پر شدھی کی تحریک چلائی گئی تو ان کی طرف سے اس تحریک کا مقابلہ کیا گیا۔مگر ان میںسے بعض نے یہ محسوس کیا کہ انہیں دانستہ طور پر حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی کتب مہیا نہیں کی جاتیں۔جب ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کچھ کتب دستیاب ہوئیں تو ان پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ آپ کا دعویٰ صرف مجدد ہونے کا نہیں بلکہ امتی نبی کا بھی تھا۔ان میں سے ایک صاحب مکرم محمد رمضان صاحب حج کرنے کے بعد تلاشِ حق کے لئے ۱۹۵۹ء میں ربوہ آئے اور بیعت کر کے جماعت ِ احمدیہ مبایعین میں شامل ہو گئے اور حضرت مصلح موعودؓ سے درخواست کی کہ فجی کوئی مبلغ بھجوایا جائے۔ اور فجی آ کر تبلیغ کا فریضہ ادا کرنا شروع کیا۔ان کی کاوشوں سے کچھ احباب بیعت کرکے جماعت ِ احمدیہ میں داخل ہو گئے۔
یہاں پر جماعت کے پہلے مبلغ مکرم شیخ عبد الواحد صاحب ۱۱ ؍ اکتوبر ۱۹۶۰ء کو فجی پہنچے اور ابتداء میں آپ کا قیام مکرم محمد رمضان صاحب کے ہاں رہا۔آپ سب سے پہلے نادی کی جماعت کی تنظیم کی طرف متوجہ ہوئے اور یہاں پر تعلیمی اور تبلیغی کلاس کا اجراء کیا۔اور باقاعدہ نظامِ جماعت کا بھی آغازہؤا۔یہاں کی جماعت کے پہلے صدر کے طور پر مکرم جان خان صاحب نے کام شروع کیا۔
فجی میں دوسری جماعت مارو(Maro) کے مقام پر قائم ہوئی۔یہاں کے پہلے احمدی مکرم قاسم خان صاحب تھے۔اور پھر لاٹوکا (Lautoka) کے مقام پر ایک مختصر جماعت قائم ہوئی۔اور پھر۱۹۶۱ء میں مکرم شیخ عبد الواحد صاحب نے ملک کے دارالحکومت Suvaکا دورہ کیا اور یہاں پر فجی کی چھوٹی جماعت قائم ہوئی۔ فجی میں احمدیت قبول کرنے والوں کی اکثریت ہندوستانی نسل سے تعلق رکھتی تھی تاہم کچھ مقامی نسل سے تعلق رکھنے والے احباب نے بھی بیعت کی ان میں سے پہلے دو احمدیوں کے نام غلام رسول اور محمد توراہ تھے۔۱۹۶۱ء میں یہاں پر ریڈیو کے ذریعہ تبلیغ کا آ غاز ہؤا۔اور جون ۱۹۶۱ء میں یہاں پر ایک ماہوار رسالہ الاسلام کا آ غاز کیا گیا۔
دسمبر ۱۹۶۲ء میں جماعت ِ احمدیہ کا پہلا جلسہ منعقد ہؤا۔جماعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیشِ نظر ۱۹۶۳ء میں جماعت کا اپنا مشن ہاؤس اور مسجد فضلِ عمر کے نام سے ایک مرکزی مسجد تعمیر کی گئی۔اسکے ساتھ فجی میں جماعت کی تبلیغی مساعی ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوئی۔(۱)
(۱) تاریخ فجی مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر

افریقہ میں جماعت کی طبی اور تعلیمی خدمات کا آ غاز
اب ہم ۱۹۶۰ء کی دہائی کے ذکر سے گزر رہے ہیں۔گو زمانی لحاظ سے دیکھا جائے تو اس دورسے بہت پہلے جماعتِ احمدیہ افریقہ میں اپنی تعلیمی خدمات کا آ غاز کر چکی تھی لیکن چونکہ کتاب کے حصہ اول میں اس کا ذکر نہیں آ یا تھا اس لئے اب اس میدان میں جماعت ِ احمدیہ کی خدمات کے آغاز کا مختصراََ ذکر کریں گے۔
وہ ملک جہاں سے سب سے پہلے ان خدمات کا آ غاز ہؤا نائیجیریا تھا۔افریقہ کے باقی علاقوں کی طرح اس ملک میں بھی تعلیمی نظام پر عیسائی مشن چھائے ہوئے تھے۔ نائیجیریا میں ایک عرصہ سے مسلم اسکول کھولنے کی کوشش ہو رہی تھی لیکن اس مقصد میں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔۱۱ ستمبر ۱۹۲۲ء کومغربی افریقہ میں پہلے احمدی مبلغ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیرؓ کے ذریعہ پہلے احمدیہ اسکول کا قیام عمل میں آ یا ۔اس دن نائیجیریا کے دارالحکومت لیگوس میں تعلیم الاسلام اسکول کے نام سے ایک اسکول کا آ غاز کیا گیا۔اُس وقت تک قادیان اور ربوہ میں بھی اسی نام سے جماعت کے اسکول بنائے گئے تھے۔کالونی کے ریذیڈنٹ صاحب نے اس ادارے کا افتتاح کیا اور یوروبا زبان میں خطاب کرتے ہوئے اس واقعہ پر اظہارِ مسرت کیا۔
غانا میں پہلا احمدیہ پرائمری اسکول ۱۹۲۷ء میں سالٹ پانڈ کے مقام پر ،مکرم حکیم فضل الرحمن صاحب کے ذریعہ قائم ہؤا۔اور سیرالیون میں پہلا احمدیہ پرائمری اسکول ۱۹۲۷ء میں روکوپور کے مقام پر قائم ہؤا۔یہ آ غازپرائمری سکولوں سے ہؤا تھا۔افریقہ کا پہلا احمدیہ سکینڈری اسکول کماسی ،غانا میں ۱۹۵۰ء میں قائم ہؤا تھا۔اسی طرح سیرالیون کا پہلا احمدیہ سکینڈری اسکول بو (Bo)کے مقام پر شروع ہؤا۔ سیرالیون میں جماعت کی تعلیمی مساعی کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنی جلدی کامیابی حاصل ہوئی کہ آ ئندہ چند سالوں میں جماعت کے تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھتی گئی۔۱۹۶۴ء تک صرف غانا میں جماعت کے تعلیمی اداروں کی تعداد پندرہ ہو چکی تھی۔(۱)
افریقہ میں طبی میدان کے اندر جماعتی خدمات کا آ غاز کرنے کا اعزاز مکرم ڈاکٹر شاہنواز صاحب کے حصہ میں آیا ۔جنہوں نے ۱۹۶۰ء میںسیرالیون میں بو کے مقام پر طبی خدمات کا آ غاز کیا اور تقریباََ ڈیڑھ سال وہاں پر کام کیا ۔اگلے سال نائیجیریا میں لیگوس کے مضافات میں اپاپا کے مقام پر مکرم ڈاکٹر یوسف صاحب نے جماعت کا مشنری کلینک قائم کیا۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مکرم ڈاکٹر یوسف صاحب نے ۱۹۶۸ء میں میدانِ عمل میں ہی وفات پائی ۔تیسرا کلینک مکرم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب نے کانو ( نائیجیریا ) میں قائم کیا۔ مکرم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب نے بھی ایک طویل عرصہ خدمات سر انجام دے کر نائیجیریا میں ہی وفات پائی۔(۲۔۳)
اس طرح خلافتِ ثانیہ کے با برکت دور میںبرِا عظم افریقہ میں جماعت ِ احمدیہ اپنی طبی اور تعلیمی خدمات کا آ غاز کر چکی تھی ۔اور با وجود وسائل کی کمی کے ان ابتدائی کا وشوں کے ایسے مثبت نتائج نکلنے شروع ہو گئے تھے کہ خلافتِ ثالثہ میں ان خدمات نے مجلس نصرت جہاں کے تحت باقاعدہ ایک تحریک کی صورت اختیار کر لی۔اور اس میدان میں جماعتی خدمات کا ایک نیا سنہرا دور شروع ہؤا۔
(۱) الفضل ۱۸ جون ۱۹۶۴ء ص۷
(۲)الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۶۰ء ص۱
(۳) الفضل۲۳ نومبر ۱۹۶۱ء ص۱

آئیوری کوسٹ میں جماعت کا قیام
جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ اب تک مغربی افریقہ کے چار ممالک میں جماعت کا قیام عمل میں آچکا تھا۔یہ سب ممالک English speaking west Africa سے تعلق رکھتے تھے۔ مغربی افریقہ میں بہت سے ممالک فرانسیسی تسلط میں رہے تھے اور اس نسبت سے انہیں Francophone ممالک کہا جاتا تھا کیونکہ یہاں پر انگریزی کی بجائے فرانسیسی سرکاری اور تعلیمی زبان کا درجہ رکھتی تھی۔ابھی تک مغربی افریقہ کے کسی Francophoneملک میں مشن قائم نہیں ہؤا تھا۔چنانچہ سب سے پہلے اس مقصد کے لئے آئیوری کوسٹ کا انتخاب کیا گیا۔یہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد اپنے روایتی مذہب سے بھی وابستہ ہے۔ اُس دور میں عام مسلمان دینی علوم سے دور کا بھی واستہ نہیں رکھتے تھے۔بالخصوص علماء زود رنج اور ظاہر پرست واقع ہوئے تھے۔با وجود گرمی کے بھی تین تین جبے پہن کر رکھتے۔ ہر عالم کے پاس عوام کو دھوکہ دینے کے لئے علیحدہ قسم کے انتظامات موجود تھے۔کوئی قرآنی آیات کو تختی پر لکھ کر دھو کر پلاتا، کوئی تعویذ دیتا،کوئی آبِ زمزم سے دوائی بنا کر دیتا اور کوئی ریت پر ہاتھ کا عکس لے کر قسمت کا حال بتاتا۔یہ ڈھنگ اختیار کر کے یہ لوگ لوگوں کو گمراہ کرتے۔(۱)
۱۹۶۰ء میں جبکہ مذکورہ بالا چار ممالک کے علاوہ گیمبیا میں بھی مشن کے قیام کے لئے بھی کوششیں ہو رہی تھیں،آئیوری کوسٹ میںجماعت کا مشن کھولنے کا فیصلہ ہؤااور اس کے لئے مکرم قریشی مقبول احمد صاحب کا انتخاب کیا گیا۔آپ اس غرض کے لئے ۲۲ نومبر ۱۹۶۰ء کو ربوہ سے روانہ ہو کر ۲۵ نومبر کو نائیجیریا کے دارالحکومت لیگوس پہنچے۔کچھ ماہ نائیجیریا اور غانا میں گزار کر آپ فرانسیسی سفارت خانے کی اس یقین دہا نی پر آئیوری کوسٹ پہنچے کہ آپ کو ایئر پورٹ پر ویزا مل جائے گا۔مگر وہاں پہنچ کر آپ کو ویزا نہیں مل سکا۔پھر آپ وہاں سے غانا آگئے اور دو ماہ کے لئے سینی گال گئے اور کچھ عرصہ گیمبیا میں ٹھہرے تھے کہ آپ کو حکومت آئیوری کوسٹ کی طرف سے ویزا دے دیا گیا اور بالآخر ۲۲ جولائی ۱۹۶۱ء کو آئیوری کوسٹ پہنچ گئے۔آپ کا قیام ملک کے دارالحکومت آبی جان میں تھا پہلے تین ہفتہ آپ ہوٹل میں ٹھہرے اور مشن کے لئے مکان کی کوشش شروع کی گئی۔شہر ایک محلہ آجامے(Adjame)میں آپ کو ایک چھوٹا سا مکان کرایہ پر مل گیا۔ابھی آپ ہوٹل میں قیام پذیر تھے کہ آپ کے پاس مالی کے ایک صاحب یحییٰ تراولے صاحب اور ان کے دو ساتھیوںمکرم شاکا بامبا صاحب اور مکرم محمد صاحب کے ہمراہ آپ سے ملنے آئے۔مکرم مقبول ساحب نے ان لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فوٹو دکھائی اور بتایا کہ آپ ہی امام مہدی ہیں جن کی آمد کی خوشخبری آنحضرت ﷺ دی تھی۔جب یہ تینوں احباب وہاں سے نکل رہے تھے تو یحییٰ تراولے صاحب نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ آ دمی جھوٹا ہے ۔لیکن چند روز بعد آپ نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص انہیں کہتا ہے کہ امام مہدی نے ایک ہی علاقے میں آنا تھا ۔باقی علاقوں میں تو کوئی اور آدمی ہی اس کا پیغام لے کر جائے گا۔اس خواب کی بنا پر ان تینوں ساتھیوں کو اطمینان ہو گیا اور انہوں نے احمدیت قبول کر لی۔
اس طرح آئیوری کوسٹ میں تبلیغ کا آ غاز ہؤا۔ابتداء میں فرانسیسی زبان صحیح طرح نہ جاننے کی وجہ سے دقت کا سامنا تھا ،اس لئے زبان بہتر بنانے کی طرف توجہ دینی پڑی۔انفرادی رابطوں سے تبلیغ کا کام شروع کیا گیا ۔پہلے آجامے اور پھر آبی جان کے دوسرے علاقوں میں ملاقات کر کے احمدیت کا پیغام پہنچایا۔جواہلِ علم فرانسیسی جانتے تھے انہیں اسلامی اصول کی فلاسفی کا فرانسیسی ترجمہ دیا گیا اور عربی جاننے والوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب مطالعہ کے لئے دی گئیں۔ اخبارات میں مضامین لکھنے کا سلسلہ بھی شروع ہؤا۔رفتہ رفتہ کچھ سعید روحیں احمدیت میں داخل ہونے لگیں۔اور آبی جان میں ایک مختصر جماعت قائم ہوئی۔مکرم قریشی مقبول صاحب کے زمانے میں زیادہ تر تبلیغی مساعی آبی جان میں ہی مرکوز رہی تاہم بعض دیگر مقامات تک بھی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچایا گیا۔زیرِ تبلیغ افراد میں صرف مقامی باشندے ہی شامل نہیںتھے ۔مالی، لبنان، گنی، نائیجیریا اور غانا سے آئے ہوئے احباب تک بھی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچایا گیا۔(۲)
جماعت بن جانے کے بعد ان کی تربیت ایک مسلسل جد وجہد کا تقاضہ کرتی ہے۔چنانچہ آئیوری کوسٹ میں تربیت کا عمل بھی شروع ہؤا۔احباب ِ جماعت کو بار بار چندوں کی طرف توجہ دلائی گئی اور ان کو قرآنِ کریم پڑھانے کا انتظام بھی کیا گیا۔
اسی دور میں مالی کے ملک میں بھی تبلیغ کا کام جاری رکھا گیا۔اور وہاں پر جماعتیں قائم ہوئیں۔ مقامی مبلغ مکرم الحاج محمد غزالی صاحب مالی کا دورہ کر کے احبابِ جماعت کی تربیت کے علاوہ تبلیغ کا کام بھی کرتے رہے۔یہ دوست آئیوری کوسٹ میں احمدی ہوئے تھے جہاں وہ تحصیل علم کے لئے مقیم تھے اور پھر ان کو ان کے وطن مالی میں ہی مبلغ مقرر کر دیا گیا۔ (۳)
نومبر ۱۹۶۳ء میں مکرم قریشی مقبول احمد صاحب واپس ربوہ روانہ ہوئے اور ان کی جگہ مکرم قریشی محمد افضل صاحب کو آئیوری کوسٹ میں مقرر کیا گیا۔مکرم قریشی افضل صاحب نے اندرونِ ملک بھی دورے شروع کئے ۔۱۹۶۴ء کے آ غاز میں آپ نے اپر وولٹا (اس کا موجودہ نام بورکینا فاسو ہے )کا دورہ کیا ۔ آپ وہاں کے دارالحکومت واگا ڈوگو(Ouaga dougo)گئے، وہاں کے دوسرے بڑے شہر Boakeبھی گئے اور وہاں پر جامع مسجد میں لیکچر دیا ۔لیکچر کے بعد سوالات کا موقع دیا گیا۔اس دوران لوگوں نے وہاں کے رواج کے مطابق پیسے لا کر میز پر رکھنے شروع کئے۔آخر میں قریشی افضل صاحب نے کہا کہ یہ رقم آپ لوگ اپنی مسجد پر خرچ کر دیں۔اس کا مقامی لوگوں پر بہت اچھا اثر ہؤا(۴)۔ ۱۹۶۵ء میں وکیلِ اعلیٰ و وکیل التبشیر مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے مغربی افریقہ کا دورہ کیا تو آپ آئیوری کوسٹ بھی تشریف لائے۔اس سفر میں مکرم میر مسعود احمد صاحب بھی آپ کے ہمراہ تھے۔
(۱)الفضل ۳۰ اپریل ۱۹۶۴ء ص ۳
(۲)الفضل ۹ جون ۱۹۶۳ء ص ۳
(۳) الفضل ۸ اگست ۱۹۶۳ء ص ۴
(۴)الفضل ۳۰ اپریل ۱۹۶۴ء ص۴
فرنچ گنی میں مشن کھولنے کی کوشش:
اگست ۱۹۵۹ء میں لائیبیریا کے صدر ولیم ٹب مین صاحب نے جنوبی افریقہ میں ہونے والے مظالم کے سلسلے میں افریقہ کے آزاد ممالک کے سر براہان کی ایک کانفرنس بلائی ۔دیگر ممالک کی طرح فرنچ گنی کا وفد بھی اس کانفرنس میں شامل ہونے کے لئے لائیبیریا آیا۔اس موقع پر جماعت ِ احمدیہ لائیبیریا کے ایک وفد نے صدر جمہوریہ گنی جناب شیخو ٹورے صاحب سے ملاقات کی اور جماعت کا لٹریچر پیش کیا اور جماعت ِ احمدیہ کا تعارف کرایا ۔صدرِ گنی نے شکریہ ادا کیا اور سرسری طور پر اظہار کیا کہ جماعت ان کے ملک میں بھی مشن کھولے اور عربی اور دینیات کے مدرسے قائم کرے۔(۱)
۲۰ مارچ ۱۹۶۱ء کو مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب عارضی پرمٹ پر گنی پہنچے۔اور ایک لبنانی کتب فروش کے ہاں ٹھہرے۔انہوں نے یہ مکان کرایہ پرلیا ہؤا تھا ۔جلد مالک مکان نے مکان خالی کرالیا۔مجبوراََ مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب کو ہوٹل میں مقیم ہونا پڑا۔گنی میں تبلیغ سے پہلے باقاعدہ سرکاری اجازت لینی پڑتی ہے ،اس لئے فی الحال تبلیغ کے راستے میں بہت مشکلات حائل تھیں ۔عموماََ جب کوئی تبلیغی بات ہوتی تو یہ سوال کیا جاتا کہ کیا آپ نے تبلیغ کے لئے اجازت لی ہوئی ہے؟ ان حالات میں روابط قائم کرنے کا سلسلہ شروع ہؤا۔ان کوششوں کے نتیجے میں گنی میں سب سے پہلے مکرم انور محمد کمارا صاحب بیعت کر کے جماعت میں داخل ہوئے۔یہ دوست حافظ صاحب کے ساتھ نمازیں پڑھتے اور دینی علم حاصل کرتے۔اندرونِ ملک ایک شہر Kindiaمیں بھی دورہ کر کے تبلیغ کی گئی اور لٹریچر تقسیم کیا گیا۔۲۴ نومبر ۱۹۶۱ء تک تین احباب احمدیت میں داخل ہو چکے تھے۔مگر دسمبر ۱۹۶۲ء میں وزارتِ داخلہ نے اطلاع دی کہ حکومت جماعت کو یہاں مشن کھولنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔چنانچہ ۱۴ فروری ۱۹۶۲ء کو واپس سیرالیون تشریف لے گئے۔
بعد میں سیرالیون کے ایک احمدی مکرم فایا کسّی صاحب جو آنریری مبلغ کے طور پر کام کر رہے تھے اور سلسلہ کا لٹریچر بھی فروخت کیا کرتے تھے۔اس سلسلہ میں گنی گئے اور وہاں پر دارالحکومت کوناکری سے چالیس میل دور پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا اور چار روز بعد رہا کر کے واپس سیرالیون بھجوا دیا۔اس طرح انہیں گنی میں احمدیت کا پہلا اسیر ہونے کا اعزاز حاصل ہؤا۔(۲)
(۱) روح پرور یادیں مصنفہ مولوی محمد صدیق امرتسری صاحب ص۵۳۱
(۲) تاریخ گنی مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ
ٹوگو میں جماعت کا قیام:
ٹوگو مغربی افریقہ کا ایک ملک ہے جو ۱۹۵۸ء میں فرانسیسی تسلط سے آزادہؤا تھا۔یہاں پر اکثریت مقامی مذہب سے وابستہ ہے۔عیسائی اور مسلمان بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن مسلمانوں کی نسبت عیسائی بہت زیادہ بااثر تھے۔یہاں پر حضرت مصلح موعود ؓ کے ارشاد پرسب سے پہلے مکرم مرزا لطف الرحمن صاحب کودسمبر ۱۹۶۰ء میں بطور مبلغ بھجوایا گیا۔انہوں نے وہاں پہنچ کر مختلف با اثر شخصیات سے رابطے شروع کئے اور انہیں جماعت کا لٹریچر پیش کیا اور جماعت کا تعارف کرایا۔آپ کا قیام وہاں کے دارالحکومت لومے میں تھا۔وہاں کے مسلمان بہت زیادہ پسماندہ حالت میں زندگی بسر کر رہے تھے اور ان کی نسبت عیسائی آبادی ملک کی سیاست اور معیشت پر چھائی ہوئی تھی۔جماعت کا مشن اسلام کی تبلیغ کے لئے ایک منظم کوشش تھی۔مکرم مرزا لطف الرحمن صاحب کو زیادہ عرصہ وہاں پر کام کرنے کا موقع نہ ملا ۔کیونکہ جون ۱۹۶۱ء میںحکومت نے انہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔اس پر جب جماعت کی طرف سے احتجاج کیا گیا تو ان کی طرف سے یہ لا یعنی الزام لگایا گیا کہ آپ کے مبلغ ملک کی سیاست میں دخل دے رہے تھے۔در اصل بعض حلقے اس بات سے خائف تھے کہ کہیں یہاں کے مسلمان منظم نہ ہو جائیں اور جماعت کے مبلغ کو نکلوانے کے پیچھے چرچ کا بھی ہاتھ تھا۔لیکن احتجاجی خطوط کا یہ فائدہ ضرور ہؤا کہ حکومت نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ جماعت کوئی دوسرا مبلغ وہاں پر بھجوا سکتی ہے ۔چنانچہ ۲۹ دسمبر ۱۹۶۱ء کو مکرم قاضی مبارک احمد صاحب ٹوگو پہنچے اور ایک مکان کرایہ پر لے کر تبلیغ شروع کی۔اور آپ کی کاوشوں سے وہاں پر ایک مختصر سی جماعت بن گئی اور بعض با اثر لوگوں نے جن میں ایک سابق وزیر صاحب بھی شامل تھے احمدیت قبول کی۔مکرم قاضی مبارک احمد صاحب سوا تین سال کے بعد واپس ربوہ تشریف لے آئے اور آپ نے اپنے بعد وہاں کے ایک مخلص احمدی مکرم محمود اگانڈی صاحب کو تبلیغ اور تربیت کے لئے مقرر کیا۔(۱،۲)
(۱)تاریخ ٹوگو مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ
(۲) الفضل ۲۹ اگست ۱۹۶۴ء ص۳،۴
نگران بورڈ کا قیام
۱۹۶۲ء کی مجلسِ شوریٰ میں یہ تجویز پیش ہوئی کہ ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا جائے جو صدر انجمن احمدیہ ، تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کے کام اور دفاتر کا معائنہ کرے اور شکایات پر غور کرے۔ اس تجویز کے متعلق سب کمیٹی نے یہ مشورہ پیش کیا کہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی منظوری سے ایک ایسا بورڈ مقرر ہوجو صدر انجمن احمدیہ اور تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کے کاموں کی نگرانی کرے اور ان تین انجمنوں میں رابطہ پیدا کرے۔اور جماعتوں سے تجاویز حاصل کرے تا کہ تینوں ادارہ جات میں پہلے سے بڑھ کر ترقی ہو۔اس بورڈ کے سات ممبران ہوں ۔یعنی صدر انجمن احمدیہ ،تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کے صدر صاحبان اور جماعت سے تین دیگر نمائیندگان اس میں شامل ہوں اور حضورؓ سے درخواست کی جائے کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کو اس کا صدر مقرر فرمایا جائے۔اور اس بورڈ کے صدر صاحب ہی دیگر تین نمائیندگان کو منتخب فرما لیں۔جب یہ تجویز مجلسِ مشاورت میں پیش ہوئی تو حضرت مصلح موعودؓ کی بیماری کی وجہ سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ اس اجلاس کی صدارت فرما رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میں ذاتی طور پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں خود صدر انجمن احمدیہ کا ممبر ہوں بلکہ محکمانہ لحاظ سے میں صدر انجمن احمدیہ اور ناظر صاحب اعلیٰ کے بھی ماتحت ہوں ۔اس لئے میرے خیال میں میرا نام اس میں زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔اس طرح محکمانہ نمائیندگی بڑھ جائے گی اور بیرونی جماعتوں کو احساس ہو گا کہ شاید نگرانی کا کام پوری طرح نہیں ہو رہا۔اس کے بعد مختلف نمائیندگان مجلسِ شوریٰ نے اپنی اپنی آ راء کا اظہار کیا اور دیگر باتوں کے علاوہ اس رائے کا اظہار کیا کہ یہی مناسب ہو گا کہ قمرالانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ اس کی صدارت فرمائیں ۔مجلسِ مشاورت میں اس سفارش کی منظوری کے بعد اسے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور حضورؓ کی منظوری کے ساتھ یہ فیصلہ ہؤا کہ نگران بورڈ کے وہ تمام فیصلہ جات جن میں صدر صاحب نگران بورڈ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی شمولیت اور اتفاقِ رائے شامل ہو، صدر انجمن احمدیہ اور مجلس تحریک جدید اور مجلس وقفِ جدید کے لئے واجب العمل ہوں گے اور صدر صاحب نگران بورڈ کی وساطت سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں اپیل کرنے کا حق سب کو حاصل ہو گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی طرف سے یہ آپ کی ذات پر اعتماد کا اظہار تھا کہ نگران بورڈ کے صرف وہ فیصلے واجب العمل قرار دیئے گئے تھے جن میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا اتفاقِ رائے شامل ہو(۱،۲) ۔ اس کا پہلا اجلاس حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی صدارت میں تحریکِ جدید ربوہ کے کمیٹی روم میں مورخہ ۲۳ اپریل ۱۹۶۳ء کو منعقد ہؤا۔اس میں فیصلہ کیا گیا کہ طریقہ کار یہ ہو گا کہ اگر کسی جماعت یا کسی دوست کو کسی شعبے میں کوئی نقص نظر آئے تو وہ پہلے اُس شعبے کے انچارج کو لکھ کر بھجوائے اور اگر مناسب سمجھے تو اس کی کاپی متعلقہ تنظیم کے صدر کو بھی بھجوا دے۔اگر مناسب وقت گزرنے کے بعد وہ یہ محسوس کریں کہ مسئلہ حل نہیں ہؤا تو پھر نگران بورڈ کو توجہ دلائی جائے(۳) ۔ مکرم و محترم مرز ا عبد الحق صاحب امیر جماعت سرگودھا ا س بورڈ کے سیکریٹری مقرر ہوئے ۔اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کی وفات کے بعد آپ نے اس بورڈ کی صدارت کے فرائض سرانجام دیئے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓکے علاوہ حضرت مرز ا ناصر احمد صاحب صدر صدر انجمن احمدیہ ، مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب صدر تحریک جدید ،مکرم حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر صدر وقفِ جدید ،مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ، حضرت مرزا عبد الحق صاحب ،مکرم چوہدری انور حسین صاحب اس کے ابتدائی ممبران تھے۔(۴)
اس بورڈ نے اپنے فرائض ادا کرنے شروع کئے۔اور ا س کے اجلاسات میں مختلف مسائل پیش کئے جاتے جن کا تعلق تینوں انجمنوں میں رابطے اور دیگر اہم جماعتی مسائل سے ہوتا۔یہ بورڈ۱۹۶۵ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی وفات تک کام کرتا رہا اور پھر اسے ختم کردیا گیا۔
(۱) رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۶۱ء ص ۳۵ تا ۴۶
(۲) رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۶۲ء ص ۵۹
(۳) الفضل ۲۶ اپریل ۱۹۶۱ء ص ۱
(۴) رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۶۲ء ص ۱۰
وفات حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؓ
الٰہی منشا ء کے مطابق جب حضرت مسیح موعود کی شادی حضرت اماں جان ؓ سے ہوئی تو آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس شادی سے ہونے والی اولاد کے متعلق اور بالخصوص ایک عظیم الشان فرزند کی بابت عظیم الشان خوش خبریاں عطا کی گئی تھیں۔اس مبارک شادی سے ہونے والے ہر بچے کی پیدائش سے قبل اس کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہامات سے نوازا گیا تھا۔ان مبارک وجودوں میں سے ایک حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کا وجود بھی تھا۔آپ کی پیدائش سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس بابت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت دی گئی تھی اور آپ کے متعلق یہ الہامات ہوئے تھے
عمرہ اللہ علٰی خلاف التوقع (۱)
اللہ تعالیٰ اس کو خلاف ِتوقع عمر دے گا
امرہ اللہ علٰی خلاف التوقع (۱)
اللہ تعالیٰ اس کو خلافِ توقع صاحبِ امر کرے گا
مرادک حاصل (۱)
تیری مراد حاصل ہو جائے گی
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا
’شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اُس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں ۔ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کر کے کہا ’وہ بادشاہ آیا‘۔دوسرے نے کہا ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے۔ایک مرتبہ آپ نے عالمِ کشف میں حضرت مرزاشریف احمد صاحب ؓ کے متعلق کہا ’اب تو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں‘۔(۲)
حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؓ نے خدائی الہامات کے مطابق بہت شاہانہ مزاج پایا تھا۔ تقسیم ملک کے بعدجب ہجرت کی وجہ سے مالی لحاظ سے تنگی کا زمانہ تھا ،اُسوقت بھی آپ اپنے بوجھوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہر ضرورت مند کی مدد فرماتے۔مردانہ شجاعت آپ کی طبیعت کا ایک نمایاں وصف تھا ۔آزادی سے قبل جب احرار نے کچھ انگریز حکام کے تعاون سے جماعت کے خلاف شورش برپا کی ،اُ سوقت حضرت مصلح موعود ؓ نے جماعت اور شعائراللہ کی حفاظت کے لئے صدر انجمن احمدیہ میںنظارت خاص کے نام سے ایک نظارت قائم فرمائی اور حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کو اس کا ناظر مقرر فرمایا۔اللہ تعالیٰ کا خاص فضل آپ کے شاملِ حال تھا ۔آپ کی بیدارمغزی اور حسنِ تدبیر سے احرار کی چالیں ناکام ہونے لگیں ۔دشمن نے آپ کو اپنے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور ایک شخص حنیفا نے آپ پر لاٹھی سے حملہ کیا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ محفوظ رہے۔ ۱۹۵۳ء کے فسادات میں بھی آپ کو گرفتار کیا گیا ۔آپ نے ہمیشہ اس قسم کے حالات کا مردانہ شجاعت کے ساتھ سامنا کیا ۔آپ کچھ عرصہ فوج میں بھی رہے اور احمدیہ ٹیریٹوریل فورس کا نظم و نسق بھی آپ کے سپرد رہا۔۔قدرت کی طرف سے مکینکل معاملات میں آپ کو ایک فطرتی صلاحیت عطا کی گئی تھی۔قادیان میں پرسین مینو فیکچرنگ کے نام سے آپ نے ایک کارخانہ بھی قائم فرمایا تھا۔اپنی وفات کے وقت آپ ناظر اصلا ح و ارشاد کے عہدہ پر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔آپ ایک صائب الرائے ہستی تھے ۔آپ کی وفات کے بعد ناظرِ اعلیٰ حضرت مرزا عزیز احمد صاحبؓ نے بیان فرمایا کہ صدر انجمن احمدیہ کے اجلاس کے دوران جب کسی معاملہ پر بحث ہوتی تو ہم خیال کرتے کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؓ اس معاملہ میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے۔مگر جب ہم اپنی اپنی رائے کا اظہار کر چکے ہوتے تو آپ سر بلند فرما تے اور ایسی مختصر مگر مدلل رائے کا اظہار فرماتے کہ ہم سب حیران رہ جاتے اور ان کی رائے قبول کی جاتی۔بڑی سے بڑی فائل پیش ہوتی ۔آپ اسے سنتے اور ایسا مدلل فیصلہ تحریر فرماتے کہ یوں معلوم ہوتا کہ ایک ایک صفحہ آپ کے ذہن میں مستحضر ہے۔ جب نووارد مربیان دفتر میں آتے توآپ ان سے دینی معاملات پر گفتگو فرماتے اور ان کی قابلیت اور کردار کے متعلق رائے قائم فرما لیتے اور بعد میں ظاہر ہونے والے واقعات اس رائے کی حرف بحرف تصدیق کرتے تھے۔(۳)
آپ کو غریبوں سے بہت ہمدردی تھی۔عسر ہو یا یسر ہو آپ اپنی مالی حالت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ضرورت مندوں کی مدد فرماتے۔راہ چلتے چلتے کسی کو ضرورت مند محسوس کرکے اُس کے ہاتھ میں ایک خطیر رقم پکڑا دینا آپ کا معمول تھا۔گوآ پ نظام کے بہت قائل تھے مگر اپنے ماتحتوں کی تکلیف آپ کو بے تاب کر دیتی تھی اور آپ اسے دور کرنے کے لئے کوشاں ہو جاتے۔آپ کو شکار کا بہت شوق تھا۔ایک مرتبہ آپ ریاست کپور تھلہ میں شکار کی غرض سے تشریف لے گئے۔دیر ہو جانے کی وجہ سے آپ کو ایک گاؤں میں رات گذارنی پڑی۔اسی رات ،جس گھر میں آپ ٹھہرے تھے، اُن کا بچہ گم گیا اور با وجود تلاش کرنے کے نہ ملا۔آپ کو خیال گذرا کہ انہیں یہ خیال نہ آئے کہ میری آمد کی وجہ سے وہ بچے کا خیال نہ کر سکے اور وہ گم گیا۔اس پر آپ نے خاص توجہ سے خدا سے دعا کرنی شروع کی ۔دعا کی حالت میں غنودگی میں آپ کو دکھایا گیا کہ ایک بوڑھا شخص ایک بچے کو لے کر آ رہا ہے ۔آپ نے گھر والوں کو اسی وقت اطلاع دی کہ ایک بوڑھا شخص بچے کو گھر لے کر آئے گا۔ صبح جب آپ کی روانگی کا وقت ہؤا تو ابھی بچہ گھر نہیں پہنچا تھا۔اس پر آپ نے پھر دعا کی کہ میں اس حالت میں گھر والوں کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا ۔اے باری تعالیٰ میرے ہوتے ہوئے اس بچے کو گھر پہنچا دے۔تھوڑی ہی دیر میں ایک معمر شخص،گمشدہ بچے کو لے کر آ گیا اور گھر والوں نے خوشی خوشی حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو رخصت کیا۔ (۴،۵)
آپ کے متعلق حضرت مسیح موعودؑکو الہاماََ بتایا گیا تھا کہ آپ کو خلافِ توقع عمر ملے گی۔جن دنوں میں طاعون زوروں پر تھی ،حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو شدید بخار ہو گیا۔اور بیہوشی شروع ہو گئی اور بظاہر مایوس کن علامات ظاہر ہونی شروع ہو گئیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ مجھے خیال آ یا کہ اگرچہ انسان کو موت سے گریز نہیںمگر اگر لڑکا ان دنوں میں جو طاعون کا زور ہے فوت ہو گیا تو تمام دشمن اس تپ کو طاعون ٹھہرائیں گے اور خدا تعالیٰ کی اس پاک وحی کی تکذیب کریں گے جو اُس نے فرمایا ہے انّی احافظ کلّ من فی الدار یعنی میں ہر ایک کو جو تیرے گھر کی چار دیواری کے اندر ہے طاعون سے بچاؤں گا۔جب حضرت مسیح موعودؑ دعا کے لئے کھڑے ہو گئے تو معاََ وہ حالت میسر آ گئی جو استجابت ِ دعا کی ایک کھلی کھلی نشانی ہے۔ابھی حضورؑ نے تین رکعت پڑھی تھی کہ کشفاََ دکھایا گیا کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؓ بالکل تندرست ہیں ۔جب کشفی حالت ختم ہوئی تو دیکھا کہ آپ ہوش کے ساتھ چارپائی پر بیٹھے ہیں اور پانی مانگتے ہیں۔نماز ختم کر کے حضرت مسیح موعود ؑ نے بدن پر ہاتھ لگا کر دیکھا کہ تپ کا نام و نشان نہیں ہے(۶)۔ اس کے بعد بھی کئی ایسے مواقع پیدا ہوئے کہ آپ کی زندگی کو خطرہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے موافق آپ کو خلافِ توقع عمر دیتا رہا۔وفات سے بیس بائیس برس قبل ہی آپ کی صحت بہت کمزور رہنے لگی تھی۔ جوڑوں کی تکلیف کی وجہ سے آپ کی بیماری کی شدت تیزی سے بڑھتی جا رہی تھی کی،جس کی وجہ سے بیماری کی تکلیف میں اضافہ ہو گیا تھا ۔آزادی کے بعدآپ کو تھرامبوسس کا حملہ ہؤا اور آپ کے پیروں پر ورم رہنے لگ گئی تھی۔چند ماہ سے آپ کے عوارض خطرناک صورتِ حال اختیا کر رہے تھے۔ کئی مرتبہ ایسا ہؤا کہ آپ چلتے چلتے چکرا کر گر گئے اور چوٹ بھی لگی ۔اور کئی مرتبہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بیماری آپ کی مبارک زندگی کا سلسلہ منقطع کر دے گی مگر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے موافق آپ کو خلافَ توقع عمر ملتی رہی۔اور آپ نے ایک بلند حوصلہ کے ساتھ معمولاتِ زندگی کو جاری رکھا۔جلسہ سے کچھ دن قبل آپ گر گئے اور بازو پر چوٹ آ ئی ۔ایکس رے پر معلوم ہؤا کہ بازو کی دونوں ہڈیاں فریکچر ہیں۔مگرآپ نے کام جاری رکھا۔
جماعتی روایت ہے کہ جلسہ سالانہ سے ایک روز قبل افسر جلسہ سالانہ اور ناظر اصلاح وارشاد جلسہ گاہ کا ایک آخری معائنہ ایک ساتھ کرتے ہیں۔چنانچہ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ نے افسر جلسہ سالانہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے ساتھ اکٹھے جلسہ گاہ کا معائنہ فرمایا۔رات کو طبیعت خراب تھی کھانا کھا کر سوئے ۔صبح جلسہ کا پہلا روز تھا ،آپ کی بڑی صاحبزادی نے آپ کو چائے دی لیکن جلد آپ کو غنودگی شروع ہو گئی اور آپ کا سانس اُ کھڑنے لگا۔فوراََ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب آئے تو آپ پر نزع کا عالم تھا ۔مصنوعی سانس دلانے کی آخری کوششیں کی گئیں مگر اللہ تعالیٰ کی تقدیر ظاہر ہو چکی تھی(۷)۔۲۶ دسمبر ۱۹۶۱ء کی صبح کو حضرت مرزا شریف احمدؓ صاحب اس دارِفانی سے کوچ کر گئے۔
جب آپ کی اچانک وفات کی خبر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کو دی گئی تو آپ نے انّا لِلّٰہِ و اِنّا الیہِ رٰجعون پڑھا اور فرمایا دعا کریں، دعاؤں کی بہت ضرورت ہے۔جب ایک مالا ٹوٹ جاتی ہے تو باقی موتی بھی اس میں سے باری باری گر جاتے ہیں۔لہٰذا حضرت صاحب کی صحت کے لئے بہت دعائیں کریں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی طبیعت خراب تھی ۔حضرت صاحبزادہ مرزابشیر احمد صاحبؓ اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ حضور کو اطلاع دینے کے لئے گئے۔اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں عرض کی ’بڑے بھائی اب ہم چار رہ گئے ہیں ‘۔یہ جلسہ سالانہ کا پہلا دن تھا ۔جلسہ سالانہ کے افتتاح کا وقت قریب آ رہا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بیماری کی وجہ سے اس تقریب میں شرکت نہیں کرنی تھی۔پونے دس بجے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ،حضرت مصلح موعودؓ کی تحریر فرمودہ تقریر پڑھنے کے لئے جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو پہلا جملہ آپ نے فرمایا کہ آج ہم تین بھائیوں میں سے دو رہ گئے ہیں۔ یہ جملہ سنتے ہی جلسہ گاہ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک سناٹا چھا گیا ۔پھر آپ نے حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی وفات کا اعلان کیا ۔جلسہ گاہ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک رنج و الم کی لہر دوڑ گئی ۔شدتِ غم سے لوگوں کی آ نکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد میں سے یہ پہلی وفات تھی۔لوگوں کو یہ المناک خبر اتنی اچانک ملی تھی کہ بعض لوگ اچانک صدمے کی وجہ سے کھڑے ہو گئے ۔حضرت مرزابشیر احمد صاحب نے نہایت جلال سے فرمایا ’آپ لوگ بیٹھ جائیں۔یہ ایک ایسا قافلہ ہے ،اس کو میری یا آپ کی وفات نہیں روک سکتی ‘(۸)۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ نے احباب کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا یہ وفات ایک خدائی امتحان ہے اور ایسے امتحان ہمیشہ خدائی جماعتوں پر آ یا کرتے ہیں۔اور خدائی جماعتوں پر جب نقصٍ مّن الاموال و الانفس کی گھڑیاں آتی ہیں تو وہ ہمت اور استقلال سے کام لیتی ہیں۔پہلے بھی خوف آ ئے جو خدا نے فضل سے بدل دیئے اور اب بھی ایسا ہی ہو گا ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے پاؤں میں ذرا بھی لغزش نہ آ ئے اور ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے آ گے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں ۔(۹)
جلسہ سالانہ کے پہلے دن کے دوسرے اجلاس کے اختتام پر جنازہ بہشتی مقبرہ کے وسیع میدان میں لایا گیا ۔جہاں ہزاروں کی تعداد میں احبابِ جماعت جمع ہو چکے تھے۔احباب نے قطاروں میں کھڑے ہو کر حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؓ کے چہرے کی زیارت کی۔اور اس کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ نے آپ کا جنازہ پڑھایا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد اور آپؑ کے صحابہ کا وجود بہت سی برکات کا باعث تھا۔حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی وفات نئی نسل کے لئے ایک الار م کی حیثیت رکھتی تھی کہ اب یہ بزرگ وجود ایک ایک کر کے رخصت ہو رہے ہیں اور اب خدائی سلسلہ کی ذمہ داریاں اُن کے کندھوں پر منتقل ہو رہی ہیں۔اپنی وفات سے تین سال قبل حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؓنے جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنی تقریر میں احبابِ جماعت کو ان الفاظ میں اُن کے فرائض کی طرف توجہ دلائی۔
’روحانی تغیر اور ایمان کے اعلیٰ مدارج تک پہنچنے کے لئے صرف کتابیں اور لٹریچر اور تقاریر کافی نہیں،بلکہ وہ مقام جو کسی مامور من اللہ یا کسی برگزیدہ خدا کے فیضِ نظر سے ایک لمحہ میں کسی شخص کو حاصل ہو سکتا ہے ۔نا ممکن ہے کہ وہ سینکڑوں سالوں میں بھی ہزاروں علمی کتابوں کے پڑھنے اور سننے سے حاصل ہو سکے۔امام اور مرکز سے دلی لگاؤ دراصل ایمان کو ترقی دینے کے دو بڑے اہم اسباب ہیں۔اور ہماری جماعت کے دوستوں کو ان دونوں کی اہمیت یقیناََ پہلے سے بڑھ کر محسوس کرنی چاہئیے ۔آجکل مادیت کی لہریں پھر زور سے سر اُٹھا رہی ہیں اور دنیا داری کے خیالات خصوصاََ نوجوان نسلوں کے اذہان میں پرورش پانا شروع ہو گئے ہیں،ان دونوں کا مؤثر علاج یہ ہے کہ امامِ جماعت ،نظامِ جماعت اور مقامِ جماعت یعنی مرکز سے گہری وابستگی اور دلبستگی پیدا کی جائے۔اور ان کے دلوں میںایک خاص محبت کا جوش لہریں مارنا شروع کر دے۔‘ (۷)
(۱)تذکرہ ص ۶۰۹ ایڈیشن چہا رم ۲۰۰۴ئ؁ مطبع ضیاء الا سلام پریس ربوہ
(۲)تذکرہ ص۵۸۴، ۴۰۵ ایڈیشن چہا رم ۲۰۰۴ئ؁ مطبع ضیاء الا سلام پریس ربوہ
(۳) سیرت حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؓ ،ص۶۳ تا ۶۵
(۴) الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۶۲ء ص ۳
(۵) الفضل ۱۷ مارچ ۱۹۶۲ء ص۳
(۶) روحانی خزائن ،جلد۲۲ص۸۷،۸۸
(۷) روایت صاحبزادی امتہ الباری صاحبہ بنت حضرت مرزا شریف احمدصاحب ؓ
(۸)انٹرویو مکرم محمود احمد خان صاحب ،جو MTAپر یکم ستمبر ۲۰۰۶ کو نشر ہؤا
(۹) الفضل ۲۸ دسمبر ۱۹۶۱ء ص ۱

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک کتاب پر پابندی
اور ان احکامات کی منسوخی
اٹھارہویں صدی کے اختتام پر ہندوستان کے مسلمان ایک دورِ ابتلاء سے گذر رہے تھے۔انگریز حکومت کے قیام کے بعد مختلف چرچوں کے پادری ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لوگوں کو عیسائی بنانے کے لئے سر گرمِ عمل تھے۔مسلمانوں کی اکثریت اپنی پسماندگی کے باعث صحیح دفاع کرنے کے قابل بھی نہیں تھی۔ایشیا اور افریقہ کے اکثر علاقے یورپ کی عیسائی حکومتوں کے محکوم تھے۔عیسائی مشنری نہ صرف اس تسلط کا فائیدہ اُ ٹھا رہے تھے بلکہ اسے عیسائیت کی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش بھی کرتے تھے۔اس کا اندازہ اس ایک مثال سے لگایا جا سکتا ہے ۔ ۱۸۹۷ء میں امریکہ کے ایک مشنری ڈاکٹر جان ہنری بیروز( Barrows) نے ہندوستان میں مختلف مقامات پر لیکچر دیئے ۔یہ صاحب ۱۸۹۳ء میں امریکہ میں ہونے والی پہلی مذہبی پارلیمنٹ کے صدر بنے تھے اور یونیورسٹی آف شکاگو میں پڑھانے کے علاوہ Presbyterianچرچ کے مشنری بھی تھے۔انہوں نے ۱۸۹۶ء کے آ خری دنوں میں ہندوستان میں قدم رکھا اور اور ایک طوفانی دورے کا آ غاز کیا ۔اس دورے کے آ غاز پر انہوں نے کلکتہ میں چھ لیکچر دیئے ۔اس کے بعد وہ لکھنؤگئے اور وہاں دو لیکچر دیئے،کانپور اور دہلی میں چار اور لاہور میںاُن کے پانچ لیکچر ہوئے،اس کے بعد وہ امرتسر ،آگرہ،جے پور ،اجمیر،احمد نگر ،پونا،بنگلور ،مدراس اور دوسرے شہروں میں بھی گئے اور وہاں پر بھی اُن کے لیکچر ہوئے۔ان کے لیکچروں کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ اب زمانہ ترقی کر رہا ہے۔ پہلے اسلام،ہندو مت ،بدھ مت اور عیسائیت نے چھوٹے چھوٹے اور علاقائی مذاہب کو ختم کیا تھا اور اب وقت آ گیا ہے کہ کہ تمام انسانیت ایک عالمی مذہب اختیار کر لے اور وہ اپنا یہ دعویٰ پیش کر رہے تھے کہ صرف عیسائی مذہب میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ اسے تمام بنی نوع انسان اپنے عالمی مذہب کے طور پر قبول کریں۔ان کے لیکچروں کو اتنی شہرت دی جا رہی تھی کہ نہ صرف بڑے بڑے اخبارات نے ان کی تعریفوں میں کالم لکھے بلکہ ابھی ان کے دورے کو شروع ہوئے دو ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ ان کے لیکچروں کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا اہتمام بھی کر دیا گیا۔انگریز کی حکومت تھی۔پوری دنیا میں سفید فام اقوام کا راج تھا۔بڑے بڑے دیسی رؤسا اور ہندوستان کی ریاستوں کے راجے مہاراجے بیروز صاحب کے اعزاز میں دعوت دینا اپنے لئے فخر سمجھتے تھے۔اس دور میں جب کہ پوری دنیا پر پر عیسائی فرمانرواؤں کی حکومتیں قائم تھیں،بیروز صاحب کے دلائل بھی ایک حاکمانہ کروفر لئے ہوئے تھے۔انہوں نے اپنے پہلے لیکچر میں کہا کہ اب اسلام تلوار کی بجائے پریس کا استعمال کر رہا ہے (۱)لیکن بنیادی طور پر اسلام ایک مشرقی مذہب ہے اور یہ مغربی فضا میں سانس نہیں لے سکتا۔نہ معلوم انہوں نے کس قرآنی آیت سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھاکہ اسلام تلوار کے زور سے دین کو پھیلانے کی تلقین کرتا ہے۔جب دلیل دینے کا موقع ہوتا تو وہ بجائے دلیل بیان کرنے کے اپنی طرح کی کسی مغربی شخصیت کا قول پڑھ دیتے۔گویا کہ جو کچھ مغربی مفکرین نے کہہ دیا وہ حرفِ آخر ہے۔اس سے کچھ عرصہ قبل مغربی طاقتوں نے آپس میں افریقہ کی بندر بانٹ کی تھی۔ چنانچہ افریقہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا
’افریقہ کی تقسیم میں ایک کروڑ پندرہ لاکھ مربع میل میں سے صرف پندرہ لاکھ مربع میل باقی رہ گیا۔اور اس عظیم تقسیم کے نتیجے میں صرف ترکی ایک اسلامی حکومت ہے جس کا وجود اس تاریک برِ اعظم پر باقی ہے۔محمڈن ازم جس طرح قسطنطنیہ اور افریقہ میں قائم ہے ،وہ ہماری انسان دوست صدی سے مطابقت نہیں رکھتا۔اب جب کہ دنیا میں صرف ایک طاقتور مسلمان بادشاہ بچ گیا ہے اور اسے صرف روس اور برطانیہ کی چپقلش کی وجہ سے یورپ میں رہنے کی اجازت ملی ہوئی ہے اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ محمڈن ازم تمام انسانیت کو فتح کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔‘(۲)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیروز صاحب اور ان جیسے پادریوں کے نزدیک کسی مذہب کے غالب آنے کے لئے سیاسی غلبہ اور دوسری اقوام پر اقتدار ہونا نہایت ضروری تھا۔یعنی ان جیسے مسیحی مبلغین کے نزدیک صرف وہی مذہب ایک عالمی مذہب بننے کے اہل ہے اور وہی مذہب انسانیت کے دلوں کو فتح کرے گا جس کی سب سے بڑی حکومتیں دنیا میں قائم ہوں،خواہ یہ سلطنتیں کمزور اقوام کی آ زدی کو سلب کر کے کے بنائی گئی ہوں۔پہلے ہی لیکچر میں انہوں نے مسیحی مذہب کی برتری بیان کرنے کے لئے کسی انگریز سکالر کا یہ حوالہ پیش کیا۔
’عیسائیت کا عالم آج اتنا وسیع ہے جتنا پہلے کبھی نہیں تھا۔تم دیکھ سکتے ہو کہ ہماری ملکہ جس کی سلطنت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا وہ ناصرہ کے مصلوب کی خانقاہ پر تابعداری کے ساتھ جھکتی ہے۔یا پھر گاؤں کے گرجا میں جا کر نظر دوڑاؤ،وہ سیاسی مدبر جو ایک عالمگیر حکومت کی قسمت کے فیصلے کرتا ہے،جب مسیح کے نام پر دعا کرتا ہے تو عاجزی سے اپنا سر جھکاتا ہے۔جرمنی کے نوجوان قیصر کو دیکھو وہ اپنے لوگوں کے لئے پادری کے فرائض سرانجام دیتا ہے اور انجیلی مذہب سے اپنی وفاداری کا عہد کرتا ہے،جو یسوع کی تخلیق ہے۔ اور مشرقی انداز میں ماسکو کے شاہانہ ٹھاٹھ میں زارِ روس کو دیکھو۔تاجپوشی کے وقت ابنِ آدم کے طشت میں رکھ کر اُسے تاج پیش کیا جاتا ہے۔اور وسیع مغربی ریپبلک (یعنی امریکہ) کا ایک کے بعد دوسرا صدر سادہ مگر گہرے انداز میں ہمارے خداوند کے ساتھ اظہارِ فرمانبرداری کرتا چلا جاتا ہے۔امریکہ،برطانیہ،جرمنی اور روس کے حکمران یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ یسوع مسیح کے وائسرائے ہیں۔‘(۳)
مذہب کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کا اپنے خدا سے ایک زندہ تعلق پیدا کرے۔اور اسے حقوق اللہ اور اپنے جیسے انسانوں کے حقوق ادا کرنا سکھائے۔اگر یہ پرکھنا ہے کہ کون سا مذہب ایسا ہے کہ تمام انسانوں کی ضرورتوں کو پورا کر سکے تو یہ دیکھنا چاہئیے کہ وہ کون سا مذہب ہے جو مذکورہ بالا امور میں تمام انسانیت کی راہنمائی کر سکتا ہے۔ایک عالمی مذہب کی تلاش کا معیار یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کے پیروکار بادشاہوں کے تاج کتنے قیمتی ہیں یا تخت کتنے شاہانہ ہیں یا انہوں نے کتنی زیادہ کمزور اقوام کو بزورِ شمشیر اپنا غلام بنایا ہؤا ہے۔بیروز صاحب اور اُن جیسے دوسرے پادریوں کے دلائل کے اس انداز کو کوئی صاحبِ عقل قبول نہیں کر سکتا۔ان کے دوسرے لیکچر میں بلی مکمل طور تھیلے سے باہر آگئی۔ اس عسکری غلبے پر انحصار کر کے کے عالمِ اسلام کے متعلق عیسائیت کے ان منادیوں کے منصوبے کیا تھے؟بیروزصاحب نے اس لیکچر میں اعلان کیا
’اب میں مسلمانوں کے ممالک میں تحریک کا نقشہ کھینچتا ہوں۔لبنان اور فارس کے پہاڑوں پر اور باسفورس کے پانیوں پر بھی صلیب کی شعائیں پہنچ رہی ہیں اور یہ اُس روز کا یقینی پیش خیمہ ہے جب قاہرہ،دمشق اور تہران یسوع مسیح کے غلام ہوں گے۔اور عرب کا سکوت بھی ٹوٹے گا اور مسیح اپنے مریدوں کے روپ میں مکہ کے کعبہ میں داخل ہو گا اور پھر وہاں پر مکمل سچ بولا جائے گا۔یہ ابدی زندگی ہے تا کہ وہ تجھے جانیں۔تو جو ایک ہی سچا خدا ہے اور مسیح جسے تو نے بھیجا ہے۔‘(۴)
پادریوں کے عزائم واضح تھے۔اب وہ دنیا سے اسلام کو مٹانے کے خواب دیکھ رہے تھے۔اپنے مذہب کے غلبہ کے لئے دنیاوی چکا چوند کا سہارا لینا صرف بیروز صاحب تک محدود نہیں تھا۔اُس زمانے میں یہ ایک عام طریق تھا۔چنانچہ ۱۹۰۴ء میں جب چرچ کی طرف سے اپنے مشن کی سرگرمیوں پر کتابThe Missions of church missionary society and the church of England Zenana missionary society in The Punjab and Sindhشائع کی تو اس کے شروع میں ایک صفحے پر انگریز گورنروں اور بڑے افسران کی تصویریں نمایاں کرکے شائع کرنا ضروری خیال کیا ۔ان تصویروں کے نیچے عنوان درج کیا گیا تھاOur Christian Rulers۔اُس دور میں ملک انگریز وں کے قبضے میں تھا۔اس طریق پر چرچ کمزور دلوں کو مرعوب کر نے کی کوشش کر رہا تھا۔
اسی دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت تمام انسانیت کو اپنے خالق کی طرف بلا رہے تھے۔آپ نے بیان فرمایا کہ زندہ مذہب وہ مذہب ہے جو خدا شناسی کا ذریعہ بنے جس کی صحیح تعلیمات پر عمل کر کے انسان کو یقین حاصل ہو ،اس کی دعائیں قبول ہوں۔اس پس منظر میں ، اسی سال ۱۸۹۷ء کے دوران ،ایف سی کالج لاہور کے ایک پروفیسر سراج دین صاحب قادیان آ ئے۔ یہ صاحب پہلے مسلمان تھے مگر پھر انہوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا۔جب آپ چند دن قادیان میں رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عیسائیت اور اسلام سے متعلق مختلف مسائل پر گفتگو کی تو پھر اسلام کی فضیلت کے قائل ہو گئے ۔اور نماز بھی پڑھنے لگ گئے مگر جب لاہور واپس گئے تو پھر پادریوں کے جال میں آگئے اور عیسائیت اختیار کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں چار سوال بھجوائے ۔حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے ان اعتراضات کا جواب تحریر فرمایا اور عام فائدہ کے لئے ان جوابات کو شائع بھی فرما دیا۔اس کے آخر میں آپ نے اس پُر شوکت انداز میں اسلام پر حملہ کرنے والے عیسائیوں کو چیلنج دیا۔
’ان میں کوئی بھی نہیں ہاں ایک بھی نہیں جس میں ایمان کی نشانیاں پائی جاتی ہوں۔ اگر ایمان کوئی واقعی برکت ہے تو بیشک اُس کی نشانیاں ہونی چاہئیں مگر کہاں ہے کوئی ایسا عیسائی جسمیں یسوع کی بیان کردہ نشانیاںپائی جاتی ہوں؟پس یا تو انجیل جھوٹی ہے اور یا عیسائی جھوٹے ہیں۔دیکھو قرآنِ کریم نے جو نشانیاں ایمانداروں کی بیان فرمائیں وہ ہر زمانہ میں پائی گئی ہیں۔قرآن شریف فرماتا ہے کہ ایمانداروں کو الہام ملتا ہے ۔ایماندار خدا کی آواز سنتا ہے۔ایماندار کی دعائیں سب سے زیادہ قبول ہوتی ہیں۔ایماندار پر غیب کی خبریں ظاہر کی جاتی ہیں۔ایماندار کے شاملِ حال آسمانی تائیدیں ہوتی ہیں۔سو جیسا کہ پہلے زمانوں میں یہ نشانیاں پائی جاتی تھیں اب بھی بد ستور پائی جاتی ہیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن خدا کا پاک کلام ہے اور قرآن کے وعدے خدا کے وعدے ہیں۔ اُٹھو عیسائیو!اگر کچھ طاقت ہے تو مجھ سے مقابلہ کرو اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھے بیشک ذبح کردو‘۔(۵)
اس کے جواب میں عیسائی منادوں نے خاموشی اختیار کرنا ہی مناسب سمجھا۔۶۵ سال تک اس کتاب کی اشاعت ہوتی رہی۔اچانک ۸؍اپریل۱۹۶۳ء کو مغربی پاکستان کی حکومت نے اس کتاب کو ضبط کر کے اس پر پابندی لگا دی۔
چنانچہ اس غرض کے لئے مغربی پاکستان کی حکومت کی طرف سے نمبر No.4/51-H-Spl-2/61 نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا۔اس میں تحریر کیا گیا تھا کہ گورنر مغربی پنجاب اس بات کا اطمینان کر چکے ہیں کہ پمفلٹ سراج دین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب جو الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ سے شائع ہؤا تھاکے صفحہ ۳،۴،۷،۸،۱۴،۲۲،۲۸ اور ۶۱ پر ایسا مواد موجود ہے جس کے نتیجے میںعیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ،بالخصوص احمدیوں کے ساتھ رنجش اور نفرت کے جذبات پیدا ہوں گے ۔جو پریس اینڈ پبلیکیشن آ رڈیننس ۱۹۶۰ء کے سیکشن ۲۳،سبسیکشن ۱، کلازj کے تحت آ تا ہے۔چنانچہ اس آ رڈیننس کے سیکشن ۳۶ کے تحت جو گورنر کو اختیارات حاصل ہیں گورنر مغربی پاکستان یہ حکم جاری کرتے ہیں کہ اس کی تمام کاپیاں حکومت کے پاس جمع کرادی جائیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ پابندی مسلمانوں کی حکومت کی طرف سے لگائی جا رہی تھی۔انہوں نے بیروز کے لیکچروں پر یا مغربی مصنفین کی ان کتابوں پر تو پابندی نہیں لگائی جن میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر بے جا اعتراضات کئے گئے تھے لیکن جو کتاب آنحضرت ﷺ اور اسلام کے دفاع اور تائید میں لکھی گئی تھی اسے ضبط کر لیا گیا۔یہ ظالمانہ فیصلہ دنیا بھر کے مسلمانوں بالخصوص احمدیوں کی شدید دل آ زاری کا باعث بنا۔اس موقع پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی طرف سے یہ نوٹ شائع کیا گیا۔
’جیسا کہ احبابِ جماعت کو معلوم ہو چکا ہے حکومتِ مغربی پاکستان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’سراج دین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ‘‘ضبط کرلی ہے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ ہمارے نزدیک ایک مامور من اللہ کی کتاب ہے۔حکومت کا یہ فیصلہ کئی لحاظ سے انتہائی غیر منصفانہ ہے کیونکہ
(۱)دنیا جانتی ہے کہ یہ کتاب آج سے پیسنٹھ سال قبل شائع ہوئی تھی۔
(۲)اس کے بعد بھی وہ متفرق سالوں میں کئی دفعہ چھپتی رہی اور اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
(۳)یہ کتاب نہ صرف ابتدائََ بلکہ غالباََ دوسری تیسری دفعہ بھی عیسائی حکومت کے زمانہ میں چھپی تھی۔
(۴) جیسا کہ اس کتاب کا نام ظاہر کرتا ہے یہ کتاب ایک عیسائی کے سوالوں کے جواب میں لکھی گئی تھی۔
با وجود ان تمام باتوں کے یہ کتنی نا انصافی کی بات ہے کہ عیسائی حکومت نے تو اپنے سالہا سال کے دور میںاس پر کوئی ایکشن نہیں لیا ۔مگر پینسٹھ سال کے بعد آ کر مسلمان حکومت نے اس پر ایکشن لینا ضروری خیال کیا۔
جماعت کے دوستوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے ضروری قانونی کاروائی کی جا رہی ہے ۔مقامی جماعتوں کی اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ میںدوستوں میں بڑا اضطراب اوررنج و غم کی کیفیت پائی جاتی ہے۔مگر بہر حال انہیں چاہئیے کہ پُر امن رہتے ہوئے دعاؤں میں لگے رہیں۔‘(۶)
جماعت کی طرف سے اس پابندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایک میمورنڈم حکومت کو بھجوایا گیا ۔اس میں لکھا گیا کہ حکومتی حکم نامے کی خبر اخبار میں شائع ہوئی ہے مگر ابھی تک کسی جماعتی ادارے کو براہِ راست اس کے متعلق کوئی اطلاع نہیں ملی۔اور یہ کتاب اتنا عرصہ سے شائع ہو رہی تھی اور اصل میں عیسائیوں کے ان اعتراضات کے جواب میں تھی جو وہ آ نحضرت ﷺ کی ذاتِ اقدس پر اور اسلام پر کر رہے تھے۔اورایک عرصہ گذر جانے کے با وجود نہ عیسائی حکومت کے دور میں اس پر پابندی لگائی گئی اورنہ کسی عیسائی تنظیم کی طرف سے اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ ہؤا۔اس میمورنڈم میںجماعت کی طرف سے گورنمنٹ کو لکھا گیا کہ ہم موجودہ عیسائی لٹریچر سے ایسے بیسیوں ایسے حصے پیش کر سکتے ہیںجو قرآنِ کریم کی ہتک ،آنحضرت ﷺ کی ذاتِ اقدس پر اتہامات اوراسلام پر اعتراضات پر مشتمل ہیں ۔جن کی زبان ہر گز عالمانہ نہیں اور قطعاََ یہ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ کتب تحقیق کی نیت سے لکھی گئی تھیں۔
اور اس میمورنڈم میں لکھا گیا کہ اس امر کے ذکر کی ضرورت نہیں کہ کسی عقیدہ پر خالص علمی رنگ میں تنقید کرنا دل آ زاری اور منافرت انگیزی کے مترادف نہیں ۔اور پاکستان کے موجودہ آئین میں ہر فرد کو مذہب اور تحریر کی ضمانت دی گئی ہے۔اور اُن ممالک میں جہاں غالب اکثریت عیسائیوں کی ہے ایسی خالص علمی ریسرچ کو کبھی نہیں روکا گیا ۔
اس ضبطی پر احتجاج صرف جماعتِ احمدیہ تک محدود نہیں تھا ۔بہت سے غیر از جماعت شرفاء نے بھی اس حکم کے خلاف آواز بلند کی ۔چنانچہ جھنگ سے قومی اسمبلی کے ممبر غلام حیدر بھروانہ صاحب نے بھی صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صاحب کو اس اقدام پر خط لکھا اور لکھا کہ یہ فیصلہ غیر دانش مندانہ،غیر منصفانہ اورغیرضروری تھا۔اور یہ امر قابلِ افسوس ہے کہ یہ کتاب ایک عیسائی حکومت کے دور میں شائع ہوئی اور اسے ایک مسلمان حکومت کے دور میں ضبط کر لیا گیا۔جبکہ یہ کتاب عیسائی عقائد کے رد میں لکھی گئی تھی۔اور یہ مطالبہ کیا کہ اس حکم کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔ اسی طرح چنیوٹ کی بار ایسوسی ایشن نے بھی اس حکم کے خلاف قرارداد منظور کی۔
اس موقع پر نظامِ جماعت نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؓ کی قیادت میں اس حکم کی منسوخی کی کوششیں شروع کیں۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو اس امر کی اتنی شدید بے قراری تھی کہ یہ پابندی جلد از جلد ختم ہو جائے۔وہ با وجود کمزور صحت کے ہمہ وقت اس جہاد میں مشغول تھے ۔ان کے لئے اس فکر نے ایک علیحدہ مرض کی صورت اختیار کر لی تھی۔(۷)
پاکستان اور بیرونَ پاکستان کی جماعتوں نے اس موقع پر بہت قابلِ قدر ردِ عمل کا مظاہرہ کیا۔ وہ اس موقع پر اسلامی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک جان ہو کر اُ ٹھ کھڑے ہوئے۔ ریزولیشنوں اور احتجاجی نوٹوں سے حکومتی افسران اور اخبارات کے سامنے اس کثرت سے اپنے دلی رنج و غم کا اظہار کیا کہ گویا ایک سیلاب آ گیا ہو۔بالآخر یہ کاوشیں اور دعائیں رنگ لائیں اور تقریباَ ڈیڑھ ماہ کے بعد حکومت نے یہ فیصلہ منسوخ کر دیا(۸)۔مخالفین ہمیشہ سے جماعت کے لٹریچر سے خوف زدہ رہے ہیں۔ اب تک پاکستان میں جماعتی لٹریچر پر پابندیاں لگانے کی ایک لمبی تاریخ رقم کی گئی ہے اور یہ ایک ابتدائی کوشش تھی جو کہ وقتی طور پر کامیاب نہیں ہو سکی۔لیکن دشمن کا ہدف یہی رہا کہ جماعت کے لٹریچر کو لوگوں تک کسی قیمت پر نہ پہنچنے دو۔
(۱)The Barrows Lectures,by John Henry Barrows,The Christian Literary Society for INDIA Madras 1897,page 13
(۲)The Barrows Lectures,by John Henry Barrows,The Christian Literary Society for INDIA Madras 1897,page 21 ,22
(۳),The Barrows Lectures,by John Henry Barrows,The Christian Literary Society for INDIA Madras,1897,page 19
(۴)The Barrows Lectures,by John Henry Barrows,The Christian Literary Society for INDIA Madras1897,page 42
(۵) روحانی خزائن ،جلد۱۲ ص ۳۷۴(۶)الفضل ۳ مئی ۱۹۶۳ء ص ۱
(۷) حیاتِ بشیر مصنفہ عبد القادر صاحب،ص۲۴۳۔۲۴۴
(۸)الفضل یکم جون ۱۹۶۳ء ص۱
ٰؒٓوفات حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ
عظیم الشان الہیٰ بشارات کے مطابق حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی پیدائش ہو چکی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک اور عظیم فرزند کی بشارت دی گئی۔ جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آئینہ کمالاتِ اسلام میں شائع فرمایا۔اس الہام کے الفاظ یہ تھے
یاتی قمر الانبیائِ و امرک یتاَ تّٰی یسر اللّٰہ وجھک و ینیرُ برھانک۔سیولدلک الولدو یُد نٰی منک الفضل
یعنی نبیوں کا چاند آ ئے گا اور تیرا کام تجھے حاصل ہو جائے گا۔خدا تیرے منہ کو بشاش کریگا۔اور تیرے برھان کو روشن کر دے گا۔اور تجھے ایک بیٹا عطا ہو گا اور فضل تجھ سے قریب کیا جائے گا۔(۱)
اس کی اشاعت کے چند ماہ کے بعد ۲۰ اپریل ۱۸۹۳ء کوحضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی ولادت ہوئی۔اس نشان کے پورا ہونے پر اسی روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار تحریر فرمایا جو پنجاب پریس سیالکوٹ سے شائع ہؤا۔اس میں آپ نے مذکورہ بالا پیشگوئی کا ذکر کر کے تحریر فرمایا
’سو آج ۲۰ اپریل ۱۸۹۳ء کو وہ پیشگوئی پوری ہو گئی۔یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو خود اپنی زندگی کا اعتبار نہیں۔چہ جائیکہ کہ یقینی اور قطعی طور پر یہ اشتہار دیوے کہ ضرور عنقریب اُس کے گھر میں بیٹا پیدا ہو گا۔خاصکر ایسا شخص جو اس پیشگوئی کو اپنے صدق کی علامت ٹھہراتا ہے ۔اور تحدی کے طور پر پیش کرتا ہے۔‘(۲)
اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بشارات کے مطابق آپ کی شاندار صلاحیتیں شروع سے ہی نمایاں ہو کر سامنے آ رہی تھیں۔ابھی آپ کی عمر اٹھارا برس کی بھی نہیں ہوئی تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ نے آپ کو صدر انجمن احمدیہ کا ممبر نامزد فرمایا۔اور اس کے ساتھ با قاعدہ طور پرآپ نے خدمت ِ دین کا آغاز فرمایا اور وفات تک کامل وفا کے ساتھ خدمتِ اسلام پر کمر بستہ رہے۔شروع ہی سے آپ کی طبیعت خدمتِ دین اور دینی علوم کے حصول کی طرف اتنی مائل تھی کہ جب آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے تو جلد ہی آپ کی قابلیت کی وجہ سے سب آپ کا احترام کرنے لگ گئے ۔مگر آپ نے کالج کو اس لئے الوداع کہہ دیا کہ قادیان میں حضرت خلیفۃ المسیح لاول ؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر قرآنِ کریم کے درس میں شامل ہو سکیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓپہلے دن میں دو مرتبہ قرآنِ کریم کا درس دیتے تھے لیکن اب آپ نے دن میں تین مرتبہ درس دینا شروع فرما دیا۔خلافتِ ثانیہ میں حضرت مرزا بشیراحمدصاحبؓ روز و شب خدمتِ دین پر کمر بستہ ہو گئے ۔صدر انجمن احمدیہ کی مختلف نظارتوں کے فرائض ہوں، یا صدر انجمن احمدیہ کے قوانین کی تدوین ہو ،ہجرت کا پُر آ شوب دور ہو یا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی علالت کے نازک دور میں نگران بورڈ کی صدارت،آپ ہر موقع پر اپنے عظیم بھائی کے دست و بازو بن کر خدمتِ دین پر کمر بستہ نظر آ تے ہیں۔آپ کی خدمات صرف انتظامی میدان تک محدود نہیں تھیں۔ آپ ایک بلند پایہ محقق اور مصنف بھی تھے۔آپ کی تحریر میں ہر بات دلیل اور حوالہ کے ساتھ لکھی ہوتی تھی۔مخالفین کے اعتراضات کا جواب اس جامع اور مدلل طریق پر دیتے کہ کوئی بھی پہلو اس گرفت سے باہر نہ رہتا۔آپ نے ۳۲ تصانیف تحریر فرمائیں۔ جس وقت آپ نے سیرت خاتم النبین ﷺ تحریر فرمائی ،اس دور میں مستشرقین کی طرف سیٖ آنحضرت ﷺ کی مبارک زندگی پر بہت سی کتب شائع کی جا رہی تھیں۔ان میں سے اکثر تعصب سے آلودہ تھیں اور آپؐ پر طرح طرح کے اعتراضات کئے جا رہے تھے۔آپ نے تمام تاریخی حقائق کو اس خوبصورتی سے پیش کیا کہ ،وہ تمام اعتراضات دھواں ہو کر اڑنے لگے۔اسی طرح جب آپ نے محسوس فرمایا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابہ ایک ایک کر کے اس عالمِ فانی سے رخصت ہو رہے ہیں تو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روایات جمع فرمائیں اور یہ روایات سیرت المہدی کے نام سے کئی جلدوں میں شائع ہوئیں ۔یہ کتاب آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک قیمتی خزانہ ہے۔
تمام تر مصروفیات کے با وجود آپ احبابِ جماعت سے ذاتی تعلقات رکھتے اور ان کی تربیت کے لئے اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے کوشاں رہتے۔با وجود تمام علم اورخدمتِ دین کے اور با وجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک موعود بیٹا ہونے کے آپ انکسار اور خلیفہ وقت کی اطاعت کا ایک نمونہ تھے ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی بیماری کے ایام میں آپ کا مبارک وجود احمدیوں کے لئے ایک سہارا تھا۔ اور حضورؓ کی بیماری مین آپ کے فرائض میں پہلے سے بھی بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا۔آپ نگران بورڈ کے صدر بھی تھے اور نگران بورڈ کے فیصلوں کے واجب العمل ہونے کے لئے ضروری تھا کہ آپ کی رائے اِ س فیصلے کے حق میں ہو ۔اور جب بیماری کی وجہ سے حضورؓ کے لئے مجلسِ مشاورت کی صدارت کرنا ممکن نہ رہا تو حضورؓ کے حکم کے تحت حضرت مرزابشیراحمد صاحبؓ اس ذمہ داری کو ادا فرماتے رہے۔خواہ جماعت میں کوئی تربیتی مسئلہ ہو یا بیرونی مخالفین کی ریشہ وانیوں کا سدِ باب کرنا ہو ،آپ با وجود کمزوریِ صحت کے مستعدی سے ان فرئض کو ادا فرماتے ۔۱۹۶۳ء میں آپ نے محسوس فرمایا کہ پاکستان کی جماعت میں بے پردگی کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ تو آپ نے الفضل میں ایک اعلان شائع فرمایا کہ غیر از جماعت لوگوں کی نقل میں بعض کمزور طبیعتوںمیں بے پردگی کا رحجان پیدا ہو رہا ہے،اس لئے جماعت کو چاہئیے کہ وہ اس غیر اسلامی رحجان سے بچ کر رہیں اور اسلامی تعلیمات کا نمونہ دکھائیں۔اور یہ تاکید فرمائی کہ نہ صرف مقامی جماعتوں کو اس رحجان کا سدِ باب کرنا چاہئیے بلکہ مرکز کو بھی اس بارے میں مطلع کرنا چاہئیے۔اور اگر امراء اس ضمن میں رپورٹ نہیں کریں گے تو وہ بھی مجرم سمجھے جائیں گے۔ (۳)
گذشتہ چند سالوں کی طرح حضرت مصلح موعود ؓ نے ۱۹۶۳ء کی مجلسِ مشاورت کی صدارت کے لئے آپؓ کو مقرر فرمایا۔آپ نے کرسیِ صدارت پر رونق افروز ہو کر فرمایا کہ
’حضرت خلیفۃ المسیح کی یہ ذرہ نوازی ہے کہ مجھے اس کام کے لئے پھر منتخب فرمایا ہے۔ گو یہ سال میرا کافی بیماری اور کمزوری کی حالت میں گزرا ہے میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میںاس کے منشاء کے مطابق ان فرائض کو سرانجام دے سکوں جو اسلام کے لئے مفید اور با برکت ہوں۔‘
اس کے بعد آپ نے دعاؤں کی طرف توجہ دلائی اور اجتماعی دعا کے بعد کا روائی کا آ غاز ہؤا۔ آپ نے پہلے اجلاس میں کمیٹیوں کے انتخاب سے پہلے اپنا ایک مکتوب پڑھ کر سنایا جو امراء جماعت کو بھیجا گیا تھا۔اس میں آپ نے تحریر فرمایا تھا کہ مختلف ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ اب پھر جماعت احمدیہ کے خلاف مخالفت کا سیلاب تیزی سے اُٹھ رہا ہے اور ختمِ نبوت کے عقیدہ کی آڑ لے کر اور دیگر اعتراضات اُٹھا کر جماعت کے خلاف عوام کو اور حکومت کو اکسایا جا رہا ہے اور سازش یہ معلوم ہوتی ہے کہ ۱۹۵۳ء والے حالات پیدا کر دیئے جائیں۔پس میں جماعت کے امیروں اور دیگر دوستوں کو ہو شیار کرنا چاہتا ہوں کہ وہ خُذُوْا حِذْرَکُمْ کے ماتحت ہوشیار اور چوکس رہیں۔اور اس کے بعد آپ نے وہ احتیاطی تدابیر تحریر فرمائیں جو اس موقع پر اختیار کرنی ضروری تھیں۔
ہر الٰہی جماعت میں خدا کے مامور کے تربیت یافتہ لوگ ایک ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔جب کبار صحابہؓ ایک ایک کر کے دنیا سے رخصت ہو نے لگیں تو یہ موڑ ان جماعتوں کی تاریخ کا ایک نہایت نازک موڑ ہوتا ہے اور ان مقدس وجودوں کا رخصت ہونا ایک عظیم آ زمائش کا درجہ رکھتا ہے۔ اور اس وقت ان میں کمزوریوں کے راہ پانے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے ۔ہم اس وقت احمدیت کی تاریخ کے جس دور کا ذکر کرہے ہیں وہ ایسا ہی دور تھا۔بہت سے کبار صحابہ ایک ایک کر کے اس عالمِ فانی سے رخصت ہو رہے تھے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد میں سے حضرت مرزاشریف احمد صاحب کی وفات پر ابھی ڈیڑھ سال بھی نہیں گذرا تھا۔اور حضرت مصلح موعودؓ کی علالت کے باعث تمام احمدیوں کے دل غم زدہ تھے۔گو سب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کے مقدس وجود کی درازیِ عمر کے لئے دعاگو تھے مگر خدا تعالیٰ کی تقدیر یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ اب چند ماہ کے بعد آپ اس دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں۔اس پس منظر میں آپ نے ایک رؤیا دیکھی اور اسے مجلسِ مشاورت کے پہلے اجلاس میں بیان بھی فرمایا ۔اس رؤیا سے ظاہر ہوتا تھا کہ آزمائشوں کا ایک وقت قریب آ رہا ہے۔آپ نے بیان فرمایا
’۔۔غالباََ دو ہفتہ پہلے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خواب میں دیکھا اور نہایت نورانی اور پاکیزہ چمکتا ہؤا چہرہ ۔آپ ایک آرام کرسی پر یا تخت پوش پر ٹیک لگا کر بیٹھے تھے اور پاؤں ذرا پھیلائے ہوئے تھے۔آپ کے سامنے ہماری ماموں زاد بہن سیدہ نصیرہ بیگم (جو میاں عزیز احمد صاحب کی بیوی اور ہمارے ماموں میر محمد اسحاق صاحب ؓ مرحوم کی بیٹی ہیں)بیٹھی ہوئی تھیں ۔کچھ اور لوگ بھی تھے مگر میں ان کو پہچانتا نہیں۔صرف ان کو میں نے پہچانا ۔جب میں اندر گیا تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں السلامُ علیکم عرض کیا ۔بڑا صاف اور چمکتا ہؤا چہرہ تھا ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے و علیکم السلام کہا اور مجھے کہا کہ ’ میاں اب کیا ہو گا ؟‘ایسا جیسے فکر کا انداز ہو تا ہے ۔گویا کسی آنے والے خطرے کی طرف اشارہ فرماتے ہیں ۔میں نے اس کے جواب میں عرض کیا ’اللہ تعالی کا فضل چاہئیے ‘۔ پھر تھوڑی دیر تامل کرنے کے بعد میں نے کہا ’ یہ سب کچھ آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق ہو رہا ہے۔‘بس اس کے بعد آنکھ کھل گئی۔(۴)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایک عرصہ سے بیمار رہ رہے تھے۔دس سال قبل آپ پر دل کا حملہ بھی ہؤا تھا اور ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ آپ کے دل پربیماری کا کافی اثر ہے۔اس کے علاوہ ذیابیطیس اور ہائی بلڈ پریشر کے عوارض بھی شروع ہو چکے تھے۔بسا اوقات آپ کو بے خوابی کی شکایت ہو جاتی جس سے تکلیف میں اضافہ ہو جاتا۔جون ۱۹۶۳ء میں آپ کی طبیعت مزید خراب ہو گئی۔ اُن دنوں میں گرمی زوروں پر تھی اس لئے ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ آپ کسی سرد مقام پر جا کر آرام فرمائیں ۔آپ سفر سے گبھراتے تھے اور زیادہ تر مرکز میں رہنا پسند فرماتے تھے،اس لئے پہلے تو آپ اس کے لئے رضامند نہیں ہوئے ۔مگر پھرکچھ احباب نے زور دے کر آپ کو آمادہ کر لیا۔اس مقصد کے لئے مری کے قریب گھوڑا گلی کا انتخاب کیا گیا۔پروگرام تو یہ تھا کہ آپ سات آ ٹھ ہفتے وہاں قیام کریں گے لیکن آپ کو وہاں پر گبھراہٹ شروع ہو گئی اور اٹھارا انیس دن وہاں رہنے کے بعد آپ لاہور تشریف لے آئے۔وہاں پر آپ کاقیام ریس کورس روڈ پر اپنی کوٹھی میں تھا۔لاہور میں ڈاکٹروں کا ایک بورڈ بنا ،جنہوں نے مشورہ کر کے نئی ادویات شروع کیں۔آپ کو بہت زیادہ بے چینی تھی۔ آپ ذکر فرماتے تھے کہ آپ کو بہت منذر خواب آئے ہیں ،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اب آپ کا وقت قریب ہے۔دوست عرض کرتے کہ خواب توتعبیر طلب ہوتے ہیں لیکن آپ کو اپنی وفات کا یقین ہو چکا تھا۔ڈاکٹر آپ کا معائنہ کر کے کہتے کہ نبض اور بلڈ پریشر ٹھیک ہیں تو آپ اپنے بڑے بیٹے محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب سے کہتے ’مظفر آپ ڈاکٹروں کی باتوں پر نہ جائیں ۔اب مجھ میں کچھ باقی نہیں رہا اور میں نے متواتر خوابیں دیکھی ہیں۔‘ لاہور میں ایک آسٹریلین ڈاکٹر ملر نے بھی آپ کا معائنہ کیا اور رائے دی کہ کوئی وجہ نہیں کہ آپ صحت یاب نہ ہوں اور وثوق سے کہا کہ چند ہفتوں میں بہتری کا آغاز ہو جائے گا۔مگر دوسرے ہی دن آپ کو حرارت شروع ہو گئی۔دوسرے دن ٹسٹوں سے سینے میں نمونیہ کی تصدیق ہو گئی۔بخار میں تشویشناک اضافہ ہو گیا اور سانس میں رکاوٹ پیدا ہونے لگی اور بیہوشی شروع ہو گئی ۔ڈاکٹر اپنی کوششیں کر رہے تھے مگر بیماری کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا اور سانس کی تکلیف اور غنودگی بڑھ رہی تھی۔حضرت مصلح موعودؓ کو جب آپ کی علالت کی خبر ملی تو آپ کی طبیعت بے چین رہنے لگی اور آپ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی بیماری کے بارے میں بار بار دریافت فرماتے۔ربوہ اور دیگر جماعتوں میں اجتماعی دعائیں کی گئیں۔اور حضورؓ کی طرف سے اور اہلِ ربوہ کی طرف سے صدقہ کے لئے بکروں کی قربانی کی گئی(۷)۔مگر خدا کی تقدیرِ مبرم کے ظاہر ہونے کا وقت آ چکا تھا ۔۲ ستمبر کو جب آپ کی کوٹھی میں مغرب کی نماز کھڑی ہو رہی تھی کہ آپ کا سانس رک گیا۔مصنوعی سانس دلانے کی کوششیں کی گئیں مگر بے سود،آپ کو مولا کا بلاوہ آ چکا تھا۔آپ کی روح مالکِ حقیقی کے حضور حاضر ہو گئی۔(۵)
آپ کا جسدِ خاکی اسی رات کو ربوہ لایا گیا۔ریڈیو پر آپ کی وفات کی خبر نشر ہوتے ہی احبابِ جماعت بڑی تعداد میں ربوہ پہنچنا شروع ہو گئے۔چہرہ کی زیارت کرنے والے بڑی تعداد میں اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔جنازے کا وقت آیا تو یہ سلسلہ مجبوراََ بند کرنا پڑا۔ساڑھے پانچ بجے ،آپ کا جنازہ آپ کی کوٹھی ’’البشریٰ‘‘ سے اُٹھایا گیا۔بہت سے لوگ با وجود شدید خواہش کے جنازے کو کندھا بھی نہیں دے سکے۔جنازے کو بہشتی مقبرہ کے وسیع احاطے میں لے جایا گیا ۔حضورؓ کے ارشاد کے ماتحت حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔پندرہ ہزار شرکاء پر رقت طاری تھی۔حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے نمازِ جنازہ میں چار کی بجائے پانچ تکبیریں کہیں۔بعض خاص جنازوں پر رسولِ کریم ﷺنے چار سے زائد تکبیریں بھی کہی ہیں۔(۶۔۸)
اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ عظیم مبشر فرزند،اپنی تمام عمر خدمتِ اسلام میں گذار کر ،اللہ تعالیٰ کے حضورحاضر ہو گئے۔
(۱) روحانی خزائن جلد ۵ ص۲۶۶۔۲۶۷
(۲)مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود علیہ السلام،جلد اول ،ص۳۹۴۔۳۹۵،الناشر الشرکۃ الا سلامیہ ۱۹۶۷ء
(۳)الفضل ۲۶ مئی ۱۹۶۳ء ص ۴(۴) رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۶۳ء ص ۱۴
(۵)حیاتِ قمر الانبیاء ،مصنفہ شیخ محمد اسمائیل پانی پتی،شائع کردہ محمد احمد اکیڈمی،۶۴ ۱۹ ص۱۵۶ تا ۱۶۷
(۶) الفضل ،۵ ستمبر ۱۹۶۳ء ص۸(۷) الفضل ۳ ستمبر ۱۹۶۳ء ص ۱،۸
(۸)سنن ابو داؤد شریف باب ۵۹۹ التکبیر علی الجنازۃ
مکرم عمری عبیدی صاحب کی وفات
۱۹۶۴ء میںجماعت احمدیہ کو مکرم عمری عبیدی صاحب کی وفات کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔آپ کی وفات سے جہاں ایک طرف پوری دنیا کے احمدیوں کے دلوں کو صدمہ پہنچا وہاں یہ اپنے ملک تنزانیہ کے لئے بھی ایک عظیم نقصان تھا۔آپ کے والد کا نام عبیدی تھا ۔وہ آپ کی پیدائش سے قبل ہی کہا کرتے تھے کہ مجھے ایک ایسا بیٹا دیا جائے گا جو خاندان کا شیر ہو گا۔عمری عبیدی صاحب کی پیدائش ۱۹۲۴ء میں ہوئی۔آپ ابھی سکول میں ہی تھے کہ آپ کو مشرقی افریقہ میں جماعت کے مبلغ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب سے تعارف ہؤا۔اور آپ نے اپنے دوستوں کے ہمراہ جماعت کے مشن میں آنا جانا شروع کیا ۔آپ نے ابھی بیعت نہیں کی تھی لیکن آپ نہایت توجہ سے سلسلہ کے لٹریچر کا مطالعہ فرماتے تھے۔آپ کے ہم جماعت بیان کرتے تھے کہ عمری عبیدی صاحب کے دوست کھیل کود میں مشغول ہوتے لیکن آپ درخت کے سایہ میں بیٹھ کرمطالعہ میں اس قدر منہمک رہتے کہ آپ کے دوستوں کو خدشہ ہو گیا کہ کہیں اس انہماک کی وجہ سے آپ کے ذہن پر اثر نہ ہو جائے۔اسی وقت سے آپ کو سچی خوابیں آنے لگیں۔اس سے آپ کے ایمان کو بہت تقویت ملی۔
جب آپ نے گورنمنٹ سکول ٹبورا سے تعلیم مکمل کی تو آپ اپنے علاقے بکوبا جانے سے قبل کچھ عرصہ کے لئے ٹبورا میں ٹہر گئے۔اور مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کی تحریک پر ان سے قاعدہ یسرنا القرآن پڑھنا شروع کیا۔چند دنوں میں آپ نے قاعدہ ختم کر کے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا۔اور سلسلہ کی بعض اور کتب بھی پڑھتے رہے۔اپنے علاقہ میں جا کر آپ نے احمدیت کی تبلیغ کی اور جماعت کا سواحیلی لٹریچر بھی تقسیم کیا ۔اور مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کو بھی بکوبا آنے کی دعوت دی۔مگر ابھی تک آپ نے بیعت نہیں کی تھی۔مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے جب دیکھا کہ آپ احمدیت کی طرف مائل تو ہیں لیکن ابھی تک آپ نے بیعت نہیں کی تو انہوں نے آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کی تصنیف کشتیِ نوح کا سواحیلی ترجمہ یہ کہہ کر دیا کہ وہ یہ جائزہ لے لیں کہ اس میں گرائمرکی کوئی غلطی تو نہیں۔مقصد یہ تھاکہ اس کتاب کے مطالعہ سے ان کا دل قبولِ حق کے لئے کھل جائے۔اس کے بعد انہوں نے ٹبورا آکر خود بھی بیعت کی اور ان کی تبلیغ کے نتیجہ میں کچھ اور افراد نے بھی احمدیت قبول کر لی۔
کچھ عرصہ حکومت کی ملازمت کرنے کے بعد آپ نے زندگی وقف کر دی اور پھر سواحیلی ترجمہ قرآن کی نظرِ ثانی میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔۱۹۵۳ء میں آپ دینی تعلیم کے حصول کے لئے ربوہ تشریف لے آئے۔ربوہ میں آپ کو گذارے کے لئے بہت قلیل الاؤنس ملتا تھا ۔اس رقم میں آپ کتب خریدنے کا شوق پورا نہیں کر سکتے تھے۔انہوں نے یہ طریق اختیار کیا کہ ایک وقت کا کھانا ترک کر دیا اور کچھ عرصہ میں رقم جمع کر کے کتب خرید لیں۔
تقریباََ دو سال کے بعد آپ کی وطن واپسی ہوئی۔اور آپ نے ٹانگا نیکا میں مبلغ کے طور پر کام شروع کیا۔۱۹۶۰ء میں بعض مخصوص حالات کی وجہ سے جماعت نے انہیں ملکی سطح پر خدمات شروع کرنے کی اجازت دی۔اور وہ دارالسلام کے پہلے افریقن میئر منتخب ہوئے۔۱۹۶۲ء میں آپ کو ٹانگانیکا کے مغربی صوبے کا ریجنل کمیشنر مقرر کیا گیا۔آپ پارلیمنٹ کے ممبر بھی منتخب ہوئے۔آپ ایسے عمدہ مقرر تھے کہ ایک موقع پر ٹانگا نیکا کی پارلیمنٹ میں یہ بل پیش ہؤا کہ جو ایشیائی اور یوروپی وہاں کی شہریت حاصل کر چکے ہیں انہیں بہت سے حقوق سے محروم کر دیا جائے۔اکثریت کا جھکاؤ اس بل کی حمایت کی طرف ہو گیا۔صدر مملکت نے پوری کوشش کی کہ ممبران کی اکثریت اس بل کی حمایت نہ کرے بلکہ استعفیٰ کی دھمکی بھی دی مگر سب بے سود ۔اس مرحلہ پر عمری عبیدی صاحب نے ایک گھنٹہ اس موضوع پر تقریر کی اور اس عمدگی سے دلائل پیش کئے کہ جب رائے شماری کرائی گئی تو یہ قرارداد بری طرح مسترد کر دی گئی۔ملکی سطح پر آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے ایسے جوہر دکھائے کہ جلد ہی ملک کے پہلے صدر جولیس نیریرے نے انہیں ملک کی کابینہ میں لینے کا فیصلہ کیا اور ۱۲؍مارچ ۱۹۶۳ء کو آپ کو ملک کا وزیرِ انصاف مقرر کیا گیا۔جب ٹانگا نیکا اور زنجبار کا الحاق ہؤا اور تنزانیہ کے نام سے نیا ملک وجود میں آیا توآپ کو ثقافت اور Community Developmentکا وزیر مقرر کیا گیا۔ آپ با وجود نہایت مصروف ہونے کے نماز با جماعت کا اہتمام کرتے تھے ۔ان کا گھر مسجد سے پانچ چھ میل کے فاصلے پر تھا مگر وہ فجر کی نماز پر اپنی موٹر پر پہنچ جاتے۔نمازیں اس سوز سے پڑھتے تھے کہ بسا اوقات مسجد ان کی سسکیوں سے گونج اُ ٹھتی تھی۔ان کو کثرت سے سچی خوابیں آتیں جنہیں وہ اپنے غیراحمدی دوستوں کو سنا کر کہتے کہ یہ سب احمدیت کی برکت ہے۔مرکز میں صحابہ سے ایک گہرا تعلق قائم ہؤا۔بہت خود دار انسان تھے مگر صحابہ کے سامنے نہایت انکسار سے پیش آتے تھے۔ جب حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب تنزانیہ آئے تو آپ حضرت چوہدری صاحب کو مسجد سے نکلتے ہوئے جوتے تک پہناتے ۔حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب،آپ کو بہت منع کرتے مگر آپ اس خدمت پر اصرار کرتے۔جب آپ کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور حضرت غلام رسول راجیکی صاحب کی وفات کی اطلاع ملی تو بے قرار ہو کر کئی روز تک روتے رہے۔ان کی دینداری کی وجہ سے اعلیٰ سیاسی حلقوں میں بھی ان کا غیر معمولی احترام کیا جاتا تھا۔تیس سال کا عرصہ بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔کسی کو تیس سال پہلے کے وزراء کے نام بھی معلوم نہیں ہوتے۔ایک بار خاکسار ۱۹۸۹ء میں جماعت کی صد سالہ جوبلی کے موقع پر یوگینڈا میں تنزانیہ کے سفیر سے ملا اور باتوں میں مکرم عمری عبیدی صاحب کا ذکر آیا۔سفیر صاحب نہ صرف آپ کی بلند پایہ شخصیت سے بخوبی واقف تھے بلکہ بڑے افسوس سے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ یہ بڑی بد نصیبی تھی کہ وہ بہت جلد ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ ۱۹۶۴ء میں وہ تنزانیہ کے صدر Nyerereکے ہمراہ قاہرہ میں منعقد ہونے والی افریقی سربراہانِ مملکت کی کانفرنس میں شرکت کے لئے مصر گئے۔کھانے کے دوران شراب بھی پیش کی جاتی تھی اس لئے کھانے کے وقت آپ اپنے ساتھیوں سے علیحدہ ہو کر اپنے کمرے میں کھانا کھاتے۔ ایک روز کھانا کھانے کے بعد آپ کی طبیعت کچھ خراب ہو گئی۔اور اس کے بعد آپ کی صحت تیزی سے گرنے لگی۔قاہرہ میں ہی قیام کے دوران آپ نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک سڑک پر چلے جا رہے ہیں جو ایک باغ میں جا رہی ہے۔اور راستے میں ایک مور آپ کو ملتا ہے اور کہتا ہے کہ جہاں تم جا رہے ہو وہ جگہ بہت خوبصورت ہے۔وطن واپس آتے ہوئے آپ ہوائی جہاز میں بیہوش بھی ہو گئے۔ وطن واپسی پر آپ کی صحت مزید خراب ہو گئی۔بعض ذرائع ابلاغ اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ آپ کو زہر دیا گیا ہے۔آپ کو جرمنی کے شہر بون علاج کی غرض سے لے جایا گیا مگر خالقِ حقیقی کا بلاوہ آ چکا تھا۔۱۶ اکتوبر ۱۹۶۴ء کو آپ کی وفات ہو گئی۔جنازہ تنزانیہ لایا گیا ۔ملک کے صدر اور وزیرِ اعظم کے علاوہ یوگینڈا کے وزیرِ اعظم اور دیگر اہم شخصیات بھی شامل ہوئیں۔صدرِ مملکت نے آپ کی وفات کو ایک عظیم قومی نقصان قرار دیا۔آپ نے صرف چالیس برس کی عمر پائی مگر آپ اپنی نیکی اور خدمتِ دین کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔(۱تا۶)
(۱) تاریخِ احمدیت جلد ۷ ص ۲۸۳۔۲۸۵
(۲)الفضل ۵ جون ۱۹۶۲ء ص۳۔۴
(۳) الفضل ۵ نومبر ۱۹۶۴ء ص ۴
(۴) ۱۷ اکتوبر ۱۹۶۴ء ص۸
(۵)الفضل ۲۷ اکتوبر ۱۹۶۴ء ص ۳و۴
(۶) Unpublished Thesis,The Life History of Sheikh Kaluta Amri Abedi by Bakri Abedi

۱۹۴۰ء اور ۱۹۶۵ء کے درمیان جماعت کے
مشنوں کی تاریخ
ہم ۱۹۳۹ء کا ذکر کرتے ہوئے یہ ذکر کر چکے ہیں کہ اُس وقت برصغیر سے باہر کن ممالک میں جماعت کی تبلیغی کوششیں جاری تھیں۔اور اُس کے بعد جن ممالک میں نئی جماعتیں قائم ہوئیں اس کا ذکر بھی کیا جا چکا ہے ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۴۰ء اور ۱۹۶۵ء کے درمیان ،خلافتِ ثانیہ کے اس دور میں دنیا کے مختلف ممالک میں جماعت کس طرح ترقی کے مراحل طے کر رہی تھی۔دنیا کے مختلف خطوں میں جہاں پر احمدی مبلغین اسلام کی تبلیغ کے لئے کوشاں تھے،مغربی افریقہ کا خطہ ایک ایسا خطہ تھا جہاں کے لوگوں نے سب سے زیادہ خدا کے مامور کی آواز پر لبیک کہنے کی سعادت حاصل کی تھی۔ہم مغربی افریقہ کے ممالک سے ہی شروع کرتے ہیں۔
سیرالیون:
’آج کل میں سیرالیون کے اندرونی علاقے میں،گوراما(Gorama)چیفڈم کے صدر مقام Tungieمیں کام کر رہا ہوں۔یہ جگہ قریب ترین ڈاکخانے سے ۵۰ میل کے فاصلے پر اور پکی سڑک سے پچیس میل کے فاصلے پرہے ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیراماؤنٹ چیف احمدی ہو گیا ہے اور میں گذشتہ تین ہفتوں سے اُس کے گھر میں ٹھہرا ہؤا ہوں۔اُس نے ایک مسجد کی تعمیر شروع کرادی ہے۔پہلے وہ عیسائی تھا۔خدا ہماری مدد کرے ،ممکن ہے کہ اُس کے چیفڈم میں بہت سے لوگ حق کو قبول کر لیں گے۔‘
یہ مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی کی رپورٹ کا ایک حصہ ہے جو۲۰ جنوری ۱۹۴۰ء کے سن رائز میں شائع ہوئی۔سیرالیون میں تبلیغی مساعی کئی اور ممالک کی نسبت بہت بعد میں شروع ہوئیں مگر یہاں کے مبلغین کی کمال جانفشانی سے دور دراز کے علاقوں کے دورے کئے ،وہاں جا کر ایک لمبا عرصہ ٹھہرے اور لوگوں تک حقیقی اسلام کا پیغام پہنچایا ۔اللہ تعالیٰ نے ان کی کوششوں کو قبول فرمایا اور سیرالیون میں احمدیت تیزی سے پھیلنے لگی۔یہ چھوٹا سا ملک جماعت کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔مکرم نذیر احمد صاحب علی کی تبلیغی مساعی کسی ایک شہر یا صوبے تک محدود نہیں تھی بلکہ آپ نے شروع سے ہی پورے ملک کے دور دراز علاقوں میں احمدیت کا پیغام پہنچایا۔اور تبلیغ اور تربیت کا ہرممکنہ طریقہ اختیار فرمایا ۔
سیرالیون میں فری ٹاؤن کے بعد سب سے پہلے روکو پور میں جماعت قائم ہوئی تھی ۔یہاں پرجماعت مستحکم ہوئی تو ،مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر ان کی تعلیم و تربیت کی طرف متوجہ ہوئے۔اسی گاؤں میں سیرالیون میں جماعت کا پہلا پرائمری اسکول جاری کیا گیا۔مئی ۱۹۳۹ء تک اس اسکول کی اپنی عمارت مکمل ہو گئی۔یہ عمارت سیرالیون میں جماعت کی طرف سے تعمیر کی جانے والی پہلی عمارت تھی۔
جب ۱۹۴۰ء کا سال شروع ہؤا تو مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی نے سیرالیون کے جنوبی صوبہ کو اپنی مساعی کا مرکز بنایا۔ ایک شامی تاجر مکرم سید حسن محمد ابراہیم صاحب ابھی احمدی تو نہیں ہوئے تھے لیکن جماعتِ احمدیہ کی اسلامی خدمات کے معترف تھے اور سیرالیون میںاسلام کی تبلیغ میں گہری دلچسپی رکھتے تھے ۔بیعت کرنے سے قبل بھی وہ حق کو اس قدر ضرور پہچان چکے تھے کہ انہوں نے شام کے ایک رسالے العرفان میں ایک مضمون تحریر کیا۔اس مضمون میں انہوں نے جماعت ِ احمدیہ کی ان خدمات کا ذکر کیا جو دنیا کے مختلف حصوں میں اسلام کی تبلیغ کے لئے کی جا رہی تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مختلف حوالے درج کر کے یہ سوال اُ ٹھایا کہ عرب دنیا کے پاس آپ کے انکار اور مخالفت کی وجہ کیا ہے۔انہوں نے مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی کو جنوبی صوبہ میں آ کر احمدیت کی تبلیغ کی تحریک کی۔چنانچہ ان کی تحریک کے نتیجے میں مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی نے جنوبی صوبہ بو گئے اور وہاں پر تقاریر کیں اور مختلف لوگوں سے رابطے کئے۔لیکن ابھی بو اس سعادت کے لئے تیار نہیں تھا کہ وہاں پر جماعت کا قیام عمل میں آئے۔یہ سعادت ایک اور جگہ Baowahunکے حصہ میں پہلے آنا مقدر تھی۔یہ گاؤں Lunyaچیفڈم میں ہے۔اس گاؤں میں مقیم ایک شخص کو پہلے ہی رؤیا میں وہاں پر مکرم نذیر احمد صاحب علی کی آ مد دکھائی گئی تھی۔یہ شخص پاسننا صاحب تھے انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ مسجد کے گرد گھاس اکھیڑ رہے ہیں اورتھک کر پام کے درخت کے نیچے سستانے کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں تو سفید رنگ کا ایک شخص ہاتھ میں قرآن کریم اور بائیبل پکڑے آ رہا ہے۔اورسلام کر کے پوچھتا ہے کہ اس مسجد کا امام کون ہے۔چند روز بعد یہ صاحب مسجد کے قریب گھاس کاٹتے ہوئے تھک گئے تو سستانے کے لئے پام کے درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے ۔اتنے میں مکرم مولانا نذیر احمد صاحب وہاں آئے اور پاسننا صاحب نے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ وہی صاحب ہیں جوخواب میں دکھائے گئے تھے۔مکرم مولانا صاحب نے ان سے رہائش کی جگہ کا دریافت کیا۔اس دوست نے فوراََ اپنا گھر رہائش کے لئے پیش کر دیا اور مسلما نوں کو اپنی خواب کے پورے ہو جانے کا واقعہ سنایا ۔یہ نشان دیکھ کر اور مولانا نذیر احمد صاحب کی تبلیغ سن کر اس گاؤں کے کئی مسلمانوں نے احمدیت قبول کر لی۔ اور اس طرح یہ گاؤں اس علاقہ میں احمدیت کا ایک چھوٹا سا مرکز بن گیا۔
مکرم نذیر احمد صاحب علی کی مساعی ِ جمیلہ سے کام کا آ غاز تو ہو گیا تھالیکن جب تک مقامی مبلغین تبلیغ کے کام میں آ گے نہ آئیں اُس وقت تک صحیح معنوں میں تبلیغ اور تربیت کا کام نہیں ہو سکتا۔اب اس گاؤں اور اس کے نواح میں سو کے قریب لوگ احمدیت قبول کر چکے تھے۔ایک مقامی دوست عمر جاہ صاحب کو وہاں پر مبلغ مقرر کیا گیا۔
اب رفتہ رفتہ احمدیت کا نام پورے علاقے میں پھیل رہا تھا۔ابھی مکرم نذیر احمد صاحب علیBaowahun میں ہی تھے کہ آپ کو گوراما چیفڈم(Gorama)کے پیرا ماؤنٹ چیف کا پیغام ملا کہ آپ ان کے علاقے میں آئیں چنانچہ آپ اُس دور افتادہ علاقے میں تشریف لے گئے۔یہ چیف صاحب۲۰ سال سے ایک بیماری میں مبتلا تھے۔اور ان کا خیال تھا کہ دشمنوں کے جادو کی وجہ سے انہیں یہ بیماری لاحق ہے۔اُ نہوں نے مولانا نذیر احمد صاحب علی کو دعا کے لئے کہا اور پیشکش کی کہ وہ اس کے لئے آپ کو ایک خطیر رقم پیش کریں گے۔مگر آپ نے کہا کہ اس کی بجائے تم وعدہ کرو کہ تم اسلام قبول کرکے ایک حقیقی مسلمان بن جاؤ گے۔یہ چیف صاحب مان گئے اور اگلے روز اپنے تمام بت اور تعویذ مولانا نذیر احمد صاحب کے حوالے کر دیئے۔اور آپ نے کئی لوگوں کی موجودگی میں ان بتوں اور تعویذوں کو زمین میں دبا دیا۔چیف صاحب کی سو سے زائد بیویاں تھیں ۔ مولانا نذیر احمد صاحب علی نے کہا کہ اب تم اسلامی تعلیم کے مطابق صرف چار بیویاں اپنے پاس رکھو۔ چیف صاحب نے اس کی بھی اطاعت کی۔اللہ تعالیٰ نے اُن پر فضل کیا اور وہ جلد تقریباََ مکمل طور پر ٹھیک ہو گئے۔اب انہوں نے درخواست کہ ان کی تمام چیفڈم میں احمدیت کی تبلیغ کا انتظام کیا جائے۔چنانچہ ایک مقامی احمدی مکرم الفا مصطفیٰ صاحب کو وہاں پر مبلغ مقرر کیا گیا۔(۱-۲)۔یہاں جماعت قائم ہوئی اور مسجد بھی بن گئی ۔پہلے یہاں کے لوگ زیادہ تر بت پرست یا عیسائی تھے۔انہیں ایک چھوٹی سی جگہ پر اسلام کی یہ کامیابی بھی نا گوارگزری۔چنانچہ عیسائی مشنریوں نے ڈسٹرکٹ کمشنر کے پاس جا کر ان کے کان بھرنے شروع کئے اور انہیں احمدیت کی مخالفت پر اکسایا ۔اس صورتِ حال میں مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی از خود ڈسٹرکٹ کمشنر کے پاس گئے اور انہیں جماعتِ احمدیہ کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ کہ انہیں ضلع میں جماعت کی سر گرمیوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔اور عیسائی مشنریوں کو جماعت کے مبلغ یا مقامی احمدیوں کے خلاف شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں۔(۳)
جب مولانا نذیر احمد صاحب علی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے ملنے جا رہے تھے تو آپ نے راستے میں دو ہفتہ کے لئے Wando چیفڈم میں قیام کیا اور دو ہفتہ وہاں رہ کر تبلیغ کی ۔اس کے نتیجے میں وہاں کے پیراماؤنٹ چیف نے احمدیت قبول کر لی اور اس چیفڈم میں دو مساجد بھی تعمیر کی گئیں۔
مخالفت تو شروع ہو رہی تھی لیکن اس کے ساتھ جنوبی صوبہ میں خاص طور پر Gorama, Lunya,Wando اور Small Bo کی چیفڈموں میں تبلیغ کا کام جا ری تھا۔(۳)
اب سیرالیون میں کام کی وسعت بڑھ رہی تھی۔چنانچہ مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی نے حضور ؓ کی خدمت میں درخواست کی کہ سیرالیون کے لئے ایک اور مرکزی مبلغ بھجوایا جائے۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے لندن میں مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس کوارشاد فرمایا کہ وہاں سے مکرم مولانا صدیق امرتسری صاحب کو لندن سے سیرالیون بھجوادیا جائے۔اس ارشاد کی تعمیل میںمکرم صدیق امرتسری صاحب مارچ ۱۹۴۰ء کو سیرالیون پہنچ گئے۔ (۴)
مئی ۱۹۴۰ء میں مکرم مولانا صدیق امرتسری صاحب کو Baowahun بھجوا کر مولانا نذیر احمد صاحب علی نے Magburaka اورMakeniجا کر احمدیت کا پیغام پہنچایا۔۱۹۴۰ء کے نومبر میں سیرالیون کے مشرقی صوبہ میں احمدیت کو مزید مستحکم ہونے کا موقع اس طرح ملا کہ یہاں پر کینیما (Kenema)کے مقام پر تمام پیراماؤنٹ چیفس کا اجتماع ہو رہا تھا۔سیرالیون کے گورنر جنرل بھی وہاں آ ئے ہوئے تھے۔مولانا صدیق امرتسری صاحب بھی وہاں تبلیغ کے لئے پہنچ گئے۔اس اجتماع میں دو احمدی پیراماؤنٹ چیفس بھی آئے ہوئے تھے،ان کی کوششوں سے مولانا صدیق صاحب کو وہاں کی مسجد میں درس وتدریس کا موقع مل گیا۔اگرچہ یہ سلسلہ وہاں پر وہاں کے امام کی رضامندی سے جاری تھا لیکن ،ایک روز نمازِ مغرب کے بعد وہاں پر کچھ مفسدین نے ہنگامہ کھڑا کر دیا ۔اس واقعہ کی اطلاع پا کر مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی بھی وہاں پر پہنچ گئے۔اور آپ کو چیفوں کے آخری اجلاس میں خطاب کرنے کا موقع دیا گیا۔اس موقع پر کئی لوگ بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور بعض چیف صاحبان نے انہیں اپنے علاقے میں آکر تبلیغ کرنے کی دعوت دی۔چنانچہ ان کی خواہش پر ان کے علاقوں کے دورے کئے گئے اور وہاں پر مختلف مقامات پر جماعتیں قائم ہوئیں۔(۵)
اللہ تعالیٰ جہاں پر بھی جماعت کو ترقی عطا فرماتا ہے ،وہاں پر مخالفت کا شدید تر ہوجاتی ہے۔پہلے باؤماہوں(Baowahun)میں جماعت کے قیام کا ذکر کیا جا چکا ہے۔یہاں پر احمدی ہونے والوں کی اکثریت یہاں کے مقامی باشندے نہیں تھے بلکہ کاروبار کے سلسلے میں اس گاؤں میں منتقل ہوئے تھے۔اور مقامی قانون کے تحت انہیں ویسے حقوق حاصل نہیں تھے جو اس چیفڈم کے اصلی باشندوں کو حاصل تھے۔عیسائیوں اور غیر احمدی مسلمانوں نے مل کر وہاں کے پیراماؤنٹ چیف کو جماعت کی مخالفت پر اکسایا۔چنانچہ احمدیوں کو مختلف طریقوں سے تنگ کرنے کا سلسلہ شروع ہؤا۔کبھی انہیں جرمانہ کیا گیا،کبھی اُن کے مبلغ کو وہاں سے نکالنے کی کوششیں کی گئیں۔ مبلغین کا بہت سا وقت ان مقدمات میں ضائع ہؤا۔لیکن چیف کی شکایات کے با وجود گورنمنٹ نے اس گاؤں میں جماعت کو اسکول اور دارالتبلیغ کے لئے زمین دینے کا فیصلہ کیا۔اور یہاں پر بھی جماعت کے اسکول نے کام شروع کر دیا۔یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اِن دنوں جماعت سیرالیون کو مرکز کی طرف سے صرف پانچ پاؤنڈ سالانہ کی مدد مل رہی تھی ۔اور اتنے فعال مشن کی سرگرمیوں کے باقی اخراجات مقامی احمدی احباب کی مالی قربانیوں سے پورے کئے جاتے تھے۔(۶)
جب کسی مقام پر احمدیت تیزی سے ترقی کر رہی ہو اور نئے احباب جماعت میں شامل ہو رہے ہوں تو ان کی تربیت اور ان کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے کا کام اولین ترجیح اختیار کر لیتا ہے۔اور مقامی مبلغین کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔چنانچہ صدر انجمن احمدیہ کی رپورٹ برائے ۱۹۴۰ئ۔۱۹۴۱ء میں سیرالیون کی رپورٹ کے بعد یہ تبصرہ شائع کیا گیا تھا
’سیرالیون کے بعض مخصوص حالات یہ ہیںکہ بعض لوگ جلد از جلد احمدیت قبول کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن عملی تبدیلی کے لئے تیار نہیں۔اور ظاہر ہے کہ اس کا احمدیت کو کوئی فائدہ نہیں۔بلکہ احمدیت کے مسقبل کے لئے مضر ہے۔اس وقت زیادہ ضرورت مخلص افریقن مبلغین کی ہے ۔علاوہ مذکورہ بالا دونوں احمدی اساتذہ کے الفا ابراہیم زکی صاحب بھی تبلیغ کا کام کر رہے ہیں۔اور انشاء اللہ ایک اور نوجوان عبد الباری صاحب بھی ایک تین ماہ تک تبلیغ کے واسطے تیار ہو جائیں گے۔اور ان کے علاوہ بعض اور نوجوان بھی تیار ہو رہے ہیں۔‘ (۶)
اپریل ۱۹۴۱ء تک سیرالیون میں ۸ جماعتیں قائم تھیں اوراپریل ۱۹۴۲ء تک اس ملک میں ۱۴ جماعتیں قائم ہو چکی تھیں۔تعداد اور اہمیت کے لحاظ سے ماٹوٹو کا اور باڈو کی جماعتیں خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں کیونکہ یہ دونوں مقامات ریاستوں کے صدر مقام تھے۔ماٹوٹوکا اس لئے بھی اہمیت رکھتا تھا کیونکہ یہ علاقے میں عیسائیت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔اور یہاں پر امام اور چند علماء کے علاوہ باقی لوگوں کی اکثریت نے احمدیت قبول کر لی تھی اور یہاں کے ایک مقامی دوست سوری باکو کو امام مقرر کیا گیا تھا۔اپریل ۱۹۴۲ء تک دو مرکزی مبلغین کے علاوہ سیرالیون کے چار مقامی مبلغین بھی کام کر رہے تھے۔یہ ابتدائی چار مبلغین شیخ علی مانسری،عمر جاہ صاحب،ابراہیم ذکی صاحب اور عبدالباری صاحب تھے۔(۷،۸)
لندن مشن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کے متعلق ایک اشتہار شائع کیا تھا۔سیرالیون کی جماعت نے کثیر تعداد میں اس اشتہار کو وہاں پر تقسیم اور فروخت کیا۔اور مختلف احمدیوں نے اس اشتہار کو اپنے مکان کے برآمدے ،ستون یا دیواروں پر آویزاں کیا تاکہ عیسائیوں پر ظاہر ہو کہ حضرت عیسیٰ ؑ خدا نہیں تھے بلکہ فوت ہو چکے ہیں۔۔اس اشتہار کی وجہ سے پادری صاحبان اور متعصب عیسائی بہت برہم ہوئے۔اور ایک دن بلوہ کر کے مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی کے مکان پر آگئے اور مطالبہ کیا کہ اس اشتہار کو اُتار دیا جائے کیونکہ اس پر پبلک کی نظر پڑتی ہے۔اور لوگوں کو اشتعال آتا ہے ورنہ فساد ہو جائے گا۔مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی نے اسے اُتارنے سے انکار کر دیا ۔ایک گھنٹہ کے بعد یہ لوگ دوبارہ آئے اور اب ان کے ساتھ پولیس کا ایک سپاہی بھی تھا اور اِس اشتہار کو اُتار کر چلے گئے۔جب عدالت میں معاملہ پیش ہؤا تو عیسائی صاحبان کا خیال تھا کہ غیراحمدی مسلمان ان کی مدد کریں گے۔ایک عربی النسل عالم تو پادریوں کے ساتھ مل کر مباحثہ کرنے کو تیار ہوگئے لیکن مسجد کے امام صاحب نے صاف کہہ دیا کہ یہ جھگڑا احمدیوں اور عیسائیوں کے درمیان ہے ۔ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی یہ اشتہار ہمارے کسی عقیدے کے خلاف ہے۔اس طرح مخالفین کی سازش کی کمر ٹوٹ گئی۔(۹)اسی طرح بو کے مقام پر بھی جماعت کی مخالفت تیز ہو گئی اور ایک ریاست کے پیرا ماؤنٹ چیف نے ایک مقامی احمدی مبلغ کو احمدیت کی تبلیغ کرنے پر جرمانہ بھی کر دیا۔(۱۰)لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود سیرالیون کی جماعت اپنا قدم آگے بڑھا رہی تھی۔اور ۱۹۴۳ء کے دوران تیرہ نئے مقامات پر جماعتیں قائم ہوئیں ۔ان جماعتوں میں روتیفنک کی جماعت بھی تھی۔روتیفنک کے دور افتادہ مقام کے متعلق حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ نے خاص ہدایت فرمائی تھی کہ یہاں پر جماعت قائم کی جائے۔اس کے علاوہ بو سمیت تین مقامات پر مساجد اور دارالتبلیغ کی تعمیر تیزی سے مکمل ہو رہی تھی۔اور روکو پور اور باؤ ماہوں میں جماعت کے اسکول کام کر رہے تھے۔سیرالیون کی فعال جماعت نے اپنی کاوشوں کا دائرہ کار صرف سیرالیون تک محدود نہیں رکھا ہؤا تھا۔چنانچہ ۱۹۴۳ء میں ایک مخلص آنریری مبلغ مکرم الفا عبد اللہ صاحب کو تین ماہ کے لئے لائیبیریا میں تبلیغ کے لئے بھجوایا گیا تاکہ ہمسایہ ممالک میں بھی احمدیت کا پیغام پہنچایا جائے۔(۱۱)
۱۹۴۳ء کا اکثر حصہ مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی نے مختلف علاقوں کے دوروں میں گذارا اورجنوری ۱۹۴۴ء میں لائبیریا کی سرحد تک جا کر احمدیت کی تبلیغ کی۔ان دوروں کے بعد آپ کو مرکز واپس آ نے کی اجازت موصول ہوئی۔آپ مگبورکا تشریف لائے جہاں پر مکرم مولانا محمد صدیق صاحب مقیم تھے اور آپ کو مشن کا چارج دیا اور اپریل ۱۹۴۴ء میں آپ ہندوستان کے لئے روانہ ہو گئے۔(۱۲)
اب سیرالیون میں احمدیوں کے لئے ابتلاؤں کا ایک دور شروع ہو چکا تھا۔اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ کینیما کے علاقے میں دومقامات پر وہاں کے چیف اور پیراماؤنٹ چیف صاحبان نے احمدیوں کو اس جرم پر جرمانہ عائد کر دیا کہ انہوں نے غیر احمدیوں سے علیحدہ عید کی نماز کیوں ادا کی۔اور ٹونگیا اور کویا کی ریاست میں احمدیوں کو مسلسل دکھ دیا جا رہا تھا ۔اور چیف اس بات کا برملا اظہار کر رہے تھے کہ اب ان ریاستوں میں احمدیوں کو نہیں رہنے دیا جائے گا۔حکام کو شکایت کی گئی اور اس اقدام سے ان تکالیف کا کچھ ازالہ بھی ہؤا۔ایک جگہ پر وہاں کے چیف اور اس کے دیگر ساتھیوں نے اپنے بت کے سامنے جس کا نام شیطان تھا شراب پی کر عہد کیا کہ وہ وہاں سے احمدیوں کو نکال دیں گے۔اور یہ قانون بھی بنا دیا کہ جو شخص یہ کہے گا کہ لوکل شراب حرام ہے یا یہ کہے کہ اب میں شراب نہیں پیوں گا اسے پانچ شلنگ کا جرمانہ کیا جائے گا۔جماعت کے مبلغ نے ان معاملات کو ڈویژنل کمشنر کے سامنے پیش کیا مگر اُس نے کوئی خاص توجہ نہیں کی۔کچھ مقامات پر پیراماؤنٹ چیف احمدیوں کو احمدیت چھوڑنے پر مجبور کر رہے تھے۔ایک مقامی احمدی امام مسجد الفاہم سنوسی صاحب پر یہ جھوٹا الزام لگایا کہ انہوں نے اپنے وعظ میں چیف اور وہاں کے ایک بت کی ہتک کی ہے ۔سنوسی صاحب کو دو ہفتہ ننگا کر کے اور پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر قید رکھا گیا۔اور وہاں کے چیف نے یہ ظلم کرنے کے بعد خود ڈپٹی کمشنر صاحب کو لکھا کہ وہ اپنے علاقے میں احمدیوں کو نہیں رہنے دے گا اور ان کو وہاں سے نکال کر احمدیوں کے مشن ہاؤس اور مسجد پر قبضہ کر لے گا۔ایک جگہ احمدی امام نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھائی تو اسے چیف کے رو برو پیش کیا گیا اور امام کی پگڑی اتار کر چیف کے حاشیہ نشین اس سے فٹ بال کی طرح کھیلتے رہے اور پھر اسی پر بس نہ کی بلکہ چیف نے ایک سپاہی کو حکم دیا کہ وہ اس احمدی دوست پر پیشاب کردے چنانچہ اُس بد بخت نے ایسا ہی کیا۔اور ایک اور احمدی کو ننگا کر کے قید کر دیا گیا ۔اس پر بھی غصہ فرو نہ ہؤا تو احمدی امام ساحب کو ۱۲ گھنٹے کے اندر اندر اپنے علاقے سے نکلنے کا حکم دے دیا۔(۱۳۔۱۴۔۱۵)
مخالفت تو بڑھ رہی تھی مگر جماعتِ احمدیہ سیرالیون ہمت سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھی۔چنانچہ ۱۹۴۶ء میں بو میں جماعت کے اسکول کی عمارت مکمل ہوئی اور اس اسکول نے کام بھی شروع کر دیا۔اوراس کی تعمیر کے لئے صرف سیرالیون کے احمدیوں نے ہی نہیں بلکہ دنیا کی مختلف جماعتوں نے بھی چندہ دیا۔(۱۶)
حضرت مصلح موعود ؓ کی ہدایت تھی کہ ہر ملک کے مبلغین سال میں ایک دو مرتبہ ضرور جمع ہو کر مجلسِ شوریٰ منعقد کیا کریں۔جس میں نئے پیش آمدہ حالات اور مشکلات کا حل اور نئی تبلیغی جد و جہد کا پروگرام تجویز کیا کریں۔حضورؓ کے اس ارشاد کی تعمیل میںسیرالیون کے احمدیہ مشن کے مرکز بو میں ۳ مئی ۱۹۴۶ء کو سیرالیون کے مبلغین کی ایک کانفرنس ہوئی ۔اس کی صدارت مکرم مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب امیر و مشنری انچارج سیرالیون نے کی اور غور و خوص کے بعد اہم فیصلے کئے گئے۔(۱۷)
تمام تر نا مساعد حالات کے با وجود سیرالیون کے مبلغ اتنی جانفشانی سے کام کر رہے تھے کہ یہ چھوٹا سا ملک دنیا بھر کے احمدیوں کی توجہ کا مرکز بنا ہؤا تھا۔چنانچہ ۱۹۴۵ء کے آخر اور ۱۹۴۶ء کے شروع میں مرکز نے تین مزید مبلغین سیرالیون کے لئے روانہ کئے ۔یہ مبلغین مولوی نذیر احمد صاحب رائے ونڈی،مکرم صوفی اسحق صاحب اور مولوی عبدالحق صاحب ننگلی تھے۔مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی بھی ۲۶ فروری ۱۹۴۶ء کو سیرالیون پہنچے مگر آپ کے سپرد مغربی افریقہ کے تمام ممالک کی نگرانی تھی اس لئے آپ چند ماہ قیام کے بعد یہاں سے چلے گئے۔اور پھر اکتوبر ۱۹۴۶ء میں مکرم مولانا بشارت احمد صاحب بشیر بھی سیرالیون پہنچ گئے ۔اس طرح یہاں پر مرکزی مبلغین کی تعداد ۵ ہو گئی۔(۱۸)
سیرالیون میںمختلف مقامات پر اب تک جماعت کی متعددمساجد تعمیر ہو چکی تھیںمگر اب تک سیرالیون کے صدر مقام اور سب سے بڑے شہر میں جماعت کی کوئی مسجد نہیں بنی تھی،اور نہ ہی اس کے لئے کوئی مناسب قطعہ اراضی حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی تھی۔اس غرض کے لئے مکرم مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب نے حضورؓ انور کی خدمت میں درخواست کی اور حضور نے از راہ شفقت اس کیلئے پانچ سو پانڈ کی رقم منظور فرمائی اور فروری ۱۹۴۷ء میں اس سے شہر کے وسط میں گوری سٹریٹ میں ایک قطعہ زمین خریدا گیا اور یہاں پر مسجد تعمیر کی گئی۔(۱۹)
سیرالیون کے بہت سے علاقوں میں چیف اور دیگر امیر حضرات بہت زیادہ تعداد میں بیویاں رکھتے تھے۔ جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے بعض کی تو سو سو بیویاں بھی تھیں۔ان کی ازدواجی زندگی کو بھی اسلام کے مطابق ڈھالنا ضروری تھا ۔ایک رپورٹ میں اس کا ذکر کیا گیا تو حضرت مصلح موعود ؓ نے ارشاد فرمایا
’بیویوں کے متعلق لکھا جائے کہ سرِ دست اسی قدر کیا جائے کہ بیعت میں اقرار لیا جائے کہ میں جلد سے جلد اسلامی حکم کے مطابق بیویوں کے بارے میں اپنی اصلاح کی کوشش کروں گا اور مزید کوئی حرکت اسلام کے خلاف نہ کروں گا ۔‘(۲۰)
سیرالیون میں بہت سے عیسائی مشن کام کر رہے تھے اور قدرتاََ یہ مشن اسلام کو اپنا سب سے بڑا رقیب سمجھتے تھے۔ان مشنوں میں سے ایک UBCبھی تھا جسے امریکہ سے کافی مالی مدد ملتی تھی۔۱۹۴۸ء میں اس کی طرف سے ایک کتاب شائع کی گئی ۔جس میں اسلامی تعلیمات کا مضحکہ اڑانے کی کوشش کرتے ہوئے افریقہ کے باشندوں کو اسلام سے بد ظن کرنے کی کوشش کی گئی۔سیرالیون کے احمدیہ مشن کی طرف سے فوراََ اس کا جواب شائع کیا گیا اور انہیں چیلنج کیا گیا کہ وہ ہمارے مسلمات کی رو سے ان الزامات کو ثابت کریں اور علی الاعلان اس موضوع پر احمدیوں سے مناظرہ کر لیں۔جماعت کا ٹریکٹ تمام سیرالیون میںوسیع پیمانے پر تقسیم کیا گیا ،جس کی وجہ سے عوام کو اس مناظرے میں کافی دلچسپی پیدا ہو گئی ۔لیکن اس مشن نے اس چیلنج کا کوئی جواب نہیں دیا ۔اور اپنے افریقن عیسائیوں کو یہ تلقین کی کہ وہ احمدیوں سے مذہبی گفتگو نہ کریں۔(۲۱)
مکرم مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب آٹھ سال خدمات سرانجام دینے کے بعد ستمبر ۱۹۴۸ء میں رخصت پر پاکستان روانہ ہوئے ۔۔چند ماہ بعد سیرالیون میں یہ انتظامی تبدیلی کی گئی کہ اسے انتظامی لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ۔مولوی ابراہیم خلیل صاحب فری ٹاؤن کالونی کے انچارج مقرر ہوئے اورمولوی نذیر احمد صاحب رائے ونڈی سیرالیون کے باقی علاقہ کے امیر مقرر ہوئے۔(۲۲)
اب تک گو سیرالیون کی جماعت کافی حد تک مستحکم ہو چکی تھی لیکن ابھی تک ملکی سطح پر جلسے کا انعقاد نہیں ہؤا تھا۔مولوی نذیر احمد صاحب رائے ونڈی کے زمانے میں سیرالیون کا پہلا جلسہ سالانہ۱۲،۱۳ اور۱۴ دسمبر ۱۹۴۹ئ؁ء کو بو کے مقام پرمنعقد کیا گیا ۔اس میں سیرالیون کی ۳۳ جماعتوں کے ۹۰۰ احباب نے شرکت کی۔اور مقامی اخبار میں اس کے انعقاد کی خبریں شائع کی گئیں۔اس کے بعد یہ جلسہ سالانہ جماعتِ احمدیہ سیرالیون کی روایت کا ایک درخشندہ حصہ بن گیا۔دیگر تبلیغی اور تربیتی مساعی کے ساتھ جماعت سیرالیون تعلیمی میدان میں بھی خدمات میں آگے قدم بڑھا رہی تھی ۔ چنانچہ ۱۹۴۹ء تک یہاں پر جماعت کے چھ اسکول قائم ہو چکے تھے۔(۲۳)
اکتوبر ۱۹۵۰ء میں مکرم مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب دوبارہ سیرالیون تشریف لائے اور یہاں کے امیر مقرر ہوئے۔۱۹۵۱ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت مصلح موعود ؓ نے سیرالیون کی جماعت کے نام یہ پیغام بھجوایا ۔
’آپ کے ملک میں مغربی افریقہ کے ممالک میں سب سے آخر میں تبلیغ شروع ہوئی ہے۔لیکن آپ کا ملک چاروں طرف سے ایسے علاقوں میں گھرا ہؤا ہے جو کہ احمدیت سے نا آشنا ہیں ۔پس آپ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے ۔اور آپ کے لئے کام کے مواقع بھی بہت پیدا ہو جاتے ہیں ۔پس آپ لوگ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنی محنت اور کوشش کو بڑھائیں ۔اور نہ صرف اپنے علاقے میں احمدیت کو پھیلانے کی کوشش کریں ۔ بلکہ لائبیریا اور فرنچ افریقن علاقوں میں بھی تبلیغ کا کام اپنے ذمہ لیں ۔‘(۲۴)
جیسا کہ لائبیریا میں مشن کے قیام کے سلسلے میں یہ ذکر آ چکا ہے کہ حضور ؓ کے اس ارشاد کی تعمیل میں مولوی محمد صدیق صاحب نے ۱۹۵۲ء میں لائبیریا کا دورہ کیا اور وہاں پر احمدیت کا پیغام پہنچایا ۔ ۱۹۵۴ء میں مولانا نذیر احمد صاحب علی آخری مرتبہ سیرالیون پہنچے اور یہاں کے امیر مقرر ہوئے ۔۱۹ مئی ۱۹۵۵ء کو آپ سیرالیون میں ہی اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے۔اور یہیں پر ہی آپ کو سپردِ خاک کر دیا گیا۔نومبر ۱۹۴۵ء میں ایک مرتبہ قادیان کے جامعہ احمدیہ میں بیرونِ ملک جانے مبلغین کے اعزاز میں دعوت دی گئی۔اسی دعوت میں اعلان کیا گیا کہ حضور ؓ نے مولانا نذیر احمد صاحب علی کو مغربی افریقہ کا رئیس التبلیغ مقرر فرمایا ہے ۔اس پر جب مولانا نذیر احمد صاحب علی تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو آپ نے فرمایا
’آج ہم خدا تعالیٰ کے لئے جہاد کرنے اور اسلام کو مغربی افریقہ میں پھیلانے کے لئے جا رہے ہیں ۔موت فوت انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ہم میں سے کوئی اگر فوت ہو جائے تو آپ لوگ یہ سمجھیں کہ دنیا کا کوئی دور دراز حصہ ہے ۔جہاں تھوڑی سی زمین احمدیت کی ملکیت ہے ۔احمدی نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہ اس تک پہنچیں ۔اور اس مقصد کو پورا کریں جسکی خاطر اس زمین پر ہم نے قبروںکی شکل پر قبضہ کیا ہو گا ۔پس ہماری قبروں کی طرف سے یہی مطالبہ ہو گا ۔کہ اپنے بچوں کو ایسے رنگ میں ٹریننگ دیں ۔کہ جس مقصد کیلئے ہماری جانیں صرف ہوئیں ۔اسے وہ پورا کریں۔‘(۲۵)
اب اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ سیرالیون میں جماعت کا اپنا اخبار ہو ۔چنانچہ ۱۹۵۳ء کے جلسہ میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ سیرالیون مشن کا اپنا پریس اور اخبار ہونا چاہئیے۔قریباََ ڈیڑھ سال کے بعد ایک اخبارAfrican Crescentکے نام سے شائع ہونا شروع ہؤا۔اس کی طباعت اجرت پر ایک عیسائی پریس میں ہوتی تھی ۔جس نے جلد ہی اس کی طباعت سے انکار کر دیا اور یہ طعنہ دیا کہ اگر تمہارے مسیح میں طاقت ہے تواس کی طباعت کا انتظام کر دے۔اگرچہ سیرالیون جماعت کے وسائل محدود تھے لیکن اس طعنہ سے ان کی غیرت جوش میں آئی اور انہوں نے پریس کے حصول کے لئے بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کرنی شروع کردیں۔حضور ؓ خود سیرالیون میں جماعت کے پریس اور اخبار کے اجراء میں دلچسپی لے رہے تھے ،چنانچہ حضور ؓ نے مشن کی ۱۹ اگست ۱۹۵۶ء کی رپورٹ پر ارشاد فرمایا
’میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اپنا پریس بنائیں۔ہم نے یہاں ایک ہزار پونڈ میں خریدا ہے۔ ‘ پھر اگلے ماہ کی رپورٹ پر ارشاد فرمایا
’اللہ تعالیٰ اس لائبریری کو سارے ملک میں احمدیت پھیلنے کا ذریعہ بنائے۔آپ کی طرف سے اخبار کے متعلق اطلاع نہیں آئی۔چندہ کافی جمع ہو چکا ہے ۔اخبار نکلنے کا نام نہیں لیتا۔‘جب حضور کی خدمت میں افریقن کریسنٹ کا شمارہ موصول ہؤا تو حضور نے اظہارِ خوشنودی فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ پبلک مفاد کے مضامین بھی آہستہ آہستہ لکھے جائیں۔(۲۶)
حضور ؓ کی خواہش تھی کہ سیرالیون سے ہمسایہ ممالک مین بھی تبلیغ کی جائے ۔چانچہ مکرم مولانا صدیق امرتسری صاحب نے اپنے خط محررہ ۹ جنوری ۱۹۵۶ء میں عرض کی کہ بعض نوجوان گیمبیا میں بطور تاجر بھجوائے جا رہے ہیں۔اس پر حضور ؓ نے ارشاد تحریر فرمایا
’بہت نیک خیال ہے ۔اللہ تعالیٰ کامیاب کرے ۔جانیوالوں کو سمجھائیں کہ ایک دو احمدی ہم نہیں مانتے ۔ملک کو احمدی کر کے لاؤ۔‘(۲۷)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خواہش تھی کہ سیرالیون میں جلد جلد احمدیت پھیلے اور حضور کا ارشاد تھا کہ جو شامی سیرالیون میں مقیم ہیں ان کو تبلیغ کی جائے ۔چنانچہ مکرم مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب کی رپورٹ محررہ ۲۶ دسمبر ۱۹۵۴ء پر حضور ؓ نے ارشاد فرمایا
’شامیوں کی طرف زیادہ توجہ کی جائے ۔ان کے شامل ہونے سے نہ صرف جماعت کی مالی حالت مضبوط ہو گی بلکہ شام میں بھی ترقی ہو گی ۔سیرالیون کی جماعت ترقی کر کے گر رہی ہے ۔اس وقت تک جماعت کم از کم بارہ تیرہ ہزار ہونی چاہئیے تھی ۔اس ملک کی کل آبادی غالباََ دس بارہ لاکھ ہے ۔اگر کوشش کریں تو جماعت جلد مضبوط ہو جائے گی۔‘ (۲۸)
۱۹۶۰ء تک سیرالیون میںجماعت کے پرائمری اسکولوں کی تعداد دس ہو چکی تھی لیکن ابھی تک سکینڈری اسکول کھولنے میں کامیابی نہیں ہوئی تھی ۔منظوری ملنے پر ۱۱ ستمبر ۱۹۶۰ء کو بو مشن ہاؤس کے ایک حصہ میں نہایت غریبانہ طرز پر ایک سکینڈری اسکول کا اجرا کیا گیا اور مکرم شیخ نصیرالدین صاحب اس کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے۔اس کے ساتھ سیرالیون میں جماعت کی تعلیمی خدمات ایک نئے دور میں داخل ہوئیں۔نئے سکینڈری اسکول کھولنے کے سلسلے میں مکرم بشارت بشیر صاحب کو خاص کامیابی حاصل ہوئی۔چنانچہ ان کی کاوشوں سے ۱۹۶۴ء میں فری ٹاؤن میںجماعت کا دوسرا اور ۱۹۶۵ء میں بوآجے بو کے مقام پر جماعت کا تیسرا سکینڈری قائم ہؤا۔
۱۹۶۰ء میں جماعت نے سیرالیون میں اپنی طبی خدمات کا آ غاز کیا ۔اور مرکز کی طرف سے مکرم ڈاکٹر شاہنواز صاحب کو سیرالیون بھجوایا گیا ۔آپ ۲۲ ستمبر ۱۹۶۰ء کو ربوہ سے روانہ ہوئے اورسیرالیون پہنچ کر آپ نے بو شہر میں ایک ڈسپنسری کا آغاز کیا اور ڈیڑھ سال تک وہاں پر مقیم رہے۔اور پھر آپ کی واپسی پر مکرم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب نومبر ۱۹۶۱ء میں سیرالیون پہنچے مگر آب و ہواموافق نہ آنے کی وجہ سے آپ نائیجیریا تشریف لے گئے۔ان کے بعد ڈاکٹر محمد اکرم ورک صاحب نے کچھ عرصہ کام کیا ۔(۲۹۔۳۰)
۱۹۶۱ء میں سیرالیون کو آزادی ملی ۔جماعت کی خدمات کی وجہ سے جماعت سے بھی درخواست کی گئی کہ وہ مرکز سے اپنا نمائیندہ آزادی کی تقریبات میں شرکت کے لئے بھجوائے ۔چنانچہ مکرم جسٹس شیخ بشیر احمد صاحب کو مرکزی نمائیندے کے طور پر سیرالیون بھجوایا گیا اور آپ نے آزادی کی تقریبات میں شرکت کی۔ملک کے وزیرِ خزانہ اور نائب وزیرِ اعظم مکرم مصطفیٰ سنوسی صاحب کو آپ کی آمد کی اطلاع ملی تو وہ حکومت کے گیسٹ ہاؤس میں آپ سے ملنے کے لئے تشریف لائے اور تقریباََ ڈیڑھ گھنٹہ آپ سے مختلف موضوعات پر بات چیت کی۔جماعت کی مساعی کو سراہتے ہوئے انہوں نے جماعت سے درخواست کی کہ وہ ان ممالک میں اسلام کی سربلندی کے لئے مزید کوششیں کرے ۔خصوصاََ تعلیم کے میدان میں ملک کی مدد کی جائے کیونکہ بہت سے مسلمان طلباء اسلامی اسکولوں کی کمی کی وجہ سے عیسائی اسکولوں میں جاتے ہیں۔اس کے بعد مکرم شیخ بشیر احمد صاحب نے ملک کے وزیرِ اعظم اور دیگر ممبرانِ پارلیمنٹ سے بھی ملاقات کی۔اور جماعت کی طرف سے وزیرِ اعظم کو ایڈریس بھی پیش کیا گیا۔(۳۱)
(۱)الفضل ۱۱ جولائی ۱۹۵۶ء ص ۳و۴(۲)The Sunrise ,Jan 20 1940,p10
‏(۳)The sunrise March 16,1940(۴) روح پرور یادیں ،مصنفہ مولانا صدیق امرتسری صاحب ص۲۲۲
(۵)روح پرور یادیں ،مصنفہ مولانا صدیق امرتسری صاحب ص۲۴۹۔۲۵۰
(۶) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۴۰ئ۔۱۹۴۱ء ص۴۲و ۴۳و۴۴
(۷)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۴۱ئ۔۱۹۴۲ء ص۲۵و ۲۶(۸) الفضل ۲۲ مئی ۱۹۴۲ء ص۵
(۹)الفضل ۱۸ مئی ۱۹۴۳ء ص ۴و۵(۱۰)الفضل ۱۰ ستمبر ۱۹۴۳ء ص ۲(۱۱) الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۴۳ء ص۴،۵
(۱۲) الفضل ۲۶ جولائی ۱۹۴۵ء ص ۴(۱۳) الفضل ۱۲ مئی ۱۹۴۵ء ص۵(۱۴)الفضل۱۶ جنوری ۱۹۴۴ء ص۴
(۱۵)الفضل ۱۰ جولائی ۱۹۴۵ء ص ۴ (۱۶) الفضل ۱۹ جون ۱۹۴۶ء ص۳(۱۷)الفضل ۲۸ جون ۱۹۴۶ء ص۱
(۱۸)تاریخ سیرالیون مشن ،مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ ص ۴۶
(۱۹)روح پرور یادیں ،مصنفہ مولانا صدیق امرتسری صاحب ص۳۹۶ ۔۳۹۷
(۲۰)ریکارڈ تبشیر ،فائل مولانا صدیق امرتسری صاحب ۱۹۴۸ء ص۶۰مورخہ ۳۰ اگست ۱۹۴۸ء
(۲۱) الفضل ۱۴ جولائی ۱۹۴۹ء ص ۲(۲۲)تاریخ سیرالیون مشن ،مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ
(۲۳)الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۴۹ء (۲۴)الفضل ۴ اپریل ۱۹۵۲ء ص۴(۲۵) الفضل ۲۷ نومبر ۱۹۴۵ء ص۲
(۲۶)ریکارڈ تبشیر سیرالیون ۱۹۵۶ء (۲۷)ریکارڈ تبشیر سیرالیون ۱۹۵۶ء چٹھی 294/22-1-56ص17
(۲۸) ریکارڈ وکالت تبشیر فائل مولوی صدیق صاحب امرتسری ۵۵۔۵۶ ص۳
(۲۹) الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۶۰ء ص۱(۳۰) الفضل ۲۳ نومبر ۱۹۶۱ء ص۱(۳۱) الفضل ۱۸ جون ۱۹۶۱ء
گولڈ کوسٹ(غانا) :
ہم ۱۹۳۹ء تک کے حالات کا جائزہ لے چکے ہیں کہ کس طرح گولڈ کوسٹ میں جماعت ترقی کر رہی تھی۔یہ ذکر بھی آ چکا ہے کہ ۱۹۳۷ء میں مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر یہاں پر مبلغ بن کر تشریف لائے تھے ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو ایک طویل عرصہ گولڈ کوسٹ میںنمایاں خدمات کی توفیق ملی ۔حضور ؓ کے ارشاد کے تحت آپ کو جماعت کی تربیت،درسِ قرآنِ مجید اور مبلغین کلاس کو پڑھانے کے کام پر لگایا گیا۔ اُس وقت مرکز کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ گولڈ کوسٹ میں دو مبلغین کا خرچ برداشت کیا جاتا ۔چنانچہ پہلے تو یہ فیصلہ تھا کہ نئے مبلغ کا خرچ گولڈ کوسٹ کی جماعت برداشت کرے گی لیکن مکرم مولانا نذیراحمد مبشرصاحب کو وہاں پہنچ کے احساس ہؤا کہ جماعت گولڈ کوسٹ یہ اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے چلتے وقت آپ کو ارشاد فرمایا تھا کہ تجارت کی طرف بھی توجہ کریں۔چنانچہ آپ نے دیگر فرائض کے علاوہ کھیل کے سامان کی تجارت کا کام بھی شروع کر دیا۔اور آپ عصر سے مغرب تک دارالتبلیغ کے ایک حصہ میں بیٹھ کر تجارتی خط و کتابت کرتے اور اشیاء کی فروخت کرتے ۔مشترکہ تجارت سے اتنے وسائل پیدا ہونے لگ گئے کہ آپ کے گذارہ کے لئے ایک قلیل رقم مقرر کی گئی،جس میں نہایت کفایت اور تنگی سے گذارہ ممکن تھا۔جب اکتوبر ۱۹۳۷ء میں مولانا نذیر احمد صاحب علی ،آپ کو مشن کاچارج دے کر سیرالیون تشریف لے گئے تو آپ پر کام کا بوجھ بہت بڑھ گیا ۔آپ کو ابھی انگریزی زبان پر بھی ایسا عبور نہیں تھا۔دوسری طرف تجارت،مبلغین کلاس کو پڑھانے ،جماعت کی تربیت سکولوں کی مینیجری ،خط و کتابت کے علاوہ تبلیغی دوروں کی ذمہ داری بھی آپ پر پڑ گئی۔اوپر سے پورا ملک ایک بحران کی زد میں آ گیا۔آبادی کے ایک بڑے حصے کا انحصار کوکو کی فصل پر تھا جسے برآمد کیا جاتا تھا۔کوکو خریدنے والی یورپین کمپنیوں نے آپس میں سمجھوتا کر لیا کہ وہ کوکو کی فصل نہ خریدیں یا اگر خریدیں تو بہت کم قیمت پر خریدیں۔چونکہ جماعت زیادہ تر کاشت کاروں پر مشتمل تھی اس لئے اس بحران کا جماعتی چندے پر بہت برا اثر پڑا اور مشن کے وسائل مزید محدود ہو گئے۔یہ حالت ۱۹۳۸ء کے آخر تک رہی۔
جیسا کہ پہلے بھی یہ ذکر آگیا ہے کہ اب جماعت کی ترقی کے ساتھ ،جماعت کی مخالفت بھی شروع ہو رہی تھی۔اور اس کے لئے طرح طرح کے طریقے اختیار کئے جا رہے تھے۔جون ۱۹۳۹ء میں مکرم مولانا نذیر احمدمبشر صاحب کو یہ اطلاع ملی کہ ایک حاجی مکہ معظمہ سے آکر ایک گاؤں صراحہ میں مقیم ہے اور احمدیوں کو تنگ کر رہا ہے ۔آپ وہاں پہنچے اور ان حاجی صاحب سے مل کر اُس سے گفتگو کرنی چاہی۔اُس نے کہا کہ آپ لیکچر دیں ،مجھے ضرورت ہوئی تو میں سوال پوچھ لوں گا۔چنانچہ ظہورِ مہدی اور وفاتِ مسیح پر لیکچردیا گیا ۔اُس نے بجائے نفسِ مضمون پر کوئی اعتراض کرنے کے ایک اور غیر احمدی ملاں سے مل کر شور ڈلوایا ۔گاؤں کے چیف نے فساد کے خوف سے جلسہ بند کر دیا۔ واپسی کے دو تین بعد مکرم مولانا نذیر مبشر صاحب کو اطلاع ملی کہ غیر احمدی ایک شاہراہ پر جھنڈا نسب کر کے خوشیاں منا رہے ہیں کہ انہوںنے احمدیوں کو فتح کر لیا ہے۔اور اس مضمون کا گیت گا رہے ہیں کہ مہدی ابھی ظاہر نہیں ہؤا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ زلزلہ نہیں آیا۔چونکہ ارد گرد کی جماعتوں پر اس کا برا اثر پڑ رہا تھا اس لئے اس علاقہ میں جلسے منعقد کر کے زلازل کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں بیان کی گئیں اور ان کے پورے ہونے کا ذکر کیا گیا۔پھر مخالفین کو مخاطب کر کے کہا گیا کہ آپ لوگ اتنے بے باک نہ ہوں عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے گولڈ کوسٹ میں بھی زلزلہ بھیج دے۔ان جلسوں کو ختم کر کے مکرم نذیر مبشر صاحب ایک اور گاؤں پہنچے جہاں پر آپ نے ایک جلسہ کرنا تھا۔رات کو آٹھ بجے شدید زلزلہ آیا دارالحکومت میں کچھ عمارتیں تباہ ہو گئیں اور کئی عمارتوں میں شگاف پڑ گئے۔اس کے علاوہ دوسرے بڑے شہروں اور دیہات میں بھی نقصان ہؤا۔جب مکرم نذیر مبشر ساحب تیسرے روزسالٹ پانڈ پہنچے تو بہت سے عیسائی اور مشرک دو تاروں پر یہ گا رہے تھے کہ احمدی سچے ہیں اور مہدی ظاہر ہو چکا ہے ۔ جماعت کی طرف سے ایک اشتہار اس نشان کے متعلق شائع کیا گیا اور اس زندہ نشان کو دیکھ کر بہت سے افراد نے بیعت کر لی۔
دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو جماعت کو اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔کچھ افسران نے جماعت کے خلاف ساز باز شروع کر دی۔ایک رات مکرم مولانا نذیر مبشر صاحب نے ایسی خواب دیکھی جس کی تعبیر تھی کہ کوئی دشمن جماعت کے لئے مشکل کھڑی کرے گا۔ابھی انہوں نے اپنے شاگردوں کو یہ خواب سنائی ہی تھی کہ پولیس نے مشن ہاؤس کو گھیرے میں لے لیا۔اور مشن ہاؤس کی تلاشی لی گئی۔الزام یہ عائد کیا گیا تھا کہ جماعتِ احمدیہ کے مبلغ کی جرمنی کے ساتھ خط و کتابت ہے اور یہاں پر گولہ بارود موجود ہے۔جب کچھ نہ ملا تو شرمندہ ہو کر واپس چلے گئے۔بعد میں معلوم ہؤا کہ یہ سپرنٹنڈنٹ اور ڈسٹرکٹ کمشنر کا کام تھا ۔ڈسٹرکٹ کمشنر پہلے معطل ہؤا اور پھر بحال ہؤا تو مہلک ملیریا کا شکار ہو کر اس دنیا سے کوچ کر گیا۔اور سپرنٹنڈنٹ پر بھی کئی مصائب آئے ۔اس پر لوگوں نے اور اس کی بیوی نے اسے یہ کہا کہ جب سے تم احمدیہ مشن کی تلاشی کے لئے گئے ہو اُس وقت سے تم پر یہ مصائب آ رہے ہیں ۔بعد میں اس سپرنٹنڈنٹ نے اپنا رویہ تبدیل کیا اور احمدیوں سے دوستانہ تعلق قائم کر لئے ۔(۱)
اب گولڈ کوسٹ کے شمال میں وا (Wa)کے مقام پر جماعت کی مخالفت زور پکڑ رہی تھی۔یہاں پر معلم صالح مولوی نذیر احمد صاحب علی کے ذریعہ احمدی ہوئے تھے۔جب گاؤں والوں کو ان کے احمدی ہونے کا علم ہؤا تو انہوں نے ان کے قتل کے لئے مشورے کئے۔ایک دن ایک جمِ غفیر نے ان کے مکان پر حملہ کر دیا ۔وہ قرآنِ کریم پڑھ رہے تھے۔ایک شخص نے تلوار سے اُن پر حملہ کیا ۔وہ تو بچ گئے مگر قرآنِ کریم دو ٹکڑے ہو گیا۔اُس وقت گورنمنٹ افسران نے انہیں ہدایت دی کہ وہ کچھ دنوں کے لئے سالٹ پانڈ چلے جائیں ۔اس وقت مولانا فضل الرحمن صاحب حکیم گولڈ کوسٹ اور نائیجیریا دونوں کے انچارج تھے ۔انہوں نے لیگوس (نائیجیریا) سے افسران سے خط و کتابت کی تو معلم صالح کو واپس جانے کی اجازت ملی۔یہ واقعات تو ۱۹۳۶ء سے پہلے کے ہیں۔اس کے بعد اس علاقے میں احمدیت نے پھیلنا شروع کیا اور وا میں ایک خاطر خواہ جماعت قائم ہونے کے علاوہ دو اور جگہوں پر بھی جماعت قائم ہو گئی۔اس ترقی کو دیکھ کر مخالفت نے ایک مرتبہ پھر زور پکڑا اور ایک بار پھر معلم صالح صاحب پر حملہ کیا گیا۔جماعت نے اس پر احتجاجی تار دیئے۔ ۱۹۴۱ء کے شروع میں سالٹ پانڈکے اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر نے مولانا نذیر مبشر صاحب کو بلا کر کہا کہ یہاں کے گورنر نے فیصلہ کیا ہے کہ شمالی علاقہ کے تمام احمدیوں کو وہاں سے نکال دیا جائے۔اس نا معقول حکم کو سن کر مولانا نذیر مبشر صاحب نے کہا کہ یہ انصاف سے بعید ہے میں حکومت کے حکم کو بدل تو نہیں سکتا مگر اس پر احتجاج ضرور کروں گا۔ مگر شمالی علاقوں کے افسران نے معلم صالح کو بلا کر کہا کہ آپ کے امیر اس بات پر تیار ہو گئے ہیں کہ احمدیوں کو وا سے نکال کر کہیں اور آباد کیا جائے۔مگر معلم صالح نے اُس وقت حکمت سے اس بات کو ٹال دیا ۔پھر ایک مسلمان جج جو زیرِ تبلیغ تھے انہوںنے حکومت کو لکھا کہ حکومت کے لئے ایسا قدم اُ ٹھانا مناسب نہیں ہے تو پھر حکومت نے یہ تجویز کیا کہ وا کے احمدیوں کو وہاں سے نکال کر ایک دو میل کے فاصلے پر آباد کیا جائے۔مگر بعد میں مکرم مولانا نذیر احمد مبشر صاحب کی کوششوں سے یہ فیصلہ بھی منسوخ ہو گیا۔
خدا کی قدرت کہ۱۹۲۹ء میں گولڈ کوسٹ کی سرحدی پولیس کے ایک ملازم نے بذریعہ خط و کتابت احمدیت قبول کی تھی۔وہ اصل میں وا کے رہنے والے تھے۔جب وہ ریٹائر ہو کر ۱۹۵۰ء میں وا واپس آئے تو انہیں وہاں کا پیراما ؤنٹ چیف مقرر کیا گیا ۔اور ۱۹۵۱ء میں وہ گولڈ کوسٹ کی اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہو گئے۔جہاں سے احمدیوں کو نکالنے کی سازش کی جا رہی تھی وہیں کا ایک احمدی پیراماؤنٹ چیف بن گیا۔وا میں احمدیت تو ترقی کرتی رہی مگر اس کے علاوہ وا کے لوگوں نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ معلم صالح جنہیں وہ کبھی قتل کرنے کی کوششیں کرتے تھے اور کبھی ان کو اپنے علاقے سے نکالنے کی سازش کرتے تھے،جب فوت ہوئے تو اس کے کچھ عرصہ کے بعد انہی کا بیٹا اس علاقے کا چیف کمشنر مقرر ہؤا۔(۲۔۳)
گولڈ کوسٹ کے تعلیمی نظام پر عیسائی مشنری اداروں کا قبضہ تھا۔ایک تو تعلیمی اداروں کی کمی تھی اور دوسرے مسلمان پس ماندہ تھے۔تعلیم یافتہ طبقہ کی اکثریت عیسائی تھی۔مسلمان لڑکے عیسائی اسکولوں میں جاتے تو ان کا عیسائی نام بھی رکھا جاتا۔بلکہ بعض مسلمان والدین اپنے بچوں کے نام بدل کر عیسائی نام لکھواتے تاکہ داخلہ میں آ سانی رہے۔ان اداروں میں با ضابطہ طور پر عیسائیت کی تعلیم مسلمان طلباء کو بھی دی جاتی۔جب یہ بچے پڑھ کر کالج سے باہر نکلتے تو عیسائیت کے رنگ میں رنگین ہو چکے ہوتے۔ان خوفناک حالات کے پیشِ نظر جماعت گولڈ کوسٹ میں خاص طور تعلیمی ادروں کے بنانے پر توجہ دے رہی تھی ۔۱۹۳۵ء تک سنٹرل ریجن میں چھ اسکول قائم ہو چکے تھے ۔ ۱۹۴۱ء میں اشانٹی ریجن میں کماسی کے شہر میں بھی ایک سکول کا اجراء کیا گیا۔اب تک جماعت صرف پرائمری اور مڈل سکول چلا رہی تھی۔۱۹۴۴ء میں خود انسپکٹر آف سکولز نے مکرم مولانا نذیر احمدصاحب مبشر کو اس طرف توجہ دلائی کہ جماعت کو اب یہاں پر ایک سکینڈری اسکول کھولنا چاہئیے۔
ھندوستان سے باہر اب تک جماعت نے اس سطح کا ادارہ نہیں کھولا تھا ۔اس لئے پہلے اس کو شروع کرنے کے لئے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص کی ضرورت تھی۔چنانچہ حضور ؓ نے مکرم سفیر الدین صاحب کو انگلستان پی ایچ ڈی کرنے کے لئے بھجوایا ۔جب چار سال کے بعد ان کی پی ایچ ڈی مکمل ہو گئی تو وہ ۱۹۵۰ء میںحضور ؓ کے ارشاد کے تحت گولڈ کوسٹ چلے گئے تاکہ کماسی میں ایک سکینڈری اسکول کا آ غاز کر سکیں۔اس راستے میں بہت سی مشکلات حائل تھیں لیکن سکول کے عملے نے مستقل مزاجی سے ان پر قابو پا لیا اور یہ سکول ملک کا ایک نامور ادارہ بن گیا۔(۴،۵)
گولڈ کوسٹ کی جماعت ایک فعال جماعت کی حیثیت سے ابھر رہی تھی اور یہاں پر نظامِ جماعت اپنی روایات کے ساتھ مستحکم ہو رہا تھا۔۱۹۴۵ء میں مکرم الحاج محمد اسحٰق صاحب اس جماعت کے پریذیڈنٹ اور مکرم جمال جانسن صاحب جنرل سیکریٹری کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔(۶)
گو دوسری جنگِ عظیم کے دوران مکرم مولانا نذیر مبشر صاحب گولڈ کوسٹ میں اکیلے مرکزی مبلغ تھے لیکن وہ بڑی جانفشانی سے اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔دیگر اہم فرائض کے علاوہ وہ مختلف مقامات کا دورہ کر کے احمدیت کا پیغام پہنچاتے۔چنانچہ صرف ۴۲۔۴۳ کے مالی سال کے دوران آپ نے ۳۳۸ مقامات کا خود دورہ کیا اور ۴۴۔۴۵کے سال دوران آپ نے ۳۰۹ دیہات کا دورہ کیا اور ۱۰۰ لیکچر دیئے۔(۷،۸)اُس دور میں مالی حالات ایسے تھے کہ تجارت کی تمام رقم آپ نے جماعت کے بجٹ پر خرچ کرنی شروع کی ،جس کے باعث تجارت رک گئی۔اور آپ کو بعض دفعہ ایسی تنگی کا سامنا کرنا پڑا کہ بعض دفعہ ایک دو ہفتہ نمک مرچ کے ساتھ روٹی کھانی پڑی یا وہاں کی مقامی غذا کساوا استعمال کر لیتے۔گوشت جیسی اشیاء ان حالات میں میسر نہ تھیں۔سیرالیون میں جب مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی کو ان حالات کا علم ہؤا توبا وجود اس کے کہ انہیںبھی سخت حالات کا سامنا تھا انہوں نے اپنے الاؤنس میں سے نصف مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر کو بھجوانے کا انتظام فرما دیا۔ (۹)
آٹھ سال تک مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر گولڈ کوسٹ میں اکیلے مرکزی مبلغ تھے۔جیسا کہ حضور کی ہدایت تھی آپ مقامی مبلغین بھی تیار کر رہے تھے۔ان سالوں میں ایسے بائیس مقامی مبلغین تیار کئے گئے اور ان میں سے دو کو سیرالیون بھی بھجوایا گیا۔جب دوسری جنگِ عظیم کا اختتام ہؤا تو ۱۹۴۵ء کے آ خر اور ۱۹۴۶ء کے شروع میں مکرم ملک احسان اللہ صاحب ،مکرم مولانا عبد الخالق صاحب اور مکرم مولانا بشارت احمد صاحب کو بطور مرکزی مبلغ غانا بھجوایا گیا۔ستمبر ۱۹۴۶ء میں مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر نے گولڈ کوسٹ مشن کا چارج مکرم مولانا عبد الخالق صاحب کے سپرد کیا اور خود ہندوستان کے لئے روانہ ہو گئے۔آپ کے ہمراہ آپ کے ایک شاگرد مکرم یعقوب صاحب بھی روانہ ہوئے تاکہ مرکز اور حضور ؓ اقدس کی زیارت کر سکیں ۔دونوں راستے میں حج کی سعادت کے لئے سعودی عرب اترے مگر مکہ معظمہ میں ایک مختصر علالت کے بعد مکرم یعقوب صاحب کی وفات ہو گئی۔اور مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر دس سال سے زائد عرصہ میدانِ جہاد میں گزارنے کے بعد ۷ جنوری ۱۹۴۷ء کو قادیان پہنچے۔گیارہ سال سے زیادہ عرصہ قبل جب آپ افریقہ کے لئے روانہ ہوئے تھے تو آپ بالکل نو عمر نوجوان تھے۔آپ کا نکاح قادیان کے مکرم بھائی محمود احمد صاحب کی سب سی بڑی صاحب زادی آمنہ بیگم سے پڑھا گیا ۔ابھی رخصتانہ نہیں ہؤا تھا کہ گولڈ کوسٹ کے لئے ایک واقف زندگی کی ضرورت پیش آ گئی ۔آپ نے اپنے آپ کو پیش فرمایا ۔حضور ؓ نے آپ کو اس کام کے لئے منتخب فرمایا ۔اور آپ فوراََ میدانِ عمل کے لئے روانہ ہو گئے۔گیارہ سال گزر گئے اور نہ آپ واپس آ سکے اور نہ ہی آپ کی شادی ہو سکی۔ نہ آپ نے واپس آنے کے لئے درخواست دی۔ آخر مرکز نے خود آپ کو واپس بلا لیا۔اور جب آپ واپس آئے تو آپ کے بال سفید ہونا شروع ہو چکے تھے۔بالآخر نکاح کے گیارہ سال بعد ۱۶ فروری ۱۹۴۷ء کو آپ کی شادی ہوئی۔(۱۰۔۱۱)
غانا میں احمدیوں کی تعداد میں تدریجاََ اضافہ ہو رہا تھا ۔جب ۱۹۳۱ء میں مردم شماری ہوئی تو یہاں پر احمدیوں کی تعداد تین ہزار تھی۔اور ۱۹۴۸ء کی مردم شماری میں یہ تعداد بڑھ کر ۲۲ ہزار سے تجاوز کر چکی تھی۔(۱۲)
مکرم مولانا نذیر مبشر صاحب کی روانگی کے چند روز کے بعد مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی گولڈکوسٹ پہنچ گئے ۔آپ مغربی افریقہ کے رئیس التبلیغ تھے اور مکرم مولانا عبد الخالق صاحب بطور امیر اور مشنری انچارج کے کام کر رہے تھے ۔مگر عبدالخالق صاحب کو بیماری کی وجہ سے جلد واپس آنا پڑا اور مکرم مولانا بشارت احمد صاحب نسیم یہاں کے امیر مقرر ہوئے۔جب دسمبر ۱۹۴۸ء میں آپ کو واپس آنے کی اجازت ملی تو مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی نے گولڈ کوسٹ کے امیر کی حیثیت سے کام شروع کیا۔اور مکرم مولانا نذیر مبشر صاحب بھی جنوری ۱۹۴۹ء میں گولڈ کوسٹ پہنچ گئے ۔اور جب نومبر ۱۹۵۰ء کو مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی گولڈ کوسٹ سے روانہ ہوئے تو مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر نے ایک مرتبہ پھر امیر اور مشنری انچارج کے فرائض سنبھال لئے۔(۱۳)
۱۹۵۰ء کو ربوہ میں ہونے والے جلسہ سالانہ میں گولڈ کوسٹ کے ایک احمدی نے بھی شرکت کی۔یہاں پر جماعت ایک عرصہ سے قائم تھی لیکن یہ پہلی مرتبہ تھا کہ مرکزی جلسہ سالانہ میں گولڈکوسٹ کی نمائیندگی ہو رہی تھی۔یہ خوش نصیب مکرم حاجی حسن عطاء صاحب تھے ۔آپ نے ۱۹۳۶ء میں بیعت کی تھی اور کماسی کی ٹاؤن کونسل کے ایک اعلیٰ عہدہ پر کام کر رہے تھے۔آپ نے جلسہ سالانہ میں شرکت کی اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔(۱۴)
گولڈ کوسٹ میں احمدیوں کو بہت سے ظلموں کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں پر احمدیت پھیل رہی تھی۔اور کئی صاحبِ اثر احباب بھی احمدیت قبول کر رہے تھے۔چنانچہ جب ۱۹۵۱ء میں گولڈ کوسٹ اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو تین احمدی احباب بھی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔یہ تین احباب مکرم محمد آرتھر صاحب،مکرم نوح بن ابو بکر صاحب اور مکرم مومن کوری صاحب تھے۔(۱۵)
اب اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ یہاں کے احمدیوں میں سے کچھ مرکز جائیں اور دین کی تعلیم حاصل کرکے اپنے ملک میں احمدیت کی تبلیغ کا کام کریں۔چنانچہ حضرت مصلح موعود ؓ کی منظوری سے اس غرض کے لئے دو طلباء کا انتخاب کیا گیا ۔یہ دو طلباء بشیر بن صالح اور عبد الوہاب آدم صاحب تھے ۔یہ طلباء تیرہ چودہ سال کی عمر کے تھے۔یہ دونوں مکرم بشارت احمد صاحب بشیر کے ہمراہ نومبر ۱۹۵۲ء میں ربوہ پہنچے ۔۱۹۵۷ء میں بشیر بن صالح شدید بیمار ہو گئے اور انہیں واپس جانا پڑا اور کچھ عرصہ کے بعدان کا انتقال ہو گیا۔مکرم عبدالوہاب آدم صاحب نے آٹھ سال ربوہ میں رہ کر تعلیم حاصل کی اور پھر اپنی عملی خدمات کا آ غاز کیا ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کوخدمتِ دین کی توفیق عطا فرمائی ۔اب آپ غانا کے امیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔(۱۶)
جلسہ سالانہ جماعتی روایات کا ایک اہم حصہ ہے۔اب گولڈ کوسٹ کے احمدیوں میں جلسہ سالانہ میں شرکت کا رحجان بڑھ رہا تھا تا کہ وہ زیادہ سے زیادہ اس کی برکت سے فیضیاب ہو سکیں۔۱۹۵۷ء میں جب سالٹ پانڈ کے مقام پر جلسہ سالانہ ہؤا تو اس میں پانچ ہزار افراد نے شرکت کی۔(۱۷)
۱۹۵۷ء میں جب گولڈ کوسٹ آ زاد ہو کر دنیاکے نقشے پر غانا کی حیثیت سے نمودار ہؤا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ملک کے وزیرِ اعظم کے نام مبارک باد کا پیغام بھجوایا ۔اس میں آپ نے تحریر فرمایا
’میں اپنی اور جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے جو تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہے آپ کو اور آپ کے ملک کے عوام کو حصولِ آزادی کی تقریب پر مبارکباد دیتا ہوں اور آپ کے ملک کی مسلسل اور ہر آن بڑھنے والی خوشحالی اور ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں۔‘(۱۸)
جیسا کہ پہلے یہ ذکر آچکا ہے کہ مسلمان طلباء جب عیسائی سکولوں میں داخل ہوتے تو نہ صرف ان کے عیسائی نام رکھے جاتے بلکہ ان کو عیسائیت کی تعلیم بھی دی جاتی ۔مکرم نذیر مبشر صاحب نے ایک میٹننگ میں ملک کے وزیرِ تعلیم سے مطالبہ کیا کہ یہ سلسلہ بند ہونا چاہئیے۔وزارتِ تعلیم نے شواہد پیش کرنے کو کہا۔ جب مشن کی طرف سے یہ شواہد پیش کئے گئے تو ۱۰ مارچ ۱۹۶۱ء کو حکومت نے یہ سرکلر جاری کیاکہ اب مسلمان طلباء کو زبردستی عیسائیت کی تعلیم نہ دی جائے اور جہاں پر اساتذہ موجود ہوں وہاں پر انہیں اسلامیات پڑھائی جائے۔ (۱۹)
جوں جوں جماعت کی ترقی ہو رہی تھی یہاں پر جماعت کی مساجد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا تھا ۔ ۱۸ ستمبر ۱۹۵۹ء کو مرکز رپورٹ بھجوائی گئی کہ غانا میں جماعت کی چھوٹی بڑی مساجد کی تعداد ۱۶۵ ہو چکی ہے۔(۲۰)
مولانا نذیر احمد صاحب مبشر کی غانا میں خدمات کا عرصہ پچیس سال کے طویل عرصہ پر پھیلا ہؤا تھا۔اس بار آپ دو مرتبہ رخصت پر مرکز گئے۔۱۹۶۱ء میں آپ کو مستقل واپسی کی اجازت ملی اور مکرم عطا ء اللہ کلیم صاحب کو چارج دے کر لندن کے راستے ۳۰ اکتوبر ۱۹۶۱ء کو ربوہ پہنچے۔(۲۱)
جنوری ۱۹۵۵ء میں جماعت گولڈ کوسٹ کی طرف سے ایک اخبار سن رائز جاری کیا گیا تھا مگر اسے جلد بند کرنا پڑا ۔پھراکتوبر ۱۹۶۱ء میں مشن کی طرف سے ایک ماہوار بلٹن احمدیہ نیوز جاری کیا گیا۔اس کے اجراء پر ایک جماعتی اخبار کی ضرورت محسوس ہوئی۔اور مئی ۱۹۶۲ء سے The Guidanceکے نام پر ایک اخبار جاری کیا گیا۔
۱۹۶۵ء میں مغربی افریقہ کے باقی ممالک کے ساتھ وکیل التبشیر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے غانا کا بھی دورہ کیا اور ملک کے صدر نکرومہ سے ملاقات کی اور یہاں کی اہم جماعتوں کا دورہ کرنے کے علاوہ تبلیغ کے مواقع کا جائزہ بھی لیا۔پہلی مرتبہ ایک مرکزی نمائیندہ کی آمد پر غانا کے احمدیوں کی خوشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب صاحبزادہ صاحب کماسی پہنچے تو پانچ ہزار مردوں اور عورتوں نے آپ کا استقبال کیا اور حاضرین یہ گیت گا رہے تھے کہ ہم اسلام پر فدا ہونے کے لئے تیار ہیں۔وہاں پر موجود غیر از جماعت بھی ان گیتوں کو سن کر جھوم رہے تھے۔(۲۲)
(۱) ریویو آف رلجنز ،مارچ ۱۹۷۴ء ص۳۴تا۳۹
(۲)ریویو آف رلجنز ،مارچ ۱۹۷۴ء ص۳۹۔۴۰
(۳) تاریخ غانا مشن ،مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ ص ۴۳۔۴۵
(۴)تاریخ غانا مشن ،مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ ص۴۶و ۵۴
(۵) الفضل ۶ جون ۱۹۵۰ئ(۶) الفضل ۱۹ جون ۱۹۴۵ء ص ۴
(۷) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۴۲ء ۔۱۹۴۳ء ص ۱۵،۱۶
(۸)رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ۱۹۴۴ء ۔۱۹۴۵ء ص ۸۶۔۸۷
(۹)یویو آف ریلجنز ،مارچ ۱۹۷۴ء ص۴۱(۱۰) الفضل ۱۳ فروری ۱۹۴۷ء ص ۴
(۱۱) الفضل ۱۷ فروری۱۹۴۷ء ص۳(۱۲)الفضل ۸ ستمبر ۱۹۵۲ء ص ۴
(۱۳)تاریخ غانا مشن ،مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ ص ۵۲
(۱۴) الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۵۰ء ص ۱(۱۵)الفضل یکم اپریل ۱۹۵۱ء ص ۶
(۱۶)تاریخ غانا مشن ،مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ ص ۵۹
(۱۷)الفضل ۱۷ فروری ۱۹۵۷ء (۱۸)الفضل۲۲مارچ۱۹۵۷ء ص۱
(۱۹)تاریخ غانا مشن ،مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ ص۶۸
(۲۰)ریکارڈ وکالت تبشیر غانا ۱۹۵۹ء
(۲۱)تاریخ غانا مشن ،مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ ص۶۸
(۲۲) الفضل ۲ جولائی ۱۹۶۵ء ص۲
نائیجیریا:
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ ۱۹۳۰ء کی دہائی کے آخر پر،جب مکرم مولانا فضل الرحمن حکیم صاحب مرکزی مبلغ کی حیثیت سے نائیجیریا پہنچے تو وہاں کے احمدیوں کے ایک بد قسمت گروہ نے نظامِ جماعت اور نظامِ خلافت سے علیحدگی اختیار کر لی۔اور اپنا ایک علیحدہ گروہ قائم کر کے جماعت پر مقدمات قائم کرنے شروع کر دیئے،ان مقدمات کے نتیجے میں بہت سی املاک جماعت کے ہاتھوں سے نکل گئیں۔۱۹۴۰ء تک نائیجیریا کی جماعت پر مصائب کی یہ آندھی چلی جو بڑے بڑے عمائدین کو اپنے ساتھ اُڑا کر لے گئی۔جماعت کے بعض نام نہاد عمائدین نے جب جماعت کے بنیادی اصولوں سے انحراف کیا تو حضرت مصلح موعود ؓ نے انہیں نظامِ جماعت سے خارج فرمادیا۔اس رو میں جماعت کے بعض ابتدائی ممبران بھی بہہ گئے۔۱۹۴۲ء میںبھی متعدد لوگ گمراہ ہوئے اور مخرجین کے گروہ میں شامل ہو گئے۔لا محالہ اس سے معاندینِ جماعت کو بہت مسرت حاصل ہوئی اور انہوں نے یقین کر لیا کہ اب آسمان ان لوگوں پر ٹوٹ پڑا ہے اور اب اس ملک سے احمدیت کا خاتمہ ہؤا چاہتا ہے۔بعض اخبارات نے ان خبروں کو غیر معمولی اہمیت دی اور بڑی بڑی سرخیوں اور دلکش عنوانات سے یہ خبریں شائع کیں۔ہر طرف یہی کہا جا رہا تھا کہ امراء و رؤساء نے تو اس جماعت کو چھوڑ دیا ہے ،اب یہ مفلسوں اور قلاشوں کی جماعت ہے۔یہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گی۔بلکہ جلد ہی انہیں مخرجین کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔لیکن خدا کی تقدیر کچھ اور ہی ظاہر کرنے والی تھی۔ایک مرتبہ پھر دشمنوں کی خواہشیں حسرتوں میں بدلنے والی تھیں۔(۱)
اس صورتِ حال میں مکرم مولانا فضل الرحمن حکیم صاحب مردانہ وار ان مشکل حالات کا مقابلہ کر رہے تھے۔جیسا کہ پہلے یہ ذکر آچکا ہے کہ ۱۹۳۸ء سے انہوں نے نائیجیریا میں جماعت کے احیاء کے لئے ملک گیر دورے شروع کئے تاکہ نئی جماعتیں قائم ہوں اور احمدیوں کی تربیت بہتر انداز میں ہو سکے۔ چنانچہ انہوں نے ۱۹۴۲ء میں بھی ایک ملک گیردورہ کیا جو کہ اپریل ۱۹۴۲ء سے شروع ہو کر نومبر ۱۹۴۲ء تک جاری رہا۔اس طرح آپ نے مسلسل نو ماہ تک لیگوس سے باہر رہ کرتبلیغ اور رابطے کے ذریعہ جماعت کو از سرِ نو منظم کیا۔
اسی دوران لیگوس میں بھی جماعت کو مستحکم کیا جا رہا تھا۔اور یہاں پر مسجد بنانے کا منصوبہ تھا۔ چونکہ یہاں کی جماعت ابھی اس بوجھ کو اُ ٹھانے کے قابل نہیں تھی اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے ارشاد فرمایا کہ باہر کے احباب بھی اس کے لئے چندہ دیں۔چنانچہ خاص طور پر ہندوستان کی جماعت نے اس مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ دینا شروع کیا اور کچھ قرض حاصل کیا گیا اور زیادہ حصہ نائیجیریا کی جماعت کے چندے سے پورا ہؤا۔۱۹۴۲ء کے وسط میں اس غرض کے لئے لیگوس میں ایک قطعہ حاصل کیا گیا۔اُن دنوں جنگِ عظیم کی وجہ سے سامانِ تعمیر بہت گراں تھا۔لیکن خوش قسمتی سے اس قطعہ پر ایک عمارت ایسی بنی ہوئی تھی جسے مناسب ترمیم کے بعد بطور مسجد استعمال کیا جا سکتا تھا۔ ان دنوں حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ امریکہ جاتے ہوئے نائیجیریا میں رکے لیکن اُس وقت مکرم مولانا فضل الرحمن حکیم صاحب دورہ پر لیگوس سے باہر تھے۔اس لئے حضرت چوہدری صاحب سے ملاقات نہ ہو سکی۔آپ احبابِ جماعت کے ساتھ جمعہ پڑھنے کے لئے تشریف لائے۔ لیکن واپسی پر بھی آپ نے نائیجیریا سے گذرنا تھا۔آپ سے درخواست کی گئی کہ آپ مسجد کا سنگِ بنیاد رکھیں۔چنانچہ واپسی پر جب آپ نائیجیریا ٹھہرے تو آپ نے اس مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا۔تقریب میں لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔ اور گورنر اور دیگر سرکاری عہدیدار بھی شریک ہوئے۔احمدی مردوں ،عورتوں اور بچوں نے مسجد کا بہت سا کام خود کیا۔بنیادیں کھودنا،پھر اُن کو بھرنا ،پرانی عمارتوں کے بعض حصے گرانا ،زمین کا ہموار کرنا اور فرش لگانا ،غرض کئی کام لیگوس کی جماعت نے خود کئے۔احباب ِ جماعت جب ہفتہ اور اتوار کو یہ کام کر رہے ہوتے تو لوگوں کا ایک بڑا ہجوم ان کے گرد جمع ہو کر انہیں تعجب سے دیکھ رہا ہوتا ۔اگست میں مکرم مولانا فضل الرحمن حکیم صاحب نے اس کا افتتاح فرمایا اور احبابِ جماعت نے اس میں نمازیں ادا کرنی شروع کر دیں۔حضور ؓ نے اس کا نام مسجد فضل رکھا۔اس مسجد کی تعمیر ان لوگوں کے لئے ایک تازیانہ تھی جو یہ خیال کئے بیٹھے تھے کہ اب جماعت ِ احمدیہ کو مخرجین کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔(۲تا۵)
۱۹۴۰ء میں نائیجیریا کی جماعت نے جلسہ ہائے سیرت النبی ﷺ کا آ غاز کیا۔ان کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ وہ غیر احمدی مسلمان بھی جو پہلے اس معاملے میں کسی تعاون کے لئے تیار نہیں تھے،بعد میں ان میں خوشی سے شریک ہونے لگے۔اور ۱۹۴۰ء میں نائیجیریا میں مجلس انصاراللہ اور مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی گئیں۔(۶)
۱۹۴۵ء میں لیگوس کے مشن ہاؤس کا سنگِ بنیاد رکھا گیا ۔تقریباََ گیارہ سال سے مکرم فضل الرحمن حکیم صاحب نائیجیریا میں اکیلے مرکزی مبلغ تھے۔دوسری جنگِ عظیم کے دوران مکرم مولوی محمد الدین صاحب نومبر ۱۹۴۲ء میں نائیجیریا کے لئے روانہ ہوئے اور بمبئی سے ایک جہاز ٹلاوہ پر سوار ہوئے ۔ لیکن یہ جہاز راستے میں تارپیڈو سے غرق ہو گیا۔اور اس طرح آپ نے جوانی میں ہی شہادت کا رتبہ پایا۔ جنگِ عظیم کے بعد جماعت نے مزید مبلغین کو نائیجیریا بھجوانے کا انتظام کیا۔چنانچہ اس سال مکرم نور محمد نسیم سیفی صاحب، مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب ،مکرم ملک احسان اللہ صاحب اور مکرم عبد الخالق صاحب سوڈان کے راستے بہت سی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے نائیجیریا پہنچے۔(۷)
با وجود تمام مشکلات سے رفتہ رفتہ نائیجیریا کے نئے مقامات پر جماعتیں قائم ہو رہی تھیں۔ہم مختصراََ جائزہ لیں گے کہ ۱۹۳۴ء اور ۱۹۴۷ء کے درمیان کون سی جماعتیں قائم ہوئی تھیں۔جوس( Jos)کا شہر پلاٹو(Plateau)سٹیٹ کا صدر مقام ہے۔یہاں پر احمدیت کا تعارف اوٹا (Otta)کے ایک احمدی الحاجی عبد الوہاب اوجویے (Ojoye)کے ذریعہ ہؤا،جنہوں نے یہاں پر سکونت اختیار کی۔پھر مکرم فضل الرحمن حکیم صاحب نے یہاں کا دورہ کیا تو دو مزید بیعتیں ہوئیں۔یہاں پر بھی مخالفت ہوئی اور بعض اوقات احمدی مقررین پر پتھر بھی پھینکے گئے لیکن آہستہ آہستہ اس علاقے میں جوس کے مقام پر مسجد بھی بنی اور قریب کے دوسرے مقامات پر بھی لوگ احمدیت میں داخل ہونے لگے۔نائیجیریا جماعت کی تاریخ میںالارو(Ilaro)کی ایک خاص اہمیت ہے کیونکہ بعد میں یہاں پر جامعہ احمدیہ بنایا گیا۔یہاں پر سب سے پہلے الحاجی عبد العزیز ابیولا (Abiola)صاحب نے ۱۹۴۳ء میں احمدیت قبول کی اور اپنے مکان کے ایک حصہ کو جماعت کی مسجد کے طور پر مختص کر دیا۔اس کے بعد یہاں کے کئی دوسرے احباب بھی بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے ۔اور ۱۹۴۹ء میں جماعت نے الارو میں اپنی مسجد بنائی اور۱۹۵۳ء میں فضلِ عمر پرائمری سکول کے نام سے ایک سکول قائم کیا۔اب الارو کا شمار نائیجیریا کی بڑی جماعتوں میں ہوتا ہے۔ ۱۹۴۶ء میں شمالی نائیجیریا کے اہم شہر کانو میں جماعت ِ احمدیہ کے مشن کا آ غاز کیا گیایہاں پر مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن عیسائی مشنری کافی سرگرم تھے۔یہاں جماعت کی مسجد اور ایک مختصر سی جماعت تھی۔(۸)
صرف لوگوں کو احمدی کر لینے سے اغراض و مقاصد پورے نہیں ہوتے۔ان میں حقیقی تبدیلی آنا اور ان کا قربانیوں میں حصہ لینا ضروری ہوتا ہے مکرم نسیم سیفی صاحب کی رپورٹ ۲۶مئی ۱۹۴۵ء پر حضورؓ نے ارشاد فرمایا
’ہمیں نام کے احمدی نہیں چاہئیے ہیں۔ہمیں کام کے احمدی درکار ہیں۔تمام احمدیوں کے نام لکھیں اور یہ کہ وہ کیا چندہ کس کس مد کا دیتے ہیں اور یہ تفصیل بھی بتائیں کہ وہ جمع شدہ چندہ کس کی اجازت سے خرچ ہوتا ہے۔جہاں تک ہو سکے خرچ میں کفایت اور مقامی لوگوں سے چندہ باقاعدہ کرنا اور تجارت کا بھی انتظام کرنا یہ تین ضروری باتیں ایسی ہیں جو ہر مبلغ کو علاوہ تبلیغ و تربیت و تعلیم کے ضرور مدِ نظر رکھنی ہیں۔‘(۹)
اس بات کی ضرورت تھی کہ نائیجیریا میں جماعت کی تبلیغ کا دائرہ کار پھیلے اور اس امر کے لئے مالی وسائل کی ضرورت تھی۔اور اس بات کی ضرورت تھی کہ یہ مالی وسائل جماعتی قوائد و ضوابط کے مطابق خرچ کئے جائیں۔مکرم قریشی محمد افضل صاحب کی رپورٹ محررہ ۲۷ مئی ۱۹۴۶ء پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے ارشاد فرمایا
’چندے باقاعدہ رکھیں ۔اور روپیہ خود خرچ کرنے کی اجازت نہیں ۔سب بجٹ باقاعدہ منظوری سے خرچ کیا جائے۔‘
اور جب کانو سے بجٹ حضور ؓ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو حضور ؓ نے ارشاد فرمایا
’تھوڑی سی کوشش سے یہ بجٹ اپنی ضروریات کو پورا کر کے ایک اور جماعت کھڑی کرنے کا موجب ہوسکتا ہے۔وہاں کی جماعت کو بھی خوشنودی کا خط لکھا جائے۔اور لکھا جائے کہ بجٹ کی مضبوطی سے ہی وہاں کی جماعت بڑھے گی اور پھر آپ اپنے ارد گرداور مشن قائم کرنے میں انشا ء اللہ کامیاب ہو جائیں گے۔‘ (۱۰)
مکرم فضل الرحمن حکیم صاحب نومبر ۱۹۴۷ء میں نائیجریا سے پاکستان کے لئے روانہ ہوئے۔ آپ نے ۲۶ سال مغربی افریقہ میں خدمات سرانجام دیں ۔اور اس دوران صرف تین سال کے عرصہ کے لئے رخصت پر وطن آئے۔باقی تئیس سال کا عرصہ آپ نے بغیر اہل و عیال کے مغربی افریقہ میں خدمت کرتے ہوئے گذارا۔ان کے بعد مکرم مولانا نسیم سیفی صاحب یہاں کے امیر مقرر ہوئے۔۱۹۴۹ء میں نائیجیریا میں تین مرکزی اور تین مقامی مبغلین کام کر رہے تھے۔
باوجود اس کے کہ نائیجیریا میں ایک عرصہ سے جماعت قائم تھی لیکن ابھی تک ملکی سطح پر جلسہ سالانہ منعقد نہیں کیا گیا تھا۔۱۳ اور ۱۴ اگست ۱۹۴۹ء کو لیگوس میں جماعت ِ احمدیہ نائجیریا کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد کیا گیا۔اس میں پندرہ جماعتوں کی طرف سے نمائیندے شامل ہوئے ۔اور اس کے ساتھ مجلسِ شوریٰ بھی منعقد کی گئی۔اس جلسہ کا انعقاد جماعت کے حوصلے بڑھانے کا موجب ہؤا۔(۱۱)
۱۹۴۹ء کے جلسہ سالانہ میں جماعت کے اخبار کے اجرا کا فیصلہ کیا گیا۔اور اس کے لئے کوششوںکا آ غاز ہؤا۔اور پہلے مرحلے کے طور پر جماعت نے اپنا نیوز لیٹر شائع کرنا شروع کیا۔(۱۲)۱۹۵۱ء میں جماعت کا جریدہ ٹروتھ (Truth)کے نام سے شائع ہونا شروع ہؤا اور تب سے یہ ہفتہ وار اخبارصرف نائیجیریا میں ہی نہیں بلکہ مغربی افریقہ کے باقی ممالک میں بھی اشاعتِ اسلام کے لئے اہم خدمات سرانجام دے رہا ہے ۔(۱۳)
۱۹۴۹ء میں بھی مخرجین کی طرف سے مقدمات کا سلسلہ چل رہا تھا۔ایک مسجد کے حصول کے لئے ان کی طرف سے مقدمہ کیا گیا جو کہ خارج ہو گیا۔اور اس کے بعد ایک اور قطعہ زمین کے سلسلہ میں مقدمہ کیا گیا۔(۱۴)۱۹۵۲ء میں احمدی ایک مقدمہ کی پیروی کر کے عدالت سے باہر نکل رہے تھے مخالفین نے بہت گالیاں نکالیں۔مگر احمدیوں نے کوئی جواب نہ دیا ۔حضورؓ کو رپورٹ ملی توآپ نے فرمایا
’اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کو مقدمہ میں نمایا ں کامیابی عطا فرمائے۔کمینہ دشمن ہمیشہ گالی گلوچ سے کام لیتا ہے۔آپ صبر و تحمل سے خود بھی کام لیں اور دوستوں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔‘(۱۵)
حضورؓ کی خواہش تھی کہ نائیجیریا میں جماعت کی ترقی تیزی سے ہو۔نسیم سیفی صاحب کی ایک رپورٹ پر آپ نے ارشاد فرمایا
’وہاں پر احمدیت کی رفتار بہت سست ہے۔حالانکہ ایسے علاقوں میں لاکھوں آدمی اب تک احمدیت میں داخل ہو جانے چاہئے تھے۔‘(۱۶)
مغربی افریقہ کے باقی ممالک کی طرح جماعت نائیجیریا میں بھی اپنی طبی خدمات کا آ غاز کر رہی تھی۔۱۹۵۵ء تک یہاں پر جماعت کے سکولوں کی تعداد آٹھ تک پہنچ چکی تھی۔اور اس کے علاوہ یوروبا اور انگریزی زبان میںدیگر مطبوعات بھی شائع ہو رہی تھیں۔پریس کے ساتھ جماعت کے تعلقات مضبوط ہو رہے تھے اور ۱۹۵۷ء میںمکرم مولانا نسیم سیفی صاحب کو نائیجیریا کے صحافیوں کی یونین کا نائب صدر بھی منتخب کیا گیا۔ ایک احمدیہ نیوز ایجنسی بھی قائم کی گئی،جس کے ذریعہ پریس کو احمدیت کے متعلق خبریں مہیا کی جاتی تھی۔اسلامک لٹریچر بک شاپ کا قیام عمل میں آیا جس کو بیرونِ ملک کے علاوہ اندرونِ ملک سے بھی آ رڈر موصول ہونے لگے۔ان کاوشوں کے علاوہ بیرونِ ملک بھی بذریعہ خط و کتابت تبلیغ کا سلسلہ خاطر خواہ پیمانے پر جاری تھا۔یہ ذکر پہلے آچکا ہے کہ گیمبیا میں احمدیت کی ابتداء بھی نائیجیریا مشن سے خط و کتابت کے ذریعہ ہوئی تھی۔(۱۷)
یوں تو جماعت کو ہر ماہ ریڈیو پر تقاریر اور تلاوتِ قرآنِ کریم کرنے کا موقع ملتا تھا۔لیکن۱۹۵۶ء میں ریڈیو کے محکمے نے ہر ماہ ایک مرتبہ لیگوس میں جماعت کی مسجد میں دیا جانے والا خطبہ جمعہ نشر کرنا شروع کیا اور اس طرح ذرائع ابلاغ کے ذریعہ لوگوں تک حقیقی اسلام کا پیغام پہنچنے لگا۔(۱۸) نائیجیریا کے احمدی بھی جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے اور نظام ِ جماعت کے تحت مختلف خدمات سرانجام دے رہے تھے۔۱۹۶۰ء میں یہاں کے جنرل پریذیڈنٹ بکری صاحب تھے۔
تعلیمی خدمات کے بعد ۱۹۶۱ء میں جماعتِ احمدیہ نے نائیجیریا میں اپنی طبی خدمات کا آغاز بھی کر دیا۔چنانچہ اس غرض کے لئے مکرم کرنل ڈاکٹر محمد یوسف صاحب یکم نومبر ۱۹۶۱ء کو لیگوس پہنچ گئے اور جنوری ۱۹۶۲ء میں آپ نے لیگوس میں جماعت کی ڈسپنسری کا آ غاز کیا۔آپ نے عرصہ سات سال وہاں پر خدمات سرانجام دیں اور اپریل ۱۹۶۹ء کو دل کا دورہ پڑنے سے آپ کا انتقال ہو گیا۔اس طرح آپ کو میدانِ عمل میں کام کرتے ہوئے شہادت کا مرتبہ ملا۔لیگوس ڈسپنسری کے اجراء کے صرف دوماہ کے بعد کانو میں جماعت کی دوسری ڈسپنسری کا آ غاز کیا گیا۔یہ ڈسپنسری کانو میں مکرم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب نے قائم فرمائی تھی۔جلد یہ ڈسپنسری ترقی کرتی ہوئی ایک ہسپتال کی شکل اختیار کر گئی۔کانو شہر میں اُس وقت مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن وہاں پر ایک بھی مسلمان ڈاکٹرموجود نہیں تھا۔مکرم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب نے بھی طویل عرصہ خدمات سرانجام دے کر ۱۱جولائی ۱۹۸۱ء کومیدانِ عمل میں وفات پائی۔یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ کانو میں ایک طبقہ کی طرف سے احمدیت کی شدید مخالفت کی گئی تھی۔پہلے ۱۹۵۹ء میں یہ تحریک کی گئی کہ کوئی احمدیوں سے مصافحہ نہ کرے اور نہ میل جول رکھیں۔ شہر میں احمدیت کے خلاف لیکچر دیئے گئے۔اور کانو سے زاریہ کے شہر جا کر بھی مخالفین نے لوگوں کو احمدیت کے خلاف بھڑکایا۔اور ۱۹۵۹ء میںAnti Ahmadiyya Movementکا باقاعدہ قیام عمل میں آیا۔اور مخالفین نے اعلان کیا کہ وہ اب ھاؤسا قبیلے کے احمدیوں کے گھر جا کر انہیں توبہ کرنے کے لئے کہیں گے۔بعض کو ملازمت سے ہٹانے کی دھمکیاں دی گئیں اور بعض کوتو والدین اور دیگر رشتہ داروں کی طرف سے دھمکیاں ملنی شروع ہو گئیں ۔کانو میں پریس کا انچارج جو مقامی سلطان کا داماد بھی تھا ،احمدیت کی مخالفت کی پیروی کر رہا تھا۔اور جماعت کے خلاف لکھی گئی کتب ہندوستان،پاکستان اور عرب ممالک سے منگوا رہا تھا۔اور خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات کو اعتراضات کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔اس کے جواب میں جماعت بھی اپنی روایات کے مطابق مخالفت کی اس لہر کاجواب دے رہی تھی۔پبلک میٹینگز میں ان مخالفانہ اعتراضات کے جوابات دیئے جا رہے تھے،اخبارات میں مضامین لکھے جا رہے تھے۔اور مخالفین کے اعتراضات کے جوابات پر اور ثابت قدم رہنے کی تلقین پر مشتمل اشتہارات احمدیوں میں تقسیم کئے جا رہے تھے۔اور نو مبائعین اور پرانے احمدیوں کو خطبات اور تقاریر میں ثابت قدم رہنے کی تلقین کی جا رہی تھی۔اس مخالفانہ لہر کے با وجود کانو میں احمدیت رفتہ رفتہ ترقی کر رہی تھی۔(۱۹،۲۰،۲۱،۲۲)
اب تک مشرقی نائیجیریا میں جماعت قائم نہیں ہوئی تھی،یہاں پر عیسائیت کا زور تھا۔۱۹۶۳ء میں مرکز کی ہدایت کے مطابق یہاں پر بھی جماعت نے اپنی تبلیغی مساعی کا آ غاز کیا۔(۲۳)
مکرم مولانا نسیم سیفی صاحب ۱۹ سال سے نائیجیریا میں فریضہ تبلیغ ادا کر رہے تھے۔جولائی ۱۹۶۴ء میں آپ واپس پاکستان آ گئے اور آپ کی جگہ مکرم شیخ نصیرالدین صاحب نے امیر کے فرائض ادا کرنے شروع کئے۔ (۲۴،۲۵)
۱۹۴۷ء سے ۱۹۶۴ء تک مکرم نسیم سیفی صاحب امیر جماعت نائیجیریا رہے اور اس دوران بہت سے مقامات پر لوگوں نے احمدیت قبول کی اور یہاں پر جماعتیں قائم ہوئیں۔جہاں پر جماعت قائم ہوتی بالعموم اس جگہ کے گرد و پیش میں احمدیت کے نفوذ کا کام تیز ہو جاتا۔ہم ان میں سے کچھ مقامات کا اختصار سے ذکر کریں گے۔ٍاگبیڈے ( Agbede)میں ایک نوجوان مکرم مرتضیٰ حبیب کے ذریعہ جماعت کا قیام عمل میں آیا ۔آپ نے دو سال لیگوس میں قیام کر کے مکرم فضل الرحمن حکیم صا حب سے دینی علم حاصل کیا ۔اور اس دوران بیعت بھی کر لی۔
آپ نے ۱۹۴۷ء میںاگبیڈے پہنچ کر تبلیغ شروع کی۔جب کچھ لوگوں نے احمدیت قبول کی تو مخالفت تیز ہو گئی۔ایک روز شر پسندوں نے احمدیوں کے محلہ پر حملہ کیا اور پھر ایک بار پھر حملہ کر کے انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ۔لیکن جس دن حملہ ہونا تھا اسی دن اگبیڈے کے چیف امام کے گھر کو آگ لگ گئی اور دوسرے گھر بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے۔اور اس طرح یہ حملہ شروع ہی نہ ہو سکا۔ پھر اگبیڈے کے قریب جاگبے(Jagbe) میں بھی احمدیت کا پودا لگا اور پروان چڑھنے لگا۔ آڈو اکیتی (Ado ekite) کا قصبہ اونڈو (Ondo) سٹیٹ میں ہے۔یہاں کے معلم عبد الجامی جمال الدین کو فضل الرحمن حکیم صاحب نے اپنے پاس رکھ رکر بطور مبلغ تیار کیا اور جنوری ۱۹۴۸ء میں آپ کو اونڈو میں مبلغ مقرر کیا گیا اور ان کی تبلیغ کے ذریعہ وہاں پر جماعت قائم ہوئی۔اس کے بعداسی سٹیٹ میں Iluomoob-ekitiکے گاؤں میں بھی جماعت قائم ہوئی۔اویو سٹیٹ میں ایوو (Iwo) کے مقام پر احمدیت مکرم آجیات ثانی کے ذریعہ قائم ہوئی ۔آپ نے دورانِ ملازمت احمدیت قبول کی تھی،اور ریٹائر ہونے کے بعد آپ نے احمدیت کی تبلیغ شروع کی۔Owodeکا گاؤں Ogunسٹیٹ میں ہے یہاں الارو کے ایک احمدی مکرم عبد الرحمن اکومپیائی (Ikumapayi) کی تبلیغ سے احمدیت کا پودا لگا۔لیگوس سٹیٹ میں اگیگے (Agege)کی جماعت الحاج اڈالیمو (Adalemo)کے ذریعہ ۱۹۵۰ء میں قائم ہوئی۔ اوگن سٹیٹ کے صدر مقام Abeokutaمیں ۱۹۵۲ء میں باقاعدہ جماعت کا قیام عمل میں آیااسی طرح اس عرصہ میں آؤچی (Auchi)، Ivibio Khua،ایپوکیا(Ipokia)،Ayetro-egbadoاور اویو(Oyo)میں بھی جماعتیں قائم ہوئیں۔ ۱۹۶۵ء میں پہلی مرتبہ مرکزی نمائیندہ محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے نائیجیریا کا دورہ کیا۔
(۱) الفضل ۱۷ اکتوبر ۱۹۴۵ء ص۳
(۲) الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۴۱ء ص۲
(۳)الفضل ۴ اپریل ۱۹۴۲ء ص۵
(۴)الفضل ۱۷ اگست ۱۹۴۳ء ص ۲
(۵)الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۴۳ء ص۴
(۶) تاریخ نائیجیریا مشن ،مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ ص۵۴
(۷) تاریخ نائیجیریا مشن ،مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ ص۶۰و۶۷
(۸) الفضل۶ جون ۱۹۴۶ء ص۲
(۹) ریکارڈ وکالت تبشیرفائل مکرم نسیم سیفی صاحب ۴۵۔۴۶
(۱۰) از ریکارڈ تبشیر فائل مکرم قریشی محمد افضل صاحب ۱۹۴۶ء
(۱۱) ۱۰ ستمبر ۱۹۴۹ء ص۴
(۱۲) الفضل ۵۲ جولائی ۱۹۵۱ء ص۴
(۱۳)تاریخ نائیجیریا مشن ،مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ ص۷۱۔۷۲
(۱۴) ریکارڈ وکالت تبشیرفائل مکرم نسیم سیفی صاحب۱۹۴۹ء
(۱۵)ریکارڈ وکالت تبشیرفائل مکرم نسیم سیفی
(۱۶)ریکارڈ وکالت تبشیرفائل مکرم نسیم سیفی صاحب ۱۹۵۵ء
(۱۷)۱۹ جنوری ۱۹۷۵ء ص۳
(۱۸)الفضل ۱۲ انومبر ۱۹۵۶ء (۱۹)الفضل۴نومبر۱۹۶۱ء ص۱
(۲۰) الفضل ۲۳ مارچ ۱۹۶۲ء ص ۱
(۲۱) تاریخ نائیجیریا مشن ،مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ ص۸۱۔۸۲
(۲۲)ریکارڈ تبشیر مکرم مولانا بشیر احمد شاد صاحب ۱۹۵۶ء تا ۱۹۵۹ء
(۲۳)الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۶۳ء ص ۵
(۲۴) الفضل ۹ مئی ۱۹۶۴ء ص۱
(۲۵)الفضل ۴ جولائی ۱۹۶۴ء ص۱ صاحب۱۹۵۲ء
مشرقی افریقہ:
کتاب کے حصہ دوئم کے آ غاز پر ہم مشرقی افریقہ میں جماعت کے مشن کے آغاز کا ذکر کر چکے ہیں ۔اور سواحیلی میں قرآنِ کریم کے ترجمہ کاذکر بھی کیاجا چکا ہے۔اب ہم مختصراََ یہ جائزہ لیں گے کہ ۱۹۴۰ء اور ۱۹۶۱ء کے درمیان وہاں کی جماعت کن مراحل سے گذری اور رفتہ رفتہ اس کی مساعی کا دائرہ کس طرح وسیع ہو رہا تھا۔ابتداء ہی سے ٹانگا نیکا کے علاقے میں ٹبورہ کا شہر جماعتی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہؤا تھا۔یہاں پر مقامی احباب کی ایک مخلص جماعت قائم تھی۔۱۹۴۰ء میں جماعت نے یہاں پر مسجد بنانے کا فیصلہ کیا۔اس کے لئے جماعت نے قطعہ زمین پہلے ہی خرید رکھا تھا۔مخالفین یوں تو پہلے ہی ہر وقت شرارتوں پر آمادہ رہتے تھے۔اس موقع پر مخالفت کی آگ بھڑک اُ ٹھنا ایک قدرتی بات تھی۔وہ فوراََ حکام کے پاس پہنچے اور اپنا آزمودہ نسخہ آزماتے ہوئے انہیں کہا کہ اگر یہاں پر احمدیوں کو مسجد بنانے کی اجازت دی گئی تو اس سے فساد ہو جائے گا۔حکام نے یہ معقول جواب دیا کہ حکومت کے پاس ایسا کوئی قانون نہیں کہ وہ احمدیوں کو مسجد بنانے سے روکے اور جہاں تک فساد کا تعلق ہے تواسے حکومت دیکھ لے گی۔مگر مخالفین ِ سلسلہ کوششیں کرتے رہے کہ احمدی اپنی مسجد نہ بنا سکیں۔آخر کار یکم فروری ۱۹۴۱ء کو احمدیوں نے زمین پر نشان لگانے سے کام شروع کیا۔اس وقت مخالفین کے ایک نمائیندے نے آکر احمدیوں کو دھمکی دی کہ اگر تم لوگ باز نہ آئے تو مسلمان تم سے لڑیں گے اور جہاد ہو جائے گا۔اگلے روز احمدیوں نے خود کام کرتے ہوئے مسجد کی بنیادیں کھودنی شروع کیں۔پہلے سے اطلاع مل چکی تھی کہ شریر لوگ فساد کا منصوبہ بنا چکے ہیں۔پولیس کو بھی مطلع کر دیا گیا تھا۔مخالفین کا ایک گروہ آیا مگر احمدی مرد،عورتیں اور بچے اپنے کام میں لگے رہے اور یہ گروہ خاموشی سے چلا گیا ۔دوپہر کو جب مبلغ ِ سلسلہ شیخ مبارک صاحب ایک احمدی کے دوکان پر بیٹھے تھے تو بلوائیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔انہوں نے اور ان کے ساتھ دوسرے احمدیوں نے ایک مکان میں پناہ لی۔وہاں سے وہ شیخ صاحب کے گھر گئے اور وہاں کچھ دیر شور مچاتے رہے۔اور بعض دوسرے احمدیوں کے گھروں پر حملے شروع ہو گئے۔شہر میں دہشت کی فضا چھا گئی تھی۔پویس حرکت میں آئی اور دو دن میںپچاس کے قریب بلوائی گرفتار کر لئے جن میں سے تیس کو سزا ہوئی۔معاملہ گورنر تک پہنچا بعض حکام بھی مخالفین کا ساتھ دے رہے تھے ،چنانچہ حکومت نے مسجد کی تعمیر رکوا دی۔(۱)
۱۹۴۲ء میں حکومت نے اس سے بہتر جگہ جماعت کو مسجد کے لئے مہیا کردی ۔پھر کام شروع ہؤا تو افریقن کاری گروں نے مخالفت کے باعث کام کرنے سے انکار کر دیا ۔لیکن خدا تعالیٰ کا کرنا ایسا ہؤا کہ حکومت نے اطالوی قیدیوں کو مزدوری کرنے کی اجازت دے دی اور ان کے کاری گروں نے مسجد کا کام مکمل کیا۔اور اس طرح با وجود مخالفت کے۱۹۴۴ء میں ٹبورا میں جماعت کی مسجد تعمیر ہو گئی۔(۲)
حضرت مصلح موعود ؓ کا ارشادتھا کہ جماعت پوری دنیا میں سیرت پیشوایانِ مذاہب کے جلسے منعقد کرے ۔اس ارشاد کی تعمیل میںٹبورا میں پہلی مرتبہ ۲۵ اکتوبر ۱۹۴۲ء کو یومِ پیشوایانِ مذاہب کا جلسہ منعقد ہؤا۔(۳)
مشرقی افریقہ میں لٹریچر بھی شائع کیا جا رہا تھا تا کہ اس کے ذریعہ تبلیغ کے کام میں وسعت پیدا کی جاسکے۔چنانچہ ۱۹۴۳ء تک ایک انگریزی پمفلٹYe were told but I tell you، سواحیلی اور گجراتی میں ٹریکٹ آسمانی آواز،تحفہ شہزادہ ویلز کا سواحیلی ترجمہ ،کتاب Islam & Slavery، سواحیلی میں کتاب اسباق الاسلام اور جنگ کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئیوں پر مشتمل ایک اشتہار Jihadariniجسے امری عبیدی صاحب نے تیار کیا گیا تھا شائع کئے گئے تھے۔۱۹۴۳ء کا ایک اہم واقعہ یہ بھی ہے کہ اس سال اکتوبر سے مکرم و محترم امری عبیدی صاحب نے با قاعدہ جماعت احمدیہ کے معلم کے طور پر اپنی خدمات کا آ غاز کیا اور دیگر فرائض کے علاوہ کتاب ’ احمدیت یعنی حقیقی اسلام ‘ کا ترجمہ بھی شروع کیا۔(۴)
۱۹۴۴ء میں حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی کتاب کشتیِ نوح کا سواحیلی ترجمہ مکمل ہؤا ۔اور بعد میں شیخ مبارک احمد صاحب نے اسے طبع کرایا۔
مشرقی افریقہ میں جماعت کی ترقی کو دیکھتے ہوئے کینیا کے مسلمان لیڈر جنہیں وہاں پر چیف قاضی کہا جاتا تھا ،نے جماعت کی مخالفت شروع کی۔اور دو ٹریکٹ شائع کئے اور ان مین بہت بدزبانی سے کام لیا۔ان کے جواب میں جماعت کے مبلغ نے اشتہار شائع کئے کہ اگر چیف قاضی کو یقین ہے کہ ان کے لگائے گئے الزامات درست ہیں تو وہ مؤکد بعذاب حلف اُ ٹھائیں اور پھر خدائی فیصلہ کا انتظار کریں۔لیکن چیف قاضی نے اس کے جواب میں خاموش رہنا مناسب سمجھا۔(۵)
۱۷نومبر ۱۹۴۵ئکو میں مکرم نو رالحق صاحب انور صاحب مشرقی افریقہ میںجماعت کے نئے مبلغ کے طورپر خدمات سرانجام دینے کے لئے ممباسہ پہنچے۔(۶)
۱۹۴۴ء میںجب ٹبورا میں جماعت کی مسجدکا افتتاح ہؤا تو اس وقت بہت سے احباب جمع ہوئے اور آپس میں صلاح مشورہ کے بعد یہ طے پایا کہ مشرقی افریقہ کو ہر سال اپنا ایک جلسہ منعقد کرنا چاہئیے۔چنانچہ اس فیصلہ کی روشنی میں دسمبر ۱۹۴۵ء میں جماعت احمدیہ مشرقی افریقہ کا پہلا جلسہ نیروبی میں منعقد ہؤا۔اس میں کینیا کے علاوہ ٹانگا نیکا اور یوگنڈا کے احمدیوں نے بھی شرکت کی۔اس موقع پر جماعتی مبلغین اور عہدیداران کی ایک مشاورت بھی منعقد ہوئی اورتبلیغ اور اشاعت کے کام کو وسعت دینے کے لئے فیصلے کئے گئے۔(۷)
۱۹۴۵ء میں مشرقی افریقہ میں کینیا کے علاقے میں نیروبی ،کسومو اور ممباسہ کے علاقہ مین فعال جماعتیں قائم تھیں۔یوگنڈا کی جماعت چند افراد پر مشتمل تھی اوراس وقت یوگنڈا کے احمدی مختلف جگہوں پر بکھرے ہوئے تھے۔کمپالا اور جنجہ میں کچھ احباب رہتے تھے مگر ابھی یہ جماعت مشرقی افریقہ کی جماعتوں میں تبلیغ کے میدان میں پیچھے تھی۔تنزانیہ میں ٹبورا ،دارالسلام اورٹانگہ کے مقامات پر فعال جماعتیں موجود تھیں۔اور ان کے علاوہ موانزہ کے شہر میں بھی جماعت تبلیغی مساعی کر رہی تھی۔(۸)۱۹۴۵ء میں ہی بوکوبا کے مقام پر نئی جماعت قائم ہوئی ۔یہاں پر چند احباب نے احمدیت قبول کی تو مکرم امری عبیدی صاحب کو بوکوبا بھجوایا گیا۔غیر از جماعت مسلمانوں نے مخالفت شروع کر دی لیکن مقامی جماعت نے استقامت سے ان حالات کا مقابلہ کیا۔(۹)
دوسری جنگِ عظیم کے خاتمہ کے بعد اب مختلف ممالک میں جماعت کے مبلغین بھجوائے جا رہے تھے۔چنانچہ فروری ۱۹۴۶ء میں مشرقی افریقہ کے لئے چھ مبلغین بھجوائے گئے۔یہ چھ مبلغ مکرم ضیا ء اللہ صاحب، مکرم ولی اللہ شاہ صاحب، مکرم چوہدری فضل الہیٰ، مکرم مولوی عنایت اللہ صاحب خلیل،مکرم مولوی جلال الدین صاحب قمر اور مکرم مولوی حکیم محمد ابراہیم صاحب تھے۔(۱۰)یہ مجاہدین ۲۵ فروری کو ممباسہ پہنچے ۔پھر دارالسلام سے ہوتے ہوئے ٹبورا پہنچ گئے ۔یہاں انہوںنے کچھ عرصہ رہ کر سواحیلی زبان سیکھی۔(۱۱)
ا س مرحلہ کے بعد مکرم سید ولی اللہ شاہ صاحب کو کسومو میں، مکر م فضل الٰہی صاحب بشیر اور مکرم عنایت اللہ صاحب خلیل کو نیروبی میں مکرم مولوی جلال الدین صاحب قمر اور مکرم حکیم محمد ابراہیم صاحب کو ٹانگا نیکا میں اور مکرم مولانا نو رالحق صاحب انور کو یوگنڈا میں متعین کیا گیا۔(۱۲)
اُس دور میں مشرقی افریقہ میں ہندوستان سے آئے ہوئے لوگوں کی بڑی تعداد آباد تھی اور خاص طور پر شہر میں ان کی موجودگی زیادہ تھی۔شروع میں وہاں زیادہ تر جماعت پنجابیوں اور ہندوستان سے آنے والوں پر مشتمل تھی اور مقامی باشندوں میں تبلیغ زیادہ توجہ کا تقاضہ کرتی تھی۔جیسا کہ مغربی افریقہ میں مقامی باشندوں کو تبلیغ کے شاندار نتائج نکل رہے تھے۔حضور ؓ نے ۱۹۴۸ء میں خصوصیت سے مشرقی افریقہ کے مبلغین کو مقامی آبادی میں تبلیغ کی طرف توجہ دلائی۔حضورؓ نے ایک خطبہ میں فرمایا
’ایسٹ افریقہ میں ہماری جماعت بہت مضبوط تھی ۔مگر مقامی باشندوں میں تبلیغ نہیں کی جاتی تھی۔اور کہہ دیا جاتا تھا کہ مقامی باشندے ہماری بات ہی نہیں سنتے۔میں انہیں یہی کہتا تھا۔کہ تم اپنی بات انہیں سناتے ہی نہیں ہو۔اس لئے پنجابیوں میں اپنی زبان میں تبلیغ کر لینا زیادہ آسان ہے۔ہندوستانیوں میں تبلیغ کر لینا زیادہ آسان ہے ۔میں نے شیخ مبارک احمد صاحب کو ہدایت دی کہ وہ افریقنوں میں بھی تبلیغ کی طرف توجہ دیں اور خدا تعالیٰ نے انہیں توفیق دی۔۔۔۔
اب وہاں ہمارے کافی مبلغین کام کر رہے ہیں۔ویسٹ افریقہ میںہزاروں مقامی لوگ جماعت میں داخل ہیں۔غرض جب تک مقامی لوگوں میں تبلیغ نہیں کی جاتی۔اس وقت تک تبلیغ کے کوئی معنے ہی نہیں۔باہر کے لوگ آئے اور چلے گئے یا کسی وقت ملک کے لوگوں کو جوش آیا تو انہیں نکال دیا ۔مگر مقامی لوگوں کو تو وہ نہیں نکال سکتے۔اس لئے تبلیغ کا زور زیادہ مقامی لوگوں پر دینا چاہئیے ۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے۔‘(۱۳)
دو تین دہائیوں میں حضور کا ارشاد حرف بحرف پورا ہؤا۔کینیا اور تنزانیہ سے اکثر ایشیائی باشندے نقلِ مکانی کرکے برطانیہ یا دوسرے ممالک میں جا کر آباد ہو گئے اور جیسا کہ ہم بعد میں جائزہ لیں گے یوگنڈا میں وہاں کی حکومت نے تمام ایشیائی باشندوں کو نکال دیا۔اُس وقت وہاں پر موجود مقامی احمدی ہی وہاں پر جماعت کے استحکام کا باعث بنے۔
جوں جوں کام کا دائرہ وسیع ہو رہا تھا مبلغین کی ضرورت بڑھتی جا رہی تھی۔چنانچہ ۱۹۴۸ء میں دو اور مبلغین مکرم مولانا محمد منور صاحب اور مکرم مولانا عبد الکریم شرما صاحب بھی مشرقی افریقہ پہنچ گئے۔مکرم مولانا محمد منور صاحب نے نیروبی میں اور مکرم مولانا عبد الکریم صاحب شرما نے ٹانگانیکا میں کام شروع کیا۔(۱۴)
۱۹۴۸ء میں ’احمدیت یعنی حقیقی اسلام ‘کا ترجمہ شائع کیا گیا۔ اور اسی سال کینیا میں کاکا میگا کے علاقے میں Kisaکے مقام پر جماعت کی بنیاد پڑی اور کسومو کے قریب اسمبو(Asembo)کے مقام پر ایک چھوٹی سی مسجد کی بنیاد رکھی گئی۔(۱۴)
ٹانگا نیکا کے جنوبی صوبہ میں عیسائیت کا بہت زور تھا اور وہ اپنے مشنوں کے ساتھ پورے زور کے ساتھ اسلام کے خلاف بر سرِ پیکار تھے۔مکرم فضل الہیٰ صاحب بشیر نے لنڈی(Lindi)کے مقام کو مرکز کر بنا کر یہاں پر تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔مخالفت بھی شروع ہوئی اور احمدیوں کے سوشل بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی۔مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں پر تین بھائی جو عربی بھی جانتے تھے احمدی ہو گئے اور انہوں نے بہت اچھے انداز میں احمدیت کی تبلیغ کا کام شروع کیا۔(۱۵)
اسی دور میں ٹبورہ میں جماعت نے ایک چھوٹا سا پریس بھی حاصل کر لیا جو لندن سے منگوایا گیا تھا ۔مکرم مولانا جلال الدین صاحب قمر اور مکرم امری عبیدی صاحب اس پر بڑی جانفشانی سے کام کرتے رہے اور اس میں جماعت کے پمفلٹس اور دیگر لٹریچر شائع ہوتا رہا۔
اپریل ۱۹۴۹ء میں احمدی مبلغین کی دوسری کانفرنس رئیس التبلیغ مکرم شیخ مبارک صاحب کی صدارت میں نیروبی میں منعقد ہوئی۔اور اس میں جماعت کا بجٹ پیش ہؤا ،اور حضور ؓ کے ارشاد کی تعمیل میں یہ فیصلہ ہؤا ہے کہ اس بجٹ کا بڑا حصہ کیشاہی زبان اور مشرقی افریقہ کی دوسری زبانوں کے تراجم اور نبیِ کریم ﷺ کی سوانح حیات کی اشاعت میں خرچ کیا جائے گا۔جب کانفرنس منعقد ہوئی تو اس وقت مشرقی افریقہ میں۲۱ مرکزی اور مقامی مبلغین کام کر رہے تھے۔(۱۶)
دسمبر ۱۹۴۹ء میں نیروبی کی مسجد کے ساتھ ایک خوبصورت مشن ہاؤس کی تعمیر مکمل ہوئی۔چھوٹے چھوٹے مقامات پر کچی مساجد بھی قائم کی جا رہی تھیں۔۱۹۵۰ء میں ٹانگا نیکا میں Mingoyo, Jangwani اور Lindiکے مقامات پر کچی مساجد تعمیرکی گئیں۔(۱۵)
۱۹۴۹ء میںیوگنڈا میں بھی جلسہ یومِ پیشوایانِ مذاہب کا آغاز ہؤا۔اور یہاں پر بھی Nijemba اور Nakisamjaمقامات پر کچی مساجد تعمیر کی گئیں۔(۱۷)
جب جماعت کہیں پر ترقی کرتی ہے تو وہاں پر مسجد بنائی جاتی ہے اور پھر یہ مسجد مزید تبلیغ کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے۔۱۹۵۰ء میں کینیا کے علاقے میں چھوٹی بڑی مساجد کی تعمیر کا سلسلہ جاری تھا۔اس سال Raborکے مقام پر ایک مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی اور Yala,Kisaاور Mrumbaکے مقامات پر مساجد کا کام کافی حد تک مکمل ہؤا۔(۱۸)
بہت سے افریقن ممالک میں جماعت کی احمدیہ کی شدید مخالفت برِ صغیر بالخصوص پاکستان سے بر آمد کی گئی تھی۔جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کینیا میں بھی مخالفت کی آگ بھڑکانے میں برصغیر سے آئے ہوئے معاندین کا نمایاں ہاتھ تھا۔پہلے لال حسین اختر صاحب یہاں آئے اور اپنا سا زور لگا کر چلے گئے۔وہ سلسلہ کے ایک بد گو مخالف تھے۔جب وہ مشرقی افریقہ سے واپس ہوئے تو بھی مخالفت جاری رکھی اور ۱۹۵۳ء میں جماعت کے خلاف جو شورش برپا کی گئی اس میں بھی حصہ لینا شروع کیا مگر تحقیقاتی عدالت کے مطابق جلد لوگ ان سے اس لئے بد ظن ہو گئے کیونکہ انہوں نے اس تحریک کی طرف سے ایک خطیر رقم تو وصول کرلی مگر کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکے۔(۱۹)
جب معاندین نے دیکھا کہ مشرقی افریقہ میں احمدیت کے پاؤں جم رہے ہیں تو ۱۹۵۲ء میں ایک پاکستانی مولوی عبد العلیم صدیقی صاحب نیروبی میں نمودار ہوئے اور انہوں نے جامع مسجد نیروبی میں جماعت کے خلاف چند زہریلی تقاریر کیں اور ان میں طرح طرح کے الزامات لگائے ۔ اس کے جواب میں جماعت کی طرف سے انہیں بذریعہ اشتہار مناظرے کی دعوت دی گئی اور یہ دعوت دی گئی کہ مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تکذیب کے متعلق مجمع میں مؤکد بعذاب قسم کھائیں اور پھر خدائی فیصلہ کا انتظار کریں۔اس کے جواب میں مولوی صاحب نے بجائے یہ چیلنج قبول کرنے کے لیت ولعل سے کام لینا شروع کیا اور یہ عجیب و غریب عذر پیش کیا کہ میں تو یہاں پردیسی ہوں چنانچہ پاکستان جا کر امام جماعت احمدیہ سے ہی مناظرہ کر سکتا ہوں،میری طرف سے میرا فلاں شاگرد مناظرہ کرے گا ۔لیکن ان کا شاگرد بھی نمودار نہ ہؤا۔انہیں جواب دیا گیا کہ آپ زہریلی تقاریر تو یہاں کر رہے ہیں پاکستان جا کر مناظرہ کرنے سے کیا حاصل ہوگا اور اگر آپ کے نزدیک یہاں پر کوئی اس قابل ہی نہیں تھا کہ آپ سے مناظرہ کرے تو آپ نے نیروبی آنے کی زحمت ہی کیوں کی تھی ؟لیکن صدیقی صاحب خاموش ہی رہے۔ (۲۰)
مارچ ۱۹۵۰ء میںکینیا میں لوانڈا(Luanda) کے علاقہ میں جماعت کا قیام عمل میں آیا۔کینیا کے اہم شہر کسومو میں جماعت تو پہلے سے قائم تھی ۱۹۵۳ء میں یہاں پر مشن اور مشن ہاؤس کی بنیاد رکھی گئی یہ عمارتیں اگلے سال مکمل ہو گئیں۔(۲۱)
اور ۱۹۵۴ء میں تنزانیہ کے دارالحکومت دارالسلام میں بھی جماعت کی مسجد کی تعمیر شروع ہوئی۔حسبِ سابق یہاں بھی مخالفین نے رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوششیں کیں مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی کوئی پیش نہ گئی۔۱۹۵۷ء میں یہ مسجد مکمل ہو گئی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے از راہِ شفقت اس کا نام مسجد سلام رکھا۔افتتاح کی تقریب میں عیسائی،ہندو اور سکھ تو شریک ہوئے مگر سنیوں کی طرف سے اس کا بائیکاٹ کیا گیا۔(۲۲)
اب اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ مشرقی افریقہ سے طلباء دین کا علم حاصل کرنے کے لئے مرکز آئیں اور خلیفہ وقت کے قریب رہ کر برکات حاصل کریں۔چنانچہ ۱۹۵۵ء میں تنزانیہ سے دو طلباء جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے ربوہ آئے۔ان میں سے مکرم یوسف صاحب نے کئی سال مرکز میں قیام کر کے شاہد کی ڈگری حاصل کی اور وطن واپسی پر آپ کو پہلے Bukobaریجن اور پھر موانزا ریجن (Mwanza) میں مقرر کیا گیا ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو ایک طویل عرصہ خدمت کی توفیق ملی۔(۲۳)
یوگنڈا کے مقامی احباب میں بھی سعید روحیں احمدیت میں داخل ہو رہی تھیں۔یہاں پر سب سے پہلے مکرم زکریا کزیٹو صاحب نے احمدیت قبول کی اور آپ کے والد نے آپ کو شیخ مبارک احمد صاحب کے پاس دینی تعلیم کے لئے بھجوایا تھا اور آپ نے ۱۹۴۰ء میں احمدیت قبول کر لی اور تقسیمِ ہند سے پہلے قادیان بھی گئے۔ان کے علاوہ شروع میں بعض علماء نے بھی احمدیت قبول کی تھی۔مثلاََ شیخ ابراہیم سنفونا صاحب (Senfuna) ایک عالم شخص او رجنجہ میں غیر احمدیوںکی مسجد کے امام تھے ۔آپ نے تمام مخالفت کے با وجود ۱۹۴۶ء میں مولانا نورالحق صاحب انور کے ذریعہ احمدیت قبول کی۔اسی طرح مکرم موسیٰ سمپا صاحب (Sempa)شیعوں کی مسجد کے امام تھے ۔آپ نے اپنی امامت چھوڑ کر احمدیت قبول کی ۔ان دونوں بزرگان نے قرآنِ کریم پڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔اسی طرح مکرم الحاج زیدی لواکی موسوکے(Zaidi Lwaki Musoke) بھی شیعوں کے شیخ اور عالم تھے۔احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ کو بہت سے ابتلاؤں کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ ثابت قدم رہے۔جب سعودی عرب حج کے لئے گئے تو دورانِ حج انہیں زدو کوب بھی کیا گیا۔ ان کے علاوہ دوسرے مقامی احمدی بھی فریضہ تبلیغ ادا کرتے تھے لیکن اب اس بات کی ضرورت تھی کہ مقامی طلباء مرکز آکر با قاعدہ علمِ دین حاصل کریں۔(۲۴)
مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب نے اپنی رپورٹ محررہ ۲۷ اکتوبر ۱۹۵۵ء میں یوگنڈا کی مقامی زبان سیکھنے کیلئے حضور ؓ سے دعا کی درخواست کی اور یوگنڈا کے لوگوں کی خوبیاں تحریر فرمائیں۔اس کے جواب میں حضورؓ نے تحریر فرمایا
’اللہ تعالیٰ جلد زبان سیکھنے اور عمل کرنیکی توفیق دے۔جماعت کے لوگوں کو تحریک کریں کہ کچھ چندہ قادیان بھی بھیجا کریں۔قادیان کے لوگوں کا برا حال ہے۔‘(۲۵)
سواحیلی میں تو قرآنِ کریم کا ترجمہ شائع ہو چکا تھا۔کینیا میں ایک اور بولی جانے والی زبان Kikuyu بھی تھی ۔۱۹۵۷ء میں اس زبان میں بھی ترجمہ کا کام مکمل ہو گیا لیکن ایک طویل عرصہ اس کی اشاعت معرضِ التوا میں پڑی رہی اور بالآخر ۱۹۸۸ء میں اس کی اشاعت کرائی گئی۔(۲۳)۱۹۵۷ء میں ہی نیروبی سے جماعت کا ماہانہ جریدہ ایسٹ افریقن ٹائمز جاری کیا گیا۔جلد ہی یہ جریدہ پندرہ روزہ ہو گیا۔(۲۶،۲۷)
۱۹۵۹ء میں مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب اور مکرم عبد الکریم صاحب شرما کے ذریعہ میرو (Meru)،Isioloاور Taveta کے مقامات پر نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔(۲۸)
ممباسہ کینیا کا ایک نہایت اہم ساحلی شہر ہے ۔یہاں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک زمانے سے احمدی آنا شروع ہو گئے تھے مگر اب تک یہاں پر باقاعدہ جماعت کی مسجد اور مشن ہاؤس تعمیر نہیں ہوئے تھے۔۱۹۵۹ء میں یہاں پر مسجد کی تعمیر شروع ہوئی اور اس کے ساتھ مشن ہاؤس بھی تعمیر کیا گیا۔(۲۹)
مخالفت کی آگ کہیں نہ کہیں سلگتی ہی رہتی تھی۔ٹانگا نیکا میں لنڈی کے علاقہ میں ایک گاؤں میں احمدیوں کو اتنے مظالم کا نشانہ بنایا گیا کہ انہوںنے گاؤں سے باہر جنگل میں رہائش اختیار کر لی اور اس نئے گاؤں کا نام قادیان رکھ لیا َ۔حضور کو اطلاع ملی تو آپ نے اس کی اجازت مرحمت فرمادی۔(۳۰)
یوگنڈا میں اب تک کوئی مشن ہاؤس یا بڑی مسجد نہیں بنی تھی۔یہاں کی جماعتوں میں سے جنجہ کی جماعت نسبتاََ بڑی تھی۔۲۷ جولائی کو مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے جنجہ میں مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا۔ اس وقت مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب جنجہ مشن کے انچارج تھے ۔(۳۱)
اس کے اگلے ماہ ہی ۹ اگست ۱۹۵۷ء کو یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالہ میں بھی مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔(۳۲)دس مئی ۱۹۵۹ء کو جنجہ کی مسجد کا افتتاح عمل میں آیا ۔اس مسجد کی تعمیر میں مکرم بشیرالدین عبید اللہ صاحب اور بھائی محمد حسین صاحب نے نمایاں خدمات سر انجام دی تھیں۔اس لئے امیر مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے افتتاح کی رسم مکرم بشیر الدین عبید اللہ صاحب کے ہاتھ سے کروائی۔اس موقع پر حضور کا پیغام بھی پڑھا گیا ۔جس میں حضور ؓ نے اس مسجد کی تعمیر پر اظہارِ خوشی فرمایا اور ایک سکھ ٹھیکیدار مکرم سردار اندر سنگھ گِل صاحب کا ذکر فرمایا جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر میں بہت سا حصہ لیا تھا۔(۳۳)
۱۹۵۷ء میں یوگنڈا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان لوگینڈا میں جماعت کا ایک ماہوار رسالہ جاری ہؤا،جس کا نام Dobozi ly OboIslamیعنی اسلام کی آواز رکھا گیا۔یہ رسالہ کچھ عرصہ جاری رہ کر پھر بند ہو گیا۔(۳۴)
۱۹۶۱ء میں مشرقی افریقہ کے ممالک یوگنڈا ،کینیا اور تنزانیہ آزاد ہو کر علیحدہ علیحدہ ممالک کی حیثیت سے دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوئے۔اور اس کے ساتھ ہی جماعت نے بھی مشرقی افریقہ میں اپنے مشن کو انتظامی طور پر تین حصوں میں تقسیم کر دیا اور یہاں پر جماعت کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہؤا۔
(۱)الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۴۱ء ص ۴تا۶(۲) الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۴۲ء ص۴،۵
(۳) تاریخ تنزانیہ مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۱۸۔۱۹
(۴) الفضل ۱۰ اگست ۱۹۴۴ء ص ۳(۵) الفضل ۶ ستمبر ۱۹۴۴ء
(۶) الفضل ۱۹ نومبر ۱۹۴۵ء ص۲
(۷) تاریخ تنزانیہ مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۱۸
(۸) الفضل ۵ مئی ۱۹۴۵ء ص۵
(۹) تاریخ تنزانیہ مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۲۱
(۱۰) الفضل ۲۸ فروری ۱۹۴۷ء ص۲(۱۱) الفضل ۲۸ فروری ۱۹۴۷ء ص۲
(۱۲) الفضل ۵ جولائی ۱۹۴۷ء ص۲(۱۳) الفضل ۱۳ اگست ۱۹۴۸ء ص ۶
(۱۴) تاریخ کینیا مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۲۱
(۱۴)تاریخ کینیا مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۲۳
(۱۵)تاریخ تنزانیہ مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۲۳۔۲۴
(۱۶)الفضل ۲۱اپریل ۱۹۴۹ء ص۷
(۱۷)تاریخ یوگنڈا مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۱۴
(۱۸) تاریخ کینیا مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۲۵
(۱۹) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فساداتِ پنجاب ۱۹۵۳ء ص۱۴۰
(۲۰)الفضل ۲۲ مئی ۱۹۵۲ء
(۲۱) تاریخ کینیا مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۲۵و ۳۰
(۲۲) تاریخ تنزانیہ مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۲۶
(۲۳) تاریخ تنزانیہ مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۲۷
(۲۴) تاریخ یوگنڈا مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۱۵،۱۶،۱۵
(۲۵) ریکارڈ وکالت تبشیر فائل حافظ بشیر الدین عبیداللہ صاحب ۱۹۵۵ء ص۱۱
(۲۶) تاریخ کینیا مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۳۲
(۲۷)الفضل یکم مارچ ۱۹۵۸ء ص ۳ (۲۸) تاریخ کینیا مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۳۴
(۲۹) تاریخ کینیا مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص ۳۵
(۳۰) تاریخ تنزانیہ مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۲۹(۳۱)الفضل ۱۳ اگست ۱۹۵۷ء
(۳۲)الفضل ۶ اکتوبر ۱۹۵۷ء ص۴(۳۳) ہفت روزہ بدر قادیان ۲ جولائی ۱۹۵۹ء ص۸
(۳۴)الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۵۷ء ص۱
جنوبی افریقہ :
اپنے مخصوص حالات اور تاریخ کی وجہ سے جنوبی افریقہ کا ملک افریقہ میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے ۔یہاں پر مقامی آبادی کے علاوہ سفید فام باشندوں اور ایشیائی باشندوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔یہاں پر سب سے پہلے مکرم علاؤالدین صاحب نے ۱۹۱۵ء میںاحمدیت قبول کی ۔انہوں نے رؤیا میں دیکھا کہ کسی نے انہیں کہا کہ کیا تم مرزا غلام احمد قادیانی کو جانتے ہو ۔انہوں نے کہا کہ نام تو سنا ہؤا ہے۔تو کہا گیا کہ وہ تمہارے سامنے کھڑے ہیں قیامت نزدیک ہے ۔موجودہ خلیفہ کے ہاتھ پر جلد سلسلہ میں داخل ہو جاؤ ورنہ افسوس کرو گے۔لیکن یہ ایک بیعت تھی مگر ابھی جنوبی افریقہ میں جماعت قائم ہونے کا وقت نہیں آیا تھا۔پھر جنوبی افریقہ میں احمدیت کا تعارف مکرم ڈاکٹر یوسف سلیمان صاحب کے ذریعہ ہؤا جو ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے انگلستان آئے تھے۔یہاں پر انکی ملاقات مکرم خواجہ کمال الدین صاحب سے ہوئی اور بعض دوسرے احمدیوں سے تعارف ہؤا۔ انہوں نے ۱۹۱۸ء میںحضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب مبلغ انگلستان کے ذریعہ احمدیت قبول کی۔ وہ ایک عرصہ انگلستان میں مقیم رہے اور پھر اُنکے دل میں خیال پیدا ہؤا کہ دوسروں تک احمدیت کا پیغام پہنچائیں۔۱۹۴۶ء میں حج کے بعد وہ قادیان آئے اور حضورؓ سے ملاقات کی اور یہ عزم ظاہر کیا کہ وہ جنوبی افریقہ جا کر احمدیت کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں۔اور وہ ۱۳ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو انگلستان سے جنوبی افریقہ کے لئے روانہ ہوئے۔جنوبی افریقہ پہنچ کر آپ نے بڑی محنت اور تندہی سے کام کیا۔اور چھ سال کے عرصہ میں کئی احباب ے احمدیت قبول کی۔ڈاکٹر یوسف سلیمان صاحب ۱۹۵۲ء میں انگلستان آئے ہوئے تھے کہ آپ کا انتقال ہو گیا اور جنازہ واپس جنوبی افریقہ لایا گیا ،جہاں سینکڑوں مسلمانوں نے آپ کی نمازِ جنازہ ادا کی۔آپ کی وفات کے بعد ایک مخلص احمدی اور آپ کے دوست ہاشم ابراہیم صاحب نے آپ کے کام کو آگے بڑھایا۔اور تبلیغی سرگرمیوں میں پیش پیش رہے۔۱۹۶۰ء میں جنوبی افریقہ میں لجنہ اماء اللہ کی تنظیم قائم کی گئی اور ۱۹۶۱ء میں مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں آیا۔(۱)
(۱) تاریخ جنوبی افریقہ مشن
امریکہ :
اب ہم ۱۹۴۰ء کی دہائی سے امریکہ میں احمدیت کی تبلیغ کا جائزہ لیتے ہیں۔جیساکہ پہلے یہ ذکر کیا جا چکا ہے اس دور میں مکرم صوفی مطیع الرحمن بنگالی صاحب امریکہ میں جماعت کے مبلغ تھے۔اور آپ تبلیغ اور جماعت کی تربیت کے لئے انتھک کوششیں کر رہے تھے۔۱۹۳۳ء تک امریکہ کے سات شہروں میں جماعتیں قائم ہو چکی تھیں۔یہ سات شہر پٹس برگ ،واشنگٹن،سٹوبین ول ( Stubin will) ،Youngis town،کلیو لینڈ (Cleve land)،ہوم سٹیڈ، کینساس سٹی اور سنسناٹی (Cincinnati) تھے۔شکاگو میںجماعت کا مرکزی مشن تھا۔(۱)ان کے علاوہ نیویارک، ڈیٹن، نیو جرسی اور فلاڈلفیا میں بھی صوفی مطیع الرحمن صاحب کے زمانے میں جماعتیں قائم ہوئیں۔
یہاں کا مشن لٹریچر کی اشاعت کے لئے کوشاں تھا۔مشن کا ترجمان مسلم سن رائز شائع کیا جاتا تھا۔مکرم صوفی مطیع الرحمن صاحب نے آنحضرت ﷺ کی سیرت و سوانح پر ایک کتاب Life of Muhammadتالیف فرمائی جو بہت مقبول ہوئی۔۱۹۳۹ء میں حضرت عیسیٰ ؑ کی صلیبی موت سے نجات کے بارہ میں ایک کتاب The Tomb of Jesusشائع کی گئی ۔یہ کتاب بہت سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی۔حتیٰ کہ مشہور سکالر ڈاکٹر زویمر نے یہاں تک کہا کہ اگر یہ کتاب سچی ہے تو عیسائیت جھوٹی ہے۔جنگ کے بعد ۱۹۴۶ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا گیا۔ (۲)
۱۹۴۲ء میں بالٹی مور اور بوسٹن میں جماعتیں قائم ہوئیں۔اور ۱۹۴۶ء میں سینٹ لوئیس اور ۱۹۴۸ء میںنیویارک میں جماعتیں قائم ہوئی۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران تو صرف مکرم صوفی مطیع الرحمن صاحب یہاں پر مرکزی مبلغ کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔جنگ کے اختتام پر جب حالات تبدیل ہونے شروع ہوئے تو ۱۹۴۶ء اور ۱۹۴۷ء میں دوسرے مبلغین کو امریکہ بھجوایا گیا۔چنانچہ ان دو سالوں میں مکرم چوہدری خلیل احمد صاحب ،مکرم مرزا منور احمد صاحب اور چوہدری غلام یٰسین صاحب امریکہ پہنچے۔(۲)
جو نئے مبلغین امریکہ کے لئے آئے تھے ان میں سے مرزا منور احمد صاحب کو پٹس برگ میں لگایا گیا تھا ۔آپ نے اس پرانی جماعت میں جانفشانی سے کام شروع کیا ۔ابھی انہیں امریکہ میں آئے زیادہ عرصہ بھی نہیں گذرا تھا کہ انہیں معدہ کی تکلیف شروع ہوئی اور با وجود علاج معالجہ کے آپ ۱۵ ستمبر ۱۹۴۸ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ آپ کے بھائی مرزا احمد شفیع صاحب ۱۹۴۷ء میں قادیان پر ایک حملہ کے دوران شہید ہوئے تھے۔(۳)
مکرم چوہدری غلام یٰسین صاحب کو نئی جماعتوں کے دورے پر مقرر کیا گیا ۔انہوں نے ان جماعتوں میں احبابِ جماعت کی تربیت کے علاوہ مختلف مقامات پر لیکچر بھی دیئے۔۱۹۴۸ء میں چوہدری خلیل احمد ناصر صاحب نے مکرم صوفی مطیع الرحمن صاحب سے چارج لے کرکام شروع کیا۔(۴)
ستمبر۱۹۴۸ء میں جماعت ِ احمدیہ امریکہ کا پہلا جلسہ ڈیٹن منعقد ہؤا۔اس میں نوے احمدیوں نے شرکت کی۔۱۹۴۹ء کے آخر میں امریکہ کے پہلے شخص نے اپنی زندگی وقف کی ۔یہ دوست برادرم رشید احمد صاحب تھے۔وہ دینی تعلیم پانے کے لئے ۲۲ دسمبر ۱۹۴۹ء کو ربوہ پہنچے۔امریکہ واپس آنے پر آپ کو سینٹ لوئیس میں آنریری مبلغ لگایا گیا اور سالہا سال آپ امریکہ کے نیشنل پریذیڈنٹ رہے۔(۵)
دوسری جنگِ عظیم کے بعد عالمی منظر پر امریکہ کی اہمیت پہلے سے بہت بڑھ گئی تھی۔دنیا میں جو ملک بھی آزاد ہوتا واشنگٹن میں اپنا سفارت خانہ ضرور کھولتا ۔چنانچہ ۱۹۴۹ء میں جب مکرم خلیل احمد ناصر صاحب رخصت پر پاکستان گئے تو حضور ؓ نے انہیں واشنگٹن میں مکان خریدنے کا ارشاد فرمایا ۔یہ مکان خریدا گیا اور کچھ مرمت کرا کر ۱۹۵۰ء میں امریکہ مشن کا ہیڈکوارٹر شکاگو سے واشنگٹن میں منتقل ہو گیا۔(۶)
مولانا عبد القادر ضیغم صاحب ستمبر ۱۹۴۹ء کو امریکہ پہنچے انہیں مکرم مرزا منور احمد صاحب کی جگہ پٹس برگ میں مبلغ لگایا گیا۔
۵۰ ۱۹ تک امریکہ میں جماعت کی تبلیغ کا دائرہ صرف مشرقی اور مڈ ویسٹ ریاستوں تک محدود تھا۔۱۹۵۱ء میں یہ دائرہ وسیع ہو کر مغربی ریاستوں تک پہنچا اور کیلیفورنیا میں ایک نیا مشن قائم کیا گیا۔لاس اینجلس میں ایک چھوٹی سی جماعت قائم ہوئی۔اور امریکہ کے جنوب میں
ریاست کینٹیکی (Cantucky) میں بھی جماعت کا قیام عمل میں آیا۔واشنگٹن میں بھی کچھ لوگ بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو رہے تھے اور اس طرح وہاں کا مشن مستحکم ہو رہا تھا۔۱۹۵۱ء میں حضور ؓ کی تصنیف احمدیت یا حقیقی اسلام کا تیسرا ایڈیشن شائع ہؤا ۔ایک انگریزی مجلہ احمدیہ گزٹ بھی شائع ہو رہا تھا جس میںجماعت ِ احمدیہ کی عالمی خبریں شائع ہوتی تھیں۔(۷)
ڈیٹن کے ایک مخلص احمدی مکرم ولی کریم صاحب اور آ پ کی اہلیہ لطیفہ کریم صاحبہ نے ستمبر ۱۹۴۹ء میں ایک قطعہ زمین مسجد کے لئے بطور ہدیہ دیا تھا ۔اس میں جماعت نے تہہ خانے سے تعمیر کا کام شروع کیا تھا۔چند سالوں میںایک ہال ،ایک بارچی خانہ اور غسلخانے تیار ہو گئے۔اس پر مسجد بعد میں تیار ہوئی۔
۱۹۵۴ء میں مکرم مولوی نو ارلحق صاحب انور اور سید جواد علی صاحب بطور مبلغ امریکہ پہنچے اور مکرم مولوی نورالحق صاحب نے نیویارک مشن میں کام شروع کیا۔اور مکرم سید جواد علی صاحب نے واشنگٹن شکاگو اور سینٹ لوئیس میں خدمت کی توفیق پائی۔(۸)
مکرم مولانا نو رالحق صاحب انور نے ایک رپورٹ میں بنگالیوں میں تبلیغ کے متعلق عرض کی تو اس پر حضور ؓ نے فرمایا
’ بنگالیوں کی طرف توجہ تو کریں لیکن آپ امریکہ میں امریکنوں کو تبلیغ کرنے کے لئے گئے ہیں ۔اس لئے کام کی وجہ سے امریکن لوگ خالی نہ رہ جائیں ،اس کام کو ضمنی ہی سمجھیں اصل توجہ امریکنوں کی طرف ہو۔‘(۹)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت جماعت میں نظامِ وصیت جاری فرمایا تھا اور اس میں جماعت کے لئے بہت سی برکات رکھی گئی ہیں۔مکرم مولانا نو رالحق صاحب انور نے یکم فروری ۱۹۵۶ء کو تحریر کیا کہ رسالہ الوصیت شائع کیا گیا ہے۔اس پر حضورؓ نے ارشاد فرمایا
’میں امید کرتا ہوںکہ کیونکہ الوصیت حضرت مسیح موعودؑ نے آسمانی تحریک کے ذریعہ جاری کی تھی اس لئے امید ہے جلد پھیل جائے گی اور ہمیں مقبرہ بنانے کی تو فیق مل جائے گی۔‘(۱۰)
مکرم مولانا نو رالحق صاحب انور کی ۶ اپریل ۱۹۵۶ء کی رپورٹ پر حضور نے اظہارِ خوشنودی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا
’کام بہت اعلیٰ ہے۔اللہ تعالیٰ کامیابی بخشے۔‘(۱۰)
اشتہارات کی اشاعت اور تقسیم تبلیغ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔اور اُس دور میں امریکہ میں اس ذریعہ کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا تھا۔چنانچہ ۱۹۵۵ء کی ایک سہ ماہی میں سات ہزار تبلیغی اشتہارات شائع کئے گئے جو دستی یا بذریعہ ڈاک تقسیم ہوئے۔اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر لیکچر دیئے جاتے اور لائیبریریوں میں جماعت کا لٹریچر رکھوایا جاتا۔(۱۱)
۱۹۵۹ء میں امریکہ میں جماعت کا بارہواں جلسہ ۵ اور ۶ ستمبر کوشکاگو میں منعقد ہؤا۔اس موقعہ پر امریکہ میں مجلس انصاراللہ کا قیام عمل میں آیا ۔مکرم احمد شہید صاحب پٹس برگ اس کے پہلے صدر اور مکرم محمد صادق صاحب نیویارک اس کے پہلے سیکریٹری مقرر ہوئے۔(۱۲)
مکرم خلیل احمدناصر صاحب دس سال امریکہ میں خدمت کرکے اپریل ۱۹۵۹ء کو امریکہ سے پاکستان کے لئے روانہ ہوئے۔(۱۳)
اس کے بعد بعض اور مرکزی مبلغین امریکہ میں اسلام کی تبلیغ کے لئے بھجوائے گئے۔مکرم امین اللہ خان سالک صاحب یکم مارچ ۱۹۶۰ء کو واشنگٹن پہنچے اور آپ نے واشنگٹن،نیویارک اور شکاگو کے مشنوں میں کام کیا۔مکرم صوفی عبدالغفور صاحب اور آپ نے دو سال امریکہ میں خدمات سرانجام دیں اور امریکہ کے مبلغ انچارج کے طور پر بھی کام کیا،میجر عبد الحمید صاحب مئی ۱۹۶۳ء کو امریکہ پہنچے اور آپ نے ڈیٹن مشن میں کام کیا ، اورچوہدری عبد الرحمن صاحب بنگالی اپریل ۱۹۶۳ء کو امریکہ پہنچے ،پہلے آپ نے پٹس برگ مشن میں کام کیا اور دسمبر ۱۹۶۳ء میں آپ امریکہ مشن کے مبلغ انچارج مقرر ہوئے۔(۱۴)
اگست۱۹۶۱ء میں وکیل التبشیر مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے امریکہ کا دورہ کیا اور مختلف مشنوں کا جائزہ لیا اور احبابِ جماعت سے ملاقات کی۔آپ نے دیگر ہدایات کے علاوہ تعمیرِ مساجد پر زور دیا۔
(۱) تاریخ امریکہ مشن مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ ص ۴۵
(۲) الفضل ۶ ستمبر ۱۹۴۶ء ص۳
(۳) تاریخ امریکہ مشن مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ ص۴۶
(۴)تاریخ امریکہ مشن مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ ص۴۷
(۵)تاریخ امریکہ مشن مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ ص۵۶
(۶)تاریخ امریکہ مشن مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ ص۵۷
(۷)الفضل ۲۹ مئی ۱۹۵۱ء
(۸) تاریخ امریکہ مشن مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ ص۵۹
(۹)ریکارڈ تبشیر فائل مکرم مولانا نو رالحق صاحب انور ۱۹۵۵ء
(۱۰)ریکارڈ تبشیر فائل مکرم مولانا نو رالحق صاحب انور ۱۹۵۶ء
(۱۱)الفضل ۳ جولائی ۱۹۵۵ء ص۳و۴
(۱۲) تاریخ امریکہ مشن مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ ص۶۴
(۱۳) تاریخ امریکہ مشن مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ ص۶۴
(۱۴)تاریخ امریکہ مشن مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ ص۶۵
انگلستان مشن:
ہم ۱۹۳۹ء تک لندن مشن کے حالات کا جائزہ لے چکے ہیں۔اب ہم ۱۹۶۵ء تک انگلستان میں تبلیغ ِ اسلام کے لئے کی جانے والی کاوشوں کا ذکر کریں گے۔۱۹۳۹ء میں دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہؤا اور یہ وقت لندن مشن کے لئے بہت صبر آز ما وقت تھا۔لندن شہر جرمنی کے بمبار طیاروں کا نشانہ بنا ہؤا تھا ۔ شہر کے دوسرے مقامات کی طرح جماعت کا مشن بھی ہر وقت خطرات سے گھرا ہؤا تھا ۔اور جنگ کی وجہ سے پوری طرح تبلیغی مساعی بھی جاری رکھناممکن نہیں تھا۔نہ نئے مبلغین وہاں جا سکتے تھے اور نہ ہی وہاں پر مقیم مبلغ مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب کے لئے ان حالات میں واپس آنا ممکن تھا۔خود لندن کے لاکھوں باشندے ان حالات میں شہر چھوڑ کر دیہات میں چلے گئے تھے،مگر مکرم مولانا شمس صاحب نے جس حد تک ممکن تھا ان نا مساعد حالات میں بھی کام جاری رکھا ۔مشن ہاؤس میں مذہبی مسائل پر لیکچر دیئے جاتے۔انفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ تبلیغ کی جاتی۔اور بیرونی ممالک سے آنے والی اہم شخصیات کو بھی احمدیت کا پیغام پہنچایا جاتا۔اور ہائیڈ پارک میں مناظروں کے ذریعہ تبلیغ کا کام بھی جاری رہا۔بعض مرتبہ مدِ مقابل پادری صاحب تلخ کلامی پر بھی اُتر آتے مگر شمس صاحب متانت اور حوصلہ سے جواب دیتے جس سے سننے والوں پر بہت اچھااثر ہوتا ۔(۱)
جن خطرناک حالات میں جماعت کے مبلغین کام کر رہے تھے،اس کا تقاضہ تھا کہ سب ان کے لئے دعائیں کرتے رہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے ۱۹۴۲ء کے ایک خطبہ میں فرمایا
’اسی طرح مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں۔انہوں نے بڑی عمر میں شادی کی ۔ اور دو تین سال بعد ہی انہیں تبلیغ کے لئے بھیج دیا گیا ۔ان کے ایک بچے نے اپنے باپ کو نہیں دیکھا ۔اور باپ نہیں جانتا کہ میرا بچہ کیسا ہے۔سوائے اس کے کہ تصویروں سے انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا ہو۔وہ بھی کئی سال سے باہر ہیں۔اور اب تو لڑائی کی وجہ سے ان کا آنا اور بھی مشکل ہے ۔قائم مقام ہم بھیج نہیں سکتے۔اور خود وہ آ نہیں سکتے کیونکہ راستے مخدوش ہیں۔اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ کب واپس آئیں گے ۔۔۔۔۔ان لوگوں کی قربانیوں کا کم سے کم بدلہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد یہ دعائیں کرے ۔کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے اور ان کے اعزہ اور اقربا پر بھی رحم فرمائے۔۔میں تو سمجھتا ہوں کہ جو احمدی ان مبلغین کو اپنی دعاؤں میں یاد نہیں رکھتا اس کے ایمان میں ضرور کوئی نقص ہے اور مجھے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے ایمان میں خلل واقعہ ہو چکا ہے۔‘(۲)
اس وقت لندن میں مشن ہاؤس کن خطرات سے دوچار رہتا تھا اس کا اندازہ شمس صاحب کے اس مکتوب سے ہوتا ہے جو انہوں نے حضرت مصلح موعود ؓ کی خدمت میں لکھا۔
’۱۸ فروری کو ہوائی حملہ کے بعد بیس فروری کو رات کے دس بجے حملہ شروع ہؤا ۔حملہ پہلے کی طرح بہت سخت تھا ۔میں اپنے مکان میں بیٹھا تھا۔کہ مکان کے اندر روشنی ہو گئی۔بہت سے فائرز چھوڑے گئے ۔اور آگ لگانے والے بم برسائے گئے۔روشنی جو کمرہ کے اندر ہوئی اس سے یہی سمجھا کہ اب بم گریں گے۔گنز بھی فائر کر رہی تھیں۔چنانچہ کئی بموں کے گرنے کی آوازیں آئیں۔اور مکان کو جھٹکے آئے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد اور مکان دونوں محفوظ رہے ۔اور چند سو گز کے فاصلے پر بعض بم گرے ۔ اور وہاں آگ ایسی تیزی سے بلند ہوئی کہ اس کی روشنی سے مکان روشن تھا ۔اور تین چار جگہ ہمارے علاقہ میں آگ لگی ہوئی تھی۔۔‘(۳)
دوسری جنگِ عظیم کے آغاز میں برطانیہ اور اتحادیوں کی حالت نازک تھی اور محوری طاقتیں فتوحات حاصل کر رہی تھیں۔اس صورتِ حال میں حضور ؓ نے بہت سی رؤیا دیکھیں اور ان میں سے کئی کو اس وقت شائع بھی کر دیا گیا۔ان رؤیا سے ظاہرہوتا تھا کہ ابتدائی کمزور حالت کے بعد برطانیہ پھر قوت پکڑ جائے گا ،شاہ لیوپولڈ تخت سے دستبردار ہو جائیں گے اور ان رئویا میں افریقہ میں جنگ کے تغیرات اور بالآخر برطانیہ کے دشمن کی شکست کے نظارے دکھائے گئے تھے۔مئی ۱۹۴۳ء میں جب اتحادیوں نے افریقہ میں فتح حاصل کی تو ان خوابوں کے پورا ہونے کا آ غاز ہو گیا ۔مکرم جلال الدین شمس صاحب نے ان رؤیا کو اسی وقت شائع کر کے یہ پمفلٹ ملک کی نامور شخصیات کو بھجوایا ۔ ان میں سے کئی شخصیات نے ان رؤیا میں بڑی دلچسپی لی اور اپنے تبصرے بھی بھجوائے۔لارڈ برڈ ورڈ نے لکھا ’نہایت دلچسپ رؤیا ۔ہو بہو پوری ہوئیں۔‘وزیرِ ہند آئی اسی ایمری نے لکھا ،’نہایت دلچسپ مطبوعہ ملفوف جس سے امام جماعت ِ احمدیہ کی روحانیت اور دور بین نگاہ کا پتہ چلتا ہے۔‘سر فرینک براؤن ،آنریری سیکریٹری ایسٹ انڈیا ایسوسی ایشن نے تحریر کیا۔’یہ بات قابلِ غور ہے کہ حضرت امیر المؤمنین کی پیشگوئی اتحادیوں کی فتح کی نسبت اس وقت کی گئی تھی جبکہ اتحادیوں کی حالت ۴۰؁ ء کے موسمِ گرما میںبہت کمزور تھی ۔اور سلطنتِ برطانیہ تنہا محوریوں کے مقابلے پر کھڑی تھی۔‘(۴) یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ جب یہ پمفلٹ شائع ہؤا تو ابھی ان رؤیا کے پورے ہونے کا آ غاز ہؤا تھا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان رؤیا کی صداقت بالکل واضح ہو کر سامنے آ گئی۔
ہائیڈ پارک میں مباحثے لندن مشن کی کاوشوں کا ایک اہم حصہ تھے ۔ ۱۹۴۴ء میںمباحثوں کا ایک اہم سلسلہ مسٹر گرین کے ساتھ شر وع ہؤا ۔
یہ صاحب ایک تحریک کے بانی تھے ۔ان کا خیال تھا کہ۱۹۵۰ء میں یسوع مسیح آسمان سے نازل ہوں گے۔جب پیدائشِ آدم سے لے کر چھ ہزار سال ختم ہو جایں گے اور ساتواں ہزار سال شروع ہوگا۔وہ ۱۸۹۹ء سے اس عقیدہ کی اشاعت کر رہے تھے۔وہ ایک رسالہ کنگڈم نیوز بھی نکالتے تھے۔ مکرم مولانا شمس صاحب نے ان کے ساتھ کئی مباحثے کئے ۔پہلا مناظرہ ۲ جون ۱۹۴۴ء کو ہؤا ۔ قرار یہ پایا کہ وہ پہلے دو گھنٹے قرآنِ مجید پر جتنے چاہیں اعتراض کریں۔پھر ان کا جواب دیا جائے گا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا تصرف ایسا ہؤا کہ وہ پہلے مباحثات میں جو اعتراضات کرتا رہا تھا وہ بھی پیش نہ کر سکا۔ انہوں نے جو نوٹ لکھے ہوئے تھے وہ بھی غلط تھے۔اور انہوں نے قرآنی آیات کے غلط حوالے پیش کر کے خود اپنے آپ کو مشکل میں مبتلا کر لیا۔دوسرا مباحثہ ۱۶ جون کو ہؤا جس میں شمس صاحب نے اناجیل کے متعلق سولات پیش کرنے تھے۔جب یہ سوالات اُٹھائے گئے تو ان سے کوئی جواب بن نہ پڑا ۔بعض کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اعتراض میں نے پہلے کبھی نہیں سنا اس لئے میں جواب نہیں دے سکتا۔اور اکثر کے متعلق انہوں نے کہا کہ میں تیاری کر کے جواب دوں گا ۔اس سے حاضرین پر ان کی بے بسی ظاہر ہو گئی۔مقامی پریس نے بھی ان مباحثوں پر تبصرہ کیا۔لیکن ان کے بعد مسٹر گرین جماعتِ احمدیہ سے مناظرے کرنے سے گریز کرنے لگے۔(۵،۶)
ان سخت حالات میں مکرم عبد العزیز ڈین صاحب نے مشن کی قابلِ قدر خدمات سرانجام دیں اور وہ مسلسل جماعت کے مبلغین کی ہر طرح اعانت کرتے رہے۔
جب دوسری جنگِ عظیم کا جب خاتمہ ہؤا تو مرکز نے نو مبلغین کا ایک قافلہ لندن روانہ کیا ۔ان مبلغین نے چند ماہ مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب کی زیرِ نگرانی ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد یورپ کے مختلف ممالک میں مشن کھولنے تھے۔ان مبلغین میں مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ ، حافظ قدرت اللہ صاحب ،ملک عطاء الرحمن صاحب ،چوہدری اللہ دتہ صاحب ،کرم الٰہی صاحب ظفر، چوہدری محمد اسحٰق صاحب ساقی۔مولوی محمد عثمان صاحب۔مکرم ابراہیم خلیل صاحب ، اورمولوی غلام احمد بشیر صاحب شامل تھے۔روانگی کے وقت مولوی بشارت احمد صاحب نسیم اور محترم مولانا نذیر احمد صاحب علی(رئیس التبلیغ مغربی افریقہ) بمع اہل و عیال بھی قافلے میں شامل ہو گئے۔ مکرم مولوی بشارت احمد صاحب نسیم کا اس گروپ کے ساتھ جانے کا پروگرام نہیں تھا ۔لیکن جب حضور نے ارشاد فرمایا تو آپ صرف چند گھنٹوں میں تیار ہو کر قافلے کے ساتھ روانہ ہو گئے۔(۷،۸)
لندن میں پوری دنیا سے اہم شخصیات سرکاری دوروں پر آ تی رہتی تھیں ۔لندن مشن کے مبلغین ان سب سے رابطے کر کے ان کو حقیقی اسلام کا پیغام پہنچاتے۔اور اس طرح اس طبقے تک بھی اسلام کا پیغام پہنچ جاتا ۔
۱۹۴۶ء میں محترم مولانا جلال الدین شمس صاحب نے ایک کتابچہ Where died Jesus بڑی تعداد میں شائع کروایا ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں جو دلائل بیان فرمائے ہیں ،ان سے عیسائی عقیدہ کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے۔چنانچہ برطانوی پریس میں بھی اس کتابچے کی اشاعت کا چرچا ہؤا۔(۹)
مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب دس سال انگلستان میں مبلغ کے فرائض سر انجام دینے کے بعد اکتوبر ۱۹۴۶ء میں واپس قادیان تشریف لائے ۔آپ کے ساتھ مکرم سید منیر الحصنی امیر جماعت احمدیہ دمشق بھی تھے۔آپ کی مراجعت کے بعد مکرم چوہدری مشتاق احمد باجوہ صاحب امام مسجد لندن اور مکرم چوہدری ظہور احمد با جوہ صاحب نائب امام مقرر ہوئے۔(۱۰)
دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر انگلستان میں تبلیغ نئے سرے سے شروع کی گئی اور لندن کے علاوہ گلاسکو،ایڈنبرا،برمنگھم ،آکسفورڈ ، نوٹنگھم ،برائٹن،بریڈ فورڈ ،لیڈز ،پریسٹن،ہیڈرز فیلڈ، شیفیلڈ، ساؤتھ ہال ، مانچسٹر اور لیور پول میں تبلیغ کے کام کا آغاز کیا گیا۔
اب تک مرکز سے آئے ہوئے متعدد واقفینِ زندگی انگلستان میں خدمات سر انجام دے چکے تھے،لیکن ابھی یہاں کے باشندوں میں سے کسی کو یہ سعادت نہیں ملی تھی کہ وہ اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کرے۔سب سے پہلے یہ اعزاز مکرم بشیر آرچرڈ صاحب کے حصے میں آیا۔آپ وقف کرنے سے پہلے کئی مرتبہ قادیان جا چکے تھے۔فوجی خدمات سے سبکدوش ہونے کے بعد آپ نے صرف دو روز اپنے شہر برسٹن میں قیام کیا اور تیسرے روز لندن مشن میں پہنچ کر اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ جماعت ِ احمدیہ کے مبلغ کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں۔مکرم شمس صاحب نے ان اہم فرائض اور ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جو ایک مبلغ پر عائد ہوتی ہیں اور کچھ عرصہ توقف کرنے کو کہا۔کچھ توقف کرنے کے بعد مکرم بشیر آرچرڈ صاحب نے اپنے آپ کو وقف کردیا۔حضور ؓ نے ان کے وقف کو قبول فرما لیا اور انہوں نے مشن میں رہ کر اخلاص اور جوش سے تبلیغ کے فرائض ادا کرنے شروع کئے۔ دسمبر ۱۹۴۵ء میں آپ کو مذہبی تعلیم کے حصول کے لئے قادیان جانے کو کہا گیا۔اور یکم مئی ۱۹۴۶ء میں آپ قادیان تشریف لے آئے۔اُس وقت آپ کی عمر ستائیس برس تھی۔قادیان میں آپ کو خیرمقدم کہنے کے لئے ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں از راہِ شفقت حضورؓ بھی شامل ہوئے۔اس سے خطاب کرتے ہوئے حضور ؓ نے فرمایا
’بے شک وہ مقصد جس کے لئے آپ کھڑے ہوئے ہیں بہت عظیم الشان ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تمہیں تمہارے ملک کے لوگ بھی نہیں جانتے ،چہ جائیکہ دوسری دنیا۔ لیکن وہ وقت آئے گا کہ جب خدائے واحد کا نام دنیا پر قائم ہو چکا ہو گا۔اور ہر طرف احمدیت ہی احمدیت ہو گی تو اس وقت تمہارے ملک کے لوگ تاریخ کی کتابوں کی چھان بین کریں گے اور وہ تلاش کرنے لگیںگے کہ کیا ابتدائی دور میں کوئی انگریز احمدی ہؤا تھا۔ جب وہ دیکھیں گے کہ ہاں ایک شخص مسٹر بشیر احمد آرچرڈ تھا جس نے ابتداء میں احمدیت کو قبول کیا اور غیر معمولی قربانیاں کیں ۔یہ دیکھ کر ان کے دل خوشی سے بھر جائیں گے ۔‘ (۱۱۔۱۲)
جون ۱۹۴۷ء میں جماعت ِ احمدیہ کی طرف قرآنِ کریم کے ترجمے کا پہلا حصہ جو سورۃ فاتحہ تا سورۃ کہف پر مشتمل تھا شائع ہؤا ۔اس کی ا شاعت کے ساتھ انگریزی بولنے والے طبقے میں تبلیغ ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔
نومبر۱۹۴۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؓ پاکستان سے لندن تشریف لائے اور آپ نے تقریباََ پانچ ماہ انگلستان میں قیام کیا ۔آپ کی واپسی پر آپ کے اعزاز میں ایک الوداعی تقریب کا اہتمام کیا گیا،جس میں ایک ممبر پارلیمنٹ نے بھی شرکت کی۔اس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؓ نے لندن مشن کی مختصر تاریخ بیان فرمائی اور فرمایا کہ ان غلط فہمیوں کو دور کرنی کی ضرورت ہے جو ایک دوسرے کے درمیان موجود ہیں اور جن کی وجہ سے مشرقی اور مغربی اقوام کے درمیان نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں ۔تاکہ انہیں معلوم ہو کہ ہم اکھٹے برادرانہ طور پر رہ سکتے ہیں۔ہمارا فرض ہے کہ ہم مغربی اقوام کے لوگوں کے اطوار و عادات اور رحجانات کا مطالعہ کریں اور ان کی مشکلات کو سمجھیں جس کی وجہ سے وہ اسلام قبول کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔اگر مغربی لوگ مشرقی لوگوں کو اور مشرقی لوگ مغربی لوگوں کو سمجھ لیں تو ہمارا مستقبل شاندار ہے ۔صاحب صدر نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ جن امور کی نشاندہی کی گئی وہ واقعی اہم ہیں ۔ہم نے واقعی ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔(۱۳)
۱۹۴۹ء میں انگلستان کی جماعت کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہؤا ۔اور اس کے ساتھ حضور ؓ کے ارشاد کے تحت یورپ کے مبلغین کی کانفرنس بھی منعقد ہوئی ۔پہلا دن آنحضرت ﷺ کی سیرت کے بیان کے لئے مختص تھا۔مختلف مذاہب اور مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے احباب نے بھی آ نحضرت ﷺ کی سیرت پر تقاریر کیں۔اور اسی موقع پر انگلستان کی مجلس ِ مشاورت منعقد ہوئی۔(۱۴)
مذکورہ بالا جلسہ سالانہ کے موقع پرپر انگلستان میں لجنہ کے قیام کا ریزو لیشن بھی پاس کیا گیا تھا اور اس کے مطابق ۱۱دسمبر ۱۹۴۹ء کو لندن کی مستورات کا اجلاس بلایا گیا اور اس میں لجنہ انگلستان کی بنیاد رکھی گئی اور عہدیداروں کا انتخاب عمل میں آیا۔(۱۵)
اگست ۱۹۵۰ء میں مکرم مشتاق احمد صاحب باجوہ ،مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ کو چارج دے کر پاکستان روانہ ہوئے۔مکرم قریشی مقبول احمد صاحب نے ۱۹۴۸ء سے ۱۹۵۱ء تک سیکریٹری مشن کے فرائض سرانجام دیئے اور نومبر ۱۹۵۴ء سے لے کر جولائی ۱۹۵۷ء تک مکرم میر محمود احمد صاحب ناصر نے مشن کے سیکریٹری کے فرائض سر انجام دیئے۔(۱۶)
حضور ؓ نوجوان مبلغین کی ٹریننگ کی خود نگرانی فرماتے تھے۔مکرم و محترم میر محمود احمد صاحب ابن حضرت میر اسحٰق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت لندن مشن کے سیکریٹری کی حیثیت سے کام کر رہے تھے ،ان کے متعلق حضور ؓنے لندن مشن کے انچارج کو ہدایت فرمائی
’محمود احمد سے بھی زیادہ سے زیادہ کام لیںتاکہ اگر کسی جگہ Independentلگایا جائے تو وہ سنبھال سکے۔انشاء اللہ جلسہ پر اس کے نکاح کا اعلان ہو گا ۔تو آپ کو تار دی جائے گی۔اُسکو سنا دیں۔‘(۱۷)
اللہ تعالیٰ نے مکرم میر محمود احمد صاحب کو سپین اور امریکہ میں مبلغ اور مشنری انچارج کی حیثیت سے خدمات کی توفیق عطا فرمائی اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابع نے آپ کو جامعہ احمدیہ ربوہ کا پرنسپل مقرر فرمایا۔
ایک مرتبہ حضور ؓ نے لندن مشن کے بعض امور کے متعلق توجہ دلائی تو مکرم و محترم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ نے اس کو اظہارِ ناراضگی سمجھتے ہوئے وضاحت پیش کی۔حضور ؓ جہاں ایک طرف مبلغین کی نگرانی اور راہنمائی فرماتے تھے وہاں ان کے ساتھ نہایت مشفقانہ سلوک بھی فرماتے تھے۔جب حضور کی خدمت میں یہ وضاحت پیش ہوئی تو آپ نے تحریر فرمایا:۔
’دفتر خط تبشیر کو بھجوا دے اور ان کو کہدے ان امور پر اظہارِ رائے کو اظہارِ ناراضگی سمجھنا غلطی ہے۔ اپنا مشورہ دینا اور رائے دینا ہمارا فرض ہے ۔یہ ناراضگی نہیں ہوتا بلکہ معمولی فرض کی ادائیگی ہوتی ہے۔‘(۱۸)
لندن مشن کی تاریخ کا ایک اہم ترین واقعہ ۱۹۵۵ء میں حضرت مصلح موعود کا دورہ ہے ۔جس کا تفصیلی ذکر پہلے گذر چکا ہے۔جہاں لندن مشن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہاں پر صحابہ نے بطور مبلغ کام کیا ، وہاں انگلستان کی جماعت کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ایک صحابی مکرم میر عبد السلام نے یہاں پر مستقل قیام کیا اور آپ لندن جماعت کے ایک بہت سر گرم کارکن تھے ۔۲ ستمبر۱۹۵۹ء کو انگلستان میں ہی آپ کی وفات ہوئی۔(۱۹)
تمام تر مصروفیات اور بیماری کے با وجود حضور ؓ بیرونی مشنوں کی رپورٹوںاور ان کی کا وشوں میں گہری دلچسپی لیتے اور بعض مرتبہ بعد میں بعض ایسے امور کی بابت دوبارہ دریافت فرماتے جو بظاہر غیراہم دکھائی دے رہے ہوتے۔اور انفرادی تبلیغ کے چھوٹے چھوٹے واقعات کے متعلق بھی حضور ؓ دریافت فرماتے۔اس کا اندازہ اس مثال سے ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ مکرم مولود احمد خان صاحب نے جو ۱۹۵۵ء میں مشن کے انچارج تھے حضورؓ کی خدمت میں ایک تفصیلی خط لکھا ۔جس میں ایک آئرش نوجوان مسٹر فلپ کی بیعت کا لکھنے کے علاوہ دیگر امور کا ذکر بھی کیا تھا۔اس کے جواب میں حضور ؓ نے تحریر فرمایا:۔
’رپورٹ اور مسٹر فلپ کی بیعت ملی ۔اللہ تعالیٰ مبارک کرے ۔اس نوجوان کا کیا حال ہے جو اس سے الگ کمرہ میں ملا تھا اور رو حانیت اور تعلق با للہ کے متعلق باتیں پوچھتا رہا تھا ۔اور ان میاں بیوی کا کیا حال ہے وانڈز ورتھ کے رہنے والے ہیں جو کمیونسٹ تھے…
جس نئے شخص کا لکھا ہے اس کو تبلیغ جاری رکھیں ۔یہ شخص ہمارے لئے مفید ہو سکتا ہے کیونکہ یونانی میں عیسائی لٹریچر بہت موجود ہے۔‘(یہ شخص ایک زیرِ تبلیغ صحافی تھے جو یونانی جانتے تھے)‘(۲۰)
مغرب میں رہنے والے بعض احباب بھی تھے جو کہ اسلام کی صداقت کے تو قائل ہو جاتے مگر شراب نوشی یا اس جیسی کوئی اوربری عادت چھوڑنا انہیں دوبھر معلوم ہوتا ۔ایک ایسے ہی صاحب کا ذکر ایک رپورٹ میں کیا گیا تو اس پر حضور ؓنے جواب میں تحریر فرمایا
’ان کو کہیں کہ انشاء اللہ شراب بھی چھٹ جائیگی۔رسولِ کریم ﷺ کے صحابہ آپ سے زیادہ شراب پیتے تھے ۔ہمارا ایک انگریز مبلغ آرچرڈ ہے جس کا اسلامی نام بشیر احمد ہے ۔ وہ ٹرینیڈاڈ میںمبلغ ہیں۔جب وہ مسلمان ہوئے وہ انگریزی فوج میں ملازم ہو کر ہندوستان اور وہاں سے قادیان آیا ۔وہاں کچھ دن رہا کچھ تو متاثر ہؤا مگر پوری طرح دل صاف نہ ہؤا ۔واپس جاتے ہوئے وہ بیان کرتا ہے کہ ایک ریلوے سٹیشن پر اس نے شراب منگائی اور پینے لگا۔مگر دل میں یکدم نفرت پیدا ہوئی ۔اور دل سے کہا کہ کیا تو اتنا کام بھی نہیں کر سکتا کہ شراب پھینک دے۔اس کے بعد اس نے اسلام قبول کر لیا اور شراب کلی طور پر چھوڑ دی۔وقف کر لیا اور اب مبلغ ہے۔۔لیکن ساتھ ہی لکھیں گو اسلام نے شراب منع کی ہے لیکن اسلام انسانی کمزوریوں کا بھی اعلان کرتا ہے ۔آپ اس کے چھوڑنے کی کوشش کریں ۔اور اللہ تعالیٰ سے دعا کر تے رہیں ۔یقیناََ آپ غالب آ جائیں گے ۔کبھی اس نوجوان کو ڈسمنڈ شا سے بھی ملائیں ۔وہ بھی آئرش ہیں اور جیسا کہ اس نے بتایا تھا شراب چھوڑ چکے ہیں۔آپ نے مالٹا والے نوجوان کا ذکر نہیں کیا ۔جو مصری الاصل تھا ۔اور جس نے ڈرائنگ روم میں بیعت کی تھی ۔اور جو ٹرانسپورٹ میں نوکر تھا ۔‘(۲۰)
ایک مرتبہ محترم مولود احمد خان صاحب نے ۱۰ دسمبر ۱۹۵۵ء کو ایک رپورٹ بھجوائی جس میں ایک بیعت کا ذکر کیا اور اپنی ایک تقریر کا بھی ذکر کیا جو برمنگھم یونیورسٹی میں ہوئی تھی اور اس کا عنوان ’مذہب کا اخلاقی قدروں سے تعلق ‘ تھا ۔ اس موقع پر ان کی کافی عراقی طلباء سے ملاقات ہوئی ۔ان میں سے کچھ نے یہ سوال کیا کہ آپ مرزا صاحب کے الہامات کی موجودگی میں قرآنِ کریم کی طرف کیوں توجہ کرتے ہیں؟۔اس کے علاوہ ایک صاحب مسٹر بیکر نے Spiritualism کے متعلق سوالات کئے ۔حضور ؓ نے اس رپورٹ پر ارشاد فرمایا
’بیعت پہنچی اللہ تعالیٰ نئے مبائع کو استقامت دے۔ہر نو مسلم سے چندہ لکھوا لیا کریں تاکہ جماعت کے کاموں میں دلچسپی پیدا ہو۔ Spirtualismکے رد کے لئے میری کتاب ’وحیِ الٰہی ‘کا پڑھنا ضروری ہے ۔اس میں ثابت کیا گیا ہے کہ وحی کو Spirtualis پر فوقیت ہے۔مختلف شہروں میں ضرور جاتے رہیں۔اور عراقی نوجوانوں کی طرف خاص توجہ کریں ۔وہ عراقی نوجوان پھر ملیں تو کہہ دیں کہ مرزا صاحب کے الہاموں کی موجودگی میں ہم قرآن شریف کی کیطرف اسلئے توجہ کرتے ہیںکہ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ میں محمد رسول اللہ کا خادم ہوں ۔پس آپ کی وحی بھی قرآن کی خادم ہے۔پھر ہم کیوں آقا کو چھوڑ دیں ،اور خادم کے ہی ہو جائیں ۔آقا کے ساتھ ساتھ اس کے خادم کا احترام تو اچھی بات ہے ۔مگر خادم کو چمٹ جانا اور اسکے آقا کو چھوڑ دینا تو بڑی بے ایمانی ہے ۔مرزا صاحب کا ایک الہام ہے کہ کل برکۃ من محمد ﷺ فتبارک من علّم و تعلّم ۔اس الہام کی موجودگی میں علّم والے وجود کو چھوڑ کر کہاں جائیں۔کیونکہ اس صورت میں تو نہ ہم علّم کے ساتھ رہے اور نہ تعلّم کے ساتھ ۔تعلّم تو تبھی ہو گا جبھی علّم بھی ہو ،علّم کو چھوڑ کر نہ علّم رہے گا نہ تعلّم ۔اگر نہ ملے تب خط اسے لکھ دیں ۔اس مضمون پر زور دینا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ عراق میں احمدیت پھیلا دے تو سلسلہ کی بڑی روک دور ہو جائے گی۔ حضرت صاحب کی کوئی عربی کتاب اسے ضرور دیں ۔خصوصاََ تبلیغ جو آئینہ کمالات ِ اسلام کا تتمہ ہے ۔اور اس کے بعد خطبہ الہامیہ ۔یہ بھی سلسلہ جاری رکھنا چاہئیے کہ غیروں کے لیکچر ہوتے رہیں تاکہ نوجوانوں کو غیروں کے اعتراض بھی معلوم ہوں اور ہماری فوقیت کا پتہ لگے۔‘(۱۷)
شروع سے لندن مشن میں اہم علمی مجالس منعقد ہوتی رہی ہیں۔۱۹۵۹ء میں بھی لندن مشن میں ان مجالس کا ایک سلسلہ شروع ہؤا ۔اور ان مجالس میں سائنس ،مذہب ،سیاست اور اسلام پر اعتراضات کے موضو عات پر متعدد مجالس منعقد ہوئیں۔(۲۱)
جولائی ۱۹۶۲ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی حضرت امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا لندن تشریف لائیں ۔آپ کے ہمراہ آپ کی صاحبزادی مکرمہ فوزیہ صاحبہ بھی تھیں ۔ آپ کا قیام مکرم عبد العزیز دین صاحب کے گھر میں تھا۔آپ نے تین ماہ انگلستان میں قیام کیا اور یورپ بھی تشریف لے گئیں جہاں آپ نے زیورک کی مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا۔(۲۲)
(۱)تاریخ لندن مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۷۵
(۲)الفضل یکم اکتوبر ۱۹۴۲ء ص ۱
(۳) الفضل ۳۰ مارچ۱۹۴۴ء
(۴) الفضل ۱۲ ستمبر۱۹۴۳ء ص ۱
(۵) الفضل ۶ اکتوبر ۱۹۴۴ء ص۱
(۶)الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۴۴ء ص ۴
(۷) الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۴۵ء ص ۲(۸) الفضل ۱۸ دسمبر ۱۹۴۵ء
(۹) تاریخ لندن مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۹۳
(۰!)تاریخ لندن مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۹۵
(۱۱) الفضل ۶ مئی ۱۹۴۷ء ص۴
(۱۲) الفضل ۲ مئی ۱۹۴۷ء ص ۳
(۱۳) الفضل ۳۰ جولائی
(۱۴) الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۴۹ء ص ۱۱
(۱۵) الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۵۰ء
(۱۶) تاریخ لندن مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۱۰۷
(۱۷) ریکارڈ تبشیر فائل مولود احمد خان صاحب فائل نمبر ۶۵ ص ۵۹۔۶۰
(۱۸) ریکارڈ یبشیر فائل چوہدری ظہور احمد باجوہ صاحب ۱۹۵۵ء
(۱۹) تاریخ لندن مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۱۲۳
(۲۰)رکارڈ تبشیر فائل مکرم مولود احمد خان صاحب ۱۹۵۵ء ص۳۷و ۳۸
(۲۱) الفضل ۲۰ اپریل ۱۹۵۹ء ص۳
(۲۲)الفضل ۲۶ فروری ۱۹۶۳ء ص ۳
جرمنی:
جرمنی میں مشن پہلی مرتبہ ۱۹۲۲ء میں قائم ہؤا تھا اور وہاں پر مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ بھی جمع کیا گیا تھا۔لیکن اقتصادی بحران اور کرنسی کی قیمت گرنے کے باعث شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ۱۹۲۴ء میں یہ مشن بند کردیا گیا۔دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر بیرونِ ہندوستان مبلغین بھجوانے کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع ہؤا۔جرمنی میں بھی مشن کھولنے کا منصوبہ تھا۔حضرت مصلح موعود ؓ نے اس غرض کے لئے تین مبلغین کا انتخاب فرمایا۔یہ تین مبلغین مکرم چوہدری عبد الطیف صاحب ،مکرم شیخ ناصر احمد صاحب اور مکرم مولوی غلام احمد بشیر صاحب تھے ۔یہ تینوں اصحاب پہلے لندن پہنچے جہاں انہوںنے مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب کے پاس رہ کر میدانِ عمل میں تبلیغ کی ٹریننگ حاصل کرنی تھی۔ان کے علاوہ یورپ کے لئے باقی مبلغین بھی ۱۹۴۶ء میں لندن پہنچ چکے تھے۔جلد ہی یورپ کے کئی ممالک میں جماعت کے مشن قائم ہو گئے مگر دوسری جنگِ عظیم کے خاتمہ پر جرمنی فاتح افواج کے قبضے میں تھا۔وہاں ہمارے مبلغین کو داخلے کی جازت نہ مل سکی۔جن مبلغین کا تقرر جرمنی کے لئے ہؤا تھا وہ سویٹزر لینڈ چلے گئے تاکہ وہاں سے ویزے کے حصول کے لئے کوشش کر سکیںلیکن کامیابی نہیں ہوئی۔
حکام کی طرف سے یہی جواب ملتا کہ وہاں پر رہائش کا انتظام نہیں کیا جا سکتا ۔اس کے بر عکس عیسائی مشنری جنگ ختم ہوتے ہی جرمنی پہنچ چکے تھے۔جماعت کے مبلغین تو جرمنی نہ پہنچ سکے لیکن اللہ تعالیٰ نے وہاں پر احمدیت کا پودا لگانے کے انتظامات کر دیئے۔۱۹۴۷ء میں ایک جرمن مکرم عبداللہ کہنے صاحب کو جنگ کے دوران ایک احمدی کی معرفت جماعت سے تعارف ہؤا اور حضور کے بعض خطبات پڑھنے سے ان کی طبیعت پر گہرا اثر ہؤا۔انہوں نے احمدیت قبول کر کے کچھ اور احباب کو تبلیغ شروع کی اور اس طرح پانچ افراد پر مشتمل ایک چھوٹی سی جماعت وجود میں آ گئی۔مکرم عبد اللہ کہنے(Kuhne) صاحب نے اب مبلغین کے داخلے کے لئے کوششیں شروع کیں۔ان کاوشو ں کے نتیجے میں جماعت کے مبلغین کو عارضی ویزا مل گیا۔سب سے پہلے جون ۱۹۴۸ء میںمکرم شیخ ناصر احمد صاحب دورے کے لئے سویٹزر لینڈ سے جرمنی پہنچے ۔آپ کے دورہ کے دوران کچھ اور لوگ بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے۔اس کے بعد مکرم مولوی غلام احمد صاحب بشیر کو تبلیغی اور تربیتی دورہ پر ہیمبرگ جانے کا موقع ملا۔آپ نے دو ہفتہ کے لئے جرمنی میں قیام کیا اورآپ نے ہیمبرگ میں پہلی عید الفطر پڑھائی۔ابھی بھی حکام جماعت کو مشن کھولنے کی اجازت دینے پر تیار نہیں تھے اور بعض مجبوریاں بتا کر ٹالنے کی کوشش کرتے۔دوسری طرف عیسا ئیوں کی کئی تنظیمیں وہاں کام کر رہی تھیں ،انہیں حکام کی طرف سے ہر قسم کی سہولیات مہیا کی گئی تھیں مگر جماعت احمدیہ پر یہ دروازے بند تھے۔(۱)
بالآخر ۱۹۴۹ء کے آ غاز پر مکرم چو ہدری عبد الطیف صاحب کو لمبے قیام کا ویزا مل گیا اور اس طرح ایک طویل عرصہ کے بعد جرمنی میں جماعت کے مشن کا با قاعدہ آ غاز ہؤا۔مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب جرمنی پہنچے تو سب سے پہلے رہائش کا مسئلہ حل کرنا تھا۔ہمبرگ میں کرایہ پر کمرہ ملا تو تبلیغی کاوشوں کا آ غاز کیا گیا۔لیکچروں ،تبلیغی میٹننگوں اور انفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ کام شروع ہؤا۔جب کچھ میٹنگز منعقد ہو گئیں تو اس راہ میں بھی روک پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔جماعت کا مبلغ جہاں کہیں میٹنگ کے انعقاد کے لئے کمرہ کرایہ پر لینے جاتا تو جواب ملتا کہ کوئی کمرہ خالی نہیں ہے۔ تحقیق کی گئی تو معلوم ہؤا کہ چرچ نے ان لوگوں سے رابطے کرکے انہیں اکسایا ہے کہ وہ جماعت کے مبلغ کو اپنی جگہ کرائے پر نہ دیں۔مگر ان حرکتوں سے نہ جماعت کا کام رکنا تھا اور نہ رکا۔(۲)
آغاز میں مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب نے زبان سیکھنے کی طرف توجہ کی اور بہت جلد ایسا ملکہ پیدا کر لیا کہ دوسروں تک اپنے خیالات پہنچا سکیں۔اس ملک میں تبلیغ کے لئے مختلف ذرائع استعمال کئے جا رہے تھے۔انفرادی اور اجتمائی تبلیغ کے ذریعہ اہلِ جرمنی تک اسلام کا پیغام پہنچایا جا رہا تھا ۔تبلیغی اجلاسات منعقد کئے جاتے اور مختلف انجمنوں میں تقاریر کاا ہتمام کیا جاتا۔یومِ پیشوایان ِ مذاہب جماعتی روایات کا ایک اہم حصہ ہے ۔ان کے انعقاد کا سلسلہ جرمنی میں بھی شروع کیا گیا۔جب اس قسم کی تقریبات کی خبر اخبارات میں شائع ہوتی تو یہ اپنی ذات میں لوگوں تک احمدیت کا نام پہنچانے کا باعث بن جاتا۔اخبارات جماعت کے مبلغ کا انٹرویو لیتے اور ان کی اشاعت تبلیغ کا باعث بنتی۔ان کے علاوہ ریڈیو پر بھی متعدد مرتبہ مکرم چوہدری عبد الطیف صاحب کے انٹرویو ز اور تقاریر نشر ہوئیں اور آپ کو ریڈیو کے مذاکرات پر مدعو کیا گیا۔لٹریچر کی اشاعت تبلیغ کی ایک بنیادی ضرورت تھی۔چناچہ جرمن زبان میں لٹریچر کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
سب سے پہلے جو کتاب شائع کی گئی وہ حضرت مصلح موعود کتاب The Life and Teachings of Prophet Muhammadکا جرمن ترجمہ تھا ۔جب مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب سویٹزر لینڈ میں تھے تو آپ نے ایک عیسائی سے اس کتاب کا جرمن زبان میں ترجمہ کرایا تھا ۔ان عیسائی مترجم کا نام B.Ambouts تھا۔پھر یہ کتاب زیورک میں طبع ہوئی اور اسے جرمنی میں بھی تقسیم کیاگیا ۔اس کے بعد آپ نے حضور ؓ کی ایک تقریر Why I believe in Islamجو بمبئی ریڈیو سے نشر ہوئی تھی،کا ترجمہ کراکے اسے ہزاروں کی تعداد میں تقسیم کرایا ۔اپریل ۱۹۵۱ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی تصنیف ’اسلام کا اقتصادی نظام ‘ کا جرمن ترجمہ شائع ہؤا۔پھر ایک اور کتابچہ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی،دعاوی،تعلیمات پر مشتمل شائع کیا گیا۔۱۹۵۱ء میں حضرت مصلح موعود ؓ کی تصنیف کمیونزم اور ڈیمارکسی کا ترجمہ شائع ہؤا۔(۳،۴،۵)
۱۹۵۲ء میں نیور مبرگ کے مقام پر بھی تین افراد نے بیعت کی ۔(۶)
حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے ۱۹۴۵ء میںمشہور اشاعتی ادارے Berlitz سے جرمن زبان میں قرآنِ کریم کا ترجمہ کروایا تھا مگر اُس وقت یہ ترجمہ شائع نہیں ہو سکا تھا۔ پھرمکرم شیخ ناصر احمد صاحب نے اس پر نظرِ ثانی مکمل کی اور ۱۹۵۴ء میں یہ ترجمہ سویٹزر لینڈ میں شائع کیا گیا۔ایک جرمن نو مسلم مکرم عبداللہ کہنے نے بھی اس نظرِ ثانی میں مکرم شیخ ناصر احمد صاحب کی اعانت کی۔اس ترجمہ کی اشاعت جرمنی میں تبلیغِ اسلام کا ایک اہم سنگِ میل ہے۔ (۷)یہ ترجمہ جرمنی کے صدر ڈاکٹر ہنس کو بھی دیا گیا۔(۸)
۱۹۵۴ء میں ہمبرگ میں یورپ کے مبلغین کی کانفرنس منعقد ہوئی ۔اخبارات نے اس کانفرنس کی خبریں شائع کیں اور اس پر تبصرے کئے۔(۹)جیسا کہ ہم بارہاجائزہ لے چکے ہیں کہ جب کسی شہر میں غیر از جماعت احباب کی مسجد بنتی ہے تو بسا اوقات یہ خانہ خدا بجائے خدمتِ اسلام کے صرف احمدیوں کی مخالفت کے لئے استعمال ہوتی رہتی ہے اور یہ مخالفین اپنے زعم میں ان حرکات سے جماعت کی تبلیغ کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی حرکات کی وجہ سے اسلام کو بھی بد نام کرنے کا باعث بنتے ہیں۔چنانچہ مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب ایک رپورٹ میں یہ ذکر کیا کہ ہیمبرگ میں بھی غیر از جماعت مسجد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس بارے میں اپنی پریشانی کا ذکر کیا تو اس کے جواب میں حضور ؓ نے ارشاد فرمایا
’خانہ کعبہ کفار کے ہاتھ میں رہا اور محمد رسول اللہ ﷺ کی عظمت میں فرق نہ آیا تو ان ڈھل مل یقین کے مسجد بنانے سے احمدیت کو کیا نقصان پہنچے گا۔‘(۱۰)
۱۹۵۵ء میں حضور ؓ دورہ یورپ کے دوران جرمنی بھی تشریف لے گئے ۔اس دورہ کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔
اب تک جرمنی میں جماعت کا مشن بھی قائم ہو چکا تھا اور کچھ سعید فطرت روحوں نے حق کو قبول بھی کیا تھا لیکن ابھی تک یہاں پر جماعت کی کوئی مسجد نہیں بنی تھی۔زیادہ تر احمدی ہمبرگ میں مقیم تھے اور جماعت کا مشن بھی یہیں تھا ۔چنانچہ اسی شہر مین جماعت کی پہلی مسجد بنانے کا فیصلہ ہؤا۔اور۲۲ فروری ۱۹۵۷ء کو بروز جمعہ ہمبرگ میں جماعت کی مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا گیا ۔(۱۱)۲۴ جون ۱۹۵۷ء میں حضور ؓ کے حکم کے مطابق حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے اس مسجد کا افتتاح فرمایا اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے حضورؓ کے نمائیندے کی حیثیت سے اس تقریب میں شرکت فرمائی۔پریس نے اس افتتاح کی خبر کو شائع کیا اور ریڈیو پر جماعت کے مبلغ مکرم چوہدری عبد الطیف صاحب کا انٹرویو نشر ہؤا۔(۱۲)
اس موقع پرحضور ؓ کی طرف سے بھجوائے گئے پیغام میں حضور ؓ نے فرمایا
’خدا کرے کہ جرمن قوم جلد اسلام قبول کرے ۔اور اپنی اندرونی طاقتوں کے مطابق جس طرح وہ یورپ کی مادیات میں لیڈر ہے،روحانی طور پر بھی لیڈر بن جائے۔‘(۱۳)
۱۹۵۸ء میںجماعت نے جرمنی میں دوسری مسجد بنانے کے لئے فرینکفرٹ میں زمین خریدی ،اور مسجد کی تعمیر مکمل ہونے پر۱۲ ستمبر ۱۹۵۹ء کو حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓنے اس کا افتتاح فرمایا۔(۱۴،۱۵)
عبد الشکور کنزے صاحب ۱۹۴۵ء میں احمدی ہوئے تھے ۔اور پھر زندگی وقف کر کے قادیان اور ربوہ میںدینی تعلیم حاصل کی۔پھر آپ نے ساڑھے تین سال امریکہ میں مبلغ کے طور پر کام کیا اور۱۹۵۸ء میں آپ نے جرمنی آکر یہاں مبلغ کے طور پر کام شروع کیا۔مکرم مرزا لطف الرحمن صاحب جون ۱۹۵۹ء میں جرمنی آئے اور ایک سال یہاں پر تبلیغ کرنے کے بعد آپ کو نائیجیریا بھجوا دیا گیا۔مکرم مسعود احمد صاحب جہلمی پہلی مرتبہ مارچ ۱۹۶۱ء میں جرمنی پہنچے اور آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے طویل عرصہ خدمات کی توفیق ملی۔مکرم محمود احمد صاحب چیمہ کو ۱۹۶۲ء سے لے کر ۱۹۶۶ء تک جرمنی میں بطور مبلغ کام کرنے کی توفیق ملی۔اور مکرم فضل الہیٰ انوری صاحب جون ۱۹۶۴ء میں جرمنی پہنچے اور یہاں پر اپنی خدمات کا آغاز کیا۔(۱۶)
وکیل التبشیر مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے جون ۱۹۶۵ء میں جرمنی کا دورہ فرمایا۔ اس موقع پر مبلغِ سلسلہ مکرم میر مسعود احمد صاحب آپ کے ہمراہ تھے۔
(۱) الفضل ۹ اکتوبر ۱۹۴۸ء
(۲)الفضل۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء ص۴
(۳) تاریخ جرمن مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۳۲۔۳۳
(۴)الفضل ۱۸ ستمبر ۱۹۵۰ء ص۵
(۵)الفضل ۲۰ اگست ۱۹۴۹ء ص۴
(۶) الفضل ۱۷ مئی ۱۹۵۲ء ص۵
(۷) تاریخ جرمن مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۳۶
(۸) الفضل ۱۰ جون ۱۹۵۴ء ص۲
(۹) تاریخ جرمن مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۳۹۔۴۰
(۱۰) ریکارڈ وکالت تبشیر فائل چوہدری عبد الطیف صاحب۱۹۵۴ء ص۹۲
(۱۱) الفضل ۱۳ فروری ۱۹۵۷ء ص ۱
(۱۲)الفضل ۶ جولائی ۱۹۵۷ء
(۱۳)الفضل ۲۶ جون ۱۹۵۷ء ص ۱
(۱۴)۱ہفت روزہ بدر قادیان ۲۵ستمبر ۱۹۵۸ء ص۵
(۱۵) الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۵۹ء ص۱
(۱۶)تاریخ جرمن مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۶۰
سپین:
سپین میں جماعت کے مشن کے احیاء کا ذکر گذر چکا ہے۔یہ وہ دور تھا جب سپین میں صرف کیتھولک چرچ کو تبلیغ کی اجازت تھی۔دوسرے مذاہب تو ایک طرف رہے دوسرے عیسائی فرقوں کو بھی وہاں تبلیغ کی اجازت نہیں تھی۔اس صورتِ حال میں جماعت کے مبلغ جناب کرم الہی ٰ ظفر صاحب وہاں جا کر رہنے تو لگ گئے لیکن کھلم کھلا تبلیغ کرنا ان کے لئے ممکن نہ تھا۔یہ مشن ابھی ابتدائی حالت میں ہی تھا کہ قادیان سے ہجرت کرنی پڑی۔تقسیم ِ ملک کے بعد جماعت کو مالی وسائل کی شدیدکمی کا سامنا کرنا پڑا۔یہ فیصلہ کیا گیا کہ یورپ کے بعض مشن بند کر دیئے جائیں ۔چنانچہ مکرم کرم الہیٰ ظفر صاحب کو مرکز کی طرف سے حکم ملا کہ سپین سے لندن چلے جائیں۔دعاؤں اور سوچ بچار کے بعد مکرم کرم الہیٰ ظفر صاحب نے حضور ؓ کی خدمت میں لکھا کہ مشن کو بند نہ کیا جائے ۔جماعت خرچہ بھجوائے یا نہ بھجوائے میں اپنی آمد خود پیدا کرلوں گا۔آپ نے سپین آنے سے قبل لندن میں قیام کے دوران عطر سازی کا کام سیکھا تھا۔چنانچہ آپ نے پھیری لگا کر عطر بیچنے کا کام شروع کیا اور اس کے ساتھ تبلیغ کا کام بھی جاری رکھا۔اور چند سعید روحوں نے اسلام قبول کر لیا۔با وجود کاروباری معاملات میں ان کی نا تجربہ کاری کے اللہ تعالیٰ نے ان کے کام میں ایسی برکت ڈالی کہ پہلے ہی سال انہوں نے اپنا خرچہ اُٹھانے کے علاوہ اتنی رقم جمع کرلی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی کتاب ’ؔاسلام کا اقتصادی نظام ‘کا سپینش میں ترجمہ کر کے اسے شائع کروایا۔ (۱)یہ کتاب شائع تو ہو گئی لیکن حکومت نے اسے تقسیم یا فروخت کرنی کی اجازت نہ دی ۔اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا گیا ۔آخر کار اللہ تعالیٰ نے یہ راستہ نکالا کہ ڈائریکٹر جنرل پریس نے سنسر شپ پریس سے یہ منوالیا کہ یہ کتاب کمیونزم کے خلاف ہے اور ملک کو کمیونزم سے خطرہ ہے لہذٰا اسکی اشاعت کی اجازت دی جائے۔سپین میں عیسائیت کے علاوہ کسی مذہب کو تبلیغ کی جازت نہیں تھی ۔سنسر والے تذبذب میں تھے ۔آخر انہوں نے کہا کہ کتاب میں جہاں لکھا ہے کہ ’مذہب اسلام ہی ایک سچا مذہب ہے ‘۔وہاں یہ تبدیلی کر دی جائے کہ اس کی جگہ لکھا جائے ’مذہب اسلام جو میرے نزدیک صرف ایک سچا مذہب ہے‘۔
حضور ؓ نے اس تبدیلی کی اجازت مرحمت فرما دی۔یہ کتاب با اثر لوگوں کو بھی بھجوائی گئی اور انہوں نے جواب میں شکریہ ادا کرنے کے ساتھ اس کتاب کی تعریف میں شاندار تبصرے بھی کئے۔
مکرم کرم الٰہی ظفر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’اسلامی اصول کی فلاسفی ‘ کی اشاعت کا فیصلہ کیا۔چنانچہ ۱۹۵۰ء میں اس کتاب کا سپینش ترجمہ شائع کیا گیا۔کتاب ابھی پریس میں ہی تھی اور اس کا ٹائٹل کا صفحہ لگ رہا تھا کہ حکومت نے اس پر بھی پابندی لگا دی۔حکومت سے خط و کتابت شروع کی گئی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے ۔حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب اُس وقت پاکستان کے وزیر ِ خارجہ تھے انہوں نے بہت کوششوں کے بعد یہ اجازت حاصل کر لی کہ اس کتاب کو ابھی ضائع نہ کیا جائے بلکہ اس وقت تک اس کے نسخے مکرم کرم الہی ٰ ظفر صاحب کے پاس رہیں جب تک حکومت اس کی اشاعت کی اجازت نہ دے دے۔بعض دوستوں نے اس کتاب کے نسخے یورپ کے دوسرے ممالک میں منگوائے اور یہ ملک سے باہر مقیم ہسپانوی با شدوں میں تقسیم کی گئی اور بعض نسخے سپین کے باشندوں کو بھی بذریعہ ڈاک بھجوا ئے گئے۔اُس وقت سپین پر جنرل فرانکو حکمران تھے۔کسی کو ان کے سامنے دم مارنے کی جراء ت نہیں تھی۔مکرم کرم الہیٰ ظفر صاحب نے توکل کرتے ہوئے ایک نسخہ جنرل فرانکو کو بھجوا دیا۔چند دنوں کے بعد ان کا حیران کن خط موصول ہؤا کہ کتاب مجھے بے حد پسند آئی۔میں آپ کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔اب آہستہ آہستہ کتاب کی تقسیم شروع ہوئی ۔تو پولیس والے پہنچ گئے کہ ممنوعہ کتاب کی تقسیم کیوں کی جا رہی ہے۔جب انہیں جنرل فرانکو کا خط نکال کر دکھایا گیا تو پولیس والے خاموشی سے واپس چلے گئے۔۱۹۶۴ء میں حکومت نے اسلامی اصول کی فلاسفی اور ’میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں‘کی اشاعت کی اجازت دے دی۔
۱۹۵۶ء میں حکومت نے پاکستان کے سفیر کو رابطہ کر کے انہیںکہا سپین کی حکومت اسلام کی تبلیغ کو ملک میں غیر قانونی سمجھتی ہے اس لئے مکرم کرم الہی ظفر صاحب اس سے باز رہیں۔اس پر مکرم کرم الٰہی ظفر صاحب نے اس پر احتجاج کیا اور حضرت مصلح موعود ؓ نے بھی ایک خطبہ میں فرمایا کہ پاکستان میں تو عیسائی مشنری تبلیغ کر رہے ہیں اور سپین میںپاکستانی سفیر کے ذریعہ جماعت کے مشنری کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ تمہیں یہاں پر تبلیغ کی اجازت نہیں ہے۔ (۲) بہر حال انہوں نے مکرم کرم الہیٰ ظفر صاحب کو ملک سے نکالنے کی دھمکی پر عمل نہیں کیا ،مگر ان کی تبلیغی سرگرمیوں پر پولیس کی نگرانی کڑی ہو گئی۔بسا اوقات لوگ ان کے گھر کے بورڈ پر پتھر مار کر چلے جاتے۔بہت دفعہ ایسا ہوتا کہ پادری پولیس کو جا کر اکساتے اور پولیس اس وقت چھاپا مارتی جب کچھ لوگ آپ کے پاس موجود ہوتے۔ایک طالب علم نے اسلام قبول کیا تو خفیہ پولیس نے اسے دھمکی دی کہ اگر اس نے اسلام نہ چھوڑا تو اس کے لئے اچھا نہ ہو گا۔ایک اور شخص نے اسلام قبول کیا تو اسے اس کے افسروں نے ڈرایا دھمکایا اور مجبور کیا کہ وہ چرچ جا کر اعترافِ گناہ کرنے۔اگر کوئی بیچارا کبھی کوئی کتاب لینے مولانا کرم الٰہی ظفر صاحب کے پاس آتا تو اس کے ہاتھ کانپ رہے ہوتے اور کتاب پکڑ کر وہ جلدی سے جانے کی کرتا۔یہ حالت ۱۹۷۰ء تک رہی جب سپین میں مذہبی آزادی کا اعلان کیا گیا۔(۳)
(۱) الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۴۹ء ص۴
(۲) الفضل ۱۵ مئی ۱۹۵۶ء ص ۲۔۳
(۳) تاریخ سپین مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ
ماریشس:
جیسا کہ پہلے ماریشس کے حالات بیان کرتے ہوئے یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ ۱۹۴۰ء کی دہائی کے آغاز میں حضرت مسیح موعود کے صحابی حضرت حافظ جمال احمد صاحب یہاں پر مبلغ کے طور پر کام کر رہے تھے۔اس وقت یہاں پر تقریباََ آٹھ صد افراد کی ایک مختصر جماعت قائم تھی ۔یہاں پرروز ہل کا مقام جماعت کا ملکی مرکز تھا۔اس کے علاوہ سینٹ پیٹر ،فینکس ،پورٹ لوئیس ،متایاں لانگ، تریوے،متایاں بلانش کے مقامات پر جماعتیں قائم تھیں اور ان کے علاوہ بعض اور جگہوں پر افرادِ جماعت موجود تھے۔(۱۔۲)
جب اپریل ۱۹۴۹ء میں ربوہ کے نئے مرکز میں پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہؤا تواس میں ماریشس کے دوست مکرم احمد ید اللہ صاحب بھی شامل ہوئے ۔جب وہ سفر کرتے ہوئے مرکز آ رہے تھے تو جہاز پر کچھ اور احمدی بھی سوار تھے۔ایک انجان مخالف نے یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ مسلمان ماریشس سے آ رہا ہے انہیں کہا کہ دیکھنا یہ دو تین آدمی مرزائی ہیں ان کے ساتھ نماز نہ پڑھنا ۔اس پر احمد ید اللہ صاحب نے جواب دیا کہ میں خود احمدی ہوں اور پیدائشی احمدی ہوں۔اس پر وہ آدمی حیران ہو کر کہنے لگا کہ کیا مرزا صاحب کا مذہب پنجاب سے اتنی دور تک پہنچ گیا ہے۔(۳) مکرم احمد ید اللہ صاحب کی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ان پر اس بات نے ایک گہرا اثر کیا کہ حضور ؓ ان سے اور ان کے خاندان سے اچھی طرح واقف ہیں اور مرکز سے اتنی دور رہنے والوں پر بھی حضور کی شفقت کی اتنی نظر ہے۔(۴)
۲۷ دسمبر ۱۹۴۹ء کو حضرت حافظ جمال احمد صاحب وفات پا گئے ۔آپ کو سینٹ پیری میں سپردِخاک کیا گیا۔جس وقت آپ کو ماریشس کے لئے روانہ کیا گیا تو جماعت کی مالی حالت نہایت کمزور تھی۔آپ نے اپنے خانگی حالات کی وجہ سے یہ درخواست کی کہ انہیں بیوی بچوں کو ساتھ لے جانے کی اجازت دی جائے۔ان کی یہ درخواست منظور کر لی گئی مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ زندگی بھر اپنے وطن واپس نہیں آئیںگے۔جب ربوہ کا قیام عمل میں آیا تو انہیں اجازت دی گئی کہ وہ واپس آکر نئے مرکز کی زیارت کر لیں۔لیکن تقدیر الہیٰ دیکھئے کہ ابھی وہ پاکستان کے لئے روانہ نہیں ہوئے تھے کہ ماریشس میں ان کی وفات ہو گئی۔اور ان کا عہد کہ وہ زندگی بھر وطن کا منہ نہیں دیکھیں گے پورا ہو گیا۔حضرت مصلح موعود نے ان کی وفات پر فرمایا
’اس دنیا میں ہزاروں لوگ وعدے کرتے ہیں اور ان کو بھول جاتے ہیں۔لیکن جو لوگ اپنے وعدہ پر قائم رہتے ہیں وہ یقیناََ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مومنوں کی دعاؤںکے مستحق ہیں۔‘
اور ماریشس کا ذکر کرتے ہوئے حضور ؓ نے فرمایا کہ وہ ملک مبارک ہے جس میں ایسا اولو العزم انسان مدفون ہؤا۔(۵)
۱۹۵۲ء میں ماریشس کے لئے جماعت کے نئے مبلغ مکرم بشیرالدین عبید اللہ صاحب ماریشس پہنچے۔آپ کے والد مکرم عبید اللہ صاحب بھی یہاں پر مبلغ کے طور پر کام کر چکے تھے اور یہیں پر آپ کی تدفین ہوئی تھی۔(۶)آپ نے یہاں پر اپنی بھر پور تبلیغی مساعی کا آ غاز کیا ۔اگلے ایک ڈیڑھ سال میں ہی آپ نے چالیس تبلیغی لکچر دیئے،ریڈیو پر تقریر کی اور مختلف جماعتوں کے تقریباََ ایک سو دورے کیئے۔حضورؓ کی تحریر کمیونزم اینڈ ڈیموکرسی کو شائع کرایا گیا۔جماعتوں کو منظم کیا گیا اور مختلف عہدوں کے لئے انتخابات کرائے گئے۔خدام الاحمدیہ میں ایک نئی بیداری پیدا ہوئی اور ان کے باقاعدہ اجلاسات شروع ہوئے۔۱۹۵۴ء میں ماریشس میں احمدیوں کی کل تعداد ۹۹۵ تھی۔(۷)
مختلف جماعتوں میںبچوں کو ابتدائی دینی تعلیم دینے کا انتظام پہلے سے موجود تھا مگر اس کو باقاعدہ کرنے کے لئے اقدامات کئے گئے۔روزہل میں سکول کے اوقات سے قبل دینی تعلیم دینے کا انتظام کیا گیا اور اس کے لئے مختلف اساتذہ مقرر کئے گئے۔اور اس کلاس میں بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔بڑی عمر کے احباب کے لئے تعلیم اور درس کا انتظام کیا گیا۔(۸)
فروری ۱۹۵۵ء میں مکرم فضل الٰہی بشیر صاحب فریضہ تبلیغ کی ادائیگی کے لئے ماریشس تشریف لے گئے۔آپ کو وہاں پر۱۹۶۱ء تک خدمات سر انجام دینے کا موقع ملا۔ ۱۹۵۷ء میں ماریشس میں بہائیوں کی سرگرمیاں کافی زور سے جاری تھیں اور بہت سے مسلمان ان سے متاثر ہو رہے تھے۔احمدیوں نے دلائل سے ان کا مقابلہ شروع کیا اور بہائی ان دلائل کے آگے لاجواب ہو گئے۔مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب نے بہائیت کے رد میں دو ٹریکٹ شائع کئے۔(۹)
۱۹۵۹ء میں فنکس کے مقام پر ایک نئی مسجد مکمل ہوئی۔(۹)۱۹۶۱ء میں مکرم محمد اسماعیل منیر صاحب کو ماریشس میں مبلغ مقرر کیا گیا۔آپ نے بڑی تندہی کے ساتھ کام کا آغاز کیا۔۱۹۶۱ء میں جماعت احمدیہ ماریشس کا ایک جریدہ Le Messageکے نام سے فرنچ زبان میں شائع ہونا شروع ہؤا۔عیدالاضحیٰ کے موقع پر اس کا پہلا نمبر نکلا ۔خدام کے رسالے البشریٰ کو بھی اس میں ضم کر دیا گیا۔اس کے علاوہ بہت سی کتب کے فرنچ تراجم کی تیاری شروع کی گئی۔(۱۰۔۱۱)
مکرم اسماعیل منیر صاحب نے ریڈیو پر متعدد تقاریر کے ذریعہ اسلام کا پیغام اہلِ ماریشس تک پہنچایا۔اور ۱۹۶۱ء میں ہی انصاراللہ نے پبلک جلسوںکے ذریعہ اپنی مساعی کا دائرہ وسیع تر کیا۔ ۱۹۶۲ء میں روزہل کے مقام پر جماعت کے ایک سکینڈری سکول کا آ غاز کیا گیا،جس کا نام فضلِ عمر کالج رکھا گیا۔اس وقت تک جماعت کی دینی تعلیم کے لئے ماریشس میں چھ مکاتیب قائم تھے اور جماعت ِ احمدیہ ماریشس چھ مساجد تعمیر کر چکی تھی۔(۱۲)
(۱) الفضل ۱۷ اکتوبر ۱۹۵۲ء ص۵
(۲) الفضل ۵ جنوری ۱۹۴۰ء ص۸
(۳)الفضل ۲۲ اپریل ۱۹۴۹ء ص۲
(۴) الفضل ۲۶ اپریل ۱۹۴۹ء ص۲
(۵)الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۵۰ء ص۱
(۶) الفضل ۱۶ اکتوبر ۱۹۵۲ء ص ۵
(۷) تاریخ ماریشس مشن ص ۶۵۔۶۶
(۸) الفضل ۱۷ اکتوبر ۱۹۵۲ء ص ۵
(۹) تاریخ ماریشس مشن ص۶۹۔۷۰
(۱۰) الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۶۱ء ص ۵
(۱۱) الفضل ۱۹ جولائی ۱۹۶۱ء ص ۵
(۱۲) الفضل۴ اپریل ۱۹۶۲ء ص
برما:
مکرم مولانا احمد خان صاحب نسیم نے ۱۹۳۵ء سے لے کر ۱۹۳۹ء تک برما میں بطور مبلغ خدمات سر انجام دیں۔آپ کے بعد مرکز نے مکرم مولانا محمد سلیم صاحب کو برما میں مبلغ مقرر کیا۔آپ کو وہاں پر صرف آٹھ ماہ تک خدمت کی توفیق مل سکی۔اس کے بعد دوسری جنگِ عظیم کے شروع ہونے کے باعث آپ واپس ہندوستان تشریف لے آئے۔آپ کے برما قیام کے دوران حضرت مصلح موعود ؓ کی تصنیف دعوۃ الامیر کا برمی ترجمہ شائع کیا گیا۔دوسری جنگِ عظیم کے دوران جاپانی افواج نے برما پر قبضہ کر لیا۔جس کے نتیجے میں بہت سے ان ہندوستانی احمدیوں کو جو برما میں سکونت رکھتے تھے وہاں سے نکلنا پڑا۔کچھ نے وہاں کی شہریت اختیار کر لی ان میں اکثریت تامل احمدیوں کی تھی اور کچھ مدراسی اور پنجابی بھی تھے۔دوسری جنگِ عظیم کے دوران جو احمدی برما میں رہ گئے تھے انہوںنے کوشش کر کے رنگون سے سات میل دورKamayutمیں ایک چٹائیوں کی بنی ہوئی کچی مسجد تعمیر کی ۔اس کے لئے مکرم پیر محمد صاحب کی اہلیہ نے زمین وقف کی تھی۔اُ ن دنوں برما کی جماعت کے ایک مخلص احمدی مکرم ابراہیم صاحب تھے جن کے خاندان کے بہت سے افراد نے احمدیت قبول کی تھی۔آپ ایک مخیر دوست تھے اور مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ان کا ایک نواسہ کم عمری میں فوت ہو گیا۔مولویوں نے شور مچا دیا تھا کہ یہ کافر تھا اس لئے اس کی قبر کو مسلمانوں کے قبرستان سے منتقل کیا جائے۔مقدمہ عدالت میں گیا فریقین نے اپنے اپنے حق میں قرآنی آیات سے دلائل پیش کئے ۔جج نے ترجمہ دیکھنے کے لئے غیر احمدی مولویوں سے قرآن کریم طلب کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ بت پرست ہیں اور ناپاک ہیں اس لئے ہم اپنا قرآن آپ کو نہیں دے سکتے۔جب احمدیوں سے قرآنِ کریم مانگا تو انہوں نے قرآن کریم دے کر کہا کہ یہ ہماری طرف سے تحفہ ہے آپ اسے پڑھیں اور اس کی سچائی پر غور کریں۔ جج نے متاثر ہو کر بے ساختہ کہا کہ پھر تو آپ ہی اسلام کے صحیح نمائیندے ہیں۔اور بالآخر مقدمہ خارج کر دیا گیا۔
مکرم ابراہیم صاحب کے قصبہ میں ہی تامل زبان کے ایک شاعر جناب نلّا محمد صاحب رہا کرتے تھے۔ایک مخالف نے اُن کو حضرت مسیح موعود ؑکی تصنیف کشتیِ نوح اس فرمائش کے ساتھ دی کہ اس کتاب کی تردید تامل اشعار میں لکھیں ۔جب انہوں نے یہ کتاب پڑھی تو اتنا متاثر ہوئے تو خود بھی بیعت کی اور ان کی ایک ہمشیرہ بھی بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو گئیں۔
محترم مولانا سلیم صاحب کے بعد تیرہ سال وہا ں پر کوئی مبلغ وہاں نہیں جا سکا ۔اس کے بعد مکرم منیر احمد صاحب باہری کو ۱۹۵۳ء کے وسط میں برما کا مبلغ و مشن انچارج بنا کر بھیجا گیا۔وہاں پر آپ کا قیام چار سال تک رہا اور ان سالوں میں بر ماکی جماعت نے علمی اور عملی میدان میں اپنا قدم آگے بڑجایا۔اور آپ کے برما میں قیام کے دوران چینی اور برمی زبان میںاسلامی اصول کی فلاسفی کا دوسرا ایڈیشن شائع ہؤا۔اور حضرت مصلح موعود ؓ کی تقریرWhy I believe in Islamکا برمی ترجمہ شائع کیا گیا۔۱۹۵۶ء میں برما میں امارت کا نظام کا اجراء ہؤا اور حضرت مصلح موعودؓ کی منظوری سے مکرم عبد الغنی صاحب کو امیر مقرر کیا گیا۔مکرم منیر احمد باہری صاحب کی واپسی کے بعد مکرم منیر احمد عارف صاحب برما میں مبلغ مقرر ہوئے۔اور تین سال تک وہاں پر خدمات سر انجام دیں۔۱۹۶۰ء میں رنگون میں جماعت کی بڑی مسجد مکمل ہوئی اور اس کی چار منزلہ عمارت کا افتتاح کیا گیا۔حضور ؓ نے اس کا نام رنگون مسجد رکھا۔قانونی دقتوں کے بعد مکرم منیر احمد عارف صاحب کی واپسی کے بعد مرکز سے وہاں پر مبلغ بھجوانا ممکن نہ رہا۔البتہ برما میںمکرم خواجہ بشیر احمد صاحب کو وہاں کا مبلغ انچارج مقرر کیا اور ۱۹۶۵ء میں آپ نے با قاعدہ طور پر زندگی وقف کر دی۔(۱)
(۱) تاریخ برما مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ
انڈونیشیا:
انڈونیشیا میں جماعت کے مبلغین خاص طور پر مولوی رحمت علی صاحب کی قابلِ قدر مساعی کا ذکر حضرت مرزا بشیر احمد ؓ کی تصنیف فرمودہ سلسلہ احمدیہ میں آ چکا ہے اور ہم بھی حصہ دوئم کے آغاز میں اس کا مختصر جائزہ لے چکے ہیں۔اب ہم ایک دفعہ پھر انڈونیشیا کی
جماعت کی ترقی کا ذکر کریں گے اور دیکھیں گے کہ ۱۹۳۰ء کی دہائی کے آخراور ۱۹۶۵ء کے درمیان مخلصین کی اس جماعت کو کن کن مراحل سے گذرنا پڑا۔
یہاں پر جیسے جیسے جماعت ترقی کر رہی تھی ،جماعت کی مساجد کی ضرورت بڑھتی جا رہی تھی۔چنانچہ ۱۹۳۷ء میں بٹاویہ کی جماعت نے اپنی مسجد اور ملحقہ مشن ہاؤس تعمیر کیا۔حضرت مصلح موعود ؓ نے اس مسجد کا نام مسجد الھدایت رکھا ۔اسی طرح انڈونیشیا میں جماعت نے دوسری مسجد گاروت کے مقام پر تعمیر کی جہاں کی ترقی پذیر جماعت کی ضروریات بڑھ رہی تھیں۔اس مسجد کا افتتاح مکرم مولوی رحمت علی صاحب نے مارچ ۱۹۳۸ء میں فرمایا ۔(۱)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف کا مقامی زبانوں میں ترجمہ بہت ضروری ہے تا کہ احباب براہ راست آپ کے علم ِ کلام سے فیضیاب ہو سکیں ۔مکرم مولوی عبد العزیزشریف صاحب نے ۱۹۳۵ء میں اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ مکمل کر لیا ۔اس کی اشاعت کا کام مکرم ابو بکر صاحب کے ذریعہ کیا گیا اور آپ نے با وجود مالی وسائل کی کمی کے اس کی اشاعت کی ذمہ داری اُ ٹھائی اور اگست ۱۹۳۷ء میں یہ کتاب شائع ہو گئی۔(۲)
اب مقامی احمدی بھی جماعتی کاموں اور خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ان میں سے ایک مکرم ڈمنگ ڈاٹو مواجہ صاحب تھے۔آپ احمدیت قبول کرنے کے بعد ۱۹۲۹ء میں بمع اہل و عیال قادیان تشریف لائے تھے ۔۱۹۳۷ء میں حضور ؓ نے آپ کو جماعت انڈونیشیا کا پریذیڈنٹ مقرر فرمایا ۔مگر چند ماہ بعد نومبر ۱۹۳۷ء میں انتقال فرما گئے۔انا للہ و انا الیہ رٰجعون
۱۹۳۹ء میں باقی جماعت ِ احمدیہ عالمگیر کی طرح انڈونیشیا میں بھی گاروت میں احمدیہ مرکز میں یہ تقریبات منائی گئیں۔۱۹۳۸ء اور ۱۹۳۹ء کے دوران انڈونیشیا کی جماعت نے اشاعت کے اہم کام کی طرف بھی توجہ کی اور ۱۹۳۸ء میںحضرت مولوی رحمت علی صاحب نے عیسائیت کے متعلق پانچ کتب لکھیں اور یہ کتب شائع کی گئیں ۔اور ۱۹۳۹ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’ایک غلطی کا ازالہ ‘ اور حضرت مصلح موعود ؓ کی تصنیف دعوت الامیر کا ترجمہ شائع ہؤا۔
۱۹۴۱ء میں تاسک ملایا کے علاقے میں جماعت نے اپنی مسجد تعمیر کرنی شروع کی جو اگلے سال مکمل ہو گئی۔اسی طرح اس سال میں موتو بوئی بسار اور چیکا لونگ کولون کے علاقہ میں جماعت کا قیام عمل میں آیا۔
دوسری جنگِ عظیم جاری تھی۔۱۹۴۲ء میں انڈونیشیا پر جاپان کا قبضہ ہو گیا ۔پہلے پہل تو لوگوں نے یہ انتظار کیا کہ اب قابض افواج ایشیا کو آزادی دلانے کے نعرے پر عمل کریں گی ۔مگر آہستہ آہستہ صورتِ حال واضح ہوتی گئی۔جاپانی حکومت نے انڈونیشیا کے لوگوں پر اتنی سختی شروع کی کہ لوگ چلا اُ ٹھے۔ اُن پر فوجی مقدمات قائم ہوتے تو کوئی تحقیقات نہ کی جاتیں ۔ عورتوں کی عصمت دری کی جاتی۔ بہت سی عورتوں کو زبردستی جاپانی فوجیوں کے لئے قائم کردہ Comfort Houses میں بھجوا دیا گیا۔ان کے فوجی مساجد میں رہنے لگے۔فوجی جا کر کسانوں کے کھیت کاٹ کر لیجاتے اور اُن کو کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا ۔کوئی آواز اُ ٹھاتا تو اسے مار دیا جاتا ۔یہ تو افراد کے ساتھ سلوک تھا ۔ اس کے علاوہ جلد ہی تمام سیاسی تنظیموں اور انجمنوں پر پابندی لگا دی گئی۔ احمدیوں نے کوشش کی کہ ہم مذہبی جماعت ہیں مگر جاپانی نمائیندوں نے ان کی ایک نہ سنی ۔جو افسر مذہبی جماعتوں کے متعلق تحقیق کر رہا تھا ،اس نے مولانا صادق صاحب سماٹری کو کہا کہ بانیِ سلسلہ احمدیہ کے کلام سے حکومت کے متعلق نظریہ پیش کرو۔ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ تحریر دکھائی جس میں لکھا تھا کہ ہر احمدی کو حکومتِ وقت کی اطاعت کرنی چاہئیے۔وہ یہ تحریر پڑھ کر کہنے لگا کہ اس میں یہ تو نہیں لکھا کہ جاپان کی اطاعت کرو اگر کل کو یہاں پر کسی اور ملک کی حکومت ہو تو آپ اُس کی بھی اطاعت کریں گے۔ اب اس الٹے اعتراض کا کیا جواب ہو سکتا تھا۔پھر وہ مصر ہوئے کہ کیا آپ عہد کرتے ہیں کہ جاپان کے ساتھ جئیں گے اور اس کے ساتھ مریں گے ۔انہیں کہا گیا کہ ہمارا جینا مرنا خدا کے لئے ہے ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے ۔یہ بات چیت ختم ہوئی تو اُس نے کہا کہ آپ کو تبلیغ کی اجازت نہیں کیونکہ آپ کی تبلیغ سے لوگوں میں جوش پیدا ہوتا ہے ،آپ اپنے سارے عہدیداروں کو موقوف کر دیں ۔البتہ ہم آپ کو عبادت سے نہیں روک سکتے۔
ایک طرف قابض افواج یہ گُل کھلا رہی تھیں اور دوسری طرف جماعت کے مخالف مولوی اپنی ریشہ دوانیوں میں مشغول تھے۔بعض مولویوں نے جاپانی حکام تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ حوالے پہنچائے جس میں انگریزوں کی حکومت کی تعریف کی ہوئی تھی۔اور یہ ثابت کرنی کی کوشش کی کہ یہ لوگ انگریزوں کے جاسوس ہیں۔اس پر جاپانی حکام نے جماعت کے لوگوں سے مزید سوالات کئے اور بلا کر کہا کہ آپ کو جماعتی عہدیداران کے انتخاب کی اجازت نہیں اور نہ تبلیغ کی اجازت ہے ۔تمہارے نبی نے فرمایا ہے حب الوطن من الایمان۔احمدیوں نے جواب دیا کہ ہم ملک کی خدمت میں بھی حصہ لے رہے ہیں مگر مذہب کو نہیں چھوڑ سکتے۔کیونکہ اگر ہم مذہب کو چھوڑ دیں تو ہم ملک کی خدمت بھی نہیں کر سکتے کیونکہ مذکورہ بالا ارشاد کی وجہ سے ہی تو ہم ملک کی خدمت کر رہے ہیں ۔اس پر جاپانی افسر کہنے لگا کہ تم بحث کرتے ہو۔دوسرے غیر احمدی علماء یہ فتویٰ بھی دے رہے تھے کہ جس جنگ کا جاپان نے بیڑا اُٹھایا ہے وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ان حالات میں جماعت کے مبلغ مکرم مولانا صادق صاحب سماٹری نے حکومتِ جاپان کو ایک خط لکھا ۔اس خط میں راعی اور رعایا کے حقوق پر روشنی دالی اور احمدیت کی غرض و غایت پر بحث کی ۔اور یہ درخوست کی کہ مذہب میں حکومت کی مداخلت نہیں ہونی چاہئیے۔اور یہ بھی لکھا کہ حکومت کی حقیقی خیر خواہ جماعت ِ احمدیہ ہے۔ ایک اور خاص امر جس کی طرف حکام کی توجہ مبذول کرائی گئی وہ یہ تھا کہ جنوب مشرقی ایشیا میں جس جنگ کا جاپان نے بیڑا اُٹھایا ہے وہ جہاد فی سبیل اللہ نہیں ہے ۔اور جو علماء اسے چاپلوسی سے جہاد فی سبیل اللہ قرار دے رہے ہیں انہیں ایسا کرنے سے منع کر دینا چاہئیے۔جماعت کا ایک وفد یہ خط حکام تک پہنچانے گیا ۔اس پر حکومت بہت برافروختہ ہوئی اور ایک مرحلہ پر فیصلہ کیا کہ مولانا محمدصادق سماٹری صاحب کو سزائے موت دے دی جائے گی۔اس وقت یہ معلوم ہو رہا تھا کہ اتحادی افواج انڈونیشیا میں داخل ہوں گی ۔چنانچہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ جس قت یہ افواج انڈونیشیا میں قدم رکھیں گی اس وقت مولانا محمدصادق سماٹری صاحب کو موت کی گھاٹ اُتار دیا جائے گا۔اس صورتِ حال میں احبابِ جماعت نے تہجد ادا کرنی شروع کی اور روزے رکھے۔مولانا صاحب کو رؤیا میں دکھایا گیا کہ دانیال کتاب کی فصل پانچ پڑھو۔جب بائیبل میں یہ حوالہ پڑھا تو اس میں ایک بادشاہ کی بادشاہت کا خاتمہ قریب آنے کی پیشگوئی درج تھی۔چند ماہ کے اندر اندر جاپان کو دو ایٹم بموں کی تباہ کاری کا نشانہ بننا پڑا اور مجبوراََ اس نے ہتھیار ڈال دیئے ۔جاپان نے تو ۱۴ اگست کو ہی ہار مان لی تھی مگر سماٹرا اور جاوا میں یہ اعلان ۲۲ اگست کو کیا گیا ۔بعد میں غیر احمدیوں سے معلوم ہؤا کہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ مولوی صاحب کو ۲۳ یا ۲۴ اگست کو سزائے موت دے دی جائے۔(۳)
۱۹۴۴ء میں جاپانی تسلط کے خلاف جاوا میں بغاوت ہو گئی ۔جماعت کے مخالف علماء فوراََ جاپانی حکام کے پاس گئے اور کہا کہ اس بغاوت کے پیچھے احمدیوں کا ہاتھ ہے۔جماعت کے چودہ افراد کو جن میں تین مبلغین بھی شامل تھے گرفتار کر لیا گیا ۔یہ احباب ۸۴ دن تک قید میں رہے ۔مگر اللہ تعالیٰ نے اسیران کو رؤیا کے ذریعہ رہائی کی بشارت دی اور خدا کے فضل سے ان کی رہائی عمل میں آگئی۔(۴)
جاپانی گئے اور ڈچ حکومت ایک مرتبہ پھر انڈونیشیا پر قابض ہو گئی۔انڈونیشیا کو آ زادی کی منزل ابھی بھی نہیں ملی تھی۔سوئیکارنو کی قیادت میں انڈونیشیا میں آزادی کی تحریک شروع ہو گئی۔ملک کے احمدی اس تحریک میں حصہ لے رہے تھے۔تحریک ِآ زادی میں بعض احمدیوں نے اپنی جانوں کی قربانی پیش کی ۔جماعت انڈونیشیا کے پریذیڈنٹ مکرم محی الدین صاحب جو تحریک ِ آزادی کے نمایاں کارکن تھے ان کو پہلے ڈچ فوجیوں نے اغوا کیا اور پھر آپ کو شہید کر دیا گیا۔(۵)
۱۹۴۹ء میں ایک گروہ دارالاسلام نے جماعت ِ احمدیہ کو اپنے ساتھ مل کر سیاسی مساعی میں شامل ہونے کی دعوت دی مگر جب احمدیوں نے اس سے انکار کیا تو انہوں نے احمدیوں کی شدید مخالفت شروع کردی۔اور اس مخالفانہ رو میں دو خواتین سمیت سولہ احمدیوں کو شہید کر دیا گیا ۔ان شہداء کا تعلق مغربی جاوا سے تھا۔(۶)
جب ۱۹۴۶ء میں انڈونیشیا میں تحریکِ آ زادی چل رہی تھی تو حضور ؓ نے ایک خطبہ میں فرمایا
’لیکن انڈونیشیا کے جزائر نے اس اعلیٰ خوبی کا مظاہرہ کیا ہے۔جس سے دوسری اسلامی دنیا قاصر رہی ہے ۔ان کی ابھی تک آ وازایک ہے ان کی بولی ایک ہے ۔انکی حکومت ایک ہے ۔ڈچوں نے گذشتہ چند ماہ میں بہت کوشش کی ہے کہ ان میں افتراق پیدا کردیں۔لیکن وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکے۔‘
پھر حضور ؓ نے انڈونیشیا کے متعلق فرمایا
’دنیا بھر میں اور کوئی علاقہ اسلامی مرکز ہونے کی اس قدر اہلیت نہیںرکھتا ۔پس اس وقت اس بات کی سخت ضرورت ہے اخباروں میں رسالوں میں اپنے اجتماعوں میں مسلمان اپنے ان بھائیوں کے حق میں آ واز اُ ٹھائیں اور ان کی آ زادی کا مطالبہ کریں۔ اگر اب ان کی مدد نہ کی گئی اور اگر اب ان کی حمایت نہ کی گئی تو مجھے خدشہ ہے کہ ڈچ ان کی آواز کو بالکل دبا دیں گے۔۔۔۔
انڈونیشیا کے لوگ خود بھی یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اب ہم اکیلے رہ گئے ہیں لیکن اگر دنیا میں ان کی حمایت میںاور ان کی تائید میں آوازیں بلند ہوں اور ایک شور برپا ہو جائے۔تو وہ دلیری اور بہادری سے مقابلہ کریں گے ۔کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ ہم اکیلے نہیں لڑ رہے ۔بلکہ ہمارے کچھ اور بھائی بھی ہماری پشت پر ہیں۔‘ (۷)
پاڈانگ (سماٹرا ) کے لئے مکرم محمدسعید انصاری ساحب کو مبلغ مقرر کیا گیا ۔آپ جون ۱۹۴۸ء میں وہاں پہنچ گئے ۔اسی سال مکرم ملک عزیز احمد صاحب کی کوششوں سے سورابایا میں جماعت کا قیام عمل میں آیا۔(۸)
جنگِ آزادی کے دوران انڈونیشیا کی جماعتیں ایک منتشر حالت میں تھیں۔حالات ٹھیک ہونے پر اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ جماعتی کام کو از سرِ نو منظم انداز میں شروع کیا جائے۔ چنانچہ ان ضروریات کے پیشِ نظرنومبر ۱۹۴۹ء میں مکرم مولانا رحمت علی صاحب کی صدارت میں انڈونیشیا کے مبلغین کی پہلی کانفرنس منعقد کی گئی۔اس کانفرنس میں تبلیغ ،تربیت اور تنظیم کے لئے اہم منصوبے بنائے گئے۔(۹)
اسی سال دسمبر کی۹ سے ۱۱ تاریخوں جکارتہ میں جماعت ِ احمدیہ انڈونیشیا کا پہلا جلسہ منعقد ہؤا۔(۵) اپریل ۱۹۵۰ء میں مکرم مولانا رحمت علی صاحب واپس مرکز تشریف لے آئے اور آپ کی جگہ مکرم سید شاہ محمد صاحب امیر و مشنری انچارج مقرر ہوئے۔(۵)
جماعت احمدیہ بٹونگ نے ۱۹۴۸ء میں مسجد اور مشن ہاؤس کے لئے زمین خریدی اور ۱۹۵۰ء میں یہ عمارات مکمل ہو گئیں۔(۱۰)
۱۹۵۰ء میں جماعت ِ احمدیہ انڈونیشیا کے دوسرے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مصلح موعود ؓ نے ایک پیغام بھجوایا۔اس میں حضور ؓ نے فرمایا
’۔مجھے اس بات پر بھی خوشی ہے کہ انڈو نیشیا کے نوجوان تعلیم کے لئے احمدیہ مرکز میں آتے رہتے ہیں۔گو اتنی توجہ اس طرف نہیں ہوئی جتنی کہ ہونی چاہئیے تھی ۔میں سمجھتا ہوں اور تجربہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انڈونیشیا ان ممالک میں سے ہے جن کے لئے خدا تعالیٰ نے سعادت مقدر کی ہوئی ہے ۔انڈو نیشین لوگوں میں مجھے وہ کبر نظر نہیں آتاجو بعض دوسرے ممالک کے لوگوں میں نظر آتا ہے۔ان کی طبائع میں صلاحیت اور نرمی ہے۔۔۔
مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ انڈونیشیا ان ممالک میں سے ہے جن میں ارتداد بہت کم ہوتا ہے۔ جو مانتے ہیں سچے طور پر مانتے ہیں۔بعض اور ممالک میں یہ نقص پایا جاتا ہے کہ ایمان اور ارتداد بالکل اسی طرح چلتے ہیںجس طرح دو متوازی لیکن مختلف اطراف میں بہنے والے دریا ۔میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اور بھی زیادہ اپنے عملی نمونہ اور تعلیم اور تربیت کے ساتھ اس بات کو نا ممکن بنا دیں گے کہ کوئی شخص احمدیت میں داخل ہو کر پھر اُس سے واپس لوٹے۔۔‘
۱۹۵۱ء میں جماعتِ احمدیہ پاڈانگ نے مشن ہاؤس بنایا اور تاسکملایا کی جماعت نے ایک باموقع جگہ پر عمارت خرید کر اسے مشن ہاؤس میں تبدیل کردیا اور جکارتہ میں مسجد کو وسیع کر کے ازسرِنو تعمیر کیا گیا۔(۱۱)
اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ ۱۹۵۲ء مین انڈونیشیا کے کن علاقوں میں جماعتِ احمدیہ کی تبلیغی مساعی جاری تھیں۔جزیرہ بالی کی اکثریت ہندو مذہب سے وابستہ ہے ۔یہاں پر میاں عبدالحی صاحب مبلغ کے طور پر کام کر رہے تھے ۔مشرقی جاوا کے مرکزی شہر سرا بایا میں مکرم مولوی زہدی صاحب دوروں ،تقریروں اور ملاقاتوں کے ذریعہ تبلیغ کر رہے تھے ۔وسطی جاوا میں مکرم مولوی عبدالواحد سماٹری صاحب مصروفِ تبلیغ تھے ۔یہاں کے بڑے مقامات جو گجا اور سمارنگ میں جماعتیں موجود تھیں۔مغربی جاوا میں مکرم ملک عزیز احمد صاحب کام کر رہے تھے۔اور سماٹرا کے وسطی حصہ میںمکرم عبد الرشید صاحب مرکزی مبلغ کے طور پر کام کر رہے تھے۔اور انڈونیشیا کی جماعت کا مرکز جکارتہ میں تھا۔جہاں مکرم سید شاہ محمد صاحب امیر و مشنری انچارج کے طور پر فرائض ادا کر رہے تھے۔(۱۲)
۱۹۵۴ء میںمکرم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب ابن حضرت مصلح موعود ؓ بطور مبلغ انڈونیشیا تشریف لائے اور تقریباََ دو سال وہاں پر کام کیا۔
۱۹۵۶ء میں پاڈانگ میں نئی مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا گیا اور ایک اور مسجد جاتی کے مقام پر بنائی گئی۔ اور اسی سال لاھت(Lahet)کے مقام پر مشن ہاؤس بنایا گیا۔(۱۳)
۱۹۵۵ء میں انڈونیشیا میں جماعت کے مبلغ مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب نے ایک رپورٹ میں عیسائیوں کے اسکولوں اور ان کی نتیجے میں پیدا ہونے والے اثر و رسوخ کا ذکر کیا ۔اس پر حضور ؓ نے ارشاد فرمایا
’وہاں لٹریچر شائع کرنا چاہئیے ۔اور عیسائیت کے متعلق تو فوراََ لٹریچر تیار کیا جائے ۔ نیز ہمیں مشورہ دیں کہ کس قسم کا لٹریچر آپ کو چایئے۔اسوقت یہ بڑا عمدہ موقع ہے۔عیسائیت ہی ہمارا شکار ہے۔آپ اگر اسمیں کامیاب ہو جائیں تو مسلمان آپ کے ساتھ مل جائیں گے ۔مسلمان طلبہ سے تعلقات بڑھائیں۔سکول کھولنے کی طرف توجہ دیں۔اس سے بھی کامیابی ہو گی۔مغربی افریقہ میں ہمارے اسکول کھلے ہوئے ہیںاور کامیابی ہوتی ہے۔‘(۱۴)
مکرم ملک عزیز احمد صاحب نے نومبر ۱۹۵۸ء میں انڈونیشین زبان میں قرآنِ کریم کا ترجمہ مکمل کیا ۔اور ۱۹۵۸ء میں جلسہ سالانہ کے ساتھ ہی خدام الاحمدیہ کا پہلا اجتماع منعقد ہؤا۔اس سال کے دوران انڈونیشیا میں ۶ نئی جماعتوں کا اضافہ ہؤا۔اور سورا بایا اور چری بون میں مسجدیں بنائی گئیں۔۱۹۵۹ء میں جو گجا کرتا کے مقام پر مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی۔اُس دور میں پوروو کرتو (Porvokorto) میں جماعت کا ایک مڈل اسکول کام کر رہا تھا(۱۵)۔ نئی جماعتوں کے قیام کاسلسلہ جاری تھا،چنانچہ ۱۹۶۰ء میں بھی تین نئی جگہوں میں جماعتیں قائم ہوئیں۔
مکرم ملک عزیز احمد صاحب جو ۱۹۳۶ء سے انڈ ونیشیا میں مصروفِ جہاد تھے ، ۱۹۶۲ء میںمیدانِ عمل میں ہی فوت ہو گئے اور وہیں ان کی تدفین کی گئی۔۱۹۶۳ء میں وکیل التبشیر مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے انڈونیشیا کا دورہ فرمایا۔۱۹۶۵ء میں مکرم مولوی امام الدین صاحب انڈونیشیا کے رئیس التبلیغ مقرر ہوئے۔
(۱) تاریخ انڈونیشیا مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص ۲۵
(۲) رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۶ئ۔۱۹۳۷ء ص۱۳۳
(۳) ریویو آف ریلجنز جنوری ۱۹۴۷ء ص۶۳تا ۶۷
(۴) خالد اپریل ۱۹۵۴ء ص۲۴
(۵) الفضل ۷ مارچ ۱۹۵۲ء ص۴
(۶) تاریخ انڈونیشیا مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ۳۶،۳۷
(۷) الفضل ۲۷ اگست ۱۹۴۶ء ص۳
(۸)تاریخ انڈونیشیا مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۳۸
(۹)تاریخ انڈونیشیا مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۳۹
(۱۰)تاریخ انڈونیشیا مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۴۰
(۱۱)تاریخ انڈونیشیا مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۴۱
(۱۲)الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۵۳ء ص ۵
(۱۳)تاریخ انڈونیشیا مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ ص۴۹ و ۵۰
(۱۴) ریکارڈ وکالت تبشیر فائل حافظ قدرت اللہ صاحب ۱۹۵۵ء
(۱۵)الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۵۹ء ص۳
ملیشیا:
آج کے ملیشیا کے مغربی حصہ میں جب جماعت نے اپنی تبلیغی کاوشوں کا آغاز کیا تو یہ علاقہ سنگاپور مشن کے تحت تھا۔سنگاپور میں جماعت کے مبلغ مکرم غلام حسین ایاز صاحب ایک بار یہاں کا دورہ کر رہے تھے تو وہاں پر اتفاقاََان کی ملاقات ایک ہندوستانی احمدی مکرم شیر محمد صاحب سے ہو گئی۔جو ایک طویل عرصہ سے یہاں کی پولیس میں ملازم تھے۔یہ صاحب پوشیدہ طور پر تبلیغ بھی کرتے تھے۔چنانچہ ان کے زیرِ اثر ایک خاندان نے اس دورہ میں ہی بیعت کرلی۔ان میں سے ایک نوجوان مکرم زہدی صاحب دینی تعلیم کے لئے قادیان آئے اور یہاں پر آٹھ سال رہ کر تعلیم حاصل کی ۔دوسری جنگِ عظیم کے دوران یہاں پر تبلیغی دورے نہ ہو سکے۔
کوالالمپور سے چالیس میلدور ایک گاؤں جرام میں سماٹرا کے ایک احمدی مقیم تھے جو قادیان میں تعلیم حاصل کر چکے تھے۔وہ کچھ نوجوانوں کو آہستہ آہستہ بتاتے رہتے کہ امام مہدی کا ظہور ہو چکا ہے۔جب یہ نوجوان احمدیت قبول کرنے کے لئے تیار ہو گئے تو مکرم غلام حسین صاحب ایاز وہاں گئے اور ان نوجوانوں نے با قاعدہ طور پر بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شمولیت اختیار کر لی۔یہ گاؤں ریاست سلانگور میں تھا ۔ان کی بیعت کے بعد وہاں پر مخالفت کا طوفان اُٹھ کھڑا ہؤا۔اور علماء کی طرف سے ان احمدیوں کو دھمکیاں ملنے لگیں۔ریاست کے حکمران سلطان سلانگور نے احمدیوں کو اور مخالف علماء کو بلایا ۔اس میٹنگ میں جماعت کی طرف سے مکرم مولانا محمد صادق صاحب نے تقریر کی۔ مفتی نے جماعت کو ایک سوالنامہ کا جواب تیار کرنے کا کہا ۔اس کا جواب بھجوانے پر سلطان سلانگور کے محل میں ایک اور میٹنگ ہوئی۔پہلے مخالفین نے تقریر کی اور دلائل کی بجائے حاضرین کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی۔جب جماعت کی طرف سے مکرم مولانا صادق صاحب تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو علماء نے شور مچا دیا کہ ان کو تقریر کا موقع نہ دیا جائے ورنہ آپ کی تمام رعیت اور شاید آپ بھی قادیانی ہو جائیں گے۔سلطان نے کہاکہ ان کا جواب سننا چاہئیے لیکن علماء نے شور مچا دیا اور مجبوراََ یہ میٹنگ ختم کرنی پڑی۔اس کے بعد جماعت کی مخالفت میںاضافہ ہو گیا۔
مئی ۱۹۵۶ء میں محکمہ امورِ مذاہب کی طرف سے اعلان شائع کیا گیا کہ ہم قادیا نیوں سے مباحثہ کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن ایک ہفتہ کے بعد خود ہی یہ اعلان شائع کرا دیا کہ قادیانیوں سے مباحثے کا کوئی فائیدہ نہیں۔اسی سال ریاست جوھور کے محکمہ مذاہب کے سربراہ نے مفتی جوھور اور احمدیوں کے درمیان مباحثہ کا اہتمام کرایا لیکن جن مفتی صاحب کو مباحثہ کے لئے مقرر کیا گیا تھا وہ سنگا پور چلے گئے اور مباحثہ سے انکار کر دیا۔اس کا محکمہ مذاہب کے سربراہ پر ایسا اثر ہؤا کہ انہوں نے احمدیت قبول کر لی۔فروری ۱۹۶۱ء میں مکرم مولانا محمد صادق صاحب سنگا پور سے کوالالمپور منتقل ہوئے اور جون ۱۹۶۲ء تک وہاں پر تبلیغ کرتے رہے۔پھر ان کی جگہ مکرم محمدسعید انصاری صاحب کو مبلغ انچارج مقرر کیا گیا۔۱۹۶۳ء میں وہاں کی جماعت نے کوالا لمپور سے آٹھ میل دور ایک چھوٹی سی عمارت تعمیر کی جس کو مسجد اور مشن ہاؤس کے طور پر استعمال کیا گیا۔
سیلون:
ہم پہلے جائزہ لے چکے ہیں کہ سیلون کی مختصر جماعت کن مراحل سے گذر رہی تھی۔۱۹۵۱ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی منظوری سے مکرم و محترم مولوی محمد اسماعیل منیر صاحب بطور مشنری انچارج سیلون بھجوائے گئے۔آپ کو ۱۹۵۸ء تک وہاں پر خدمات کی توفیق ملی۔آپ نے احباب کے استفادے کے لئے کولمبو اور نیگومبو کے مقامات پر چھوٹی چھوٹی لائیبریریاں قائم کیں اور تبلیغ میں وسعت پیدا کرنے کے لئے احمدیت کے خلاف پھیلائے گئے غلط خیالات کے ازالہ کے لئے آپ نے متعدد سوسائیٹیوں، اخبارات اور افسران سے رابطے کئے اور ان حلقوں میں احمدیت کو متعارف کرایا۔اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور قبرِ مسیحؑ کے متعلق انگریزی،تامل اور سنہالی زبان میں ٹریکٹ شائع کئے گئے۔۱۹۵۲ء میں سیلون میں پہلی مرتبہ یومِ پیشوایان مذاہب کا جلسہ منعقد کیا گیا جس میں تقریباََ ۴ ہزار افراد نے شرکت کی۔اب سیلون کی جماعتیں تبلیغی اور تربیتی میدان میں فعال ہو چکی تھیں۔اب دوسرے مشن کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔چنانچہ ۱۹۵۵ء کے اواخر میں سیلون کے مشرق میں Palamunaiکے مقام پر دوسرا مشن ہاؤس قائم کیا گیا۔اور مکرم مولوی محمدشمیم صاحب کو اس مشن میں مبلغ مقرر کیا گیا۔آپ نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران احمدیت قبول کی تھی اور پھر دو سال قادیان میں دینی تعلیم کے حصول کے بعد آپ نے سیلون میں اپنی عملی خدمات کا آ غاز کیا۔
۱۹۵۶ء میں سیلون کی حکومت نے سنہالی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیا۔اب اس کے بعد ضرورت تھی کہ اس زبان میں جماعت کا لٹریچر شائع کیا جائے۔لیکن مالی وسائل کی کمی اور دیگر مسائل اس راہ میںروک بنے ہوئے تھے۔اللہ کا کرنا ایسا ہؤا کہ ایک غیر احمدی مسلمان ڈاکٹر مکرم سلیمان صاحب نے مکرم اسماعیل منیر صاحب سے کہا کہ آپ سنہالی زبان میں اسلامی لٹریچر کیوں نہیں شائع کرتے۔انہوں نے کہا کہ مترجم کی نا یابی اور دیگر مسائل راہ میںروک بنے ہوئے ہیں۔اس پر اس غیر احمدی دوست نے یہ کام اپنے ذمہ لے لیا ۔اور آنحضرت ﷺ کی سیرت طیبہ پر حضرت مصلح موعود ؓ کی تصنیف کا سنہالی زبان میں ترجمہ خود کیا اور اپنے خرچ پر ہی ان کو چھپوا کر مشن کو بھجوا دیا۔اس کے بعد انہوں نے اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ ایک اور صاحب Mr.Wadageسے کرایا اور اسے بھی اپنے خرچ پر شائع کرایا۔کولمبو مشن نے اسلامی اصول کی فلاسفی کے ترجمہ کی تقریبِ رو نمائی منعقد کی ۔ملک کے وزیرِ اعظم بندرا نائیکے نے اس موقع پر اپنا پیغام بھجوایا اور ایک ممبر پارلیمنٹ اور پاکستان کے ہائی کمشنر کے علاوہ کثیر تعداد میں احباب نے اس تقریب میں شرکت کی۔اس کے بعد یہاں کی زبانوں میں جماعت کے لٹریچر کی اشاعت ایک نئی تیز رفتاری سے شروع ہو گئی۔
پہلے جماعت کا ایک جریدہ Thoothanکے نام سے نکلتا تھا جسے بعد میںبند کرنا پڑا تھا۔۱۹۵۵ء میں اس کا از سرِ نو اجراء کیا گیا۔اور اب یہ رسالہ انگریزی اور تامل دونوں زبانوں میں نکل رہا تھا۔۱۹۵۷ء میں سنہالی زبان میں ایک رسالہ Doodayaنکلنا شروع ہؤا۔اس کے پہلے شمارے کے لئے وزیرِ اعظم اور وزیرِ تعلیم دونوں نے پیغامات بھجوائے۔
۱۹۵۸ء میں مکرم قریشی عبد الرحمن صاحب کو سیلون مشن کا انچارج مقرر کیا گیا اور مکرم اسماعیل منیر صاحب مرکز واپس تشریف لے آئے۔مکرم قریشی عبد الرحمن صاحب سیلون میں درگا ٹاؤن کے رہنے والے تھے اور آپ نے قادیان جا کر جامعہ میں تعلیم حاصل کی اور شاہدکی ڈگری حاصل کی۔آپ نے ۱۹۶۱ء تک سیلون میں خدمات سرانجام دیں اور پھر آپ کو تنزانیہ بھجوا دیا گیا۔اس کے بعد کچھ عرصہ ویزا نہ ملنے کے باعث ایک عرصہ کوئی مرکزی مبلغ سیلون نہ جا سکا ۔(۱)
(۱) تاریخ سیلون مشن مرتبہ وکالت تبشیر ربوہ
بلادِ عربیہ فلسطین و شام:
۱۹۳۸ء سے مکرم چوہدری محمد شریف صاحب اس علاقہ میں مبلغ کے طور پر کام کر رہے تھے اور آپ حیفا (فلسطین )میں مقیم تھے ۔سیاسی حالات کی ابتری کی وجہ سے دمشق کی جماعت میں تنظیم کی کمی پیدا ہو رہی تھی۔چنانچہ سید منیر الحصنی صاحب کو دمشق بھجوایا گیا تا کہ جماعت میں زندگی کی ایک نئی روح پیدا کی جا سکے۔فروری ۱۹۴۰ء میں دمشق کے ایک بارسوخ عالم نے جماعت کے ساتھ مباہلہ کرنے کی حامی بھری۔جماعت کی طرف سے ان کے چیلنج کو قبول کرنے کی اطلاع دے دی گئی لیکن انہوں نے بعض منذر خوابیں دیکھیں اور بعض لوگوں نے انہیں ڈرایا ۔اس پر وہ مباہلہ سے منکر ہو گئے۔اس بات سے وہاں پر زیرِ تبلیغ افراد پر اچھا اثر پڑا۔جب دمشق میں جماعت کی تنظیم کے کام کا آ غاز ہؤا تووہاں کے علماء اور مشائخ نے ایک شور ڈال دیا ۔سید منیر الحصنی کے قتل کے منصوبے بنائے گئے ۔مکرم چوہدری محمد شریف صاحب کو بھی دھمکی آمیز خطوط ملے۔اس کے باعث حکومت کی طرف سے یہ نوٹس جاری کیا کہ آپ یہاں پر تبلیغ نہ کریں ورنہ نتائج کی ذمہ داری آپ پر ہو گی۔اس بنا پر اعلانیہ تبلیغ کا سلسلہ بند کرنا پڑا۔انہی ایام میں ایک عالم الاستاذ شفیق شبیب احمدی ہو گئے ۔اس پر علماء کا غصہ اور بھڑک اُ ٹھا ۔اور ستمبر ۱۹۴۲ء میں مکرم سید منیر الحصنی صاحب ،شبیب صاحب اور مکرم عبدالرؤف حصنی صاحب کو زد وکوب بھی کیا گیا۔اکتوبر ۱۹۴۲ء میں حضور ؓ نے مکرم چوہدری محمد شریف صاحب کو دمشق جانے کا ارشاد فرمایا۔جب وہ دمشق پہنچے توعلماء مخالفت پر کمر بستہ ہو چکے تھے۔چونکہ شام میں جماعت کی طرف سے کوئی ٹریکٹ یا کتاب شائع نہیں ہو سکتی تھی،اس لئے علماء کو چیلنج دیا گیا کہ وہ مردِ میدان بنیں اور با قاعدہ مناظرہ و مباہلہ کر لیں۔لیکن اس میں دمشق کے پچاس علماء شامل ہوں تا کہ لوگوں پر حق و باطل واضح ہو جائے۔لیکن علماء میں سے کوئی میدان میں نہ اترا۔یہ امر بالخصوص نو مبا یعین کی تقویتِ ایمان کا باعث بنا۔
۱۹۴۵ء میں مکرم شیخ نور احمد منیر احمد صاحب کو اور ۱۹۴۶ء میں مکرم رشید احمد چغتائی صاحب کو بلادِ عربیہ میں تبلیغ کے لئے بھجوایا گیا۔مکرم شیخ نور احمد منیر صاحب چند ماہ فلسطین میں خدمات سرانجام دینے کے بعد ستمبر ۱۹۴۶ء مین شام آ گئے اور جماعت ِ احمدیہ شام کو بیدار کرنے کے علاوہ اونچے طبقہ تک احمدیت کا پیغام پہنچاتے رہے۔مکرم مولانا شیخ نور احمد صاحب منیر نے ۱۹۵۷ء تک اور مکرم مولانا رشید احمد چغتائی صاحب نے ۱۹۵۱ء تک عرب ممالک میں خدمات سر انجام دیں۔
اپریل ۱۹۴۷ء میں جماعت احمدیہ دمشق کے ناظم تبلیغ اور ایک بزرگ احمدی سید محمد علی بک الارناؤط کی وفات ہوئی۔آپ ایک رؤیا کی بنا پر احمدی ہوئے تھے۔اور آپ کی وفات پر وہاں کے اخبارات نے بھی اپنے کالموں میں آپ کی دینی اور ملی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا اور فلسطین خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گیا۔احمدیوں کی اکثریت کبابیر میں موجود تھی۔کبابیر باقی ملک سے کٹ گیا۔پھر ایک وقت یہ حالت ہوئی کہ سوائے تین کے کبابیر کے تمام احمدی دمشق میںآ گئے۔جماعت کی طرف سے ان کی مشکلات کم کرنے اور ان کی اعانت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔(۱)
اس دور میں شام کے اخبارات میں احمدیت کے متعلق مضامیں شائع ہوتے رہتے تھے۔جب حضور ؓ نے اسرائیل کے قیام پر الکفر ملۃ واحدۃ تحریر فرمائی اور اسے شائع کیا گیا تو شام کے اخبارات نے حضورؓ کی بیان فرمودہ تجاویز کو مستحسن قرار دیا۔اور ان تجاویز پر نوٹ شائع کئے۔مکرم منیر الحصنی صاحب نے مودودی صاحب کی کتاب قادیانی مسئلہ کا عربی میں جواب المودودی فی المیزان شائع کی۔اس سے مولویوں کی مخالفت میں اضافہ ہو گیا۔یہ کتاب مختلف ممالک کو بھجوائی گئی۔دمشق کے علماء نے حکومت کو درخواست دی کہ جماعت احمدیہ منظم ہے اور یہ چندہ جمع کرتے ہیں ۔اس لئے انہیں خلافِ قانون قرار دیا جائے۔اور مفتیِ جمہوریہ نے فتویٰ دیا کہ اب کوئی خلیفہ نہیں ہو سکتا
اور احمدی ایک خلیفہ کی بیعت کرتے ہیں اور یہ نا جائز ہے۔اس دباؤ کے تحت شام کی حکومت نے جماعتِ احمدیہ کے خلاف فیصلہ دے کر جماعت پر پابندیا لگا دیں۔
سفرِ یورپ پر جاتے ہوئے ،حضور کے دمشق میں قیام کرنے کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔۱۹۵۶ء میں مکرم حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کچھ عرصہ کے لئے ذاتی طور پر دمشق آئے اور صدر جمہوریہ سمیت متعدد اہم شخصیات سے ملاقات کی۔۱۹۵۷ء میں اسماعیلی احباب میں تبلیغ کرنے کے سلسلے میں کچھ کام ہؤا اور چند اسماعیلی احباب بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی زبان میں ترجمہ کیا تھا۔دمشق کی جماعت نے یہ ترجمہ الخطاب الجلیل کے نام سے شائع کیا۔
جب مودودی صاحب نے شام کا دورہ کیا تو جماعت ِ احمدیہ کے خلاف ایک منصوبہ تیار کیا گیا اور شام کی حکومت نے جماعت کے دمشق میں مرکز الزاویہ کو سر بمہر کر دیا۔اور علماء کے زیرِ اثر حکومت نے احمدیوں کو مختلف حیلوں اور بہانوں سے تنگ کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔شام سے کچھ مخالفین لبنان جا کر بھی احمدیوں کے خلاف فتنہ انگیزی کرتے رہے۔لیکن جماعتِ احمدیہ شام یہ ابتلاء بڑی ہمت سے برداشت کرتی رہی۔(۲)
(۱) الفضل ۱۷ ستمبر ۱۹۴۸ء
(۲)تاریخ شام مشن مرتب کردہ وکالتِ تبشیر ربوہ
مصر:
جس دور کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس میں مصر میں تبلیغ پر سخت پابندیاں تھیں اور یہ کہنا درست ہو گا کہ وہاں پر پبلک میں تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔چنانچہ یہاں پر تبلیغ نجی ملاقاتوں اور پرائیویٹ اجتماعات تک ہی محدود تھی۔۱۹۴۰ء میں مکرم مولوی محمد دین صاحب مبلغ البانیہ گئے اور آپ نے کچھ عرصہ وہاں پر قیام کیا۔مصر میں ایک مختصر سی جماعت قائم تھی ۔وہاں پر کوئی مبلغ نہیں تھا لیکن مکرم چوہدری شریف صاحب جن کا ہیڈ کوارٹر حیفا میں تھا تمام بلادِ عربیہ میں مشن کے انچارج تھے۔۱۹۴۴ء میں آپ مصر کی جماعت کی خواہش پر وہاں تربیتی دورے پر گئے۔آپ وہاں پر تقریباََدو ماہ مقیم رہے اور جماعت کے عہدیداروں کا انتخاب کرایا اور جماعت کے ساتھ تربیتی نشستیں ہوئیں۔ اس موقع پر چند احباب بیعت کرکے سلسلہ میں داخل ہوئے۔اس موقع پر ایک بلند پایہ ازہری عالم سے آپ کا مناظرہ بھی ہؤا۔پہلے تو یہ صاحب مصر ہوئے کہ وہ وفاتِ مسیح کی بجائے ختمِ نبوت پر مناظرہ کریں گے۔جب دلائل کا تبادلہ ہؤا تو جلد ہی عاجز آگئے۔اور نہ صر ف اقرار کیا بلکہ لکھ کر بھی دیا کہ عقلی طور پر اس آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آئیندہ بھی نبی آ سکتے ہیں۔اُس وقت ایک مخلص دوست مکرم عبد العزیز سیالکوٹی صاحب بھی چار سال سے مصر میں مقیم تھے۔آپ کو خدمتِ سلسلہ کے لئے ایک غیر معمولی جوش عطا کیاگیا تھا۔انہوں نے ایک مصری صاحب کی مدد کے ساتھ حضرت مصلح موعود ؓکے لیکچر سیر ِ روحانی اور ملائکۃ اللہ کے عربی میں تراجم تیار کروائے۔(۱)
جماعت کے بعض علماء تحصیل ِ علم کے لئے مصر جاتے رہے اور ساتھ جماعت سے بھی رابطہ رکھتے رہے۔چنانچہ ۱۹۵۶ء میں مکرم قریشی نورالحق تنویر صاحب نے بطور طالب علم قاہرہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ڈیڑھ سال وہاں پر مقیم رہے۔اسی طرح مکرم مبارک احمد صاحب بھی حصولِ تعلیم کے لئے مصر گئے۔(۲)
(۱) الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۴۴ء ص۵
(۲) تاریخ مصر مشن مرتب کردہ وکالت تبشیر ربوہ
سورینام:
یہاں پر جماعت کے مبلغین کی آمد سے قبل غیر مبایعین کا لٹریچر پہنچ چکا تھا۔اور بہت سے لوگوں کو وفاتِ مسیح اور حضرت مسیح موعود ؑ کی آمد کی خبر مل گئی تھی۔ان میں سے بعض نے ایک انجمن بھی قائم کی تھی جس کا نام Surinam Islamitch Verantaing تھا۔یہ لوگ حضرت مسیح موعود ؑ کو ایک بزرگ سمجھتے تھے لیکن نہ آپ کے صحیح مقام کے قائل تھے اور نہ ہی خلافت یا کسی بھی مرکزی ادارے کے تحت قائم کرنے کے لئے تیار تھے۔
۱۹۵۳ء میں مکرم مولوی محمد اسحٰق ساقی صاحب اور ٹرینیڈاد کے ایک دوست نے سرینام کا دورہ کیا اور جماعت کو وہاں پر متعارف کرایا۔سورینام میں باقاعدہ مشن مکرم رشید احمد اسحاق صاحب نے شروع کیا ۔ان کے ساتھ ٹرینیڈاڈ کے مبلغ مکرم مولوی محمد اسحاق صاحب ساقی بھی آئے تھے۔شروع میں ان کا قیام ایک مقامی دوست عبد الغفور جمن بخشن صاحب کے گھر میں رہا۔نومبر ۱۹۵۶ء میں مذکورہ بالا انجمن کے دو صد افراد نے جماعتِ احمدہی مبایعین میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ اور مزید لوگ بیعت کر کے جماعت میں داخل ہونے لگے۔سورینام میں پہلے احمدی مکرم عبدالعزیز صاحب صاحب جمن بخش تھے جو مکرم عبد الغفور جمن بخش کے صاحبزادے تھے ۔اور انہوں نے ۱۹۵۴ء سے ۱۹۵۸ء تک جامعہ احمدیہ ربوہ میں تعلیم حاصل کی اور اسی قیام کے دوران ۱۹۵۵ء میں بیعت بھی کی۔اس کے بعد آپ کو سورینام میں ہی مبلغ مقرر کیا گیا۔جہاں آپ نے ۱۹۶۲ء تک بطور مبلغ کام کیا۔
یہاں پر جہاں جہاں کچھ لوگ احمدیت قبول کرتے وہاں پر ایک سینٹر بن جاتا اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک سینٹر بنا دیا جاتا۔ان مقامات میں سے قابلِ ذکرسارون،پارا ہپی سینٹر، ھنسو، کنڈال ، افرام سخین قابلِ ذکر ہیں۔۱۹۶۲ء میں مرکزی مبلغ نہ ہونے ی وجہ سے سورینام کو گی آنا مشن کے ماتحت کر دیا گیا اور اس طرح اس نئی جماعت کو ضعف پہنچا اور ان میں سے کئی کا رابطہ جماعت سے منقطع ہو گیا۔مگر ان میںسے تین خاندان یعنی بید اللہ صاحب کا خاندان بالخصوص آپ کی اہلیہ نصیرہ صاحبہ،محمود عبد المطلب صاحب کا خاندان اور محمد اسحاق صاحب کا خاندان بہت ثابت قدم رہے۔انہوں نے یہاں پر جماعت کو قائم رکھنے کیلئے اور اسے ترقی دینے کے لئے بہت قربانیاں کیں اور مخالفت برداشت کی اور یہاں پر مسجد ناصر اور مشن ہاؤس بنانے میں کامیاب ہو گئے۔اس دوران کچھ مبلغین دوروں پر سورینام آتے رہے۔یہاں تک ۱۹۷۳ء میں مرکز نے دوبارہ مبلغ بھجوا کر اس مشن کا اجرا کیا۔

تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا
وفات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ
جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کی صحت کچھ سالوں سے مسلسل خراب رہ رہی تھی۔ اور اس وجہ سے حضور ؓ نماز پڑھانے اور خطبات دینے کے لئے تشریف نہیں لا سکتے تھے۔ا للہ تعالیٰ کے حضورؓ عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ علاج معالجہ کی ہر ممکن کوششیں جاری رہیں ۔اگر افاقہ ہوتا بھی تھا تو وقتی ہوتا۔
اکتوبر۱۹۶۵ء کے آ خری دنوں میں حضورؓ کو بخار کی شکایت شروع ہو گئی۔ضعف کے علاوہ غنودگی بھی شروع ہو جاتی ۔لمبی علالت کے باعث جسم پر زخم تھے ،جو اس وقت مندمل ہوتے معلوم ہوتے تھے۔خون کے ٹسٹ میں انفکشن کی علامات پائی گئیں۔لاہور سے ایک ماہر ڈاکٹر صادق حسن صاحب نے ربوہ آ کر حضورؓ کا معائنہ فرمایا ۔پہلے کی طرح حضورؓ کے صاحبزادے مکرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب حضور ؓ کے علاج میں روز و شب مصروف تھے۔(۱)۳۰ اکتوبر کو خون کے ٹسٹ بلڈ کلچر کے نتیجے سے معلوم ہؤا کہ حضورؓ کو Staphylococciکی انفکشن ہے۔ پہلے پھوڑوں کے ٹسٹ میں یہی جراثیم نکلے تھے۔ Sensitivityٹسٹ سے جو دوائیں اس جرثومہ کے لئے مفید پائی گئیں وہ شروع کر دی گئیں۔یہ جراثیم بہت سخت قسم کے ہوتے ہیں اور اس وقت مہیا ادویات اس پر دیر سے اثر کرتی تھیں(۲)یکم نومبر سے بخار کم ہو گیا ۱۰۰ درجہ فارن ہائٹ سے کم رہنے لگا ،مگر ۴ نومبر کوخون کے ٹسٹ پر یہ قابلِ فکر بات سامنے آئی کہ ابھی انفیکشن موجود ہے۔ (۳)۴؍نومبر کی رات کو لاہور سے ڈاکٹروں کا ایک بورڈآیا جس میں مکرم ڈاکٹر مسعود احمد صاحب ، ڈاکٹر عبد الرؤف صاحب ،ڈاکٹر رستم نبی صاحب اورڈاکٹر عشرت صاحب شامل تھے ۔بورڈ نے حضور ؓ کا معائنہ کیا اور ECGاور ایکس رے لے کر رائے دی کہ دل اور سینہ پر کوئی اثر معلوم نہیں ہوتا۔ اگلے روز حضور کو تھوڑی دیر حرارت ہوئی۔مگر ضعف اور سانس کی تکلیف رہی۔(۴)۶ نومبر کو حضورؓ کی طبیعت پھر خراب ہونی شروع ہوئی۔کھانسی شروع ہونے کے علاوہ ضعف میں اضافہ ہو گیا اور پسینے آنے لگے۔سانس کی تکلیف بھی پہلے کی طرح برقرار تھی۔نبض میں Extrasystoleکی وجہ سے بے ترتیبی پیدا ہو گئی۔(۵) لاہور سے آئے ہوئے ڈاکٹر مسعود احمد صاحب اور ڈاکٹر صادق حسن صاحب اور کراچی سے آئے ہوئے ڈاکٹر ذکی حسن صاحب نے حضورؓ کا معائنہ کیا اور رائے دی کہ حضور کی حالت گذشتہ چوبیس گھنٹے میں بہت تشویشناک ہو گئی ہے اور دل اور سینہ پر بھی جراثیم کے Toxinsکا اثر ہے۔ملک کی معروف پتھالوجسٹ محترمہ ڈاکٹر زینت حسن صاحبہ نے خون کا معائنہ کیا اور اس بات کی تصدیق کی کہ خون میں انفکشن بہت بڑھ گئی ہے۔۷ نومبر کی صبح ساڑھے نو بجے الفضل کے ضمیمہ میں مکرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کا اعلان شائع ہؤا ،جس کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مصرعہ درج تھا
حیلے سب جاتے رہے اک حضرت ِ توّاب ہے
ریڈیو پاکستان پر بار بار آپ کی علالت کی خبر نشر ہو رہی تھی۔اور آپ کے عشاق بڑی تعداد میں دعائیں کرتے ہوئے ربوہ پہنچ رہے تھے۔
۸ نومبر کی شام تک آپ کی طبیعت بہت خراب ہو چکی تھی۔آکسیجن لگی ہوئی تھی۔سینے سے بار بار رطوبت نکالنے کی ضرورت پیش آ تی تھی۔مکرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ،لاہور کے احمدی ڈاکٹر مکرم مسعود احمد صاحب اور کراچی سے آئے ہوئے مکرم ڈاکٹر ذکی حسن صاحب علاج میں مصروف تھے۔ اُس وقت دلوں کی کیا کیفیت تھی اس کا نقشہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے ان الفاظ میں کھینچا ہے۔
’خاندان کے بڑے چھوٹے سبھی کے دل اندیشوں کی آ ماجگاہ بنے ہوئے تھے تا ہم زبان پر کوئی کلمہ بے صبری کا نہ تھا اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا تھا۔اندیشے دھوئیں کی طرح آتے اور جاتے تھے۔توکل علی اللہ اور نیک امید غیر متزلزل چٹان کی طرح قائم تھے۔ وہ جو صاحبِ تجربہ نہیں شاید اس بظاہر متضاد کیفیت کو نہ سمجھ سکیں لیکن وہ صاحبِ تجربہ جو اپنے رب کی قضاء کے اشاروں کو سمجھنے کے با وجود اُس کی رحمت سے کبھی مایوس ہونا نہیں جانتے میرے اس بیان کو بخوبی سمجھ جائیں گے۔پس افکار کے دھوئیں میں گھری ہوئی ایک امید کی شمع ہر دل میں روشن تھی اور آخر تک روشن رہی تا ہم کبھی کبھی یہ فکر کا دھؤاں دم گھونٹنے لگتا تھا ۔دعائیں سب ہونٹوں پر جاری تھیں اور ہر دل اپنے رب کے حضور سجدہ ریز تھا۔حضور ؓ پر کبھی غنودگی طاری ہوتی تو کبھی پوری ہوش کے ساتھ آنکھیں کھول لیتے اور اپنی عیادت کرنے والوں پر نظر فرماتے ۔ایک مرتبہ بڑی خفیف آ واز میں برادرم مرزاڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کو بھی طلب فرمایا ۔لیکن جیسا کہ مقدر تھا رفتہ رفتہ یہ غنودگی کی کیفیت ہوش کے وقفوں پر غالب آنے لگی اور جوں جوں رات بھیگتی گئی غنودگی بڑھتی گئی ۔اس وقت بھی گو ہماری تشویش بہت بڑھ گئی تھی لیکن یہ تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ حضور ؓ کی یہ آخری رات ہے جو آپ ہمارے درمیان گذار رہے ہیں۔‘(۶)
تقریباََ نصف شب گذرنے کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کی طبیعت تیزی سے خراب ہونے لگی۔ اس وقت حضورؓ کے کمرے میں بہت سے عزیز مجسم دعا بنے ہوئے کھڑے تھے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں۔
’حضرت سیدہ امِ متین اور سیدہ مہر آپا بائیں جانب سرہانے کی طرف اداسی کے مجسمے بنی ہوئی پٹی کے ساتھ لگی بیٹھی تھیں۔برادرم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب دائیں طرف سرہانے کے قریب کھڑے تھے اور حضرت بڑی پھوپی جان اور حضرت چھوٹی پھوپی جان بھی چارپائی کے پہلو میں ہی کھڑی تھیں۔ میرے باقی تمام بھائی اور بہنیں جو بھی ربوہ میں موجود تھے سب وہیں تھے اور باقی اعزاء و اقرباء بھی سب ارد گرد اکھٹے تھے۔ سب کے ہونٹوں پر دعائیں تھیںاور سب کی نظریں اس مقدس چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ سانس کی رفتار تیز تھی اور پوری بیہوشی طاری تھی ۔چہرے پر کسی قسم کی تکلیف یا جد و جہد کے آثار نہ تھے۔میں نے کسی بیمار کا چہرہ اتنا پیارا اور معصوم نظر آتا ہؤا نہیں دیکھا(۶)
حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمدصاحب نے سورۃ یٰسین کی تلاوت شروع کی۔(۶۔۷)۔ارد گرد موجود مرد و خواتین مسنون دعاؤں میں مشغول تھے۔ حضورؓ نے ایک لمبی اور گہری سانس لی اور یوں معلوم ہؤا کہ یہ آپ کا آ خری سانس ہے ۔پھرایسا معلوم ہؤا کہ آپ کا سانس رک گیا ہے۔مگر پھر سانس کی خفیف حرکت شروع ہوئی اور سانس گہرے ہوتے گئے۔ہر طرف سے یا حیّ یا قیّوم کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔مگر خدائی تقدیر کے ظاہر ہونے کا وقت آ گیا تھا اس کے بیس منٹ کے بعد ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کی صبح ۲ بج کر ۲۰ منٹ پر آپ کو اپنے مولا کا بلاوا آ گیا اور آپ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔
آپ کی پیدائش سے قبل ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک عظیم بیٹے کی بشارت دی گئی تھی۔ایک عالم گواہ بنا کہ اس پیشگوئی کے تمام حصے آپ کی جلیل القدر زندگی پر صادق آئے ۔جس طرح آپ کی مبارک زندگی کا یہ مقام تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مامور سے ایک پیشگوئی کی صورت میں اس کا اعلان کروایا ۔اور آپ کی ستتر سال کی عمر کا ایک ایک لمحہ اس پیشگوئی کی صداقت کا گواہ ہے۔اسی طرح آپ کی وفات دنیا کی تاریخ کا ایک ایسا اہم واقعہ تھی کہ اس پیشگوئی میں آپ کے متعلق تمام بشارات بیان کرنے کے بعد یہ الفاظ آتے ہیں۔
’تب وہ اپنے نفسی نقطہ آ سمان کی طرف اُٹھایا جائے گا ۔و َ کَانَ اَمََرامَّقضِیََّا۔‘
۷ اور ۸ نومبر کی درمیانی شب کو اس اٹل لمحے کا وقت آن پہنچا تھا جس کی خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ۱۸۸۶ء میں دی گئی تھی۔سب نظریں اپنے پیارے امام کے مقدس چہرے کی طرف لگی ہوئی تھیں۔دل غم سے بھرے ہوئے تھے اور آ نکھوں سے آنسو رواں تھے۔شدت غم کی وجہ سے کسی کی سسکی بلند ہو گئی تو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے جوش سے فرمایا کہ ابتلا ہے ،دعاؤں کا وقت ہے، خاموش رہو۔ ایسے موقع پر جب بڑے بڑے بلند حوصلہ مردوں کے دل لرزاں ہوتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس عظیم اور مبشر بیٹی کی آواز میں حوصلہ اتنا نمایاں تھا کہ غیر از جماعت ڈاکٹرصاحب بھی حیران ہو گئے اور بعد میں بھی اُن کے بلند حوصلے کا حیرت سے ذکر کرتے۔ ستاون سال قبل ۲۶ مئی کی صبح محشر آ فریں کو جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہؤا تھا تو پوری جماعت کو ایسا لگ رہا تھا جیسے دنیا اندھیرہو گئی ہے۔سب یتیم ہو گئے ہیں۔ہر طرف سے ابتلاؤں کے طوفان نے گھیرے میں لے لیا ہے۔کئی دوستوں نے اپنے جذبات کے طوفان کو روکا ہؤا تھا اور کئی بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہے تھے ۔باہر بہت سے کمینہ خصلت دشمن خوشیاں منا رہے تھے، فرضی جنازے نکال رہے تھے۔اُس وقت حضرت مصلح موعودؓ کی عمر صرف انیس سال تھی۔ اس نازک موقع پر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جنازے پر کھڑے ہو کر عہد کیا کہ اگر ساری دنیا بھی آپ کے پیغام کو چھوڑ دے تو بھی میں آپ کے مشن کی تکمیل کے لئے کام کرتا رہوں گا۔یہ ایک نوجوان کے وقتی جذبات نہیں تھے ۔بعد میں آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس بات کا گواہ ہے کہ آپ نے اپنا عہد سچ کر دکھایا ۔آج پچاس سال سے زائد مظفر و کامران خلافت کے بعد یہ پاک روح اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو چکی تھی۔کتنے ہی دلوں میں آپ کے اُس عظیم عہد کے الفاظ گونج رہے تھے۔اِس نازک موقع پر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے سب کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے آپ کی نعشِ مبارک کے پاس کھڑے ہوئے کہا کہ آج ہم وہی عہد دہراتے ہیں جو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت کیا تھا۔(۸)
(۱)الفضل۳۰ اکتوبر ۱۹۶۵ء ص۱
(۲)الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۶۵ء ص ۱
(۳)الفضل ۵ نومبر ۱۹۶۵ء ص ۱
(۴) الفضل ۶ نومبر ۱۹۶۵ء ص ۱
(۵)الفضل ۷ نومبر ۱۹۶۵ء ص ۱
(۶) الفرقان ،فضلِ عمر نمبر ص ۱۱،۱۲
(۷) روایت صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب
(۸) روایت صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب

انتخابِ خلافت ثالثہ
خوف کی حالت امن میں بدلی جاتی ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی علالت کی خبر سن کر احباب کثیر تعداد میں ربوہ پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔ ۸ نومبر کو ریڈیو پر حضورؓ کے وصال کی خبر سن کر یا جماعت کے ذریعہ حضور ؓکی وفات کی خبر ملنے پر احباب و خواتین ہزاروں کی تعداد میں مرکز آنا شروع ہو گئے ۔۸ نومبر کو جب حضور کا وصال ہؤا تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ مسجد مبارک میں جمع ہو گئے۔فجر کی نماز میں ابھی کچھ گھنٹے باقی تھے۔ احباب نوافل ادا کرنے اور اپنے رب کے حضورؓ دعائیں کرنے میں مشغول ہو گئے۔مسجد میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔
ہر شخص غم و اندوہ کی تصویر بنا ہؤا تھا۔حضرت مصلح موعود کا دورِ خلافت ۵۲ سالوںپر محیط تھا۔ احمدیوں کی اکثریت نے جب ہوش سنبھالی تھی یا جب بیعت کی تھی،اُس وقت سے انہوں نے آپ کے با برکت وجود کو مسندِ خلافت پر دیکھا تھا ۔آپ ؓ کے روح پرور کلمات کو سن کر ان کے دل تسکین پاتے تھے اور آپ کا نورانی چہرہ دیکھ کر ان کی آ نکھیں ٹھنڈی ہو تی تھیں۔دنیا بھر کے احمدی جہاں کہیں بھی بستے ہوں یہ جانتے تھے کہ جب وہ سو رہے ہوتے ہیں تو ان کا امام جاگ کر ان کے لئے دعائیں کر رہا ہوتا ہے۔وہ غافل ہوتے ہیں تو وہ ڈھال بن کر اُن کی حفاظت کر رہا ہوتا ہے ۔ خواہ ذاتی مشکل ہو یا جماعتی ابتلاء ہو ان کی نظریں راہنمائی کے لئے حضرت مصلح موعود کی طرف اُٹھتی تھیں۔ ہزاروں نہیں لاکھوں ایسے تھے کہ وہ آپ کے دورِ خلافت میں پیدا ہوئے،آپ کے دورِ خلافت میں ہی اُ ن کی جوانی کا دور گذرا اور آپ کے دورِ خلافت میں ہی وہ بڑھاپے میں بھی پہنچ گئے۔لیکن خدا کے سوا ہر چیز فانی ہے۔یہ اٹل تقدیر ہے کہ محبوب ترین اور مقدس ترین ہستیاں بھی ایک دن دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں۔۷ اور ۸ نومبر کی درمیانی شب کو جب حضرت مصلح موعود کا وصال ہؤا تواشکبار آ نکھیں تو غیروں کو بھی نظر آ رہی تھیں لیکن جو عظیم خلا ہر احمدی کے دل میں تھا اسے نہ دیکھا جا سکتا تھا نہ لفظوں میںبیان کیا جا سکتا تھا صرف محسوس کیا جا سکتا تھا۔
جب فجر کی نماز کا وقت ہؤا تو نماز پڑھانے سے قبل مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ایک مختصر خطاب کرتے ہوئے احباب کو بکثرت دعائیں کرنے کی تحریک کی۔آپ نے فرمایا خداتعالیٰ کا محبوب بندہ محمود( رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اپنے پیارے آ قا سے جا ملا۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ خدمتِ اسلام کے لئے وقف رکھا۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی حضورؓ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف رکھیں اور دنیا میں اسلام کو سر بلند کرنے کے لئے قربانیاں پیش کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھیں۔ان ایام میں ہمیںخصوصیت سے بکثرت استغفار کرنی چاہئیے اور خاص طور پر سورۃ فاتحہ کو کثرت سے پڑھنا چاہئیے ۔اُ س وقت حاضرین پر خاص رقت کا عالم طاری تھا۔ نمازفجر شروع ہوئی تو رکوع کے بعد قیام اور سجدوں کے دوران احباب نے بہت گریہ و زاری سے دعائیں کیں۔ ہچکیوں اور سسکیوں کی دردناک آ وازوں سے مسجد گونج رہی تھی۔
حضرت مصلح موعودؒ کی شخصیت کو وہ لوگ بھی خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے جو آپ کی بیعت میں شامل نہیں تھے ۔جب اگلے روز ملکی اخبارات میں آپ کی وفات کی خبریں شائع ہوئیں توغیر بھی آپ کے کارناموں کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے۔چنانچہ روزنامہ جنگ نے ان الفاظ میں آپ کی وفات کی خبر شائع کی
’احمدی فرقہ کے مذہبی پیشوا مرزا بشیر الدین محمود احمد کل رات سوا بارہ بجے ربوہ میں انتقال کر گئے۔وہ گزشتہ تین ہفتوں سے بیمار تھے۔انکی عمر ستتر سال تھی۔انہیں کل صبح ربوہ میں دفن کیا جائے گا۔تمام دنیا میں مرحوم کے تیس لاکھ معتقدین ہیں اور ان کے مبلغوں اور داعیوں کا جال بچھا ہؤا ہے۔پاکستان کے کونہ کونہ اور دنیا کے مختلف حصوں سے احمدی اپنے مرحوم رہنما کی تجہیز و تکفین میں شرکت کیلئے بڑی تعداد میں ربوہ پہنچ رہے ہیں۔ان کی تدفین سے پہلے فرقہ کے نئے رہنما کے نام کا اعلان کیا جائے گا۔اس مقصد کے لئے احمدیوں کی مجلسِ انتخاب کا اجلاس شروع ہو گیا ہے ۔ مرزا بشیر الدین محمود نے جو ۱۹۱۴ئ؁ء میں اپنے فرقہ کے خلیفہ منتخب کئے گئے تھے بڑی پُر مشقت زندگی گزاری۔انہوں نے یورپ ،امریکہ اور افریقہ میں خاص طور پر زبر دست تبلیغی مساعی کیںاور اس مقصد کیلئے دو بار مغربی ممالک کا دورہ بھی کیا۔احمدیہ تبلیغی وفود کو افریقہ کے مغربی ساحل پر واقع ممالک میں خاصی کامیابی بھی ہوئی۔مرزا صاحب نے اپنی یادگار کے طور پر خاص مذہبی لٹریچر چھوڑا ہے۔انہوں نے سیاسی تحریکوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ ۱۹۲۲ئ؁ء میں انہوں نے یو پی میں آریہ سماجیوں کی شدھی سنگھٹن تحریک کامقابلہ کیا اور ۱۹۳۱ئ؁ء میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی قیادت کی اور ۱۹۴۸ئ؁ء میں تحریکِ آزادی کشمیر میں حصہ لینے کیلئے احمدیہ رضاکاروں کی ایک بٹالین کی خدمات حکومت کو پیش کیں ۔۔۔‘(۱)
مشہور کالم نگار م ش صاحب نے اخبار نوائے وقت میں ان الفاظ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو خراجِ تحسین پیش کیا
’مرزا بشیر الدین محمود احمد نے ۴ا۱۹ء میںخلافت کی گدی پر متمکن ہونے کے بعد جس طرح اپنی جماعت کی تنظیم کی اور جس طرح صدرانجمن کو ایک فعال اور جاندار ادارہ بنایا اس سے ان کی بے پناہ تنظیمی قوت کا پتہ چلتا ہے ۔اگرچہ ان کے پاس کسی یونیورسٹی کی ڈگری نہیں تھی لیکن انہوں نے پرائیویٹ طور پر مطالعہ کر کے اپنے آپ کو واقعی علامہ کہلانے کا مستحق بنا لیا تھا ۔انہوں نے ایک دفعہ ایک انٹرویو میںمجھے بتایا تھا کہ میںنے انگریزی کی مہارت ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ ‘‘ کے باقاعدہ مطالعہ سے حاصل کی ۔ان کے ارشاد کے مطابق جب تک یہ اخبار خواجہ نذیر احمد کے دورِ ملکیت میں بند نہیں ہو گیا انہوںنے اس کا باقاعدہ مطالعہ جاری رکھا ۔۔۔۔۔
مرزا صاحب ایک نہایت سلجھے ہوئے مقرر اور منجھے ہوئے نثر نگار تھے۔اور ہر ایک اس موقع کو بے دریغ استعمال کرتے تھے جس سے جماعت کی ترقی کی راہیں کھلتی ہوں ۔ جماعتی نقطہ نگاہ سے ان کا یہ ایک بڑا کارنامہ تھا کہ تقسیمِ برِ صغیر کے بعد جب قادیان ان سے چھن گیا تو تو انھوں نے ربوہ میں دوسرا مرکز قائم کرلیا ۔۔۔‘(۲)
غسل،تجہیز و تکفین اور چہرہ مبارک کی آ خری زیارت:
نمازِ فجر کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے جسدِ خاکی کو غسل دیا گیا۔حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ؓ ناظرِ اعلیٰ ، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ؓ،حضرت صوفی غلام محمد صاحب ؓ ناظر بیت المال ، مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح و ارشاد،مکرم سید عبد الرزاق شاہ صاحب، مکرم مولانا عبد المالک خان صاحب،مکرم مولانا محمد احمد صاحب جلیل نے غسل دیا ۔حضورؓ کی وفات جس کمرے میں ہوئی تھی وہ دوسری منزل پر تھا۔تجہیزو تکفین کے بعد جنازے کو نچلی منزل پر منتقل کیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں احباب حضور کے چہرے کی آ خری زیارت کے لئے تڑپ رہے تھے ۔ چنانچہ چہرہ کی زیارت کے سلسلے کو جلد شروع کر دیا گیاتا کہ کوئی بھی اپنے آقا کی آ خری زیارت سے محروم نہ رہ جائے۔احباب اور خواتین لمبی قطاروں میں تحمل سے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ زیارت کے خواہش مند احباب کی قطار قصرِ خلافت سے ہوتی ہوئی باہر سڑک پر دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ باہر سے پہنچنے والے ان قطاروں میں شامل ہو جاتے ۔(۳)
حضرت مصلح موعود کا ایک اہم کارنامہ جماعت کو انتخابِ خلافت کا نظام دینا تھا۔اور ان قواعد کی رو سے استثنائی صورتِ حال کے علاوہ یہ انتخاب چوبیس گھنٹے کے اندر ہونا چاہئیے تھا۔حسبِ قواعد آپ کی وفات کے معاََ بعدناظرِ اعلیٰ حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ؓ اور پرائیویٹ سیکریٹری مکرم عبد الرحمن انور صاحب کی طرف مندرجہ ذیل اعلان الفضل میں شائع کیا گیا اور ممبرن مجلسِ انتخابِ خلافت کو بھی اس کی اطلاع کی گئی۔

اجلاس مجلس انتخاب ِ خلافت
بموجب ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود ؓ
برموقع مجلسِ مشاورت ۱۹۵۷ئ؁ء ص۱۱
مجلسِ انتخابِ خلافت کا اجلاس انشاء اللہ تعالیٰ آج بتاریخ ۸ نومبر ۶۵؁ء بروز پیر بوقت ۲/۱ ۷بجے بعد نماز عشاء مسجد مبارک ربوہ میں منعقد ہو گا ۔جملہ ممبرانِ مجلسِ انتخابِ خلافت کی خدمت میں عرض ہے کہ مہربانی فرما کر نمازِ عشاء مسجد مبارک ربوہ میں ادا فرمائیں جو ٹھیک سات بجے ہوتی ہے ۔ اس کے بعد صرف ممبر صاحبان ہی مسجد میں تشریف رکھیں اور اجلاس کی کاروائی میں شامل ہوں۔‘
عبد الرحمن انور مرزا عزیز احمد
سیکریٹری مجلسِ شوریٰ ناظرِ اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان
۶۵/ ۱۱/۸ ۶۵/ ۱۱/۸ (۴)
۸ نومبر کی رات ہزاروں احمدی عشاء کی نماز ادا کرنے کے لئے مسجد مبارک میں موجود تھے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد محترم مولانا جلال الدین شمس صاحب نے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا جماعت کے نام ایک پیغام پڑھ کر سنایا۔اس میں آپ نے تحریر فرمایا
’آج ہمارا محبوب آقا جو رحمت کا نشان تھا رحمت بن کرآیا رحمت بن کر رہا اور عالم کے گوشے گوشے میں جس کے دورانِ خلافت میںاس کی کوشش سے رحمت للعالمین کا جھنڈا گاڑا گیا سلامتی کا پیام پہنچایا گیا وہ مصلح موعود خلیفہ ہم سے جدا ہو کر اپنے پیارے اللہ تعالیٰ کے حضور میں سرخرو ہو کر حاضر ہو گیا۔انّا للّہ و انّا الیہ راجعون ۔
ہمارے دل غم سے بھر گئے ہیں۔یہ جدائی برداشت سے باہر نظر آ تی ہے مگر یہ نازک وقت رونے سے بڑھ کر دعاؤں کا وقت ہے۔جماعتِ احمدیہ کے لئے یہ تیسرا زلزلہ ہے جو بوجہ کثرتِ جماعت اور قلتِ صحابہ کے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چہرہ دیکھا اور صحبت اُ ٹھائی تھی بہت بڑا ہے ۔کیونکہ جب زمانہ گذرتا ہے الہیٰ سلسلہ پھیل جاتا ہے تو بعض کمزوریاں بھی پیدا ہو جاتی ہیںاور اس وقت تو ہر وقت کے ناصح خلیفہ کی لمبی علالت بھی بعض غفلتوں اور کمزوریوں کو بیمار طبائع میں پیدا کرنے کی وجہ بن گئی۔
اس وقت جبکہ آپ سب کے دل درد مند ہیں اور ایک اہم فیصلہ کا وقت ہے ہم سب کو اپنے دکھ بھول کر دعا میں لگ جانا چاہئیے اور صدقِ نیت سے اپنی کمزوریوں کا جائزہ لے کر سچا عہد خدا تعالیٰ سے کرنا چاہئیے کہ ہم اپنے قلوب کو صاف کریں گے اور نیک نمونہ احمدیت کا بننے میں کوشاں رہیں گے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش حضرت خلیفہ اوّل ؓکی تمنا اور اس ہمارے تازہ زخمِ جدائی دے جانیوالے موعود خلیفہ ؓ کی تڑپ تھی۔پس دعا کریں اور بہت دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہم کو پاک کرے جیسا کہ پاک کرنے کا حق ہے ۔ہم فتنوں سے بچیں صادق ہوں اور صادقوں کے ساتھ رہیں خلافت سے وابستہ رہیں ہمیں خدائے کریم و رحیم ایسا بچنے سے بچائے کہ ہم شماتتِ اعداء کا موجب بن جائیں۔۔۔۔۔‘(۵)
اس کے بعد ممبرانِ مجلسِ انتخابِ خلافت مسجد میں ہی رہے اور باقی احباب باہر تشریف لے گئے۔اجلاس کی صدارت حضرت مرزا عزیزاحمدصاحب ؓ نے فرمائی ۔آغاز میں ہر ممبر سے مقرر ہ حلف نامے پر دستخط کئے اور صدر مجلس نے زبانی طور پر بھی حلف لیا ۔تلاوت کے بعد صدر صاحب مجلس نے اجتمائی دعا کروائی اور پھر فرمایا
’ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ آج صبح ۲ بج کر بیس منٹ پر اپنی حقیقی مولیٰ سے جا ملے ہیںانّا للّہ و انّا الیہ راجعون
اب حضور کے بعد جانشینی کا سوال درپیش ہے ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں انتخابِ خلافت کے متعلق ایک ضروری ریزولیشن مجلسِ مشاورت ۱۹۵۷ئ؁ء نے پاس کیا تھا جسے حضور ؓ نے منظور فرماتے ہوئے مجلسِ انتخابِ خلافت مقرر فرما دی تھی ۔جس کے اراکین کی فہرست مطابق ریزولیوشن مرتب کرا کے امراء ِجماعت کو بھجوا دی گئی تھی ۔آپ وہ اراکین مجلسِ انتخابِ خلافت ہیں جن کا کام اپنے حلف کے مطابق جو آپ نے ابھی اُٹھایا ہے نئے خلیفہ کا انتخاب کرنا ہے ۔سواب آپ محض اللہ تعالیٰ کی رضا کو مدّ نظر رکھتے ہوئے جو امانت انتخاب ِ خلیفہ آپ کے سپرد کی گئی ہے اسے پوری دیانت کے ساتھ ادا کریں اور اپنی رائے پیش فرمائیں۔‘
اس کے بعد انتخاب ِ خلافت کرایا گیا اور اراکین کی بہت بھاری اکثریت کی آ راء کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے فرزندِ اکبر حضرت مرزاناصراحمد سلّمہ ربّہ خلیفۃ المسیح الثالث منتخب ہوئے۔ایک خلیفہ کی وفات کے بعد ایک الٰہی جماعت کی جو حالت ہوتی ہے وہ ایک الہیٰ جماعت ہی سمجھ سکتی ہے۔اور جب اس غم واندوہ کی حالت میں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا جلوہ دکھاتا ہے اور ایک اور وجود اُس کی تائید کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو ہر مومن محسوس کرتا ہے کہ اُس کے دل پر آسمان سے تسکین نازل ہو رہی ہے ۔اور جیسا کہ آیتِ استخلاف میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے مومنوں کی خوف کی حالت امن میں بدل دی جاتی ہے۔یہ کیفیت لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتی صرف محسوس کی جاتی ہے۔
اس مرحلہ پر محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے صاحبِ صدر حضرت مرزا عزیز احمد صاحب سے اجازت لے کر جماعتی اتحاد کی برکات اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے انتخاب میں خدائی ہاتھ کا ذکر کرتے ہوئے مختصر تقاریر کیں۔دل مطمئن تھے اور زبانوں پر الحمدُ للّہ کے الفاظ تھے ۔حضرت مصلح موعود ؓ کے مقرر شدہ قواعد کی رو سے بیعت لینے سے پہلے منتخب ہونے والے خلیفہ کے لئے قواعدِ مقررہ کے مطابق ضروری تھا کہ وہ مقررہ حلف اُٹھائے۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے کھڑے ہو کر تشہد اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد رقت بھرے الفاظ میں یہ عہد دہرایا
’میں اللہ تعالیٰ کو حاظر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں خلافتِ احمدیہ پر ایمان لاتا ہوں اور میں ان لوگوں کو جو خلافت احمدیہ کے خلاف ہیں باطل پر سمجھتا ہوں اور میں خلافتِ احمدیہ کو قیامت تک جاری رکھنے کے لئے پوری کوشش کروں گا اور اسلام کی تبلیغ کو کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے انتہائی کوشش کرتا رہوں گا۔اور میں ہر غریب اور امیر احمدی کے حقوق کا خیال رکھوں گا اور قرآن شریف اور حدیث کے علوم کی ترویج کے لیے جماعت کے مردوں اور عورتوں میںذاتی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی کوشاں رہوں گا۔‘
یہ عہد دہرانے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے مجلسِ انتخاب کے ممبران سے خطاب فرمایا۔اس خطاب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے دہرائے جانے والے عہد کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا
’میں بڑا ہی کم علم ہوں ،نا اہل ہوں،مجھ میں کوئی طاقت نہیں،کوئی علم نہیں۔جب میرا نام تجویز کیا گیا تو میں لرز اُٹھا اور میں نے دل میں کہا کہ میری کیا حیثیت ہے ۔پھر ساتھ ہی مجھے یہ بھی خیال آیا کہ ہمارے پیارے امام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں اپنی بہت سی نعمتوں اور برکتوں سے نوازا تھا فرمایا ہے
کرمِ خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
جب ہمارے پیارے امام نے ان الفاظ میں اپنے خدا کو مخاطب فرمایا ہے اور اس کے حضور اپنے آپ کو ’’کرمِ خاکی ‘‘ قرار دیا ہے تو میں تو اس اپنے آپ کو’’ کرمِ خاکی‘‘کہنے والے سے کوئی بھی نسبت نہیں رکھتا۔ْ
لیکن ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ میں بے شک ناچیز ہوں اور ایک بے قیمت مٹی کی حیثیت رکھتا ہوں لیکن اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ مٹی کو بھی نور بخش سکتا ہے اور اس مٹی میں بھی وہ طاقتیں اور قوتیں بھر سکتا ہے جو کسی کے خیال میں بھی نہیں آ سکتیں۔ وہ اس مٹی میں ایسی چمک دمک پیدا کر سکتا ہے جو سونے اور ہیروں میں نہ ہو۔
غرضیکہ میرے پاس ایسے الفاظ نہیں جس سے میںاپنی کمزوریوں کو بیان کر سکوں۔اس لئے آپ دعاؤں سے میری مدد کریں۔جہاں تک ہو سکے گا میںآپ میں سے ہر ایک کی بھلائی کی کوشش کروں گا۔ اختلاف تو ہم بھائیوں میں بھی ہو سکتا ہے۔لیکن اختلاف کو انشقاق اور تفرقہ اور جماعت میںانتشار کا موجب نہیں بنانا چاہئیے۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ کی وفات کے وقت اور بعد میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے ہر فرد نے یہ عہد کیا تھا کہ ہم جماعت میں تفرقہ پیدا نہیں ہونے دیں گے اور اس کے لئے جو قربانی ہمیں دینی پڑے گی ہم دیں گے۔ یہ ہر گز نہ ہو گا کہ ہم اپنے مفاد کی خاطر جماعت کے مفاد کو قربان کردیں بلکہ بہرصورت ہم جماعت کے مفاد کو مقدم کریں گے۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے بڑی کامیابی عطا فرمائی اور جو کام اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد کیا تھا اسے انہوں نے پوری طرح نبھایا ۔اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو ترقی دیں اور اس میں کمزوری نہ آنے دیں۔اس بارے میں کل ایک دوست نے مجھ سے بات کرنا چاہی تو میں نے کہا میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمارے خاندان میں کوئی فرد اپنے مفاد کے لئے جماعت کے مفاد کو قربان نہیں کر سکتا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کا ہر فرد خدا کا ہے مسیح موعود کا ہے جماعت کا ہے۔ ہماری طرف سے کوئی کمزوری اور فتنہ نہ ہو گا ۔
پس اب خدا تعالیٰ نے جو یہ ذمہ واری میرے کندھوں پر ڈالی ہے اور اس کام کے لئے آپ نے مجھے منتخب کیا ہے ۔میں بہت کمزور انسان ہوں اس لئے آپ کا فرض ہے کہ آپ دعاؤں سے میری مدد کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے توفیق بخشے کہ میں اس ذمہ واری کو پوری طرح ادا کر سکوں اور خدمتِ دین اور اشاعتِ اسلام میں کوئی روک پیدا نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ کام ترقی کرتاچلا جائے۔حتیٰ کہ اسلام دنیا کے تمام ادیانِ باطلہ پر غالب آ جائے۔ ۔۔۔۔‘(۶)
اس خطاب کے بعد وہاں پر موجود اراکینِ مجلسِ انتخابِ خلافت نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی بیعت کا شرف حاصل کیا ۔اُس وقت ۲۰۲ اراکین وہاں پر موجود تھے ،دیگر ۳۵ اراکین پاکستان سے باہر ہونے کے باعث یا علالت کے باعث اجلاس میں شریک نہیں تھے۔(۶) یہ کاروائی ساڑھے دس بجے ختم ہوئی تو مسجد مبارک کے دروازے کھولے گئے اور باہر ہزاروں احمدی بیعت کرنے کے لئے بے تاب تھے۔مسجد کھچا کھچ بھر گئی اور وہاں پر موجود جملہ احبابِ جماعت نے بیعت کی۔ حضرت مصلح موعود ؓکی جدائی پر دل زخمی تھے لیکن اس کے ساتھ دل میں اس بات پر اللہ تعالیٰ کے حضور شکر ادا کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہوئے اور جماعت ایک بار پھر ایک ہاتھ پر جمع ہو گئی۔اسی وقت تمام دنیا میں جماعت کو اس انتخاب کی خبر بھجوائی گئی۔اس کے بعدحضرت خلیفۃ المسیح الثالث مسجد سے قصر خلافت تشریف لائے۔اور ایک بند کمرہ میں تقریباََ ڈیڑھ گھنٹہ دعاؤں میں مشغول رہے ۔اس کے بعد خواتین نے آپ کے دستِ مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی ۔
آپ کا منصبِ خلافت پر فائز ہونا بہت سی پیشگوئیوں کے مطابق تھا جن کا پورا ہونا مقدر تھا۔ اور اس لحاظ سے بھی آپ کا انتخاب مومنوں کے ایمانوں کی تقویت کا باعث بنا ۔بنی اسرائیل کی مقدس روایات کی کتاب طالمود میں یہ پیشگوئی درج تھی کہ مسیح کے بعداس کی بادشاہت اس کے بیٹے اور پھر پوتے کو منتقل ہو گی۔چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موعود بیٹے کے بعد انہی کے بڑے فرزند منصبِ خلافت پر فائز ہوئے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جہاں ایک عظیم المرتبت بیٹے کے متعلق بشارات دی گئی تھیں ۔وہاں آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ آپ کو ایک عظیم پوتا بھی عطا کیا جائے گا۔چنانچہ ۲۶ دسمبر ۱۹۰۵ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہؤا اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَا مِِ نَّا فِلَۃََ لَّکَ نَافِلَہََ مِّن عِندِی (۱۱)یعنی ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جو تیرے لئے نافلہ ہے ۔وہ ہماری طرف سے نافلہ ہے۔ (نافلہ کا ایک مطلب پوتے کے بھی ہیں)۔پھر مارچ ۱۹۰۶ء میں آپ کو الہام ہؤا اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَا مِِ نَّا فِلَۃََ لَّکَ۔(۱۲)اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ’ممکن ہے کہ اس کی یہ تعبیر ہو کہ محمود کے ہاں لڑکا ہو کیونکہ نافلہ پوتے کو بھی کہتے ہیںیا بشارت کسی اور وقت تک موقوف ہو۔‘ پھر حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی تصنیف حقیقۃ الوحی میں ایک لمبا الہام درج فرمایا جس کے ایک حصے کا ترجمہ ہے۔’تو اپنی ایک دور کی نسل دیکھ لے گا ۔ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جس کے ساتھ حق کا ظہور ہو گا ۔گویا آسمان سے خدا اُترے گا ۔ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیںجو تیرا پوتا ہو گا ۔‘جب ستمبر ۱۹۰۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے چھوٹے صاحبزادے مرزامبارک احمد صاحب فوت ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اسی روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماََ بتایا گیا اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامِِ حَلِیمِِ۔(۱۳)پھر اسی سال اکتوبر میںآپ کو خبر دی گئی اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَا مِِ حَلِیمِِ یَنزِلُ مَنزَلَ المُبَارَکِ(۱۴) ؎ ساقیا آمدن عید مبارک بادت یعنی ہم تجھے ایک حلیم لڑکے کی بشارت دیتے ہیں۔وہ مبارک احمد کی شبیہ ہو گا ۔اے ساقی ! عید کا آنا تجھے مبارک ہو۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی پیدائش سے قبل ایک خادمِ دین فرزند کی بشارت دی گئی تھی ۔چنانچہ آپ کی پیدائش سے صرف دو ماہ قبل آپ نے اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا،’مجھے بھی خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہو گا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہو گا ۔‘
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ آپ کو بچپن سے ہی حضرت اُمّ المومنین ؓ نے پالا اور آپ انہی کے پاس رہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الہامات کی وجہ سے حضرت اماں جان ؓآپ کو صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا نعم البدل خیال فرماتیں اور یہ کہا کرتی تھیں کہ یہ تو میرا مبارک ہے۔آپ کی پیدائش سے قبل اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کے متعلق بشارات عطا فرمائی تھیں اور حضرت ام المؤمنین ؓ نے آپ کی پرورش فرمائی۔ اور آج ان تمام پیشگوئیوں کے مطابق آپ کو اللہ تعالیٰ نے منصبِ خلافت پر سرفراز فرمایا ۔
اگلے روز فجر کی نماز کے بعد بہت سے احباب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے دستِ مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی ۔اس بیعت کے بعد آپ نے ایک مختصر خطاب فرمایا۔ آپ نے فرمایا
’یہ وقت الٰہی جماعتوں کے لئے بڑا نازک وقت ہوتا ہے ۔گویا ایک قسم کی قیامت بپا ہو جاتی ہے۔ایسے وقت میںجہاں اپنے گبھرائے ہوئے ہوتے ہیں وہاں اغیار برائی کی امیدیں لئے جماعت کو تک رہے ہوتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ شاید یہ وقت الٰہی جماعت کے انتشار یا اس میں کسی قسم کی کمزوری پیدا ہونے یا اس کے اتحاد اس کے اتفاق اور اس کی باہمی محبت میںرخنہ پڑنے کا ہو ۔لیکن جو سلسلہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے قائم کیا جاتا ہے وہ ایسے نازک دوروں میں موت کا پیام نہیں بلکہ اپنی زندگی کا پیام لے کر آتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ قیادت کا انتظام ایک کندھے سے دوسرے کندھے کی طرف اس لئے نہیں کرتا کہ اس کا ایک بندہ بوڑھا اور کمزور ہو گیا اور وہ اس کو طاقتور اور جوان رکھنے پر قادر نہیں۔کیونکہ ہمارا پیارا مولیٰ ہر شے پر قادر ہے ۔بلکہ اس لئے کہ وہ دنیا پر ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ہر نگاہ میری طرف ہی اُ ٹھنی چاہئیے ۔بندہ بڑ اہو یا چھوٹا آخر بندہ ہی ہے، تمام فیوض کا منبع اور تمام برکات کا حقیقی سرچشمہ میری ہی ذات ہے ۔
یہ توحید کا سبق دلوں میں بٹھانے کے لئے،وہ اپنے ایک بندے کو اپنے پاس بلا لیتا ہے اور ایک دوسرے بندے کو جو دنیا کی نگاہوں میں انتہائی کمزور اور ذلیل اور نا اہل ہوتا ہے کہتا ہے کہ اُ ٹھ اور میرا کام سنبھال ،اپنی کمزوریوں کی طرف نہ دیکھ ،اپنی کم علمی اور جہالت کو نظر انداز کر دے ،ہاں میری طرف دیکھ کہ میںتمام طاقتوں کا مالک ہوں۔ میرے ہی سے امید رکھ اور مجھ پر ہی توکل کر کہ تمام علوم کے سوتے مجھ سے ہی پھوٹتے ہیں، میں وہ ہوں جس نے تیرے آقا کو ایک ہی رات میں چالیس ہزار کے قریب عربی مصادر سکھا دیئے تھے اور میری طاقتوں میں کوئی کمی نہ آئی تھی۔میں وہ ہوں جس نے نہایت نازک حالت میںسے اسلام کو اٹھایا تھا۔اور جب انسان نے اپنی تلوار سے اسے مٹانا چاہا تو میں اس تلوار اور اسلام کے درمیان حائل ہو گیا ۔اُس وقت دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں موجود تھیں لیکن دنیا کی کوئی طاقت خواہ کتنی ہی بڑی تھی اسلام کو نہ مٹا سکی۔۔۔۔
ہر شخص کو چاہئیے کہ وہ اپنی بساط کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتا رہے۔ ہر ایک نے دنیا سے بہر حال چلے جانا ہے ۔آج ہم یہاں ہیں کل کا کچھ پتا نہیں کہ کہاں ہوں گے۔ ہمیں دعا کرتے رہنا چاہئیے کہ ہم یہاں ہوں یا کسی اور دنیا میں خدا تعالیٰ سلسلہ کو ایسے وجود بخشتا رہے جو پورے زور کے ساتھ جو پورے توکل کے سا تھ جو بکثرت دعاؤں کے ساتھ اور جو پوری انابت الی اللہ کے ساتھ دین کے غلبہ کے لئے اور اس سلسلہ کے مقصد کے حصول کے لئے کوشاں رہنے والے ہوں ۔اور یہ ذلیل سمجھا جانے والا گروہ خدا کی نگاہ میں ہمیشہ عزت پانے والا گروہ رہے ۔جب ایسا ہو جائے گا تو پھر دنیا کی کوئی نظر ہمیں ذلیل نہیں کر سکتی اور یہ کمزور سمجھا جانے والا گروہ ۔خدائے عزو جل کے نزدیک جو کامل طاقتوں والا ہے طاقتور گروہ قرار دیا جائے گا تا پھر دنیا کی طاقتیں ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔
خدا کرے کہ ہمارا خدا ہمیشہ ہمارے ساتھ ہو ۔خدا کرے کہ اس کی نصرت ہمیشہ ہمارے شاملِ حال رہے ۔خدا کرے کہ ہمارے کمزور طاقتوروں پر ہمیشہ بھاری رہیں۔خدا کرے کہ ہمارے جاہل اچھے پڑھے لکھے لوگوں کے مقابل پہ آئیں تو انہیں شرمندہ کرنے والے ہوں۔خدا کرے کہ ہمارے وجود میں خدا کا جلوہ دنیا کو نظر آنے لگے ۔خدا کرے کہ ہمارے چہروں سے اسلام کا نور اور محمد رسول اللہ ﷺ کے عشق کی جھلک دنیا کو دکھائی دے ۔خدا کرے کہ ہماری زندگیوں میں ہی اسلا م کا غلبہ دنیا میں قائم ہو جائے اللّھم اٰمین ۔اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے۔‘
یہ خطاب ختم ہونے پر فضا نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اُٹھی اور آپ السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ کہہ کر واپس تشریف لے گئے۔ (۷)

جنازہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ
حضرت مصلح موعودؓ کے چہرہ مبارک کی زیارت کے لئے دور دور سے آئے ہوئے احباب اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے تاکہ وہ اپنے محبوب امام کا آخری دیدار کر سکیں۔آخر وقت تک احباب بڑی تعداد میں ربوہ پہنچ رہے تھے۔جنازہ اُٹھانے کے مقررہ وقت یعنی ڈھائی بجے بعد دوپہر کو آخری زیارت کا سلسلہ مجبوراََ بند کرنا پڑا ۔آخری وقت پہنچنے والے بہت سے افراد کو زیارت سے محروم رہنا پڑا ۔ اس موقع پر محرومیِ دیدار سے احباب کا اضطراب ماحول کو اور بھی غمزدہ بنا رہا تھا ۔وہ تڑپ تڑپ کر ڈیوٹی پر موجود احباب کی منتیں کر تے ہوئے بے حال ہو رہے تھے۔ان احباب کو تسلی دینے اور سمجھانے میں بھی کچھ وقت لگا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں۔اور پونے تین بجے خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد قصرِ خلافت کے اندر سے اُ ٹھا کرلائے۔پھر جنازہ احاطہ قصر ِ خلافت کے غربی دروازہ سے باہر لایا گیا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؓ جنازہ کو کندھا دے رہے تھے۔نصرت گرلز اسکول کی سڑک سے ہوتے ہوئے جنازہ تحریک اور صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر کے درمیان کی سڑک سے گذر کر فضلِ عمر ہسپتال کے سامنے سڑک پر سے ہوتا ہؤا بہشتی مقبرہ پہنچا۔سڑک کے دونوں طرف ہزاروں لوگ دو رویہ کھڑے تھے۔آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور زبانوں پر درود شریف جاری تھا۔اُ س وقت لوگوں کی کیا کیفیت تھی اس کا نقشہ ثاقب زیروی صاحب نے ان دو اشعار میں خوب کھینچا ہے
ہونٹوں پر آہِ سرد جبینوں پہ غم کی دھول
آنکھوں میں سیلِ اَشک چھپائے ہوئے چلا
دن ڈھل گیا تو درد نصیبوں کا قافلہ
کاندھوں پہ آفتاب اُٹھائے ہوئے چلا
جنازہ بہشتی مقبرہ پہنچا تو صفیں درست کی گئیں۔پچاس ہزار مرد احباب جنازہ میں شامل ہوئے۔ صفوں کی ترتیب کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؓ نے نمازِ جنازہ پڑھانے سے قبل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے جنازہ کے سامنے احباب کو مخاطب کر کے فرمایا
’’میں چاہتا ہوں کہ نمازِ جنازہ ادا کرنے سے قبل ہم سب مل کر اپنے ربِّ رؤف کو گواہ بنا کر اس مقدس مونہہ کی خاطر جو چند گھڑیوں میں ہماری آنکھوں سے اوجھل ہونے والا ہے اپنے ایک عہد کی تجدید کریں اور وہ عہد یہ ہے کہ ہم دین اور دین کے مصالح کو دنیا اور اس کے سب سامانوں اور اس کی ثروت اور وجاہت پر ہر حال میں مقدم رکھیں گے اور دنیا میں دین کی سر بلندی کے لئے مقدور بھر کوشش کرتے رہیں گے۔۔اس موقع پر ہم اپنے ایک اور عہد کی تجدید بھی کرتے ہیں۔اگرچہ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ بہشتی مقبرہ قادیان کے بہشتی مقبرہ کے ظل کی حیثیت سے ان تمام برکات کا حامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُ س بہشتی مقبرہ کے ساتھ وابستہ کی ہیں لیکن حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ اولاد جو پنجتن کہلاتی ہے اور ان میں سے جو وفات یافتہ یہاں مدفون ہیں اور خاندان کے دوسرے وفات یافتہ افراد بھی جن کا مدفن اس مقبرے میں ہے ہم ان کے تابوتوں کو مقدر وقت آ نے پر قادیان واپس لے جائیں گے اور ان تمام امانتوں کو جانوں سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہوئے اولین وقت میں ان جگہوں پر پہنچا دیں گے جن کی طرف وہ حقیقی طور پر اپنے آپ کو منسوب کرتے تھے۔اور جہاں ان کو پہنچانا ضروری اور جس کا ہم نے عہد کیا ہؤا ہے۔‘ (۸)
اس عہد کی تجدید کے وقت صفوں میں کھڑے ہوئے احباب پر سوز وگداز کا ایسا عالم طاری ہؤا کہ لوگوں کی چیخیں نکل گئیں اور ہر طرف سے انشاء اللہ انشاء اللہ کی آوازیں بلند ہونے لگیں ۔ ۴بج کر ۴۰ منٹ پر نمازِ جنازہ شروع ہوئی ۔نمازِ جنازہ میں تکبیرِ تحریمہ سمیت چھ تکبیریں کہی گئیں۔ جنازے کے دوران بھی احباب پر رقت کا ایسا عالم طاری تھا کہ شرکاء کی ہچکیو ںاور سسکیوں کی آوازیں فضا میں گونج رہیں تھیں۔نمازِ جنازہ کے بعد جنازہ کو اُس احاطے کے اندر لے جایا گیا جہاں پر حضرت ام المؤمنین ؓمدفون تھیں۔تدفین کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے دعا کرائی اور ۶ بج کر ۴۰ منٹ پر بہشتی مقبرہ سے واپس ہوئے ۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ کا پہلا خطبہ جمعہ اور
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی ایک پیشگوئی کا ذکر
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے پہلا خطبہ جمعہ مورخہ ۱۲ نومبر ۱۹۶۵ء کو ارشاد فرمایا ۔جو لوگ جماعت کی تاریخ کا معمولی سا بھی علم رکھتے تھے وہ جانتے تھے کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا وصال ہؤا تو کس طرح ایک گروہ ایسا کھڑاہوا جو نظامِ خلافت کا انکار کر رہا تھا ۔اور اس وقت مخالفین خوش ہو رہے تھے کہ جماعت میں تفرقہ پڑ گیا ہے ۔اور وہ یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ اس تفرقہ کے نتیجے میں یہ جماعت اب انتشار کا شکار ہو جائے گی۔حضرت مصلح موعودؓ کی باون سالہ خلافت کے کارناموں میں ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس دوران آپ نے علمی طور پر عملی طور پر خلافت کے مقام اورا ہمیت کو بار بار اس طرح واضح فرمایا اور جماعت کی اس نہج پر تربیت فرمائی کہ جب خلافتِ ثالثہ کا انتخاب ہؤا تو جماعت نے ایک قابلِ قدر نمونہ پیش کیا۔دشمنوں کی تمام امیدیں دھری کی دھری رہ گئیں اور جماعت پھر سے ایک ہاتھ پر جمع ہو گئی۔حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ نے اپنے پہلے خطبہ جمعہ کے آ غاز میں حضرت مصلح موعود ؓ کے اُس خطبہ جمعہ کا ذکر فرمایا جو آپ نے منصبِ خلافت پر فائز ہونے کے بعد ارشاد فرمایا تھا۔اس میں حضرت مصلح موعود ؓ نے فرمایا تھا
’’اس وقت دشمن خوش ہے کہ احمدیوں میں اب تفرقہ پڑ گیا ہے اور یہ جلد تباہ ہو جائیں گے اور اس وقت ہمارے ساتھ زلزلو ا زلزالا شدیدا والا معاملہ ہے ۔یہ ایک آ خری ابتلا ہے جیسا کہ احزاب کے موقع کے بعد پھر دشمن میں یہ جرأ ت نہ تھی کہ مسلمانوں پر حملہ کرے۔ ایسے ہی ہم پر یہ آ خری موقع ہے اور دشمن کا حملہ ہے خدا تعالیٰ چاہے ہم کامیاب ہوں تو انشاء اللہ پھر دشمن ہم پر حملہ نہ کرے گا بلکہ ہم دشمن پر حملہ کریں گے ۔نبی کریم ﷺ نے احزاب پر فرمایا تھا کہ اب ہم ہی دشمن پر حملہ کریں گے اور شکست دیں گے دشمن اب ہم پر کبھی حملہ آ ور نہ ہو گا ۔یہ ایک آ خری ابتلاء ہے اس سے اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے تو دشمن کو پھر کبھی خوشی کا موقع نہ ملے گا۔‘(۹)
چنانچہ حضرت مصلح موعود ؓ کے مبارک دورِ خلافت میں بھی متعدد بار دشمن نے سازشیں کیں اور چاہا کہ جماعت میں تفرقہ پڑے لیکن وہ ناکام و نامراد رہے اور جس طرح کی خوشی انہیں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وفات پر حاصل ہوئی تھی کہ جماعت کے دو ٹکڑے ہو گئے ہیں ، ایسی خوشی اُنہیں پھر کبھی حاصل نہ ہوئی اور اب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی وفات کے موقع پر بھی وہ حسرت سے کفِ افسوس ملتے رہ گئے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے حضرت مصلح موعود ؓ کے اس خطبہ جمعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا
’لیکن حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس وقت یہ بھی فرمایا تھا کہ تم دعاؤں میں لگ جاؤ۔ اور میں تمہیں بتاتا ہوںکہ یہ خوشی دشمن صرف ایک دفعہ دیکھ سکتا تھا اوروہ اس نے دیکھ لی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کرے گا ۔کہ دشمن تھوڑا بہت حملہ تو کرے گا۔ شاید تھوڑا بہت نقصان بھی پہنچا دے احمدیوں کو تکلیفیں بھی دے سکتا ہے ان سے ایثار اور قربانی کے مطالبے بھی اس کے مقابلے میں کئے جاویں گے لیکن یہ تم کبھی نہ دیکھو گے کہ ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء والا تفرقہ اور پراگندگی جماعت میں دشمن کو پھر نظر آ ئے ۔
اب جب خود آپ کا وصال ہؤا تو ہم اس کے بعد کے دنوں کے حالات کو دیکھتے ہیں۔ ہر احمدی ایک موت کی سی حالت دیکھتا تھا ۔اللہ تعالیٰ نے ہر ایک احمدی کے دل میں حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اتنی محبت پیدا کی تھی اور پھر آپ کو احباب جماعت پر اس کثرت اور وسعت کے ساتھ احسان کرنے کی ان کے غموں میں شریک ہونے کی ، ان کی خوشیوں میں شامل ہونے کی،ان کی ترقیات کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کرنے کی اس قدر توفیق دی تھی کہ ہر شخص سمجھتا تھا کہ گویا آج میری ہی موت کا دن ہے۔ بعض احمدی حضور کی اس بیماری کے دوران اپنی کم علمی کی وجہ سے ،بعض نادانی کی وجہ سے ،بعض کمزوری کی وجہ سے اور شاید بعض شرارت کی وجہ سے بھی اس قسم کی باتیں کیا کرتے تھے جو ہمارے کانوں میں بھی پڑتی تھیں کہ گویا جماعت میں بڑا تفرقہ پیدا ہو چکا ہے لیکن یہ باتیں اس وقت سے پہلے تھیں ۔جب اس موہومہ تفرقہ نے دنیا کے سامنے اپنا چہرہ دکھانا تھا پس وہ وقت آیا ۔تو وہ لوگ جو یہاں تھے گواہ ہیں اور ان میں سے ہر ایک شخص شاہد ہے اس بات کا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے فرشتوں کی فوج بھیجی ہے ۔ اور اس نے جماعتِ احمدیہ پر قبضہ کرلیا ہے اور جس طرح گڈریا بھیڑوں کو گھیر لیتا ہے ۔ اسی طرح اس فوج نے ہم سب کو گھیرے میں لے لیا ہے ۔اور کہا کہ ہمیں اس لئے بھیجا گیا ہے کہ ہم تمہیں بھٹکنے نہ دیں ۔اس وقت کسی کے دماغ میں یہ خیال نہ تھا کہ کون خلیفہ منتخب ہوتا ہے یا کون نہیں ۔لیکن ہر دل یہ جانتا تھا کہ خلافت قائم رہے گی اور خلیفہ منتخب ہو گا ۔ اور خلافت کی برکات ہم میں جاری و ساری رہیں گی۔‘(۱۰)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے انتخابِ خلافت کے دوران اجلاس کے شرکاء کی دلی کیفیات بیان کرتے ہوئے فرمایا
’۔۔جس شام کو مجلسِ انتخاب کے ممبر مسجد مبارک کے اندر مشورہ کر رہے تھے ۔اور بوجہ ممبر ہونے کے میں اور خاندان کے بعض دوسرے افراد بھی اس میں شامل تھے ۔لیکن خدا شاہد ہے کہ اس کاروائی کا بیسواں حصہ بھی میرے کان میں نہیں پڑا ۔کیونکہ ہم لوگ پیچھے بیٹھے یہ دعا کر رہے تھے کہ اے خدا! جماعت کو مضبوط اور مستحکم بنا ۔اور خلافت کو قائم رکھ ! اور دل میں یہ عہد کیا تھا کہ جو بھی خلیفہ منتخب ہو گا ۔ہم اس سے کام اتباع اور اطاعت کا حلف اُ ٹھائیں گے اور جماعتی اتحاد اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھ دیکھ کر خوشی خوشی ہم واپس آ جائیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں تفرقہ پیدا نہیں ہؤا۔ اور ہمارا جو فرض تھا آرام کے ساتھ ہم اس سے سبکدوش ہو گئے ۔‘(۸)
آنحضرت ﷺ کی اتباع میں ہر احمدی جانتاہے کہ اس کے ہاتھ میں اصل ہتھیار دعا کا ہتھیار ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے پہلے خطبہ جمعہ کے آ خر میں احبابِ جماعت کو دعاؤں میں لگ جانے، تہجد ادا کرنے اور صدقہ خیرات ادا کرنے اور روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی تھی،اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اپنے پہلے خطبہ جمعہ کے آ خر میں فرمایا
’چونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے ہزاروں ایسے ہوں گے کہ چھوٹی یا بڑی تکالیف میں مجھے لکھیں گے اور کہیں گے کہ ہمارے لئے دعا کریں ۔تو میری دعا یہ ہے کہ ایسے موقع پر میرا خدا مجھے شرمندہ نہ کرے ۔بلکہ اس ذمہ داری کے نبھانے کے لئے قبولیتِ دعا کی جو ضرورت ہے وہ قبولیتِ دعا کا نشان مجھے عطا کرے اس لئے نہیں کہ میں اس ذریعہ سے دنیا کے مال و اسباب حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔بلکہ اس لئے کہ میں آپ کے دکھوں اور دردوں اور تکلیفوں کو دور کر سکوں اور آپ کی ترقیات کی جو خواہش میرے دل میں پیدا کی گئی ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے سامان پیدا ہوجائیں ۔۔۔‘ (۱۰)
(۱)روزنامہ جنگ کراچی۱۰ نومبر ۱۹۶۵ء ص۱
(۲)نوائے وقت ،۱۲ نومبر ۱۹۶۵ء
(۳) الفضل ۱۰ نومبر ۱۹۶۵ء
(۴) الفضل ۸ نومبر ۱۹۶۵ء ص ۴
(۵) الفضل ۱۰ نومبر ۱۹۶۵ء ص ۲
(۶) الفضل ۱۷ نو مبر ۱۹۶۵ء ص ۲۔۳
(۷) الفضل ۳ دسمبر ۱۹۶۵ء ص اول و آخر
(۸) الفضل ۱۱ نومبر ۱۹۶۵ء ص ۱ و ۹
(۹) خطباتِ محمود جلد اول ص ۴۴ ۔۴۵
(۱۰) خطباتِ ناصر جلد اول ص ۲ تا ۱۰
(۱۱) حقیقۃ الوحی ص ۳۱۸،۳۱۹ طبع اوّل
(۱۲)تذکرہ ایڈ یشن چہارم ص۶۰۷بحوالہ بدر۱۵ اپریل ۱۹۰۶ء ؁
(۱۳) تذکرہ ایڈ یشن چہارم ص۷۲۰ بحوالہ بدر ۱۹ ستمبر ۱۹۰۷ء ؁
(۱۴) تذکرہ ایڈ یشن چہارم ص۷۳۵ بحوالہ بد ر ۳۱ اکتو بر ۱۹۰۷ء ؁
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
سلسلہء احمدیہ ۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ ۔ جلد 3 ۔ یونی کوڈ


س
ہم سلسلہ احمدیہ جلد دوئم کے آخر پر ذکر چکے ہیں کہ تمام عالمگیر جماعتِ احمدیہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے دستِ مبارک پر بیعت کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی خوف کی حالت امن سے تبدیل کر دی گئی۔اب خلافتِ ثالثہ کا با برکت دورشروع ہو رہا تھا اور دنیا ایک بار پھر یہ نظارہ دیکھ رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے دین کو تمکنت عطا کر تا ہے ۔خلافتِ ثالثہ کے آغازہی میں تحریک ِ جدید کے دفتر سوئم کا آغاز کیا گیا۔ہم اس ذکر کے ساتھ ہی اس جلد کا آ غاز کرتے ہیں۔
تحریک ِ جدید دفتر سوئم کا اجراء
جیسا کہ سلسلہ احمدیہ حصہ اول میں یہ ذکر آ چکا ہے ،حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۳۴ء میں تحریکِ جدید کاآغاز فرمایا تھا ۔جب اس تحریک کا اعلان کیا گیا تھا اس وقت یہ ظاہر ہوتا تھا کہ یہ تحریک محدود سالوں کے لئے کی جا رہی ہے۔گو کہ وقت کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی مدت میں اضافہ کا اعلان فرمایا تھا۔پہلے یہ تحریک تین سال کے لئے کی گئی تھی ۔پھر اس کو دس سال کے لئے بڑھا دیا گیا۔ اور جب یہ دس سال ختم ہوئے تو حضور نے اس بابت اعلان فرمایا کہ اب جو اس تحریک میں حصہ لینا چاہیں گے اس کی صورت کیا ہو گی۔چنانچہ ۱۹ ؍مئی ۱۹۴۴ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے فرمایا :
’’…ان لوگوں کے لئے جن کے دلوں میں آئندہ اس میں شامل ہونے کی خواہش پیدا ہو۔ایک سکیم کا فیصلہ کیا ہے اور آج میں اس کا اعلان کرتا ہوںتا وہ لوگ جو اب تک شامل نہیں ہو سکے ۔اگر اب ان کے دل میں شوق پیدا ہو تو وہ اس میں حصہ لے سکیں۔شروع زمانہ میں یہ ایک اکٹھا کام تھا۔ اس لئے ایک وقت مقرر کر دیا جاتا تھاکہ جو لوگ اس میں شامل ہونا چاہیں وہ فلاں وقت سے فلاں وقت تک وعدے کر سکتے ہیں۔لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص انفرادی طور اس میں حصہ لینا چاہے تو کس طرح لے سکتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ سلسلہ کی اشاعت کے لئے ایک مستقل فنڈ کا قیام ایک ایسی بات ہے کہ جس میں حصہ لینے کی خواہش ہمیشہ ہی دلوں میں پیدا ہوتی رہے گی۔اس لئے ایسے لوگوں کے شامل ہونے کی بھی کوئی صورت ضرور ہونی چاہئے۔‘‘(۱)
اسی خطبہ میں حضور نے فرمایا کہ پہلے کوئی بھی شخص سال میں پانچ روپیہ چندہ ادا کر کے اس تحریک میں شامل ہو سکتا تھا لیکن اب اس میں شامل ہونے والوں کو سال میں اپنی ایک ماہ کی آمد کے برابر چندہ پیش کرنا ہو گا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے ۱۹۵۳ء میں با قاعدہ طور پر اس تحریک کو مستقل کرنے کا اعلان فرمایا۔حضور نے ۲۷؍ نومبر ۱۹۵۳ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا :
’’آج میں حسب ِ دستور سابق تحریک ِ جدید کے وعدوں کے لئے جماعت میں تحریک کرنا چاہتا ہوں۔پہلے دفتر کے لوگوں کے لئے بھی کہ جن کے لئے ابتداء ً تین سالوں کی تحریک کی گئی اور ان تین سالوں کو بعض لوگ ایک ہی سال سمجھتے رہے۔پھر وہ تحریک دس سال تک ممتد کی گئی۔پھر اس کے لئے ۱۹ سال کی حد لگائی گئی۔اس سال خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ ۱۹ سال بھی پورے ہو جاتے ہیں۔اس اثنا میں تحریک ِ جدید کے کام کو وسیع کر نے کے بعد خدا تعالیٰ نے میرا ذہن اس طرف پھیرا کہ تمہارے منہ سے جو عرصے بیان کروائے گئے تھے۔وہ محض کمزور لوگوں کو ہمت دلوانے کے لئے تھے ورنہ حقیقۃََ جس کام کے لئے تو نے جماعت کو بلایا تھا۔وہ ایمان کا ایک جزو ہے ۔اور ایمان کو کسی حالت میں اور کسی وقت بھی معطل نہیں کیا جا سکتا اور اسے کسی صورت میں ترک نہیں کیا جا سکتا۔‘‘(۲)
اس طرح ۱۹۳۴ء سے لے کر ۱۹۴۴ء تک جنہوں نے تحریک ِ جدید کے لئے مالی قربانیاں کیں وہ تحریک کے دفتر اول میں شامل ہوئے اور جنہوں نے اس کے بعد اس اپنی مالی قربانیاں پیش کیں انہیں دفتر دوئم میں شامل کیا گیا۔ لیکن اس کے بعد ایک طویل عرصہ یہ صورت ِ حال یونہی رہی اور حضرت مصلح موعود ؓ کے دور میں کسی نئے دفتر کا اعلان نہیں فرمایا گیا۔جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے دورِ خلافت کا اعلان ہوا تو حضور نے ۲۲ ؍اپریل ۱۹۶۶ء کے خطبہ جمعہ میں تحریک ِ جدید کے آ غاز اوراس تحریک سے حاصل ہونے والی برکات کا ذکر کر کے فرمایا :
’’جیسا کہ میں بتا چکا ہوں دفتر اول میں شریک ہونے والوں کی تعداد پانچ ہزار تھی اور دفتر دوم میں شامل ہونے والوں کی تعداد قریباََ بیس ہزار تک پہنچ چکی ہے۔
بہر حال دفتر اول کے مقابلہ میں یہ بہت بڑی تعداد ہے۔اگر دس سال کے بعد ایک اور دفتر کھولا جاتا تو ۱۹۵۴ء میں دفتر سوئم کا اجراء ہونا چاہئے تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی خاص مشیت یا ارادہ کی وجہ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ۱۹۵۴ء میں دفتر سوم کا اجرا نہیں فرمایا۔ ۱۹۶۴ء میں دفتر دوم کے بیس سال پورے ہو جاتے ہیں۔اس وقت حضرت مصلح موعودؓ بیمار تھے اور غالباََ بیماری کی وجہ سے ہی حضور کو اس طرف توجہ نہیں ہوئی کیونکہ امام کی بیماری کے ساتھ ایک حد تک نظام بھی بیمارہو جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تحریک جدید کی طرف سے بھی حضور کی خدمت میں اس کے متعلق لکھا نہیں گیا ۔میں چاہتا ہوں کہ اب دفتر سوم کا اجراء کر دیا جائے لیکن اس کا اجراء یکم نومبر ۱۹۶۵ء سے شمار کیا جائے گا کیونکہ تحریک جدید کا سال یکم نومبر سے شروع ہوتا ہے۔اس طرح یکم نومبر ۱۹۶۵ء سے ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۶۶ء تک ایک سال بنے گا میں اس لئے ایسا کر رہا ہوں تاکہ دفتر سوم بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف منسوب ہو اور چونکہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کے اعلان کی توفیق دے رہا ہے اس لئے میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے بھی اپنے فضل سے ثواب عطا کرے گا اور اپنی رضا کی راہیں مجھ پر کھولے گا۔پس میں چاہتا ہوں کہ دفتر سوم کا اجراء یکم نومبر ۱۹۶۵ء سے ہو۔
دورانِ سال نومبر کے بعد جو نئے لوگ تحریک ِ جدید کے دفتر دوم میں شامل ہوئے ہیں ان سب کو دفتر سوم میں منتقل کر دینا چاہئے اور تمام جماعتوں کو ایک با قاعدہ مہم کے ذریعہ نوجوانوں ،نئے احمدیوں اور نئے کمانے والوں کو دفتر سوم میں شمولیت کے لئے تیار کرنا چاہئے۔ دوست جانتے ہیں کہ یہاں ہر سال خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت بڑھتی ہے اور نئے احمدی ہوتے ہیں وہاں ہزاروں احمدی بھی ایسے بھی ہوتے ہیں جو نئے نئے کمانا شروع کرتے ہیں یہ ہماری نئی پود ہے اور ان کی تعداد کافی ہے کیونکہ بچے جوان ہوتے ہیں ، تعلیم پاتے ہیں اور پھر کمانا شروع کرتے ہیں اور باہر سے بھی ہزاروں کمانے والے احمدیت میں شامل ہو رہے ہیں۔اس طرح ہمیں کافی تعداد میں ایسے احمدی مل سکتے ہیں جو دفتر سوم میں شامل ہوں۔ہمارا یہ کام ہے کہ ہم ان کو اس طرف متوجہ کریںتاکہ وہ عملاََ دفتر سوم میں شامل ہو جائیں۔سو یکم نومبر ۱۹۶۵ء سے دفتر سوم کا اجراء کیا جاتا ہے۔تحریکِ جدید کو چاہئے کہ وہ فوراََ اس طرف توجہ دے اور اس کو منظم کرنے کی کوشش کرے۔‘‘(۳)
دفتر سوم کے اجراء کے اعلان کے بعد حضور نے ۲۸؍ اکتوبر ۱۹۶۶ء کے تحریک جدید کے نئے مالی سال کا اعلان فرمایا۔اس خطبہ جمعہ کے آ غاز میں حضور نے فرمایا:
’’آج میں تحریک جدید کے سال ِ نو کا اعلان کرنا چاہتا ہوں ۔مالی قربانیوں کے لحاظ سے تحریک جدید کے اس وقت تین حصے ہیں اور وہ تین دفتر کہلاتے ہیں۔دفتر اول ،دفتر دوم، اوردفتر سوم۔ دفتر اول کا بتیسواںسال جا رہا ہے ،دفتر دوم کا بائیسواں سال جا رہا ہے اور دفتر سوم کا پہلا سال جا رہا ہے۔تحریک جدید کے بہت سے مطالبات ہیں ۔جن کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۱۹۳۴ء میں پانچ چھ خطبات دیئے۔ اگر آپ ان خطبات کا مطالعہ کریں تو آپ جان لیں گے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذہن میں ایک نہایت ہی اہم اور دو ررس سکیم تھی۔جس کی اہمیت بتاتے ہوئے بھی حضور نے غالباََ دو یا اس سے زائد خطبات دیئے تھے ۔میں نے گزشتہ دنوں ان خطبات کو دوبارہ پڑھا اور ان پر غور کیا تو میری توجہ اس طرف گئی کہ تمام مطالبات جو تحریک جدید کے ضمن میں اس سکیم کے ماتحت آپ نے جماعت ِ احمدیہ سے کئے ہیں وہ سارے کے سارے قرآنِ کریم کے پیش کردہ مطالبہ جہاد کی مختلف شقیں ہیں اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے۔ اے وہ لوگو جو دعویٰ کرتے ہو کہ ہم خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس تعلیم پر جو آنحضرت ﷺ دنیا کی طرف لائے ہیں۔ایمان لاتے ہیں۔آؤ میں ایسی تجارت کی نشاندہی کروں کہ اگر تم یہ سودا اپنے رب سے کر لو ۔تو تم اس عذاب الیم سے بچ جاؤگے جو ان لوگوں کے لئے مقدر ہے جو اس قسم کا سودا اور اس قسم کی تجارت اپنے پیدا کرنے والے سے نہیں کرتے۔‘‘(۴)
حضور نے اس نئے سال کے اعلان کے موقع پر تحریک فرمائی کہ دفتر سوم کے وعدے بھی کم از کم ایک لاکھ روپے ہونے چاہئیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۱۹۶۷ء میں تحریک ِ جدید کے نئے مالی سال کا اعلان کرتے ہوئے تحریک ِ جدید کے آ غاز میں قربانیاں کرنے والوں کے ذکر کے بعدفرمایا:
’’اس وقت جماعت نے جو قربانیاں دیں اللہ تعالیٰ انہیں قبول کرے۔بہت سے ہیں جنہوں نے قربانیاں دیں وہ اس جہاں سے رخصت ہو چکے ہیں… لیکن ہماری مالی قربانیوں کی رفتار اتنی نہیں رہی جتنی کہ ہماری ضرورتوں کے بڑھنے کی رفتار تھی۔‘‘
(خطبات ناصر جلد اول صفحہ ۹۴۴۔ ۹۴۵)
حضور نے فرمایا کہ ۱۹۵۳ء میں دفتر اول کا چندہ ۲۴۶۰۰۰ روپے تھا اور دفتر دوم کا چندہ ۱۱۰۰۰۰ تھا اور میزان ۳۵۶۰۰۰ روپے تھاجبکہ ۱۹۶۰ء میں دفتر اول کی آمد گر کر۱۸۳۰۰۰ روپے رہ گئی کیونکہ اس دوران اس میں شامل بہت سے افراد فوت ہو گئے تھے اور اس سال دفتر دوم کی آمد بڑھ کر ۱۷۲۰۰۰روپے ہو گئی اور اس کا میزان ۳۵۵۰۰۰روپے بنتا ہے۔اور ۱۹۶۷ء میں دفتر اول کی آمد ۱۲۰۰۰۰ روپے رہ گئی اور دفتر دوم کی آمد۲۳۸۰۰۰ ہو گئی۔اور اس سال ان دونوں کا میزان ۳۲۸۰۰۰ روپے بنتا ہے۔حضور نے فرمایا کہ ۱۹۷۰ء کے جو اعداد و شمار بیان کئے گئے ہیں وہ وعدوں کے نہیں بلکہ اصل آمد کے ہیں اور ابھی وصولی کے کچھ مہینے باقی ہیں۔
پاکستان سے باہر کے ممالک کی مالی قربانی کے بارے میں حضور نے فرمایا:
’’اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا نہ کرتا کہ آپ کی غفلت اور سستی پر پردہ ڈال دے تو ہمارے سارے کام رک جاتے اس لئے کہ اس عرصہ میں بیرون ِ پاکستان میں اتنی مضبوط جماعتیں پیدا ہو گئیں کہ ان میں بہت سی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئیں اور بہت سی ایسی تھیں جنہوں نے بیرون ِ پاکستان مشنز کو امداد دینی شروع کر دی اور اس کے نتیجہ میں ہمارے کام میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ ترقی کی طرف ہمارا قدم بڑھتا چلا گیا۔لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آپ خوش ہو جائیں کہ ہمیں اب زیادہ قربانیاں دینے کی ضرورت نہیں۔اسکے معنے تو یہ ہیں کہ جیسے فکر پیدا ہوئی ہے کہ ہم نے غفلت اور سستی دکھائی۔اور وہ انعامات جو ہمیں ملنے چاہئیں تھے وہ ہمیں نہیں ملے اور دوسروں نے ہمارے ہاتھ سے چھین لئے۔اگر ہمیں وہ مل جاتے اور بیرونِ پاکستان کے بھائی بھی اللہ تعالیٰ کے ان انعامات میں شریک ہوتے تو ہمارے لئے بڑی خوشی کی بات تھی۔لیکن ہوا یہ کہ ان کو تو اللہ تعالیٰ نے بڑے انعامات سے نوازا لیکن اس کے مقابلہ میں جو انعامات ہمیں ملنے چاہئیں تھے ہمیں نہیں ملے۔‘‘(۵)
خواہ تحریکِ جدید کا چندہ ہو یا مالی قربانیوں کا کوئی اور میدان ہو ،اس میں جہاں یہ بات مد ِ نظر رکھنی ضروری ہے کہ ایک مد میں کل کتنی قربانی پیش کی جا رہی ہے اور چند ہ دینے والوں کی تعداد میں کتنا اضافہ ہو رہا ہے ،وہاں یہ بات بھی مدِ نظر رہنی چاہئے کہ اس مد میںمالی قربانی پیش کر ے والے مجموعی طور پر اپنی حیثیت کے مطابق مالی قربانی پیش کر رہے ہیں کہ نہیں۔چنانچہ جب دفتر سوئم کے آغاز کو کچھ سال گزر گئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس امر کی توجہ دلاتے ہوئے ۱۹۶۸ء میں حضور نے ارشاد فرمایا:
’’سال رواں کا جب ہم تجزیہ کرتے ہیں تو یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ دفتر اول (جس کی ابتداء پر ۳۴ سال گزر چکے ہیں) کا وعدہ سالِ رواں کا ایک لاکھ پچپن ہزار روپیہ ہے اور دفتر دوم میں شامل ہونے والوں کے وعدے تین لاکھ چون ہزار ہیں اور دفتر سوم میں شامل ہونے والوں کے وعدے اکتالیس ہزار ہیں۔اگر مختلف دفاتر میں شامل ہونے والوں کی اوسط فی کس آمد نکالی جائے تو دفتر اول کے مجاہدین کی اوسط ۶۴ روپے بنتی ہے۔ بہت سے احباب اس سے بہت زیادہ دیتے ہوں گے اور جو غریب ہیں وہ اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق ہی تحریک ِ جدید میں حصہ لیتے ہوں گے۔لیکن اوسط ان کی ۶۴ روپے فی کس بنتی ہے۔اس کے مقابلہ میں دفتر دوم کے مجاہدین کے تحریک ِ جدید کے چندہ کی اوسط انیس روپے بنتی ہے اور ۶۴ روپے کے اوسط کے مقابلہ میں یہ بہت کم ہے۔دونوں دفاتر کی اوسط میں بڑا فرق ہے۔دفتر سوم کے مجاہدین ِ مال کی اوسط چودہ روپے فی کس بنتی ہے۔ اس میں اور دفتر دوم کی اوسط میں فرق تو ہے لیکن زیادہ فرق نہیں خصوصاََ جب یہ بات ہمارے مدنظر رہے کہ اس میں شامل ہونے والے بہت سے بچے بھی ہیں جنہوں نے ابھی کمانا شروع نہیں کیا۔ان کے والدین ان کی طرف سے کچھ چندہ تحریک ِ جدیدمیں ادا کر دیتے ہیں اور جو کمانے والے ہیں وہ اپنی کمائی کی عمر کے ابتدائی دور میں سے گزر رہے ہیں…
لیکن میں نے سوچا اور غور کیا اور مجھے یہ اعلان کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ ۱۹ روپے اوسط بہت کم ہے۔اور آئندہ سال جو یکم نومبر سے شروع ہو رہا ہے جماعت کے انصار کو(دفتر دوم کی ذمہ داری آج میں انصار پر ڈالتا ہوں )جماعتی نظام کی مدد کرتے ہوئے(آزادانہ طور پر نہیں) یہ کوشش کرنی چاہئے کہ دفتر دوم کے معیار کو بلند کریں اور اس کی اوسط انیس روپے سے بڑھا کر تیس روپے فی کس پر لے آئیں……
دفتر سوم کے متعلق میرا تاثر یہ ہے کہ اگر چہ ان کے حالات کے لحاظ سے چودہ اور انیس کا زیادہ فرق نہیں لیکن اس دفتر میں شامل ہونے والوں کی تعداد بہت کم ہے یہ ابھی تک تین ہزار تک پہنچے ہیں لیکن ہم باور نہیں کر سکتے کہ ہماری آئندہ نسل زیادہ ہونے کی بجائے تعداد میں پہلوں سے کم ہوگئی ہے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو جو وعدہ دیا تھا کہ میں ان کے نفوس میں برکت ڈالوں گا اس وعدہ کو وہ سچے وعدوں والا پورا کر رہا ہے اور ہماری آئندہ نسل میں غیر معمولی برکت ڈال رہاہے۔دفتر سوم والوں کا عمر کے لحاظ سے جو گروپ بنتا ہے یعنی اس عمر کے احمدی بچے اور اس زمانہ میں نئے احمدی ہونے والے۔ان میں سے جس نسبت سے افراد کو تحریک ِ جدید میں شامل ہونا چاہئے اس نسبت سے یہ تعداد تین ہزار سے بڑھنی چاہئے۔اگلے سال کے لئے میں یہ امید کرتا ہوں کہ جماعت کوشش کر کے اس تعداد کو تین ہزار سے پانچ ہزار تک لے جائے گی اوران کی اوسط چودہ سے اونچی کر کے بیس تک لے جائے گی۔‘‘(۶)
دفتر سوئم کے آ غاز پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے پاکستان سے باہر کی جماعتوں کی مالی قربانیوں کا خاص طور پر ذکر فرمایا تھا۔اور اب بیرونِ پاکستان میں مختلف ممالک کی جماعتوں کی مالی قربانی کا معیار بلند ہو رہاتھا۔ہم یہاں پر خلافت ِ ثالثہ کے دوران مختلف ممالک کی مالی قربانیوں کے مختصر اعداد و شمار پیش کرتے ہیں۔مالی سال ۱۹۶۶ئ۔۱۹۶۷ء سے لے کر مالی سال ۱۹۸۴ء ۔۱۹۸۵ء تک تحریک ِ جدید میں پاکستان سے باہر جس جماعت کو سب سے زیادہ مالی قربانی کی توفیق ملی وہ جماعت ِ احمدیہ انڈونیشیا تھی۔پاکستانی روپے کے مطابق اس دوران جماعت ِ احمدیہ انڈونیشیا نے ایک کروڑ چودہ لاکھ سے زائدکی رقم تحریک ِ جدید کے لئے پیش کی۔ اس کے بعد جماعت ِ احمدیہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے ان سالوں کے دوران تیس لاکھ پچاس ہزار روپے کے مساوی رقم تحریک ِ جدید میں پیش کی۔ ان سالوں میںجماعت ِ احمدیہ جرمنی نے ۲۸ لاکھ روپے ،جماعت ِ احمدیہ یو کے نے ۱۷لاکھ روپے،جماعت ِ احمدیہ کینیڈا نے ۱۴ لاکھ روپے ساٹھ ہزار روپے کے مساوی رقوم تحریک ِ جدید کے لئے پیش کیں۔اب برِ اعظم افریقہ کی جماعتیں بھی مالی قربانی کے میدان میں آگے بڑھ رہی تھیں مالی سال ۱۹۶۶۔۱۹۶۷ء سے لے کر مالی سال ۱۹۸۴ ۔۱۹۸۵ء افریقہ کے ممالک میں سے یوگینڈا نے سب سے زیادہ یعنی ۹ لاکھ روپے ۶۴ ہزار روپے اورجماعت ِ احمدیہ غانا نے ۶ لاکھ ۶۲ ہزار روپے کے مساوی رقم تحریک ِ جدید میں پیش کی،اس کے بعد نائیجیریا نے ۶ لاکھ ۳۵ ہزار روپے، ماریشس نے ۳ لاکھ ۷۷ ہزار اور سیرالیون نے ۲لاکھ ۲۸ ہزار روپے کے مساوی چندے تحریک ِ جدید میں پیش کئے۔اسی طرح اس مدت کے دوران چندہ عام میں جماعت ِ احمدیہ انڈونیشیا سب سے آگے رہی اور اس جماعت نے ان سالوں کے دوران ۴ کروڑ ۹۹ لاکھ روپے کے مساوی رقم پیش کی۔جبکہ اس مدت میں جماعت ِ احمدیہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے ایک کروڑ ۹۵ لاکھ،جماعت ِ احمدیہ یو کے نے ایک کروڑ ۲۶ لاکھ اور جماعت ِ احمدیہ کینیڈا نے ۴۸ لاکھ روپے اور جماعت ِ احمدیہ فجی نے ۴۵ لاکھ روپے کے مساوی رقوم کی مالی قربانی پیش کی۔اس دوران افریقہ کی جماعتوں میں سے چندہ عام کی مد میںسب سے زیادہ نائیجیریا کی جماعت نے قربانی پیش کی جو کہ ایک کروڑ ۱۶ لاکھ روپے کی تھی اور ان سالوں میں غانا نے ۸۴ لاکھ روپے، سیرالیون نے ۲۴ لاکھ روپے اور ماریشس نے ۱۹ لاکھ روپے کے مساوی رقوم پیش کیں۔چند ہ وصیت میں بھی سب سے زیادہ جماعت ِ احمدیہ انڈونیشیا اور پھر جماعت یو کے اور پھر جماعت امریکہ نے مالی قربانی پیش کی۔ایک بار پھر واضح کردیں کہ ان ممالک میں پاکستان کو شامل نہیں کیا گیا۔

(۱) الفضل ۲۸؍ مئی ۱۹۴۴ء ص۱ (۲) روزنامہ ’’المصلح‘‘ ۱۱؍دسمبر ۱۹۵۳ء ص ۲ (۳) خطبات ِ ناصر جلد اول ۲۲۸۔۲۲۹
(۴) خطبات ِ ناصر جلد اول ص ۴۳۸ و ۴۳۹ (۵) الفضل۳ ؍نومبر ۱۹۶۷ء ص ۲تا۴ (۶) الفضل ۲؍ نومبر ۱۹۶۸ء
مسکینوں ،یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلانے کی تحریک
۱۷؍ دسمبر ۱۹۶۵ء کے خطبہ جمعہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے سورۃ الدّہر کی یہ آیات تلاوت فرمائیں:

(الدہر۹تا ۱۲)
ترجمہ :اور وہ کھانے کو ،اس کی چاہت کے ہوتے ہوئے،مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں۔ہم تمہیں محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کھلا رہے ہیں،ہم ہر گز نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ کوئی شکریہ۔اور یقیناََ ہم اپنے رب کی طرف سے(آنے والے ) ایک تیوری چڑھائے ہوئے سخت دن کا خوف رکھتے ہیں۔ پس اللہ نے انہیں اس دن کے شر سے بچا لیا اور انہیں تازگی اور لطف عطا کئے۔
ان آیات کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:
’’ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے اس حکم کو سن کر ہمارے نیک بندے ہماری رضا کے متلاشی بندے،ہمارے قرب کے خواہاں بندے اس طرح عمل کرتے ہیں۔ کہ وہ ہماری محبت کی خاطر اور ہماری خوشنودی کے حصول کے لئے کھانا کھلاتے ہیں کس کو؟ مسکین کو یتیم کو اسیر کو۔عربی زبان میں مسکین کے معنی ہیں ایسا شخص جس کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ وہ بخوبی گزارا کر سکے اور اس کا گھرانہ اس روپے سے پرورش پا سکے۔اور یتیم کے معنی ہیں ایسا شخص جس کا والد یا مربی نہ ہو اور ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔
اور اسیر کے لفظی معنی تو قیدی کے ہیں لیکن اس کے یہ معنی بھی کئے جا سکتے ہیںوہ شخص جو اپنے حالات سے مجبور ہو کر بطور قیدی کے ہو جائے۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن لوگوں کو پوری غذا میسر نہیں اور ان کو ضرورت ہے کہ ان کی مدد کی جائے۔جس کے بغیر وہ اپنی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتے ۔ان لوگوںکو ہمارے ابرار بندے کھانا کھلاتے ہیں اور کھانا کھلاتے ہوئے ان کے دل کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ زبان ِ حال سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں۔ کہ ہم خدا کی توجہ کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے اور اس کی عنایات کو حاصل کرنے کے لئے تمہیں کھانا کھلا رہے ہیں اور ہم اس نیت سے تمہیں نہیں کھلا رہے کہ کبھی تم ہمیں اس کا بدلہ دو اور نہ یہ کہ تم ہمارا شکریہ ادا کرو ۔ہم تم سے کچھ نہیں چاہتے نہ بدلہ چاہتے ہیں نہ ہی شکریہ کے خواہاں ہیں۔ہم محض یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا رب ہم سے خوش ہو جائےپھر وہ کہتے ہیں کہ ہم ڈرتے ہیں اس دن سے جس میں ڈر کے مارے تیوریاں چڑھی ہوئی ہوں گی ۔اور لوگوں کو گھبراہٹ لا حق ہو گی۔(یہ دن قیامت کا ہے اور کبھی ایسا دن اس دنیا میںبھی آ جاتا ہے) کہ کہیں ہم بھی اس دن خدا کے عذاب اور اس کے قہر کے مورد نہ بن جائیں۔اس لئے ہم یہ نیک کام بجا لا رہے ہیں۔ ‘‘(خطبات ِ ناصر جلد اول ص۴۶،۴۷)
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب کسی قوم میں غرباء کی خبر گیری بالکل نہ کی جائے اور ان کے حالات کو بد سے بد تر ہونے دیا جائے اور بھوک ان کے گھروں میں ڈیرے ڈال لے اور ان کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہ ہوں تو یہ حالات اس قوم کو ایک خونی انقلاب کی طرف لے جاتے ہیں جس میں بسا اوقات متمول طبقہ کو بھیانک انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس قوم کا سابقہ نظام ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جاتا ہے۔
حضور نے اس تاریخی حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :
’’…بھوک کامسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی طرف جب قومیں توجہ نہیں دیتیں تو ان قوموں میں بڑے بڑے انقلاب برپاہو جاتے ہیں۔جیسے کہ روس میںریوولیوشن (انقلاب) اور دوسرے بہت سے ممالک میں انقلاب اسی لئے برپا ہوئے کہ وہاں اکثر لوگوں کی زندگی کی ضروریات خصوصاََ کھانے کا خیال نہیں رکھا گیا۔
اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں اور ان آیات سے مستنبط ہوتا ہے کہ اس دنیا میں جب بھائی بھائی کا خیال نہیں رکھتا ۔اور ایک قوم کی اکثریت اس مرض میں مبتلا ہوجاتی ہے تو اس قوم میں ایک دن انقلاب کا بھی چڑھ آتا ہے۔جس میں بہت سے بڑے اور امیر لوگ چھوٹے اور غریب کر دیئے جاتے ہیں۔وہ دن ان کے پچھتانے کا ہوتا ہے۔جس قوم کے ہر فرد کو اس کی ضروریات میسر آتی رہیں اور ان کے دل مطمئن اور تسلی یافتہ ہوں۔اس قوم میں اس قسم کے انقلاب بپا نہیں ہوا کرتے۔انقلابات اور ریوولیوشنز انہی ملکوں اور قوموں میں ہوتی ہیں۔جن کے ایک بڑے حصے کو دھتکارا جاتا ہے اور ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔‘‘(خطبات ِ ناصر جلد اول ص۴۷)
حضور نے اس خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ کوئی احمدی بھوکا نہیں سونا چاہئے۔حضور نے فرمایا
’’ میرا یہ احساس ہے کہ جماعت کو اس حکم کی طرف پوری توجہ نہیں ہے۔کوئی احمدی رات کو بھوکا نہیں سونا چاہئے۔سب سے پہلے یہ ذمہ داری افراد پر عائد ہوتی ہے اس کے بعد جماعتی تنظیم اور حکومت کی باری آ تی ہے کیونکہ سب سے پہلے یہ ذمہ داری اس ماحول پر پڑتی ہے جس ماحول میں وہ محتاج اپنی زندگی کے دن گزار رہا ہے۔پھر ہماری جماعت کی تنظیم کے مطابق بڑے شہروں میں پریذیڈنٹ ہیں ،امراء ہیں پھر شہر مختلف محلوں اور حلقوں میں تقسیم ہوتے ہیں جن میں ہمارے کارکن مقرر ہوتے ہیں۔اتنے کارکنان کی موجودگی میں آپ میں سے ہر احمدی رات کو اس اطمینان کے ساتھ سوتا ہے کہ اس کا کوئی بھائی آج بھوکا نہیں سو رہا۔یا وہ بغیر سوچے سمجھے یہ تصور کر لیتا ہے کہ اس کے سب بھائیوں نے کھانا کھا لیا ہوگا۔جہاں تک میرا احساس ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملہ میں پوری طرح محاسبہ نہیں کیا جاتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس جماعت پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے اور شاید ہی کوئی ایسے محتاج دوست ہوں جن کی غذائی ضروریات پوری نہ کی جاتی ہوں لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر ایک احمدی بھی ایسا ہے جس کی غذائی ضروریات پورا کرنے میں ہم غفلت برت رہے ہوں تو ہمیں بحیثیت جماعت خدا تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔‘‘
(خطبات ناصر جلد اول ص۴۹)
حضور کا یہ خطبہ جمعہ ۱۹۶۵ء کا ہے ۔۱۹۶۵ء اور ۱۹۶۶ء میں بھارت کے مختلف علاقوں میں قحط سالی کی کیفیت پیدا ہوئی اور خاص طور پر بہار کے علاقہ میں شدید قحط کے حالات پیدا ہوئے۔کہا جاتا ہے کہ اس قحط میں دس پندرہ لاکھ افراد اپنے زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ۱۹۶۷ء میں پاکستان کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑا اور ملک کو فوری ضرورت کے ماتحت امریکہ ، چین اور کینیڈا سے غلہ منگوانا پڑا۔ اس موقع پر حزب اختلاف کی طرف سے حکومت پر نکتہ چینیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے جو فرمایا اسے روزنامہ امروز نے ان الفاظ میں شائع کیا:
’’انہوں نے کہا کہ نکتہ چینی بحران کو حل کرنے میں مدد کرنے کی بجائے الجھاتی ہے۔کسی بھی قومی بحران کی صورت میں تمام شہریوں کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کو مطعون کرنے اور ملزم ٹھہرانے کے بجائے بحران کو دور کرنے کی مثبت تدابیر اختیار کریں۔
انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کو چونکہ سرور کائنات ﷺ کی حیات ِ طیبہ کو مسلمانوں کے لئے مشعلِ راہ بنانا تھا اس لئے ان کی زندگی میں وہ تمام واقعات ملتے ہیں جو مسلمانوں کو بعد میں پیش آ سکتے تھے ۔ان میں قحط کا واقعہ بھی موجود ہے۔مکہ میں قحط پڑا تو رسول اکرم ﷺ نے ایثار پر زور دیا جس کے نتیجے میں کفار کو کھانا میسر آنے لگا۔نبی اکرم ﷺ کے فرمودات کی روشنی میں مسلمان آج بھی رات کو اطمینان کر کے سوئیں کہ ہمسایہ بھوکا تو نہیں سو رہا تو مسئلے کی شدت کم ہو سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے ہی موقعوں کے لئے فرمایا تھا کہ ایک کاکھانا دو کے لئے اور دو کا تین کے لئے کافی ہونا چاہئے۔اور جب آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایک کا کھانا دو کے لئے اور دو کا چار کے لئے اور چار کا آٹھ کے لئے کافی ہونا چاہئے تو ان کا اشارہ متمول طبقے کی جانب تھا۔مرزا صاحب نے حزب ِ مخالف کے رویے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا اگر مقصد لوگوں کا پیٹ بھرنا ہے تو پھر حکومت سے تعاون ضروری ہے۔انہوں نے کہا مخالف عناصر تعاون کی بجائے نکتہ چینی کی راہ اختیار کر کے ثابت کر رہے ہیں کہ غذائی قلت کے مسئلے پر قابو پانا ان کا مقصد نہیں بلکہ اس کی آڑ میںاقتدار پر قبضہ کرنا ان کا مطلوب و مقصود ہے۔
نمائندہ امروز نے مرزا ناصر احمد سے پوچھا۔سیاسی حلقوں کا یہ تاثر کہاں تک درست ہے کہ جماعت ِ احمدیہ چونکہ ہر حکومت کی غیر مشروط اطاعت کرتی ہے اس لئے ملکی سیاست میںاس کا کوئی رول نہیںہے۔مرزا صاحب نے جواب دیا جماعت ِ احمدیہ کو عملی سیاست سے بلا شبہ کم دلچسپی ہے لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ وہ ہر حکومت کی غیر مشروط اطاعت کرتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جماعت قانون کی حکمرانی کی اطاعت کرتی ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ جب تک کسی ملک میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی اس میں نہ تو معاشرتی ضبط و نظم پیدا ہو سکتا ہے اور نہ انفرادی سطح پر اطمینانِ قلب نصیب ہو سکتا ہے،مرزا صاحب نے کہا کہ اگر قانون حزب ِ مخالف کے وجود کی اجازت دیتا ہو تو اس کے قیام میں بھی کوئی مضائقہ نہیں لیکن اختلاف کا اظہار تعمیری انداز میں ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ مارشل لاء کے نفاذ پر جب حزب ِ مخالف کی تمام توپوں نے چپ سادھ لی تھی تو ہمیں حکومت سے کچھ اختلاف تھے ہم نے مناسب طریقے سے ان کا اظہار کر دیا۔انہوں نے کہا کہ جن حلقوں کا کہنا ہے کہ ملکی سیاست میں جماعت ِ احمدیہ کا رول نہیں۔ظاہر ہے وہ حزب ِ مخالف سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے میں ان سے یہی کہوں گا انہیں اول تو خوش ہونا چاہئے کہ ہم ان کے مقابلے میں نہیں ہیں اور یوں بھی انہیں ہماری فکر نہیں ہونی چاہئے۔۔۔انہوں نے ایک واقعہ سنایا جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ جماعت حکومت کے ہر اقدام کی اندھا دھند حمایت نہیں کرتی۔‘‘ (روزنامہ امروز ۳۰ جنوری ۱۹۶۷ء ص۹)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی اس تحریک کی روشنی میں جماعت میں ہر سال مستحقین میں وسیع پیمانے پر گندم تقسیم کی جاتی ہے اور زکوٰۃ کی رقم سے بھی مستحقین کی وسیع بنیادوں پر مدد کی جاتی ہے۔ جماعت کے کارکنان کو تو ویسے ہی تمام اہلِ خانہ کے لئے گندم کے اخراجات ادا کئے جاتے ہیں۔
فضلِ عمر فاؤنڈیشن کا قیام
جماعت ِ احمدیہ پر اجتماعی طور پر اور لاکھوں احباب ِ جماعت پر انفرادی طور پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بے شمار احسانات تھے اور ہیں ۔ اور آپ کے با برکت وجود میں موعود فرزند کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم الشان پیشگوئیاں پوری ہوئیں ۔خود اللہ تعالیٰ نے آپ کے وجود کو رحمت کا ایک نشان قرار دیا تھا۔آپ کی یاد ایسی یاد نہیں تھی جو آپ کی وفات کے ساتھ دلوں سے محو ہو جاتی۔جس طرح آپ کے وجود میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں پوری ہوئیں اور جس طرح آپ کے باون سالہ دورِ خلافت میں جماعت ترقیات کی منازل طے کرتی چلی گئی،اس کا تقاضا تھا کہ اس کے شکرانے کے طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور قربانی پیش کی جائے۔
چنانچہ حضرت چوہدری سر محمدظفراللہ خان صاحب ؓ کے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بے مثال کارناموں اور عظیم الشان احسانوں کی یادگار کے طور پر ۲۵ لاکھ روپے کا ایک فنڈ قائم کیا جائے اور اس رقم سے ایسے کام کئے جائیں جن سے حضرت مصلح موعودؓ کو خاص دلچسپی تھی۔۱۹۶۵ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر جو خلافتِ ثالثہ کا پہلا جلسہ سالانہ تھا ،آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی اجازت سے اس فنڈ کا اعلان ۱۹؍ دسمبر ۱۹۶۵ء کو فرمایا اور احبابِ جماعت سے اس فنڈ میں حصہ لینے کی تحریک کی۔آغاز میں جماعت سے پچیس لاکھ روپے کے عطیات کی اپیل کی گئی۔ (۱)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے جلسہ سالانہ ۱۹۶۵ ء پر خطاب کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ اس فنڈ سے جو فاؤنڈیشن قائم کی جائے گی اس کا نام فضلِ عمر فاؤنڈیشن ہو گا۔آپ نے ارشاد فرمایا کہ جماعت دیگر مالی قربانیوں کے علاوہ اس چندے میں بھی حصہ لیں اور اس دعا کے ساتھ رقوم پیش کریں کہ اس فاؤنڈیشن کے اچھے نتائج نکلیں او ر اللہ تعالیٰ ان کا ثواب حضرت مصلح موعودؓ کو بھی پہنچائے اور ہمیں بھی پہنچائے ۔آپ نے یہ خوش خبری سنائی کہ کل اس فنڈ کے قیام کا اعلان ہوا ہے اور ایک دن میں احباب نے پندرہ لاکھ کے وعدے لکھوا دیئے ہیںاور یہ امید ظاہر فرمائی کہ وعدوں کی مقدار پچیس لاکھ سے کہیں زیادہ پہنچ جائے گی۔آپ نے فرمایا کہ حضرت مصلح موعود ؓ نے جو جائیداد بنائی تھی اس کے متعلق حضور کی نیت یہی تھی کہ اس سے دینی کام جاری کئے جائیںاور اپنے بچوں کو بھی حضور ؓ نے فرمایا کہ میں تمہیں دنیوی فکروں سے اس لئے آ زاد کرنا چاہتا ہوں کہ تا تم اپنے اوقات کو دین کی خدمت میں لگائے رکھو۔چنانچہ حضرت مصلح موعود ؓ کے بچوں نے یہ طے کیا کہ وہ حضورؓ کی اس جائیداد میں سے انشا ء اللہ ایک لاکھ روپیہ اس فنڈ میں دیں گے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ارشاد فرمایا کہ میں ایک کمیٹی مقرر کروں گا جو یہ غور کرے گی کہ اس فنڈ کی رقم کو کس طرح خرچ کرنا ہے۔اس کے ساتھ آپ نے دو ممکنہ مقاصد بیان فرمائے جن کے لئے اس فنڈ کی رقم کو خرچ کیا جا سکتا ہے۔ایک مقصد تو پاکستا ن اور بیرونِ پاکستان میں کام کرنے کے لئے مبلغین اور معلمین تیار کرنے کا کام ہے۔ اور دوسرے ذہین بچوں کی تعلیم کے لئے اس فنڈ سے انتظام کیا جائے۔ہمارے بعض بچوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسے دماغ عطا فرمائے ہیں کہ ان کی پوری تربیت اور تعلیم کا انتظام ہو جائے تو بہت جلد دنیوی لحاظ سے چوٹی کے دماغوں میں شمار ہونے والے ہو سکتے ہیں۔
جلسہ سالانہ پر اس اعلان کے ساتھ فضلِ عمر فاؤنڈیشن کا آ غاز ہوا۔وعدہ کرنے والوں کو تین سالوں میں یہ چندہ ادا کرنا تھا ۔حکومتِ پاکستان نے یہ رعایت دی کہ فضلِ عمر فاؤنڈیشن کی آمد انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہو گی اور اس میں چندہ دینے والوں کو انکم ٹیکس میں رعایت ملے گی(۲)۔حضرت چوہدری محمدظفراللہ خان صاحب ؓ اس کے پہلے صدر مقرر ہوئے ۔کرنل عطاء اللہ صاحب نے نائب صدر اور مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے سیکریٹری کے فرائض سنبھالے۔مندرجہ بالا احباب سمیت اس کے کل دس ڈائریکٹر زمقرر کئے گئے۔فاؤنڈیشن نے فیصلہ کیا کہ چندوں سے حاصل ہونے والی رقوم کو محفوظ جگہ پر انوسٹ (Invest)کیا جائے گا اور حاصل ہونے والے منافع کو معین کردہ مقاصدکی تکمیل کے لئے خرچ کیا جائے گا۔فاؤنڈیشن کے مقاصد کے تعین کے لئے ربوہ میں ’’مجلسِ مقاصد‘‘ کا اجلاس ہواجس میں ڈویژنل امراء کے علاوہ دیگر صائب الرائے احباب کو بھی مدعو کیا گیا ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے دعا کے ذریعہ اس کی کارروائی کا آغاز فرمایا۔ڈیڑھ صدکے قریب تجاویز کو ان پانچ اقسام کے تحت مرتب کیا گیا:
(۱) علمی تحقیقاتی کام (۲)تبلیغی جد و جہد (۳) تعلیمی جد وجہد (۴) اقتصادی جد و جہد (۵) متفرق
ایک سب کمیٹی نے ان تجاویز پر غور کر کے ایک پروگرام مرتب کیا ۔اس پروگرام میں قلیل المیعاد اور طویل المیعاد منصوبے شامل تھے۔قلیل المیعاد پروگرام کے تحت فضلِ عمر فاؤنڈیشن نے حضرت مصلح موعود ؓ کے تمام خطبات ، تقاریر اور ملفوظات کو مرتب کرکے شائع کرنے کا انتظام کرنا تھا ،حضرت مصلح موعودؓ کی سوانح حیات مرتب کرکے شائع کرنا تھی اورچونکہ حضرت مصلح موعودؓ کی بہت خواہش تھی کہ عمدہ رسائل اور کتب تحقیق کر کے لکھے جائیں۔چنانچہ فاؤنڈیشن نے فیصلہ کیا کہ اعلیٰ معیار کے علمی مقالے لکھوائے جائیں اور ان کو انعام بھی دیئے جائیں ۔حضرت مصلح موعود کی شدید خواہش تھی کہ مرکز میں ایک معیاری اور جامع لائبریری بنائی جائے۔آپ کی اس خواہش کے پیشِ نظر فضلِ عمر فاؤنڈیشن نے فیصلہ کیا کہ ربوہ میں ایک ایسی لائبریری کی عمارت تعمیر کی جائے جس میں پچاس ہزار کتب رکھنے کی جگہ ہو ۔ دوسرا طویل المیعاد منصوبہ یہ بنایا گیا کہ اگر کسی جگہ پر تحریکِ جدید محسوس کرے کہ یہاں پر مشن ہاؤس بننا چاہئے اور مالی وسائل موجود نہ ہوںیا کسی زبان میں قرآنِ کریم کا ترجمہ کرنے کے لئے مالی معاونت درکار ہو تو فضلِ عمر فاؤنڈیشن ان مقاصد کے لئے مالی معاونت کرے گی۔(۳)
اس فاؤنڈیشن کے متعلق بعض لوگوں نے اس قسم کی باتیں شروع کردیں اور لوگوں کے دلوں میں وہم پیدا کرنے کی کوشش کی کہ شاید فضلِ عمر فاؤنڈیشن کا قیام ایک بدعت ہے جو مستحسن اور درست نہیں ہے۔اس کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ۱۹۶۶ء کی مجلسِ شوریٰ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
’’…تو یہ خیال کرنا کہ عمل کے میدان میں وہ ہمیں غلبہ اسلام اور اسلام کے استحکام کے لئے نئی نئی تدبیریں نہیں سکھائے گا۔یہ اتنی غیر معقول بات ہے کہ اگر ذرا بھی سوچ اور فکر سے کام لیا جائے۔تو طبیعت اس کو قبول کرنے کے لئے ہر گز تیار نہیں ہو گی۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے جب دعویٰ فرمایا تو آپ نے خدمتِ اسلام کے لئے نئی نئی تدابیر نکالیں اور انہیں اختیار کیا۔اس پر بعض لوگوں کی طرف سے یہ اعتراض کیا گیا کہ آپ اسلام کی اشاعت ،خدمت اور اس کی مضبوطی کے لئے جو نئی تدابیر اختیار کر رہے ہیں وہ بدعت میں شامل ہیں اور مردود ہیں…‘‘
اس کے بعد آپ نے تفصیلی دلائل بیان فرمائے کہ یہ وہم یہ اعتراض محض باطل ہے ۔آپ نے ایک دوست کی خواب کا ذکر فرمایا جس میں حضرت مصلح موعود ؓ نے ارشاد فرمایا تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو یہ پیغام پہنچا دیا جائے کہ فضلِ عمر فاؤنڈیشن سے مینارہ ضرور بنایا جائے ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا کہ مینارہ کی تعبیر ایسے شخص کی ہوتی ہے جو اسلام کی طرف دعوت دینے والا ہو۔ اور اس کا مطلب یہ تھا کہ فضلِ عمر فاؤنڈیشن سے جید عالم ضرور پیدا کئے جائیں اور اس سے بے توجہی نہ برتی جائے ۔
اس خطاب کے آ خر میں آپ نے فرمایا :
’’اب میں اس نورانی چہرہ کا واسطہ دے کر آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ آپ جلد سے جلد اور زیادہ سے زیادہ رقوم اس فاؤنڈیشن میں داخل کریںتا وہ کا م جو ہمارے پیارے امام کو محبوب تھے ان میں ہم اور زیادہ وسعت پیدا کرسکیں ۔‘‘(۴)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا منشاء مبارک تھا کہ فضلِ عمر فاؤنڈیشن جلد اپنا دفتر قائم کرلے۔ چنانچہ صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے احاطے میں دفتر کی تعمیر شروع کی گئی ،جس کا افتتاح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۱۵ جنوری ۱۹۶۷ء کو فرمایا ۔وعدوں کا حصول اور انکی وصولی سب سے پہلے توجہ کا تقاضا کرتی تھی۔چنانچہ نائب صدر کرنل عطاء اللہ صاحب اور سیکریٹری شیخ مبارک احمد صاحب نے پہلے سال کے دوران پاکستان کے مختلف اضلاع کا دورہ کرکے احباب کو اس چندے میں وعدے کرنے کی تحریک کی ۔اور بعد میں ۱۹۶۹ء میں مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے اس غرض کے لئے انگلستان کا دورہ بھی کیا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ از راہِ شفقت چندوں کی ادائیگی کی خود بھی نگرانی فرماتے تھے۔ چنانچہ ۱۹۶۸ء کی مجلسِ مشاورت میں حضور نے امراء جماعت کو فرداََ فرداََ ان کی جماعتوں کی طرف بقایا جات کی طرف توجہ دلائی اور بروقت ادائیگی کے لئے انتہائی کوشش کا ارشاد فرمایا۔اور فرمایا کہ بعض جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے اس طرف با لکل توجہ نہیں دی(۵)۔آغاز میں ۲۵ لاکھ روپے کی رقم کے لئے تحریک کی گئی تھی۔مگر بعد میں یہ وعدہ جات ۳۷ لاکھ روپے سے تجاوز کر گئے۔عطایا کی ادائیگی کی میعاد ۱۹۶۹ء کے آ خر میں ختم ہو گئی اور مدت کے اختتام تک ہبہ کی گئی جائداد سمیت کل تینتیس لاکھ چوراسی ہزار کا چندہ وصول کیا گیا۔پاکستان کے علاوہ اٹھائیس اور ممالک سے احمدی احباب نے اس تحریک میں چندے دیئے۔اگرچہ آغاز میںحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اس امید کا اظہار فرمایا تھا کہ بیرونِ پاکستان جماعتیں ۱۵ لاکھ روپے کے قریب رقوم جمع کرلیں گی مگر مناسب تحریک نہ ہونے کے باعث یہ ہدف حاصل نہ کیا جا سکا اور بیرونِ پاکستان کی وصولی آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار کے قریب رہی۔سب سے زیادہ انگلستان کی جماعت نے حصہ لیا۔اور لندن کے بچوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔دوسرے نمبر پر بھارت کی جماعت تھی ۔اور ماریشس کی جماعت نے اپنے وعدے سے بڑھ کر ادائیگی کی۔افریقہ کی جماعتوں میں کینیا کی ادائیگی سب سے زیادہ تھی۔
بعد میں اس تحریک میں موصول کردہ چندے کی کل رقوم اس جائیداد کو شامل کر کے جو کہ پیش کی گئی تھی ساڑھے سینتیس لاکھ روپے تک پہنچ گئی ۔
فضلِ عمر فاؤنڈیشن کے لئے ابتدائی وسائل کا جمع ہو جانا ،خلافتِ ثالثہ کے ابتدائی شیریں ثمرات میں سے ایک تھا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ۱۹۷۰ء کے جلسہ سالانہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا
’’ فضلِ عمر فاؤنڈیشن کا افتتاح ۱۹۶۵ء کے جلسے میں کیا گیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا۔ ایک بات اس وقت تو میں نے ظاہر نہیں کی اب بتا دیتا ہوں۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلافت کے مقام پر کھڑے کئے گئے تو سارے مخالف اندھوں نے کہا۔ ایک بچے کو بٹھا دیا ہے اس نے کیا کام سنبھالنا ہے۔پھر وہی بچہ جب الٰہی تقدیر کے مطابق جب ۶۵ ء میں ہم سے جدا ہوا تو کہنے لگے بڑا ذہین،بڑا صاحبِ فراست،بڑا عالم،بڑا مدبر، بڑا منتظم جماعت سے علیحدہ ہو گیا،اب دیکھنا ان کا کیا حشر ہوتا ہے ۔ ۱۴ء میں وہ نا قابلِ اعتنا بچہ تھا اور ۶۵ء میں وہ ایک ایسا بت بن گیا تھا (غیروں کی نگاہ میں ہماری نگاہ میں نہیں) کہ وہ خیال کرتے تھے کہ اب وہ بت نہیں ہے تو جماعت ختم ہو جائے گی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے عمل سے اور اپنی رحمتوں کے جلوے دکھا کر جماعت کو کہا کہ ۱۴ء کا بچہ بھی میری انگلیوں میں ہتھیار بن کر اُٹھایا گیا تھا اور ۶۵ء میں بھی وہ میرا پیارا تھاجس کو میں نے اپنے پاس بلا لیا۔ پھر میں نے ایک اورذرئہ نا چیز کو پکڑا ،وہ بھی میری انگلیوں میں ہے ۔ ۱۹۱۴ء میں بھی تو تم ایک کو نا اہل کہتے رہے تھے ۱۹۶۵ ء میں بھی کہہ لو۔کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ان لوگوں کو دکھانے کے لئے چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب کے ذہن میں یہ تجویز بیج کے طور پر آئی اور اعلان ہوا۔‘‘(۶)
پھر آپ نے فرمایا:
’’فضلِ عمر فاؤنڈیشن اس خیال کے اوپر اللہ تعالیٰ کا ایک تازیانہ تھا جو کہتے تھے کہ اب جماعت مر جائے گی ۔خدا نے کہا کہ جماعت اتنی قربانیاں دے رہی ہے آؤ تمہیں ایک نظارہ دکھاؤں۔‘‘(۶)
جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ فاؤنڈیشن کے چندے کی رقم سے سرمایہ کاری کی گئی تھی تاکہ حاصل شدہ منافع سے وہ کام سر انجام دیئے جائیں جن سے حضرت مصلح موعودؓ کو خاص دلچسپی تھی۔ایک سال منافع تو حاصل ہوا لیکن کوئی ایسا مناسب منصوبہ نہ بنایا جا سکا جس پر یہ رقم لگائی جا سکتی تو ۱۹۷۳ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے یہ اصولی ہدایت فرمائی:
’’ اور اب کچھ عرصہ سے روپیہ پڑا ہوا ہے اور انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کہاں خرچ کریں۔ جماعت نے تو وہ روپیہ قربانی کر کے دیا ہے اور رکھ چھوڑنے کے لئے نہیں دیا بلکہ اس لئے دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے دین اور اس کی مخلوق کو اس سے فائدہ پہنچے ۔دو چار تجاویز زیرِ غور تھیں ۔لیکن غور کے بعد انہیں رد کرنا پڑا ۔اور دو ایک تجاویز اب زیرِ غور ہیں۔امید ہے انشاء اللہ یہ روپیہ پڑا نہیں رہے گابلکہ اسے برکت کے دھاروں میں چالو کر دیا جائے گا۔‘‘(۷)
اب ہم ان کاموں کا مختصر جائزہ لیں گے جو فضلِ عمر فاؤنڈیشن کے تحت کئے گئے۔لیکن اس جائزے میں ہم صرف فاؤنڈیشن کی مساعی تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ جماعت کی تاریخ میں ان کاموں کی اہمیت اور ان کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے ارشادات کا مختصر جائزہ بھی لیں گے۔
خلافت لائبریری
اللہ تعالیٰ سے حکم پا کر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے تو آپ نے مسلمانوں کو ایک علمی جہاد کی طرف بلایاتاکہ پیار اور دلائل کے ساتھ دنیا کو اسلام کی طرف بلایا جائے اور اُن اعتراضات کا جواب دیا جائے جو ہر طرف سے اسلام پر کئے جا رہے تھے ۔ظاہر ہے کہ اس عظیم الشان کام کیلئے وسیع پیمانے پر کتب کی ضرورت ایک لازمی بات تھی۔اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک ایسے علم دوست گھرانے میں پیدا کیا ،جس نے نسلاًبعد نسلٍ ہزاروں کتب کا ایک ذخیرہ قادیان میں جمع کیا تھا۔اگرچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دادا مرزا عطا محمد صاحب کے زمانے میں جب رام گڑھی سکھوں نے دھوکا سے شب خون مار کر قادیان پر قبضہ کیا تو اس خاندانی کتب خانے کو بہت نقصان پہنچا اور بہت سی کتب چاک کر دی گئیں۔صرف قرآنِ مجید کے پانچ سو نسخے جلائے گئے(۸) لیکن اس عظیم نقصان کے باوجود خاندانی کتب خانے کا ایک حصہ محفوظ رہا جو ہزارہا کتب پر مشتمل تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بچپن سے مطالعہ کا اس قدر شوق تھا کہ آپ کے والد اس خوف سے آپ کو منع فرماتے تھے کہ کہیں آپ کی نظر پر اثر نہ پڑے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو ہندوستان پر عیسائیت کی یلغار شروع ہو چکی تھی اور ہر طرف مذہبی مناظروں کا میدان گرم تھا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہر وقت مذہبی کتب کے مطالعہ میں منہمک رہتے تھے۔آپ تحریر فرماتے ہیں کہ
’’ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا۔‘‘ (روحانی خزائن جلد۱۳ ص۱۸۱حاشیہ)
اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کتابوں کا بہت شوق تھا۔آپ نے بے تحاشا روپیہ خرچ کر کے کتب کا ایک خزانہ جمع فرمایا تھا۔آپ کو خود بھی مطالعہ کا شوق تھا اور دوسرے ضرورت مند بھی آپ کے کتب خانے سے استفادہ کرتے تھے۔۔جب آپ ہجرت کر کے قادیان آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شروع میں ،جبکہ ابھی خود آپ کو بھی معلوم نہیں تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منشاء یہ ہے کہ اب آپ قادیان میں ہی مستقل سکونت رکھیں، آپ کو اپنا کتب خانہ بھیرہ سے قادیان منتقل کرنے کا ارشاد فرمایا۔ایک اندازے کے مطابق آپ کے کتب خانے میں بیس تیس ہزار کتب موجود تھیں۔
جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں،ایک دشمنِ اسلام نے کتاب ’’امہات المؤمنین‘‘ شائع کی۔اس کتاب میں آنحضرت ﷺ کواوباشانہ انداز میں گالیاں دی گئی تھیں اور آپ کے متعلق توہین آمیز اور گندے الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ اس کی کتاب کے جواب میں صحیح ردِ عمل یہ ہے کہ اس کا اور اس جیسی دوسری کتب کا جواب لکھا جائے۔اور ان کے اعتراضات کا جواب دینے والے اور ان کے جواب میں کتب لکھنے والے کے لئے آپ نے دس ضروری شرائط بیان فرمائیں۔اور آپ کی تحریر فرمودہ شرائط میں سے آٹھویں شرط یہ تھی کہ
’’آٹھویں شرط تحریری یا تقریری مباحثات کیلئے مباحث یا مؤلّف کے پاس ان کثیر التعداد کتابوں کا جمع ہونا ہے جو نہایت معتبر اور مسلم الصحت ہیں جن سے چالاک اور مفتری انسان کا منہ بند کیا جا تا اور اس کے افترا کی قلعی کھولی جاتی ہے۔‘‘
اور اس کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نو رالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کتب خانے کا ذکر بھی فرمایا۔(۹)
جماعت ِ احمدیہ کے قیام کے ساتھ ایک عظیم قلمی اور علمی جہاد کا آ غاز ہوا۔اور وسیع لائبریریاں اس عظیم کام کے لئے ایک بنیادی ضرورت ہیں۔چنانچہ با وجود نہایت محدود مالی وسائل کے مختلف جماعتی اداروں نے اپنی اپنی لائبریریاں بنائیں ۔قادیان میں رسالہ ریویو آف ریلیجنز، حضرت مصلح موعود ؓ کی قائم کردہ انجمن تشحیذ الاذہان ،مدرسہ احمدیہ،تعلیم الاسلام ہائی سکول اور تعلیم الاسلام کالج اور فضلِ عمر فاؤنڈیشن نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق لائبریریاں قائم کی تھیںاور خواتین کے لئے امۃ الحی لائبریری بھی کام کر رہی تھی۔اس کے علاوہ مختلف بزرگان نے بھی اپنی ذاتی لائبریریوں کی صورت میں کتابوں کا خزانہ جمع کیا ۔خود حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے ذاتی کتب خانے میں ہزاروں کتب موجود تھیں۔دسمبر ۱۹۱۶ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی کتب کا بیش بہا خزانہ صدر انجمن احمدیہ کے نام وقف کر دیا۔صدر انجمن احمدیہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کتب خانہ،ریویو اور تشحیذ الاذہان کی لائبریریوں کو حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے کتب خانے سے مدغم کر کے صادق لائبریری کے نام سے ایک مرکزی لائبریری قائم کی اور حضرت شہزادہ عبد المجید صاحب اس کے لائبریرین مقرر ہوئے۔حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو کتابوں اور مطالعہ کا شوق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ورثہ میں ملا تھا ۔جنوری ۱۹۳۲ء میں حضرت مرزاسلطان احمد صاحب کی لائبریری کی ڈیڑھ ہزار کتب بھی مرکزی لائبریری میں شامل کر دی گئیںاور لائبریری کو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے دیوان خانے میں منتقل کر دیا گیا۔بہت سے غیر از جماعت احباب جب قادیان دیکھنے آتے تو ایک چھوٹے سے قصبہ میں اتنی وسیع لائبریری دیکھ کر حیران رہ جاتے۔ جب ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کا مرحلہ آیا تو قادیان کی جدائی کا زخم اُ ٹھانا پڑا ۔تمام تر کوششوں کے با وجود حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتب میں سے تقریباََ چھ ہزار جو کہ حضور کے کتب خانے کا دو تہائی حصہ تھا پاکستان پہنچائی گئیں ۔حضورؓ نے اپنے صاحبزادوں کو ان کتب کی باحفاظت منتقلی کے متعلق خاص ہدایات دی تھیں اور فرمایا تھا کہ یہی تو ہماری اصل جائیداد ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓکے وسیع کتب خانے سے فقط ساڑھے چار ہزار کتب پاکستان منتقل کی جا سکیں۔ اس وقت پورے پنجاب میں فسادات کی آگ بھڑک رہی تھی اورہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔ ان کتابوں کو لکڑیوں کی پیٹیوں میں بھر کر سرحد پر لایا جاتا اور وہاں سے کچھ کارکنان ان کو لاہور لے آتے۔یہ کتب لاہور سے پہلے چنیوٹ اور پھر ربوہ منتقل کی گئیں ۔اُس پُر آ شوب دور میںجب درویشانِ قادیان محصوری کی حالت میں دن گزار رہے تھے ،کتب کی حفاظت کا مناسب انتظام نہ ہو سکا اور اس لائبریری کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو گیا۔
جب ربوہ آ باد ہوا اور نئے مرکز میں مختلف ادارے قائم ہونے لگے تو ایک وسیع لائبریری کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس کی جانے لگی۔۱۹۵۲ء کی مجلسِ شوریٰ میں حضرت مصلح موعود ؓ نے جماعت کے لئے ایک وسیع لائبریری کی اہمیت اور اس کے انتظام اور لائبریرین کے فرائض پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے احبابِ جماعت اور صدر انجمن احمدیہ کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی۔حضور ؓ نے فرمایا :
’’لائبریری کے متعلق میرے نزدیک سلسلہ نے بہت بڑی غفلت برتی ہے ۔لائبریری ایک ایسی چیز ہے کہ کوئی تبلیغی جماعت اس کے بغیر کام نہیں کر سکتی ۔جہاں تک میں سمجھتا ہوں جب سے میری خلافت شروع ہوئی ہے ۔کسی بڑے دفتر کے چپڑاسیوں پرجو رقم خرچ ہو چکی ہے اتنی رقم لائبریری کے لئے انجمن نے خرچ نہیں کی ۔ایک دو چپڑاسیوں کی رقم ہی جمع کرلو تو تمہیں فوراََ پتا لگ جائے گا کہ اس بارہ میں کتنی بڑی غفلت اور کوتاہی سے کام لیا گیا ہے ،حالانکہ یہ اتنی اہم چیز ہے کہ ہمارے سارے کام اس سے وابستہ ہیں ۔تبلیغِ اسلام، مخالفوں کے اعتراضات کے جواب، تربیت۔ یہ سب کام لائبریری ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔اس وقت تک جتنا کام ہو رہا ہے یا تو حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی لائبریری سے ہو رہا ہے ۔اور یا پھر میری لائبریری سے ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔لیکن وہ جماعت جو ساری دنیا میں تبلیغِ اسلام کے کام کے لئے کھڑی ہوئی ہے ۔اس کے علوم کی بنیاد کسی دوسرے شخص کی لائبریری پر ہو نا عقل کے بالکل خلاف ہے ۔ہمارے پاس تو اتنی مکمل لائبریری ہونی چاہئے کہ جس قسم کی مکمل مذہبی لائبریری کسی دوسری جگہ نہ ہو ۔مگر ہمارا خانہ اس بارہ میں بالکل خالی ہے ۔‘‘(۱۰)
اس کے بعد حضور ؓ نے لائبریرین کے کام کے دائرہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ لائبریرین کے معنے محض کتابوں کی دیکھ بھال کرنے والے کے نہیں ہوتے بلکہ اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ مختلف مضامین کی کتابوں سے واقف ہو ۔اور جب اس سے پوچھا جائے کہ فلاں فلاں مضمون پر کون کون سی کتابیں دیکھنی چاہئیں۔تو وہ فوراََ ان کتابوں کے نام بتا سکے ۔اور چاہئے کہ لائبریری میں ہر فن کے جاننے والے آدمی ہونے چاہئیں ۔ان کا کام یہ ہو کہ وہ کتابیں پڑھتے رہیں اور خلاصے نکالتے رہیں۔اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ جب لوگوں کو ان حوالوں کی ضرورت ہو گی ،وہ خلاصہ سے فوراََ ضروری باتیں اخذ کر لیں گے۔حضور نے مثالیں دے کر واضح فرمایا کہ جب ایک تحقیق کرنے والا کسی موضوع پر تحقیق کرے گا تو وہ اس تحقیق سے متعلقہ مختلف موضوعات کے ماہرین کے پاس جائے گا اور یہ ماہرین اپنے اپنے مضمون کے حوالے سے اس کو ان کتب کا بتا دیں گے جہاں سے اسے ضروری مواد مل سکتا ہے ۔اور اس طرح کتاب لکھنے والا آ سانی سے کتاب لکھ سکتا ہے ۔گویا لڑنے والا حصہ اور ہوگا اور گولہ بارود تیار کرنے والا حصہ اور ہو گا ۔کیا تم نے کوئی سپاہی ایسا دیکھا ہے جسے لڑائی پر جانے کا حکم ملے تو وہ کارتوس بنانا شروع کر دے ۔کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کسی کو مدرس مقرر کیا گیا ہو تو ساتھ ہی اسے یہ کہا گیا ہو کہ اب جغرافیہ پر ایسی کتاب لکھ دو جو پڑھانے کے کام آ سکے ۔ہمیشہ اصل کام والاحصہ اور ہوتا ہے اور تعاونی حصہ الگ ہوتا ہے ۔مگر ہمارے ہاں چونکہ اس کا خیال نہیں رکھا جاتا اس لئے ہمارا علم ترقی نہیں کرتا۔حضور نے ارشاد فرمایا کہ اگر ہمارے پاس ایک لاکھ کتاب ہو تو ہمارے پاس پچاس آ دمی لائبریرین ہونا چاہئے ۔جن میں سے کچھ نئی کتابوں کو پڑھنے میں لگا ر ہے ۔کچھ پرانی کتابوں کے خلاصے تیار کرنے میں لگا رہے ۔کچھ ایسے ہوں جو طلباء کے لئے نئی نئی کتابوں کے ضروری مضامین الگ کرتے جائیں ۔(۱۱)
حضرت مصلح موعودؓ کے ان ارشادات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی شدید خواہش تھی کہ جماعت کی اپنی معیاری لائبریری ہو جو فقط ایک عام لائبریری نہ ہو بلکہ ایک تحقیقاتی ادارے کی طرز پر کام کرے کیونکہ اس سے تبلیغ اسلام کے بہت سے اہم کام وابستہ ہیں۔موجودہ دور میں کتابوں کے ساتھ کسی بھی لائبریری کے لئے ایک معیاری عمارت بھی نہایت ضروری ہوتی ہے۔چنانچہ فضلِ عمر فاؤنڈیشن نے حضور ؓ کے اس ارشاد کے احترام میں ربوہ میں لائبریری کی ایک عمارت تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ۔ جب اس پراجیکٹ پر کام ہو رہا تھا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے جلسہ سالانہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
’’لائبریریوں کے متعلق میں ایک اور بات بھی کہہ دیتا ہوں اور وہ یہ کہ لائبریریوںکی طرف جماعت کو توجہ نہیں۔جہاں توجہ پیدا ہوتی ہے وہاں غلط توجہ پیدا ہو جاتی ہے۔ لائبریری کا مقصد یہ ہے کہ ایسی کتابیںرکھی جائیں جو کتاب بینی کے روحانی شوق کو پورا کرنے والی ہوں۔’’روحانی ‘‘کے لفظ کا اضافہ میں جان بوجھ کر کر رہا ہوں۔کتاب بینی کا شوق پورا کرنے کے لئے لوگ عمرو عیار کی عیاریاں بھی پڑھتے ہیں اور حمید و فریدی کے ناولوں کا مطالعہ بھی کرتے ہیں حالانکہ وہ بالکل بے معنی ہیں ۔گو وہ بڑی کثرت سے بک رہے ہیںلیکن وہ انسان کی روحانی پیاس نہیں بجھاتے اور لائبریری کا مقصد روحانی پیاس کے بجھانے کا سامان پیدا کرنا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم لائبریریوں کے قیام کی طرف توجہ نہیں کریں گے تو ہماری روحانی پیاس نہیں بجھے گی اور ہمارے اندر روحانی کمزوری پیدا ہو جائے گی۔‘‘ (۱۲)
اب تک مرکزی لائبریری پرائیویٹ سیکریٹری کے دفتر کے تین کمروں میں محدود تھی ۔ فضلِ عمر فاؤنڈیشن نے ایک جاذب نظر عمارت تیار کر کے صدر انجمن احمدیہ کے حوالے کی ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس کا افتتاح ۳؍ اکتوبر ۱۹۷۱ء کو فرمایا ۔تقریبِ افتتاح سے خطاب فرماتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا کہ جس منصوبے کو ہم نے بڑا سمجھا تھا آج ہماری آنکھ اسے چھوٹا پا رہی ہے۔ ہمیں تو لائبریری کی ایک ایسی عمارت کی ضرورت ہے جس میں کم و بیش پانچ لاکھ کتابیں رکھی جائیں ۔یہ ضرورت کا احساس ہے وقت آنے پر اس کے پورا کرنے کا سامان اللہ تعالیٰ خود فرمائے گا۔ آپ نے فرمایا کہ قرآنِ کریم ایک ماڈل لائبریری ہے جس میں بڑے سے بڑے کتب خانے کا نچوڑ ہے۔ لائبریریوں کے قیام کی غرض مومنوں کے نزدیک صرف یہ ہونی چاہئے کہ دنیا میں قرآنِ کریم کے علوم پھیلیں اور محفوظ ہوں ۔قرآنِ کریم کی تفسیر کے لئے جو کتب لکھی جائیں یاجو کتب تفسیر میں ممد ہوں وہ سب ہماری لائبریری میں موجود ہونی چاہئیں ۔پھر رسولِ کریم ﷺ کے تمام ارشادات ہیں جو احادیث کے رنگ میں موجود ہیں وہ بھی قرآنِ کریم کی تفسیر پر مشتمل ہیں،اس طرح امت کے دوسرے مقربینِ الٰہی بھی جنہوں نے اپنی ساری زندگیاں قرآن کے سیکھنے اور سکھانے میں صرف کیں جو کتب لکھیں وہ قرآن ہی کی تفسیر ہیں ۔اس لئے وہ بھی فیھا کتب قیمۃمیں شامل ہیں اور ہماری لائبریری میں موجود ہونی چاہئیں۔(۱۳)
حضرت مصلح موعود ؓ کے خطبات ،تقاریر اور کتب کی اشاعت
حضر ت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے باون سالہ دورِ خلافت میں حضور ؓ نے جو خطبات ارشاد فرمائے،جو تقاریر کیں اورجو کتب آپ نے تحریر فرمائیں وہ ایک ایسا علمی خزانہ ہے جسے آئندہ آ نے والی نسلوں کے لئے محفوظ کرنا نہایت ضروری تھا۔فضلِ عمر فاؤنڈیشن نے اس اہم فریضہ پر کام شروع کیا۔پہلی جلد خطباتِ عید الفطر پر مشتمل تھی جو کہ ۱۹۷۰ء کے جلسہ سالانہ پر شائع کی گئی ۔خطباتِ عید الاضحی کی جلد ۱۹۷۵ء میں اور حضور کے بیان فرمودہ خطباتِ نکاح کی جلد ۱۹۷۹ء میںمنظرِ عام پر آئی۔اس کے بعد کچھ تقاریر تو شائع ہوئیں لیکن عملاً یہ کام ایک طویل عرصہ تک ملتوی رہا۔پھر جب مکرم ناصر احمد شمس صاحب ۱۹۹۲ء میں سیکریٹری فضلِ عمر فاؤنڈیشن مقرر ہوئے تو اس اہم کام کو از سرِ نو شروع کیا گیا اور ۲۰۱۰ء تک حضرت مصلح موعود ؓ کے خطبات کی ۱۸ جلدیں طبع ہو چکی ہیں ،جن میں ۱۹۳۷ء تک حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات شامل ہیں ۔اور حضرت مصلح موعودؓ کی تصنیف فرمودہ کتب کی ۲۲ جلدیں طبع ہو چکی ہیں، ان ۲۲جلدوں میں حضرت مصلح موعودؓ کی ۱۹۵۲ء تک کی تصانیف شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ۱۷ دیگر کتب شائع ہوئی ہیں جبکہ خطابات شوریٰ کی تدوین و اشاعت کا کام بھی جاری ہے۔ یہ خطبات اور تصانیف جماعت ِ احمدیہ بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک عظیم علمی سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اسی طرح قیام کے معاََ بعد ہی فضل عمر فاؤنڈیشن نے حضرت مصلح موعودؓ کی سوانح حیات پر کام شروع کیا۔ ابتدا میں یہ کام مکرم و محترم ملک سیف الرحمن صاحب کے سپرد کیا گیا ۔مکرم و محترم ملک سیف الرحمن صاحب نے مواد جمع کرنا شروع کیا اور ۱۹۷۰ء تک تقریباََ ایک ہزار صفحات کا مسودہ تیار ہو چکا تھا۔اور ایک بورڈ آف ایڈیٹرز اس کا جائزہ لے رہا تھا ۔اس کے بعد فاؤنڈیشن نے یہ کام حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے سپرد کیا ۔آپ پر بہت سے جماعتی کاموں کے بوجھ تھے۔ اس لئے اس مسودہ کو حتمی شکل دینے میں زیادہ وقت لگا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے ۲۷؍دسمبر۱۹۷۲ء کو جلسہ سالانہ کی تقریر میں فرمایا :
’’پھر حضرت فضلِ عمر رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات کی تیاری گو ۶۶۔۶۷ء سے شروع ہے لیکن اب ۷۲ء ختم ہو رہا ہے مگر ابھی تک وہ آخری شکل میں ہمارے سامنے نہیں آئی پہلے ملک سیف الرحمن صاحب نے ایک مسودہ ایک کمیٹی کے مشورہ کے ساتھ تیار کیا ۔پھر فاؤنڈیشن نے کہا نہیں یہ بھی درست نہیں ۔اب یہ کام میاں طاہر احمد صاحب کے سپرد ہے کہ وہ اس کو از سرِ نو لکھیں یا ملک سیف الرحمن صاحب کے تیار کردہ مسودہ کی اصلاح کریں یا جیسے بھی مناسب ہو۔ بہر حال یہ کتاب اب تک چھپ جانی چاہئے تھی لیکن اب تک نہیں چھپ سکی۔‘‘(۱۴)
۱۹۷۵ء میں سوانح فضلِ عمر کی پہلی جلد شائع ہو کر لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ گئی۔یہ کتاب جماعت کے لٹریچر میں ایک قیمتی اضافہ تھی۔اس کی پہلی جلد۱۹۷۵ء میںشائع ہوئی ۔دوسری جلد بھی حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے تصنیف فرمائی۔پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو منصب ِخلافت پر سرفراز فرمایا تو مکرم عبد الباسط شاہد صاحب مربی سلسلہ نے اس کام کو مکمل کیا۔
مقالہ جات
حضرت مصلح موعودؓ کی شدید خواہش تھی اور آپ نے جماعت کو بار بار اس طرف توجہ بھی دلائی کہ جماعت میں تحقیق کی طرف رحجان پیدا ہو اور ایسی کتب اور مضامین شائع کئے جائیں جن کی بنیاد گہری تحقیق پر ہو ۔آپ کی اس خواہش کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے فضلِ عمر فاؤنڈیشن نے تحقیقی مقالہ جات لکھوانے اور ان میں سے معیاری مقالہ جات کو انعامات دینے کا ایک پروگرام بنایا۔چنانچہ پہلے سال اس سکیم کے تحت ۳۷ مقالے وصول ہوئے۔۱۲؍ جنوری ۱۹۶۸ء کو جلسہ سالانہ سے خطاب فرماتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اُس وقت تک موصول ہونے والے مقالوں کی تعداد پر ان الفاظ میں اظہارِ خوشنودی فرمایا:
’’یہ تعداد بڑی خوشکن ہے ۔شکر ہے کہ جنہیںاہلِ قلم بننا چاہئے وہ اہلِ قلم بننے کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔‘‘(۱۵)
اس کے بعد موصول ہونے والے مقالوں کی تعداد میں کمی آ تی گئی۔اور یہ تعداد گر کر ایک سال میں دو تین مقالہ جات تک رہ گئی ۔اور پھر اس میں مزید کمی آ ئی اور ۱۹۹۶ء اور ۲۰۰۶ء کے درمیان صرف ۳ مقالے لکھے گئے۔(تاہم ذیلی تنظیموں کے تحت مقالہ جات لکھنے کا سلسلہ بھی جاری ہے) چونکہ جماعتِ احمدیہ کے لئے تحقیق اور تصنیف کا کام ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اس لئے اس صورتِ حال میںحضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؓ نے احبابِ جماعت کو بار بار اس طرف توجہ دلائی کہ وہ تحقیق اور تصنیف کی طرف توجہ دیں ۔چنانچہ آپ نے ۱۹۷۰ء کے جلسہ سالانہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
’’ علمی اور تحقیقاتی تصانیف کا مقابلہ ہر سال ہوتا ہے۔۔زیادہ دوستوں کو اس طرف توجہ کرنا چاہئے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت دوست صرف اس خیال سے اس میں حصہ لیتے ہیں کہ شاید ہمیں انعام مل جائے ۔ایک ہزار روپیہ انعام کا لالچ نہ کریں ۔جو اس طرف متوجہ ہوں گے ان کا علم بہت بڑھے گا ۔کئی ہزار احمدی بی اے ہے یعنی بی اے یا بی اے سے اوپر جس کی تعلیم ہے مثلاََ ایم اے یا ڈاکٹر وغیرہ یا جو اس سے زیادہ تعلیم سمجھی جاتی ہے ،ان کو توجہ کرنی چاہئے ۔انعام ملے یا نہ ملے ۔تحقیق کے بعد بڑی محنت سے راتوں کو جاگ کر اور کتب پڑھ کر مقالہ لکھنا یہ خود ایک انعام ہے ۔‘‘ (۱۶)
۱۹۷۲ء کے جلسہ سالانہ سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :
’’علاوہ ازیں انعامی مضامین لکھوانے کا پروگرام تھا جو فی نفسہٖ بڑا ہی اہم نہایت ضروری اور بڑا ہی مفید پروگرام ہے ۔لیکن نہ جماعت کے دوستوں نے اس کی طرف پوری توجہ دی اور نہ فضلِ عمر فاؤنڈیشن کے منتظمین نے جماعت کو کما حقہ توجہ دلائی ۔چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک سال ایسا بھی آ یا کہ اس میں ایک مقالہ بھی معیاری نہیں تھا ۔اور عملاً کسی سال میں بھی پانچ دس سے زیادہ مقالے نہیں آئے ۔۔۔اس سے پہلے ۱۹۶۹ ء میں جو چند مقالے آ ئے تھے ان کے انعام کا فضلِ عمر فاؤنڈیشن نے اب تین سال کے بعد اعلان کیا ہے ۔ظاہر ہے یہ بھی ایک انتظامی خرابی ہے ۔جس کام کا نتیجہ جلد تر ممکن تھا اتنا جلد نہ نکلے تو اس میں حصہ لینے والوں کو کوئی خاص دلچسپی نہیں رہتی ۔‘‘ (۱۷)
۱۹۷۳ء کے جلسہ سالانہ کی تقریر میں آپ نے مقالوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا
’’لیکن بہت کم ہمارے نوجوانوں نے اس طرف توجہ کی ۔اور بہت کم انعام انہوں نے حاصل کیا ۔انعام تو کوئی غرض نہیں ۔یہ تو ہم نے ایک راہ نکالی تھی کہ ہمارا تعلیم یافتہ نوجوان وہ دین کا سپاہی اس سرحد پر بھی لڑنے کی تیاری کرے گا کہ جو دوسروں کے اعتراضات اسلام پر ہیں اور خدا اور رسول کے متعلق وہ نا سمجھی کی باتیں کر تے رہتے ہیں ان کے جوابات مختلف مضامین کے ماتحت وہ نوجوان دے گا ۔لیکن اس طرف ہماری جماعت بہت کم توجہ کر رہی ہے ۔۔۔۔اُس نے کہا ہے کہ میں نے جماعتِ احمدیہ کے ذہن کو ساری دنیا پر غالب آنے کے لئے بنایا اگر جماعتِ احمدیہ کا ذہن علمی میدان میں ساری دنیا پر غالب آنے کے لئے کوشش ہی نہ کرے تو وہ نا شکرے کہلائیں گے ۔وہ جاہل نہیں کہلائیں گے۔ وہ ناا ہل نہیں کہلائیں گے وہ نا شکرے کہلائیں گے ۔کہ خدا نے ایک طاقت انہیں دی لیکن اس سے انہوں نے فائدہ نہیں اُ ٹھایا ۔ہزاروں نوجوان۔دس اور پانچ مقالے دیکر آپ اس ذمّہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے ۔میں تو حیران ہوں ۔ہمارے پاس ہر مضمون کے متعلق پانچ سو مقالے آنے چاہئے تھے ۔جو ممتحن بنتے اُن کو بھی پتہ لگے کہ احمدیوں کے دماغ کس طرح علم کی رفعتوں پر پرواز کرتے ہیں ۔بہر حال اس طرف توجہ نہیں دی گئی۔ اس طرف توجہ کرنی چاہئے بڑی ضروری بات ہے ۔‘‘(۱۸)
فضل عمرفاؤنڈیشن کے آ غاز سے لے کر ۲۰۱۰ء تک کل ۱۲۹ مقالے وصول ہوئے ہیں جن میں سے ۳۷ کو انعام دیا گیا ہے۔
(۱) الفضل ۲۴؍ دسمبر ۱۹۶۵ء ص ۲
(۲) رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۶۶ء ص۱۶۶
(۳)رپورٹ فضلِ عمر فاؤنڈیشن ۔مرتبہ سیکریٹری فضلِ عمر فاؤنڈیشن ربو ہ ص۱ تا ۱۶
(۴) الفضل ۷ ؍مئی ۱۹۶۶ء ص ۱تا ۳
(۵) رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۶۸ء ص ۱۳۵ ۔۱۴۲
(۶)خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ ،جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء
(۷) خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ ،جلسہ سالانہ۲۷ دسمبر ۱۹۷۳ء
(۸) روحانی خزائن ،جلد ۳ ص۱۶۵
(۹)روحانی خزائن ،جلد ۱۳ ص۳۷۴۔۳۷۵
(۱۰) رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۵۲ء ص۹۔۱۰
(۱۱)رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۵۲ء ص۱۱تا ۱۵
(۱۲) خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ ،جلسہ سالانہ ۲۷ ؍دسمبر ۱۹۶۸ء مطبوعہ
(۱۳)الفضل ۹؍ اکتوبر ۱۹۷۱ء ص ۱ ،۵
(۱۴)تقریر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ ،جلسہ سالانہ ۲۷ ؍دسمبر ۱۹۷۲ء
(۱۵) تقریر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ، جلسہ سالانہ ۱۲ ؍جنوری ۱۹۶۸ء
(۱۶)تقریر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ،جلسہ سالانہ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۷۰ء
(۱۷) تقریر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ ۲۷ ؍دسمبر ۱۹۷۲ء
(۱۸)تقریر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ ۲۷ ؍دسمبر ۱۹۷۳ء
،
تبلیغی مراکز کا منصوبہ
بند ہونے والے مراکز کے متعلق حضورؒ کا اصولی ارشاد
بہت سے ممالک ایسے تھے جہاں پر حضرت مصلح موعود ؓ کے مبارک دور میں مبلغ بھجوا کر تبلیغ کا آغاز کیا گیا لیکن قانونی مجبوریوں یا اس ملک میں پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے کچھ ہی عرصہ بعد یہاں پر یہ کام جاری نہیں رہ سکا۔لیکن جماعت ِ احمدیہ اپنے اس فرض سے غافل نہیں رہ سکتی کہ خدمت کا جو کام حضرت مصلح موعودؓ نے شروع فرمایا تھا ،جب بھی موقع ملے اس کو پھر سے شروع کریں۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۱۹۶۵ء کے جلسہ سالانہ میں ان کے متعلق ارشاد فرمایا:
’’دنیا کی مختلف اقوام میں جو مختلف انقلابات برپا ہوئے ان کے نتیجہ میں ہمیں نو جگہوں پر اپنے تبلیغی مراکز کو بند کرنا پڑا۔اور جو ملک جن میں تبلیغی مراکز بند کئے گئے ہیں،فرانس ، ہنگری، جزائر سسلی ،اٹلی،روس، ایران ،جاپان،مسقط اور مصر ہیں۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان جگہوں پر احمدی نہیں۔ان سب جگہوں پر احمدی موجود ہیں لیکن ہمارے باقاعدہ تبلیغی مراکز وہاں موجود نہیں۔ہمارے مشنری اور مبلغ وہاں نہیں۔اس وقت جو سب سے پہلا کام میں نے اور آپ نے کرنا ہے۔اور جس کے بغیر ہمیں چین نہیں آنا چاہئے۔وہ یہ ہے کہ وہ تمام مراکز جو کسی نہ کسی وقت حضرت مصلح موعود ؓ نے کھولے تھے۔لیکن بعد میں کسی مجبوری کی وجہ سے انہیں بند کرنا پڑا جتنی جلدی ہو سکے اور جب بھی ممکن ہو انہیں دوبارہ کھولا جائے۔ ‘‘
مستقبل قریب میں نئے تبلیغی مراکز کا منصوبہ
اسی طرح ۱۹۶۵ء کے جلسہ سالانہ کی ۲۱ دسمبر کی تقریر میں حضور نے مستقبل قریب میں نئے تبلیغی مراکز کھولنے کا منصوبہ بیان فرمایا۔حضور ؒ نے ارشاد فرمایا:
’’پھر جن جن ممالک میں نئے مشن کھولنے کی ضرورت ہے،وہاں نئے مشن کھول دیئے جائیں۔اس وقت تک جو مطالبات مختلف جگہوں سے آئے ہیں۔ان کے مطابق سات ایسے ممالک ہیں(گو غور کے بعد ان میں کچھ اور ممالک کا بھی اضافہ ہو جائیگا۔جہاں فوری طور پر تبلیغی مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے یعنی ہمیں یہاں سے مبلغ بھجوا کرتبلیغ کا کام جاری کرنا چاہئے کیونکہ وہاں کی آبادی کااسلام کی طرف رحجان ہے۔ان سات ممالک کے نام یہ ہیں:
۱۔جاپان ۲۔فلپائن ۳۔ آسٹریلیا ۴۔جنوبی افریقہ ۵۔کانگو ۶۔وسطی افریقہ ۷۔ٹوگو لینڈ
یہ سات ممالک ایسے ہیں جہاں ہمیں وہاں کے حالات کے تقاضا کے مطابق جلد سے جلد مشن کھولنے چاہئیں ۔اور مشن کھولنے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے۔ان میں سے ایک تو مبلغین اور مربی ہیں یعنی ہمیں مبلغ مشنری مربی اور واعظ درکار ہیں۔اگر میرے پاس مبلغ اور مربی نہ ہوں تو میں وہاں کس کو بھجواؤں گا۔آپ مجھ سے کس بات کی توقع رکھتے ہیں۔کیا میں آسمان سے فرشتے منگواؤں یا غیر احمدیوں کو نوکر رکھوں ۔صاف ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔اس کام کے لئے احمدی بچوں کو آگے آنا پڑے گا اور آپ کو اپنے بچے پیش کرنے پڑیں گے ورنہ یہ کام نہیں ہو سکتا۔پھر بچوں کے وقف میں ہمیں انتظار کرنا پڑے گا۔ انہیں ایک وقت تک ہمیں تعلیم دلانی پڑے گی۔اور پھر کہیں جا کر وہ اس قابل ہوں گے کہ انہیں باہر بھجوایا جائے۔اور ہم زیادہ دیر انتظار نہیں کر سکتے۔نہ ہمیں انتظار کرنا چاہئے۔اس کی ایک ہی تدبیر ہے کہ بچوں کے تیار ہونے تک کا جو وقفہ ہے۔اس کیلئے ایسے دوست آگے آئیں جو اپنے کاموں سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔یا ریٹائرہونے والے ہیں۔یا ریٹائر ہوسکتے ہیں۔‘‘
احباب ِ جماعت کو تفسیر ِ صغیر سے استفادہ کرنے کی نصیحت
یوں تو بہت سے مترجمین نے بڑی محبت اور محنت سے قرآنِ کریم کے تراجم کئے ہیں لیکن تفسیرصغیر کا ایک نمایاں مقام ہے ۔ایک تو یہ صرف ترجمہ نہیں ہے بلکہ اس میں بہت مختصر ،آسان فہم اور جامع تفسیر بھی ہے۔اور دوسرے یہ کہ اس کو اس عظیم الشان وجود نے تحریر کیا ہے جس کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ اس کے ذریعہ کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر ہو گا۔چنانچہ ۱۹۶۸ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ان الفاظ میں احباب ِجماعت کو اس نعمت سے استفادہ کرنے کی نصیحت فرمائی:
’’پھر تفسیرِ صغیر ہے۔یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی کی ہوئی قرآنِ کریم کی تفسیرہے جو علوم کا سرچشمہ اور تمام انوار کا سورج ہے۔مجھ پر یہ اثر ہے کہ بہت سے نوجوان اس تفسیر کی یا اس ترجمہ کی جس کے ساتھ تفسیری نوٹ ہیں، اہمیت نہیں سمجھتے۔میں بہت سے پڑھے لکھے دوستوں کو جو جماعت میں شامل نہیں یہ بھجواتا رہتا ہوں ۔جس کے ہاتھ میں بھی یہ تفسیری نوٹ گئے ہیں جو تفسیر ِ صغیر کے نام سے شائع ہوئے ہیں اس نے اتنا اثر لیا ہے کہ آپ اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔لیکن رمضان کے درس کے موقع پر مسجد میں جو قرآن ہاتھوں میں پکڑے ہوتے ہیں ان کی اکثریت تفسیرِ صغیر کی نہیں ہوتی بلکہ دوسرے مطبعوں کے شائع کردہ قرآنِ کریم ہوتے ہیں ۔جماعت کو خاص طور پر اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ اگر ہم قرآنِ کریم کے علوم صحیح طور پر سیکھنا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیںکہ ہمارے بچے اور نوجوان اس سے محبت کرنے لگیں ۔اور ان کے دل کاشدید تعلق قرآنِ کریم کے نورسے ہو جائے تو ہر نوجوان بچے کے باپ یا گارڈین کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ہاتھ میں تفسیرصغیر کو دیکھے اور اگر نہ دیکھے تو اس کا انتظام کرے۔‘‘
(تقریر جلسہ سالانہ۱۲ ؍جنوری ۱۹۶۸ئ)
تعلیم القرآن اور وقف ِ عارضی کی تحریک
قرآن کریم وہ عظیم نعمت ہے جو مسلمانوں کو عطا کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا وعدہ بھی فرمایا۔ حضرت عثمان ؓ سے روایت ہے کہ آ نحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے سب سے افضل وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے(۱) اور حضرت مسیح موعودؑ کو الہاماً بتایا گیا تھا کہ اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْآنِ (۲) یعنی تمام خیر قرآن میں ہے۔حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم کی صداقت اورعظمت کا کامل عرفان عطا ہوا تھا ۔آپ فرماتے ہیں:۔
’’لاکھوں مقدسوں کا یہ تجربہ ہے کہ قرآن شریف کی اتباع سے برکاتِ الٰہی دل پر نازل ہوتی ہیں اور ایک عجیب پیوند مولا کریم سے ہو جاتا ہے ۔ خدائے تعالیٰ کے انوار اور الہام ان کے دلوں پر اترتے ہیں اور معارف اور نکات ان کے منہ سے نکلتے ہیں۔ایک قوی توکل ان کو عطا ہوتی ہے اور ایک محکم یقین ان کو دیا جاتا ہے اور ایک لذیذ محبتِ الٰہی جو لذتِ وصال سے پرورش یاب ہے ان کے دلوں میں رکھی جاتی ہے۔‘‘(۳)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اپنی خلافت کے آ غاز میں ہی یہ بات محسوس فرمائی اور آپ نے ایک خطبہ جمعہ میں احباب ِ جماعت کو اس طر ف توجہ دلائی کہ قرآنِ کریم سیکھنے سکھانے اور اس کا عرفان حاصل کرنے کے لحاظ سے جماعت میں کمزوری اور ضعف پیدا ہو رہا ہے ۔اور بہت سی جما عتوں میں تربیتی نقطہ نگاہ سے کافی کمزوری پیدا ہو گئی ہے ۔آپ نے فرمایا:
’’۔۔۔اس کے نتیجہ میں جماعت کی تربیت والا پہلو ہمیں بھولا رہا ۔جماعت نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی ۔تربیت کے سلسلہ میں اس غفلت کا نتیجہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔قرآن کریم کے انوارکو پھیلانے کی ذمہ داری ہمارے سپرد تھی۔ہم نے اس سے غفلت برتی اور اس کے نتیجہ میں ہماری روحانی ترقی بہت پیچھے جا پڑی…لیکن جب ہم قرآنِ کریم سے غافل ہوئے تو قرآنِ کریم کی برکتیں بھی ہم سے جاتی رہیں۔ ہم ان سے محروم ہو گئے اور ایسا ہی ہونا چاہئے تھاکیونکہ قرآنِ کریم کی برکتیں تو ہمیں تبھی مل سکتی ہیں جب ہم قرآنِ کریم سے غافل نہ ہوں۔ہم اسے ہر وقت اپنے سامنے رکھنے والے ہوں۔اپنی زندگی میں اسے مشعلِ راہ بنانے والے ہوں۔اگر ایسا ہو تو پھر قرآنِ کریم کی برکتیں ہمیں حاصل ہوں گی۔اگر ہم ایک چشمہ پر بیٹھے ہوں لیکن اس چشمہ کی طرف ہماری پیٹھ ہو اور ہمارا منہ ریگستان کی طرف ہو تو ہم اس چشمہ سے کوئی فائدہ نہیں اُ ٹھا سکتے ۔‘‘ (۴)
اسی خطبہ میں حضور ؒ نے بعض مثالیں بیان کر کے فرمایا کہ بہت سی جماعتوں میں سستی پیدا ہوئی ہے لیکن وہ مردہ نہیں ہیں۔ان کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ ان کے اندر غفلت پیدا ہو گئی ہے۔
حضور ؒ نے اس بات کی ضرورت محسوس فرمائی کہ اب جماعت میں قرآنِ کریم کی تعلیم اور تربیت کے لئے ایک نظام جاری کیا جائے۔چنانچہ آپ نے ۱۸؍ مارچ ۱۹۶۶ء کے خطبہ جمعہ میں ایک نئی تحریک کا اعلان فرمایا۔اس سے قبل منگل کے روز حضور ؒ کے پیٹ میں کچھ تکلیف تھی ۔اس رات حضور ؒ کو اسہال شروع ہو گئے جس کی وجہ سے نقاہت اور جسم میں درد کی شکایت پیدا ہو گئی۔جمعرات کو کافی افاقہ تھا۔چونکہ گزشتہ کچھ روز کا کام جمع ہو گیا تھا ،اس کی وجہ سے آپ کی طبیعت میں پریشانی کا احساس تھا۔ حضور ؒ رات کو ساڑھے بارہ بجے تک ڈاک ملاحظہ فرماتے رہے۔اور آپ نے جماعت کی ترقی اور احبابِ جماعت کے لئے بہت دعائیں کیں۔صبح جب آپ کی آ نکھ کھلی تو آپ کی زبان پر پنجابی کایہ فقرہ تھا ’’اینا دیواں گا کہ تو رج جاویں گا‘‘ یعنی میں تمہیں اتنا دوں گا کہ تم سیر ہو جاؤ گے۔
حضور ؒ نے خطبہ جمعہ میں یہ الہام سنا کر فرمایا کہ
’’خلیفہ وقت کی سیری تو اس وقت ہو سکتی ہے جب جماعت بھی سیر ہو ۔اس لئے میں نے سمجھا کہ اس فقرہ میں جماعت کے لئے بھی بڑی بشارت پائی جاتی ہے ۔سو میں نے یہ فقرہ دوستوں کو بھی سنا دیا ہے۔تا وہ اسے سن کر خوش بھی ہوں اور ان کے دل حمد سے بھی بھر جائیں ۔اور انہیں یہ بھی احساس ہو جائے کہ انہیں اس رب سے جو ان سے اتنا پیار کرتا ہے کتنا پیار کرنا چاہئے۔‘‘(۵)
اس کے بعد حضورؒ نے تحریک فرمائی کہ احبابِ جماعت جن کو توفیق ملے سال میں دو ہفتہ سے چھ ہفتہ تک کا عرصہ دین کی خدمت کے لئے وقف کریں ۔اس دوران انہیں جماعت کے کاموں کے لئے جس جس جگہ بھجوایا جائے وہاں وہ اپنے خرچ پر جائیں ۔اور جو کام ان کے سپرد کیا جائے انہیں بجا لانے کی کوشش کریں۔اپنے عرصہ وقف کے دوران جو کام ان سے لئے جائیں گے ان میں سے ایک بڑا کام قرآنِ کریم ناظرہ اور قرآنِ کریم با ترجمہ پڑھانا اور مقامی جماعت کی تربیت کرنا ہوگا۔حضور ؒ نے فرمایا کہ ملازم پیشہ احباب کو ہر سال کچھ عرصہ رخصت کا حق ملتا ہے وہ اپنے لئے رخصت لینے کی بجائے اسے اپنے رب کے لئے خرچ کریں۔اسی طرح کالجوں اور سکولوں کے اساتذہ اور کالجوں کے سمجھدار طلباء بھی اپنی رخصتوں کے ایام اس منصوبہ کے ماتحت کام کرنے کے لئے پیش کریں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ارشادفرمایاکہ یہ کام بڑا اہم اور ضروری ہے اور اس کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت سی جماعتوں کے ایک حصہ میںایک حد تک کمزوری پیدا ہو گئی ۔اور اس کمزوری کو جلد از جلد دور کرنا ہمارا پہلا فرض ہے۔اگر ہم تبلیغ کے ذریعہ نئے احمدی تو پیدا کرتے چلے جائیں لیکن تربیت میں بے توجہی کے نتیجہ میں پہلے احمدیوں کو کمزور ہونے دیں تو ہماری طاقت اتنی نہیں بڑھ سکتی جتنی اس صورت میں بڑھ سکتی ہے کہ پیدائشی احمدی ،پرانے اور نو احمدی بھی اپنے اخلاص میں ایک اعلیٰ مقام پر فائز ہوں۔ (۶)
حضورؒ کی ہدایات کے تحت تحریکِ وقفِ عارضی نے کا م شروع کیااور مکرم و محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نائب ناظر اصلاح و ارشاداس کے انچارج مقرر ہوئے۔بہت سے سعادت مند دوستوں نے اپنے آپ کو عارضی وقف کے لئے پیش کیا۔وقفِ عارضی کا پہلا وفد یکم مئی ۱۹۶۶ء کو ربوہ سے روانہ ہوا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اسے دعاؤں کے ساتھ رخصت فرمایا۔اس میں شامل ہونے والے خوش نصیب مکرم چوہدری محمد ابراہیم صاحب اور مکرم قریشی فضل الحق صاحب تھے۔ (۶) اس تحریک کے ابتدائی دو ماہ میں کئی سو احباب اپنے آپ کو وقفِ عارضی کے لئے پیش کر چکے تھے۔ انہیں پروگرام کے تحت مختلف مقامات پر بھجوایا جاتا۔حضورؒ کی منظوری سے جگہ کا تعین ہوتا اورحضورؒ ہی وفد کا امیرمقرر فرماتے۔مئی ۱۹۶۶ء میں پندرہ افراد کو مختلف مقامات پر بھجوایا گیا۔ان احباب نے ان جماعتوں میں تربیتی اور تبلیغی فرائض سر انجام دیئے اور احباب ِ جماعت کو قرآنِ کریم پڑھانے کا اہتمام کیا۔(۷)
قرآنی علوم کو عام کرنے کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ احباب ایک مختصر وقت کے لئے مرکز آئیں اور قرآنِ کریم کا علم حاصل کریں ۔اس غرض کے لئے ۱۹۶۴ء سے ربوہ میں فضلِ عمر درس القرآن کلاس جاری تھی۔پہلی کلاس میں شرکاء کی تعداد صرف ۷۳ تھی۔اور ۱۹۶۵ء میں پہلی مرتبہ خواتین اس کلاس میں شریک ہوئیں اور کل شرکاء کی تعداد ۱۲۰ تھی۔وقفِ عارضی کے اعلان کے بعد پہلی تعلیم القرآن کلاس اگست ۱۹۶۶ء میں منعقد ہوئی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’قرآن مجید میں بے شمار برکات ہیں۔ان برکات کو مختلف طریقوں سے حاصل اور ان سے فیض یاب ہوا جاتا ہے۔قرآن مجید سے سب سے بڑی برکت جو حاصل کی جا سکتی ہے وہ اسپر عمل کرنے سے ہی حاصل ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں آنحضرت ﷺ کو تمام بنی نوع انسان کے لئے اسوۂ ِ حسنہ قرار دیا ہے۔آپ اسوۂِ حسنہ اسی لئے ہیں کہ آپ نے قرآنِ مجید پر عمل کر کے دکھایا۔‘‘(۸)
اس کے بعد حضورؒ نے ارشاد فرمایا کہ تعلیم القرآن کلاس جو ہر سال مرکز میں منعقد ہوتی ہے قرآنِ مجید سیکھنے اور سکھانے کی ایک کوشش ہے تا قرآن پر کما حقہـ عمل کرنا آسان ہو سکے۔جو احباب اس کلاس میں شامل ہوتے ہیںانہیں بتایا جاتا ہے کہ حقیقی اور کامیاب زندگی وہی ہے جو قرآنِ کریم کے نور میں گزاری جائے۔اس کے بغیر دنیا میں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔یہ غرض جبھی پوری ہو سکتی ہے کہ تعلیم القرآن کلاس تمام جماعتوں کی نمائندہ جماعت ہو۔امسال کلاس میں جو لوگ شریک ہوئے ہیں وہ مغربی پاکستان کی جماعتہائے احمدیہ میں سے دس فیصد جماعتوں کی بھی تو نمائندگی نہیں کر رہے۔ اس جماعت کو صحیح معنوں میں تمام جماعتوں کی نمائندہ جماعت بنانے کے لئے ضروری ہے کہ آئندہ سال نظارت اصلاح و ارشاد کئی ماہ قبل ہی کوشش شروع کردے کہ کلاس میں ہر ضلع کی جماعت ہائے احمدیہ کی نمائندگی ہو ۔ حضور ؒ نے کلاس میں ایسے طریق پر تعلیم دینے پر زور دیا جس سے نسبتاََ زیادہ پڑھے لکھے اور نسبتاََ کم پڑھے لکھے طلبہ یکساں طور پر فائدہ اُ ٹھا سکیں۔(۸)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۲۷؍ دسمبر ۱۹۷۰ء کی جلسہ سالانہ کی تقریر میں ارشاد فرمایا:۔
’’کچھ جماعتیں رپورٹیں بھجوا رہی ہیں ،کچھ سست ہیں۔ہفتہ قرآنِ مجید بھی منایا گیا جس سے کافی فائدہ ہوا۔ تعلیم القرآن کلاس منعقد کی گئی جس میں صرف پانچ سو تیرہ طلبہ اور طالبات شریک ہوئیں۔میں نے امرائے اضلاع کو کہا تھا کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔شاید میں نے امرائے اضلاع کی میٹنگ میں کہا ہو۔اب میں جماعت کے سامنے ان کو ذمہ دار قرار دیتا ہوں۔اس کلاس میں باقاعدہ سکیم کے ماتحت نمائندے آنے چاہئیں مثلاََ چاہے آپ شروع میں دس قریب قریب کی جماعتوں کا ایک نمائندہ بھیجیںاور وہ وہاں جا کر کام کرے۔ اول تو یہ ہے کہ ہر گاؤں کا آئے۔یہ ٹھیک ہے کہ اس کے نتیجہ میں ایک ہزار مرد آئے گا۔اس دفعہ کل تعداد پانچ سو سے اوپر تھی۔مرد سوا دو سو کے قریب تھے اور لڑکیاں زیادہ تھیں۔وہ آپ سے آگے بڑھ رہی ہیں اور یہ شرم کی بات ہے کہ مردوں سے لڑکیاں آگے بڑھ جائیں۔بہر حال آگے بڑھ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اور اللہ تعالیٰ سے بشارات پا کر جماعت ِ احمدیہ میں نظامِ وصیت جاری فرمایا تھا۔اس نظام سے وابستہ افراد کے لئے نہ صرف یہ لازم تھا کہ وہ اپنی جائیداد اور آ مد کا دسواں حصہ خدمتِ اسلام کے لئے پیش کریں بلکہ ان کے لئے یہ بھی لازم تھا وہ دین کو دنیا پر مقدم کریں اور دنیا کی محبت چھوڑ کر صرف خدا کے ہو جائیں۔اور اس نظام کے تحت جو عظیم الشان کام ہونے تھے ان میں سے ایک اہم ترین کا م اشاعت علمِ قرآن اور اشاعت ِ کتبِ دینیہ کا کام بھی تھا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسالہ الوصیت میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’ اور یہ مالی آ مدنی ایک با دیانت اور اہلِ علم انجمن کے سپرد رہے گی۔اور وہ باہمی مشورہ سے ترقی اسلام اور اشاعتِ علمِ قرآن و کتبِ دینیہ اور اس سلسلہ کے واعظوں کے لئے حسبِ ہدایتِ مذکورہ بالا خرچ کریں گے۔‘‘(۹)
یہ ظاہر ہے کہ نظامِ وصیت اور اشاعتِ علمِ قرآن کا گہرا تعلق ہے۔اور اس ناطے سے اس نظام سے وابستہ افراد پر اشاعتِ علمِ قرآن کی دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۵؍ اگست ۱۹۶۶ء کے خطبہ جمعہ میں وقفِ عارضی اور تعلیم القرآن کی تحریکوں کو موصیان کی تنظیموں سے ملحق کرنے کا اعلان فرمایا۔اس خطبہ جمعہ کے آ غاز پر آپ نے جماعت کو یہ خوش خبری سنائی۔آپ نے فرمایا:۔
’’کوئی پانچ ہفتہ کی بات ہے ابھی میں ربوہ سے باہر گھوڑا گلی کی طرف نہیں گیا تھا۔ایک دن جب میری آنکھ کھلی تو میں بہت دعاؤں میں مصروف تھا۔اس وقت عالمِ بیداری میں میں نے دیکھا کہ جس طرح بجلی چمکتی ہے اور زمین کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک روشن کر دیتی ہے۔اسی طرح ایک نور ظاہر ہوا اور اس نے زمین کو ایک کنارے سے لیکر دوسرے کنارے تک ڈھانپ لیا ۔پھر میں نے دیکھا کہ اس نور کا ایک حصہ جیسے جمع ہو رہا ہے۔پھر اس نے الفاظ کا جامہ پہنا اور ایک پر شوکت آواز فضا میں گونجی جو اس نور سے ہی بنی ہوئی تھی ۔اور وہ یہ تھی
’’بُشریٰ لَکُم‘‘
یہ ایک بڑی بشارت تھی لیکن اس کا ظاہر کرنا ضروری نہ تھا۔ہاں دل میں ایک خلش تھی اور خواہش تھی کہ جس نور کو میں نے زمین کو ڈھانپتے ہوئے دیکھا ہے۔جس نے ایک سرے سے دوسرے سرے تک زمین کو منور کر دیا ہے ۔اس کی تعبیر بھی اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے مجھے سمجھائے ۔چنانچہ وہ ہمارا خدا جو بڑا ہی فضل کرنیوالا اور رحم کرنے والا ہے اس نے خود اس کی تعبیر اس طرح سمجھائی کہ گزشتہ پیر کے دن میں ظہر کی نماز پڑہا رہا تھا۔اور تیسری رکعت کے قیام میں تھا۔تومجھے ایسا معلوم ہوا کہ کسی غیبی طاقت نے مجھے اپنے تصرف میں لے لیا ہے ۔اور اس وقت مجھے یہ تفہیم ہوئی کہ جو نور میں نے اس دن دیکھا تھا وہ قرآن کا نور ہے جو تعلیم القرآن کی سکیم اور عارضی وقف کی سکیم کے ماتحت دنیا میں پھیلایا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مہم میں برکت ڈالے گا۔اور انوارِقرآن اسی طرح زمین پر محیط ہو جائیں گے جس طرح اس نور کو زمین پر محیط ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ (۱۰)
اس کے بعد آپ ؒ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ بہشتی مقبرہ کے متعلق بتایا تھا کہ انزل فیھا کلُّ رحمۃ یعنی اس قبرستان میں ہر قسم کی رحمت کو نازل کیا گیا ہے۔اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے الہام میں بتایا تھا الخیر کلہ فی القرآن یعنی ساری بھلائیاں قرآنِ کریم میں ہیں۔تو انزل فیھا کل رحمۃ کا مطلب ہے کہ اس بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے والے وہ لوگ ہوں گے جو قرآنِ کریم کی تمام برکتوں کے وارث ہوں گے۔اس کے بعد حضورؒ نے فرمایا۔
’’اس سے ظاہر ہے کہ موصی صاحبان کا ایک بڑا گہرا اور دائمی تعلق قرآن کریم ، قرآن کریم کے سیکھنے ،قرآنِ کریم کے نور سے منور ہونے ،قرآن کریم کی برکات سے مستفیض ہونے اور قرآنِ کریم کے فضلوں کا وارث بننے سے ہے۔اسی طرح قرآن کریم کے انوار کی اشاعت کی ذمہ داری بھی ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے ۔کیونکہ قرآن کریم کی بعض برکات ایسی بھی ہیںجن کا تعلق اشاعتِ قرآن سے ہے ۔۔۔۔۔
پس چونکہ وصیت کا یا نظامِ وصیت کا یا موصی صاحبان کا ،قرآنِ کریم کی تعلیم ،اس کے سیکھنے اور اس کے سکھانے سے ایک گہرا تعلق ہے۔اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تعلیمِ قرآن اور وقفِ عارضی کی تحریکوں کو موصی صاحبان کی تنظیم کے ساتھ ملحق کردیا جائے اور یہ سارے کام ان کے سپرد کئے جائیں۔اس لئے آج میں موصی صاحبان کی تنظیم کا ۔خدا کے نام کے ساتھ اور اس کے فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے اجراء کرتا ہوں۔تمام ایسی جماعتوں میں جہاں موصی صاحبان پائے جاتے ہیںاُن کی ایک مجلس قائم ہونی چاہئے۔یہ مجلس باہمی مشورے کے ساتھ اپنے صدر کا انتخاب کرے ۔منتخب صدر جماعتی نظام میں سیکریٹری وصایا ہو گا۔۔۔۔
اور اس صدر کے ذمہ علاوہ وصیتیں کرانے کے یہ کام بھی ہو گا کہ وہ گاہے بگاہے مرکز کی ہدایت کے مطابق وصیت کرنے والوں کے اجلاس بلائے۔اس اجلاس میں وہ ایک دوسرے کو ان ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کریں جو ایک موصی کی ذمہ داریاں ہیں۔یعنی اس شخص کی ذمہ داریاں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی بشارت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا کے سارے فضلوں اور اس کی ساری رحمتوں اور اس کی ساری نعمتوں کا وہ وارث ہے ۔اور وہ صدر ان کو یاد دلاتا رہے کہ تمام خیر چونکہ قرآن میں ہی ہے اس لئے وہ قرآنِ کریم کے نور سے پورا حصہ لینے کی کوشش کریں اور ان کو بتایا جائے کہ قرآنِ کریم کے انوار کی اشاعت کرنا ہر موصی کا بحیثیت فرد اور اب موصیوں کی مجلس کا بحیثیت مجلس پہلا اور آ خری فرض ہے۔‘‘(۱۰)
حضور ؒ نے اس خطبہ میں فرمایا کہ مجھے ہر سال وقفِ عارضی میں کم از کم پانچ ہزار واقفین چاہئیں،اس کے بغیر ہم صحیح رنگ میں جماعت کی تربیت نہیں کر سکتے۔ اور اس خطبہ کے آ خر میں فرمایا:
’’پس جیسا کہ نور اس نظارہ سے جسے میں نے ساری دنیا میں پھیلتے دیکھا ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی کامیاب اشاعت اور اسلام کے غلبہ کے متعلق قرآنِ کریم میں اور نبی کریم ﷺ کی وحی اور ارشادات میں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں جو خوش خبریاں اور بشارتیں پائی جاتی ہیں ان کے پورا ہونے کا وقت آ گیا ہے۔اس لئے میں پھراپنے دوستوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہم پر واجب ہے کہ ہر احمدی مرد اور ہر احمدی عورت ،ہر احمدی بچہ ،ہر احمدی جوان اور ہر احمدی بوڑھا پہلے اپنے دل کو نورِ قرآن سے منور کرے ۔قرآن سیکھے ،قرآن پڑھے اور قرآن کے معارف سے اپنا سینہ و دل بھر لے اور معمور کر لے۔ایک نورِمجسم بن جائے ۔قرآن کریم میں ایسا محو ہو جائے ۔قرآنِ کریم میں ایسا گم ہو جائے۔قرآنِ کریم میں ایسا فنا ہو جائے کہ دیکھنے والوں کو اس کے وجود میں قرآنِ کریم کا ہی نور نظر آ ئے۔اور پھر ایک معلم اور استاد کی حیثیت سے تمام دنیا کے سینوں کو انوار ِ قرآنی سے منور کرنے میں ہمہ تن مشغول ہو جائے ۔اے خدا ! تو اپنے فضل سے ایسا ہی کر کہ تیرے فضل کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔‘‘ (۱۰)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے احبابِ جماعت نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی تحریک پر لبیک کہا اور ۱۹۶۷۔۱۹۶۸ء کے سال کے دوران پاکستان میں وقفِ عارضی کر نے والوں کی تعداد ۵۰۷۴ تک پہنچ گئی۔اور ان احباب نے ۳۳۰۲ وفود کی صورت میں ۱۰۱۴ جماعتوں میں جا کر مرکزی ہدایت کے مطابق تعلیم و تربیت کا کام کیا۔پاکستان کے اضلاع میں سے ضلع تھرپارکر کے سب سے زیادہ احباب نے وقفِ عارضی کی تحریک میں حصہ لیا۔بیرونِ پاکستان سے انگلستان ،تنزانیہ اور ماریشس میں اس تحریک کا خوشکن آ غاز ہوا۔اس تحریک کے تحت وقفِ عارضی کرنے والوں نے جہاں مختلف جماعتوں میں جا کر تعلیم و تربیت کا کام کیا ،وہاں انہیں خود اپنی اصلاح کا خداداد موقع بھی میسر آیا۔(۱۱)
ریکارڈ کے مطابق اب تک ۱۹۹۶ء میںاس تحریک کے تحت وقف کرنے والے واقفین کی تعداد سب سے زیادہ تھی جو کہ ۶۷۰۰ سے تجاوز کر گئی تھی۔پھر ۲۰۰۳ ء میں یہ تعداد کم ہو کر ۸۶۴ ہو گئی تھی۔اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے احباب کو اس تحریک کی طرف توجہ دلائی ۔اس کے نتیجے میں ۲۰۰۶ ء میں یہ تعداد پانچ ہزار سے زائد رہی۔۲۰۰۸ء میں نظارت تعلیم القرآن کو چار ہزار تین سو سے زائد فارم موصول ہوئے۔ان میں سے ۱۸۱۷ وفود ترتیب دیئے گئے ۔اب تک ایک لاکھ سے زائد احمدی احباب اور خواتین اس با برکت تحریک میں حصہ لے چکے ہیں۔اور یہ عمل قابلِ ذکر ہے کہ ان میں خواتین کی تعداد پچاس ہزار کے قریب ہے ۔اور بعض سالوں میں تو وقف کرنے والی خواتین کی تعداد ،وقف کرنے والے مردوں سے بھی زیادہ رہی ۔(۱۲)
شروع سے مکرم مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری وقفِ عارضی کے انچارج کی حیثیت سے فرائض ادا کر رہے تھے ،پھر ۱۹۶۹ء میں اسے باقاعدہ نظارت کی شکل دے دی گئی اور آپ ہی پہلے ناظر اصلاح و ارشاد برائے تعلیم القرآن مقرر ہوئے اور ۱۹۷۷ء میں اپنی وفات تک آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ فرائض ادا کرتے رہے۔
۱۹۷۰ء میں تعلیم القرآن کے حوالہ سے ۱۱۷ جماعتوں کے کوائف جمع کئے گئے ۔ان کی رو سے ان میں تقریباََ ۶۳ فیصد مرد و زن قرآنِ کریم ناظرہ پڑھنا جانتے تھے اور تقریباََ ۸ فیصد قرآنِ کریم کا ترجمہ جانتے تھے۔(۱۳)
۲۷ ؍دسمبر۱۹۷۲ء کی جلسہ سالانہ کی تقریر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا:
’’ تعلیم القرآن بذریعہ موصیان کا جہاں تک تعلق ہے ہمارے کام کا یہ حصہ بہت کمزور ہے۔ صرف ۲۴ مجالس کی طرف سے رپورٹیں موصول ہوئی ہیں ۔موصی صاحبان پر تو ہم بڑا حسنِ ظن رکھتے ہیں،ان کوزیادہ توجہ کے ساتھ،زیادہ تندہی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نباہنا چاہئے۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے موصیان اور مجلسِ موصیان کے سپرد جو تعلیم القرآن کا عظیم الشان کام کیا تھا ۔وہ اپنے اندر بہت سی برکات رکھتا ہے ۔ لیکن افسوس کہ اب تک اس پر کماحقہ عمل نہیں ہوسکا۔
(۱) صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن (۲) تذکرہ، ایڈیشن ۲۰۰۴ء ص۷۰(۳) سرمہ چشم آ ریہ۔ روحانی خزائن جلد ۲ ص۷۹
(۴) الفضل ۲؍ نومبر ۶۶ ۱۹ء ص۴(۵) الفضل ۲۳؍ مارچ ۱۹۶۶ء ص۲۔۳(۶)الفضل ۴ ؍مئی ۱۹۶۶ء ص ۱(۷) الفضل ۳؍ جون ۱۹۶۶ء ص۸
(۸) الفضل۲؍ اگست ۱۹۶۶ء ص ۱،۸(۹) روحانی خزائن جلد ۲۰ ص۳۱۹(۱۰) الفضل ۱۰؍ اگست ۱۹۶۶ء ص۲۔۳۔۴(۱۱) رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۶۸ء ص ۱۵۸(۱۲)ریکارڈ نظارت وقفِ عارضی تعلیم القرآن(۱۳)رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۷۰ء ص۴۳
وقف جدید میں دفتر اطفال کا اجراء
جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے ۱۹۵۷ء میں وقفِ جدید کا آ غاز فرمایا تھا۔اس کے معاََ بعد حضرت مصلح موعود کی علالت نے شدت اختیار کر لی اور شروع میں اس تنظیم کی ترقی کی رفتار سست رہی اور پہلے چار سال میں بجٹ بڑھنے کی بجائے کم ہوتا گیااس کے بعد وقفِ جدید کے چندہ میں تدریجاََ اضافہ ہونا شروع ہوا(۱)۔۶۴ ۔۶۵ء کے مالی سال میںبجٹ ایک لاکھ ستر ہزار روپے تھا اور عملاً وصولی ایک لاکھ اٹھار ہ ہزار روپے ہوئی۔۶۵۔۶۶ء کے مالی سال میں بجٹ ایک لاکھ سترہزار روپے تھا لیکن وصولی ایک لاکھ چھتیس ہزار روپے ہوئی ۔اس طرح اگرچہ وقفِ جدید کے چندے میں اضافہ ہو رہا تھا مگر کام کی اہمیت ،اس سے زیادہ مالی قربانی کا تقاضا کرتی تھی۔ ابتدا میں چند معلمین کے ساتھ اس کام کا آ غاز کیا گیا تھا ،حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خواہش تھی کہ اس تحریک کے تحت ہزاروں معلمین کام کریں اور اس کا دائرہ کار صرف پاکستان تک محدود نہ رہے بلکہ دوسرے ممالک کے واقفین بھی اس مبارک تحریک میں شامل ہوں ۔لیکن ۱۹۶۶ء تک صورتِ حال یہ تھی کہ صرف ۶۴ معلمین مختلف جماعتوں میں کام کر رہے تھے اور سترہ زیر تعلیم تھے۔جبکہ اس بات کی ضروت محسوس کی جا رہی تھی کہ ہر جماعت میں کم از کم ایک معلم مقرر کیا جائے۔جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے وقفِ عارضی کا آ غاز کیا اور اس کے تحت مختلف جماعتوںمیں وفود بھجوائے گئے تو ان میں سے ساٹھ ستر فیصد وفود نے یہ رپورٹ دی کہ ان جماعتوں میں ایک معلم ضرور بھجوانا چاہئے اور جماعتوں کی طرف سے بھی اس بات کا اظہار ہوا کہ جب تک اسے کوئی معلم نہ دیا جائے وہ اپنے فرائض کو کماحقہ‘ ادا نہیں کر سکتی۔
ان ضروریات کے پیشِ نظر حضور ؒ نے ۷ ؍اکتوبر ۱۹۶۶ء کے خطبہ جمعہ میں تحریک فرمائی کہ وقفِ جدید کے معلمین کی جو نئی کلاس شروع ہو گی اس میں کم از کم سو واقفین شامل ہو نے چاہئیں۔اور فرمایا کہ ہر سال اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ریٹائر ہوتی ہے اگر پنشن یافتہ اساتذہ اپنی بقیہ عمر وقفِ جدید کے تحت وقف کردیں تو ہمیں زیادہ اچھے اور تجربہ کار واقفین مل سکتے ہیں بشرطیکہ وہ خلوص نیت رکھنے والے ہوں، اپنے اندر قربانی کا مادہ رکھنے والے ہوں، دنیا کی محبت ان کے دلوں میں سرد ہو چکی ہو اور ایک باپ کی طرح تربیت کرنے والے ہوں۔
وقفِ جدید کے لئے مالی قربانی کی تحریک کرتے ہوئے حضورؒ نے فرمایا کہ وہ دوست جنہوں نے ابھی تک وقفِ جدید کی مالی تحریک میں حصہ نہیں لیا انہیں اس تحریک کی اہمیت ذہن نشین کرنی چاہئے اور اس میں شامل ہونا چاہئے ۔ اور احمدی بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا :۔
’’تیسرے میں آج احمدی بچوں ( لڑکوں اور لڑکیوں )سے اپیل کرتا ہوں کہ اے خدا اور اس کے رسولﷺ کے بچو! اٹھو اور آ گے بڑھو اور تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میں وقفِ جدید کے کام میں جو رخنہ پڑ گیا ہے اسے پُر کر دو اور اس کمزوری کو دور کر دو جو اس تحریک کے کام میں واقع ہو گئی ہے ۔
۔۔۔۔۔اگر خدا تعالیٰ احمدی بچوں کو توفیق دے تو جماعت ِ احمدیہ کے بچے وقفِ جدید کا سارا بوجھ اُ ٹھا لیں لیکن چونکہ سال کا بڑا حصہ گزر چکا ہے اور مجھے ابھی اطفال الاحمدیہ کے صحیح اعداد و شمار بھی معلوم نہیں اس لئے میں نے سوچا کہ آج میں اطفال الاحمدیہ سے صرف یہ اپیل کروں کہ اس تحریک میں جتنے روپے کی ضرورت تھی اس میں تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میںجو کمی رہ گئی ہے اس کا بار تم اُ ٹھا لو اور پچاس ہزار روپیہ اس تحریک کے لئے جمع کرو۔‘‘ (۲)
حضور ؒ نے ارشاد فرمایا کہ احمدی لڑکے اور احمدی لڑکیاں اس تحریک میں ہر ماہ آٹھ آ ٹھ آنہ ( یعنی نصف روپیہ) چندہ دیں ۔جن خاندانوں کی مالی حیثیت اس کے قابل نہ ہو ایسے گھرانوں کے سارے بہن بھائی مل کر آ ٹھ آنہ ماہوار چندہ دے سکتے ہیں۔اس تحریک کے تربیتی پہلؤوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا:۔
’’غرض ایک بچہ جب اٹھنی دے رہا ہو گا یا جب بعض خاندانوں کے سب بچے باہم مل کر ایک اٹھنی ماہوار وقفِ جدید میں دے رہے ہوں گے تو یہ ایک لحاظ سے ان کی تربیت ہو گی۔ اس طرح ہم ان کے ذہن میں یہ بات بھی راسخ کر رہے ہوں گے کہ جب خدا تعالیٰ کسی کو مال دیتا ہے تو وہ مال جو اس کی عطا ہے بشاشت سے اسی کی طرف لوٹا دینا اور اس کے بدلہ میں ثواب اور اس کی رضا حاصل کرنا اس سے زیادہ اچھا سودا دنیا میں اور کوئی نہیں ۔پس اے احمدیت کے عزیز بچو!اٹھو اور اپنے ماں باپ کے پیچھے پڑ جاؤ اور ان سے کہو کہ ہمیں مفت میں ثواب مل رہا ہے۔آپ ہمیں اس سے کیوں محروم کر رہے ہیں۔آپ ایک اٹھنی ماہوار ہمیں دے دیں کہ ہم اس فوج میں شامل ہو جائیں۔جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ دلائل و براہین اور قربانی اور ایثار اور فدائیت اور صدق و صفا کے ذریعہ اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرے گی۔‘‘(۲)
۲۲؍ اکتوبر ۱۹۶۶ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے لجنہ اماء اللہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’اسی طرح بچوں کو مالی تحریکوں کی طرف بھی متوجہ کرنا چاہئے۔اس میں شک نہیں کہ بعض خاندان اپنے بچوں کی طرف سے بھی چندہ وقفِ جدید یا چندہ تحریکِ جدید لکھواتے ہیں اور بعض خاندان ایسے بھی ہیں جو اپنے بچوں کو تحریک کرتے رہتے ہیںاور ہماری طرف سے جو جیب خرچ تمہیں ملتا ہے اس میں سے تم خدا تعالیٰ کی راہ میں بھی کچھ دیا کرو۔لیکن عام طور پر اس طرف ابھی توجہ نہیں کی جاتی ۔میں نے اس سلسلہ میں حال ہی میںاپنے بچوں سے اپیل کی ہے کہ وہ وقفِ جدید کا بوجھ اُ ٹھائیں اور ہر بچہ کم از کم اٹھنی ماہوار وقفِ جدید میں دے ۔چونکہ اس وقت وقفِ جدید کے سال کا اختتام ہے ۔اس لئے میں نے سالِ رواں میںپچاس ہزار روپیہ لڑکوں اور لڑکیوں پر مقرر کیا ہے۔میں نے ان سے کہا ہے کہ وہ پچاس ہزار روپیہ کی رقم جمع کریں تا ہم وقفِ جدید کے کام کو پھیلا سکیں اور اسے وسعت دے سکیں۔اگر تمام احمدی بچے جو آپ کی گودوں میں پلتے ہیں۔تمام احمدی بچے جن کی تربیت کی ذمہ داری آپ پر ہے،اس طرف متوجہ ہوں۔اگر آپ ان کی ذہنی تربیت اس رنگ میں کر دیںکہ وہ کم از کم اٹھنی ماہوار خدا تعالیٰ کی راہ میں وقفِ جدید کے کاموں کے لئے خود جماعت کو پیش کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ وقفِ جدید کا سارا بجٹ ان بچوں کے چندوں سے پورا ہو سکتا ہے۔لیکن اس طرف پوری توجہ کی ضرورت ہے اور بچوں کے ذہنوں میں اس کام کی اہمیت بٹھانے کی ضرورت ہے اور بچوں کے ذہنوں میں آپ وقفِ جدید کی اہمیت بٹھا نہیں سکتیں جب خود آپ کے ذہن میں وقفِ جدید کی اہمیت نہ بیٹھی ہو۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیماری سے کچھ ہی عرصہ قبل وقفِ جدید کی تحریک کو شروع کیا تھا۔اور پھر بوجہ بیماری حضور ؓ اپنی زندگی میںاس طرف زیادہ ذاتی توجہ نہیں دے سکے۔جیسے حضور ؓنے تحریکِ جدید کی طرف توجہ فرمائی۔۔۔۔
اور جس طرح حضور ؓ نے تحریک جدید کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے بعد اسے تحریکِ جدید انجمن احمدیہ کے سپرد کیا اسی طرح اس تحریک کو بھی حضور ؓ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے بعد وقفِ جدید انجمن احمدیہ کے سپرد کرتے اور جیساکہ تحریکِ جدید کے سلسلہ میں ہواآپ بطور خلیفہ عام نگرانی اس کی کرتے رہتے( عام نگرانی خلیفہ کے فرائض میں سے ہے اور حضور ؓ تفاصیل میں گئے بغیر اس کی نگرانی فرماتے رہے لیکن جیسا کہ تحریکِ جدید کے شروع میں یہ دستور تھا کہ حضور اس کے متعلق چھوٹے چھوٹے فیصلے بھی خود ہی فرمایا کرتے تھے۔وقفِ جدید کے سلسلہ میں اپنی بیماری کی وجہ سے حضور ایسا نہ کر سکے)لیکن چونکہ وقفِ جدید شروع میں ہی حضور کی ذاتی نگرانی اور توجہ سے محروم ہو گئی اس لئے اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ جو عظیم کام اس تحریک نے کرنا تھا وہ پورا نہیں ہو سکا ۔‘‘
جب حضور ؒ نے یہ تحریک فرمائی تو سال ختم ہونے میں چند ماہ رہ گئے تھے۔اس سال کے دوران ۶۳۱۷ اطفال و ناصرات نے اس میں حصہ لیا اور ۳۳۶۵ روپے کا چندہ وصول ہوا۔ ۱۹۶۷ء میں یورپ کے سفر پر جانے سے قبل حضور نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا:
’’جو ذمہ داری میں نے وقفِ جدید کے سلسلہ میں احمدی بچوں پر ڈالی تھی جماعت کے احمدی بچوں میں سے ابھی ۲۰ فیصدی بمشکل ایسے ہیں جنہوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا ہے اور اس کی ادائیگی کی کوشش کر رہے ہیں باقی اسی فیصدی بچے جماعت کے ایسے ہیں کہ جو اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھ رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں اس کی ادائیگی کی طرف بھی متوجہ نہیں ہیں۔جس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت کے اسی فیصدی باپ اور جماعت کی اسّی فیصدی مائیں ایسی ہیں جنہیں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کے لئے خدا کی رضا کی جنت کو کس طرح پیدا کرنا ہے۔‘‘(۳)
۱۹۶۷ء کے سال کے دوران اس تحریک میں چندہ دینے والے بچوں کی تعداد بڑھ کر ۱۷۵۵۸ ہو گئی اور ان سے وصول ہونے والا چندہ بھی بڑھ کر ۱۷۵۳۱ روپے ہو گیا۔۱۹۶۸ء میں اس تحریک میں شامل ہونے والے بچوں کی تعداد گر کر ۹۵۵۳ رہی لیکن چندہ بڑھ کر ۱۹۳۷۷ روپے ہو گیا۔
اس طرح احمدی بچوں اور بچیوں کو دین کی مالی خدمت کا ایک موقع ملا ۔ اس با برکت تحریک سے جہاں ایک طرف پورے ملک میںپھیلی ہوئی جماعتوں میں معلمین بھجوانے کے لئے مالی وسائل میسر آئے وہاں دوسری طرف بچوں کو بھی چھوٹی عمر سے دین کی مالی خدمت کرنے کی عادت پڑنے لگی۔





(۱)رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۶ء ص۲۳۲ تا ۲۳۷
( ۲) الفضل ۱۲؍اکتوبر ۱۹۶۶ء ص۴
(۳)الفضل ۱۸؍ جولائی ۱۹۶۷ء ص ۲،۳
رسومات اور بدعات کے خلاف جہاد کا اعلان
اسلام انسان کو تمام بے فائدہ اور لغو رسومات سے آ زاد کر کے اس کے دل پر عشقِ خدا کی حکومت قائم کرتا ہے۔لیکن اگر کوئی شخص اپنے آپ بد رسومات کی قیود سے آزاد نہیں کر پاتا تو پھر نہ صرف وہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم سے کما حقہ فائدہ نہیں اُ ٹھا سکتا بلکہ طرح طرح کی دنیاوی مشکلات و مصائب میں بھی مبتلاء ہو جاتا ہے۔اور وہ معاشرہ جو رسومات اور بدعات میں مبتلاہو وہ اسلامی معاشرہ بننے کی طرف قدم نہیں اُ ٹھا سکتا۔ان خدشات کی طرف بار بار توجہ دلانی پڑتی ہے۔ورنہ الٰہی جماعت سے وابستہ افراد بھی معاشرے کے زیرِ اثر اس رو میں بہہ سکتے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۹ ستمبر ۱۹۶۶ء کے خطبہ جمعہ میں جماعت کو توجہ دلائی کہ جو شخص رسوم و بدعات کو نہیں چھوڑتا اس کا ایمان کبھی پختہ نہیں ہو سکتا۔ اور نہ ہی وہ تقویت ِ اسلام کے لئے پوری قربانیاں دے سکتا ہے۔آپ نے آیتِ کریمہ (۱) کی تفسیر بیان کرنے کے بعد فرمایا :
’’پس بد رسوم اور ایمانِ کامل اکٹھے نہیں ہو سکتے۔اس وقت مجھے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔اسلام کی اشاعت اور نبیِ کریم ﷺ کی عظمت اور جلال کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے جس قسم کی قربانی اور جس حد تک قربانی دینا ضروری ہے۔جو شخص رسوم کے بندھنوں میں بندھا ہوا ہے وہ اس حد تک قربانی نہیں دے سکتا۔بعض لوگ ہماری جماعت میں بھی ہیں جو مثلاًاپنی لڑکی کی شادی کرتے وقت خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے سادہ طریق کو چھوڑ کر اپنی خاندانی رسوم کے مطابق اسراف کی راہ اختیار کرتے ہیں۔اس کے نتیجہ میں وہ مقروض ہو جاتے ہیں۔پھر مجھے لکھتے ہیں کہ میں بہت مقروض ہو گیا ہوں۔ مہربانی کر کے میرے چندہ کی شرح کم کردی جائے کیونکہ اب میں مجبوراََ 1/16 کی بجائے1/32یا 1/50یا 1/64ادا کر سکتا ہوں۔حالانکہ خدا تعالیٰ نے انہیں فرمایا تھاکہ تم رسوم کو چھوڑ دو اور بدعات کو ترک کر دو۔مگر انہوں نے رسوم کو نہ چھوڑا خدا تعالیٰ کی ناراضگی بھی مول لی اور قرض میںبھی مبتلاء ہو گئے۔۔۔۔
میں نظارت اصلاح و ارشاد کو اسطرف متوجہ کرتا ہوں کہ جتنی رسوم اور بدعات ہمارے ملک کے مختلف علاقوں میںپائی جاتی ہیں ان کو اکٹھا کیا جائے اوراس کی نگرانی کی جائے کہ ہمارے احمدی بھائی ان تمام رسوم اور بدعات سے بچتے رہیں۔
اس وقت میں مختصراََ بتا رہا ہوں کہ جو شخص رسوم اور بدعات کو نہیں چھوڑتا جس طرح اس کا ایمان پختہ نہیں اسی طرح وہ نبیِ کریم ﷺ کی مدد اور اسلام کی تقویت کے لئے وہ قربانیاں بھی نہیں دے سکتا جن قربانیوں کا اسلام اس سے مطالبہ کرتا ہے۔‘‘(۲)
پھر یورپ کے دورے پر جانے سے قبل حضور ؒ نے۲۳ ؍جون ۱۹۶۷ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:۔
’’توحید کے قیام میں ایک بڑی روک بدعت اور رسم ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر بدعت اور ہر بد رسم شرک کی ایک راہ ہے ۔اور کوئی شخص جو توحید ِ خالص پر قائم ہونا چاہے وہ توحیدِ خالص پر قائم نہیں ہو سکتا جب تک وہ تمام بدعتوں اور تمام بدرسوم کو مٹا نہ دے۔ہمارے معاشرہ میں خاص طور پر اور دنیا کے مسلمانوں میں عام طور پربیسیوں سینکڑوں شاید ہزاروں بد رسمیں داخل ہو چکی ہیں۔احمدی گھرانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ تمام بد رسوم کو جڑ سے اکھیڑ کے اپنے گھروں سے باہر پھینک دیں۔چونکہ بد رسوم کا مسلم معاشرہ میں داخلہ زیادہ تر عورتوں کی راہ سے ہوتا ہے۔اس لئے آج میری پہلی مخاطب میری بہنیں ہی ہیں۔گو عام طور پر تمام احبابِ جماعت اور افرادِ جماعت مرد ہوں یا عورتیں وہ میرے مخاطب ہیں۔‘‘(۳)
اس کے بعد حضور ؒ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اشتہار پڑھ کر سنایا جو آپ نے ۱۸۸۵ء میں ’’اشتہار بغرض تبلیغ و انذار‘‘ کے نام سے شائع فرمایا تھا۔اور اس اشتہار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بدعات اور بد رسومات کے خلاف تلقین فرمائی تھی۔اس خطبہ کے آخر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ارشاد فرمایا :
’’پس آج اس مختصر سے خطبہ میں ہر احمدی کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور جماعت احمدیہ میں اس پاکیزگی کو قائم کرنے کے لئے جس پاکیزگی کے قیام کے لئے محمد رسول اللہ ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے،ہر بد عت اور بد رسم کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا ہے۔اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ سب میرے ساتھ اس جہاد میں شریک ہوں گے۔اور اپنے گھروں کو پاک کرنے کے لئے شیطانی وسوسوں کی سب راہوں کو اپنے گھروں پر بند کر دیں گے۔دعاؤں کے ذریعہ اور کوشش کے ذریعہ اور جد و جہد کے ذریعہ۔‘‘(۳)









(۱) الاعراف: ۱۵۸
(۲) الفضل ۲۸ ؍ستمبر ۱۹۶۶ء ص۵
(۳) الفضل ۲ ؍جولائی ۱۹۶۷ء ص۳
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کا پہلا دورہ یورپ
اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے برصغیر سے باہر کی جماعتیں بھی تیزی سے ترقی کر رہی تھیں اور ان کی تربیت اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ خلیفہ وقت ان میں رونق افروز ہوں اور ان کی براہِ راست راہنمائی فرمائیں ۔۱۹۲۴ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کا دورہ یورپ خلیفہ وقت کا برِ صغیر سے باہر کا پہلا دورہ تھا۔اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ ۱۹۵۵ء میں یورپ تشریف لے گئے اور اس موقع پر لندن میں جماعت احمدیہ کے مبلغین کی ایک اہم کانفرنس بھی منعقد ہوئی اور بہت سے نو مسلموں نے حضور ؓ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور حضور ؓ نے براہ ِ راست یورپ کے مشنوں کی راہنمائی بھی فرمائی۔ لیکن اس دورہ کے دوران بیماری کی وجہ سے حضورؓ کی طبیعت بہت خراب تھی۔ اب جب خلافت ثالثہ کا بابرکت آ غاز ہوا تو اس بات کی ضرورت بشدت محسوس کی جا رہی تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ یورپ کا دورہ فرمائیں تاکہ وہاں پر تبلیغ کے کام میں ایک نئی وسعت پیدا ہو۔
۱۹۶۷ء میں ڈنمارک میں جماعت کی پہلی مسجد کی تعمیر مکمل ہونے کے قریب تھی۔وہاں کے دوستوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اپنے دستِ مبارک سے اس خانہ خدا کا افتتاح فرمائیں ۔ابھی یہ تجویز زیر غور تھی کہ یورپ کے باقی مشنوں نے بھی درخواست کی حضورؒ ان ممالک میں بھی تشریف لائیں ۔اب تک انگلستان میں ایک بڑی جماعت پیدا ہو چکی تھی ،انہوں نے بھی درخواست کی حضورؒ انگلستان کو بھی اپنے دورے میں شامل فرمائیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے بعض احباب کو دعا اور استخارہ کے لئے لکھا۔ا ن کو اس بارے میں بہت سی مبشر خوابیں آ ئیں اور حضورؒ کو اور بعض دوستوں کو ایسی بھی خوابیں آ ئیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ واپسی میں شاید راستے میں کچھ تکلیف ہو۔حضور ؒ نے ۲۳ جون ۱۹۶۷ء کے خطبہ جمعہ میں ان خوابوں کا ذکر کر کے فرمایا کہ
’’وہ قادر و توانا جو وقت سے پہلے اس تکلیف کے متعلق اطلاع دے سکتا ہے وہ اگر چاہے تو ان تکالیف کو دور بھی کر سکتا ہے اور اسی سے نصرت اور امداد کے ہم طالب ہیں۔پس میں چاہتا ہوں کہ تمام دوست اس سفر کے متعلق دعائیں کریں اور خدا تعالیٰ سے خیر کے طالب ہوں۔اگر یہ سفر مقدر ہو تو اسلام کی اشاعت اور غلبہ کے لئے خیر و برکت کے سامان پیدا ہوں ۔خدا جانتا ہے کہ سیر و سیاحت کی کوئی خواہش دل میں نہیں ،نہ کوئی اور ذاتی غرض اس سے متعلق ہے۔دل میں صرف ایک ہی تڑپ ہے اور وہ یہ کہ میرے رب کی عظمت اور جلال کو یہ قومیں بھی پہچاننے لگیں جو سینکڑوں سال سے کفر اور شرک کے اندھیروں میں بھٹکتی پھر رہی ہیں اور انسانیت کے محسنِ اعظم محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت ان کے دلوں میں قائم ہو جائے۔‘‘(۱)
حضورؒ نے ۶؍ جولائی ۱۹۶۷ء کو یورپ کے لئے روانہ ہونا تھا۔ ۴؍ جولائی کو آپ نے ربوہ میں لجنہ اماء اللہ کے ہال میں احمدی مستورات سے خطاب فرمایا۔آپ نے فرمایا :
’’۔۔میرا یہ سفر بڑا ہی اہم ہے ۔میں اہلِ یورپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے لئے اب تباہی سے بچنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنے خدا کو پہچانیں اور حضرت محمدرسول اللہ ﷺ کی ٹھنڈی چھاؤں تلے جمع ہو جائیں۔آپ یہ بھی دعا کریں کہ ان باتوں کو میں احسن طریق پر وہاں پیش کر سکوں تا بچنے والے بچ جائیں اور جو تباہ ہونے والے ہوں وہ دوسروں کے لئے عبرت بنیں اور دنیا کو پتہ چل جائے کہ ایک زندہ اور قادر مطلق خدا موجود ہے۔ہر چیز اس کے علم میں ہے۔دنیا اور انسان کی ہمدردی کی خاطر وہ وقوع سے قبل یہ باتیں بتا دیتا ہے تا لوگ اس کی طرف رجوع کریں اور اس کے غضب سے بچ جائیں۔
آپ یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری زبان میں اثر پیدا کرے تا ان کے دل صداقت کو قبول کریں اور وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کی بجائے رحمت کو پانے والے ہوں۔‘‘(۲)
روانگی سے ایک روز قبل ہزاروں احمدی مسجد مبارک ربوہ میں جمع تھے ۔حضورؒ نے خلافت کے ساتھ دلی وابستگی اور اطاعت کی اہمیت نیز اس کی عظیم الشان برکات کا اختصار سے ذکر کرنے کے بعد اس امر پر روشنی ڈالی کہ اللہ تعالیٰ اپنے جس بندہ کو منصبِ خلافت پر فائز کرتا ہے۔ایک طرف اس کے دل میں اپنے متبعین کے لئے ہمدردی و غمخواری کا بے پناہ جذبہ پیدا کر دیتا ہے۔جس کے تحت وہ ہر دم ان کے لئے درد مندانہ دعاؤں میں لگا رہتا ہے۔دوسری طرف بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی کا شدید جذبہ اس کے دل کو ہمیشہ گداز رکھتا ہے۔وہ بنی نوع انسان کی بے راہ روی اور غفلت کو دیکھ دیکھ کر اندر ہی اندر گھل رہا ہوتا ہے کہ نوعِ انسان کا کیا بنے گا۔پھر آپ نے فرمایا ہمدردی نوعِ انسان کے اس شدید جذبہ کے ماتحت ہی میں یورپ کا سفر اختیار کر رہا ہوں۔جو کل صبح شروع ہونے والا ہے۔میرا یہ جذبہ مجھے مجبور کر رہا ہے کہ میں یورپ کے لوگوں تک وہ بات پہنچاؤں جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دنیا کو دی اور دنیا کا ایک بڑا حصہ اب تک اس سے غفلت اور لا پرواہی برت رہا ہے اور یکسر بے خبری کی حالت میں ہے۔
خطاب کے بعد حضورؒ نے دعا کروائی اور پھرمسجد مبارک میں موجود ہزاروںافراد سے مصافحہ فرمایا ۔اس کے بعد نمازِ عشاء ادا کی گئی۔
۷؍ جولائی ۱۹۶۷ء کی صبح کو حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒبذریعہ ریل گاڑی ربوہ سے کراچی روانہ ہوئے۔اسٹیشن پر حضورؒ کی آ مد سے ربوہ اور دیگر شہروں سے آ ئے ہوئے ہزاروں احباب جمع تھے اور اس سفر کی کامیابی کے لئے دعاؤں میں مشغول تھے۔ساڑے نو بجے حضور ؒ قصرِ خلافت سے روانہ ہوئے اور بیگم صاحبہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی عیادت کے لئے ان کی کوٹھی البشریٰ تشریف لے گئے ۔اور پھر وہاں سے دعا کے لئے بہشتی مقبرہ گئے اور وہاں پر حضرت ام المؤمنین ؓ ، حضرت مصلح موعود ؓ،حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ اور دیگر بزرگان کی قبروں پر دعا کی اور اس کے بعد اسٹیشن تشریف لے آ ئے۔وہاں پر ایک انتظام کے تحت ہزاروں احباب قطاروں میں کھڑے حضور ؒ کی آ مد کے منتظر تھے۔حضور کو دیکھتے ہی ان احباب نے نعرہ تکبیر اللہ اکبر، اسلام زندہ باد اور حضرت امیرالمؤمنین زندہ باد کے پُرجوش نعرے لگائے۔اس کے بعد جن کو گزشتہ روز موقع نہیںملا تھا ان لوگوں نے شرفِ مصافحہ حاصل کیا۔پیچھے کھڑے ہوئے احباب کے لئے حضورؒ کی زیارت کرنا ممکن نہیں تھا اس لئے حضور ؒ از راہِ شفقت ایک کرسی پر کھڑے ہو گئے تاکہ تمام مشتاقانِ دیدار آپ کی زیارت کر سکیں۔اور اس دوران آپ زیرِ لب دعاؤں میں مشغول رہے ۔جب یہ اطلاع ملی کہ گاڑی ربوہ کے قریب ترین اسٹیشن پر پہنچ گئی ہے تو حضور ؒ نے ہاتھ اُ ٹھا کر زیرِ لب دعا کروائی۔جب گاڑی ربوہ کے اسٹیشن پر پہنچی تو آپ اپنے قافلہ کے ہمراہ گاڑی پر سوار ہوئے۔جب گاڑی نے چلنا شروع کیا تو ایک بار پھر فضا نعروں سے گونج اُ ٹھی۔اس وقت احباب پر ایک وارفتگی کا عالم طاری تھا۔بعض احباب بلند آواز سے دعائیں پڑھ رہے تھے اور بعض نوجوان بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہے تھے۔جب تک گاڑی پلیٹ فارم پر گزرتی رہی ، حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ دروازے پر کھڑے ہاتھ ہلا ہلا کر احباب کے سلام کا جواب دیتے رہے۔(۳)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے مرکز سے اپنی عدم موجودگی میں حضرت صاحبزادہ مرزا منصوراحمد صاحب کو امیرِ مقامی اور مکرم مولانا ابو العطاء صاحب کو مسجد مبارک ربوہ میں امام الصلوٰۃ مقرر فرمایا تھا۔اور انتہائی ضروری اور فوری معاملات پر غور کرنے کے لئے ایک سب کمیٹی مقرر فرمائی تھی جس میں ناظرِ اعلیٰ حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب،قائم مقام وکیلِ اعلیٰ مکرم میر داؤد احمد صاحب(بطور کنوینر)،امیرِ مقامی و ناظرِامورِ عامہ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب، صدرمجلس خدام الاحمدیہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، قائم مقام صدر انصاراللہ مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب شامل تھے۔(۴)
کراچی تک راستے میں بہت سے احباب چھوٹے بڑے اسٹیشنوں پر حضورؒ کی زیارت کے لئے آئے ہوئے تھے۔حضور نے از راہِ شفقت ان سے ملاقات فرمائی اور یہ سلسلہ رات کو بھی جاری رہا۔ حضور ؒ نے ان احباب کو مختلف نصائح فرمائیں اور خصوصیت سے قرآنِ کریم کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی تلقین فرمائی۔حضور بروز جمعہ ۷ جولائی کی دوپہر کو کراچی پہنچے ۔آپ نے جمعہ کی نماز احمدیہ ہال میگزین لین میں پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں اپنے دورہِ یورپ کی غرض و غایت کو واضح فرمایا۔ نمازِ جمعہ کے بعد آپ نے مجلس انصاراللہ کراچی کے اجتماع کا افتتاح فرمایا اور اپنی تقریر میں قرآنِ کریم کے سیکھنے اوراس پر عمل کرنے پر زور دیا۔(۵)
یورپ کے اس دورے میں حضورؒ کا پہلا قیام فرینکفورٹ ( جرمنی )میں تھا۔آپ ۸ ؍جولائی ۱۹۶۷ء کو کراچی سے پی آئی اے کے بوئینگ جہاز پر روانہ ہوئے۔جہاز کچھ دیر کے لئے تہران رکا۔ وہاں پر جماعت کے چند احباب نے حضور ؒ سے شرفِ مصافحہ حاصل کیا۔پھر جہاز ماسکو سے ہوتا ہوا سہ پہر تین بج کر پچاس منٹ پر فرینکفورٹ پہنچا۔(۶)
فرینکفورٹ میں جماعت کا مشن ایک عرصہ سے کام کر رہا تھا ۔۱۹۵۹ء میں یہاں پر جماعت نے اپنی مسجد اور مشن ہاؤس بھی تعمیر کئے تھے۔۱۹۶۷ء میں جرمنی میں فرینکفورٹ کے علاوہ نیورمبرگ اور ہمبرگ میں بھی جماعت کے مشن کام کر رہے تھے۔جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرینکفورٹ پہنچے تو ہوائی اڈے پر یہاں کی جماعت مکرم فضل الٰہی انوری صاحب مبلغ فرینکفورٹ کی قیادت میں استقبال کے لئے موجود تھی(۷)۔ یہاں پر حضورؒ نے دو روز کے لئے قیام فرمانا تھا۔۹ جولائی کو حضور ؒ نے ایک نہایت مصروف دن گزارا ۔ حضور نے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے احباب سے ملاقات کی۔اور تین احباب نے بیعت کی۔سہ پہر کو حضورنے ایک استقبالیہ میں شرکت فرمائی۔اس میں معززینِ شہر،مقامی جماعت کے افراد ،کچھ ایرانی مسلمانوں اور جرمنی کی دوسری جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔اس میں شہر کی انتظامیہ کے صدر روڈولف ٹیفس صاحب(Rudolf Tefs)، شہر کی عدلیہ کے ایک جج،شہر کے نائب میئر اور پادری صاحبان اور شہر کی دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی۔اس استقبالیہ میں حضور ؒ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ فرینکفورٹ میں میری پہلی آ مد نہیں ہے۔ جب میں آ کسفورڈ میں پڑھتا تھا اُسوقت بھی میں یہاں آ یا تھا۔آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ صرف اسلام ہی کا خدا زندہ خدا ہے۔ اور صرف محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے زندہ رسول ہیں۔اور آ نحضرت ﷺ کے فرزندِجلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام زندہ خدا کے مظہر اور زندہ نشان ہیں اور میں ان کے نمائندے اور جانشین کی حیثیت سے دعوت ِ مقابلہ دیتا ہوں کہ اگر کسی عیسائی کو بھی دعویٰ ہے کہ اس کا خدا زندہ خدا ہے تو وہ میرے ساتھ قبولیتِ دعا میں مقابلہ کرے اور اگر وہ جیت جائے تو ایک گرانقدر انعام حاصل کرے۔اس استقبالیہ میں شرکاء شام تک ٹھہرے رہے اور حضورسے اسلام کے بارے میں مختلف سوالات پوچھتے رہے۔مقامی اخبارات نے حضورؒ کی آ مد کی خبر کو آپ کے تعارف کے ساتھ شائع کیا ۔(۸)
۱۰؍ جولائی کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث فرینکفورٹ سے سوئٹزر لینڈ کے شہر زیورک تشریف لے گئے۔یہاں پر جماعت کا مشن ۱۹۴۸ء سے قائم ہے۔حضور ؒ کے دورہ کے وقت زیورک میں مکرم چوہدری مشتاق احمد باجوہ صاحب جماعت کے مبلغ کے طور پر کام کر رہے تھے۔اور ۱۹۶۳ء میں یہاں پر جماعت کی مسجد کا افتتاح بھی ہوا تھا۔جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ ہوائی اڈہ پر پہنچے تو مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کی قیادت میں احبابِ جماعت جن میں یہاں کے مقامی مسلمان بھی شامل تھے اور پریس شعبہ کے افسرِ اعلیٰ نے حضورؒ کا استقبال کیا۔یہاں پر ایک انٹر ویو دینے کے بعد حضور مسجد محمود تشریف لے گئے۔رات کو حضور ؒ نے ایک استقبالیہ میں شرکت فرمائی اس میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والی معزز شخصیات نے شرکت کی۔ حضور ؒ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایااسلام صلح و آ شتی کا مذہب ہے۔وہ صلح کو قائم کرتا ہے اور امن کی فضا پیدا کرتا ہے۔استقبالیہ میںدیگر معززین کے علاوہ سوئٹزر لینڈ کی مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اور سات ممالک کے سفارتی نمائندے بھی شامل ہوئے۔یہاں کے ریڈیو اور ٹی وی پر حضور کا انٹرویو نشر کیا گیا ۔ٹی وی کے نمائندے نے سوال کیا کہ آپ دنیا پر کس طرح غلبہ حاصل کریں گے؟ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے جواب دیا کہ دلوں کو فتح کر کے ۔اس پر اس نے بے ساختہ کہا کہ میں اس جواب کو اپنی رپورٹ میں ضرور شامل کروں گا۔حضورؒ زیورک سے انٹر لائن اور برن تشریف لے گئے اور وہاں پر ایک رات قیام کے بعد واپس زیورک تشریف لے آئے(۹،۱۰)۔ زیورک میں ہی ایک روز صبح کے تین بجے حضورؒ کی زبان پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام جاری ہوا
مبارک ومبارک و کل امر یجعل فیہ(۱۱)
اس دورہ میں حضور کو رات گئے تک کام کرنا پڑتا تھا اور صبح سب سے پہلے بیدار ہو کر کام شروع کر دیتے۔اتنی مصروفیات کے باوجود حضور ہر وقت شگفتہ مزاج رہتے تھے۔مکرم چوہدری محمد علی صاحب جو اس دورہ کے دوران بطور پرائیویٹ سیکریٹری حضورؒ کے ہمراہ تھے بیان کرتے ہیں کہ سوئٹزر لینڈ کے دورہ کے دوران حضور ؒ رات کے بارہ بجے تک مختلف احباب کے ساتھ مجلس میں بیٹھتے تھے۔ہماری خواہش تھی کہ حضور ؒ آ رام فرمائیں اور نیند پوری کر لیں۔اتنے میں حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کا پیغام آیا کہ حضورؒ سے عرض کریں کہ بارہ بج گئے ہیں۔چوہدری محمد علی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ حضور ؒ بارہ بج گئے ہیں۔حضور ؒ نے برجستہ فرمایا:۔
’’ آپ کے بارہ بجے ہوں گے ہمارے تو نہیں بجے۔‘‘
۱۴؍ جولائی کو حضور زیورک سے ہالینڈ کے شہر ہیگ تشریف لے گئے۔اسی روز حضورؒ نے ہیگ کی مسجد میں نمازِ جمعہ پڑھائی اور انگریزی میں خطبہ ارشاد فرمایا۔اس خطبہ میںحضور ؒ نے اس مضمون پر روشنی ڈالی کہ سورۃ فاتحہ میں جو صفاتِ الٰہی بیان ہوئی ہیں وہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا کے حصول میں ہمارے لئے ممد ثابت ہوتی ہیں۔نمازِ جمعہ کے بعد حضور ؒ نے احبابِ جماعت کے ساتھ کھانا تناول فرمایا۔اسی روز حضور ؒ نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا جس میں ہالینڈ کے تقریباََ سارے بڑے اخبارات اور خبرر ساں ایجنسیوں کے نمائندے شامل ہوئے۔اور ریڈیو ہیگ کی ایک ٹیم نے بھی اس میں شرکت کی اور حضور کا انٹرویو لیا جو اسی روز نشر کیا گیا۔۱۵؍ جولائی کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا جس میں احبابِ جماعت کے علاوہ شہر کے دیگر معززین نے بھی شرکت کی۔ان میں شہر کی علمی شخصیات ،پروفیسر صاحبان،یورپ میں صوفی تحریک کے لیڈر مشرف خان صاحب،ہالینڈ میں بدھؤں کے لیڈر مسٹر بلوس ما،ہالینڈ میں رہنے والے دس ہزار ترکوں کے امام مسٹر اکتودان،رجسٹرار عالمی عدالتِ انصاف اور کویت اور انڈونیشیا کے سفارت کاروں کے علاوہ متعدد نمائندگان پریس اور ریڈیو نے شرکت کی ۔(۱۲،۱۳)
۱۶؍ جولائی کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ ہیگ کا دورہ مکمل کر کے واپس جرمنی پہنچے۔اب آپ کا قیام ہمبرگ میں تھا۔جرمن اور پاکستانی احمدی ہوائی اڈے پر اپنے امام کا استقبال کرنے کے لئے موجود تھے۔ہمبرگ میں جماعت کے مبلغ مکرم عبد اللطیف صاحب نے حضور کا استقبال کیا۔اور جب حضور ؒ باہر تشریف لائے تو احبابِ جماعت نے اللہ اکبر ،اسلام زندہ باداور حضرت خلیفۃ المسیح زندہ باد کے نعرے لگائے۔شام کو ہمبرگ جماعت کی طرف سے حضور ؒ کے اعزاز میںاستقبالیہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔اس میں احمدی احباب کے علاوہ بہت سے غیر احمدی حضرات نے بھی شرکت کی۔پہلے مکرم عبداللطیف صاحب نے جماعت ِ احمدیہ اور حضورؒ کا تعارف کرایااور پھر جرمن احمدی مکرم عبد الغفور صاحب نے سپاسنامہ پیش کیا۔استقبالیہ کے بعد انفرادی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔کئی جرمن احمدی دوردراز کا سفر کر کے حضورؒ کی زیارت کے لئے آئے ہوئے تھے۔مقامی ٹی وی نے اس استقبالیہ پر ایک رپورٹ نشر کی اور اس کے علاوہ ریڈیو پر بھی حضور کی آمد کی خبر نشر کی گئی ۔۱۷؍ جولائی کو صوبائی حکومت کی طرف سے حضورؒ کے اعزاز میں دعوتِ استقبالیہ دی گئی۔اس میں حکومت کے نمائندوں کے علاوہ دیگر معززینِ شہر نے بھی شرکت کی۔اسی شام کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اٹلانٹک ہوٹل میں ایک پریس کانفرنس میں شرکت فرمائی۔اس میں ملک کے بڑے اخبارات کے نمائندوں ،مختلف خبررساں ایجنسیوں کے نمائندوں کے علاوہ کچھ ریڈیو سٹیشنوں کے نامہ نگاروں نے بھی شرکت کی۔مقامی جماعت نے رات کا کھانا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے ساتھ کھایا۔عشاء کی نمازکے بعد مقامی جماعت کے احباب نے حضور ؒ سے شرفِ ملاقات حاصل کیا۔ہمبرگ میں قیام کے دوران ایک جرمن خاتون اور ایک عرب دوست بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے۔۱۹ ؍جولائی کی شام کو حضور ؒ ہسپانیہ ایکسپریس میں کوپن ہیگن کے لئے روانہ ہو گئے۔(۱۳،۱۴،۱۵)
حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ نے ہمبرگ سے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کو ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:۔
’’یہاں بے حد مصروفیت رہتی ہے الحمد للہ الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ اس نے اپنی بے پایاں رحمت اور محبت سے بڑی کامیابی کے سامان پیدا کر دیئے۔صرف ہیمبرگ کے علاقہ میں ٹیلی ویژن پر اندازاََ ساٹھ ستر لاکھ دیکھنے والے احمدیت سے متعارف ہوئے۔اس کے علاوہ سوئٹزرلینڈ میں وہاں کے ٹیلی ویژن پر لاکھوں آدمی احمدیت سے متعارف ہوئے۔ ہیمبرگ کے صوبہ میں صرف چار روزانہ اخبار ہیں ۔تین صبح شائع ہوتے ہیں اور ایک شام۔ہر چہار اخباروں نے توجہ کھینچنے والی بڑی تصاویر شائع کر کے خبریں شائع کیں۔جن میں یہ خبر بھی تھی کہ اگر وہ اپنے زندہ خدا سے زندہ تعلق قائم نہ کریں گے تو تباہ ہو جائیں گے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے روز بازار میں جاتے توسارا بازار کام چھوڑ چھاڑ ہماری طرف متوجہ ہو جاتا۔۔۔۔۔پریس کانفرنس ہر مقام پر کامیاب رہی۔ہالینڈ والے ڈرتے تھے کہ کہیں اسرائیل کے متعلق سوال ایسے رنگ میں نہ کئے جائیں جن سے نقصان ہو کیونکہ اسلام دشمنی زوروں پر ہے۔اللہ تعالیٰ نے ایسا رعب ڈالا کہ وہ اس قسم کے سوال کی جرأ ت ہی نہ کر سکیں۔ ہیمبرگ میں پریس کانفرنس تقریباََ ڈیڑھ گھنٹہ کی تھی۔ہر قسم کے دلچسپ سوالات کئے گئے اور تسلی بخش جوابات اللہ تعالیٰ نے دلوائے۔پیشگوئیوں کا سمجھنا ان کے لئے مشکل ہے آسان نہیں۔ایک اخبار نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔اس قدر دلچسپی لی کہ دیکھنے والے حیران تھے اور خدا کا ایک بندہ اپنے رب کی حمد سے معمور۔فالحمدُ للّٰہ۔
ربوہ اور اہلِ ربوہ اہلِ پاکستان کے لئے دل اداس ہے اوردعا گو ۔دعاؤں کی بہت ضرورت ہے۔دعا کی درخواست کے ساتھ سب کی خدمت میں سلام ۔بچوں کو پیار۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے قائم مقام وکیلِ اعلیٰ مکرم سید داؤد احمد صاحب کے نام اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:۔
’’ہر پریس کانفرنس میں نمائندگان پر فرشتوں کا رعب مشاہدہ کیا۔فالحمد للّٰہ الذی لہ ملک السمٰوات والارض۔
‏Warningدے دی گئی اور چھپ بھی گئی۔اتمامِ حجت ہو گیا ہے ۔مگر مغرب کی تاریکی میں ان باتوں کا سمجھنا ان اقوام کے لئے آ سان نہیں۔اللہ تعالیٰ رحم کرے ۔بے حد مصروفیت میں جسمانی اور دماغی کوفت کا بھی احساس نہیں۔دل خدا کی حمد سے لبریز اور احبابِ جماعت کی دعاؤں کی ضرورت کا احساس بیدار۔وعلیہ التوکل ولہ الحمد۔ سب کو سلام ۔تمام احبابِ جماعت کو دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا سلام پہنچا دیں۔ دعا کی درخواست کے ساتھ۔‘‘(۱۶)
۲۰ ؍جولائی ۱۹۶۷ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ بخیرو عافیت ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن پہنچ گئے۔ریلوے اسٹیشن پر مقامی مبلغین اور اسکینڈے نیویا کے احمدی احباب نے حضورؒ کا پر تپاک خیرمقدم کیا۔یہاں پر مکرم سید کمال یوسف صاحب بطور مبلغ کام کر رہے تھے۔اور حضور ؒ نے اس دورے میں ڈنمارک میں بننے والی پہلی مسجد کا افتتاح کرنا تھا۔اپنی آمد کے اگلے روز مورخہ ۲۱؍ جولائی کو بروز جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ڈنمارک کی پہلی مسجد کا افتتاح فرمایا۔اس تقریب میں یورپ میں اسلام کے مبلغین اور احمدی احباب کے علاوہ ،غیر ملکی سفرائ،ڈنمارک کی نمایاں شخصیات اور معزز شہریوں نے شرکت کی۔اس موقع پر حضور ؒ نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا۔ریڈیو اور ٹی وی کے نمائندوں نے حضور کا خصوصی انٹرویو ریکارڈ کیا۔اس مسجد کا نام حضرت ام المؤمنین کے نام پر مسجد نصرت جہاں رکھا گیا تھا۔اور احمدی خواتین نے اس کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ریڈیو اور ٹی وی نے اس موقع پر حضورؒ کے انٹرویو ریکارڈ کئے۔یہ مسجد یورپ میں جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے تعمیر ہونے والی چھٹی مسجد تھی۔(۱۷)
۲۲؍ جولائی ۱۹۶۷ء کو حضور ؒ نے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کے نام اپنے مکتوب میں تحریر فرمایا ِ۔
’’کل بعد نماز جمعہ مسجد کا افتتاح مختصر تقریر اور دعاؤں کے ساتھ ہوا۔افتتاح بہت کامیاب تھا اللہ تعالیٰ کے فضل سے۔نمازی تو صرف تین صد سے اوپر تھے مگر زائرین سے سارا احاطہ بھرا ہوا تھا۔سینکڑوں کھڑے نظر آ رہے تھے۔۔۔۔۔۔میرا خیال ہے کہ سینکڑوں نے چائے میں بھی شمولیت اختیار کی۔کھانے میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر برکت ڈالی کہ پھر بھی کچھ بچ ہی گیا۔صرف ایک شخص تھا جس نے کچھ نہیں کھایا یعنی خاکسارکیونکہ پریس انٹرویو میں پوری توجہ سے نمایندگان سے مخاطب تھا۔یہ پہلی جگہ ہے جہاں اخباروں نے اسلام کے، ہمارے خلاف بھی لکھا ہے ۔یعنی خدا کی زمین میں کھاد بھی پڑ گئی ہے ،آسمانی پانی سے بھی حصہ ملا ہے۔امید ہے اور دعا کہ فصل اچھی ہو گی۔الحمد للہ ۔ریڈیو ٹیلی ویژن نے افتتاح کی خبریں نشر کی ہیں۔اور بہت سے اخباروں نے بڑی بڑی تصاویر کے ساتھ نوٹ دیئے ہیں ،حق میں بھی اور خلاف بھی ۔زائرین کل سے آئے چلے جا رہے ہیں اور آتے رہیں گے۔امید ہے۔اللہ تعالیٰ کا بے حد احسان ہے ۔ولہ الحمد۔بے حد دعائیں کرتی رہیں اور کرواتی رہیں۔‘‘(۱۱)
مکرم امیر صاحب مقامی ،صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے تار کے جواب میں حضور ؒ نے بذریعہ تار یہ پیغام بھجوایا:۔
’’۔۔۔مسجد نصرت جہاں کا افتتاح بلا شبہ ہماری تاریخ کا ایک عظیم واقعہ ہے۔لیکن ہمیں یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اب ہم پراور بھی زیادہ گراں بہا ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔اور وہ یہ کہ آیندہ ہمیں اور بہت سی مسجدیں تعمیر کرنا ہیں اور اپنے حقیقی احمدی ہونے کا ثبوت دینا ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔‘‘(الفضل ۲؍اگست ۱۹۶۷ء ص۸)
جب ذرائع ابلاغ میں اس مسجد کی تعمیر کا وسیع پیمانے پر چرچا ہوا تو عیسائی چرچ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔چنانچہ ڈینش مشنری سوسائٹی کے سیکریٹری نے عیسائی علماء کے ساتھ تبادلہ خیالات کی غرض سے حضورؒ سے ایک ملاقات کی۔اس وفد نے حضور ؒ سے مختلف سوالات کرنے شروع کئے اور یہ سوال بھی کیا کہ جماعت ِ احمدیہ اور اہلِ تشیع اور اہلِ سنت کے تعلقات کیسے ہیں۔اور پھر یہ سوال کیا کہ مستقبل میںاحمدیت کے عیسائیت سے تعلقات کیسے ہوں گے؟اس کے جواب میں حضور ؒ نے فرمایا کہ موجودہ عیسائیت اوراسلام میں بہت زیادہ فرق ہے۔لیکن ایک عیسائی اور مسلمان میں انسانیت ایک جیسی ہے۔ہمیں آپس میں بیٹھ کر تبادلہ خیالات کرنا چاہئے ۔اس موقع پر جب عیسائی پادریوں نے دیکھا کہ حضور ؒ کے جوابات کا حاضرین پر غیر معمولی اثر ہو رہا ہے تو انہوں نے غیرمناسب رنگ میں اعتراضات کرنے شروع کر دیئے۔اس پر ڈینش احمدی مکرم عبد السلام میڈیسن صاحب جوش میں آ گئے۔مگر حضور ؒ نے ان کو صبر کی تلقین کی اور بڑے حکیمانہ انداز میں اپنے جوابات کو جاری رکھا۔ملاقات کے آخر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے تمام عیسائی علماء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک چیلنج کا انگریزی ترجمہ پیش کر کے فرمایا کہ یہ دعوت اب بھی کھلی ہے ۔ہمیں خوشی ہو گی اگر عیسائیت کی سچائی اور اسلام کی صداقت کا فیصلہ کرنے کے لئے عیسائی حضرات اس دعوت کو قبول کریں۔حضور ؒ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے جس چیلنج کو اس موقع پر دہرایا وہ یہ تھا :۔
’’توریت اور انجیل قرآن کا کیا مقابلہ کریں گی۔اگر صرف قرآن شریف کی پہلی سورۃ کے ساتھ ہی مقابلہ کرنا چاہیں یعنی سورہ فاتحہ کے ساتھ جو فقط سات آیتیں ہیں اور جس ترتیبِ انسب اور ترکیبِ محکم اور نظامِ فطرتی سے اس سورۃ میں صدہا حقائق اور معارفِ دینیہ اور روحانی حکمتیں درج ہیں ان کو موسیٰ کی کتاب یا یسوع کے چند ورق انجیل سے نکالنا چاہیں تو گو ساری عمر کوشش کریںتب بھی یہ کوشش لا حاصل ہو گی۔اور یہ بات لاف و گزاف نہیں بلکہ واقعی اور حقیقی یہی بات ہے کہ توریت اور انجیل کو علومِ حکمیہ میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ بھی مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں۔ہم کیا کریں اور کیونکر فیصلہ ہو پادری صاحبان ہماری کوئی بات بھی نہیں مانتے۔اگر وہ اپنی توریت یا انجیل کو معارف اور حقائق کے بیان کرنے اور خواصِ کلامِ الوہیت ظاہر کرنے میں کامل سمجھتے ہیں تو ہم بطور انعام پانچسو روپیہ نقد ان کو دینے کے لئے تیار ہیں۔اگر وہ اپنی کل ضخیم کتابوں میں سے جو ستر کے قریب ہوں گی وہ حقائق اور معارفِ شریعت اور مرتب اور منتظم دررِ حکمت و جواہرِ معرفت اور خواصِکلام الوہیت دکھلا سکیں جو سورۃ فاتحہ میں سے ہم پیش کریں گے۔۔۔‘‘
پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ چیلنج بھی دہرایا کہ جو اصول اور تعلیمیں قرآنِ کریم کی ہیں وہ سراسر حکمت اور معرفت سے بھری ہوئی ہیں۔منکرینِ قرآنِ کریم کو چاہئے کہ دو تین بڑے بڑے اعتراضات سوچ لیں جو ان کے نزدیک قرآنِ کریم پر وارد ہوتے ہوںاور ان کو بطور نمونہ پیش کریںاور پھر حقیقتِ حال کو آ زما لیں۔اگر بعد تحقیق یہ بڑے بڑے اعتراضات ہی غلط نکلے تو چھوٹے چھوٹے اعتراضات ساتھ ہی نابود ہو جائیں گے۔اور یہ اعتراضات اور ان کے جوابات ایک رسالہ میں شائع کئے جائیں گے۔اس کے بعد کسی ثالث کی رائے یا خود فریقِ مخالف کے حلف پر فیصلہ کیا جائے گا۔لیکن شرط یہ ہے کہ فریقِ مخالف نامی علماء میں سے ہو اور اپنی مذہبی کتب کا علم بھی رکھتا ہو۔(۱۸)
۲۵ ؍جولائی کو میئر نے اہالیانِ شہر کی طرف سے حضور کے اعزاز میں اسقبالیہ دعوت دی۔اور میئر صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں اپنے ساتھیوں اور شہریوں کی طرف سے اس بات کا اظہار کرتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں کہ ہمارے شہر کو مسجد کی تعمیر کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے جوابی تقریر میں فرمایا کہ ہم بھی آپ لوگوں کے تعاون اور رواداری جو آپ نے مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں دکھائی ممنون ہیں۔ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ مسلمان ایک بہترین اور مثالی شہری ہوا کرتا ہے۔اس کے علاوہ یہ امر بھی ہمارے ایمان کا جزو ہے کہ ہم ہر ملک کے مروجہ قانون کی پیروی کریں۔‘‘(۱۹)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کو احبابِ جماعت سے ایسا تعلق تھا کہ ان کی تکلیف آپ کو بے چین کر دیتی تھی۔مکرم چوہدری محمد علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ڈنمارک میں ایک روز میں نے دیکھا کہ حضور ؒ رات کو پونے چار بجے ٹہل رہے تھے۔میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کی کہ حضور ؒکیا بات ہے؟کچھ دیر کندھے سے پکڑے رکھا اور ٹہلتے رہے جیسے دعا کر رہے ہوں پھر فرمایا کہ ایک عورت کا خط آیا کرتا تھا کہ اس کی بچی بیمار ہے ۔آج کی ڈاک میں اس کا خط نہیں آیا پتا نہیںاس کا کیا حال ہے؟
ڈنمارک کے کامیاب دورہ کے بعد حضور۲۶؍ جولائی کو کوپن ہیگن سے لندن کے لئے روانہ ہوئے۔جب لندن میں حضورؒ طیارہ سے باہر تشریف لائے تو وہاں پر موجود احبابِ جماعت نے حضور ؒ کا پُر تپاک خیر مقدم کیا۔ہوائی اڈہ سے حضور ؒ Queens Buildingتشریف لے آئے جہاں تمام احباب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے شرفِ مصافحہ حاصل کیا ۔اس موقع پر پریس کے نمائندگان نے حضور ؒ کا مختصر انٹرویو لیا۔انٹرویو کے بعد حضور ۶۳ ملروز روڈ پر مشن ہاؤس تشریف لے گئے۔ اوریہاں پر مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھائیں۔اگلے روز صبح دس بجے انفرادی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ نمازِ ظہر اور عصر کی ادائیگی کے بعد حضور آکسفورڈ تشریف لے گئے ۔حضور ؒ نے اس تعلیمی درس گاہ کی سیر فرمائی جس میں آپ نے تعلیم حاصل کی تھی۔اگلے روز خطبہ جمعہ میں آپ نے ارشاد فرمایا:۔
’’انشاء اللہ تعالیٰ میں اپنے بھائیوں سے لمبی گفتگو تو جلسہ سالانہ کی تقریب پر جو یہاں ہو گی کروں گا۔آج میں آپ لوگوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہ زمانہ جس میں ہم رہ رہے ہیں نہایت تاریک زمانہ ہے۔یہ برِ اعظم اور اس کا یہ جزیرہ جس میں آپ اور دیگر پاکستانی رہائش پذیر ہیں روحانی طور پر تاریک برِ اعظم ہے۔
اگر خدا تعالیٰ کا ایک فرستادہ دنیا کو یہ نہ بتاتا کہ
’ ’اس زمانہ کا حصنِ حصین میں ہی ہوں۔‘‘
اور جس کی آمد سے دنیا کا یہ مضبوط قلعہ شیطان کے وساوس سے بچنے کی وجہ سے قہرالٰہی سے محفوظ رہاتو یہ دنیا آج مر چکی ہوتی۔خدا تعالیٰ نے جو بندوں سے پیار کرنے والا ہے۔ اس دنیا کی نازک حالت کو دیکھتے ہوئے اپنے ایک بندے کو اس کی طرف مبعوث فرمایا اور اس دنیا کو ایک حصنِ حصین ،ایک قلعہ بنا دیا جس میں تمام دنیا کو پناہ مل سکتی ہے۔‘‘
خطبہ جمعہ کے اختتام پر حضور ؒ نے فرمایا
’’جہاں یہ زمانہ بڑا نازک ہے وہاں خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے بھی دروازے کھلے ہیں۔ بڑا بد بخت ہے وہ شخص جس کو دونوں دروازوں کا علم ہو مگر وہ اچھے دروازہ کو منتخب نہ کرے ۔ آپ دنیا کے استاد بنائے گئے ہیں دعا کریں کہ اپنی غفلت کے نتیجہ میں دنیا کے شاگرد نہ بن جائیں۔‘‘(۲۰)
۲۸؍ جولائی کو وانڈز ورتھ میں حضور ؒ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا گیا۔تقریب میں یہاں کے میئر نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا تعارف کرایا ۔ تقریب میں ایک رکنِ پارلیمنٹ اور حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے بھی تقاریر کیں۔حضور نے اس موقع پر بصیرت افروز خطاب فرمایا۔ اس خطاب میں حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاندانی پس منظر اور آپ کی بعثت کا پس منظر بیان فرمایا ۔ پھر حضور نے عالمی تبدیلیوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہت سی عظیم الشان پیشگوئیوں کا ذکر فرمایا جو اپنے وقت پر پورا ہو کر عظیم نشان بن گئیں۔ان پیشگوئیوں میں عالمی جنگوں کی پیشگوئی بھی شامل تھی۔پھر حضور نے فرمایا:۔
’’پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک تیسری جنگ کی بھی خبر دی ہے جو پہلی دونوں جنگوں سے زیادہ تباہ کن ہو گی۔دونوں مخالف گروہ اس طرح اچانک طور پر ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے کہ ہر شخص دم بخود رہ جائے گا۔آسمان سے موت اور تباہی کی بارش ہو گی اور خوفناک شعلے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔نئی تہذیب کا قصرِ عظیم زمین پر آ رہے گا دونوں متحارب گروہ یعنی روس اور اس کے ساتھی اور امریکہ اور اس کے دوست ہر دو تباہ ہو جائیں گے ان کی طاقت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی ان کی تہذیب و ثقافت برباد اور ان کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔بچ رہنے والے حیرت اور استعجاب سے دم بخود اور ششدر رہ جائیں گے۔
روس کے باشندے نسبتاً جلد اس تباہی سے نجات پائیںگے اور بڑی وضاحت سے یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ اس ملک کی آبادی پھر جلد ہی بڑھ جائے گی اور وہ اپنے خالق کی طرف رجوع کریں گے اور ان میں کثرت سے اسلام پھیلے گا اوروہ قوم جو زمین سے خدا کا نام اور آسمان سے اس کا وجود مٹانے کی شیخیاں بگھار رہی ہے،وہی قوم اپنی گمراہی کو جان لے گی اور حلقہ بگوشِ اسلام ہو کر اللہ تعالیٰ کی توحید پر پختگی سے قائم ہو جائے گی۔
شاید آپ اسے ایک افسانہ سمجھیں مگر وہ جو اس تیسری عالمگیر تباہی سے بچ نکلیں گے اور زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے کہ یہ خدا کی باتیں ہیں اور اس قادر و توانا کی باتیں ہمیشہ پوری ہی ہوتی ہیں۔کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی۔پس تیسری عالمگیر تباہی کی انتہاء اسلام کے عالمگیر غلبہ اور اقتدار کی ابتدا ء ہو گی اور اس کے بعد بڑی سرعت کے ساتھ اسلام ساری دنیا میں پھیلنا شروع ہو گا اور لوگ بڑی تعداد میں اسلام قبول کر لیں گے اور یہ جان لیں گے کہ صرف اسلام ہی سچا مذہب ہے اور یہ کہ انسان کی نجات صرف محمد رسول اللہؐ کے پیغام کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے۔‘‘
پھر حضور نے فرمایا کہ یہ ایک انذاری پیشگوئی ہے جوکہ توبہ استغفار سے ٹل بھی سکتی ہے۔اگر انسان اپنے رب کی طرف رجوع کرے اور اپنے اطوار درست کر لے تو وہ خدا کے عذاب سے بچ بھی سکتا ہے۔ اس کے بعد حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پر شوکت حوالے پڑھ کر سنائے جن میں حضور نے دنیا کو انذار فرمایا تھا اور آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پُر شوکت تحریر سنائی:
’’اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا،میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں،وہ واحد و یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا،مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھائے گا۔ جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں۔میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے تحت سب کو جمع کروں،پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آ تی جاتی ہے، نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشمِ خود دیکھ لو گے، مگرخدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے۔جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ اور جواس سے نہیں ڈرتا وہ ایک مردہ ہے نہ زندہ۔‘‘(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۶۹)
حضور ۲۹؍ جولائی کو حضورؒ ایک تقریب میں شرکت کے لئے ساؤتھ ہال تشریف لے گئے۔آپ نے وہاں پر احبابِ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔
’’میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ جو اس علاقہ میں رہتے ہیںجہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہزاروں دوست رہتے ہیں۔آپ کو ایسا نمونہ دکھانا چاہئے کہ جس سے ثابت ہو جائے کہ اسلام دوسروں سے نفرت و حقارت کو نا پسند کرتا ہے۔دنیا نمونہ کی محتاج ہے۔اسی صورت میں آپ اسلام کے سب سے بڑے مبلغ ٹھہریں گے۔اگر آپ اس تعلیم کے مطابق عمل کریں گے تو پھر ہی حقیقی احمدی کہلائیں گے ۔‘‘(۲۱)
۳۰ ؍جولائی کو وانڈز ورتھ ہال میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی صدارت میں جماعت احمدیہ انگلستان کا چوتھا جلسہ سالانہ شروع ہوا۔اس میں ایک ہزار کے قریب افراد شریک ہوئے۔آپ نے اپنے افتتاحی خطاب میں حضرت مصلح موعود ؓ کے وصال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’آپ سب جانتے ہیں کہ ۸؍ نومبر ۱۹۶۵ء کو جماعت پر کیا قیامت گزری۔وہ جو ہمارا پیارا تھا۔جس نے ۵۲ سال ہماری تربیت کی تھی۔ہمارے لئے دکھ اُ ٹھانے والا،ہماری خاطر راتوں کو جاگنے والا،جس نے ہمارے لئے ہر قسم کی جانی و مالی قربانیاں دی تھیں۔جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے رنگ میں ہم میں قائم کیا تھا۔وہ الٰہی منشاء کے مطابق اپنے محبوب اللہ کے پاس بلا لیا گیا۔اور جماعت کے ہر فرد نے یہ سمجھا کہ ہمارے سہارے ٹوٹ گئے ہیں۔اور ہر دل نے یہ بھی یقین کرلیا کہ ایک اللہ تعالیٰ کا سہارا نہیں ٹوٹا اور نہیں ٹوٹ سکتا۔‘‘
پھر حضور ؒ نے فرمایا:۔
’’حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال سے قبل مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ کسی معاملہ میں سارا خاندان یک جہتی کا مظاہرہ کرے گا۔اس خواب کی کسی حد تک تعبیر مجھے معلوم ہو گئی تھی لیکن پوری تعبیر اُس وقت معلوم ہوئی جب انتخابِ خلافت ہوا۔انتخاب سے قبل خاندانِ مسیح موعود ؑ کے جو ممبر انتخاب میں حسبِ قواعد حصہ لے سکتے تھے ان سب نے فیصلہ کیا کہ ہم انتخاب کے وقت آخر میں سب سے پیچھے بیٹھیں گے اور خدا تعالیٰ ساری جماعت میںسے جس کو بھی خلیفہ بنائے گا اسے متفقہ طور پر قبول کر لیں گے اور اس کی پوری اطاعت کریں گے۔
پھر انتخاب کا وقت آیا میں اپنی کیفیت میں تھا ۔بعض باتوں کا مجھے علم بھی نہیں ہوا۔جب انتخاب ہو گیا اور کسی شخص نے مجھے آ کر کہا کہ اٹھئے آپ کا انتخاب ہو گیا ہے تو پھر مجھے علم ہوا۔ یہ کوئی معمولی چیز نہیں۔ایک آدمی جسے اس وقت جماعت کوئی بہت بڑا بزرگ یا عالم یا بڑا آدمی نہ سمجھتی تھی خدا تعالیٰ نے اسے اٹھایا اور کرسیِ خلافت پر بٹھا دیا۔اگر بندوں کے اختیار میں ہوتا تو جماعت جسے بزرگ سمجھتی اسے بٹھا دیتی ۔لیکن خدا نے کہا کہ آج تمہاری نہیں چلے گی بلکہ میں ایک شخص کو جو تمہاری نظر میں کمتر اور ناکارہ ہے اٹھاؤں گا۔یہ اسی کی طاقت ہے نہ کسی انسان کی۔خلیفہ وقت کی طاقت کا راز یہ ہے کہ وہ اس یقین پر قائم ہوتا ہے کہ اس کی اپنی کوئی طاقت نہیں۔خلیفہ وقت کے علم کا راز یہ ہے کہ وہ اس یقین پر قائم ہوتا ہے کہ میرا اپنا ذاتی کوئی علم نہیں۔‘‘(۲۲)
جلسہ کے بعد احبابِ جماعت نے حضور ؒ کے دستِ مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔
۳۱ ؍جولائی کی صبح کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث گلاسکو کے لئے روانہ ہو گئے۔راستے میں حضورؒ نے رات کو سکاچ کارنر میں قیام فرمایا۔ اگلے روز آپ نے اپنا ایک تازہ رؤیا سنایا اور اس رؤیا کو آپ نے ۴ ا؍گست کے خطبہ جمعہ میں ان الفاظ میں بیان کیا:۔
’’میری ایک رؤیا کا تعلق اسلام کی ترقی سے ہے۔میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھڑے ہیں۔ ایک شخص جس کا نام خالد ہے کہتا ہے کہ آپ نام رکھ دیں ۔لیکن یہ یاد نہیں رہا کہ وہ کسی بچے کا نام رکھوانا چاہتا ہے یا کسی بڑے کا یا اپنا نام بدلوانا چاہتا ہے۔میں نے کہا کہ میں طارق نام رکھتا ہوں۔پھر میں نے کہا کہ طارق نام ہی نہیں دعا بھی ہے۔اور یہ دعا بہت کرنی چاہئے۔اس خواب کی مجھے یہ تفہیم ہوئی ہے کہ طارق رات کے وقت آنے والے کو کہتے ہیں۔رات کا وقت ملائکہ کا نزول بھی ہوتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کو صبحِ صادق کے ظہور سے تعبیر کیا ہے۔اور طارق کے معنی روشن اور صبح کے وقت طلوع ہونے والے ستارے کے بھی ہیں۔اور یہ ستارہ اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ رات گزر گئی ہے اور دن چڑھنے والا ہے ۔پس اس خواب کا مطلب یہ ہوا کہ مغربی اقوام جو بظاہر مہذب کہلاتی ہیں لیکن در حقیقت انتہائی غیر مہذب اور گندی زندگی بسر کر رہی ہیں اور بظاہر اسلام کی طرف ان کی توجہ ممکن نظر نہیں آ رہی۔دعا کے ذریعہ ممکن ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ عقلی دلائل یہ سننے کو تیار نہیں ان کو تودعا ہی خدا تعالیٰ کی طرف لا سکتی ہے۔‘‘(۲۳)
اور اگلے روز شام کو آپ گلاسکو پہنچے۔آپ نے گلاسکو میں قیام کے دوران احبابِ جماعت سے ملاقات کے علاوہ ایک استقبالیہ میں شرکت کی اور پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا۔ اور آپ یہاں سے ایڈنبرا بھی تشریف لے گئے۔
اب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی وطن واپسی کا وقت قریب آ رہا تھا۔تقریباََ ڈیڑھ ماہ کا دورہ مکمل کرنے کے بعد آپ ۲۱ ؍اگست ۱۹۶۷ء کو واپس کراچی پہنچے۔اس روز مطلع ابر آلود تھا مگر بہت سے احباب اپنے آقا کے استقبال کے لئے ایئر پورٹ پر چشم براہ تھے۔مقامی جماعت کے عہدیداران اور خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد نے جہاز تک جا کر حضور کا استقبال کیا۔باہر بہت سے احمدی حضور کے استقبال کے لئے دو رویہ کھڑے ہوئے تھے۔حضور ؒ نے احباب سے مصافحہ فرمایا۔ اگلے روز حضور ؒ نے بہت سے احباب سے ملاقات کی اور ایک پریس کانفرنس میں بھی شرکت فرمائی۔ خدام الاحمدیہ کے زیر اہتمام ایک اجلاس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے خطاب فرمایا۔اس میں آپ نے دورہ یورپ کے دوران خدا تعالیٰ کی تائید کے متعدد واقعات بیان فرمائے۔آپ نے جماعت خصوصاََ نوجوانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور وہ اپنے آپ کو اس کا اہل بنائیں کہ آئندہ جو بوجھ ان پر پڑنے والا ہے وہ اسے اٹھا سکیں۔(۲۴)
۲۵؍ اگست ۱۹۶۷ء کو حضور ؒ ریل گاڑی کے ذریعہ بخیرو عافیت ربوہ پہنچے ۔پاکستان کے مختلف شہروں سے ہزاروں احباب حضور کے استقبال کے لئے اسٹیشن پر منتظر تھے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ ریل گاڑی سے اترنے کے بعد اسٹیشن کے بر آ مدے میں تشریف لے آئے۔ اور حاضرین سے ایک مختصر خطاب فرمایا۔احباب پر ایک وجد کی کیفیت طاری تھی اور وہ دیر تک پر جوش نعرے لگاتے رہے۔(۲۵)
اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا ملک سے باہر پہلا دورہ نہایت کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا۔

(۱) الفضل ۲؍ جولائی ۱۹۶۷ء ص ۱،۲(۲)الفضل ۱۱؍ جولائی ۱۹۶۷ء ص،۴(۳) الفضل ۸؍ جولائی ۱۹۶۷ء ص ۱،۸
(۴) رجسٹرریزولیشن صدر انجمن احمدیہ ربوہ(۵) الفضل ۱۵؍ جولائی ۱۹۶۷ء ص آخر(۶) الفضل ۱۱؍ جولائی ۱۹۶۷ء ص ۱
(۷) الفضل ۲۶؍ اگست ۱۹۶۷ء ص۴،۵(۸) الفضل ۱۹؍ جولائی ۱۹۶۷ء ص۳،۴(۹) الفضل ۲۰؍ جولائی ۱۹۶۷ء ص ۳
(۱۰) الفضل ۲۲؍ جولائی ۱۹۶۷ء ص۳(۱۱) الفضل۳۰؍ جولائی ۱۹۶۷ء ص ۲(۱۲) الفضل ۱۸؍ جولائی ۱۹۶۷ء ص۱
(۱۳) الفضل۲۶؍ اگست ۱۹۶۷ء ص ۵۔۶(۱۴) الفضل ۱۹؍ جولائی ۱۹۶۷ء ص۱ (۱۵) الفضل ۲۲؍ جولائی ۱۹۶۷ء ص ۱
(۱۶) الفضل ۲۷ ؍جولائی ۱۹۶۷ء ص ۱(۱۷) الفضل ۲۴؍ جولائی ۱۹۶۷ء ص ۱(۱۸) الفضل ۲ ؍اگست ۱۹۶۷ء ص۳،۴
(۱۹) الفضل ۳؍ اگست ۱۹۶۷ء ص۳(۲۰) الفضل ۶؍ اگست ۱۹۶۷ء ص۳تا ۵(۲۱)الفضل ۸؍ اگست ۱۹۶۷ء ص آخر
(۲۲) الفضل۹؍ اگست ۱۹۶۷ء ص ۱،آخر(۲۳) الفضل ۱۶؍ اگست ۱۹۶۷ء ص ۲،۳(۲۴) الفضل ۳۱ ؍اگست ۱۹۶۷ء ص ۴
(۲۵) الفضل ۲۶ ؍اگست ۱۹۶۷ء ص ۱وآخر
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر کی
اشاعت کا آغاز
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں اور ارشادات میں قرآنِ کریم کی تفسیر کے وہ نکات بیان فرمائے ہیں جو کہ اس دور میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتے تھے۔لیکن یہ خزانہ پچاسی(۸۵) سے زائد کتب میں بکھرا ہوا ہے۔اس سے استفادہ کرنے کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ ان تفسیری حوالوں کو آیت وار اکٹھا کر کے شائع کیا جائے تاکہ تحقیق کا شوق رکھنے والوں اور تفسیر کا مطالعہ کرنے والے اس طرح اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُ ٹھا سکیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒؒ کے ارشاد کے تحت اس کو مرتب کرنے کاکام شروع کیا گیا۔اور اس میں سب سے نمایاں خدمت کرنے کی توفیق مکرم و محترم مولانا سلطان احمد صاحب پیرکوٹی کو ملی ۔آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اردو ،عربی اور فارسی کتب میں سے بنیادی مسودہ مکمل کر کے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں پیش کیا۔پھر حضور کے ارشاد کے مطابق،اس کی تدوین وترتیب اور عربی اور فارسی عبارات کے اردو ترجمہ کا کام مکرم و محترم مولانا ابولمنیر نورالحق صاحب کے سپرد ہوا۔آپ نے پہلی سے آخری جلد تک کا یہ کام بہت انہماک سے مکمل فرمایا اور اس عظیم کام میں آپ کی اعانت مکرم مولوی محمدصدیق صاحب ، مکرم ملک مبارک احمدصاحب ،مکرم چوہدری رشید الدین صاحب اور مکرم سلطان احمد شاہد صاحب نے کی۔چنانچہ ۱۹۶۹ء میں اس کی پہلی جلد شائع ہو گئی۔یہ پہلی جلد سورۃ فاتحہ کی تفسیر کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں اور ارشادات کے بارے میں تھی۔اس کی یہ بھی اہمیت تھی کہ سورۃ فاتحہ قرآنِ کریم کے معارف اور علوم کا خلاصہ ہے۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ۱۹۶۹ء کے جلسہ سالانہ میں اس کی اشاعت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’پس اس سال کے دوران ایک تو قرآنِ کریم کا انگریزی ترجمہ مع تفسیری نوٹس شائع ہوا ہے۔دوسرے سورۃ فاتحہ کی وہ تفسیر جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مختلف کتب اور تقاریر میں بیان فرمایاہے۔اسے اکٹھا کر کے یکجا طور پر کتابی شکل میںادارۃ المصنفین کی طرف سے تفسیر سورۃ فاتحہ کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔یہ مضمون جو کتابی شکل میں اکٹھا ہوا ہے اسے میں نے اس وقت تک تین چار دفعہ پڑھ لیا ہے۔جن دوسرے صاحبِ علم اور صاحب ِ فراست اور صاحبِ محبت۱ للاسلام نے اسے پڑھا ہے ان پر بھی اسی طرح اکٹھی شکل میں خاص اثر ہوا ہے۔اور یہ سورۃ فاتحہ کی بڑی ہی عجیب تفسیر ہے۔اس تفسیر کو پڑھ کر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کے اس چیلنج کا صحیح پتا چلتا ہے جو آپ نے پادریوں کو دیا۔
جب آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ کے نزدیک بھی توریت ایک الہامی کتاب ہے پھر اس الہامی کتاب کی موجودگی میں قرآنِ کریم کی کی کیا ضرورت تھی۔اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ قرآنِ کریم کی تو بات چھوڑو ۔سورۃ فاتحہ میں جو روحانی اور اخلاقی علوم بیان ہوئے ہیں اور اسرار بتائے گئے ہیں اگر تم اس سورۃ کے اسرار ِ روحانی کے مقابلے میںاپنی ساری الہامی کتب سے جو ۷۲ کے قریب ہیں۔۔۔۔۔ایسے ہی ان سے ملتے جلتے مضامین نکال کر ہمیںدکھادو تو ہم سمجھیں گے کہ تمہارے پاس بھی کچھ ہے۔لیکن عیسائیت کے عمل نے دنیاپر یہ ظاہر کیا ہے کہ سورۃ فاتحہ کے مقابلے میں ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔
میں جب یورپ کے دورے پر گیا تو میں نے وہاں کے پادریوں کے سامنے اس چیلنج کو دہرایا۔ جب میں اس چیلنج کو دہرا ہی رہا تھا تو دراصل اس وقت مجھے ایک خیال آیا اور میں نے سوچا کہ اگر یہ پادری کہیں کہ اچھا ہم مقابلہ کرتے ہیں کہاں ہے سورۃ فاتحہ کی وہ تفسیر تو میں کہوں گا کہ مختلف کتابوں میں وہ بکھری ہوئی ہے۔ذرا سی بات پر مجھے شرمندہ ہونا پڑے گا۔ پس اس وقت میں نے ارادہ کیا کہ اسے اکٹھا کر کے ضرور شائع کردینا ہے۔اور یہ تو اس چیلنج کے لحاظ سے پہلی جلد ہے اسکے بعد اب سورۃ فاتحہ کی تفسیر کی اور جلدیں آئیں گی۔ خلفائے احمدیت نے سورۃ فاتحہ کی جو تفسیر کی ہے وہ اپنی جگہ بڑی حسین ہے۔اللہ تعالیٰ کی عطا ہے انسان کا اپنا تو کچھ نہیں اور یہ بھی سورۃ فاتحہ کے مضامین کی شاید دو یا تین جلدیں بن جائیں۔لیکن اب بھی ہم اس مقام پر آ گئے ہیں کہ اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ کہاں ہے وہ تفسیر جس کا چیلنج دیا گیا ہے تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا بیان فرمودہ یہ تفسیری مجموعہ اس کے ہاتھ میں دے دیں گے۔اوراسے کہیں گے کہ یہ ہیں ان سات آیات کے حسین بیانات جو اسرار ِ روحانی اور دقائقِ اخلاقی پر مشتمل ہیں۔۔۔۔۔
ابھی میں نے اسلام کے اقتصادی نظام کے اصول اور فلسفہ پر جو خطبات دیئے تھے۔ جس وقت میں یہ خطبات دے چکا تو مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ احمدی تو مذہب سے دلچسپی رکھتے ہیں اور ان خطبات میں جو مختلف مذہبی پہلو بیان ہوئے ہیں جنکی بنیاد پر آگے اقتصادی اصول بیان کئے گئے ہیںوہ بڑے شوق سے پڑھیں گے اور بڑی لذت محسوس کریں گے لیکن دوسرے لوگ خصوصاً غیر مسلم جوہیں ان کو تو مذہب یا اسلام یا قرآن سے دلچسپی نہیں وہ شاید بور یعنی اکتا جائیں اسلئے ان سارے خطبات کا خلاصہ بیان کر دینا چاہئے جس میں صرف اصول بتا دیئے جائیں اس کی حکمتیں اور وہ روحانی بنیاد جن کے اوپر ان کو قائم کیا گیا ہے اس کو چھوڑ دیا جائے اور جو تعلیم ہے اور جو اس کا فلسفہ ہے وہ بیان کر دیا جائے اور یہ دراصل خلاصہ ہو گا ان خطبات کا۔چنانچہ میں اس وقت بہت دعا کر رہا تھا۔اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ جو کچھ تم نے ان چودہ خطبات میں بیان کیا ہے یہ سارا مضمون سورۃ فاتحہ میں پایا جاتا ہے۔تم سورۃ فاتحہ کی اقتصادی تفسیر بیان کر دینا تو ان خطبات کا خلاصہ آ جائے گا۔ چنانچہ مجھے بڑا لطف آیا۔لیکن ابھی تک مجھے موقع نہیں ملا کچھ دوسرے کام کچھ دوسرے نئے مضامین ضرورت ِ جماعت کے لئے سامنے آ جاتے ہیں۔اس واسطے انسان سلسلہ وار مضمون بیان نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تفسیر چھپ چکی ہے۔بڑی لطیف تفسیر ہے۔ اسے پڑھ کر بڑا مزا آتا ہے۔اور جتنی دفعہ پڑھیں نئے سے نئے مضامین سوجھتے رہتے ہیں۔میرے تو بہت سے خطبات کی بنیاد وہی Ideasیعنی نظریات ہوتے ہیں جو وہاں بکھرے ہوئے ہیں۔ان میں سے کسی نہ کسی پر میں اپنے مضمون کی بنیاد رکھ دیا کرتا ہوں۔ یعنی وہاں سے ایک خیال لے لیا اور اسے پھیلایا اور وہ خطبہ تیار ہو جاتا ہے۔یہ صحیح ہے کہ ہر آدمی اتنی وسعتیں حاصل نہیں کر سکتا۔علم کا ملنا بھی اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے۔ وہی معلمِ حقیقی ہے۔غرض یہ ہے بڑی لطیف تفسیر۔دوستوں کو چاہئے کہ اسے ضرور خریدیں میں سمجھتا ہوں کہ کم از کم ہر نوجوان کوسورۃ فاتحہ کی تفسیر اپنی بغل میں رکھنی چاہئے کیونکہ قرآنی مضامین کا اجمال سورۃ فاتحہ ہی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ قرآنِ عظیم سورۃ فاتحہ کے اجمال کی تفسیر بیان کر رہا ہے۔پس یہ مضامین جب آ جائیں گے تو یہ Outlinesسامنے آ جائیں گی۔اسلئے یہ تفسیر ہر عاقل بالغ پڑھے لکھے نوجوان کے ہاتھ میں ہر وقت رہنی چاہئے بلکہ میں تو کہوں گا کہ سرہانے رکھی رہنی چاہئے۔ میرے تو سرہانے پڑی رہتی ہے۔جب دو چار دس پندرہ بیس منٹ کا وقت مجھے ملتا ہے تو میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کوئی نہ کوئی کتاب پڑھنی شروع کر دیتا ہوں اور وہ وقت ضیاع سے بچ جاتا ہے اور میں اس وقت میں ایک لذت اور سرور حاصل کرتا ہوں۔غرض میں چاہتا ہوں آپ بھی اس سے محروم نہ رہیں۔‘‘(۱)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر کو مرتب کرنے کا عظیم کام جاری رہا اور کئی سالوں کی کاوشوں کے بعد یہ تفسیر آٹھ جلدوں میں مکمل ہوئی جسے بعد میں چار جلدوں میں شائع کیا گیا۔



(۱)خطاب جلسہ سالانہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۶۹ء
بیت اللہ کے مقاصد پر خطبات
۱۹۶۷ء میں اللہ تعالیٰ کے خاص منشاء کے تحت حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے مقاصد پر پرمعارف خطبات کا ایک سلسلہ شروع فرمایا۔اس کی ابتدا کے متعلق حضور نے ۱۹۶۹ء کے جلسہ سالانہ کی تقریر میں فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے پتہ نہیں ایک سیکنڈ کے کتنے حصہ میں دماغ میں ایسی لہر پیدا کی کہ یہ سارا مضمون دماغ میں آ گیا۔جوں جوں میں خطبات دیتا گیا آہستہ آہستہ یہ مضمون میرے سامنے آتا چلا گیا……اس مجموعہ کا بار بار پڑھنا ضروری ہے کیونکہ جیسا کہ اس مضمون سے عیاںہے اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی تعمیر بہت سے مقاصد کے لئے کروائی تھی۔جن میں سے تئیس کا ذکر ان آیات میں ہے جن پر میں نے یہ خطبات دیئے تھے۔اور نبیِ اکرم ﷺ کے ذریعہ سے ان مقاصد کا حصول ممکن ہوا اور تین سو سال تک یہ اغراض پوری ہوتی رہیں۔پھر تنزل کا ایک زمانہ آیا اور اب اسلام کی نشاۃ ِ ثانیہ کا زمانہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے آسمان پر پھر سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اسلام کو تمام دنیا پر غالب کرے گا اور وہ تمام مقاصد اسلام کے ذریعہ نوع ِ انسان کو حاصل ہوں گے جن مقاصد کے لئے بیت اللہ کی تعمیر از سر ِ نو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ کرائی گئی۔‘‘
اس سلسلہ کے پہلے خطبہ میں حضور نے سورۃ آلِ عمران اور سورۃ البقرۃ کی وہ آیات تلاوت فرمائیں جن میں تعمیر ِ بیت اللہ کا ذکر ہے۔حضور نے ان آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’پہلی غرض میں بیان ہوئی ہے،دوسری میں،تیسرے میں ایک مقصد بیان ہوا ہے، چوتھے ، پانچویں ،چھٹے ، ساتویں ،آٹھویں،نویں، دسویں ،گیارھواں مقصد میں بیان کیا گیا ہے، بارھواں مقصد کے لفظ میں ہے،تیرھواں مقصد کے لفظ میں بیان ہوا ہے،چودھواں مقصد کے اندر بیان کیا گیا ہے، پندرھواں مقصد میں بیان ہوا ہے، سولہواں مقصد میں بیان کیا گیاہے۔سترھواں مقصد میں بیان ہوا ہے، اٹھارھواں مقصد کے اندر بیان ہوا ہے، انیسواں مقصد کے اندر بیان ہوا ہے، بیسواں مقصد میں بیان ہوا ہے، اکیسواں مقصد میں بیان ہوا ہے،بائیسواں مقصد میں بیان ہوا ہے ، اور تئیسواں مقصد میں بیان کیا گیا ہے۔‘‘
خطبات کے ایک سلسلہ کے بعد۱۶ ؍جون ۱۹۶۷ء کو حضور نے تئیسویں مقصد کے بارے میں خطبہ ارشاد فرمایا حضور نے آیتِ کریمہ (البقرۃ: ۱۳۰) پڑھی اور فرمایا تعمیر ِ بیت اللہ کی تئیسویں غرض اس آیت میں بیان ہوئی ہے۔اور اس میں بتایا گیا تھا کہ ایک ایسا نبی مبعوث کیا جائے گا جو قیامت تک زندہ رہے گا اور اپنے فیوض کے ذریعہ اور افاضہ روحانی کی وجہ سے اس پر کبھی موت وارد نہیں ہو گی،ہمیشہ کی زندگی اس کو عطا کی جائے گی اور اسے ایک ایسی شریعت دی جائے گی جو ہمیشہ رہنے والی ہو گی،منسوخ نہیں ہو گی کیونکہ وہ الکتاب (ایک کامل اور مکمل شریعت ) ہو گی اور ایک ایسی امت پیدا کی جائے گی جو بصیرت پر قائم ہو گی،حکمت اسے سمجھائی جائے گی اور دلائل اسے عطا کیے جائیں گے اور زندہ خدا اور زندہ نبی اور زندہ شریعت اسے عطا کی جائے گی۔پھر حضور نے فرمایا یہ مقصد بھی نبی کریم ﷺ کی بعثت سے پورا ہوا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس خطبہ جمعہ کے آخرمیں فرمایا:
’’غرض یہ تئیس مقاصد ہیں جن کا تعلق بیت اللہ کی از سرِ نو تعمیر سے ہے اور اس کے بیان کی ضرورت یہ پڑی کہ ایک دن اللہ تعالیٰ نے بڑے زور کے ساتھ مجھے اس طرف متوجہ کیا کہ موجودہ نسل کا جو تیسری نسل احمدیت کی کہلا سکتی ہے صحیح تربیت پانا غلبہ اسلام کے لیے اشد ضروری ہے یعنی احمدیوں میں سے وہ جو ۲۵ سال کی عمر کے اندر اندر ہیں یا جن کو احمدیت میں داخل ہوئے ابھی پندرہ سال نہیں گزرے۔اس گروہ کی اگر صحیح تربیت نہ کی گئی تو ان مقاصد کے حصول میں بڑی رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی جن مقاصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء کی شکل میں دنیا کی طرف مبعوث فرمایا اور جن مقاصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے جماعت ِ احمدیہ کو قائم کیا ہے ۔پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میری توجہ اس طرف پھیر ی کہ اس گروہ کی تربیت کے لیے جو طریق اختیار کرنے چاہئیں ان کا بیان ان آیات میں ہے جن کے اوپر میں خطبات دیتا رہا ہوں۔اور اگر ان مقاصد کو صحیح طور پر سمجھ لیا جائے اور ان کے حصول کی کوشش کی جائے تو خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ہماری یہ پود صحیح رنگ میں تربیت حاصل کر کے وہ ذمہ داریاں نباہ سکے گی جو ذمہ داریاں عنقریب ان کے کندھوں پر پڑنے والی ہیں کیونکہ میری توجہ کو اس طرف پھیرا گیا تھا کہ آیندہ بیس پچیس سال اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے لیے بڑے ہی اہم اور انقلابی ہیں اور اسلام کے غلبہ کے بڑے سامان اس زمانہ میں پیدا کئے جائیں گے اور دنیا کثرت سے اسلام میں داخل ہو گی یا اسلام کی طرف متوجہ ہو رہی ہو گی۔ اس وقت اسی کثرت کے ساتھ ان میں مربی اور معلم چاہئیں ہوں گے۔وہ معلم اور مربی جماعت کہاں سے لائے گی اگر آج اس کی فکر نہ کی گئی۔اس لیے اس کی فکر کرو اور ان مقاصد کو سامنے رکھو جو ان آیات میں بیان ہوئے ہیں۔اور ان مقاصد کے حصول کے لئے جس رنگ کی تربیت کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ کے کلام ِ پاک کی روشنی میں اسی قسم کی تربیت اپنے نوجوانوں کو دو ۔ تا جب وقت آئے تو بڑی کثرت سے ان میں سے اسلام کے لیے بطور مربی اور معلم کے زندگیاں وقف کرنے والے موجود ہوں تا وہ مقصد پورا ہو جائے کہ تمام بنی نوع انسان کو علٰی دینٍ واحدٍ جمع کر دیا جائے گا۔
ان خطبات کے دوران ایک بزرگ نے مجھے لکھا کہ آپ کے جو خطبات ہو رہے ہیں ان کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک الہام سے بھی ہے جو تذکرہ کے صفحہ ۸۰۱ (مطبوعہ ۱۹۵۶ئ) پر درج ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں:
’’جو شخص کعبہ کی بنیاد کو ایک حکمت ِ الٰہی کا مسئلہ سمجھتا ہے،وہ بڑا عقلمند ہے کیونکہ اس کو اسرارِ ملکوتی سے حصہ ہے۔‘‘ (تذکرۃ ص۱۴۹مطبوعہ ۲۰۰۸ئ)
( تعمیر بیت اللہ کے تئیس عظیم الشان مقاصد ص۴،۵،۱۳۷ تا ۱۳۹)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کا پہلا دورہ مغربی افریقہ
جب برِ صغیر کی حدود سے باہر احمدیت کی تبلیغ کا آ غاز ہوا تو مغربی افریقہ ان خطوں میں سے تھا جہاں کے لوگوں نے اپنی سعادت کا ثبوت دیتے ہوئے بڑی تعداد میںحق کو قبول کرنا شروع کیا اور یہاں پر بڑی بڑی جماعتیں قائم ہونے لگیں۔اب تک مغربی افریقہ کے چند احمدی احباب مرکز آکر خلیفہ وقت کی زیارت کر چکے تھے اور بعض نے یہاں پر رہ کر کچھ سال دینی تعلیم بھی حاصل کی تھی لیکن ابھی تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کسی خلیفہ نے افریقہ کا دورہ نہیں کیا تھا۔یہاں کے احمدیوں کی تربیت اور ان کا اخلاص اس بات کا تقاضا کرتا تھا کہ خلیفہ وقت افریقہ کا دورہ کریںاور ان کی روحانی اولاد کو ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہو۔پہلے ۱۹۶۹ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے دورہ مغربی افریقہ کا پروگرام بنایا گیا مگر بعض وجوہات کی بنا پر اس سال یہ دورہ نہیں ہو سکا ۔اس التواء سے وہاں کے احمدی احباب کو بہت صدمہ ہوا۔وہاں کے ایک احمدی بزرگ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں تحریر کیا کہ مجھے ساری عمر سے یہ حسرت تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی زیارت ہو جائے لیکن ان کا وصال ہو گیا اور میں انکی زیارت نہ کر سکا ۔ان سے مل کر برکت نہ حاصل کر سکا ۔اب خلافتِ ثالثہ میں یہ امید بندھی تھی کہ یہ موقع ملے گا اور میں آپ سے ملاقات کروں گا لیکن اب اس ایک سال کے التواء سے دل میں یہ وسوسہ اُ ٹھتا ہے کہ کہیں میں اس دوران دنیا سے رخصت نہ ہو جاؤں اور یہ حسرت میرے دل میں ہی رہے کہ جماعتِ احمدیہ کے امام کی زیارت کر سکوں۔(۱)
اللہ تعالیٰ نے مغربی افریقہ کے احمدیوں کی دعائیں سنیں اور ۱۹۷۰ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے مغربی افریقہ کے دورہ پر جانے کا فیصلہ فرمایا۔اور اس پروگرام میں نائیجیریا ،غانا، آئیوری کوسٹ ، لائبیریا،گیمبیا اور سیرالیون کا دورہ شامل تھا۔۳؍ اپریل ۱۹۷۰ء کے خطبہ جمعہ میںحضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ کے نام سے اور اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے میں انشاء اللہ تعالیٰ کل صبح مغربی افریقہ کے دورہ پر روانہ ہوں گا۔ربوہ اور آپ دوستوں کی اس عارضی جدائی سے طبیعت میں اداسی بھی ہے ۔اللہ تعالیٰ کے اس فضل پر خوشی بھی ہے کہ وہ محض اپنی رحمت سے یہ توفیق عطا کر رہا ہے کہ ان اقوام کے پاس جا کر جو صدیوں سے مظلوم رہی ہیں اور جو صدیوں سے حضرت نبی اکرم ﷺ کے ایک عظیم روحانی فرزند مہد ی معہود کی انتظار میں رہی ہیں اور جن میں سے استثنائی افراد کے علاوہ کسی کو بھی حضرت مسیح موعود و مہدیِ معہود علیہ السلام کی زیارت نصیب نہیں ہوئی ۔پھر ان کے دلوں میں یہ تڑپ پیدا ہوئی کہ آپ کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ ان تک پہنچے ۔اور اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد ﷺ کے نام پر ان کو ہدایت کی طرف اور ان کو رشد کی طرف اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی طرف بلائے اور وہ خلیفۃ من خلفائہ کی زیارت سے اپنی آ نکھوں کو ٹھنڈا کریں اور ان کی طبیعتیں ایک حد تک سیری محسوس کریں۔ چنانچہ صدیوں کے انتظار کے بعد اللہ تعالیٰ نے چاہا تو انہیں یہ موقع نصیب ہو گا۔
دعا ہے کہ یہاں میری موجودگی میں بھی آپ ہمیشہ ثباتِ قدم پر مضبوطی سے قائم رہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے دامن کو کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور میری غیر حاضری میں بھی اللہ تعالیٰ آپ کے لئے صدق و ثبات اور وفا کے سامان اور صدق و ثبات اور وفا اور محبت کی فضا پیدا کرتا رہے۔اور ہمارا ان ممالک کی طرف جانا ان کے ثباتِ قدم کا موجب بنے اور جذبہ وفا میں شدت کا موجب ثابت ہواور وہ قومیں محبتِ الٰہی میں اور بھی آگے بڑھیں۔ اور وہ جو ابھی تک اندھیروں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں انہیں بھی روشنی کی وہ کرن نظر آ جائے جو اسلام کی شاہراہ کو منور کر رہی ہے اور بنی نوع انسان کو اس طرف بلا رہی ہے ۔‘‘(۱)
اس کے بعد حضورؒ نے ارشادفرمایا کہ محبت اور پیار سے اپنے دن گزاریں اور صدقہ اور دعاؤں کے ساتھ میری مدد کریں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۴؍ اپریل کو فجر کے بعد ربوہ سے روانہ ہونا تھا۔ایک روز پہلے مغرب کی نماز کے وقت اہلِ ربوہ ہزاروں کی تعداد میں مسجد مبارک میں جمع ہو گئے۔ ان کے علاوہ دوسرے شہروں سے بھی احباب حضورؒ کو الوداع کہنے کے لئے آ ئے ہوئے تھے۔نماز کے بعد حضورؒ محراب میں ایک کرسی پر رونق افروز ہوئے۔تلاوت کے بعد کچھ دوستوں نے نظمیں سنائیں اور مکرم مولانا ابو العطاء صاحب نے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی رقم فرمودہ تحریکِ دعا پڑھ کر سنائی۔اس کے بعد حضورؒ نے حا ضر ین کو مخاطب کرکے فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ اپنی رحمت کے سایہ میں رکھے ۔انشاء اللہ تعالیٰ میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے سب کو دعاؤں میں یاد رکھوں گا۔آپ سے بھی درخواست ہے کہ آپ مجھے بھی اور میرے ہمسفر ساتھیوں کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔دعا تو ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تو حید دنیا میں قائم ہو اور محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت اقوامِ عالم کے دلوں میں بیٹھے اور اسلام دنیا میں غالب آئے۔خدا کرے کہ ہم اپنی زندگیوں میں ہی یہ نظارہ دیکھ لیں کہ فی الواقعہ اسلام دنیا میں غالب آ گیا ہے۔‘‘
ان مختصر ارشادات کے بعد حضور ؒ نے دعا کے لئے ہاتھ اُ ٹھائے۔ساتھ ہی مسجد میںموجود ہزاروں احباب کے ہاتھ دعا کے لئے اُ ٹھ گئے۔یہ اجتماعی دعا ایک خاص شان کی حامل تھی ۔احباب نے اس قدر درد و الحاح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں مانگیں کہ دیر تک مسجد ہچکیوں اور سسکیوں سے گونجتی رہی۔دعا کے بعد حضور ؒ کی زیر ِ ہدایت مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب نے نعرے لگوائے۔صبح کو فجر کی نماز کے بعد احباب کثیر تعداد میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو الوداع کہنے کے لئے دو رویہ کھڑے تھے۔سوا چھ بجے حضورؒ گاڑی میں سوار ہونے کے لئے قصرِ خلافت سے باہر تشریف لائے۔ روانہ ہونے سے قبل حضورؒ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابی حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب ؓ اور مکرم حضرت عبد الرحمن صاحب فاضل سے معانقہ فرمایا اور پھر قافلہ کے ہمراہ لاہور کے لئے روانہ ہوئے۔اس موقع پر جماعت احمدیہ کی طرف سے بکروں کی قربانی کی گئی۔(۲)
لاہور میں حضور ؒکا قیام مکرم چوہدری اسداللہ خان صاحب کی کو ٹھی پر تھا۔لاہور کے علاوہ قریب کے اضلاع کے احباب بھی اپنے امام کو الوداع کہنے کے لئے آ ئے ہوئے تھے۔وہاں پر حضورؒ نے مختصر خطاب کر تے ہوئے موجودہ زمانے کے حالات بیان کرنے کے بعد احباب کو ان ایام میں خصوصیت سے دعائیں کرنے کی طرف توجہ دلائی۔اور فرمایا کہ ہمارا ہتھیار دعا ہی ہے ۔ہمیں چاہئے کہ ہم اسلام کی فتح اور اس کے غلبہ کے لئے دعائیں کرنے میں لگے رہیں۔اور اپنے اس فرض میں کبھی کوتاہی نہ کریں۔اس کے بعد حضورؒ نے دعا کرائی۔دعا کے بعد حضور لاہور کے ایئر پورٹ تشریف لے گئے۔ وہاں پر حضور ؒ نے دوستوں سے مصافحہ فرمایا۔اس خیال سے کہ ہم وقت کی تنگی کے باعث مصافحے سے محروم نہ رہ جائیں لوگ ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔حضور آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے احباب سے مصافحہ فرما رہے تھے ۔ جب ہجوم بہت بڑھ گیا اور حضور ؒ کے لئے آ گے بڑھنا ممکن نہ رہا تو آپ نے فرمایا کہ میں یہیں کھڑا رہوں گا جب تک احباب گزرنے کے لئے راستہ نہ بنا دیں ۔یہ ارشاد سن کر سب قطاروں میں کھڑے ہو گئے اور حضورؒ ان کے درمیان سے گزرتے ہوئے کمرہ انتظار میں تشریف لے گئے۔یہاں پر کھڑے ہو کر حضور ؒ نے ایک بار پھر دعا کروائی۔اور ساڑھے دس بجے کے قریب جہاز کراچی کے لئے روانہ ہو گیا۔کراچی پہنچنے کے بعد آپ مکرم چوہدری محمد خالد صاحب ابن حضرت چوہدری محمد شریف صاحبؓ کی کوٹھی پر پہنچے اور ظہر اور عصر کی نمازوں کے بعد آپ دیر تک احباب میں تشریف فرما رہے ۔ آپ نے فرمایا کہ آجکل بد قسمتی سے ہمارے ملک میں سیاسی کفر بازی کا بازار گرم ہے ۔میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس کے نتیجے میں ہماری نوجوان نسل اسلام سے نعوذ باللہ متنفر نہ ہو جائے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت سید ولد آ دم حضرت محمد ﷺ کی زبانِ مبارک سے تو یہ نکلوایا کہ یعنی میں تمہارے جیسا انسان ہوں اور اس طرح بنی نوع انسان کا شرف اور عزت قائم فرمائی۔جب تک انسانی عزت قائم نہیں ہوتی۔دنیا سے فساد دور نہیں ہو سکتا ۔ مغرب کے وقت حضور ؒ احمدیہ ہال تشریف لے گئے۔پہلے مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کی گئیں۔پھر حضور ؒ نے نصف گھنٹہ تک اپنے دورہ افریقہ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی اور اس کے بعد اجتماعی دعا ہوئی۔اگلے روز ساڑھے سات بجے حضورؒ زیورک کے لئے روانہ ہو گئے۔
تہران وقت کے مطابق سوا نو بجے ہوائی جہاز کچھ دیر کے لئے تہران کے ایئر پورٹ پر رکا۔ یہاں پرموجود احمدی باہر پھولوں کے ہار لئے منتظر تھے ۔وہ شیشے سے حضورؒ کو دیکھ سکتے تھے لیکن ایئرپورٹ کے قواعد انہیں لاؤنج میں آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔مقامی احمدیوں کی طرف سے کوشش بھی کی گئی تھی کہ انہیں اندر آنے کی اجازت مل جائے لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے احباب کی بے تابی کو ملا حظہ فرمایا تو خود ڈیوٹی آفیسر کو مسکرا کر فرمایا کہ یہ لوگ مجھے ملنا چاہتے ہیں کیا یہ اندر آ سکتے ہیں۔اس پر ڈیوٹی آفیسر نے ایک نظر حضورؒ کی طرف دیکھا اور پھر خوشی اور بشاشت سے کہا کہ یہ سب لوگ اندر آ سکتے ہیں۔اس طرح تہران کے احمدیوں نے حضور ؒ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا تہران سے جہاز استنبول کے لئے روانہ ہوااورپھر وہاں سے جنیوا کے لئے سفر شروع ہوا۔پھر جہاز کے کیپٹن نے اعلان کیا کہ جنیوا میں شدید برفباری ہو رہی ہے اور عنقریب موسم ٹھیک ہونے کا کوئی امکان نہیں اس لئے جہاز لندن جائے گا اور وہاں سے جنیوا آنے کا بندو بست کیا جائیگا۔باقی مسافر تو اس خبر سے بہت پریشان ہوئے حضور ؒ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بہتری مقصود ہو گی۔جہاز لندن پہنچا ۔وہاں پر حضورؒ کی موجودگی کی خبر پاکر لندن میں جماعت کے مبلغ مکرم بشیر احمدرفیق صاحب حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ایک گھنٹے کے بعد ایک فلائٹ پر زیورک پہنچنے کا انتظام کیا گیا۔پہلے تو سوئٹزر لینڈ کی جماعت جنیوا میں حضور ؒ کے استقبال کے لئے منتظر تھی ۔پروگرام میں تبدیلی کی خبر ملنے پر ان میں سے کچھ دوست جن میں مکرم مشتاق احمد باجوہ صاحب،حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ اور مکرم اتالو کیوسی صاحب (جنہوں نے کچھ ہی عرصہ قبل اسپرانٹو زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا تھا) بھی شامل تھے ،استقبال کے لئے زیورک پہنچے۔یہاں پر کھانا کھانے کے بعد اور مغرب اور عشاء کی نمازوں کی ادئیگی کے بعدحضورؒ دیر تک احباب میں تشریف فرما رہے۔(۳)
نائیجیریا کا دورہ
زیورک پہنچ کر پروگرام میں کچھ تبدیلی کی گئی اور حضورؒ وہاں سے براہِ راست نائیجیریا روانہ ہونے کی بجائے زیورک سے فرینکفورٹ تشریف لے گئے۔اور وہاں سے ۱۱ ؍اپریل ۱۹۷۰ء کو لفت ہانزا کے جہاز پرنائیجیریا کے دارالحکومت لیگوس روانہ ہوئے۔جہاز برف پوش پہا ڑوں سے گزرتا ہوا جنیوا اور زیورک کے اوپر سے پرواز کرتا ہوا صحرائِ اعظم کے اوپر پہنچا۔حضورکو اپنے اہلِ قافلہ کا اتنا خیال رہتا تھا کہ جب جہاز صحرائِ اعظم کے اوپر سے گزر رہا تھا تو آپ اپنی سیٹ چھوڑ کر دوسرے احباب کے پاس آگئے اور ان سے مختلف باتیں کرنے لگے۔ساتھ کی سیٹوں پر بچے بیٹھے تھے ،آپ نے اپنے ساتھیوںسے دریافت فرمایا کہ ان سے بھی بے تکلفی ہوئی ہے کہ نہیں اور پھر جھک کر ایک ننھے منے بچے کو پیار فرمایا۔بالآخر ساڑھے چھ گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد جہاز لیگوس کے ایئر پورٹ پر اترا۔(۴)
یہ پہلا موقع تھا کہ خلیفۃ المسیح افریقہ کے کسی شہر میں تشریف لا رہے تھے۔اور یہ سعادت نائیجیریا کے شہر لیگوس کے حصے میں آ ئی تھی۔۱۱؍ اپریل ۱۹۷۰ء کو سہ پہرچار بج کر دس منٹ پر جہاز لیگوس کے ہوائی اڈے پر اترا ۔نائیجیریا کی مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے تقریباََ ایک ہزار احمدی احباب حضور ؒ کے استقبال کے لئے ایئر پورٹ پر موجود تھے۔ حضورؒ کی آمد پر اللہ اکبر،اسلام زندہ باد،احمدیت زندہ باد اور حضرت امیر المؤمنین زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔دیر تک فضا نعروں کی آ واز سے گونجتی رہی۔استقبال کرنے والے اپنے امام کی آمد پر خوشی سے جھوم رہے تھے۔اور مرد و خواتین ترنم کے ساتھ اھلا وسہلا و مرحبا پڑھ رہے تھے۔سب لوگ کھلے ہوئے چہرے اور ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ حضورؒ کا استقبال کر رہے تھے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے نائیجیریا کی یوروبا زبان میں فرمایا ’’میں آپ سے مل کر بہت خوش ہوا ہوں۔‘‘دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے اس جملے کو سن کر حاضرین پر وجد کی ایک کیفیت طاری ہو گئی اور ایک بار پھر فضا نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اُ ٹھی(۵)۔حضور کا استقبال کرنے والوں میں بہت سے غیر احمدی دوست بھی شامل تھے۔اور غیر ملکی سفراء میں سے سوڈان کے سفیر بھی حضورؒ کے استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے۔جب حضور کا قافلہ ہوٹل پر پہنچا تو وہاں پر بھی احبابِ جماعت اور احمدیہ سکولوں کے بچے دو رویہ کھڑے اھلا و سہلا و مرحبا کا ہدیہ پیش کر رہے تھے۔حضورؒ کی آمد کے مناظر نائیجیریا کے ٹی وی پر بھی دکھائے گئے(۶،۷)۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اپنی آمد پر مختلف اخباروں کے نمائندوں کے سوالات کے جواب دیئے۔آپ نے سب مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے لئے امن اور محبت کا پیغام دیا۔آپ کی آمد کی خبر شائع کرتے ہوئے نائیجیریا کے اخبار سنڈے ٹائمز نے لکھا:۔
’’عالمگیر احمدیہ مسلم جماعت کے سربراہ حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے کل لیگوس میں فرمایا کہ انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے نفرت کرے۔ وہ نائیجیریا کے خیر سگالی دورے پر اپنی آمد کے موقع پر اخباری نمائندوں سے باتیں کر رہے تھے۔
مسلمان لیڈر نے جو آج کل مغربی افریقہ کے ممالک کا دورہ کر رہے ہیں کہا کہ تمام انسان برابر ہیںاور ایک انسان اور دوسرے انسان میں کوئی فرق نہیں ۔اگر دنیا اس بات کو سمجھ لے تو اسے کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑے ۔
حضرت احمد نے تمام انسانوں سے خواہ مسلمان،غیر مسلم یا بت پرست ہوں اپیل کی کہ انہیں ایک دوسرے کو برداشت کرنا چاہئے۔‘‘(۸)
اسی روز نائیجیریا کے مسلمانوں کی تنظیم ،نائیجیرین مسلم کونسل اور جماعت ِ احمدیہ نائیجیریا کی طرف سے مشترکہ طور پر حضور ؒ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا۔۔اس میں مختلف مسلمان تنظیموں کے نمائندگان،یونیورسٹی کے پروفیسران ،اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان اور سوڈان، پاکستان،گنی اور شام کے سفیروں نے بھی شرکت کی۔(۹)
۱۲؍ اپریل کو نائیجیریا کے ایک مخلص احمدی اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے جج مکرم جسٹس عبدالرحیم بکری صاحب نے حضورؒ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا۔عبد الرحیم بکری صاحب نائیجیریا جماعت کے پریذیڈنٹ مکرم جناب ایس ۔او۔ بکری صاحب کے صاحبزادے تھے۔ اس استقبالیہ میں کثیر تعداد میں نائیجیریا کی اہم شخصیات نے شرکت کی۔اس استقبالیہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ لیگوس سے ساٹھ میل کے فاصلے پرایک شہر ایجوبو اوڈے تشریف لے گئے وہاں پر آپ نے جماعت احمدیہ کی ایک نئی مسجد کا افتتاح فرمانا تھا۔جب قافلہ ایجوبو اوڈے سے بیس میل دور ایک مقام شگامو پر پہنچا تو وہاں پر بہت سے احمدی احباب کاروں پر حضور ؒ کے استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے۔ ان احباب نے اھلا و سھلا و مرحبا اور نعروں سے حضور کا والہانہ استقبال کیا۔ چائے کے بعد حضور ؒ نے ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں۔پھر آپ مسجد کے صحن میں تشریف لے گئے جہاں پر ۵ ہزار کے قریب احمدی اور غیر احمدی احباب اور خواتین تشریف رکھتے تھے۔پہلے حضور ؒ نے مسجد کے افتتاح کی یادگاری تختی نصب فرمائی اور پھر انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’میں آپ اور اپنے رب کا شکرادا کرتا ہوں کہ اس نے توفیق دی کہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کو جو یہاں رہتے ہیں آکر ملوں۔میں تہِ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے یہ موقع پیدا کیا کہ آپ سے ملوں۔آپ سے مل کر میرا دل خوشی کے جذبات سے لبریز ہے۔ہم نبیِ اکرم ﷺ اور آپ کے عظیم روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب یکساں ہیں اور ہمیں موقع دیا کہ اس مساوات کو تسلیم کریں۔۔۔۔۔
آپ کا ملک عظیم ملک ہے ۔اس کا عظیم مستقبل ہے ۔آپ احمدیوں کا بھی عظیم مستقبل ہے۔ آپ سے جو وعدے کئے گئے ہیں وہ پورے ہو کر رہیں گے۔آپ انتہائی کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکیں۔آئیے ہم الحمد للّٰہ رب العٰلمین کہیں، الحمد للّٰہ رب العٰلمینکہیں، الحمد للّٰہ رب العٰلمین کہیں۔اور آئیے اس پر درود و سلام بھیجیں جس نے کہا انما انا بشر مثلکم۔آئیے ہم کہیںصلی اللہ علیہ و سلم، صلی اللہ علیہ و سلم، صلی اللہ علیہ و سلم۔ ہمارے کندھوں پر عظیم ذمہ داری ڈالی گئی ہے ۔آئیے انسانوں کو محبت اور امن کے ساتھ اکٹھا کر دیں۔تمام انسان یکساں ہیں بھائی ہیں۔تمام انسان ہمارے خالق کے عاجز بندے ہیں۔میں دعا کرتا ہوں کہ انسان زندہ رہے۔‘‘
خطاب کے بعد حضور کا تعارف محترمہ فاطمہ علی صاحبہ سے کرایا گیا ۔یہ وہ مخلص خاتون تھیں جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر کے لئے ایک خطیر رقم دے کر عمارت جماعت کو عطیہ کے طور پر پیش کی تھی۔حضور نے ان کے لئے دعا کی۔
حضور ؒ نے نائیجیریا کے شہر ابادان کے دورہ پر بھی جانا تھا مگر موسم کی وجہ سے اس بات کے امکانات پیدا ہو رہے تھے کہ شاید حضورؒ وہاں تشریف نہ لے جا سکیں۔اس خدشہ کی وجہ سے ابادان کے احمدیوں کا اضطراب بڑھ رہا تھا۔تقریب کے اختتام پر حضور ؒ نے اعلان فرمایا کہ ہم ابادان بھی جائیں گے۔وہاں پر ابادان کے چند احمدی بھی موجود تھے،اس خوش خبری کو سن کر انہوں نے والہانہ انداز میں خوشی کا اظہار کیا ۔ تقریب کے بعد حضور ؒ نے بہت سے احباب سے مصافحہ اور معانقہ فرمایا۔ (۱۰،۱۱،۱۲)
۱۳ ؍اپریل ۱۹۷۰ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نائیجیریا کے صدر عزت مآب یعقوبو گوون صاحب سے ان کی رہائش گاہ پر ملنے تشریف لے گئے۔مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، مشنری انچارج نائیجیریا مکرم فضل الٰہی انوری صاحب ،لیگوس کی جماعت کے پریذیڈنٹ مکرم بکری صاحب، مکرم چوہدری ظہور احمد باجوہ صاحب اور اس سفر میں حضور ؒ کے پرائیویٹ سیکریٹری مکرم چوہدری محمد علی صاحب بھی اس ملاقات میں حضورؒ کے ہمراہ تھے۔صدرِ مملکت نہایت ادب سے حضورؒ سے ملے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ آپ لوگ بہت نازک مرحلے سے گزرے ہیں۔آپ لوگوں نے جس تحمل اور یقین سے ان نازک حالات میں ملک کی خدمت کی ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔اب جب کہ جنگ ختم ہو چکی ہے اور نائیجیریا کو اللہ تعالیٰ نے امن کی نعمت سے نوازا ہے آپ کی کوشش ہونی چاہئے کہ کسی قسم کی تلخی پیدا نہ ہو اور محبت اور ملاطفت سے جنوبی حصہ کے لوگوں کے دل بھی فتح کریں کیونکہ اصل فتح یہی ہے۔طاقت کے استعمال سے لوگ تباہ تو ہو سکتے ہیں جیتے نہیں جا سکتے۔ایٹم بم سے ایک دل بھی بدلا نہیںجا سکتا۔صدرِ مملکت نائیجیریا نے جواب دیا کہ ہماری بھی یہی کوشش ہے ۔نائیجریا میں مذہبی تنظیموں کے برادرانہ تعلقات ہیں ورنہ اس سلسلے میں ملک کے باہر جو پروپیگنڈا مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے لئے کیا جا رہا تھا ،اگر لوگ اس کی طرف توجہ کر لیتے اوراس سے متاثر ہوتے تو ہماری مشکلات بہت بڑھ جاتیں۔صدر یعقوبو گوون نے نائیجیریا میں جماعت ِ احمدیہ کی خدمات کو سراہا اور کہا کہ جماعت نے نائیجیریا کی اخلاقی روحانی،جسمانی اور ذہنی ترقی میں قابلِ قدر کردار ادا کیا ہے۔ روحانی خدمات کے علاوہ آپ نے تعلیمی میدان میں بھی جو کارنامے سرانجام دیئے ہیںوہ قابلِ تحسین اور ستائش ہیں۔نائیجیریا کے عوام کے بہبود اور عزائم کی تکمیل کے سلسلے میں آپ نے پوری شمولیت کی ہے ۔ صدر صاحب نے حضور ؒ سے آیندہ پروگرام کے متعلق دریافت کیا ۔حضور ؒ نے فرمایا کہ آج ابادان جانا ہے اور وہاں پرIntellectuals اور یونیورسٹی کے طلباء سے خطاب کرنا ہے۔جب صدرِ نائیجیریا نے جماعت کی خدمات کا ذکر کیا تو حضور ؒ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے محدود ذرائع کا خیال رکھتے ہوئے ہم نے یہ حقیر سی خدمت کی ہے ۔اس پر صدر یعقوبو گوون نے کہا کہ لیکن یہ خدمت بے غرض خدمت ہے اور ہمارے دل میں اس کا بہت احترام ہے ۔اگر کوئی ملک کروڑوں پونڈ بھی ہم پر خرچ کرتا اور اس میں کوئی ذاتی غرض پنہاں ہوتی تو ہر گز ہمارے دلوں میں یہ احترام نہ ہوتا ۔آخر میں صدر یعقوبوگوون نے حضور ؒ سے کہا کہ آپ ہمارے ملک کے لئے دعا کریں کہ ہماری مشکلیں آ سان ہو جائیں۔ ہم اور ہمارے بعد آنے والے حاکم ہمیشہ ملک اور قوم کی خدمت کے جذبے سے سرشار رہیں اور درخواست کی کہ اسی وقت با قاعدہ دعا کروا دیں۔صدر نے عیسائی طرز پر گھٹنے ٹیک کر دعا کرنی چاہی تو حضور ؒ نے دعا کے لئے ہاتھ اُ ٹھائے اور فرمایا کہ بیٹھے ہوئے دعا کرتے ہیں۔حضور نے لمبی دعا کروائی۔ رخصت ہوتے ہوئے صدر حضور ؒ سے بغل گیر ہوئے اور حضورؒنے ان کی گردن پر بوسہ دیا اور صدرِ نائیجیریا کو پاکستانی دستکاری کا ایک نمونے کا تحفہ دیا ۔(۱۳،۱۴،۱۵)
اس ملاقات کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اور حضرت بیگم صاحبہ کے ہمراہ ابادان کے لئے روانہ ہوئے۔ابادان نائیجیریا کا ایک بڑا شہر ہے اور یہاں پر ایک مضبوط جماعت تھی اور جماعت کی مسجد بھی موجود تھی۔ابادان کے احمدی شہر سے باہر حضور ؒ کے استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے۔حضور ؒ سیدھے ماپو ہال تشریف لے گئے جہاں حضور ؒ نے لیکچر دینا تھا۔ایک ہزار افراد سے زا ئد افراد حضور کا لیکچر سننے کے لئے آئے ہوئے تھے۔صرف پانچ سو افراد کے بیٹھنے کا انتظام تھا ۔سینکڑوں افراد نے گیلریوں میں اور ہال کے باہر کھڑے ہو کر لیکچر سنا ۔شرکاء میں دانشوروں ،یونیورسٹی کے پروفیسر صاحبان اور طلباء کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔
حضور ؒ نے لیکچر کے آ غاز میں فرمایا کہ میں آپ سے بیان نہیں کر سکتا کہ آج مجھے آپ سے مل کر کتنی خوشی ہو رہی ہے ۔مغربی افریقہ خاص طور پر نائیجیریا میں آ کر میرے ذہن میں آج سے پچاس سال قبل کی وہ یادیں تازہ ہو گئی ہیں،جب میں دس گیارہ سال کا تھا اور اس وقت جماعت ِ احمدیہ کے پہلے مبلغ نے اس سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ اس دور میں سفر کرنا بہت مشکل اور راستے بہت طویل ہوتے تھے۔ ایک تنہا شخص کا یہاں آکر سکول اور مساجد بنانے کا معرکہ بہت رومانوی لگا کرتا تھا۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس کے بعد ہماری طرف سے بہت سے لوگ یہاں آئے اور آپ کے درمیان رہ کر کام کیا۔ہمارے روابط بڑھتے گئے،ہم ایک دوسرے کو زیادہ سمجھنے لگے اور باہمی اعتماد میں اضافہ ہوا۔
حضور ؒ نے لیکچر کے اصل موضوع کی طرف آتے ہوئے فرمایا کہ آپ کا تابناک مستقبل آپ کے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے اور آج میں جو باتیں کہوں گا وہ نوجوانوں کے دلوں پر زیادہ اثر کریں گی۔ میں آپ کے سامنے یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ علم کا حصول کتنا ضروری ہے اوراسلام نے اس کے لئے کیا طریقہ بیان کیا ہے۔ خواہ وہ قدرتی سائنس کا علم ہو یا سوشل سائنس کا علم ہو ۔یا تاریخ یا ادب ہو یا جیسا کہ مجھے امید ہے ،جب آپ مذہبی سائنس کا علم حاصل کر یں ۔علم حاصل کرنا دنیا بھر کے نوجوانوںکا فطرتی حق ہے۔ لیکن میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دراصل صداقت ہی علم ہے اور اسلام نے اس کے حصول کا ایک طریقہ بیان کیا ہے۔ اور میں آپ سے یہ کہوں گا کہ خود تجربہ کر کے دیکھیں اور آزمائیں کہ علم حاصل کرنے کے لئے یہی راستہ بہترین راستہ ہے اور یہ اسلامی طریقہ دعا کا طریقہ ہے۔ اب یہ بیان کروں گا کہ دعا سے کیا مراد ہے اور میں اس بات کی تلقین کیوں کر رہا ہوں کہ آپ اپنی تعلیم اور تحقیق کے دوران اسے آزمائیں۔میرا نظریہ یہ ہے کہ دعاکے ذریعہ سے ہی علم کے دروازے کھلتے ہیں۔بہت سے سائنسدان اور موجد اس کی گواہی دیتے آئے ہیں۔مگر آپ اس بات کی نشاندہی کریں گے کہ بہت سے سائنسدان ایسے بھی ہیں جو خدا پر ایمان لانے یا دعا کرنے سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے ۔یہ صحیح ہے کہ اس طرح کے سائنسدان بھی ہیں مگر انہیں بھی عظیم الشان غیب کے دروازے پر دستک دینی پڑتی ہے اور اس سے درخواست کرنی پڑتی ہے کہ ان پر کچھ بھید کھولے جائیں۔ یہ عمل ایک ایمان لانے والے سائنسدان کی دعا سے بہت مختلف نہیں ہوتا ۔ایمان لانے والے اور ایمان نہ لانے والے دونوں غیب سے مدد کے طلبگار ہوتے ہیں اور دونوںکو یہ مدد ملتی ہے۔ جو ایمان نہیں لاتا وہ نہیں جانتا کہ وہ بھی دعا مانگ رہا ہے ،نہ وہ یہ جانتا ہے کہ وہ کس سے دعا مانگ رہا ہے اور نہ یہ کہ کون اس کی دعا کو قبول کر رہا ہے ۔جبکہ ایک ایمان لانے والا ایک لمبے تجربے کی بنیاد پر جانتا ہے کہ وہ دعا کر رہا ہے اور وہ اپنے رب سے دعا مانگ رہا ہے جو اس کے لئے علم اور دریافتوں کے دروازے کھولتا ہے۔اس طرح دونوں ہی دعا مانگتے ہیں لیکن ان دونوں کی دعا میں بہت فرق ہے اور میں اسی فرق کو سمجھنے کی دعوت دے رہا ہوں۔فرق یہ ہے کہ اگر آپ علم اور اعتماد کے ساتھ دعا مانگیں تو اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ یہ دعا قبول ہو گی ۔
حضور ؒ نے قرآنِ کریم کی دعوتِ فکر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ہمیں باربار اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ ہم زمین و آسمان پر غور کریں اور علم کی کنجی تجسس ہے۔
حضور ؒ نے نائیجیریا کے طلبا کو نصیحت فرمائی کہ ایشیا اور افریقہ کے طلباء کو اپنی موجودہ پسماندگی سے بد دل نہیںہونا چاہئے۔دریافت کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا ۔میرا پیغام یہ ہے کہ کمرِ ہمت کس لو ماضی کی دریافتوں سے ابھی بہت زیادہ تمہارے لئے باقی پڑا ہے ۔حضور ؒ نے فرمایا کہ میری اس اپیل پر کہ دعا کے ذریعہ علم کا حصول کیا جائے سنجیدگی سے غور کریں۔زمین و آ سمان کا رب اس کی طرف بھی متوجہ ہوتا ہے جو پورا ایمان نہیں رکھتا ۔وہ آپ کی طرف متوجہ ہوگا اور آپ کی دعاؤں کا جواب دے گا۔
حضور ؒ نے ارشاد فرمایا کہ آپ ایک اور کام بھی کر سکتے ہیں اور وہ یہ کہ علم کے حصول کے لئے اپنے سفر کو صرف اپنے مخصوص میدان تک محدود رکھنے کے رجحان سے بچیں۔ یہ رجحان جدید علم اور تعلیم کا خاصہ بن چکا ہے ۔ ایک مخصوص علم میں مہارت پیدا کرنا ناگزیر بھی ہے اور فائدہ مند بھی۔علم کی ہر شاخ میں ایسی بے انتہا باتیں ہیں جن کا علم ہونا چاہئے اور مسلسل علم کی نئی شاخیں پیدا ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ اور کوئی بھی اپنی کاوشوں کاعلم ایک دو شاخوں سے زیادہ میں جاری نہیںرکھ سکتا۔ اس کے باوجود میں یہ محسوس کرتا ہوں اس رجحان کو روکنے کے لئے کچھ نہ کچھ کیا جا سکتا ہے اور اس کو روکنے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔ ایک صحیح رویہ اپنانے سے زمین آسمان کا فرق پڑ سکتا ہے۔اور میں اس رجحان کی تلقین کررہا ہوں کہ آپ اپنے پیشہ کے علاوہ بھی دوسرے علوم کے بارے میں بھی تجسس رکھیں۔یہ رویہ آپ کی مدد کرے گا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو مجموعی طور پر دیکھ سکیں۔اور اس کی خوبصورتی ،اس کی عظمت اور اس کی مقصدیت کو سمجھ سکیں۔ (۱۶)
ملکی اخبارات میں اس علمی لیکچر کی خبر شائع ہوئی۔ڈیلی ٹائمز نے ۱۵؍ اپریل ۱۹۷۰ء کی اشاعت میں اس سرخی کے ساتھ اس لیکچر کا خلاصہ شائع کیا
‏Teach Religion To All- Faith Leader
۱۴ ؍اپریل کو حضور ؒ نے بذریعہ ہوائی جہاز لیگوس سے کانو جانا تھا ۔کانو میں ایک مضبوط جماعت قائم تھی اور یہاں پر مکرم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب کی نگرانی میں جماعت کا ایک میڈیکل سینٹر کامیابی کے ساتھ اہلِ کانو کی طبی خدمت سرانجام دے رہا تھا۔اور حضور نے اس کلینک کی نئی عمارت کا افتتاح فرمانا تھا۔صبح دس بجے کانو کے لئے روانگی تھی ۔حضور ؒ اہلِ قافلہ کے ہمراہ ایئر پورٹ تشریف لے گئے۔ مگر وہاں پر اعلان کیا گیا کہ چونکہ کانو میں موسم خراب ہے اور وہاں پر Visibilityبہت کم ہے اس لئے پرواز منسوخ کردی گئی ہے۔حضور ؒ نے فرمایا کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں ۔اُسی کی خاطر گھر سے روانہ ہوئے تھے ۔وہ جہاں چاہے لے جائے۔
حضور ؒ کے اس دورہ سے قبل بھی مغربی افریقہ میں جماعت کے بہت سے تعلیمی اور طبی ادارے اہلِ افریقہ کی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔اور اللہ تعالیٰ ان کی کاوشوں میں غیر معمولی برکت دے رہا تھا۔لیکن اب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس بات کی ضرورت محسوس فرمائی کہ اس کام میں جلد وسعت پیدا کی جائے۔اس با برکت کام کا آ غاز نائیجیریا سے کیا گیا۔۱۵؍ اپریل ۱۹۷۰ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے شام پانچ بجے فیڈرل پیلس ہوٹل میں مقامی جماعت کے نمائندگان کو چائے پر مدعو فرمایا۔اس موقع پر حضور ؒ نے نائیجیریا جماعت کے دوستوں سے مشورہ طلب فرمایا کہ آیندہ پانچ سے سات سال کے عرصہ کے دوران ایک منصوبے کے تحت یہاں پر سکول اور میڈیکل سینٹر کھولے جائیں۔ حضور ؒ نے ارشاد فرمایا کہ مختلف مقامات پر کم ازکم سولہ سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری سکول کھولنے چاہئیں جن کا خرچ مقامی جماعت کو برداشت کرنا چاہئے ۔اسی طرح چار نئے میڈیکل سینٹر بھی کھلنے چاہئیں۔ حضور ؒ نے اس وقت اس منصوبے کا نام پروجیکٹ لیپ فارورڈ(Project Leap Forward) رکھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے نائیجیریا کا نقشہ سامنے رکھ کر بعض مقامات کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ Tentativeطور پر ان مقامات کو بھی زیرِ تجویز رکھا جائے۔ حضور ؒ نے سات نائیجیرین احباب کی ایک کمیٹی قائم فرمائی جو اس مقصد کے لئے ایک جامع منصوبہ تیار کرے۔ممبرانِ کمیٹی کا تعلق نائیجیریا کے مختلف مقامات سے تھا۔اس کمیٹی کے کنوینر مکرم و محترم جسٹس عبد الرحیم بکری صاحب تھے،الحاج الیاس صاحب اس کمیٹی کے سیکریٹری تھے ،اس کے دیگر پانچ ممبران مکرم آر۔اے۔بساری صاحب(Busari) از اجیبو اوڈے ،مکرم فنشو صاحب (H. K. A. Funsho) از کانو، مکرم عبدالعزیز ہبیرو (Habiru) صاحب از کانو اور مکرم الحاج اے۔اے۔ابیولا صاحب (Abiola) از Abeokuta تھے۔حضور ؒ نے اس منصوبہ کے لئے یہ ہدف دیا کہ اگلے پانچ سے سات سال کے دوران لڑکیوں کے لئے چھ اور لڑکوں کے لئے دس نئے سکول کھولے جائیں اور چار نئے میڈیکل سینٹر قائم کئے جائیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ہدایت فرمائی کہ یہ کمیٹی اپنی رپورٹ دو ماہ کے اندر مکمل کر ے لیکن ہر دو ہفتے کے بعد اپنی کارگزاری کی رپورٹ حضورؒ کی خدمت میں بھجواتی رہے اور ارشاد فرمایا کہ کمیٹی نئے تعلیمی اور طبی اداروں کے مقامات کا تعین کر کے اس کی رپورٹ حضور کا دورہِ مغربی افریقہ ختم ہونے سے قبل ہی حضور کی خدمت میں بھجوا دے۔اس کمیٹی کے سپرد سکیم کا تیار کرنا تھا ۔ حضور ؒ نے ارشاد فرمایا کہ جب یہ منصوبہ تیار ہو جائے تو امیر جماعت احمدیہ اس پر عملدرآمد کی عمومی نگرانی کریں گے اور پریذیڈنٹ جماعت اس کی براہِ راست نگرانی کریں گے۔اس طرح منصوبہ بندی کا کام اور احباب کے سپرد تھا اور اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا کام اور حضرات کے سپرد تھا۔(۱۷)
عشاء کی نماز کے بعد حضور ؒ نے نائیجیریا کے ایک بزرگ اور مجدد حضرت عثمان فودیو کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نائیجیریا میں اپنے وقت کے مجدد تھے۔عین اس وقت میں ہندوستان میں سید احمد شہید بھی مجدد تھے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک زمانے میںکئی مجدد ہو سکتے ہیں۔حضور نے فرمایا کہ حضرت عثمان فودیو کے متعلق کچھ کتب نائیجیریا سے مل گئی تھیں اور مزید کتب بھجوانے کا ارشاد فرمایا ۔نیز فرمایا کہ ہم اس موضوع پر تحقیق کروا رہے ہیں۔(۱۸)
۱۶؍ اپریل کو نائیجیریا کی مختلف جماعتوں کے نمائندگان نے حضور ؒ سے ملاقات کی۔حضور ؒ نے ان سے جماعت کے تعلیمی اور طبی اداروں کو وسعت دینے کے با رے میں مشورہ فرمایا ۔اسی روز حضور ؒ نے ایک پریس کانفرنس میں اخباری نمائندوں سے گفتگو فرمائی۔دورانِ گفتگو حضور ؒ نے انسانی شرف اور اقتصادی مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور اسلام کی تعلیم کو پیش فرمایا۔پریس کانفرنس میں اخباری نمائندوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔۱۷ ؍اپریل کو حضور نے مسلم ٹیچرز ٹریننگ کالج لیگوس نمازِ جمعہ پڑھائی اور ہزاروں احمدیوں نے حضورؒ کی اقتدا میں نمازِ جمعہ ادا کی۔حضور ؒ نے ایک پُر معارف خطبہ ارشاد فرمایا۔نمازِ جمعہ کے بعد مقامی یونیورسٹی کے پروفیسر صاحبان نے حضور ؒ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔
اس دورہ کے دوران حضور ؒ نے نائیجیریا میں نئے سکول اور میڈیکل سینٹر کھولنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا۔ ابھی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی کہ نائیجیریا کے پریس میں خدمتِ خلق کے اس منصوبے کا تذکرہ شروع ہو گیا۔نیو نائیجیرین (New Nigerian) نے اپنی ۲۱؍ اپریل ۱۹۷۰ء کی اشاعت میں حضورؒ کی غانا روانگی کا ذکر کر کے لکھا۔
’’حضرت احمد خلیفۃ المسیح الثالث نے فرمایا کہ احمدیہ تحریک جنگ کے بعد تعمیری مساعی میں نائیجیریا کی ہر ممکن مدد کرے گی۔انہوں نے کہا یہ جماعت امید رکھتی ہے کہ وہ سولہ سکول کھولے گی۔جن میں سے چار ہائی سکول ہوں گے۔دس سکول لڑکیوں کے لئے بنائے جائیں گے اور باقی چھ لڑکوں کے لئے ہوں گے۔
جماعت کے سربراہ نے فرمایا کہ ان کی جماعت اس ملک میں میڈیکل سینٹرز بھی کھولے گی اور ان میں کام کرنے کے لئے ڈاکٹروں کو بھی بھجوایا جائے گا۔‘‘
لیگوس کے اخبار سنڈے پوسٹ (Sunday Post ) کی۱۹؍ اپریل ۱۹۷۰ء کی اشاعت میں لکھا :
’’احمدیہ مسلم مشن نے جنگ کے بعد تعمیرِ نو میں حصہ لینے کے لئے ملک کے مختلف حصوں میں میڈیکل سینٹرز کھولنے کے انتظامات مکمل کر لئے ہیں۔
عالمگیر احمدیہ مسلم جماعت کے سربراہ نے غانا جانے سے قبل اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ قابل ڈاکٹروں اور سرجری کے ماہرین کو پاکستان سے ان ہسپتالوں کو چلانے کے لئے بھجوایا جائے گا۔۔۔۔
حضرت احمد نے مزید اعلان کیا کہ ملک کی شمال مغربی سٹیٹ میں چار سکول کھولنے کے لئے وہ اور وہاں کے ملٹری گورنر کمشنر عثمان فاروق انتظامات کر رہے ہیں۔‘‘
مارننگ پوسٹ (Morning Post )نے ۱۷ ؍اپریل ۱۹۷۰ء کی اشاعت میں لکھا:۔
’’اگلے پانچ سے سات سال کے دوران نائیجیریا کی احمدیہ مسلم جماعت سولہ مزید سکول اورچار نئے میڈیکل سینٹر کھولے گی ۔دس سکول لڑکیوں کے لئے اور باقی سکول لڑکوں کے لئے ہوں گے۔
یہ جماعت اس بات کا منصوبہ بھی بنا رہی ہے کہ مغربی افریقہ میں اپنا ریڈیو سٹیشن بنایا جائے جس کے ذریعہ مغربی افریقہ میں تعلیم پھیلانے اور امن سے رہنے کی تلقین کی جائے۔ کل ایک پریس کانفرنس میں اس کا اعلان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا کہ انہوں نے اس مقصد کے لئے منصوبہ بندی کرنے کے لئے ایک کمیٹی قائم کر دی ہے۔‘‘
ڈیلی ٹائمز ( نائیجریا ) نے اپنی ۱۷ ؍اپریل ۱۹۷۰ء کی اشاعت میں لکھا ۔
’’عالمگیر جماعت ِ احمدیہ کے سربراہ حضرت حافظ مرزا ناصر احمد ،خلیفۃ المسیح الثالث نے کل لیگوس میں فرمایا کہ یہ صرف اسلام ہی ہے جس نے اب تک انسانیت کو درپیش اقتصادی مشکلات کو حل کرنے میں مدد دی ہے۔انہوں نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام برداشت، محبت اور دوسروں کے جذبات کا احترام کرنے کا سبق دیتا ہے۔
حضرت احمد کل فیڈرل پیلس ہوٹل ،وکٹوریہ آئی لینڈ میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔۔۔۔
انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت نے ایک کمیٹی قائم کی ہے جو اگلے پانچ سال کے دوران نائیجیریا میں سولہ سکینڈری سکول اور چار میڈیکل سینٹر کھولنے کے امکانات کا جائزہ لے گی۔
انہوں نے یہ ارادہ بھی ظاہر کیا کہ نائیجیریا میں اسلام کی تبلیغ کے لئے ایک ریڈیو سٹیشن بھی کھولا جائے گا۔‘‘
غانا کا دورہ
۱۸؍ اپریل کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نائیجیریا کا کامیاب دورہ مکمل کر کے غانا کے دارالحکومت اکرا کے لئے روانہ ہوئے۔ جہاز گیارہ بجے اکرا کے ایئر پورٹ پر پہنچا۔اکرا کے ایئر پورٹ کی چھت پر، بالکونیوں پر اور میدان میں ہر طرف سفید لباس میں ملبوس احمدیوں کا ہجوم نظر آ رہا تھا جو اپنے امام کے استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے۔حضور ؒ نے جہاز کی کھڑکی سے ہی ہاتھ ہلا کر اس بے تابانہ استقبال کا جواب دیا۔ایک اندازے کے مطابق دس ہزار احمدی یہاں پر موجود تھے۔ آج ان کے لئے عید کا دن تھا۔استقبال کرنے والوں کی خوشی کا یہ عالم تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ ہر طرف مسکراہٹیں ہی مسکراہٹیں بکھری ہوئی ہیں۔حضور ؒ جہاز سے باہر تشریف لائے تو مکرم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب امیر جماعت احمدیہ غانا،مکرم عبد الوہاب صاحب آدم مشنری ٹیچیمان،مکرم مرزا لطف الرحمن صاحب اور مکرم مولوی غلام نبی صاحب مبلغ کماسی نے حضورؒ کا استقبال کیا۔حضورؒ کا استقبال کرنے والوں میں غانا کے وزیر برائے ٹرانسپورٹ اور مواصلات Haroona Esseku جو کہ احمدی تھے، غانا کے وزیرِ مملکت مکرم بی۔کے۔آدما(B.K.Adama) اعلیٰ حکام اور دیگر ممتاز شخصیات آئی ہوئی تھیں۔مختلف اخبارات،ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے نمائندے بھی موجود تھے۔مختلف Circuitsکے احمدی احباب نے اس موقع پر اپنے لئے مختلف یونیفارم منتخب کئے تھے اور وہ ان میں ملبوس اپنی جماعتوں کے بینروں کے تلے منظم انداز میں کھڑے تھے۔مختلف احباب نے حضور ؒ سے شرفِ مصافحہ حاصل کیا اور ریڈیو اور ٹی وی کے نمائندوںنے حضورؒ کا انٹرویو لیا۔غانا میں رواج ہے کہ جب کوئی چیف نکلتا ہے تو ایک شخص اس کے اوپر چھتری کا سایہ رکھتا ہے اور یہ اس شخص کے لئے بھی ایک اعزاز سمجھا جاتا ہے۔اس موقع پر ملک کے وزیر آدما صاحب نے خود درخواست کی کہ انہیں موقع دیا جائے کہ وہ حضور کے لئے چھتری پکڑیں اور جب حضور وہاں کے مقامی احمدیوں سے ملتے رہے تو وہ مسلسل بڑی سی روایتی چھتری پکڑ کر ساتھ چلتے رہے۔جب حضورؒ ایئر پورٹ سے باہر تشریف لائے تو ہزاروں احمدیوں نے بے پناہ جوش عقیدت سے حضورؒ کا استقبال کیا۔تا حدِ نظر احمدی بھائی اور بہنیں ہاتھ ہلا ہلا کر حضور کی خدمت میں السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ عرض کر رہے تھے اور اللہ اکبر،اسلام زندہ باد، احمدیت زندہ باد اور حضرت امیر المؤمنین زندہ باد کے نعرے لگائے جا رہے تھے۔احمدی احباب کی طرف سے مسرت و شادمانی کے والہانہ اظہار پر حضور ؒ نے اللہ تعالیٰ کی حمد بجا لاتے ہوئے خوشی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ آج کا دن بحمدا للہ شادمانیوں اور مسرتوں کا دن ہے ۔(۱۹)
اکرا میںحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا قیام ایمبیسیڈر ہوٹل میں تھا۔اسی شام کو حضور ؒ بہت سے احبابِ جماعت کے ہمراہ ایک جلوس کی صورت میں مشن ہاؤس کے احاطے میں تشریف لے گئے۔ یہاں پر اس وقت تک احباب کی تعداد دس ہزار سے بھی تجاوز کر چکی تھی۔حاضرین میں غیر از جماعت دوست اور کچھ غیر ملکی سفراء بھی شامل تھے۔وہاں پر موجود احمدی احباب بار بار والہانہ انداز میںاپنی خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔یہاں پر پروگرام کے مطابق حضور ؒ نے جماعت کی ایک نئی مسجد کا سنگِ بنیاد رکھنا تھا۔یہ نئی مسجد جماعت Osu Stateمیں جماعت کے مشن ہاؤس کے ساتھ بننی تھی۔
اپنے دستِ مبارک سے سنگِ بنیاد نصب فر مانے سے قبل حضور ؒ نے اسلامی معاشرہ میں مساجد کی اہمیت اور تعلیم و تربیت کے لحاظ سے ان کے نہایت اہم کردار پر روشنی ڈالی۔تقریر کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعائیں کرتے ہوئے مسجد کا سنگِ بنیاد نصب فرمایا۔ آپ کے بعد مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیلِ اعلیٰ و وکیل التبشیر نے ایک پتھر نصب کیا۔ پھر بعض مسلمان ممالک کے سفراء نے ،غانا کے امیر و مشنری انچارج مکرم عطا ء اللہ کلیم صاحب، جماعت غانا کے پریذیڈنٹ مکرم محمد آ رتھر صاحب نے اور ٹیچیمان میں جماعت کے مبلغ مکرم عبدالوہاب آدم صاحب اور حضور کے ہمسفر ساتھیوں نے مشترکہ طور پر سنگِ بنیاد نصب کئے ۔ اس دوران حضور انور اور وہاں پر موجود ہزاروں احمدی دعاؤں میں مشغول رہے ۔ (۲۰،۲۱،۲۲) اس تقریب میں پاکستان کے سفیر مکرم علی ارشاد صاحب اور مالی کے سفیر مکرم محمود صاحب بھی شامل ہوئے۔(۱۹)
۱۹؍ اپریل کو حضور ؒ نے افرادِ جماعت سے فرداََ فرداََ ملاقات فرمائی اور شام کو ایک استقبالیہ میں شرکت فرمائی جس میں وزرائِ مملکت ،غیر ملکی سفراء اور دیگر معززین بھی شریک ہوئے۔اس موقع پر حضور مختلف مہمانوں سے گفتگو فرماتے رہے ۔اسی شام کو ریڈیو کے نمائندے نے حضورؒ کا انٹرویو کیا جو بعد میں ریڈیو پر نشر ہوا۔اس روز اشانٹی ریجن کی جماعت کے پر یذیڈنٹ صاحب نے چند احباب کے ہمراہ حضور ؒ سے ملاقات کی اور غانا کے ایک وزیر مسٹر بی۔کے ۔آدما نے بھی حضور ؒ سے ملاقات کی۔(۲۲)
۲۰؍ اپریل کو حضور ؒ نے غانا کے صدرِ مملکت برگیڈیئر افریفا سے ملاقات کی۔ملک کے نائب صدر بھی اس ملاقات میں شامل تھے۔رخصت کے وقت حضور ؒ نے دعا فرمائی ۔اور صدرِ مملکت کو پاکستان کی صنعت کا ایک نمونہ تحفہ دیا ۔اس کے بعد حضورؒ کماسی روانہ ہو گئے جو غانا کا دوسرا بڑا شہر اور اشانٹی ریجن کا صدر مقام ہے ۔یہاں پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک مضبوط جماعت قائم تھی اور اس وقت جماعت اس ریجن میں تین سکینڈری سکول بھی چلا رہی تھی۔کماسی شہر سے پندرہ میل دور سے ہی وہ احمدی احباب نظر آنے لگ گئے تھے جو حضور ؒ کے استقبال کے لئے شہر سے باہر آ کر کھڑے ہوئے تھے۔جوں جوں شہر قریب آتا گیا ان احباب کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا جو حضورؒ کے استقبال کے لئے حاضرتھے اور پر جوش نعرے لگا رہے تھے۔ (۲۲،۲۳،۲۴)
۲۱؍ اپریل کو حضور ؒ نے کماسی میں انتہائی مصروف دن گزاراصبح کے وقت حضور ؒ احمدیہ سیکنڈری سکول کماسی کے معائنہ کے لئے تشریف لے گئے۔حضور ؒ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ محض محنت کرنا نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا ۔کیونکہ خواہ کتنی ہی محنت کی جائے اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ محنت اکارت چلی جائے۔ضروری ہے کہ انسان خدا کے آستانہ پر جھکے اور دعائیں کرتا جائے۔اس کے نتیجے میں خدا رجوع برحمت ہو گا اور محنت ٹھکانے لگے گی۔اور توقع سے کہیں بڑھ کر نتیجہ حاصل ہو گا ۔حقیقی کامیابی کے لئے کامل محنت اور کامل دعا دونوں کا اتحاد ضروری ہے۔
سکول کا معائنہ کرنے کے بعد حضور ؒ نے کماسی میں جماعت کے نئے مشن ہاؤس کا افتتاح فرمایا۔ مشن ہاؤس تک ایک میل کے راستے پر ہزاروں لوگ کھڑے ہو کر اھلا و سھلا و مرحبا کہہ رہے تھے۔ایک اندازے کے مطابق اس موقع پر تقریبا دس ہزار کے قریب احباب حضور ؒ کے دیدار کے لئے آئے تھے۔افتتاح کی تقریب میں بہت سے قبائل کے چیفس اور پیرا ماؤنٹ چیفس بھی آئے ہوئے تھے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حضور ؒ نے اہل غانا کو اس طرف توجہ دلائی کہ وہ اسلام کی تعلیم پر عمل پیرا ہو کر حقیقی معنوں میں کامیاب زندگی بسر کریں۔آپ نے واضح فرمایا کہ اسلام کی تعلیم پر کما حقہ عمل کرنے سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ انہیں قبولیتِ دعا کا شیریں پھل ملے گا اور خدا تعالیٰ کے ساتھ ان کا ایک زندہ تعلق قائم ہو جائے گا۔اس کے بعد حضور ؒ نے دو گھنٹے مختلف احباب سے ملاقات فرمائی ۔
اسی روز حضور ؒ نے سائنس اور ٹیکنا لوجی کی کماسی یونیورسٹی تشریف لے جا کر طالب علموں ، دانشوروں اور اہلِ علم حضرات سے خطاب فرمایا ۔تقریباََ ایک ہزار افراد اس موقع پر موجود تھے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا کہ تدریسی کتابوں کے علم کا بہاؤ رک جاتا ہے، اس میں تعفن پیدا ہوجاتا ہے اور یہ انسانی استعمال کے قابل نہیں رہتا ۔مگر جب کلاس روم میں حاصل کیا گیا علم ہمارے ذہنوں میں جڑ پکڑ لیتا ہے اور ہماری شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے تب یہ ایک خالص ،حقیقی اور فائدہ مند چیز میں تبدیل ہوتا ہے۔سچا اور حقیقی علم تب پیدا ہوتا ہے جب ایک طرف ہم حقیقت کا حقیقی علم حاصل کرتے ہیں اور دوسری طرف اس کے خالق سے قرب کاتعلق پیدا کرتا ہے ۔اس طرح ہم علم کے ماخذ تک پہنچتے ہیں اور اس سے قریبی تعلق پیدا کرتے ہیں۔تب ہی ہم ایک حقیقی سائنسدان اور عالم کہلا سکتے ہیں۔ حضور نے انسانی تدبیر پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں انسانی کوشش کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ہمارے پاس تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے سچی اور مسلسل کوشش کرنا ہمارا فرض ہے۔ اپنی کوششوں کو اپنی دعاؤں کے ساتھ ملائیں اور اور پھر اپنے ارد گرد کی دنیا کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ارد گرد موجود اشیاء کو پیدا کیا اور پھر انسان کے فائدہ کے لئے ان میں بے شمار خواص رکھے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان غور و فکر کرکے علم اور کوشش کے ذریعہ ان خواص کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرے ۔جہالت اس استعمال کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے اور ا گر عقل سے کام نہ لیا جائے تو یہ رجحان علم کو ختم کر دیتا ہے اور جمود کو جنم دیتا ہے۔ ہمیں بہر حال تمام عمر کے لئے طالب علم اور محقق بن کر رہنا ہوگا۔حضور نے دوبارہ دعا اور تدبیر کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ صحیح سمت میں محنت کرنا دعا کا ایک اہم جزو ہے اور اسی طرح خدا کے رحم اور عنایت کو جذب کرنے والی دعا ،محنت کا ایک جزو ہے۔اس طرح دونوں ایک ساتھ چلتے ہیں۔یہ دونوں ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں اور دونوں پر زور دینا ضروری ہے۔بد قسمتی سے دنیا اس صداقت کو فرامو ش کر چکی ہے۔اور اس وجہ سے یہ کو ئی حیرانی کی بات نہیں کہ دنیا تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے ۔یہ رجحان کہ انسانی کوشش کو دعا سے علیحدہ کر دیا جائے یا دعا کو انسانی کوششوں سے الگ کر دیا جائے اب ایٹمی ہتھیاروں سے زیادہ بڑا خطرہ بن چکا ہے۔معرفتِ الٰہی سے عاری علم ایک بے مقصد چیز اور بنی نوع انسان کے لئے خطرہ ہے(۲۵) ۔ حضور ؒ کے خطاب کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔حاضرین کی طرف سے جن میں طلباء کی ایک بڑی تعداد شامل تھی بہت سے سوالات کئے گئے۔ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ شیطان کو کیوں پیدا کیا گیا ہے۔اس کے جواب میں حضورؒ برجستہ ارشاد فرمایا تا کہ آپ کی ایمانی قوت کو آزمایا جا سکے(۲۶) ۔ ایک صاحب نے دریافت فرمایا کہ آپ اپنے متعلق کچھ بتائیں۔اس پر حضور نے فرمایا کہ I am the humblest of the humble۔
حضور ؒ کا یہ لیکچر خاص طور پر طلباء کو ایک عزم اور حوصلہ کے ساتھ علم کے سفر میں آگے بڑھنے کا پیغام دیتا تھا۔اور غانا کے پریس نے خاص طور پر لیکچر کے اس پیغام کو سرخیوں کے ساتھ شائع کیا۔ غانین ٹائمز نے ۲۳؍ اپریل ۱۹۷۰ء کو یہ خبر اس سرخی کے ساتھ شائع کی :
‏Prepare for the future students told
ڈیلی گرافک (Daily Graphic)نے ۲۳؍ اپریل کو اس لیکچر کی خبر اس سرخی کے ساتھ شائع کی:
‏ Prepare For The Task Ahead- Khalifatul Masih III
کماسی کی لجنہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی حرم حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کے اعزاز میں وسیع پیمانے پر ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا۔اس میں تقریباََ تین ہزار کے قریب خواتین نے شرکت کی۔ حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ نے تمام بہنوں سے مصافحہ فرمایا اور ان سے ملنے پر بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔(۲۷)
اگلے روز ۲۲؍ اپریل ۱۹۷۰ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کماسی سے ٹیچیمان کے لئے روانہ ہو گئے۔ ٹیچیمان کماسی سے شمال کی طرف ۷۴ میل کے فاصلے پر واقعہ ہے۔اور اس وقت مکرم عبد الوہاب بن آدم صاحب وہاں پر جماعت کے مبلغ کے طور پر کام کر رہے تھے اور ٹیچیمان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک مضبوط اور فعال جماعت قائم تھی۔پہلے وقت کی کمی کے باعث ٹیچیمان جانے کا پروگرام منسوخ ہو چکا تھا مگر پھر اس پروگرام کو برقرار رکھا گیا۔کچھ خدام نے شہر سے دس میل باہر آکر حضورؒ کا استقبال کیا۔جب قافلہ شہر میں داخل ہوا تو سڑکوں کے دونوں طرف بہت سے احمدی اپنے امام کا استقبال کرنے کے لئے موجود تھے۔یہاں پر حضورؒ کی رہائش کا انتظام ایک احمدی دوست کے نوتعمیرشدہ مکان میں تھا۔حضور ؒ اس مکان میں تشریف لے گئے ۔حضور ؒ نے فرمایا کہ میں احباب اور بہنوں سے مل کر بہت خوش ہوں۔فرمایا کہ یہ ایک روحانی تجربہ تھا ۔آج تو میں بھی ضبط نہ کر سکا۔یہاں مشروبات پینے کے بعد حضور ؒ اس شہر میں جماعت کی نئی مسجد کے افتتاح کے لئے تشریف لے گئے ۔ مقامی پیرا ماؤنٹ چیف صاحب اور دیگر چیف صاحبان بھی اپنی روایتی چھتریوں کے نیچے کھڑے حضورؒ کے استقبال کے لئے موجود تھے۔اور ان کے علاوہ ہزاروں احمدی اس با برکت تقریب میں شرکت کے لئے آئے ہوئے تھے۔جب حضورؒ کار سے اتر کر سٹیج کی طرف آئے تو فضا اسلامی نعروں سے گونج رہی تھی۔سٹیج پر پہنچ کر حضور ؒ نے سب حاضرین کو السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و بر کاتہ کا تحفہ دیا۔حضور ؒ کے تشریف رکھنے کے بعد مکرم مولانا بشارت احمد بشیر صاحب نے تلاوتِ قرآن کریم کی اور پھر چند خدام نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عربی منظوم کلام پڑھ کر سنایا ۔اس کے بعد مکرم عبد الوہاب بن آدم صاحب نے حضورؒ کی خدمت میں استقبالیہ ایڈریس پیش کیا۔جو تحریری صورت میں بھی حضورؒ کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔حضور ؒ کے خطاب سے قبل علاقے کے پیراماؤنٹ چیف صاحب نے حضور کو اپنے علاقے میں خوش آمدید کہا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ میں آپ کے بے ساختہ اظہارِ محبت سے بہت متاثر ہوا ہوں اور میری توجہ آج سے اسی سال پہلے کی طرف مبذول ہو گئی۔جب ایک تنہا آواز اُ ٹھی تھی۔تمام دنیا اس آواز کو خاموش کرنے کے لئے جمع ہو گئی لیکن وہ آواز خاموش نہ کی جا سکی کیونکہ اللہ تعالیٰ اس آواز کی پشت پر مدد کے لئے کھڑا تھا۔آج میں نے محسوس کیا کہ آج کی ہر آواز اس آواز کی صدائے باز گشت ہے جس نے بنی نوع انسان کو اپنے خالق کی طرف بلایا تھا۔حضور ؒ نے فرمایا کہ محمد عربی ﷺ نے اپنے آپ کو انسانوں میں سے ایک انسان قرار دے کر انسانیت کا مقام کتنا بلند کر دیا ہے۔میرا دل جذبات سے لبریز ہے اور میری روح آپ کے لئے اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہے۔میری دعا ہے کہ آپ خود اپنے مقام کوپہچاننے کی توفیق پائیں اور کسی انسان کے سامنے جھکنے کی بجائے ہمیشہ خدائے واحد کے سامنے جھکتے رہیں۔میں ہمیشہ آپ کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھتا ہوں اور آئندہ بھی ہمیشہ یاد رکھوں گا ۔تقریر کے بعد آپ مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے ہمراہ اُس جگہ تشریف لے گئے جہاں چیف صاحبان موجود تھے وہاں آپ نے چیف صاحبان سے مصافحہ کیا اور ان کے عصا برداروں سے بھی مصافحہ کیا۔اس کے بعد آپ نئی مسجد کی طرف تشریف لے گئے۔جہاں پر افتتاحی تختی نصب کی جانی تھی وہاں پر سیمنٹ لگانے کا کام ہو رہا تھا۔بعض احباب سیمنٹ لگانے والے کو جلد کام مکمل کرنے کا کہہ رہے تھے۔حضور ؒ نے فرمایا کہ تسلی سے کام ختم کر لیں اور اتنی دیر حضور وہاں پر کھڑے دعائیں کرتے رہے۔اس مسجدکی افتتاحی تختی نصب فرمانے کے بعد آپ نے اجتمائی دعا کروائی اور مشن ہاؤس کی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا۔اس کے بعد آپ نے اسی مقام پر لجنہ کے ریجنل سینٹر کی بنیاد رکھی۔پھر نئی مسجد میں ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کی گئیں۔اور پھر مردوں نے حضور ؒ سے اور عورتوں نے حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ سے مصافحہ کا شرف حاصل کیا۔پھر حضور ؒ اس مکان پر تشریف لے گئے جہاں حضور ؒ کے لئے انتظام کیا گیا تھا اور فرمایا I am moved like anything اور مکرم عبد الوہاب صاحب کے حسنِ انتظام اور جماعت کے نظم و ضبط پر اظہارِ خوشنودی فرمایا۔(۲۸)
سہ پہر کو حضور ؒ واپس کماسی تشریف لے آئے۔کماسی میں حضور کا قیام سٹی ہوٹل میں تھا۔اسی شام کو حضور ؒ نے اشانٹی ریجن کی جماعت کی طرف سے دیئے گئے استقبالیہ میں شرکت فرمائی۔اس تقریب میں احبابِ جماعت کے علاوہ پیراماؤنٹ چیف صاحبان ،چیئرمین کماسی سٹی کونسل ،ممبرانِ پارلیمنٹ، یونیورسٹی کے پروفیسر صاحبان اور دیگر معززینِ شہر بھی شریک ہوئے۔مختلف احباب نے حضور ؒ سے شرفِ ملاقات حاصل کرنے کے علاوہ مختلف موضوعات پر حضور ؒ سے گفتگو بھی کی۔با وجود اس کے کہ حضور ؒ سفر کی وجہ سے تھکے ہوئے تھے ہر ایک سے حسبِ حال گفتگو فرماتے اور کبھی ہلکے سے مزاح سے اپنے مخاطب کو مسکرانے پر مجبور کر دیتے۔یونیورسٹی کے چیئر مین صاحبA.A.Kyere Mantangنے حضور سے عرض کی کہ جماعت احمدیہ اہلِ غانا کی بہت خدمت کر رہی ہے ۔اس پر حضور نے ارشاد فرمایا:
‘By nature, heart and religion we are servants’
یعنی ہم فطرتی، قلبی اور مذہبی طور پر خادم واقعہ ہوئے ہیں۔
کئی پیراماؤنٹ چیف اور چیف صاحبان نے حضورؒ سے ملاقات کی۔ایک پیراماؤنٹ چیف اور ممبر پارلیمنٹ نے کہا کہ ہمارے علاقے میں ایک ہسپتال کھولا جائے جس میں ماہر ڈاکٹر موجود ہوں۔ حضور نے فرمایا کہ میں پاکستان سے بعض ایسے ڈاکٹروں کو جو ماہر ہیں اور بڑے بڑے عہدوں پر رہ کر ٓخدمت کر چکے ہیں کہوں گا کہ اب غانا میں آکر خدمت کریں اور فرمایا کہ ان کی درخواست پر غور کیا جائے گا اور امیر صاحب غانا مکرم عطاء اللہ کلیم صاحب کو فرمایا کہ ڈاکٹر ہم بھجوائیں گے باقی انتظامات کے متعلق غانا کی جماعت کی ذمہ داری ہے۔حضور استقبالیہ میں ساڑھے سات بجے تک تشریف فرما رہے ۔
اس کے بعد حضور مع حضرت بیگم صاحبہ مغرب اور عشاء کی نماز کے لئے تشریف لے گئے۔ نمازِمغرب و عشاء احمدیہ سکول کماسی کے وسیع احاطے میں ادا کی گئیں۔ہزاروں احمدیوں نے اپنے امام کی اقتداء میں نماز ادا کی۔
نماز کے بعد وا کی جماعت کے اڑھائی سو دوستوں کے وفد نے حضور ؒ سے شرف ِ ملاقات حاصل کیا ۔ یہ جگہ کماسی سے بھی پونے تین سو میل کے فاصلے پر واقعہ ہے اور یہاں پر ہزاروں احباب کی مخلص جماعت قائم ہے۔جب حضور ؒ ان سے ملاقات کے لئے ہال میں داخل ہوئے تو وا کے وفد نے وہ قصیدہ پڑھنا شروع کیا جوہجرت کے موقع پر آنحضرت ﷺ کی آمد پر مدینہ کی لڑکیوں نے پڑھا تھا۔ یہ منظر اتنا روح پرور تھا کہ دیکھنے والوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور پڑھنے والوں کی آواز بھی گلوگیر ہو گئی۔ حضور ؒ نے خطاب شروع کرنے سے قبل دریافت فرمایا کہ آپ میں سے عربی کون جانتا ہے تو نصف کے قریب دوست کھڑے ہو گئے۔پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ آپ میں سے انگریزی کون کون جانتا ہے تو اس پر صرف دس احباب کھڑے ہوئے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ان احباب سے عربی زبان میں خطاب فرمایا۔معلم مومن صاحب نے جو کہ وا کے ابتدائی احمدیوں میں سے تھے اس خطاب کا ترجمہ کیا۔اس کے بعد ملاقات شروع ہوئی توپہلے دوست جو ملاقات کے لئے آئے وہ بے اختیار حضورؒ سے لپٹ گئے۔حضورؒ نے ان سے معانقہ فرمایا ۔اس کے بعد تمام احباب نے حضورؒ سے مصافحہ اور معانقہ کا شرف حاصل کیا ۔وا کی مستورات نے حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ سے ملاقات کا شر ف حا صل کیا۔(۲۹)
اگلے روز حضورؒ کماسی سے واپس اکرا تشریف لے آئے۔روانگی سے قبل حضور ؒ نے کماسی کے کلچرل سینٹر کا معائنہ فرمایااور راستے میں مسجد نیّر تشریف لے گئے اور یہاں لمبی دعا کروائی۔
۲۴ ؍اپریل کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اکرا سے سالٹ پانڈ کے لئے روانہ ہوئے۔ سالٹ پانڈ اکرا سے تقریباََ ۷۵ میل کے فاصلے پر ہے۔اس شہر کو جماعت کی تاریخ میں یہ اہمیت حاصل ہے کہ غانا میں احمدیت کے سب سے پہلے مبلغ حضرت مولانا عبد الرحیم نیر صاحب۱۹۲۱ء میں سالٹ پانڈ میں ہی وارد ہوئے تھے اور اس شہر سے ہی انہوں نے غانا میں احمدیت کی تبلیغ کا آغاز کیا تھا۔اس وقت سے اسی شہر میںجماعت احمدیہ غاناکا مرکزی مشن قائم تھا ۔حضرت مولانا عبد الرحیم نیر صاحب نے جس چھوٹے سے شہر میں مقیم رہ کر تبلیغ کا آ غاز کیا تھا اب وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک مشن ہاؤس اور جامع مسجد تعمیر ہو چکی تھی اور ایک نہایت مضبوط اور فعال جماعت قائم تھی۔
جب ۲۴؍ اپریل کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ سالٹ پانڈ پہنچے تو تقریباََ بارہ ہزار احمدیوں نے اھلا و سھلا و مرحباکہہ کر حضور کا استقبال کیا۔احمدی بہنیں سفید رومال ہلاتی ہوئیں اور اللہ اکبر اللہ اکبر کہتی ہوئیں سخت دھوپ میں حضورؒ کی کار کے ساتھ دوڑتی چلی جا رہی تھیں۔احمدی احباب کے علاوہ پیرا ماؤنٹ چیف صاحبان ،چرچ کے نمائندگان اور دیگر معززینِ شہر بھی استقبال میں شامل تھے۔تقریباََ ساڑھے گیارہ بجے قافلہ مشن ہاؤس پہنچا ۔ساتھ ہی سفید گنبدوں والی مسجد نظر آ رہی تھی جسے مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر نے تعمیر کرایا تھا اور یہاں سے وہ مکان بھی نظر آ رہا تھا جہاں سے ابتدا میں مکرم مولانا عبد الرحیم نیر صاحب نے غانا میں دعوت الی اللہ کا آ غاز کیا تھا۔مکان کیا تھا ایک شیڈ سا تھاجس کی عمارت خستہ ہو چکی تھی اور اس پر ٹین کی زنگ آ لود چھت تھی۔یہ منظر ابتدائی مبلغین کی قربانیوں کی یاد دلا رہا تھا۔مشن ہاؤس کے ساتھ ہی مشنری ٹریننگ کالج بھی موجود تھا ۔اس وقت مکرم عبد الحکیم جوزا صاحب اس کے پرنسپل کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے تھے۔جب نمازِ جمعہ کا وقت ہوا تو حضور اقدس بمعہ حضرت بیگم صاحبہ ساحل کے قریب اس میدان میں تشریف لے گئے جہاں پر جماعت کے جلسے منعقد ہوتے ہیں۔یہاں پر حضورؒ کی آمد پر ایک استقبالیہ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ غانا کی جماعت کے نیشنل پریذیڈنٹ صاحب نے حضور کی آمد پر استقبالیہ تقریر کی۔اس کے بعد نمازِجمعہ کا وقت ہوا تو حضور ؒ نے انگریزی زبان میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا،جس کا ترجمہ مکرم عبد الوہاب بن آدم صاحب کررہے تھے۔حضور نے فرمایا کہ پہلی بار آپ میں سے اکثر کو یہ موقع ملا ہے کہ آپ مجھ سے دعائیں لیں اور خلافت کی برکات سے بالمشافہ حصہ پائیں۔اگرچہ میں تو آپ کے لئے ہر روز دعا کرتا ہوں۔جب میںیہاں آیا اور میں نے تقدس کا نور آپ کی پیشانیوں پر چمکتا ہوا دیکھا تو میرے جذبات نے ایسا جوش مارا جسے بیان کرنا ممکن نہیں۔میں نے سوچنا شروع کیا کہ یہ ایک تنہا اکیلی آوازتھی جو آج سے اسی سال پہلے قادیان سے بلند ہوئی۔وہ آواز اپنے نفس کو بلند کرنے کے لئے نہیں اُ ٹھائی گئی تھی۔وہ آواز اللہ کے جلال کو ظاہر کرنے کے لئے اُ ٹھائی گئی تھی جو بڑی طاقتوں والا ہے۔وہ محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت اور مقام کو ظاہر کرنے کے لئے اُ ٹھائی گئی تھی۔جب وہ آواز بلند ہوئی تو ساری دنیا اس آواز کو خاموش کرنے کے لئے کھڑی ہو گئی لیکن انسان کی متحدہ سازش اور طاقت اس آواز کو خاموش نہ کر سکی ۔جب میں نے آپ کو اللہ تعالیٰ کی تعریف اور حمد کے ترانے گاتے دیکھا اور سنا تو میں نے محسوس کیا کہ یہ وہی آواز ہے جو آپ کے مونہوں سے صدائے بازگشت کی طرح ٹکرا کر بلند ہو رہی ہے۔اس کے بعد حضور ؒ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنے کی اہمیت بیان فرمائی۔نمازِ جمعہ و عصر کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے نبی اکرم ﷺ کی شان میں ایک پُر اثر تقریر فرمائی۔اس کے بعد وہاں پر موجود احباب نے حضور ؒ سے شرفِ مصافحہ حاصل کیا۔
اس تقریب کے بعد حضورؒ سالٹ پانڈ کے مشن ہاؤس تشریف لے آئے۔جب حضورؒ اندر تشریف فرما ہوئے تو باہر سے احمدی بچیوں کی آواز آ رہی تھی جو طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا کا قصیدہ گا رہی تھیں۔حضور ؒ نے اس موقع پر فرمایا کہ میرا ارادہ ہے کہ غانا کے لئے ایک ریزرو فنڈ قائم کر دیا جائے جو بیس ہزارسی ڈی(CD) کا ہو۔اس کے لئے سو ایسے احمدی چاہئیں جو سو سو سی ڈی دے سکیں۔اس پرایک احمدی دوست مکرم الحاج حسن عطا صاحب نے اسی وقت اپنی طرف سے عطیہ پیش کیا ۔شام کو حضور ؒ واپس اکرا کے لئے روانہ ہوئے اور راستے میںحضور ؒ نے ایک مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا۔(۳۰)
اگلے روز ۲۵ ؍ اپریل کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ایمبسڈر ہوٹل کے وسیع ہال میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا ۔اس میں پندرہ کے قریب اخبارات اور ریڈیو کے نمائندگان نے شرکت کی۔حضور ؒ نے تشریف لانے کے بعد فرمایا کہ آپ کی زبان بہت میٹھی ہے میں نے اس کے کچھ الفاظ سیکھ لئے ہیں۔پھر حضورؒ نے وہ الفاظ دہرائے۔یہ سن کر سب حاضرین بہت محظوظ ہوئے۔حضورؒ پریس کانفرنس میں بھی تکلف کے ماحول کو پسند نہیں فرماتے تھے اور اخباری نمائندگان سے بھی اس طرح گھل مل کر بات کرتے تھے کہ پریس کانفرنس بھی ایک زندہ دل، مہذب اور علمی محفل کا رنگ اختیار کر لیتی تھی۔حضور ؒ نے اس کانفرنس میں فرمایا کہ اسلام اس ملک اور دیگر ممالک کے لئے بنی نوع انسان کی بحیثیت انسان ہمسری اوربرابری کا پیغام لایا ہے اور ہم اس پیغام کے نقیب اور علمبردار ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ کمیونزم صرف انسانی ضروریات (Needs) کا سوال اُ ٹھاتا ہے لیکنNeedsکی تعریف نہیں کرتا۔اسلام کہتا ہے رب العالمین نے جس قدر صلاحیتیں ہمارے اندر پیدا کیں ان کی پوری نشوو نما کے لئے مادی اسباب بھی پیدا کئے۔اس لئے ہر انسان کا حق ہے کہ اسے وہ تمام سہولتیں ملیں جن سے اس کی صلاحیتوں کی مکمل نشو ونما ہو سکے۔اسلام کم سے کم پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ زیادہ سے زیادہ کے حصول پر زور دیتا ہے۔پھر آپ نے فرمایا کہ ہم کسی ذاتی غرض کے لئے نہیں آئے ۔خدمت کے لئے آئے ہیںاگر آپ لوگ اپنی خداداد صلاحیتوں کو صحیح طور پر استعمال کریں تو بعید نہیں آپ کو اللہ تعالیٰ امریکہ اور یورپ کا استاد بنا دے۔آپ کسی سے کم نہیں ہیں۔ میرا ارادہ ہو رہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ انگلستان یا سکاٹ لینڈ میں افریقہ کے احمدیوں میں سے ایک مبلغ بھجوا دوں۔ایک اخباری نمائندے نے سوال کیا کہ آپ کا ہم لوگوں کے نام کیا پیغام ہے۔آپ نے اس کے جواب میں فرمایا:
Let humans learn to love humans
اور فرمایا کہ میں ایک پیغام اپنی جماعت کے لئے بھی چھوڑ کر جا رہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آپ نے ایک حد تک اپنے ملک غانا کی خدمت کی ہے ۔میری خواہش اور دعا ہے کہ اور خدمت کریں اور سکول اور کالج اور میڈیکل سینٹر کھولیں اور اپنے دل کی کھڑکیاں کھول دیں تاکہ اللہ تعالیٰ اندر داخل ہو سکے۔آپ کو اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ صلاحیتوں کا مالک بنایا ہے۔میر ی دعا ہے کہ آپ اپنے خالق کے محبوب بندے بن جائیں۔
پریس کانفرنس کے بعد ہوٹل کے اسی ہال میں جماعتِ احمدیہ غانا کی مجلسِ عاملہ کی میٹنگ ہوئی۔ اس میں حضورؒ نے فرمایا کہ میں نے سوچا ہے کہ میں ایک ریزرو فنڈ قائم کردوں تاکہ آپ کی ترقی کی رفتار رکنے نہ پائے۔یہ ریزرو فنڈ ایسا ہو جو ہمارے ان اخراجات کو برداشت کر لے جوCurrent یا معمولی نہ ہوں۔حضور ؒ نے فرمایا کہ میں نے نائیجیریا کی جماعتوں سے پوچھا کہ ایک سکیم کے لئے ایک لاکھ پونڈ کی ضرورت ہے کیا آپ یہ خرچ برداشت کر لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم یہ خرچ برداشت کرلیں گے۔حضورؒ نے دو سکیموں کی تفصیل بتاتے ہوئے فرمایا کہ ہر شخص کا یہ حق ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم اس تک پہنچے اور دوسری سکیم کی تفصیل بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ایک ریزرو فنڈ قائم کیا جائے اور اس کی مدد کے لئے انگلستان اور امریکہ کی جماعتیں ایک ریزرو فنڈ قائم کریں جو کم از کم بیس ہزار پونڈ کا ہو ۔اسی قسم کے ریزرو فنڈ نائیجیریا ،غانا اور سیرالیون میں قائم ہوں گے اور اس فنڈ کا نام Nusrat Jahan Reserve fund for the new projects in Ghana ہو گا ۔(۳۱)اسی موقع پر حضور ؒ نے مغربی افریقہ میں ریڈیو سٹیشن بنانے کے منصوبہ کا ذکر بھی فرمایا۔
پھر حضور ؒ نے جماعت احمدیہ کے نئے عہدیداروں کا اعلان کیا اور فرمایا کہ میں پرانے عہدیداروں کے کام کی قدر کرتا ہوں۔اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے۔پھر حضور ؒ نے سبکدوش ہونے والے پریذیڈنٹ جماعت کو انگوٹھی پہنائی اور ان سے معانقہ فرمایا اور ان کو از راہِ شفقت بوسہ دیا۔ حاضر احباب نے اس خوش قسمتی پر ان کو مبارکباد دی۔اس موقع پر حضور ؒ نے احباب کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔
’’دیکھو دنیا کی کوئی قوم اور جماعت ترقی نہیںکیا کرتی جب تک وہ اپنے سابق عہدیداروں کی عزت اور تعظیم نہ کرے ۔۔۔۔۔پس دنیا میں ترقی کرنے اور دنیا کے وقار اور عزت حاصل کرنے والی قوم کے لئے یہ ضروری ہے کہ جو اہل ہو اس کو عہدیدار بنائیں اور جب یہ عہدیدار بدلے تو اس کی اسی طرح عزت اور تکریم کریں جس طرح اس کی عہدیدار ہونے کی حیثیت میں کرتے تھے۔کسی عربی شاعر نے کہا کہ ہم سرداروں کی قوم ہیں اور میرے پیچھے سرداروں کا ایک Queueلگا ہوا ہے۔جب ہماری قوم کا ایک سردار اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو پچھلا ایک قدم آگے بڑھ کر اس کی جگہ لے لیتا ہے اور وہ سردار بن جاتا ہے کیونکہ وہ سرداروں کی قوم ہے ۔جماعت احمدیہ بھی سرداروں کی قوم ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو سرداری کے لئے اور قیادت کے لئے دنیا میں پیدا کیا ہے ۔(۳۲)
۲۶؍ اپریل کی شب حضور ؒ نے اکرا کی جماعت سے رات نو بجے سے گیارہ بجے تک ملاقات فرمائی اور اگلے روز حضور آئیوری کوسٹ روانہ ہونے کے لئے ایئر پورٹ تشریف لے گئے۔وی آئی پی (VIP)لائونج میں مکرم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب امیر جماعت احمدیہ غانا مجلسِ عاملہ سمیت حضور کو رخصت کرنے کے لئے حاضر تھے۔وزیر برائے پارلیمانی امور مکرم بی کے آدما صاحب جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی تھے اور مکرم مہاما صاحب (Mohama) وزیر ِ زراعت بھی حضور کو رخصت کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ان کے علاوہ احمدی بھائی اور بہنیںکثیر تعداد میں حضور کو رخصت کرنے کے لئے ایئر پورٹ پر موجود تھے۔جب حضور ؒ جہاز کی سیڑھیوں پر چڑھ رہے تھے تو احباب نے پر جوش نعرے لگا کر حضور کو رخصت کیا ۔اس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا غانا کا تاریخ ساز دورہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اختتام پذیرہوا۔(۳۳)
آئیوری کوسٹ میں ورودِ مسعود
غانا کے دورے کے بعد آئیوری کوسٹ کے مختصر دورے کا پروگرام تھا۔اس ملک میں ایک مختصر جماعت قائم تھی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ ۲۷؍ اپریل ۱۹۷۰ء کو دوپہر بارہ بجے اکرا سے آئیوری کوسٹ کے دارالحکومت ابی جان پہنچے۔ محترم قریشی محمدافضل صاحب امیر و مشنری انچارج کے ہمراہ احبابِ جماعت استقبال کے لئے موجود تھے۔ایئر پورٹ پر پریس اور ٹی وی کے نمائندگان کو انٹرویو دینے کے بعد حضورؒ اپنے جائے قیام تشریف لے گئے اور نمازِ مغر ب کی ادائیگی کے بعد مسجداحمدیہ میں احمدی احباب سے خطاب فرمایا۔
۲۸؍ اپریل کو حضور نے قائم مقام صدر آئیوری کوسٹ سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات فرمائی اور اسی روز شام کو حضورؒ نے پھر مسجد احمدیہ میں خطاب فرمایا ۔۲۹؍ اپریل کو حضور بمع قافلہ لائبیریا کے لئے روانہ ہو گئے۔(۳۴،۳۵)
دورہ لائبیریا
آئیوری کوسٹ کے دورہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ لائبیریا کے مختصر دورہ پر دارالحکومت منروویا پہنچے۔ رابرٹس فیلڈ کے ہوائی اڈے پر لائبیریا کے امیر جماعت اور مشنری مکرم امین اللہ صاحب سالک، جماعت ِ احمدیہ کے احباب نے اور دیگر مسلم اور غیر مسلم زعماء نے حضور کا استقبال کیا۔ ایک مسلمان گورنر مکرم فافانی کمار (Fafani Kumare) اورصدرِمملکت کا نمائندہ بھی استقبال کے لئے موجود تھا ۔حضور ؒ نے ایئر پورٹ پر ریڈیو اور ٹی وی کے نمائندگان اور مختلف اخبارات سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو انٹرویو دیا۔اور اس کے بعد حضور ؒ نے اپنے استقبال کے لئے آئے ہوئے مسلمان گورنر صاحب اور ان کے نائب کو مخاطب کرکے فرمایا ’’مذہب دل کا معاملہ ہے ۔ جب تک دل نہ جیتے جائیں مذہب قبول نہیں کیا جا سکتا۔یہ کام وحشیانہ طاقت کے استعمال سے نہیں ہو سکتا۔اس کے لئے محبت اور ہمدردی اور خدمت کی ضرورت ہے۔‘‘ شام کوحضور کی آمد کے مناظر ملکی ٹی وی پر بھی دکھائے گئے۔ہوائی اڈے سے حضور ہوٹل انٹر کانٹینینٹل تشریف لے گئے جہاں حضورؒ کی رہائش کا انتظام تھا۔اسی شام کو حضور نے لائبیریا کے صدر جناب ٹب مین سے ملاقات فرمائی۔اس ملاقات میں حضور ؒ کے ہمراہ مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، مکرم امین اللہ سالک صاحب امیر ومشنری انچارج لائبیریا،مکرم چوہدری ظہور احمد باجوہ صاحب ،مکرم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب،مکرم مولوی عبدالکریم صاحب اور مکرم چوہدری محمد علی صاحب بھی شامل تھے۔ ملاقات کے دوران ملک کے وزیر خارجہ بھی موجود تھے۔صدر مملکت نے حضورؒ کی آمد پر مسرت کا اظہار کیا ۔گفتگو کے دوران صدر نے جماعت کے امیر صاحب مکرم امین اللہ سالک صاحب کے متعلق کہا کہ آپ کے مشنری بہت Forceful ہیں ۔اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا
He is forceful without using force
اس برجستہ جواب پر صدر ٹب مین بہت محظوظ ہوئے۔پھر جماعت احمدیہ لائبیریا کی طرف سے دیئے گئے عشائیہ میں شامل ہوئے جس میں لائبیریا کے نائب صدر ،چیف جسٹس صاحب،سپیکر پارلیمنٹ اور مختلف ممالک کے سفیر شامل ہوئے۔
۳۰ ؍اپریل کو صبح حضور ؒ نے مختلف احباب سے انفرادی ملاقاتیں فرمائیں۔مختلف غیر احمدی احباب جن میں لبنان کے سفیر بھی شامل تھے۔ حضور سمندر کے کنارے سیر پر تشریف لے گئے۔ تیسرے پہر حضور ؒ نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایااور سوالات کے جوابات دیئے۔اس پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حضور ؒ نے فرمایا کہ اسلام دنیا پر غالب آکر رہے گا اور کوئی دنیاوی طاقت اس خدائی تقدیر کی راہ میں روک نہیں بن سکتی۔آپ نے فرمایا کہ مغربی افریقہ کے ممالک میں جماعتیں قائم کرنے سے ہمارا کوئی ذاتی مقصد نہیں۔ہم ان ممالک سے ایک پائی باہر نہیں لے کرجاتے ۔جو آمد ہوتی ہے انہی ممالک کی بہبود پر خرچ ہوتی ہے۔ہم مدارس اور طبی مراکز کھولتے ہیں جن سے ان ممالک کے باشندے ہی فائدہ اُ ٹھاتے ہیں۔اس موقع پر حضور ؒ نے فرمایا کہ جماعت لائبیریا کے دارالحکومت منروویا میں ایک میڈیکل سینٹر اور ایک سکول کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ایک سوال کے جواب میں حضور ؒ نے فرمایا کہ ہماری جماعت کا بحیثیت جماعت سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ ہماری جماعت کا یہ اصول ہے کہ حکومتِ وقت کی اور قانون کی اطاعت کی جائے۔ہم تو مذہبی جماعت ہیں۔
اس سفر میں کانو ( نائیجیریا ) میں متعین جماعت کے مشنری ڈاکٹر مکرم ضیاء الدین صاحب بیمار ہو گئے۔ ان کو سانس کی تکلیف ہو گئی۔حضور ؒ نے از راہ شفقت ان کو ہدایت فرمائی کہ بستر سے باہر نہ نکلیں اور خود دن میں کئی مرتبہ ان کے کمرے میں جا کر ان کی عیادت فرماتے رہے اور پریس کانفرنس کے بعد بھی خود جا کر ان کی عیادت فرمائی۔پریس کانفرنس کے بعد حضور نے اسی کمرہ میں جماعت کے عہدیداران کی ایک میٹنگ میں شرکت فرمائی۔حضور نے اس میٹنگ میں جماعتی عہدیداروں کو تبلیغی، تعلیمی اور طبی کا م کی توسیع اور ترقی کے بارے میں ہدایات دیں اور جس منصوبہ کے تحت کام کرنا تھا اس کی تفاصیل پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ اصل مقصد تو خدمت ہونا چاہئے۔جماعت احمدیہ کے عہدیداران نے اپنی مشکلات حضور ؒ کے سامنے رکھیں ۔حضور ؒ نے اس پر مدد کا وعدہ فرمایا اور فرمایا کہ انشاء اللہ ہمارا قدم آگے ہی بڑھے گا۔
اسی رات کو صدرِ لائبیریا نے حضور کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا۔اس میں تقریر کرتے ہوئے صدرِ مملکت نے کہا:
’’آج ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس زمانے کے روحانی بادشاہ ہمارے درمیان تشریف فرماہیں۔آپ کی تشریف آوری ہمارے لئے باعثِ عزت ہے۔آپ ایک عظیم روحانی شخصیت ہیں۔ آپ کو قربِ الٰہی حاصل ہے۔میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔‘‘
اس موقع پر حضور ؒ نے بھی ایک مختصر تقریر فرمائی اور معزز میزبان کا شکریہ ادا کیا اور اہلِ لائبیریا کو دعاؤں سے نوازا۔ (۳۴،۳۶،۳۷)
گیمبیا کا دورہ
یکم مئی کی دوپہر کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ گیمبیا جانے کے لئے رابرٹس فیلڈ کے ہوائی اڈے پر پہنچے اور دو بجے کے قریب احبابِ جماعت کی دعاؤں کے درمیان حضور ؒ نائیجیرین ایئر ویز کے جہاز پر گیمبیا کے دارالحکومت باتھرسٹ جانے کے لئے روانہ ہوئے۔جہاز جب یونڈم (Yondum) ایئر پورٹ پہنچا تو مکرم مولانا چوہدری محمد شریف صاحب مشنری انچارج و امیر جماعت احمدیہ گیمبیا، سابق گورنر جنرل مکرم الحاج ایف ۔ایم۔سنگھاٹے اور حکومت کے کمشنر لیبر نے حضورؒ کا استقبال کیا ۔ تقریباََ دو صد احمدی بھائی اور بہنیں حضور ؒ کے استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے۔لاؤنج میں سرکاری خبر رساں ایجنسی کے انچارج نے حضور کا انٹرویو لیا۔حضور سے ایک سوال یہ پوچھا گیا کہ آپ کس چیز سے دلچسپی رکھتے ہیں۔اس کے جواب میں حضورؒ نے فرمایا کہ مجھے عام انسانوں کی پروگریس اور بہتری سے دلچسپی ہے۔اور ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ میرے یہاں آنے کا مقصد آپ لوگوں سے ملاقات کرنا ہے اور میں یہاں آکر محسوس کرتاہوں کہ میں اپنے ہی گھر میں ہوں ۔حضور ؒ نے اپنے دورہ گیمبیا کے ابتدائی دنوں میں از راہِ شفقت مکرم الحاج ایف ۔ایم سنگھاٹے کے گھر میں قیام پذیر رہے۔
اگلے روز ۲؍ مئی کو حضورؒنے ملک کے صدر داؤد کے جوارا سے ملاقات کی۔صدرِ گیمبیا نے حضور ؒ سے جماعت احمدیہ کے مستقبل کے پروگراموں کے بارے میں استفسار کیا توحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا کہ ہم انشا ء اللہ خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر یہاں کے عوام کی خدمت کریں گے۔ ہماری اس میں کوئی ذاتی غرض نہیں ۔حضور ؒ نے صدرِ مملکت کو قرآنِ کریم کے انگریزی ترجمہ کا تحفہ دیااسی شام کو سابق گورنر جنرل مکرم سنگھاٹے صاحب نے حضور ؒ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا ۔جس میں صدرِ گیمبیا کے علاوہ مختلف وزراء اور سفراء نے شرکت کی۔ہر مہمان کا حضور سے تعارف کرایا گیا اور آپ نے مختلف احباب سے گفتگو فرمائی۔شام کو حضور ؒ نے ایک میٹنگ طلب فرمائی جس میں امیر صاحب گیمبیا،سنگھاٹے صاحب ،مسٹر ٹی بی فون صاحب اور مکرم ڈاکٹر سعید احمد صاحب نے شرکت کی۔اس میٹنگ میں جائزہ لیا گیا کہ اس ملک کی کس طرح خدمت کی جا سکتی ہے۔مسٹر ٹی بی فون نے عرض کی کہ یہاں پر مسلمان بچوں کے لئے کوئی سکول نہیںاور اس سے احمدی بچے بھی بہت متاثر ہوتے ہیں۔ سنگھاٹے صاحب نے بھی تائید کی کہ یہاں پر سکول کھولنا ضروری ہے ۔اس پر حضور ؒ نے فرمایا کہ اگر ہم سات سال میں پانچ سکول کھول لیں تو ایک دن یونیورسٹی بنانی پڑے گی۔حضور نے مکرم ڈاکٹر سعید صاحب کو میڈیکل سینٹر کھولنے کے منصوبے کا جائزہ لینے کا ارشاد فرمایا ۔نیزارشاد فرمایا کہ یہاںپر آنکھوں کا ماہر ڈاکٹر آنا چاہئے۔مکرم سنگھاٹے صاحب نے عرض کی کہ یہاں کے لوگوں کو مشنری بننے کی تربیت دی جائے۔اس پر حضور ؒ نے فرمایا کہ یہاں سے بچے ربوہ بھیجیں جو وہاں جا کر دینی تعلیم حاصل کریں ۔اور پھر غانا کے مبلغ مکرم عبد الوہاب بن آدم صاحب کا ذکر کر کے ان کے کام کی تعریف فرمائی اور فرمایا کہ ہمارے لئے تو عربی اور اس کے بعد اردو زبان سیکھنا ضروری ہیں۔ایک نئی سکیم پر انشاء اللہ عمل درآمد ہونے والا ہے جس کے تحت لوگوں کو عربی اور اردو زبانوں سے روشناس کرایا جائے گا۔اور ارشاد فرمایا کہ قاعدہ یسرنا القرآن پڑھایا کریں اس سے بھی اردو آ جاتی ہے۔ ۳؍مئی کو حضور ؒ نے مقامی احباب سے خطاب فرمایا۔اور اسی شام کو حضور ؒ نے باتھرسٹ کے مضافات میں جماعت کے نصرت سکینڈری سکول کا سنگِ بنیاد رکھا اور رات کو جماعت کی مجلسِ عاملہ کی طرف سے حضور ؒ کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا گیا۔۴ مئی کو حضورؒ سیر کے لئے شہر سے بتیس میل تک باہر گئے اور راستے میں مقامی لوگوں کی جھونپڑیاں بھی ملاحظہ فرمائیں۔ شام کو جماعت کے پریذیڈنٹ صاحب کے گھر پر چائے کے لئے تشریف لے گئے۔ اس رات حضور نے ملک کے وزیرِ تعلیم اور وزیرِ صحت کو رات کے کھانے پر مدعو فرمایا۔مکرم سنگھاٹے صاحب اور پریذیڈنٹ صاحب جماعت بھی اس دعوت میں شریک تھے۔ اگلے روز ۵ مئی کوحضورؒ گیمبیا سے سیرالیون کے لئے روانہ ہوگئے۔(۳۸)
سیرالیون کا دورہ
حضور ؒ کے دورہ افریقہ کے آخر پر سیرالیون کے دورے کا پروگرام تھا۔باقی ممالک کی طرح سیرالیون کے احمدی بھی بے تابی سے اپنے امام کی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔یہاں کے اخبارات میں بھی فروری سے ہی حضورؒ کی متوقع آمد کی خبریں شائع ہونی شروع ہو گئی تھیں(۳۹)اور حضورؒ کی آمد کے دن بھی اخبارات نے بڑی سرخیوں کے ساتھ ذکر کیا کہ آج حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سیرالیون تشریف لا رہے ہیں۔اخبارUnityکی سرخی تھی(۴۰)
‏Messiah Due Today
اخبار ڈیلی میل (Daily Mail)نے حضورؒ کی آمد سے ایک روز قبل خبر اس عنوان سے شائع کی(۴۱)
Great Religious Leader Arrives Freetown Today
جس وقت حضور کا جہاز لنگی (Lungi)کے ایئر پورٹ پر پہنچا۔احمدی احباب اور خواتین رومال ہلا کر استقبال کر رہے تھے۔یہ ایئر پورٹ جزیرہ نما پر واقعہ ہے۔کاریں فیری پر جب ساحل پر پہنچیں تو خشکی پر مختلف جماعتیں اپنے علیحدہ علیحدہ لباس میں حضور ؒ کے استقبال کے لئے موجود تھیں۔حضور کی کار نعرہ تکبیر اللہ اکبر اور حضرت امیر المؤمنین کے نعروں میں آگے بڑھ رہی تھی۔جگہ جگہ مختلف گروہ عربی زبان میں دعائیہ ترانے گا رہے تھے۔بہت سے احمدی مرد و خواتین بے ساختہ حضور کی گاڑی کے ساتھ دوڑ رہے تھے۔اور ان مناظر پر رواں تبصرہ ساتھ کے ساتھ ریڈیو پر نشر ہو رہا تھا۔ایئر پورٹ سے حضورؒ سٹیٹ گیسٹ ہاؤس تشریف لے گئے۔حضور کے سردرد ہو رہی تھی اس لئے حضور آرام کے لئے اپنے کمرے میں تشریف لے گئے۔لیکن یہاں پر بھی کئی احباب جمع ہو گئے کہ حضور انہیں کھڑکی سے اپنی زیارت کر ادیں۔ان کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے حضور ؒ نیچے تشریف لے گئے اور ان احباب سے مصافحہ کیا اور ان کے نام اور نام کے مطالب معلوم کئے۔ایک احمدی نے بتایا کہ ان کے نام کا مطلب ہے کہ ’’یہ جنگ اور وہ جنگ ‘‘ اس پر حضور ؒ نے فرمایا کہ اب آپ احمدی ہیں اس لئے اب آپ کا نام ہے ’’نہ یہ جنگ نہ وہ جنگ‘‘ یعنی عبد السلام ۔
شام کو حضور نے سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا۔اس میں ریڈیو، ٹی وی اور مختلف اخبارات کے نمایندگان شامل تھے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے پریس کانفرنس کے آ غاز پر فرمایا کہ میں سیرالیون آنے سے پہلے نائیجیریا ،غانا،آئیوری کوسٹ ،لائبیریا اور گیمبیا کا دورہ کر چکا ہوں ۔مجھے اہلِ افریقہ بہت پسند آئے ہیں۔ان کے چہروں پر مسکراہٹ ہے اور دلوں میں سادگی اور محبت ہے۔میں نے اس دورے کو نہایت خوش کن اور آرام دہ پایا ہے۔حضورؒ سے ایک صحافی نے پوچھا کہ آپ کی تشریف آوری کا مقصد کیا ہے؟حضور نے مسکرا کر جواب دیا ’’آپ لوگوں سے ملاقات ۔ نیز مختلف ممالک کے سربراہان سے مشورہ کہ جماعت ِ احمدیہ ان ممالک کے باشندوں کی کس رنگ میںبہتر خدمت کر سکتی ہے۔‘‘ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ یہاں لوگ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں تو احمدی ہاتھ باندھ کرکیوں نماز پڑھتے ہیں؟ حضور ؒ نے فرمایا کہ یہ فقہی اختلاف ہے ۔ان ممالک میںحضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ پر تعامل ہے ۔ہمارے ہاں حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کی فقہ پر عمل ہوتا ہے۔چاروں ائمہ فقہ کا باہم اختلاف ہے ۔لیکن اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ فقہ میں اختلاف جائز ہے۔بہر حال یہ اختلاف فروعی ہے بنیادی نہیں۔ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ میں پہلے دوسروں سے مشورہ کرتا ہوں،خود سوچتا ہوںپھر اللہ تعالیٰ کے حضور انشراحِ صدر اور رہنمائی کے لئے دعا کرتا ہوں تب کسی نتیجہ پر پہنچتا ہوں۔پریس کانفرنس کے بعد ریڈیو سیرالیون کے نمائندے نے علیحدہ انٹرویو کے لئے درخواست کی۔حضور ؒ نے اجازت مرحمت فرمائی تو اس نے بہت سے سوالات کئے۔نمائندہ ریڈیو نے سوال کیا کہ مذہب کا مستقبل کیا ہے؟اس کے جواب میں حضور ؒ نے فرمایا کہ مذہب کا مستقبل بہت ہی شاندار ہے ۔محبت ہمیشہ نفرت پر غالب آیا کرتی ہے ۔مذہب محبت سکھاتا ہے اور محبت پر قائم ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہماری محبت ساری دنیا پر غالب آکر رہے گی۔شام کو حضور ؒ رات گئے تک مجلسِ عرفان میں تشریف فرما رہے جس میں شریک سیرالیون کے احمدی پروانوں کی طرح حضور ؒ کے گرد جمع تھے۔(۴۲)
اگلے روز حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے سیرالیون کے قائم مقام گورنر جنرل بنجا تیجان سی (Banja Tejan Sie) سے ملاقات فرمائی ۔قائمقام گورنر جنرل نے حضورؒ کا استقبال کرتے ہوئے کہا ’It is a blessing your coming here‘۔اس ملاقات میں حضور ؒ کے ہمراہ مکرم و محترم مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری امیر و مشنری انچارج سیرالیون،مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب،مکرم چوہدری ظہوراحمد صاحب باجوہ ،احمدی پیراماؤنٹ چیف مکرم ناصرالدین گمانگا صاحب،مکرم محمد نذیر صاحب اور مکرم چوہدری محمد علی صاحب شامل تھے۔قائمقام گورنر جنرل صاحب نے کہا کہ جماعت ِ احمدیہ سیرالیون میں قابلِ تعریف کام کر رہی ہے۔اور جماعت نے جو سکول جاری کئے ہیں ان میں قابلِ تعریف کام ہو رہا ہے ۔اور انہوں نے احمدی پیراماؤنٹ چیف مکرم گمانگا صاحب کی بہت تعریف کی۔حضور نے فرمایا کہ حکومت قوم کے لئے بمنزلہ باپ ہوتی ہے۔اس کا فرض ہے کہ بچوں کا خیال رکھے ۔نئی نسل کا حق ہے کہ اسے اچھی تعلیم دی جائے اور اس کی ذہنی صلاحیتیں اجاگر کی جائیں ۔گفتگو کے دوران قائم مقام گورنر جنرل نے کہا کہ اب تو آپ پر کام کا بوجھ بہت ہو گا۔اس پر حضورؒنے فرمایا دیگر مصروفیات کے علاوہ صرف خطوط کی اوسط جن کو میں پڑھتا ہوں تین سو سے ایک ہزار روزانہ کی ہے۔بعض دفعہ ساری ساری رات احباب کے لئے دعا کرتا ہوں۔پہلے آٹھ گھنٹے روزانہ سوتا تھا اب صرف اڑھائی گھنٹے کی روزانہ اوسط ہے۔اللہ تعالیٰ طاقت دے دیتا ہے۔حضور نے اسلام کے اقتصادی نظام کا کمیونسٹ نظام سے موازنہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کمیونزم تو صرف ہر شخص کو اس کی ضروریات مہیا کرنے کا وعدہ کرتا ہے لیکن ضروریات کی تعریف نہیں کرتا ۔اسلام کہتا ہے کہ ہر شخص کو اس کی تمام جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی صلاحیتوں کی پوری نشوو نما کا پورا حق ہے اور یہ اس پر احسان نہیں اس کا بلکہ اس کا حق ہے اور اسلام یہ حکومت پر پابندی لگاتا ہے کہ وہ اس حق کی حفاظت کرے اور ایسے ذرائع مہیا کرے جس سے ہر فرد کی پوری صلاحیتوں کی پوری نشوو نما ہو۔اس پر گورنر جنرل نے کہا کہ اس مسئلہ پر میں نے نہ کبھی اس طرح سوچا اور نہ کبھی کسی نے اس انداز سے اس مسئلہ پر روشنی ڈالی۔پھر سیرالیون میں طبی مراکز قائم کرنے کے متعلق گفتگو ہوئی ۔حضور ؒ نے فرمایا کہ یہ کام قربانی اور ایثار کے بغیر انجام پذیر نہیں ہو سکتا ۔یہ ملاقات تقریباََ ایک گھنٹہ جاری رہی۔اس کے بعد حضور ؒ نے وزیرِ اعظم سیرالیون سے ملاقات فرمائی۔ وزیراعظم نے سیرالیون میںجماعت کی خدمات کی تعریف کی۔اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا کہ ہم تو بحیثیت مسلمان یہ خدمت کر رہے ہیں ۔ہم اپنے آپ کو شکریے کا ہر گز حقدار نہیں سمجھتے۔
شام کو حضور ؒ نے ایک دعوت ِاستقبالیہ میں شرکت فرمائی۔اس دعوت میں احبابِ جماعت کے علاوہ ملک کے وزیر ِ خارجہ ،وزیر زراعت ،مختلف چیف صاحبان اور سفراء نے شرکت کی۔ رات کو مغرب اور عشاء کی نمازوں کے بعد حضور ؒ رات گئے تک احباب کے درمیان مجلس میں تشریف فرما رہے۔ (۴۳)
۷؍ مئی کو حضور ؒ احمدیہ سکینڈری سکول فری ٹاؤن کے معائنہ کے لئے تشریف لے گئے اور طلباء سے خطاب فرمایا۔حضورؒ نے دیگر نصائح کے علاوہ فرمایا کہ اب آپ کے خلاف امتیازی سلوک برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔اگر آپ اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں تو یقیناََ آپ کامیاب ہوں گے اور دنیا کی لیڈری آپ کے ہاتھ میںہو گی۔تب ان لوگوں سے جنہوں نے آپ لوگوں کو صدیوں اپنے ظلم و تشدد کا نشانہ بنائے رکھا آپ کہہ سکیں گے کہ تم ہمارے ملک کو Exploitکرنے آئے تھے لیکن ہم محبت سکھانے آئے ہیںکیونکہ اسلام کسی سے نفرت نہیں سکھاتا ۔محبت اور ہمدردی سکھاتا ہے۔اگر آپ کو علم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کتنی محبت کرتا ہے،اگر آپ اپنی ذمہ داریاں سمجھ لیں اور ان کے مناسبِ حال محنت کریں تو آپ ایک دن دنیا کے رہبر بن جائیں گے۔افریقہ کی نئی نسل کے کندھوں پر بہت عظیم ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔میری دعا ہے کہ آپ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوں۔
شام کو فری ٹاؤن کے اکابرین اور معززین حضور ؒ سے ملاقات کیلئے آئے، جن میں تین پیراماؤنٹ چیف صاحبان بھی شامل تھے۔رات کو آٹھ بجے حضور ؒ نے ایک عشائیہ میں شرکت فرمائی جو قائم مقام گورنر جنرل صاحب کی جانب سے دیا گیا تھا۔(۴۴)
۸؍مئی کو جمعہ کے روز حضور ؒ نے فری ٹاؤن کے علاقہ لیسٹر(Leister) میں ایک نئی مسجد، مسجدنذیر علی کا افتتاح فرمایا۔حضور ؒ نے مسجد کا دروازہ کھول کر مسجد کا افتتاح فرمایا اور خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس کا ساتھ ساتھ کریول( Creole) زبان میں ترجمہ کیا جا رہا تھا۔حضور ؒ نے فرمایا کہ میں آپ میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں۔آپ اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایا I shall give you a large party of Islam۔ حضور ؒ نے فرمایا کہ آپ کو یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ جماعت احمدیہ کوئی کلب نہیں ۔ایک کلب یا ایسوسی ایشن اور ایک الٰہی جماعت میں بہت فرق ہوتا ہے۔کسی کلب یا ایسوسی ایشن کی بنیاد باہمی خیر سگالی اورا فہام و تفہیم پر ہوتی ہے ۔اس کے بر عکس اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت اللہ تعالیٰ سے طاقت حاصل کرتی ہے ۔ہمارے قادر و توانا خدا نے یہ جماعت ایک خاص مقصد کے لئے قائم فرمائی ہے اور سیدنا حضرت مہدی علیہ السلام کو ایک خاص مقصد کے لئے مبعوث فرمایا ہے۔ وہ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان مضبوط ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا عرفان حاصل ہو۔اس کے بعد حضور ؒ نے مساجد کے فلسفہ پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ یہ خدائے واحد کا گھر ہے ۔جو شخص خدائے واحدکی عبادت کرنا چاہے ، وہ مسلمان ہو یا نہ ہو اسے حق حاصل ہے کہ وہ اپنے طریق پر فریضہ عبادت ادا کر سکے ۔اسکے بعد حضور ؒ نے دعا کروائی۔(۴۵)
شام کو سیرالیون میں مسلمانوں کی تنظیم مسلم کانگرس کی طرف سے حضور کے اعزازمیں دعوتِ استقبالیہ دی گئی۔جب حضور ؒ اس تقریب میں شرکت کے لئے ہال میں داخل ہوئے تو ہر طرف سے اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے بلند ہوئے ۔تقریب کے آ غاز میں مکرم ایم ایس مصطفیٰ پریذیڈنٹ مسلم کانگرس اور سابق نائب وزیرِ اعظم سیرالیون نے ایک جذباتی تقریر کی اور پھر مسلم کانگریس کے عبداللہ کول صاحب نے تقریر کی۔اس کے بعد حضور ؒ نے خطاب فرمایا۔ حضور ؒ نے تقریر کے آ غاز میں فرمایا کہ میں یہ محسوس کرتا ہوں جیسے میں اپنے بھائیوں کے درمیان بیٹھا ہوں۔میں مسلم کانگریس کے مقررین کا شکریہ ادا کرتا ہوںجنہوں نے ابھی تقاریر فرمائی ہیں۔میں خود کو اس تعریف کے قابل نہیں سمجھتا جو انہوں نے کی ہے ۔میں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب محمد رسول اللہ ﷺ کا ادنیٰ اور حقیر غلام ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ کماسی میں ایک عیسائی دوست نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے۔اس نے آپ سے یہاں آتے وقت کیا کہا تھا ؟ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے کیونکہ میں اس کے ادنیٰ ترین خادموں میں سے ہوں۔ آپ نے اس امر پر روشنی ڈالی کہ اسلام کا خدا ایک زندہ اور فعال خدا ہے۔آپ نے سائنسی مثالوں سے واضح کیا کہ انسانی علم اور خدا کا علم برابر نہیں ہو سکتے ۔قرآنِ کریم کو اللہ تعالیٰ نے کتاب مبین بھی قرار دیا ہے اور کتابِ مکنون بھی قرار دیا ہے ۔بظاہر یہ ایک متضاد بیان ہے مگر اس میں کوئی تضاد نہیں۔کتاب مبین ہر شخص کی سمجھ کے مطابق اس کے لئے ہدایت کا منبع ہے ۔کتاب ِ مکنون اس لئے کہ یہ نئے نئے مسائل کا حل بتاتی ہے جو اپنے وقت سے پہلے نظروں سے اوجھل تھے۔حضور ؒ نے بڑے جلال سے اعلان فرمایا کہ میں آپ سب کو پوری قوت سے بتا دینا چاہتا ہوں کہ اسلام کے غلبے کا حسین دن طلوع ہو چکا ہے ۔دنیا کی کوئی طاقت اس حقیقت کو ٹال نہیں سکتی ۔یہ تقریر اتنی پُر اثر تھی کہ اس کے بعد کئی احباب ایک دوسرے سے چمٹ گئے اور آنکھیں پُر نم تھیں۔لوگ ایک دوسرے کومبارک باد دے رہے تھے۔ایک امام صاحب نے احمدی مبلغ کے سامنے اظہار کیا کہ میرے سارے شکوک دور ہو گئے ہیں۔ اس تقریب کی خبر ٹی وی،ریڈیو اور اخبارات میں نمایاں طور پر نشر اور شائع کی گئی۔با وجود سارے دن کی مصروفیات کے حضور ؒ رات کو دیر تک احمدی احباب کے درمیان مجلس میں تشریف فرما ہو کر گفتگو فرماتے رہے۔حضور ؒ نے فرمایا کہ پاکستان کے ایک اخبار جسارت نے لکھا ہے کہ ہمارے دورہ مغربی افریقہ میں بھی کوئی راز ہے۔پھر فرمایا کہ راز یہ ہے کہ رسولِ کریم ﷺ اور حضورؐ کے روحانی فرزندِ جلیل حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی شان کے جلوے دیکھے جائیں۔ (۴۶)
۹؍ مئی ۱۹۷۰ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فری ٹاؤن سے ۱۶۷ میل کے فاصلہ پر بو کے علاقہ میں تشریف لے گئے۔تقریباََ سات گھنٹے کا سفر کر کے حضور ؒ بو پہنچے ۔ بو اور قریب کے علاقوں سے تین چار ہزار کے قریب احباب اور خواتین اس موقع پر جمع تھے۔حضور کا استقبال پُر جوش نعروں سے کیا گیا۔اس روز گرمی اور شدیدحبس کی وجہ سے سب کا لباس پسینے سے شرابور ہو رہا تھا۔لیکن موسم کی تکلیف کے با وجود حضور ؒ نے تقریباََ دو گھنٹے تمام احباب سے مصافحہ فرمایااور حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ نے بھی خواتین سے مصافحہ فرمایا ۔حضور رات گئے تک احباب کے ساتھ مجلس میں تشریف فرما رہے۔ اور سابق امیر جماعت احمدیہ سیرالیون مکرم مولانا بشارت احمدبشیر صاحب سے مشورہ فرمایا اور نقشے پر نشاندہی فرمائی کہ کہاں کہاں پر جماعت کے سکول اور میڈیکل سینٹر موجود ہیں تا کہ نئے ادارے کھولنے کے بارے میں منصوبہ بندی کی جا سکے۔اگلے روز حضور نے نمازِ فجر سکول کے ہال میں ادا کی اور پھر بو میں جماعت کی ایک نئی مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا ۔اس سے پہلے بو میں مشن ہاؤس سے ملحق ایک مسجد موجود ہے۔اس موقع پر حضور ؒ نے مساجد کے متعلق اسلامی تعلیمات اور فلسفہ پر مختصر خطاب فرمایا۔ شام کو حضور کے اعزاز میں بو کے ٹاؤن ہال میں ایک تقریب منعقد کی گئی۔اس میں حضور سٹیج پر جانے کی بجائے احباب میں گھل مل کر ان سے گفتگو فرماتے رہے(۴۷)۔ ۱۱ ؍مئی کو حضورؒ نے احمدیہ سکینڈری سکول بو کا معائنہ فرمایا۔حضور ؒ نے معائنہ کے بعد طلباء میں انعامات تقسیم فرمائے اور اسلامیات میں اول آنے والے طالب علم کو سکول کے انعام کے علاوہ اپنی طرف سے بھی گرانقدر انعام عطا فرمایا۔طلباء سے مختصر خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ آپ کا مستقبل نہایت درخشندہ اور تابناک ہے لیکن یہ پھل قسمت کے درخت سے ٹوٹ کر خود بخود تمہاری جھولیوں میں نہیں گرے گا بلکہ شدید محنت سے تمہیں اس عظیم الشان مقصد کو حاصل کرنا پڑے گا۔
اسی شام کو جماعت احمدیہ سیرالیون کی طرف سے ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا۔اس موقع پر جماعت سیرالیون کے پریذیڈنٹ مکرم چیف گمانگا صاحب نے جماعت سیرالیون کی طرف سے ایڈریس پیش کیا ۔اس کے جواب میں حضور ؒ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام کی آخری اور دائمی فتح اور غلبہ کے لئے آئے لیکن دنیا نے اس آسمانی نور کو بجھانے کے لئے کمر کس لی ۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے یہ روحانی فرزند طفلِ حسین کی طرح اللہ تعالیٰ کی گود میں تھا۔دنیا کی ساری طاقت اور قوت اس آواز کو خاموش کرنے کی کوشش میں لگ گئی ۔لیکن یہ آسمانی آواز خاموش نہ کی جا سکی۔وہ آواز دنیا کے کناروں تک پہنچ گئی۔اس کے بعد حضور نے انسانیت کو درپیش اہم مسائل کا ذکر فرمایا ۔یہ مسائل انسانی برابری کا مسئلہ ،دولت کی منصفانہ اور دانشمندانہ تقسیم کا مسئلہ اور تعلق با للہ کا مسئلہ ہے۔پھر حضور ؒ نے بیان فرمایا کہ اسلام ان مسائل کے کیا کیا حل پیش کرتا ہے۔مکرم الحاج بونگے صاحب مینڈے زبان میں اور مکرم بنگورا صاحب ٹمنی زبان میں حضور کی تقریر کا ترجمہ کر رہے تھے۔ تقریر کے بعد حضور مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی کے مزار پردعا کے لئے تشریف لے گئے۔مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی اس ملک کے ابتدائی مبلغین میں سے تھے اور انہوں نے یہیں پر وفات پائی تھی۔یہ قبر ایک پُر فضا مقام پر ہے۔آپ نے انتہائی غربت اور بے کسی کی حالت میں یہاں پر تبلیغ کے کام کا آ غاز فرمایا تھا ۔حضور ؒ کے دورہ کے وقت اس علاقہ کے ایک پرانے احمدی پا روجرز صاحب زندہ موجود تھے جنہوں نے مکرم مولانا نذیر احمد صاحب علی کی آمد کا وقت دیکھا ہوا تھا۔وہ بیان کرتے تھے کہ جس دن آپ بو میں تشریف لائے تو ایک ہنگامہ برپا ہو گیا ۔مقامی علماء نے بہت مخالفت کی اور اعلان کیا کہ ان کو رہائش کے لئے کوئی جگہ نہ دی جائے اور ان کا بائیکاٹ کر دیا جائے ۔کسی نے رات کو انہیں ٹھہرنے کے لئے جگہ نہ دی۔بالآخر انہوں نے اپنے ساتھی کو جو ان کی کتابیں اُٹھا کر ساتھ پھرا کرتا تھا کہاکہ چلوBushمیں چلتے ہیں ۔چنانچہ وہ آبادی سے باہر جنگل میں ایک درخت کے نیچے ٹھہر گئے۔پا روجرز کہتے ہیں مجھے لوگوں کی اس حرکت پر بہت طیش آیا اور میں ان کے پاس چلا آیا۔ مولانا نذیر احمد صاحب علی زمین پر لیٹے ہوئے تھے۔آدھی رات کو جب آپ تہجد کے لئے اُ ٹھے تو ان کو دمہ کا شدید دورہ پڑ گیا اور یہ دورہ اتنا شدید تھا کہ مجھے لگتا تھا کہ یہ اُن کا آ خری وقت ہے۔چنانچہ میں نے ان کی تیمارداری کی اور لوگوں کی بد سلوکی پر معذرت کی۔اس پر مولانا نذیر احمد صاحب علی نے بڑے یقین کے ساتھ فرمایا۔روجرز صاحب مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے اور میری بات یاد رکھو کہ یہاں احمدیت پھیلے گی اور ابھی آپ زندہ ہوں گے کہ لوگ آپ کے پاس آکر منتیں کیا کریں گے۔جسے آپ پسند کریں گے رکھیں گے اور جسے چاہیں گے انکار کر دیں گے۔پا روجرز آبدیدہ ہو کر بیان کرتے تھے کہ یہ زمانہ میں نے دیکھ لیا ۔میں احمدیہ سکول کے بورڈ آف گورنرز کا رکن ہوں۔بڑے بڑے لوگوں کی سفارش لے کر طلباء احمدیہ سکول میں داخلہ کے لئے آتے ہیں اور بعض دفعہ جگہ نہ ہونے کے باعث انکار کرنا پڑتا ہے۔
۱۲؍ مئی کو حضور ؒواپس فری ٹاؤن تشریف لے آئے۔اس روز حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے قائم مقام گورنر جنرل صاحب کو عشائیہ پر مدعو فرمایا ۔اس میں ان کے علاوہ سیرالیون کے اعلیٰ حکام،مختلف ممالک کے سفراء ،نامور مسلمان زعماء اور چرچ کے قائدین بھی شامل ہوئے۔اگلے روز حضورؒ نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا ۔اس میں صحافیوں نے مختلف موضوعات پر سوالات کئے ۔جیسا کہ بعد میں ذکر آئے گا گیمبیا میںقیام کے دوران حضور ؒ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے القا کے نتیجہ میں تحریک پیدا ہوئی تھی کہ جماعت ان چھ ممالک میں طبی اور تعلیمی خدمات کے لئے ایک لاکھ پونڈ کی رقم خرچ کرے،اللہ تعالیٰ اس میں بہت برکت ڈالے گا ۔چنانچہ حضور ؒ نے اس پریس کانفرنس میں اس منصوبہ کے خدو خال بیان فرمائے۔اور اگلے روز فری ٹاؤن کے اخبار UNITYنے اس منصوبہ کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے ارشادات شائع کئے اور کہاکہ سیرالیون بھی اس منصوبہ سے فائدہ اُ ٹھائے گا۔(۴۸)
۱۴؍ مئی کو حضرت خلیفۃ المسیح کایہ پہلا دورہ افریقہ کامیابی اور کامرانی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ دورہ کے اختتام پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے سیرالیون کے امیر و مشنری انچارج مکرم مولانا محمدصدیق گورداسپوری صاحب کی نوٹ بک پر تحریر فرمایا
’’محبت ۔ہمدردر ی۔غمخواری اور خدمت ہمارا مشن ہے اسی میں ہماری کامیابی ہے اور اسی غرض سے ہم پیدا کئے گئے ہیں۔ مذکورہ صفات سے ان مظلوموں کے دل جیتیں۔ اللہ کی رحمت کا قوی ہاتھ آپ کا سہارا بنے۔آمین۔‘‘(۴۹)
افریقہ کے پہلے دورہ کے اختتام کے بعد حضور ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم کے لئے روانہ ہوئے۔ سیرالیون کے مبلغینِ کرام ،عہدیدارانِ جماعت ،دیگر احباب اور اعلیٰ سرکاری حکام نے حضور کو الوداع کیا۔ یہ دورہ تاریخِ احمدیت میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے ۔اس کے بہت با برکت نتائج نکلے اور افریقہ میں جماعت کی تبلیغی تعلیمی اور طبی خدمات ایک نئے دور میں داخل ہوئیں۔



(۱)الفضل ۹؍ اپریل ۱۹۷۰ء ص۳،۴(۲) الفضل ۷؍ اپریل ۱۹۷۰ء ص اول و آ خر(۳) الفضل۱۴؍ اپریل۱۹۷۰ء ص ۷
(۴)الفضل ۲۵ ؍اپریل ۱۹۷۰ء ص ۳(۵) الفضل ۲۵؍ اپریل ۱۹۷۰ء ص ۳(۶) الفضل ۱۵؍ اپریل ۱۹۷۰ء ص ۱
(۷) الفضل ۹؍ جون ۱۹۷۰ء ص ۱۲(۸)The Sunday Times(Nigeria),12 April
‏(۹) The Truth,April 17,1970p8(۱۰) الفضل ۱۶ ؍اپریل ۱۹۷۰ء ص۱(۱۱) الفضل ۲۶ ؍اپریل ۱۹۷۰ء ص ۳
‏(۱۲) The Truth,April 24 ,1970 p1(۱۳) الفضل ۱۷ ؍اپریل ۱۹۷۰ء ص۱
‏(۱۴)New Nigerian,15 April 1970(۱۵)Morning Post(Nigeria)14 April 1970
(۱۶)مسودہ تقریر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ریکارڈ وکالت تبشیر ربوہ(۱۷)ریکارڈ وکالتِ تبشیر ربوہ
(۱۸) الفضل مئی ۱۹۷۰ء ص ۳(۱۹)The Guidance,May& July 1970p 1
(۲۰) الفضل۲۱ ؍اپریل ۱۹۷۰ء ص ۱ (۲۱) الفضل ۲۲ ؍اپریل ۱۹۷۰ء ص ۱ (۲۲) الفضل ۹ ؍جون ۱۹۷۰ء ص۱۲ و۱۳
(۲۳)الفضل۲۴؍ اپریل ۱۹۷۰ء ص۱(۲۴)الفضل۲۵ ؍اپریل۱۹۷۰ء ص۱
‏(۲۵)The Guidance, May July 1970 p3 (۲۶) الفضل ۱۶ مئی ۱۹۷۰ء ص ۳
(۲۷) الفضل ۲۵ ؍اپریل ۱۹۷۰ء ص ص اول و آخر(۲۸) الفضل ۱۷ ؍مئی ۱۹۷۰ء ص۳تا ۵ (۲۹)الفضل ۱۹؍ مئی ۱۹۷۰ء ص ۳،۴
(۳۰)الفضل ۲۲؍ مئی ۱۹۷۰ء ص۳ تا ۵(۳۱) الفضل ۲۳ ؍مئی ۱۹۷۰ء ص ۳ تا۵
(۳۲) الفضل ۱۵ ؍جولائی ۱۹۷۰ء ص۹ (۳۳)الفضل ۲۴؍ مئی ۱۹۷۰ء ص ۳(۳۴) الفضل۹ ؍جون ۱۹۷۰ء ص۱۲،۱۳
(۳۵)یکم مئی ۱۹۷۰ء ص۱(۳۶) الفضل ۵ ؍مئی ۱۹۷۰ء ص۱ (۳۷) الفضل ۲۶؍ مئی ۱۹۷۰ء ص ۳تا ۵
(۳۸) الفضل ۲۷ ؍مئی ۱۹۷۰ء ص ۲ تا ۴ (۳۹) Daily Times, 19 Feb 1970 P1
‏(۴۰)Unity, May 5 1970 P 4(۴۱) Daily Mail, May 5 1970 p4(۴۲) الفضل ۲۸ ؍مئی ۱۹۷۰ء ص۵و۶ (۴۳) الفضل ۲۹؍ مئی ۱۹۷۰ء ص ۳،۴(۴۴) الفضل ۳۰ ؍مئی ۱۹۷۰ء ص۳تا۵(۴۵)الفضل ۳۱ ؍مئی ۱۹۷۰ء ص۳،۴
(۴۶) الفضل ۲ ؍جون ۱۹۷۰ء ص ۳ تا۵ (۴۷) الفضل ۴؍جون ۱۹۷۰ء ص۳ تا۵(۴۸)UNITY, May 14 1970
(۴۹) تحریری روایت مکرم مولانا صدیق گورداسپوری صاحب
مجلس نصرت جہاں کا قیام
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا پہلا دورہ افریقہ بہت سی وجوہ کی بنا پر نہایت اہم تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بہت سے با برکت اور تاریخ ساز نتائج نکلے ۔ایک تو یہ پہلا موقع تھا کہ خلیفہ وقت نے اس برِ اعظم کادورہ کیا اور وہاں کے احمدیوں نے اور دوسرے احباب نے حضور ؒ سے ملاقات کی اور برکت حاصل کی۔اور حضور نے براہِ راست حالات کا جائزہ لیا اور وہاں پر اسلام کی تبلیغ کے لئے مبلغین اور مقامی جماعتوں کی راہ نمائی فرمائی ، خلیفہ وقت کی موجودگی ان ممالک کے احمدیوں کی تربیت کا سبب بنی اور حضور ؒ نے طبی اور تعلیمی میدان میں اہلِ افریقہ کی خدمت کی ضرورت کا از خود جائزہ لیا اور آپ کے ارشادات کے ماتحت اس اہم کام کے لئے منصوبہ بندی کے کام کا آ غاز کیا گیا۔
جیسا کہ پہلے یہ ذکر آ چکا ہے کئی سالوں سے یہاں پر جماعت ِ احمدیہ طبی اور تعلیمی خدمات سرانجام دے رہی تھی لیکن اب اس بات کی ضرورت تھی کہ اس مہم کو وسعت دی جائے۔چنانچہ حضور ؒ نے نائیجیریا میں ایک کمیٹی قائم فرمائی تھی کہ وہ حضورؒ کی ہدایات کی روشنی میں نئے طبی اور تعلیمی ادارے کھولنے کے لئے منصوبہ بنائے۔اسی طرح غانا ،گیمبیا اور سیرالیون میں بھی حضور نے مختلف احباب سے مشورہ فرمایا اور مختلف سربراہانِ مملکت سے ملاقاتوں کے دوران بھی جماعت کی طبی اور تعلیمی خدمات پر گفتگو ہوئی اور ان سربراہان نے جماعت کی خدمات پر شکریہ کا اظہار کیا۔اور بہت سے غیر از جماعت معززین نے بھی درخواست کی کہ جماعت ِ احمدیہ ان کے علاقوں میں بھی میڈیکل سینٹر اور سکول کھولے ۔جماعتِ احمدیہ ہر میدان میں خدمت کے جذبے سے کام کرتی ہے لیکن جماعت کے محدود مالی وسائل ہیں ۔احمدیوں کی اکثریت غربا پر مشتمل ہے جو اپنی قلیل آمد میں سے مسلسل مالی قربانی کرتے ہیںاور نئے میڈیکل سینٹر اور سکول کھولنے کے لئے کافی سرمایہ کی ضرورت تھی۔
جب حضور گیمبیا کے دورہ پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے دل میں ڈالا گیا کہ اب وقت ہے کہ ان ممالک میں کم از کم ایک لاکھ پونڈ خرچ کئے جائیں ،اللہ تعالیٰ ان میں بہت برکت ڈالے گا۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں۔
’’گیمبیا میں ایک دن اللہ تعالیٰ نے( میرے اپنے پروگرام نہیں رہنے دیئے بلکہ )بڑی شدت سے میرے دل میں یہ ڈالا کہ یہ وقت ہے کہ تم کم سے کم ایک لاکھ پاؤنڈ ان ملکوں میں خرچ کرو اور اس میں اللہ تعالیٰ بہت برکت ڈالے گا اور بہت بڑے اور اچھے نتائج نکلیں گے۔ خیر میں بڑا خوش ہوا پہلے اپنا پروگرام اور منصوبہ تھا اب اللہ تعالیٰ نے منصوبہ بنا دیا۔ گیمبیا چھوٹا سا ملک ہے میرے آنے کے بعد مولویوں نے بڑی مخالفت شروع کر دی ہے اور میں بہت خوش ہوں کیونکہ اس آگ میں سے تو ہم نے بہر حال گزرنا ہے۔ہمارے لئے یہ پیشگوئی ہے کہ آگ تمہارے لئے ضرور جلائی جائے گی جو الہام ہے نہ کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے ۔اس میں دو پیشگوئیاں ہیں ایک یہ کہ تمہیں راکھ کرنے کے لئے آگ جلائی جائے گی اور دوسری یہ کہ وہ آگ تمہیں راکھ نہیں کر سکے گی بلکہ فائدہ پہنچانے والی ہو گی۔‘‘(۱)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ افریقہ کا دورہ مکمل فرما کر انگلستان پہنچے اور پھر وہاں آٹھ روز قیام فرمانے کے بعدسپین تشریف لے گئے اور وہاں ایک ہفتہ قیام پذیر رہے اور پھر لندن واپس تشریف لے آئے۔حضور ؒ نے انگلستان میں قیام کے دوران جماعت کی طبی اور تعلیمی خدمات کو آگے بڑھانے کے لئے کام شروع فرما دیا۔آپ نے لندن میں احبابِ جماعت سے ذکر فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کا یہ منشا ء معلوم ہوا ہے کہ ان چھ افریقی ممالک میں تم کم از کم ایک لاکھ پونڈ خرچ کرو ۔حضور ؒ نے تحریک فرمائی کہ دو سو ایسے احباب سامنے آئیں جو دو سو ،دو سو پونڈ فی کس اس تحریک میں چندہ دیں اور دو سو مخلصین ایک ایک سو پونڈ چندہ دیں اور جو باقی ہیں وہ ۳۶ پونڈ فی کس ادا کریں۔اس رقم کی مکمل ادائیگی تین سال میں ہونی تھی۔حضور ؒ نے بچوں کو بھی تحریک فرمائی کہ وہ اس با برکت تحریک میں اپنی استعداد کے مطابق حصہ لیں۔ان کو یہ تحریک کی گئی کہ وہ تین سال میں ایک پونڈ ماہوار کے حساب سے چندہ دیں لیکن اس میں سے بارہ پونڈ فوری طور پر ادا کریں۔حضور ؒ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ پیشتر اس کے کہ حضور ؒ انگلستان سے روانہ ہوں اس مد میں دس ہزار پونڈ کی رقم جمع ہو جانی چاہئے۔پھر حضور ؒ نے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا منشا ء ہے کہ ہم یہ رقم خرچ کریں اور ہسپتالوں اور سکولوں کے لئے جتنے ڈاکٹر اور ٹیچر چاہئیں وہاں مہیا کریں ۔آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ یہ رقم آئے گی یا نہیں یا آئے گی تو کیسے آئے گی ۔یہ مجھے یقین ہے کہ ضرور آئے گی۔اور نہ یہ خوف ہے کہ کام کرنے کے لئے آدمی ملیں گے یانہیں ملیں گے ۔یہ ضرور ملیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ کام کرو ۔خدا کہتا ہے تو یہ اس کا کام ہے لیکن جس چیز کی مجھے فکر ہے اور آپ کو بھی فکر ہونی چاہئے وہ یہ ہے کہ محض خدا کے حضور قربانی دے دینا کسی کام نہیں آتا جب تک اللہ تعالیٰ اس قربانی کو قبول نہ کر لے۔لاکھوں لاکھ قربانیاں حضرت آدم سے اس وقت تک رد کی گئیں،جن کا ذکر مختلف احادیث میں موجود ہے۔پس مجھے یہ فکر ہے اور آپ کو بھی یہ فکر کرنی چاہئے ۔اس لئے دعائیں کرو اور کرتے رہو کہ اے خدا ہم تیرے عاجز بندے تیرے حضور ؒ یہ حقیر قربانیاں پیش کر رہے ہیں تو اپنے فضل اور رحم سے ان قربانیوں کو قبول فرما اور تو ہمیں اپنی رضا کی جنت میں داخل فرما،سعی مشکور ہو ہماری وہ سعی نہ ہو جو ہمارے منہ پر مار دی جائے۔
حضور ؒ نے ارشاد فرمایا تھا کہ میرے انگلستان سے رخصت ہونے سے قبل ہی دس ہزار پونڈ کی رقم جمع ہو جانی چاہئے۔وقت کی کمی کے باعث جماعت کے مبلغ امام صاحب مسجد فضل لنڈن نے عرض کی کہ ابھی یہ رقم جمع نہیں ہونی ۔اگر کچھ وقت مل جائے تو میں دورہ کر کے تحریک کروں گا ۔اس پر حضور ہنس پڑے اور فرمایا کہ ایک دن کی مہلت بھی نہیں دوں گا اور رقم جمع ہو جائے گی ۔اور فرمایا کہ میں بھی دعا کرتا ہوں اور آپ بھی دعا کریں ۔اللہ تعالیٰ ہماری اس قربانی کو قبول فرمائے۔ جمعہ میںجب پہلی مرتبہ مسجد میں اعلان کیا گیا تو اسی وقت سترہ ہزار پونڈ کے وعدے ہو گئے۔مکرم حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے عرض کی کہ بہت سے لوگ جنہوں نے لندن کے باہر سے آنا تھا وہ اس لئے نہیں آسکے کہ یہ کام کا دن تھا۔اتوار کو بہت سے نئے لوگ شامل ہوں گے ،اس لئے آپ اتوار کو خطاب فرمائیں۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اتوار کے روز بھی خطاب فرمایا اور مزید دس ہزار پونڈ کے وعدے ہو گئے۔جب حضورؒ سپین سے واپس لندن پہنچے تو ساڑھے دس ہزار پونڈ کی رقم عملاً جمع ہو چکی تھی ۔اور جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒپاکستان واپس تشریف لے گئے تو برطانیہ کی جماعت کی طرف سے چالیس ہزار پونڈ کے وعدے کئے جا چکے تھے۔(۲)
دوسرا اہم مسئلہ اس تحریک کے لئے وقف کرنے والوں کی ضرورت کا تھا۔بعض احمدی ڈاکٹر انگلستان میں پریکٹس کر رہے تھے۔حضور ؒ نے انہیں ارشاد فرمایا کہ مجھے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے ۔تم اخلاص ، محبت اور ہمدردی سے میری آواز پر لبیک کہو ۔لیکن اگر تم رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش نہیں کرو گے تو میں تمہیں حکم کروں گا اور میرا حکم بہر حال ماننا پڑے گا ۔کیونکہ حکم عدولی تو وہی کرے گا جو احمدیت کو چھوڑنے کو تیار ہو گا۔اور جو احمدیت سے نکل جائے اس کی نہ مجھے ضرورت ہے اور نہ میرے اللہ کو۔اس پر بہت سے احباب نے اخلاص سے اپنی خدمات پیش کیں۔(۳)
پاکستان واپسی اور ربوہ میں استقبال
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اس تاریخی دورہ کے اختتام پر لندن سے کراچی پہنچے اور لاہور سے ہوتے ہوئے ۸؍ جون ۱۹۷۰ء کو بخیرو عافیت ربوہ واپس پہنچے۔گو ابھی مرکز میں با قاعدہ طور پر اس سکیم کا اعلان نہیں ہوا تھا لیکن جو ڈاکٹر صاحبان حضورؒ سے ملاقات کے لیے آتے حضورؒ انہیں وقف کر کے افریقہ جانے کی تلقین فرماتے۔جب حضور لاہور کے ایئر پورٹ پہنچے تو ان کے استقبال کے لیے مکرم ڈاکٹر سید غلام مجتبیٰ صاحب اور آپ کے صاحبزادے مکرم سید تاثیر مجتبیٰ صاحب بھی حاضر تھے۔حضورؒ نے ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر ارشاد فرمایا وہاں افریقہ میں آپ کی ضرورت ہے۔یہ امر قابلِ ذکرہے کہ اس کے بعد مکرم ڈاکٹر غلام مجتبیٰ صاحب ۱۹۷۱ء میں وقف کر کے غاناگئے اور ایک طویل عرصہ وہاں پر خدمت کی اور پھر آپ کے بعد مکرم ڈاکٹر تاثیرمجتبیٰ صاحب نے بھی غانا میں ایک طویل عرصہ خدمت کی توفیق پائی۔
چونکہ پاکستان بالخصوص پنجاب میں جون کا مہینہ شدید گرمی کا مہینہ ہوتا ہے۔اس لئے جب حضور کراچی پہنچے اور ابھی وہاں سے ربوہ پہنچنا تھا تو حضور ؒ نے احبابِ جماعت کی تکلیف کا احساس کرتے ہوئے کراچی سے امیر صاحب مقامی مکرم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کو فون پر یہ پیغام بھجوایا کہ چونکہ شدید گرمی کا موسم ہے اور دھوپ بھی آجکل بہت تیز ہے اس لئے استقبال کے وقت احباب کو سڑکوں کے کنارے دھوپ میں نہ کھڑا ہونے دیا جائے۔دوسری طرف بڑی تعداد میں دوست حضورؒ کے استقبال کی سعادت حاصل کرنے کے لئے جمع ہو رہے تھے اور تمام راستوں پر شامیانے لگوانا ممکن نہ تھا،اس لئے مکرم امیر صاحب مقامی کی ہدایت کے مطابق یہ کام کیا گیا کہ آٹھ مقامات پر بڑے بڑے شامیانے لگوا دیئے گئے اور دوستوں کو یہ ہدایت دی گئی کہ وہ ان شامیانوں کے نیچے یا درختوں کے سایہ میں کھڑے ہوں تاکہ دھوپ کی شدت سے محفوظ رہ سکیں۔اس روز ربوہ کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔نہ صرف ربوہ بلکہ ارد گرد کے اضلاع سے ہزاروں احباب حضور ؒ کے استقبال کے لئے جمع تھے۔جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی گاڑی ربوہ کی حدود میں داخل ہوئی تو فضا پُر جوش نعروں سے گونج اُٹھی۔حضورؒ کی گاڑی آ ہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی اور دوست اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کر رہے تھے۔آخر گاڑی مسجد مبارک کے قریب اس جگہ پر آکر رکی۔یہاں پر سب سے پہلے امیر ِ مقامی مکرم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب نے حضور کو پھولوں کا ہار پہنایا اور پھر باقی بزرگان اور جماعتی عہدیداران نے حضور کا استقبال کیا اور شرفِ مصافحہ حاصل کیا ۔(۴)
پاکستان میں نصرت جہاں سکیم کا اعلان
اپنی آمد کے بعد ۱۲؍ جون ۱۹۷۰ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے مسجد مبارک میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور اسی خطبہ میں پاکستان میں نصرت جہاں سکیم کے لئے تحریک فرمائی۔حضور ؒ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے منشا ء کے مطابق پاکستان کے لئے ایک سکیم بنائی ہے۔اور فرمایا کہ پاکستان میں فارن ایکسچینج کی تنگی رہتی ہے اور ہمیں باہر بھیجنے کے لئے روپیہ نہیں ملتا۔ہمیں یہاں پر قربانیاں دینی پڑیں گی اور خدا ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ روپیہ بھجوانے کے لئے انشا ء اللہ سہولت پیدا ہو جائے گی۔حضور ؒ نے تحریک فرمائی کہ مجھے پاکستان میں دوسو ایسے مخلصین کی ضرورت ہے جو اس سکیم میں پانچ ہزار روپیہ فی کس دیں ۔اور ہر وعدہ کنندہ اس میں سے دو ہزار روپے نومبر تک ادا کر دے۔اور باقی تین ہزار روپیہ اگلے تین سال میں ادا کر دیئے جائیں۔اور دو سو ایسے مخلصین کی ضرورت ہے جو دو دو ہزار روپیہ ادا کرنے کا وعدہ کریں اور اس میں سے ایک ہزار روپیہ نومبر تک ادا کر دیں اور دو ہزار ایسے دوست سامنے آئیں جو پانچ پانچ سو روپیہ ادا کریں اور اس میں سے دوسو روپیہ نومبر تک پیش کر دیں ۔اور باقی رقم تین سال میں ادا کریں۔اور جو اس سے کم دینا چاہیں تو ان سے وعدہ نہیں لیا جائے گا وہ جتنا چندہ ادا کر سکتے ہیں اس مد میں جمع کرا دیں۔(۵)
مجلس نصرت جہاں کے انتظامی ڈھانچے کا قیام
مجلس نصرت جہاں کے مقاصد صرف چندہ جمع کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتے تھے۔اس کے لئے اس بات کی ضرورت تھی کہ بڑی تعداد میں ڈاکٹر صاحبان اور اساتذہ آگے آکر اپنی زندگیاں وقف کے لئے پیش کریں اور مغربی افریقہ جا کر وہاں کے لوگوں کی بے لوث خدمت کریں ۔اور ان اہم امور کو چلانے کے لئے ایک انتظامی ڈھانچے کی بھی شدید ضرورت تھی جو مستقل بنیادوں پر مغربی افریقہ میں جماعت کے طبی اور تعلیمی اداروں کو چلائے۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے تقریباََ دو ماہ کے بعد نائب وکیل المال مکرم سمیع اللہ سیال صاحب کو ارشاد فرمایا کہ جو چندے اب تک ہمارے پاس آئے ہیں ان کا ریکارڈ ہم آپ کو دیتے ہیں۔ آئندہ سے آپ نصرت جہاں ریزرو فنڈ کے انچارج ہوں گے۔اس کے بعد مکرم سمیع اللہ سیال صاحب نے نصرت جہاں ریزرو فنڈ کے سیکریٹری کی حیثیت سے کام شروع کیا۔کچھ عرصہ بعدمکرم چوہدری عبد الشکور صاحب سابق مبلغ لائبیریا بھی ان کے ساتھ اس کام میں شامل ہو گئے۔اور تقریباََ ایک سال کے بعد ریزرو فنڈ کا کام مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب ناظر دیوان کے سپرد ہو گیا۔(۶) پاکستان میں اس سکیم کے لئے وعدہ جات اور چندہ کے حصول کا کام تیزی سے شروع ہو گیا۔اور ۱۷؍جولائی ۱۹۷۰ء تک پاکستان کی جماعتوں سے بیس لاکھ کے وعدے وصول ہو چکے تھے اور اس قلیل مدت میں مرکز میںاڑھائی لاکھ روپیہ نقد وصول ہو چکا تھا۔(۷)
مجلس نصرت جہاں کا قیام
مغربی افریقہ میں نئے میڈیکل سینٹر اور سکول کھولنے اور ان کو چلانے کے لئے مجلس نصرت جہاں کے نام سے ایک نئی مجلس قائم کی گئی۔مکرم مولانا محمداسماعیل منیر صاحب کو اس مجلس کا پہلا سیکریٹری مقرر کیاگیا۔اور حضورؒ نے ارشاد فرمایا کہ وکیل التبشیرمجلس نصرت جہاں کی کمیٹی کے صدر ہوں گے اور مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے اس کے پہلے صدر کی حیثیت سے کام شروع کیا۔جماعت کے سینئر مبلغ مکرم مولانا نسیم سیفی صاحب اس کے نائب صدر مقرر کیے گئے اور مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر،مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب اور مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب اس کمیٹی کے ممبران مقرر ہوئے۔پہلے مجلس نصرت جہاں کا دفتر وکالتِ تبشیر میں تھا اور یکم اکتوبر ۱۹۷۰ء کو مجلس نصرت جہاں کا دفتر ،دفتر پرائیویٹ سیکریٹری میں منتقل کر دیاگیا۔اپنے ابتدائی سالوں میںیہ مجلس براہ راست حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی زیر نگرانی کام کرتی رہی۔
جولائی ۱۹۷۰ء تک انچاس( ۴۹) اساتذہ اور گیارہ(۱۱) ڈاکٹروں نے اس سکیم کے تحت وقف کرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کی تھیں۔مگر اور بہت سے اساتذہ اور ڈاکٹروں کی ضرورت تھی۔اس سکیم کے اجراء کے وقت ہی حضور ؒ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ مغربی افریقہ کے ان چھ ممالک میں جماعت کو تیس میڈیکل سینٹر قائم کرنے چاہئیں اور ان کو چلانے کے لئے تیس ڈاکٹروں کی ضرورت تھی ۔ اساتذہ کی ضرورت کے متعلق بھی یہ تخمینہ لگایا گیا تھا کہ سرِ دست ستر اسی ایم اے، ایم ایس سی اساتذہ اور تیس چالیس بی اے،بی ایس سی ٹرینڈ اساتذہ درکار ہوں گے ۔ایک ڈاکٹرز کمیٹی بھی قائم کی گئی مکرم کرنل ڈاکٹر عطا ء اللہ صاحب اس کے صدر اور مکرم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب اس کے سیکریٹری مقرر ہوئے۔اس سکیم میں حضور کے ارشاد کے تحت پہلی ترجیح میڈیکل سینٹروں کا قیام اور دوسری ترجیح سکولوںکا قیام رکھی گئی ۔لیکن حضور کا منشاء یہ تھا کہ بالآخر دونوں میدانوں میں متوازی ترقی ہو ۔جیسا کہ حضور نے ۲۶ ؍جون کے خطبہ جمعہ میں گیمبیا کے حوالے سے ارشاد فرمایا :
’’اور میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر گیمبیا میں مثلاًچار ہیلتھ سینٹر کھل جائیں تو ہم وہاں ہر سال ایک نیا ہائی سکول کھول سکتے ہیں۔ہم نے ان دونوں میدانوں میں متوازی طور پر بڑی سرعت کے ساتھ آگے بڑھنا ہے لیکن وہاں پہلے طبی امداد کے مراکز کھلنے چاہئیں۔دوست اپنے نام پیش کریں اور محمد اسمٰعیل صاحب منیر جو متعلقہ کمیٹی کے سیکر ٹری مقرر کیے گئے ہیں وہ مطلوبہ کوائف کے متعلق اخبار میں اعلان کرائیںاور بار بار اعلان کرائیں۔میرے خیال میں ہمارے احمدی ڈاکٹروں کی ایک مجلس بھی ہے اس کی میٹنگ بھی بلائیں اور پھر انہی کے سپرد کر دیں کہ سب کے کوائف کو مدِ نظر رکھ کر منتخب کریں کہ کون زیادہ موزوں ہے ؟‘‘(۸)
یہ بات بھی بہت اہم تھی کہ جو ڈاکٹر وہاں جائیں انہیں احساس دلایا جائے کہ وہ ایک عام ڈاکٹر کی حیثیت سے وہاں نہیں جا رہے بلکہ جماعت ِ احمدیہ کے مشنری ڈاکٹر کی حیثیت سے وہاں جا رہے ہیں اور انہیں اس کے لئے مطلوبہ اعلیٰ معیار حاصل کرنا ہو گا۔۳۰ ؍اگست ۱۹۷۰ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے احمدی ڈاکٹروں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا جو مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر بڑا مخلص ہونا چاہئے اور بڑا دعا گو ہونا چاہئے کیونکہ اس وقت ہمارا عیسائیوں سے سخت مقابلہ ہے وہ بہت پیسہ خرچ کرتے ہیں۔جو چیز بڑی ضروری ہے وہ اخلاص ہے اور عادتِ دعا ہے اس کے بغیر تو ہمارا ڈاکٹر وہاں کام نہیں کر سکتا ۔اگر ڈاکٹر میں اخلاص نہیں ہو گا ،تو وہ ہمارے لیے پرابلم بن جائے گا اگر وہ دعا گو نہیں ہو گا تو وہ اپنے مریض کے لیے پرابلم بن جائے گا۔حضور ؒ نے ارشاد فرمایا کہ اس سکیم کے تحت ڈاکٹر صاحبان کے لیے ضروری نہیں کہ وہ پوری زندگی کے لیے وقف کریں ۔انہیں اختیار ہو گا کہ تین سے چھ سال کے لیے وقف کریں اور اگر چھ سال کے لیے وقف کریں تو یہ بہتر ہے اور عمومی طور پر اگر ساری عمر کا وقف کریں تو زیادہ موجبِ ثواب ہے۔اور جماعت کے نئے میڈیکل سینٹروں کے لیے حضور ؒ نے یہ اصولی ہدایت دی کہ ایسی کوئی سکیم نہ بنائیں کہ ہمارے کندھے اس کا بوجھ نہ برداشت نہ کر سکیں۔اور اس ضمن میں کاعور (گیمبیا) میں کام کرنے کیلئے مکرم ڈاکٹر سعید صاحب کا ذکر فرمایا کہ انہیں کلینک کی ابتدا کے لیے پانچ سو پونڈ دیئے گئے تھے اور بعد میں جب کلینک نے ترقی کی تو اس کو وسعت د ے دی گئی تھی۔ حضور ؒ نے فرمایا کہ ہمارے میڈیکل سینٹر کا جو ڈاکٹر ہے لوگ اسے مبلغ بھی سمجھتے ہیں۔اس لیے آپ کو وہاں جانے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں اچھی طرح پڑھنی ہوں گی۔
مغربی افریقہ کے جن چھ ممالک میں مجلس نصرت جہاں نے کام کرنا تھا ،انہیں بھی مرکز کی طرف سے یہ ہدایت بھجوائی گئی کہ وہ طبی ادارے اور سکول قائم کرنے کے لئے اپنے ممالک میں سکیمیں تیار کر کے مرکز بھجوائیں۔اور یہ بھی مسئلہ تھا کہ جو چندہ اس سکیم کے لئے جمع ہو گا اسے کس طرح استعمال کیا جائے۔ابھی چندہ جمع کرنے کا کام شروع ہوا تھا اور پوری رقم بھی جمع نہیں ہوئی تھی۔اور یہ بات بھی ظاہر تھی کہ اگر جماعت کو تسلسل کے ساتھ ان چھ ممالک میں ہسپتال اور سکول کھولنے ہیں تو ہر سال خاطر خواہ رقم نئے اداروں کے قیام اور تعمیر پر خرچ کرنی پڑے گی۔اور مجلس نصرت جہاں کا چندہ کوئی مستقل چندہ تو نہیں تھا ۔تین سال کے بعد اس میں وصولی ختم ہو جانی تھی۔اس سے کچھ سال قبل فضلِ عمر فاؤنڈیشن کا چندہ بھی محدود مدت کے لئے جمع کیا گیا تھا ۔اور فضلِ عمر فاؤنڈیشن کے مقاصد کی تکمیل کے لئے اس رقم کو کاروبار میں لگا دیا گیا تھا اور جو آمد ہوتی تھی اسے مختلف پراجیکٹوں پر خرچ کیا جاتا تھا۔جب نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کا چندہ جمع ہونا شروع ہوا تو بہت سے بزرگان نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو مشورہ دیا کہ اگر اس رقم کو براہِ راست نئے ہسپتال اور اسکول بنانے کے لئے استعمال کیا گیا تو یہ رقم تو ختم ہو جائے گی ،پھر اس کے بعد کام کیسے چلایا جائے گا ۔اس لئے مناسب یہی ہے کہ اس رقم کو کاروبار پر لگا دیا جائے اور جو آمد ہو وہ ہسپتالوں اور سکولوں پر خرچ کی جائے۔مگر حضور ؒ نے جواب دیا کہ میں تو اس ہستی سے کاروبار کروں گا جو بے حساب عطا کرتی ہے۔ اور اس رقم کو براہِ راست نئے منصوبوں پر لگانا شروع کر دیا ۔اللہ تعالیٰ نے اس فیصلہ میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ با وجود جماعت کے ہسپتالوں میں غریبوں کی ایک بڑی تعداد کا مفت علاج کیا جاتا تھا اور یہ ہسپتال زیادہ تر غریب علاقوں میں قائم کئے گئے تھے مگر پھر بھی دور دور سے صاحبِ حیثیت لوگ بھی ان ہسپتالوں کی شہرت سن کر علاج کے لئے آنے لگے اور یہ لوگ آمد کا ذریعہ بن گئے۔یہ آمد انہی ممالک کے غربا پر اور انہی ممالک میں قائم کردہ سکولوں پر اور نئے ہسپتالوں کو بنانے اور ان کو وسعت دینے اور نئی طبی سہولیات مہیا کرنے پر اور دیگر کاموں پرخرچ کی جانے لگی۔ ۱۹۷۰ء کے وسط میں اس سکیم کا آ غاز ہوا تھا۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ دسمبر ۱۹۷۲ء تک نئے منصوبوں اور ریزرو فنڈ میں موجود مالی وسائل کی پوزیشن کیا تھی ۔اللہ تعالیٰ کے ان احسانوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے۱۹۷۲ء کے جلسہ سالانہ میں ارشاد فرمایا:
’’۱۹۷۰ء میں میں نے مغربی افریقہ کا دورہ کیا ۔میں گیمبیا میں تھا جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ کہا گہا کہ کم از کم ایک لاکھ پونڈ ان ملکوں میں اشاعتِ اسلام کی مہم کو تیز کرنے کے لیے خرچ کرو ۔میں بڑا خوش ہوا ۔اور اللہ تعالیٰ کی بڑی حمد کی ۔اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو گیا کہ اس نے بڑی مہربانی کی ہے۔۔۔۔۔۔
اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے ہماری حقیر قربانیوں کو قبول فرما کر ہم پر کیا کیا فضل نازل فرمائے۔ مخلصینِ پاکستان اس وقت تک نصرت جہاں ریزرو فنڈ میں ستائیس لاکھ بیس ہزار تین سو نوے روپے کے وعدے کر چکے ہیں ۔جب کہ بیرونِ پاکستان وعدے پاکستانی سکہ میں اکتیس لاکھ بیس ہزار آٹھ سو روپے ہیں۔یعنی بیرونی ممالک مجموعی طور پرپاکستان سے آگے نکل گئے ہیں۔اس رقم میں ابھی وہ زائد وعدے جو انگلستان میں دوستوں نے کیے ہیں وہ شامل نہیں ۔اس طرح کل وعدے ۵۸ لاکھ سے اوپر جا چکے ہیں۔میں نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت کے پیشِ نظر ۵۱ لاکھ کی خواہش کی تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے جماعت کو بڑی ہمت عطا فرمائی ۔دوستوں نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا چنانچہ ۵۱ لاکھ کی بجائے ۵۸ لاکھ کے وعدے ہو چکے ہیں۔اس تحریک میں حصہ لینے والے۳۲۸۲ پاکستان سے اور بیرونی ممالک میں حصہ لینے والے ۲۰۱۱ دوست ہیں ۔ پندرہ دسمبر۱۹۷۲ ء تک وصولی کا نقشہ حسبِ ذیل ہے ۔
پاکستان میں ۱۷۷۸۸۳۴ روپے یعنی قریباََ اٹھارہ لاکھ روپیہ وصول ہو چکا ہے ۔بیرون پاکستان میں پندرہ لاکھ روپیہ جمع ہو چکے ہیں۔اندرونِ اور بیرونِ پاکستان کی مجموعی رقم جو وصول ہو چکی ہے ۳۲۶۷۴۴۸ روپے بنتی ہے ۔ابھی وصولی کا زمانہ ختم نہیں ہوا۔جتنی رقم فضلِ عمر فاؤنڈیشن میں جماعت نے دی تھی ۔اس سے زاید رقم جمع ہو چکی ہے ۔یعنی فضلِ عمر فاؤنڈیشن کی جو نقد رقم وصول ہوئی تھی وہ ۳۰۷۷۵۸۰ روپے تھی ۔جب کہ نصرت جہاں ریزرو فنڈ کی وصولی ۳۲ لاکھ سے زیادہ ہے ۔الحمد للہ علی ذلک ۔
سورۃ فاطر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ مومن خدائی راہ میںاپنے اموال خرچ کر کے گویا اللہ تعالیٰ سے ایسی تجارت کرتے ہیں جن میں نقصان کا کوئی اندیشہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بہت زیادہ نفع بھی دیتا ہے۔ چنانچہ جماعت نے جو رقم دی وہ بھی گو اللہ تعالیٰ سے تجارت کے مترادف ہے۔لیکن جب وہ رقم ہمارے پاس آئی تو میں نے سوچا کہ اس رقم سے بندوں سے تجارت کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے تجارت کی جائے۔یعنی انفرادی حیثیت میں بھی وہ ایک تجارت ہے۔قرآن کریم نے بھی اس کا نام تجارت رکھا ہے ۔اور یہ ایک ایسی تجارت ہے جس میں پیسے کے ضا ئع ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے ۔نفع کی بعض شکلیں ہیں جن کا ضائع ہونے کا تو کوئی خطرہ نہیں لیکن جن کے جائز ہونے کا کوئی سوال نہیں ہے۔ لیکن جو تجارت ہے اس میں دونوں چیزیں ساتھ لگی ہوئی ہیں۔اس میں نفع بھی ملتا ہے اور بعض دفعہ نقصان بھی اُ ٹھانا پڑتا ہے۔پیسے بھی ضائع ہو جاتے ہیں ۔یعنی سرمایہ بھی جاتا رہتا ہے۔لیکن روحانی دنیا میں انسان اللہ تعالیٰ سے ایسی تجارت کرتا ہے جس میں کی رو سے گھاٹا نہیں پڑتا ۔جس میں پیسے ضائع ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا اس کے علاوہ جو عام نفع ہے وہ بھی ملتا ہے۔ پس فرمایا یعنی عام معمول کے مطابق جو نفع ہوتا ہے وہ بھی تمہیں اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا۔ لیکن وہ اسی پر بس نہیں کرے گا۔دنیا میں dividend دینے والی جو کمپنیاں ہیںوہ کوئی پانچ فیصدی کوئی آٹھ فیصدی کوئی دس فیصدی کوئی بارہ فیصدی یا زیادہ سے زیادہ پندرہ فیصدی نفع دینے کا اعلان کرتی ہیں۔لیکن خدا تعالیٰ نے فرمایا۔ یہ بھی میں دوں گا ۔اس کے علاوہ جو بندوںکا معمول نہیں اور جو نفع دینے کا میرا معمول ہے وہ بھی میں دوں گا ۔اگر تمہارا اخلاص غیر معمولی اخلاص ہو گا تو میری طرف سے تمہارے اموال میں غیر معمولی زیا دتی بھی ہو گی۔ میں تمہیں بہت زیادہ مال دوں گا۔ پس اس آیت کا میرے دماغ پر اثر تھا۔چنانچہ جب یہ رقمیں جمع ہونی شروع ہوئیں تو ایک موقع پر مکرم و محترم چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے میرے پاس آکر بڑے اخلاص سے اور بڑے پیار سے اور بڑے اصرار کے ساتھ یہ کہا کہ آپ کے پاس نصرت جہاں ریزرو فنڈ کی جو رقم آرہی ہے۔یہ آپ خرچ کردیں گے تو سرمایہ کم ہو جائے گا ۔اس واسطے جس طرح ہم نے فضلِ عمر فاؤنڈیشن میں کیا ہے اسی طرح آپ بھی کریں ۔فضلِ عمر فاؤنڈیشن کو نفع مند کاموں پر پیسے لگانے کا کافی تجربہ ہو چکا ہے۔اگر آپ چاہیں تو ہماری خدمات سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔جمع شدہ رقم تجارت پر لگا دیں ۔اس سے جو فائدہ حاصل ہو اس کو اپنی سکیم پر خرچ کریں۔اسی طرح مکرم کرنل عطا ء اللہ خان صاحب جو فاؤنڈیشن کے وائس چیئر مین ہیںانہوں نے بھی مجھے یہ مشورہ دیا ۔میں نے کہا کہ چوہدری صاحب مکرم !جن کمپنیوں میں آپ یہ رقم لگائیں گے ،وہ مجھے آٹھ فیصد یا دس فیصد یا بارہ فیصد یا زیادہ سے زیادہ پندرہ فیصد نفع دیں گی۔میں نے بھی ایک تجارت سوچی ہے ۔جس کے ساتھ میں تجارت کرنا چاہتا ہوں وہ مجھے سو فیصدی سے بھی زیادہ نفع دے گا۔ چنانچہ میں نے اپنے ربِ کریم پر پورا بھروسہ رکھتے ہوئے وہ تمام سرمایہ جو آپ کی طرف سے میرے ہاتھ میں دیا گیا تھا ’’نصرت جہاں سکیم ‘‘ پر خرچ کردیا اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے میںخرچ کرتا گیا۔یہاں سے ڈاکٹر بھیجے ۔جن میں سے اکثر بیوی بچوں سمیت بھجوائے گئے تاکہ ان کا وہاں دل لگا رہے اور وہ ٹھیک طرح سے کام کر سکیں ۔ ایک ڈاکٹر اور ان کے خاندان پر صرف کرائے کے طور پر دس دس پندرہ پندرہ ہزار روپے خرچ آئے ۔اس کے علاوہ سکول ٹیچر بھجوائے گئے جن میں سے بعض کے بیوی بچے بھی ساتھ بھجوائے گئے جو سامان ہم ان کو باہر سے بھجوا سکتے تھے وہ بھی بھجوایا یعنی کچھ یہاں سے کچھ غیر ملکوں نے دیا ہوا ہے۔وہ سب ان کو بھجوایا گیا۔اس عرصہ میں ایک لمحہ کے لیے بھی میرے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ میں پیسے خرچ کر رہا ہوں۔ختم ہو جائیں گے تو اور پیسے کہاں سے آئیں گے۔چنانچہ ہر ہفتے خرچ کی جو رپورٹیں میرے پاس آتی ہیں میں ان کو ایک دن دیکھ رہا تھا کہ اچانک میری توجہ اس طرف پھیری گئی کہ پاکستان میں اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو تسلی دلانے کے لیے دس لاکھ روپے کا ریزرو بنا دیا ہے الحمد للہ اور میرا کوئی خرچ ایسا نہیں جو میرے اصل سرمائے کو دس لاکھ سے نیچے لے آئے۔ثم الحمد للہ اور اسی طرح غیر ممالک میں میرا کوئی ایسا خرچ نہیں جو میرے اس ریزرو کو وہاں کے لحاظ سے پندرہ ہزار پونڈ سے نیچے لے آئے ۔یعنی اگر کسی ایک مہینے میں یا دو مہینے میں ایک لاکھ روپیہ بھی خرچ کیا اور فی الواقعہ خرچ کیا ہے مثلاََ قرآنِ کریم خرید ے گئے یا دوسرے اخراجات کرنے پڑے تب بھی اگر دس لاکھ سے رقم ایک ہزار روپے کم ہو گئی تو بڑی جلدی ہی دس لاکھ سے اوپر چلی گئی۔ایک تو یہ چیز ہے جو میرے مشاہدہ میںآئی ۔اللہ تعالیٰ اس طرح فضل کرنے والا ہے چنانچہ میں اور بھی دلیر ہو گیا ۔ چنانچہ میں نے خرچ کیا اور خدا کے نام پر اور اس کی مخلوق کو فائدہ پہنچا نے کے لیے دل کھول کر خرچ کیا۔ ہم نے وہاں جو طبی مراکز اور تعلیمی ادارے کھولے ( زیادہ تر طبی مراکز تھے ) ان سے اللہ تعالیٰ نے پتہ ہے کیا نفع دیا؟ہم نے ان کے اجرا پر اپنے سرمایہ سے ۱۶ اور ۱۵ لاکھ کے درمیان خرچ کیا تھا ۔اللہ تعالیٰ نے اس رقم پر ان اداروں کی بدولت ہمیں پینتیس لاکھ سولہ ہزار چھ سو پینتیس روپے نفع دیا۔الحمد للہ
فضلِ عمر فاؤنڈیشن نے اپنا سرمایہ دنیا کی تجارت میں لگایا اور دنیا کے معمول کے مطابق ان کو سات سال میں ۸ لاکھ روپیہ نفع ملا ۔اور ہم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک تجارت کی اور اس پر کامل بھروسہ کیا اور اس کی مخلوق کی خدمت میں پیسے کے لحاظ سے کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی اور نہ ہمارے دل میں کوئی خوف پیدا ہوا ۔چنانچہ وہ جو سارے خزانوں کا مالک ہے اس نے صرف پندرہ مہینے کی کوشش میں (سات سال نہیں) ۳۵ لاکھ سے زائد ہمیں نفع عطا فرمایا۔ ہمارا سرمایہ بھی محفوظ ہو گیا اور خدمت کے کام بھی جاری ہو گئے۔ ہم نے پھر یہ نفع اپنے پاس تو نہیں رکھنا تھا۔چنانچہ ہم نے ۳۵ لاکھ میں سے ۳۰ لاکھ کی رقم وہاں کے اداروں (طبی مراکز اور تعلیمی اداروں) پر خرچ کر دی ۔اس وقت ۱۶ ہیلتھ سینٹرز مغربی افریقہ کے چار ملکوں میں کام کر رہے ہیں۔اور گیارہ ہائر سکینڈری سکولز یعنی انٹر میڈیٹ کالجز کام کر رہے ہیں۔ ان کے اوپر ہم نے ایک لاکھ روپیہ خرچ کیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں ۳۵ لاکھ کا نفع پہنچایا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا پورا سرمایہ محفوظ ہے۔تیس لاکھ روپے ان ممالک میں آپ نے خرچ کیے اور نفع میں سے ۵ لاکھ سے زیادہ آپ کے پاس محفوظ ہے اور اس پر کوئی زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا۔ صرف پندرہ مہینوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ فضل فرمایا ہے۔ پس فرق ہے جو تجارت میں رونما ہوا۔ اللہ تعالیٰ بڑافضل کرنے والا اور بڑا پیار کرنے والا ہے ۔ہمیں اس کا شکر کرنا چاہئے۔‘‘(۹)
اب ہم ملک وار جائزہ لیتے ہیں کہ نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے شروع ہونے کے بعد ابتدائی سالوں میں مختلف ممالک میں کس طرح جماعت کی طبی اور تعلیمی خدمات میں تیزی سے اضا فہ ہوا۔
غانا
اس سکیم کے اجراء سے قبل غانا میں جماعت کا کوئی طبی ادارہ موجود نہیں تھا۔لیکن حالات کا تقاضا تھا کہ یہاں پر خدمت کے میدان میں تیزی سے قدم آ گے بڑھایا جائے۔جب حضور ؒ کے ارشاد پر احمدی ڈاکٹروں نے وقف کرنا شروع کیا تو صرف نوجوان اس تحریک میں حصہ نہیں لے رہے تھے بلکہ بڑی عمر کے ڈاکٹر صاحبان بھی احمدیت کی خاطر افریقہ جانے کے لئے تیار تھے۔ان خوش نصیبوں میں مکرم بر گیڈیئر ڈاکٹر غلام احمد صاحب بھی تھے۔آپ مجلس نصرت جہاں کے تحت افریقہ جانے والے پہلے ڈاکٹر تھے۔ انہوں نے غانا کے گاؤں کوکوفو میں جا کر ڈیرہ لگایا اور یہاں پر جماعت کا ہسپتال کھولنے کے لئے انتھک محنت کا آ غاز کیا۔پہلے انہیں اکرا میں ہسپتال کھولنے کے لیے بھجوایا گیا تھا مگر جب ڈاکٹر صاحب نے غانا جا کر حالات کا جائزہ لیا تو حضور کی خدمت میں تحریر کیا کہ اکرا کی بجائے کسی اور مقام پر ہسپتال کھولنا مناسب ہو گا۔انہوں نے جب ارد گرد کے علاقہ میں جائزہ لے کر رپورٹ بھجوائی تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ امیر صاحب سے مشورہ کر کے جس مناسب جگہ کا انتخاب ہو وہاں کام شروع کر دیں۔یہاں پر ہسپتال کی تعمیر کے لئے مقامی پیرا ماؤنٹ چیف صاحب نے ایک قطعہ زمین کا عطیہ دیا تھا اور عارضی طور پر ہسپتال کھولنے کے لیے ایک عمارت بھی مہیا کی تھی۔ابتدائی انتظامات مکمل ہونے پر یکم نومبر ۱۹۷۰ء کو اس ہسپتال کا افتتاح کیا گیا۔تقریب میں تین پیرا ماؤنٹ چیف صاحبان ،اعلیٰ سرکاری افسران اور دیگر اہم شخصیات کے علاوہ تقریباََ تین ہزار افراد نے شرکت کی۔جلد ہی دور دور سے مریض اس ہسپتال میں علاج کرانے کے لئے آنے لگے۔ اس سکیم کے آ غاز میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ خود ڈاکٹروں کی راہنمائی فرماتے تھے۔اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر اخراجات پر قابو نہ پایا جائے تو رفاہِ عامہ کے کسی کام کو چلانا مشکل بلکہ نا ممکن ہو جاتا ہے۔چنانچہ ابتدائی دور میں کوکوفو سے آنے والی ایک رپورٹ پر حضور ؒ نے ارشاد فرمایا کہ اخراجات زیادہ ہو رہے ہیں ۔جبکہ اسقدر زیادہ اخراجات نہ کرنے کی صورت میں بھی کام چل سکتا ہے۔اس لیے اس معاملہ میں احتیاط برتیں اور حتی المقدور کفایت و قناعت سے کام کرنے کی کوشش کریں۔
غانا میں جماعت کا دوسرا ہسپتال آسو کورے کے مقام پر بنایا گیا ۔یہ گاؤں غانا کے اشانٹی ریجن میں واقع ہے۔یہاں پر ہسپتال قائم کرنے کی سعادت مکرم ڈاکٹر سید غلام مجتبیٰ صاحب کے حصہ میں آئی۔ہسپتال کے لیے ایک نئی تیار شدہ عمارت دو سال کے لیے جماعت کو مفت فراہم کی گئی۔اس عمارت میں ہسپتال کا آؤٹ ڈور اور وارڈ اور آپریشن تھیٹر قائم کیے گئے۔اس سے قبل اس گاؤں میں ایک بڑی جماعت قائم تھی اور سکینڈری سکول بھی موجود تھا۔۱۹۷۱ء میں ہی جب اس ہسپتال کا افتتاح ہوا اور مختلف جماعتوں سے احباب اس میں شرکت کے لیے آئے ،اعلیٰ سرکاری حکام اور ممبرانِ پارلیمنٹ بھی تقریب میں شامل ہوئے۔اس موقع پر ریڈیو اور اخبارات کے نمائندے بھی شامل ہوئے۔اس طرح یہاں پر جماعت کی طبی خدمات کا آ غاز ہوا۔اور مکرم ڈاکٹر سید غلام مجتبیٰ صاحب کو اور آپ کے بعد آپ کے صاحبزادے مکرم ڈاکٹر تاثیر مجتبیٰ صاحب کو ایک طویل عرصہ یہاں پر خدمات بجا لانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اور یہ ہسپتال سرجری کے حوالے سے خاص شہرت حاصل کر گیا ۔نہ صرف غانا سے بلکہ دوسرے ممالک سے بھی لوگ یہاں پر آپریشن کرانے کے لیے آنے لگے۔مکرم ڈاکٹر غلام مجتبیٰ صاحب نے یہاں پر ایک مسجد بھی تعمیر فرمائی جس کا ذکر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۱۹۷۲ء کے جلسہ سالانہ میں ۲۷ دسمبر کی تقریر میں فرمایا تھا۔
غانا میں تیسرا ہسپتال سویڈرو کے شہر میں قائم ہوا۔یہ شہر غانا کے سینٹرل ریجن میں واقع ہے۔اس کا افتتاح ۱۸ نومبر ۱۹۷۱ء کو پاکستان کے سفیر مکرم ایس ۔اے۔ سعید صاحب نے کیا ۔تقریب کی صدارت مکرم محاما ثانی صاحب نائب وزیرِ زراعت نے کی جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی تھے۔ باقاعدہ افتتاح سے کچھ ماہ قبل یہ ہسپتال کام شروع کر چکا تھا۔اس ہسپتال کے بانی ڈاکٹر مکرم ڈاکٹر آفتاب احمد صاحب تھے۔اس ہسپتال کو بھی اپنے آ غاز کے اگلے سال مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔یہاں پر کیتھولک پادری ہسپتال کی مخالفت کر رہے تھے۔ایک بنگالی ہندو میڈیکل ڈائریکٹر نے ہسپتال کے آپریشن تھیٹر کے معیار پر سخت تنقیدی رپورٹ لکھی جس کے نتیجے میں وزارتِ صحت نے ہسپتال بند کرنے اور اجازت نامہ منسوخ کرنے کا حکم جاری کیا مگر پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ رکاوٹیں دور ہو گئیں اور یہ ہسپتال دوبارہ جاری ہو گیا اور اب تک یہ ادارہ اہلِ غانا کی خدمت کر رہا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فیصلہ فرمایا تھا کہ جماعت کا ایک ہسپتال غانا کے شہر ٹیچیمان میں بھی کھولا جائے گا۔یہاں پر دو عیسائی مشنوں کے ہسپتال بھی موجود تھے۔لیکن اس شہر کی مرکزی پوزیشن کی وجہ سے حضور ؒ نے یہاں پر جماعتی ہسپتال کھولنے کا فیصلہ فرمایا۔بعض احباب کا خیال تھا کہ یہاں عیسائی مشنوں کی طرف سے دباؤ پڑے گا اور حکومت اس ہسپتال کو روک لے گی ۔جس سے جماعت کی سبکی ہو سکتی ہے۔اور بعض احباب نے حضور ؒ کی خدمت میں لکھا کہ اس کی بجائے کسی اور جگہ پر ہسپتال کھولنا مناسب ہو گا۔ لیکن حضور ؒ نے یہیں پر ہسپتال کھولنے کا فیصلہ فرمایا اور یہاں کے لئے مکرم ڈاکٹر بشیراحمد خان صاحب کو بھجوایا گیا۔پہلے یہاں کے عیسائی ہیلتھ آفیسر نے جماعت کے حق میں اچھی رپورٹ دی مگر پھر یہ صاحب رخصت پر چلے گئے اور ان کی جگہ جو افسر مقرر ہوئے وہ بہت متعصب تھے ،انہوں نے زور دیا کہ جماعت احمدیہ کو یہ ہسپتال نہ کھولنے دیا جائے ،اس کے علاوہ بعض عیسائی ڈاکٹروں نے بھی مخالفت شروع کی اور معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ۔غانا جماعت کی طرف سے حضورؒ کی خدمت میں لکھا گیا کہ یہ رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے ۔حضور ؒ نے انہیں تسلی دی گھبراتے کیوں ہو اللہ تعالیٰ فضل کرے گا۔اور حکومت نے بھی کہا کہ فی الحال یہ ڈاکٹر پریکٹس شروع کر سکتا ہے۔مکرم ڈاکٹر صاحب کے حسنِ کارکردگی سے ہر سطح کے آدمی پر اچھا اثر ہوا اور بالآخر حکومت نے با قاعدہ ہیلتھ سینٹر کے اجراء کی اجازت دے دی اور ۲۶ ستمبر ۱۹۷۱ء کو با ضابطہ طور پر افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔اس ہسپتال کے افتتاح میں احمدی احباب کے علاوہ بہت سے غیر از جماعت احباب نے بھی شرکت کی، ان میں ٹیچیمان کے پیرا ماؤنٹ چیف اور ملک کے وزیر برائے سماجی بہبود بھی شامل تھے(۱۰)۔یہ ہسپتال اب تک ٹیچیمان کے علاقہ کی خدمت کر رہا ہے۔
سیرالیون
سیرالیون میں نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے تحت پہلا میڈیکل سینٹر جورو(Joru) کے مقام پر کھلا۔یہ گاؤں کینیما(Kenema) ڈسٹرکٹ میں ہے۔اس کا آ غاز ۵ جون ۱۹۷۱ء کو ہوا۔اور اس کو شروع کرنے کی سعادت مکرم ڈاکٹر محمد اسلم جہانگیری کے حصے میں آئی۔اس روز پورے گاؤں میں میلے کا سا سماںتھا اور وہاں لوگ اپنی روایتی طرز کے مطابق ہر طرف ٹولیوں میں ناچ رہے تھے اور اپنے روایتی ساز بجا رہے تھے۔اخباری نمائندے اور فوٹو گرافر بھی پہنچے ہوئے تھے۔میڈیکل سینٹر کا افتتاح ملک کے وزیرِ صحت نے کیا ۔تقریب کی صدارت سیرالیون کے نیشنل پریذیڈنٹ مکرم چیف گمانگا صاحب نے کی۔جورو کے میڈیکل سینٹر کو ایک ایسی عمارت میں شروع کیا گیا تھا جو علاقہ کے لوگوں نے دو سال کے لیے پیش کی تھی۔اور دس ایکڑ کی اراضی بھی نئی عمارت کی تعمیر کے لیے تحفہ کے طور پر دی گئی تھی۔اور اس کے قیام کے سلسلہ میں علاقہ کے پیرا ماؤنٹ چیف صاحب نے بھرپور تعاون کیا تھا۔لیکن یہ میڈیکل سینٹرنا مناسب جگہ کی وجہ سے کوئی خاطر خواہ کا رکردگی نہ دکھا سکا ۔اس لیے اسے چند سالوں کے بعد بند کر دیا گیا۔
سیرالیون میں جماعت کا ایک اور ہسپتال بو آجے بو کے مقام پر قائم کیا گیا۔یہاں پر محترم ڈاکٹر امتیاز احمدصاحب کو بھجوایا گیا۔آپ ایک ماہر سرجن ہیں۔انہوں نے ۴ جون ۱۹۷۱ء کو یہاں پر کام شروع کیا لیکن کلینک کا با ضابطہ افتتاح ۳؍ جولائی کو عمل میں آیا۔ افتتاح کی تقریب میں ممبرانِ پارلیمنٹ اور پیراماؤنٹ چیف صاحبان اور دوسرے احباب کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی ۔اس کا افتتاح ملک کے وزیرِ صحت سی پی فورے نے فرمایا۔ریڈیو اور اخبارات نے اس افتتاح کی خبر کو خاص اہمیت دی۔چار کمروں کے ایک گھر میں کلینک شروع کیا گیا تھا۔ایک کمرے میں آپریشن تھیٹر تھا ،باقی دو کمرے بھی مریضوںکے لئے استعمال ہوتے تھے۔ایک کمرے میں ڈاکٹر صاحب کی رہائش تھی۔یہ سلسلہ چار سال تک چلتا رہا۔اس دوران ہسپتال کی وسیع و عریض عمارت مکمل ہوئی اور اگست ۱۹۷۵ء کو ہسپتال نئی عمارت میں منتقل ہو گیا۔اس ہسپتال کے بانی ڈاکٹر مکرم ڈاکٹر امتیاز احمد صاحب اتوار کے روز ایک گاؤںBlama میں بھی کلینک چلاتے رہے۔یہ ہسپتال مارچ ۱۹۹۴ء میں سیرالیون میں خانہ جنگی کے دوران بند ہو گیا اور پھر اسے جاری نہیں کیا جا سکا۔(۱۱)
سیرالیون میں جماعت کا تیسرا ہسپتال روکو پور (ضلع کامبیا )کے مقام پر قائم کیا گیا۔یہاں پر پہلے ڈاکٹر مکرم سردار محمد حسن صاحب تھے۔اس کا افتتاح ۴ دسمبر ۱۹۷۱ء کو ہوا۔یہاں کے ممبر پارلیمنٹ اور دوسری با اثر سیاسی شخصیات نے پہلے تو بہت تعاون کا وعدہ کیا مگر پھر تعاون سے گریز کرنا شروع کر دیا۔ایک بوسیدہ عمارت جماعت کو ڈسپنسری کے لیے کرائے پر ملی ۔اس پر جماعت نے رقم خرچ کر کے اسے قابلِ استعمال بنایا ۔اپنی زمین خرید کر عمارت بنانے کا منصوبہ بنایا گیا تو اس کی راہ میں یوں روڑے اٹکائے گئے کہ ایک ایسی زمین جماعت کو پیش کی گئی جو با لکل غیر ہموار تھی اور اس پر اگر عمارت تعمیر کی جاتی توبہت زیادہ خرچ پڑتا تھا۔جماعت یہاں پر زمین لے کر سکول بنانا چاہتی تھی۔ایک شخص نے جماعت کو زمین بیچنے کی حامی بھری ۔اس پر یہاں کی با اثر شخصیت نے مقدمہ کر دیا اور صاف کہنا شروع کیا کہ جاؤ اپنے خدا سے زمین لو۔مگر ان رکاوٹوںکے با وجود لوگ بڑی تعداد میں مکرم ڈاکٹر حسن صاحب کی شہرت سن کر آنے لگے اور انہیں علاقے میں فرشتہ کے نام سے پکارا جانے لگا ۔۱۹۷۳ء کے آخر میں ہسپتال کی نئی عمارت کی تعمیر شروع کی گئی۔ یہ میڈیکل سینٹر ابھی تک کام کر رہا ہے۔
سیرالیون میں جماعت کا چوتھا ہسپتال مسنگبی (Masingbi) کے مقام پر کھولا گیا ۔اس میڈیکل سینٹر نے ۱۹۷۲ء میں کام شروع کیا ۔اور یہاں کے پہلے ڈاکٹر مکرم ڈاکٹر طاہر محمود صاحب اور آپ کی اہلیہ مکرمہ ڈاکٹر کوثر تسنیم صاحبہ تھیں۔اس ہسپتال نے جلد ترقی کی ۔ابتداء میں حکومت نے ایک ڈسپنسری کی عمارت جماعت کو کلینک شروع کرنے کے لئے دی تھی اور ڈاکٹر صاحب کی رہائش کا مکان کرائے پر لیا گیا تھا۔۱۹۷۵ء میںہسپتال نئی تعمیر شدہ عمارت میں منتقل ہو گیا اور مریضوں کو انڈور کی سہولت میسر آئی۔مکرمہ ڈاکٹر کوثر تسنیم صاحبہ نے یہاں پر میٹرنٹی کلینک قائم کیا جس نے یہاں کی عورتوں کی بہت خدمت کی۔
سیرالیون میں جماعت کے طبی ادارے غریب علاقوں میں کھولے گئے تھے۔اور یہاں کے اکثر لوگ علاج کے معمولی اخراجات ادا کرنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے تھے۔مشن اورجماعت کے مالی وسائل بھی بہت محدود تھے اور زیادہ مالی بوجھ کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ان حالات سے قدرے پریشان ہو کر سیرالیون سے ایک وقف ڈاکٹر صاحب نے حضورؒ کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی کہ یہاں پر خدمت کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے چونکہ حکومت کو اپنی ڈسپنسریوں پر کام کرنے کے لئے ڈاکٹر نہیں ملتے تو حکومت سے بات چیت کر کے وقف ڈاکٹر صاحبان ان ڈسپنسریوں میں ملازمت شروع کر دیں۔اور بعض مقامات کا ذکر کر کے عرض کیا کہ چونکہ یہاں پر جماعت کے میڈیکل سینٹر ز کے قریب ہی گورنمنٹ کی ڈسپنسریاں ہیں ۔اس لیے حکومت سے بات چیت کی جا سکتی ہے کہ جہاں پر جماعت کا ہسپتال ہو حکومت وہاں کی بجائے کہیں اور پر ڈسپنسری کی سہولت مہیا کرے۔چونکہ جماعت کے پیشِ نظر خدمت کے وہ اعلیٰ مقاصد ہوتے ہیں جو حکومت کے تحت کام کرنے سے پورے نہیں ہوسکتے ۔اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے انہیں تحریرفرمایا:
’’ آپ خدمت کیلئے گئے ہیں ۔اور شیطان کا کام ہے وسوسے پیدا کرتا ہے۔لاحول اور استغفار بہت کریں ۔آمد کم ہو تو بھی فرق نہیں پڑتا۔ خدمت پوری ہونی چاہیے۔پیار اور اخوت کے جذبہ کے تحت آپ خدمت کریں گے تو دوسری سب ڈسپنسریاں ناکام ہو جائینگی اور آپ ہی کامیاب ہونگے۔اس لئے ادھر اُدھر کے خیالات میں نہ پڑیں اور وقف کی روح کو سمجھیں اور کام کئے جائیں ۔دولت بھی انشاء اللہ دے گا مگر وہ اصل مقصد نہیں ۔حکومت کی نوکری نہیں کرنی ،آپ نے نہ کسی اور نے۔‘‘
گیمبیا
نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے اجراء سے قبل ہی ۱۹۶۸ء میں یہاں پر کاعور (Kaur)کے مقام پر جماعت کا کلینک کام کر رہا تھا۔اور اس کلینک کو مکرم ڈاکٹر سعید احمد صاحب چلا رہے تھے۔مکرم ڈاکٹر صاحب نے مقامی طور پرقرض لے کر یہ کلینک شروع کیا تھا۔اور ابتدائی طور پر اس نے تین کچے کمروں میں کام شروع کیا تھا۔ اور جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۱۹۷۰ء میں مغربی افریقہ کا دورہ فرمایا تو یہ کلینک اتنی بچت کر چکا تھا کہ اس سے اہلِ گیمبیا کے لئے ایک سکینڈری سکول شروع کیا جا سکے۔
جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۱۹۷۰ء میں مغربی افریقہ کا تاریخی دورہ فرمایا تو گیمبیا میں قیام کے دوران حضور نے یہاں کے وزیرِ صحت اور وزیرِ تعلیم سے بھی ملاقات فرمائی ۔اور حضور ؒ نے خود بھی یہاں کے حالات کا جائزہ لیا۔اس دورہ میں حضور ؒ نے فیصلہ فرمایا کہ یہاں کے دارالحکومت باتھرسٹ (موجودہ بانجل ) میں ایک ٹی بی کلینک اور ایک ڈینٹل کلینک قائم کیا جائے۔حضورؒ کے ارشاد کے تحت مکرم ڈاکٹر انوار احمد خان صاحب نے ڈاڈر کے ٹی بی سینیٹوریم میں ٹریننگ حاصل کی اور زندگی وقف کر دی۔ Picton Streetباتھرسٹ میں ایک چھوٹی سی عمارت کرائے پر حاصل کرکے اگست ۱۹۷۱ء میں نصرت جہاں ٹی بی اینڈ میڈیکل سینٹر کا آ غاز کیا گیا۔اسی سال جرمنی کے مشن کے توسط سے یہاں پر ایکس رے پلانٹ اور لیبارٹری کا سامان بھی پہنچ گیا۔اس ہسپتال نے جلد ترقی کی اور آخر کار اس کی اپنی وسیع عمارت تعمیر کی گئی اور یہ ادارہ اب تک اہل گیمبیا کی خدمت کر رہا ہے۔ ۱۹۸۲ء میں جب اس کی نئی عمارت کی تعمیر مکمل ہوئی تو ملک کے صدر داؤد کے جوارا صاحب نے اس کا افتتاح کیا۔اس طرح ۱۹۷۱ء میں باتھرسٹ میں ایک ڈینٹل سرجری بھی قائم کی گئی ۔اور طبی خدمت کی جماعتی تاریخ میں یہ پہلی ڈینٹل سرجری تھی۔ اور یہ ادارہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک وہاں کے لوگوں کی خدمت کر رہی ہے۔
گیمبیا میں جماعت کا چوتھا طبی ادارہ انجوارا میں مکرم ڈاکٹر محمد حفیظ خان صاحب نے ۱۹۷۲ء میں کھولا ۔اور جلد ہی ایک عمارت خرید کر اس میں انڈور بھی شروع کر دیا۔یہ جگہ سینیگال کی سرحد کے قریب ہے۔اس لئے اس سنٹر میں سینیگال سے مریض بھی آنے لگے۔اس کے علاوہ مکرم ڈاکٹر محمدحفیظ خان صاحب اس سنٹر کے ارد گرد مختلف سب سینٹر بھی چلاتے رہے۔یہ میڈیکل سینٹر ۱۹۸۴ء میں بند کر دیا گیا۔
جماعت نے گیمبیا میں اپنا اگلا میڈیکل سینٹر بصے کے مقام پر قائم کیا ۔یہ جگہ گیمبیا کے انتہائی شمال میںہے ۔اور اس ہسپتال کے بانی ڈاکٹر مکرم طاہر احمد صاحب تھے۔پہلے گیمبیا کی حکومت نے اس عذر کے تحت یہاں پر جماعت کو میڈیکل سینٹر کھولنے کی اجازت نہ دی کہ یہاں پر حکومت خود مکمل ہسپتال بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔لیکن بعد میں حکومت کو Contractپر بیرونِ ملک سے ڈاکٹر نہ مل سکے اور جو جرمن ڈاکٹر صاحب وہاں پر کام کر رہے تھے ان کے معاہدے کی مدت بھی ختم ہو رہی تھی۔ اس صورتِ حال میں جب حکومت سے دوبارہ رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بغیر کسی حیل و حجت کے جماعت کو وہاں پر میڈیکل سینٹر کھولنے کی اجازت دے دی۔یہ میڈیکل سینٹر ۱۹۹۷ء میں بند کر دیا گیا لیکن ۲۰۰۴ء میں اسے پھر سے جاری کیا گیا۔
نائیجیریا
نائیجیریا میں نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے اجراء سے قبل کانو اور اپاپا( لیگوس) میں جماعت کے میڈیکل سینٹر کام کر رہے تھے۔اب حضور ؒ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اس سکیم کے تحت نائیجیریا میں جماعت کے مزید کلینک کھولے جائیں۔ایک کلینک اجیبو اوڈے کے مقام پر کھولا گیا۔اور اس سکیم کے تحت نائیجیریا جانے والے سب سے پہلے ڈاکٹر، مکرم عبد الرحمن بھٹہ صاحب تھے جنہوں نے اکارے کے کلینک کا آ غاز کیا۔ جلد ہی اس کی نئی عمارت پر کام شروع ہو گیا۔اور ۱۹۷۲ء میں مکرم عبدالرحیم بکری صاحب نے اس کی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا۔یہ کلینک ۱۹۷۴ء میں بند کر دیا گیا۔
ایک نیا کلینک بکورو کے مقام پر تھا۔یہ مقام پلیٹو سٹیٹ کے صدر مقام جوس سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر تھا ۔۱۹۷۲ء میں اس کی ابتدا مکرم ڈاکٹر قاضی منور احمد صاحب نے کرایہ کی عمارت میں کی۔ عمارت کے اگلے کمرے بطور کلینک استعمال کیے گئے اور عقبی حصہ بطور رہائش استعمال ہوتا تھا۔عمارت بوسیدہ اور نا مکمل تھی۔
۱۹۷۲ء میں جماعت کا ایک نیا میڈیکل سینٹر اکارے کے قصبہ میں کھولا گیا۔یہاں کے لیے مکرم ڈاکٹر عزیز چوہدری صاحب کو مقرر کیا گیا۔اس قصبہ میں اکثریت کیتھولک عیسائیوں کی تھی ۔اور یہاں پر پہلے کیتھولک ہسپتال ہوتا تھا جو ایک سال قبل حکومت نے لے لیا تھا۔ جب یہاں پر کلینک شروع کیا گیا تھا تو مخالفت بھی شروع ہو گئی اور اکثر با اثر شخصیات نے تعاون نہیں کیا۔مکرم ڈاکٹر عزیز چوہدری صاحب نے اپنی ابتدائی رپورٹوں میں ہی لکھا کہ یہ جگہ نئے میڈکل سینٹر کے لیے موزوں نہیں ہے۔ کچھ عرصہ بعد اس میڈیکل سینٹر کو بند کر دیا گیا۔
مجلس نصرت جہاں کے تحت قائم ہونے والے ابتدائی تعلیمی ادارے
جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ جماعت احمدیہ مغربی افریقہ میں پرائمری اور سکینڈری سکولوں کے ذریعہ اہلِ افریقہ کی خدمت کر رہی تھی۔ لیکن اب حضور کے ارادے کے تحت اس کام میں ایک نئی تیزی اور ولولہ سے کام شروع کیا گیا ۔اب ہم ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں کہ نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے ابتدائی سالوں میں کس طرح جماعت احمدیہ نے مغربی افریقہ میں نئے تعلیمی ادارے قائم کرنے شروع کیے ۔سب سے پہلے ہم غانا میں ہونے والی پیش رفت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
غانا
نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے اجراء سے قبل بھی غانا میں جماعت کے تعلیمی ادارے قائم تھے۔اور ۱۹۵۰ء میں حضرت مصلح موعود ؓ کے ارشاد کے تحت کماسی کے مقام پر جماعت کے سیکنڈری سکول کا قیام عمل میں آیا تھا۔جو در بدرجہ ترقی کی منازل طے کر رہا تھا۔۱۹۷۰ء میں غانا میں وا کے مقام پر ایک سکول شروع کیا گیا۔اس کی عمارت ۱۹۷۳ء میں بنائی گئی۔اس سکول کے آ غاز میں مکرم شکیل احمد صاحب منیر اور مکرم خلیل الرحمن صاحب فردوسی نے بڑی محنت سے اس ادارے کی خدمت کی۔ یکم ستمبر ۱۹۸۲ء میں اسی ادارے میں نصرت جہاں احمدیہ ٹیچر ٹریننگ کالج معرضِ وجود میں آیا۔
غانا میں نصرت جہاں سکیم کے تحت کھلنے والا پہلا تعلیمی ادارہ تعلیم الاسلام احمدیہ کمرشل سیکنڈری سکول فومینہ تھا۔اس کے پہلے پرنسپل مکرم کمال الدین خان صاحب تھے جو اکتوبر ۱۹۷۰ء میں غانا پہنچے اور ایک کمیونٹی سنٹر میں عارضی طور پر اس سکول نے کام شروع کیا۔۱۹۷۴ء میں اس سکول کی مستقل عمارت کی تعمیر شروع ہوئی ۔
اس کے بعد تعلیم الاسلام احمدیہ سیکنڈری وو کیشنل سکول اسارچر کا قیام عمل میں آیا۔اسارچر وہ جگہ ہے جہاں پر چیف مہدی آپا نے اس ملک میں سب سے پہلے احمدی ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ پہلے سکول کے لئے زمین حاصل کی گئی اور پھر دسمبر ۱۹۷۱ء میں امیر جماعت احمدیہ غانا مکرم مولانا بشارت احمد بشیر صاحب نے اس کا سنگِ بنیاد رکھا اور اکتوبر ۱۹۷۲ء کو اس کا افتتاح ہوا۔ابتدا میں سکول کو کرائے کی عمارت میں شروع کیا گیا تھا اور کافی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا لیکن وقت کے ساتھ سکول ترقی کرتا گیا۔سکول کے پہلے پرنسپل مکرم نصیر احمد چوہدری صاحب تھے۔اس سکول کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الخامس) نے سکول کے پرنسپل کے طور پر اکتوبر ۱۹۷۹ء سے لے کرجون ۱۹۸۳ء تک خدمات سرانجام دیتے رہے ۔
نصرت جہاں آ گے بڑھو سکیم کے تحت جماعت نے غانا میں ایک سکول گوما پوٹسن کے مقام پر بھی قائم کیا۔جب اس سکول کا آ غاز کیا گیا تو گاؤں میں کوئی ایسی عمارت نہیں تھی جس میں سکول کا آ غاز کیا جا سکے۔چنانچہ یہاں کے احمدیوں اور دیگر احباب سے چندہ جمع کر کے تعمیراتی سامان خریدا گیا اور وقارِ عمل کر کے ایک بلاک تعمیر کیا گیا جس میں سکول کا اجراء ہوا۔پھر جلد ہی سکول میں ہاسٹل کا آ غاز بھی کر دیا گیا۔
۱۹۷۱ء میں ایک سکینڈری سکول سلاگا کے مقام پر کھولا گیا اور مکرم چوہدری محمد شریف صاحب نے اس سکول کا آغاز کیا ۔اس سکول کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحبخلیفۃ المسیح الخامس نے یہاں پر پرنسپل کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔۱۹۷۲ء میں غانا میں نصرت جہاں سکیم کے تحت ایک اور سکینڈری سکول آسوکورے میں کھولا گیا اور مکرم مبارک احمد صاحب اس کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے۔
نائیجیریا
نائیجیریا میں جماعت ِ احمدیہ نے اپنی تعلیمی خدمات کا آ غاز ۱۹۲۲ء میں کیا تھا۔فروری ۱۹۷۰ء میں مکرم رفیق احمد ثاقب صاحب نے کانو میں جماعت کے کلینک کی پرانی عمارت میں ایک سیکنڈری سکول کا آ غاز کیا۔زمین حاصل کرنے کے بعد اس سکول کی مستقل عمارت کا سنگِ بنیاد فروری ۱۹۷۴ء میں رکھا گیا ۔نائیجیریا میں ایک اور سکینڈری سکول مارچ ۱۹۷۱ء میں Gusau میں جاری کیا گیا جو سکوٹو سٹیٹ میں واقع ہے۔اس سکول میں کلاسوں کا اجراء کانو کے سکول کے اساتذہ کے تعاون سے کیا گیا تھا ۔پھر مرکز کی طرف سے مکرم اسمٰعیل وسیم صاحب کو اس سکول کا پرنسپل مقرر کیا گیا۔اور اس کی مستقل عمارت کا سنگِ بنیاد مارچ ۱۹۷۲ء میں رکھا گیا ۔پھر موجودہ نائیجیر سٹیٹ میں منا (Minna) میں نصرت جہاں سکیم کا ایک اور سکول جاری ہوا۔جب مارچ ۱۹۷۱ء میں احتشام نبی صاحب ، مکرم احمدمنیر صاحب اور آپ کی اہلیہ وقفِ عارضی کے طور پر یہ سکول چلا رہے تھے۔اس کا باقاعدہ افتتاح اس کے پہلے پرنسپل مکرم محمد یعقوب صاحب کے چارج سنبھالنے کے بعد جولائی ۱۹۷۱ء میں ہوا۔
۱۹۷۳ء میں نائیجیریا میں جماعت کے دو سکول جو کہ گساؤ اور منا میں واقع تھے حکومت نے نیشلائز کر لئے ۔ان میں کام کرنے والوں کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی ہدایت تھی کہ انہی سکولوں میں کام کرتے رہیں۔
سیرالیون
نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے آ غاز سے قبل بھی جماعت ِ احمدیہ سیرالیون میں تعلیمی اداروں کے ذریعہ اہلِ سیرالیون کی خدمت کر رہی تھی۔اس سکیم کے اجراء کے بعد چند سال میں جماعت نے یہاں پر مزید تعلیمی اداروں کا آغاز کیا۔۱۹۷۱ء میں روکوپور میں ایک جونیئر سکینڈری سکول کا آ غاز کیا گیا۔ ۱۹۷۳ء میں احمدیہ جونیئر سکینڈری سکول مسنگبی کا اجراء ہوا۔اور ۱۹۷۴ء میں ٹمبوڈو اور ۱۹۷۵ء میں کبالا میں احمدیہ جونیئر سکینڈری سکول شروع کیے گئے۔اس کے بعد نئے تعلیمی اداروں کا سلسلہ جاری رہا ۔اور اس کے وقت جہاں تک تعداد کا تعلق ہے تو جماعت ِ احمدیہ کے سب سے زیادہ تعلیمی ادارے سیرالیون کے ملک میں موجود ہیں ۔
لائبیریا
نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے تحت اس ملک میں سب سے پہلا احمدیہ جونیئر ہائی سکول سانوے کے مقام پر قائم کیا گیا۔
گیمبیا
گیمبیا میں نصرت جہاں سکیم کے تحت پہلا سکول بانجل کے مقام پر قائم کیا ۔اپنے دورے کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس ادارے کا سنگِ بنیاد رکھا تھا۔
افریقن پریس میں نصرت جہاں سکیم کا چرچا
جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس سکیم کا آغاز فرمایا تو مغربی افریقہ کے اخبارات میں اس کے متعلق خبریں بار بار شائع ہونا شروع ہوئیں۔نائیجیریا کے اخبار Postنے اس سرخی کے ساتھ یہ خبر شائع کی
Ahmadis start campaign abroad
اور لکھا کہ پاکستان اور برطانیہ کے مسلمانوں نے ایک مہم شروع کی ہے جس میں وہ مغربی افریقہ میں اپنے بھائیوں کو ایک نئی سکیم کے تحت چندہ دے رہے ہیں ۔اس سکیم کا نام ’’ لیپ فارورڈ‘‘ ہے۔ جماعت احمدیہ کے سربراہ نے حال میں ہی مغربی افریقہ کے دورہ کے دوران اس سکیم کا اعلان کیا تھا۔ اس دورے میں انہوں نے نائیجیریا ، غانا ،آئیوری کوسٹ ،لائبیریا ،گیمبیا اور سیرالیون کا دورہ کیا۔ نائیجیرین احمدیہ مسلم مشن کے مشنری انچارج نے لیگوس میں یہ انکشاف کیا کہ اس سکیم کے تحت مغربی افریقہ کے ان ممالک میں تیس ہائر سکول اور پندرہ کلینک قائم کیے جائیں گے۔۔۔۔(۱۲)
نائیجیریا کے ایک اور اخبار ڈیلی ٹائمز ( Daily Times) نے اس سکیم کے اجراء کی خبر اس سرخی کے ساتھ شائع کی
‏ ’Moslims to build schools, clinics‘
اس اخبار نے لکھا کہ’’پاکستان اور برطانیہ کے احمدی مسلمان مغربی افریقہ میں لیپ فارورڈ سکیم کے تحت تیس ہائر سکول اور پندرہ کلینک کھولنے کا ارادہ کر رہے ہیں۔اس امر کا اعلان عالمگیر جماعت احمدیہ کے سربراہ نے حال ہی میں نائیجیریا اور مغربی افریقہ کے دیگر ممالک کے دورہ کے دوران کیا ہے۔(۱۳)
مختلف ممالک کے سربراہان بھی جماعت کی اس مساعی کو سراہ رہے تھے۔چنانچہ فری ٹاؤن، سیرالیون کے اخبار The Nationنے ملک کے سربراہ کا یہ بیان شائع کیا ۔اس کا عنوان تھا:
‏ ’President Stevens praises Ahmadiyya Mission‘
’’صدرڈاکٹر سائیکا سٹیونز Dr. Saika Stevensنے کل کہا کہ سیرالیون جماعت ِ احمدیہ کے اچھے کاموں کی قدرکرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مشن نے ملک کی بعض بہت بڑی ضروریات پوری کی ہیں۔۔۔۔۔‘‘(۱۴)
جب بو آجے بو (سیرالیون) میں جماعت کے میڈیکل سینٹر کا افتتاح ہوا تو سیرالیون کے اخبار ڈیلی میل ( Daily Mail) نے ملک کے وزیرِ صحت کے بیان پر مشتمل یہ سرخی شائع کی:
‏ ’Foray Thanks Mission for Boajibu Clinic ‘
اور اس خبر میں لکھا کہ وزیرِ صحت نے اس امر پر دلچسپی کا اظہار کیا کہ جماعت نے جورو،روکوپور اور مسنگبی کے مقامات پر بھی ایسے پراجیکٹ شروع کیے ہیں اور یہ انکشاف کیا کہ ان کی وزارت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس مہم میں جماعت کو ہر قسم کی مدد مہیا کی جائے گی۔(۱۵)
سیرالیون کے اخبار Unityنے نصرت جہاں سکیم کے تحت ملک میں طبی ادارے کھولنے کے منصوبے کی خبر اس عنوان کے تحت شائع کی:
‏ ’Ahmadiyya mission plans four new health centres‘ (۱۶)
مغربی افریقہ میں عیسائی مشنوں کے بہت سے سکول تھے اور ان میں لڑکیوں کے لیے رائج یونیفارم ان کی روایات کے مطابق سکرٹ ہوتی تھی اور حکومت کے سکولوں میں بھی اسی کا رواج تھا۔ جماعت نے جب وا ( Wa)،غانا میں سکول قائم کیا تو اس میں اسلامی روایات کے مطابق یونیفارم رائج کیا۔یہ قدم اخبارات کی دلچسپی کا باعث بن گیا ۔اخبار غانین ٹائمز ( Ghanian Times) نے اس یونیفارم کے متعلق تفصیلی خبر بمع اس یونیفارم میں ملبوس طالبات کی تصویر کے شائع کی اور اس خبر کی سرخی تھی
‏ ’New fashion for Ahmadiyya girls‘
اور اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھاکہ اس خیال کی بنیاد Beauty and modesty پر ہے۔
اسی طرح جب غانا میں صحت کا ہفتہ منایا گیا تو اخبار Pioneer نے اس موضوع پر ایک اداریہ لکھا ۔اور اس اداریہ کا عنوان تھا،’ Asokore Example‘ آسوکورے وہ جگہ تھی جہاں پر جماعت نے نیا ہسپتال قائم کیا تھا۔اور اس اداریے میں اس اخبار نے لکھا :
’’غانا کی احمدیہ جماعت شاباش کی مستحق ہے کہ انہوں نے قومی جد و جہد میں بھرپور عملی حصہ لیا ہے۔آسو کورے ہسپتال کی مثال اس سمت کی طرف نشاندہی کرتی ہے جس طرف ملک میں موجود مذہبی تنظیموں کو ،اگر ملک میںان کی موجودگی کے کوئی معنی ہیں ،چلنا چاہیے۔‘‘(۱۷)

(۱) خطبات ِ ناصر جلد ۳ ص۱۲۴
(۲) الفضل ۲۰؍ جون ۱۹۷۰ء ص۳و۴
(۳) خطبات ناصر جلد ۳ص۱۲۸۔۱۲۹
(۴) الفضل ۱۲؍ جون ۱۹۷۰ء ص اول و آخر
(۵) خطبات ِ ناصر جلد ۳ ص۱۳۸
(۶) روایت مکرم سمیع اللہ سیال صاحب
(۷) الفضل ۱۷؍ جولائی ۱۹۷۰ء ص۱
(۸) خطباتِ ناصر جلد ۳ ص ۱۷۸
(۹) مسودہ خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء
(۱۰) الفضل ۱۱؍ جولائی ۱۹۷۱ء ص۱
(۱۱) الفضل ۱۱؍ فروری ۱۹۷۲ء
‏ (۱۲) Post ,July 20,1970
‏(۱۳) Daily Times,July 18,1970
‏(۱۴) The Nation (Free Town)14 June 1973
‏(۱۵) Daily Mail (Sierra Leone) July 6,1971
‏(۱۶) May 8,1971p 8 Unity
‏(۱۷) The Pioneer,April 3,1973 p2
مخالفینِ سلسلہ سازش تیار کرتے ہیں
جب بھی کوئی الٰہی سلسلہ تیزی سے ترقی کی منازل طے کرنا شروع کرتا ہے ،یہ صورتِ حال اس کے مخالفین کے لیے نا قابلِ برداشت ہو جاتی ہے۔اور وہ ایک نئے غیظ و غضب کے ساتھ اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں اور اس کو مٹانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔اور دوسری طرف یہ مخالفت اس الٰہی جماعت کے قدم ڈگمگانے کی بجائے اس کو اللہ تعالیٰ کے مزید فضلوں کا وارث بنا تی ہے اور وہ پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے آگے بڑھنا شروع کرتے ہیں۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ الٰہی جماعتوں کی ترقی مخالفت بڑھانے کا باعث بنتی ہے اور یہ مخالفت مزید ترقیات کے سامان پیدا کرتی ہے ۔اس طرح یہ دونوں عمل ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں۔یوں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک عرصہ سے مغربی افریقہ میں جماعت ترقی کر رہی تھی۔اور یہاں کی جماعتیں رفتہ رفتہ مستحکم ہو رہی تھیں۔ لیکن ۱۹۷۰ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے مغربی افریقہ کا دورہ کیا تو وہاں کی جماعتوں کا اخلاص ،ان کی تنظیم، ان کا جوش روح پرور مناظر پیش کر رہے تھے۔نہ صرف وہاں کے احمدیوں نے اپنے امام کا والہانہ استقبال کیا بلکہ ان ممالک کے سربراہان نے ان کے وزراء نے اور غیر از جماعت شرفاء نے بھی اپنے اپنے رنگ میں اپنی محبت کا اظہار کیا۔وہاں کا پریس وہاں کے ریڈیو اور ٹی وی نے بھی جماعتی تقریبات کی خبروں کو ایک خاص اہمیت کے ساتھ شا ئع اور نشر کیا ۔یہ مناظر دیکھ کر جہاں احمدی اپنے رب کا شکر ادا کر رہے تھے ،وہاں پر یہ خبریں جماعت کے مخالف گروہوں پر بجلی بن کر برس رہی تھیں۔وہ اب تک یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ یہ ایک حقیر معمولی گروہ ہے جسے ہم برصغیر کی حدود میںہی کچل کر رکھ دیں گے۔لیکن اب خدا تعالیٰ کی تقدیر انہیں یہ مناظر دکھا رہی تھی کہ یہ جماعت افریقہ کے دور دراز ممالک میں بھی تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی جماعت کی تاریخ میں ہو چکا تھا،اب یہ لازمی بات تھی کہ جماعت ِ احمدیہ کے معاندین اب کوئی نیا زہریلا وار کریں گے تاکہ بزعمِ خود وہ جماعت کی ترقی کو روک سکیں۔اس دورہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ جماعت ِ اسلامی پاکستان میں جماعت ِ احمدیہ کے خلاف ایک سازش تیار کر رہی ہے۔جیسا کہ پہلے یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ ۱۹۵۳ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف جو یورش برپا کی گئی تھی اس میں جماعت ِ اسلامی نے بھرپور حصہ لیا تھا ۔اور ہم یہ ذکر بھی کر چکے ہیں کہ ۱۹۵۳ء میں جن مذہبی گروہوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف فسادات برپا کیے تھے،اس وقت کے وزیرِ اعظم نے خود پارلیمنٹ میں یہ کہا تھا کہ بیرونی ہاتھ ان عناصر کی پشت پناہی کر رہا تھا۔ جب حضور ؒ نے ۱۰؍ اگست ۱۹۷۰ء کو ربوہ میں احمدی ڈاکٹروں سے خطاب کیا تو اس میں جماعت کو اس سازش سے مطلع کرتے ہوئے فرمایا :
’’ہماری اس سکیم کا اس وقت تک جو مخالفانہ ردِ عمل ہوا ہے وہ بہت دلچسپ ہے اور آپ سن کر خوش ہوں گے اس وقت میری ایک Source سے یہ رپورٹ ہے۔البتہ کئی طرف سے رپورٹ آئے تو میں اسے پختہ سمجھتا ہوں بہر حال ایکSourceکی رپورٹ یہ ہے کہ جماعت ِ اسلامی کی مجلسِ عاملہ نے یہ ریزولیشن پاس کیا ہے کہ ویسٹ افریقہ میں احمدیت اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ وہاں ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس واسطے پاکستان میں ان کو کچل دو تا کہ وہاں کی سرگرمیوں پر اس کا اثر پڑے اور جماعت کمزور ہو جائے ۔بالفاظِ دیگر جو ہمارا حملہ وہاں عیسائیت اور شرک کے خلاف ہے اسے کمزور کرنے کے لیے لوگ یہاں سکیم سوچ رہے ہیں۔ویسے وہ تلوار اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کسی مخالف کو نہیں دی جو جماعت کی گردن کو کاٹ سکے۔‘‘
ان اطلاعات سے یہ ظاہر تھا کہ مغربی افریقہ میں جماعت کی غیر معمولی ترقی بہت سے حلقوں کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہے۔اور وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر پاکستان میں جماعت کو کچل دیا جائے یا خاطر خواہ نقصان پہنچایا جائے تو پھر جماعت کے لیے یہ بہت مشکل ہو گا کہ وہ افریقہ میں اپنی تبلیغ اور دیگر سرگرمیوں کو پہلے کی طرح جاری رکھ سکے۔جیسا کہ ہم پہلے یہ ذکر کر چکے ہیں کہ حضرت مصلح موعود ؓ کے با برکت دورِ خلافت میں اکثر مخالفین اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ حضرت مصلح موعود ؓ کے بعد کوئی شخص اس کامیا بی کے ساتھ جماعت کی قیادت نہیں کر سکے گا اوریوں جماعت کا شیرازہ جلد بکھر جائے گا ۔اس لیے ہم جائزہ لے چکے ہیںکہ ۱۹۴۷ء کے بعد جماعت کے خلاف بہت منظم شورش برپا کی گئی ،حضرت مصلح موعود ؓ پر قاتلانہ حملہ کر وایا گیا اور اندرونی فتنہ پیدا کر کے جماعت کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن جب حضرت مصلح موعود ؓ کی بیماری میں اضافہ ہوا تو پھر یہ سلسلہ کچھ سالوں کے لیے رک گیا ۔اب مخالفین یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ جماعت کے موجودہ امام کے بعد بغیر کسی کوشش کے ان کے مقاصد خود بخود حاصل ہو جائیں گے۔لیکن جب خلافت ِ ثالثہ کا مبارک آغاز ہوا تو وقت کے ساتھ ان کی خام خیالیوں کا تانا بانا ٹوٹنے لگا۔جماعت ِ احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کر رہی تھی۔حضور کا دورہ افریقہ اور پھر مجلس نصرت جہاں کے آ غاز نے ان مخالفین کے غیظ و غضب میں اضافہ کر دیا اور اب وہ پہلے سے بھی زیادہ زہریلے وار کی تیاری کر رہے تھے۔۱۹۵۳ء کے ابتلاء کا جائزہ لیتے ہوئے ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب جماعت کے خلاف کوئی سازش تیار کی جاتی ہے تو بسا اوقات سامنے آنے والے چہرے اور ہوتے ہیں اور پس پردہ سازشیں تیار کرنے والے ہاتھ اور ہوتے ہیں۔
۱۹۷۰ء کے الیکشن اور مولویوں کی ناکامی
پہلے کی طرح اب بھی پاکستان کی نام نہاد مذہبی جماعتیں جماعت احمدیہ کے خلاف ایک شورش برپا کرنے کے لیے پر تول رہی تھیں۔ یہ ۱۹۷۰ء کا سال تھا ۔صدر ایوب خان کے دس سالہ دورِ اقتدار کا خاتمہ ہو چکا تھا اور ملک میں مارشل لاء لگا ہوا تھااور پورے ملک میں انتخابات کی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں ۔ہمیشہ کی طرح مذہبی جماعتیں کہلانے والی سیاسی پارٹیوں کو یہ توقع تھی کہ ان کو اس الیکشن میں بہت بڑی کامیابی ملے گی ،جس کے بعد ان کے اقتدار کا سورج طلوع ہو گا اور وہ سمجھ رہے تھے کہ اس کے بعد جماعت ِ احمدیہ کی ترقی کو روک دینا کوئی مشکل کام نہیں ہو گا۔جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ جماعت ِ اسلامی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان میں جماعت ِ احمدیہ کو اتنا نقصان پہنچا دو کہ اس کے اثر کی وجہ سے ان کی عالمی تبلیغ رک جائے۔
پاکستان کے مستقبل کے متعلق ابھرتے ہوئے خدشات اور جماعت ِ احمدیہ کا فیصلہ
اُس وقت مشرقی پاکستان میں سیاسی صورتِ حال بڑی حد تک واضح تھی ۔وہاں پر عوامی لیگ سیاسی منظر پر مکمل طور پر حاوی نظر آ رہی تھی ۔اور یہ نظر آ رہا تھا کہ صوبائی خود مختاری کے نام پر مشرقی پاکستان میں یہ جماعت اکثر سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔دوسری طرف مغربی پاکستان میں صورتِ حال یہ تھی کہ تقریباََ دس جماعتیں میدان میں اتری ہوئی تھیں اور کوئی جماعت اتنی مضبوط نظر نہیں آ رہی تھی کہ یہاں کے سیاسی منظر پر واضح برتری حاصل کر سکے ۔اس صورتِ حال میں دو بڑے خدشات نظر آ رہے تھے۔ایک تو یہ کہ اس سیاسی خلا میں نام نہاد مذہبی جماعتیں کوئی بڑی کامیابی حاصل کر لیں اور اپنے زعم میں انہیں بڑی کامیابی کی کافی امید بھی تھی۔ علاوہ اس حقیقت کے کہ یہ مذہبی پارٹیاں جماعت ِ احمدیہ کی شدید مخالف تھیں ۔ان کے نظریات ایسے تھے کہ وہ پاکستان کی سالمیت اور اہلِ پاکستان کی آزادی کے لیے بھی بہت بڑا خطرہ تھے۔دوسری طرف یہ خطرہ بھی تھا کہ مغربی پاکستان میں دس کی دس جماعتیں کچھ سیٹیں حاصل کر جائیں اور کوئی بھی اس قابل نہ ہو کہ مستحکم حکومت بنا سکے اور اس طرح ایک سیاسی ابتری اور عدم استحکام کی صورت پیدا ہو جائے ۔اور یہ صورت کسی بھی ملک کے استحکام کے لیے زہر کا درجہ رکھتی ہے۔
یہ امر پاکستان کے احمدیوں کے لیے دُہری پریشانی کا باعث تھا ۔ایک تو یہ کہ آنحضرت ﷺ کی مبارک تعلیم کے مطابق احمدی جس ملک کا باشندہ ہو اس کا سب سے زیادہ وفادار اور خیر خواہ ہوتا ہے اور جب پاکستان کو نقصان پہنچتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ دکھ پاکستانی احمدیوں کو ہی ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ پاکستان میں جماعت ِ احمدیہ کا مرکز تھا اور اسی مرکز سے پوری دنیا میں اسلام کی عالمگیر تبلیغ کی مہم چلائی جا رہی تھی۔اگر اس ملک میں افراتفری اور طوائف الملوکی کے حالات پیدا ہو جاتے تو اس سانحہ کے جماعت کی مساعی پر منفی اثرات مرتب ہوتے۔ایک محب ِ وطن شہری کی حیثیت سے احمدیوں کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آئندہ الیکشن میں کس جماعت کو ووٹ دینے ہیں۔
اس مرحلے پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین اور سابق وزیر ِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے جماعت سے رابطہ کیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی اجازت سے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ان سے ملاقات کے لیے گئے۔بھٹوصاحب نے اپنی انتخابی مہم کے متعلق بات شروع کی ،انہیں یہ امید تھی کہ ان کی انتخابی مہم کے لیے جماعت کوئی مالی مدد کرے گی لیکن اس کے جواب میں انہیں بتایا گیا کہ یہ ممکن نہیں ہو گا کیونکہ جماعتِ احمدیہ ایک مذہبی جماعت ہے اور وہ اس طرح ایک سیاسی پارٹی کی مدد نہیں کر سکتی۔بھٹو صاحب نے اگلے روز ٹی وی پر ہونے والی اپنی تقریر کا ذکر بھی کیا۔دورانِ گفتگو بھٹو صاحب کو ایک پریس کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا پڑا اور پیپلز پارٹی کے ایک لیڈر ڈاکٹر مبشر حسن صاحب نے انتخابی مہم کا خاکہ اور ان امیدواروں کی فہرست دکھائی جن کو پیپلز پارٹی نے ٹکٹ دیا تھا۔جب حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے یہ فہرست ملاحظہ فرمائی تو ان میں سے اکثریت کمیونسٹ حضرات کی تھی۔جب بھٹو صاحب واپس آئے تو آپ نے انہیں کہا کہ اگر یہ کمیونسٹ حضرات بھٹو صاحب کی مقبولیت کی آڑ میں کامیاب ہو گئے تو پاکستان پر کمیونسٹوںکا قبضہ ہو جائے گا۔ اگر تو وہ کمیونسٹوں کا قبضہ چاہتے ہیں تو اس لسٹ کو برقرار رکھیں ورنہ اسے تبدیل کر دیں۔بھٹو صاحب نے پارٹی کے سینیئر لیڈروں کی میٹنگ طلب کی اور پھر یہ اعلان کیا کہ یہ لسٹ حتمی نہیں ہے۔بالآخر جو نئی لسٹ بنائی گئی اس میں کمیونسٹ حضرات کی تعداد کافی کم تھی(۱۷)۔اس دوران ملک کی انتخابی مہم میں تیزی آتی جا رہی تھی۔اور بہت سے پہلوئوں سے حالات مخدوش نظر آ رہے تھے۔
جماعت ِ احمدیہ ایک مذہبی جماعت ہے اور سیاسی عزائم نہیں رکھتی۔لیکن پاکستان کے احمدی محبِ وطن شہری ہیں اور انہیں دیانتداری سے آئندہ انتخابات میں اپنی رائے کے متعلق کوئی فیصلہ کرنا تھا۔یہ فیصلہ کس طرح اور کن بنیادوں پر کیا گیا ۔اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے مئی ۱۹۷۳ء میںمنعقد ہونے والی ہنگامی مجلسِ شوریٰ میں جس کا تفصیلی ذکر بعد میں آئے گا ان الفاظ میں روشنی ڈالی۔
’’۔۔۔لیکن مغربی پاکستان میں صورت اس کے بالکل بر عکس تھی۔اگر خدا نخواستہ یہاں دس پارٹیوں کے ایک جیسے ارکانِ اسمبلی منتخب ہو جاتے تو گویا مغربی پاکستان سے قومی اسمبلی کے ۱۴۰ ارکان میں سے ۱۴۔۱۴ ارکان ہر ایک کے حصہ میں آتے یا اگر تھوڑا بہت فرق بھی ہوتا تو کوئی پارٹی پندرہ اور کوئی بیس کی تعداد میں کامیاب ہوتی۔کسی ایک پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہ ہوتی تو ان حالات میں مغربی پاکستان بھی باقی نہ ہوتا۔یہ حصہ ملک بھی ختم ہو چکا ہوتا کیونکہ اکثریتی پارٹی کے علاوہ جو پارٹیاں کامیاب ہوئیں (ایک تو بالکل ناکام ہوئی) ان کے منصوبے اور ان کی سوچ جس نہج پر ہے اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہ پاکستان کو مضبوط ہونے کی بجائے کمزور دیکھنا چاہتے ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ وہ پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں یعنی غدار ہیں اور یہ میں اس لئے نہیں کہہ سکتا کہ میرے پاس ایسے ذرائع نہیں کہ میں پوری تحقیق کروں لیکن میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کی جو پالیسی ہے اور ان کے جو پلیٹ فارم ہیں وہ پاکستان کو مضبوط و مستحکم کرنے والے نہیں ،پاکستان کو کمزور اور بے بس کرنے والے ہیں۔۔۔۔
چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ ڈالا کہ اگر مغربی پاکستان میں کوئی ایک پارٹی مضبوط بن کر ابھرے گی اور اسمبلیوں میںاکثریت حاصل کرے گی تو مغربی پاکستان کی حکومت مستحکم ہو گی ورنہ اگر ایک پارٹی نے اکثریت حاصل نہ کی تو حکومت مستحکم نہیں ہو گی ۔‘‘ (۲)
اس کے بعد حضور ؒ نے اس وقت مغربی پاکستان میں مختلف سیاسی جماعتوں کا تجزیہ بیان فرمایا۔ اور فرمایا کہ اس وقت مسلم لیگ تین جماعتوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ایک مسلم لیگ قیوم گروپ تھا۔اس کے سربراہ خان عبد القیوم خان بڑے مخلص اور محبِ وطن راہنما تھے لیکن یہ پارٹی کمزور ہو چکی تھی اور اس کی قیادت میں بھی اختلافات پیدا ہو چکے تھے۔اور کسی سمجھ دار آدمی کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ اس پارٹی میں یہ ہمت نہیں کہ وہ پاکستان کی مضبوطی اور استحکام کا باعث بنے۔اور ایک مسلم لیگ کونسل مسلم لیگ تھی جس کے سربراہ دولتانہ صاحب تھے۔انہوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ کوئی قادیانی ہماری مسلم لیگ کا ممبر بھی نہیں بن سکتا۔حالانکہ اس وقت بھی کچھ احمدی ان کی پارٹی کے ممبر تھے اور انہوں نے اس پر احتجاج کیا تو دولتانہ صاحب نے تقریر کے اس حصے کا انکار کر دیا لیکن اس کا ریکارڈ موجود تھا جو ان کو سنا دیا گیا جس پر وہ کوئی جواب نہ دے سکے۔اس پر جو احمدی کونسل مسلم لیگ کے ممبر تھے انہوں نے دولتانہ صاحب کو ایک تحریری نوٹس دیا کہ وہ سات دن کے اندر اس بیان کی تردید کریں ورنہ وہ ان کی پارٹی کو چھوڑ دیں گے۔اس نوٹس پر بہت سے غیر از جماعت دوستوں نے بھی دستخط کر دئیے ۔ اور دولتانہ صاحب کی پارٹی کے ایک لیڈر نے بھی جماعت کو یقین دہانی کرائی کہ وہ دولتانہ صاحب سے اس بیان کے بر عکس اعلان کروادیں گے۔لیکن دولتانہ صاحب نے اپنے ساتھیوں کے مشوروں کا جواب یہ دیا کہ اپنا استعفیٰ پیش کردیا اور ان ساتھیوں سے خوشامدیں کراکے دوبارہ کرسیِ صدارت پر بیٹھ گئے ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۱۹۷۳ء کی ہنگامی مجلسِ مشاورت میں ممتازدولتانہ صاحب کے متعلق فرمایا :
’’وہ میرے بھی دوست رہے ہیں اس لئے جتنا میں ان کو جانتا ہوں اتنا شاید ہی کوئی اورجانتا ہو۔ہم بچپن کی عمر سے دوست رہے ہیں انہوں نے دوستی کا تعلق توڑ دیا لیکن ہم نے تو نہیں توڑا ۔ان کے لئے دوستانہ خیر خواہی کا جذبہ آج بھی اسی طرح موجود ہے جس طرح پہلے تھا۔اگر وہ ناراض ہیں اور ہماری خیر خواہی نہیں چاہتے تو نہ سہی کسی سے زبر دستی تو خیر خواہی نہیں کی جا سکتی اور نہ اس کے مطلب کے کام کئے جا سکتے ہیں۔‘‘ (۳)
دولتانہ صاحب کا مذکورہ بالا بیان اس لیے بھی زیادہ خدشات کو جنم دے رہا تھا کہ وہ ۱۹۵۳ء میں پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ تھے اور انہوں نے جماعت کے خلاف فسادات کی آگ کو عملاً ہوا دی تھی اور اس کوتاہ بینی کی وجہ سے آخر کار انہیں پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔اس کا تفصیلی ذکر پہلے آچکا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا تھا۔
حضور ؒ نے فرمایا کہ کنونشن مسلم لیگ جو کہ سابق صدر ایوب خان صاحب کی پارٹی تھی ،اس نے بھی گومگو کی کیفیت اختیار کی اس لیے جماعت نے ان کو بھی چھوڑ دیا۔پھر حضور ؒ نے مذہبی سیاسی جماعتوں کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’باقی کچھ علماء کی سیاسی جماعتیں تھیں مثلاََ ایک جماعتِ اسلامی تھی۔اکثر احمدی دوستوں کو شاید یہ علم نہیں کہ یہ جماعت احمدیوں کے خلاف انتہائی شدید بغض رکھتی ہے یہاں تک کہ اگر ان کو موقع ملے تو ہماری بوٹیاں نوچنے سے بھی گریز نہ کریں مگر اس کے باوجود انہوں نے الیکشن کے دنوں میں اپنی جماعت کو یہ ہدایت دے رکھی تھی کہ احمدیوں کے ساتھ پیار سے باتیں کریں ان کو ناراض نہ کریں کیونکہ اگر یہ ہمارے پیچھے پڑ گئے تو ہمیں بہت تنگ کریں گے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان کو احمدیوں سے شدید بغض اور عناد ہے اس لئے خود تو ہمارے خلاف پوشیدہ طور پر سازشوں میں مصروف رہے لیکن دوسری جماعتوں کو جو تھیں تو مذہبی لیکن بظاہر سیاسی لیبل لگا کر میدانِ انتخاب میں اتریں تھیں یعنی جمعیت علمائے پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام ،ان کو اکسا کرلوگوں نے ہماری مخالفت میں لگا دیا وہ ہمارے خلاف اعلانیہ بڑے بلند بانگ دعویٰ کرتے نہ تھکتے تھے اور کہتے تھے ہم احمدیوں کو مٹا دیں گے۔پھر آخر میں جب جماعت ِ اسلامی نے دیکھا کہ ان کی ریاکارانہ پالیسی نے جماعت ِ احمدیہ پر کچھ بھی اثر نہیں کیا تو وہ بھی کھلم کھلا ہماری مخالفت پر اتر آئے۔اب آپ میں سے ہر دوست سمجھ سکتا ہے کہ جماعت ِ احمدیہ نے ان مخالف اور معاند پارٹیوں کو تو ووٹ نہیں دینے تھے۔‘‘(۳)
حضور ؒ نے کچھ اور سیاسی پارٹیوں کا تجزیہ کرنے کے بعد فرمایا کہ ان حالات میں صرف ایک پارٹی رہ جاتی تھی جسے ووٹ دیئے جا سکتے تھے اور وہ پاکستان پیپلز پارٹی تھی۔حضور نے الیکشن کے وقت اس پارٹی کی حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ۷۰ء میں اس پارٹی کی حالت یہ تھی کہ بحیثیت پارٹی کامیاب ہونے کے لیے نہ اسے پورا علم حاصل تھا اور نہ کوئی تجربہ ۔اور نئی پارٹی ہونے کی وجہ سے ابھی یہ عوام میں مقبولیت بھی حاصل نہیں کر پائی تھی۔اس کی اپنی کوئی روایات بھی نہیں تھیں حالانکہ ہر سیاسی پارٹی کی کچھ روایات ہوتی ہیں جو اس کی کامیابی میں ممد و معاون بنتی ہیں۔حضور ؒ نے فرمایا کہ چونکہ ہمیں خدا تعالیٰ کا یہ منشا معلوم ہوتا تھا کہ کسی ایک پارٹی کو مستحکم بنایا جائے۔ چنانچہ ہم نے اپنی عقلِ خداداد سے پاکستان کی سیاست کا جائزہ لیا تو ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی ہی ایک ایسی پارٹی ہے جسے کثرت کے ساتھ ووٹ دینا ملکی مفاد کے عین مطابق ہے۔حضورؒ نے ۱۹۷۰ء کے الیکشن سے قبل کے وقت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس پارٹی کے اکثر ارکان ہم سے مشورہ لیتے تھے۔انہوں نے ہم سے بہت مشورے لیے گو وہ مشورے لیتے ہوئے ڈرتے بھی تھے اور سمجھتے بھی تھے کہ ان کے بغیر کوئی چارہ کار بھی نہیں۔(۴)
اس طرح مغربی پاکستان میں احمدیوں نے اکثر جگہوں پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی حمایت شروع کردی۔لیکن یہ حمایت ہر جگہ پر پاکستان پیپلز پارٹی تک محدود نہیں تھی۔بلکہ کئی جگہوں پر احمدیوں نے دوسری پارٹیوں کے امیدواروں کی بھی حمایت کی۔بعض سیٹوں پر احمدیوں نے مسلم لیگ قیوم گروپ کو ووٹ دیئے۔کچھ سیٹوں پر کنونشن مسلم لیگ کے ایسے امیدوار کھڑے تھے جن کے احمدیوں سے دوستانہ سے تعلقات تھے۔جماعت نے ان سیٹوں پر ان کو ووٹ دیئے۔صوبائی اسمبلیوں کی چار سیٹوں پر بھی احمدیوں نے وعدہ کیا تھا کہ کنونشن مسلم لیگ کو ووٹ دیں گے لیکن جب ان کو قومی اسمبلی کے انتخابات میں شکست ہو گئی تو انہوں نے خود ہی احمدیوں کو لکھ دیا کہ اب حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ ہم آپ کو اس وعدے سے آزاد کرتے ہیں۔بعض سیٹوں پر احمدیوں نے ایسے آزاد امیدواروں کی حمایت بھی کی جو طبعاََ شریف تھے اور احمدیوں سے تعلقات رکھتے تھے۔اورتو اور ایک سیٹ پر کنونشنل مسلم لیگ کے ایسے امیدوار کھڑے تھے جن کا اس پارٹی سے کوئی دیرینہ تعلق نہیں تھا مگر اس پارٹی نے مناسب امیدوار نہ ہونے کی وجہ سے ان کو ٹکٹ دے دیا ۔ان صاحب کے احمدیوں سے دیرینہ تعلقات تھے۔احمدیوں نے عرض کی کہ ان کو ووٹ دینے کی اجازت دی جائے۔چنانچہ ان کو یہ اجازت دی گئی (۵)۔لیکن مجموعی صورتِ حال یہ تھی کہ باقی جماعتوں کی نسبت پاکستان پیپلز پارٹی پیچھے پڑ کر اکثر سیٹوں پر احمدیوں کی حمایت حاصل کر رہی تھی۔اور دوسری طرف ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں کسی ایک جماعت کی مدد کرنا جماعت ِ احمدیہ کے لیے اپنی ذات میں ایک بہت نازک مسئلہ تھا۔کیونکہ جماعت ِ احمدیہ ایک مذہبی جماعت ہے اور ایسے معاملات اس کے نزدیک اپنے اصل مقاصد کی نسبت بہت کم اہمیت رکھتے تھے۔لیکن ملکی حالات کا تقاضا تھا کہ مغربی پاکستان میں کسی ایک پارٹی کو مضبوط شکل میں ابھرنا چاہیے ورنہ ملک کے لیے اس کے خطرناک نتائج نکلیں گے۔اور بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ یہ خدشات سو فیصد صحیح تھے۔ لیکن پیپلز پارٹی والوں کو یہ بات بھی محسوس ہو رہی تھی کہ احمدی ہر جگہ پر ان کی حمایت کیوں نہیں کر رہے۔چنانچہ ان کے چوٹی کے راہنما ؤں میں سے ایک نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں عرض کی کہ اگر آپ ہماری اتنی مدد کر رہے ہیں تو مکمل مدد کیوں نہیں کرتے۔یعنی تمام حلقہ ہائے انتخاب میں ان کی حمایت کیوں نہیں کرتے۔اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور ؒ نے ۱۹۷۳ء کی ہنگامی مجلس ِ شوریٰ میں فرمایا:
’’یہ ان کو احساس تھا کہ ہم کلیتہََ ان کی مدد نہیں کر رہے کیونکہ الحاق کی صورت نہیں ہے۔ دراصل ہم ان سے الحاق کر ہی نہیں سکتے تھے۔ہمیں دنیا کے اقتدار اور مال و دولت کی ذرہ بھر پرواہ نہیں ہے اس لئے جب میں اپنے آپ کو ایک مذہبی جماعت کہتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے جاری فرمایا ہے اور جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اگر تم میرے ساتھ محبت اور پیار کا غیر منقطع رشتہ قائم کرو گے تو دین اور دنیا کے سارے انعامات تمہیں دے دوں گا۔
ہم اس حقیقت زندگی کو بھول کر اور خدا تعالیٰ کے انعامات کو چھوڑ کر کسی سیاسی جماعت یا حکومت کے ساتھ دنیوی الحاق کیسے کر سکتے ہیں ہم ان کے زر خرید غلام تو نہیں، ہم غلام ہیں اور اس کا پورے زور سے اعلان بھی کرتے ہیں لیکن ہم صرف اس عظیم ہستی کے غلام ہیں جو واحد و یگانہ ہے ۔دنیا کے ساتھ ہمارے دنیوی تعلقات ہیں،پیار کے تعلقات ہیں،بطور خادم کے بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کے تعلقات ہیں،غم خوار اور ہمدرد کی حیثیت میں ان کی ہمدردی کرنے کے تعلقات ہیں ۔اس لحاظ سے گویا ہر فردِ بشر کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں ۔‘‘(۶)
مخالفینِ جماعت کا غیظ و غضب
جب جماعت احمدیہ نے ملک کے مستقبل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آئندہ انتخابات میں ووٹ اور حمایت کے لیے مندرجہ بالا فیصلہ کیا توجماعت ِ اسلامی اور دوسری نام نہاد مذہبی جماعتوں کی پریشانی میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا۔وہ اس امر کو اپنی فرضی کامیابی کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھ رہے تھے۔انہیں یہ بات کسی طرح نہیں بھا رہی تھی کہ احمدی کسی رنگ میں بھی آئندہ انتخابات میں حصہ لیں۔دوسری طرف یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں بسنے والے احمدی ملک کے محبِ وطن شہری ہیں۔وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں اور اپنے شہری ہونے کے دوسرے حقوق ادا کرتے ہیں۔یہ ٹھیک ہے کہ عمومی طور پر احمدی سیاست میں اس لیے نہیں حصہ لیتے کہ ان کے سامنے اور اعلیٰ مقاصد ہیں اور وہ اپنی توانائی کو ان ادنیٰ کاموں پر خرچ نہیں کرتے ۔لیکن یہ ان کا فیصلہ ہے۔قانونی اور اخلاقی طور پر احمدی اس بات کا مکمل حق رکھتے ہیں کہ وہ جب چاہیں قانون کے مطابق ملک کی سیاست اور انتخابات میں جس طرح پسند کریں حصہ لیں۔کسی اور گروہ یا جماعت کا یہ حق نہیں ہے کہ اپنے آپ کو ملک کی ٹھیکہ دار سمجھتے ہوئے اس پر اعتراض کرے۔بہر حال اب مولوی خیالات کے اخبارات اور رسائل اس بات پر اپنے غیظ و غضب کا اظہار کر رہے تھے کہ احمدی اپنے بنیادی شہری حقوق کے مطابق اس انتخابی مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔ان کا خیال تھا کہ یہ حق صرف انہیں حاصل ہے کہ وہ انتخابی مہم میں حصہ لیں اور اس پر ہر طرح سے اثرانداز ہوں بلکہ اس مہم کی آڑ میں جس طرح دل چاہے جماعت ِ احمدیہ پر حملہ کریں اور یہ اعلان کریں کہ وہ اقتدار میں آکر احمدیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیں گے ۔لیکن اگر احمدی اپنا قانونی حق استعمال کرتے ہوئے اس کا جواب دیں یا ملکی مفادات کے تحفظ کی خاطرکسی طرح انتخابی عمل میں حصہ لیں تو اس پر وہ آگ بگولہ ہو جاتے تھے۔
مولوی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں
جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ رسالہ چٹان جماعت کی مخالفت میں پہلے بھی پیش پیش رہ چکا تھا۔ اس انتخابی مہم میں یہ رسالہ مودودی صاحب کی جماعت ِ اسلامی کی حمایت کر رہا تھا اور اس کے مدیر یہ اعلان کر رہے تھے،’’ہم جیسے لاکھوں اشخاص مولانا مودودی سے متاثر ہیں اور صرف اس لئے متاثر ہیں کہ وہ قرآن کی دعوت دیتے ،انبیاء سے عشق پرا بھارتے اور معاشرہ کو عہدِ صحابہ کا نمونہ بنانا چاہتے ہیں‘‘ (۷)۔اوریہ رسالہ اس بات پر مسلسل اپنے صفحات سیاہ کر رہا تھا کہ احمدی اس مرتبہ انتخابی عمل میں حصہ کیوں لے رہے ہیں(۸)۔وہ یہ واویلا تو کر رہے تھے کہ احمدی پیپلز پارٹی کی مدد کر رہے ہیں لیکن ساتھ کے ساتھ یہ الزام بھی لگا رہے تھے کہ جمعیت العلماء اسلام ،جو کہ جماعت کی مخالفت میں پیش پیش رہی تھی ،کے جلسے بھی احمدیوں کی مدد سے منعقد کیے جا رہے ہیں ۔اور یہ دعویٰ بار بار کیا جا رہا تھا کہ یہ جماعت اور ان کے لیڈر مثلاََ مفتی محمود صاحب قادیانیوں سے مدد حاصل کر رہے ہیں۔ اس سے وہ دومقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ایک تو یہ کہ ان الزامات سے خوفزدہ ہو کر جمعیت العلماء اسلام اور ان کے قائدین پہلے سے زیادہ بڑھ کر جماعت ِ احمدیہ کی مخالفت میں جوش و خروش کا مظاہرہ کریں گے اور اس طرح جماعت ِ احمدیہ کو نقصان پہنچے گا ۔اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ چونکہ یہ جماعت انتخابات میں جماعت ِ اسلامی کے مدِ مقابل کی حیثیت رکھتی تھی اس طرح ان الزامات سے اس حریف کو نقصان پہنچے گا۔ ان الزامات کی زبان ملاحظہ ہو ۔مفتی محمود صاحب کی پارٹی جمعیت العلماء اسلام نے آئین شریعت کانفرنس منعقد کی تو اس پر چٹان نے ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا ’’قادیانی جماعت نے آئین شریعت کانفرنس کے انعقاد پر دس ہزار روپیہ دیا تھا۔غلام غوث ہزاروی اور مفتی محمود کس استاد کے آلہ کار ہیں۔‘‘اس مضمون میںمضمون نگار نے انکشاف کیا
’’جمعیت العلماء کے دونوں بزر گ ان دنوں ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں ۔انھیں قادیانی گوارا ہیں ،کمیونسٹ عزیز ہیں لیکن مولانا ابو الاعلیٰ مودودی اور آغا شورش کاشمیری کے خلاف جو زہر ان کے دل میں بیٹھ چکا ہے وہ نکلنا مشکل ہے ۔
غلام غوث اور مفتی محمود پلکوں سے جاروب کشی کرتے ہوئے مبشر حسن کے گھر جاتے ہیں۔ ان کے جلسوں اور جلوسوں کی رونق سرخے ہوتے ،وہی انھیں اچھال رہے ہیں اور ان کی بدولت وہ اچھال چھکا ہو گئے ہیں۔آئینِ شریعت کانفرنس میں جو سبیلیں لگی تھیں ،وہ سرخوں کی تھیں یا پھر ایک سبیل کے لیے قادیانی جماعت نے چندہ دیا تھا۔راستہ بھر جھنڈے بھی سرخوںیا پہیوں کے لہرا رہے تھے۔ جمعیت کا ایک بھی جھنڈا کسی کونے یا نکڑ میں نہیں تھا۔‘‘(۸)
رسالہ چٹان تو یہاں تک لکھ رہا تھا کہ جمعیت العلماء اسلام مرزائیوں کا بغل بچہ ہے۔(۹)
اس الزام پر جمعیت العلماء اسلام نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جھوٹی خبریں شائع کرنے اور ائمہ کرام پر بہتان تراشی کرنے کے الزام میں چٹان رسالہ پر مقدمہ چلایا جائے۔اس کے جواب میں چٹان نے یہ بیان داغا :
’’جمعیت میں داخل ہونے کے بعد ہر ایرا غیرا مولانا ہو جاتا ہے ۔شاید اس قسم کے مولانا لعنۃ اللّہ علی الکاذبین سے مستثنیٰ ہیں؟۔۔۔
رہا آئمہ کرام کا سوال تو ان کے حدود اربعہ سے مطلع کیجئے ۔ہم شکر گزار ہوں گے ،ہم نے تو جمعیت میں آئمہ کرام کی شکل نہیں دیکھی ۔یہ جنس اس کباڑ خانے میں کہاں ہے؟‘‘(۱۰)
جواب میں جمعیت العلماء اسلام والے کس طرح پیچھے رہ جاتے۔انہوں نے اپنے جریدہ ترجمانِ اسلام میں الزام لگایا کہ مرزائیوں نے چٹان کے اس مضمون پر ،جس میں مفتی محمود صاحب اور ان کی پارٹی پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے قادیانیوں سے مالی مدد لی ہے،بہت مسرت کا اظہار کیا اور اس خوشی میں چٹان کے مدیر شورش کاشمیری صاحب کو نذرانہ پیش کرنے کے لیے ان کے رسالے کو اشتہارات سے نوازا ۔اس الزام پر تلملا کر شورش کاشمیری صاحب نے تحریر فرمایا کہ
’’۔۔۔ہم ان کوڑھ مغزوں سے نہیں الجھنا چاہتے ۔مفتی محمود اور غلام غوث اب اس قابل نہیں رہے کہ انھیں منہ لگایا جائے۔ہم ان سے اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی قرنِ اول میں حلقہ بگوشانِ رسول شرک سے کرتے تھے۔۔۔۔۔
مولانا کو یہ بھی معلوم ہے کہ ان کی جماعت کے جو لوگ میرے خلاف اپنی خاندانی زبان استعمال کر رہے ہیں مثلاََ مشتے نمونہ از خروارے ،جانباز مرزا اور ضیاء القاسمی اپنے اعمال کی رو سے اس قابل ہیں کہ اسلامی حکومت ہو تو انہیں فوراََ سنگسار کر دیا جائے۔‘‘(۱۱)
جماعت ِاسلامی کا جریدہ ایشیا بھی اس مہم میں پوری سرگرمی سے حصہ لے رہا تھا۔اس نے ۹؍اگست ۱۹۷۰ء کی اشاعت میں جہاں یہ الزام لگایا کہ جماعت ِ احمدیہ اور پیپلز پارٹی کا اتحاد ہو چکا ہے، وہاں یہ دعویٰ بھی کیا کہ اب منکرینِ ختمِ نبوت اور نام نہاد محافظینِ ختمِ نبوت بھی ایک گھاٹ پر پانی پی رہے ہیں اور اب جماعت ِ احمدیہ اور جمعیت العلمائِ اسلام بھی ایک صف میں کھڑے ہیں۔اسی مضمون میں یہ تجزیہ بھی شائع کیا گیا کہ بائیں بازوکی جماعتیں پانچ فیصد ووٹ بھی حاصل نہیں کر سکیں گی(۱۲)۔ اس جریدے میں یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا تھا کہ اب تو خود پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو بھی نا امید ہو چکے ہیں کہ ان کی پارٹی کوئی خاطر خواہ کارکردگی دکھا سکے گی اور ان انتخابات میں دائیں بازو کی جماعتوں کے لیے کوئی خطرہ بن سکے گی۔اور اب پیپلز پارٹی کے کارکن انتخابی عمل میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے۔(۱۳)
جماعت کی مخالفت میں پیش پیش رہنے والی اور مذہبی جماعتوں کے نام سے موسوم ہونے والی پارٹیوں کی باتوں میں سے اگر نصف بھی صحیح تسلیم کر لی جائیں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان سب کو قادیانیوں نے خریدا ہوا تھا اور ان میں سے بہت سے مکہ کے مشرکین کی طرح قابلِ نفرت ہیں بلکہ بعض تو اس قابل ہیں کہ انہیں سنگسار کر دیا جائے۔ایک دوسرے کے متعلق تو ان کی یہ آراء تھیں،لیکن اس کے باوجود اس بات پر لال پیلے ہو رہے تھے کہ احمدی انتخابی عمل میں کیوں حصہ لے رہے ہیں۔ایک دوسرے کو ان الزامات سے نوازنے کے بعد چند برسوں کے بعد ان پارٹیوں نے ایک اتحاد بھی بنا لیا اور اس میں یہ سب پارٹیاں مفتی محمود صاحب کی صدارت میں ایک انتخابی اتحاد کا حصہ بھی بن گئیں۔ اور کچھ عرصہ قبل یہ الزام تراشی ہو رہی تھی کہ مفتی محمود صاحب قادیانیوں سے مالی مدد لے رہے ہیں۔
بھٹو صاحب کا انتخابات سے قبل موقف
اس قسم کے سوالات پیپلز پارٹی کے چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو صاحب سے بھی کیا جا رہا تھا کہ کیا پیپلز پارٹی کا جماعت ِ احمدیہ سے کوئی معاہدہ ہے یا کیا وہ اقتدار میں آ کر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیں گے۔اور بھٹو صاحب محتاط انداز میں ان سوالات کا جواب دے رہے تھے۔جولائی ۱۹۷۰ء میں انتخابی مہم کے دوران ایک صحافی نے ان سے سوال کیاکہ، کیا پیپلز پارٹی عوام کے اس مطالبہ کی حمایت کرے گی کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔اس کے جواب میں بھٹو صاحب نے کہا ۔
’’یہ انتہائی نازک مسئلہ ہے جس پر ملک میں پہلے بھی خون خرابہ ہو چکا ہے اور مارشل لاء لگ چکا ہے اور موجودہ حالات میں اگر اس مسئلہ کو ہوا دی گئی تو مزید خون خرابہ ہونے کا خدشہ ہے۔ہماری پالیسی یہ ہے کہ ملک میں سوشلسٹ نظام رائج کریں۔جس میں ہندو عیسائی وغیرہ تمام طبقوں کے عوام کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔یہ قطعاََ غلط ہے کہ قادیانی فرقہ کی ہم حمایت کر رہے ہیں۔ہماری جماعت ترقی پسند ہے جس میں اس قسم کے مسئلوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔‘‘(۱۴)
پھر اس کے ایک ہفتہ کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور احمدی فرقہ کے درمیان کوئی خفیہ سمجھوتہ نہیں ہوا تا ہم انتخاب میں کسی طبقہ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔(۱۵)
جماعت کی مخالفت میں تیزی آ تی ہے
تمام تر کوششوں کے با وجود وہ جماعتیں جو مذہبی جماعتیں کہلاتی تھیںآپس میں اتحاد نہیں کر پا رہی تھیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف بر سرِ پیکار تھیں۔اس پر مستزاد یہ کہ انہیں یہ بات بری طرح چبھ رہی تھی کہ اپنا قانونی حق استعمال کرتے ہوئے بہت سے احمدی انتخابی عمل میں حصہ کیوں لے رہے ہیں۔ان کے نزدیک اگر احمدی اپنے شہری حقوق کے مطابق اس عمل میں حصہ لیں تو یہ ایک بہت بڑا جرم تھا۔وہ اپنے علاوہ باقیوں کو ملک کا دوسرے درجہ کا شہری سمجھتے تھے۔اب وہ اس حوالے سے پیپلز پارٹی پر حملے کر رہے تھے تا کہ اس طرح ایک طبقہ کی ہمدردیاں حاصل کر سکیں۔چنانچہ جماعت احمدیہ کے اشد مخالف جریدے چٹان نے انتخابات سے دو ہفتہ قبل ۲۳ نومبر کے شمارے کے سرورق پر ایک تصویر شائع کی جس میں پیپلز پارٹی کے چیئر مین بھٹو صاحب کو ایک پرندے کی صورت میں دکھایا گیا تھا۔ اس کے ایک پر کے اوپر لکھا تھا مرزائیت اور دوسرے پر کے اوپر لکھا تھا کمیونزم ۔ا س شمارے کے آغاز میں ہی یہ واویلہ کیا گیا تھا کہ جس دن سے گول میز کانفرنس ختم ہوئی ہے ہم اس دن سے چلا رہے ہیں
’’بھٹو نے اس بر عظیم کی سیاسی تاریخ میں پہلی دفعہ مرزائیوں کو سیاسی پناہ دے کر اپنا دست و بازو بنایا اور انتخابی میدان میں مسلمانوں کے علی الرغم لا کھڑا کیا ۔
بھٹو مسلمانوں کی اسلام سے شیفتگی کو نئی پود کے سینے سے نکال رہا ہے اور جن شخصیتوں پر مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ کا انحصار رہا ہے،ان کی عقیدت نئی نسل سے ختم کرنا چاہتا ہے۔‘‘ (۱۶)
بعض اخبارات میں یہ خبریں شائع کی جا رہی تھیں کہ پیپلز پارٹی کے بہت سے اہم کارکنان اسے چھوڑ رہے ہیں اور ان میں سے بعض کے یہ بیان بھی شائع کئے جاتے تھے کہ ہم پیپلز پارٹی کواس لئے چھوڑ رہے ہیں کیونکہ اس نے جماعت ِ احمدیہ سے اتحاد کر لیا ہے(۱۷) ۔یہ شور و غل ان کی اپنی ذہنی بوکھلاہٹ کی عکاسی کر رہا تھا ورنہ جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ جماعت ِ احمدیہ کا کسی سے سیاسی اتحاد ہو ہی نہیں سکتا ۔البتہ بعض مخصوص حالات میں اپنے ملک کے مٖفادات کی حفاظت کے لیے پاکستانی احمدیوں نے اپنا قانونی حق استعمال کیا تھا اور اس پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔
مخالفین کی خوش فہمیاں
جماعت کی مخالفت کرنے والی جماعتوں کو آخر تک بہت سی امیدیں تھیں کہ انتخابات میں انہی کا پلہ بھاری رہے گا۔کونسل مسلم لیگ کے نائب صدر نے ایک جلسہ میں یہ دعویٰ کیا کہ اگر پیپلز پارٹی کاکوئی امیدوار زرِ ضمانت بچانے میں کامیاب ہو گیا تو وہ عملی سیاست سے مستعفی ہو جائیں گے(۱۸) اور اس کے لیڈر یہ اعلان کر رہے تھے کہ وہ اقتدار میں آ کر جداگانہ انتخابات کا نظام لائیں گے یعنی مذہبی اقلیتوں کو انتخابات میں عام نشستوں سے بھی کھڑا ہونے کی اجازت نہیں ہو گی ،ان کی نشستیں علیحدہ ہوں گی تاکہ وہ ملکی سیاست کے دھارے سے علیحدہ ہی رہیں۔(۱۹)الیکشن میں ایک ماہ سے بھی کم رہ گیا تھا اور جماعت احمدیہ کی اشد مخالف جماعت ،جمعیت العلماء پاکستان کو یہ امیدیں لگی ہوئی تھیں کہ وہ اپنی روحانیت کے بل بوتے پر پارلیمنٹ میں پہنچ جائیں گے۔چنانچہ ان کے صدر خواجہ قمرالدین سیالوی نے ایک جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم روحانیت کے بل بوتے پر انتخابات میں کامیابی حاصل کریں گے ۔اور یہ روحانیت ہمیں ورثہ میں ملی ہے ۔اور مزید کہا کہ ہماری جماعت ایسا اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتی ہے جو خلافتِ راشدہ کا نمونہ ہو (۱۹)۔( شاید اپنی روحانیت پر انحصار کا یہ نتیجہ تھا کہ اس جماعت کو انتخابات میں شدید ناکامی کا سامنا کرنا پڑا) جماعت ِ اسلامی بھی ایک بہت بڑی کامیابی کے خواب دیکھ رہی تھی۔چنانچہ اس کے لیڈر جلسوں میں دعوے کر رہے تھے کہ پیپلز پارٹی ملک کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں اب نا قابلِ ذکر ہوچکی ہے ۔اور ان کی کسی بھی سیٹ پر کامیابی مشکوک ہے۔اور آئندہ انتخابات میں جماعت ِ اسلامی یقیناََ بر سرِ اقتدار آ جائے گی۔(۲۰) جماعت ِ اسلامی کو مشرقی پاکستان میں بھی خاطر خواہ کامیابی کی امیدیں تھیں۔بعد میں جب حمودالرحمن کمیشن کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ عوامی لیگ کے قائد مجیب الرحمن صاحب نے اس وقت جماعت ِ اسلامی اور دولتانہ صاحب کی کونسل لیگ کو انتخابی مفاہمت کی پیشکش کی تھی جس کی رو سے کچھ سیٹوں پر ان جماعتوں کے امیدواروں کے مقابل پر عوامی لیگ ان جماعتوں کے امیدواروں کے مقابل پر اپنے امیدوار نہ کھڑے کرنے کے لیے تیار تھی ۔لیکن ان جماعتوں نے یہ پیشکش اس بنیاد پر مسترد کر دی کہ عوامی لیگ انہیں جتنی نشستیں دینے کے لیے تیار تھی جماعت ِ اسلامی اور دولتانہ صاحب کی کونسل لیگ کو اس سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی امید تھی۔لیکن آ خر نتیجہ یہ نکلا کہ یہ جماعتیں مشرقی پاکستان سے ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکیں۔(۲۱)
یہ خیال کہ مغربی پاکستان میں مذہبی جماعتیں کہلانے والی سیاسی پارٹیاں بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل کر سکیں گی،صرف ان جماعتوں تک محدود نہیں تھا ۔بلکہ دوسرے حلقے بھی اس رائے کا اظہار کر رہے تھے کہ گو جماعت اسلامی مغربی پاکستان میںاکثریت تو حاصل نہیں کر سکے گی لیکن مغربی پاکستان کے ایک چوتھائی سے زیادہ ووٹر جماعت ِ اسلامی کے حق میںووٹ دیں گے۔اخبار نوائے وقت نے انتخابات سے چند روز قبل ایک جائزہ شائع کیا جس کے مطابق ۳۷ فیصد ووٹر پیپلز پارٹی کے حق میں تھے۔۲۸ فیصد ووٹر جماعت ِ اسلامی کے حق میں اور ۲۶ فیصد دولتانہ صاحب کی کونسل مسلم لیگ کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے تھے۔ایسی صورت میں جبکہ کسی بھی پارٹی کو اکثریت حاصل نہ ہو رہی ہو ایسی جماعتیں بھی بہت اہمیت حاصل کر جاتی ہیں جنہوں نے تقریباََ ایک چوتھائی ووٹ حاصل کیے ہوں۔(۲۲)
۱۹۷۰ء کے انتخابات
بہر حال ان قیاس آ رائیوں کے درمیان عام انتخابات کا دن آ گیا ۔۷ دسمبر کی رات کو ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی ۔کچھ نتائج بھی سامنے آنے شروع ہوئے ۔ووٹنگ شروع ہوتے ہی تین باتیںبہت واضح نظر آ رہی تھیں۔پہلی تو یہ کہ عوامی لیگ مشرقی پاکستان کی تقریباََ تمام نشستیں حاصل کر رہی تھی۔ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کو اکثر نشستوں پر برتری حاصل ہورہی تھی۔اور نام نہاد مذہبی جماعتوں کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ان کے متعلق تمام اندازے غلط ثابت ہو رہے تھے۔معلوم ہوتا ہے کہ جماعت ِ اسلامی کے قائد مودودی صاحب کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ ان کی پارٹی کو اتنی مکمل شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ابھی نصف نشستوں کے نتائج سامنے آ ئے تھے کہ مودودی صاحب نے اپنی پارٹی کے کارکنان سے اپیل کی کہ پولنگ کے موقع پر جہاں جہاں بھی بے ایمانیاں یا بے قاعدگیاں ہوئی ہیں وہاں سے شہادتیں حاصل کر کے جلد از جلد جماعت ِ اسلامی کے مرکزی دفتر بھجوائی جائیں تاکہ حکومت سے تحقیقات کا مطالبہ کیا جائے(۲۳)۔لیکن جلد ہی ان پر یہ حقیقت منکشف ہو گئی کہ ان کی پارٹی کی شکست کی وجہ کوئی بے قاعدگی یا بے ایمانی نہیں بلکہ لوگوں کی حمایت سے محروم ہونا ہے۔اس لیے جلد ہی تحقیقات کا مطالبہ ترک کر دیا گیا۔پورے ملک میں تین سو نشستوں پر انتخابات ہوئے تھے ۔ان میں سے ۱۶۰ پر عوامی لیگ نے کامیابی حاصل کی ۔ان تمام امیدواروں کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا ۔مشرقی پاکستان کی نشستوں میں سے صرف دو ایسی تھیں جن پر عوامی لیگ کے امیدوار کامیاب نہیں ہوئے۔مغربی پاکستان کی ۱۳۸ نشستوں میں سے ۸۱ پر پاکستان پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کی۔پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان سے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔جماعت اسلامی کو صرف چار نشستوں پر اور جمعیت العلماء ِ اسلام ،جمعیت العلماء پاکستان اور کونسل مسلم لیگ کو سات سات نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔
ان سیاسی پارٹیوں کے لیے جو مذہبی جماعتیں کہلاتی ہیں اور جماعت ِ احمدیہ کی مخالفت میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہیں یہ نتائج بہت ہی مایوس کن تھے۔ایک تو یہ کہ ان کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان کے تمام دعووں کے بر عکس یہ ظاہر ہو گیا تھا کہ یہ پارٹیاں پاکستان کے عوام کی حمایت سے محروم ہیں۔مغربی پاکستان میں بھی جماعت ِ اسلامی کو صرف ۴ فیصد ووٹ مل سکے ۔اور سیاسی غلبہ اور اقتدار حاصل کرنے کا ایک اور موقع ان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔اور یہ بات ان کے غیظ و غضب میں اضافہ کر رہی تھی کہ احمدی اکثر نشستوں پر جس پارٹی کی حمایت کر رہی تھی اس نے مغربی پاکستان میں اکثر نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔اور چند احمدی بھی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر منتخب ہو ئے تھے۔ جماعت احمدیہ کے لیے تو اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ ایک سیاسی جماعت نے کامیابی حاصل کی ہے لیکن جماعت کی مخالف مذہبی جماعتوں کا نظریہ تھا کہ مذہبی مقاصدسیاسی تسلط کے بغیر حاصل نہیں کیے جا سکتے۔انتخابات میں خفت اُ ٹھانے کے بعد چٹان میں شورش کاشمیری کا یہ اداریہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس وقت جماعت ِ اسلامی کا حامی طبقہ کن خیالات میں غلطاں تھا۔اس اداریہ کا عنوان تھا ’’اپنی غلطیوں سے عبرت پکڑو‘‘۔ اس میں شورش کاشمیری صاحب نے لکھا:
’’اگر واقعہ محض یہ ہوتا کہ انتخاب میں رجعت پسندوں کو شکست ہو گئی ہے اور ان کی جگہ ترقی پسندآ گئے ہیں یا کلاہِ کامیابی کاسہ لیسوں کے سر سے اتار کر انقلابیوں کے سر پر رکھ دی گئی ہے ،تو ہم کھلے دل سے خیر مقدم کرتے لیکن پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جو لوگ پنجاب اور سندھ سے منتخب ہوئے ہیں۔ان کی واضح اکثریت (۹۰ فیصد)ان افراد پر مشتمل ہے جو خلقتاََ انقلاب پسند نہیں اور نہ ان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ اپنی بڑی بڑی جاگیروں اور اپنے شاندار ماضی کے باعث غربا ء کے ہمدرد ہو سکتے اور اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔۔۔۔
دو گروہوں نے پیپلز پارٹی کے الیکشن کو منظم کیا ۔اولاََ وہ عناصر جنہیں حادثاتی سوشلسٹ کہہ لیجئے اس عنصر نے اپنے صبح شام اس غرض سے وقف کر دیے،ان میں آرگنائزر وہ لوگ تھے وہ اپنی جیت صرف اس میں سمجھتے تھے کہ سوشلزم کا لفظ رواج پا رہا ہے ،اور پرانی قدریں ٹوٹ رہی ہیں۔یہ لوگ بالطبع مذہب سے متنفر ہیں۔ان کے علاوہ جن دو فرقوں نے پیپلز پارٹی کی پشت پناہی کی ان میں ایک فرقہ تو مسلمانوں کا فرقہ ہی نہیں اور وہ مسلمانوں سے انتقام لے رہا ہے وہ ہے قادیانی!جس تندہی سے قادیانی امت کی عورتوں مردوں اور بچوں نے پیپلز پارٹی کے لیے کام کیا ،اس کی مثال نہیں ملتی۔لاہور میں میاںطفیل محمد اور جاوید اقبال کے خلاف قادیانی ہر چیز داؤ پر لگائے بیٹھے تھے۔پسرور کا وہ حلقہ جہاں سے کوثر نیازی چنا گیا ہے تمام تر مرزائیوںکے ہاتھ میں تھا ۔وہ کوثر نیازی کو ووٹ نہیں دے رہے تھے بغض کو ووٹ دے رہے تھے۔وہ ہر اس شخص سے انتقام لے رہے تھے جو اسلام کے نام پر کھڑا اور ان کا مذہباََ مخالف تھا۔انھیں کسی حال میں بھی کسی جمعیت العلماء ،میاں ممتاز دولتانہ ، نوابزادہ نصراللہ خان اور ابو الاعلیٰ مودودی کا امیدوار گوارا نہ تھا۔۔۔‘‘(۲۴)
اس اقتباس سے یہ بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین ان انتخابی نتائج پر پیچ و تاب کھا رہے تھے۔پیپلز پارٹی کی جیت جماعت ِ احمدیہ کے لیے تو کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی تھی لیکن انتخابات میں شکست نام نہاد مذہبی پارٹیوں کے لیے سوہانِ روح بنی ہوئی تھی۔یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ شورش کاشمیری صاحب کے نزدیک اگر احمدی ان سیاسی لیڈروں کی قانونی مخالفت کریں یا انہیں ووٹ نہ دیں جو جماعت ِ احمدیہ کے خلاف بیان بازی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے اور یہ اعلان کر رہے تھے کہ وہ اقتدار میں آکر احمدیوں کو ان کے بنیادی شہری حقوق سے بھی محروم کر دیں گے تو یہ بھی ایک بہت بری بات تھی۔گویا احمدیوں پر یہ فرض تھا کہ اپنے مخالفین کی مدد کرتے تاکہ وہ اقتدار میں آکر ان کو بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیتے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا گھوڑے سے گرنے کا واقعہ
آنحضرت ﷺ کی سنت کی اتباع میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو گھوڑوں سے بہت محبت تھی اور آپ نے قصرِ خلافت کے احاطے میںاپنے خرچ پر گھوڑے پال رکھے تھے ۔گو آپ نے بعد میں یہ گھوڑے صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے نام کر دیئے لیکن اپنی زندگی میں ان کے تمام اخراجات آپ ہی اُ ٹھاتے رہے۔اور ان گھوڑوں پر ربوہ کے بہت سے احباب اور بچے سواری کرتے تھے اور آپ کو بھی جب فرصت ملتی تو آپ وہاں تشریف لاتے اور گھوڑ سواری فرماتے۔۲۱ ؍جنوری ۱۹۷۱ء کی صبح کو آپ گھوڑ سواری کے لیے آئے اور ایک گھوڑی پر سواری شروع کی۔کچھ دیر کے بعد گھوڑی بدک کر دوڑ پڑی اور سواری کے راستے سے کچھ فاصلہ پر اینٹوں کا ایک ڈھیر پڑا تھا گھوڑی اس ڈھیر کی طرف دوڑی اور وہاں پر پہنچ کر اچانک رکی۔جب گھوڑا دوڑتا دوڑتا اچانک رکے تو عموماََ سوار کے لیے اپنے آپ کو سبنھالنا مشکل ہو تا ہے۔جب گھوڑی اچانک رکی تو آپ گھوڑے سے گر پڑے ۔گھوڑوں کے سائس اللہ داد صاحب نے حضور کوگرنے سے بچانے کے لیے آپ کی کمر میں ہاتھ ڈالا لیکن حضور اینٹوں کے ڈھیر پر گر پڑے۔اور آپ کی کمر پر چوٹ آئی۔آپ کی کمر اور گردن کے عضلات میں شدید دردشروع ہو گیا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے رات تک درد میں افاقہ تھا لیکن کروٹ بدلنے پر درد ہوتا تھا۔مگر اگلے روز پھر درد میں اضافہ ہو گیا۔ایکسرے پر ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر تو نہیں تھا لیکن بعض مقامات پر ہڈی دب گئی تھی۔درد کو رفع کرنے کے لیے عضلات میں بھی انجکشن دیئے گئے۔مکرم صاحبزادہ مرزامنوراحمد صاحب کے علاوہ مکرم پروفیسر مسعود احمد صاحب اور ڈاکٹر کرنل محمود الحسن صاحب حضور ؒ کی خدمت کی سعادت حاصل کرتے رہے۔
کمر پر چوٹ کی وجہ سے ایک عرصہ تک حضور نماز پڑھانے کے لیے تشریف نہیں لا سکے کیونکہ کمر کی تکلیف کی وجہ سے آپ کے لیے جھکنا ممکن نہیں تھا۔آپ ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۷۱ء کو نمازِ جمعہ کیلئے مسجد اقصیٰ ربوہ میں تشریف لائے اور خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا ۔خطبہ کے بعد حضور ؒ نے مکرم مولانا ابو العطاء صاحب کو نماز پڑھانے کا ارشاد فرمایا۔اس وقت تک کمر کی تکلیف کو تو آ رام تھا مگر لمبا عرصہ لیٹا رہنے کی وجہ سے گھٹنوں میں تکلیف شروع ہوگئی تھی اور حضور کے لیے ابھی بھی قعدہ میں بیٹھنا ممکن نہیں تھا۔
مکرم بشیر احمد خان رفیق صاحب پرائیویٹ سیکرٹری تحریر کرتے ہیں:
’’سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث اید ہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز کی عام طبیعت ماشاء اللہ ٹھیک ہے لیکن گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے اور لمبا عرصہ لیٹے رہنے کی وجہ سے جو کھچاؤ اعضاء میں پیدا ہو گیا تھا اُس میں پوری طرح افاقہ نہیں ہوا اور حضور اید ہ اللہ تعالیٰ التحیات کی حالت میں ابھی بسہولت نہیں بیٹھ سکتے ۔ حضور اید ہ اللہ تعالیٰ اور احباب جماعت دعا کر رہے ہیں۔ چنانچہ مورخہ ۲۷ اور ۲۸ جون کی درمیانی رات کو گھوڑ ا گلی میں رات کے دو بجے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک بڑے زور کے ساتھ ایک شعر کے الفاظ سنے اور نیم بیداری کی صور ت میں ان الفاظ کو ایک دیوار پر خوبصورتی سے منقش صورت میں بھی دیکھا۔ شعر تو پوری طرح حضور کو یاد نہیں رہ سکالیکن جو حصہ اُس کا یاد رہ گیا وہ یہ ہے۔
دامن رحمت حق تیری اذیت اُڑا کر لے گئی
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو صحتِ کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے اور تمام اذیتیں دور کر دے آمین یا رب العالمین۔ ‘‘
(۱) الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۷۱ء ص۱(۲)الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۷۱ء ص۱(۳)الفضل ۲۶ جنوری ۱۹۷۱ء ص ۱(۴) الفضل ۱۰ مارچ ۱۹۷۱ء ص ۱(۵) الفضل ۱۷ اکتوبر ص۱(۶)الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۷۱ء
مخالفین کے ارادے
ان سیاسی پارٹیوں کو ۱۹۴۷ء میں بھی ایسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔جب انہیں شکست ہوئی تھی اور مسلم لیگ مرکز میں تمام مسلم نشستوں پر کامیاب ہو گئی تھی۔اور ان کو اس بات کا بھی غم تھا کہ جماعت ِ احمدیہ نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا تھا اور مسلم لیگ کو انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی۔انہوں نے ایک مرتبہ پھر سیاسی منظر پر اپنی جگہ بنانے کے لیے اور احمدیوں سے انتقام لینے کے لیے یہ حربہ استعمال کیا تھا کہ احمدیوں کے خلاف ایک زہریلی مہم چلائی جائے اور ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ خون خرابہ ہو اور پھر ان فسادات کی آ ڑ میں اپنے مطالبات منظور کرائے جائیں۔اور اس آڑ میں اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ بحال کی جائے ۔اور ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے مسلم لیگ کے ہی ایک ایسے طبقہ کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا جو جماعت ِ احمدیہ کا مخالف تھا یا اپنی سیاسی اغراض کے لیے جماعت ِ احمدیہ کے خلاف مہم میں شامل ہونا چاہتا تھا۔اس مرتبہ بھی انہوں نے جلد ہی یہ اعلان کر دیا کہ قادیانیوں کو وہم ہو گیا ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار آیا ہے وہ انہیں مسلمانوں کا جزو بنا لیں گے ۔انہیں بہر حال ایک اقلیت بن کر رہنا پڑے گا۔اور یہ دھمکی چٹان کے اسی شمارے میں شائع بھی کر دی گئی(۲۵)۔ تاریخ اپنے آپ کو ایک بار پھر دہرا رہی تھی ۔جماعت ِ احمدیہ کے خلاف ایک بار پھر سازش تیار کی جا رہی تھی۔مگر اب جماعت ِ احمدیہ کا عالمی پھیلاؤ پہلے کی نسبت کافی بڑھ چکا تھا اور اسی نسبت سے اس نئی سازش کا دائرہ بھی وسیع تر کیا جا رہا تھا۔
جب ۱۹۵۳ء کے فسادات برپا کرنے کی تیاری ہو رہی تھی اس وقت حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ پاکستان کے وزیر ِ خارجہ تھے اور شروع ہی سے مخالفین نے آپ کی ذات کو نشانہ بنایا تھا اور آپ کی بر طرفی کا مطالبہ ان کے بڑے مطالبات میں سے ایک تھا ۔اور اب جبکہ جماعت ِ احمدیہ کے خلاف ایک اور فسادات کی تیاری کی جا رہی تھی اس وقت حضرت مسیح موعود ؑ کے پوتے اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کے صاحبزادے مکرم صاحبزادہ مرز ا مظفر احمدصاحب ملک کی مرکزی کابینہ میں صدر کے اقتصادی مشیر تھے۔۱۵ ؍ستمبر ۱۹۷۱ء کو جب کہ ملک ایک آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا تھا، مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اسلام آباد کے سیکریٹریٹ میں صبح کو اپنے معمول کے مطابق مرکزی سیکریٹریٹ آئے اور سوا آٹھ بجے آپ لفٹ میں اپنے دفتر جا رہے تھے ۔جس وقت لفٹ کا دروازہ بند ہو رہا تھا اس وقت کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ایک فورمین اسلم قریشی بھی لفٹ میں سوار ہو گیا۔ اور اس وقت کسی نے اس شخص کو سوار ہونے سے نہیں روکا۔جب لفٹ کا دروازہ بند ہوا تو اس وقت اسلم قریشی نے چاقو نکالا اور صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے پیٹ پر وار کیا ۔وہ دوسرا وار کرنے لگا تھا کہ لفٹ والے اور دفتر کے ایک اور ملازم نے اسے پکڑ لیا ۔اس پر اسلم قریشی نے صاحبزادہ صاحب پر پھر بھرپور وار کرنے کی کوشش کی اور گالیاں نکالنی شروع کر دیں اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔لفٹ چلانے والے نے لفٹ کا دروازہ کھول دیا اور صاحبزادہ صاحب کو سہارا دے کر نکالا گیا ۔پہلے اسلام آباد پولی کلینک لے جا کر ابتدائی طبی امداد دی گئی اور پھر سی ایم ایچ لے جایا گیا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ جب روزنامہ امروز نے یہ خبر شائع کی تو ساتھ اس عنوان کے تحت بھی کچھ سطور لکھیں ’’اسلم قریشی کا ماضی بے داغ ہے ‘‘ اور اس کے نیچے لکھا کہ جب اس کو جاننے والوں کو اس حملہ کا علم ہوا تو انہیں بہت حیرت ہوئی کیونکہ اس سے قبل اسلم قریشی کسی لڑائی جھگڑے میںملوث نہیں رہا اور لوگ اس کی سنجیدگی ،متانت اور شرافت کے قائل تھے اور وہ کسی فرقہ پرست جماعت کا رکن بھی نہیں ہے (۲۶،۲۷،۲۸)۔یہ ایک معمول کی بات ہے کہ جب کوئی کسی احمدی پر اس قسم کا حملہ کرتا ہے تو ایک طبقہ مفسدوں کی حمایت پر کمر بستہ ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم جائزہ لے چکے ہیں کہ جب حضرت مصلح موعود ؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو سیشن عدالت نے سزا سناتے ہوئے مجرم کی کچھ مدح سرائی بھی کی تھی۔ اب اسلم قریشی کے متعلق بھی پریس کا ایک حصہ اس قسم کا رویہ اپنائے ہوئے تھا۔یہ صاحب کتنے شریف الطبع تھے ہم اس کا جائزہ ۱۹۸۴ء کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے لیں گے ۔اس وقت یہ لکھنا ہی کافی ہے یہ صاحب تمام عمر نہایت سنجیدگی سے ملک میں صرف فتنہ و فساد پیدا کرنے کے لئے کمر بستہ رہے تھے۔
اتفاق سے جب یہ واقعہ ہوا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اسلام آباد ہی میں تشریف رکھتے تھے۔ حضور کی خدمت میں مکرم مولانا سلطان محمود انور صاحب نے یہ اطلاع پہنچائی ۔حضور اس وقت تیار ہو کر سی ایم ایچ ہسپتال تشریف لے آئے جہاں پر مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کا علاج ہو رہا تھا۔ اس وقت اس ہسپتال کے انچارج ایک احمدی ڈاکٹر صاحب تھے ،انہوں نے حضور کے لیے ایک کمرہ تیار کروا کر حضور سے وہاں پر تشریف لے جانے کی درخواست کی۔لیکن حضور نے فرمایا کہ میں یہی انتظار کروں گا اور ایمر جنسی کے باہر لان میں کھڑے ہو کر مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی صحت کے متعلق اطلاع کا انتظار کرتے رہے۔
پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے
پاکستان میں انتخابات کے بعد انتقالِ اقتدار کی بجائے مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کا افسوسناک آ غاز ہو گیا ۔اور پھر ۱۹۷۱ء میں پاکستان اور ہندوستان کی جنگ کے بعد مشرقی پاکستان پاکستان سے علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش کے طور پر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔واقعات کا یہ تسلسل اس خطے کے مسلمانوں کے لیے بہت تکلیف دہ تھا ۔لیکن چونکہ اس کا براہ ِ راست جماعت ِ احمدیہ کی تاریخ سے تعلق نہیں اس لیے ہم ان واقعات کی تفصیل میں نہیں جائیں گے۔البتہ ہم اس سانحے کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے چند ارشادات پیش کریں گے ۔ جنگ ختم ہونے کے بعد پہلے خطبہ جمعہ میں حضور نے سورۃ النصر کی تلاوت کر کے ارشاد فرمایا۔
’’اس سورۃ میں بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ مصیبت کے وقت اور پریشانی کے وقت جو دراصل انسان کے اپنے گناہ اور اپنی کوتاہی اور بد عملی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے،انسان اللہ تعالیٰ سے قوت حاصل کئے بغیر اس پریشانی اور تکلیف اور دکھ سے نجات نہیں حاصل کرسکتا ۔
استغفار کے معنے یہ ہیں( کیونکہ یہ غَفَرَ سے ہے ) کہ اللہ تعالیٰ سے حفاظت طلب کرنا اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں مانگنا کہ جو فساد اور رخنہ کسی رنگ میں پیدا ہو گیا ہے وہ اسے دور کرے اور اصلاحِ امر کرے۔۔۔۔
اگر آج ہم اپنے اوپر اس قسم کی موت وارد کر لیں اگر ہم خدا تعالیٰ کے پیار میں کھوئے جائیں اگر ہم اپنے وجود پر فنا کی آ ندھیاں چلا کر خدا تعالیٰ کی صفات سے حصہ لینے لگیں تو دنیاکی کون سی طاقت ہے جو ہمیں مار سکے۔دنیا کی کوئی طاقت خدا تعالیٰ کے پیاروں کو نیست و نابود اور ہلاک نہیں کر سکتی ۔اس لئے ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں۔
گو آج دنیا ہمیں طعنے دے رہی ہے اور ہمیں تضحیک کا نشانہ بنا رہی ہے مگر ہم ان چیزوں کی اس لئے پرواہ نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بشارت دی ہے کہ غلبہ اسلام کا سورج طلوع ہو چکا ہے ۔کالی دیوی کی کالی بدلیاں اگر سامنے آ جائیں تو وقتی اور عارضی طور پر روشنی تو دور ہو سکتی ہے لیکن وہ غلبہ اسلام کی راہ میں ہمیشہ کے لئے روک نہیں بن سکتیں ۔
لوگ کہتے ہیں کہ مسلم بنگال واپس کیسے آ ئے گا؟ میں کہتا ہوں تم مسلم بنگال کی بات کر رہے ہو ہم تو غیر مسلم دنیا کو بھی اسلام کی طرف لانے والے ہیں اور یہ وعدہ الٰہی ایک دن پورا ہو کر رہے گا۔۔۔‘‘(۲۹)
اگر کوئی سانحہ ہو تو مومن صرف افسوس کر کے خاموش نہیں ہو جاتا بلکہ مومنوں کے گروہ کا کام ہے کہ وہ اس سانحے کی وجوہات کا تجزیہ کرے اور یہ دیکھے کہ کن وجوہات کے باعث یہ سانحہ پیش آ یا ہے تاکہ آئندہ کے لیے مناسب منصوبہ بندی کی جا سکے۔۱۹۷۳ء کی ہنگامی مجلسِ شوریٰ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ۱۹۷۱ء کی جنگ میں پاکستان کی افواج کی شکست کی وجوہات کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا۔
’’یہ ایک بہت گہرا اور خطرناک منصوبہ تھا جسے میرا خیال ہے کہ عام انتخابات سے بھی بہت پہلے تیار کر لیا گیا تھا کیونکہ اس منصوبہ کو کامیاب کرنے کے لئے بھارتی فوج نے جو تیاریاں کیں ان کے بعض حصے ایسے تھے جن کو بروئے کار لانے کے لئے ایک لمبی مدت درکار تھی اور اس کے لئے بڑی تیاری کی ضرورت تھی مثلاََ مشرقی پاکستان دریاؤں اور نالوںکی سر زمین ہے وہاں آمد و رفت اور نقل و حمل کے لئے دریاؤں کی نسبت ریل اور سڑک بہت کم استعمال ہوتی ہے ۔چنانچہ چند دن کی جنگ میں بھارتی فوج نے غالباََ ۱۶۰ پل بنائے ۔اگر بھارت ۱۶۰ پل بنانے میں کامیاب نہ ہوتا تو آج مشرقی پاکستان کا وہ حال نہ ہوتا جو ۷۱ء کی شکست کے بعد ہوا ۔پس یہ ایک حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان میں بھارتی فوج کی نقل و حرکت بغیر پلوں کے ہو ہی نہیں سکتی تھی اور اتنے بڑے پیمانے پر چند ہفتوں کے اندر سو ڈیڑھ سو پلوں کو تیار کر دینا قبل از وقت اور بہت زبر دست تیاری کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
مگر مسلمان جن کو اپنے وطنِ عزیز کی بقا اور سلامتی کے لئے تیار ی کر نا چاہئے تھی انہوں نے نہ صرف حالاتِ حاضرہ کے تقاضوں کو نظر انداز کیا بلکہ قرآنِ کریم کی اس بے نظیر تعلیم کو بھی فراموش کر دیا (التوبۃ :۴۶) یعنی اگر تم جنگ کے لئے نکلنے کا پختہ ارادہ رکھتے تو اس کے لئے کوئی تیاری بھی کرتے ۔گویا ہر منصوبہ کے لئے تیاری کرنا ضروری ہے ورنہ صرف یہ کہہ دینا کہ ہم یہ کام کرنے کے لئے تو تیار ہیں لیکن ہمیں فلاں مجبوری ہے اور ہمارے راستہ میں فلاں روک ہے دراصل قرون اولیٰ کی اسلامی رویات اور قرآنی تعلیم کو نہ سمجھنے کی دلیل ہے۔۔۔۔
پس جب خدا تعالیٰ کوئی منصوبہ بناتا ہے تو اس کے ماننے والوں کو اس کے بروئے کار لانے کے لئے پوری تیاری کرنی پڑتی ہے ۔ہم اس حقیقت کو بھول گئے لیکن اسلام کے مخالف نے بڑی لمبی تیاری کی اور وہ اپنے منصوبہ میں کامیاب ہو گیا ۔اگر بھارتی فوج پل بنانے کی اہلیت نہ رکھتی تو مشرقی پاکستان کا وہ حال نہ ہوتا جو دسمبر ۷۱ء میں ہوا ۔ہمیں یہ بات سوچنی چاہئے تھی اور یہ بڑی واضح بات تھی کہ بغیر پل بنانے کے دشمن مشرقی پاکستان میں کامیاب نہیں ہو سکتا ۔اس لئے ہمیں پہلے سے تیار ہونا چاہئے تھا کہ ہم ان کو پل نہیں بنانے دیں گے لیکن جب پل بن گئے اور جب ان پلوں پر سے بھارتی فوج ،تخریب کار ، شرپسند اور غنڈے اپنے ساز وسامان کے ساتھ مشرقی پاکستان میں گھس گئے تو پھر کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے پل بنا لئے تھے اس لئے وہ کامیاب ہو گئے ۔اصل بات یہ نہیں اصل بات یہ ہے کہ تمہارے دماغ میں بہت پہلے سے یہ بات آنی چاہئے تھی کہ دشمن پل بنانے کی کوشش کرے گا اور ہم اسے پل نہیں بنانے دیں گے ۔یہ اس وقت کی حکومت کی سخت غلطی تھی ( اب تو حکومت بدل گئی ہے )انہوں نے ان چیزوں کو نہیں سوچا ۔
میں نے بعض افسروں کو بہت پہلے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ہمارے لئے وہاں کے پانی بڑے اہم ہیں تمہیں ان کی حفاظت کا انتظام کرنا چاہئے لیکن انہوں نے سمجھا کہ میں تو ایک Layman یعنی ایک عام آ دمی ہوں مجھے ان چیزوں سے کیا واسطہ اور کیا علم ہو سکتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے علم اور تجربہ کے غرور میں ملک کو دو ٹکڑے کروا دیا ۔‘‘(۳۰)
اب ہم مختصراََ حضور اقدس کے اس ارشاد کا جائزہ لیتے ہیں۔اس وقت سقوط ِ ڈھاکہ پر ایک تحقیقاتی کمیشن بھی قائم کیا گیا تھا ۔جو کہ حمود الرحمن کمیشن کے نام سے معروف ہے۔اس وقت تو اس کی رپورٹ خفیہ رکھی گئی تھی لیکن بہت عرصہ بعد یہ رپورٹ شائع کر دی گئی۔ہم اس رپورٹ کا تجزیہ بھی دیکھتے ہیں۔بنگال کی زمین کو چار دریاؤں نے چار بڑے حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔اور ان دریاؤں کے درمیان بہت سے چھوٹے دریا اور آبی راستے موجود ہیں۔یہ جال اس طرح بچھا ہوا ہے کہ کوئی فوج ان کو حملہ آور کے حملہ کے وقت اپنے دفاع کے لئے استعمال کر سکتا ہے لیکن اس مقصد کے لئے تیاری ضروری ہے ۔اور جب مدِ مقابل افواج ان آبی راستوں کو عبور کرنے کی کوشش کر رہی ہوں تو اس عمل کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ دفاعی فوج کے پاس مناسب توپخانہ اور ایئر فورس موجود ہو تاکہ مدِ مقابل فوج کو یہ رکاوٹ عبور نہ کرنے دی جائے۔
لیکن پاکستان کی طرف سے مشرقی پاکستان کے دفاع کا روایتی منصوبہ یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا۔یعنی اگر مشرقی پاکستان پر حملہ کیا گیا تو مغربی پاکستان کے محاذ پر پاکستان کی افواج اتنا دبا ؤ ڈال دیں گی کہ مدِ مقابل افواج کی مشرقی محا ذ پر کامیابی برابر ہو جائے گی اور ایک عرصہ سے مشرقی پاکستان کے دفاع کی کوئی تیاری نہیں کی گئی تھی۔جبکہ حقیقت یہ تھی کہ یہ بالکل نا قابلِ عمل منصوبہ تھا۔اور مشرقی پاکستان میں جو تیاری کی گئی تھی اس کے متعلق حمود الرحمن کمیشن رپورٹ نے یہ تبصرہ کیا۔
’’یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ جہاں تک مشرقی پاکستان میں آرمی کی تیاری کا تعلق ہے،یہ فوج ہر طرف سے حملہ آوربھارت کی آٹھ ڈویژن فوج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی خاص طور پر جبکہ بھارتی فوج کو آرمر او ر ایسی ایئر فورس کی مدد حاصل ہو جو دن میں دو سو مرتبہ حملہ آور ہو رہی ہو۔‘‘
جہاں تک ایئر فورس،آرمر اور آرٹیلری (جو کہ آبی راستوں کی حفاظت کے لئے بھی ضروری تھی ) کی تیاری کے تعلق ہے اس کے متعلق حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں لکھا ہے
‘Even after the increase of the manpower to 3 divisions, the armour and artillery and air strength remained grossly under strength(۳۱)’
یعنی افواج میں اضافہ کے با وجود اور اس کو تین ڈویژن تک بڑھانے کے با وجود آرمر ، آرٹیلری اور ایئر فورس کی قوت ضرورت سے بہت کم تھی۔
اور نتیجہ یہ تھا کہ جب جنگ شروع ہوئی تو شروع میں ہی مشرقی پاکستان میں ایئر فورس کی رن وے اڑا دی گئی ۔اور اس جنگ میں مشرقی محاذ میں جنگ کے دوران ایئر فورس اپنا کلیدی کردار ادا کرنے کے قابل ہی نہیں تھی۔
اور جب ۱۹۷۴ء میں تمام جنگی قیدی بھارت کی قید سے واپس آ گئے اور وہ جنرل بھی پاکستان واپس آ گئے جو مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے ذمہ دار تھے تو حمود الرحمن کمیشن نے حکومت کے کہنے پر ا پنی تحقیقات کو مکمل کیا ۔جنرل نیازی مشرقی پاکستان میں پاکستان کی آ رمی کی قیادت کر رہے تھے ان پر الزامات کا خلاصہ نکالتے ہوئے اس کمیشن نے یہ اہم تبصرہ کیا:
‘That he was guilty of criminal negligence in not including in his operational plan instruction no 3 of 1971, issued on the 15th of July 1971, any clear directive for a planned withdrawl of forces behind natural river obstacles to face the Indian onslaught and to defend what may be described as the Dacca triangle for the purpose of keeping east Pakistan by giving up non vital territory.(۳۲)
ترجمہ: وہ(یعنی جنرل نیازی )اس مجرمانہ غلطی کے قصوروار تھے کہ انہوں نے اپنے آپریشنل پلان کی ہدایت نمبر ۳، ۱۹۷۱ء میں ،جس کو ۱۵ جولائی ۱۹۷۱ء کو جاری کیا گیا تھا ، ایسی واضح ہدایت نہیں دی کہ فوج،بھارتی یلغار کا سامنا کرتے ہوئے، ایک منصوبہ بندی کے تحت پیچھے ہٹتیں اور دریاؤں کی قدرتی روک کے عقب میں آ کر اس علاقہ کو جسے ڈھاکہ مثلث کہا جا سکتا ہے کا دفاع کرتیں اور غیر اہم علاقہ کو ترک کر کے مشرقی پاکستان کو بچا لیا جاتا۔‘‘
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے اس نتیجہ میں اسی بات کا ذکر کیا گیا ہے جس کا ذکر حضور نے فرمایا تھا یعنی مشرقی پاکستان کے دفاع میں دریاؤں کی ایک خاص اہمیت تھی جس کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے پاکستانی فوج مشرقی پاکستان کا دفاع بھی نہیں کر سکی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کو اس بات کا بہت دکھ تھا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان جو اسلام کے نام پر اکٹھے ہوئے تھے،ایک خون ریز انقلاب کے بعد ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس موقع پر اللہ تعالیٰ کے حضور مضطربانہ دعائیں کی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے منذر الہام ہوئے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ ابھی اس خطے کے مسلمانوں نے اس سانحے سے سبق حاصل نہیں کیا اور ابھی مزید تکلیف دہ واقعات مقدر ہیں۔اور ان کا علاج صرف دعا اور استغفار سے ہو سکتا ہے۔ چنانچہ آپؒ نے ۱۹۷۲ء کی مجلسِ شوریٰ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ایک بڑا عظیم انقلاب ،بڑا دکھ دہ انقلاب ،راتوں کی نیند حرام کر دینے والا انقلاب آگیا۔ایسا انقلاب آ گیا کہ ابھی تک ہمارے دلوں سے خون بہہ رہا ہے ۔یہ لوگوں کی اپنی بد قسمتی ہے،اپنی نالائقی ہے ،اپنے گناہوں کا نتیجہ ہے ،اپنی غفلتوں کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے لیکن بہر حال ایک قسم کا دکھ دہ انقلاب ہے جو سارے ملک میں آ گیا ہے یعنی ہمارے ملک کا نصف حصہ ہم سے کٹ گیاہے۔ہمیں اس کٹے ہوئے حصہ کا احساس ہے کئی ڈاکٹر بھی میرے سامنے بیٹھے ہیں انہیں معلوم ہے کہ بعض لوگ جن کی مثلاََ حادثہ میں ٹانگ کٹ جاتی ہے ریل کے نیچے آ گئے یا موٹر کے نیچے آ گئے یا کوئی اور حادثہ پیش آ گیا تو زخم کی وجہ سے ٹانگ کاٹنی پڑتی ہے ۔ٹانگ کٹ جاتی ہے لیکن اس فرد کے دماغ میں اپنی ٹانگ کا احساس باقی رہتا ہے ۔کئی دفعہ بے خیالی میں وہاں وہ کھجلی کرنے لگتا ہے۔ یہ تو ایک چھوٹا سا حادثہ ہوتا ہے ۔یہاں تو ایک عظیم حادثہ،ایک دکھ دہ حادثہ رونما ہو گیا۔ اور اس کی وجہ سے ملک کا نصف حصہ جاتا رہا ۔لیکن اگر دنیا میں کوئی یہ خیال کرے کہ ہمیں اپنے جسم کے اس حصہ کا احساس باقی نہیں رہے گا تو وہ احمق ہے۔پاکستان اور یہاں کے رہنے والوں پر بے حد ظلم ہوا لیکن بہر حال یہ ظلم تو رونما ہو گیا ۔گزشتہ سال جو کچھ مشرقی پاکستان میں ہوا ہے اس کو تقریباََ تیرہ ماہ ہو گئے ہیں ۔اُس وقت مجھے بڑی فکر تھی اور میں نے بڑی دعائیں کیں ۔فروری کی بیس تاریخ سے پہلے میری طبیعت پر کچھ ایسا اثر تھا کہ ملک خصوصاََ مشرقی پاکستان کے لئے میں نے بہت دعائیں کیں تو غالباََ ۲۴ یا ۲۵ فروری کی شب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو علم مجھے دیا گیا وہ یہ تھا واعلموا ان اللّٰہ شدید العقاب۔ اس پر میں کانپ اُ ٹھا ۔اس زمانے میں بنگالی دوست خصوصاََ مولوی محمد صاحب مجھے ملتے رہتے تھے۔میں نے کہا کہ میں تو بڑا پریشان ہو گیا ہوں کیونکہ دعا تو میں اپنی بھلائی کے لیے کر رہا تھا اور جواب مجھے یہ ملا ہے ۔خیر میں نے اپنی طرف سے دعائیں زیادہ کرنی شروع کیں اور پھر فروری کے آخر یا یکم مارچ کی تاریخ تھی کہ میری زبان پر یہ جاری ہوا قل ما یعبؤ بکم ربی لولادعا ؤکم تو اس کا بھی طبیعت پر اثر تھا کہ یہ لوگ جب تک خدا کی طرف نہیں آئیں گے اور دعا نہیں کریں گے عذاب میں مبتلا ہوں گے پھر اس کے بعد غالباََ طوفان آیا۔ اس عرصہ میں پھر میں نے ان کو بتایا کہ میری طبیعت پر اثر ہے کہ یہ کافی نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بہت زیادہ معلوم ہوتی ہے ۔۔۔۔‘‘
پھر حضور ؒ نے فرمایا
’’ میں نے پہلے بھی غالباََ ایک خطبہ میں کہا تھا کہ یہ تو عارضی چیز ہے۔ میرا اور آپ کا نقطہ نگاہ یہ تو نہیں کہ بنگلہ چلا گیا اور جو بنگلہ اب کہلاتا ہے یعنی مشرقی پاکستان وہ ہم سے کٹ گیا اور نہ جانے کیا ہو گیا ۔ہمارے سپردتو اللہ تعالیٰ نے یہ کام کیا ہے کہ مشرقی پاکستان ہی نہیں ہمیں تو افریقہ کے سارے ممالک امریکہ میں بسنے والوں یعنی شمالی اور جنوبی امریکہ میں بسنے والوں اور یورپ میں بسنے والوں اور جزائر میں رہا ئش رکھنے والوں کو امتِ واحدہ یعنی ایک قوم بنا دینا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اسی کی رحمت سے ایک ملک بن جائیں گے انشا ء اللہ ۔یہ تو عارضی جدائی ہے لیکن یہ عارضی جدائی بھی ہمارے لئے دکھوں کا باعث ہے خوشی کا باعث نہیںہے اور ہماری یہ حالت دعاؤں کی محتاج ہے جو واقعہ ہو گیا اور پاکستان میں جو انقلاب آ گیا ہے یہ ہماری دعاؤں کا محتاج ہے اور یہ اس بات کا محتاج ہے کہ ہم مشرقی پاکستان کے استحکام کے لیے قربانیاں دیں اپنے جذبات کی بھی ، اپنے اموال کی بھی اور اپنے اوقات کی بھی ۔پس دوست ہر وقت بیدار رہیں اور یہاں دشمن کو کامیاب نہ ہونے دیں۔ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے ۔سات آٹھ دن ہوئے میں نے مغربی پاکستان کے متعلق بھی ایک بڑی منذر خواب دیکھی ہے لیکن منذر خوابیں اس لئے دکھائی جاتی ہیں کہ انسان دعا اور صدقہ کے ذریعہ اس شر سے محفوظ رہ سکے ۔۔۔‘ ‘(۳۳)
پاکستان کو اتنا بڑا سانحہ پیش آیا تھا اور جماعت کے معاندین اس مر حلہ پر بھی ملکی مفادات کی کوئی پرواہ لئے بغیر جماعت احمدیہ کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں مصروف تھے۔انہیں اس بات کی بھی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ ان حرکات کی وجہ سے رہے سہے ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔یہ گرو ہ جس ملک میں بھی ہو گا اس ملک کی سالمیت اور امن کے لئے ایک مسلسل خطرے کی حیثیت رکھے گا۔ اس موقع پر ۳۱ دسمبر ۱۹۷۱ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ارشاد فرمایا:
’’مجھے یہ اطلاعیں آ رہی ہیں کہ بعض مقامات پر پوسٹرز کے ذریعہ اور بعض جگہ تقاریر اور گفتگو کے ذریعہ پھر سے جماعت ِ احمدیہ کو تکلیف پہنچانے کے لئے سخت کلامی اور افتراپردازی سے کام لیا جانے لگا ہے۔جہاں تک جماعت ِ احمدیہ کی فطرت ( جماعتیں بھی اپنی ایک فطرت رکھا کرتی ہیں )کا تعلق ہے ،انسانی آ نکھ نے ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ ہم نے کسی کی گالی کے مقابلہ پر گالی نہیں دی اور اس وقت بھی جب کہ ہم کو دکھ دیا گیا کبھی کسی کو دکھ پہنچانے کے متعلق سوچا تک نہیں ۔اس لئے کہ ہم تو خود کو ’’خیر امت ‘‘ کا ایک حصہ سمجھتے ہیں جس کا قیام اللہ تعالیٰ کی قدرت سے عمل میں آ یا ہے اور جس کی بقا اس لئے ضروری ہے کہ اس کے ذریعہ دنیا میں بھلائی کا وہ سمندر جو حضرت محمد ﷺ کی ذات میں پیدا کیا گیا ہے، اس سے نکلنے والی نہریں ادھر اُ دھر ساری دنیا میں پھیلیں اور بنی نوع انسان کی بھلائی کا انتظام ہو۔
موجودہ حالات میں جبکہ پاکستان انتہائی نازک دور میں سے گزر رہا ہے اور ہماری بقا ہم سے انتہائی قربانیوں کا مطالبہ کر رہی ہے ایسے وقت میں بعض لوگوں کا اس طرح گند کو اچھالنا اور اس رنگ میں اپنے اندرونہ کو ظاہر کرنا (ہم سمجھتے ہیں کہ )یہ ہمارے ساتھ دشمنی نہیں بلکہ اپنے ملک کے ساتھ دشمنی ہے ۔اللہ تعالیٰ ایسے ذہن کو فراست کا کچھ نور عطا فرمائے اور وہ حقائق کو دیکھنے لگے اور وہ اپنے اور اپنی قوم کے نقصان کے درپے نہ ہو…پس آپ نے اشتعال میں نہیںآنا کیونکہ اس وقت ہمارا ملک بڑے ہی نازک دور میں سے گزر رہا ہے۔ ہمارے دلوں میں اپنے ملک کے لئے جو محبت ہے یہ وہی محبت ہے جس پر حضرت خاتم الانبیا محمد مصطفی ﷺ نے یہ مہر لگا ئی ہے
حب الوطن من الایمان
یعنی وطن کی محبت ایمان کا ایک جزو ہے ۔یہ وہ صادق محبت ہے ۔یہ وہ گناہوں سے پاک محبت ہے ،یہ وہ دکھ دینے کے خیالات سے مطہر محبت ہے ۔یہ وہ محبت ہے جو آنحضرتﷺ کی سنت کی اقتدا اور آپ کے اس ارشاد کی تعمیل میں ہمارے دلوں میں پیدا کی گئی ہے اور یہی وہ محبت ہے جو ہم سے تقاضاکرتی ہے کہ اگر ہمیں اپنی جانیں بھی دینی پڑیں توہم دریغ نہیں کریں گے لیکن اپنے ملک کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے ۔‘‘(۳۴)
‏(۱)A Man of God, by Iain Adamson,George Shepherd Publishers,page 92-95 (۲)رپورٹ ہنگامی مجلسِ مشاورت جماعت ِ احمدیہ ۱۹۷۳ء ص ۱۱۔۱۲(۳)رپورٹ ہنگامی مجلسِ مشاورت جماعت ِ احمدیہ ۱۹۷۳ء ص ۱۶ (۴)رپورٹ ہنگامی مجلسِ مشاورت جماعت ِ احمدیہ ۱۹۷۳ء ص۱۸تا ۲۱(۵)رپورٹ ہنگامی مجلسِ مشاورت جماعت ِ احمدیہ ۱۹۷۳ص۳۰۔۳۱(۶)رپورٹ ہنگامی مجلسِ مشاورت جماعت ِ احمدیہ ۱۹۷۳ء ص۲۹(۷) چٹان ۱۰؍ اگست۱۹۷۰ء ص ۶
(۸)چٹان ۲۰ ؍جولائی ۱۹۷۰ء ص۴،۶(۹)چٹان ۱۷؍ اگست ۱۹۷۰ء ص۴(۱۰)چٹان ۲۷ ؍جولائی ۱۹۷۰ء ص۶
(۱۱) چٹان۱۰؍ اگست ۱۹۷۰ء ص ۵(۱۲) ایشیا ۹؍ اگست ۱۹۷۰ء (۱۳) ایشیا ۱۸ ؍اکتوبر ۱۹۷۰ء ص ۱(۱۴)نوائے وقت ۲۹؍ جولائی ۱۹۷۰ء ص۱ (۱۵)مشرق ۱۵ ؍جولائی ۱۹۷۰ء (۱۶) چٹان ۲۳ نومبر ۱۹۷۰ء ص ۳(۱۷) امروز۔۲؍ اکتوبر ۱۹۷۰ء ص آخر
(۱۸) نوائے وقت ۱۸؍ نومبر ۱۹۷۰ء ص۴(۱۹) نوائے وقت ۱۷؍ نومبر ۱۹۷۰ء ص۴(۲۰)نوائے وقت ۱۹؍ نومبر۱۹۷۰ء ص ۷
‏(۲۱) The Report of Hamoodur Rehman commission of inquiry into 1971 war,published by Vanguard ,page 75 (۲۲) نوائے وقت ۳ دسمبر ۱۹۷۰ء ص۱
(۲۳) نوائے وقت ۸؍ دسمبر ۱۹۷۰ء ص ۱(۲۴)چٹان ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۷۰ء ص۳(۲۵)چٹان ۲۱ دسمبر ۱۹۷۰ء ص۱۳
(۲۶) امروز ۱۶ ؍ستمبر ۱۹۷۱ء ص ۱(۲۷)مساوات ۱۶ ؍ستمبر ۱۹۷۱ء ص ۱ (۲۸) الفضل ۱۷ ؍ستمبر ۱۹۷۱ء ص ۱(۲۹) خطبات ِ ناصر جلد ۳ ص ۵۴۳ تا ۵۴۶ (۲۹) خطبات ِ ناصر جلد ۳ص ۵۴۷ تا ۵۵۲ (۳۰)رپورٹ ہنگامی مجلسِ مشاورت جماعت ِ احمدیہ ۱۹۷۳ء ص۹ تا ۱۱
‏ (۳۱)The report of Hamoodur Rahman Commission, p 519
‏(۳۲)The report of Hamoodur Rahman Commission, p 405 & 406
(۳۳) رپورٹ مجلسِ مشاورت جماعت ِ احمدیہ ۱۹۷۲ء ص۱۳ تا ۱۵
(۳۴) خطبات ناصر جلد نمبر۳ ص ۵۴۷ تا ۵۵۲
حدیقۃ المبشرین کا قیام
حدیقۃ المبشرین کے قیام کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ۱۹۷۲ء کے جلسہ سالانہ میں ارشاد فرمایا:۔
’’۔۔کچھ اصلاح طلب امور اپنے مبلغین کے متعلق جب میرے علم میں آئے تو میں نے سوچا کہ اس وقت شاہدین کے جو دو گروہ بن گئے ہیں یعنی ایک صدر انجمن کے مربی اور دوسرے تحریک ِ جدید کے مبلغ ،یہ صورت درست نہیں ہے۔ جب سارے شاہد ہیں اور سارے الا ماشاء اللہ قربانی دینے والے اور فدائی ہیں تو پھر مربی اور مبلغ کا امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔اس فرق کو دور کرنے کی بہتر صورت یہی تھی کہ یہ سب ایک ہی انتظام کے ماتحت رہیں۔چنانچہ اس کے لئے جو ابتدائی انتظام کیا اس کا نام پول( pool) رکھا گیا۔یہ ایک انگریزی لفظ ہے اور یہ کچھ اچھا نہیں لگتا تھا ۔لیکن اور کوئی موزوں لفظ ملتا نہیں تھا۔اسلئے اسے اختیار کر لیا گیا۔پھر اس کا نام حدیقۃ المبشرین رکھا گیا۔یہ نام بڑا اچھا لگتا ہے۔گویا یہ ایک ایسا باغ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں شاہدین (مربیان و مبلغین) کی صورت میں خوبصورت درخت عطا فرمائے ہیں۔اس مشترکہ انتظام کا اصول یہ بنایا ہے کہ پہلے قاعدے کے مطابق جامعہ احمدیہ سے فارغ ہونے والے شاہدین کی تقسیم تعداد کے لحاظ سے تو ہو جائے گی کیونکہ انجمن اور تحریک دونوں نے ان کا خرچ برداشت کرنا ہوتا ہے۔مثلاََ اگر جامعہ احمدیہ سے ۱۱ لڑکے شاہد بن کر نکلے ہیں ۔تو پانچ انجمن کے حصہ میں اور چھ تحریک کے حصہ میں آئیں گے ۔یا کسی سال پانچ تحریک کے حصہ میں آئے ہیں اور چھ انجمن کے حصہ میں آتے ہیں ۔تو اسی نسبت سے ان کو گزارہ دینے کے لحاظ سے دونوں کی ذمہ داری ہو گی۔ لیکن یہ کہ زید تحریک کا ہے اور بکر انجمن کا ہے یہ نہیں ہو گا۔ تحریک کو اسکی ضرورت کے مطابق جو بھی اچھے اور تجربہ کار مبلغ ہوں گے جن کا ہمیں بھی تجربہ ہو گا کہ وہ باہر کام کر سکتے ہیں دے دیئے جائیں گے۔ورنہ یہ ایک لحاظ سے ظلم ہے گو ہم ان پر ایک لحاظ سے غصہ بھی ہوتے ہیں۔لیکن دراصل ظالم تو ہم ہی بنتے ہیں کیونکہ ہمارا ایک بچہ آج جامعہ احمدیہ سے پاس ہوتا ہے تو کل اسے ٹکٹ دے کر کہتے ہیں نائیجیریا میں جا کر تبلیغ کرو۔حالانکہ تبلیغ کرنے کا اسے ابھی کوئی تجربہ نہیں ہوتا ۔صحیح مبلغ کی روح ابھی اس کے اندر پیدا ہی نہیں ہوئی ۔قرآنِ کریم نے اللہ تعالیٰ کی ذات کی معرفت اور اس کی صفات کے عرفان کے متعلق جو تعلیم دی ہے اس کو اس نے کما حقہ حاصل ہی نہیں کیا۔اس کے متعلق اس کا علم کتابوں تک محدود ہے۔اس کو دعاؤں کے ذریعہ عملی میدان میں کام کرنے کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی صفات کا عملی مشاہدہ کرنے کا موقع نہیں ملا ۔اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی معرفت اور عرفان پختہ نہیں ہوا۔مگر اسے ہم اٹھا کر بیرونی ملکوں میں بھجوا دیتے ہیں۔جہاں وہ ٹھوکر کھاتا ہے۔بعض دفعہ ایسی چھوٹی چھوٹی غلطیاں کر جاتا ہے۔جن سے جماعت کو نقصان پہنچتا ہے۔مثلاََ غانا میں ہمارے ایک مبلغ نے یہ غلطی کی کہ گورنمنٹ کا ایک انسپکٹر معائنہ کرنے کے لئے آیا تو اس نے کہہ دیا کہ یہ کالا آدمی ہے۔میں اس کے ساتھ بیٹھ کر چائے کس طرح پیوں۔ میری اس سے ہتک ہو جائے گی۔تم تو ان کی خدمت کے لئے گئے ہو۔۔۔۔۔۔یہ زیب نہیں دیتا کہ جب ان کو خدمت کا موقع ملے اور وہ افریقہ میں جائیں تو یہ کہہ دیں کہ کالے آدمی کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینے میں ہماری بے عزتی ہے۔لیکن اس بیچارے کا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ ہم اس کی تربیت کئے بغیر ،اسکو مانجھے بغیر ،اسکو پالش کئے بغیر وہاں بھیج دیا۔میں مانتا ہوں یہ ہیرے ہیں لیکن لوگ جب کان سے ہیرا نکالتے ہیں تو اسے کب فروخت کے لئے بھیجتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔چنانچہ پہلے آپ ان کو کاٹتے ہیں، ان کے مختلف زاویے بناتے ہیں ،پھر پالش کرتے ہیں اور پھر وہ بازاروں میں بکنے کے لئے جاتا ہے۔ جو آدمی وقف کرتا ہے وہ ہیرا ہے۔اس میں کوئی کلام نہیں ہے۔لیکن وہ جس وقت کان سے نکلتا ہے یعنی جامعہ احمدیہ پاس کرتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو ہیرے کی طرح کٹ بھی کریں اور پالش بھی کریں پھر ہم ان کو کہیں کہ جاؤ اور دنیا کو بتاؤ کہ خدائے قادر وتوانا نے اپنے محبوب محمد ﷺ کے مہدی معہود کو بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کے لئے یہ ہیرے جواہرات عطا فرمائے ہیں۔
اس انتظام کے ماتحت میں نے ایک ریفرشر کورس بھی جاری کیا ہے۔کیونکہ علم تو ہر آن بڑھ رہا ہے۔خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب روحانی خزائن ہیں ،جب ہم ان کو پڑھتے ہیں تو کوئی نہ کوئی نئی بات سامنے آجاتی ہے۔اس لحاظ سے مبلغین کے لئے ریفریشر کورس ضروری ہے۔نئی چیزیں سامنے آتی ہیں ۔مختلف جگہوں سے ہمارے مبلغین بعض نئی سے نئی معلومات بھجواتے رہتے ہیں۔جو ہمارے مبلغین کو مجموعی طور پر معلوم ہونی چاہئیں ۔اس واسطے ریفریشر کورس کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔یہ عجیب بات ہے کہ شاہدین جامعہ احمدیہ سے پڑھ کر آ جاتے تھے اور انہوں نے سلسلہ کی صرف وہ کتب پڑھی ہوتی تھیں جو ان کے کورس میں ہوتی تھیں ۔حالانکہ ایک مبلغ کو تو ساری کتابیں کم از کم ۳ دفعہ پڑھی ہونی چاہئیں۔کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو احمدی میری کتب کو تین دفعہ نہیں پڑھتا مجھے اس کے ایمان کے متعلق خطرہ رہتا ہے۔پس جس نے دوسروں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ہے اس نے اگر خود تین دفعہ ساری کتب نہ پڑھی ہوں تو وہ دوسروں کے اندر کس طرح ایمان پیدا کر سکتا ہے؟غرض ریفریشر کورس میں ہم اس طرف بھی بہت زور دیتے ہیں۔‘‘
اگست ۱۹۷۰ء میں احاطہ قصرخلافت میں دفتر حدیقۃ المبشرین کا قیام ہوا جس میں مربیان کے جملہ کوائف کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ اس ادارے کے پہلے سیکرٹری مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب مقرر ہوئے۔ ۱۹۹۷ء میں حدیقہ المبشرین وکالت دیوان تحریک جدید کے ساتھ منسلک ہو گیا۔
مجلسِ صحت کا قیام
ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ ایک صحت مند مومن اللہ تعالیٰ کا زیادہ محبوب ہوتا ہے۔اور اگر انسان کی صحت خراب ہوتو وہ بہت سی نیکیوں سے محروم رہ سکتا ہے۔دوسری طرف جدید دور میں بہت سی ایسی تفریحات لوگوں کو مہیا ہو گئی ہیں جو کہ نہ صرف انسان کی اخلاقی حالت کے لئے بلکہ اس کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے بھی مضر ہیں ۔لیکن محض ان سے روکنا سود مند نہیں ہو سکتا جب تک ان کومتبادل صحت مند تفریح مہیا نہ کی جائے۔جماعت ِ احمدیہ میں ہمیشہ کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے تا کہ ایک صحت مند معاشرہ جنم لے۔ لیکن بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیشِ نظر اب اس کام کو زیادہ منظم انداز میںکرنے کی ضرورت تھی۔ مارچ ۱۹۷۲ء میں حضور تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی سالانہ کھیلوں کی اختتامی تقریب میں تشریف لائے ۔اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حضور ؒ نے فرمایا:
’’اسلام ہمیں قوی اور امین دیکھنا چاہتا ہے(سورۃ القصص)یعنی جسمانی لحاظ سے ہم مضبوط جسم کے مالک ہوں اور اخلاقی لحاظ سے ہم نہایت اعلیٰ کردار کے حامل ہوں۔جسمِ انسانی کی مضبوطی ایک حد تک اخلاق پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔اس لئے اسلام جسمانی ورزش کو بھی ضروری قرار دیتا ہے تاکہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی ان نعمتوں اور انعامات کے حقیقی رنگ میں ہم امین بن سکیں جو امانت کے رنگ میں ہمیں عطا ہوئی ہیں۔حضور ؒ نے فرمایا اس سلسلے میں اہلِ ربوہ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ منظم ہو کر ورزش جسمانی کا اہتمام کریں تا کہ خدا کی نظر میں بھی وہ قوی اور امین بنیں اور اپنے وطن کی حفاظت اور استحکام کے لئے بھی خوش اسلوبی کے ساتھ فرائض سرانجام دے سکیں۔اس لئے آج میں سارے ربوہ کو ایک مجلس میںمنسلک کرنے کا اعلان کرتا ہوں اس مجلس کا نام مجلسِ صحت ہو گا ۔اس کے جملہ انتظامات آپ لوگوں نے خود سرانجام دینے ہیں۔اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کی جائے گی۔جس میں دو دو نمائندے تعلیم الاسلام کالج ،تعلیم الاسلام ہائی سکول اور جامعہ احمدیہ کے طلباء میں سے لئے جائیں گے ۔دو خدام الاحمدیہ کے اور دو انصاراللہ کے نمائندے بھی اس میں شامل ہوں گے ۔ان کے علاوہ ایک اس کمیٹی کا صدر بھی ہوگا۔ربوہ کے تمام با شندوں کے لئے کھیلوں اور ورزش جسمانی کا انتظام کرنا اور اس کے لئے گراؤنڈز مہیا کرنا بھی اسی کمیٹی کی ذمہ داری ہو گی ۔اسے ہر ماہ کسی نہ کسی کھیل کا ٹورنا منٹ ضرور منعقد کرانا چاہئے تاکہ سب کی دلچسپی قائم رہے ۔جب ٹورنامنٹ ہوں گے تو باہر سے مہمان بھی آئیں گے اس لئے میزبانی کے فرائض بھی یہی کمیٹی سر نجام دے گی۔اور یہ نہیں ہو گا کہ بعض لوگ ازخود ہمارے علم میں لائے بغیر کھیلوں کا انتظام شروع کردیں اور پھر یہ توقع بھی رکھیں کہ ہم ان کی مدد کریں۔‘‘(۱)
اسی خطاب میں حضور نے اخلاق و کردار کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے ملک کو گزشتہ جنگ میں جو ذلت دیکھنا پڑی ہے وہ بھی اخلاق کے بنیادی تقاضوں یعنی امانت و دیانت، وقت کی قدر و قیمت اور محنت کے فقدان کا ہی نتیجہ ہے۔ہمارے ملک میں بد دیانتی اور رشوت عام ہے۔ وقت کی قدر و قیمت کا احساس بہت کم ہے۔ہمارے نوجوان گپیں مارنے میں یعنی فضول اور بے مقصد باتوں میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر دیتے ہیں اور محنت سے جی چراتے ہیں ۔حالانکہ دیانت اور محنت ہی وہ بنیادی چیزیں ہیں جو قوم کی اصل دولت ہوتی ہیں ۔اور انہیں اختیار کئے بغیر ہم کبھی قوی اورامین نہیں بن سکتے۔(۱)
۳؍ مارچ ۷۲ ۱۹ء کے خطبہ جمعہ میں بھی حضور نے اسی موضوع پر روشنی ڈالی ۔حضور ؒنے فرمایا:
’’انبیاء علیہم السلام قوی بھی ہوتے ہیں اور امین بھی اور پھرا نبیاء میں سب سے زیادہ قوی اور سب سے زیادہ امین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تھے۔اسی لئے ہمیں اسوہ نبوی کی پیروی کی طرف توجہ دلائی گئی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی سختی سے تلقین کی گئی ہے۔پس ہر وہ شخص جو خود کو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرتا ہے،اسے قوی بھی ہونا چاہئے اور امین بھی۔
قوی کے معنی صرف یہی نہیں ہوتے کہ کوئی آدمی زیادہ بوجھ اُ ٹھا لے ۔قوی کے معنی دراصل یہ ہوتے ہیں کہ آدمی ہر اُس ذمہ داری کو حسن و خوبی سے ادا کر سکے جس کے اُ ٹھانے کی اسے تلقین کی گئی اور جس کے نباہنے کی اسے تعلیم دی گئی ہے۔غرض صرف ویٹ لفٹنگ یعنی مادی بوجھ اُ ٹھانے کے معنی میں قوی کا لفظ استعمال نہیں ہوتا مثلاََ قوت ِ برداشت ہے۔ جس آدمی میں قوت ِ برداشت ہوتی ہے وہ بھی قوی ہوتا ہے۔پھر عزم ہے یہ بھی دراصل اسی قوت کی جھلک ہوتی ہے۔
پس انبیاء علیہم السلام کے سچے متبع قوی بھی ہوتے ہیں اور امین بھی ۔یعنی وہ ہر قسم کی قوت کو ترقی دیتے ہیں اس کی نشوو نما کرتے ہیں اور اس طرح اپنے دائرہ میں ایک حسین ترین وجود بن جاتے ہیں۔
جہاں تک امانت کا تعلق ہے یہ تو دنیا نے انبیاء علیہم السلام سے سیکھی ہے اور خیانت اسوہ نبی سے دوری کا نام ہے ۔آج پاکستان کو جو ذلت دیکھنی پڑی ہے ،اس کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ امین نہ ہونا ہے یعنی امانت کا فقدان اور خیانت میں اتنی وسعت کہ تصور میں بھی نہیں آسکتی۔ اگر یہ حال نہ ہوتا تو ہمیں آج یہ دکھ برداشت نہ کرنا پڑتا ۔
ورزش کے لئے باسکٹ بال کھیلنا ہی ضروری نہیں ہے۔سب سے اچھی اور سب سے زیادہ آسانی سے کی جانے والی ورزش تو سیر ہے۔یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنت بھی ہے۔ اس لئے ربوہ کے دوست روزانہ سیر کے لئے چاروں طرف نکل جایا کریں ۔
میں جب آکسفورڈ میں پڑھا کرتا تھا تو ہمارا Balliolکالج Activeہونے کے لحاظ سے ایک خاص مقام رکھتا تھا ۔میں نے دیکھا کہ جس طرف بھی سیر کو جائیں،اگر سو طلباء راستے میں سیر کرتے ہوئے ملے ہیں تو ان میں سے پچاس سے زیادہ Balliolکالج کے ہوتے تھے، غرض وہ بڑا Activeکالج ہوتا تھا ۔وہ سویا نہیں رہتا تھا یعنی ’’پوستی کالج ‘‘ نہیں تھا بلکہ ہر چیز میں آگے تھا ۔پس سیر ایک بڑی اچھی ورزش ہے اور اس میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مختلف نظارے سامنے آتے ہیں۔شہر کے اندر رہتے ہوئے جو چیزیں نظر نہیں آتیں وہ باہر نکل کر نظر آجاتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ کی جتنی صفات اس کائنات میں جلوہ گر ہیںہمیں ان کو دیکھنا چاہئے اور ان کے متعلق غور کرنا چاہئے اور ان سے لذت حاصل کرنی چاہئے اور ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔‘‘(۲)
پھر حضورؒ نے ارشاد فرمایا ربوہ میں جو Open Spaces موجود ہیں انہیں دیکھ کر شرم آتی ہے۔وہ جگہیں آبادی کا حصہ معلوم نہیں ہوتیں اور یہ بڑی شرم کی بات ہے۔تمامOpen Spaces کو کھیل کے میدان بننا چاہئے۔ (۲)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے ارشاد کے تحت مجلسِ صحت کا قیام عمل میں آیا اور ورزش اور کھیلوں میں دلچسپی میں اضافہ ہونے لگا۔مکرم چوہدری بشیر احمد خان صاحب کو اس مجلس کا پہلا صدر مقرر کیا گیا۔ حضور نے خود بہت سی ورزشوں کی طرف توجہ دلائی اور ہر عمر کے لوگوں نے اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔
جیسا کہ حضور ؒ نے توجہ دلائی تھی کہ سیر ایک بہت اچھی تفریح اور ورزش ہے ۔مجلسِ صحت کے تحت سیر کے مقابلے منعقد کئے گئے اور اس میں شرکت کرنے والوں نے اپنے مشاہدات قلمبند بھی کئے۔ اس پر حضور نے خدام الاحمدیہ کی ۱۹۷۳ء کی سالانہ تربیتی کلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’یہاں مجلسِ صحت کے زیر انتظام تین سیروں کے مقابلے ہو چکے ہیں اور مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ ہمارے جو اطفال ہیں(پندرہ سے چھوٹی عمر کے بچے)وہ اس میں بڑے شوق سے حصہ لیتے ہیں۔اور بعض کے تو مضمون بھی بڑے اچھے ہوتے ہیں۔گو آٹھویں جماعت والے طالب علم کی لکھائی ایسی ہی ہو گی جیسے آٹھویں جماعت کے طالب علم کی لکھائی ہونی چاہئے لیکن مشاہدہ والا حصہ بڑا پیارا ہوتا ہے۔‘‘(۳)
اسی طرح حضور نے احباب ِ جما عت کو سائیکلنگ کی طرف توجہ دلائی۔سائیکلنگ ایک اچھی ورزش بھی ہے اور عملی زندگی کے لئے نہایت کا رآمد بھی۔دوستوں نے بالخصوص نوجوانوں نے اس طرف بہت توجہ کی ۔اور خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر خدام دور دور کے شہروں سے حتیٰ کہ ایک ہزار میل کے فاصلے سے بھی سائیکل سفر کر کے آتے اور خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں شامل ہوتے۔اور بہت سے نوجوانوں نے سائیکلنگ میں اتنی مہارت پیدا کی کہ وہ ملکی سطح پر مقابلوں میں شریک ہوئے اور کامیابی حاصل کی۔
حضور ؒ نے ۱۹۷۳ء کے خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’انسانی جسم پر بنیادی طور پر دو قسم کے بوجھ پڑتے ہیں۔ایک وہ بوجھ ہے جو براہِ راست اس کے جسمانی اور ذہنی قویٰ پر پڑتا ہے اور ایک وہ بوجھ ہے جو بالواسطہ اس کے جسمانی اورذہنی قویٰ پر پڑتا ہے۔اس کے لئے جو تربیت جماعت اپنے ان پیارے بچوں کو دینا چاہتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے جسمانی قویٰ اپنی نشو ونما کے کمال کو اس رنگ میں پہنچائیں کہ دوسری ذمہ داریاں نبھانے کے بوجھ کو برداشت کر سکیں۔ان میں سے ایک طریق جو ماضی قریب میں جاری کیا گیا ہے وہ سائیکل کا استعمال ہے ۔میں نے جب ابتداء ً یہ تحریک کی تو مختصراََ یہ اشارہ کیا تھا کہ اپنی صحتوں کو برقرار رکھنے کے لئے سائیکل کی طرف متوجہ ہوں۔ کیونکہ آج کی سائنس اور علمی تحقیق نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ سائیکل چلانے سے عام صحت بھی اچھی ہوتی ہے اور انسانی جسم کو دل کی بیماریوں سے کافی حد تک حفاظت مل جاتی ہے۔اس وقت بعض عمر رسیدہ سائنسدان یا ڈاکٹر جن کو دل کی تکلیف تھی ۔خود سائیکل چلاتے ہیں تاکہ دوائی کے علاوہ سائیکل کاچلانا ان کے دل کی بیماریوں کو دور کرنے کا باعث بنے ۔سائیکل چلانے میں صرف یہی فائدہ نہیں اور بھی ہزاروں فوائد ہیں۔مثلاََ آپ میں سے بہتوں کو اپنے گھر کے کام کاج کے لئے یا خریداری کے لئے بازار جانا پڑتا ہے۔اگر آپ کے پاس سائیکل ہو تو آپ اپنا بہت سا قیمتی وقت بچا سکیں گے ۔اور وہ بشارت آپ کے وجود میں بھی پوری ہو گی جو مہدی معہود کو ان الفاظ میں دی گئی تھی کہ ’’ تو ایک شیخ (بزرگ) مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا ‘‘۔پس ہمیں خاص طور پر اپنے اوقات کو معمور رکھنے کی طرف توجہ دینی چاہئے اور دوسرے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ برکات ہمارے وجود میں بھی پوری ہوں۔‘‘(۴)
مؤطا امام مالک میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ گھوڑوں کی پیشانی سے قیامت تک کے لئے خیر وابستہ ہے ۔اور اسی باب میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ہی ایک اور حدیث میں بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے خود مدینہ میں گھوڑوں کی دوڑ کا اہتمام فرمایا اور اس میں تربیت یافتہ اور دوسرے گھوڑوں کے علیحدہ علیحدہ مقابلے ہوئے۔ (۵)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے احباب ِ جماعت کو گھوڑے پالنے اور گھوڑ سواری میں دلچسپی لینے کی تلقین فرمائی۔حضور ؒ نے ربوہ میں گھوڑ دوڑ ٹورنامنٹ کا آغاز فرمایاجس میں مختلف اضلاع سے احمدی گھوڑ سوار شرکت کرتے اور حضو ر خود تشریف لا کر ان کی حوصلہ افزائی فرماتے۔قصرِ خلافت کے احاطے میں حضور نے گھوڑے پالے تھے جن کا خرچ حضورؒ خود ادا فرماتے تھے۔شام کے وقت حضورؒ یہاں پر تشریف لاتے اور جب تک گھوڑے سے گرنے کا واقعہ نہیں ہوا حضور خود بھی سواری فرماتے اور بہت پیار سے گھوڑوں کا جائزہ لیتے اور انہیں پیار کرتے۔ دوسرے احباب بھی وہاں پر سواری کرتے ۔بہت سے بچے بھی اس وقت وہاں پر موجود ہوتے اور یہ نو آموز سوار بھی وہاں پر سواری کا شوق پورا کرتے۔ حضور ؒ اس بات کا بہت خیال فرماتے تھے کہ گھوڑ سواری اس فن کے اصولوں کے مطابق کی جائے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار جبکہ میری عمر دس سال کے قریب ہو گی کہ گھوڑے پر چڑھتے ہوئے میں گھوڑ ے کے پیچھے سے گزر کر سوار ہونے کے لئے گیا ۔جبکہ اصول یہ ہے کہ ہمیشہ گھوڑے کے سامنے سے گزرنا چاہئے ۔حضورؒ نے ارشاد فرمایا کہ واپس آؤ اور گھوڑے کے سامنے سے ہو کر جاؤ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو عرب گھوڑوں سے بہت پیار تھا ۔آپ اس نسل کی خوبصورتی کو بہت پسند فرماتے تھے۔
حضور ؒ نے ۱۹۷۵ء کے گھوڑ دوڑ ٹورنامنٹ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’گھوڑوں کے سلسلہ میں قرآنِ کریم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ذکر میں ایک بنیادی حقیقت یہ بتائی ہے کہ
اِنِّیْ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیْرِ عَنْ ذِکْرِ رَبِّیْ
کہ میں (سلیمان ؑ)الخیر سے اس لئے محبت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ یہ اچھی مخلوق یہ خیر مجھے اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتی ہے۔‘‘
پھر آپ نے فرمایا کہ ہم گھوڑے سے اس لئے پیار کرتے ہیں کہ قرآنِ عظیم نے ان سے پیار کرنے کی تلقین کی ہے ۔اور پہلیء انبیاء کا نمونہ بھی ہمارے سامنے ہے اور خود حضرت نبی اکرم ﷺ کا نمونہ بھی ہمارے سامنے ہے ۔حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ اپنے گھوڑے کے جسم کو چادر سے صاف کر رہے تھے اور اس سے بڑا پیار کر رہے تھے ۔صحابہ وہ لوگ تھے جو آنحضرت ﷺ پر جان دینے والے تھے ۔اس موقع پر وہ آگے بڑھے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہم یہ کام کرتے ہیں آپ کیوں تکلیف فرما رہے ہیں ۔آپ نے فرمایا نہیں ! میں خود ہی یہ کام کروں گا۔کیونکہ میرے خدا نے مجھے فرمایا ہے کہ تم یہ کام کرو۔
حضور نے اس ٹورنامنٹ کی ترقی کے متعلق فرمایا۔
’’جیسا کہ ابھی رپورٹ میں بتایا گیا ہے،اس ٹورنامنٹ میں کچھ ترقی تو ہوئی ہے لیکن اتنی نہیںہوئی جتنی ہماری خواہش ہے۔صرف ۳۳ جماعتوں کے گھوڑے یہاں پہنچے ہیں۔ حالانکہ ہماری جماعتوں کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچی ہے ۔ہر جماعت میں کم از کم ایک گھوڑا تو ہونا چاہئے خواہ دیسی ٹیرہی کیوں نہ ہو ۔یہ بھی بڑی کام آتی ہے۔۲۰ میل کی دوڑ میں اس ٹیر نے زبان ِ حال سے ہماری طرف منہ موڑ کر بڑی شان سے کہا تھا کہ تم مجھے ٹیر ٹیر کہا کرتے تھے مگر دیکھو آج میں عرب گھوڑوں اور حاجی بشیر کے تھارو بریڈ کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل آئی ہوں ۔اس میں بھی ایک برکت ہے اور یہ بڑا کام آتی ہے اور یہ آگے اس لئے نکل آئی کہ جو لوگ ٹیریں رکھنے والے ہیں وہ اپنی ضرورت کے لئے رکھتے ہیں،شان کے لئے تو نہیں رکھتے ۔اس لئے ان کی ضرورت ان کو مجبور کرتی ہے کہ روزانہ نہیں تو ہر دوسرے دن اس پر ۲۵ ۔ ۳۰ میل کا سفر کریں اس لئے اس کو چلنے کی عادت ہے اور وہ دوڑ کر تھکی نہیں ۔مگر جن کو عادت نہیں تھی وہ تھک گئیں۔‘‘(۶)
اسی طرح ربوہ میں ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ کے نام سے باسکٹ کا ایک ٹورنامنٹ شروع کیا گیا جس میں ملک کی چوٹی کی ٹیمیں شرکت کرتیں۔ حضور بھی اس میں شرکت فرماتے بلکہ جہاںپر کھلاڑی ٹھہرے ہوتے ،آپ وہاں تشریف لے جاتے اور ان کی حوصلہ افزائی فرماتے۔اور طاہر کبڈی ٹورنامنٹ کے نام سے کبڈی کا ایک ٹورنامنٹ بھی منعقد ہوتا جس میں ملک کی اچھی اچھی ٹیمیں شرکت کرتیں اور لوگ اس دیسی کھیل سے محظوظ ہوتے۔
(۱) الفضل ۷؍ مارچ ۱۹۷۲ء ص ۱و۲
(۲) خطبات ِ ناصر جلد ۴ ص ۶۹ تا ۷۹
(۳) مشعلِ راہ حصہ دوم شائع کردہ مجلسِ خدام لااحمدیہ ص۳۷۵
(۴)مشعلِ راہ حصہ دوم شائع کردہ مجلسِ خدام لااحمدیہ ص۳۸۲ تا ۳۸۳
(۵) موطا امام مالک ،کتاب الجہاد
(۶)الفضل ۸؍مارچ۱۹۷۵ء
مسجد اقصیٰ کا افتتاح
ربوہ میں ایک عرصہ سے اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ یہاں پر ایک جامع مسجد تعمیر کی جا ئے۔قیامِ ربوہ سے اب تک مسجد مبارک میں ہی جمعہ اور عید کی نمازیں ادا کی جاتی تھیں۔لیکن وقت کے ساتھ مسجد مبارک میں جگہ کی تنگی بڑھتی جا رہی تھی خاص طور پر جلسہ اور اجتماعات کے مواقع پر ایک بڑی مسجد کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی تھی ۔خلافتِ ثانیہ کے آخری سالوں کے دوران مجلس ِ مشاورت میں یہ مسئلہ پیش کیا گیا اور حضورؓ کی منظوری سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ احبابِ جماعت کو اس امر کی تحریک کی جائے کہ ربوہ کی جامع مسجد کے لئے مطلوبہ رقم عطایا کے ذریعہ جمع کی جائے۔کچھ احباب نے اس مد میں رقوم بھجوانی شروع کیں لیکن اس دوران ایک مخلص احمدی نے حضرت مصلح موعود ؓ کی خدمت میں اس امر کی گزارش کی کہ وہ اس مسجد کی تعمیر کے تمام اخراجات پیش کرنا چاہتے ہیں۔اور یہ درخواست کی کہ ان کا نام ظاہر نہ کیا جائے ۔حضور ؓ نے از راہِ شفقت اس کی اجازت مرحمت فرمائی۔(۱)
صدر انجمن احمدیہ نے جامع مسجد کی تعمیر کے لئے پانچ افراد کی کمیٹی مقرر کی ۔اس کمیٹی کی سفارش پر مکرم و محترم شیخ مبارک احمد صاحب کو کمیٹی کا سیکریٹری مقرر کیا گیا۔اکتوبر ۱۹۶۶ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۱س مسجد کا سنگ ِ بنیاد رکھا اور ۱۹۷۳ء میں اس کی تعمیر مکمل ہو گئی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ خود اس مسجد کی تعمیر کے مختلف مراحل میں دلچسپی لیتے رہے۔حضور ؒ نے درجنوںمرتبہ آکر تعمیر کا جائزہ لیا۔اور اس بات کی نگرانی فرمائی کہ اس تعمیر میں افادیت کا پہلو بہر حال مقدم رہے اور اخراجات میں کسی قسم کا ضیاع نہ ہو۔افتتاح سے ایک روز قبل حضور نے خود تمام انتظامات کا معائنہ فرمایا۔اس مسجد کا نقشہ چوہدری عبد الرشید صاحب،سابق پروفیسر انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور نے تیار کیا اور مکرم چوہدری نذیراحمد صاحب اور دیگر انجینئرز صاحبان نگرانی اور مشورہ کے لئے ربوہ تشریف لا کر خدمات سرانجام دیتے رہے۔(۲)
۳۱ مارچ ۱۹۷۲ء کو حضور ؒ نے ایک خطبہ جمعہ کے ساتھ مسجد کا افتتاح فرمایا۔جمعہ میں اہالیانِ ربوہ کے علاوہ باہر سے آئے ہوئے دوستوں نے بھی شرکت کی۔حضور ؒ نے خطبہ کے آ غاز میں سورۃ البقرہ کی وہ آیات تلاوت فرمائیں جن میں خانہ کعبہ کی تعمیر کا ذکر ہے اور فرمایا کہ اس دنیا میں اصل مساجد تو تین ہی ہیں یعنی خانہ کعبہ ،مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ ،جنہیں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے طفیل برکت دی گئی۔ باقی سب مساجد تو ان مساجد کی ظل ہیں اور انہی کی وجہ سے برکت حاصل کرتی ہیںہم نے جو یہ مسجد بنائی ہے یہ بھی ان مساجد کی ہی ظل ہے
اور اس کے دروازے قرآنِ کریم کے منشاء کے مطابق ہر موحد کیلئے کھلے ہیں۔خدا کرے کہ یہ مسجد بھی ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا مورد بنی رہے اور نمازیوں کی دعاؤں سے آباد رہے اور جن لوگوں نے اس کی تعمیر میں کسی نہ کسی رنگ میں حصہ لیا ہے یا اس کے لئے دعائیں کی ہیںخدا تعالیٰ ان کی سعی کو قبول فرمائے اور انہیں اپنی رحمتوں سے نوازے۔(۲)
یہ مسجد اب تک جماعت ِ احمدیہ کی سب سے بڑی مسجد ہے۔







(۱)رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۶۵ء ص ۱۵
(۲)الفضل ۲ ؍اپریل ۱۹۷۲ء ص ۱و۲
پاکستان میں تعلیمی ادارے قومیائے جاتے ہیں
۱۹۷۲ء میں پاکستان کی حکومت نے ملک کے تمام تعلیمی ادارے اپنی تحویل میں لینے کا اعلان کر دیا۔اس کے ساتھ جماعت ِ احمدیہ کے تعلیمی ادارے میں حکومتی تحویل میں لے لئے گئے۔تعلیم الاسلام کالج جیسے ادارے جنہیں محنت اور مسلسل قربانیوں کی روایات کے ساتھ چلایا گیا تھا ،جماعتی انتظام سے نکل کر حکومتی انتظام کے ماتحت چلے گئے۔لیکن اس کے بعد یہی ہوا کہ ان تعلیمی اداروں کا معیار نیچے گرتا چلا گیا۔جن تعلیمی اداروں میں نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کی اعلیٰ مثالیں قائم ہوتی تھیں، اب وہاں نہ کوئی تعلیمی معیار رہا اور نہ ہی کھیلوں جیسی سرگرمیوں کا کوئی معیار برقرار رہ سکا۔
جماعت ِ احمدیہ کے خلاف سرگرمیوں میں تیزی آتی ہے
آئین میں ختمِ نبوت کا حلف نامہ
۱۹۷۱ء کی جنگ کے نتیجہ میں پاکستان دو لخت ہو گیا۔صدر یحییٰ خان نے استعفیٰ دے دیا اور بھٹو صاحب نے ملک کے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا۔ اب ملک کے آئین کی تشکیل کا مسئلہ درپیش تھا۔مستقل آئین کی تشکیل میں تو کچھ وقت لگنا تھا ،اس دوران ملکی انتظامات چلانے کے لیے قومی اسمبلی نے ایک عبوری آ ئین کی منظوری دی اور مستقل آئین کا مسودہ تیار کرنے کے لیے ایک ۲۵ رکنی کمیٹی بنائی گئی،اس کمیٹی کے سربراہ وزیرِ قانون محمود علی قصوری صاحب تھے۔لیکن کچھ عرصہ بعد محمود علی قصوری صاحب نے اختلافات کی وجہ سے وزارت اور اس کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا عبد الحفیظ پیر زادہ صاحب نے اس کمیٹی کی صدارت سنبھال لی۔کمیٹی میں اپوزیشن کے کئی ایسے اراکین شامل تھے جو جماعت ِ احمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش رہے تھے۔ جماعت ِ اسلامی کے پروفیسر غفور احمد صاحب،جمعیت العلماء اسلام کے قائد مفتی محمود صاحب، جمعیت العلماء پاکستان کے شاہ احمد نورانی صاحب اس کے ممبر تھے۔ان کے علاوہ میاں ممتاز دولتانہ صاحب اور سردار شوکت حیات صاحب بھی اس کے ممبر تھے۔دولتانہ صاحب کس طرح جماعت ِ احمدیہ کی مخالفت کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے تھے ۱۹۵۳ء کے فسادات کے بیان میں اس کا ذکر تفصیل سے آ چکا ہے۔اور جب حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ وفاقی کابینہ میں وزیرخارجہ تھے، اس وقت سردار شوکت حیات صاحب بھی دولتانہ صاحب کے ساتھ مل کر مرکزی حکومت پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کو اس عہدے سے ہٹا دیا جائے۔
بعد میں سامنے آنے والے شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مرحلہ پر جب کہ یہ کمیٹی آئین کی تشکیل کا کام کر رہی تھی ان دنوں میں بھٹو صاحب اپنے سیاسی مخالفین جماعت ِ اسلامی کے ساتھ گفت و شنید کر رہے تھے۔واللہ اعلم کہاں تک یہ بات درست ہے لیکن صحافی مصطفیٰ صادق جو روزنامہ وفاق کے ایڈیٹر بھی رہے ہیں،کے مطابق پہلے پنجاب کے گورنر غلام مصطفیٰ کھر نے ان کے سامنے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر اشتراکی اور قادیانی خطرہ بنے ہوئے ہیں اور ان سے انہیں خطرہ ہے اور یہ کہ قادیانی ان کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔یہ بات تو خلافِ عقل ہے کہ امن پسند احمدیوں سے کسی کو خطرہ تھا ۔حقیقت یہ تھی کہ اپنی سیاسی ساکھ بڑھانے اور قائم رکھنے کے لئے اور اپنے سیاسی دشمنوں کو رام کرنے کے لئے احمدیوں کے جائز حقوق غصب کرنے کی تمہید باندھی جا رہی تھی۔اس کے مطابق مصطفیٰ صادق صاحب کے ہی مطابق بھٹو صاحب اور مودودی صاحب کی ملاقات ہوئی۔اس میں بھٹو صاحب نے مودودی صاحب سے تعاون کی اپیل کی اور یہ اپیل بھی کی کہ مودودی صاحب قادیانیوں اور کمیونسٹوں کی سرگرمیوں بلکہ بقول ان کے سازشوں کے بارے میں ذکر ہوا تو بھٹو صاحب نے ان سے کہا کہ وہ اس معاملے میں ان سے تعاون کریں۔پھر اس ملاقات کے بعد بھٹو صاحب اور مودودی صاحب مطمئن نظر آتے تھے اور کھر صاحب بھی بہت مسرور تھے کہ جس سیاسی بحران نے ان کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں اس کا حل اب نکل آئے گا۔تو اس طرح ایک بار پھر سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے جماعت ِ احمدیہ پر مظالم کا سلسلہ شروع کیا جا رہا تھا(۳) یہ بیان تو مصطفیٰ صادق صاحب کا ہے۔جب ہم نے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے جو کہ بھٹوصاحب کی کابینہ کے ایک اہم رکن تھے، اس بات کی بابت استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ تو مشکل ہے کہ بھٹوصاحب نے مصطفیٰ صادق صاحب سے رابطہ کیا ہو کیونکہ وہ انہیں اس قابلیت کا آدمی نہیں سمجھتے تھے لیکن یہ عین ممکن ہے کہ مودودی صاحب سے رابطہ کیا گیا ہو اور کھر صاحب کو کہا گیا ہو کہ ان سے رابطہ کریں۔لیکن اس کے ساتھ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت بھٹو صاحب کو احمدیوں سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔جب ہم نے مذکورہ بالا واقعہ کے بارے میں پروفیسر غفور صاحب سے استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے علم میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔اور عبد الحفیظ پیرزادہ صاحب نے بھی اس بابت سوال پر یہی کہا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں ہے۔
(نوٹ : اس کتاب کے بعض حصوں کے لئے ہم نے اس وقت کی بعض اہم سیاسی شخصیات سے انٹرویو لئے ۔ان میں مکرم ڈاکٹر مبشر حسن صاحب،جو بھٹو صاحب کی کابینہ میں وزیر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سیکریٹری جنرل رہے،مکرم عبد الحفیظ صاحب پیرزادہ جو بھٹو صاحب کی کابینہ میں وزیر رہے اور ۱۹۷۴ء کے وقت وزیر ِ قانون تھے،مکرم صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب جو کہ ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی کے سپیکر تھے،مکرم پروفیسر غفور احمد صاحب جو کہ قومی اسمبلی کے ممبر اور جماعت ِ اسلامی کے سیکریٹری جنرل تھے ،سابق جج پنجاب ہائی کورٹ مکرم جسٹس صمدانی صاحب جنہیں ۱۹۷۴ء میں انکوائری ٹریبونل میں مقرر کیا گیا تھا اور مکرم ٹی ایچ ہاشمی صاحب جو کہ پاکستان کے سیکریٹری اوقاف تھے اور ۱۹۷۴ء میں رابطہ عالمِ اسلامی کے اجلاس میں حکومت ِ پاکستان کے نمایندے کی حیثیت سے شامل ہوئے تھے اور مکرم معراج محمد خان صاحب جو کہ ایک زمانے میں بھٹو صاحب کے خاص رفیق اور ان کی کابینہ میں بھی رہے ،شامل ہیں۔ان انٹرویوز کا تحریری اور آڈیو یا ویڈیو ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے۔سوائے مکرم عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب کے انٹرویو کے جنہوں نے اگلے روز ریکارڈ کروانے کا فرمایا اور پھر معذرت کر لی۔ اکثر انٹرویوز لینے والی ٹیم میں خاکسار کے علاوہ مکرم مظفر احمد صاحب ڈوگر مربی سلسلہ اور مرزا عدیل احمد صاحب شامل تھے)
کمیٹی نے کام شروع کیا اور لمبی بحث وتمحیث کے بعد ۱۲ ؍اپریل ۱۹۷۳ء کو قومی اسمبلی نے نئے آئین کی منظوری دے دی۔بھٹو صاحب کے دور میں وفاقی وزیر اور ان کے قریبی معتمد مکرم رفیع رضا صاحب اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں کہ آئین کی منظوری سے چند روز قبل تک اپوزیشن راہنماؤں نے اس عمل کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا اور وہ کہہ رہے تھے کہ وہ پارلیمانی نظام چاہتے ہیں لیکن وزیر ِ اعظم کی آمریت نہیں چاہتے۔بھٹو صاحب نے غلام مصطفیٰ کھر صاحب کے ذریعہ اپوزیشن کی جماعتوں خاص طور پر جماعت ِاسلامی سے رابطہ کیا اور ان سب نے آئین کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
(Zulfikar Ali Bhutto and Pakistan 1967-1977, published by Oxford University Press Karachi 1997 page178)
جیسا کہ دستور ہے اس آ ئین میں بھی مختلف عہدوں کے لئے حلف نامے شامل تھے جنہیں اُ ٹھا کر کوئی شخص ان عہدوں پر کام شروع کر سکتا ہے۔اس آ ئین میں صدر اور وزیر اعظم کے لیے جو حلف نامے تجویز کئے گئے تھے ان کے الفاظ سے یہ بات ظاہر ہو جاتی تھی کہ یہ حلف نامے تجویز کرنے والوں نے اپنی طرف سے یہ کوشش کی ہے کہ احمدیوں کو نشانہ بنایا جائے اور کہیں کوئی احمدی ان عہدوں پر مقرر نہ ہو سکے۔یہ علیحدہ بات ہے کہ جماعت ِ احمدیہ کو سیاسی عہدوں کی بندر بانٹ سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن ان حلف ناموں کو تجویز کرنے والوں نے اپنی دانست میں احمدیوں کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کی تھی۔صدر اور وزیر ِ اعظم دو نوں کے حلف ناموں میں یہ الفاظ شامل تھے
I ......................, do solemnly swear that I am a Muslim and believe in the unity and oneness of Almighty Allah, the books of Allah, the Holy Quran being the last of them, the prophethood of Muhammad (peace be upon him) as the last of the prophets and that there can be no prophet after him, the day of judgement, and all the requirement and teachings of the Holy Quran.................... That I will strive to preserve the Islamic Ideology which is the basis for the creation of Pakistan.
اس سے پہلے بھی ملک میں دو آ ئین رائج ہوئے تھے اور ان میں بھی صدر اور وزیر اعظم کے لئے حلف نامے مقرر کئے گئے تھے۔لیکن ان میں مذہبی عقائد کے متعلق کوئی ایسی عبارات شامل نہیں کی گئی تھیں۔۱۹۵۶ء کے آئین میں صدر کے حلف نامے کے الفاظ یہ تھے
I..................do solemnly swear that I will faithfully discharge the duties of the office of President of Pakistan according to law, that I will bear true faith and allegiance to Pakistan, that I will preserve protect and defend the constitution, and that I will do right to all manner of people according to law without fear or favour, affection or ill-wil.
اسی طرح ایوب خان صاحب کے دور میں جو آئین بنایا گیا تھا اس کے حلف ناموں میں بھی مذہبی عقائد کا کوئی ذکر نہیں تھا ۔یہ پہلی مرتبہ تھا کہ پاکستان کے آئین میں اس قسم کا حلف نامہ شامل کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر مبشر حسن صاحب اس وقت بھٹو صاحب کی کابینہ کے ایک اہم رکن تھے اور وہ اس وقت اس کمیٹی کے رکن بھی مقرر ہوئے تھے جس نے آئین بنانے کا کام کیا تھا۔ان سے جب ہم نے یہ سوال کیا کہ حلف ناموں میں ختمِ نبوت کا حلف نامہ ڈالنے کی کیا وجہ تھی تو ان کا کہنا تھا کہ گو کہ اس کارروائی کے دوران انہوں نے اس کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ وہاں جس طرح بحث ہوتی تھی وہ وقت کو ضائع کرنا تھا کیونکہ آئین نے جس طرح بننا تھا وہ تو اسی طرح بنا لیکن اس کی واضح وجہ یہی تھی کہ بھٹو صاحب کی پہلی کوشش یہ تھی کہ آئین منظور ہو اور پھر یہ خواہش تھی کہ متفقہ آئین منظور ہو۔اس غرض کے لئے انہیں مذہبی عناصر کو جو Concessionsدینے پڑے ان میں یہ بھی شامل تھا ۔
اور جب ہم نے عبد الحفیظ پیرزادہ صاحب سے جو کہ آئین بنانے والی کمیٹی کے سربراہ تھے اس بابت سوال پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو صدر کے لئے یہ ضروری قرار دیا گیا کہ وہ مسلمان ہو لیکن جب آئین کا سارا ڈھانچہ بنا اور یہ واضح ہوا کہ سارے اختیارات تو وزیر ِ اعظم کے پاس ہوں گے تو مذہبی جماعتوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ وزیر ِ اعظم کے لئے بھی مسلمان ہونا ضروری قرار دیا جائے اور اس عہدہ کے لئے ختم ِ نبوت کا حلف نامہ اُ ٹھانا بھی ضروری ہو۔
جب ہم نے پروفیسر غفور صاحب جو اس وقت جماعت ِ اسلامی کے سیکریٹری تھے اور آئین تیار کرنے والی کمیٹی کے رکن تھے، یہ سوال کیا کہ ان حلف ناموں میں ختم ِ نبوت کا حلف نامہ شامل کرنے کی تجویز کس طرف سے آئی تھی جبکہ پہلے جو آئین بنے تھے ان میں اس کا ذکر نہیں تھا؟ تو ان کا جواب تھا کہ پاکستان کے سابقہ آئینوں کو تو میں نے نہیں پڑھا لیکن ۱۹۷۳ء کا آئین بنتے وقت عدلیہ کی آزادی اور صوبائی خود مختاری کے مسئلے پر تو بحث ہوئی تھی لیکن اس حلف نامے کے موضوع پر تو کوئی بحث ہوئی ہی نہیں تھی۔اس بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبی جماعتوں نے ان حلف ناموں میں ختمِ نبوت کا حلف نامہ شامل کرنے کے لئے کوئی خاص دباؤ نہیں ڈالا تھا۔بلکہ ان کی شمولیت ایک خاص ماسٹر پلان کا حصہ تھی جس کے باقی اجزاء بعد میں ظاہر ہوتے گئے۔لیکن اس بات نے مجھے بہت مایوس کیا کہ ایک صاحب جو نہ صرف آئین ساز اسمبلی کے رکن تھے بلکہ آئین کو مرتب کرنے والی کمیٹی کے ایک اہم رکن بھی تھے اور ایک پارٹی کے سیکریٹری جنرل بھی تھے انہوں نے آئین سازی کے عمل کے دوران پرانے آئین کو پڑھا بھی نہیں تھا۔
آئین میں ایک دلچسپ تضاد یہ بھی تھا کہ آئین کی رو سے وزراء ،ممبرانِ اسمبلی و سینٹ اور سپیکر اور ڈپٹی سپیکرز کے لئے یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ مسلمان ہو ں یعنی ایک غیر مسلم بھی یہ عہدے حاصل کر سکتا تھا اور غیر مسلم وزراء بنتے رہے ہیں اور اسمبلی کے ممبر بنتے رہے ہیں۔لیکن ان کے حلف نامے میں یہ عبارت شامل تھی
‏That I will strive to preserve the Islamic Ideology which is the basis for the creation of Pakistan
یعنی اگر ایک غیر مسلم ان عہدوں پر فائز ہو جائے تو وہ یہ حلف اُ ٹھائے گا کہ وہ غیر مسلم ہونے کے با وجود نظریہ اسلامی کی حفاظت کے لئے کوشاں رہے گا۔
ہم نے پروفیسر غفور صاحب سے یہ سوال کیا کہ ایک غیر مسلم یہ حلف کیسے اُ ٹھا سکتا ہے کہ وہ اسلامک آئیڈیالوجی کے تحفظ کے لئے کوشاں رہے گا۔تو پہلے انہوں نے آئین کی کاپی میں متعلقہ حصہ پڑھا اور پھر کہا کہ اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ میں مسلمان ہوں ۔یہ آئیڈیالوجی کے نقطہ نظر سے ہے۔ جب آئین میں یہ لکھاہے کہ ملک میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں بنے گا تو غیر مسلم کو بھی یہ حلف اُٹھانا پڑے گا۔
بہر حال یہ واضح تھا کہ اب احمدیوں کے خلاف ایک سازش تیار کی جا رہی ہے۔اس مرحلہ کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے ۱۹۸۵ء میں فرمایا:
’’۔۔۔۱۹۷۴ء کے واقعات کی بنیاد دراصل پاکستان کے ۱۹۷۳ء کے آئین میں رکھ دی گئی تھی۔چنانچہ آئین میں بعض فقرات یا دفعات شامل کر دی گئی تھیں تاکہ اس کے نتیجہ میں ذہن اس طرف متوجہ رہیں اور جماعت ِ احمدیہ کو باقی پاکستانی شہریوں سے ایک الگ اور نسبتاً ادنیٰ حیثیت دی جائے۔میں نے ۱۹۷۳ء کے آئین کے نفاذ کے وقت اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں عرض کیا اور آپ کو اس وقت توجہ دلائی ۔بعد ازاں جس طرح بھی ہو سکا جماعت مختلف سطح پر اس مخالفانہ رویہ کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن ان کوششوں کے دوران یہ احساس بڑی شدت سے پیدا ہوا کہ یہ صرف یہاں کی حکومت نہیں کروا رہی بلکہ یہ ایک لمبے منصوبے کی کڑی ہے اور اس معاملہ نے آگے بڑھنا ہے۔بہر حال ۱۹۷۴ء میں ہمارے خدشات پوری طرح کھل کر سامنے آگئے۔‘‘(خطبات ِ طاہر جلد۴ص۵۴)
لیکن بہت سے تکلیف دہ واقعات سے گزر کر ملک کو ایک دستور مل رہا تھا ۔جماعت ِ احمدیہ نے اس موقع پر کوئی مسئلہ نہیں پیدا کیا بلکہ ملکی مفادات کی خاطر اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ بالآخر ملک کو ایک دستور مل گیا ہے ۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے خطبہ جمعہ میں فرمایا:۔
’’گزشتہ ربع صدی میں پاکستان کو بہت سی پریشانیوں میں سے گزرنا پڑا۔قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد بانیِٔ پاکستان قائدِ اعظم کی وفات ہو گئی۔ان کے ذہن میں پاکستان کے لئے جو دستور تھا وہ قوم کو نہ دے سکے ۔پھر ملک کو بعض دوسری پریشانیوں کا منہ دیکھنا پڑا ۔پھر مارشل لاء لگا جس کے متعلق بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کی ذمہ داری فوج پر ہے اور یہ بات ایک حد تک درست بھی ہے لیکن اس کی اصل ذمہ داری تو ان لوگوں پر عاید ہوتی ہے جنہوں نے اس قسم کے حالات پیدا کر دیئے کہ فوج کو مارشل لاء لگانا پڑا ۔بہر حال مارشل لاء کا زمانہ بھی پریشانیوں پر منتج ہوا۔اس کی تفصیل میں جانے کا نہ یہ وقت ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے۔مارشل لاء کے زمانہ میں بھی کچھ قوانین تو ہوتے ہیں جن کے تحت حکومت کی جاتی ہے۔ تاہم ان قوانین کو قوم کا دستور نہ کہا جاتا ہے نہ سمجھاجاتا ہے اور نہ حقیقۃََ ایسا ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے قوم گویا دستور کے میدان میں پچھلے پچیس سال بھٹکتی رہی ہے چنانچہ ایک لمبے عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں کہ قوم کو ایک دستور مل گیا۔ ہم خوش ہیں اور ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہیں کہ ہماری اس سرزمین کو جسے اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشاۃ ِ ثانیہ کے لئے منتخب فرمایا ہے اس میں بسنے والی اس عظیم قوم کو اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی کہ وہ اپنے لئے ایک دستور بنائے۔‘‘(۲)
۱۹۷۳ء کے آئین میں جو حلف نامے تجویز کئے گئے تھے ان میں عقائدکا تذکرہ اور ختمِ نبوت کا حلف مولویوں اور مولوی ذہنیت رکھنے والوں کو خوش کرنے کے لئے رکھا گیا تھا۔اور پیپلز پارٹی کے قائدین بڑے فخر سے کہہ رہے تھے کہ ہم نے ملک کو ایک اسلامی آئین دیا ہے۔چنانچہ پیپلز پارٹی کے ایک لیڈر افتخار تاری صاحب نے آئین کی منظوری کے بعد بڑے فخر سے یہ بیان دیا۔
’’نیا آئین اسلامی ہے کہ اس میں پارلیمنٹ کی بالا دستی کے باوجود اسلامی مشاورتی کونسل کو سپریم حیثیت دی گئی ہے۔ہمارے مخالفین بالعموم اور جماعت ِ اسلامی والے بالخصوص پیپلز پارٹی پر یہ الزام لگاتے رہے کہ یہ مرزائی فرقہ کے قائدین کی ہدایات اور اشاروں پر چلتی ہے اور موجودہ حکومت کو ربوہ سے حکم آتے ہیں۔اگر یہ الزام درست ہوتا تو آئین میںاسلامی قوانین کو کیسے اپنایا جا سکتا تھا۔نیز اس آئین میں محمد مصطفیٰ ﷺ کے نبی آخرالزمان کو بنیاد بنا کر ان شکوک و شبہات کو قطعی طور پر دور کردیا گیا جن کی آڑ میں پیپلزپارٹی کو ہدف ِ تنقید بنایا جاتا تھا۔‘‘(روزنامہ امروز ۲۱ ؍اپریل ۱۹۷۳ء ص۲)
چونکہ پیپلز پارٹی اور خود بھٹو صاحب پر مخالفین کی جانب سے مذہب سے بیزار ہونے کا الزام تھا، اس لئے یہ بھی ممکن ہے اس الزام کا رد کرنے کے لئے اور مخالفین کو خوش کرنے اور ان سے ممکنہ طور پر پیش آنے والے خطرات کا سدِ باب کرنے کے لئے پیپلز پارٹی نے اس قدم پر رضامندی ظاہر کی ہو۔ لیکن تعصب اور تنگ نظری کے دوزخ میں جتنا مرضی ڈالو اس میں سے ھل من مزیدکی صدائیں بلند ہوتی رہتی ہیں۔ایک کے بعد دوسرا نا معقول مطالبہ سامنے آتا رہتا ہے۔اور اگر قوم کی تیرہ بختی سے حکومت ان کے آگے جھکنے کا راستہ اپنا لے تو پھر یہ عفریت معاشرے کی تمام عمدہ قدروں کو نگل جاتا ہے۔بھٹو صاحب اور پیپلز پارٹی کے دیگر قائدین کی یہ بھول تھی کہ وہ اس طرح تنگ نظر گروہ کو خوش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔یا جیسا کہ ہم بعد میں اس امر کا جائزہ لیں گے اگر یہ سب کچھ کسی بیرونی ہاتھ کو خوش کرنے کے لئے کیا جا رہا تھا تو یہ خیال محض خوش فہمی تھی کہ یہ بیرونی ہاتھ اسی پر اکتفا کرے گا اور پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔آئین کو بنے ابھی ایک ماہ بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ نئے مطالبے شروع ہو گئے۔یہ مطالبات اسلام کے نام پر کئے جا رہے تھے لیکن ان میں سے اکثر اسلامی تعلیمات کے بالکل بر عکس تھے۔ہم صرف ایک مثال پیش کرتے ہیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ اس گروہ کے خیالات اسلام اور اسلامی ممالک کے لئے کتنا بڑا خطرہ بن سکتے ہیں اور ان میں معقولیت نام کی کسی چیز کا نام و نشان بھی نہیں پایا جاتا۔ماہنامہ الحق کے اپریل مئی کے شمارے میں آئین کے حوالے سے ان مطالبات کی فہرست شائع ہوئی جو اسمبلی کے اندر اور باہر نام نہاد مذہبی جماعتوں کی طرف سے کئے جا رہے تھے۔اس رسالے میں’’ قومی اسمبلی میں مسودہ دستور کی اسلامی ترمیمات کا کیا حشر ہوا‘‘ کے نام سے ایک طویل مضمون شائع ہوا ۔اس میں مضمون نگار نے یہ اعتراضات کئے کہ اس آئین کو صحیح اسلامی رنگ دینے کے لئے جو تبدیلیاں ضروری تھیں وہ منظور نہیں کی گئیں۔یہ صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’لیکن ہماری نگاہیں اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے مغربی تہذیب سے مستعار بنیادی حقوق کے تصورات پر ٹھہرتی ہیں۔اور مغربی تہذیب سے مرعوب ہو کر بنیادی حقوق کے نام سے آئین کی رہی سہی اسلامیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔مثلاََ موجودہ بنیادی حقوق میں جنس (مرد ،عورت )، اور مذہب کی تمیز کئے بغیر ہر قسم کی ملازمتوں میں مساوات یہاں تک کہ وہ عدالت کا چیف جسٹس بھی بن سکے ،کلیدی مناسب بھی سنبھال سکے،عام مجالس اور مقامات میں داخلہ اور مرد و زن کا اختلاط ،تقریر و تحریر کی آ زادی کے نام پر اخلاقی اور مذہبی اقدار سے بھی آ زادی ہر شخص جو چاہے مذہب اختیار کرے،مسلم اور غیر مسلم ( اہلِ ذمہ) مرد و زن سب کو تمام شعبہ ہائے حیات میں ایک لاٹھی سے ہانکنا ،اس طرح کی بہت سی مثالیں اسلام کے عطا کردہ حقوق کی نفی کرتی ہیں۔اور آگے چل کر اسلامی قانون کی کئی اہم دفعات اور تقاضوں کے نفاذ کے لئے سدِ راہ بن سکتی ہیں۔مثلاََ ۱۔کوئی مسلمان اپنا مذہب تبدیل نہیں کر سکتا۔ ۲۔اسلامی مملکت میں ارتداد اور اس کی تبلیغ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ۳۔غیرمسلموں پر مخصوص ٹیکس جزیہ لگانے کی گنجائش ہے۔غلامی کے بارہ میں مخصوص حالات میں گنجائش ہے۔ ۵۔عورت حدود اور قصاص جیسے معاملات میںجج نہیں ہو سکتی۔ ۶۔نہ اس کی قضا کئی ایسے امور میںمعتبر ہے ۷۔نہ حدود اور قصاص میں اس کی شہادت معتبر ہے۔ ۸۔نہ وہ اسلامی سٹیٹ کی سربراہ بن سکتی ہے۔ ۹ ۔نہ کھلے بندوں مردوں کی تفریح گاہوں اور مخلوط اجتماعات میں آ جا سکتی ہے۔ ۱۰۔دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہے۔ ۱۱۔غیر مسلم اور ذمی قاضی اور جج نہیں بن سکتا۔ ۱۲۔نہ وہ اسلامی آئین سازی کرنے والے اداروں مقننہ یا دستور ساز اداروں کا رکن بن سکتا ہے بالخصوص جب اسمبلی کو اس بات کا پابند کیا گیا ہو کہ وہ کتاب و سنت کے مطابق قانون سازی کرے ۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے اسلام ملازمتوں اور انتخابی عہدوں میں امتیاز نا گزیر سمجھتا ہے۔جبکہ موجودہ بنیادی حقوق غیر مسلم اقوام ( جو مرتدین کو بھی شامل ہے )کو نہ صرف صدارت ،وزار ت عدلیہ کی سربراہی ،افواجِ اسلامی کی کمان تک عطا کرنے پر بھی قدغن نہیں لگاتے۔ ۱۴۔اسلام کی نگاہ میں کلیدی مناسب پر فائز ہونا تو بڑی بات ہے کسی غیر مسلم شہری کی مسلمانوں کے خلاف شہادت بھی معتبر نہیں۔‘‘(۳)
گویا ان علماء کے نزدیک صحیح اسلامی نظام تبھی آ سکتا تھا جب غلامی کی مشروط اجازت ہو، اسلام نے غلامی کے ختم کرنے کی ابتدا کی تھی۔ عورتوں کو نہ صرف کلیدی عہدوں پر نہ لگایا جائے بلکہ وہ پبلک تفریحی مقامات پر بھی نہیں جا سکتیں۔اور اگرچہ یہ مولوی حضرات جس سے مذہبی اختلاف ہو گا اس کے خلاف تو زہر اگلیں گے لیکن جس کو یہ غیر مسلم سمجھیں گے اسے اس بات کی ہر گز اجازت نہیں ہو گی کہ وہ ان کو دلائل سے جواب دے۔غیر مسلم کو نہ صرف کسی کلیدی عہدے پر مقرر نہیں کیا جائے گا بلکہ کسی مسلمان کے خلاف اس کی گواہی بھی قبول نہیں کی جائے گی۔یہ لغو خیالات نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہیں بلکہ ان کا اسلام کی تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔
(۱)قومی ڈائجسٹ جون ۱۹۸۴ء ص۳۷۔۳۸(۲) الفضل ۱۲؍جون ۱۹۷۳ئ(۳)ماہنامہ الحق اپریل مئی ۱۹۷۳ء ص۳تا۵
کشمیر اسمبلی میں جماعت ِ احمدیہ کے خلاف قرارداد
آئین میں شامل کئے گئے حلف ناموں سے یہ ظاہر ہوجاتا تھا کہ سیاستدانوں کا ایک طبقہ، آئین اور قانون میں ایسی تبدیلیاں کرنا چاہتا ہے جن کے نتیجے میں نہ صرف کہ اپنی دانست میں احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیا جائے بلکہ احمدیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کردیا جائے اور انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوشش کی جائے۔اور چونکہ الیکشن میں ان جماعتوں کو مکمل شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جن کو عرفِ عام میں مذہبی جماعتیں کہا جاتا ہے،اس لئے انہیں نئی سیاسی زندگی پانے کے لئے کسی ایسے مسئلہ کو چھیڑنے کی ضرورت تھی جس کی آ ڑ میں وہ اپنے سیاسی مردے میں کچھ جان پیدا کر سکیں۔اور جیسا کہ ہم ۱۹۵۳ء کی شورش کا جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھ چکے ہیںکہ ان پارٹیوں کو صرف اپنے سیاسی مفادات سے غرض ہوتی ہے۔ان حرکات سے ملک و قوم کو کتنا نقصان پہنچے گا ،یہ لوگ اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ۔ابھی پاکستان کے آئین کو اسمبلی سے منظور ہوئے ایک ماہ بھی نہیں گزرا تھا کہ اس سازش کے آ ثار مزید واضح ہو کر نظر آنے لگے۔اس مرتبہ یہ فتنہ کشمیر اسمبلی میں سر اُ ٹھا رہا تھا۔
اس وقت سردار عبدالقیوم صاحب کشمیر کے صدر تھے اور سردار قیوم صاحب ایک عرصہ سے جماعت احمدیہ کے خلاف سرگرمیوں میں حصہ لے رہے تھے۔کشمیر کی اسمبلی ۲۵ اراکین پر مشتمل تھی۔ ان میں سے ۱۱ اراکین کا تعلق حزب ِ اختلاف سے تھا اور ۲۹ ؍اپریل ۱۹۷۳ء کو ان اراکین نے کسی وجہ سے اسمبلی کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔اس بائیکاٹ کے دوران حکومتی گروہ کے ایک رکن اسمبلی میجرایوب صاحب نے ایک قرارداد پیش کی جس کے متعلق روزنامہ مشرق نے یہ خبر شائع کی:
’’آزاد کشمیر اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں حکومت آزاد کشمیر سے سفارش کی گئی ہے کہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا جائے۔ریاست میں جو قادیانی رہائش پذیر ہیںان کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جائے اور انہیں اقلیت قرار دینے کے بعد ان کی تعداد کے مطابق مختلف شعبوں میں ان کی نمائندگی کا یقین کرایا جائے۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ریاست میں قادیانیت کی تبلیغ ممنوع ہوگی۔یہ قرارداد اسمبلی کے رکن میجر محمد ایوب نے پیش کی تھی۔ قرارداد کی ایک شق ایوان نے ہفتہ کے روز بحث کے بعد ایک ترمیم کے ذریعہ خارج کر دی جس میں کہا گیا تھا کہ ریاست میں قادیانیوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا جائے۔میجر ایوب نے قرارداد پیش کرتے ہوئے آئین پاکستان میں مندرج صدرِ مملکت اوروزیرِ اعظم کا حلف نامہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ آئین میں ان عہدیداروں کے لئے مسلمان ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے اور اس کے مطابق یہ حلف نامہ تجویز کیا گیا ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ حلف اُ ٹھانے والا یہ اقرار کرتا ہے کہ اس کا ایمان ہے کہ محمد مصطفیٰ ﷺ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی ہے (سہو ِ کتابت معلوم ہوتی ہے ۔اصل میں کوئی نبی نہیں ہے کہ الفاظ کہے گئے ہوں گے)میجر ایوب نے کہا کہ اصولی طور پر آئین کی اس دستاویز کی رو سے وہ لوگ خود بخود غیر مسلم ہو گئے جو رسول اکرم ﷺ کوآخری نبی نہیں مانتے اور چونکہ آزاد کشمیر اسمبلی اس سے قبل یہ قرارداد منظور کر چکی ہے اور اس کی روشنی میں قانون سازی بھی کی گئی ہے کہ ریاست میں اسلامی قوانین نافذکئے جائیں گے اس لئے لازم ہے کہ اس معاملہ میں شریعت کے مطابق واضح احکامات جاری کئے جائیں ۔ایوان کے ایک رکن نے قرارداد کی تائید کرتے ہوئے پاکستان کی بعض عدالتوں کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا جن میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔‘‘(۱)
گو کہ یہ قرارداد حکومت سے سفارش کے طور پر تھی اور قانون سازی نہیں تھی لیکن یہ بہر حال واضح نظر آ رہا تھا کہ جماعت کے مخالفین کے عزائم کیا ہیں۔وہ چاہتے تھے کہ احمدیوں کو آئینی طور پر ایک غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے۔اور جیسا کہ ہم ۱۹۵۳ء کے حالات بیان کرتے ہوئے مخالفین ِ جماعت کا بیان نقل کر چکے ہیںکہ انہیں یہ امید تھی کہ اگر احمدیوں کو قانونی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے تو یہ چیز کم از کم پاکستان میں احمدیت کو ختم کرنے کے لئے کافی ہو گی۔پہلے اس قدم کی تمہید کے طورپر آئین میں صدر اور وزیر ِ اعظم کے لئے ختم نبوت کا حلف اُ ٹھانا ضروری قرار دیا گیا۔اور پاکستان کے آئین میں ان حلف ناموںکو بنیاد بنا کر آزاد کشمیر کی اسمبلی میں سفارش کے طور پر یہ قرارداد منظور کرائی گئی تاکہ اسے بنیاد بنا کر پاکستان میں بھی اس قسم کا قانون بنانے کی کوششیں کی جا سکیں۔لیکن کشمیر اسمبلی میں بھی جو قرارداد پیش کی گئی اس کا سرسری مطالعہ بھی اس بات کو واضح کر دیتا ہے قانونی طور پر احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردینا بھی ان کا آخری مقصد نہیں تھا بلکہ اصل مقصد یہ تھا کہ احمدیوں کو ہر قسم کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جائے۔مثلاََ یہ تجویز کیا گیا تھا کہ احمدیوں کی رجسٹریشن کی جائے اور انہیں آبادی کے تناسب سے مختلف شعبوں میں ملازمتیں دی جائیں ۔حالانکہ کشمیر یا پاکستان میں ایسا کوئی قانون تھا ہی نہیں کہ کسی مذہبی گروہ کو خواہ وہ اکثریت میں ہو یا اقلیت میں ہو ،آبادی کے تناسب سے ملازمتیں دی جائیں گی۔یہ شوشہ چھوڑنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ احمدی میرٹ کی بنیاد پر اپنا حق حاصل نہ کر سکیں۔اور ان پر ایسا معاشی اور اقتصادی دباؤ ڈالا جائے کہ وہ ارتداد کا راستہ اختیار کریں۔ گو کہ منظوری کے وقت یہ حصہ حذف کر دیا گیا لیکن جو قرارداد میجر ایوب صاحب کی طرف سے پیش کی گئی اس میں یہ شق بھی شامل تھی کہ ریاست میں احمدیوں کے داخلے پر پابندی لگائی جائے۔تو اصل ارادے یہی تھے کہ احمدیوں کو ان کے تمام حقوق سے محروم کر دیا جائے ورنہ ریاست میں ہندو ،عیسائی اور یہودی تو داخل ہو سکتے تھے لیکن احمدی مسلمانوں کے داخلہ پر پابندی لگانے کی تجویز کی جا رہی تھی۔گویا یہ ان خدمات کا صلہ دیا جا رہا تھا جو احمدیوں نے اہلِ کشمیر کی مدد کے لئے سر انجام دی تھیں۔ اس قراردادمیں ایک اہم سفارش یہ تھی کہ ریاست میں احمدیوں کی تبلیغ پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ یہ بات قابلِ مذمت ہونے کے ساتھ قابلِ فہم بھی تھی کیونکہ مخالفینِ جماعت دلائل کے میدان میں احمدیوں کا مقابلہ کرنے سے کتراتے ہیں اور ان کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ انہیں تو ہر قسم کا زہر اگلنے کی اجازت ہو بلکہ اس غرض کے لئے ہر قسم کی سہولت مہیا کی جائے مگر احمدیوں پر پابندی ہونی چاہئے کہ وہ اس کا جواب نہ دے سکیں۔یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ کشمیرمیں عیسائیت یا دوسرے مذاہب کی تبلیغ پر کوئی پابندی لگانے کی سفارش نہیں کی گئی تھی ،صرف احمدیت کی تبلیغ پر پابندی لگانے پر زور تھا۔احمدیوںکی تبلیغ پر پابندی لگانے پر اصرار اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ گروہ احمدیوں کے دلائل سے خائف رہتا ہے۔
پاکستان کے اکثر بڑے اخباروں میں یہ خبر ایک خاص معنی خیز انداز میں شائع کی جا رہی تھی۔ ایک تو جب نوائے وقت ،امروز اور پاکستان ٹائمز میں یہ خبر شائع کی گئی تو یہ شائع نہیں کیا کہ ابھی اس کے مطابق قانون سازی نہیں کی گئی اور یہ قرارداد ایک سفارش کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ یہ لکھا گیا کہ کشمیر میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا ہے۔دوسرے ان تینوں اخباروں میں یہ لکھا گیا کہ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی ہے (۳،۴،۵)جس سے یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ اسمبلی کے تمام اراکین نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اس وقت اپوزیشن اسمبلی میں موجود ہی نہیں تھی۔ اورخدا جانے یہ بات صحیح تھی کہ غلط مگر بعض حکومتی اراکین نے بھی احمدیوں کے سامنے اس بات کا اظہار کیا کہ انہوں نے بھی اس کے حق میں ووٹ نہیں دیا ۔جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ ممکن ہے کہ اس وقت بعض حکومتی اراکین بھی اسمبلی میں موجود نہیں تھے جب کسی وجہ سے عجلت میں یہ قرارداد منظور کرائی گئی ۔(۵)
یہ بات بھی قابلِ غور تھی کہ وہ اخبارات جو کہ پاکستان کی حکومت کے اپنے اخبارات تھے یعنی امروز اور پاکستان ٹائمز ،وہ بھی اس قرارداد کے متعلق صحیح حقائق پیش کرنے کی بجائے بات کو توڑ موڑ کر پیش کر رہے تھے ۔حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرنے کا ایک ہی مقصد ہو سکتا تھا اور وہ یہ کہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مخالفت کو ہوا دی جائے ۔جماعت کی مخالف پارٹیوں کو تو گذشتہ انتخابات میں مکمل شکست کے بعد اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ جماعت ِ احمدیہ کے خلاف شورش پیدا کر کے اپنی سیاست کے مردے میں جان ڈالیں لیکن اب اس بات کے آ ثار واضح نظر آ رہے تھے کہ حکومت میں شامل کم از کم ایک طبقہ اب جماعت احمدیہ کے خلاف سازش میں شریک ہو رہا ہے۔اور کچھ سرکاری افسران بھی اس رو میں بہہ چکے تھے۔اور اسی طرح ایک شورش برپا کرنے کی کوشش ہو رہی تھی جس طرح بیس سال قبل ۱۹۵۳ء میں برپا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔بیس پچیس سال قبل بھی ان نام نہاد مذہبی جماعتوں کو انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور انتخابات میں وہ جماعت کامیاب ہوئی تھی جسے جماعت ِ احمدیہ کی حمایت حاصل تھی اور ان نام نہاد سیاسی جماعتوں نے سیاسی زندگی حاصل کرنے کے لئے جماعت ِ احمدیہ کے خلاف ایک شورش برپا کی تھی اور بر سرِ اقتدار پارٹی کا ایک حصہ اپنے مفادات کیلئے مولویوں کی تحریک کی پشت پناہی کرنے پرآمادہ ہو گیا تھا اور وہ اخبارات جماعت کے خلاف زہر اگلنے لگے تھے جنہیں حکومت ِ پنجاب کی مالی سرپرستی حاصل تھی۔اور اب بھی اس بات کے آ ثار نظر آ رہے تھے کہ تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔
بہت جلد پاکستان میں یہ بیان بازی شروع کر دی گئی کہ اب پاکستان میں ایسی قانون سازی کرنی چاہئے جس کے ذریعہ جماعت ِ احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے ۔جماعت ِ اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد صاحب نے کہا کہ آ زاد کشمیر کی حکومت کا فیصلہ بالکل صحیح اور حقیقت کے مطابق ہے اور حکومتِ پاکستان کو اس کی پیروی کرنی چاہئے(۶)۔جمعیت العلماء پاکستان کی طرف سے بھی یہ قدم اُٹھانے پر صدر آ زاد کشمیر کو مبارکباد دی گئی اور اس جماعت کے صدر شاہ احمد نورانی صاحب نے حکومت ِ پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دے ۔اس کے علاوہ مختلف مساجد میں خطیبوں نے بھی اس قرارداد کا خیر مقدم کر کے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دے(۷،۸)۔آزاد کشمیر کی حکومت کو یہ مبارکبادیں صرف ملک کے اندر سے نہیں موصول ہو رہی تھیں بلکہ جلد ہی جماعت کے مخالف جریدوں نے یہ خبر شائع کی کہ رابطہ عالمِ اسلامی کے جنرل سیکریٹری نے تار کے ذریعہ مکہ معظمہ سے پاکستان کے صدر بھٹو کو آ زاد کشمیر کی اسمبلی کی اس قرار داد پر مبارکباد کی تار دی ہے۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ تار آزاد کشمیر کے صدر کو نہیں بلکہ پاکستان کے وزیراعظم کو بھجوائی گئی تھی۔رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل نے دنیا کے مسلمان ممالک سے اپیل کی کہ وہ اپنے ممالک میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیں اور مسلمان فرقوں میں اس گمراہ فرقہ کو اپنا شر پھیلانے کی اجازت نہ دی جائے۔(۹)
جب احمدیوں نے یہ خبریں پڑھیں تو لازماََ انہیں بہت تشویش ہوئی۔اور ان کی طبیعتوں میں غم و غصہ پیدا ہوا۔فطرتی بات ہے کہ ایسے موقع پر احمدی احباب اپنے امام کی طرف دیکھتے ہیں اور انہی سے راہنمائی کی درخواست کرتے ہیں۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۴؍مئی ۱۹۷۳ء کو ربوہ میں اس قرارداد پر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور احباب جماعت کو بعض اصولی ہدایات سے نوازا۔اس وقت احمدیوں کے دلوں میں جس قسم کے جذبات پیدا ہو رہے تھے اس کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ارشاد فرمایا:
’’غرض جس احمدی دوست نے بھی یہ خبر پڑھی اس کی طبیعت میں شدید غم و غصہ پیدا ہوا۔ چنانچہ دوستوں نے مجھے فون کیے،میرے پاس آدمی بھجوائے،خطوط آئے، تاریں آئیں۔ احباب نے خطوط اور تاروں وغیرہ کے ذریعہ اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر خدمت کے لیے پیش کیا کہ اگر قربانی کی ضرور ت ہو تو ہم قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔چنانچہ میں نے تمام دوستوں کو جنہوں نے خطوط اور تاروں کے ذریعہ مخلصانہ جذبات کا اظہار کیا اور ان کو بھی جو میرے پاس آئے یہی سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل و فراست عطا فرمائی ہے اور عزت اور احترام کا مقام بخشا ہے۔پس عقل و فراست اور عزت و احترام کا یہ مقام جو خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں مرحمت فرمایا ہے،یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم پورے اور صحیح حالات کا علم حاصل کیے بغیر منہ سے کچھ نہ کہیں۔اس قرارداد کے الفاظ کیا ہیں۔ قرارداد پاس کرنے والوں میں کون کون شامل ہے۔یہ خبر اخباروں میں نمایاں طور پر کیوں آئی سوائے پاکستان ٹائمز کے جس نے پانچویں صفحے پر شائع کی لیکن چوکٹھا بنا کر گویا اس نے بھی اس کو نمایا ں کر دیا ۔جب تک اس کے متعلق ہمیں علیٰ وجہ البصیرت کوئی علم نہ ہو اس وقت تک ہم اس پر کوئی تنقید نہیں کر سکتے ۔میں نے دوستوں سے کہا ،ہم حقیقتِ حال کا پتہ کریں گے اور پھر اس کے متعلق بات کریں گے۔‘‘(۱۰)
حضور ؒ نے اس خطبہ جمعہ میں اس قرارداد کے پاس ہونے کے صحیح حالات بیان فرمائے اور جس طرح اخبارات نے اس خبر کو شائع کیا اس کا تجزیہ بیان فرمایا۔حضور ؒ نے کشمیر اسمبلی کی قرارداد کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
’’پس اگر نو یا بارہ آدمیوں نے اس قسم کی قرارداد پاس کر دی تو خدا کی قائم کردہ جماعت پر اس کا کیا اثر ہو سکتا ہے ۔اس کے نتیجہ میںجو خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں وہ یہ نہیں کہ جماعت ِ احمدیہ غیر مسلم بن جائے گی۔جس جماعت کو اللہ تعالیٰ مسلمان کہے اسے کوئی نا سمجھ انسان غیر مسلم قرار دے تو کیا فرق پڑ تا ہے ۔اس لیے ہمیں اس کا فکر نہیں ہمیں فکر ہے تواس بات کا کہ اگر یہ خرابی خدا نخواستہ انتہاء تک پہنچ گئی تو اس قسم کے فتنہ و فساد کے نتیجے میں پاکستان قائم نہیں رہے گا ۔اس لیے ہماری دعائیں ہیں ہماری کوششیں ہیں اور ہمارے اندر حب الوطنی کا یہ جذبہ موجزن ہے کہ کسی قسم کا کوئی بھی فتنہ نہ اُ ٹھے کہ جس سے خود پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جائے ۔آخر فتنہ و فساد یہی ہے نا کہ کچھ سر کٹیں گے ،کچھ لوگ زخمی ہوں گے۔ کون ہوں گے کیا ہو گا ،یہ تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے لیکن جب اس قسم کا فساد ہوگا تو دنیا میں ہماری ناک کٹے گی،ہر جگہ پاکستان کی بد نامی ہو گی۔‘‘ (۱۱)
حضور نے فرمایا کہ اب جماعت ِ اسلامی اور جماعت احمدیہ کی مخالف جماعتیں حکومت کو دھمکیاں دے رہی ہیںکہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے تو ۱۹۵۳ء جیسے حالات پیدا ہو جائیں گے ۔دراصل یہ لوگ ۱۹۵۳ء کا نام لے کر اپنے نفسوں کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔ان لوگوں کو اس وقت اتنی ذلت اٹھانی پڑی تھی کہ اگر وہ ذرا بھی سوجھ بوجھ سے کام لیتے تو ۵۳ ء کا نام بھی نہ لیتے مگر جماعت ِ احمدیہ نے اس فساد فی الملک میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے عظیم نشان دیکھے ۔اللہ تعالیٰ کی رحمت نے جماعت کو بڑی ترقی عطا فرمائی اس لیے ہمارے حق میں ۵۳ ء بڑا مبارک زمانہ ہے۔، جس میں جماعت بڑی تیزی سے ترقی اور رفعتوں میں کہیں سے کہیں جا پہنچی ۔حضور نے بیان فرمایا کہ ایسے بھی احمدی ہیں جو ۱۹۵۳ء میں احمدیوں کے گھروں کو آگ لگانے کے لیے نکلا کرتے تھے مگر بعد میں حق کو پہچان کر خود احمدی ہو گئے۔
حضور نے خطبہ جمعہ کے آ خر میں فرمایا:
’’میرا خیال ہے کہ میں نے ایک احمدی کا جو صحیح مقام ہے وہ آپ کو سمجھا دیا ہے ۔آپ دعا کریں اور اس مقام پر مضبوطی سے قائم رہیں کیونکہ ہمارے لئے جو وعدے ہیں اور ہمیں جو بشارتیں ملی ہیں وہ اس شرط کے ساتھ ملی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں جس مقام پر سرفراز فرمایا ہے اس کو بھولنا نہیں اوراس کو بھولنا نہیں اور اسکو چھوڑنا نہیں ۔خدا تعالیٰ کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا ہے۔آنحضرت ﷺ سے پیار کرتے رہنا ہے۔ اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھنا۔ بے لوث خدمت میں آگے رہنا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا ہے اور جب دنیا پیار کو کلی طور پر قبول کرنے سے انکار کردے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کو یاد رکھنا کہ ’’ اُ ٹھو نمازیں پڑھیں اور قیامت کا نمونہ دیکھیں‘‘(۱۲)
یہ ایک عجیب بات ہے کہ جب ہم نے جماعت ِ اسلامی کے لیڈر پروفیسر غفور صاحب سے انٹرویو کے دوران آزاد کشمیر اسمبلی کی اس قرار داد کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں اس کا علم نہیں اور یہ بھی کہا کہ ۱۹۷۳ء میں تو قادیانیوں کے بارے میں کوئیIssueنہیں تھا۔جب انہیں میاں طفیل محمد صاحب امیر جماعت ِ اسلامی کے بیان کا حوالہ دیا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے یاد نہیں ہے۔اور پھر دہرایا کہ ۱۹۷۳ء میں تو قادیانیوں کے بارے میں کوئیDisputeنہیں تھا۔

(۱)مشرق یکم مئی ۱۹۷۳ء ص ۶
(۲) نوائے وقت ۳۰ ؍اپریل ۱۹۷۳ء ص۱
(۳)پاکستان ٹائمز ۳۰ ؍اپریل۱۹۷۳ء
(۴)امروز ۳۰ ؍اپریل ۱۹۷۳ء ص۱
(۵)آزاد کشمیر اسمبلی کی ایک قرارداد پر تبصرہ از حضرت امام جماعت ِ احمدیہ ،ناشرنظارت اشاعت لٹریچرو تصنیف صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ ص۴
(۶) نوائے وقت ۳ ؍مئی ۱۹۷۳ء ص ۱
(۷)نوائے وقت ۱۶ ؍مئی ۱۹۷۳ء ص ۲
(۸)نوائے وقت ۵ ؍مئی ۱۹۷۳ء ص آخر
(۹) المنبر۶؍ جولائی ۱۹۷۳ء ص۱۴و ۱۵
(۱۰)آزاد کشمیر اسمبلی کی ایک قرارداد پر تبصرہ از حضرت امام جماعت ِ احمدیہ ،ناشرنظارت اشاعت لٹریچرو تصنیف صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ ص۲و۳
(۱۱)آزاد کشمیر اسمبلی کی ایک قرارداد پر تبصرہ از حضرت امام جماعت ِ احمدیہ ،ناشرنظارت اشاعت لٹریچرو تصنیف صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ ص۴و۵
(۱۲)آزاد کشمیر اسمبلی کی ایک قرارداد پر تبصرہ از حضرت امام جماعت ِ احمدیہ ،ناشرنظارت اشاعت لٹریچرو تصنیف صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ ص۱۶
۱۹۷۳ء کی ہنگامی مجلسِ شوریٰ
اب تک ہم یہ جائزہ لیتے رہے ہیں کہ ۱۹۷۳ء کے پہلے تین ماہ کے اختتام تک اس بات کے آثار نظر آ رہے تھے کہ جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین پہلے کی طرح ایک بار پھر جماعت احمدیہ کے خلاف سازش تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔لیکن بہت سے حقائق ابھی منظرِ عام پر نہیں آئے تھے۔ احبابِ جماعت کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ ۱۹۵۳ء کی نسبت بہت زیادہ وسیع پیمانہ پر یہ سازش تیار کی جا رہی تھی۔ ۱۹۷۳ء کی مجلسِ مشاورت حسب معمول ۳۰ مارچ تا یکم اپریل ۱۹۷۳ء منعقد ہوئی تھی۔اب ایسے حالات پیدا ہو رہے تھے جن سے جماعت کو آگاہ کرنا ضروری تھا۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے خصوصی ارشاد پر ۲۷ مئی ۱۹۷۳ء کو مجلسِ مشاروت کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا۔ حسبِ قواعد اس میں جملہ نمائندگان مجلسِ مشاورت ۱۹۷۳ء کو مدعو کیا گیا کیونکہ قواعد کے مطابق کسی مجلسِ شوریٰ کا نمائندہ پورے سال کے لئے نمائندہ ہوتا ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے حضور ؒ نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے وقت ملک کی صورت حال اور انتخابات میں جماعت ِ احمدیہ کے فیصلے کی حکمت کا تفصیلی تجزیہ فرمایا ۔چونکہ اس وقت تک یہ بات ظاہر ہو چکی تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک گروہ با وجود اس حقیقت کے کہ انتخابات کے مرحلہ پر احمدیوں نے ان کی مدد کی تھی اور وہ خود درخواست کر کے احمدیوں کی مدد طلب کر رہے تھے،اب جماعت کی مخالفت میں سرگرم نظر آ رہے تھے۔وہ اقتدار میں آ کر سمجھتے تھے کہ اب انہیں اس غریب مزاج گروہ کی کیا ضرورت ہے بلکہ اب احمدیوں کی مخالفت کرکے وہ مولویوں کی آ نکھوں کا تارہ بن سکتے ہیں۔ دنیاوی نگاہ سے دیکھا جائے تو ان کا تجزیہ غلط بھی نہیں تھا لیکن وہ یہ بات نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ اس غریب جماعت کا ایک مولا ہے جو ان کی حفاظت کر رہا ہے۔حضور نے اس مجلسِ شوریٰ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ پیپلز پارٹی کے منتخب اراکین کے تین گروپ ہیں۔پہلا گروہ وہ ہے کہ جب سے انہوںنے ہوش سنبھالا ہے وہ جماعت ِ احمدیہ کے دشمن چلے آ رہے ہیں۔اور اب جب کہ وہ اسمبلیوں کے ممبر اور حق و انصاف کے امین ہیں ہنوز ہمارے بڑے سخت مخالف اور معاند ہیں۔اور جماعت احمدیہ نے صرف ملک کے استحکام کی خاطر انتخابات میں ان لوگوں کی مدد بھی کی تھی۔دوسرا گروہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کے اندر کسی قسم کا مذہبی تعصب نہیں ۔وہ انتخاب سے پہلے بھی ہمارے دوست تھے اور اب بھی ہیں تا ہم یہ دوستی اسی قسم کی دوستی ہے جو دنیا میں دنیا کی خاطر پیداہوتی ہے۔یہ اس قسم کی دوستی نہیں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے تو تمہارے لئے عزت اور شرف کا سامان آسمانوں سے نازل کیا تھا اور تم اس سے بے اعتنائی برت رہے ہو ۔پیپلز پارٹی کا ایک تیسرا گروہ بھی ہے اور اس کی شاید اکثریت ہے۔یہ گروہ نیوٹرل ہے یعنی نہ ہمارے ساتھ اس کی کوئی دوستی ہے اور نہ ہمارے ساتھ اس کی کوئی دشمنی ہے۔چونکہ پارٹی میں اس گروہ کی اکثریت ہے اور دنیا میں بالعموم نیوٹرل کی اکثریت ہوا کرتی ہے اس لئے اگر پیپلز پارٹی کی قیادت ان کو صحیح راستہ بتا دے گی تو وہ صحیح راستہ پر چل پڑیں گے ا گر ان کو غلط راستہ پر ڈال دیں گے تو غلط راستہ پر چل پڑیں گے ۔حضور نے ان تین گروہوں کا تجزیہ کرنے کے بعد فرمایا۔
’’۔۔۔پھر چونکہ ہم نے کوئی سودابازی نہیں کی تھی کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا اس لئے اگر پیپلز پارٹی کا وہ معاند گروہ (جس کا میں پہلے تجزیہ کر آیا ہوں اور جو پندرہ بیس فیصد سے زیادہ نہیں)اگر احمدیت مردہ باد کا نعرہ لگائے تو کسی احمدی دوست کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ پیپلز پارٹی کاہم سے کوئی معاہدہ تھا جس کی انہوں نے کوئی خلاف ورزی کی ہے۔ہمارا ان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہے ہم نے ان کے ساتھ کوئی سودا بازی نہیں کی ۔اگر وہ ہمارے ساتھ کوئی زیادتی کریں تو ہمیں دکھ ہو گا،گلہ شکوہ اور غصہ نہیں آئے گا کیونکہ سودا بازی کا مطلب یہ ہے کہ جس سے ہم سودا بازی کر رہے ہیں وہ ہمیں غلام سمجھ کر یا مال سمجھ کر مارکیٹ میں لے جائے اور یہ تو ہم ایک لمحہ کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس معاند گروہ کی طرف سے ہمیں آوازیں پہنچتی رہتی ہیں کہ ہم یہ کریں گے اور وہ کریں گے لیکن ہم پیپلز پارٹی کو بحیثیت مجموعی موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے ۔میں آج کی بات کر رہا ہوں کل کا مجھے پتہ نہیں کیا ہوگا۔نہ ہمیں اس بات کا کوئی حق ہے کیونکہ ہم نے ان کے ساتھ کوئی سودا ہی نہیں کیا۔ہم نے ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے اس شرط کے ساتھ کہ صرف وہی ہمارے دوست نہیں ہوں گے اور بھی ہوں گے کیونکہ ان کے ساتھ ہم نے کوئی الحاق تو نہیں کیا تھا ۔ہم نے تو دوسری پارٹیوں کے بعض امیدواروں کو بھی ووٹ دیئے تھے اب ان کی مرضی ہے کہ وہ دوستی کے حق کو نباہیں یا نہ نباہیں ۔ہمیں تعلیم دینے والے نے یہ فرمایا ہے کہ تم نے خود دوستی نہیں توڑنی لیکن ہمیں خدا نے یہ اختیار تو نہیں دیا کہ دوسروں کو مجبور کریں کہ ضرور دوستی قائم رکھی جائے۔دوستی کاتعلق ضرور ہے لیکن ہم ان کو خدا نہیں سمجھتے نہ داتا سمجھتے ہیں ۔ان داتا کا تو کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ دوست یہ یاد رکھیں پھر میں کہتا ہوں کہ یاد رکھیں ہمارے لئے ایک ہی دروازہ ہے جس کی دہلیز پر ہم کھڑے ہیںوہ اللہ تعالیٰ کا دروازہ ہے خدا کی رحمت کے دروازے کے مقابلہ میں ان دروازوں کی حیثیت ہی کیا ہے اور ہم نے ان کی طرف منہ کیوں کرنا ہے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کوئی ہمارا محافظ اور Saviour ہے تو وہ بڑا ہی نا لائق اور بیوقوف ہے،اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کسی سے ہم نے دولت لینی ہے یا کسی سے ہم نے اثرو رسوخ حاصل کرنا ہے تواس سے زیادہ نا سمجھ اور کوئی نہیں ہم تو ایک ہی ہستی کے در پر جا پڑے ہیں اور اپنے اس مقامِ عجز اور فروتنی پر خوش ہیں اور مطمئن ہیں اور راضی ہیں۔۔۔
بعض لوگوں نے (یہی جو پیپلز پارٹی میں ہمارا معاند اور مخالف گروپ ہے اس میں سے بعض نے )یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ ہمارے بہت سر چڑھ گئے ہیں سفارشیں لے کر آ جاتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی سفارشیں مانیں گے اس قسم کی باتیں سننے آئیں۔ اگر چہ ہم اس بات کا پیپلز پارٹی کو بحیثیت جماعت الزام نہیں دیتے کیونکہ اس قسم کی باتیں کرنے والا ان کی پارٹی کا چھوٹا سا حصہ ہے لیکن میں نے سوچا کہ اگر اس چھوٹے سے حصہ کی طرف سے بھی اس قسم کی آواز نکلتی ہے تو ان سے بالکل تعلق نہیں رکھنا چاہئے ۔چنانچہ میاں طاہر احمد صاحب بہت سارے کام کرتے تھے ان کو میں نے بلا کر مزاحاََ کہا کہ اب آپ اپنے آپ کو Under House Arrestسمجھیںآپ نے باہر بالکل جانا ہی نہیں ۔ یہ (پیپلزپارٹی والے ) اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں کیا ہم ان کے محتاج ہیں ۔ہم اگر کسی کے محتاج ہیں تو خدائے قادر و توانا کے محتاج ہیں۔خدا کرے کہ ہماری یہ احتیاج ہمیشہ قائم رہے عمل کے لحاظ سے بھی اور اعتقاد کے لحاظ سے بھی اور ایمان کے لحاظ سے بھی ۔غرض وہی خدائے قادر و توانا ہے جو ہماری ہر ایک احتیاج کو پورا کرنے والا ہے۔دنیا نے ہماری ضرورتوں کو کیا پورا کرنا ہے اور ہم نے ان سے کیا مانگنا ہے۔غرض میاں طاہر احمد صاحب کو میں نے روک دیا کہ آپ باہر جائیں ہی نہ۔ہمیں ضرورت ہی کوئی نہیں تا ہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کے پندرہ بیس فیصد لوگ اس قسم کی باتیں کریں تو ہم نے پارٹی سے ناراض ہو جانا ہے۔ان پندرہ بیس فیصد لوگوں سے بھی اگر کہیں اتفاقاََ ملاقات ہو جائے تو کیا وہ حسنِ اخلاق جو اسلام نے ہمیں سکھائے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان اخلاق کا ہماری زندگیوں میں دوبارہ احیاء فرمایا ہے۔وہ ہم چھوڑ دیں گے ؟نہیں ہر گز نہیں! ہم اسی طرح بشاشت اور مسکراتے چہروں کے ساتھ ان سے ملیں گے اور ان کی نالائقیوں کا ہم ان کے سامنے اظہار بھی نہیں کریںگے ۔۔‘‘(۱)
پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے موجودہ حالات پر منطبق ہونے والے قرآنِ کریم کے بعض احکامات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات بیان فرمائے اور ان کی روشنی میں جماعت ِ احمدیہ کی اہم ذمہ داریاں اور ان سے عہدہ برآ ہونے کا صحیح طریق بیان فرمایا اور فرمایا کہ ہمیں اجتماعی زندگی میں فساد سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اور فساد کرنے والوں کو قرآنِ کریم سخت انتباہ کرتا ہے البتہ خود حفاظتی میں تو گولی چلانا بھی جرم نہیں ہے۔حضور ؒ نے اس ضمن میں ۱۹۴۷ء کے پُر آشوب دور کا ذکر فرمایا جب ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم تھا اور افراتفری پھیل گئی تھی ۔لیکن اس دور میں بھی احمدیوں نے دلیری سے حالات کا مقابلہ کیا تھا ۔پھر حضور ؒ نے حال میں ہی منظرِ عام پر آنے والی آزاد کشمیر اسمبلی کی قرارداد پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا۔
’’میں نے اپنے اس خطبہ میں جس میں میں نے آزاد کشمیر اسمبلی کی ایک قرارداد پر تبصرہ کیا ہے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ھو سمّٰکم المسلمین کہہ کر خود ہمارا نام مسلمان رکھا ہے اور پھر اسی آیہ کریمہ میں اس نے یہ بھی بتایا ہے کہ میں نے تمہارا نام مسلمان کیوں رکھا ہے۔دوست اس آیت کو پیشِ نظر رکھیں اور اسے بار بار پڑھتے رہیں اور اس حقیقت کو یاد رکھیں کہ ہمیں خدائے قادرو توانا نے مسلمان کا نام دیا ہے ۔جس آدمی کو خدا نے مسلمان کا نام دیا ہو اسے خدا کی مخلوق میں سے کوئی یا ساری مخلوق مل کر بھی غیر مسلم کیسے قرار دے سکتی ہے ۔البتہ اس قسم کے اعلان کرنے پر تو کوئی پابندی نہیں اور نہ خود ہی اپنے اسلام کا ڈھنڈورا پیٹنے کا کوئی فائدہ ہے ۔اسلام کا فائدہ تو تب ہے جب کہ انسان خدا کی نگاہ میں بھی مسلمان ہو کیونکہ اسلام کوئی شہد کی شیشی تو نہیں کہ اسے آپ گھر لے جائیں گے اور بوقت ِ ضرورت استعمال کر لیں گے یا یہ کوئی ریشم کے نرم و نفیس کپڑے تو نہیں جسے آپ اپنی عورتوں کو پہنا دیں گے اور وہ ان سے خوشی اور فخر محسوس کریں گی۔اسلام تو ایک ایسی حقیقت ہے جس کی معرفت کا راز صرف اسی شخص پر کھلتا ہے جو خدا کا ہو کر خدا کی نگاہ میں حقیقی مسلمان ٹھہرتا ہے۔ خدائی ٹھیکیداروں کی طرف سے کسی کو مسلمان بنانے یا نہ بنانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔۔۔۔
پس یہ اور اس قسم کی دوسری باتیں سراسر بے ہودہ ہیں ان سے ڈرنے کی قطعاََ ضرورت نہیں لیکن ہم نے تدبیر ضرور کرنی ہے اور وہ ہم انشاء اللہ کریں گے۔‘‘ (۲)
جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اس بات کے آ ثار واضح نظر آ رہے تھے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف ایک گہرا منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے لیکن ابھی تک جماعتی عہدیداران میں سے ایک بڑی تعداد کو بھی اس کی تفصیلات کا علم نہیں تھا۔لیکن اب یہ ضروری تھا کہ کم از کم جماعت احمدیہ کے ذمہ دار افراد کو اس منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے ۔اس تمہید کے بعد حضورؒ نے نمائندگانِ مجلسِ مشاورت کو آگاہ فرمایا کہ اب جماعت ِ احمدیہ کے خلاف تین خطرناک منصوبے تیار کئے جا رہے ہیں۔ اور ان منصوبوں سے محفوظ رہنے کی حکیمانہ نصائح سے نوازا۔حضور ؒ نے فرمایا کہ پہلا منصوبہ،جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے دو مبارک رؤیا میں دی تھی ،وہ دو سیاسی جماعتوں نے مل کر بنایا ہے۔اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں امامِ جماعت اور بہت سے افرادِ جماعت کو قتل کر دیا جائے ۔حضور ؒ نے فرمایا کہ انہی رؤیا میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس منصوبے کو ناکام کر دے گا اور انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔اور فرمایا کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ ہمیں کامیابی کی بہت بشارتیں دی گئی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی ذمہ داریاں بھول جائیں ۔ہم نے جو تدبیر کرنی ہے اور بیداری کا نمونہ دکھانا ہے اور اپنے مخالف اور معاند کے سامنے یک جہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہے اور اس دنیا سے استغناء کے جو مظاہرے دنیا کو دکھانے ہیں وہ آسمان سے فرشتوں نے آکر نہیں دکھانے یہ تو ہمارا کام ہے کہ ہم حالات کامقابلہ کرنے کے لئے کما حقہ تدبیر کریں۔ بیداری اور چوکسی ،اتحاد اور اتفاق کا ایسا شاندار مظاہرہ کریں کہ ہمارے مخالفین کو ہمارے خلاف کچھ کہنے یا کرنے کی جرأت نہ ہو۔‘‘(۳)
حضور ؒ نے دوسرے منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’دوسرا منصوبہ بھی نہایت ہی خبیثانہ منصوبہ ہے۔اس کے متعلق بھی دیر سے خبریں مل رہی تھیں ۔جن لوگوں نے اس قسم کا منصوبہ بنایا ہے انہوں نے دراصل احبابِ جماعت کو پہچانا نہیں کہ وہ کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔اس منصوبہ کے دو حصے ہیں۔ایک یہ ہے کہ دنیوی عزت و وجاہت یا شان و شوکت یا مال و زر کے بل بوتے پر وہ احبابِ جماعت کے سروں کو اپنے سامنے جھکا دیں ۔وہ بزعمِ خود جماعت کو اتنا تنگ کریں کہ دوست ان کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جائیں۔ایسے لوگ جو اس قسم کے منصوبے بناتے ہیں کتنے نالائق اور بیوقوف ہیں۔وہ سمجھتے نہیں کہ ہم تو صرف ایک آستانہ پر جھکتے ہیں۔وہ دیکھتے نہیں کہ ایک ہی در ہے جس پر ہمارا سر جھکتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کا در ہے ۔۔۔۔۔
یہ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں ۔جماعت ِ احمدیہ اور اس کے افراد انہیں کیا وقعت دیتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے نا م پر باہر سے پیسے کھا کر وہ ہم پر رعب جماتے ہیں کہ وہ یہ کر دیں گے وہ کردیں گے۔‘‘(۴)
حضور ؒ نے مخالفین کے تیسرے منصوبے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرمایا :
’’تیسرا منصوبہ ربوہ میں منافقین کے ذریعہ ایک متوازی جماعت قائم کرنے سے متعلق ہے۔ خداتعالیٰ نے ایسا تصرف فرمایا کہ مجھ تک ان کی بات پہنچ گئی ۔ہمارے مخالفین کچھ منافقوں کو ساتھ ملا کر ربوہ میںہی ان کا مرکز بنا کر ایک متوازی جماعت قائم کر کے جماعت احمدیہ کو دو حصوں میں بانٹ دینا چاہتے ہیں تا کہ اس طرح جماعت ِ احمدیہ کی طاقت ٹوٹ جائے مگر وہ اس بات کو سمجھتے نہیں کہ منافق کا سر تو اس لئے بچا ہوا ہے کہ خدا کہتا ہے کہ نہیں ! میں اس کو سزا دوں گا۔تمہاری سزا سے زیادہ سخت سزا دوں گا ۔تم خدا کے مقابلہ پر منافق کی بھلا کیا حفاظت کر سکو گے۔
منافقت آج کا روگ نہیں یہ تو بہت پرانا روگ ہے۔جماعت ِ احمدیہ بڑے بڑے مشکل مراحل سے گزری ہے اور ہر مرحلے پر بڑے بڑے منافقوں سے اس کا پالا پڑا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کی ابتداء میں جماعت ِ احمدیہ کو منافقوں کے سب سے بڑے فتنہ کا مقابلہ کرنا پڑا ۔وہ ایک ایسا فتنہ تھا کہ اس کے بعد کے فتنے اس کا عشرِعشیر بھی نہیں تھے ۔اس وقت منافقین نے یہ اعلان کیا تھا کہ جماعت کا ۹۵ فیصد حصہ ان کے ساتھ ہے اور صرف ۵ فیصد خلافت سے وابستہ ہے۔جماعت کے اندر نفاق کا اس سے بڑا منصوبہ اور کون سا ہوگا ۔مگر جماعت احمدیہ نے اپنے اولوالعزم امام کی راہنمائی میں اپنی تاریخ کے اس سب سے بڑے فتنے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور منافقین کو اپنے اندر سے اس طرح نکال باہر کیا جس طرح دودھ میں اگر مکھی پڑ جائے تو لوگ اس کو نکال کر باہر پھینک دیتے ہیں۔ چنانچہ جب کبھی ایسے حالات پیدا ہوئے جماعت نے نفاق کے گند کو باہر نکال پھینک دیا اور ہم نے اپنے آپ کو عسلِ مصفی کی طرح پاک و صاف پایا۔
پس اگر اب بھی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ منافقوں کو شہ دے کر یا ان کو چند لاکھ روپے دے کر ، جماعتِ احمدیہ کے مقابلہ میں ایک نئی تنظیم کھڑی کر کے اور ان کو بعض عمارتوں پر قبضہ دلا کر جماعت ِ احمدیہ کو ناکام بنا دیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔عمارتیں کیا چیز ہوتی ہیں۔ پتھر کے بنے ہوئے مکانوں کی حیثیت کیا ہے ان سے بڑھ کر خوبصورت اور پختہ مکانوں کو تو ہم تقسیمِ ملک کے وقت قادیان میں چھوڑ آئے ہوئے تھے۔‘‘(۵)
حضور نے اس ہنگامی مجلسِ مشاورت میں مخالفین کے یہ تین منصوبے بیان کرنے کے بعد فرمایا:
’’غرض مخالفین اور معاندین نے ان دنوں ہمارے خلاف جو منصوبے بنائے ہیں ان کے متعلق میں نے احباب کو مختصراََ بتا دیا ہے تا کہ وہ باخبر رہیں اور حسنِ عمل پر زور دیں ۔تا ہم اپنے اعمالِ صالح پر فخر بھی نہیں کرنا چاہئے کیونکہ جو ظاہر میں عملِ صالح سمجھا جاتا ہے انسانی آنکھ بعض دفعہ اس کے اندر کے کیڑے کو نہیں دیکھ سکتی ۔چنانچہ ایسا عمل انجام کار ر د کر دیا جاتا ہے ۔وہ عند اللہ قبول نہیں ہوتا ۔ہمیں تو صرف ایک چیز کا پتہ ہے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے الفاظ میں بتانے کے لائق ہے ۔آپ فرماتے ہیں ۔
لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول
میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگاہ میں بار
پھر حضور ؒ نے فرمایا :
’’ احباب یاد رکھیں کہ جہاں تک دشمن کا تعلق ہے دشمن کو کبھی حقیر نہیں سمجھنا چاہئے ۔اس واسطے دشمن کو چونکہ کبھی حقیر نہیں سمجھنا چاہئے ہمیں لا پرواہ نہیں ہونا چاہئے لیکن جہاں تک ہمارے انجام کا تعلق ہے ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ہم لا پرواہ تو نہیں ہوں گے ۔ہم قربانیاں تو دیں گے اور دیتے چلے جائیں گے ۔کام تو ہم کریں گے اور اپنی تدبیر کو انتہاء تک پہنچائیں گے ۔اپنے عمل کو حسن و احسان سے مزین کر کے خدا کے حضور پیش کریں گے اور خدا سے یہ کہیں گے۔اے خدا ! تو اسے اپنے فضل سے قبول فرما لیکن اپنے اوپر فخر نہیں کریں گے ۔‘‘ (۶)
اس خطاب کے بعد حضور نے لمبی پُر سوز دعا کر وائی جس کے بعد مجلسِ مشاورت کا یہ غیر معمولی اجلاس اختتام پذیر ہوا۔
جہاں تک جماعت ِ احمدیہ کا تعلق ہے وہ پوری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کے لئے کوشاں تھی اور ان کا امام انہیں آئندہ پیش آنے والے خطرات سے آگاہ کر رہا تھا اور وہ اپنے رب کے حضور دعا ؤں میں مشغول تھے اور مخالفینِ جماعت پہلے سے بھی زیادہ زہریلا وار کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔

(۱) رپورٹ ہنگامی مجلسِ مشاورت جماعت احمدیہ مئی ۱۹۷۳ء ص۴۱ تا ۴۳
(۲) رپورٹ ہنگامی مجلسِ مشاورت جماعت احمدیہ مئی ۱۹۷۳ء ص۱۰۸۔۱۰۹
(۳) رپورٹ ہنگامی مجلسِ مشاورت جماعت احمدیہ مئی ۱۹۷۳ء ص۱۱۱تا۱۱۲
(۴) رپورٹ ہنگامی مجلسِ مشاورت جماعت احمدیہ مئی ۱۹۷۳ء ص۱۱۶۔۱۱۷
(۵) رپورٹ ہنگامی مجلسِ مشاورت جماعت احمدیہ مئی ۱۹۷۳ء ص۱۱۷۔۱۱۸
(۶) رپورٹ ہنگامی مجلسِ مشاورت جماعت احمدیہ مئی ۱۹۷۳ء ص۱۲۳۔۱۲۵
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا دورہ یورپ ۱۹۷۳ء
افق پر جماعت ِ احمدیہ کے خلاف اُ ٹھائے جانے والے طوفان کے آ ثار دکھائی دے رہے تھے اور واضح نظر آ رہا تھا کہ مخالفین اب جماعت کے خلاف ایک گہری سازش کا تانا بانا بن رہے ہیں۔لیکن جماعت احمدیہ اپنے کام میں مشغول تھی اور خدمت ِ اسلام کے کام کو نئی وسعت کے ساتھ سر انجام دینے کے لئے منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔ ۱۹۷۳ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا دورہ یورپ بھی اس عظیم سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔حضور نے اس دورے کے دوران انگلستان،ہالینڈ ،جرمنی ،سوئٹزر لینڈ ، اٹلی، سویڈن اور ڈنمارک کادورہ فرمایا۔
روانگی سے ایک روز قبل حضور نے مسجد مبارک میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ سفر اس غرض کے لئے کیا جارہا ہے کہ یورپ میں تبلیغِ اسلام اور اشاعت ِ قرآنِ کریم کے کام کو وسیع کرنے کا جائزہ لیا جائے اور وہاں پر اشاعت ِ اسلام کے لئے جماعت کا ایک پریس قائم کرنے کی کوشش کی جائے(۱)
حضور ؒ نے اس دورہ میں اپنے ہمراہ جانے والے احباب کو جو ہدایات دیں ان میں سب سے اہم ہدایت یہ تھی کہ
’’سب سے ضروری یہ بات ہے کہ ہر وقت دعاؤں میں مشغول رہیں اور اللہ کے فضل کو جذب کریں۔‘‘(۲)
اس دورہ کے پہلے مرحلے پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ ۱۴ جولائی کو لندن پہنچے۔راستے میں آپ نے ایمسٹر ڈیم ہالینڈ میں مختصر قیام کیا۔حضور ؒ نے لندن پہنچنے پر وہاں پر موجود صحافیوں سے مختصر گفتگو فرمائی۔ حضور نے فرمایا کہ نوجوانوں کو چاہئے کہ اپنے آپ کو آنے ولی ذمہ داریوں کے لئے تیار کریں۔ انہیں غور و فکر اور مشاہدے کی عادت ڈالنی چائیے۔اور سب سے اعلیٰ یونیورسٹی تو یہی ہے کہ انسان مشاہدے کی عادت ڈالے۔حضور ؒ لمبے سفر کی وجہ سے تکان اور ضعف محسوس کر رہے تھے لیکن آپ کی شگفتگی اسی طرح برقرار تھی ۔وہاں پر موجود چند نوجوانوں کے لمبے لمبے بال تھے ،حضور نے مسکرا کر فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ لندن میں حجاموں کا قحط پڑ گیا ہے۔اس پر سب کھل کھلا کر ہنس پڑے۔(۳)
حضور نے لندن میں احبابِ جماعت سے ملاقات فرمائی اور۱۶ ؍جولائی کو لیک ڈسٹرکٹ کے لئے روانہ ہو گئے اور ۳۰؍ جولائی تک وہاں قیام فرما یا ۔قریب کی جماعتوں نے حضور سے شرفِ ملاقات حاصل کیا۔یہاں پر قیام کے دوران حضور نے یارک پوسٹ اینڈ آرگس کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ میری زندگی کا مشن یہ ہے کہ قرآنِ کریم کو جس میں تمام علوم کے خزانے بھرے ہوئے ہیں دنیا بھر میں ہر فردِ بشر کے ہاتھوں میں پہنچا دوں۔ حیرت کی بات ہے کہ وہ مسیح جس کی تعلیم ایک محدود اور مخصوص قوم کے لئے نازل ہوئی تھی،اس کے ماننے والوں نے تو اس کی کتاب کو کروڑوں کی تعدا د میں چھپوا کر ہوٹلوں کے کمرے کمرے میں اسے رکھوا دیا ۔لیکن کتنے درد کی بات ہے کہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد عربی ﷺ پر نازل ہونے والے علم و معرفت کے خزانے یعنی قرآنِ کریم کو مسلمانوں نے دوسروں تک پہنچانا تو درکنار ،اپنوں کے ستر فیصد گھرانے بھی اس نعمت سے محروم رہے۔ ان میں سے جن لوگوں کے پاس یہ خزانہ پہنچا ۔اکثر نے اسے تعویذ کے طور پر رکھ لیا یا طاق کی زینت بنا دیا۔ پس میری زندگی کا مقصد یہ ہے کہ قرآنِ کریم کو کروڑوں کی تعداد میں شائع کر کے نہ صرف ہر مسلمان بلکہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں تک بھی پہنچا دوں(۴)۔۳۰ جولائی کو حضور ؒ واپس لندن تشریف لے آئے۔حضورؒ نے یہاں پر قرآنِ مجید کی طباعت و اشاعت اور جلد سازی کے متعلق بعض ماہرین سے مشورہ فرمایا۔(۵)
۱۴ ؍اگست کو حضور آکسفورڈ تشریف لے گئے ۔حضور آکسفورڈ کے Balliolکالج میں زیرِ تعلیم رہے تھے اور اس وقت حضور کے بڑے صاحبزادے مکرم مرزا انس احمد صاحب آکسفورڈ میں زیرِ تعلیم تھے۔ حضور نے یہاں پر Fox on Bixنام کے ایک پرانے چائے خانے میں چائے نوش فرمائی۔ یہ چائے خانہ ۱۷۶۴ء سے قائم ہے۔حضور Balliol کالج بھی تشریف لے گئے۔
لندن میں قیام کے دوران مکرم طاہر نفیس صاحب نے حضور کی خدمت میں قرآنِ کریم کی وسیع پیمانے پر اشاعت کے منصوبے کے متعلق ایک رپورٹ پیش کی جسے حضور نے پسند فرمایا۔اور حضور نے اس معاملے پر دیگر احباب سے بھی مشورہ فرمایا۔ایک اور دوست نے حضور کی خدمت میں قرآنِ کریم کی جلد سازی کے متعلق رپورٹ پیش کی(۶،۷)۔ حضورؒ نے اس دورہ کے دوران یہ اظہار فرمایا کہ مجھے لٹریچر کی طباعت کی فکر نہ تھی ۔اس کی تقسیم اور اشاعت کی فکر تھی ۔نشرو اشاعت والوں نے بعض کتب تین ہزار کی تعداد میں چھپوائیںجو پانچ سال تک تقسیم نہ ہو سکیں ۔اب ایک احمدی جوان تربیت حاصل کر چکا ہے۔جس کے نتیجہ میں اس نئی سکیم کے تحت ایک رسالہ جو ایک لاکھ کی تعداد میں طبع کیا گیا تھا نوجوانوں نے اس کے نوے ہزار نسخے پندرہ دنوں کے اندر اندر تقسیم کر دیئے ۔اپنے تو اپنے مخالفین کی طرف سے بھی مزید فراہمی کا مطالبہ ہونے لگا۔(۸)
حضور نے انگلستان کے دورے کے دوران احبابِ جماعت کو صحت مند تفریحوں میں حصہ لینے کی تلقین فرمائی ۔اور فرمایا کہ تمام اطفال اور ۲۵ سال سے کم عمر خدام غلیل خریدیں اور اپنے پاس رکھیں۔ اور فرمایا کہ نہ صرف اطفال بلکہ خدام اور انصار بھی اپنے پاس سائیکل رکھیں۔حضور نے فرمایا کہ میں نے پاکستان میں لجنہ کو کہا ہے کہ وہ سائیکل خریدیں ۔دنیا کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر ضروری ہے کہ ہماری ماؤں اور بہنوں اور بیٹیوں میں کامل خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ورنہ غلبہ اسلام کی جد و جہد میں ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔فرمایا کہ ہماری سکیم یہ ہے کہ ناصرات پوری طرح باپردہ سائیکل پر نکلیںگی۔شروع میں ان کے عزیزوں میں سے مرد رضاکاروں کو ان کے ساتھ بھیجیں گے تا وہ ان کی حفاظت کے فرائض ادا کریں ۔(۹)
۲۰؍اگست ۱۹۷۳ء کو حضور لندن سے ہیگ تشریف لے گئے۔اور آپ ۲۲ ؍اگست کو ہیگ سے بخیروعافیت جرمنی کے شہر فرینکفورٹ پہنچ گئے۔۲۴؍ اگست ۱۹۷۳ء کو حضور زیورک (سوئٹزر لینڈ) تشریف لے گئے۔سوئٹزر لینڈ کے بعد حضور ڈنمارک تشریف لے گئے۔اس دورہ کے دوران حضور نے اٹلی کا بھی مختصر دورہ فرمایا۔ان ممالک کے دورہ کے دوران حضور نے وہاں کی جماعتوں سے ملاقات فرمائی ،مشنوں کا معائنہ فرمایا اور تبلیغی مساعی کی راہنمائی فرمانے کے علاوہ پریس کانفرنسوں سے خطاب فرمایا۔اس کامیاب دورہ کے بعد حضور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ۲۶ ؍اکتوبر کو واپس مرکزِسلسلہ ربوہ تشریف لے آئے۔احبابِ جماعت نے حضور کاوالہانہ استقبال کیا اور حضور کی آمد کے ساتھ ربوہ کی حقیقی رونقیں بحال ہو گئیں۔
(۱)الفضل ۱۵؍ جولائی ۱۹۷۳ء ص اول و آخر (۲) الفضل ۲۰؍ جولائی ۱۹۷۳ء ص۱(۳)الفضل ۲۰؍ جولائی ۱۹۷۳ء ص آخر
(۴)الفضل ۹؍ اگست ۱۹۷۳ء ص۲(۵) الفضل ۲۸؍ اگست ۱۹۷۳ء ص۲(۶) الفضل ۲۸؍ اگست ۱۹۷۳ء ص۲
(۷) الفضل ۹؍ ستمبر ۱۹۷۳ء ص ۲(۸)الفضل۳ ؍اگست ۱۹۷۳ء ص۱(۹) الفضل ۲۵؍ اگست ۱۹۷۳ء ص۲
جماعت کی صد سالہ جوبلی کا منصوبہ
جب ہم نے سلسلہ احمدیہ کی جلد دوئم کا آغاز کیا تو جماعت ِ احمدیہ کی تاریخ کے پچاس سال پورے ہو رہے تھے۔اب وہ وقت قریب آ رہا تھا جب جماعت ِ احمدیہ اپنی پہلی صدی کا سفر پورا کر کے دوسری صدی میں داخل ہو گی۔۱۹۷۳ء میں جماعت کی پہلی صدی مکمل ہونے میں ۱۶ برس رہ گئے تھے۔ ۱۹۵۸ء میں حضرت مصلح موعود ؓ نے فرمایا تھا:
’’۱۰۰ سال کی جوبلی بڑی جوبلی ہوتی ہے جب جماعت کو وہ دن دیکھنے کا موقع ملے تو اس کا فرض ہے کہ وہ یہ جوبلی منائے…اس وقت جماعت کا فرض ہو گا کہ ایک عظیم الشان جوبلی منائے۔‘‘(۱)
حضرت مصلح موعود ؓ نے سورۃ فجر کی تفسیر کرتے ہوئے سورۃ فجر میں پوشیدہ بعض پیشگوئیوں کا جائزہ بیان فرمایا ۔حضور تحریر فرماتے ہیں:
’’پھر فرماتا ہے وَ الَّیْلِ اِذَا یَسْرِ اس حصہ آیت میں پھر ایک اور صدی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دس تاریک راتوں کے بعد کی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے معاََ بعد اسلام کی ترقی نہ ہو گی۔وہ فجر تو ان کے بعد ظاہر ہو جائے گی ،شعاعِ نور نظر آ جائیگی اور لوگوں کی امیدیں بندھ جائیں گی مگر ابھی رات نہ جائے گی۔بلکہ ایک صدی کا ابھی وقفہ ہو گا۔ اب اگر ۱۸۹۰ء کو فجر لے لوتو یہ صدی ۱۹۹۰ء تک چلتی ہے۔آجکل ۱۹۴۵ء ہے اس لحاظ سے چھیالیس سال ابھی اس لیل میں باقی رہتے ہیں۔اگر ہجری سال لے لو اور ۱۲۷۱ کو تاریک راتوں کا ا ٓ خری سال قرار دیدو تو یہ صدی ۱۳۷۱ میں ختم ہوتی ہے ۔گویا اس لحاظ سے لیل کے ختم ہونے میں صرف ۸ سال باقی رہتے ہیں۔اور اگر صدی کا سر مراد لو اور ۱۴۰۰ ہجری میں اس لیل کا اختتام سمجھو تو اس میں ۳۷ سال باقی رہتے ہیں۔یہ تین مدتیں ہیں جو مختلف جہتوں سے پیدا ہوتی ہیںاللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان میں سے کون سی جہت حقیقی ہے اور کون سی غیر حقیقی ۔یہ بھی ممکن ہے کہ تینوں جہتیں ہی حقیقی ہوں۔۔۔‘‘(۲)
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ۱۹۸۹ء میں تو جماعت کے قیام کو سو سال مکمل ہو رہے تھے اور اس طرح ۱۹۹۰ء کا سال جماعت کی دوسری صدی کا پہلا سال تھا اور ہم بعد میں جائزہ لیں گے کہ کس طرح یہ صرف جماعت کی نئی صدی کا آ غاز ہی نہیں تھا بلکہ جماعت کی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہو رہی تھی۔اور حضور نے جو دوسری جہت کا ذکر فرمایا تو اس کے مطابق ۱۹۴۵ء میں اس نئے دور کے آ غاز میں ابھی آ ٹھ سال باقی تھے اور گویا اس حساب سے ۱۹۵۳ء بھی جماعت کی تاریخ کا ایک اہم سال تھا۔ جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ ۱۹۵۳ء میں جماعت کے مخالفین نے جماعت کے خلاف ایک منظم شورش برپا کی مگر یہ سازش ناکام ہو گئی ۔لیکن اس کے ساتھ جماعت کی مخالفت ایک نئے دور میں داخل ہوئی اور اسی طرح جماعت کی ترقی کی تاریخ بھی ایک نئے دور میں داخل ہوئی ۔اور ایک تیسری جہت حضرت مصلح موعود ؓ نے یہ بیان فرمائی تھی کہ ۱۹۴۵ء کے ۳۷ سال کے بعد جماعت کی تاریخ کا ایک اور اہم سنگِ میل آئے گا۔یہ ۳۷ سال ۱۹۸۲ء میں پورے ہوتے تھے ۔اور ۱۹۸۲ء میں خلافت ِ رابعہ کا آغاز ہوا اور جماعت احمدیہ ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔
اب ہم ۱۹۷۳ء کے سال کا ذکر کر رہے ہیں ۔ہم جائزہ لے چکے ہیں کہ کس طرح اس امر کے آثار نظر آ رہے تھے کہ جماعت کے خلاف ایک سازش تیار کی جا رہی ہے ،حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے پوری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کو تیز تر کرنے کے لیے ایک عظیم الشان منصوبہ پیش فرمایا۔حضور نے اس کا اعلان ۱۹۷۳ء کے جلسہ سالانہ کے اختتامی خطاب میں فرمایا:
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۱۹۷۳ء کے جلسہ سالانہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’حضرت مصلح موعود ؓ کی یہ خواہش تھی کہ جماعت صد سالہ جشن منائے، یعنی وہ لوگ جن کو سوواں سال دیکھنا نصیب ہووہ صد سالہ جشن منائیں اور میں بھی اپنی اسی خواہش کااظہار کرتا ہوں کہ صدسالہ جشن منایا جائے ۔اس کے لئے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے ۔اور میں نے بڑی دعاؤں کے بعد اور بڑے غور کے بعد تاریخِ احمدیت سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اگلے چند سال جو صدی پورا ہونے سے قبل باقی رہ گئے ہیں وہ ہمارے لئے بڑی ہی اہمیت کے مالک ہیں ۔اس عرصہ میں ہماری طرف سے اس قدر کوشش اور اللہ کے حضوراس قدر دعائیں ہونی چاہئیں کہ اس کی رحمتیں ہماری تدابیر کو کامیاب کرنے والی بن جائیں اور پھر جب ہم یہ صدی ختم کریں اور صد سالہ جشن منائیں تو اس وقت دنیا کے حالات ایسے ہوں جیسا کہ ہماری خواہش ہے کہ ایک صدی گزرنے کے بعد ہونے چاہئیں اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ یہ جماعت اس کے حضور قربانیاں پیش کرکے غلبہ اسلام کے ایسے سامان پیدا کر دے۔‘‘(۳)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے صد سالہ جشن کی روح بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’پس حمد اور عزم یہ دو لفظ ہیں جن کا انتہائی مظاہرہ انشاء اللہ تعالیٰ ۱۹۸۹ء میں ہماری طرف سے کیا جائے گا وباللّٰہ توفیق اور اس حمد اور عزم کے عظیم مظاہرے کے لئے قرآن کریم کی عین ہدایت کے مطابق ہم نے تیاری کرنی ہے ،اشاعت ِ اسلام کے پروگرام بنانے ہیں ،خدا کی راہ میں قربانیاں دینی ہیں،نئی نئی سکیمیں سوچنی ہیں ۔‘‘(۴)
اس تحریک کی روح بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ ’’میری طبیعت کا میلان سو سالہ جشن منانے کی طرف اتنا نہیں جتنا ودسری صدی کے استقبال کی طرف میرا میلان ہے۔‘‘اس کے بعد حضور نے تفصیل سے ظہورِ مہدی کی عظمت بیان فرمائی اور اسلام کی تبلیغ کی روح ان الفاظ میں بیان فرمائی:
’’جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں ہندوستان میں پادریوں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ ہندوستان میں دیکھنے کو کوئی مسلمان باقی نہیں رہے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ افریقہ ہماری جھولی میں پڑا ہے ۔پھر انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مسلمان ممالک کو ہم فتح کرتے ہوئے خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا خانہ کعبہ پر لہرائیں گے ۔یہ وہ اعلانات تھے جو اس زمانے میں عیسائی پادریو ں کی طرف سے کئے گئے تھے۔اور اس زمانہ میں کوئی عالم کوئی پڑھا لکھا ان کے مقابلہ میں آواز اٹھانے والا تاریخِ انسانی نے کوئی نہ دیکھ پایا۔پھر اس وقت خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والا اور حضرت نبی اکرم ﷺ کی محبت میں مست ایک انسان پیدا ہوا ۔اور اس کا نام مسیح (علیہ السلام ) بھی رکھا گیا اور اس کا نام منصور بھی رکھا گیا اور اس کا نام محمد بھی رکھا گیا اور اس کا نام احمد بھی رکھا گیا اور اس کا نام محمود بھی رکھا گیا اور اس کا نام مہدی بھی رکھا گیا۔اور وہ مسیح اور مہدی خدا تعالیٰ کی طرف سے نوعِ انسانی کی بھلائی کے لئے اور قرآنِ کریم کی عظمت کو دنیا میں قائم رکھنے کے لئے کھڑ اہوا اور اس نے ساری دنیا کی دولتوں کو اور اس ساری دنیاوی طاقتوں کو اور ان سارے دنیوی اثرو رسوخ اور اقتدار کو للکارا۔ انہوں نے لوگوں کو کہا تم دنیا کے مال و دولت کی وجہ سے اور دنیا کی جاہ و حشمت کے برتے اور سیاسی اقتدار کی وجہ سے اور ان ہتھیاروں کی وجہ سے جو تم نے ایجاد کئے ہیں یہ سمجھتے ہو کہ تم اسلام کو مغلوب کر لو گے۔لیکن انہوں نے کہا مہدی کو خدا نے ایک زبر دست روحانی ہتھیار دیا ہے اس لئے اسلام کو ایٹم بموں کی ضرورت نہیں ہے۔نہ توپوں کی ضررورت ہے اور نہ رائفلوں کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اور حضرت نبیِ اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ میں وہ حسن کے جلوے رکھے ہیں وہ احسان کی طاقتیں رکھی ہیں کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ ہم تمہارے دلوں کو خدا تعالیٰ اور اس کے محبوب محمد ﷺ کیلئے جیت نہ لیں۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس عظیم الشان منصوبہ کے خدو خال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اشاعتِ اسلام اور تعلیم و تربیت کے کام کو تیز تر کرنے کے لیے دنیا کے مختلف خطوں میں مراکز قائم کیے جائیں گے جہاں سے ان کے تحت علاقوں میں اسلام کی تبلیغ کی جائے گی۔حضور نے فرمایا کہ یہ مراکز کسی ایک ملک کے لیے مرکز نہیں بنیں گے بلکہ بہت سے ممالک کے لیے ایک مرکزہوگا۔حضور نے فرمایا کہ تین مراکز مغربی افریقہ اور تین مراکز مشرقی افریقہ میں قائم کیے جائیں گے۔اسی طرح کیتھولک عیسائیت کا مرکز ہونے کی وجہ سے اٹلی کی ایک اہمیت ہے ،اور دنیا کے ایک بڑے علاقے میں فرانسیسی بولی جاتی ہے اس لیے فرانس بھی ایک نمایاں اہمیت کا حامل ہے،چنانچہ ان ممالک میں بھی تبلیغی مراکز قائم کیے جائیں گے۔اسی طرح براعظم امریکہ میں ایک مرکز کینیڈا میں اور تین مراکز جنوبی امریکہ میں بھی قائم کرنیکی ضرورت ہے۔
اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآنِ کریم کے تراجم اور تفاسیر کی اشاعت کی اشد ضرورت ہے۔اس ضمن میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے خاص طور پر فرانسیسی، روسی، چینی،اٹالین ،سپینش،ہاؤسا اور فارسی زبان کا ذکر فرمایا۔اور حضور نے اس منصوبہ کا تیسرا حصہ یہ بیان فرمایا کہ چونکہ آنحضرت ﷺ کی بعثت تمام دنیا کے لیے تھی اس لیے ایک سو زبانوں میں جماعت کا لٹریچر شائع کرنا اور اس کی تقسیم کا انتظام کرنا ضروری ہے۔اور اس غرض کے لیے دو ورقہ اشتہارات کی اشاعت کی طرف بھی توجہ دلائی۔حضور نے فرمایا کہ دنیا کے حالات ایسے ہیں کہ کبھی کچھ ہوتا ہے اور کبھی کچھ ہوتا ہے ،اس لیے ہمیں ایک جگہ پر اچھے پریس پر انحصار نہیں کرنا چاہئے۔اس لئے ہمیں پاکستان میں اعلیٰ مرکزی پیمانے کے پریس کے علاوہ دنیا کے کسی اور دو مقامات پر جو اس کام کے لیے مناسب ہوں وہاں دو اچھے پریس لگانے چاہئیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے سپرد ایک اہم کام یہ ہوا تھا کہ ساری دنیا کے انسانوں کو امت ِ واحدہ بنایا جائے۔دنیا کو امت ِ واحدہ بنانے کے لیے تدابیرکرنی چاہئیں اور دعائیں بھی کرنی چاہئیں ۔حضور نے فرمایا کہ جو تدابیر اس وقت تک میرے ذہن میں آ چکی ہیں ان میں ٹیلیفون ،ٹیلیکس اور ریڈیو کلب کے ذریعہ مختلف جماعتوں کے درمیان آپس میں رابطہ کا منصوبہ ہے۔اس کے علاوہ بین الاقوامی قلمی دوستی کے ذریعہ ایک دوسرے سے رابطہ سے بھی ہزاروں ایک دوسرے سے خط و کتابت کر سکتے ہیں۔اور پھر مرکزِ سلسلہ میں جلسہ سالانہ پر اقوام عالم کے وفود کی شرکت کا جو نظام جاری ہوا ہے اسے مضبوط کیا جائے۔
عالمِ اسلام کو اتحاد ِ عمل کی دعوت
حضور نے صد سالہ منصوبے کا پانچواں حصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
’’اور اس منصوبہ کی آ خری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ امتِ محمدیہ فرقے فرقے میں بٹ گئی ہے۔۔لیکن جہاں تک عقیدہ کا سوال ہے اور زبان سے اقرار کا تعلق ہے ہم سب خدائے واحد و یگانہ پر ایمان لانے والے ہیں ۔ہم محمد ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں۔ ہم لاالہ الا اللّٰہ محمّد رسول اللّٰہ کہنے والے ہیں۔محمد رسول اللہﷺ کو خاتم النبیین مانتے ہیں ۔ہر فرقہ خاتم النبیین کے معنے مختلف کر جائے گا لیکن کوئی شخص کھڑے ہو کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺکو خاتم النبیین نہیں مانتا ۔خاتم النبیین کے عقیدہ میںہم سب متحد ہیں۔۔۔۔یہ ہمارا مشترکہ عقیدہ ہے۔ہم قرآنِ کریم کو ایک کامل اور مکمل کتاب مانتے ہیں۔یہی ہمارے سب فرقوں کا عقیدہ ہے ۔تمام فرقے قرآنِ کریم کو قیامت تک کے لئے ہدایت نامہ سمجھتے ہیں۔
پس اس سولہ سال کے عرصہ میں ہم اسلام کے تمام فرقوں کو بڑی شدت کے ساتھ، نہایت عاجزی کے ساتھ ،بڑے پیار کے ساتھ،بڑی ہمدردی کے ساتھ اور غم خواری کے ساتھ یہ پیغام دیتے ہیں اور دیتے رہیں گے کہ جن باتوں میں ہم متحد ہیں ان میں اتحادِ عمل بھی کرو اور اسلام سے باہر کی دنیا میں توحیدِ خالص کے پھیلانے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی عظمت کو منوانے اور قرآنِ کریم کی شان کے اظہار کے لئے اکٹھے ہو کر کوشش کرو اور باہر جا کر آپس میں نہ لڑو تاکہ اسلام کو فائدہ پہنچے ۔پھر اللہ تعالیٰ جن کے ذریعہ زیادہ کام لے گا یا جو دوسروں کو زیادہ قائل کر لیں گے یا جن سے ان کو زیادہ فیض پہنچے گا وہ نمایاں ہو کر سامنے آ جائیں گے ۔اس لئے نتیجہ خدا پر چھوڑ دو ۔پس اتحادِ عمل کرو،ان بنیادی اصولوں پر جن میں ہمارا عقیدہ ایک ہے۔ پس یہ پیغام ہے اس منصوبہ کا جو آج میں ساری دنیا کو دے رہا ہوں۔‘‘ (۵)
اس عظیم الشان منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس بات کی ضرورت تھی کہ دعاؤں کے علاوہ پوری دنیا کے احمدی اللہ تعالیٰ کے حضور بڑے پیمانے پرمالی قربانی پیش کریں۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے اسی تقریر میں اعلان فرمایا:
’’پس آج میں اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے اڑھائی کروڑ روپے کی اپیل کرتا ہوں لیکن میں اپنے ربِ کریم پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے آج ہی یہ اعلان بھی کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان سولہ سالوں میں ہمارے اس منصوبہ کے لیے پانچ کروڑ روپے کا انتظام کر دے گا۔‘‘(۶)
صد سالہ جوبلی کے منصوبہ کے لیے دعاؤں کی تحریک
الٰہی جماعتوں کے منصوبے دنیاوی منصوبوں سے بالکل علیحدہ شان رکھتے ہیں ۔ان میں اصل روح اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل کرنا ہوتی ہے اور اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر اس کی مدد کے لیے عاجزانہ دعائیں کی جائیں۔اگر یہ پہلو نظر انداز کر دیا جائے تو الٰہی جماعتوں کے منصوبوں کی روح ختم ہو جاتی ہے۔چنانچہ حضور نے جب صد سالہ جوبلی کے منصوبہ کا اعلان کیا تو اس کے ساتھ ہی جماعت کو دعاؤںکی تحریک بھی فرمائی۔اس روحانی پروگرام کا خلاصہ یہ تھا
ہر شخص روزانہ سات بار سورۃ فاتحہ پڑھے۔ربنا افرغ علینا صبرا و ثبت اقدامنا وانصرنا علی القوم الکٰفرین اور اللّٰھم انا نجعلک فی نحورھم و نعوذبک من شرورھم کی دعائیں روزانہ گیارہ گیارہ مرتبہ پڑھی جائیں۔ اوراستغفراللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ اور سبحان اللّٰہ و بحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم اللّہم صل علی محمّد و ال محمّد کا ورد روزانہ تنتیس تنتیس مرتبہ کیا جائے۔روزانہ عشاء یا ظہر کی نماز کے بعد دو نفل ادا کیے جائیں اور ہر ماہ ایک نفلی روزہ رکھا جائے۔
اس اہم تحریک کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ۱۰ ؍جنوری ۱۹۷۴ء کو احبابِ جماعت کے نام ایک پیغام تحریر فرمایا جو کہ ۱۲؍ جنوری کو روزنامہ الفضل میں شائع ہوا۔اس پیغام میں حضور نے تحریر فرمایا۔
’’میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت ہائے بیرون کی تربیت اور اشاعت ِ اسلام کے کام کو تیز سے تیز تر کرنے اور غلبہ اسلام کے دن کو قریب سے قریب تر لانے کی ایک مہم کا آ غاز کرتے ہوئے ایک بہت بڑے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔اس میں میں نے مخلصینِ جماعت سے آئندہ سولہ سال میں اس عظیم منصوبہ کی تکمیل کیلئے اڑھائی کروڑ روپیہ جمع کرنے کی اپیل کی تھی اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ انشاء اللہ یہ رقم پانچ کروڑ تک پہنچ جائیگی ۔اس اعلان کے ذریعہ میں مخلصینِ جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ اس فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
اس سلسلہ میں دوست تین باتیں یاد رکھیں
ا۔صدسالہ جشن فنڈ کے وعدہ جات مجھے مجلسِ مشاورت سے پہلے بھجوا دیئے جائیں ۔
ب۔وعدہ جات کو بھجواتے ہوئے صرف موجودہ آمد ہی کو مدِ نظر نہ رکھا جائے بلکہ اللہ تعالیٰ پرتوکل کرتے ہوئے اور اسی کے بھروسے پر آئندہ سولہ سال کے عرصہ میں اللہ تعالیٰ آپ پر جو بے انتہاء فضل اور رحمتیں نازل فرمائے گا۔اور آپ کی آمدنیوں میں آپ کی امیدسے کہیں بڑھ کر برکتیں دے گا انہیں بھی مدِ نظر رکھ کر وعدہ بھجوایا جائے۔۔۔۔‘‘(۷)
ابھی اس اعلان پر ایک ماہ بھی نہیں گزرا تھا کہ اس فنڈ میں تین کروڑ تیس لاکھ کے وعدہ جات موصول ہو چکے تھے۔اور ابھی بہت سی جماعتوں کے وعدے موصول نہیں ہوئے تھے۔(۸)
حضور نے جماعت کو یہ ہدف دیا تھا کہ مارچ کے آخر میں منعقد ہونے والی مجلسِ مشاورت سے قبل احباب ِ جماعت پانچ کروڑ کے وعدے پیش کریں ۔جب ۱۹۷۴ء کی مجلسِ مشاورت کا افتتاحی اجلاس شروع ہوا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے اس مجلسِ مشاورت کے افتتاحی اجلاس میں صدسالہ جوبلی کے منصوبہ کے اہم خد و خال بیان فرمائے۔حضور کا یہ خطاب اس عظیم اور طویل المیعاد منصوبہ کے لئے ایک لائحہ عمل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ایک بڑا کام اس منصوبہ کے لئے مالی وسائل کی فراہمی کا تھا۔حضور نے سب سے پہلے ابھی تک موصول ہونے والے وعدوں کا تجزیہ بیان فرمایا۔
’’جلسہ سالانہ سے لے کر اس وقت تک کا جو زمانہ ہے وہ وعدوں کی وصولی کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔کچھ وصولی بھی ہوئی ہے لیکن زیادہ تر یہ وعدے لینے کا زمانہ تھا۔ابھی جمعہ کے خطبہ میں میں نے بتایا تھا کہ یہ وعدے نو کروڑ بیس لاکھ کے قریب پہنچ گئے ہیں۔گویا جمعہ کی نماز کے وقت تک نو کروڑ بیس لاکھ وعدوں کااندراج ہو چکا تھا۔اس وقت صورت ِ حال یہ ہے کہ بیرون پاکستان میںقریباََ پچاس ممالک میں ہمارے احمدی بستے ہیں۔جہاں سے ہم توقع کرتے تھے کہ اس منصوبہ کے لئے وعدے آئیں گے۔مجھے ابھی ایک دوست جن کے سپرد میں نے یہ کام رضاکارانہ طور پر کیا ہوا ہے۔انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ بیرونِ پاکستان کی بیس جماعتوں سے وعدے وصول ہونے باقی ہیں۔اس کے با وجود بیرونِ پاکستان کے وعدے چار کروڑ بارہ لاکھ سنتالیس ہزار چار سو ستاون( ۴۱۲۴۷۴۵۷) روپے پر مشتمل ہیں اور اندرونِ پاکستان کے وعدے اس وقت تک پانچ کروڑ بیالیس لاکھ تین ہزار ایک سو باون (۵۴۲۰۳۱۵۲) روپے تک پہنچ چکے ہیں۔‘‘(۹)
وعدوں کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ عطایا کی اپیل کے لئے جو مشورے کئے گئے تھے وہ اپنے طور پر تھے اور دعاؤں کے نتیجے میںجو میرے ذہن میںمنصوبے آئے تھے وہ اپنے طور پر تھے۔ لیکن ان کا آپس میں تضاد بن رہا تھا۔کیونکہ اڑھائی کروڑ کی اپیل کی گئی تھی اور ضرورت اس سے بہت زیادہ کی بن رہی تھی۔اس لئے یہ اللہ تعالیٰ نے سبق دیا ہے کہ جتنی تمہاری ضرورت ہو گی وہ ملتا جائے گا۔ چنانچہ اڑھائی کروڑ کی اپیل پر ساڑھے نو کروڑ سے زیادہ کے وعدے وصول ہو چکے ہیں۔
افریقہ اور یورپ میں تبلیغی مراکز کی حکمتِ عملی کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا:
’’جو باتیں میں نے بیان کی تھیں ان کی شق نمبر ۱ یہ ہے کہ دنیا کے ریجن یعنی علاقوں کو Continentکے مختلف حصوں کو تقسیم کر کے کئی ممالک کا ایک مرکز بنادیا جائے۔وہ مرکزی مشن ہاؤس ایک ایسا مرکز ہو جہاں دو یا تین یا چار ممالک کو جن کی زبان مشترکہ ہو اکٹھا کر دیا جائے۔بعض ممالک ایسے ہیں جو نئے بنے ہیں جہاں فرانسیسی حکومت قابض رہی ہے ایسے ملکوں کو اکٹھا کر کے ایک مرکز بنا دیا جائے جس میں فرانسیسی بولنے والے مبلغین کو لگایا جائے اور اسی طرح انگریزی بولنے والے ملک میں انگریزی جاننے والوں کو۔ ویسے کم ممالک انگریزی بولتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت جو بات ذہن میں آئی ہے اس کے بعد مشورہ اور مزید غور کے بعد اس میں مزید تبدیلیا ں کی جا سکتی ہیں لیکن اگر نقشہ ذہن میں ہو تبھی انسان غور کر سکتا ہے۔اور وہ یہ ہے کہ مغربی افریقہ میں تین مراکز قائم کئے جائیں گے۔اور ہر مرکز میں مختلف ممالک ہو ں گے۔اس طرح ہم مغربی افریقہ میں کام کو پھیلا سکیں گے۔اسی طرح مشرقی افریقہ میں حسب ِ ضرورت مختلف علاقے بنا کر مراکز قائم کریں گے۔‘‘(۹)
یورپ کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ اگلے پندرہ سال میںاٹلی، فرانس ،سپین ،ناروے اور سویڈن میں اپنے مضبوط مراکز یعنی مساجد اور مشن ہاؤس بنانے کی ضرورت ہے۔اسی طرح انگلستان کے متعلق تین سے پانچ نئے مبلغ اور تین جگہوں پر مسجد اور مشن ہاؤس بنانے کی ضرورت ہے۔امریکہ کے متعلق حضور نے فرمایا کہ وہاں سیاہ فام اور سفید فام دونوں آبادیوں میں تبلیغ کرنی پڑے گی اور اس مہم کے لئے نئے مبلغ بھجوانے پڑیں گے اور نئے مشن ہاؤس بنانے پڑیں گے اور پھر نسلی تعصب دور کر کے ان دونوں آبادیوں کا آپس میں ملاپ کرایا جائے گا۔ کینیڈا میں وہاں جا کر آباد ہونے والوں کی ایک جماعت قائم ہے مگر وہاں باقاعدہ مشن ہاؤس ،مسجد اور مبلغ موجود نہیں ہے۔ حضور نے فرمایااسی طرح جنوبی امریکہ میں دو جگہوں پر جماعت کے مراکز موجود ہیں لیکن برازیل اور ارجنٹائن میں مراکز موجود نہیں ہیں ۔جنوبی امریکہ میں بھی دو مضبوط مراکز کی ضرورت ہے۔
قر آن کریم کے تراجم اور تفاسیر کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ چھ زبانوں میں قرآنِ کریم کے تراجم ہو چکے ہیں۔فرانسیسی زبان میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے لیکن اشاعت کا کام باقی ہے ۔اس کے علاوہ اس منصوبہ کے تحت روسی، چینی، اٹالین، سپینش، ہاؤسا، یوگو سلاوین اور انڈونیشین زبان میں تراجم کی اشاعت کی جائے گی۔اس کی علاوہ سواحیلی کے ترجمہ کے علاوہ مشرقی افریقہ کی اور دو زبانوں میں اور ہاؤسا کے علاوہ مغربی افریقہ کی دو اور زبانوں میں تراجم کی اشاعت کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ عربی زبان میں تفسیر کی اشاعت کی اشد ضرورت ہے۔پھر حضور نے عربی اور فارسی میں تفسیر کی اشاعت کے منصوبے کا منصوبہ بیان فرمایا۔
صدسالہ جوبلی منصوبہ کا ایک اہم حصہ سو زبانوں میں اسلام کی بنیادی تعلیم کی اشاعت کا پروگرام بھی تھا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا کہ یوں تو دنیا میں کئی سو زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن جو کمیٹی بنے گی وہ غور کر کے ان میں سونسبتاً آسان زبانوں کا انتخاب کرے گی۔حضور نے ارشاد فرمایا کہ جب میں شوریٰ کے لئے نوٹس لے رہا تھا تو مجھے خیال آیا کہ سورۃ فاتحہ قرآن کریم کا خلاصہ ہے۔اگر اس کا ترجمہ ،کچھ تفسیری نوٹس کے ساتھ دنیا کی ہر زبان میں شائع کر دیا جائے تو ہر زبان بولنے والے کے ہاتھ میں قرآنِ کریم کا خلاصہ پہنچ جائے گا۔حضور نے اس مسئلہ پر راہنمائی فرمائی کہ سو زبانوں میں اسلام کی بنیادی تعلیم کی جو اشاعت کرنی ہے،اس کے لئے پہلے بنیادی تعلیم کی شکل متعین کر کے اس کا مسودہ اردو میں تیار کرنا ہے پھر ان کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا جائے گا۔پھر مختلف ممالک کی ضرورت کے مطابق اس میں تبدیلی کرنی پڑے گی۔پھر حضور نے اپنے پریس لگانے کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس کے فوائد بیان فرمائے۔
مرکز گریز رجحانات کے بارے میں نصیحت
اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۹۷۳ء تک جماعت دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل چکی تھی۔جب بھی دنیا کی مختلف اقوام حق کو قبول کر کے الٰہی سلسلہ میں داخل ہو رہی ہوں تو اس کے ساتھ کچھ نئے مسائل بھی سامنے آ تے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ِ احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کا قائم کردہ نظام خلافت قائم ہے اور ایسے مواقع پر خلیفہ وقت جماعت کی راہنمائی کرتا ہے تاکہ جماعت اللہ تعالیٰ اور آ نحضرت ﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر قائم رہے۔اور اب اس نئے عظیم الشان منصوبہ کے ساتھ یہ بھی نظر آرہا تھا کہ آنے والے وقت میں نئے لوگ جوق در جوق حقیقی اسلام کو قبول کر کے احمدیت میں داخل ہوں گے اس لئے حضور نے یہ محسوس فر مایا کہ بعض مرکز گریز رجحانات کی اصلاح کی ضرورت ہے۔
’’اس وقت بحیثیت ِ مجموعی دنیا کی جو حالت نظر آتی ہے اس سے ایک اور مسئلہ ہمارے لئے سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کچھ ملک مدت ہو گئی آ زاد ہو گئے اور انہوں نے دنیا میں طاقت حاصل کر لی اس وقت وہ اپنی حفاظت کی خاطر( دنیا پر احسان کی خاطر نہیں اور نہ دنیا سے پیار کے نتیجہ میں) اور خود اپنے مفاد کے لئے بین الاقوامی ذہنیت یعنی انٹرنیشلزم کا پرچار کرتے ہیں۔کچھ ملک جو نئے نئے آزاد ہوئے ہیں وہ چونکہ نئے نئے آزاد ہوئے ہیں ان کے نزدیک انٹرنیشلزم سے مراد کالونیلزم بن جاتا ہے البتہ کالونیز کی شکل مختلف ہوتی ہے۔ ان کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ انٹرنیشلزم کا مطلب یہ ہے کہ گویا بہت سے ممالک کو اکٹھا کر کے ان کی Exploitationیعنی ان کا استحصال کیا جائے یا ان کی دولت سے ان کو محروم کرنے کی سعی ناپسندیدہ کی جائے۔اب مثلاََ جب میں افریقہ کے دورہ پر گیا تو غانا میں مجھے پتا لگا کہ ایک دو آدمی ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ A Ghanian for Ghana غانا کو جو عالم ہے اور جسے جماعت ِ احمدیہ نے تیار کیا ہے ہمارے ملک میں اس کو انچارج ہونا چاہئے۔مجھے پتہ لگا تو میں نے ان کو سمجھایا ان کو میری بات سمجھ آ گئی اور ان میں سے بعض رو پڑے۔میں نے کہا کہ تم کیا باتیں کرتے ہو۔تم کہتے ہوA Ghanian for Ghana اور میں یہ کہتا ہوں A Ghanian for England چونکہ انگلستان نے تم پر ظلم کیا تھا اس لئے میں تو انگلستان میں تمہارے غانین کو مبلغ بنا کر بھیجوں گا۔ اسلام اور احمدیت تو اس نہج پر سوچتی اور منصوبے بنا رہی ہے اور تم اس راہ پر سوچ رہے ہو جو کہ غلط ہے۔
پھر میں نے عبد الوہاب بن آدم کو جو غانا کا بڑا مخلص نوجوان ہے اور جامعہ احمدیہ کا فارغ التحصیل شاہد ہے حسب ِ وعدہ انگلستان کا مبلغ بنا کر بھیج دیا۔ پھر میری یہ خواہش تھی کہ ہمارا غانا کا کوئی احمدی ہیڈ ماسٹر ہو تو اس کو ربوہ کے سکول کا ہیڈ ماسٹر لگا دوں کیونکہ جب تک آپ عملاً اس پیار اور اس بین الاقوامی ذہنیت کا مظاہرہ نہیں کریں گے محض کوئی زبانی دعویٰ ان کی تسلی کا موجب نہیں بن سکتا۔
بہر حال ہم نے اس Mischiefاور شرارت کے اس تصور کو دور کرنا ہے کہ جی ہم کیوںمرکز کے ماتحت رہیں۔یہ ذہنیت اب بھی پیدا ہو سکتی ہے۔پہلے زمانہ میں جب کہ خلافت ختم ہو گئی تھی لیکن بادشاہت اپنے آپ کو خلافت کہتی تھی تو اسی طرح سپین آزاد ہو گیا۔مصر آزاد ہو گیا ۔نئی حکومتیں بن گئیں اور مسلمان بٹ گئے اور ان کا باہمی اتحاد ختم ہو گیا۔ یہ تو ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہیں ہونے دینا۔انشاء اللہ تعالیٰ اور یہ بات تبھی ہو سکتی ہے کہ میں آپ اور ہم سب دوسرے ملکوں کے رہنے والوں کو اپنے گلوں سے لگائیں اور ان سے اتنا پیار کریں کہ وہ بھول جائیں کہ ہم دو ملکوں کے رہنے والے ہیں ۔
پس نیشلزم اور انٹرنیشلزم میں ایسی تفریق کرنا کہ ہمارے کام میں روک بھی نہ بنے اور ان کے ذہنوں کی تسلی بھی ہوجائے یہ ضروری ہے۔یہاں جلسہ سالانہ پر جو افریقی وفود آئے تھے ان کو میں نے بڑا سمجھایا ۔میں نے انہیں کہا کہ جہاں تک تمہارے دنیوی معاملات کا تعلق ہے مثلاََ غانا کے سیرالیون کے یا نائیجیریا کے تم بیشک اپنے اپنے outlookمیں نیشلسٹ بنے رہو۔زمانہ آپ ہی تمہیں ایک حد تک انٹرنیشنل بنا لے گا۔لیکن جہاں تک مذہب کا اور احمدیت کا اور اسلام کا تعلق ہے تمہیں اپنے اندر بین الاقوامی ذہنیت پیدا کرنی پڑے گی کیونکہ خلافت سے کٹ کر تمہاری حالت ایک کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ہو جائے گی۔ میں نے اب اپنے مبلغین کو بھی سمجھانا شروع کیا ہے کہ اس نہج پر کام کرو۔مقامی باشندوں کو سکولوں اور کالجوں اور ہسپتالوں کے انتظام میں شامل کرو۔اصل میں تو ہمارے مبلغ کی تربیت ایسی ہونی چاہئے کہ وہ اپنی مرضی کا کام کروائے اور ان کے ذہنوں میں یہ احساس پیدا کرے کہ جو وہ چاہتے ہیں وہی ہو گا تا کہ کوئی خرابی پیدا نہ ہو اور یہ کام آسانی سے ہو سکتا ہے اور ہم ساری عمر ایسا کرتے چلے آئے ہیں۔۔۔۔۔۔
لیکن جہاں تک مذہبی عقائد کا سوال ہے ان کو بہر حال خلیفہ وقت کے فیصلوں اور جماعتی نظام کی پابندی کرنی پڑے گی۔تو میں نے ان لوگوں سے کہا کہ ٹھیک ہے کہ تم اپنے دنیوی معاملات میں نیشلسٹ بنے رہو جب تک کہ دنیا تمہیں اس کی اجازت دے ۔ان کے ملکوں پر دباؤ پڑ رہے ہیں لیکن جہاں تک مذہب کا سوال ہے اور احمدیت کا سوال ہے اور مرکزیت کا سوال ہے اور خلافت کا سوال ہے تمہیں بہر حال اپنے اندر بین الاقوامی ذہنیت پیدا کرنی پڑے گی ورنہ تم ترقی نہیں کر سکتے ۔غرض یہ ایک بڑا اہم سوال ہے اور ہماری جماعت کو اس کے متعلق غور کر کے انBarriers اور ان روکوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ جماعت ایک برادری بن جائے اور مہدی معہود کا جو امت ِ واحدہ بنانے کا منصب ہے اس کے راستہ میں یہ چیز روک نہ بنے۔‘‘(۹)
جماعت ِ احمدیہ کے خلاف تیار ہونے والی ایک بین الاقوامی سازش
پھر حضور نے مجوزہ ریڈیو کلب،قلمی دوستی کے منصوبے اور جماعت کے اپنے ریڈیو سٹیشن کے منصوبے کی تفصیلات بیان فرمائیں۔
جب بھی الٰہی جماعت ترقی کی طرف قدم بڑھا تی ہے اور دین کی خدمت کے لئے نئے منصوبے بناتی ہے تو یہ امر مخالفانہ قوتوں کو غصہ دلانے کا باعث بنتی ہے اور پہلے بھی زیادہ زہریلا وار کرنے کی سازش تیار کرتے ہیں ۔اب جماعت ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہی تھی تو اس کے ساتھ یہ اطلاعات موصول ہو رہی تھیں کہ جماعت کے مخالفین بھی ایک منصوبہ تیار کر رہے ہیں۔حضور نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’اس کے علاوہ ایک اور چیز ہے جو منصوبے کے اندر آپ ہی گھس رہی ہے۔اس وقت تک ہماری مخالفت ملکی مخالفت تھی یا مقامی مخالفت تھی۔یعنی کہیں تو یہ تھا کہ مثلاََ ہندوستان میں ایک صوبے میں بڑی مخالفت ہے تو دوسرے میں نہیں ہے۔ دیوبند کا جو علاقہ ہے اس کے ارد گرد کے گاؤں میںزیادہ مخالفت ہے اور دو سو میل پرے ہٹ جاؤ تو اتنی مخالفت نہیں۔یا مثلاََ مصر میں مخالفت ہے توسعودی عرب میں نہیں ۔سعودی عرب میں ہے تو کویت میں نہیں یا شام میں نہیں۔ان ملکوں میں ہے تو یورپ میں نہیں۔یورپ میں ہے تو افریقہ کے بر اعظم میں نہیں یا اس کے مختلف علاقوں میں نہیں۔مخالفت پھیلی ہوئی تھی ۔کہیں ہے کہیں نہیں ۔لیکن اب اس جلسہ کے بعد ہمارے سامنے بین الاقوامی اتحاد کے ساتھ مخالفت آگئی ہے۔میں نے خدا کا شکر کیا ہمیں تو اس وقت پتہ نہیں تھا کہ اس کی کیا شکل بن رہی ہے لیکن میں نے کہا کہ کہ ہمارے لئے اس کی ضرورت ہو گی۔اللہ تعالیٰ نے اس کا انتظام کر دیا اور ہمیں بشارتیں بھی دیں جیسا کہ ایک بشارت میں نے ابھی بتائی ہے اور بھی بشارتیں بھی ہوئیں۔اس کے ساتھ ہی بعض اور چیزیں سامنے آئیں ہیں۔ایک چیز یہ سامنے آئی ہے جو کہ بڑی افسوسناک ہے اور بڑا صدمہ ہوتا ہے کہ ایک اسلامی ملک نے جو اپنے آپ کو اسلام کا چیمپیئن سمجھتا ہے ہالینڈ کے شدید کٹر مخالفین اور دشمنانِ اسلام کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے یہ پراپیگنڈا کرنا شروع کیا ہے کہ جماعت ِ احمدیہ اسلام کی نمائندہ نہیں ہے اس لئے اپنے سکولوں اور اپنے چرچز میں ان کی تقریریں نہ کروایا کرو(وہاں کلیساؤں میں بھی ہماری تقریریں ہوتی ہیں) اور نہ اپنے سکول کے بچوں کو ان کی مساجد میں بھیجو۔ان کو تو مسلمان بھی کافر کہتے ہیں یہ کہاں کے اسلام کے نمائندے ہیں۔غرض اسلام کا جو اپنے آپ کو بہت ہمدرد اور بڑا دوست اور چیمپیئن سمجھنے والا ملک ہے اس نے شدید دشمنانِ اسلام سے مل کر یہ منصوبہ بنایا ہے۔ایک تو یہ چیز سامنے آئی ہے۔دوسرے یہ چیز سامنے آئی ہے کہ مکہ سے ایک رسالہ نکلتا ہے ’’دی مسلم ورلڈ لیگ‘‘ اس میں ہمارے خلاف تین مضمون لکھے گئے ہیں۔ یہ رسالہ ہمیں ولایت سے بھجوایا گیا ہے۔ایک مضمون لکھا ہے ابولحسن علی ندوی صاحب نے اور ایک مضمون لکھا ہے ابوالا علیٰ مودودی صاحب نے اور ایک مضمون جماعت ِ احمدیہ کے خلاف لکھا ہے شیخ محمد الخضرحسین صاحب نے اور تینوں میں سے کسی ایک نے بھی اس شرافت کا مظاہرہ نہیں کیا کہ مضمون لکھنے سے پہلے ہم سے تبادلہ خیال کر لیتے ۔یہ تو انسان کا حق ہے کہ اگر کسی کی طرف بات منسوب کرنی ہو تو پہلے اس سے جا کر بات تو کرنی چاہئے…
پس ہمارا اعتراض اول یہ ہے کہ اگر تو تم خود کو علماء سمجھتے ہو تو جماعت ِ احمدیہ کے علماء سے تبادلہ خیال کرو اور پھر اگر تمہیں سمجھ نہ آئے اور ناسمجھی کی باتیں لکھو گے تو تو تم پر یہ اعتراض نہیں ہو گا کہ تم نے تبادلہ خیا ل کے بغیر یہ مضامین لکھے اور اگر تم اپنے آپ کو کسی جماعت کا لیڈر اور امام سمجھتے ہو تو جماعت ِ احمدیہ کے امام سے جا کر باتیںکرو اور پھر اگر اس کے بعد جو کچھ لکھو گے اگر شرارت سے لکھو گے تو تم ذمہ دار ہو گے اگر ناسمجھی سے لکھو گے تو تم ذمہ دار ہو گے لیکن یہ اعتراض تم پر نہیں آئے گا کہ تبادلہ خیال نہیں کیا بات سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور یوں ہی بات منسوب کر دی۔مثلاََ ان میں سے کسی نے لکھ دیا (یہاں بھی اعتراض کرتے ہیں) کہ یہ انگریز کا لگایا ہوا پودا ہے۔یہ اعتراض اصل میں اہلِ حدیث نے شروع کیا تھا اور اس کی ایک وجہ تھی وہ یہ کہ عرب اور مکہ و مدینہ کا یہ دنیوی حاکم یعنی سعودی خاندان وہ خاندان ہے کہ جو انگریز کا لگایا ہوا پودا ہے۔انگریزوں نے ان کی خاطر جنگ کی انہوں نے خلافت ِ ترکیہ کو مٹانے کے لئے ان کو خلافت ترکیہ کے خلاف کھڑا کیا۔ان سے جنگیں لڑیں ان کو شکستیں دیں اور پھر ان کو یہاں اختیار ملا۔اس واسطے اہلِ حدیث کے دماغ میںہمیشہ یہ کھلبلی رہتی ہے کہ ہم پر یہ اعتراض ہو جائے گا کہ تم انگریز کا لگایا ہوا پودا ہو اس لئے وہ ہم پر اعتراض کر دیتے ہیں۔۔۔۔
میں اس وقت مخالفت کی بات کر رہا ہوں۔اب ہماری مخالفت بین الاقوامی اتحاد کی شکل میں ہمارے سامنے آئی ہے اور افق اسلام پر جو حالات جنگ احزاب کے موقع پر ابھرے تھے کہ اہلِ کتاب اور مشرکین نے گٹھ جوڑ کر کے مدینہ پر حملہ کیا تھا اور اسلام کو مٹانے کی کوشش کی تھی۔اسلام کی اس نشاۃ ِ ثانیہ پھر وہی حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ چنانچہ ظاہری علوم رکھنے والے اہلِ قرآن اور اسلام کے دشمن اہلِ کتاب اور انسانیت اور مذہب کے دشمن اہلِ الحاد یہ تینوں طاقتیں اکٹھی ہو کر نشاۃ ِ ثانیہ کو مغلوب کرنے کے لئے افقِ اسلام پر ابھری ہیں۔ جو وعدہ اس وقت مسلمانوں کو دیا گیا تھا میں سمجھتا ہوں انہی آیتوں میں ہمارے لئے بھی وعدہ ہے کہ (القمر : ۴۶) تم جمع تو ہو گئے ہو۔تم مختلف متضاد طاقتیں ہو جو اسلام کو مغلوب کرنے کے لئے اکٹھی ہو کر سامنے آ گئی ہو لیکن تمہارا اتحاد تمہیں کامیابی کی طرف نہیں لے جائے گا بلکہ تم پیٹھ پھیر کر بھاگ جاؤ گے اور ناکام ہو گے انشا ء اللہ تعالیٰ۔اس لئے کہ زمین کے سینہ سے پٹرول کی شکل میں جو دولت باہر نکلی ہے اور ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہو وہ اس دولت کا مقابلہ نہیں کر سکتی جو ایک مسلمان مخلص دل کے قربانی اور ایثار کے سرچشمہ سے نکلتی ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے فضلوںاور رحمتوں کو جذب کرتی ہے۔کیا تیل کے چشموں سے حاصل کی ہوئی دولت ایک مومن ایثار پیشہ کے دل کے چشمہ سے نکلی ہوئی دولت کا کبھی مقابلہ کر سکتی ہے؟ جب سے آدم پیدا ہوئے اس وقت سے لے کر قیامت تک ایسا کبھی نہیں ہو گا۔یہ کبھی نہیں ہو سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہی منشاء ہر مذہب کے ماننے والوں کے سامنے رکھا گیا تھا جب وہ مذہب دنیا میں آئے اس لئے فکر کی کوئی بات نہیں ۔۔۔
۔۔۔آج اتنا انقلاب اوراتنی بڑی تبدیلی آگئی ہے کہ یہ سمجھا جانے لگا ہے کہ جب تک سب لوگ جمع نہ ہوں ،جب تک اہلِ قرآن جو صرف ظاہری اسلام پر کاربند ہیں وہ اور اہلِ کتاب جو دشمنانِ اسلام ہیں اور اہلِ الحاد جو مذہب کے بھی شدید مخالف ہیں یہ تین زبردست طاقتیں اکٹھی نہیں ہوں گی احمدیت کو مٹایا نہیں جا سکتا۔کتنا بڑا انقلاب بپا ہو گیا ہے خدا کے فضل سے ۔اس مقابلہ میں ہماری کوششیں تو ہیں ہی نہیں۔۔۔۔۔۔
الحاد کے متعلق جو میں نے کہا ہے میں اس کی بھی مثال بتا دیتا ہوں ۔ہمیں یہ علم ہوا ہے کہ روس نے جو کہ مذہب کا دشمن ہے اس نے ڈنمارک کے غیر احمدیوں میں سے ایک گروہ کو کہا کہ تم احمدیوں کے مقابلہ میں ان کی مخالفت کرنے کے لئے اپنی ایک مسجد اور مشن ہاؤس بناؤ اور سارے پیسے ہم دیں گے ۔تم تو مذہب کے ہی دشمن ہو۔تم مسلمانوں کی مسجد اور مشن ہاؤس بنانے کے لئے کس طرح تیار ہو گئے۔‘‘
حضور نے فرمایا کہ اس منصوبہ پر غور کرنے کے لیے مجلسِ مشاورت میں بڑی سب کمیٹی کی بجائے بارہ دوستوں پر مشتمل سب کمیٹی بنائی جائے جو دوسری سب کمیٹیوں کی طرح اس منصوبے پر غور کرے اور اپنی رپورٹ مجلسِ مشاروت میں پیش کرے۔(۹)
حضور کے اس خطاب سے یہ صاف ظاہر تھا کہ ایک بار پھر جماعت کی ترقی پر طیش کھا کر جماعت کے مخالفین جماعت کے خلاف ایک سازش تیار کر رہے ہیں اور اس مرتبہ یہ سازش بہت بڑے پیمانے پر تیار کی جا رہی ہے اور مختلف ممالک ،مختلف وجوہات کی بنا پر اس منصوبہ کی اعانت کریں گے۔اور عرب ممالک میں تیل سے ملنے والی دولت کو جماعت ِ احمدیہ کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ہم اپنے وقت پر اس بات کا جائزہ پیش کریں گے کس طرح وقت کے ساتھ یہ تمام باتیں حرف بحرف درست ثابت ہوئیں۔اور یہ مجلسِ مشاورت مارچ ۱۹۷۴ء میں منعقد ہوئی تھی اور جیسا کہ ہم جائزہ لیں گے کہ فروری ۱۹۷۴ء میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی تھی اور جماعت کو یہ اطلاع موصول ہوئی تھی کہ اس موقع پر جماعت احمدیہ کے خلاف لٹریچر تقسیم کیا گیا تھا ۔اور پوری دنیا نے اپنے وقت پر یہ دیکھا کہ یہ محض خدشات نہیں تھے بلکہ ایک وسیع پیمانے پر جماعت ِ احمدیہ کے خلاف ایک سازش تیار کی جا رہی تھی۔
حسب روایت حضور کے افتتاحی خطاب کے بعد سب کمیٹیوں کی تشکیل کی گئی اور صد سالہ جوبلی منصوبہ کے لئے جو سٹینڈنگ سب کمیٹی بنی وہ بارہ افراد پر مشتمل تھی ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے مکرم و محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہر کو اس کا صدر اور مکرم و محترم چوہدری حمید اللہ صاحب کو سیکریٹری مقرر فرمایا۔اس سب کمیٹی نے دورانِ شوریٰ دو اجلاسات منعقد کئے اور پھر مشاورت میں یہ رپورٹ پیش کی کہ سب کمیٹی یہ محسوس کرتی ہے کہ اس عظیم الشان منصوبہ کی تفصیلات طے کرنے سے قبل بہت سی معلومات اکٹھی کرنے اور اس سب کمیٹی کے مختلف اجلاسات منعقد کرنے کی ضررورت ہے تا ہم حضور کے بیان فرمودہ شقوں میں سے مندرجہ ذیل شقوں پر فوری عمل در آمد شروع کرنے کی پیش کش کی جاتی ہے۔
۱)کینیڈا میں ایک مضبوط تبلیغی اور تربیتی مرکز کا قیام۔اس سفارش پر حضور نے ارشاد فرمایا: اس کے علاوہ سویڈن اور ناروے میں بھی ایسے مراکز قائم کئے جائیں۔
۲)مرکز ِ سلسلہ میں سرِ دست عربی، فرانسیسی اور سپینش سکھانے کا انتظام کیا جائے۔
۳) سورۃ فاتحہ کی مختصر تفسیر مع متن جو کہ آ ٹھ دس صفحات پر مشتمل ہو ان ۲۲ زبانوں میں شائع کی جائے۔ عربی، فارسی، جاپانی، چینی، روسی، جرمن، سپینش، فرانسیسی، ڈچ، ٹرکش، اٹالین، ڈینش، یونانی، سواحیلی، ہاؤسا، یوروبا، ویتنامی، انڈونیشین، ملائی، ہندی، بنگلہ اور یوگوسلاویا کی زبان میں۔ زبان سکھانے اور سورۃ فاتحہ اور اس کی مختصر تفسیر کے منصوبے کو حضور نے منظور فرمایا ۔
اس کے ساتھ یہ تجویز بھی تھی مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب ،مکرم مولانا ملک سیف الرحمن صاحب اور مکرم میر محمود احمدناصر صاحب اس کا مسودہ تیار کر کے حضور کی خدمت میں پیش کریں ۔اس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ اس کی ضرورت نہیں۔
۴) کمیٹی نے مرکز میں ۵ لاکھ افراد کے لئے ایک سٹیڈیم کی تعمیر کی سفارش پیش کی اور تجویز د ی کہ مستورات کے لئے ایک علیحدہ سٹیڈیم کی تعمیر کی جائے۔
۵)یہ تجویز دی گئی کہ مختلف ممالک میں بین الاقوامی سطح پر تبلیغی خط و کتابت کی جائے اور یہ کام ذیلی تنظیموں کے سپرد کیا جائے ۔اس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ سوچ کر فیصلہ کروں گا۔
۶) سٹینڈنگ کمیٹی نے صد سالہ جوبلی منانے کے پروگرام ، دنیا کے مختلف ممالک میں مراکز کے قیام ،اور مختلف زبانوں میں قرآنِ کریم کے تراجم اور تفسیر کے لئے تین سب کمیٹیوں کے قیام کی تجویز دی۔
۷) یہ تجویز پیش کی کہ انتظامی امور کے لئے ایک دفتر قائم کیا جائے اور چندوں کی وصولی کے لئے دوسرا دفتر قائم کیا جائے۔اس پر حضور نے ارشاد فرمایا’’ہر دو کے لئے ایک ہی دفتر ہو گا۔‘‘
۸) یہ سفارش پیش کی گئی کہ اندرونِ پاکستان اوربیرونِ پاکستان ہر جماعت میں ایک سیکریٹری صد سالہ جوبلی فنڈ مقرر کیا جائے۔اس پر حضور نے ارشاد فرمایا ’’حسبِ ضرورت مجھ سے ہدایت لی جائے‘‘
۹)سٹینڈنگ کمیٹی نے نے تجویز پیش کی کہ فنڈ کی رقوم کی سرمایہ کاری اور حفاظت اور مالی امور کے بارے میں چار مجوزہ احباب سے مشورہ لیا جائے۔
۱۰)سٹینڈنگ کمیٹی نے تجویز پیش کی کہ یہ نہایت ضروری ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں غلبہ اسلام کے لئے بیعتوں کے ٹارگٹ مقرر کئے جائیں ۔تا جوبلی کے وقت دنیا کا کوئی ملک احمدیت سے خالی نہ ہو اور کم ازکم چند ممالک میں اسلام کا مکمل غلبہ ہو چکا ہو۔جن ممالک میں اسوقت جماعت قائم نہیں ہے ان کے متعلق تبلیغی کوششوں کی ترجیحی ترتیب قائم کی جائے۔بیعتوں کے ٹارگٹس کی تعیین میں حضرت مصلح موعودؓ کی اس تاکیدی ہدایت کو ملحوظِ نظر رکھا جائے کہ ہر بالغ احمدی سال میں کم ازکم ایک اور شخص کو احمدی بنائے۔کمیٹی اس عزم کا اظہار کرتی ہے ان مقاصد کو ملحوظِ نظر رکھتے ہوئے تفصیلی منصوبہ تیار کیا جائے کہ کن کن اقدامات اور ذرئع کو اختیار کرنے سے یہ مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں۔
۱۱)یہ طے پایا کہ سٹینڈنگ کمیٹی پندرہ روزہ اجلاس کرے گی
۱۲)حضور کے بیان فرمودہ اغراضِ منصوبہ بندی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سٹینڈنگ کمیٹی ایک سوالنامہ ترتیب دے گی جسے حضور کی منظوری کے بعد تجاویز حاصل کرنے کے لئے مختلف جماعتوں اور تجربہ کار احباب کو بھجوایا جائے گا۔
مجلسِ مشاورت میں مختلف احباب کے مشورے سننے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا۔
’’رپورٹ اچھی ہے۔اس کے اوپر رائے لینے کی ضرورت نہیں۔کیونکہ اس کے بعض پہلو مزید وضاحت طلب ہیں۔بعض پہلو ایسے ہیں جن کے متعلق مجھے مزید ہدایتیں دینی ہیں۔ وہ انشاء اللہ میں دیکھ لوں گا۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی راہنمائی میں اس سٹینڈنگ کمیٹی کی مختلف سب کمیٹیوں نے کام شروع کیا۔اس عظیم منصوبہ کا ایک اہم حصہ قرآنِ کریم کے تراجم کرانے کا کام بھی تھا۔سب سے پہلے تو وکالتِ تبشیر کے ساتھ مل کر یہ جائزہ لیا کہ اب تک جماعت احمدیہ نے کن کن زبانوں میں قرآنِ کریم کے تراجم کا کام مکمل کر لیا ہے یا اس وقت زیرِ تکمیل ہے۔چنانچہ اس وقت تک صورت ِ حال یہ تھی۔
۱)انڈونیشین میں ترجمہ قرآن اور حواشی کا کام مکمل ہو چکا تھا۔پہلے دس پاروں پر مشتمل پہلی جلد شائع ہو چکی تھی اور دوسری اور تیسری جلد کی طباعت بھی شروع تھی۔
۲)سواحیلی زبان میں ترجمہ کا دوسرا ایڈیشن انٹروڈکشن کے ساتھ شائع ہو رہا تھا۔
۳) یوگینڈا کی ایک اہم زبان لوگینڈا میں ترجمہ اور نظرِ ثانی کا کام مکمل ہو چکا تھا اور مسودہ پریس میں طباعت کے لئے بھیجا جا چکا تھا۔
۴)فرانسیسی زبان میں ترجمہ مع انٹروڈکشن مکمل تھا اور طباعت کے لئے آرڈر دے دیا گیا تھا۔
۵)ڈینش زبان میں ترجمہ مع انٹروڈیکشن شائع ہو چکا تھا۔
۶) جرمن زبان میں ترجمہ کے دو ایڈیشن شائع ہو چکے تھے اور تیسرا ایڈیشن شائع ہو رہا تھا۔
۷)ان کے علاوہ روسی ، اٹالین اور سپینش میں تراجم ہو چکے تھے لیکن ان کی ابھی نظرِ ثانی نہیں ہوئی تھی۔
سب کمیٹی نے سفارش کی کہ ان زبانوں کے علاوہ چینی ،فارسی۔ترکی،یونانی ،پرتگالی ،ھاؤسا، ہندی ،بنگالی ،پشتو ،تامل، تلینگو ،گجراتی اور سندھی زبانوں میں فوری طور پر ترجمہ ہونا چاہئے اور بنیادی لٹریچر بھی مہیا ہونا چاہئے۔
اردو ،فارسی اور عربی تفسیر کے بارے میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ اس کام کو فوری طور پر شروع کیا جائے۔اور ان کے لئے مرکزی نمونہ تفسیر کا وہ ہے جو کہ انگریزی میں شائع ہو چکا ہے۔
جماعت کے پریسوں کے قیام کے بارے میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ انڈونیشیا ،فجی ،بنگلہ دیش، ماریشس ،تنزانیہ ،غانا ،نائیجیریا ،ڈنمارک،جرمنی،کینیڈا میں ایک ایک اور بھارت میں دو چھوٹے پریس قائم کئے جائیں اور انگلستان،پاکستان ،امریکہ اور سیرالیون میں بڑے پریس قائم کئے جائیں۔
جوبلی منصوبہ کا ایک اہم حصہ یکصد زبانوں میں بنیادی لٹریچر کی اشاعت تھا۔سٹینڈنگ کمیٹی نے اس بابت فیصلہ کیا کہ پہلے ۲۵ زبانوں میں بنیادی لٹریچر کی اشاعت کی جائے اور اس مقصد کے لئے چینی ،روسی،سپینش،اٹالین ،پرتگالی،یونانی،سویڈش ،نارویجین،یوگوسلاویا کی زبان ،ترکی، ویتنامی ، فیلیپینو، ہندی، مالاباری، گجراتی، تامل، تلینگو، سینہالیز، ہندی،مالاباری،گجراتی،فارسی،سندھی، پشتو، بنگالی عربی ،ہاؤسا اور سواحیلی زبانوں کا انتخاب کیا گیا۔اور یہ تجویز دی گئی کہ پہلے یہ لٹریچر اردو میں تیار کیا جائے گا پھر اس کا ترجمہ مختلف زبانوں میں کیا جائے گا۔
جماعت کی عالمی تبلیغی مہم کے لئے اس بات کی ضرورت تھی کہ مختلف زبانوں کے ماہرین تیار کئے جائیں۔ سٹینڈنگ کمیٹی نے سفارش کی کہ ہر زبان میں دو دو ماہرین تیار کئے جائیں۔
حضور کے ارشاد کے ماتحت مختلف ممالک کے لئے ایک مرکز قائم کرنے کے لئے مختلف ممالک کے گروہ تشکیل دیئے گئے۔مغربی افریقہ کے ممالک کو تین گروہوں میں تقسیم کیا گیا ۔ایک تو وہ ممالک جہاں پر انگریزی بولی جاتی ہے اور ان میں سے زیادہ تر ممالک برطانیہ کے زیرِ تسلط رہے تھے۔ان میں نائیجیریا،غانا ،سیرالیون ،گیمبیا اور کیمرون شامل تھے اور ان کے مرکزی مشن کے قیام کے لئے نائیجیریا کا نام تجویز کیا گیا۔دوسرا گروہ وہ تھا جہاں فرانسیسی بولی جاتی تھی اور یہ ممالک فرانس کے زیرتسلط رہے تھے۔ان میں اپر وولٹا، گنی، آئیوری کوسٹ ، سینیگال، ڈھومی اور ٹوگو شامل تھے۔اس گروہ میں آئیوری کوسٹ میں مرکز بنانے کی تجویز دی گئی۔اور مغربی افریقہ کے ممالک کا تیسرا گروہ ان ممالک پر مشتمل تھا جو کہ عرب معاشرے کے زیر ِ اثر تھا۔ان ممالک میں چاڈ ،مالی ،ماریطانیہ اور نائیجر شامل تھے ۔ان کے لئے مرکز چاڈ میں بنانے کی تجویز دی گئی۔
اس کمیٹی نے تجویز کیا کہ مشرقی افریقہ میں تین مراکز قائم کیے جائیں۔مشرقی افریقہ کو جن حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا ان میں سے ایک حصہ ایتھوپیا اور صومالیہ پر مشتمل تھا مگر ان ممالک میں اس وقت بھی جماعت کا مشن کھولنے کے راستے میں مشکلات حائل تھیں ۔دوسرا حصہ کینیا، یوگینڈا، تنزانیہ، زیمبیا اور زائر پر مشتمل رکھا گیا۔اور تیسرا حصہ ماریشس اور مڈغاسکر پر مشتمل تھا ۔ان میں سے ماریشس میں پہلے ہی سے مشن موجود تھا ،سفارش کی گئی کہ مڈغاسکر میں بھی مشن کھولا جائے۔
برطانیہ کو چار حصوں یعنی انگلستان،ویلز ،سکاٹ لینڈ اور شمالی آئر لینڈ میں تقسیم کیا گیا ۔انگلستان میں تو پہلے ہی لندن میں مشن ہاؤس موجود تھا۔سٹینڈنگ کمیٹی نے ویلز ،سکاٹ لینڈ اور شمالی آئر لینڈ میں بھی تبلیغی مراکز کھولنے کی سفارش کی۔اس کے علاوہ شمالی اور وسطی انگلستان میں بھی مشن ہاؤس کھولنے کی سفارش کی گئی۔
سٹینڈنگ کمیٹی نے یہ تجویز دی کہ جرائد میں خاص طور پر ریویو آف ریلیجنز کی طرف خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس میں بین الاقوامی دلچسپیوں کے مضامین لکھے جائیں۔اور اس کی اشاعت کو دس ہزار تک پہنچایا جائے۔شروع میں دنیا کی مختلف لائبریریوں میں ،تعلیمی اداروں میں اور دنیا کی مختلف اہم شخصیات کو یہ رسالہ مفت بھجوایا جائے ۔اسی طرح جماعت کے دوسرے اخبارات اور جرائد میں بھی مختلف ممالک کے بارے مضامین شائع کئے جائیں۔
سٹینڈنگ کمیٹی نے مسلمانوں میں اتحادِ عمل کے قیام اور تکفیر کی گرم بازاری کو روکنے کے لئے یہ اصولی سفارش تیار کی کہ غیر از جماعت علماء کو قرآن شریف کی اشاعت اور سیرت طیبہ کی اشاعت کے میدان میں تعاون کرنے یا مخالفت نہ کرنے کی پیشکش کی جائے۔لیکن اس کے ساتھ یہ امر بھی سامنے آیا کہ موجودہ حالات میں پاکستان میں اس تجویز پر عملدرآمد کا ماحول نہیں اور کوئی بھی تعاون کرنے کو تیار نہیں البتہ انڈونیشیا اور افریقہ میں خصوصیت سے یہ تحریک چلائی جائے۔
نیشلزم اور انٹرنیشلزم میں صحیح توازن پیدا کرنے کے لئے کہ مرکزِ سلسلہ سے مختلف بزرگانِ سلسلہ پاکستان سے باہر ممالک کے دوروں پر جائیں۔اسی طرح جلسہ سالانہ کے علاوہ دوسری جماعتی تقریبات میں بھی دوسرے ممالک سے وفود کی آمد کا سلسلہ بھی بین الاقوامی اخوت کے لئے مفید ہو گا۔ اسی طرح دنیا بھر کے ممالک سے احمدی طلباء کا مرکزِ سلسلہ میں تعلیم کے لئے آنا بہت ضروری ہے۔اور اس کے انتظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح یہ تجویز کیا گیا کہ دوسرے ممالک میں اثر رکھنے والے احباب یہ کوشش کر سکتے ہیں کہ مختلف موضوعات پر لیکچر دینے کے لئے پاکستان کے مختلف بزرگ احمدیوں کو مدعو کیا جائے۔اور صحافت سے تعلق رکھنے والے مختلف پاکستانی احباب باہر کے پریس سے تعلق استوار کرنے کے لئے ایک خاص پروگرام کے تحت دورے کریں۔
اس کے علاوہ سٹینڈنگ کمیٹی نے اس عظیم منصوبہ کی مختلف تفصیلات کے متعلق منصوبہ بندی کی اور بار بار اجلاسات کر کے تجاویز مرتب کیں اور ان تجاویز پر حضور سے راہنمائی حاصل کی۔





(۱) الفضل ۱۶ جنوری ۱۹۵۸ء
(۲)تفسیرِ کبیرجلد ۸ ص۵۲۸
(۳) حیاتِ ناصر مصنفہ محمود مجیب اصغرص ۵۵۶۔۵۵۷
(۴)حیاتِ ناصر مصنفہ محمود مجیب اصغرص ۵۵۸۔۵۵۹
(۵)حیاتِ ناصر مصنفہ محمود مجیب اصغرص ۵۵۸تا۵۶۷
(۶)حیاتِ ناصر مصنفہ محمود مجیب اصغرص ۵۶۷
(۷)الفضل ۱۲؍ جنوری ۱۹۷۴ء ص۱
(۸) الفضل ۵؍ فروری ۱۹۷۴ء ص۱
(۹) مجلسِ مشاورت ۱۹۷۴ء ص۳تا۴۵
لاہور کی اسلامی سربراہی کانفرنس
جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں صد سالہ جوبلی کے منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے مسلمانوں کے تمام فرقوں کو اتحادِ عمل کی دعوت دی تھی اور فرمایا تھا کہ تمام فرقوں کو دنیا میںقرآنِ کریم اور رسول اللہ ﷺ کی عظمت کے اظہار کے لیے کام کرنا چاہئے۔اس سے قبل ۱۹؍اکتوبر ۱۹۷۳ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے عالمِ اسلام کے اتحاد پر زور دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ
’’پس حکومتِ وقت یا دوسری اقوامِ عالم جن کا تعلق اسلام سے ہے ان کا یہ کام ہے(ہر فرد اگر اپنے طور پر اس قسم کے منصوبے بنائے تو فائدہ کی بجائے نقصان ہوا کرتا ہے) کہ وہ سر جوڑیں اور منصوبے بنائیں اور پھر ہر اسلامی ملک کی ذمہ داریوں کی تعیین کریں مثلاََ کہیں کہ فلاں ملک اس مہم اور مجاہدے میں یہ یہ خدمات اور قربانیاں پیش کرے یا اس قسم کا ایثار اور قربانی سامنے آنی چاہئے۔جب سارے اسلامی ممالک کسی منصوبے کے ماتحت اسلام کے دشمن کو جو اپنے ہزار اختلافات کے با وجوداکٹھا ہو گیا ہے اس کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے ایک جد و جہد ،ایک عظیم جہاد اور مجاہدے کا اعلان کریں گے پھر دیکھیں گے کہ کون اس میدان میں آگے نکلتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک اور ایک ہزار کی نسبت سے آگے نکل جائیں گے بلکہ ہم دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ آگے نکلنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے۔‘‘(خطبات ِ ناصر جلد پنجم ص۲۶۲)
اورا سی خطبہ جمعہ میں حضور نے فرمایا تھا پاکستان کی حکومت ملک کی خاطر جو بھی قربانی مانگے گی اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی سب سے بڑھ کر قربانیاں پیش کریں گے۔اس پس منظر میں جب کہ جماعت ِ احمدیہ کے خلاف نفرت کی ایک مہم چلائی جا رہی تھی ،حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒپوری دنیا کے مسلمانوں کو محبت کا پیغام دے رہے تھے،مشترکہ طور پر اسلام کی خاطر قربانیاں کرنے کی دعوت دے رہے تھے۔
فروری۱۹۷۴ء میں پاکستان کے شہر لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہورہی تھی۔اور مسلمان ممالک کے سربراہان نے اس کانفرنس میں شرکت کرنی تھی ۔اس کانفرنس سے بہت سی توقعات وابستہ کی جارہی تھیں کہ اس میں عالمِ اسلام کے اتحاد اور ترقی کے لیے منصوبے بنائے جائیں گے،فیصلے کئے جائیں گے۔مگر یہ کانفرنس ایک خاص پس منظر میں ہو رہی تھی۔
بھٹو صاحب ایک ذہین سیاستدان تھے ،ان کی خواہش تھی کہ بین الاقوامی سطح پر ایک نمایا ں مقام حاصل ہو۔وہ صرف عزائم ہی نہیں صلاحیتیں بھی رکھتے تھے۔وہ تیسری دنیا کا لیڈر بننے کی کوشش بھی کرتے رہے۔مگر اس منظر پر پہلے پنڈت جواہر لال نہرو اور پھر ان کی صاحبزادی اور بھارت کی وزیرِاعظم اندرا گاندھی کی قد آور شخصیتیں حاوی تھیں۔بین الاقوامی سطح پر اپنا لوہا منوانے کا ایک راستہ یہ تھا کہ وہ عالمِ اسلام کے ایک لیڈر کے طور پر نمایاں ہو کر سامنے آئیں۔اس سلسلے میں انہیں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل کی پوری حمایت حاصل تھی۔ان کا مشترکہ خواب یہ تھا کہ بھٹو صاحب اسلامی دنیا کے سیاسی لیڈر اور سعودی عرب کے بادشاہ عالمِ اسلام کے روحانی لیڈر اور خلیفہ کے طور پر سامنے آئیں۔شروع میں تو شاہ فیصل کو عالمِ اسلام میں کوئی نمایاں مقام حاصل نہیں تھا۔مگر ان کے پاس دولت کی ریل پیل تھی اور سعودی عرب کے فرمانروا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے متولی بھی تھے اور ہر مسلمان کا دل ان مقدس مقامات کی محبت سے لبریز تھا۔مغربی طاقتوں کا مفاد بھی اس میں تھا کہ کسی طرح شاہ فیصل کو دنیا ئے اسلام کا روحانی پیشوا بنا دیا جائے تاکہ اس طرح مشرقِ وسطیٰ میں مغرب کے مفادات محفوظ کر دیئے جائیں۔اور یہ سب کچھ اس طرح دبے پاؤںکیا جائے کہ سادہ لوح مسلمانوں کو اس کی خبر بھی نہ ہو ۔یعنی اعلانات تو سعودی عرب کے لاؤڈ سپیکروں سے کئے جا رہے ہوں اور ان کا مائیکروفون مغرب کے ہاتھ میں ہو ۔ یہ بات پڑھنے والوں کے لئے کسی اچھنبے کا باعث نہیں ہونی چاہئے۔بڑی طاقتیں اپنے مقاصد کے لئے اس قسم کے کھیل کھیلتی رہتی ہیںاور یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا کہ مغربی طاقتیں اپنے مقاصد کے لئے اس قسم کا کھیل شروع کریں۔پہلی جنگِ عظیم کے دوران برطانوی حکومت نے اسی طرح کی کوشش کی تھی۔پہلی جنگِ عظیم کے دوران ترکی کی سلطنت ِ عثمانیہ جرمنی کا ساتھ دے رہی تھی اور ہندوستان کے بہت سے مسلمان ترکی کی خلافتِ عثمانیہ سے ہمدردی رکھتے تھے۔یہ چیز انگریز حکمرانوں کو پریشان کر رہی تھی۔چنانچہ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر ایک ایسے شخص کو بطور خلیفہ کے لئے کھڑاکیا جائے جو سلطنت ِ برطانیہ کے ساتھ تعلق اور ہمدردی رکھتا ہو تو یہ ان کے لئے بہت مفید ہوگا۔اس کے لئے انہیں یہ خیال آیا کہ جو حکمران اس وقت حجاز پر حکومت کر رہا ہے اور ان کے ہاتھ میں بھی ہے اسے اس کام کے لئے کھڑا کیا جائے۔اس وقت حجاز پر شریفِ مکہ شریف حسین کی حکومت تھی اور اس وقت اس کے انگریز حکومت سے قریبی تعلقات بھی تھے۔اور چونکہ حجاز میں مکہ اور مدینہ واقع ہیں اس لئے حجاز سے وابستہ ہر چیز کے لئے ان کے دل میں ایک نر م گوشہ پیدا ہونا قدرتی بات تھی۔چنانچہ انڈیاآفس کے ایک افسر کریوCrewe نے۱۳ ؍اپریل ۱۹۱۵ء کو حکامِ بالا کو جو رپورٹ بھجوائی اس میں لکھا :
’’۔۔۔میں نہیں سمجھتا کہ استنبول پر قبضہ ہو جانے کے بعد شریفِ مکہ حسین سے متعلق ہماری پالیسی کی وجہ سے ہمیں کوئی پریشانی ہو گی۔ہمیں چاہئے کہ کہ ہم اسے ترکی کی غلامی سے نجات دینے کے لئے ہمارے بس میں جو کچھ ہے وہ کریں۔لیکن اس سلسلے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے اور کسی کو یہ پتہ نہ چلے کہ ہم اسے مقامِ خلافت پر بٹھانا چاہتے ہیں۔ ہندوستان میں آج کل پان اسلام ازم کی جو تحریک چلی ہوئی ہے اس کا منبع اور مرکز استنبول ہے۔یہاں کے اسلام پسند عناصر اس بات کو قطعی پسند نہیں کریں گے کہ خلافت عثمانیوں کے ہاتھ سے نکل جائے۔لیکن شریف ِ مکہ یا کوئی اور عرب سنی لیڈر اپنے آپ کو عثمانیوں سے آزاد کر کے خلافت جیسے متبرک عنوان کو حاصل کر لے تو مسلمان رائے عامہ اور ہندوستانی مسلمانوں کے لئے بھی ان کا ساتھ دینے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں رہ جائے گا۔۔۔۔
لیکن اس کے با وجود میرا خیال یہ ہے کہ آئندہ مسئلہ خلافت کی بنا پر مسلمانوں میں پھوٹ پڑ سکتی ہے۔درحقیقت دیکھا جائے تو اس پھوٹ میں ہمارا سراسر فائدہ ہی ہے۔‘‘
(بحوالہ تحریک ِ خلافت تحریر ڈاکٹر میم کمال او کے ،باسفورس یونیورسٹی استنبول،
ترجمہ ڈاکٹر نثار احمد اسرار۔ سنگ ِ میل پبلیکیشنز لاہور۱۹۹۱ئ۔ص۶۲و ۶۳)
جیسا کہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا جب شریف حسین نے سلطنتِ عثمانیہ سے بغاوت کی تو ہندوستان کے مسلمانوں میں اس کے خلاف شدید ردِ عمل ظاہر کیا۔اس وقت حجاز پر شریف مکہ کی اور نجد کے علاقہ پر سعودی خاندان کی حکومت تھی۔جب شریف مکہ نے یہودیوں کے فلسطین میں آباد ہونے کے خلاف ردِ عمل دکھایا تو برطانوی حکومت نے ان سے اپنی حمایت کا ہاتھ کھینچ لیا اور سعودی خاندان نے حجاز پر بھی قبضہ کر لیا۔
ایک عرصہ سے تو جماعت احمدیہ کے مخالف علماء اپنے گلے پھاڑ پھاڑ کر یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ جماعت ِ احمدیہ کو اورجماعت ِ احمدیہ کی خلافت کو برطانوی استعمار نے اپنے مقاصد کے لئے کھڑا کیا تھا۔ لیکن یہ انکشافات تو خود غیر احمدی مسلمانوں میں سے محققین نے کیے ہیں کہ اصل میں تو مغربی قوتوں کا یہ ارادہ تھا کہ سنی عرب لیڈروں میں سے کسی کو جو اُن کے ہاتھ میں ہو عالمِ اسلام کا خلیفہ بنا کر اپنے مقاصد کئے جائیں۔
عالمِ اسلام میں ایک وقت میں دو خلفاء تو نہیں ہو سکتے ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ِ احمدیہ میں تو خلافت قائم تھی ۔اور یہ بات اس گروہ کو کسی طرح بھی برداشت نہ تھی جو شاہ فیصل کو عالمِ اسلام کا خلیفہ بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔اس کے علاوہ یہ مسئلہ بھی تھا کہ مختلف ممالک میں مختلف فقہی گروہوں کی پیروی کرنے والے مسلمان اکثریت میں تھے۔سعودی عرب کے بادشاہ وہابی تھے جبکہ انڈونیشیا کے اکثر مسلمان شافعی ،افریقہ کے اکثر مسلمان مالکی اور کئی دوسرے مسلمان ممالک میں حنفی مسلمانوں کی اکثریت تھی۔اسلئے اس بات کا امکان تھا کہ دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والے علماء سعودی حکمرانوں سے رشوت لیتے ہوئے اور ان کی قیادت قبول کرتے ہوئے ہچکچائیں۔ لیکن اگر یہ مدد مدارس اور مساجد کے نام پر دی جاتی تو ظاہر تھا کہ کم ردِ عمل ہوتا اور اگر اس امداد کو جماعت ِ احمدیہ کی مخالفت کے ساتھ مشروط کر دیا جاتا تو دوسرے مسلک کے علماء کو یہ پیشکش قبول کرنے میں کوئی عذر نہ ہوتا،کیونکہ وہ تو پہلے ہی جماعت کی مخالفت پر ادھار کھائے بیٹھے تھے۔اس طریق پر دنیا بھر کے مسلمان سعودی اثر کے نیچے آ جاتے اور کوئی خاص ردِ عمل بھی پیدا نہ ہوتا۔
اب جب کہ لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کا آ غاز قریب آرہا تھا اور یہ اطلاعات موصول ہو رہی تھیں کہ اس کانفرنس کے موقع پر جماعت ِ احمدیہ کے خلاف ایک با قاعدہ مہم کا آ غاز ہونے والا ہے۔اس ضمن میں جماعت کی طرف سے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے وزیرِ خارجہ پاکستان عزیز احمد صاحب کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا۔لیکن وزیرِ خارجہ نے اس سے اتفاق نہ کیا اور کہا کہ ہر گز اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ اس موقع کو جماعت احمدیہ کے خلاف مہم چلانے کے لیے استعمال کیا جائے بلکہ اس موقع پرمذہبی پروپیگنڈا پر سختی سے پابندی ہو گی اوراس نازک موقع پر کوئی سیاسی شوشہ چھوڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔پھر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہراحمد صاحب کی بھٹو صاحب سے ملاقات ہوئی ،انہوں نے بھٹو صاحب کے سامنے بھی کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔اس پر بھٹو صاحب نے بھی یقین دلایا کہ جماعت ِ احمدیہ کے خلاف کسی قسم کا پروپیگنڈا نہیں کیا جائے گا۔لیکن اس بات کے شواہد بھی سامنے آ رہے تھے کہ یہ سب زبانی جمع خرچ کی جا رہی ہے۔ناقابلِ تردید ثبوت سامنے آ رہے تھے اور وہ پمفلٹ بھی مل چکے تھے جنہیں جماعت ِ اسلامی نے چھپوایا تھا اور انہیں اس موقع پر مندوبین میں وسیع پیمانے پر تقسیم کرنے کا پروگرام تھا۔
اور ان ارادوں کو مکمل طور پر خفیہ رکھنے کے لیے کوئی خاص کوشش بھی نہیں کی جا رہی تھی۔جماعت کے مخالف جرائد بھی شاہ فیصل کو عالمِ اسلام کا خلیفہ بنانے کا پروپیگنڈا کر رہے تھے۔اور اس کے ساتھ جماعت ِ احمدیہ کے خلاف زہر بھی اگلا جا رہا تھا۔مثلاََ رسالہ چٹان میں کانفرنس کے بعد یہ اطلاع شائع ہوئی کہ شاہ فیصل نے افریقہ میں تبلیغِ اسلام کے لئے خزانوں کے منہ کھول دیئے ہیں اور ان کی کاوشوں کے نتیجے میں عیسائی مشنری اور قادیانی مراکز میں شگاف پڑنے لگے ہیں۔اور یہ بھی لکھا گیا کہ افریقہ کے صحراؤں میں توحید کی جو صدائیں گونج رہی ہیں اور اس ظلمت کدے میں قرآن و سنت کی جو روشنی پھیل رہی ہے اس کا سہرا دراصل شاہ فیصل کے سر پر ہے۔اور اگر شاہ فیصل کی کوششوں کی یہی رفتار رہی تو آئندہ دس سال میں افریقہ اسلام کا گہوارہ بن جائے گا۔اور اس ساری مدح سرائی کا ما حصل یہ تھا کہ اس کے آخر میں لکھا گیا کہ
’’یوگینڈا کے مردِ آہن عیدی امین مبارکباد کے مستحق ہیں۔جو لاہورمیں منعقد ہونے والی اسلامی ملکوں کی سربراہ کانفرنس میں یہ تجویز پیش کرنے والے ہیںکہ شاہ فیصل کو عالمِ اسلام کا لیڈر تسلیم کیاجائے ہمیں امید ہے کہ تمام مسلم راہنما اس تجویز کی حمایت کریں گے۔ اور شاہ فیصل کو متفقہ طور پر اسلامی دنیا کا راہنما تسلیم کر کے اتحاد ِ اسلامی کی داغ بیل ڈالیں گے۔
ہم اس موقعہ پر پاکستان کے مختلف مکاتب ِ فکر کے علماء کرام کی خدمت میں یہ اپیل کرتے ہیںکہ وہ تمام فرقوں کے علماء پر مشتمل ایک وفد تشکیل دیں جو اسلامی کانفرنس کے موقعہ پر مسلم سربراہوں خصوصاََ شاہ فیصل ،معمر القذافی اور عیدی امین سے ملاقات کر کے قادیانیوں کے بارے میں یا دداشت پیش کریں ۔اور انہیں بتائیں کہ قادیانیت اسلام اور مسلمانوں کے لئے صیہونیت سے کم خطرناک نہیں ہے۔اور اس کے سد ِ باب کے لئے تمام اسلامی ملکوں کو مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے۔‘‘
غانا سے موصول ہونے والی اس تحریر کے نیچے چٹان کے مدیر نے لکھا:
’’اسلامی کانفرنس کے بعد خط ملا ،لیکن شاہ فیصل کو عالمِ اسلام کا لیڈر بنانے کی تحریک سے چٹان متفق ہے بلکہ بہت پہلے سے اس کا داعی ہے۔‘‘ (چٹان ۴ مارچ ۱۹۷۴ء ص۱۴ و ۱۵)
نہ صرف یہ بلکہ ایسے اشتہارات جرائد میں شائع کروائے جا رہے تھے جن میں شاہ فیصل کو قائدملت ِ اسلامیہ کا خطاب دیا گیا تھا۔(چٹان ۲۵ فروری ۱۹۷۴ئ)
یہ پراپیگنڈا کچھ اس انداز سے کیا جا رہا تھا کہ خلفاء ِ راشدین کی عظمت کا بھی کچھ دھیان نہیں کیا جارہا تھا۔اسی جریدے نے شاہ فیصل اور دیگر سربراہانِ مملکت کی لاہور آمد کی منظر کشی پر جو رپورٹ شائع کی اس میں کچھ اس طرز میں زمین آسمان کے قلابے ملائے گئے کہ اس رپورٹ کی ایک سرخی یہ تھی
’’ابو بکرؓ،عمرؓ، عثمان ؓ اور علی ؓ اسی طرح سیکیورٹی کا انتظام کر لیتے تو آج تاریخ یقیناََ مختلف ہوتی۔‘‘
اور اس کے ساتھ شاہ فیصل کی تصویر شائع کی ہوئی تھی اور نیچے یہ سرخی تھی۔
’’شاہ فیصل کے آتے ہی ساری فضا احترام کے سانچے میں ڈھل گئی‘‘
گویا یہ کہا جا رہا تھا کہ جس عمدہ طریق پر بھٹو صاحب اور ان کی ٹیم نے سیکیورٹی کا انتظام کیا ہے نعوذ ُ باللہ ایسے عمدہ طریق پر انتظامات کرنے کی توفیق تو خلفاء راشدین کو بھی نہیں ہوئی تھی۔لیکن جس طرح چند سال بعد بھٹو صاحب کا تختہ الٹا گیا اس سے اس کی حقیقت خوب ظاہر ہو جاتی ہے۔اور اسی رپورٹ میں چٹان نے لکھا کہ جب شاہ فیصل ایئر پورٹ پر اترے تو ان کی آمد نے ایئر پورٹ کی فضا کو ایک عجیب تقدس دے دیا تھا۔اور ان کی چال میں ایک وقار اور تمکنت تھی اور چہرے پرنور کا ایک ہالہ بھی تھا۔(چٹان ۱۱ مارچ ۱۹۷۴ء ص۱۵و۱۶)
اس مدح سرائی کا مقصد کیا تھا اس پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان اس کانفرنس کا سپانسر تو تھا ہی کیونکہ یہ کانفرنس پاکستان میں ہی ہو رہی تھی لیکن اس کے ساتھ سعودی بادشاہ شاہ فیصل بھی اس کانفرنس کےCo-sponsor تھے۔
کانفرنس شروع ہوئی تو تمام خدشات درست ثابت ہوئے۔بھٹو صاحب نے ہدایت دی کہ جب بیرونی ممالک کے سربراہان اور مندوبین آئیں تو ان کے ساتھ کسی احمدی فوجی افسر کی ڈیوٹی نہ لگائی جائے۔لیکن راز زیادہ دیر تک راز نہ رہ سکا ۔افریقہ سے آئے ہوئے ایک وزیرِ اعظم کو جب جماعت کے خلاف دستاویزات دی گئیں تو انہوں نے یہ پلندہ اپنے ایک احمدی دوست کو تھمادیا۔یہ دستاویزات کیا تھیں جماعت ِ احمدیہ کے خلاف جھوٹے الزامات اور زہر افشانیوں کاایک طومار تھا۔اس میں جماعت اور خلیفہ وقت کے خلاف جی بھر کے زہر اگلا گیا تھا۔
(A Man of God, by Ian Adamson, George Shepherd Publishers,
Great Britian P. 96-100)
مخالفین اس موقع کو جماعت ِ احمدیہ کی مخالفت کی آگ بھڑکانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے اور ساتھ ساتھ یہ شور مچا رہے تھے کہ حکومت کو چاہئے کہ ایسا انتظام کرے کہ قادیانی اس کانفرنس پر اثر انداز نہ ہوسکیں۔بلکہ اس بات پر شور بھی مچا رہے تھے کہ یہ کیا ظلم ہوا کہ ایک قادیانی فرم کو اس کانفرنس کی میزبانی کا ٹھیکہ دے دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس بات کا بھی اظہار کیا کہ یہ بات رب العالمین کے حضور معتوب ہونے کی نشانی ہے۔اس فرم سے مراد ان کی شیزان کی کمپنی تھی۔
(المنبر یکم فروری ۱۹۷۴ء ص۶)
بہر حال سربراہی کانفرنس شروع ہوئی اور اس کا اختتام ہوا ۔پسِ پردہ اس میں کیا کیا کچھ ہوا تھا۔ اس کا اندازہ بعد میں منظرِ عام پر آنے والے واقعات سے بخوبی ہوجاتا ہے۔
لیکن اس کانفرنس کے دوران اور بعد میں بھی بہت سے جرائد جس قسم کا پراپیگنڈا کرتے دکھائی دیئے اس کا اندازہ ان چند مثالوں سے ہو جاتا ہے۔رسالہ المنبر نے شاہ فیصل کی مدح سرائی کرتے ہوئے لکھا۔
’’سعودی عرب کے فرمانروا ۔خادم الحرمین شاہ فیصل ہیں۔موقعہ تفصیل کا نہیں،فیصلِ معظم کی صحرائی زندگی،اس دور میں اپنے عظیم المرتبت مجاہد فی سبیل اللہ ،توحیدِ الٰہی میں قابلِ رشک مقام پر فائز اور دینی بصیرت میں ممتاز شخصیت،سلطان عبد العزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ رحمۃََ واسعۃََ کی تربیت اور جہاد اور اس کے تقاضوں کی تکمیل سے لے کر شاہ فیصل کے لقب سے ملقب ہونے اور اس کے بعد۔۔۔۔اس عظیم فرمانروا نے خداداد بصیرت دینی حمیت ،سیاسی دانش،اسلامی اخوت اور ایثار اور قربانی کے جو نقوش عہد ِ حاضر میں ثبت فرمائے ہیں اور ان سے ان کی شخصیت کا جو نکھار اپنوں و بیگانوں نے مشاہدہ کیا ہے،اسی کا نتیجہ ہے کہ یورپ اور پورا مغرب اس عظیم المرتبت قائد کے تیوروں سے سہما ہوا ہے اور عالمِ اسلام ان کی شخصیت پر اظہار ِ فخرو مباہات کر رہا ہے۔‘‘
اور اس کے ساتھ ہی اس جریدہ نے یہ بھی لکھا کہ حکومت کو یہ انتظام کرنا چاہئے کہ قادیانیوں کا سایہ بھی اس کانفرنس پر نہ پڑے۔حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ خود جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین اس موقع کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہے تھے۔یہ ہمیشہ سے اس گروہ کا طریق رہا ہے کہ جب خود کوئی حرکت کرنی ہو تو یہ شور مچا دیتے ہیں کہ قادیانی یہ سازش کر رہے ہیں۔(المنبر یکم تا ۸ فروری ۱۹۷۴ئ)
اسی جریدہ نے کانفرنس کے بعد اس بات پر بھی سخت برہمی کا اظہار کیا کہ جب شاہ فیصل شاہی مسجد میں نماز ِ جمعہ پڑھنے آئے تھے تو انہوں نے پہلے دو رکعت تحیۃ المسجد نماز ادا کی تھی اور اس کے بعد جب انہوں نے طویل اور رقت سے بھری ہوئی دعاکی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے اور انہوں نے ان آنسوؤں کو پونچھا تھا۔اور لاکھوں لوگوں نے اس منظر کو ٹی وی پر دیکھا تھا اور اس سے ان پر بہت اثر ہوا تھا ۔لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جب دوبارہ یہ مناظر ٹی وی پر دکھائے گئے تو رقت پیدا ہونے والا اور آنسو پونچھنے والا منظر کاٹ دیا گیاجس پر سب کو بہت صدمہ ہوا۔اور اس جریدہ نے بہت اصرار سے لکھا کہ یہ سب کچھ ایک سازش کے تحت کیا گیا ہے تا کہ اسلامی ذوق ابھر نہ سکے۔
(المنبر۱ تا ۸ مارچ ۱۹۷۴ئ)
پھر اسی جریدے نے اسلامی سربراہی کانفرنس کے اختتام پر لکھا کہ پہلے یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ شاہ فیصل کانفرنس کے موقع پر شاہی مسجد لاہور میں جمعہ پڑھائیں لیکن پھر ایک طبقہ کی طرف سے یہ مسئلہ اُٹھایا گیا کہ چونکہ شاہ فیصل وہابی عقیدہ کے ہیں اس لئے ان کے پیچھے ہماری نماز نہیں ہوتی۔پھر اس مسئلہ پر مختلف لوگوں کی طرف سے تاریں دی گئیں ۔جب یہ چیز شاہ فیصل کے علم میں آئی تو انہوں نے جمعہ پڑھانے سے انکار کر دیا۔پھر اس جریدے نے احمدیوں کے خلاف یہ لکھ کر زہر اگلا کہ یہ سب کچھ احمدیوں اور کمیونسٹوں کی سازش کی وجہ سے ہواہے۔(المنبر ۲۹ مارچ ۱۹۷۴ئ)
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑتے۔اگر شاہ فیصل اس وجہ سے شاہی مسجد میں نماز نہیں پڑھا سکے تو اس سے احمدیوں کا کیا تعلق۔انہیں توکوئی شاہی مسجد میں نماز پڑھنے بھی نہیں دیتا کجا یہ کہ وہ کسی بادشاہ کو وہاں پر نماز پڑھانے سے روکیں۔
یہ تلملاہٹ صرف اس بات تک محدود نہیں تھی کہ شاہ فیصل شاہی مسجد لاہور میںنماز ِ جمعہ نہیں پڑھا سکے بلکہ یہ بھی لکھا جا رہا تھا کہ یوگینڈا کے صدر امین نے اپنے اعلان کے مطابق اس کانفرنس پر شاہ فیصل کو عالمِ اسلام کا خلیفہ بنانے کی تجویز رکھی تھی لیکن اس پر کما حقہ توجہ نہیں دی گئی۔جیسا کہ المنبر نے لکھا۔
’’پچھلے سال سے یہ صدا سنائی دے رہی تھی کہ افریقہ کے مرد ِ مجاہد جنرل عیدی امین حفظہ اللہ نے حج کے موقع پر ایک اخباری ملاقات میں یہ کہا تھا کہ عالمِ اسلام اپنے مسائل کا اگر کوئی حل چاہتا ہے تواس کا آغاز اس بات سے ہوگا کہ عالمِ اسلام اپنا کوئی راہنما منتخب کرے اور پوری اسلامی دنیا کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں ہو اور اس کام کے اہل میری نظروں میں امام الحرمین ،خادم الحرمین پاسبانِ حرمین والیِ مملکت ِ سعودی عرب جلالۃ الملک فیصلِ معظم بن عبدالعزیز آلِ سعود ایداللہ و حفظہ کی شخصیت ہے کیونکہ ان کی مومنانہ بصیرت اور عمیق نظر پوری دنیا کے مسائل پر احاطہ کئے ہوئے ہے اور پھر جنرل عیدی امین نے یہ خواہش بھی ظاہر کی کہ پاکستان میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں یہ فیصلہ کیا جانا چاہئے اور یہ کہ میں اس کانفرنس میں مسلم علمائے دین کے سامنے یہ تجویز رکھوں گا۔ اس کے بعد انہوںنے کئی مرتبہ مختلف مواقع پر اس بات کا اظہار بھی کیا اور پھر اس کانفرنس میں اور بہتر اور مفید تجاویز کے علاوہ اسے بھی پیش کیا گیا مگر ہمیں حیرت اور دکھ ہے کہ ان کی اس معقول بات پر کسی کو توجہ دینے کی توفیق نصیب نہ ہوئی اور یہ ممکن بھی کیسے تھا کہ جس کانفرنس پر یہودیوں،کمیونسٹوں اور قادیانیوں کا سایہ اول تا آخر ہو کوئی ایسی بات کیونکر عمل کا قالب اختیار کر سکتی ہے جو اسلامیانِ عالم کی بھلائی کی ہو۔‘‘
( المنبر ۲۹ مارچ ۱۹۷۴ء صفحہ آخر)
اس رطب و یابس سے ظاہر ہے کہ جو بھی ہاتھ شاہ فیصل کو عالمِ اسلام کا خلیفہ بنانے کے لئے زور لگا رہے تھے انہیں ابھی اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔اور وہ اس مقصد کے لئے ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے جماعت ِ احمدیہ کے خلاف لوگوں کے ذہن میں زہر گھول رہے تھے تاکہ اس نفرت کو آڑ بنا کر اپنے مقاصد حاصل کئے جا سکیں۔اور لوگوں کو یہ باور کرایا جا سکے کہ اگر عالم ِ اسلام ایک خلیفہ کے ہاتھ پر جمع نہیں ہو پا رہا تو یقیناََ یہ قادیانیوں کی سازش ہے۔یہ ایک دوجریدوں سے چند مثالیں دی گئی ہیں ۔جن کو پڑھنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس سازش کا رخ کس طرف تھا اور اس کے پیچھے کیا مقاصد تھے۔
ہم نے اس اہم مرحلہ کے بارے میں دوسری طرف کا نقطہ نظر معلوم کرنے کی کوشش بھی کی۔ چنانچہ جب اس امر کا ذکر ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے انٹرویو کے دوران کیا اور ان سے سوال پوچھا کہ یہ کس طرح ہوا کہ اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر جماعت ِ احمدیہ کے خلاف پراپیگنڈا کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میرا نہیں خیال کہ یہ عزیز احمد یا ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے یہ جان کر کیا گیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ اسے روک نہیں سکتے تھے۔چونکہ بھٹو صاحب پاکستان کی تاریخ کے ایک مضبوط وزیراعظم سمجھے جاتے ہیں اس لئے ہمارے لئے یہ بات تعجب انگیز تھی۔ چنانچہ ہم نے پھر ان سے یہ سوال کیا
‏They were helpless?(وہ مجبور تھے؟)۔
اس پر مبشر حسن صاحب نے پھر واضح طور پر کہا
‏Yes, They were helpless.(ہاں وہ مجبور تھے)۔
اس پر میں نے دریافت کیا کہ وہ کون سے ہاتھ تھے؟اس پر ان کا جواب تھا
’’وہ خفیہ ہاتھ جن کا پتہ ہی نہیں چلتا ۔گورنمنٹ کو پتہ ہی نہیں چلا۔‘‘
اور پھر انہوں نے اس بات کا اعادہ ان الفاظ میں کیا
‏P.M. knew he was helpless(وزیر ِ اعظم کو پتہ تھا کہ وہ مجبور ہے)۔
اس کے بعد مبشر حسن صاحب نے کہاکہ انہوں نے اگست۱۹۷۴ء میں وزیر ِ اعظم بھٹو صاحب کو خط لکھا تھا جس میں ملک میں موجود مختلف حالات کا ذکر کر کے کہا تھا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس کا نتیجہ مارشل لاء کی صورت میں نکلے گا۔بھٹو صاحب نے اس خط کا جواب نہیں دیا لیکن اس پر انہوں نے لکھا کہ جو کچھ مبشر نے کہا وہ سچ ہے اور پھر تین آدمیوں کو اس خط کی نقول بھجوا دیں۔
ایک اور بات کا ذکر کرنا ہوگاکہ بنگلہ دیش کے علاوہ چھ نئے ممالک پہلی مرتبہ اس کانفرنس میں شامل تھے اور ان سب ممالک کا تعلق افریقہ سے تھا ۔اور یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ان چھ میں سے تین ممالک یوگینڈا،گیمبیا اور گنی بساؤ تھے۔بعد میں ان تین ممالک میں جماعت احمدیہ کی مخالفت میں حکومتوں نے انتہائی اقدامات اُ ٹھائے۔
اس کانفرنس میںایک ہی غیر سرکاری تنظیم کا وفدشامل تھا اور یہ تنظیم رابطہ عالمِ اسلامی تھی۔اور اس کے سیکریٹری جنرل قزاز صاحب اس کے وفد کی قیادت کر رہے تھے۔صرف ڈیڑھ ماہ کے بعد اس تنظیم نے ایک کانفرنس مکہ مکرمہ میں منعقد کی اور اس میں یہ قرارداد منظور کی گئی کہ مسلمان ملکوں میں جماعت ِ احمدیہ کو غیر مسلم قرار دے دینا چاہئے۔اور ان پر پابندیاں لگا دینی چاہئیں۔اور جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیںجب آزاد کشمیر اسمبلی نے جماعت احمدیہ کے خلاف قرارداد منظور کی تو قزاز صاحب نے بھٹوصاحب کو مبارکباد کا پیغام بھجوایا تھا اور لکھا تھا کہ یہ قرارداد اسلامی ممالک کے لئے قابلِ تقلید ہے۔
اس کانفرنس پرکانفرنس کے سیکریٹری جنرل کے فرائض محمد حسن التہامی صاحب نے سنبھالے تھے۔ ان سے قبل یہ فرائض ملیشیا کے تنکو عبدالرحمن سرانجام دے رہے تھے۔اور جب ۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے جماعت ِ احمدیہ کے خلاف قرارداد منظور کی تو اس سے چند روز قبل یہ صاحب پاکستان پہنچ گئے تھے اور اس قرارداد کے بعد فوراََ ہی انہوں نے اس قرارداد کا خیر مقد م کرتے ہوئے یہ بیان دیا تھا کہ اب باقی اسلامی ممالک کو بھی اس قرارداد کی پیروی کرنی چاہئے۔
رابطہ عالمِ اسلامی میں تیار ہونے والی سازش
۱۹۶۱ء میں حج کے موقع پر مکہ مکرمہ میں رابطہ عالمِ اسلامی کے نام سے ایک تنظیم قائم کی گئی اور اس کا مرکزی دفتر بھی مکہ مکرمہ میں بنایا گیا ۔اس کے مقاصد یہ مقرر کئے گئے تھے ۔اسلام کا پیغام دنیا بھر میں پھیلایا جائے۔ایک بہتر سوسائٹی کے قیام کے لیے کوششیں کی جائیں،مسلم امہ میں تفرقہ دور کیا جائے۔ ان رکاوٹوں کو دور کیا جائے جو عالم ِ اسلام کی ایک لیگ قائم کرنے میں حائل ہیں۔وغیرہ۔ لیکن عملاً اس تنظیم سے تفرقہ اور فساد پیدا کرنے کا کام لیا گیا۔یہ تنظیم سعودی فرمانرواؤں کے زیرِ اثر کام کرتی ہے۔
لاہور میں منعقدہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کے اختتام کے صرف ڈیڑھ ماہ کے بعد اس کا ایک اجلاس مکہ مکرمہ میں منعقد کیا گیا۔اس میں مختلف مسلمان ممالک کے وفود نے شرکت کی۔اس میں ایک سب کمیٹی میںجماعت ِ احمدیہ کے متعلق بھی کئی تجاویز پیش کی گئیں۔اس کمیٹی کا نام کمیٹی برائے Cults and Ideologiesتھا۔اس کے چیئر مین مکہ مکرمہ کی ام القریٰ یونیورسٹی میں اسلامی قانون کےAssociate پروفیسر مجاہد الصواف تھے۔اس کمیٹی کے سپرد بہائیت، فری میسن تنظیم، صیہونیت اور جماعت ِ احمدیہ کے متعلق تجاویز تیار کرنے کا کام تھا۔اس کمیٹی میں سب سے زیادہ زور و شور سے بحث اس وقت ہوئی جب اجلاس میں جماعت ِ احمدیہ کے متعلق تجاویز پر تبادلہ خیالات ہوا۔ اور اس بات پر اظہارِ تشویش کیا گیا کہ پاکستان کی بیوروکریسی، ملٹری اور سیاست میں احمدیوں کا اثرو رسوخ بہت بڑھ گیا ہے۔اور یہ ذکر بھی آیا کہ اگر احمدی غیر مسلم بن کر رہیں تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ احمدی افریقہ اور دوسری جگہوں پر اپنے آپ کو عالمِ اسلام کی ایک اصلاحی تنظیم کے طور پر پیش کرتے ہیں اور لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں اور اس بات پر اظہارِ تشویش کیا گیا کہ قادیانیوں نے حیفا میں اسرائیلی سرپرستی میں اپنا مشن قائم کیا ہے اور اسے چلا رہے ہیں۔(یہ تاریخی حقائق کے بالکل خلاف تھا۔کبابیر،حیفا میں جماعت اسرائیل کے قیام سے بہت پہلے قائم تھی۔اور دوسرے لاکھوں مسلمانوں کی طرح انہوں نے اس وقت بے انتہا تکالیف اٹھائی تھیں جب وہاں پر یہودی تسلط قائم کیا جا رہا تھا۔اور اس وقت حیفا میں صرف احمدی ہی نہیں رہ رہے تھے بلکہ دوسرے بہت سے مسلمان بھی رہ رہے تھے ۔) بہر حال خوب جھوٹ بول کر مندوبین کو جماعت کے خلاف بھڑکایا گیا۔تما م تگ و دو کے بعد جماعت احمدیہ کے متعلق تجاویز پیش کی گئیں۔اور یہ تجویز کیا گیا کہ تمام عالمِ اسلام کو قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں سے مطلع کیا جائے کیونکہ قادیانی مسلمانوں کی سیکیورٹی کے لیے بالخصوص مشرق اوسط جیسے حساس علاقہ میں ان کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔کیونکہ قادیانی جہاد کو منسوخ سمجھتے ہیں اور ان کو برطانوی استعمار نے اپنے مقاصد کے لیے کھڑا کیا تھا۔اور یہ لوگ صیہونیت اور برطانوی استعمار کو مضبوط کر رہے ہیں۔اور قادیانی ان طریقوں سے اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔یہ اپنی عبادتگاہیں تعمیر کر رہے ہیں جہاں سے یہ اپنے عقائد کی تبلیغ کر رہے ہیں۔اور اپنی خلاف ِ اسلام سرگرمیوں کو مضبوط کرنے کے لیے سکول اور یتیم خانے تعمیر کر رہے ہیں۔اور قرآنِ کریم کے تحریف شدہ تراجم دنیا کی زبانوں میں شائع کر رہے ہیں۔اور اس کام کے لیے انہیں اسلام کے دشمن مدد مہیا کر رہے ہیں۔جماعت احمدیہ کے متعلق یہ فلمی منظر کشی کرنے کے بعد کمیٹی نے یہ تجاویز پیش کیں ۔
۱) تمام اسلامی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ قادیانی معابد ،مدارس ،یتیم خانوں اور ودسرے تمام مقامات میں جہاں وہ اپنی سرگرمیوں میں مشغول ہیں ان کا محاسبہ کریں
۲) ان کے پھیلائے ہوئے جال سے بچنے کے لیے اس گروہ کے کفر کا اعلان کیا جائے ۔
۳)قادیانیوں سے مکمل عدم تعاون اور مکمل اقتصادی ، معاشرتی اور ثقافتی بائیکاٹ کیا جائے۔ان سے شادی سے اجتناب کیا جائے اور ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جائے۔
۴) کانفرنس تمام اسلامی ملکوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ ان کی ہر قسم کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جائے اوران کی املاک کو مسلمان تنظیموں کے حوالے کیا جائے۔اور قادیانیوں کو سرکاری ملازمتوں میں نہ لیا جائے۔
۵) قادیانیوں کے شائع کیے گئے تحریف شدہ تراجمِ قرآن مجید کی نقول شائع کی جائیں۔اور ان تراجم کی اشاعت پر پابندی لگائی جائے۔
جب یہ تجاویز کمیٹی کے سامنے آئیں تو مختلف تنظیموں کے مندوبین نے ان سے اتفاق کیا اور اس قرارداد پر دستخط کر دیئے۔ پاکستان کے سیکریٹری اوقاف ٹی ایچ ہاشمی صاحب نے بھی اس قرارداد پر دستخط کئے لیکن اتنا اختلاف کیا کہ انہیں ان تجاویز کے مذہبی حصہ سے اتفاق ہے لیکن انہیں اس تجویز سے اتفاق نہیں کہ قادیانیوں کوملازمتوں میں لینے پر پابندی لگائی جائے۔اس کی جگہ انہیں غیر مسلم قرار دینا کافی ہوگا۔اس پر کمیٹی کے صدر جناب ڈاکٹر مجاہد الصواف نے کہا کہ علماء کے فتوے کے پیشِ نظر سعودی حکومت نے ایک شاہی فرمان کے ذریعہ اس بات پر پابندی لگادی ہے کہ قادیانی سعودی عرب میں داخل ہوں یا انہیں یہاں پر ملازمت دی جائے۔اس طرح یہ قرارداد منظور کر لی گئی۔
اب یہ صورت ِ حال ظاہر و باہر تھی کہ جماعت ِ احمدیہ کے خلا ف ایک ایسی سازش تیار کی جا رہی ہے جو کسی ایک ملک تک محدود نہیں ہو گی بلکہ اس کا جال بہت سے ممالک میں پھیلا ہو گا۔اور اب پاکستانی حکومت بھی اس بات کا تہیہ کئے بیٹھی ہے کہ آئین میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور اس طرح ان کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جائے۔اور اس قرارداد کے متن سے یہ بات بالکل عیاں تھی کہ مقصد صرف یہ نہیں کہ دستوری طور پر احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے بلکہ جو بھی یہ سازش کر رہا تھا وہ احمدیوں کی تبلیغ سے خائف تھا اور اس کی یہ کوشش تھی کہ جماعت کی تبلیغ کو ہر قیمت پر روکا جائے۔ اور یہ ارادے واضح طور پر نظر آ رہے تھے کہ احمدیوں کو ان کے بنیادی کے حقوق سے محروم کر کے اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کیا جائے۔
یہاں یہ بات خاص طور پر قابلِ توجہ ہے اس قرارداد پر پاکستان کے ایک فیڈرل سیکریٹری نے دستخط کئے تھے جب کہ ابھی ملک میں احمدیوں کے خلاف فسادات کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔جب ہم نے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے پوچھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک فیڈرل سیکریٹری حکومت کی رضامندی کے بغیر ایسی قرارداد پر دستخط کر دے تو ان کا جواب تھا کہ ہاں یہ گورنمنٹ سے پوچھے بغیر نہیں ہو سکتا۔ جب ان سے پھر یہ سوال کیا گیا کہ اس کا مطلب تو یہ بنتا ہے کہ یہ پلان فسادات کے شروع ہونے سے پہلے ہی بن چکا تھا کہ احمدیوں کوپاکستان میں غیر مسلم قرار دیا جائے۔اس کے جواب میں انہوں نے کہا۔
’’پلان بن نہیں چکا تھا ۔بس جس حد تک ہوا، اُس حد تک ہوا۔ اب اس کی جو Execution ہے۔ That is a different matter۔‘‘
لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ ایک فیڈرل سیکریٹری ایسی قرارداد پر ملک سے باہر جا کر دستخط کر آتا ہے کہ جس پر عمل کے نتیجہ میں ملک کی آبادی کے ایک حصہ کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کا عمل شروع ہو جانا تھا ،لازمی بات ہے کہ ملک کی کابینہ کو کم از کم اس بات کا نوٹس تو لینا چاہئے تھا ۔جب ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا کابینہ میں اس قرارداد پر کوئی بات ہوئی تھی تو ان کا جواب تھا کہ نہیں کابینہ میں اس پر کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ رابطہ عالمِ اسلامی مکہ مکرمہ میں سعودی حکومت کی سرپرستی میں کام کرتی ہے اور اس کو مالی وسائل بھی سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے مہیا کئے جاتے ہیں ۔اور جب کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کے ایک وفاقی سیکریٹری نے صرف اس بات کی مخالفت کی کہ احمدیوں کی ملازمتوں پر پابندی لگانا مناسب نہ ہو گا تو سعودی عرب کے مندوب ڈاکٹر مجاہد الصواف نے برملا کہا کہ سعودی عرب میں تو علماء کے فتوے کی بنا پر شاہی فرمان جاری ہو چکا ہے کہ قادیانیوں کو سعودی عرب میں ملازمتیں نہ دی جائیں۔اور ساری الزام تراشیوں کا مرکز یہ تھا کہ قادیانیوں کو برطانوی استعمار نے اپنے مقاصد کے لیے کھڑا کیا اور استعمال کیا اور دوسر ا بڑا الزام یہ لگایا جا رہا تھا کہ قادیانی جہاد(یعنی جہاد بال ) کے قائل نہیں ہیں ۔اس پس منظر میں یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ جن فرمانرواؤں کی طرف سے یہ الزامات لگائے جا رہے تھے ،تاریخ کیا بتاتی ہے کہ ان کے تاجِ برطانیہ کے ساتھ کیسے تعلقات رہے اور انہوں نے گزشتہ ایک صدی میں کس کس سے جہاد اور قتال کیا۔اس کے لیے ہمیں نوے برس پہلے کی تاریخ کا مختصر سا جائزہ لینا پڑے گا۔
پہلی جنگِ عظیم کے دوران حجاز سمیت موجودہ سعودی عرب کا علاقہ بھی سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھے۔ اور سلطنتِ عثمانیہ جرمنی کا ساتھ دے رہی تھی۔اس سلطنت کو کمزور کرنے کے لیے برطانیہ اور اس کے ساتھی کوششیں کر رہے تھے کہ کسی طرح عرب ترکی کی سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔ اس وقت نجد کے علاقے پر سعودی خاندان اور حجاز پر شریفِ مکہ کی حکومت تھی۔برطانیہ کے ایجنٹوں نے شریفِ مکہ سے تو روابط بڑھائے اور اپنے ایجنٹ لارنس کو استعمال کر کے شریف ِ مکہ سے سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرائی۔لیکن اس کے ساتھ ان کے ایجنٹ سعودی خاندان سے بھی مستقل رابطے رکھ رہے تھے۔سب سے پہلے یہ رابطہ کیپٹن ولیم شیکسپیئر کے ذریعہ ہوا جو کویت میں برطانیہ کے پولیٹکل ایجنٹ تھے انہوں نے ۱۹۱۰ء میں نجد کے فرمانروا عبد العزیز بن عبد الرحمن ابنِ سعود سے ملاقات کی اور دونوں میں دوستی اور ملاقاتوں کا آ غاز ہوا۔ولیم شیکسپیئر نے ابنِ سعود کو برطانیہ کی حمایت کے لیے آمادہ کیا۔اور برطانیہ کو ان کی مدد کی ضرورت اس لیے تھی تا کہ انہیں دوسری مسلمان حکومتوں کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔۱۹۱۵ء میں سعودی خاندان اور سلطنت ِ برطانیہ کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جس میں سعودی ریاست کو سلطنت ِ برطانیہ کی ایک Protectorateکی حیثیت حاصل ہوگئی۔برطانیہ کی نمائندگی پرسی کوکس (Percy Cox)کر رہے تھے۔اس معاہدے کی اول شرط میں درج تھا کہ سعودی فرمانروا اپنا جانشین نامزد کریں گے لیکن کسی ایسے شخص کو جانشین نامزد نہیں کیا جائے گا جو کسی طرح بھی برطانوی سلطنت کی مخالفت کرتا ہو۔اور معاہدے میں یہ درج تھا کہ اگر سعودی ریاست پر کسی نے حملہ کیا تو برطانیہ جس حد تک اور جس طرح مناسب سمجھے گا ان کی مدد کرے گا۔ ابنِ سعود کا خاندان کسی اور قوم یا طاقت کے ساتھ کوئی خط و کتابت یا معاہدہ نہیں کرے گا۔اور اگر کوئی اور حکومت ان سے رابطہ کرے گی تو اس کی اطلاع فوری طورپر برطانیہ کو دی جائے گی۔اور سعودی خاندان اپنے علاقے میں کسی اور ملک کو مراعات نہیں دے گا۔اس معاہدے کا فائدہ یہ ہوا کہ ابنِ سعود کے خاندان کو سلطنت ِ برطانیہ سے پانچ ہزار پاؤنڈ کی مدد اور ہتھیار ملنے لگے اور پھر برطانوی سلطنت کی خواہش کے مطابق سعودی خاندان نے اپنے ہمسائے میں ابنِ رشید کی حکومت سے جنگ شروع کی اور انہیں شکست دی۔
جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیںاس وقت حجاز پر جس میں مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ بھی ہیں، شریفِ مکہ کی حکومت تھی۔ابنِ سعود سمجھتے تھے کہ وہ اس علاقہ پر قبضہ کر سکتے ہیں لیکن شریف مکہ کو برطانوی حکومت کی حمایت حاصل تھی اور وہ برطانوی حکومت سے کثیر مالی مدد بھی پاتے تھے۔ابنِ سعود نے برطانوی حکام کے سامنے اس بات کا اظہار بھی کیا تھا۔لیکن ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے شریف مکہ اور برطانیہ کے تعلقات پر برا اثر ڈالا۔شریف مکہ فلسطین میں یہودیوں کی بڑھتی ہوئی آمد کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور وہ مستقبل میںبالفور اعلانیہ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کو دیکھ رہے تھے ۔پہلی جنگِ عظیم کے بعد۱۹۲۱ء میں مشہور برطانوی ایجنٹ لارنس ایک معاہدے کا مسودہ لے کرشریف مکہ کے پاس آئے ۔اس میں شریف مکہ کے لیے بہت سی مالی اور فوجی مدد کا عہد تھا اور انہیں اس مدد کی اشد ضرورت بھی تھی لیکن ایک شرط یہ بھی تھی کہ شریف مکہ فلسطین میں بر طانوی مینڈیٹ کو تسلیم کر لیں۔اس کا نتیجہ یہ نظر آ رہا تھا کہ فلسطین میں یہودیوں کا عمل دخل بڑھتا جائے گا ۔شریف مکہ نے اس بات پر اصرار کیا کہ برطانیہ فلسطین کے بارے میں اپنے وہ وعدے پورے کرے جو اس نے پہلی جنگِ عظیم کے دوران کیے تھے۔لارنس نے انہیں آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ فلسطین کے مسئلہ سے ان کا تعلق نہیں ۔لیکن انہوں نے اس بات کو گوارہ نہ کیا کہ اس طرز پر فلسطین کے مفادات کا سودا کیا جائے۔ان کے اس اصرار نے انگریز حکومت کو ان کے خلاف کر دیا۔اب عبد العزیز محسوس کرتے تھے کہ ان کے لیے میدان خالی ہے۔اب وہ حجاز پر قبضہ کر کے وہ اپنی سلطنت کو مزید وسیع کر سکتے تھے۔ ۱۹۲۴ء میں انہوں نے حجاز پرحملہ کر دیا ۔جب طائف پر قبضہ ہوا تو سعودی افواج نے کافی قتل و غارت کی۔شریف مکہ نے مدد کے لیے بار بار برطانوی سلطنت سے اپیل کی لیکن سب بے سود ۔اس اختلاف کے بعد اب برطانوی حکومت ان کی مدد کے لیے تیار نہیں تھی۔ان کی افواج عبد العزیز کی افواج کے سامنے شکست کھاتی گئیں۔اس طرح موجودہ سعودی عرب وجود میں آیا۔اس ابتدائی تاریخ کے جائزے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شروع ہی سے سعودی فرمانرواؤں اور برطانوی حکومت کے قریبی تعلقات تھے۔انہوں نے اپنی ریاست کے لیے یہ درجہ قبول کیا تھا کہ اسے برطانوی حکومت کیProtectorateکا درجہ حاصل ہو۔اور یہاں تک معاہدہ کیا کہ کسی ایسے شخص کو ولی عہد نہیں مقرر کیا جائے گا جو برطانوی حکومت کے خلاف ہو۔اور سعودی حکومت کسی اور حکومت سے خط و کتابت تک نہیں کرے گی اور کسی اور ملک کو اپنی زمین پر مراعات نہیں دے گی۔اور وہ سالہا سال برطانوی حکومت سے مالی مدد اور اسلحہ لیتے رہے اور اس کے ساتھ انہوں نے کبھی بھی کسی غیر مسلم حکومت سے کوئی جنگ یا جہاد نہیں کیا بلکہ ہمیشہ مسلمان حکومتوں سے جنگ کرتے رہے اور ایسا برطانوی حکومت کے منشا کو پورا کرنے کے لیے بھی کیا گیا۔اور جب حجاز کے حکمران نے اس وجہ سے برطانیہ سے معاہدہ کرنے سے انکار کیا کہ اس کی شرائط میں برطانیہ کا فلسطین پر مینڈیٹ تسلیم کرنا پڑتا تھا اور اس سے لازماََ یہودیوں کو اس بات کا موقع مل جاتا تھا کہ وہ فلسطین میں قدم جمائیں۔اور بعد میں عملاََ ایسا ہی ہوا۔تو عبدالعزیز نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے شریف مکہ کی ریاست پر حملہ کیا اور ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔اس کے بعد کی تاریخ بھی اس ابتدائی تاریخ سے مختلف نہیں ۔لیکن اس معروف تاریخ کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں
‏The Brirtian and Saudia Arabia 1925-1939, The Imperial Oasis by Clive Leatherdale page 372
‏The Kingdom by Robert Lacey,168.188
یہ امر قابلِ حیرت ہے کہ اس تاریخی پس منظر کے باوجود سعودی حکومت کا اصرار تھا کہ قادیانیوں کو برطانوی استعمار نے اپنے مقاصد کے لیے کھڑا کیا تھا اور قادیانی برطانیہ کے مقاصد کے لیے کام کرتے ہیں اور جہاد کے منکر ہیں۔اس تاریخی پس منظر کے ساتھ تو ان کی طرف سے یہ الزامات مضحکہ خیز لگتے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ خود الزام لگانے والی حکومت کو برطانوی سلطنت نے کھڑا کیا تھا اور حجاز پر قبضہ کرنے کے بعد سعودی حکومت قانونی طور پر سلطنت ِ برطانیہ کی Protectorate کی حیثیت سے چلتی رہی تھی اور ان کی مدد کے ساتھ اور ان کی خواہش کے مطابق مسلمانوں ہی سے جنگ کرتے رہے تھے۔
ایک دوسری بات قابلِ ذکر ہے اور وہ یہ کہ رابطہ عالمِ اسلامی میں بحث کے دوران سعودی مندوب مجاہد الصواف نے جو کہ سب کمیٹی کی صدارت بھی کر رہے تھے یہ دلیل بھی پیش کی کہ سعودی عرب کے علماء نے تو یہ فتویٰ دے دیا ہے کہ قادیانیوں کو سرکاری ملازمتوں میں نہ لیا جائے اور اس کی پیروی میں سعودی حکومت نے فرمان بھی جاری کر دیا ہے۔تو اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ایسا تو ہونا ہی چاہئے تھا۔کیونکہ جماعت ِ احمدیہ کے قیام سے صدیوں پہلے ہی بہت سے صلحاء ِ امت نے یہ پیشگوئی کر رکھی تھی کہ جب مہدی علیہ السلام کا ظہور ہو گا تو علماء ہر گز ان کی تائید نہیں کریں گے بلکہ اس کے سخت مخالف ہوں گے۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حضرت محی الدین ابن عربیؒ علماء کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:
’’پس وہ اپنے کینوں کو اکٹھا کرتے ہیں۔اور وہ لوگوں کی طرف جھکی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں اور اپنے ہونٹوں کو ذکر کرتے ہوئے ہلاتے ہیں تاکہ دیکھنے والا یہ سمجھے کہ وہ ذکر کر رہے ہیں۔اور وہ عجمی زبان میں کلام کرتے اور استہزاء کرتے ہیں۔اور نفس کی رعونت ان پر غالب آجاتی ہے۔اور ان کے دل بھیڑیوں کے دلوں کی طرح ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی طرف نہیں دیکھے گا۔
اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی ضرورت نہیں۔وہ لوگوں کے لئے بھیڑ کی جلد پہنتے ہیں وہ ظاہری دوست اور پوشیدہ دشمن ہیں ۔پس اللہ ان کو واپس لوٹا دے گا۔اور ان کو ان کی پیشانیوں کے بالوں کی طرف سے پکڑ کر اس کی طرف لے جائے گا جس میں ان کی خوش بختی ہے۔اور جب امام مہدی ظاہر ہوں گے تو اس کے شدید ترین دشمن اس زمانہ کے علماء ہوں گے۔ان کے پاس کوئی حکومت باقی نہیں رہے گی اور نہ ہی انہیں عام لوگوں پر کوئی فضیلت ہو گی۔اور نہ ہی ان کے پاس فیصلہ کرنے کا علم تھوڑا ہی ہوگا۔اور اس امام کے وجود سے تمام عالم سے اختلا فات اُ ٹھا دیئے جائیں گے۔اور ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ اس کے ہاتھ میں تلوار ہو گی۔فقہاء اس کے قتل کافتویٰ دیں گے اور لیکن خدا تعالیٰ اس کو تلوار کے ساتھ غلبہ نصیب کرے گا۔
(الفتوحاتِ مکیہ مصنفہ حضرت محی الدین ابنِ عربی ؒ، المجلد الثالث،ناشردار صادر بیروت صفحہ ۳۳۶)
(جماعت ِ احمدیہ کے مسلک کے مطابق تلوار سے مرادخدا تعالیٰ کے جلالی نشانوں اور برہانِ قاطعہ کی تلوار ہی ہو سکتی ہے۔جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے الہامات اور رؤیا سے ظاہر ہوتا ہے۔)
حضرت مجدد الف ثانی ؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’پس ہمارے پیغمبر ﷺکی سنت آپ سے پہلی سنتوں کی ناسخ ہے۔اور حضرت عیسیٰ ؑ نزول کے بعد اسی شریعت کی متابعت کریں گے۔کیونکہ اس شریعت کا نسخ جائز نہیں ہے۔ قریب ہو گا کہ علماء ِ ظواہر اس کے اجتہادات کا باریکی اور پوشیدگی کی وجہ سے انکار کریں اور کتاب و سنت کا مخالف سمجھیں۔‘‘
(مکتوبات ِ امامِ ربانی ،حضرت مجدد الف ثانی ؒ،حصہ ششم دفتر دویم،
باہتمام حافظ محمد رؤف مجددی ص۱۳و۱۴)
شیعہ کتب میں بھی یہی بیان ہوتا آیا ہے کہ علماء ِ ظاہر کا طبقہ مہدی علیہ السلام کی مخالفت پر کمربستہ ہو گا۔چنانچہ الصراط السوی فی احوال المہدی میں حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کے متعلق لکھا ہے:
’’جب تک ان میںحالت ِ منتظرہ پہلے سے پیدا نہ ہو گی ہر گز اطاعت و اتباع میں سبقت نہ کر سکیں گے۔بلکہ ہر گز ایمان نہ لائیں گے۔بلکہ مثلِ شیطان شک و شبہ کر کے اپنے قیاسات باطل رکیکہ سے اس کی حجت کا انکار کریں گے۔بلکہ اس کے مقابلہ کو تیار اور عداوت اور دشمنی پر آمادہ ہو جائیں گے اور ہر طرح سے اس کو اور اس کے معتقدین کو اذیت پہنچانے کی کوشش کریں گے۔علماء اس کے قتل کے فتوے دیں گے۔اور بعض اہل دول اس کے قتل کے لیے فوجیں بھیجیں گے اور یہ تمام نام کے مسلمان ہی ہوں گے۔‘‘
(الصراط السویٰ فی احوال المہدی مصنفہ مولوی سید محمد سبطین السرسوی ،
ناشر مینجر البرہان بکڈپو لاہور،صفحہ ۵۰۷)
اس دور میں اہل ِ حدیث کے عالم نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی کتاب آثارا لقیامہ فی حجج الکرامہ میں تحریر کرتے ہیں۔
’’جب مہدی علیہ السلام احیاء ِ سنت اور اماتتِ بدعت پر مقاتلہ فرمائیں گے تو علمائِ وقت جو کہ فقہاء کی تقلید کرتے ہیں اور اپنے بزرگوں اور آباء و اجداد کی پیروی کے خوگر ہوں گے کہیں گے کہ یہ شخص ہمارے دین و ملت پر خانہ برانداز ہے اور مخالفت کریں گے اور اپنی عادت کے موافق اس کی تکفیر و تضلیل کا فیصلہ کریں گے۔‘‘
(آثار القیامۃ فی حجج الکرامہ مصنفہ نواب صدیق حسن خان صاحب
مطبع شاہجہان بھوپال صفحہ۳۶۳)
تو ان مختلف فرقوں کے لٹریچر سے یہی ثابت ہے کہ ان کا ہمیشہ سے یہی نظریہ رہا ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کے وقت اس وقت کے علماء ان کی مخالفت بلکہ قتل پر کمر بستہ ہوں گے۔ ہماری تحقیق کے مطابق تو کبھی کسی فرقہ نے اس بات کا اعلان کیا ہی نہیں کہ جب امام مہدی کا ظہور ہو گا تو اس وقت کے علماء ان کی تائید اور حمایت کریں گے۔
بلکہ مختلف ائمہ احادیث نے جب قرب ِ قیامت کی علامات کے بارے میں احادیث جمع کیں تو ان میں اس وقت کے نام نہاد علماء کے بارے جس قسم کی احادیث بیان ہوئی ہیں ان کی چند مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
چنانچہ کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال میں کتاب القیامۃ میں آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے
’’تَکُوْنُ فِیْ اُمَّتَیْ قَزْعَۃٌ فَیَصِیْرُالنَّاسُ اِلٰی عُلَمَائِ ھِمْ فَاِذَا ھُمْ قِرَدَۃٌ وَ خَنَازِیْرُ‘‘
یعنی میری امت پر ایسا وقت آئے گا کہ لوگ اپنے علماء کی طرف جائیں گے اور دیکھیں گے کہ ان کی جگہ بندر اور سور بیٹھے ہوں گے۔
(کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال تالیف علامہ علاؤالدین علی المتقی
الجزء الثالث عشر ،ناشر دارالکتب العلمیہ ،بیروت لبنان۔ص۱۲۴)
یہ دو احادیث بھی پیش ہیں
’’عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اُ ٹھائے گا کہ بندوں سے اسے نکال لے لیکن اسے اُ ٹھائے گا علماء کے اُ ٹھانے کے ساتھ یہاں تک کہ جب کسی عالم کو باقی نہیں رکھے گا لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے ان سے مسائل پوچھیں گے ۔وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے ۔خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘
(متفق علیہ ۔مشکوۃ شریف مترجم ،ناشر مکتبہ رحمانیہ اردو بازار ۔لاہور۔ص۶۵)
’’حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قریب ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے نہیں باقی رہے گا اسلام مگر نام اس کا اور نہ باقی رہے گا قرآن مگر رسم اس کی۔ان کی مسجدیں آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ہوں گے۔ان سے فتنہ نکلے گا اور ان میں ہی لوٹ جائے گا۔‘‘
(رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔مشکوۃ شریف مترجم،جلد اول ،
ناشر مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور ص۷۶)
جیسا کہ پہلے ہم ذکر کر چکے ہیں پاکستان کی طرف سے اوقاف کے فیڈرل سیکریٹری تجمل ہاشمی صاحب نے رابطہ عالمِ اسلامی کی قرارداد پر دستخط کئے تھے۔اور ہم نے اس کتاب کی تالیف کے دوران ان کا انٹرویو بھی لیا۔اور جب ان سے اس بابت یہ سوال کیا گیا تو ان کا کہنا یہ تھا:
’’میرے لحاظ سے کسی کو کہہ دینا کہ یہ مسلمان ہے یا نہیں مسلمان۔یہ میں سمجھتا ہوں۔ میں تو کسی کو نہیں کہہ سکتا کہ وہ میرے سے بہتر مسلمان ہے یا نہیں مسلمان ہے۔‘‘
پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ’’کوئی کسی کو نہیں کہہ سکتا کہ وہ مسلمان ہے کہ نہیں ہے
اس کے با وجود یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کو حکومت نے نہیں کہا تھا کہ وہ اس قرارداد پر دستخط کریں ۔اس کے با وجود جبکہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ کسی شخص کو یہ حق بھی نہیں کہ وہ یہ کہے کہ دوسرا شخص مسلمان ہے یا نہیں پھر بھی انہوں نے اس قرارداد پر دستخط کر دیئے۔اور اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ رابطہ عالم اسلامی کی اور اس کی قراردادوں کی کوئی اہمیت بھی نہیں تھی پھر بھی انہوں نے پاکستان کے داخلی معاملہ پر بیرونِ ملک جا کر اس بحث میں حصہ لیا اور ایک ایسی قرارداد پر دستخط بھی کر دیئے جس کے مطابق پاکستان کی آبادی کے ایک حصہ کا اقتصادی اور معاشی بائیکاٹ بھی کیا جانا تھا۔ البتہ ان کا یہ کہنا تھا کہ سعودی حکومت کے پاس پیسہ تھا اور وہ اس کے بل بوتے پر ایسی کانفرنسیں کراتے تھے یا کتابیں لکھوا کر اور انہیں خرید کر یا پھر ویسے ہی علماء کی مدد بھی کرتے تھے۔پھرا ن سے دریافت کیا گیا کہ اس کمیٹی میں احمدیوں پر یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ وہ جہاد کے قائل نہیں۔اس پر ان کا جواب یہ تھا کہ بھائی جہاد کسے کہتے ہیں ۔آج تک کسی نے جہاد کی Definitionکی ہے۔اگر جہاد کا مطلب یہی ہے کہ تلوار اُٹھانا تو وہ کن حالات میں اُٹھائی جائے۔جہاد کے تو اور بھی بڑے مطلب ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ وہاںکون سب سے زیادہ اس قرارداد کو دلچسپی لے رہا تھا تو ان کا جواب تھا کہ سعودی سب سے زیادہ اس قرارداد کو منظور کرانے میں دلچسپی لے رہے تھے۔پھر رابطہ کے اس اجلاس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ اس وقت احمدی پاکستان کی سول سروس میں اور ملٹری میں بہت نمایاں پوزیشن حاصل کرتے جاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اس وقت احمدی ایسی نمایاں پوزیشن پر موجود ہی نہیں تھے۔جب ان سے کہا گیا کہ اس وقت تو احمدی ایسی کسی نمایاں پوزیشن پر موجود ہی نہیں تھے۔تو ان کا بے ساختہ جواب یہ تھا کہ ایم ایم احمد تو تھے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ایم ایم احمد اس قرارداد کے وقت پاکستان میں موجود نہیں تھے بلکہ ورلڈ بینک میں جا چکے تھے۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی احمدی اپنی صلاحیت کی بنا پر کوئی پوزیشن حاصل کرتا ہے تویہ اس کاحق ہے۔اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔
اب سابق وفاقی وزیر مبشر حسن صاحب کا یہ کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ ایک فیڈرل سیکریٹری حکومت کی مرضی کے خلاف ایسی قرارداد پر دستخط کر آئے اور تجمل ہاشمی صاحب کا یہ کہنا تھا کہ حکومت نے انہیں نہیں کہا تھا کہ اس قرارداد پر دستخط کرو ۔اب پڑھنے والے خود فیصلہ کر سکتے ہیںکہ کون سا جواب حقیقت کے قریب تر ہو سکتا ہے۔
جماعت کے مخالفین کی طرف سے رابطہ عالم اسلامی کی اس قرارداد کا حوالہ بار بار دیا گیا ہے۔ ۱۹۷۴ء میں جب جماعت کے خلاف قراردادیں پیش کی گئیں تو بھی اس فیصلہ کو امتِ مسلمہ کے مشترکہ فیصلہ کے طور پر پیش کیا گیا۔اور اس کے بعد بھی اب تک ہر سطح پر اس قرارداد کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اور اس قرارداد پر دستخط کرنے والا پاکستانی مندوب خود اقرار کرتا ہے کہ اس قرارداد کے مندرجات سے تو مجھے اتفاق ہی نہیں تھا۔میں نے تو ویسے ہی اس پر دستخط کر دیئے تھے۔اس وقت سعودی حکومت کے پاس مدد دینے کے لئے پیسے تھے اور اس وقت وہ مختلف ذرائع سے مدد کیا کرتے تھے۔اب پڑھنے والے خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس قرارداد کی اصل حقیقت کیا ہے۔
اس باب کے آ خرمیں یہ ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ اس تنظیم رابطہ عالمِ اسلامی کا آ غاز کیسے ہوا اور اس کا بالواسطہ طور پر جماعت احمدیہ کی تاریخ سے کیا تعلق تھا؟ موتمر عالمِ اسلامی کا پہلا اجلاس ۱۹۲۶ء میں ہوا ۔ایک سال قبل ہی سلطان عبدالعزیز ابنِ سعود نے جو کہ پہلے صرف نجد پر حکمران تھے،حجاز پر قبضہ کیا تھا۔اس سے قبل حجاز پر شریفِ مکہ کیق حکمرانی تھی۔سلطان عبدالعزیز ابن سعود وہابی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔جب حجاز پر ان کا قبضہ ہوا تو پوری دنیا کی طرح ہندوستان میں یہ خبریں پہنچیں کہ حجاز میں ان کے حملہ کے نتیجہ میں بہت خون ریزی کی گئی ہے اور صحابہ کی بہت سے قبروں کے نشانات اور بعض مزاروں پر سے گنبدوں کو منہدم کیا گیا ہے کیونکہ وہابی مسلک کے تحت ان چیزوں کو بدعت سمجھا جاتا ہے۔ان خبروں نے ہندوستان میں بھی بے چینی کی لہر پیدا کر دی۔لیکن عبدالعزیز ابنِ سعود اور ان کے حامیوں کی طرف سے ان خبروں کو مبالغہ آمیز قرار دیا گیا۔مولوی شبیر عثمانی صاحب جو جماعت ِ احمدیہ کے اشد ترین مخالفین میں سے تھے ان کی سوانح حیات حیات ِ عثمانی میں لکھا ہے:
ـ’’لیکن ابنِ سعود حنبلی مذہب کے تھے۔عبدالوہاب نجدی کے ہم مشرب تھے کہ وہ بھی حنبلی تھا، انہوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی خدمت کا چارج لیتے ہی مآثر ِ حجاز کو منہدم کرادیا۔صحابہ کے تمام پختہ مزارات کو پیوست زمین کر دیا،قبروں کا نام و نشان نہ چھوڑا۔ البتہ کچی قبریں نشانی کے طور پر رہنے دیں۔ترکوں نے تقریباََ تمام متبرک اور محترم شخصیتوں کی قبروں پر قبے بنوا دئے تھے ،اور ان پر ان کے نام بھی کندہ کرا دئے تھے لیکن سب کو صاف کرا دیا گیا۔جنگ ِ احد بالخصوص امیر حمزہ رضی اللہ عنہم کی قبریں ہموار حالت میں ہیں جو میں نے اپنی آنکھوں سے ۱۹۶۵ء میں دیکھی ہیں۔اب چاروں طرف صرف پتھروں کے ٹکڑوں رکھے ہوئے ہیں۔جنت البقیع میں بھی مزارات کا یہی حال ہے۔ان کا نظریہ یہ تھا کہ اسلام کے فرزند یہاں آ کر قبروں کو سجدہ کرتے ہیں۔لہٰذا ان مآثر کو ہی اڑا دیا ۔ایسا کرنے سے دنیائے اسلام میں ہیجان پھیل گیا اور مشرق سے لے کر مغرب تک اضطراب اور جوش و غضب کی لہر دوڑ گئی۔احتجاج کیا گیا ۔جس کے نتیجے میں سلطان ابنِ سعود نے ممالک ِ اسلامیہ سے تبادلہ خیالات کے لئے ایک مؤتمر ( اجتماع ) منعقد کی۔جس میں ہندوستان ،کابل، مصر ،شام ،حجاز، روس وغیرہ کے علماء کو دعوت دی گئی ۔‘‘
(حیات ِ عثمانی ،مصنفہ پروفیسر محمد انوارالحسن شیر کوٹی،ناشر مکتبہ دارالعلوم کراچی ص۲۳۷)
ان حالات میں خلافت کمیٹی کی طرف سے جو تار سلطان ابنِ سعود کو بھجوایا گیا جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ حجاز کے متعلق معاملات کے بارے میں ایک عالمی موتمر اسلامی منعقد کی جائے اس کے متعلق خود مولانا محمدعلی جوہر تحریر کرتے ہیں کہ اس کے جواب میں سلطان ابن ِ سعود کا تار ملا کہ
’’آپ کاتار ملا ۔آپ کے اور مسلمانان ِ ہند کے صحیح خیالات کا شکریہ ۔۔۔ آخری فیصلہ تمام دنیائے اسلام کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
(مولانا محمد علی آب بیتی اور فکری مقالات مرتبہ سید شاہ محمد قادری ناشر تخلیقات ص۲۲۸)
مئی ۱۹۲۶ء میں ہندوستان سے ایک وفد مکہ مکرمہ روانہ ہوا تا کہ وہاں پر سلطان عبد العزیز ابن سعود کی صدارت میںمنعقد ہونے والی موتمر عالمِ اسلامی میں شرکت کر سکے۔اس وفد کی صدارت سید سلمان ندوی کر رہے تھے اور اس کے ممبران میں مولانا محمد علی جوہر ،مولانا شوکت علی صاحب،مولوی شبیر عثمانی،مفتی کفایت اللہ ،عبد الحلیم ،احمد سعید ،شعیب قریشی ،محمد عرفان ،ظفر علی خان صاحب وغیرہ شامل تھے۔ یہ وفد ہندوستان سے روانہ ہوا اور حجاز پہنچا۔ بہت سے لوگ جن میں مولانا محمد علی جوہر بھی شامل تھے یہ امید رکھتے تھے کہ ابنِ سعود نے حجاز پر قبضہ تو کر لیا ہے لیکن وہ اس مقدس خطے اپنی موروثی بادشاہت قائم کرنے کی بجائے یہاں پر تمام عالمِ اسلام کے مشورے سے ایک علیحدہ نظامِ حکومت قائم کریں گے اور سلطان عبدالعزیز ابن سعود نے اپنی ایک تار میں بھی اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ حجاز کے خطے میں تمام عالمِ اسلام کے مشورے سے ہی ایک نظامِ حکومت قائم کیا جائے گا۔ لیکن وہاں پہنچ کر جو آثار دیکھے تو یہ سب امیدیں دم توڑنے لگیں۔ سلطان عبد العزیزابنِ سعود بھی حجاز پر اپنی موروثی ملوکیت قائم کررہے تھے۔چنانچہ وہاں پہنچ کر کیا ہوا اس کے متعلق رئیس احمد جعفری اپنی کتاب ’’ سیرت محمد علی‘‘ میں تحریر کرتے ہیں :
’’جب محمد علی آمادہ ہوئے تو یہ تجویز ہوئی کہ ایک وفد بھی خلافت کمیٹی کی طرف سے حجاز بھیجا جائے وہ موتمر ِ اسلام میں شرکت کرے اور خلافت کمیٹی کا نظریہ پیش کرے اور سلطان ابنِ سعود کو ان کے مواعید یاد دلائے۔
مولانا سید سلمان ندوی صدر وفد مقرر ہوئے۔مسٹر شعیب قریشی سیکریٹری اور علی برادران ممبر، اس طرح یہ وفد موتمر میںشرکت کے لئے حجاز ِ مقدس روانہ ہو گیا۔
محمد علی کی صحت یہیں سے خراب تھی،وہاں پہنچے تو آب و ہوا کی نا موافقت کی وجہ سے علیل ہو گئے،اور بائیں حصہ جسم پر خفیف سا فالج کا حملہ بھی ہوا لیکن وہ ان چیزوں کو خاطر میں نہیں لائے اور اپنا کام برابر پورے استقلال سے جاری رکھا۔
موتمر میں عالم اسلام کے اکثر نمائندے شریک ہوئے تھے،خود سلطان ابنِ سعود نے موتمر کا افتتاح کیا تھا۔اکثر نمائندے ’’جلالۃ الملک ‘‘ کے جلال و جبروت سے متاثر و مرعوب تھے، لیکن محمد علی کا ایک حق گو وجود ایسا تھا خدم و حشم ،جاہ و جلال،عظمت و جبروت کسی چیز سے بھی متاثر نہیں ہوا ۔اس نے وہیں موتمر میں سلطان ابنِ سعود سے پورے آزادانہ لہجہ میں تخاطب کیاکہ یہ ملوکیت کیسی؟اسلام میں تو شخصیت کی بیخ کنی کی گئی۔شوری اور جمہوریت کو تفوق حاصل ہے۔تم کتاب وسنت کے تمسک کے مدعی ہو ،پھر یہ قیصر و کسریٰ کی پیروی کیوں؟ محمد علی کے اس آ وازہ حق نے تمام لوگوں کو چونکا دیا اور یہ احساس پیدا کر دیا کہ ابھی عالمِ اسلام حق گو اور حق پرست شخصیتوں سے خالی نہیں ہے۔گو آج صحابہ کرام کاوجود ِ گرامی ہمارے درمیان نہیں،پھر بھی ایسی ہستیاں ابھی موجود ہیںجو حق کے لئے سارے عالم اسلام سے دشمنی مول لے سکتی ہیں اور کسی شاہ و شہر یار کو خاطر میں نہیں لاتیں۔۔۔۔۔
سب سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ خلافت کمیٹی کی پالیسی ۔ہدایات اور نصب العین سے جن لوگوں کو کامل اتفاق تھا ،جن کی صدارت اور جن کی تائید سے یہ خبریں پاس ہوئی تھیں اور ابنِ سعود کو بھیجی گئی تھیں،انہوں نے نہایت شد و مد سے اختلاف کیا ۔ملوکیت کی حمایت کی اور وعدہ خلافیوں پر پردہ ڈالنا چاہا۔‘‘
(سیرت محمد علی حصہ اول و دوم ،مصنفہ رئیس احمد جعفری،ناشر کتاب منزل لاہور ص۴۴۸ تا ۴۵۰)
مولانا محمد علی جوہر صاحب نے جن خیالات کا بھی اظہار کیا ہو یہ ظاہر ہے کہ موتمرِ عالمِ اسلامی کے پہلے اجلاس میں کم از کم ہندوستان کا جو وفد شریک ہوا اس میں شبیر عثمانی صاحب ،ظفر علی خان صاحب اور سلمان ندوی صاحب جیسے افراد موجود تھے جو کہ جماعت ِ احمدیہ کے شدید مخالف تھے اور ان میں سے کئی ایسے تھے جو کہ سلطان عبد العزیز کی مخالفت کرتے گئے تھے اور پھر وہاں جا کر انہوں نے اپنا موقف بدل لیا تھا۔
یہ واقعات ۱۹۲۶ء کے ہیں اور یہ سال جماعت ِ احمدیہ کی تاریخ میں بھی ایک خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس سال لندن میں مسجد فضل لندن کا افتتاح ہوا تھا۔اور یہ مغربی دنیا میں جماعت ِ احمدیہ کی پہلی مسجد تھی۔جب اس کے افتتاح کا معاملہ پیش ہوا تو یہ فیصلہ ہوا کہ عراق کے بادشاہ کے چھوٹے بھائی امیر زید جو اس وقت آکسفورڈ میں تعلیم پا رہے تھے یا عراق کے بادشاہ شاہ فیصل جو اس وقت انگلستان کے دورہ پر تھے، سے اس مسجد کا افتتاح کرایا جائے۔اس کے لئے شاہ فیصل کو خط بھی لکھا گیا لیکن ان کی طرف سے کوئی تسلی بخش جواب موصول نہیں ہوا تو پھر سلطان عبد العزیز ابنِ سعود کو تار دی گئی کہ وہ اپنے کسی صاحبزادے کو اس بات کے لئے مقرر کریںکہ وہ مسجد فضل لندن کا افتتاح کریں۔ اور ان کے انگریز دوست نے بھی انہیں لندن سے تار دی کہ آپ اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر ہر دلعزیزی حاصل کر سکتے ہیں۔چنانچہ امام مسجد لندن حضرت مولانا عبد الرحیم درد صاحبؓ کی باقاعدہ درخواست پر انہوں نے نے بذریعہ تار جواب دیا کہ ہم اس درخواست کو قبول کرتے ہیں اور ہمارا بیٹا فیصل ستمبر میں لندن کے لئے جدہ سے روانہ ہو گا۔۲۳ ستمبر ۱۹۲۶ء کو شاہِ حجاز کے صاحبزادے امیر فیصل انگلستان پہنچے اور امام مسجد لندن کی سرکردگی میں ان کا پر تپاک خیر مقدم کیا گیا اور تمام اخبارات میں بھی یہ خبریں شائع ہو گئی کہ وہ لندن کی نئی مسجد کا افتتاح کریں گے۔امیر فیصل کا قیام بطور سرکاری مہمان ہائیڈ پارک ہوٹل میں تھا۔لیکن جلد ہی ایسے آ ثار ظاہر ہونا شروع ہو گئے کہ امیر فیصل کسی وجہ سے مسجد کے افتتاح یا جماعت کی طرف سے دیئے گئے استقبالیہ میں شرکت کرنے سے متردد ہیں۔ ۲۹؍ ستمبرکی رات کو جماعت کی طرف سے ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا جانا تھا اور یہ پروگرام ان کی رضامندی سے رکھا گیا تھا اور ۳ ؍اکتوبر کو مسجد کا افتتاح کیا جانا تھا۔لیکن امام مسجد لندن کو مسٹر جارڈن جو کہ جدہ میں برطانوی کونسل تھے کا پیغام ملا کہ وہ انہیں ملیں ۔ملاقات پر ان کو بتایا گیا کہ ۲۹؍ ستمبر کی تاریخ اس استقبالیہ کے لئے مناسب نہیں کیونکہ اسی تاریخ کو حکومت ِ برطانیہ کی طرف سے بھی دعوت ہے لیکن جب حضرت مولانا عبد الرحیم درد ؓ صاحب نے اس بات کی نشاندہی فرمائی کہ حکومت کی طرف سے دعوت دوپہر کو ہے اور جماعت کی طرف سے استقبالیہ رات کو ہے لیکن برطانوی افسران اس بات پر مصر رہے کہ یہ دعوت ۲۹؍ ستمبر کو نہیں ہونی چاہئے بلکہ مسجد کے افتتاح کے بعد ۶؍ اکتوبر کو ہونی چاہئے۔ یہ بات بہت معنی خیز تھی کہ دعوت قبول تو سعودی فرمانروا نے کی تھی لیکن اس پروگرام میں ردوبدل کا اختیار اب برطانوی حکومت کے پاس آ چکا تھا۔اور سعودی شہزادے اور ان کا وفد محض خاموش تھا۔ اور دوسری طرف اخبارات میں خبریں چھپ رہی تھیں کہ امیر فیصل اس نئی مسجد کا افتتاح کریں گے۔لیکن اب اس بات کے آ ثار واضح ہو رہے تھے کہ امیر فیصل اب مسجد کا افتتاح نہیں کریں گے۔ ۲۸ ستمبر کو حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحبؓ کو ایک با اثر شخصیت کی طرف سے خط ملا کہ امیر فیصل اس افتتاح میں شریک نہیں ہو سکیں گے اور وجہ یہ بتائی گئی کہ سلطان عبد العزیز کی طرف سے کوئی تار ملا ہے جس کی وجہ سے یہ رکاوٹ پیدا ہوئی ہے اور یہ بھی کہا کہ اس کی وجہ ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے کی جانے والی مخالفت ہے لیکن اس کے بعد یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ خبر پہنچانے والے صاحب خود بھی اصل وجہ سے بے خبر ہیں۔ لیکن وہ صاحب یہ خیال ظاہر کر رہے تھے کہ مسجد کے افتتاح کی تقریب ملتوی کر دی جائے۔لیکن حضرت مولانا عبد الرحیم درد صاحب کا خیال یہی تھا کہ مسجد کا افتتاح بہر حال مقرر کردہ تاریخ پر کیا جائے۔حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بھی صورت ِ حال لکھ کر راہنمائی کے لئے درخواست کی گئی تو حضور نے بھی اسی خیال کے مطابق حکم دیا کہ افتتاح کی تیاری رکھی جائے۔ پھر حجاز کے وزیر خارجہ خود حضرت درد ؓ صاحب سے ملے اور کہا کہ ہمیں اس صورت ِ حال کا بہت افسوس ہے۔ اصل میں سلطان عبد العزیزکی طرف سے یہ تار ملا تھا کہ تم اپنی ذمہ داری پر اس مسجد کا افتتاح کر سکتے ہو اور وہاں کے مسلمانوں سے بھی مشورہ کر لینااور ہم نے سلطان کے حکم کی وضاحت کے لئے تار دی ہے اگر مثبت جواب آیا تو ہم اس تقریب میں بڑی خوشی سے شامل ہوں گے۔ لیکن آخر تک حجاز سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ۔اور حضور سے لی گئی اجازت کے مطابق شیخ عبد القادر صاحب نے مسجد کا افتتاح کیا۔اس وقت جو بھی حالات سامنے نظر آ رہے تھے اس کے مطابق کوششیں کی جا رہی تھیں لیکن اس رکاوٹ کے پیچھے بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت کام کر رہی تھی۔چونکہ ایک عرصہ کے بعد جب امیر فیصل نے سعودی مملکت کے فرمانروا کی حیثیت سے جماعت کے مخالف ایک عالمی نفرت انگیز مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ کی حکمت نے اس بات کو پسند نہیں کیا کہ وہ اُس مسجد کا افتتاح کر سکیں جس کو بعد میں جماعت کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت ملنی تھی۔
(تاریخ مسجد فضل لندن مصنفہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ ،ناشر مینیجر بکڈپو تالیف و اشاعت قادیان ص۴۵تا ۶۰)
انگلستان کے اس دورہ کے دوران امیر فیصل نے مسجد کا افتتاح تو نہیں کیا لیکن وہ دوسرے معاملات میں مصروف رہے۔اس وقت تو یہ حقائق پوری طرح سامنے نہیں آئے تھے لیکن اب یہ معروف حقائق بن چکے ہیں کہ ان دنوں امیر فیصل سلطنت ِ برطانیہ کے عہدیداروں سے مذاکرات کر رہے تھے ۔اور ان مذاکرات کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ برطانیہ حجاز پر ان کے والد کی بادشاہت کو قبول کر لے۔ اور کچھ عرصہ کے بعد ان مذاکرات کا نتیجہ بھی سامنے آگیا اور مئی ۱۹۲۷ء میں باقاعدہ طور پر Treaty of Jeddahپر دستخط ہوئے جس کے نتیجہ میں حجاز اور نجد کے علاقہ پر سعودی خاندان کی حکومت تسلیم کر لی گئی۔لیکن یہ بات قابلِ غور ہے کہ پہلی مرتبہ جن افسران نے اس بات کا اظہارکیا تھا کہ امیر فیصل جماعت ِ احمدیہ کی تقریب میں شامل نہیں ہوں گے وہ سعودی حکومت کے کوئی عہدیدار نہیں تھے بلکہ برطانوی سفارتکار تھے اور اس وقت امیر فیصل برطانوی عہدیداروں سے مذاکرات کر رہے تھے ۔اور ان مذاکرات کی کامیابی برطانوی حکومت کی خوشنودی پر منحصر تھی۔
‏(The late King Faisal, his life, personality and methods of Government by Mariane Alireza P8 یہ مضمون انٹر نیٹ پر موجود ہے)
یہ سوال بار بار اُ ٹھایا گیا ہے کہ آخر میں امیر فیصل نے مسجد فضل کا افتتاح کیوں نہیں کیا جب کہ وہ اپنے ملک سے اس ارادہ سے چلے تھے کہ اس افتتاح کی تقریب میں حصہ لیں۔ جیسا کہ ایک مرحلہ پر تاثر دیا گیا تھااگر یہ باور کیا جائے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے دباؤ کی وجہ سے ایسا کیا گیا تھا تواس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کیونکہ ہندوستان کے مسلمان کسی طرح اس پوزیشن میں تھے ہی نہیں کہ سعودی مملکت پر کسی قسم کا دباؤ ڈال سکیں اور تاریخی طور پر اس قسم کا کوئی خاطر خواہ بیان یا ثبوت بھی نہیں ملتا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف سے کوئی ایسا دباؤ پیدا کیا گیا تھا۔ان کے کئی قائدین سلطان عبد العزیز کے خلاف بیان دیتے ہوئے ہندوستان سے گئے تھے اور حجاز مقدس پہنچ کر ان سے اتنا مرعوب ہوئے تھے کہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے واپس آ ئے تھے۔اور یہ بھی باور نہیں کیا جا سکتا کہ انگلستان کے مسلمانوں کی طرف سے ایسی صورتِ حال پیدا کی گئی تھی کیونکہ اس وقت انگلستان میں مسلمان برائے نام تعداد میں موجود تھے اور ان کی ایک بڑی تعداد نے خود اس تقریب میں شمولیت کی تھی۔اس وقت سعودی مملکت خفیہ طور پر سلطنتِ برطانیہ سے جس قسم کے مذاکرات کر رہی تھی اس کے لئے یہ بہت ضروری تھا کہ کسی طرح سلطنتِ برطانیہ کی ناراضگی نہ مول لی جائے۔
بہر حال امیر فیصل نے جو کہ بعد میں سعودی مملکت کے فرمانروا بھی بنے اس دورہ میں مسجد فضل کا افتتاح تو نہیں کیا لیکن انہوں نے مغربی طاقتوں کی طرف بالخصوص سلطنتِ برطانیہ کے بارے میں جس طرح دوستانہ رویہ ظاہر کیا اس نے بہت سے لوگوں کو حیران کیا اور اس کے متعلق مسلمان قائدین نے آوازیں بلند کرنی شروع کیں۔چنانچہ مولانا محمد علی جوہر نے امیر فیصل کے اس دورہ کے بارے میں یہ الفاظ لکھے ۔الفاظ کافی سخت ہیں ہم اس کی تصدیق یا تردید کی بحث میں پڑے بغیر اس لئے درج کر رہے ہیں کہ تا کہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ اس وقت اس دورہ کا عام مسلمان قائدین میں کیا ردِ عمل تھا۔ مولانا محمد علی جوہر موتمر عالمِ اسلامی کے اجلاس کے انجام اور امیر فیصل کے دورہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’جو حشر جمہوریت کی تعریف اور مقدس مقامات کے احترام کا ہوا وہ ایک عالم جانتا ہے۔جو حشر موتمرعالم اسلام کا کیا جا رہا ہے اس کے متعلق جلد کچھ عرض کروں گا۔شرف عدنان بے اول موتمر کے صدر کا تار جو علامہ سید سلمان ندوی نائب صدر موتمر کے نام موصول ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔پڑھئے اور سلطان ابنِ سعود کے ایفائے عہد کا لطف اُٹھائیے۔یہ ہے وہ تمسک بالکتب و السنۃ جو ہدم مقابر ماثر اور مزار ِ رسولِ اکرم(روحی فداہ) کے قرب و جوار تک کو اندھیرے میں ہی چھوڑنے سے ہی ثابت ہوتا ہے یا پھر شاہ انگلستان اور ملکہ ہالینڈ ہاتھوں سے صلیبی تمغہ اپنے نائب اور صاحبزادے کے سینے پر لٹکوانے سے اور اس کی تصویر ان حسین چھوکریوں کے ساتھ کھنچوانے جو لندن میں نیم عریانی کے لباس کی اپنے خوبصورت اور ڈھلے ہوئے جسموں پر نمائش کر کے دکان میں آنے والوں کو خریداری پر آ مادہ کرتی ہیں۔یہ صاحبزادے کس کے لئے یہ نیم عریاں لباس خریدنے گئے تھے۔یہ آج تک معلوم نہ ہوا،مگر شاید لباس کے خریدار نہ ہوں۔۔۔۔۔۔۔(آگے کچھ زیادہ سخت الفاظ حذف کر دیئے گئے ہیں)۔غرض جو کچھ ہو ہے ’’ فعلِ فیصل‘‘ اور تمسک بالکتب و السنۃ۔‘‘
(ہمدرد ۱۳ نومبر ۱۹۲۷ء بحوالہ مولانا محمد علی جوہر آپ بیتی اور فکری مقالات
مرتبہ سید شاہ محمد قادری ص۸۲۸)
مخالفین جماعت کے ارادے ظاہر ہوتے ہیں
اب یہ بات ظاہر وباہر ہوتی جا رہی تھی کہ جماعت کے مخالفین ایک بار پھر جماعت ِ احمدیہ کے خلاف ایک بڑے منصوبے پر عملدرآمد کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔اور ۱۹۵۳ء میں تو جماعت کی مخالف شورش کا دائرہ بڑی حد تک صوبہ پنجاب تک محدود تھا مگر اب ۱۹۷۴ء میں جبکہ جماعت ِ احمدیہ پہلے کی نسبت دنیا بھر میں بہت زیادہ ترقی کر چکی تھی، اب مخالفین کی کوشش تھی کہ پوری دنیا میں جماعت ِ احمدیہ کے خلاف سازشوں کا جال بچھایا جائے۔مگر چونکہ ابھی بھی پوری دنیا کی جماعتوں میں پاکستان کی جماعت سب سے زیادہ اہم تھی اور جماعت کا مرکز بھی پاکستان میں تھا اس لیے سب سے زیادہ زہریلا وار یہیں پر کرنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں تاکہ یہاں پر احمدیت پر ایسا وار کیا جائے تا کہ جماعت کا عالمی تبلیغی جہاد اس سے بری طرح متاثر ہو۔
چنانچہ ۱۹۷۴ء کے آ غاز میں جماعت مخالف رسائل میں یہ اشتہارات چھپنے لگے کہ قادیانیت کی مخالفت کے لیے قادیانی محاسبہ کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ اور اس کے لیے چندہ جمع کرنے کی اپیل کی گئی۔(ہفت روزہ چٹان ۲۸؍جنوری ۱۹۷۴ء ص۱۵)
اس کو تو شاید معمول کی بات سمجھا جاتا لیکن اس کے ساتھ یہ اعلانات چھپنے لگے کہ مرکزی قادیانی کمیٹی کو ایک ہزار نوجوانوں کی ضرورت ہے۔اور کالج کے طلبا خاص طور پر اس طرف توجہ کریں۔ (ہفت روزہ چٹان ۲۷؍مئی ۱۹۷۴ء ص۱۷)
اور اس کے ساتھ جماعت کے مخالف جریدے عوام الناس کو احمدیت کے خلاف بھڑکانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔اور یہ سب کچھ کس انداز میں کیا جا رہا تھا اس کا اندازہ اس مثال سے لگایا جا سکتا ہے۔جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے آنحضرت ﷺ کی سنت کی روشنی میں احباب ِ جماعت کو تلقین فرمائی تھی کہ وہ گھڑ سواری میں دلچسپی لیں۔اور پھر صد سالہ جوبلی کے لیے چندہ کی تحریک کی گئی۔اس پر المنبر نے ۸ مارچ ۱۹۷۴ء کی اشاعت کے سرورق پر یہ اعلان جلی حروف میں شائع کیا۔
’’ربوہ میں دس ہزار انعامی گھوڑوں کی فوج ۔۔۔۔اور۔۔۔نو کروڑ روپیہ کے فنڈ۔۔۔کی فراہمی۔۔۔کن مقاصد کیلئے؟۔۔۔مزید بر آں ۔۔قادیانی سیاست کا رخ ۔۔۔ اب کس جانب ہے؟۔۔اور ہم مسلمان کیا سوچ رہے ہیں؟۔۔۔کیا کر رہے ہیں؟۔۔۔۔کیا کرنا چاہتے ہیں؟۔۔۔۔اور ۔۔۔۔ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‘‘
شروع ہی سے جماعت کے مخالفین کا یہ طریق رہا ہے کہ جب وہ ملک میں کوئی شورش یا فساد برپا کرنے کی تیاریاں کر رہے ہوں تو یہ واویلا شروع کر دیتے ہیں کہ قادیانی ملک میں فساد پھیلانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ورنہ اس دور میںکوئی دس ہزار گھوڑوں کی فوج پال کر کیا کر سکتا ہے ،اس کا جواب کسی سے پوشیدہ نہیں۔جنہوں نے فسادات برپا کرنے ہوں یا بغاوت کا ماحول پیدا کرنا ہو وہ گھوڑے پالنے کا تردد نہیں کرتے۔
یہ بات واضح تھی کہ اب جماعت کے خلاف شورش کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور اس مرتبہ تعلیمی ادروںکے طلبا کو بھی اس فساد میں ملوث کیا جائے گا۔
احبابِ جماعت کو صبر سے کام لینے کی تلقین
جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ ۱۹۷۴ء تک جماعت کے خلاف تیار کی جانے والی عالمی سازش کے آثار افق پر واضح نظر آ رہے تھے۔اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ ۱۹۷۳ء کی ہنگامی مجلسِ شوریٰ میں تفصیل سے بیان فرما چکے تھے کہ جماعت کے مخالفین اب کس طرح کی سازش تیار کر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں حضور نے ۲۴؍ مئی ۱۹۷۴ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ اس دنیا میں انبیاء اور مامورین کا آنا دنیا کی بھلائی اور خیر خواہی کے لیے ہوتا ہے۔اس لیے منکرین پر گرفت فوراََ نہیں ہوتی تاکہ ان میں سے زیادہ سے زیادہ لوگ ہدایت پا جائیں اور جب عذاب آئے بھی تو سب کے سب ہلاک نہیں ہوتے ،جو باقی رہ جاتے ہیں ان میں سے بہت سے ہدایت پا کر دین کی تقویت کا باعث بن جاتے ہیں اور اس طرح ایمان لانے والوں کی تربیت کی جاتی ہے اور امتحان لیا جاتا ہے۔پھر حضور نے جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا :
’’ہماری جماعت اس وقت مہدی اور مسیح علیہ السلام کی جماعت ہے اور وہ احمدی جو یہ سمجھتا ہے کہ ہمیں دکھ نہیں دئے جائیں گے،ہم پر مصیبتیں نازل نہیں کی جائیں گی۔ہماری ہلاکت کے سامان نہیں کئے جائیں گے ہمیں ذلیل کرنے کی کوششیں نہیں کی جائیں گی اور آرام (کے )ساتھ ہم آخری غلبہ کو حاصل کر لیں گے وہ غلطی خوردہ ہے اس نے اس سنت کو نہیں پہچانا جو آدم سے لے کر آج تک انسان نے خدا تعالیٰ کی سنت پائی ۔ہمارا کام ہے دعائیں کرنا۔اللہ تعالیٰ کا یہ کام ہے کہ جس وقت وہ مناسب سمجھے اس وقت وہ اپنے عزیز ہونے کا اپنے قہار ہونے کا جلوہ دکھائے اور کچھ کو ہلاک کردے اور بہتوں کی ہدایت کے سامان پیدا کر دے۔۔۔۔
پس ہمارا کام اپنے لئے یہ دعا کرنا ہے کہ جو ہمیں دوسروں کے لیے دعائیں کرنے کے لیے تعلیم دی گئی ہے کہیں ہم اس کو بھول نہ جائیں ۔ہمارا کام غصہ کرنا نہیں ۔ہمارا کام غصہ پینا ہے ہمارا کام انتقام اور بدلہ لینا نہیں ہمارا کام معاف کرنا ہے ہمارا کام دعائیں کرنا ہے ان کے لئے جو ہمارے اشد ترین مخالف ہیں کیونکہ وہ پہچانتے نہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہیں۔‘‘
پھر احباب کو ہر حالت میں غصہ کے ردِ عمل سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:
’’۔۔۔مجھے جو فکر رہتی ہے وہ یہ ہے کہ احبابِ جماعت میں نئے آئے ہوئے بھی ہیں۔ان کو کہیں اپنے مخالف کے خلاف اس قسم کا غصہ نہ آئے جس کی اجازت ہمیں ہمارے ربّ نے نہیںدی۔خدا تعالیٰ نے کہا ہے میری خاطر تم ظلم سہو میں آسمانی فرشتوں کو بھیجوں گا تا کہ تمہاری حفاظت کریں ۔اب ظاہر ہے اور موٹی عقل کا آدمی بھی یہ جانتا ہے کہ اگر کسی فرد پر کوئی دوسرا فرد حملہ آور ہو اور جس پر حملہ کیا گیا ہے اس کو اپنے دفاع کے لیے ان دو چار ہتھیاروں میں سے جو میسر ہیں کسی ایک ہتھیار کے منتخب کرنے کا موقع ہو تو عقل کہتی ہے کہ اس کے نزدیک جو سب سے زیادہ مضبوط اور مؤثر ہتھیار ہو گا وہ اسے منتخب کرے گا تو اگر ہماری عقل یہ کہتی ہے کہ ایک مومن کی عقل کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ اگر دنیا کے سارے دلائل بھی ہمارے پاس ہوں اور ان کے ساتھ ہم اپنے مخالف کا مقابلہ کریں تو ہماری اس تدبیر میں وہ قوت اور طاقت نہیںجو ان فرشتوں کی تدبیر میں ہے جنہیں اللہ تعالیٰ آسمان سے بھیجے اور کہے کہ میرے بندوں کی حفاظت کرو اور اس کی خاطر مخالفین سے لڑو۔پس جب یہ بات ہے تو ہماری عقل کہتی ہے کہ ہمیں کمزور ہتھیار سے اپنے مخالف کا مقابلہ نہیںکرنا چاہئے۔ جب ہمیں ایک مضبوط ہتھیار بھی میسر آسکتا ہے اور آ رہا ہے تو ہمارے خدا نے ہمیں یہ کہا کہ تمہارا کام ہے دعائیں کرنا اور میرا کام ہے تم سے قربانیاں لینا تاکہ تم میرے فضلوں کے زیادہ سے زیادہ وارث بن جاؤ اور تمہاری اجتماعی زندگی کی حفاظت کرنا۔خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اور اس کے بعد ہمیں اپنے غصے نہیں نکالنے چاہئیں ۔تمہارا کام ہے دعائیں کرو
گالیاں سن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو
جہاں کہیں تمہیں کوئی تکلیف دینے والا ہے وہاں خود سوچو کہ کوئی ایسی صورت نہیں ہو سکتی کہ ہم اس کی کسی تکلیف کو دور کر کے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ماننے والے ہوں ۔‘‘(۱)
۲۹ مئی کا واقعہ
جب خلیفہ وقت کسی بھی معاملہ میں کوئی ہدایت فرمائیں تو بیعت کرنے والوں کا کام ہے کہ اس ارشاد کو غور سے سن کر اس پر بڑی احتیاط سے عمل کریں۔اگر پوری جماعت میں سے ایک گروہ بھی خواہ وہ گروہ چھوٹا سا گروہ ہی کیوں نہ ہو اس ہدایت پر عمل پیرا ہونے پر کوتاہی کا مظاہرہ کرے تو اس کے سنگین نتائج نکلتے ہیں۔حضور اقدس نے ۲۴؍ مئی ۱۹۷۴ء کے خطبہ جمعہ میں احباب ِ جماعت کو یہ تلقین فرمائی تھی کہ ہمارا کام غصہ کرنا نہیں بلکہ غصہ کو ضبط کرنا ہے۔اور اس خطبہ میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ مجھے جوفکر رہتی ہے وہ یہ ہے کہ احبابِ جماعت میں نئے آئے ہوئے بھی ہیں۔ان کو کہیں اپنے مخالف کے خلاف غصہ نہ آ جائے۔جہاں ہمیں کوئی تکلیف دے رہا ہو وہاں ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہم اس کی کوئی تکلیف کیسے دور کر سکتے ہیں۔(۲)
اس خطبہ جمعہ سے چند روز قبل ۲۲ مئی ۱۹۷۴ء کونشتر میڈیکل کالج کا ایک گروپ چناب ایکسپریس پر ٹرپ پر جاتے ہوئے ربوہ سے گزرا۔اور ان طلباء نے ربوہ کے پلیٹ فارم پر مرزائیت ٹھاہ کے نعرے لگائے اور پٹری سے پتھر اُ ٹھا کر پلیٹ فارم پر موجود لوگوں پر اور قریب والی بال کھیلنے والے لڑکوں پر چلائے (۳)۔ اس طرح اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی لیکن اس وقت کسی تصادم کی نوبت نہیں آئی۔
جب بعد میں اس واقعہ پر ٹریبونل قائم کیا گیا تو یہ شواہد سامنے آئے کہ مئی ۱۹۷۴ء میں نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء نے سیر کے لئے راولپنڈی ،مری اور سوات جانے کا پروگرام بنایا ۔پہلے یہی پروگرام تھا کہ کالج کی طالبات اور کچھ اساتذہ اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ اس سیر میں شامل ہوں گے۔ اور پروگرام یہ تھا کہ یہ طلباء ریل گاڑی خیبر میل کے ذریعہ جائیں گے۔یہ امر مدِ نظر رہے کہ گاڑی خیبر میل ربوہ سے نہیں گزرتی تھی۔ لیکن ریلوے حکام نے ان کی بوگی خیبر میل کے ساتھ لگانے کی بجائے چناب ایکسپریس کے ساتھ لگانے کا فیصلہ کیا جو کہ ربوہ سے ہو کر گزرتی تھی۔ درخواست یہ کی گئی تھی کہ ان طلباء کو دو بوگیاں مہیا کی جائیں اور پہلے پروگرام یہ تھا کہ یہ گروپ سیر کے لئے ۱۸ مئی ۱۹۷۴ء کو سیر کے لئے روانہ ہو گا۔لیکن جب ۱۸ ؍مئی کو نشر میڈیکل کالج کے طلباء اور طالبات اور ان کے کچھ اساتذہ اپنے اہل ِ خانہ کے ہمراہ ۱۸ ؍مئی کو ملتان کے ریلوے سٹیشن پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کے لئے دو نہیں بلکہ ایک بوگی مخصوص کی گئی ہے۔اور یہ بوگی اتنے بڑے گروپ کے لئے نا کافی تھی۔ حالانکہ ریزرویشن کے بارے میں یہ معلومات تو بہت پہلے مل جاتی ہیں لیکن ہوا یہ کہ اس گروپ کو یہ پتہ سٹیشن پہنچ کر چلا کہ ان کے لئے دو نہیں بلکہ ایک بوگی مخصوص کی گئی ہے۔ چنانچہ اس پروگرام کو کچھ دن کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔اور پھر ریلوے حکام نے یہی فیصلہ کیا کہ صرف ایک ہی بوگی مہیا کی جا سکتی ہے اور پھر اس درخواست پر کہ یہ بوگی خیبر میل کے ساتھ لگائی جائے یہی فیصلہ برقرار رکھا کہ یہ بوگی چناب ایکسپریس کے ساتھ لگائی جائے۔چنانچہ جگہ کی قلت کی وجہ سے یہی فیصلہ کیا گیا کہ اب صرف طلباء جائیں گے اور طالبات ،اساتذہ اور ان کے اہلِ خانہ اس پروگرام میں شامل نہیں ہوں گے۔ ٹریبونل نے انہیں اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ۲۲ مئی کو جب یہ طلباء ریلوے سٹیشن سے گزرے تو کسی نے انہیں جماعت کے اخبار روزنامہ الفضل کی کاپی پیش کی ۔ان طلباء نے احمدیت کے خلاف نعرے لگائے۔ اس رپورٹ میں درج شواہد کے مطابق ان میں سے بعض طلباء نے اپنے کپڑے اتار دیئے اور ان کے جسم پر صرف زیر جامہ ہی رہ گئے اور انہوں نے اس عریاں حالت میں رقص کرنا شروع کیا اور ربوہ کے لوگوں سے حوروں کا مطالبہ کیا۔
لیکن اس اشتعال انگیزی کے با وجود کوئی ہنگامہ نہیں ہوا اور گاڑی ربوہ سے نکل گئی۔یہاں پر دو باتیں قابلِ ذکر ہیں کہ ایک تو یہ کہ اگر یہ طلباء اپنی درخواست کے مطابق خیبر میل سے جاتے تو یہ گروپ ربوہ سے نہ گزرتے اور اگر ان کے ساتھ ان کے کالج کے اساتذہ اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ اور کالج کی طالبات بھی ہوتیں تو یہ طلباء اس طرز پر اشتعال انگیزی نہ کر سکتے۔اور یہ ایک حکومتی محکمہ کا فیصلہ تھا کہ انہیں چناب ایکسپریس سے بھجوایا جائے ۔اور دو بوگیاں بھی ریلوے نے مہیا نہیں کیں جن کی وجہ سے ایسی صورت پیدا ہوئی کہ صرف لڑکے ہی اس گروپ میں شامل ہو سکے۔
۲۲ ؍مئی کے واقعہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے وہ خطبہ ارشاد فرمایا جس کا ذکر ہم کر چکے ہیں اور احباب ِ جماعت کو ارشاد فرمایا کہ کسی طرح بھی اشتعال میں نہیں آنا اور صبر کا دامن پکڑے رکھنا ہے۔ اور حضور کا یہ ارشاد صرف خطبہ جمعہ تک محدود نہیں تھا بلکہ حضور اس امر کی اس کے بعد بھی بار بار تلقین فرماتے رہے کہ ہر حال میں صبر کا دامن پکڑے رکھنا ہے۔چنانچہ صاحبزادہ مرزا مظفر احمد ابن مکرم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب جو حضور کے بھتیجے ہیں بیان کرتے ہیں کہ میں نے ۲۲؍ مئی ۱۹۷۴ء کے بعد گھر میں بھی اور ڈیوٹی دیتے ہوئے یہ بات بار بار حضور سے صبر کی تلقین سنی ۔مجھے الفاظ یاد نہیں ہیں لیکن حضور نے یہ بار بار فرمایا تھا کہ ہم نے ہر صورت میں صبر سے کام لینا ہے اور کوئی سختی نہیں کرنی۔ اور یہ بات میرے ذہن میں حضور کی یہ ہدایت اتنی پختگی سے گھر کر چکی تھی کہ ۲۹ مئی کو جب نشتر میڈیکل کالج کے یہ طلباء واپسی پر پھر ربوہ سے گزر رہے تھے تو میں نے ربوہ کے کچھ نوجوانوں کو سٹیشن جاتے ہوئے دیکھا اور مجھے احساس ہوا کہ انہوں نے حضور کی ہدایت کو سمجھا نہیں اور میں ان کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا کہ حضور نے ان طلباء کو مارنے سے منع کیا ہے لیکن ایک کے علاوہ باقی نے میری بات پر پوری طرح توجہ نہیں دی۔
جب یہ طلباء ۲۹ مئی کو واپس ربوہ سے گزرے تو ربوہ کے کچھ جوشیلے نوجوان سٹیشن پر جمع ہو گئے اور نشتر میڈیکل کالج کے طلباء کو ان کی غیرمہذبانہ زیادتیوںکا سبق سکھانے کے لئے ان سے الجھ پڑے۔ ان نوجوانوں کا یہ فعل یقیناََ جماعت احمدیہ کی تعلیمات اور ملکی قانون کے خلاف تھا۔اور اس کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی واضح ہدایات کے بھی خلاف تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ کچھ عقل کا مظاہرہ بھی ہونے لگا اور گاڑی چلنے سے قبل ربوہ کے نوجوانوں نے نشتر میڈیکل کالج کے طلباء کو قریب واقعہ رحمت بازار سے مشروب منگوا کر پلایا۔اور ربوہ کے بعض لڑکے جو کہ حضور کی ہدایات سے واقف تھے نشتر میڈیکل کالج کے طلباء پر گر کر انہیں مارنے والوں کی ضربوں سے بچانے لگے(۴) اور اس واقعہ کی وجہ سے دو گھنٹے ٹرین وہاں پر رکی رہی۔اور جب سٹیشن ماسٹر صاحب نے جو کہ احمدی تھے گاڑی کو چلانے کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ گاڑی کا ویکیوم نکل گیا ہے اور گاڑی چل نہیں سکتی اور پھر اس کو ٹھیک کرنے میں بھی دیر لگی ۔
فسادات کا آغاز
جیسا کہ اس صورتِ حال میں ہونا ہی تھا چند دنوں میں ہی،منظم طریق پر پورے ملک میں فسادات کی آگ بھڑکا دی گئی بلکہ اسی روز ہی مولویوں نے پورے ملک میں فسادات کی آگ بھڑکانے کی کوششیں شروع کردیں۔یہ نا خوشگوار واقعہ تو بہر حال ہوا تھا اور جیسا کہ ہم بعد میں اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے ارشادات پیش کریں گے ۔لیکن اس واقعہ کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا تھا اور ایک منظم طریق کے ذریعہ اس کی تشہیر کی جا رہی تھی اور اس کو بنیاد بنا کر پورے ملک میں فسادات برپا کئے جا رہے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس واقعہ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا ۔کسی مضروب کی ہڈی نہیں ٹوٹی تھی ۔کسی مضروب کی چوٹ کو قانون کی رو سےGrievious injury نہیں کہا جا سکتا تھا۔ لیکن فسادات کو ہوا دینے کے لئے ایک طرف تو بعض اخبارات اور جرائد لکھ رہے تھے کہ نشتر میڈیکل کالج کے کئی طلباء کی حالت نازک تھی اور دوسری طرف یہی جرائد لکھ رہے تھے کہ جب یہ طلباء لائلپور پہنچے تو ان کو پلیٹ فارم پر ابتدائی طبی امداد دی گئی ۔اور سرکاری اہلکاروں نے انہیں کہا کہ وہ لائلپور کے ہسپتال میں آکر علاج کروا سکتے ہیں تو ان طلباء نے کہا کہ وہ ملتان میں اپنے ہسپتال جا کر علاج کرائیں گے(۵)۔یہ کہنے والے طب کے پیشہ سے منسلک تھے اور یقیناََ جانتے تھے کہ شدید زخمی کے لیے علاج میں چار گھنٹے بلکہ اس سے بھی زیادہ کی یہ تاخیر جان لیوا بھی ہو سکتی ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے لائلپور کے ہسپتال میں علاج کے لیے جانا پسند نہیں کیا حالانکہ یہ ہسپتال ریلوے سٹیشن کے بالکل قریب واقعہ ہے۔اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان طلباء میں سے کوئی بھی شدید زخمی نہیں تھا۔ان میں سے علاج کے لیے کوئی لائلپور کے ہسپتال تو نہیں گیا لیکن اسی وقت ان میں سے کچھ زخمی طلباء لائلپور کے تعلیمی اداروں میں پہنچ گئے اور وہاں طلباء کو جلوس نکالنے پر آمادہ کر نا شروع کر دیا۔
اخبارات اور رسائل میں جو خبریں آ رہی تھیں ان میں بھی عجیب تضاد پایا جا رہا تھا ۔مثلاََ جماعت کے اشد مخالف جریدے چٹان نے جو خبر شائع کی اس میں لکھا کہ ربوہ سٹیشن پرپانچ چھ سو گرانڈیل قادیانیوں نے نشتر کالج کے طلباء پر حملہ کیا ۔بلکہ اپنی سرخی میں لکھا کہ ’’نشتر میڈیکل کالج کے ایک سو طلباء پر ربوہ میں قادیانی کتوں کا حملہ(۵)‘‘۔دوسری طرف اخبار نوائے وقت نے اسی واقعہ کی رپورٹ کرتے ہوئے لکھا کہ حملہ کرنے والے قادیانیوں کی تعداد پانچ ہزار تھی۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رپورٹنگ حقائق پر بنیاد رکھنے کی بجائے اندازوں اور مبالغوں کی بنا پر کی جا رہی تھی۔(۶)
اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی ایس پی اور ڈ ی آئی جی پولیس ربوہ پہنچ گئے(۷،۸)۔اسی رات ربوہ میں پولیس نے گرفتاریاں شروع کر دیں اور ستر سے زائد احباب کو گرفتار کیا گیا ۔کئی ایسے نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا جو اس واقعہ میں ملوث تھے لیکن کئی اور ایسے راہ چلتے احباب کو بھی گرفتار کر لیا گیا جن کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔مقصد صرف گنتی کو پورا کرنا تھا۔ایک مرحلہ پر پولیس والے تعلیم الاسلام کالج پہنچ گئے اور پرنسپل صاحب سے کہا کہ ہمیں یہاں حکومت کی طرف سے سو ڈیڑھ سولڑکا گرفتار کرنے کا حکم ہے۔پرنسپل صاحب نے کہا کہ جس وقت یہ واقعہ ہوا کالج کے جو طلبا کالج میں موجود تھے، وہ بے قصور ہیں انہیں کس جرم کی بنا پر آپ کے حوالے کیا جائے۔لیکن وہ مصر رہے اور کالج کے لڑکوں کو ہراساں کیا گیاہاسٹل کا گھیراؤ کر لیا گیا۔لیکن پھر کالج سے وسیع پیمانے پر گرفتاریوں کا ارادہ ترک کر دیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث سٹیشن کے واقعہ کے وقت ربوہ سے باہر اپنے فارم نصرت آباد تشریف لے گئے تھے،آپ اسی روز واپس ربوہ تشریف لے آئے۔
یہاں ایک اور بات کا ذکر بے جا نہ ہو گا۔ہم سے انٹرویو میں صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب نے کہا کہ میں نے کابینہ کے سامنے حنیف رامے سے پوچھا کہ واپسی پر نشتر کے طلباء کی بوگی دوسرے راستے سے بھی آ سکتی تھی۔پھر انہوں نے کہا کہ بھٹو صاحب نے کہا کہ مجھے اب تک پتا نہیں چلا کہ رامے کس کے ساتھ ہے۔ بعد میں رسالہ چٹان کے ایڈیٹر شورش کاشمیری صاحب نے تحقیقاتی ٹریبونل کے رو برو بیان دیا کہ جب ۲۹ مئی کو ربوہ کے سٹیشن پر واقعہ ہوا ہے اس رات وزیرِ اعظم بھٹو کے سیکریٹری مسٹر افضل سعید نے فون کیا کہ بعض بیرونی طاقتیں پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہیں ہم سب کو چاہئے کہ ہم داخلی امن برقرار رکھیں۔اور اس کے ساتھ یہ الزام بھی لگایا کہ قادیانی وزیرِ اعظم کو قتل کرنے کی سازش کرتے رہے ہیں اور ان کا ارادہ ہے کہ وہ فسادات سے فائدہ اُ ٹھا کر ملک میں اپنا اقتدار قائم کر لیں۔(امروز یکم اگست ۱۹۷۴ء ص اول و آخر)
شروع ہی سے اس بات کے آثار ظاہر ہو گئے تھے کہ ایک ملک گیر فساد ات شروع کئے جا رہے ہیں اور جس فتنہ کی تمہید کچھ سالوں سے باندھی جا رہی تھی اس کی آگ کو منظم طور پر اور حکومت کی آشیرباد کے ساتھ بھڑکایا جا رہا ہے۔حضور نے چند احباب کو پرائیویٹ سیکریٹری کے دفتر میں طلب فرمایا اور حضور کی نگرانی میں ایک سیل نے مرکز میں کام شروع کر دیا۔ہر طرف سے فسادات کی اور احمدیوں پر ان کے گھروں ،مساجدوں اور دوکانوں پر حملہ کی خبریں آرہی تھیں۔جو اطلاع ملتی پہلے حضور اقدس اسے خود ملاحظہ فرماتے اور پھر قصرِ خلافت میں ایک گروپ مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب کی زیر نگرانی کام کر رہا تھا ، وہ اس اطلاع کے مطابق متاثرہ احمدی دوستوں کی مدد کے لئے اقدامات اُٹھائے جاتے اور ان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے رضاکار روانہ کیے جاتے ۔اس کام کے لیے ضلع سرگودھا سے تعلق رکھنے والے رضاکار خدمات سر انجام دے رہے تھے۔اس دور میں شہر سے باہر فون ملانا بھی ایک نہایت مشکل امر تھا ۔پہلے کال بک کرائی جاتی اور پھر گھنٹوں اس کے ملنے یا نہ ملنے کا انتظار کرنا پڑتا اور اس سے بڑھ کر مسئلہ یہ تھا کہ مرکزِ سلسلہ کی تمام فون کالیں ریکارڈ کر کے ان کے ریکارڈ کو حکومت کے حوالے کیا جا رہا تھا۔اس لیے جماعتوں سے رابطہ کی یہی صورت تھی کہ ان کی خیریت دریافت کرنے کے لیے آدمی بھجوائے جائیں۔مرکز میں کام کرنے والا یہ سیل اس بات کا اہتمام کر رہا تھا کہ ہر واقعہ کی اطلاع وزیرِ اعظم اور دیگر حکومتی عہدیداروں کو با قاعدگی سے دی جائے۔ اس سیل میں مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب ،مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ ناظر صاحب امورِ عامہ، مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ،مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کام کر رہے تھے۔جب ان فسادات کا آغاز ہوا تو کام کا دباؤ اتنا تھا کہ حضور اقدس اور ان کے ساتھ کام کرنے والے رفقاء کو کچھ راتیں چند لمحے بھی سونے کا وقت نہیں مل سکا اور کچھ روز مسلسل جاگ کر کام کرنا پڑا۔
بیرونِ پاکستان کی جماعتوں کو بھی حالات سے مطلع رکھنا ضروری تھا اور یہ بھی ضروری تھا کہ احمدیوں پر ہونے والے مظالم سے عالمی پریس اندھیرے میں نہ رہے۔حکومت ِ پاکستان اور جماعت کے مخالف حلقوں کی یہ بھرپور کوشش تھی کہ پوری دنیا کو اندھیرے میں رکھا جائے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے لندن مشن کے سپرد یہ کام کیا کہ وہ پوری دنیا کی جماعتوں کو پاکستان میں ہونے والے واقعات سے باخبر رکھے۔چنانچہ فسادات کے دوران ہفتہ میں دو مرتبہ پاکستان سے لندن اطلاعات بھجوائی جاتی تھیں۔لندن سے تمام جماعتوں کوحالات سے مطلع رکھا جاتا۔حضرت چوہدری سرمحمدظفراللہ خان ؓصاحب نے لندن میں ایک پریس کانفرنس بلوائی ۔اس پریس کانفرنس میں عالمی پریس کے نمائندے شریک ہوئے۔اس طرح حقیقت ِ حال عالمی پریس تک پہنچ گئی۔ یہ بات پاکستان کے سفارت خانہ کو سیخ پا کرنے کے لئے کافی تھی ۔پاکستان کے سفارت خانہ کے ایک افسر نے لندن مشن کے انچارج کو ملاقات کے لیے بلایا اور اس بات پر بہت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ سلسلہ فوراََ بند ہونا چاہئے۔انہیں جواب دیا گیا کہ پاکستان میں احمدیوں پر مظالم کا سلسلہ بند کر دیا جائے تو یہ سلسلہ بھی بند کر دیا جائے گا۔(۹)
اگلے روز ہی پنجاب کے مختلف مقامات پر فسادات کی آگ بھڑک اُ ٹھی۔اور ۳۰ مئی کو چنیوٹ، چک جھمرہ، لائلپور، گوجرہ، مانانوالا، شورکوٹ، خانیوال، ملتان، بہاولپور، صادق آباد،ضلع ساہیوال، ڈنگا، راولپنڈی ،اسلام آباد،کوہاٹ ،ڈیرہ اسماعیل خان اور سرگودہا میں فسادات ہوئے جن کے دوران احمدیوں کے گھروں اور دوکانوں پر حملے ہوئے اور انہیں نذرِ آتش کیا گیا اور لوٹا گیا۔ان کی مساجد کو نقصان پہنچایا گیا۔ان پر پتھراؤ کیا گیا۔ان کی کاروباری املاک کو آگ لگائی گئی،تعلیمی اداروں میں احمدی طلباء کی املاک اور کتب کو نذرِ آتش کیا گیا،احمدیوں کو مختلف مقامات پر زد و کوب کیا گیا ۔بعض مقامات پر مفسدین نے جماعتی لائبریری کی دیگر کتب کے علاوہ قرآنِ کریم کے بہت سے نسخے بھی شہید کئے۔جب احمدیوں پر حملے ہو رہے تھے تو پولیس خاموش تماشائی بنی رہی لیکن مزید ظلم یہ کیا کہ ڈیرہ اسماعیل خان اور سرگودہا میں مفسدین کو قابو کرنے کی بجائے کچھ احمدیوں کو گرفتار کر لیا۔
سٹیشن والے واقعہ کے اگلے دن ہی پنجاب اسمبلی میں اس پر بحث شروع ہو گئی۔اور اس بحث میں حکومتی پارٹی کے اراکین جماعت کی مخالفت میں پیش پیش تھے اور اس بات کا اظہار کر رہے تھے کہ ہم ناموسِ رسالت پر اپنا سب کچھ قربان کردیں گے۔حالانکہ یہاں پر ناموسِ رسالت کا کوئی سوال نہیں تھا ،ایک بلوہ کے واقعہ پر بات ہو رہی تھی۔یہ بات قابلِ غور ہے کہ ایک بلوہ کا واقعہ ہوا تھا یقیناََ حکومت کا حق تھا کہ وہ قصوروار افراد کے خلاف قانونی کاروائی کرتی لیکن اس کا مذہبی عقائد سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی دنیا میں ایسا کہیں ہوتا ہے کہ اگر کوئی قانون شکنی کا مرتکب ہو تو اسمبلی میں اس کے مذہبی خیالات پر زور و شور سے بحث شروع ہو جائے۔حکومتی پارٹی کے اراکین اس مسئلہ کو مذہبی رنگ دینے میں پیش پیش تھے۔پیپلز پارٹی کے ایک رکنِ اسمبلی نے صاف الفاظ میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کامطالبہ کیا۔اور اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ احمدی بہت سے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔ پیپلز پارٹی کا نعرہ تھا ،اسلام ہمارا مذہب ہے،جمہوریت ہماری سیاست ہے اور سوشلزم ہماری معیشت ہے۔ایک حکومتی رکنِ اسمبلی،سابق کرکٹر کیپٹن حفیظ کاردار صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہمارا تو منشور ہی یہ ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے۔اس کے بعد ایک اور رکنِ اسمبلی نے کہا کہ ہمارے منشور میں سوشلزم بھی شامل ہے اس پر ایوان میں شور مچ گیا کہ غیر متعلقہ بات شروع کر دی گئی ہے، موضوع پر بات کی جائے۔وزیر اعلیٰ ،حنیف رامے صاحب نے بھی ختمِ نبوت پر ایمان کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ اپنے آپ کو اپنے خاندان کو اور اپنی جائیداد کو ناموسِ رسالت پر قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے کہا کہ ۱۹۵۳ء میں مارشل لاء کی مثال قائم ہوئی تھی اور اب بعض قوتیں مارشل لاء لگانا چاہتی ہیں لیکن جمہوریت کا کارواں چلتا رہے گا۔پھر وزیر اعلیٰ نے اس بات کا اعلان کیا کہ جسٹس صمدانی کو ربوہ سٹیشن کے واقعہ کی تحقیقات کے لئے مقرر کیا جا رہا ہے (۱۰)۔پنجاب اسمبلی میں حکمران پیپلز پارٹی کے اراکین جو رویہ دکھا رہے تھے اور جس قسم کے بیانات دے رہے تھے اس کا ذکر ہم کر چکے ہیں۔یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اس دور میں پیپلز پارٹی کا کوئی رکنِ اسمبلی وزیرِ اعظم بھٹو صاحب کے منشاء کے بغیر اس نوعیت کی بیان بازی کرنے کی جرأ ت نہیں کر سکتا تھا۔
اس پس منظر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۳۱ مئی کے خطبہ جمعہ کے آغاز میں سورۃ محمد کی یہ آیت تلاوت فرمائی۔
……… (محمد ۳۴،۳۶)
ترجمہ :اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو باطل نہ کرو۔
………تم ہی غالب آنے والے ہو اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ ہر گز تمہیں تمہارے اعمال (کا بدلہ ) کم نہیں دے گا۔
ان آیات کی تلاوت کے بعد حضور ؒ نے فرمایا :
’’امتِ مسلمہ کو ان آیات میںان بنیادی صداقتوں سے متعارف کرایاگیا ہے۔ایک تو یہ کہ اگر امتِ مسلمہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے عملاََ باہر نکلنے کی کوشش کرے تو ان کے اعمال کا موعود نتیجہ نہیں نکلے گا اور ان کے اعمال باطل ہو جائیں گے اور دوسرے یہ کہ دنیا جتنا چاہے زور لگا لے وہ امتِ مسلمہ پر ،اگر وہ امت اسلام پر حقیقی معنی میں قائم ہو کبھی غالب نہیں آسکتی۔علو اور غلبہ امتِ مسلمہ کے ہی مقدرمیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے فرمایا کہ ان کا ایک حقیقی تعلق اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے۔۔۔‘‘
پھر حضور نے فرمایا:
’’ہمیں سختی سے اس بات کی تاکید کی گئی تھی کہ گالیوں کا جواب دعاؤں سے دینا اور جب کسی کی طرف سے دکھ دیا جائے تو اس کا جواب اس رنگ میں ہو کہ اس کے لئے سکھ کا سامان پیدا کیا جائے۔اسی لئے پچھلے جمعہ کے موقع پر بھی میں نے ایک رنگ میں جماعت کو خصوصاََ جماعت کے نوجوانوں کو یہ نصیحت کی تھی کہ یہ تمہارا مقام ہے اسے سمجھو اور کسی کے لئے دکھ کا باعث نہ بنو اور دنگا فساد میں شامل نہ ہو اور جو کچھ خدا نے تمہیں دیا ہے وہ تمہارے لیے تسکین کا بھی باعث ہے،ترقیات کا بھی باعث ہے۔وہ ہے صبر اور دعا کے ساتھ اپنی اپنی زندگی کے لمحات گذارنا۔صبر اور دعا کے ساتھ اپنی زندگی کے لمحات گزارو مگر اہلِ ربوہ میں سے چند ایک نے اس نصیحت کو غور سے سنا نہیں اور اس پر عمل نہیں کیا اور جو فساد کے حالات جان بوجھ کر اور جیسا کہ قرائن بتاتے ہیں بڑی سوچی سمجھی سکیم اور منصوبہ کے ماتحت بنائے گئے تھے اس کو سمجھے بغیر جوش میں آ کر وہ فساد کی کیفیت جس کے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی مخالفت کی اس تدبیر کو کامیاب بنانے میں حصہ دار بن گئے اور فساد کا موجب ہوئے۔
۲۹؍ مئی کو سٹیشن پر یہ واقعہ ہوا ۔اس وقت اس واقعہ کی دو شکلیں دنیا کے سامنے آتی ہیں۔ایک وہ جو انتہائی غلط اور باطل شکل ہے مثلاََ ایک روزنامہ نے لکھا کہ پانچ ہزار نے حملہ کر دیا ۔مثلاََ یہ کہ سوچی سمجھی سکیم کے ماتحت ایسا کیا گیا وغیرہ وغیرہ ۔یہ بالکل غلط ہے اس میں شک نہیں لیکن دوسری شکل یہ ہے کہ کچھ آدمیوں نے بہر حال اپنے مقام سے گر کر اور خدا اور رسول کی اطاعت کو چھوڑتے ہوئے فساد کا جو منصوبہ دشمنوں کی طرف سے بنایا گیاتھا اسے کامیاب کرنے میں شامل ہو گئے۔اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور چونکہ ایسا ہوا اور اگر دشمن کو آپ کے دس آدمی ایک ہزار نظر آتے ہیں تو اس سے آپ کی برأت نہیں ہوتی یہ تو اللہ تعالیٰ کی شان ہے لیکن آپ کی براء ت اس سے نہیں ہوتی جتنے بھی اس جھگڑے میں شامل ہوئے ۔انہوں نے غلطی کی اور سوائے نفرت اور مذمت کے اظہار کے ان کے اس فعل کے خلاف ہم کچھ نہیں کر سکتے نہ امام جماعت احمدیہ اور نہ جماعت ِ احمدیہ۔اس لئے انہوں نے تو غلطی کی اور چونکہ وہ دشمن کی سوچی سمجھی تدبیر تھی اور ایک نہایت بھیانک منصوبہ ملک کو خراب اور تباہ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا اب اس میں آپ کا ایک حصہ شامل ہو گیا اور اب ملک کے ایک حصہ میں آگ لگی ہوئی ہے اور اس آگ کو اس رنگ میں ہوا دی جا رہی ہے کہ یہ شدت اختیار کرے گی ۔یہ آگ جہاں لگی ہے وہاں ۱۹۵۳ ء کی آگ سے زیادہ شدید طور پر لگی ہوئی ہے ۔اُس وقت حکومتِ وقت زیادہ تدبر اور زیادہ انصاف سے کام لے رہی تھی۔اس وقت جو رپورٹیں آ رہی ہیں اگر وہ درست ہیںتو ان سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حکومتِ وقت نہ تدبر سے کام لے رہی ہے نہ انصاف سے کام لے رہی ہے۔۔۔۔
میں حقیقت بیان کرنے کے لیے یہ کہتا ہوں ورنہ میرا یہ کام نہیں تھا کہ میں یہ بتاؤں کہ ان کو کیا کرنا چاہئے۔جو سیاستدان ہیں ان کو اپنا مفاد خود سمجھنا چاہئے ۔اگر نہیں سمجھیں گے تو دنیا میں حکومتیں آتی بھی ہیں جاتی بھی ہیں۔میری اس سے کوئی غرض نہیں میں تو مذہبی آدمی ہوں۔
نصیحت کرنا میرا کام ہے ان کو بھی ایک رنگ میں نصیحت کر دی،سمجھنا نہ سمجھنا ان کا کام ہے لیکن اصل چیز میں آپ کے سامنے اول یہ لانا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے بھی غلطی کی،غلطی کی ہے اور ہمیں اس چیز کو تسلیم کرنا چاہئے ۔دوسرے یہ کہ صرف انہوں نے غلطی نہیں کی بلکہ انہوں نے اپنی نا سمجھی کے نتیجہ میں دشمن کے ایک سوچے سمجھے منصوبہ میںشمولیت کی اور جماعت کے لیے بھی پریشانی کے سامان پیدا کرنے کے موجب بنے اور ملک کے لیے بھی کمزوری کا سامان پیدا کرنے کے موجب بنے۔میں سمجھتا ہوں اور میں انہیں یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کم از کم دس ہزار مرتبہ استغفار کریں اور توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی معافی مانگیں ۔جو بھی اس معاملہ میں شامل ہوئے ہیں۔مجھے ان کا علم نہیں لیکن جو بھی شامل ہوئے ہیں وہ کم از کم دس ہزار مرتبہ استغفار کریں اور خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھکیں اور اپنی بھلائی کے لئے اور خود کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچانے کے لئے دس ہزار مرتبہ اس سے معافی مانگیں اور اس کے حضور عاجزانہ جھکے رہیں جب تک اللہ تعالیٰ انہیں معاف نہ کر دے۔‘‘(خطبات ِ ناصر جلد ۵ ص۵۳۴تا۵۳۶)
۳۱؍ مئی کو بھی حکومت نے حالات کو قابو پانے کے لیے کوئی خاص قدم نہیں اُ ٹھایا۔خاص طور پر صوبہ پنجاب میں مولوی لوگوں کو احمدیوں پر،ان کے گھروں ،ان کی مساجد اور ان کی دوکانوں پر حملے کرنے کے لیے لوگوں کو اکسا رہے تھے۔جن مقامات کا ذکر آچکا ہے ان میں تو فسادات جاری تھے۔ ان کے علاوہ اس روز ماموں کانجن ،کمالیہ،بھیرہ،دنیا پور،عارفوالہ،بہاولنگر،خانپور،ضلع رحیم یار خان، سانگرہ، سانگلہ ہل،حافظ آباد،مریدکے،گوجرانوالہ،منڈی بہاؤالدین،مری،کیمبل پور اور مظفر آباد بھی فسادات کی لپیٹ میں آگئے۔اسی روز ان فسادات نے پنجاب کی حدود سے نکل کر دوسرے صوبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔چنانچہ صوبہ سندھ میں سکھر میں اور سرحد میں پشاور میں بھی فسادات شروع ہو گئے۔احمدیوں پر ہر طرح کے وحشیانہ مظالم کئے جا رہے تھے۔ان پر ارتداد کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا لیکن حکومت اگر کچھ کر رہی تھی تو احمدیوں کو ہی گرفتار کر رہی تھی تا کہ ان کی قوت دافعت دم توڑ دے۔اس روز بھی مفسدین پر گرفت کرنے کی بجائے گوجرانوالہ میںان بارہ خدام کو گرفتار کر لیا گیا جو اپنی مسجد کی حفاظت کے لیے ڈیوٹی دے رہے تھے۔اور کیمبلپور میں احمدیوں کو پولیس نے حکم دیا کہ وہ اپنے گھروں تک محدود رہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے ۳۰؍ مئی کو پنجاب اسمبلی میں یہ اعلان کیا کہ ربوہ کے واقعہ کی ہائی کورٹ کے جج سے تحقیقات کرائی جائیں گی۔اور انہوں نے اسمبلی کو مطلع کیا کہ ربوہ سے ۷۱ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور جرم ثابت ہونے پر سخت سزا دی جائے گی۔(۱۱)
صمدانی ٹریبیونل کی کاروائی شروع ہوتی ہے
ہائی کورٹ کے جج جسٹس صمدانی نے جنہیں اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے مقرر کیا گیا تھا اسی روز لاہور میں ابتدائی کام شروع کر دیا۔یہاں ایک امر قابلِ ذکر ہے کہ ایک عدالتی کمیشن ۱۹۵۳ء میں بھی قائم کیا گیا تھا لیکن اس کے سپرد یہ کام تھا کہ وہ ۱۹۵۳ء کے فسادات کے تمام پہلوؤں پر تحقیق کر کے رپورٹ مرتب کرے اور اس کے دائرہ کار میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم پر تحقیق کرنا بھی آتا تھا اور احمدی پر ہونے والے مظالم کے متعلق تحقیق کر کے اس کے بارے میں بھی مواد بھی رپورٹ میں شامل کیا گیا تھا۔لیکن جب کمیشن کے سپرد صرف یہ کام تھا کہ وہ ربوہ کے سٹیشن پر ہونے والے واقعہ پر تحقیق کرے ۔حالانکہ جب اس کمیشن نے کام شروع کیا تو پورے ملک میں احمدیوں پر ہر قسم کے مظالم کئے جا رہے تھے ۔ان کی املاک کو لوٹا جا رہا تھا ان کے گھروں کو نذرِ آتش کیا جا رہا تھا ،ان کو شہید کیا جا رہا تھا لیکن ان سب واقعات پر کبھی تحقیقات نہیں کی گئیں ان کے بارے میں حقائق کبھی قوم کے سامنے نہیں لائے گئے۔جب جسٹس صمدانی سے یہ سوال کیا گیا کہ ان کے کمیشن کا کام صرف سٹیشن والے واقعہ تک محدود کیوں رکھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ تو گورنمنٹ کا کام تھا۔جو کام گورنمنٹ نے کیا ہے میں اس کے متعلق جوابدہ نہیں ہوں ۔جو کچھ میں نے کیا ہے اس کے متعلق اگر سوال پوچھیں تو جواب دے سکوں گا۔
جب صمدانی ٹریبونل میں گواہوں کے پیش ہونے کا عمل شروع ہوا تو یہ بات جلد ہی سامنے آ گئی کہ ایک طبقہ اس واقعہ کی تفصیلات کو بہت مبالغہ کر کے اور اس میں جھوٹ ملا کر پیش کر رہا ہے تا کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ یہ واقعہ خود احمدیوں نے ہی کرایا تھا تا کہ ملک گیر فسادات شروع کرائے جا سکیں اور اس کی آڑ میں احمدی پاکستان کی حکومت پر قبضہ کر سکیں۔ حقائق کا ادنیٰ سا بھی علم رکھنے والا اس الزام کو مضحکہ خیز ہی سمجھے گا لیکن اس وقت ٹریبونل میں یہ الزام بڑے شد و مد سے پیش کیا جا رہا تھا(مشرق ۲۲جون ۱۹۷۴ء ص۱)۔ایک گواہ تو اس حد تک آ گے چلے گئے کہ انہوں نے ٹریبونل کے رو برو جماعت ِ احمدیہ پر یہ الزام لگا دیا کہ کہ یہ فسادات احمدیوں نے خود ہی شروع کرائے ہیں تا کہ ملک میں بد امنی پھیل جائے اور اس سے فائدہ اُ ٹھا کر احمدی جرنیل اقتدار پر قبضہ کر لیں اور ساتھ یہ شوشہ چھوڑا کہ جنرل ٹکا خان صاحب کے بعد جو کہ اس وقت پاکستانی بری افواج کے سربراہ تھے چار سینئر جرنیل قادیانی ہیں۔یہ بات بھی بالکل خلاف ِ واقعہ تھی اور اگر ٹریبونل چاہتا تو اس دعویٰ کو آسانی سے چیک کیا جا سکتا تھا لیکن ایسانہیں کیا گیا۔اور ایک طرف تو یہ سٹوڈنٹ لیڈر یہ الزام لگا رہے تھے اور دوسری طرف یہ اعتراف بھی کر رہے تھے کہ جس جلسے سے میں نے خطاب کیا تھا اس میں مقررین نے یہ اعلان کیا تھا کہ اگر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت نہ قرار دیا گیا تو پنجاب کے کسی تعلیمی ادارے میں طلباء کو داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔(مشرق ۲۰ جون ۱۹۷۴ء ص۱) اس وقت جو ملک میں حالات پیدا کئے جا رہے تھے ان میں کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ آخر وہ کون سے سینئر جرنیل ہیں جو کہ عقیدہ کے اعتبار سے احمدی ہیں ۔نہ یہ سوال عدالت میں کیا گیا اور نہ ان اخبارات میں جہاں ان الزامات کو سرخیوں کے ساتھ صفحہ اول پہ شائع کیا جا رہا تھا یہ سوال اٹھایا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ جب احمدیت کے مخالف کسی خلاف ِ قانون سرگرمی کی منصوبہ بندی کر رہے ہوں تو وہ یہ واویلا شروع کر دیتے ہیں کہ احمدی اس بات کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب چند سال کے بعد ایک جرنیل نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ان کا تعلق جماعت ِ احمدیہ سے نہیں تھا بلکہ ان کا شمار احمدیت کے اشد ترین مخالفین میں سے ہوتا تھا۔ جب ہم نے جسٹس صمدانی صاحب سے اس الزام کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ جہاں تک مجھے یاد ہے اس بات پر کوئی توجہ نہیں کی گئی تھی۔جسٹس صمدانی صاحب کی یہ بات تو درست ہے کہ اس بات پر شاید ٹریبونل نے کوئی توجہ نہیں کی تھی لیکن یہ جھوٹے الزامات لگا کر اور انہیں نمایاں کر کے شائع کر کے ملک میں احمدیو ں کے خلاف فسادات تو بھڑکائے جا رہے تھے۔ایک اور صاحب نے تو ایک روز ٹریبونل کے روبرو یہ بیان بھی دیا کہ حضرت مصلح موعود ؓ نے یہ اعلان کیا تھا کہ خدام الاحمدیہ اسلام کی فوج ہے اور ہم بہت جلد اقتدار میں آنے والے ہیں(مشرق ۲۷ جون ۱۹۷۴ء ص۱)۔ اس قسم کے رویہ کے متعلق ہمارے ساتھ انٹرویو میں جسٹس صمدانی صاحب نے فرمایا کہ چند گواہوں کی کوشش تھی کہ ٹریبونل کو احمدیوں کے خلاف متعصب کردیا جائے لیکن میں متعصب نہیں ہوا۔
حکومت کی طرف سے اس موقع پر فرقہ وارانہ خبروں کی اشاعت پر پابندی لگائی گئی اور جب صوبائی اسمبلی میں اس قدم کے خلاف تحاریکِ التوا پیش ہوئیں تو سپیکر نے انہیں خلاف ضابطہ قرار دے دیا۔لیکن بڑی احتیاط سے یہ خبریں بھی نہیں شائع کی جا رہی تھیں کہ ملک بھر میں احمدیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور کئی احمدیوں کو وحشیانہ انداز میں شہید کیا جا رہا ہے۔تمام اخبارات نے اس معاملہ میں ایک مصلحت آمیز خاموشی اختیار کی ہوئی تھی۔(۱۲)
یکم سے پندرہ جون تک کے حالات
یکم جون تک حکومت اور قانون نافذ کرنے والوں کا رویہ واضح ہو کر سامنے آ چکا تھا۔اور اب مفسدین محسوس کر رہے تھے کہ انہیں کھلی چھٹی ہے۔اس روز ۴۱ مقامات پر فسادات ہوئے۔سکھر اور پشاور کے علاوہ باقی سب شہر اور قصبے صوبہ پنجاب کے تھے۔ یوں توپورے صوبے میں فسادات کی آگ لگی ہوئی تھی لیکن اس روز سب سے بڑا سانحہ گوجرانوالہ میں پیش آیا۔یہاں پر سول لائن اور سیٹلائٹ ٹاؤن کے علاوہ باقی سب علاقوں میں احمدیوں کے مکانوں اور دوکانوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔بلوائیوں نے پہلے محمد افضل صاحب اور پھران کے بیٹے محمد اشرف صاحب کو بڑے درد ناک انداز میںشہید کیا ۔ پہلے محمد اشرف صاحب کے پیٹ میں چھرے مارے گئے جس سے انتڑیاں باہر آ گئیں اور پھر اینٹوں سے سر کوٹا گیا۔جب دم توڑتے ہوئے محمد اشرف نے پانی مانگا تو کسی ظالم نے منہ میں ریت ڈال دی۔ جب نوجوان بیٹے کو اس طرح قتل کر دیا گیا تو باپ کو کہا کہ تم اب بھی ایمان لے آؤ اور مرزا غلام احمد قادیانی کو گندی گالیاں دو۔انہوں نے جواب دیا کہ کیا تم مجھے اپنے بیٹے سے بھی کمزور ایمان کا سمجھتے ہو۔اس پر ان کو بھی اسی طرح شہید کر دیا گیا۔پھر دوپہر کے وقت سعید احمدخان صاحب ،ان کے خسر چوہدری منظور احمد صاحب اور چوہدری منظور احمد صاحب کے بیٹے چوہدری محمود احمد صاحب کو شہید کردیا گیا۔ جب سعید احمد خان صاحب کو شہید کرنے کے لیے جلوس آیا تو ان کے ساتھ پولیس بھی تھی ۔سعید احمد خان صاحب نے تھانیدار کو کہا کہ وہ بلوائیوں کو روکیں مگر سب بے سود جب وہ واپس جانے کے لیے مڑے تو تھانیدار نے اشارہ کیا اور جلوس آپ پر ٹوٹ پڑا اور پتھروں اور ڈنڈوں سے آپ کو شہید کر دیا۔ ان کے علاوہ قریشی احمد علی صاحب کو بھی سفاکانہ انداز میں شہید کر دیا گیا۔ گوجرانوالہ میں بہت سے مواقع پر پولیس بلوائیوں کو روکنے کی بجائے ان کا ساتھ دے رہی تھی۔
یکم جون کو مندرجہ بالا مقامات پر سارا دن احمدیوں کے خلاف جلوس نکلتے رہے،اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں اور لوگوں کو احمدیوں کی قتل و غارت پر اکسایا گیا۔پہلے کی طرح اس روز بھی مفسدین کی بڑی توجہ احمدیوں کی دوکانوں کی طرف رہی۔اس کے پیچھے احمدیوں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ لوٹ مار کر کے خود فائدہ اُ ٹھانے کا جذبہ بھی کارفرما تھا۔سانگلہ ہل ،وزیر آباد اور ڈسکہ میں احمدیوں کی فیکٹریوں کو آگ لگائی گئی اور یہاں سے کثیر مقدار میں سامان لوٹا گیا۔اس کے علاوہ احمدیوں کے مکانوں پر اور ان کی مساجد پر حملے کئے گئے۔
ایک طرف تو یکم جون کو احمدیوں کو بے دردی سے شہید کیا جا رہا تھا اور ملک کے کئی مقامات پر احمدیوں کے گھروں ،مساجد،دوکانوں اور فیکٹریوں کو لوٹا جا رہا تھا اور ان کو آگ لگائی جا رہی تھی،اور دوسری طرف اسی روز قومی اسمبلی میں بھی سٹیشن کے واقعہ کی بازگشت سنائی دی۔لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ احمدیوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن کچھ Creditلینے کے لیے بیتاب تھی۔چوہدری ظہور الٰہی جو مسلم لیگ سے اسمبلی کے ممبر تھے وہ سٹیشن کے واقعہ پرتحریک ِ التوا پیش کرنا چاہتے تھے۔سپیکر کا اصرار تھا کہ یہ معاملہ صوبائی حکومت سے تعلق رکھتا ہے اور اس پر تحقیق کے لیے جج مقرر کیا جا چکا ہے،اس لیے ممبرانِ قومی اسمبلی اپنی تقریر کو صرف قانونی نکات تک محدود رکھیں۔اور چوہدری ظہور الٰہی صاحب سٹیشن پر ہونے والا واقعہ اپنی طرز پر پورا کا پورا قومی اسمبلی کو سنانے پر مصر تھے،زیادہ تر وقت اسی بحث میں گزر گیا۔لیکن چند قابلِ ذکر امور یہ تھے کہ پچھلے دو روز سے لائلپور میں احمدیوں کے مکانوں کو آگ لگائی جا رہی تھی۔جب قومی اسمبلی میں بحث نے طول پکڑا تو ایک ممبر نے کہا کہ اپوزیشن والے اس مسئلہ کو ہوا دے کر ملک میں افراتفری پیدا کرنا چاہتے ہیں۔اور وزیرِ قانون نے کہا کہ لائلپور میں مکان کس نے جلائے تھے؟اس میں اشارہ تھا کہ لائلپور میں احمدیوں کے مکان جلانے کے پیچھے اپوزیشن کی کچھ جماعتیں ملوث تھیں۔اس پر چوہدری ظہور الٰہی صاحب غصے سے بھڑک اٹھے۔ایک ممبر اسمبلی مولوی غلام غوث ہزاروی نے اس بات پر زور دیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کو گرفتار کرنا ضروری ہے۔اور ایک رکنِ اسمبلی احمد رضا قصوری صاحب نے،جو احمدیت کے خلاف مختلف جگہوں پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے تھے،نے یہ ایک جملہ کہاکہ سٹیشن پر یہ واقعہ انٹیلی جنس نے کرایا ہے ۔الغرض یہ دوڑ لگی ہوئی تھی کہ کسی طرح احمدیت کی مخالفت میں کچھ بیان بازی کر کے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کیے جائیں۔(۱۳)
جب ہم فسادات کے آغاز سے لے کر پندرہ جون تک فسادات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ختم ہونے کی بجائے ان کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور حکومت بھی ان پر قابو پانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کر رہی تھی۔ حکومت کا رویہ کیا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ۳ جون کو حکومت کے ریونیو منسٹر رانا اقبال احمد صاحب نے گوجرانوالہ کے بار روم میں وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ احمدیوں کا جو نقصان ہوا ہے وہ انکی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔جب جلوس آیا تو افضل صاحب نے پستول دکھایا تو عوام نے مشتعل ہو کر انہیں قتل کردیا۔اگر احمدی مزاحمت نہ کرتے تو کوئی خاص نقصان نہ ہوتا۔پھر انہوں نے کچھ احمدیوں کا نام لے کر کہا کہ وہ مجھ سے سختی سے پیش آئے اور پھر وزیر صاحب نے فرمایا کہ علماء نے بہت تعاون کیا ہے اور ان کا رویہ معقول تھا۔کوئی بھی صاحبِ شعور شخص اگر وزیر صاحب کے ارشاد کا سرسری تجزیہ بھی کرے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ با وجود اس کے کہ کتنے ہی احمدی گوجرانوالہ میں شہید کر دیئے گئے تھے لیکن وزیر صاحب فرما رہے تھے کہ احمدی غلطی کر رہے ہیں وہ اگر اپنی املاک کا دفاع نہ کریں اور جلوسوں کو لوٹ مار کی خواہش پوری کرنے دیں تو احمدیوں کی جان بچ جائے گی ۔گویا ان کی حکومت میں اپنی املاک کا جائز دفاع کرنا بھی ایک نا قابلِ معافی جرم تھا۔اور حکومت کا کام صرف مظلوموں پر اعتراض کرنا تھا۔اور ۱۹۷۴ء کے فسادات میں کتنے ہی احمدی اس حالت میں شہید کر دیئے گئے کہ ان کے پاس اپنے دفاع کے لیے ایک چھڑی بھی نہیں تھی۔ان نہایت قابل وزیر صاحب نے اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا کہ ان کی شہادت کس وجہ سے ہوئی۔پندرہ جون تک پاکستان کے ۱۲۰ شہروں اور قصبوں میں فسادات کا آ غاز ہو چکا تھا۔ان میں اکثر مقامات صوبہ پنجاب سے تعلق رکھتے تھے لیکن پاکستان کے باقی صوبوں اور شمالی علاقہ جات کے کچھ مقامات میں فسادات کی آگ بھڑکنی شروع ہو چکی تھی۔احمدیوں کو دھمکیاں دے کر ارتداد پر آمادہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ان کو مارا پیٹا جا رہا تھا۔ان کے گھروں پر حملے ہو رہے تھے،پتھراؤ کیا جا رہا تھا ،سامان لوٹا جا رہا تھا اور ان سترہ دنوں میں کئی مقامات پراحمدیوں کے۲۷۰ مکانات کو نذرِ آتش کیا گیا یا انہیں لوٹا گیا۔احمدیوں کی دوکانیںاور فیکٹریاں بھی خاص طور پر شورش کرنے والوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔پندرہ جون تک احمدیوں کی ۳۴۰ دوکانوں کو لوٹ مار یا آتشزدگی کا نشانہ بنایا گیا اور چھ فیکٹریوں کو تاخت و تاراج کیا گیا۔دیگر کاروباری مراکز کا نقصان اس کے علاوہ تھا۔ فسادات کے ابتدائی سترہ دنوں میںاحمدیوں کی ۲۵ مساجد کو شہید کیا گیا اور تین پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی آ شیر باد سے قبضہ کر لیا گیا۔۲۰ مقامات پر جماعت کی قائم کردہ چھوٹی چھوٹی لائبریریوں کو آگ لگا دی گئی اور قرآنِ کریم کے کئی نسخے شہید کر دیئے گئے۔کئی جگہوں پر پولیس نے فسادات پر قابو پانے کی بجائے ان احمدیوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا جو اپنے مکانات کی حفاظت کر رہے تھے۔پندرہ جون تک ربوہ کے اسیران سمیت ۱۰۸ احمدیوں کو گرفتار کیا جا چکا تھا۔بہت سے شہروں میں مولوی لوگوں کو اکسا رہے تھے کہ وہ احمدیوں کا بائیکاٹ کریں اور ان کو ضروریاتِ زندگی بھی نہ فروخت کریں۔ربوہ کے ارد گرد کے دیہات کو بھی بھڑکایا جا رہا تھا کہ وہ ربوہ تک ضروریاتِ زندگی نہ پہنچائیں۔اب تک ۲۱ احمدی جامِ شہادت نوش کر چکے تھے اور ۹ کے متعلق یہ علم نہیں تھا کہ وہ زندہ ہیں یا انہیں بھی شہید کیا جا چکا ہے۔ دس شہداء کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا اور ساہیوال، ٹوپی اور بالا کوٹ ، کوئٹہ، حافظ آباد،ٹیکسلا،پشاور اور ایبٹ آباد کے احمدی بھیشہادت کے مقام پر سرفراز ہوچکے تھے۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے شہدائے احمدیت ناشر طاہر فائونڈیشن ربوہ)
۲ ؍جون کو گوجرانوالہ میں مکرم بشیر احمد صاحب اور منیر احمد صاحب،غلام قادر صاحب اور چوہدری عنایت اللہ صاحب نے شہادت پائی۔۴ ؍جون کو مکرم محمد الیاس عارف صاحب نے ٹیکسلا میں اور ۸ ؍جون کو مکرم نقاب شاہ مہمند صاحب کو پشاور میں شہید کیا گیا۔پھر ۹؍ جون کو ٹوپی میں غلام سرور صاحب اور ان کے بھتیجے اسرار احمد خان صاحب کو شہید کر دیا گیا۔۹؍ جون کو ہی کوئٹہ میں مکرم سید مولود احمد بخاری صاحب کو شہید کیا گیا۔۱۱ جون کو مکرم محمد فخرالدین بھٹی صاحب کو ایبٹ آباد میں اور اسی تاریخ کو مکرم محمدزمان خان صاحب مکرم مبارک احمد خان صاحب کوبالا کوٹ میں شہید ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ایبٹ آباد میں مکرم محمد فخرالدین صاحب کو جس انداز میں شہید کیا گیا وہ اتنا بہیمانہ تھا کہ جس کے پڑھنے سے مشرکینِ مکہ کے کیے گئے مظالم کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ان کو شہیدکرنے کے بعد بھی ہجوم ان کی لاش پر گولیاں برساتا رہا ۔نعش کے ناک کان کاٹ کر مثلہ کیا گیا۔اور خنجروں سے وار کر کے نعش کی بے حرمتی کی گئی۔بھٹی صاحب کے گھر کا سارا سامان نکال کر اسے نذرِ آتش کیا گیا اور اس الاؤ میں ان کی لاش کو پھینک دیا گیا۔شرپسند جلتی ہوئی آگ میں بھی نعش پر سنگ باری کرتے رہے۔ختم نبوت اور ناموسِ رسالت کے نام پر تحریک چلانے والوں کی اخلاقی حالت کا یہ عالم تھا۔
ان فسادات کے آ غاز میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم کا مختصر ذکر کرنے کے بعد ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ ان دنوں میں ملک کی قومی اسمبلی میں اس مسئلہ پر کیا بحث کی جارہی تھی۔۳ جون ۱۹۷۴ ء کو ایک بار پھر سٹیشن کے واقعہ پرقومی اسمبلی میں بحث شروع ہو گئی۔ وقفہ سے کچھ دیر پہلے جماعت ِ اسلامی کے پروفیسر غفور احمد صاحب نے کہا کہ با وجود اس کے کہ اس واقعہ کا تعلق صوبائی حکومت سے ہے لیکن یہ ایک قومی اہمیت کا مسئلہ ہے اس لئے اس پر قومی اسمبلی میں بحث ہونی چاہئے اور یہ بھی کہا کہ اس واقعہ کا تعلق مذہب سے ہے۔اس کے بعد جمعیت العلماء اسلام کے مفتی محمود صاحب کچھ نکات بیان کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔انہوں نے کہا کہ ربوہ میں جو واقعہ ہوا ہے وہ ایک جارحانہ کاروائی ہے جو مرزائی فرقہ کے لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف کی ہے اور یہ ایک قومی مسئلہ ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا یہ پاکستان کی سالمیت کا مسئلہ ہے ۔اور دعویٰ کیا کہ ہم ایوان کے سامنے ثابت کریں گے کہ یہ ایک منصوبہ تھا اور ایک پروگرام تھا اور اتفاقی حادثہ نہیں تھا۔
ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ سٹیشن پر ہونے والا واقعہ جماعتی تعلیمات کے اور قانون کے خلاف تھا۔لیکن یہ واقعہ جس میں کسی شخص کی جان نہیں گئی،کسی مضروب کی ہڈی نہیں ٹوٹی ،جو ایک قصبہ تک محدود تھا،تو مفتی محمود صاحب کے نزدیک پاکستان کی سالمیت کے لیے ایک بڑا خطرہ تھا اور ایک بھیانک جارحیت تھی۔ لیکن اس روز تک پاکستان کے کئی مقامات پر احمدیوں کے خلاف فسادات شروع ہو چکے تھے اور انہیں ہر طرح کے مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔اور کئی احمدیوں کو ملک کے مختلف مقامات پرظالمانہ طریق پر شہید کیا جا چکا تھا ۔یہ بات مفتی صاحب کے نزدیک نہ تو ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ تھی اور نہ ہی اس سے کسی قسم کی جارحیت کی بو آتی تھی۔ اور نہ ہی دیگر ممبرانِ اسمبلی کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ احمدیوں پر ہونے والے ان مظالم پر دو حرف ہی کہہ دیتے۔
وقفہ کے بعد وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو تقریر کے لیے کھڑے ہوئے۔انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے مہذب لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہم میں برداشت ختم کیوں ہو گئی ہے۔کیا ہم اپنے مسائل کو مہذب طریق سے حل نہیں کر سکتے۔جب بھی ہمارا ایک مسئلہ ختم ہوتا ہے ہم ایک اور مسئلہ تلاش کر لیتے ہیں تاکہ ہم آپس میں لڑ سکیں۔پھر کہا کہ یہ مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں۔یہ مسئلہ تقسیمِ ہند سے پہلے سے موجود تھا۔یہ وہ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے تقسیمِ ہند کے بعد لاہور میں پہلا مشہور مارشل لاء لگا تھا۔مجھے کوئی حیرت نہیں کہ اس معاملہ کا آ غاز کیوں ہوا ہے جب ہم ایک مسئلہ حل کر لیتے ہیں تو ہم ایک دوسرا مسئلہ پیدا کرتے ہیں۔پھر انہوں نے اپوزیشن اراکین کے بعض نکات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس سے انکار نہیں کہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔بے شک یہ ایک قومی مسئلہ ہے۔ہم کہتے ہیں کہ غالب امکان ہے کہ یہ ایک منصوبہ کے تحت کیا گیا ہے۔اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس مسئلہ کو حل کرنا چاہئے لیکن یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔اور نہ ہی ہم نے اسے پیدا کیا ہے۔
پھر انہوں نے کہا کہ اس پر بحث بھی ہونی چاہئے لیکن اس وقت جب خون بہنا بند ہو جائے ،اور ملک میں امن کا راج ہو ،پھر ہمیں ٹھنڈے دماغ سے اور معتدل انداز میں اس پر بات کرنی چاہئے اور چاہئے کہ ہم اس بارے میں کسی فیصلہ پر پہنچیں۔
اس کے بعد وزیر ِ اعظم نے اپوزیشن جماعتوں پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ ایک عرصہ سے اس مسئلہ کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے تھے اور موقع کی تلاش میں تھے کہ وہ انہیں کوئی موقع ملے کیونکہ انہیں دوسرے مواقع پر حکومت کے مقابل پر زک اُ ٹھانی پڑی ہے۔پھر انہوں نے کہا کہ آئین کی منظوری اپوزیشن ممبران نے بھی دی تھی اور اس کے آرٹیکل۱۰۶(۱۳) میں اقلیت کی وضاحت کی گئی ہے۔ ۱۹۷۳ء کا آئین جو بھٹو صاحب کی حکومت کا ایک کارنامہ سمجھا جاتا ہے ۔اور جس پر اکثر اپوزیشن کے اراکین نے بھی دستخط کیے تھے۔اس کے آرٹیکل ۱۰۶ (۱۳) میں صوبائی اسمبلی میں مذہبی اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کا ذکر ہے۔اور ان مذہبی اقلیتوںکے نام بھی لکھے ہیں۔اور آئین میں یہ اقلیتیں عیسائی، ہندو، سکھ ،بدھ اور پارسی لکھی گئی ہیں۔بھٹو صاحب یہ نکتہ بیان کر رہے تھے کہ جب آئین منظور ہوا تھا تو اپوزیشن کے اکثر علماء ،جن میں مفتی محمود صاحب بھی شامل تھے اس پر دستخط کیے تھے بلکہ اس کی منظوری پر مفتی صاحب نے ہی دعا کرائی تھی۔اس آئین کو بنانے کے لیے اسمبلی نے جو کمیٹی تشکیل دی تھی،مفتی محمود صاحب اس کے ممبر بھی تھے اور اس وقت انہوں نے مختلف نکات اٹھائے تھے لیکن یہ نکتہ نہیں اٹھایا تھا کہ احمدی غیر مسلم اقلیت ہیں ان کا نام بھی آئین کی اس شق میں غیر مسلم اقلیتوں میں درج ہونا چاہئے۔
اس مرحلہ پر یہ کارروائی ایک گرا ہوا انداز اختیار کر گئی۔اس مرحلہ پررکن اسمبلی احمد رضا قصوری نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ نو اراکین نے آئین پر دستخط نہیںکیے تھے۔(دراصل تین اراکین نے اس آئین کی منظوری کے وقت ووٹ نہیں دیا تھا۔یہ تین اراکین شاہ احمد نورانی صاحب ،محمود علی قصوری صاحب اور احمد رضا قصوری صاحب تھے )(۱۴)۔اس پر وزیر اعظم غصہ میں آگئے اور کہا
You keep quiet. I have had enough of you. absolute poison. I will not tolerate your nuisance
ترجمہ: خاموش رہو ۔میں تمہیں کافی برداشت کر چکا ہوں۔مکمل زہر۔میں تمہاری بدتمیزی برداشت نہیں کر وں گا۔
اس پر تلخی بڑھی اور احمد رضاقصوری صاحب نے وزیرِ اعظم کو بندر کہا ۔پھر سپیکر نے مداخلت کی اور وزیرِ اعظم نے پھر تقریر شروع کی۔
اس کے بعد وزیر ِ اعظم نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم نے آئین میں صدر اور وزیر اعظم کے حلف میں ختمِ نبوت کے عقیدہ کا حلف داخل کیا ہے اور کہا کہ اس طرح ہم نے واضح کیا ہے کہ پاکستانی قوم ختمِ نبوت پر ایمان لاتی ہے اور یہ کہ ہمارے نبی کے بعد اب کوئی اور نبی نہیں ہو سکتا ۔اور پھر وزیر ِ اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں عدالتی تحقیقات کے نتائج کا انتظار کرنا چاہئے۔(۱۵)
اس روز جب قومی اسمبلی میں کوئی شخص یہ کہنے کو تیار نہیں تھا کہ گوجرانوالہ میں اتنے احمدی شہید کر دیئے گئے ہیں ۔پاکستان میں کتنے ہی مقامات پر احمدیوں کو ہر طرح کے مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ملک کے وزیر ِ اعظم بھی اگر کوئی بات کر رہے تھے تو بہت عمومی انداز میں کہ ہمیں ایک دوسرے سے لڑنا نہیں چاہئے ،ملک میں پہلے ہی بہت سے مسائل ہیں اور جو پورے ملک میں احمدیوں پر جو مظالم ہو رہے تھے ان پر وہ کھل کر کچھ نہیں کہہ رہے تھے۔آج ملک کے سب سے بالا منتخب اداروں میں بھی کوئی احمدیوں پر ہونے والے مظالم پر ایک لفظ کہنے کو تیار نہیں تھا کیونکہ یہ سب سمجھ رہے تھے کہ یہ تو ایک لاچار اور کمزور سا گروہ ہے اس کے متعلق آواز بلند کر کے ہم اپنا سیاسی مستقبل کیوں خطرہ میں ڈالیں ۔ لیکن ملک کی تاریخ کے سب سے مضبوط وزیرِ اعظم کو اندازہ نہیں تھا کہ آج کی بحث میں ان کے منہ سے ایک ایسا جملہ نکل گیا ہے جو کچھ برس بعد ان کے خلاف قتل کے مقدمہ میں دلیل کے طور پر پیش کیا جائے گا ۔بھٹو صاحب نے احمد رضا قصوری صاحب کو کہا تھا کہ میں تمہارا Nuisance برداشت نہیں کر سکتا ۔ کچھ سال بعد جب بھٹو صاحب پر یہ مقدمہ چل رہا تھا کہ انہوں نے احمد رضا قصوری صاحب پر قاتلانہ حملہ کرایا ،جس میں ان کے والد قتل ہو گئے تو یہی جملہ ان کے خلاف دلیل کے طور پر پیش کیا گیا کہ انہوں نے قومی اسمبلی میں اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ اب قصوری صاحب کو برداشت نہیں کر سکتے۔چنانچہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ بھٹو صاحب احمد رضا صاحب کو راستہ سے ہٹانا چاہتے تھے۔(۱۶)
اگلے روز بھی قومی اسمبلی میںاس موضوع پر مختصر سی گفتگو ہوئی۔اور مفتی محمود صاحب نے سٹیشن والے واقعہ کے متعلق کہا:
’’۔۔۔آج میں نے اخبار میں پڑھا ہے کہ مرزا ناصر کو بھی تحقیقات میں شامل کر لیا گیاہے۔ہم یہ جانتے ہیںکہ ربوہ میں کوئی واقعہ ان کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔لہٰذا اسکو گرفتار کر لیا جائے۔‘‘(۱۷)
اس روز قومی اسمبلی میں ربوہ کے سٹیشن پر ہونے والے واقعہ کے بارے میں سات تحاریکِ التوا پیش کی گئیںاور اپوزیشن نے کہا کہ وزیر ِ اعظم نے ان حالات کا سارا الزام ہم پر لگا دیا ہے اور ہم جواب دینا چاہتے ہیں۔ لیکن سپیکر نے اس دن ان پر بحث کی اجازت نہیں دی۔اس پر اپوزیشن کے اراکین نے واک آؤٹ کیا اور نکلتے ہوئے ختم ِ نبوت زندہ بادکے نعرے لگائے۔
۵؍ جون کے اخبارات میں یہ خبریں شائع ہونے لگ گئیں کہ حکومت قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے اور اس بارے میں سرکاری فیصلہ کا جلد اعلان کر دیا جائے گا۔(۱۸)
۹ ؍جون کو لاہور میں کل پاکستان علماء و مشائخ کونسل منعقد ہوئی اور اس میں مطالبہ پیش کیا گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر انہیں کلیدی اسامیوں سے برطرف کیا جائے اور ربوہ کی زمین ضبط کر لی جائے ورنہ ۱۴؍ جون سے ملک گیر ہڑتال کر دی جائے گی۔ (۱۹)
اس کتاب کی تالیف کے دوران جب ہم نے پروفیسر غفور احمد صاحب سے انٹرویو کیا اور یہ دریافت کیا کہ کیا یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے کہ کسی گروہ کے متعلق یہ مطالبہ کیا جائے کہ اس سے تعلق رکھنے والے کلیدی آسامی پر فائز نہیں ہونے چاہئیں۔اس پر پہلے انہو ں نے جواب دیا کہ آئین میں تو صرف صدر اور وزیر اعظم کے عہدہ کے لئے پابندی ہے دوسرے تمام عہدوں پر قادیانیوں سمیت کوئی بھی مقرر ہو سکتا ہے۔جب ہم نے انہیں پھر یاد دلایا کہ یہ مطالبہ اس وقت کی اپوزیشن کی طرف سے کیا گیا تھا جس کے وہ خود رکن تھے تو اس پر انہوں نے فرمایا۔
’’ہوگا۔میں نے آپ کو بتایا ناں کہ اس ساری چیز کو اس کے بیک گراؤنڈ میں دیکھیں۔ قادیانیوں کو بھی اس بات کا احساس کرنا چاہئے کہ وہ اس ملک کے شہری ہیںتو کیا بات ہے کہ ملک کی ایک بہت بڑی Majority کے جذبات ان کے خلاف ہیں ۔کوئی نہ کوئی وجہ تو اس کی ہو گی۔‘‘پھر کہنے لگے کہ اسکی وجہ میں نے آپ کو یہ بتائی ہے کہ جب آپ اپنے اثر کو ناجائز استعمال کریں گے تو اس سے دوسرےHurtہوں گے۔اور پھر اس کی یہ مثال دی کہ سر ظفراللہ کی لوگ Respectکرتے تھے کہ انہوں نے پاکستان کو Preach کیا لیکن انہوں نے میرٹ کی بجائے تعلقات پر بہت بھرتیاں کیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کیبنٹ میں بیٹھے ہوئے تھے اور جگہ بھی کر سکتے تھے۔‘‘
پروفیسر غفور احمد صاحب کا یہ بیان بہت دلچسپ ہے۔اول تو یہی بات محلِ نظر ہے کہ ملک کی اکثریت احمدیوں کے خلاف ہے۔ لیکن اگر ان کا نظریہ تسلیم کر لیا جائے تو پھر صورت ِ حال یہ بنے گی کہ اگر کسی ملک کی اکثریت کسی اقلیت کے خلاف ہو جائے تو ہمیں لازماََ یہ ماننا پڑے گا کہ قصور اس اقلیت کا ہی ہے اور اس لئے ان پر ہر ظلم روا ہے۔مثلاََ اگر انتہا پسند ہندوؤں کے زیر ِ اثر ہندوستان کی اکثریت وہاں کے مسلمانوں کے خلاف ہو جائے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انتہا پسند ہندوستان میں بہت ووٹ بھی لیتے رہے ہیں اور ان کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ اچھا نہیں ہوتا تھا۔بلکہ جماعت ِ اسلامی یا پاکستان کی دوسری مذہبی پارٹیوں کو تو کبھی اتنی کامیابی نہیں ملی جتنی ہندو انتہا پسند پارٹیوں کو ہندوستان میں ملتی رہی ہے۔ تو اس صورت میں اگر یہ اکثریت میں ہوتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف قدم اُٹھائیں تو کیا پھر پروفیسر غفور صاحب یہ نتیجہ نکالیں گے کہ قصور ضرور ہندوستان کے مسلمانوں کا ہی ہے۔ مگر یہ نظریہ انصاف کے مطابق نہیں ہو گا۔ بلکہ اس اندھے تعصب کی بجائے یہ دیکھنا چاہئے کہ جن پر الزام لگایا جا رہا ہے ۔ان پر لگائے جانے والے الزاموں کی حقیقت کیا ہے۔یا پھر ہم یہ مثال لے سکتے ہیں کہ اگر کسی مغربی ملک میں وہاں کی اکثریت وہاں کے مسلمانوں سے نا روا سلوک کرے اور ان کے خلاف جذبات کو خواہ مخواہ ہوا دی جائے تو کیا لازماََ اس سے نتیجہ یہ نکلے گا قصور وار مسلمان ہی تھے۔کوئی بھی صاحبِ عقل اس فلسفہ کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ان کا دوسرا الزام بھی بہت دلچسپ ہے اور وہ یہ کہ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے تعلقات کی بنا پر بھرتیاں کیں۔اس سوال کے پس منظر میں یہ الزام بھی مضحکہ خیز ہے۔سوال تو یہ تھا کہ ۹ جون ۱۹۷۴ء کو اپوزیشن نے جس میں پروفیسر غفور صاحب کی پارٹی بھی شامل تھی یہ مطالبہ کیوں کیا کہ احمدیوں کو کلیدی آسامیوں سے برطرف کر دیا جائے تو اس کے جواب میں اس مطالبہ کی وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ اس مطالبہ سے کوئی پچیس سال پہلے ایک احمدی وزیر نے تعلقات کی بنا پر غلط بھرتیاں کی تھیں اس لئے ۱۹۷۴ء میں یہ مطالبہ پیش کرنا پڑا۔ اور یہ الزام بھی غلط ہے کیونکہ اس وقت ۱۹۵۳ء کی عدالتی تحقیقات کے دوران جماعت ِ اسلامی نے بھی اپنا بیان اور موقف پیش کیا تھا اور اس تحریری موقف میں بھی یہ الزام لگایا تھا کہ احمدیوں نے آزادی کے بعد اپنے آپ کو حکومتی اداروں میں بالخصوص ایئر فورس ،آرمی ،سفارت خانوں میں ، مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں مستحکم کر لیا تھا۔اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ وزارت ِ خارجہ میں تو حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب وزیر ِ خارجہ تھے لیکن آرمی،ایئر فورس ،صوبائی حکومتوں اور مرکزی حکومت کے سربراہ تو احمدی نہیں تھے ۔یہ کس طرح ممکن ہوا کہ احمدی ان میں نا جائز تصرف حاصل کرتے گئے ۔ اور اگر وزارت ِ خارجہ میں بھی ایسا ہوا تھا تو جماعت ِ اسلامی نے اس کا ثبوت کیا پیش کیا تھا ؟جماعت ِ اسلامی اس کا کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکی تھی ۔وہ کون سے لوگ تھے جن کو سفارت خانوں میں ناجائز طور پر بھرتی کیا گیا تھا؟جماعت ِ اسلامی تحقیقاتی عدالت میں کوئی ایک نام بھی پیش کرنے سے قاصر رہی تھی ۔ اس بات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا تھا کہ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے تعلقات کی بنا پر بھرتیاں کی تھیں۔کوئی ایک مثال نہیں پیش کی گئی تھی۔اس لئے کہ اس بات کا کوئی ثبوت تھا ہی نہیں یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے۔جنرل ضیاء کے دور میں پروفیسر غفور صاحب نے بھی وزارت قبول کی تھی۔اس وقت ان کے پاس موقع تھا کہ اس وقت احمدیوں کی مثالیں پیش کرتے جنہیں دوسروں کا حق مار کر میرٹ کے خلاف ملازمتیں دی گئی تھیں۔لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے کیونکہ احمدیوں کو تو کئی دہائیوں سے ان کے جائز حقوق سے بھی محروم کیا گیا ،ان کو میرٹ کے خلاف ملازمتیں دینے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔یہ لوگ نہ ۱۹۵۳ء میں اس بات کا کوئی ثبوت پیش کر سکے،نہ ۱۹۷۴ء میں اس الزام کی سچائی ثابت کرنے کے لئے کوئی مثال پیش کر سکے اور نہ آج تک اس الزام کو ثابت کرنے کے لئے کوئی معقول ثبوت پیش کیا گیا ہے۔ نصف صدی سے زائد عرصہ بیت گیا بغیر ثبوت کے ایک بات ہی دہرائی جا رہی ہے کہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے پچاس سال پہلے کچھ احمدیوں کو نا جائز طور پر وزارت ِ خارجہ میں بھرتی کر لیا تھا۔
اس دوران Associated Press نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث سے انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو میں حضور نے ارشاد فرمایا کہ ان فسادات کے پیچھے حکومت ِ پاکستان کا ہاتھ کار فرما ہے۔آپ نے فرمایا کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں تباہ و برباد نہیں کر سکتی ۔دنیا کے پچاس ممالک میں احمدیت موجود ہے۔ اگر پاکستان میں احمدی ختم بھی کر دیئے جائیں تو باقی دنیا میں موجود رہیں گے۔(۲۰)
جماعت کے مخالف مولویوں نے ۱۴ ؍جون ۱۹۷۴ء کو ایک ملک گیر ہڑتال کی اپیل کی۔ملکی اخبارات میں مختلف تجارتی تنظیموں اور مجلس تحفظِ ختم نبوت اور دوسری تنظیموں کی طرف سے اعلانات شائع ہو رہے تھے کہ قادیانیوں کا مکمل سماجی اور معاشی بائیکاٹ کیا جائے۔ان سے کسی قسم کے مراسم نہ رکھے جائیں اور نہ ہی کسی قسم کا لین دین کیا جائے۔اور ملک کا ایک حصہ اس مہم میں حصہ بھی لے رہا تھا۔اس مرحلہ پر حکومتِ وقت کے جو اعلانات شائع ہو رہے تھے ان کی روش کا اندازہ ان مثالوں سے ہو جاتا ہے۔ ۱۲؍ جون کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب حنیف رامے صاحب نے بیان دیا کہ حکومت قادیانیت کے مسئلہ کا مستقل حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ جماعت احمدیہ اور دیگر فرقوں کا مذہبی اختلاف ایک مذہبی معاملہ ہے لیکن حنیف رامے صاحب یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ یہ حکومت کا کام ہے مذہبی اختلافات کے معاملات کا مستقل حل تلاش کرے۔اس کے ساتھ رامے صاحب نے شورش برپا کرنے والوں کو یہ خوش خبری سنائی کہ امیر جماعت ِ احمدیہ کو شاملِ تحقیق کر لیا گیا ہے۔اور پھر اعلان کیا کہ ہمارے اور عامۃ المسلمین کے جذبات اور عقائد ایک ہیں اورپھر یہ خوش خبری سنائی کہ صوبہ پنجاب میں مکمل امن و امان قائم ہے اور پھرمولویوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ امن قائم کرنے کا کام اکیلے حکومتِ وقت نہیں کر سکتی تھی عوام کے شعور ،اخبارات اور علماء کے تعاون سے کام ممکن ہوا ہے ۔(۲۱)
جیسا کہ ہم پہلے ہی جائزہ لے چکے ہیں کہ جس وقت رامے صاحب نے یہ بیان دیا اس وقت پورے صوبے میں احمدیوں کے خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی،ان کے گھر اور املاک کو آگیں لگائی جا رہی تھیں اور لوٹا جا رہا تھا لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب کو صوبے میںامن و امان نظر آ رہا تھا۔ مولویوں کا گروہ پورے ملک میں لوگوں کواکسا رہا تھا کہ وہ احمدیوں کا خون بہائیں اور وزیرِ اعلیٰ صاحب ان کے کردار کو سراہ رہے تھے۔اخبارات احمدیوں کی قتل و غارت اور ان پر ہونے والے مظالم کا مکمل بائیکاٹ کیے بیٹھے تھے اور ان میں روزانہ جماعت کے خلاف جذبات بھڑکانے والا مواد شائع ہوتا تھا اور اپیلیں شائع ہو رہی تھیں کہ احمدیوں کا مکمل بائیکاٹ کر دو،ان سے روز مرہ کا لین دین بھی نہ کرو لیکن پنجاب کے وزیر اعلیٰ اخبارات کی تعریف کر رہے تھے کہ انہوں نے امن قائم کرنے کے لیے مثالی تعاون کیا ہے۔
وزیر ِ اعظم کا انکشاف کہ ان حالات کے پیچھے بیرونی ہاتھ کار فرما ہے
۱۳؍ جون ۱۹۷۴ء کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے ایک نشری تقریر کی اور اس میں کہا کہ جو شخص ختم ِ نبوت پر ایمان نہیں لاتا وہ مسلمان نہیں ہے۔اور کہا کہ بجٹ کا اجلاس ختم ہوتے ہی جولائی کے آغاز میں یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا اور ۹۰ سالہ اس مسئلہ کو اکثریت کی خواہش اور عقیدہ کے مطابق حل کیا جائے گا اور اس سلسلہ میں وہ اپنا کردار ادا کریں گے۔لیکن کسی کو امن ِ عامہ کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ وہ ایک مضبوط اعصاب کے سیاستدان ہیں اور وہ جو فیصلہ کریں گے انہیں اس پر فخر ہو گا۔بھٹو صاحب نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ الیکشن میں قادیانیوں نے انہیں ووٹ دیئے تھے لیکن انہیں قادیانیوں نے خریدا نہیں اور نہ وہ ان کے محتاج ہیں۔اور انہیں شیعہ سنی اور دوسرے فرقہ کے لوگوں نے بھی ووٹ دیئے تھے۔(۲۲)
لیکن اس سب باتوں کے ساتھ وزیرِ اعظم نے اس بات کا بھی برملا اظہار کیا کہ نہ صرف وہ بلکہ کئی دوسرے لوگ بھی یہ بات دیکھ رہے ہیں کہ ان حالات کے بھی پیچھے غیر ملکی ہاتھ کارفرما ہے۔اور یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ایک طرف بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا ،دوسری طرف افغانستان کے صدر سرکاری مہمان کی حیثیت سے ماسکو پہنچ گئے۔اور پاکستان میں یہ مسئلہ اُ ٹھا دیا گیا۔ربوہ کا واقعہ ان واقعات سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا ۔اور کہا کہ یہ پاکستان کی سالمیت اور وحدت کے لیے خطرہ ہے۔(۲۳،۲۴)
یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ اگرچہ حکومت مذہبی جماعتیں ،اپوزیشن کی جماعتیں اور مولویوں کا گروہ سب جماعت کے خلاف شورش سے اپنا سیاسی قد بڑھانے کے لیے اس شورش کو ہوا دے رہے تھے اور اس کارنامہ کا سہرا اپنے سر باندھنے کے لیے کوشاں تھے لیکن یہ سب جانتے تھے کہ اس شورش کی باگیں ان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ملک سے باہر ہیں اور کوئی بیرونی ہاتھ اس بساط پر مہروںکو حرکت دے رہا تھا۔اور بھٹو صاحب جیسا ذہین سیاستدان یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ اس راستہ میں کئی ممکنہ خطرات بھی تھے۔
۱۴ جون کو خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے احبابِ جماعت کو ان الفاظ میںاستغفار کی طرف توجہ دلائی:
’’پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں آنے کے لیے استغفار ہے اس لئے تم اٹھتے بیٹھتے ہر وقت خدا سے مدد مانگو ۔پچھلے جمعہ کے دن پریشانی تھی لیکن بشاشت بھی تھی اور گھبراہٹ کا کوئی اثر نہیں تھا لیکن بہر حال ہمارے کئی بھائیوں کو تکلیف پہنچ رہی تھی جس کی وجہ سے ہمارے لئے پریشانی تھی۔میں نے نماز میں کئی دفعہ سوائے خدا تعالیٰ کی حمد کے اور اس کی صفات دہرانے کے اور کچھ نہیں مانگا ۔میں نے خدا سے عرض کیا کہ خدایا تو مجھ سے بہتر جانتا ہے کہ ایک احمدی کو کیا چاہئے اے خدا !جو تیرے علم میں بہتر ہے وہ ہمارے ہر احمدی بھائی کو دے دے۔ میں کیا مانگوں میرا تو علم بھی محدود ہے میرے پاس جو خبریں آ رہی ہیں وہ بھی محدود ہیں اور کسی کے لیے ہم نے بد دعا نہیں کرنی ہاں یاد رکھو بالکل نہیں کرنی ۔خدا تعالیٰ نے ہمیں دعائیں کرنے کے لیے اور معاف کرنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس نے ہمیں نوعِ انسان کا دل جیتنے کے لیے پیدا کیا ہے۔اس لئے ہم نے کسی کو نہ دکھ پہنچانا ہے اور نہ ہی کسی کے لیے بد دعا کرنی ہے۔آپ نے ہر ایک کے لیے خیر مانگنی ہے۔ یاد رکھو ہماری جماعت ہر ایک انسان کے دکھوں کو دور کر نے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن اپنے اس مقام پر کھڑے ہونے کے لیے اور روحانی رفعتوں کے حصول کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ اُ ٹھتے بیٹھتے ،چلتے پھرتے اور سوتے جاگتے اس طرح دعائیں کی جائیں کہ آپ کی خوابیں بھی استغفار سے معمور ہو جائیں۔‘‘(۲۵)
پندرہ جون سے تیس جون تک کے حالات
جون کے آخری دو ہفتہ میں بھی جماعت ِ احمدیہ کے خلاف فتنہ کی آگ بھڑکانے کی مہم پورے زور و شور سے جاری رہی۔اور اب یہ فتنہ پرور اس بات کے لیے بھرپور کاوشیں کر رہے تھے کہ کسی طرح احمدیوں کا معاشی،معاشرتی اور کاروباری بائیکاٹ اتنا مکمل کیا جائے کہ اس کے دباؤ کے تحت ان کے لیے جینا نا ممکن بنا دیا جائے اور وہ اپنے عقائد کو ترک کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ہم اس مرحلہ پر پڑھنے والوں کو یہ یاد دلاتے جائیں کہ جیسا کہ ہم ۱۹۷۳ء کی ہنگامی مجلسِ شوریٰ کے ذکر میں یہ بیان کر چکے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس وقت یہ فرمایا تھا کہ مخالفین یہ منصوبہ بنا رہے ہیںکہ احمدیوں پر اتنا معاشی اور اقتصادی دباؤ ڈالا جائے کہ وہ ان کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جائیں ۔اور ۱۹۷۴ء میں ہی مکہ مکرمہ میں جو رابطہ عالمِ اسلامی کا جو اجلاس ہوا تھا اس میں بھی یہ قرارداد منظور کی گئی تھی کہ احمدیوں کا معاشی اور اقتصادی بائیکاٹ کیا جائے اور ان کو سرکاری ملازمتوں میں نہ لیا جائے۔اور اب فسادات شروع ہونے کے بعد ان مقاصد کے حصول کے لئے ہر طرح کا ناجائز ذریعہ استعمال کیا جا رہا تھا۔
سرگودھا کی دوکانوں پر جلی حروف میں یہ اعلان لکھ کر لگایا گیا تھا کہ یہاں سے مرزائیوں کو سودا نہیں ملے گا۔بعض اوقات جو احمدی گھروں سے باہر نکلتے تو ڈیوٹی پرمامور کچھ لڑکے ان سے استہزاء کرتے ،ان پر موبل آئل پھینکتے۔ان فتنہ پردازوں کی حالت اتنی پست ہو چکی تھی کہ ۱۸؍ جون کو چنیوٹ میں ایک دس سالہ احمدی لڑکا جب گھر سے باہر نکلا تو اس کے کپڑوں کو آگ لگا دی گئی ۔لیکن خدا نے اس کی جان بچا لی۔گوجر خان میں ایک بیمار احمدی دوائی لینے کے لیے نکلا تو پورے شہر میں اسے کسی نے دوائی بھی فروخت نہ کی۔یہ لوگ احمدیوں کو تکلیف دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں کھونا چاہتے تھے خواہ اس کے لیے کتنی ہی پستی میں کیوں نہ گرنا پڑے۔ان کے مظالم سے زندہ تو زندہ فوت شدہ بھی محفوظ نہ تھے۔ ۲۲؍ جون کو خوشاب میں ایک احمدی کی قبر کو اکھیڑ کر اس کی بے حرمتی کی گئی ۔یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ انہیں فسادات کے دوران ضلع خوشاب میں قائد آباد کے مقام پر ایک بہت بڑا جلوس نکال کر احمدیوں کی چھ دوکانوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا،لائبریری جلائی گئی اور احمدیوں کو زدو کوب کیا گیا۔اس ضلع میں بعض احمدیوں کے مکانوں کو آگ لگائی گئی اور بعض پر نشانات لگائے گئے کہ ان کو نذرِ آتش کرنا ہے لیکن پھر مفسدین کو کامیابی نہیں ہوئی۔اسی ضلع میں ۱۷ ؍جون ۱۹۷۴ء کو ایک گاؤں چک ۳۹ ڈی بی میں ایک بڑے جلوس نے محاصرہ کر لیا اور احمدیوں کو مرتد ہونے کے لئے الٹی میٹم دیا۔احمدیوں کی فصلیں تباہ کی گئیں۔اسی ضلع میں اکتوبر کے مہینے میں روڈہ کے مقام پر احمدیوں کی مسجد کو شہید کر دیا گیا۔ اور پھگلہ صوبہ سرحد میں دو غیر احمدی احباب کا صرف اس وجہ سے بائیکاٹ کر دیا گیا کہ انہوں نے ایک احمدی کی تدفین میں شرکت کی تھی۔۲۶؍ جون کو فتح گڑھ میں ایک احمدی کی تدفین زبردستی رکوا دی گئی۔ڈسکہ میں ایک احمدی کی چھ ماہ کی بچی فوت ہو گئی۔جب تدفین کا وقت آگیا تو سات آٹھ سو افراد کا جلوس اسے روکنے کے لیے پہنچ گیا۔سرکاری افسران سے مدد طلب کی گئی تو انہوں نے کسی مدد سے انکار کر دیا۔ناچار بچی کو جماعت کی مسجد کے صحن میں ہی دفن کیا گیا۔جب پاکستان میں ہر طرف وحشت و بربریت رقص کر رہی تھی تو اس پس منظر میں اخبارات احمدیوں پر ہونے والے مظالم کا تو ذکر تک نہیں کر رہے تھے البتہ یہ سرخیاں بڑے فخر سے شائع کر رہے تھے کہ علماء کی اپیل پر احمدیوں کا مکمل سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ شروع ہو گیا ہے۔چنانچہ ۶ا؍جون کو یہ خبر نوائے وقت کے صفحہ اول کی زینت بنی کہ تحریک ختم نبوت کی اپیل پر آج مسلمانوں نے قادیانیوں کا مکمل سماجی اور سوشل بائیکاٹ شروع کر دیا ہے اور یہ کہ قادیانیوں کے ریسٹورانٹ پر گاہکوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔
اس مرحلہ پر پاکستان کے کچھ سیاسی لیڈر دوسرے ممالک کے سربراہان سے بھی اپیلیں کر رہے تھے کہ وہ قادیانیت کو کچلنے کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کریں۔چنانچہ جماعتِ اسلامی کے امیر طفیل محمد صاحب نے سعودی عرب کے شاہ فیصل کو ایک تار کے ذریعہ اپیل کی کہ پاکستان میں جو فتنہ قادیانیت نے سر اُ ٹھا رکھا ہے،اس کو کچلنے کے لیے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ اپنا اثرو رسوخ استعمال کریں۔انہوں نے مزیدلکھا کہ جس طرح رابطہ عالمِ اسلامی کے اجلاس میں قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا گیا تھا اسی طرح پاکستان میں بھی ہونا چاہئے اور لکھا کہ میں حرمین شریفین کے خادم ہونے کے ناطے سے اپیل کرتا ہوںکہ آپ اس مسئلہ میں اپنا اثر و رسوخ اور دوسرے ذرائع استعمال کریں۔(۲۶)یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بھی جماعت ِ احمدیہ کے خلاف ایسی شورش برپا کی گئی تو اس کے بہت سے کرتا دھرتا افراد کی پرورش بیرونی ہاتھ کر تے ہیں اور اس کے نتیجہ میں دوسرے ممالک کو اس ملک کے داخلی معاملات میں دخل دینے کا موقع مل جاتا ہے اور پھر یہ منحوس چکر چلتا رہتا ہے اور اس ملک کی پالیسیوں کی باگ ڈور بیرونی عناصر کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔اوربعد میں پاکستان میں جو حالات رونما ہوئے وہ اس بات کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔خادم حرمین شریفین یا کسی اور بیرونی سربراہِ مملکت کا یہ کام نہیں کہ پاکستان یا کسی اور ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔ لیکن یہ حکومت ِ وقت کا کام بھی ہے کہ وہ اس چیز کا نوٹس لے اور یہ نوبت نہ آنے دے کہ کسی بیرونی ہاتھ کو ملک میں مداخلت کا موقع ملے۔جب ہم نے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے یہ سوال کیا کہ کیا میاں طفیل محمد کایہ بیان غیر ملکی سربراہ کو ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی دعوت دینے کے مترادف نہیں ہے۔تو اس موقع پر جو سوال جواب ہوئے وہ یہ تھے۔
’’ڈاکٹر مبشر حسن صاحب:ممکن ہے کہ انہوں نے وہ ان کے کہنے پر ہی کیا ہو کہ تم یہdemand کرو۔
سلطان :کس کے کہنے پر
ڈاکٹر مبشر حسن صاحب:باہر والوں کے
سلطان: شاہ فیصل کے کہنے پر
ڈاکٹر مبشر حسن صاحب : ہاں
سلطان: اچھا
ڈاکٹر مبشر حسن صاحب :ان کے یا کسی اور کے۔جہاں سے بھی انہیں پیسے آتے تھے
سلطان : میاں طفیل محمد کو جماعت ِ اسلامی کو پیسے ملتے تھے
مبشر حسن:ہاں ہاں
سلطان: ان کے کہنے پر انہوں نے کہا OK تم یہ کرو
ڈاکٹر مبشر حسن صاحب:ہاں تم یہdemand کرو بھئی ہم کر دیں گے۔خود بخود ہم نے تو نہیں کیا۔demandہو رہی تھی بھائی عوام سے۔‘‘
جب ہم نے عبد الحفیظ پیرزادہ صاحب سے سوال کیا کہ میاں طفیل محمد صاحب کا یہ بیان غیر ملکی مداخلت کو دعوت دینے کے مترادف نہیں تھا تو انہوں نے کہا:
‘‘Jamat e Islami always did it, JUI always did it,
JUP always did it’’
جماعت ِ اسلامی ہمیشہ یہی کرتی تھی،جمعیت علماء ِ اسلام ہمیشہ یہی کرتی تھی،جمعیت علمائے پاکستان ہمیشہ یہی کرتی تھی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ نے ۲۱ ؍جون ۱۹۷۴ء کے خطبہ جمعہ میں احمدیوں کے خلاف بائیکاٹ کی مہم کا ذکر کر کے فرمایاکہ رسولِ کریم ﷺ کو اور آپ کے صحابہ کو شعبِ ابی طالب میں جو تکالیف پہنچائی گئیں وہ بہت زیادہ تھیں۔اور پھر آپ کا مکی دور تکالیف کا دور تھا۔ان کی محبت کا تقاضا ہے کہ اگر دسیوں برس تک بھی ہمیں تکالیف اُٹھانی پڑیں تو ہم اس پیار کے نتیجہ میں دنیا پر ثابت کر دیں کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی معرفت رکھتے ہیں اور محمد ﷺ کے ساتھ پیار کرتے ہیں جوع کی حالت بھی ان کی وفا کو کمزور نہیںکرتی۔وہ اسی طرح عشق میں مست رہتے ہیں جس طرح پیٹ بھر کر کھانے والا شخص مست رہتا ہے۔ان دنوں جماعت کے خلاف حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ بڑے زور شور سے کیا جا رہا تھا کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔حضور نے اس نا معقول مطالبہ کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا بھر میں ایک شخص کا مذہب وہی سمجھا جاتا ہے جس کی طرف وہ خود اپنے آپ کو منسوب کرتا ہو۔حضور نے اس ضمن میں چین جیسے کمیونسٹ مذہب کی مثال دی۔اور اس ضمن میں ان کے قائد چیئرمین ماؤ کے کچھ اقتباسات پڑھ کر سنائے۔اور فرمایا کہ کسی حکومت کا یہ حق نہیں کہ وہ فیصلہ کرے کہ کسی شہری کا مذہب کیا ہے۔ اور یو این او کے انسانی حقوق کے منشور کا حوالہ دیا جس پر پاکستان نے دستخط کیے ہوئے ہیں۔اور پھر اس مضمون پر پاکستان کے آئین کا تجزیہ کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا:
’’آخر میں میں اپنے دستور کو لیتا ہوں ہمارا موجودہ دستور جو عوامی دستور ہے،جو پاکستان کا دستور ہے۔وہ دستور جس پر ہمارے وزیر ِ اعظم صاحب کو بڑا فخر ہے،وہ دستور جو ان کے اعلان کے مطابق دنیا میںپاکستان کے بلند مقام کو قائم کرنے والا اور اس کی عزت اور احترام میں اضافہ کا موجب ہے،یہ دستور ہمیں کیا بتاتا ہے؟اس دستور کی بیسویں دفعہ یہ ہے
(a) Every Citizen shall have the right to profess, practice and propagate his religion and
(b) every religious denomination and every sect thereof shall have the right to maintain and manage its religious institution.
اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کو ہمارا یہ دستور جو ہمارے لیے باعثِ فخر ہے یہ ضمانت دیتا ہے کہ جو اس کا مذہب ہو اور جس مذ ہب کا وہ خود اپنے لئے فیصلہ کرے وہ اس کا مذہب ہے۔(بھٹو صاحب یا مفتی محمود صاحب یا مودودی صاحب نہیں بلکہ )جس مطلب کے متعلق وہ فیصلہ کرے وہی اس کا مذہب ہے اور وہ اس کا زبانی اعلان کر سکتا ہے۔یہ دستور اسے حق دیتا ہے کہ وہ یہ اعلان کرے کہ میں مسلمان ہوں کہ نہیںاور اگر وہ یہ اعلان کرے کہ میں مسلمان ہوں تو یہ آئین جس پر پیپلز پارٹی کو بھی فخر ہے (اور ہمیں بھی فخر ہے اس لئے یہ دفعہ اس میں آ گئی ہے)یہ دستور کہتا ہے کہ ہر شہری کا یہ حق ہے کہ وہ اعلان کرے کہ میں مسلمان ہوں یا مسلمانوں کے اندر میں وہابی ہوں یا اہلِ حدیث ہوں یا اہلِ قرآن ہوں یا بریلوی ہوں ( وغیرہ وغیرہ تہتر فرقے ہیں )یا احمدی ہوں تو یہ ہے مذہبی آزادی۔۔۔۔
پس ہزار ادب کے ساتھ اور عاجزی کے ساتھ یہ عقل کی بات ہم حکومت کے کان تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ جس کا تمہیں انسانی فطرت نے اور سرشت نے حق نہیں دیا جس کا تمہیں حکومتوں کے عمل نے حق نہیں دیا،جسکا تمہیں یو این اوکےHuman Rights نے(جس پر تمہارے دستخط ہیں)حق نہیں دیا،چین جیسی عظیم سلطنت جو مسلمان نہ ہونے کے باوجود اعلان کرتی ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں کہ کوئی شخص Professکچھ کر رہا ہو اور اس کی طرف منسوب کچھ اور کر دیا جائے۔میں کہتا ہوں میں مسلمان ہوں ،کون ہے دنیا میں جو یہ کہے گا کہ تم مسلمان نہیںہو۔یہ کیسی نا معقول بات ہے۔یہ ایسی نا معقول بات ہے کہ جو لوگ دہریہ تھے انہیں بھی سمجھ آ گئی۔پس تم وہ بات کیوں کرتے ہو جس کا تمہیں تمہارے اس دستور نے حق نہیں دیا۔۔‘‘(۲۷)
ایک طرف تو جماعت ِ احمدیہ کے متعلق حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ارادے اچھے نہیں معلوم ہورہے تھے اور دوسری طرف ملک میں احمدیوں پر ہر قسم کا ظلم کیا جا رہا تھا تاکہ وہ اس دباؤ کے تحت اپنے عقائد ترک کر دیں۔لیکن جب ابتلاؤں کی شدت اپنی انتہا پر پہنچی ہو تو ایک عارف با للہ یہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ ان مشکلات کے ساتھ اللہ کی نصرت آ رہی ہے۔چنانچہ ۲۸ جون کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا۔
’’ہمارا زمانہ خوش رہنے مسکراتے رہنے اور خوشی سے اچھلنے کا زمانہ ہے ۔ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت دی ہے کہ اس زمانہ میں نبی اکرم ﷺ کا جھنڈا دنیا کے ہر ملک میں گاڑا جائے گا۔اور دنیا میں بسنے والے ہر انسان کے دل کی دھڑکنوں میں محمد ﷺ کی محبت اور پیار دھڑکنے لگے گا۔اس لئے مسکراؤ!۔
مجھے یہ خیال اس لئے آیا کہ بعض چہروں پر میں نے مسکراہٹ نہیں دیکھی۔ہمارے تو ہنسنے کے دن ہیں۔نبی اکرم ﷺ کی فتح اور غلبہ کی جسے بشارت ملی ہووہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو دیکھ کردل گرفتہ نہیں ہوا کرتا اور جو دروازے ہمارے لیے کھولے گئے ہیں وہ آسمانوں کے دروازے ہیں۔‘‘(۲۸)
جماعت ِ احمدیہ کی مخالفت اتنی اندھی ہو چکی تھی کہ ان فسادات کے دوران ایک گیارہ برس کے احمدی بچے کو بھی ہجکہ نامی گاؤں سے گرفتار کر لیا گیا۔پولیس اس بچے کو گرفتا رکرنے کے لئے آئی تو سپاہی ہتھکڑی لگانے لگے۔بچے کی عمر اتنی چھوٹی تھی کہ ہتھکڑی لگائی گئی تو وہ بازو سے نکل گئی۔اس پر پولیس والے نے صرف بازو سے پکڑ کر گرفتار کرنے پر اکتفا کیا۔ البتہ اتنی مہربانی کی کہ اس بچے کو اپنے بھائیوں سمیت جیل میں اس احاطے میں رکھا گیا جہاں پر ربوہ سے گرفتار ہونے والے اسیران کو رکھا گیا تھا۔اس احاطے میں سات کوٹھریاں تھیں۔اسیران کو شام چار بجے کوٹھریوں میں بند کر دیا جاتا اور صبح چار بجے وہاں سے نکال دیا جاتا۔ان کا وقت یا تو دعاؤں میں گزرتا یا پھر دل بہلانے کو کوئی کھیل کھیلنے لگ جاتے۔مغرب عشاء کے وقت جب ہر کوٹھری سے اذان دی جاتی تو جیل کی فضاء اذانوں سے گونج اُٹھتی۔جیل میں کھانا اتنا ہی غیر معیاری دیا جاتا جتنا پاکستان کی جیلوں میں دیا جاتا ہے۔صبح کے وقت گڑ اور چنے ملتے اور شام کو بد مزہ دال روٹی ملتی۔گرمی کے دن تھے اور جیل میں پنکھا تک موجود نہیں تھا البتہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے وہاں پر پنکھے لگانے کا انتظام فرما دیا تھا۔اسی افراد کے لئے ایک لیٹرین تھی جس کی دن میں صرف ایک مرتبہ صفائی ہوتی تھی۔اور اگرکوٹھریوں میں جانے کے بعد بارہ گھنٹے کے دوران اگر کسی کو قضائے حاجت کی ضرورت محسوس ہوتی تو اسے لیٹرین میں جانے کی اجازت بھی نہیں ہوتی تھی اور اس کے لیے نا قابلِ بیان صورت پیدا ہو جاتی تھی۔جب یہ گیارہ سالہ بچہ اپنے رشتہ داروں سمیت رہا ہوا تواس کے والد ملک ولی محمدصاحب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کیساتھ ملاقات کرنے گئے مگر اس بچے کو اپنے ساتھ نہ لے کر گئے لیکن حضور نے ارشاد فرمایا کہ اس بچے کو بھی ملاقات کے لئے لاؤ۔جب یہ بچہ حضور سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو حضور نے گلے لگا کر پیار کیا اور پرائیویٹ سیکریٹری کو ارشاد فرمایا کہ انکی تصویریں بنانے کا انتظام کیا جائے۔یہ بچہ اب تک تاریخِ احمدیت کا سب سے کم عمر اسیرہے۔قارئین کے لئے یہ بات دلچسپی کا موجب ہو گی کہ یہ اسیر مبشر احمد خالد صاحب مربی سلسلہ اس کتاب کے مؤلفین میں سے ایک ہیں۔
پاکستان کی قومی اسمبلی پر مشتمل ایک سپیشل کمیٹی قائم ہوتی ہے
پاکستان کے وزیر ِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب اس بات کا اظہار کر چکے تھے کہ جب قومی اسمبلی بجٹ کے معاملات سے فارغ ہو گی،قادیانی مسئلہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا تاکہ اس دیرینہ مسئلہ کا کوئی حل نکالا جائے۔۳۰؍ جون ۱۹۷۴ ء کو قومی اسمبلی میں بجٹ کی کارروائی ختم ہوئی ،اس موقع پر وزیراعظم بھی ایوان میں موجود تھے۔ اس مرحلہ پراپوزیشن کے ممبران نے ایک قرارداد پیش کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیرو کاروںکو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے۔اس پر وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب نے کہا کہ حکومت اصولی طور پر اس قرارداد کی مخالفت نہیں کرتی بلکہ اس کا خیر مقدم کرتی ہے۔وزیرِ قانون نے تجویز دی کہ کارروائی کو دو گھنٹے کے لیے ملتوی کر دیا جائے تاکہ حکومت اپوزیشن کے مشورہ کے ساتھ کوئی قرارداد تیار کر سکے یہ تجویز منظور کر لی گئی۔ان دو گھنٹوں میں سپیکر کے کمرہ میں ایک میٹنگ ہوئی۔جس میں وزیر قانون پیرزادہ صاحب،سیکریٹری قانون محمد افضل چیمہ صاحب،پنجاب کے وزیر ِ اعلیٰ حنیف رامے صاحب اور اپوزیشن کے ممبران میں سے مفتی محمود صاحب،شیر باز مزاری صاحب،شاہ احمد نورانی صاحب،غلام فاروق صاحب اور سردار شوکت حیات صاحب نے شرکت کی۔اپوزیشن کے ممبران نے یہ واضح کیا کہ وہ ہر قیمت پر اپنی قرارداد کو ایوان میں پیش کریں گے۔اس وقفہ میں مشورہ کے بعد ایوان کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا۔اس میں وزیرِ قانون نے قرار داد پیش کی کہ ایک سپیشل کمیٹی قائم کی جائے جو ایوان کے تمام اراکین پر مشتمل ہو۔اور سپیکر اسمبلی اس کے چیئر مین کے فرائض ادا کریں۔اس کمیٹی کے سپرد مندرجہ ذیل تین کام ہوں گے۔
۱)اسلام میں اس شخص کی کیا حیثیت ہے جو حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی نہ مانتا ہو۔
۲)ایک مقررہ وقت میں ممبران کمیٹی سے قراردادیں اور تجاویز وصول کرنا اور ان پر غور کرنا۔
۳)غور کرنے ،گواہوں کا بیان سننے اور دستاویزات کا مطالعہ کرنے کے بعد اس مسئلہ کے متعلق تجاویز مرتب کرنا۔
اس کے ساتھ وزیرِ قانون نے کہا کہ اس کمیٹی کی کارروائی بند کمرہ میں(In Camera) ہو گی۔
ایوان نے متفقہ طور پر یہ قرارداد منظور کر لی۔اس کے بعد اپوزیشن کے۲۲ اراکین کے دستخطوں کے ساتھ ایک قرارداد پیش کی گئی ۔ایوان میں اس قرارداد کو شاہ احمد نورانی صاحب نے پیش کیا اس پر مختلف پارٹیوں کے اراکین کے دستخط تھے۔اس قرارداد کے الفاظ تہذیب سے کلیۃً عاری تھے۔
اس قرار داد کے الفاظ تھے
’’چونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے حضرت محمد ﷺکے بعد جو اللہ کے آخری نبی ہیں نبوت کا دعویٰ کیا۔
اور چونکہ اس کا جھوٹا دعویٰ نبوت ،قرآنِ کریم کی بعض آیات میں تحریف کی سازش اور جہاد کو ساقط کر دینے کی کوشش،اسلام کے مسلمات سے بغاوت کے مترادف ہے۔
اور چونکہ وہ سامراج کی پیداوار ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا ہے۔
چونکہ پوری امتِ مسلمہ کا اس بات پرکامل اتفاق ہے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار خواہ مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہوں یا اسے کسی اور شکل میں اپنا مذہبی پیشوا یا مصلح مانتے ہوں وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
چونکہ اس کے پیروکار خواہ انہیں کسی نام سے پکارا جاتا ہو۔وہ دھوکہ دہی سے مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ بن کر اور اس طرح ان سے گھل مل کر اندرونی اور بیرونی طور پر تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
چونکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی تنظیموں کی ایک کانفرنس میںجو ۶ تا ۱۰ ؍اپریل مکہ مکرمہ میں رابطہ عالمِ اسلامی کے زیر اہتمام منعقد ہوئی ،جس میں دنیا بھر کی ۱۴۰ مسلم تنظیموں اور انجمنوں نے شرکت کی اس میں کامل اتفاقِ رائے سے یہ فیصلہ کردیا گیا کہ قادیانیت جس کے پیرو کار دھوکہ دہی سے اپنے آپ کو اسلام کا ایک فرقہ کہتے ہیں۔دراصل اس فرقہ کا مقصد اسلام اور مسلم دنیا کے خلاف تخریبی کارروائیاں کرنا ہے اس لئے اب یہ اسمبلی اعلان کرتی ہے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار خواہ انہیں کسی نام سے پکارا جاتا ہو مسلمان نہیں ہیں اور یہ کہ اسمبلی میں ایک سرکاری بل پیش کیا جائے تاکہ اس اعلان کو دستور میں ضروری ترامیم کے ذریعے عملی جامہ پہنایا جا سکے اور یہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک غیر مسلم اقلیت کی حیثیت سے ان کے جائز حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔‘‘
وزیرِ قانون نے اس قرارداد میں جو انہوں نے پیش کی تھی اور اپوزیشن کی پیش کردہ قرارداد میں مشترکہ امور کی نشاندہی کی۔ایوان نے اس قرارداد کو بھی سپیشل کمیٹی میں پیش کرنے کی منظوری دے دی۔(۲۹تا۳۱)
اب یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ ابھی اس موضوع پر اسمبلی کی باقاعدہ کارروائی شروع ہی نہیں ہوئی اور ابھی جماعت ِ احمدیہ کا موقف سنا ہی نہیں گیا تو اپوزیشن ایک مشترکہ قرارداد پیش کرتی ہے کہ احمدیوں کو آئین میں غیر مسلم قرار دیا جائے اور حکومت یہ کہتی ہے کہ ہم اس قرارداد کا خیر مقدم کرتے ہیں۔تو باقی رہ کیا گیا۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ابھی کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی کہ اصل میں فیصلہ ہو چکا تھا اور بعد میں جو کچھ کارروائی کے نام پر ہوا وہ محض ایک ڈھونگ تھا۔جب ہم نے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے اس بارے میں سوال کیا۔تو ان کا جواب تھا کہ مجھے صحیح تو معلوم نہیں لیکن یہ ہوا ہو گا کہ جب قرارداد پیش ہوئی ہو گی تو پیرزادہ صاحب بھٹو صاحب کے پاس گئے ہوں گے کہ یہ قرارداد ہے اب کیاAttitude لیں۔ تو بھٹو صاحب نے کہا ہو گا کہ پیش ہونے دو۔مخالفت نہ کرو۔تو اب انہیں یہ سمجھ میں نہیں آئی کہ کیا الفاظ استعمال کریں۔ تا کہ یہ کہہ بھی دیں اوران الفاظ میں نہ کہیں اب تو پکڑے گئے۔اور پھر جب ہم نے یہ بات دہرائی کہ یہ واقعہ تو ۳۰ جون کا ہے تو ڈاکٹر مبشر حسن صاحب نے کہا۔
’’ہاں بالکل بیوقوف تھا لاء منسٹر۔اگر وہ بھٹو صاحب کا ساتھی ہوتا تو اس طرح انہیں exposeنہ کرتا۔‘‘
جب انہیں کہا گیا کہ یہ تو انصاف سے بعید ہے کہ ایک فرقہ کا موقف سنے بغیر آپ فیصلہ سنا دیں۔اس پر ان کا جواب تھا
’’ نیت تو ہو گئی تھی۔‘‘
جب ہم نے یہ سوال اس وقت کے سپیکر صاحب صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب سے پوچھا کہ ۲۰ ؍جون کو جب اپوزیشن نے یہ قرارداد پیش کی تو حکومت نے کہا کہ ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس وقت تک فیصلہ ہو چکا تھا تو ان کا جواب تھا:
’’نہیں وہ اس سے پہلے جائیں ناںرابطہ عالمِ اسلامی کی طرف‘‘
اس پر ہم نے کہا
’’مطلب یہ کہ اسوقتDecide ہو چکا تھا‘‘
اس پر صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب نے کہا:
‏’’Decideنہیں مطلب یہ ہے کہThey were planning like that Decisionاور ہوتا ہے planningاور ہوتی ہے۔‘‘
اب قارئین یہ بات صاف صاف دیکھ سکتے ہیں کہ اس وقت کے قومی اسمبلی کے سپیکر صاحب کے نزدیک جس وقت رابطہ عالمِ اسلامی کے اجلاس میں جماعت ِ احمدیہ کے خلاف قرار داد منظور کی گئی اسی وقت اس چیز کا منصوبہ بن چکا تھا کہ پاکستان کے آئین میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا ہے۔ اب یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا کہ ڈیڑھ ماہ میں ربوہ کے سٹیشن پر واقعہ بھی ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں ملک گیر فسادات بھی شروع ہو جائیں،جس کے نتیجہ میں یہ مطالبہ پورے زور و شور سے پیش کیا جائے کہ آئین میں ترمیم کر کے احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ پڑھنے والے یہ خود دیکھ سکتے ہیں کہ ہمیں لازماََ یہ ماننا پڑے گا کہ ان فسادات کو بھی ایک پلان کے تحت شروع کرایا گیا تھا۔
اگلے روز یکم جولائی کو اس سپیشل کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا اور یہ اجلاس ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہا۔اس اجلاس میں یہ منظور کیا گیا کہ اس کمیٹی کی تمام کارروائی بصیغہ راز رکھی جائے گی۔اور سوائے سرکاری اعلامیہ کے اس بارے میں کوئی خبر شائع نہیں کی جائے گی۔اور یہ بھی قرار پایا کہ یہ کمیٹی پانچ جولائی تک تجاویز کو وصول کرے گی۔اور اس کا اگلا اجلاس ۳ ؍جولائی کو ہو گا جس میں مزید قواعد و ضوابط طے کیے جائیں گے۔(۳۲،۳۳)
یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ آغاز سے ہی بڑے زور و شورسے اس بات کا اہتمام کیا جارہا تھا کہ تمام کارروائی کو خفیہ رکھا جائے اور کسی کو کان و کان خبر نہ ہو کہ کارروائی کے دوران کیا ہوا ۔حالانکہ اس کمیٹی میں ملک کے دفاعی رازوں پر تو بات نہیں ہونی تھی کہ اس کو خفیہ رکھنے کی ضرورت ہو ۔اس کے دوران تو جماعت کی طرف سے اور جماعت کے مذہبی مخالفین کی طرف سے مذہبی دلائل پیش ہونے تھے اور دلائل کا یہ تبادلہ کوئی نوے سال سے جاری تھا۔یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ایسا اس لیے کیا جا رہا تھا تاکہ امنِ عامہ کی حالت خراب نہ ہو کیونکہ جہاں جہاں فسادات کی آگ بھڑکائی جا رہی تھی ،ایسے اکثرمقامات پر تو قانون نافذ کرنے والے ادارے یا تو خاموش تماشائی بن کر کھڑے تھے یا پھر مفسدین کی اعانت کر رہے تھے۔لیکن جب وزیرِ اعظم بھٹو صاحب نے اس مسئلہ پر ۳؍ جون کو ایوان میں تقریر کی تو اس بات کا اشارہ دیا کہ اس ضمن میں کارروائی In Cameraکی جا سکتی ہے۔جب وزیرِ قانون نے تمام ایوان کو سپیشل کمیٹی میں تبدیل کر کے کارروائی شروع کرنے کی تجویز پیش کی تو ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا کہ کارروائی In Cameraہوگی۔تمام ایوان کا سپیشل کمیٹی کے طور پر اجلاس شروع ہوا تو پھر یہ قانون منظور کیا گیا کہ کارروائی In Cameraہو گی۔آخر وزیر اعظم سے لے کر نیچے تک سب کورس میں اس بات کا ورد کیوں کر رہے تھے کہ کارروائی خفیہ ہو اور سرکاری اعلان کے علاوہ اس پر کوئی بات پبلک میں نہ آئے۔یہ اس لیے تھا کہ نوے سال کا تجربہ انہیں یہ بات تو سکھا چکا تھا کہ وہ دلائل میں جماعت احمدیہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ورنہ جماعت نے جن پر ہر قسم کے مظالم ہو رہے تھے کبھی اس بات کا مطالبہ پیش ہی نہیں کیا تھا کہ اس کارروائی کو منظر عام پر نہ لایا جائے۔
تین جولائی کو کارروائی پھر سے شروع ہوئی اور مزید قواعد بنائے گئے اور ایک بار پھر In Camera یعنی خفیہ کارروائی کے اصول کا سختی سے اعادہ کیا گیا ۔منظور شدہ قواعد میں قاعدہ نمبر ۳ یہ تھا۔
Secret Sittings_The sittings of the committee shall be held in camera and no strangers shall be permitted to be present at the sittings except the secretary and secretary Ministry of law and parliamentary affairs, and such officers and staff as the chairman may direct.
یعنی کمیٹی کے اجلاسات خفیہ ہوں گے اور سوائے سیکریٹری اور سیکریٹری وزارت قانون اور پارلیمانی امور اور ان افسران کے علاوہ جن کی بابت صاحب ِ صدر ہدایت جاری کریں کوئی شخص ان اجلاسات کو ملاحظہ نہیں کر سکے گا۔ویسے تو اپوزیشن اور حکومت کے اراکین ہر معاملہ میں ایک دوسرے سے دست و گریبان رہتے تھے لیکن اس معاملہ میں اپوزیشن کی طرف سے بھی یہ نقطہ اعتراض نہیں اُ ٹھایا گیا کہ اس قدر خفیہ کارروائی کی ضرروت کیا ہے۔ انہیں بھی یہی منظور تھا کہ اس کارروائی کو منظر ِعام پر نہ لایا جائے۔(۳۴)
اس اجلاس میں بارہ رکنی ایک راہبر کمیٹی (Steering Committee) بھی قائم کی گئی جس میں اپوزیشن اور حکومت دونوں کے اراکین شامل تھے۔بعد میں اس میں مزید اراکین کا اضافہ کر دیا گیا۔اور یہ طے پایا کہ ۶ ؍جولائی کی صبح کو راہبر کمیٹی کا اجلاس ہو اور اسی شام کو پوری قومی اسمبلی پر مشتمل سپیشل کمیٹی کا اجلاس ہو۔وزیرِ قانون عبد الحفیظ پیرزادہ صاحب اس راہبر کمیٹی کے کنوینر مقرر ہوئے۔ اور یہ فیصلہ ہوا کہ ۶؍ جولائی کی صبح کو اس راہبر کمیٹی کا اجلاس ہو گا اور شام کو پورے ایوان پر مشتمل سپیشل کمیٹی کا اجلاس ہوگا۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ۴؍ جولائی ۱۹۷۴ء کو ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب نے قومی اسمبلی کی کمیٹی کے صدر کو لکھا کہ
A delegation of the Ahmadiyya Movement in Islam comprising of the following members may kindly be allowed to present material with regard to our belief in Khatme Nabbuwat -finality of the prophethood of the Holy Prophet Muhammad may peace and blessing of Allah be on Him and to depose as witnesses
(1) Maulana Abul Ata (2) Sheikh Muhammad Ahmad Mazhar (3) Mirza Tahir Ahmad (4) Maulvi Dost Muhammad.
یعنی جماعت کی طرف سے چار اراکین نامزد کئے گئے جو کہ اس موقع پر جماعت کے وفد کے اراکین کی حیثیت سے جماعت کاموقف پیش کرنے کے لئے جائیں گے۔یہ چاراراکین مکرم مولانا ابولعطاء صاحب ،مکرم شیخ محمد احمد مظہر صاحب،حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور مکرم مولوی دوست محمد شاہد صاحب تھے۔
۸؍ جولائی۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی کے سیکریٹری کی طرف سے جواب موصول ہوا
The special committee has permitted you to file a written statement of your views and produce documents etc in support thereof. The committee has also agreed to hear your delegation provided it is headed by chief of your Jammat. Oral statement or speech will not be allowed and only the written statement may be read before the committee. After hearing the statement and examining the documents the committee will put question to the chief of the jamaat. Please file your statement along with documents etc with the secretory National Assembly by six p.m. on Eleventh July.
یعنی اس ٹیلیگرام میں کہا گیا تھا کہ سپیشل کمیٹی جماعت کی طرف سے تحریری بیان کو قبول کرے گی اور اس کے ساتھ دوسری دستاویزات بھیجی جا سکتی ہیں ۔جماعت کے وفد کا موقف اس شرط پر سنا جائے گا کہ اس کی قیادت جماعت کے امام کر رہے ہوں۔کمیٹی کے سامنے تحریری بیان پڑھا جائے گا زبانی بیان یا تقریر کی اجازت نہیں ہو گی۔اس بیان کے بعد سپیشل کمیٹی جماعت کے سربراہ سے سوالات کرے گی۔براہ مہربانی اپنا بیان شام چھ بجے ۱۱؍ جولائی تک جمع کرادیں۔
اب یہ عجیب صورت حال پیدا کی جا رہی تھی کہ جماعت کا وفد اس کمیٹی کے سامنے پیش ہونا تھا تو یہ اختیار بھی جماعت کو ہی تھا کہ وہ جسے پسند کرے اس وفد کا رکن یا سربراہ مقرر کرے لیکن یہاں پر قومی اسمبلی کی کمیٹی بیٹھی یہ فیصلہ بھی کر رہی تھی کی کہ جماعت کے وفد میں کسے شامل ہونا چاہئے۔ لیکن اس اندھیر نگری میں عقل کو کون پوچھتا تھا۔
چنانچہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۷۴ ء کو ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب نے سیکریٹری صاحب قومی اسمبلی کو ایک خط تحریر فرمایا جس کے آخرمیں آپ نے لکھا
‘‘I find it very strange that you propose to appoint the head of delegation. I think the delegation being ours the choice as to who should lead it should also be ours.’’
یعنی یہ بات میرے لئے حیرت کا باعث ہے کہ آپ ہمارے وفد کا سربراہ مقرر کر رہے ہیں۔ اگر یہ وفد ہمارا وفد ہے تو یہ فیصلہ بھی ہمارا ہونا چاہئے کہ اس کی قیادت کون کرے گا؟
لیکن یہ عقل کی بات منظور نہیں کی گئی۔
چنانچہ یہ تحریری موقف ایک محضر نامہ کی صورت میں تیار کیا گیا اور مکرم محمدشفیق قیصر مرحوم صاحب اس محضر نامہ کی ایک کاپی مکرم مجیب الرحمن صاحب کے پاس لے کر آئے کہ وہ اسے داخل کرائیں۔ چنانچہ مکرم مجیب الرحمان صاحب نے یہ کاپی قومی اسمبلی کے سیکریٹری جنرل الیاس صاحب کے حوالے کی ۔انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اسمبلی کی کارروائی شروع ہونے سے قبل تمام ممبرانِ اسمبلی کو اس کی ایک ایک کاپی دی جائے۔چنانچہ مجیب الرحمن صاحب نے فون پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ سے اس بابت عرض کیا۔چنانچہ دو تین دن کے اندر مکرم شفیق قیصرصاحب ایک گاڑی میں اس کی شائع کردہ مطلوبہ کاپیاں لے کر آگئے۔ابھی اس کی جلدیں گیلی تھیں کہ یہ کاپیاں سیکریٹری اسمبلی کے حوالہ کی گئیں(۳۵)۔
اس محضر نامے کے ساتھ کچھAnnexuresبھی اجازت لے کر جمع کرائے گئے تھے۔ان کی فہرست یہ ہے:
(1 ) An extract from 'the Anatomy of liberty' by William O. Douglas
(2) We are Muslims by Hazrat Khalifa tul Masih Third
(3) Press release by Mr. Joshua Fazaluddin
(۴)فتاویٰ تکفیر
(۵)مقربانِ الٰہی کی سرخروئی از مولوی دوست محمد شاہد صاحب
(۶)القول المبین از مولانا ابوالعطاء
(۷) خاتم الانبیاء ﷺ
(۸) مقا مِ ختمِ نبوت از حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ
(۹) ہم مسلمان ہیں
(۱۰) ہمارا موقف
(۱۱)عظیم روحانی تجلیات از حضرت خلیفۃ المسیح الثالث
(۱۲) حضرت بانیِ سلسلہ پر تحریفِ قرآن کے بہتان کی تردید
(۱۳) مودودی شہ پارہ
پندرہ جولائی کو وزیرِ قانون نے ایک پریس کانفرنس میں ان کمیٹیوں کی کارگزاری بیان کی۔ انہوں نے پریس کو بتایا کہ راہبر کمیٹی میں حکومتی اراکین کے علاوہ جماعت ِ اسلامی ، جمعیت العلماء اسلام اور جمعیت العلماء ِ پاکستان کے اراکینِ اسمبلی بھی شامل ہیں۔لاہور اور ربوہ دونوں کی جماعتوں کو کہا گیا تھا کہ وہ اپنا تحریری موقف جمع کرائیں۔ربوہ کی جماعت کی طرف سے ۱۹۸ صفحات پر مشتمل ایک کاپی موصول ہوئی ہے اور انہیں کہا گیا ہے کہ وہ ۱۵ ؍جولائی تک اس کی ۲۵۰ کاپیاں جمع کرائیں۔ اور دونوں جماعتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ان پر اپنی جماعتوں کے سربراہوں کے دستخط کرائیں۔مختلف افراد کی طرف سے۵۱۴ تحریری آراء موصول ہوئی ہیں جن میںسے ۲۶۸ قادیانیوں کے خلاف اور ۲۴۶ قادیانیوں کے حق میں ہیں۔اس کے علاہ مختلف تنظیموں کی طرف سے تحریری آراء موصول ہوئی ہیں۔ان میں سے۱۱ قادیانیوں کے خلاف اور ۴ قادیانیوں کے حق میں اور ایک غیرجانبدار ہے۔ پیرزادہ صاحب نے کہا کہ مختلف حکومتوں کی امداد یافتہ تنظیموں کی طرف سے بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر اظہار ِ خیال کرنے کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔لیکن ابھی ان کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔یہ ایک دیرینہ اور پیچیدہ مسئلہ ہے اور سابقہ حکومتیں اسے حل نہیں کرسکی تھیں۔راہبر کمیٹی نے اپنی تجاویز سپیشل کمیٹی میں بھجوائی تھیں اور سپیشل کمیٹی نے انہیں منظورکر لیا ہے۔دونوں جماعتوں کے وفود کے موقف کو سنا جائے اور ان وفود میں ان جماعتوں کے سربراہان کو بھی شامل ہونا چاہئے۔اس کے بعد سپیشل کمیٹی کے اراکین اٹارنی جنرل کی وساطت سے ان وفود سے سوالات کر سکتے ہیں۔(۳۶)
جیسا کہ ابھی ہم نے ذکر کیا ہے کہ یہ فیصلہ ہوا تھا کہ قومی اسمبلی کے اراکین اٹارنی جنرل صاحب کی وساطت سے سوال کریں گے یعنی وہ سوال لکھ کر اٹارنی جنرل صاحب کو دیں گے اور اٹارنی جنرل صاحب وفد سے سوال کریں گے۔یحییٰ بختیار صاحب نے اپنی عمر کے آخری سالوں میں ۷۴ کی کارروائی کے متعلق ایک انٹرویو دیا اور اس میں یہ دعویٰ کیا کہ یہ اس لئے کیا گیا تھا کہ احمدیوں کو خیال تھا کہ اگر مولوی ہم سے سوال کریں گے تو ہماری بے عزتی کریں گے اس لئے جے اے رحیم نے یہ تجویز دی کہ سولات اٹارنی جنرل کی وساطت سے پوچھے جائیں۔
(تحریک ِ ختم نبوت جلد سوم ،مصنفہ اللہ وسایا صاحب،ناشر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت،
حضوری باغ روڈ ملتان،جون۱۹۹۵ء ص۸۷۲)
ان کے اس بیان سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اس وقت احمدیوں کے جذبات کا اس قدر خیال رکھ رہی تھی کہ انہیں اس بات کی بھی بہت پرواہ تھی کہ کہیں احمدیوں کی بے عزتی بھی نہ ہوجائے۔ حالانکہ اس وقت صورت ِ حال یہ تھی کہ احمدیوں کو قتل و غارت کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور حکومت فسادات کو روکنے کی بجائے خود احمدیوں کو مورد ِ الزام ٹھہرا رہی تھی۔اس بیان کا سقم اس بات سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کہ یحییٰ بختیار صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ احمدی اس بات سے پریشان تھے کہ مولوی ان کی بے عزتی کریں گے اور اس صورت ِ حال میں جے اے رحیم صاحب نے یہ تجویز دی کہ اٹارنی جنرل صاحب سوالات کریں۔مگر یہ بیان دیتے ہوئے یحییٰ بختیار صاحب ایک بات چیک کرنا بھول گئے تھے۔ جے اے رحیم صاحب کو ۳ ؍جولائی ۱۹۷۴ء کو وزیر ِ اعظم بھٹو صاحب نے برطرف کر دیا تھاکیونکہ بقول ان کے،جے اے رحیم صاحب کا طرز عمل پارٹی ڈسپلن کے خلاف تھا(مشرق ۴ جولائی۱۹۷۴ء ص۱) ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ شدید اختلافات ایک رات پہلے نہیں شروع ہوئے تھے ان کا سلسلہ کافی پہلے سے چل رہا تھا۔ قومی اسمبلی کی کارروائی اس سے بہت بعد شروع ہوئی تھی۔اور اس کارروائی کے خدوخال تو سٹیرنگ کمیٹی میں طے ہوئے تھے اور اس کا قیام ۳ جولائی کو ہی عمل میں آیا تھا۔اور یہ فیصلہ کہ حضور جماعت کے وفد کی قیادت فرمائیں گے بھی اس تاریخ کے بعد کا ہے۔بلکہ جے اے رحیم کے استعفیٰ کے وقت تک تو ابھی یہ فیصلہ بھی نہیں ہوا تھا کہ جماعت کا وفد قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں اپنا موقف پیش کرے گا۔چنانچہ جب یہ وقت آیا تو جے اے رحیم صاحب اس پوزیشن میں تھے ہی نہیںکہ کسی طرح اس قسم کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے۔
لیکن بہر حال جب ہم نے اس وقت قومی اسمبلی کے سپیکر مکرم صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب سے انٹرویو لیا تو انہوں نے اس کے بارے میں ایک بالکل مختلف واقعہ بتایا۔گو کہ ہمارے خیال میں یہ فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا کہ سوالات اٹارنی جنرل صاحب کی وساطت سے کئے جائیں گے لیکن ایک اور واقعہ ہوا جس کے بعد حکومت نے اس بات کا مصمم ارادہ کر لیا کہ اگر مولوی حضرات کو براہ راست سوالات کرنے کا زیادہ موقع نہ ہی دیا جائے تو حکومت کے لئے بہتر ہو گا۔صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب کا کہنا تھا کہ کارروائی کے آغاز میں ہی مفتی محمود صاحب نے اُ ٹھ کر براہ راست حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ سے سوال کر لیا۔اور پوچھا کہ آپ نے اس لفظ کی یہ Interpretationکیوں کی ہے۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ اس لفظ کی اتنی Interpretationsہو چکی ہیں ۔ہم نے اس کی یہ Interpretationلی ہے۔اور ہماری Interpretattionدرست ہے۔صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب کہتے ہیں کہ اس پر مفتی محمود صاحب کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔کہتے ہیں کہ اسی روز میں نے بھٹو صاحب کو اپنے چیمبر سے فون کیا اور کہا کہ آپ کے لیڈر آف اپوزیشن کا یہ حال ہے کہ انہیں ایک سوال پر ہی صفر کر دیا گیا ہے۔اس پر بھٹو صاحب نے کہا کہ پھر آپ کیا مشورہ دیتے ہیں۔اس پر میں نے کہا کہ جرح اٹارنی جنرل ہی کرے اور اس کے ساتھ پانچ سات افراد کی کمیٹی اعانت کے لئے بنا دی جائے۔
ان کی گواہی سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا مولوی حضرات کو بے عزتی سے بچانے کے لئے کیا گیا تھا۔اور اسی انٹرویو میں صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب نے ہم سے بیان کیا کہ آدھے گھنٹے پہلے ہی سوال آجاتے تھے ۔تو بسا اوقات یحییٰ بختیار صاحب سوال پڑھ کر اس کی نامعقولیت پر غصہ میں آجاتے اور کہتے یہ کس۔۔۔۔۔(آگے ایک گالی ہے)نے بھیجا ہے اور اسے پھاڑ دیتے۔
یاد رہے کہ یہ روایت بیان کرنے والے صاحب اسمبلی کے سپیکر تھے اور اس سپیشل کمیٹی کی صدارت کر رہے تھے۔
وزیر ِ اعظم ایک بار پھر بیرونی ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہیں
جب راہبر کمیٹی اپنا کام ختم کر کے تجاویز سپیشل کمیٹی کو بھجوا رہی تھی تو انہی دنوں میں ۱۲ ؍جولائی ۱۹۷۴ء کو وزیرِ اعظم نے مینگورہ میںایک جلسہ عام سے خطاب کیا اور اس تقریر میں انہوں نے ملک میں جاری فسادات کے بارے میں اپنا تجزیہ بھی ملک کے عوام کے سامنے رکھا۔۱۳ ؍جولائی ۱۹۷۴ء کو ملک کے مشہور اخبار ڈان (Dawn) نے اس حصہ کے متعلق جو رپورٹنگ شائع کی وہ نقل کی جاتی ہے
‘‘The Prime Minister said that Ahmadiyya issue was a link in the chain of international consipiracy, aided by unpatriotic elements in the country.
He explained that on May 18 India exploded its nuclear device,on may 22 the first incident at Rabwah ocurred and when that proved a flop another incident ocurred at Rabwah on May 29.......
He reminded his audience that he had informed the nation in his june 13 address that this agitation was an international consipiracy.’’
ترجمہ: وزیر ِ اعظم نے کہا کہ احمدیہ ایشو ایک بین الاقوامی سازش کی زنجیر کی ایک کڑی ہے۔اور ملک کے اندرغیر محبِ وطن طبقہ اس کی اعانت کر رہا ہے۔انہوں نے وضاحت کی کہ ۱۸ ؍مئی کو بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا اور ۲۲ ؍مئی کو ربوہ میں پہلا واقعہ ہوتا ہے۔لیکن جب یہ کوشش ناکام ہو گئی تو ۲۹ ؍مئی کو دوسرا واقعہ ہوتا ہے۔۔۔(اس کے بعد بھٹو صاحب نے ملک کے ایک اپوزیشن سیاستدان اور افغانستان کی حکومت کے مابین تعلقات کے متعلق اور بھارت کے کچھ سیاستدانوں کی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ تفصیلات بیان کیں )
انہوں نے سننے والوں کو یاد دلایا کہ انہوں نے اپنے ۱۳؍ جون کے خطاب میں قوم کو بتا دیا تھا کہ یہ شورش ایک بین الاقوامی سازش ہے۔
پھر ۱۳؍ جولائی ۱۹۷۴ء کو بٹ خیلہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے کہا کہ بھارت کے ایٹمی دھماکہ کے فوری بعد قادیانیوں کے مسئلہ پر ہنگامے اور نیپ کے لیڈر خان عبدالولی خان کی بیرونِ ملک سرگرمیاں یہ ملک کی سالمیت کے خلاف سازش ہے اور کہا کہ حکومت قادیانیوں کے مسئلہ کو خاطر خواہ طریق پر حل کرے گی۔اس جلسہ میں ختمِ نبوت زندہ باد کا نعرہ لگایا گیا تو بھٹو صاحب بھی اس نعرے میں شامل ہوئے۔(مشرق ۱۴ ؍جولائی ۱۹۷۴ء ص۱)
بھٹو صاحب کے ان بیانات سے مندرجہ ذیل باتیں بالکل ظاہر و باہر ہیں۔
۱) بھٹو صاحب کے نزدیک جماعت ِ احمدیہ کے خلاف یہ فسادات اور ان کے غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ ایک بین الاقوامی سازش تھی اور اس سازش کو غیر ملکی عناصر کے ایماء پر چلایا جا رہا تھا۔
۲) اس سازش سے پاکستان کی سالمیت کو خطرہ تھا۔
۳) ملک کے اندر ایک غیر محب ِ وطن طبقہ اس سازش کی مدد کر رہا تھا۔
۴) پہلے ۲۲؍ مئی ۱۹۷۴ء کو ربوہ کے سٹیشن کے واقعہ کو ایک سازش کے تحت کرایا گیا ۔
۵) جب ۲۲ ؍مئی کو ایسے حالات پیدا نہ ہو سکے کہ ملک گیر فسادات بھڑکائے جا سکیں تو ۲۹؍مئی ۱۹۷۴ء کو اسی سازش کے تحت ملک دشمن عناصر نے دوسرا واقعہ کرایا اور اس کے نتیجہ میں ملک گیر فسادات کی آگ بھڑکائی گئی۔
سوال یہ اُ ٹھتا ہے کہ یہ سازش کون کر رہا تھا۔یہ بات تو خلافِ عقل ہے کہ جماعت ِ احمدیہ نے خود اپنے خلاف ایسی سازش کی جس کے نتیجہ میں پورے ملک میں کئی احمدیوں کو شہید کر دیا گیا اور احمدیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے،انہیں بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا اور ان کے خلاف قانون سازی کی گئی۔اور یہ بات تو غیر بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ۲۲؍ مئی ۱۹۷۴ء کا واقعہ تو احمدیوں نے نہیں کرایا تھا اور وزیر ِ اعظم نے برملا اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ۲۲ ؍مئی کا واقعہ بھی سازش کرنے والوں نے ہی کرایا تھا ۔ یقینا جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین ہی یہ سازشیں تیار کر رہے تھے اور اس کے ذریعہ وہ ملک کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ اور سامنے نظر آنے والے جماعت مخالف عناصر تو اس بساط کے بے جان مہرے ہی تھے جنہیں کچھ اور ہاتھ حرکت دے رہے تھے اور جیسا کہ اس وقت کے ممتاز سیاستدانوں کے بیان سے ظاہر ہے کہ انہیں کچھ دے دلا کر یہ کام کرایا جا رہا تھا ۔لیکن خود بھٹو صاحب کی حکومت کیا کر رہی تھی؟بجائے اس کے کہ ملک کے خلاف اس سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ،وہ مفسدین کی اعانت کر رہی تھی۔قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہے تھے اور ابھی سے حکومتی حلقوں کے بیانات اس بات کو صاف طور پر ظاہر کر رہے تھے کہ وہ مفسدین کے مطالبات تسلیم کر کے اس نام نہاد خدمت کا سہرا اپنے سر پر باندھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہ بات کوئی معمولی بات نہیں ۔فسادات کے دوران ملک کے وزیر ِاعظم نے ایک سے زائد مرتبہ الزام لگایا تھا کہ ان فسادات کے پیچھے اور یہ حالات پیدا کرنے کے پیچھے کوئی بیرونی ہاتھ کام کر رہا ہے۔آخر کونسا بیرونی ہاتھ یہ کام کر رہا تھا۔ہم نے جب پروفیسر غفور صاحب سے یہ سوال کیا کہ یہ کونسا بیرونی ہاتھ ہو سکتا ہے جس نے یہ فسادات کرائے تو ہمیں اس بات پر حیرت ہوئی کہ انہوں نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ یہ کسی بیرونی ہاتھ کی کارستانی تھی۔ ان کا جواب یہ تھا:
’’دیکھئے وہ ملک کے پرائم منسٹرتھے۔یہ بات اپنے علم کے بنا پر کہی ہو گی۔اگر آپ نے تقریر پڑھی تھی۔تو اس وقت جو لوگ موجود تھے ان سے پوچھ سکتے تھے کہ کونسا بیرونی ہاتھ ہے۔آج بھی کہا جاتا ہے ناں کہ کوئی بیرونی ہاتھ تھا۔حکومت کہتی ہے کہ بیرونی ہاتھ ہے۔تو ظاہر بات ہے کہ ملک کا وزیر ِ اعظم ایک بات کر رہا تھا کہ بیرونی ہاتھ تھا۔اپنے علم کی بنا پر کہہ رہا ہوگا ۔کون بیرونی ہاتھ ہے یہ وہی بتا سکتے ہیں‘‘
یہ بڑی دلچسپ بات ہے۔جہاں تک جماعت ِ احمدیہ کے پوچھنے کا سوال ہے تو اس وقت احمدیوں پر تو پورے ملک میں مظالم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے تھے۔ان کے پوچھنے پر تو وزیرِاعظم کا جواب دینے کا سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے۔لیکن یہ مسئلہ ایک طویل عرصہ قومی اسمبلی میں بھی زیرِبحث رہا۔اور دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ ہم نے اچھی طرح چھان بین کر کے یہ قدم اُ ٹھایا تھا تو حیرت کی بات ہے کہ کسی کو اسمبلی میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ وزیر ِ اعظم صاحب سے یا حکومت سے یہ پوچھے کہ یہ کونسا بیرونی ہاتھ ہے جس نے ملک میں یہ فسادات برپا کئے ہیں۔اس طرح پروفیسر غفور صاحب نے اس بات کی تعیین تو نہیں کی کہ وہ کون سے بیرونی ہاتھ تھے لیکن یہ ضرور اعتراف کیا کہ بھٹو صاحب نے کسی علم کی بنا پر یہ بات کہی تھی۔
اور جب ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے یہ سوال کیا کہ وہ کونسا بیرونی ہاتھ تھا ،کونسا غیر ملکی ہاتھ تھاجس کا ذکر بھٹو صاحب کر رہے تھے تو ان کا جواب تھا
’’مسٹر بھٹو جو تھے بہت ہی زیرک آدمی تھے۔اگر ان سےPrivately پوچھتے تو کہہ دیتے ۔سعودی عرب۔‘‘
اس کے جواب میں ہم نے دریافت کیا
‘‘You think he meant it was Saudi Arab that was
causing the riots’’
یعنی کیا آپ کا مطلب ہے کہ ان کی مراد تھی کہ سعودی عرب یہ فسادات کرا رہا تھا؟
اس پر ڈاکٹر مبشر حسن صاحب نے کہا
‏’’He did'nt say so‘‘
یعنی انہوں نے یہ کہا نہیں۔اس پر ہم نے پھر استفسار کیا
‏’’But of course he meant somebody‘‘
یعنی ،مگر یقیناََ کوئی تو ہوگا جس کا وہ ذکر کر رہے تھے۔اس پر انہوں نے پھر ایک نہایت محتاط جواب دیا
‏’’Yes, if I know Mr. Bhutto‘‘
ہاں اگر میں مسٹر بھٹو کو جانتا ہوں۔
اب صورت ِ حال یہی بنتی ہے کہ یا تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ اس وقت کی کابینہ کو پرواہ ہی نہیں تھی کہ بیرونی ہاتھ ملک میں کیا کیا کارستانی دکھا جاتے ہیں اور کابینہ کے اہم اراکین نے بھی وزیرِ اعظم سے یہ پوچھنے کی کوشش نہیں کی کہ آخر وہ کون سے غیر ملکی ہاتھ ہیں جو پاکستان کے اندرونی معاملات میں اتنی مداخلت کر رہے ہیں کہ ان کے اشارے پر ملک گیر فسادات بھی شروع ہو جاتے ہیں۔یا پھر کابینہ محض ایک ناکارہ عضو کی طرح تھی کہ جسے اس اہم معاملہ میں اعتماد میں ہی نہیں لیاگیا تھا اور عام جلسوں میں اس بات کا تذکرہ برملا کیا جارہا تھا۔پھر ہم نے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے دریافت کیا کہ جب یہ سب کچھ کوئی بیرونی ہاتھ کرا رہا تھا اور یہ سب کچھ ملک کی وحدت اور سالمیت کے لئے بھی خطرہ تھا تو پھر ایسا کیوں ہوا کہ اس کے مطالبات متفقہ طور پر تسلیم بھی کر لئے گئے تو کیا اس بات سے اُس غیر ملکی ہاتھ کے منصوبے کو تقویت نہیں پہنچی۔تو اس پر ان کا جواب تھا:
‏’’Actually he always thought(دراصل ان کا ہمیشہ یہ خیال ہوتا تھا)
کہ وہ کچھ بھی کر لیں اس پر قابو پالیں گے۔‘‘
جب ہم نے عبد الحفیظ پیرزادہ صاحب سے جو ۱۹۷۴ء میں وزیر ِ قانون تھے یہ سوال کیا کہ بھٹوصاحب کا اشارہ کن بیرونی عناصر کی طرف تھا جنہوں نے یہ سازش تیار کی تھی۔تو پہلے انہوں نے یہ سوال کیا کہ آپ نے یہ سوال اور کس سے پوچھا ہے ۔اس کا جواب ملنے کے بعد انہوں نے دریافت کیا کہ آپ لوگوں کے خلاف پہلے یہاں پر ایکشن ہوا تھا یا سعودی عرب میں۔اس کاجواب ملنے پر وہ محض سر کو اثبات میں جنبش دے کر خاموش ہو گئے۔
یہ عجیب بات نظر آتی ہے کہ اس پس منظر میں کابینہ کے اراکین نے یا قومی اسمبلی کے کسی حکومتی یا اپوزیشن رکن نے یہ سوال نہیں اُ ٹھایا آخر وہ کون سا بیرونی ہاتھ ہے جو کہ ملک میں یہ فسادات برپا کر رہا ہے۔
ہم یہاں پر پڑھنے والوں کو یہ یاد دلاتے جائیں کہ ہم سلسلہ احمدیہ حصہ دوئم میں اس بات کا تفصیلی جائزہ لے چکے ہیں کہ ۱۹۵۳ء کے فسادات کے دوران ذمہ دار افسران نے بھی غیر ملکی ہاتھ کی طرف اشارہ کیا تھا اور فسادات کے بعد پارلیمنٹ میں بجٹ تقریر کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین صاحب نے بھی ۵۳ء میں احمدیوں کے خلاف فسادات کے پیچھے بیرونی ہاتھ کی طرف اشارہ کیا تھا لیکن جیسا کہ اوپر دی گئی مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب بیرونی ہاتھ کی طرف اشارہ تو کر دیتے ہیں جو کہ کچھ عرصہ کے بعد پاکستان میں احمدیوں کے خلاف مہم چلا دیتا ہے۔لیکن کوئی اس بیرونی ہاتھ کی تعیین نہیں کرتا۔
جن سیاستدانوں سے ہم نے سوال کئے انہوں نے اپنے جواب کو جہاں تک سازش کا سلسلہ واضح نظر آتا تھا ،وہاں تک محدود رکھا ۔لیکن دنیا کی تاریخ کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ اصل محرک قوتیں اور ہوتی ہیں اور سامنے کوئی اور دکھائی دے رہا ہوتا ہے اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔یہ ایک ایسا پہلو ہے جس پر آئندہ آنے والی نسلوں کے محققین بہت کچھ لکھیں گے لیکن ہم بات کو وہیں تک ختم کرتے ہیںجہاں تک ہماری تحقیق ہمیں لے کر گئی ہے۔ہر پڑھنے والا اپنے ذہن کے مطابق نتیجہ نکال سکتا ہے۔
جماعت ِ احمدیہ کا محضر نامہ
اس مرحلہ پر مناسب ہو گا کہ جماعتِ احمدیہ کے محضر نامہ کا مختصراََ جائزہ لیا جائے۔یہ محضر نامہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی ہدایات کے تحت تیار کیا گیا تھا اور ایک ٹیم نے اس کی تیاری پر کام کیا تھا۔ ان میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب،حضرت مولانا ابو العطاء صاحب، حضرت شیخ محمداحمد صاحب مظہر اور حضرت مولانا دوست محمد شاہد صاحب شامل تھے۔اور جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے اسے سپیشل کمیٹی کے مطالعہ کے لیے بھجوایا گیا تھا اور اس میں بہت سے بنیادی اہمیت کے حامل اور متنازعہ امور پر جماعت ِ احمدیہ کا موقف بیان کیا گیا تھا۔
اس کے پہلے باب میں قومی اسمبلی میں پیش ہونے والی مذکورہ قراردادوں پر ایک نظر ڈال کر یہ اصولی سوال اُ ٹھایا گیا تھاکہ آیا
دنیا کی کوئی اسمبلی بھی فی ذاتہ اس بات کی مجاز ہے کہ
اوّل:کسی شخص کایہ بنیادی حق چھین سکے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو۔
دوم:یا مذہبی امور میں دخل اندازی کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرے کہ کسی جماعت یا فرقے یا فرد کا کیا مذہب ہے؟
پھر اس محضر نامہ میں جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے اس اہم سوال کا جواب یہ دیا گیا تھا
’’ہم ان دونوں سوالات کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ہمارے نزدیک رنگ و نسل اور جغرافیائی اور قومی تقسیمات سے قطعمسیح نظر ہر انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو اور دنیا میں کوئی انسان یا انجمن یا اسمبلی اسے اس بنیادی حق سے محروم نہیں کر سکتے۔اقوامِ متحدہ کے دستور العمل میں جہاں بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے وہاں ہر انسان کا یہ حق بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو۔
اسی طرح پاکستان کے دستور اساسی میں بھی دفعہ نمبر ۲۰ کے تحت ہر پاکستانی کا یہ بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو ۔اس لئے یہ امر اصولاً طے ہونا چاہئے کہ کیا یہ کمیٹی پاکستان کے دستور اساسی کی رو سے زیرِ نظر قرارداد پر بحث کی مجاز بھی ہے یا نہیں؟‘‘
اگر قوم یا اسمبلی اس راستہ پر چل نکلے تو اس کے نتیجہ میں کیا کیا ممکنہ خطرات پیدا ہو سکتے ہیں، ان کا مختصر جائزہ لے کر یہ انتباہ کیا گیا۔
’’ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا صورتیں عقلاً، قابلِ قبول نہیں ہو سکتیں اور بشمول پاکستان دنیا کے مختلف ممالک میں ان گنت فسادات اور خرابیوں کی راہ کھولنے کاموجب ہو جائیں گی۔
کوئی قومی اسمبلی اس لئے بھی ایسے سوالات پر بحث کی مجاز قرار نہیں دی جا سکتی کہ کسی بھی قومی اسمبلی کے ممبران کے بارے میں یہ ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ وہ مذہبی امور پر فیصلے کے اہل بھی ہیں کہ نہیں ؟
دنیا کی اکثر اسمبلیوں کے ممبران سیاسی منشور لے کر رائے دہندگان کے پاس جاتے ہیں اور ان کا انتخاب سیاسی اہلیت کی بناء پر ہی کیا جاتا ہے۔خود پاکستان میں بھی ممبران کی بھاری اکثریت سیاسی منشور کی بناء اور علماء کے فتوے کے علی الرغم منتخب کی گئی ہے۔
پس ایسی اسمبلی کو یہ حق کیسے حاصل ہو سکتا ہے کہ وہ کسی فرقہ کے متعلق یہ فیصلہ کرے کہ فلاں عقیدہ کی رو سے فلاں شخض مسلمان رہ سکتا ہے کہ نہیں ؟
اگر کسی اسمبلی کی اکثریت کو محض اس بناء پرکسی فرقہ یا جماعت کے مذہب کا فیصلہ کرنے کا مجاز قرار دیا جائے کہ وہ ملک کی اکثریت کی نمائندہ ہے تو یہ موقف بھی نہ عقلاً قابلِ قبول ہے نہ فطرتاً نہ مذہباً ۔اس قسم کے امور خود جمہوری اصولوں کے مطابق ہی دنیا بھر میں جمہوریت کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیئے جاتے ہیں۔اسی طرح تاریخِ مذہب کی رو سے کسی عہد کی اکثریت کا یہ حق کبھی تسلیم نہیں کیا گیا کہ وہ کسی کے مذہب کے متعلق کوئی فیصلہ دے۔اگر یہ اصول تسلیم کر لیا جائے تو نعوذُ با للہ دنیا کے تمام انبیاء علیہم السلام اور ان کی جماعتوں کے متعلق ان کے عہد کی اکثریت کے فیصلے قبول کرنے پڑیں گے۔ظاہر ہے کہ یہ ظالمانہ تصوّر ہے جسے دنیا کے ہر مذہب کا پیروکار بلا توقف ٹھکرا دے گا۔‘‘
چونکہ اپوزیشن کی پیش کردہ قرارداد میں رابطہ عالمِ اسلامی کی قرارداد کو اپنی قرارداد کی بنیاد بنا کر پیش کیا گیا تھا اور اپوزیشن کی قرارداد میں بھی جماعت ا حمدیہ پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے تھے اس لئے اس محضر نامے میں ان دونوں قراردادوں میں شامل الزامات کی تر دید پر مشتمل مواد بھی شامل کیا گیا تھا۔
اس کے بعد اس محضر نامہ میں مندرجہ ذیل عناوین پر جماعت ِ احمدیہ کا موقف بیان کیا گیا۔ مسلمان کی تعریف اور جماعت ِ احمدیہ کا موقف ،مقام خاتم النبیین ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عارفانہ تحریرات،ذات ِ باری کا عرفان از افادات ِ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ،قرآنِ کریم اعلیٰ اور ارفع شان حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی نظر میں،شانِ خاتم الانبیاء ﷺ بانیِ سلسلہ احمدیہ کی نگاہ میں، آیت خاتم النبیین کی تفسیر،انکارِ جہاد کے الزام کی حقیقت ،بعض دیگر الزامات کا جائزہ،معزز ارکانِ اسمبلی کی خدمت میں ایک اہم گزارش ۔اراکین ِ اسمبلی کے نام اہم گزارش کے باب میں مختلف حوالے دے کر لکھا گیا تھا کہ مذہب کے نام پر پاکستان کے مسلمانوں کو باہم لڑانے اور صفحہ ہستی سے مٹانے کی ایک دیرینہ سازش چل رہی ہے۔اس پس منظر میں پاکستان کے گزشتہ دور اور موجودہ پیدا شدہ صورتِ حال پر نظر ڈالی جائے تو صاف معلوم ہو گا کہ اگرچہ موجودہ مرحلہ پر صرف جماعت ِ احمدیہ کو غیر مسلم قرار دینے پر زور ڈالا جا رہا ہے مگر دشمنانِ پاکستان کی دیرینہ سکیم کے تحت امتِ مسلمہ کے دوسرے فرقوں کے خلاف بھی فتنوں کا دروازہ کھل چکا ہے
اس محضر نامہ کے آخر پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ پر درد انتباہ درج کیاگیا
’’میں نصیحتاََ للہ مخالف علماء اور ان کے ہم خیال لوگوں کو کہتا ہوں کہ گالیاں دینا اور بد زبانی کرنا طریقِ شرافت نہیںہے۔ اگر آپ لوگوں کی یہی طینت ہے تو خیر آپ کی مرضی ۔لیکن اگر مجھے آپ لوگ کاذب سمجھتے ہیںتو آپ کو یہ بھی تو اختیار ہے کہ مساجد میں اکٹھے ہو کر یا الگ الگ میرے پر بد دعائیں کریں اور رو رو کر میرا استیصال چاہیں پھر اگر میں کاذب ہوں گا تو ضرور وہ دعائیں قبول ہو جائیں گی۔اور آپ لوگ ہمیشہ دعائیں کرتے بھی ہیں۔
لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ اس قدر دعائیں کریںکہ زبانوں میں زخم پڑ جائیں اور اس قدر رو رو کر سجدوں میں گریں کہ ناک گھس جائیں اور آنسو ؤں سے آنکھوں کے حلقے گل جائیں اور پلکیں جھڑ جائیں اور کثرتِ گریہ و زاری سے بینائی کم ہو جائے اور آخر دماغ خالی ہو کر مرگی پڑنے لگے یا مالیخولیا ہو جائے تب بھی وہ دعائیں سنی نہیں جائیں گی کیونکہ میں خدا سے آیا ہوں ۔۔۔کوئی زمین پر مر نہیں سکتا جب تک آسمان پر نہ مارا جائے۔میری روح میں وہی سچائی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی۔مجھے خدا سے ابراہیمی نسبت ہے ۔کوئی میرے بھید کو نہیں جانتا مگر میرا خدا ۔مخالف لوگ عبث اپنے تئیں تباہ کررہے ہیں۔میں وہ پودا نہیں ہوں کہ ان کے ہاتھ سے اکھڑ سکوں۔۔۔اے خدا !!تو اس امت پر رحم کر ۔آمین‘‘
(ضمیمہ اربعین نمبر ۴صفحہ۵ تا ۷۔ روحانی خزائن جلد۱۷ ص ۴۷۱ تا ۴۷۳)
اس وقت پورے ملک میں جماعت ِ احمدیہ کے خلاف پورے زور و شور سے ایک مہم چلائی جا رہی تھی اور احمدیوں پر ہر طرف سے ہر قسم کے الزامات کی بارش کی جا رہی تھی۔اس محضر نامہ میں اس قسم کے کئی اعتراضات کے جوابات بھی دیئے گئے تھے تا کہ پڑھنے والوں پر ان اعتراضات کی حقیقت آشکار ہو۔
یکم جولائی سے پندرہ جولائی تک کے حالات
ایک طرف تو ان کمیٹیوں میں کارروائی ان خطوط پر جاری تھی اور دوسری طرف ملک میں احمدیوں کی مخالفت اپنے عروج پر تھی۔اور یہ سب کچھ علی الاعلان ہو رہا تھا۔یہاں تک کہ اخبارات میں طالب علم لیڈروں کے بیانات شائع ہو رہے تھے کہ نہ صرف کسی قادیانی طالب علم کو تعلیمی اداروں میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا بلکہ جن قادیانی طالب علموں نے امتحان دینا ہے انہیں اس بات کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی کہ وہ امتحانات دے سکیں۔اور یہ بیانات شائع ہو رہے تھے کہ اہلِ پیغام میں سے کچھ لوگ کچھ گول مول اعلانات شائع کر کے اپنے کاروبار کو بائیکاٹ کی زد سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔مسلمانوں کو چاہئے کہ ان کے اعلانات کو صرف اس وقت قبول کیا جائے گا جب وہ اپنے اعلانات میں واضح طور پر مرزا غلام احمد قادیانی کو کافر اور کاذب کہیں ورنہ ان کے کاروبار کا بائیکاٹ جاری رکھا جائے۔اور اس کے ساتھ یہ مضحکہ خیز اپیل بھی کی جا رہی تھی کہ عوام پر امن رہیں۔ گویا ان لوگوں کے نزدیک یہ اعلانات ملک میں امن و امان کی فضا قائم کرنے کے لیے تھے۔(۳۷)
یکم جولائی سے پندرہ جولائی ۱۹۷۴ء تک کے عرصہ میں بھی ملک میں احمدیوں پر ہر قسم کے مظالم جاری رہے۔اس دوران مخالفین احمدیوں کے خلاف بائیکاٹ کو شدید تر کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے تاکہ اس طرح احمدیوں پر دباؤ ڈال کر انہیں عقائد کی تبدیلی پر مجبور کیا جا سکے۔بہت سے شہروں میں غنڈے مقرر کیے گئے تھے کہ وہ احمدیوں کو روز مرہ کی اشیاء بھی نہ خریدنے دیں اور جہاں کوئی احمدی باہر نظر آئے تو تو اس کے ساتھ توہین آمیز رویہ روا رکھا جاتا ۔کئی مقامات پر احمدیوں کا منہ کالا کر کے انہیں سڑکوں پر پھرایا گیا اور یہ پولیس کے سامنے ہوا اور پولیس تماشہ دیکھتی رہی۔ احمدیوں کی دوکانوں کے باہر بھی غنڈے مقرر کر دیئے جاتے جو لوگوںکو احمدیوں کی دوکانوں سے خریداری کرنے سے روکتے۔سرگودھا، دیپالپور اور بھیرہ میںاحمدیوں کے مکانوں کے ارد گرد محاصرہ کی صورت پیدا ہوگئی۔اور ۱۳ ؍جولائی کو تخت ہزارہ میں احمدیوں کے بارہ مکانوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ بائیکاٹ کی صورت کو شدید تر بنانے کے لیے یہ بھی کیا گیا کہ بھنگیوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ احمدیوں کے مکانات کی صفائی نہ کریں اور بعض مقامات پر ڈاکٹروں نے احمدی مریضوں کا علاج کرنے سے بھی انکار کر دیا۔لائلپوراور بوریوالہ میں بعض صنعتوں کے مالکان نے احمدیوں کو ملازمت سے فارغ کر دیا۔ڈسکہ میں احمدیوں کے کارخانے کے ملازمین کو وہاں پر کام کرنے سے روک دیا گیا ،جس کے نتیجے میں یہ کارخانہ بند کرنا پڑا۔دیہات میں احمدیوں کی زندگی کو اجیرن کرنے کے لیے یہ بھی کیا گیا کہ احمدیوں کو کنویں سے پانی نہیں لینے دیا جاتا اور چکی والو ں کو مجبور کیا گیا کہ احمدیوں کو آ ٹا پیس کر نہ دیا جائے۔احمدیوں کو تکلیف دینے کے لیے ان کی مساجد میں غلاظت پھینکی جاتی۔اور پاکپتن میں جماعت کی مسجد پر قبضہ کر لیا گیا۔ان کی سنگدلی سے مردہ بھی محفوظ نہیں تھے۷؍ جولائی کو خوشاب میں ایک احمدی کی قبر کھود کر نعش کی بے حرمتی کی گئی اور کوٹلی اور گوجرانوالہ میں احمدیوں کی تدفین روک دی گئی۔ لائلپور میں اب مخالفین علی الاعلان یہ کہتے پھرتے تھے کہ پندرہ جولائی کے بعد ربوہ کے علاوہ کہیں پر احمدی نظر نہ آئے۔نصیرہ ضلع گجرات میں یہ اعلان کیے گئے جو احمدی اپنے عقائد کو نہیں چھوڑے گا اس کے گھروں کو جلادیا جائے گا۔۲ ؍جولائی کو ایک احمدی سیٹھی مقبول احمد صاحب کو ان کے مکان پر گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔لاہور کی انجینیئرنگ یونیورسٹی میں احمدی طالب علم امتحان دینے گئے تو ان کے کمرہ کے اندر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی ۔انہیں اپنی جانیں بچا کر وہاں سے نکلنا پڑا۔(۳۸)
کراچی میں جماعت ِ اسلامی کے بعض لوگوں نے کچھ اور مولویوں کے ساتھ مل کر ایک سازش تیار کی کہ کسی طرح لوگوں کے جذبات کو احمدیوں کے خلاف بھڑکایا جائے۔انہوں نے دستگیر کالونی کراچی کے ایک پرائمری پاس مولوی جس کا نام ابراہیم تھا کو چھپا دیا اور اس کے ساتھ یہ شور مچا دیا کہ قادیانیوں نے ہمارے عالمِ دین کو اغوا کر لیا ہے۔یہ خبر اخباروں میں شائع کی گئی اور اس کے ساتھ عوام میں اسے مشتہر کر کے اشتعال پھیلایا گیا۔جلوس نکلنے شروع ہوئے کہ اگر قادیانیوں نے ہمارے مولانا کو آزاد نہ کیا تو ان کے گھر وں اور دوکانوں کو نذرِ آتش کر دیا جائے گا۔اور اس کے ساتھ احمدیوں کے گھروں اور دوکانوں کی نشاندہی کے لئے ان پر سرخ روشنائی سے گول دائرہ بنا کر اس کے اندر کراس کا نشان لگا دیا گیا۔مقامی ایس ایچ او نے شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان جلوسوں کو منتشر کیا۔مخالفین کے جوش کو ٹھنڈا کرنے کے لئے پولیس نے پانچ احمدیوں کو اس نام نہاد اغوا کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ مولوی لوگ حوالات میں آکر پولیس سے کہتے کہ ان کی پٹائی کرو۔ابھی یہ نامعقول سلسلہ جاری تھا کہ پولیس نے چھاپے مار کر ۱۲؍ اگست کو علاقہ شیر شاہ کے مکان سے ان چھپے ہوئے مولوی کو برآمد کر کے گرفتار کر لیا۔اور پھر جا کر گرفتار مظلوم احمدیوں کی رہائی عمل میں آئی۔(۳۹)
پورے ملک میں احمدیوں کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلا کر لوگوں کو احمدیوں کے خلاف بھڑکایا جا رہا تھا۔یہاں تک کہ یہ خبریں مشہور ہونے لگیں کہ ربوہ کے ریلوے سٹیشن پر ہونے والے واقعہ میں بہت سے طالب علموں کی زبانیں اور دوسرے اعضاء کاٹے گئے تھے۔لیکن جب جسٹس صمدانی کی تحقیقات کی خبریں اخبارات میں شائع ہونے لگیں تو اس قسم کی خبر کا کوئی نام ونشان بھی نہیں تھا ۔اس پر جسٹس صمدانی کو اس مضمون کے خطوط ملنے لگے کہ یہ خبریں شائع کیوں نہیں ہونے دی جا رہیں کہ نشتر میڈیکل کالج کے طلباء کی زبانیں اور دوسرے اعضاء کاٹے گئے تھے۔اس صورتِ حال میں جسٹس صمدانی کو دورانِ تحقیق ہی اس بات کا اعلان کرنا پڑا کہ حقیقت ِ حال یہ ہے کہ ایسی کوئی شہادت سرے سے ریکارڈ پر آئی ہی نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ کسی طالب علم کی زبان کاٹی گئی یا کسی کے جسم کا کوئی عضو الگ کیا گیا یا مستقل طور پر ناکارہ کیا گیا۔فاضل جج نے کہا کہ میڈیکل رپورٹوں سے بھی یہ افواہیں غلط ثابت ہوتی ہیںاس لیے ان کی تردید ضروری تھی۔(۴۰)
جس وقت سٹیشن کا واقعہ ہوا ،اس وقت جو خبریں اخبارات میں شائع کی جا رہی تھیں وہ یہ تھیں:۔
چٹان نے لکھا :
’’اتنا زخمی کیا گیا کہ ڈیڑھ درجن طلباء ہلکان ہو گئے۔ان کے زخموں کو دیکھنا مشکل تھا۔۔۔۔۔۔۔۔جس قدر طلباء زخمی ہوئے ہیں ان کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔‘‘(۴۱)
نوائے وقت نے ۳۰ مئی ۱۹۷۴ء کی اشاعت میں خبر شائع کی تھی کہ ۳۰ طلباء شدید زخمی ہوئے ہیں۔اسی اخبار نے یکم جون کو یہ خبر شائع کی تھی کہ ۱۲ طلباء شدید زخمی ہوئے ہیں۔اخبار مشرق نے ۳۰؍مئی ۱۹۷۴ء کو خبر شائع کی تھی کہ۴ طلباء کی حالت نازک ہے۔اور امروز نے ۳۰؍ مئی لکھا تھا کہ ۲ کی حالت نازک ہے۔ان خبروں کا آپس میں فرق ظاہر کر رہا ہے کہ بغیر مناسب تحقیق کے خبریں شائع کی جا رہی تھیں۔
اور جیساکہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ نشتر میڈیکل کالج کے ان طلباء نے لائلپور میں اپنا علاج کرانا پسند نہیں کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم ملتان جا کر اپنے تدریسی ہسپتال میں علاج کرائیں گے۔حالانکہ اگر ان طلباء کی حالت اتنی ہی نازک تھی تو یہ خود طب کے پیشہ سے منسلک تھے اور جانتے تھے کہ علاج میں تاخیر کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔بہر حال ملتان میں ان کے تدریسی ہسپتال جا کر علاج شروع ہوا۔اور جو ڈاکٹر ان کے علاج میں شریک تھے انہوں نے ٹریبیونل کے سامنے ان زخمی طلباء کے زخموںکے متعلق گواہیاں دیں۔ان ڈاکٹروں کے نام ڈاکٹر محمد زبیر اور ڈاکٹر محمد اقبال تھے۔ان میں سے کچھ طلباء یقینا زخمی تھے اور ان میں سے کچھ کو داخل بھی کیا گیا تھا۔لیکن زخموں کی نوعیت کتنی شدید تھی اس کا اندازہ ان ڈاکٹروں کی گواہی سے ہونے والے ان انکشافات سے بخوبی ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر محمد زبیر صاحب نے گواہی دی
۱) ۲۹ مئی ۱۹۷۴ء کو جب زخمی طلباء کو ہسپتال لایا گیا تو ان کو ایمرجنسی کی بجائے براہِ راست وارڈ میں لے جایا گیا۔میں نے ان کا معائنہ کیا اور ان میں سے ایک طالب علم آفتاب احمد کو کسی حد تک Seriousکہا جا سکتا ہے۔میں ان کی حالت کے متعلق یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اس کے سر پر ضرب لگی تھی اور وہ اس وقت بے ہوش تھا۔اور باقی مضروب پوری طرح ہوش میں تھے۔
باقی آٹھ طلباء کی حالت کو Grievious نہیں کہاجا سکتا۔
۲)اس ایک Seriousطالب علم آفتاب احمد صاحب کو بھی ۷ روز کے بعد ۸ ؍جون کو ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ان کا سر کا ایکسرے کیا گیا تھا اور وہ بھی ٹھیک نکلا تھا اور کوئی فریکچر نہیں تھا۔
۳) ڈاکٹر محمد زبیر صاحب نے کسی اور مریض کے ایکسرے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
۴) کسی طالب علم کو خون لگانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
نشتر ہسپتال کے Casuality Medical Officerڈاکٹر اقبال احمد صاحب نے یہ گواہی دی
۱)میں نے چار زخمی طلباء کا شعبہ حادثات میں معائنہ کیا ،جن میں سے کوئی بھی شدید زخمی نہیں تھا۔
۲)ان میں سے کسی کو بھی خون نہیں لگانا پڑا
۳) ایک طالب علم کی آنکھ کے ارد گرد نیلا داغ نمودار ہوا تھا،ایکس رے کرایا گیا تو وہ ٹھیک نکلا کوئی فریکچر نہیں تھا۔
ان ڈاکٹر صاحبان نے بیان کیا کہ داخل ہونے والے طلباء میں سے بعض ایسے بھی تھے جو ڈسچارج ہونے کا انتظار کیے بغیر خود ہی ہسپتال سے چلے گئے تھے۔
یہ تھی ان شدید زخمیوں کی نازک حالت کی حقیقت جس کے متعلق پورے ملک میں افواہیں اڑائی جا رہی تھیں کہ زبانیں اور اعضاء کاٹ دیئے گئے اور اخبارات بھی لکھ رہے تھے کہ ان میں سے کئی کی حالت نازک ہے۔اور سچ یہ تھا کہ کسی ایک کے بھی زخم اس نوعیت کے نہیں تھے کہ انہیں Grievious Injuryکہا جا سکے۔کوئی جان ضائع نہیں ہوئی ۔کسی کی ہڈی فریکچر نہیں ہوئی۔کسی کو خون نہیں لگانا پڑا ۔صرف دو کے ایکسرے کرانے کی ضرورت پڑی اور وہ بھی ٹھیک تھے۔
افرادِ جماعت پرسرگودھاریلوے اسٹیشن پرفائرنگ
اِن دوہفتوںکے حالات مکمل کرنے سے قبل ایک اہم واقعہ درج کرناضروری ہے۔اِس واقعہ کو پڑھ کراندازہ ہوجاتاہے کہ اُس وقت احمدیوں پرکس قسم کے مظالم روارکھے جارہے تھے۔مکرم ومحترم ہادی علی چوہدری صاحب نے جوکہ اِس واقعہ کے چشم دید گواہ تھے۔اس واقعہ کوتحریرفرمایاہے۔آپ لکھتے ہیں:۔
’’مؤرخہ ۱۶؍جولائی کوسرگودھاریلوے اسٹیشن پراحمدیوںکے قافلہ پرفائرنگ کی گئی اور دس نہتے احمدیوںکوگولیوںکانشانہ بنایاگیا۔
جس روزفائرنگ ہوئی،اس سے ایک دوروزقبل ربوہ سے جودوست اپنے عزیزوں سے ملاقات کے لئے سرگودھاجیل گئے تھے ان کوملاقات کے بعد راستہ میںزدوکوب کیاگیا۔اس واقعہ کے پیشِ نظرصدرصاحب عمومی نے ۱۶؍جولائی کوملاقات کے لئے جانے والے دوستوں کو منظم طریق پرجانے کی ہدایت فرمائی اورمکرم محمداحمدصاحب لائبریرین تعلیم الاسلام کالج ربوہ (حال جرمنی)کوامیرِ قافلہ بنایا۔
اس قافلہ کے چالیس سے زائد افراد میںخاکساراورخاکسارکے نانامحترم ماسٹرراجہ ضیاء الدین ارشدشہیدشامل تھے۔خاکسارکے ماموں مکرم نعیم احمدصاحب ظفراورخاکسارکے بڑے بھائی اشرف علی صاحب بھی جیل میںتھے۔ہم دونوںان سے ملاقات کی غرض سے گئے تھے۔
۱۶؍جولائی کی شام کوجب ملاقات کے بعدربوہ واپسی کے لئے اسٹیشن پہنچے توابھی گاڑی کی آمد میںکچھ دیرتھی۔ہم سب اکٹھے تیسرے درجہ کے ٹکٹ گھرمیںانتظارکرنے لگے۔یہ ٹکٹ گھراسٹیشن کی عمارت کے ساتھ مگراس کے جنگلے سے باہرتھا۔جب ٹکٹوںوالی کھڑکی کھلی تواکثرلوگ ٹکٹ لینے کے لئے قطارمیںلگ گئے۔بعض نے جب ٹکٹ لے لئے اورمختاراحمدصاحب آف فیکٹری ایریاکی باری آئی توٹکٹ دینے والے نے کہا:
’’ربوہ کے ٹکٹ ختم ہوگئے ہیں،آپ لالیاںیاچنیوٹ کاٹکٹ لے لیں،ویسے پتہ نہیںآپ لوگوںنے ربوہ پہنچنابھی ہے یانہیں۔‘‘
تھوڑی دیرمیںہم سب چنیوٹ وغیرہ کی ٹکٹیںلے چکے تھے۔گاڑی کاوقت بھی قریب تھا چنانچہ دودوچارچارافرادباتیںکرتے ہوئے اسٹیشن کی بائیںجانب جنگلے کے ایک دروازے سے پہلے پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم پرجانے کے لئے درمیانے پُل کی سیڑھیوں پرچڑھنے لگے۔ جب کچھ لوگ سیڑھیوںپرتھے اورکچھ پُل پراورکچھ پُل سے دوسرے پلیٹ فارم کی سیڑھیوںپراتررہے تھے کہ اچانک پہلے پلیٹ فارم پرپولیس کے کمرہ کے سامنے سے چندغنڈوںنے سیڑھیوںسے اترنے والوں پرفائرنگ شروع کی۔پولیس کے تین چارسپاہی ان حملہ آوروںکی پشت پر کھڑے تھے۔اس فائرنگ سے ابتدا ہی میںہمارے دس لوگ زخمی ہوگئے اوران میںسے دوتین دوسرے پلیٹ فارم پر گر بھی گئے۔باقی زخمی پلیٹ فارم سے نیچے عقب میںگاڑی کی پٹری پریاپلیٹ فارم پرستونوںاورپُل کی اوٹ میںہوگئے۔جب فائرنگ شروع ہوئی توخاکساراس وقت سیڑھیاںچڑھ کرپُل کے شروع میں تھا اوراس سارے منظرکودیکھ رہاتھا۔اس وقت ایک دیوانگی کے عالم میںخاکساراوردوتین اور دوستوں نے بھاگ کرزخمیوںتک پہنچنے اورگرے ہوئوںکوگھسیٹ کراِدھراُدھرچھپانے کی کوشش کی۔
انہی لمحات میںایک ددغنڈوںکودونوںپلیٹ فارموںکی درمیانی پٹری کوپھلانگ کرہاتھوںمیں ہاکی اورخنجرلئے ادھرآتے دیکھا تو ہم نے فوراًپلیٹ فارم سے اُترکرپٹری سے پتھراُٹھاکرانہیںتاک کرمارے۔ہمارے پتھرانہیںکاری لگے اوروہ واپس بھاگ گئے۔
ان حملہ آوروںمیںسے جواِس پلیٹ فارم پرآتاوہ ہمارے پتھروںکانشانہ بنتااورپسپا ہوجاتا۔ اس سارے وقت گولیاںمارنے والے ’’مجاہد‘‘ ہم پرگولیاںبرساتے رہے جوہمارے عقب میںکھڑی مال گاڑی پرلگ لگ کرآوازیںکرتی رہیں۔ہم موت سے بے خبر ایک دیوانگی کے علم میںان پر پتھر برساتے رہے۔اس اثنا میںریاض صاحب کوگرنے کی وجہ سے گھٹنے پرچوٹ آگئی۔کچھ دیربعد راشدحسین صاحب کے سینے میںبھی گولی لگ گئی۔اب ہم دوتھے جنہوںنے اس وقت تک ان میں سے ایک ایک پرپتھربرسائے جب تک کہ وہ بھاگ نہ گئے۔اس وقت اگر یہ دفاع نہ ہوسکتاتووہ یقینااِس پلیٹ فارم پرآکرہمارے زخمیوںکوشہیدکردیتے۔
بہرحال جب گولیوںکی آواز ختم ہوئی توایک سنّاٹاچھاگیا۔ہم بھی اوربعض دوسرے دوست بھی فوراًہی پلیٹ فارم پرآگئے اورزخمیوں کوسنبھالنے لگے۔اسی اثنامیںگاڑی بھی آگئی۔ہم زخمیوںکو سہارے دے کراس میںچڑھانے لگے کہ اچانک ریلوے پولیس والے آگئے اور ہمیں رپورٹ لکھوانے پرزوردینے لگے۔امیرِقافلہ محمداحمدصاحب دوتین گولیاںلگنے کی وجہ سے زخمی تھے۔ چنانچہ خاکسار پولیس والوں سے نپٹ رہاتھا۔ہم بضدتھے کہ گاڑی فوراًچلائیںتاکہ ربوہ جاکرزخمیوںکاعلاج شروع ہو، رپورٹ ہم گاڑی کے اندرہی لکھادیںگے۔وہ مصرّ تھے کہ پہلے وقوعہ پررپورٹ درج ہوگی پھر گاڑی چلے گی۔
ایک بے بسی کاعالم تھا۔اتنے میںسرگودھا کاایک پولیس انسپکٹرعبدالکریم نامی بھی آگیا۔اس نے سفید شلوارقمیص پہن رکھی تھی اورہیئت اور فطرت کاخالص چودھویںصدی کامولوی تھا۔وہ بھی پولیس والوں کے ساتھ مل کراصرارکرنے لگاکہ رپورٹ پہلے لکھوائو۔اس وقت صرف خاکسار تھاجواُن سے بحث کررہاتھا۔اس تکرارکے دوران اچانک ایک جیپ پلیٹ فارم پرآکررُکی۔جس میںسے سفید پتلون شرٹ میں افسرانہ شان سے ایک شخص اُترا۔اس نے ایک لمحے میںصورتحال کااندازہ کیا اور خاکسارسے مخاطب ہوکرکہنے لگاکہ فکرنہ کرو،ہم یہاں سرگودھامیںہی انہیںفوری طبّی امداد دیں گے۔ اس غرض کے لئے دو ایمبولینسیں پہنچ رہی ہیں۔اس نے بتایاکہ وہ یہاںکاکمشنرہے اور ہر قسم کے انتظامات ہوچکے ہیں۔اس کی شرافت اوربردباری قابلِ تعریف تھی۔اتنے میں دو ایمبولینسیں پلیٹ فارم پرپہنچ گئیں۔اس وقت تک بکھرے ہوئے بہت سے احمدی دوست یہاںجمع ہو چکے تھے۔ہم سب نے ایمبولینس والوںکے ساتھ فوری طورزخمیوںکوگاڑی سے اُتارا اورایمبولینس میں سوارکیا۔ کمشنرصاحب نے خاکسارکوبھی زخمیوںکے ساتھ ایمبولینس میںجانے کاکہا۔چنانچہ ہم سب ہسپتال چلے گئے۔ جہاںفوری طورپرزخمیوں کوخون دیاگیا اورمرہم پٹی وغیرہ کی گئی۔ خاکسار کو زخمیوں کے ساتھ ہسپتال میںہی رکھاگیا۔
ہسپتال کے باہر اورہمارے زخمیوںکے وارڈ کے باہرکمشنرسرگودھاکی طرف سے پولیس کا کڑا پہرہ لگادیاتھااورہماری حفاظت کاخاص خیال رکھاگیا۔
بعدمیںمعلوم ہواکہ ہسپتال کے CMOاحمدی تھے۔بہرحال اسی وقت ہرزخمی کے زخموں کا اندازہ بھی کیاگیا اوراس کے مطابق ان کے علاج بھی معیّن کئے گئے۔ان میںخاکسارکے نانا مکرم ماسٹرضیاء الدین ارشدصاحب کی حالت تشویشناک تھی کیونکہ گولی ان کے کان کے اوپرلگی تھی اوردماغ میںداخل ہوگئی تھی۔
ایک اورغریبانہ ہیئت کے نوجوان تھے جوسیالکوٹ کے کسی گائوںسے اپنے کسی عزیز سے ملنے آئے تھے۔ان کے پیٹ میںگولی لگی تھی جوچند انتڑیوںکوکاٹتی ہوئی معدے میںجارُکی تھی۔ان کا آپریشن پہلی رات ہی کیاگیااورگولی نکال کے انتڑیاںسی دی گئیںاوروہ جلد صحت یاب ہوگئے۔
راشدحسین صاحب جنہیںدفاع کرتے ہوئے سینے میںگولی لگی تھی۔ان کی حالت بھی ٹھیک نہ تھی کیونکہ گولی سینے سے پھیپھڑوں میںسے ہوتی ہوئی ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ آکرٹھہرگئی تھی۔اس وجہ سے وہ نکالی نہ جاسکتی تھی۔پھیپھڑوں کی حدتک توان کاعلاج ہوگیا۔مگر گولی ان کے اندرہی رہی جوبعد میںجرمنی جاکرنکلوائی گئی۔
اسی طرح مختلف لوگوںکوجوگولیاںلگیںوہ نکال دی گئیں اورعلاج کردئیے گئے۔خاکسارکے نانا کو لاہوروغیرہ بھی لے جایاگیا مگر ان کے سرسے گولی کانکلناناممکن رہا۔جس کی وجہ سے وہ تین ماہ بعد فضل عمرہسپتال میںوفات پاکرشہدائے احمدیت میںداخل ہوگئے۔
بعدمیںچند روز کے بعدہمیںسرگودھاملزموںکی شناخت کے لئے اوروقوعہ کی رپورٹ کے لئے طلب کیاگیا۔شناخت پریڈ میںوہ تمام غنڈے موجودتھے جوہمارے قافلوںپرزیادتی کرتے تھے اور ان میںسے ایک دووہ بھی تھے جوفائرنگ میںشامل تھے اورخاکسار انہیں پہچانتاتھا۔چنانچہ خاکسار نے مجسٹریٹ کوان کی نشاندہی بھی کی۔مگر جس طرح ایک پلان تھا ہماری شناخت کوتسلیم نہیںکیاگیا اور نتیجہ یہ نکالا گیاکہ کوئی ملزم بھی پہچانانہیںگیا۔اسی طرح وقوعہ کی تفصیلات کوبھی تسلیم نہیںکیاگیا۔
اس کے بعدپھردودفعہ ہمیںحاضری پرعدالت میںبلایاگیا۔مگر معلوم ہواکہ فیصلہ وہی ہوتا رہا جو صاحب اقتدار لوگ چاہتے تھے۔‘‘
اس واقعہ میںزخمی ہونے والے دیگر دوستوںکے نام یہ ہیں:
۱۔مکرم لطف الرحمن صاحب(ٹھیکیدارپہاڑی)دارالنصرربوہ
۲۔مکرم حاکم علی صاحب فیکٹری ایریاربوہ
۳۔مکرم میاںعبدالسلام صاحب زرگرربوہ
۴۔مکرم ڈاکٹرعبدالغفورصاحب سرگودھا
۵۔مکرم ملک فتح محمدصاحب ریلوے روڈ ربوہ
۶۔مکرم ہدایت اللہ چٹھہ صاحب ربوہ
۱۷ ؍جولائی کو کارروائی شروع کرنے کی اطلاع اور صدر انجمن احمدیہ کا جواب
حکومت کی طرف سے جس عجیب رویہ کا اظہار کیا جا رہا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۶ ؍جولائی ۱۹۷۴ء کی شام کو قومی اسمبلی کے سیکریٹری صاحب کا فون ربوہ آیا کہ جماعت کا وفد، امام جماعت ِ احمدیہ کی سربراہی میں اسلام آباد آجائے۔کل سے قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کارروائی کا آغاز کرے گی۔یہ بات پیشِ نظر رہے کہ اس وقت ربوہ سے اسلام آباد جانے میں تقریباََ چھ گھنٹے لگتے تھے اور اس وقت راستے میں امن و امان کی صورتِ حال نہایت مخدوش تھی۔راستے میں سرگودھا تھا جہاں ایک ہی روز قبل احمدیوں کو بے دردی سے نشانہ بنایا گیا تھا۔اور اس امر کی تحریری اطلاع کوئی نہیں دی گئی تھی صرف زبانی اطلاع دی گئی تھی۔ان حالات میں صدر انجمن احمدیہ یہ مناسب نہیں سمجھتی تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں درخواست کرے کہ وہ اسلا م آباد تشریف لے جائیں۔چنانچہ فون پر سیکریٹری صاحب کو اس بات سے مطلع کر دیا گیا اور سٹیرنگ کمیٹی کے سربراہ کو خط لکھ کر اطلاع دی گئی کہ ان حالات میں صدر انجمن احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح کو یہ مشورہ دینے کی ذمہ داری نہیں لے سکتی کہ وہ آج ہی اسلام آباد روانہ ہو جائیں۔ اور ان سے یہ مطالبہ کیا کہ باقاعدہ تحریری نوٹس بھجوایا جائے۔ راستے کے لئے حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ملٹری اسکورٹ مہیا کرے۔اس کارروائی کے آغاز کی معین تاریخ کو خفیہ رکھا جائے۔ہمارے پندرہ مسلح محافظ ساتھ ہوں گے۔اور آخر میں لکھا کہ ہم آپ کے جواب کے منتظر رہیں گے۔
اس کا جواب ۱۷؍ جولائی ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی کے سیکریٹری اسلم اسد اللہ خان صاحب کی طرف سے یہ موصول ہوا کہ نئی تاریخ ۲۲؍ جولائی رکھی گئی ہے اور اسے خفیہ رکھا جائے گا۔اسکورٹ مہیا کیا جائے گا لیکن پندرہ مسلح محافظ ساتھ رکھنے کے بارے میں اجازت اس لئے نہیں دی جاسکتی کہ راستے میں مختلف اضلاع کے مجسٹریٹ نے اپنے اضلاع میں اسلحہ لے کر جانے پر پابندی لگائی ہو گی اور قومی اسمبلی میں اسلحہ لے کر آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
اور حکومت کا یہ ارادہ کہ ۱۷ جولائی ۱۹۷۴ء کو کارروائی شروع کر دی جائے اس لئے بھی عجیب تھا کہ ۱۸ ؍جولائی کو صمدانی ٹریبونل کے سامنے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا بیان قلمبند کیا گیا ۔یہ کارروائی بند کمرے میں ہوئی لیکن بعد میں اخبارات کو اس بیان کے مندرجات چھاپنے کی اجازت دے دی گئی۔حضور کے بیان کے علاوہ کئی سرکاری افسران کے بیانات بھی بند کمرے میں ہوئے تھے۔ ۲۰؍جولائی ۱۹۷۴ء جسٹس صمدانی نے ربوہ کا دورہ کیا اور ریلوے سٹیشن کا معائنہ کرنے کے علاوہ جماعتی دفاتر اور بہشتی مقبرہ بھی گئے ۔(مشرق ۱۹ جولائی ۱۹۷۴ء ص۱،۲۱ جولائی ۱۹۷۴ء ص۱)
قومی اسمبلی کی خاص کمیٹی میں کارروائی
جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ راہبر کمیٹی کے بعد یہ معاملہ قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں پیش ہونا تھا اور اس کمیٹی کی صورت یہ تھی کہ پوری قومی اسمبلی کو ہی سپیشل کمیٹی میں تبدیل کر دیاگیا تھا۔اور یہ فیصلہ ہوا تھا کہ جماعت مبایعین اور غیر مبایعین دونوں کے وفود اس کمیٹی میں آئیںاور ان پر سوالات کیے جائیں۔ صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے لکھا گیا کہ ہم اس بات میں آزاد ہیں جن ممبران پر مشتمل وفد چاہیں مقرر کریں کہ وہ اس کمیٹی میں اپنا موقف بیان کرے لیکن حکومت کی طرف اصرار تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ لازماً اس وفد میں شامل ہوں۔اس صورت حال میں پانچ اراکین پر مشتمل وفد تشکیل دیا گیا جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر، حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب ، حضرت مولانا دوست محمد شاہد صاحب شامل تھے۔
اس اہم کارروائی کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے سب سے زیادہ دعا ؤں سے ہی تیاری کی تھی۔خلافت لائبریری سے کچھ کتب منگوائی گئیں اور حضرت قاضی محمدیوسف صاحب مرحوم کے کتب خانہ کی کتب بھی منگوائی گئیں۔لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی ہدایت تھی کہ حضور کی اجازت کے بغیر یہ کتب کسی کو نہ دی جائیں۔وفد کے بقیہ اراکین میٹنگ کر کے اس مقصد کے لیے بڑی محنت سے تیاری کر رہے تھے اور جو اعتراضات عموماََ کیے جاتے ہیں،ان کے جوابات بھی تیار کیے گئے ۔چند میٹنگز میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ بھی شامل ہوئے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے اس بات کا اظہار بارہا فرمایاکہ اس کارروائی کے دوران نہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایا گیا تھا کہ کیا اور کس طرح جواب دینا ہے بلکہ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ کب اس کا جواب دینا ہے؟حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے جب کارروائی میں شرکت کے لیے اسلام آباد جانا ہوتا تو حالات کے پیشِ نظر اس کا اعلان نہیں کیا جاتا تھا اور جس روز جانا ہوتا اس روز صبح کے وقت حضور ارشاد فرماتے اور پھر قافلہ روانہ ہوتا ۔اسلام آباد میں حضور کا قیام ونگ کمانڈر شفیق صاحب کے مکان میں ہوتا تھا ۔
اس کارروائی کے آ غاز سے قبل حضورؒ کو اس کے بارے میں تشویش تھی۔اس فکرمندی کی حالت میں حضور کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا :
’’وَسِّعْ مَکَانَکَ اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ‘‘
یعنی اپنے مکان کو وسیع کر،ہم استہزاء کرنے والوں کے لیے کافی ہیں۔
اس پُر آشوب دور میںاللہ تعالیٰ یہ خوش خبری عطا فرما رہا تھا کہ آج حکومت،طاقت اور اکثریت کے نشہ میں یہ لوگ جماعت کو ایک قابلِ استہزاء گروہ سمجھ رہے ہیں۔لیکن ان سے اللہ تعالیٰ خود نمٹ لے گا۔جماعت احمدیہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی ترقیات کے لیے اپنے آپ کو تیار کرے۔کوئی بھی غیر جانب دار شخص اگر بعد میں ظاہر ہونے والے واقعات کا جائزہ لے اور اس مختصر کتاب میں بھی ہم اس بات کا جائزہ پیش کریں گے کہ جن لوگوں نے بد نیتی سے اس کارروائی کو شروع کیا اور پھر بزعمِ خود احمدیوںکو کافر قرار دیا یا کسی رنگ میں بھی استہزاء کی کوشش کی حقیقت یہ ہے کہ صرف خدا کا ہاتھ تھا جس نے ان پر پکڑ کی اور ان کو دنیا کے لئے ایک عبرت کا سامان بنا دیا۔یہ کسی دنیاوی کوشش کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ خدا ان کی شرارتوں کے لئے کافی تھا۔
اس کے علاوہ ۱۹۷۴ء کے پر آشوب دور میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو الہام ہوا فَدَمْدَمَ عَلَیْھِمْ رَبُّھُمْ بِذَنْبِھِمْ فَسَوَّاھَا(تب ان کے گناہ کے سبب ان کے رب نے ان پر پَے در پَے ضربیں لگائیں اور اس (بستی ) کو ہموار کر دیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اسمبلی میں محضر نامہ پڑھتے ہیں
۲۲اور ۲۳ جولائی ۱۹۷۴ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے پوری قومی اسمبلی پر مشتمل خاص کمیٹی میں جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے پیش کیا جانے والا محضر نامہ خود پڑھ کر سنایا۔اور اس کے بعد کارروائی کچھ دنوں کے لیے ملتوی کر دی گئی۔جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ اس محضر نامہ کے آخر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پر شوکت تحریر درج کی گئی تھی۔اور جب حضور نے کمیٹی میں یہ حوالہ پڑھ کر سنایا تو اس کا ایک خاص اثر ہوا ۔اور بعد میں ایک ممبر اسمبلی نے اپنے ایک احمدی دوست کیساتھ حیرت سے ذکر کیا کہ مرزا صاحب نے بڑے جلال سے یہ حوالہ پڑھ کر سنایا ہے۔اور جیسا کہ بعد میں ذکر آ ئے گا اس کارروائی کے آخر میں ممبران ِ قومی اسمبلی کے اصرار پر یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ اس حوالہ کو درج کرنے کا مقصد کیا ہے؟(۴۲،۴۳)
قومی اسمبلی اور صدر انجمن احمدیہ کے درمیان مزید خط و کتابت
۲۲ ؍جولائی ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی کے سیکریٹری نے ناظر صاحب اعلیٰ کے نام ایک خط لکھا۔جس میں کچھ حوالے بھجوانے کا کہا گیا تھا۔یہ خط جو کہ دراصل سیکریٹری صاحب قومی اسمبلی نے مولوی ظفر انصاری ایم این اے کے ایک خط پر کارروائی کرتے ہوئے لکھا تھا۔اس خط سے یہ بخوبی ظاہر ہو جاتا تھا کہ خود قومی اسمبلی کو بھی نہیں معلوم کہ اس نے یہ کارروائی کس سمت میں کرنی ہے۔ اس خط میں لکھا گیا تھا جماعت ِ احمدیہ اس میمورنڈم کی کاپی بھجوائے جو کہ تقسیمِ ہند کے موقع پر جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے پیش کیا گیا تھا۔اور پروفیسر سپیٹ (Spate)جن کی خدمات حضرت مصلح موعودؓ نے اس کمیشن میں کچھ امور پیش کرنے کے لئے حاصل کی تھیں،ان کے نوٹس اور تجاویز بھی کمیشن کو بھجوائی جائیں۔اس کے علاوہ الفضل کے کچھ شماروں اور ریویو آف ریلیجنز کے تمام شمارے بھجوانے کا بھی لکھا گیا تھا۔اب موضوع تو یہ تھا کہ جو شخص آنحضرت ﷺ کو آخری نبی نہیں سمجھتا ،اس کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس موضوع کے متعلق سوالات ہوں۔یاپھر اگر جماعت ِاحمدیہ کے محضر نامہ کے متعلق سوالات ہوتے تو بات کم ازکم سمجھ میں بھی آتی مگر اس فرمائش سے تو لگتا تھا کہ اس کارروائی کے کرتا دھرتا افراد کا ذہن کہیں اور ہی جا رہا تھا۔ لیکن ان کوصدر انجمن احمدیہ کی جانب سے یہ جواب دیا گیا کہ یہ میمورنڈم اور پروفیسر سپیٹ کی تجاویزتو حکومت کے پاس ہی ہوںگی کیونکہ ان کو مسلم لیگ کی طرف سے پیش کیا گیا تھا۔اور یہ حقیقت بھی تھی کیونکہ یہ سب کاغذات حکومت کی تحویل میں تھے اور جنرل ضیاء الحق صاحب کے دور میں ان کو شائع بھی کر دیاگیا تھا۔
اب جو بھی سوالات اُ ٹھنے تھے ان کے جوابات کے لئے حوالہ جات کی ضرورت ہو نی تھی تاکہ صحیح اور مناسب حوالہ جات کے ساتھ جوابات سپیشل کمیٹی کے سامنے آئیں۔اب یہ کسی جرم کی تفتیش تو نہیں ہو رہی تھی کہ پہلے سے سوال بتا دینا مناسب نہ ہوتا۔عقائد کے متعلق ہی کارروائی ہونی تھی۔چنانچہ جماعت کی طرف سے یہی مطالبہ کیا گیا کہ جو سوالات سپیشل کمیٹی میں ہونے ہیں وہ اگر ہمیں مہیا کر دیئے جائیں تاکہ متعلقہ حوالہ جات بھی سوالات کے ساتھ پیش کئے جاسکیں کیونکہ وہاں پر جماعت کے وفد کے پاس نوے سال پر پھیلا ہوا لٹریچر تو مہیا نہیں ہونا تھا۔بہر حال ۲۵؍ جولائی ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی کے دفتر کی طرف سے ایڈیشنل ناظر ِ اعلیٰ کو جواب موصول ہوا کہ سٹیرنگ کمیٹی نے اس پر غور کر کے یہ فیصلہ کیاہے کہ سوالات قبل از وقت مہیا نہیں کئے جا سکتے البتہ اگر کسی سوال کی تیاری کے لئے وقت درکار ہوا تو وہ دے دیا جائے گا۔اس خط سے یہ بھی اندازہ ہوتا تھا کہ قومی اسمبلی اور اس کے عملہ نے اس اہم کارروائی کی کوئی خاص تیاری نہیں کی ہوئی کیونکہ اس خط کے آغاز میں اور اس کے بعد بھی یہ لکھا ہوا تھا کہ اس موضوع پر انجمن احمدیہ کے ہیڈ سے زبانی بات ہوئی تھی اور اس خط سے یہ تاثر ملتا تھا کہ لکھنے والے کے ذہن میں ہے کہ جماعت کے وفد کی قیادت انجمن کے سربراہ کر رہے ہیں۔حالانکہ ناظر اعلیٰ یا صدر صدر انجمن احمدیہ سے اس موضوع پر کوئی زبانی بات ہوئی ہی نہیںتھی اور نہ ہی صدر صدر انجمن احمدیہ اس وفد کی قیادت کر رہے تھے ۔اس وفد کی قیادت تو حکومت کے اصرار کی وجہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث فرما رہے تھے۔چنانچہ اس بات کو واضح کرنے کے لئے ایڈیشنل ناظر اعلیٰ مکرم مرزا خورشید احمد صاحب نے نیشنل اسمبلی کے سیکریٹری کو لکھا کہ اس وفد کی قیادت صدر انجمن احمدیہ کے سربراہ نہیں کر رہے بلکہ حضرت امام جماعت ِ احمدیہ کر رہے ہیں۔صدر انجمن احمدیہ کے سربراہ تو اس کے صدر کہلاتے ہیں۔اب یہ ایک اہم قانونی غلطی تھی جس کو دور کر دیا گیا تھا لیکن آفرین ہے قومی اسمبلی کی ذہانت پرکہ اس کا بھی ایک غلط مطلب سمجھ کر دورانِ کارروائی اس پر اعتراض کر دیا۔ وہ اعتراض بھی کیا خوب اعتراض تھا ،ہم اس کا جائزہ بعد میں لیں گے۔
قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں محضر نامہ پڑھے جانے کے بعد ۲۴؍ جولائی کو ایڈیشنل ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ مکرم مرزا خورشید احمد صاحب نے قومی اسمبلی کے سیکریٹری صاحب کے نا م لکھا کہ قومی اسمبلی میں اس وقت دو موشن پیش کئے گئے ہیںجن میں سے ایک شاہ احمد نورانی صاحب کی طرف سے اور دوسری وزیرِ قانون عبد الحفیظ صاحب کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔اگر اس مرحلہ پر کوئی اور موشن بھی ایوان کے سامنے پیش ہوئی ہے جس میں کچھ نئے نکات ہوں تو اس کے متعلق بھی ہمیں مطلع کر دیا جائے تاکہ ہم ان کے متعلق بھی اپنا نقطہ نظر پیش کر سکیں۔اس کے جواب میں ۲۵ ؍جولائی کو قومی اسمبلی کے سیکریٹری صاحب نے لکھا کہ قومی اسمبلی کی سٹیرنگ کمیٹی نے آپ کے اس خط کا جائزہ ۲۵؍جولائی کے اجلاس میں لیا اور یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو ان دوسرےMotionsسے ابھی مطلع نہیں کیا جا سکتا ۔اگر بعد میں اس کی ضرورت ہوئی تو آپ کو اس سے مطلع کر دیا جائے گا۔
اسمبلی کی خاص کمیٹی میں سوالات کا سلسلہ تو ۵؍ اگست سے شروع ہونا تھا لیکن اس دوران پورے ملک میں احمدیوں کے خلاف پر تشدد مہم کا سلسلہ جاری تھا اور حکومت اس کو روکنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کر رہی تھی۔جگہ جگہ احمدیوں پر اپنے عقائد سے منحرف ہونے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ احمدیوں کا بائیکاٹ جاری تھا بہت سے مقامات پراحمدیوں کے گھروں اور دوکانوں پر حملے کر کے ان کے ساز و سامان کو نذرِ آتش کیا جا رہا تھا۔بائیکاٹ اتنی مکروہ شکل اختیار کر گیا تھا کہ بعض جگہوں پر بچوں کے لیے دودھ لینا بھی نا ممکن بنایا جا رہا تھا۔خانیوال میں چکیوں نے احمدیوں کا آٹا پیسنے سے بھی انکار کر دیا ۔۲۸؍ جولائی کو بھوپال والا میں احمدیوں کی مسجد جلا دی گئی۔ایک جگہ پر حجام احمدیوں کی حجامت تک نہیں بنا رہے تھے۔احمدی باہر سے ایک حجام لے کر آئے تو فسادیوں نے اس کا منہ کالا کر کے اسے ذلیل کیا۔یہ بات معمول بن چکی تھی کہ بس میں جہاں احمدی ملے اسے زدو کوب کیا جائے۔۳؍ اگست کو بھیرہ میںاحمدی ایک فوت ہونے والی خاتون کی تدفین احمدیہ قبرستان میں کر رہے تھے کہ فسادیوں نے وہاں حملہ کر کے تدفین کو روکنے کی کوشش کی۔۴؍ اگست کو اوکاڑہ میں اعلان کیا گیا کہ ہم احمدیوں کو پاکستان میں نہیں رہنے دیں گے۔اس سے قبل بھی اوکاڑہ میں مخالفت کا انداز یہ تھا کہ احمدیوں کی دوکانوں کا اور کاروباروں کا بائیکاٹ کیا جائے۔نہ ان سے کسی کو چیز لینے دی جائے اور نہ ان کو کہیں سے سودا سلف لینے دیا جائے۔احمدیوں کی دوکانوں کے باہر ملاں بیٹھ کر اس بات کی نگرانی کرتے رہتے کہ کوئی ان سے سودا نہ خرید لے۔ پھردماغ کا یہ خلل اس حد تک پہنچ گیا کہ جو غیر احمدی عورتیں کسی احمدی کی دوکان سے کپڑا خریدنے لگتیں تو ان کو کہا جاتا کہ اگر تم نے ان سے کپڑا خریدا تو تمہارا نکاح ٹوٹ جائے گا۔جس کسی بیچاری نے یہ غلطی کی اس سے سرِ عام توبہ کرائی گئی اور بعض کے نکاح دوبارہ پڑھائے گئے۔اوکاڑہ میں مخالفین فسادات کی آگ بھڑکانے میں پیش پیش تھے ان میں سے کئی اسی دنیا میں خدا تعالیٰ کی گرفت میں آئے۔کوئی پاگل ہوا۔کوئی اب تک سڑکوں پر بھیک مانگ رہا ہے اور کبھی کسی احمدی کے پاس آکر بھیک کا طلبگار ہوتا ہے۔کسی کی اولاد خدا تعالیٰ کے قہر کا نشانہ بنی۔میرک ضلع اوکاڑہ میں تو مخالفین کا غیظ و غضب اس حد تک بڑھا کہ انہوں نے پہلے احمدیوں کے گھروں کے آگے چھاپے لگا کر انہیں اندر محصور کر دیا۔جب پولیس نے آکر چھاپے اتروائے تو مخالفین نے اینٹوں کی چنوائی کر کے احمدیوں کے دروازے بند کر دیئے اور ملاں لوگ طرح طرح کی دھمکیاں دیتے رہتے۔ کوئی احمدی بازار میں نکلتا تو اس کے پیچھے اوباش مخالفین لگ جاتے۔اس ضلع کے احمدی صبر و استقامت سے ان مظالم کو برداشت کرتے رہے۔ایک مولوی ایک احمدی کے گھر پر آیا اور خاتونِ خانہ سے کہنے لگا کہ مسلمان ہوجاؤ ورنہ رات کو مکینوں سمیت گھر کو آگ لگا دیں گے۔اس بہادر خاتون نے کہا کہ میں اور بچے اس وقت گھر میں ہیں تم رات کی بجائے ابھی آگ لگا دو۔یہ سن کر ملاں گالیاں دینے لگا۔ غلام محمد صاحب اوکاڑہ شہر سے جا کر ایک گاؤں کے پرائمری سکول میں پڑھاتے تھے۔ان کو راستہ میں ایک شخص نے کلہاڑی مار کر شہید کر دیا ۔قاتل کو کچھ عرصہ گرفتاری کے بعدرہا کر دیا گیا۔اس پس منظر میں جب ۲۸؍ جولائی کو وزیر ِ اعلیٰ ساہیوال آئے تو احمدیوں کے ایک وفد نے ان سے ملنے کی درخواست کی تو انہوں نے ملنے سے انکار کر دیا۔دوبارہ درخواست پر انہوں نے کہا کہ لاہور آکر ملیں۔جب یہ لوگ لاہور گئے تو وہاں بھی وزیر ِ اعلیٰ نے ملنے سے انکار کر دیا۔
۵؍اگست کو کارروائی شروع ہوتی ہے
اب ہم اس کارروائی کا جائزہ لیں گے جو پوری قومی اسمبلی پر مشتمل سپیشل کمیٹی میں ہوئی۔اور اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ پر کئی روز تک سوالات کا سلسلہ چلا۔یہ جائزہ قدرے تفصیل سے لیا جائے گا۔ جیسا کہ جلد ہی پڑھنے والے اندازہ لگا لیں گے کہ اکثر سوالات تو بچگانہ تھے لیکن پھر بھی اس کارروائی کی ایک اہمیت ہے ۔وہ اس لئے کہ اس کے بعد دنیا کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک سیاسی اسمبلی نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک گروہ کے مذہب کا کیا نام ہونا چاہئے ۔اور اس لئے بھی کہ یہ ایک بین الاقوامی سازش کا ایک اہم حصہ تھا۔اس کے علاوہ مخالفینِ جماعت کی طرف سے بارہا اس کارروائی کے متعلق غلط بیانی سے کام لے کر اپنے کارہائے نمایاں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ہر ایک نے اپنے سر پر سہرا باندھنے کی کوشش کی ہے کہ یہ اصل میں میں ہی تھا جس کی ذہانت کی وجہ سے یہ فیصلہ سنایا گیا۔سوالات اور ان کی حقیقت جب بیان کی جائے گی تو پڑھنے والوں کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ ذہانت یا یوں کہنا چاہئے کہ اس کے فقدان کا عالم کیا تھا۔اور اس کارروائی میں وہی گھسے پٹے سوالات کئے گئے تھے جو کہ عموماََ جماعت کے مخالفین کی طرف سے کئے جاتے تھے ۔جب ان کا جواب درج کیا جائے گا تو پڑھنے والے ان کی حقیقت کے متعلق خود اپنی رائے قائم کر سکیں گے۔
۵؍ اگست کے روز جب کارروائی شروع ہوئی تو آغاز میں سپیکر اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی صاحب نے کہا کہ اس وقت اٹارنی جنرل چیمبر میں مولانا ظفر احمد انصاری صاحب سے مشورہ کر رہے ہیں اور ان کے آنے پر چند منٹ میں ہم کارروائی کا آ غاز کریں گے۔پھر سپیکر اسمبلی نے اعلان کیا کہ کارروائی کا طریقہ کار یہ ہوگا کہ جس نے سوال کرنا ہے وہ اپنا سوال لکھ کر دے گااور اٹارنی جنرل یہ سوال جماعت کے وفد سے کریں گے۔کارروائی کے آغاز پر اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو حلف اُ ٹھانے کے لئے کہا۔حضرت صاحب کے حلف اُ ٹھانے کے بعد اٹارنی جنرل نے واضح کیا کہ آپ نے ان سوالات کے جواب دینے ہیں جو پوچھے جائیں گے اور اگر آپ کسی سوال کا جواب دینا پسند نہ کریں تو آپ انکار کر سکتے ہیں۔لیکن اس انکار سے سپیشل کمیٹی کوئی نتیجہ اخذ کر سکتی ہے جو آپ کے حق میں اور آپ کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔اور اگر آپ کسی سوال کا فوراً جواب نہ دینا پسند کریں تو آپ اس کے لیے وقت مانگ سکتے ہیں۔
پیشتر اس کے کہ ہم ان سوالات کا جائزہ لیں جو پوچھے گئے اور ان جوابات کو دیکھیں جو دیئے گئے یہ امر پیشِ نظر رہے کہ اس سپیشل کمیٹی کے سپرد یہ کام تھا کہ یہ فیصلہ کرے کہ اسلام میں ان لوگوں کی کیا حیثیت ہے جو رسولِ کریم ﷺکو آخری نبی نہیں مانتے ۔اور ان کے سپرد اس مسئلہ کے متعلق آراء جمع کرنا اور اس مسئلہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تجاویز تیار کرنا تھا۔یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ خواہ کسی کمیٹی کی تحقیقاتی کارروائی ہو یا کوئی عدالتی کارروائی ہو اور سوال پوچھے جائیں تو یہ سوالات پیشِ نظر مسئلہ کے بارے میں ہونے چاہئیں یا کم از کم ان سوالات کا اس مسئلہ کے متعلق تجاویز مرتب کرنے سے کوئی واضح تعلق ہونا چاہئے یا کم از کم سوالات کی اکثریت کا تعلق اس مسئلہ سے ہونا چاہئے ۔اگرکوئی ایک غیر متعلقہ سوال بھی پوچھے تو یہ بھی قابلِ اعتراض ہے کجا یہ کہ کوئی کئی روز غیر متعلقہ سوالات پوچھتا جائے۔
کارروائی کے آ غاز سے یہ امر ظاہر تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب غیر متعلقہ سوالات میں وقت ضائع کر رہے ہیں اور اصل موضوع پر آنے سے کترا رہے ہیں۔ان کا پہلا سوال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں تھا۔اگر یہ پیشِ نظر رہے کہ یہ کمیٹی کس مسئلہ پر غور کر رہی تھی تو یہی ذہن میں آتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کیا تھے یا حضرت خاتم الانبیائﷺ کی شان میں آپ نے کیا فرمایا ۔لیکن اٹارنی جنرل نے سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کب اور کہاں پیدا ہوئے ، آپ کا خاندانی پس منظر کیا تھا ،آپ کی تعلیم کیا تھی اور آپ نے کب اور کہاں وفات پائی۔اس کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا کہ اس کا تحریری جواب جمع کرا دیا جائے گا۔اٹارنی جنرل صاحب نے شکریہ ادا کیا اور موضوع تبدیل کیا ۔پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے دریافت کیا
‏’’You are the grandson of Mirza Ghulam Ahmad ?‘‘
اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا’’ہاں‘‘۔اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ سے ان کے حالات ِ زندگی دریافت کئے گئے۔
پھر یہ تفصیلات دریافت کرتے رہے کہ کیا آپ خلیفۃ المسیح ،امام جماعت احمدیہ اور امیر المؤمنین تینوں منصبوں پر فائز ہیں۔جب اس کا جواب اثبات میں دیا گیا تویہ سوال کیا گیا کہ آپ ان مختلف عہدوں کے تحت کیا کام کرتے ہیں اور یہ مختلف عہدے کن اختیارات کے حامل ہیں۔اس پر انہیں بتایا گیا کہ یہ مختلف عہدے نہیں بلکہ امام جماعت ِ احمدیہ ،خلیفۃ المسیح اور امیرالمومنین کے الفاظ ایک ہی شخص کے متعلق استعمال ہوتے ہیں ۔اس کے بعد انہوں نے دریافت کیا کہ کیا مختلف اشخاص یہ تینوں عہدے رکھ سکتے ہیں۔اس کا جواب نفی میں دیا گیا۔اس تمہید کے بعد اب امید کی جارہی تھی کہ سوالات کا سلسلہ زیر بحث موضوع کی طرف آئے گا لیکن جو کچھ ہوا وہ اس کے برعکس تھا۔
اس کے بعد وہ اس تفصیلی بحث میں الجھ گئے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں احمدیوں کی تعداد کیا تھی؟ اور اب یہ تعداد کتنی ہے؟ انہوں نے دریافت کیا کہ ۱۹۲۱ء میں ہندوستان میں احمدیوں کی تعداد کیا تھی؟۱۹۳۶ء میں یہ تعداد کتنی ہو گئی تھی؟ اور اب پاکستان میں احمدیوں کی تعداد کتنی ہے ؟انگریز حکومت کی مردم شماری کے مطابق یہ تعداد کتنی تھی ؟اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کے مطابق یہ تعداد کتنی تھی ؟اور دونوں میں فرق کیوں ہے؟یہ کارروائی پڑھتے ہوئے کچھ سمجھ نہیں آتی کہ صاحب موصوف یا ان کو سوال دینے والے کیا بحث لے بیٹھے تھے۔ ان کی یہ بحث اس لیے بھی زیادہ نامعقول معلوم ہو رہی تھی کہ شروع میں ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرما دیا تھا کہ ہمارے پاس بیعت کنندگان کا کوئی صحیح ریکارڈ موجود نہیں ہے۔اور مذکورہ معاملہ کا احمدیوں کی تعداد سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اگر پاکستان میں صرف پانچ یا چھ احمدی تھے اور ان کا عقیدہ اسلامی تعلیمات کے مطابق تھا تو ان کی تعداد کی بنا پر ان کو غیر مسلم نہیں قرار دیا جا سکتا ۔اگر بالفرض پاکستان میں چھ سات کروڑ احمدی بھی تھے مگر ان کا عقیدہ غلط تھا تو اپنی زیادہ تعداد کی بنا پر وہ راسخ العقیدہ نہیں بن سکتے تھے۔اور نہ ہی ان کی تعداد سے ان کے مذہبی اظہار کے بنیادی حق پر کوئی فرق پڑتا تھا۔
وقفہ سے کچھ دیر قبل یہ تاثر ابھرنا شروع ہوا کہ شاید اب زیر بحث معاملہ کے متعلق سوالات شروع ہوں۔ انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے خطبہ جمعہ کا حوالہ دیا جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے آئین کے آرٹیکل ۸ اور ۲۰ میں مذہبی آزادی کی ضمانت کا حوالہ دیا تھا۔اور یہ سوال اٹھایا کہ اگرپارلیمنٹ چاہے تو دو تہائی کی اکثریت سے ان شقوں کو تبدیل کر سکتی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پارلیمنٹ کوایسا نہیں کرنا چاہئے۔کچھ سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا نتیجہ نکالنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ہر ملک کے آئین میں پارلیمنٹ کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اگر مطلوبہ تعداد میں اراکین اس کے حق میں رائے دیں تو ملک کے آئین میں تبدیلی کرسکتے ہیں۔لیکن آئین کی ہر شق اور ہونے والی ہر ترمیم کوبعض مسلمہ بنیادی انسانی حقوق کے متصادم نہیں ہوناچاہئے خاص طور پر اگر اسی آئین میں ان حقوق کی ضمانت دی گئی ہو۔مثلاََ جس زمانہ میں جنوبی افریقہ کے آئین میں مقامی باشندوں کو ان کے حقوق نہیں دیئے گئے تو آخر کار پوری دنیا نے ان کا بائیکاٹ کر دیا تھا اور یہ عذر قابلِ قبول نہیں سمجھا جاتا تھا کہ ان کے آئین میں ایسا ہی لکھا ہوا تھا۔اور اگر کسی ملک کی پارلیمنٹ ایسی کوئی آئینی ترمیم کر بھی دے جو بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہو تو اسے قبول نہیں کیا جاتا بلکہ بسا اوقات تو عدالت ہی اسے ختم کر دیتی ہے اور اندرونی دباؤ کے علاوہ پوری دنیا کی طرف سے ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ اس کو ختم کریں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس بات کا اظہار فرمایا کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اسکو ہمیں مسلمان کہنا پڑے گا۔اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ ان کے ذہن میں اس بارے میں کچھ پیچیدگیاں ہیں۔ وہ یہ بحث لے بیٹھے کہ آپ نے کہا ہے کہ قانون کی رو سے ہر فرد اور فرقہ کا مذہب وہی ہونا چاہئے جس کی طرف وہ اپنے آپ کومنسوب کرتا ہے ۔اس پریحییٰ بختیار صاحب یہ دور کی کوڑی لائے کہ اگر ایک مسلمان طالب علم ڈاؤ میڈیکل کالج میں اقلیتوں کی سیٹ پرداخلے کے لیے اپنے آپ کو ہندو ظاہر کرتا ہے تو کیا اسے قبول کرنا چاہئے۔اٹارنی جنرل صاحب یہاں بھی ایک غیر متعلقہ موازنہ پیش کر رہے تھے۔یہ مثال ہے کہ ایک طالب علم اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے لیکن داخلہ کے لیے جعلی اندراج کرتا ہے تا کہ اس جھوٹ سے ناجائزفائدہ اُ ٹھا سکے اور دوسری طرف ایک فرقہ ہے جو نوے سال سے دنیا کے بیسیوں ممالک میں اپنے آپ کو مسلمان کہتا رہا ہے اور ان کے عقائد اچھی طرح سے مشتہر ہیں کہ وہ ہمیشہ سے اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں مسلمان کہتے ہیں مسلمان لکھتے ہیں اور اچانک ایک ملک کی اسمبلی زبردستی ان کی مرضی کے خلاف یہ فیصلہ کرتی ہے کہ آج سے وہ قانون کی نظر میں مسلمان نہیں ہوں گے۔دونوں مثالوں میں کوئی قدرِ مشترک نہیں۔بہر حال کارروائی میں ہونے والے سوالات زیر ِ بحث موضوع کے قریب بھی نہیں آئے تھے کہ کارروائی مختصر وقفہ کیلئے رکی۔
وقفہ کے بعد کارروائی شروع ہوئی ۔ اٹارنی جنرل صاحب نے سوالات کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔ان سوالات کی طرز کا لبِ لباب یہ تھا کہ کسی طرح یہ ثابت کیا جائے کہ حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مذہبی معاملات میں مداخلت کرے یا اگر کوئی فرد یا گروہ اپنے آپ کو ایک مذہب کی طرف منسوب کرتا ہے تو حکومت کو یہ اختیار ہے کہ اس امر کا تجزیہ کرے کہ وہ اس مذہب کی طرف منسوب ہو سکتا ہے کہ نہیں۔
اس لایعنی بات کو ثابت کرنے کے لیے وہ ایسی مثالیں پیش کر رہے تھے جو یا تو غیر متعلقہ تھیں یا ایسی فرضی مثالیں تھیں جن کو سامنے رکھ کر کوئی نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا ۔مثلاََ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ میں آنحضرت ﷺ پر ایمان نہیں لاتا لیکن وہ اس کے ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو کیا اسے مسلمان سمجھا جائے گا۔اب یہ ایک فرضی مثال تھی جب کہ ایسا کوئی مسلمان فرقہ موجود ہی نہیں جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتا ہو اور یہ بھی کہتا ہو کہ ہم آنحضرت ﷺ پر ایمان بھی نہیں لاتے۔اور ایسی فرضی اور انتہائی قسم کی مثال پر کوئی نتیجہ نہیں قائم کیا جا سکتا۔پھر وہ یہ مثال لے بیٹھے کہ سعودی عرب میں مکہ اور مدینہ میں صرف مسلمان جا سکتے ہیں ۔لیکن اگر کوئی یہودی اپنے فارم پر اپنا مذہب مسلمان لکھے اور اس بنا پر وہاں پر داخل ہوکر جاسوسی کرنے کی کوشش کرے تو کیا وہاں کی حکومت اسے گرفتار کرنے کی مجاز نہیں ہو گی۔اس پر حضور نے یہ مختصر اور جامع جواب دیا کہ اسے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے کے الزام میں نہیں بلکہ ایک ملک میں جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا جائے گا۔ اور یہ حقیقت تو سب دیکھ سکتے ہیں کہ اس مثال میں کسی مذہب کی طرف منسوب ہونا اتنا اہم نہیں،ایسے شخص پر تو جاسوسی کا الزام لگتا ہے۔یہاں پر یحییٰ بختیار صاحب کو اپنی مثال کے بودا ہونے کااحساس ہوا تو انہوں نے فوراََ بات تبدیل کی اور کہا کہ فرض کریں کہ ایک عیسائی صحافی ہے اور وہ تجسس کی خاطر مکہ اور مدینہ دیکھنا چاہتا ہے اور فارم غلط اندراج (False declaration)کرتا ہے پر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا ہے تو کیا وہاں کی حکومت اسے روک نہیں سکتی۔اس پر حضور نے جواب دیا کہ اسے توFalse declaration کرنے کی بنا پر گرفتار کیا جائے گا،غیر مسلم ہونے کی بنا پر گرفتار نہیں کیا جائے گا۔اب یہ مثال بھی زیر بحث معاملہ سے کوئی تعلق نہیں رکھتی تھی۔ایک شخص کسی اور مذہب کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے اور اس نے کبھی اسلام قبول ہی نہیں کیا۔وہ کسی مقصد کی خاطر غلط بیان دیتا ہے اور اپنے آپ کو مسلمان لکھتا ہے۔اس شخص سے کوئی بھی معاملہ کیا جائے لیکن دوسری طرف بالکل اور صورتِ حال ہے ۔ایک فرقہ ہے وہ اپنے آپ کو ہمیشہ سے مسلمان کہتا رہا ہے اور اس نے کبھی بھی اپنے آپ کو کسی اور مذہب کی طرف منسوب نہیں کیا ۔ایک سیاسی اسمبلی ایک روز یہ فیصلہ سنانے بیٹھ جاتی ہے کہ اسے اپنے آپ کو مسلمان کہنے کا کوئی حق نہیں۔یہ دونوں بالکل مختلف نوعیت کی مثالیں ہیں۔
پھر اٹارنی جنرل صاحب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش شروع کی کہ بنیادی حقوق پر بھی حکومت قد غن لگا سکتی ہے۔اس سلسلہ میں انہوں نے یہ معرکۃ الآراء مثال پیش کی کہ لیور برادر زکمپنی ،لکس نام کا صابن بناتی ہے۔اگر کوئی اور کمپنی اس نام سے صابن بنانے لگ جائے تو حکومت اسے روکے گی۔یہ بھی ایک نہایت غیر متعلقہ اور لا یعنی مثال تھی۔صنعتی مصنوعات کے متعلق Patentکرانے کا قانون موجود ہے۔اور اگر ایک کمپنی چاہے تو اپنی قابلِ فروخت مصنوعات کو اس قانون کے تحت Patent کرا سکتی ہے اور اس کے بعد کوئی اور کمپنی ان ناموں سے منسوب مصنوعات فروخت نہیںکر سکتی۔ اسلام یا کوئی اور مذہب قابلِ فروخت آئیٹم تو نہیں کہ کوئی اور گروہ یہ نام استعمال نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی ایک فرقہ نے یہ نام Patentکراکے اس کے استعمال کی اجارہ داری حاصل کی ہے ۔چنانچہ حضور نے اٹارنی جنرل صاحب پر واضح فرمایا کہ لیور برادرز کے پاس تو اس نام کو استعمال کرنے کیMonoply ہے۔اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا فرض کریں کہ جہاں تک عقیدہ کا تعلق ہے کسی کے پاس اس کی Monoply نہیں ہے لیکن میں ابھی اس موضوع کی طرف نہیں آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب اس موضوع کی طرف آنا ہی نہیں چاہتے تھے اور نہ ہی اس کی طرف انہوں نے آنے کی کبھی کوشش کی۔اس موقع پر حضور نے یہ مثال بیان فرمائی کہ اگر ایک گروہ کہے کہ عیسائیت کا نام صرف وہی گروہ استعمال کر سکتا ہے اور دوسرے گروہ یا فرقے یہ نام استعمال نہیں کر سکتے۔ یقیناََ لکس صابن کی فروخت کی بجائے یہ مثال زیرِ بحث موضوع کے مطابق تھی۔اس پر اٹارنی جنرل صاحب کافی جز بز ہوئے اور کہنے لگے کہ
I am not anticipating any thing please. I am just dealing with the restriction of the human rights.
ایک بار پھر یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب اصل موضوع کی طرف آنے کی بجائے ادھر اُدھر کی باتوں پر وقت ضائع کر رہے ہیں۔ان کی پیشکردہ مثالیں اس قدر دور از حقیقت اور موضوع سے ہٹ کر تھیں کہ حضور کو سوال کر کے کوشش کرنی پڑتی تھی کہ اصل بات واضح ہو اور سوال و جواب کا سلسلہ اپنے اصل موضوع کی طرف واپس آئے۔اور اٹارنی جنرل صاحب غلط سوال کر کے خود الجھن میں پھنس جاتے تھے۔
اب تک جماعت کے مخالفین پر یہ امر واضح ہو چکا تھا کہ یہ بحث ان کی توقعات کے مطابق نہیں جا رہی اور جماعت احمدیہ پر گرفت کرنے کا موقع نہیں پا رہے۔چنانچہ شاہ احمد نورانی صاحب نے سپیکر اسمبلی کو کہا کہ جو سوال کیے جاتے ہیں یہ الٹا اٹارنی جنرل صاحب سے سوال کر کے ٹال دیتے ہیں۔یہ طریق غلط ہے انہیں پابند کیا جائے کہ یہ جواب پورا دیں۔اس پر سپیکر اسمبلی نے کہا کہ
‏He has got his own methods
ان کا اپنا طریقہ ہے۔
اس مرحلہ پرچھ بجے شام تک کے لیے کارروائی ملتوی کر دی گئی۔چھ بجے شام کارروائی پھر شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل صاحب نے موضوع کی طرف آنے کی بجائے ایک بار پھر یہ سوال چھیڑ دیا کہ پاکستان میں احمدیوں کی تعداد کیا ہے۔اس پر آخر کار حضور نے فرمایا کہ میں کوئی بھی عدد وثوق سے نہیں کہہ سکتا ۔ مختلف لوگوں نے جو پاکستان میں احمدیوں کی تعداد بیان کی ہے وہ صرف اندازے ہیںاور اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔اگر پانچ آدمیوں پر بھی ظلم کیا جائے تو وہ بھی اتنا ہی برا ہو گا۔
اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے اپنی گفتگو کا رخ ایک اور طرف پھیرا ۔اگرچہ بظاہر ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ احمدیوں کو آئین میں غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے بلکہ ابھی بحث اپنے اصل موضوع پر بھی نہیں آئی تھی۔لیکن یحییٰ بختیارصاحب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش شروع کردی کہ اگر احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے تو اس سے ا ن کے حقوق پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اول تو یہ بات ہی لایعنی تھی کہ ایک فرقہ اپنے آپ کو ایک مذہب کی طرف منسوب کرتا ہے اور ایک سیاسی اسمبلی یہ فیصلہ کر دیتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے آپ کو اس مذہب کی طرف منسوب نہیں کر سکتا ۔اور اس کے ساتھ آپ کے آئین میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہر شخص اپنے مذہب کو Professکر سکتا ہے۔ اور پھر یہ بھی اصرار کیا جارہا ہے کہ اس سے آپ کا کوئی حق متاثر بھی نہیں ہوگا۔لیکن اس کے بعد انہوں نے جو تفصیلی دلائل بیان کئے وقت نے ان دلائل کو غلط ثابت کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ غیر مسلم قرار دینے کے بعداحمدیوں کے حقوق محفوظ ہو جائیں گے اور میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اگر آپ کو غیرمسلم نہ قرار دیا گیا تو آپ کے حقوق محفوظ رہتے ہیں کہ نہیں۔ایک ملک کی پارلیمنٹ میں اٹارنی جنرل کے منہ سے یہ جملہ اس ملک کے آئین کی ہی توہین تھی یعنی اگر کوئی فرقہ اپنے عقیدہ کے مطابق ایک مذہب کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے تو پارلیمنٹ میں اٹارنی جنرل صاحب فرما رہے تھے کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ان کے حقوق محفوظ رہیں گے کہ نہیں۔اگر ایسا ہی ہے تو پھر ملک میں آئین اور قانون کا فائدہ ہی کیا ہے۔پھر اس آئین میں مذہبی آزادی بلکہ کسی قسم کی آزادی کا ذکر ہی فضول ہے۔یہ عجیب نامعقولیت تھی کہ ایک ملک کا اٹارنی جنرل ملک کی قانون ساز اسمبلی میں یہ کہہ رہا ہے کہ اگر آپ نے اپنے ضمیر کے مطابق اپنے مذہب کا اعلان کیا تو آپ کے حقوق کی کوئی ضمانت حکومت نہیں دے سکتی لیکن اگر آپ نے جھوٹ بولا اور اپنے ضمیر کے خلاف کسی اور نام سے اپنے مذہب کو منسوب کیا تو پھر ہم آپ کے حقوق کی حفاظت کریں گے۔
پھر اس کے بعد انہوں نے تسلی دلائی کہ غیر مسلم قرار دیئے جانے کے بعد بھی آپ اپنے مذہب کو profess, practiceاور propagate کر سکتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جب بھی ایک ملک یا ایک معاشرے میں مذہبی تنگ نظری کا سفر شروع ہو جائے تو یہ معاشرہ گرتے گرتے ایک مقام پر رکتا نہیں بلکہ تنگ نظری کی کھائی میں گرتا ہی چلا جاتا ہے۔جب تک کہ وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے واپسی کا سفر شروع نہ کرے ۔پاکستان بھی تنگ نظری کی کھائی میں گرتا چلا گیا۔اور ۱۹۸۴ء کے آرڈیننس میں جماعت سے اپنا مذہب profess, practice اورpropagateکرنے کے حقوق چھیننے کی کوشش بھی کی گئی اور یہ تعصب صرف جماعت ِ احمدیہ تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اور اس وقت سے اب تک کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کے حقوق محفوظ نہیں رہے۔جب اٹارنی جنرل صاحب نے اس بات پر زوردیا کہ اگر آپ کو غیر مسلم قرار دے دیا جائے تو اس سے آپ کے حقوق محفوظ ہو جائیں گے۔اس پر حضور نے واضح طور پر فرمایا
‏Then we do not want our rights to be protecetd.
یعنی اس صورت میں ہم نہیں چاہتے کہ اس طرح ہمارے حقوق محفوظ کئے جائیں۔
اس دو ٹوک جواب کے بعد یحییٰ بختیار صاحب کے سوالات کی ڈولتی ہوئی ناؤ نے کسی اور سمت کا رخ کیا۔
پھر اٹارنی جنرل صاحب نے سوالات پوچھے کہ کیا احمدی مرزا صاحب کو نبی سمجھتے ہیں ۔اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے یہ پرمعارف جواب دیا کہ نہیں ہم انہیں امتی نبی سمجھتے ہیں۔اور فرمایا کہ نبی ہونے اور امتی نبی ہونے میں بہت فرق ہے۔ جب اٹارنی جنرل صاحب نے وضاحت کرنے کے لیے کہا تو اس پر حضور نے فرمایا۔
’’امتی نبی کے یہ معنی ہیں کہ وہ شخص نبی اکرم ﷺ کے عشق و محبت میںاپنی ۔۔۔زندگی گزار رہا ہے ۔اس کو ہم امتی کہیں گے۔قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔میری اتباع کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی محبت کو پاؤ گے۔امتی کے معنی یہ ہیں کہ حضرت بانی احمدیہ سلسلہ احمدیہ نبی اکرم ﷺ کے کامل متبع تھے۔اور ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ کوئی روحانی برکت اور فیض نبی اکرم ﷺ کی اتباع کے بغیر حاصل ہو نہیں سکتا۔‘‘
اس کے بعد یہ بات شروع ہوئی کہ احمدیوں کے نزدیک جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کرے اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے اور کفر کے کیا کیا مطالب ہو سکتے ہیں،شرعی اور غیر شرعی نبی میںکیا فرق ہوتا ہے۔
اب یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ اب سارا دن گزار کر شاید اٹارنی جنرل صاحب موضوع پر آئیں اور کچھ علمی اور پر معرفت باتیں سننے کو ملیں۔لیکن چند منٹ ہی گزرے تھے کہ یحییٰ بختیار صاحب اچانک بغیر کسی تمہید کے پٹری سے اترے اور ایسا اترے کہ بہت دور نکل گئے۔انہوں نے اچانک سوال کیا آپ اپنے لیے تو تواضع پسند کرتے ہیں لیکن دوسروں کے لیے تواضع نہیں ظاہر کرتے اور اس الزام کے حق میں اٹارنی جنرل صاحب نے اپنی طرف سے جو دلیل پیش فرمائی وہ یہ تھی کہ آپ نے یہ تقاضا کیا تھا کہ آپ کے نام جو خط آئے وہ امام جماعت ِ احمدیہ کے نام آئے اور جب کہ آپ نے اپنے انگریزی میں لکھے گئے ضمیمہ میں مودودی صاحب کا نام مسٹر مودودی لکھا ہے جب کہ ان کے پیروکار انہیں مولانا مودودی کہتے ہیں۔ان کا اصرار تھا کہ اس طرح مودودی صاحب کی تحقیر ہوتی ہے۔
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیںحکومت کی طرف سے ایک خط ملا جس میں حضرت خلیفۃ المسیح کا ذکر کرنا تھا لیکن قومی اسمبلی کے سیکریٹری نے ان کے لئے انجمن احمدیہ کے ہیڈ کے الفاظ استعمال کئے ۔حقیقت یہ ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کا صدر صرف جماعت کی اس تنظیم کا سربراہ ہوتا ہے اور وہ امام جماعت ِ احمدیہ نہیں ہوتا۔یہ بات نہ صرف احمدیوں میں بلکہ غیر احمدیوں میں بھی معروف ہے۔اس غلطی کی ضروری تصحیح کی گئی تھی اور وہ تصحیح بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی طرف سے نہیں بلکہ ایڈیشنل ناظر اعلیٰ مرزا خورشید احمد صاحب کی طرف سے بھجوائی گئی تھی لیکن اٹارنی جنرل صاحب با وجود وکیل ہونے کے اس موٹی بات کو سمجھنے سے بھی قاصر تھے اور اس غلطی کو بنیاد بنا کر ایک لایعنی اور غیر متعلقہ اعتراض کر رہے تھے۔اس کے جواب میں حضرت صاحب نے مذکورہ وضاحت بیان فرمائی اور کہا کہ میں اپنے لیے کسی ادب کا مطالبہ نہیں کرتا۔آپ مجھے مسٹر بھی نہ کہیں۔میرا نام مرزاناصر احمد ہے،آپ مجھے خالی ناصر کہیں۔
جہاں تک اٹارنی جنرل صاحب کی دوسری بات کا تعلق تھا تو اس کی شانِ نزول یہ تھی کہ جماعت ِ احمدیہ کے محضر نامہ کے ضمیمہ میں مودودی صاحب کا نام انگریزی میں مسٹر مودودی کر کے لکھا ہوا تھا۔ اسی ضمیمہ میں مسٹر مودودی کے الفاظ سے پانچ لفظ پہلے مسٹر بھٹو کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔حضور نے فرمایا کہ جو چیز میں نہیں سمجھ سکا وہ یہ ہے کہ اسی جگہ پانچ لفظ پہلے مسٹر بھٹو سے تو تحقیر ظاہر نہیں ہوتی اور مسٹر مودودی سے تحقیر ظاہر ہوتی ہے۔یہ بات میں نہیں سمجھ سکا ۔تحقیر کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔لیکن اٹارنی جنرل صاحب اسی بات کو دہراتے رہے کہ اس طرح مودودی صاحب کے بارے میں تواضع کا رویہ نہیں دکھایا گیا۔انہوں نے ایسی کج بحثی کا مظاہرہ کیا کہ خود سپیکر اسمبلی کو کہنا پڑا کہ یہ مناظرہ ختم کر کے وہ معین سوال کریں۔
یعنی اٹارنی جنرل صاحب یا اسمبلی کو تو یہ اختیار ہے کہ وہ جس کے متعلق پسند کریں اسے غیر مسلم کہہ دیں لیکن اگر انگریزی میںمودودی صاحب کو مسٹر مودودی کرکے لکھا جائے اور ان کو مولانا نہ کہا جائے تو یہ ایسی تحقیر ہے کہ اس کا سوال خود اسمبلی میں اٹھایا جائے جب کہ بحث کا مقصد یہ ہو کہ ختمِ نبوت کو نہ ماننے والوں کا اسلام میں کیا مقام ہے اور سوال یہ اٹھایا جائے کہ مودودی صاحب مسٹر ہیں یا مولانا ہیں۔ابھی یحییٰ بختیار صاحب اس جنجال سے باہر نہیں نکلے تھے کہ انہوں نے اپنے دلائل کی زنبیل میں سے ایک اور دلیل باہر نکالی۔اور کہا کہ انگلستان میں جماعت ِ احمدیہ نے ایک ریزولیشن پاس کیا ہے جس میں Non Ahmadiyya Pakistaniکے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ غیر احمدیوں کو مسلمان نہیں کہا گیا۔اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ خبر وہاں کے اخباروں میں آئی ہے آپ بے شک Verify کر لیں۔اورکہا کہ اس کی ایک کاپی حضور کو دی جائے۔مغرب کی نماز کے بعد حضرت صاحب نے وضاحت کے لیے کہا کہ اس کاپی پر تو کسی اخبار کا نام نہیں ،یہ کس اخبار کا حوالہ ہے ۔تو اٹارنی جنرل صاحب کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ کس اخبار میں خبر آئی تھی جس کا وہ حوالہ دے رہے تھے،انہوں نے صرف یہ کہہ کر اپنی جان چھڑائی کہ یہ مجھے ڈائرکٹ ملا ہے۔میں معلوم کروں گا کہ کس اخبار میں خبر آئی تھی۔اس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے کارروائی سے قبل کوئی سنجیدہ تیاری نہیں کی تھی۔
معلوم ہوتا ہے کہ ممبران ِ اسمبلی خاص طور پر جماعت کے مخالفین کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔ بحث ان کی امیدوں کے بر عکس جا رہی تھی۔وہ غالباََ اس امید میں مبتلا تھے کہ جماعت کا وفد خدانخواستہ ایک ملزم کی طرح کٹہرے میں کھڑا ہوگا اور ان کے ہر نامعقول تبصرہ کو تسلیم کرے گا اور اس پس منظر میں جب کہ ملک میں احمدیوں کے خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی،جماعت کا وفد ان سے رحم کے لیے درخواست کرے گا۔مگر ایسا نہیں ہو رہا تھا۔اٹارنی جنرل صاحب ممبرانِ اسمبلی کے دیئے ہوئے جو سوال کرتے تو ان میں سے اکثر غیر متعلقہ اور خام سوال ہوتے اور جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ سوال کر کے کسی اصطلاح یا سوال کے کسی مبہم پہلو کی وضاحت کرتے تو ان سوالات سے ہی یہ واضح ہو جاتا کہ یہ سوالات پختہ ذہن سے نہیں کئے گئے۔جب ۵؍ اگست کی کارروائی ختم ہوئی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ جماعتی وفد کے دیگر اراکین کے ہمراہ جب ہال سے تشریف لے گئے تو ممبرانِ ا سمبلی کا غیظ و غضب دیکھنے والا تھا۔اس وقت ان کے بغض کا لاوا پھٹ پڑا ۔ایک ممبر میاں عطا ء اللہ صاحب نے بات شروع کی اور کہا
I have another point some of the witnesses who were here, for instances, Mirza Tahir, they were unnecessarily..........
اس جملہ کی اٹھان سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے متعلق کچھ زہر اگلنا چاہتے ہیں لیکن ان کا تبصرہ سپیکر کےJust a minuteکہنے سے ادھورا ہی رہ گیا۔اس کے فوراََ بعد شاہ احمد نورانی صاحب نے جھٹ اعتراض کیا:
’’وہ لوگ ہنستے بھی ہیں۔باتیں بھی کرتے ہیںاس طرف دیکھ کر مذاق بھی کرتے ہیں اور سر بھی ہلاتے ہیں۔آپ ان کو بھی چیک فرمائیں۔‘‘
پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر جماعت کے وفد کی طرف سے کوئی نا مناسب رویہ ظاہر ہوتا تو یہ کارروائی سپیکر کے زیر صدارت ہو رہی تھی اور وہ اسی وقت اس کا نوٹس لے سکتے تھے اور اٹارنی جنرل صاحب جو سوالات کر رہے تھے اس پر اعتراض کر سکتے تھے لیکن ساری کارروائی میں ایک مرتبہ بھی انہوں نے ایسا نہیں کیا۔اصل میں نورانی صاحب اور ان جیسے دوسرے احباب کو یہ بات کھٹک رہی تھی کہ وہ اس خیال سے آئے تھے کہ آج ان کی فتح کا دن ہے اور خدانخواستہ جماعت ِ احمدیہ کا وفد اس سیاسی اسمبلی میں ایک مجرم کی طرح پیش ہو گا لیکن جو کچھ ہو رہا تھا وہ ان کی توقعات کے بالکل برعکس تھا۔لیکن کارروائی کے دوران جماعت کا وفد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی اعانت کر رہا تھا اور اس عمل میں ظاہر ہے آپس میں بات بھی کرنی پڑتی ہے اور اس عمل میں چہرے پر کچھ تاثرات بھی آتے ہیں۔ اور اسمبلی میں مسکرانا اور سر کو ہلانا کوئی جرم تو نہیں کہ اس کو دیکھ کر نورانی صاحب طیش میں آ گئے۔آخر اسمبلیوں میں انسان شامل ہوتے ہیں کوئی مجسمے تو اسمبلیوں کی زینت نہیں بنتے۔
یہ واویلا صرف نورانی صاحب تک محدود نہیں تھا ۔ایک اور ممبر عبدالعزیز بھٹی صاحب نے بھی کھڑے ہو کر کہا کہ گواہ یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث سوال کوAvoid کرتے ہیں اور تکرار کرتے ہیں ۔چیئر کا یعنی سپیکر صاحب کا فرض ہے کہ انہیں اس بات سے روکا جائے۔جہاں تک تکرار کا سوال ہے تو اس کا جواب پہلے آ چکا ہے کہ اگر سوال دہرایا جائے گا تو اس کا جواب بھی دہرایا جائے گا۔سپیکر صاحب نے انہیں جواب دیا کہ اگر اٹارنی جنرل صاحب یہ بات محسوس کریں کہ سوالات کے جواب نہیں دیئے جا رہے تو وہ چیئر سے اس بات کی بابت استدعا کر سکتے ہیں۔اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ ان کے لئے ضروری ہی نہیں ہے کہ وہ سوال کا جواب دیں۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب نے سپیکر صاحب سے کبھی یہ استدعا کی ہی نہیں کہ ان کے سوال کا جواب نہیں دیا جا رہا کیونکہ جوابات تو مل رہے تھے لیکن سننے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔
عبد العزیز صاحب نے کہا:
‘‘The conduct of the witness is not coming before
the house as to how he is behaving ........’’
یہ تبصرہ غالباََ اسی ذہنی الجھن کی غمازی کر رہا تھا کہ ہم تو امید لگا کر بیٹھے تھے کہ یہ مجرم کی طرح پیش ہوں گے اور یہ الٹ معاملہ ہو رہا ہے ہمیں ہی خفت اُ ٹھانی پڑ رہی ہے۔اس کے بعد مولا بخش سومرو اور اتالیق شاہ صاحب نے بھی یہی اعتراض کیا کہ جوابات Evasiveدیئے جا رہے ہیں ۔جب تک وہ ایک سوال کا جواب نہ دے دیں دوسری بحث میں نہ پڑا جائے۔ان سے رو رعایت نہ کی جائے۔اس پر سپیکر صاحب نے جواب دیا کہ اس معاملے میں اسی وقت ہی مداخلت کی جائے گی جب اٹارنی جنرل صاحب اس بارے میں استدعا کریں گے۔
آئینہ صداقت اور انوارِ خلافت کے حوالہ جات پر اعتراض
اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں کئی روز یہ اعتراض بار بار پیش کیا گیا کہ جماعت کی بعض کتب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہ ماننے والوں کے متعلق کفر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یا انہیں کافرکہا گیا ہے۔اس اعتراض کا مقصد یہ تھا کہ چونکہ آپ کی بعض تحریروں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کرنے والوں کے متعلق کفر کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اس لئے ،اب قومی اسمبلی کا یہ حق ہے کہ وہ احمدیوں کوآئین میں ترمیم کر کے غیر مسلم قرار دے دے۔چونکہ یہ اعتراض بار بار پیش کیا گیا ۔اس لئے مناسب ہوگا کہ اس جگہ یہ ذکر ایک جگہ پر کر دیا جائے۔اور یہ امر بھی قابل ِ ذکر ہے کہ یہ اعتراض ۱۹۵۳ء کی تحقیقاتی عدالت میں بھی کیا گیاتھا۔
سب سے پہلے یہ جائزہ لیتے ہیں کہ کفر کے لغوی معنی کیا ہیں۔اس کے اصل معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں ۔رات کو بھی کافر کہا جاتا ہے۔کاشتکار چونکہ زمین کے اندر بیج چھپاتا ہے اس لیے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے۔کفر کے معنی نعمت کی نا شکری کرکے اسے چھپانے کے بھی ہیں۔اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ،شریعت یا نبوت کا انکار ہے۔(مفردات ِ امام راغب )
مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کرنے والوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی تحریروں کے بعض حوالے درج ذیل ہیں ۔اگر سرسری نظر سے دیکھا جائے تو ان میں تضاد دکھائی دے گا لیکن اگر احادیثِ نبویہ ﷺ کی روشنی میں اس مفہوم کو سمجھا جائے تو یہ درحقیقت تضاد نہیں۔ ان میں وہ حوالہ جات بھی شامل ہیں جن پر اعتراض کیا جاتا ہے اور ان کے حوالے اس کارروائی کے دوران بھی پیش کئے گئے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام تریاق القلوب میں تحریر فرماتے ہیں
’’کیونکہ ابتدا سے میرا یہی مذہب ہے کہ میرے دعوے کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر یا دجال نہیں ہوسکتا ۔ہاں ضال اور جادئہ صواب سے منحرف ضرور ہو گا ۔اور میں اس کا نام بے ایمان نہیں رکھتا ۔ہاں میں ایسے سب لوگوں کو ضال اور جادئہ صدق و صواب سے دور سمجھتا ہوں جو اُن سچائیوں سے انکار کرتے ہیںجو خدا تعالیٰ نے میرے پر کھولی ہیں۔ میںبلا شبہ ایسے ہر ایک آدمی کو ضلالت کی آلودگی سے مبتلا سمجھتا ہوں جو حق اور راستی سے منحرف ہے۔لیکن میں کسی کلمہ گو کا نام کافر نہیں رکھتا جب تک وہ میری تکفیر اور تکذیب کر کے اپنے تئیں خود کافر نہ بنا لیوے ۔سو اس معاملہ میں ہمیشہ سے سبقت میرے مخالفوں کی طرف سے ہے کہ انہوں نے مجھ کو کافر کہا ۔میرے لئے فتویٰ طیار کیا ۔میں نے سبقت کر کے ان کے لئے کوئی فتویٰ طیار نہیں کیا ۔اور اس بات کا وہ خود اقرار کر سکتے ہیں کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمان ہوں تو مجھ کو کافر بنانے سے رسول اللہ ﷺ کا فتویٰ ان پر یہی ہے کہ وہ خود کافر ہیں۔سو میں ان کو کافر نہیں کہتا ۔بلکہ وہ مجھ کو کافر کہہ کر خود فتویٰ نبوی کے نیچے آتے ہیں۔‘‘(۴۴)
تریاق القلوب میںاسی عبارت کے نیچے حاشیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:۔
’’یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اپنے دعوے کے انکار کرنے والے کو کافر کہنا یہ صرف ان نبیوں کی شان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکامِ جدیدہ لاتے ہیں۔لیکن صاحب الشریعت کے ماسوا جس قدر ملہم اورمحدث ہیں گو وہ کیسی ہی جناب ِ الٰہی میں اعلیٰ شان رکھتے ہوں اور خلعتِ مکالمہ الٰہیہ سے سرفراز ہوں ۔ان کے انکار سے کوئی کافر نہیں بن جاتا۔ ہاں بد قسمت منکر جو ان مقربانِ الٰہی کا انکار کرتا ہے وہ اپنے انکار کی شامت سے دن بدن سخت دل ہوتا جاتا ہے۔یہاں تک کہ نور ِ ایمان اس کے اندر سے مفقود ہو جاتا ہے اور یہی احادیثِ نبویّہ سے مستنبط ہوتا ہے کہ انکار ِ اولیاء اور ان سے دشمنی رکھنا اوّل انسان کو غفلت اور دنیا پرستی میں ڈالتا ہے اور پھر اعمالِ حسنہ اور افعالِ صدق اور اخلاص کی ان سے توفیق چھین لیتا ہے۔‘‘(۴۴)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ آپؑ نے تریاق القلوب میں تحریر فرمایا ہے کہ آپ کے انکار سے کوئی شخص کافر نہیں بنتا علاوہ ا ن لوگوں کے جو آپ کی تکفیر کر کے کافر بن جائیں۔ لیکن عبدالحکیم خان کے نام مکتوب میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ ہر شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیںکیا وہ مسلمان نہیں ہے ۔اس بیان اور پہلی کتابوں کے بیان میں تناقض ہے۔ اس کا جواب آپ نے حقیقۃ الوحی میں یہ تحریر فرمایا:
’’یہ عجیب بات ہے کہ آپ کافر کہنے والے اور نہ ماننے والے کو دو قسم کے انسان ٹھیراتے ہیں حالانکہ خدا کے نزدیک ایک ہی قسم ہے کیونکہ جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ اسی وجہ سے نہیں مانتا کہ وہ مجھے مفتری قرار دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔جو کھلے کھلے طور پر خدا کے کلام کی تکذیب کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ہزارہا نشان دیکھ کر جو زمین اور آسمان میں ظاہر ہوئے پھر بھی میری تکذیب سے باز نہیں آتے ۔وہ خود اس بات کا اقرار رکھتے ہیں کہ اگر میںمفتری نہیں اور مومن ہوں ۔تو اس صورت میں وہ میری تکذیب اور تکفیر کے بعد کافر ہوئے ۔اور مجھے کافر ٹھیرا کر اپنے کفر پر مہر لگا دی ۔یہ ایک شریعت کا مسئلہ ہے کہ مومن کو کافر کہنے والا کافر ہوجاتا ہے۔۔۔‘‘(۴۵)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقۃالوحی میں تحریر فرماتے ہیں:
’’۔۔۔کیونکہ کافر کا لفظ مومن کے مقابل پر ہے اور کفر دو قسم پر ہے
(اوّل)ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت ﷺ کو خدا کا رسول نہیں مانتا (دوم)دوسرے یہ کفرکہ مثلاََ وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اسکو با وجود اتمامِ حجت کے جھوٹا جانتا ہے جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے ۔پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے کافر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں کیونکہ جو شخص با وجود شناخت کر لینے کے خدا اور رسول کے حکم کو نہیں مانتا وہ بموجب نصوص صریحہ قرآن اور حدیث کے خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا اور اس میں شک نہیں کہ جس پر خدا تعالیٰ کے نزدیک اوّل قسم کفر یا دوسری قسم کفر کی نسبت اتمامِ حُجّت ہو چکا ہے وہ قیامت کے دن مواخذہ کے لائق ہوگا ۔اور جس پر خدا کے نزدیک اتمامِ حجت نہیں ہوا اور وہ مکذّب اور منکر ہے تو گو شریعت نے (جس کی بنا ء ظاہر پر ہے ) اس کا نام بھی کافر ہی رکھا ہے اور ہم بھی اسکو باتباعِ شریعت کافر کے نام سے ہی پکارتے ہیں پھر بھی وہ خدا کے نزدیک بموجب آیت لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَہَا قابلِ مواخذہ نہیں ہو گا ۔ہاں ہم اس بات کے مجاز نہیں ہیں کہ ہم اُسکی نسبت نجات کا حکم دیںاس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے ہمیں اس میں دخل نہیں اور جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں ۔یہ علم محض خدا تعالیٰ کو ہے کہ اس کے نزدیک با وجود دلائل ِ عقلیہ اور نقلیہ اور عمدہ تعلیم اور آسمانی نشانوں کے کس پر ابھی تک اتمامِ حجت نہیں ہوا ۔ہمیں دعوے سے کہنا نہیں چاہئے کہ فلاں شخص پر اتمامِ حجت نہیں ہوا ہمیں کسی کے باطن کا علم نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘(۴۶)
اسی مضمون کے متعلق حضرت مصلح موعود ؓ اپنی تصنیف آئینہ صداقت میں تحریر فرماتے ہیں
’’میرا عقیدہ ہے کہ کفردرحقیقت خدا تعالیٰ کے انکار کی وجہ سے ہوتا ہے اور جب بھی کوئی وحی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسی نازل ہو کہ اس کا ماننا لوگوں کے لئے حجت ہو ۔اسکا انکار کفر ہے اور چونکہ وحی کو انسان تب ہی مان سکتا ہے کہ جب وحی لانے والے پر ایمان لائے۔ اس لئے وحی لانے والے پر ایمان بھی ضروری ہے ۔اور جو نہ مانے وہ کافر ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ وہ زید یا بکر کو نہیں مانتا ۔بلکہ اس وجہ سے کہ اس کے نہ ماننے کے نتیجہ میں اسے خدا تعالیٰ کے کلام کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔۔۔۔اور چونکہ میرے نزدیک ایسی وحی جس کا ماننا تمام بنی نوع انسان پر فرض کیا گیا ہے حضرت مسیح موعود ؑ پر ہوئی ہے اس لئے میرے نزدیک بموجب تعلیم قرآن کریم کے ان کے نہ ماننے والے کافر ہیں خواہ وہ باقی سب صداقتوں کو مانتے ہوں۔‘‘(۴۷)
سرسری نظر سے ان حوالہ جات کو پڑھنے سے ایک نا واقف شخص شاید یہ نتیجہ نکالے کہ ان حوالہ جات میں تضاد ہے کہ ایک جگہ لکھا ہے کہ ایسا شخص کافر ہے اور ایک اور جگہ پر لکھا ہے کہ ایسا شخص کافر نہیں ہے۔لیکن درحقیقت یہاں پر کوئی تضاد نہیں۔اس قسم کے مضامین احادیث نبویہ ﷺ میں بھی بیان ہوئے ہیں ۔
مثلاًصحیح مسلم کی کتاب الایمان میں روایات ہیں کہ جو اپنے آپ کو کسی کا بیٹا کہے اور وہ جانتا ہو کہ وہ اسکا بیٹا نہیں ہے اس نے کفر کیا (باب من ادعی الی غیر ابیہ) اور ایک اور روایت میں ہے کہ جو اپنے باپ سے بیزار ہوا وہ کافر ہو گیا(باب بیان حال ایمان من رغب عن ابیہ)اسی طرح رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں میں دو چیزیں ہیں جو کفر ہیں۔ایک نسب پر طعن کرنا اور دوسرے میت پر چلا کر رونا(اطلاق اسم الکفر علی طعن فی النسب وا لنیاحۃ)۔اسی طرح ارشاد نبوی ہے کہ جس نے کہا کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش پڑی اس نے کفر کیا(بیان کفر من قال مطرنا بالنّوع)پھر ارشادِ نبوی ﷺ ہے کہ آدمی اور شرک اور کفر کے درمیان نماز کا ترک کرنا ہی ہے اور اس پر امام مسلم ؒ نے باب ہی یہ باندھا ہے بیان اطلاق اسما ء لکفر علی من ترک الصلوٰۃ یعنی جس نے نماز ترک کی اس پر کفر کے نام کے اطلاق کا بیان ۔اسی طرح سنن ابو داؤد میں حدیث بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن کریم کے بارے میں جھگڑا کرنا کفر ہے ۔(باب ۳۹۱ نھی عن الجدال فی القرآن)۔جامع ترمذی ابواب الطہارۃ میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو کاہن کے پاس گیا اس نے اس کا جو محمد ﷺ پر نازل ہوا انکار کیا ۔(باب ما جاء فی کراھیۃ اتیان الحائض)۔ جامع ترمذی میں حضرت ابنِ عمر سے روایت ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی قسم کھائی اس نے کفر کیا یا شرک کیا۔(باب فی کراھیۃ الحلف بغیر اللہ)۔اسی طرح ترمذی میں بیان ہوا ہے کہ جس کو کوئی عطا دی گئی اور اس نے تعریف کی تو اس نے شکر کیا اور جس نے چھپایا اس نے کفر کیا۔(باب ما جاء فی المتشبع بما لم یعطہ)۔ اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی ظالم کے ساتھ چلا کہ اس کی تائید کرے اور وہ جانتا ہے کہ وہ ظالم ہے تو وہ شخص اسلام سے نکل گیا (مشکوۃ شریف باب الظلم )۔ان احادیث میں بہت سے امور ایسے بیان ہوئے ہیں جن کا مرتکب جب تک کہ ان کو ترک نہیں کرتا وہ بموجب ارشاد ِ نبوی کفر کرتا ہے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ مبارک میں جو لوگ ان افعال کے مرتکب ہوتے تھے اس وقت کیا قانون کی رو سے وہ غیر مسلم شمار ہوتے تھے کہ نہیں۔مثلاََ اس وقت کے اسلامی قانون کے مطابق مسلمانوںسے زکوٰۃ وصول کی جاتی تھی اور غیر مسلموں سے جزیہ وصول کیا جاتا تھا ۔اور زمانہ نبوی میں ایسے لوگ موجود تھے جو نماز ادا نہیں کرتے تھے یا میت پر چیخ کر نوحہ کرتے تھے یا اپنے باپوں سے بیزار تھے ،یا غلطی سے غیر اللہ کی قسم کھا جاتے تھے تو کیا ایسے لوگوں کو اس وقت کے قانون کی رو سے غیر مسلم شمار کر کے ان سے جزیہ وصول کیا جاتا تھا ،یا ان پر ممانعت تھی کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہہ سکیں یا ان پر ممانعت تھی کہ وہ مسجد میں آکر مسلمانوں کے ساتھ نماز ادا کر سکیں ۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ یقیناََ ایسا نہیں تھا ان پر اس قسم کی کوئی پابندی نہیں تھی ۔ ان افعال کے مرتکب جب تک کہ اپنے افعال سے توبہ کرکے انہیں ترک نہ کر دیں کفر تو کرتے تھے لیکن یہ ان کا اور خدا تعالیٰ کے درمیان معاملہ تھا ۔گو ان احادیث کی رو سے ان افعال کے مرتکب افراد خدا کی نظر میںدائرہ اسلام سے تو خارج ہو جاتے تھے لیکن ملتِ اسلامیہ میں شامل رہتے تھے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے خوداس امر کو اچھی طرح واضح فرمایا ہے ۔آپؐ نے فرمایا
’’جس نے ہماری نماز پڑھی اور ہمارے قبلہ کو اپنا قبلہ بنایا اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ مسلمان ہے جس کے لئے اللہ اور رسول کی امان ہے پس تم اللہ کے ساتھ اس کی دی ہوئی امان میں بے وفائی نہ کرو۔‘‘(صحیح بخاری ،کتاب الصلٰوۃ ۔باب ۲۶۹)
اور اس سے اگلی حدیث میں ہے کہ جس نے لا الہ الا اللہ کہا ،ہماری طرح نماز پڑھی ہمارے قبلہ کو اپنایا، ہمارا ذبیحہ کھایا تو ان کا خون ہمارے لئے حرام ہے اور ان کا حساب لینا اللہ تعالیٰ پر ہے ۔اس مضمون کی احادیث دوسری معتبر کتب ِ احادیث میں بھی بیان ہوئی ہیں مثلاََ سنن ابو داؤدکتاب الجہاد میں اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ جس نے لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ پڑھا، ہمارے قبلہ کو اپنا قبلہ بنایا ،ہمارا ذبیحہ کھایا اور ہماری نماز پڑھی اس کا خون ہم پر حرام ہے ،جو مسلمانوں کا حق ہے وہ ان کا حق ہے اور ان پر وہ حق ہے جو مسلمانوں پر ہے۔ان احادیث سے یہ صاف طور پر ظاہر ہے کہ قانونی طور پر جو مذکورہ بالا معیار پر پورا اترے وہ مسلمان شمار ہو گا اور اس کو عرف عام میں مسلمان ہی کہا جائے گا اور وہ ملت ِ اسلامیہ کا ہی حصہ سمجھا جائے گا اور ان کے باقی اعمال کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔اگرچہ پہلے بیان شدہ احادیث میں بہت سے ایسے اشخاص کے متعلق کہا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے اعمال کے نتیجے میں کفر کیا ہے۔یہ امر قرآن کریم کے الفاظ کی معروف ترین لغت مفردات ِ امام راغب میں بھی بیان ہوا ہے۔مفردات ِ امام راغب میں لفظ اسلام کی وضاحت میں لکھا ہے کہ شرعاََ اسلام کی دو قسمیں ہیں۔اگر کوئی شخص زبان سے اقرار کر لے۔ دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کی جان مال عزت محفوظ ہو جاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے۔اور دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ دلی اعتقاد بھی ہو اورعملاً اس کے تقاضوں کو پورا بھی کرے۔
لیکن جماعت ِ احمدیہ کا یہی مسلک رہا ہے جو شخص ان قسم کی صورتوں میں ،احادیثِ نبویہ کی روشنی میں جن کی چند مثالیں اوپر دی گئی ہیں ،غلط افعال یا عقائد کی وجہ سے،دائرہ اسلام سے خارج بھی ہو لیکن وہ کلمہ پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو تو بھی اسے عرف ِ عام میں مسلمان ہی کہا جائے گا اور وہ ملتِ اسلامیہ میں ہی شمار ہوگا اور قانون کی رو سے اسے مسلمان ہی سمجھا جائے گا۔اس کا حساب اللہ تعالیٰ لے گا۔ حکومتوں یا انسانوں کا یہ کام نہیں ہے کہ اس سے یہ حق چھینیں۔ ورنہ تو یہ بھی ماننا پڑے گا جو شخص تین جمعے عمداً ترک کرے وہ قانون کی رو سے مسلمان نہیں ہے اور اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتا،جو میت پر چیخ کر روئے وہ قانون کی رو سے مسلمان نہیں ہے اور اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتا،جو نماز ترک کرے وہ قانون کی رو سے مسلمان نہیں ہے اور اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتا ،جو غیر اللہ کی قسم کھائے وہ قانون کی رو سے مسلمان نہیں ہے اور اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتا۔ظاہر ہے مندرجہ بالا صورت محض فتنہ کادروازہ کھولنے و الی بات ہو گی اور زمانہ نبویﷺ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔اسی طرح جماعت کے لٹریچر میں جن چند جگہوں کے حوالے ۱۹۵۳ء کی تحقیقاتی عدالت میں بھی دیئے گئے تھے اور اب بھی دیئے جا رہے تھے کہ ان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تکذیب کو کفر لکھا گیا ہے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تکذیب کو دائرہ اسلام سے نکلنے کا مترادف لکھا گیا ہے،اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ملت ِ اسلامیہ سے خارج ہیں یا انہیں یہ حق نہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان کہیں۔اس کی وضاحت بارہا جماعتی لٹریچر میں دی گئی ہے۔
جب ۱۹۵۳ء کی تحقیقاتی عدالت میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے یہ سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص مرزا غلام احمد صاحب کے دعاوی پر غور کرنے کے بعد اس دیانتدارانہ نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ یہ دعاوی غلط ہیں تو کیا ایسا شخص مسلمان رہے گا ؟تو اس پر حضور نے جواب دیا کہ ہاں عمومی طور پر اس کو مسلمان ہی سمجھا جائے گا۔
اور اسی کارروائی کے دوران جب جماعت ِ اسلامی کے وکیل چوہدری نذیر احمد صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓسے سوال کیا:
’’کیا آپ اب بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں جو آپ نے کتاب آئینہ صداقت کے پہلے باب میں صفحہ ۳۵ پر ظاہر کیا تھا ۔یعنی یہ کہ تمام وہ مسلمان جنہوں نے مرزا غلام احمد صاحب کی بیعت نہیں کی خواہ انہوں نے مرزا صاحب کا نام بھی نہ سنا ہو وہ کافر ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔‘‘
اس کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے فرمایا:
’’یہ بات خود اس بیان سے ظاہر ہے کہ میں ان لوگوں کو جو میرے ذہن میں ہیں مسلمان سمجھتا ہوں۔پس جب میں کافر کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو میرے ذہن میں دوسری قسم کے کافر ہوتے ہیںجن کی میں پہلے ہی وضاحت کر چکا ہوں یعنی وہ جو ملت سے خارج نہیں۔جب میں کہتا ہوں کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو میرے ذہن میں وہ نظریہ ہوتا ہے جس کا اظہار کتاب مفردات ِ راغب کے صفحہ ۲۴۰ پر کیا گیا ہے۔جہاں اسلام کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں ۔ایک دون الایمان اور دوسرے فوق الایمان ۔دون الایمان میں وہ مسلمان شامل ہیںجن کے اسلام کا درجہ ایمان سے کم ہے۔فوق الایمان میں ایسے مسلمانوں کا ذکر ہے جو ایمان میں اس درجہ ممتاز ہوتے ہیں کہ وہ معمولی ایمان سے بلند تر ہوتے ہیں۔ اس لئے میں نے جب یہ کہا تھا کہ بعض لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو میرے ذہن میں وہ مسلمان تھے جو فوق الایمان کی تعریف کے ماتحت آتے ہیں ۔مشکوۃ میں بھی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی ظالم کی مدد کرتا ہے اور اس کی حمایت کرتا ہے وہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘
(تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت ِ احمدیہ کا بیان ،ناشر احمدیہ کتابستان حیدر آباد ۔ص۱۹، ۲۰)
اور اس کارروائی کے دوران ۶؍ اگست کو جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ سے سوال کیا گیا کہ ایسی صورت میں اگر کسی شخص کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا ہے تو کیا پھر بھی مسلمان ہو گا۔اس پر حضور نے فرمایا کہ ہاں وہ ملت ِ اسلامیہ کا فرد ہوگا ۔اور وہ بعض جہت سے مسلمان ہے اور بعض جہت سے کافر ہے۔
اور۷؍ اگست کو جب دوپہر کے سیشن کی کارروائی ہوئی ہے تو اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس موقع پر بھی یہ فرمایا تھا کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے اب تک دو مختلف گروہ پیدا ہوتے رہے ہیں ایک وہ مخلصین جنہوں نے اسلام کو اچھی طرح قبول کیا اور ان لوگوں نے رضاکارانہ طور پر اپنی مرضی اور اختیار سے اپنی گردنیں خدا تعالیٰ کے حضور میںپیش کر دیں۔اپنے اخلاق کے مطابق خدا کی راہ میں قربانی کرنے والا اور تمام احکامات پر عمل کرنے والا یہ ایک گروہ ہے۔اس کے ساتھ ایک دوسرا گروہ بھی ہے جو اس مقا م کا نہیں ہے۔حضور نے حدیث کا حوالہ دے کر فرمایا کہ رسولِ کریم ﷺ کے زمانہ سے بعض گناہوں کے متعلق کفر کا لفظ استعمال ہوتا تھا اور ساتھ ہی ان کو مسلمان بھی کہا جاتا تھا۔اور حضور نے یہ آیت کریمہ پڑھی:
(الحجرات:۱۵)
یعنی اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہو کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں یا ہم نے اطاعت کر لی ہے۔
اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے سوال کیا کہ کیا احمدیوں میں بھی اس قسم کے مسلمان ہیں؟اس پر حضور نے جواب دیا کہ احمدیوں میں بھی ایک ایسا گروہ ہے جو کہ مخلص ہے اور دوسرا گروہ بھی ہے۔اس پرپھر اٹارنی جنرل صاحب نے سوال کیا کہ پھر وہ بھی کافر ہوئے اس حد تک۔اس پر حضور نے جواب دیا ’’اس حد تک وہ بھی کافر ہوئے۔‘‘ اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے سوال کیاکہ اگر ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنی طرف سے نیک نیتی سے انکار کرتا ہے تو اس کی کیا حیثیت ہے؟اس پر حضور نے فرمایا ’’یہ دوسریCategoryہے۔وہ گنہگار ہے۔‘‘اٹارنی جنرل صاحب نے پھر سوال کیا کہ وہ شخص کسCategoryمیں کافر ہے؟ اس پر حضور نے فرمایا ’’جس طرح نماز نہ پڑھنے والا۔‘‘ اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا ’’بس اتنا ہے کہ یہ مسلمان رہتا ہے۔‘‘ اس پر حضور نے پھر فرمایا کہ
’’یہ مسلمان رہتا ہے اس واسطے میں نے اس کی وضاحت کی ہے۔‘‘
اس وضاحت کے بعد بھی اٹارنی جنرل صاحب یہ گفتگو چلاتے رہے اور ان لوگوں کے متعلق سوال کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اتمامِ حجت کے بعد نبی نہیں مانتے۔ اس پر حضور نے پھر جواب دیا کہ
’’جو شخص حضرت مرزا غلام احمد صاحب ؑ کونبی نہیں مانتا اور (اپنے آپ کو) آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کرتا ہے اس کو غیر مسلم کہہ ہی نہیں سکتے۔‘‘
یہ حصہ بہت اہم تھا اور اس میں بہت سے ضروری نکات سے استفادہ کیا جانا چاہئے تھا لیکن افسوس حضور جو عربی کا حوالہ پڑھتے تھے اس پر ریکارڈ لکھنے والے صرف ۔’’عربی‘‘ لکھنے پر ہی اکتفا کرتے تھے۔ ورنہ حضور کے یہ ارشادات زیادہ تفصیل کے ساتھ سامنے آتے۔اور ان سے استفادہ کیا جاتا۔
اور یہ بات صرف احمدیوں کے لٹریچر تک محدود نہیں کہ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جن پر ایک لحاظ سے کفر کا لفظ تو آتا ہے لیکن وہ پھر بھی ملت ِ اسلامیہ میں ہی رہتے ہیں اور ان کو عرف ِ عام میں مسلمان ہی کہا جاتا ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس کارروائی کے دوران پرانے علماء میں سے مشہور علامہ ابنِ تیمیہ کا حوالہ دیا۔وہ اپنی تصنیف کتاب الایمان میں لکھتے ہیں:
’’۔۔فَقَالَتِ الْعُلَمَائُ فِیْ تَفْسِیْرِ الْفُسُوْقِ ھَاھُنَا ھِیَ الْمَعَاصِی قَالُوا فَلَمَّا کَانَ الظُّلْمُ ظُلْمَیْنِ وَالْفِسْقُ فِسْقَیْنِ کَذَالِکَ الْکُفْرُ کُفْرَانِ اَحَدُھُمَا یَنْقُلُ عَنِ الْمِلَّۃِ وَالْاٰخَرُ لَا یَنْقُلُ عَنِ الْمِلَّۃِ‘‘
(کتاب الایمان ،تصنیف احمد ابن تیمیہ ،ناشر مطبع الانصاری، دہلی ص۱۷۱)
یعنی جس طرح ظلم دو قسم کا ہوتا ہے،فسق دو قسم کا ہوتا ہے کفر بھی دو قسم کا ہوتا ہے۔ایک کفر ملت سے نکالنے کا باعث بنتا ہے اور دوسرا کفر ملت سے نکالنے کا باعث نہیں بنتا۔
اس کے علاوہ ،اس دور میںجماعت کے اشد مخالف مولوی شبیر عثمانی صاحب کا کہنا تھا:
’’۔۔۔۔۔۔۔حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے کُفْرٌ دُوْنَ کُفْرٍ کے الفاظ بعینہٖ مروی نہیں ہیںبلکہ ان سے ’’وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ‘‘ کی تفسیر میں ’’اَیْ اَلْکُفْرُ لَا یَنْقُلُ عَنِ الْمِلَّۃِ‘‘منقول ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کفر چھوٹا بڑا ہوتا ہے،بڑا کفر تو ملت سے ہی نکال دیتا ہے جب کہ چھوٹا ملت سے نہیں نکالتا، معلوم ہوا کہ کفر کے انواع و مراتب ہیں۔۔۔۔‘
(کشف الباری عما فی صحیح البخاری جلد دوم ،افادات شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان ناشر مکتبہ فاروقیہ کراچی ،ص۲۰۰)
اب ہم اس فلسفہ کا جائزہ لیتے ہیں چونکہ احمدیوں کی بعض تحریروں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انکار کو کفر قرار دیا گیا ہے ، اس لئے انہیں آئین میں غیر مسلم قرار دینا چاہئے ۔تو پھر ہمیں یہ اصول تسلیم کرنا پڑے گا کہ جس فرقہ کی تحریروں میں دوسرے فرقہ کے لوگوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہو اسے آئین میں تبدیلی کر کے غیر مسلم قرار دینا چاہئے ۔اس اصول کے مضمرات کا جائزہ لینے کے لیے ہم دیکھتے ہیں کہ صدیوں سے مختلف فرقہ کے علماء دوسرے فرقوں کے متعلق اور ان کے ایمان کے بارے میں کیا فتاویٰ دیتے رہے ہیں۔ حنفیوں کی کتاب عرفان ِ شریعت میں لکھا ہے کہ غیر مقلدین کی بدعت بہت وجہ سے کفر تک پہنچی ہوئی ہے کیونکہ وہ اجماع ،تقلید اور قیاس کے منکر ہیں اور بقول ان کے انہوں نے انبیاء کی شان میں گستاخی کی ہے۔اور اسی کتاب میں یہ فتویٰ ہے کہ حنفیوں کی نماز غیرمقلدین کے پیچھے درست نہیں اور وجوہات میں سے یہ وجوہات بھی لکھی ہیں کہ اگر کٹورہ پانی میںچھ ماشہ پیشاب پڑ جائے تو وہ اسے پاک سمجھتے ہیں۔اسی طرح شافعی اگر فرائض و شرائط حنفی کی رعایت نہ رکھیں تو ان کے پیچھے بھی نماز درست نہیں(۴۸)۔خدا تعالیٰ کے مامور کی تکذیب و تکفیر تو ایک طرف رہی ان علماء کا تو یہ مسلک تھا کہ اگر کوئی علماء کو برا بھلا کہے اور سب و شتم کرے تو یہ نہ صرف بد ترین اور فسق ہے اور ان کلمات کا کلماتِ کفر ہونے کا اندیشہ ہے۔اور اگر ایک شخص مؤذن کو برا بھلا کہے کہ وہ اذان کیوں دیتا ہے یہ کلماتِ کفر ہوں گے۔ اور اگر کوئی شخص منکر ِ حدیث ہو تو یہ کفر ہے اور تجدیدِ ایمان اور تجدید ِ نکاح ضروری ہے ،نہ صرف یہ بلکہ اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ جہنم دائمی نہیں ہے تو اس کلمہ پر بھی کفر کا اندیشہ ہے(۴۹)۔بعض علماء تو اس طرف گئے ہیں کہ قرآن شریف مخلوق ہے یا اگر یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ کی رویت محال ہے تو یہ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں کافر کہنا چاہئے(۵۰)۔ دیوبندی مسلک کی کتاب عزیز الفتاویٰ میں لکھا ہے اگر نکاح ِ ثانی کو معیوب سمجھا جائے تو اس سے کفر کا اندیشہ ہے۔اور یہ بھی لکھا کہ ایک مرد صالح کو ڈانٹنے اورذلیل کرنے سے آدمی فاسق اور بے دین ہو جاتا ہے(۴۸)۔ اسی طرح دیوبندیوں کی طرف سے ان کے نمایاں عالم رشید احمد گنگوہی صاحب نے فتویٰ دیا تھا کہ شیعہ حضرات جو تعزیہ نکالتے ہیں وہ بت ہے اور تعزیہ پرستی کفر ہے،جب ایک شخص نے ان سے میلاد میں شرکت کرنے والوں کے متعلق جو یہ مانتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺ حاضر ہوتے ہیں اور بریلوی عالم احمد رضا خان صاحب کے بعض معتقدات کا ذکر کر کے ان کے متعلق سوال کیا تو رشیداحمد گنگوہی صاحب نے جواب دیا جو شخص اللہ جل شانہ کے سوا عالم غیب کسی دوسرے کو ثابت کرے اور اللہ تعالیٰ کے برابر کسی دوسرے کا علم جانے وہ بے شک کافر ہے اس کی امامت اور اس سے میل جول محبت مودت سب حرام ہیں ۔ روافض کے متعلق سوال کیا گیا تو گنگوہی صاحب نے فتویٰ دیا کہ علماء میں سے بعض نے ان کے متعلق کافر کا حکم دیا ہے اور بعض نے ان کو مرتد قرار دیا ہے(۵۱)۔ فرنگی محل کے عالم مولوی عبد الحی صاحب نے فتوے دیئے کہ بعض شیعہ فرقے کافر ہیں(۵۲) ۔حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین جو کہ بریلوی قائد احمد رضا خان صاحب کی تصنیف ہے اس میں لکھا ہے کہ
’’ہر وہ شخص کہ دعویٰ اسلام کے ساتھ ضروریات ِ دین میں سے کسی چیزکا منکر ہو یقیناََ کافر ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنے اور اس کی جنازے کی نماز پڑھنے اور اس کے ساتھ شادی بیاہ کرنے اور اس کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانے اور اس کے پاس بیٹھنے اور اس سے بات چیت کرنے اور تمام معاملات میں اس کا حکم وہی ہے جو مرتدوں کا حکم ہے ۔(۵۳)
اور کفر کے یہ فتووں کا سلسلہ ایک صدی پہلے شروع نہیں ہوا بلکہ صدیوں سے یہ عالم چلا آرہا ہے۔مثلاً فتاویٰ عالمگیری میں مختلف ماخذ کے حوالہ سے مختلف صورتیں درج ہیں جن میں ایک شخص پر کفر کا فتویٰ لگتا ہے ۔صرف چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں۔اس میں لکھا ہے کہ اگرکسی نے اپنے ایمان میں شک کیا اور کہا میں ایماندار ہوں انشاء اللہ تو وہ کافر ہے۔جس شخص نے قرآن یعنی کلام اللہ کی نسبت کہا کہ اللہ کا کلام مخلوق ہے تو وہ کافر ہے۔اگر کسی نے ایمان کو مخلوق کہا تو وہ کافر ہے۔اگر کسی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ انصاف کے واسطے بیٹھا ہے یا کھڑا ہے تو اس کی تکفیر کی جائے گی۔اور اگر کہا کہ میرا آسمان پر خدا اور زمین پر فلاں تو اس کی تکفیر کی جائے گی۔اگر کسی سے کہا گیا کہ بہت نہ کھایا کر خدا تجھے دوست نہیں رکھے گا اور اس نے کہا میں تو کھاؤں گا خواہ مجھے دوست رکھے یا دشمن تو اس کو کافر کہا جائے گا۔اور اسی طرح اگر کہا کہ بہت مت ہنس یا بہت مت سو یا بہت مت کھا اور اس نے کہا کہ اتنا کھاؤںگا اور اتنا ہنسوں گا اور اتنا سوؤں گا جتنا میراجی چاہے تو اس کی تکفیر کی جائے۔اگر کسی سے کہا گیا کہ خدا ے تعالیٰ نے چار بیویاں حلال کی ہیں اور وہ کہے کہ میں اس حکم کو پسند نہیں کرتا تو یہ کفر ہے۔اگر کسی نے امامت ابو بکر ؓ سے انکار کیا تو وہ کافر ہے۔اور اگر کسی نے خلافت حضرت عمر ؓ سے انکار کیا تو وہ بھی اصح قول کے مطابق کافرہے۔اگر کسی نے کہا کہ کہ کاش حضرت آدمؑ گیہوں نہ کھاتے تو ہم لوگ شقی نہ ہوتے تو اس کی تکفیر کی جائے۔ایک نے ایک عورت سے نکاح کیا اور اگر گواہ حاضر نہ ہوئے اور اس نے کہا خداا و ر فرشتوں کو گواہ کیا تو اس کی تکفیر کی جائے گی۔اور اگر کسی نے رمضان کی آمد کے وقت کہابھاری مہینہ آیا تو یہ کفر ہے۔اگر ایک شخص مجلس علم سے آتا ہے اور کسی نے کہا کہ تو بت خانہ سے آتا ہے تو یہ کفر ہے۔ اگر کسی نے کہا کہ مجھے جیب میں روپیہ چاہئے میں علم کو کیا کروں تو تکفیر کیا جائے گا۔اگر کسی نے فقیر کو مالِ حرام میں سے کچھ دے کر ثواب کی امید رکھی تو اس کی تکفیر کی جائے گی۔اور اگر فقیر نے یہ بات جان کر دینے والے کو دعا دی اور دینے والے نے اس پر آمین کہی تو کافر ہوا(۵۴)۔اس دور میں تو علماء نے تکفیر کے دائرہ کو اور بھی وسیع کر دیا ہے۔چنانچہ ۱۹۷۸ء میں جمعیت العلماء پاکستان کے ایک لیڈر مفتی مختار احمد گجراتی نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ دیکھنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا تھا (۵۵)۔اور اس پارٹی کے اراکین اسمبلی کے اس اجلاس میں بھی موجود تھے۔ بلکہ جمعیت العلماء پاکستان کے قائد شاہ احمد نورانی صاحب نے تو جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دینے کے لئے قرارداد پیش بھی کی تھی۔ تو اگر یہ اصول تسلیم کیاجائے کہ جس فرقہ کی تحریر میں دوسرے فرقہ یا کسی گروہ کے متعلق کفر کا فتویٰ موجود ہے تو اسے آئین میں ترمیم کر کے قانونی طور پر غیر مسلم قرار دینا چاہئے تو پھر اس زد سے کوئی فرقہ نہیں بچ سکے گا۔اور پاکستان کے آئین کے مطابق یہاں پر صرف غیرمسلم اکثریت ہی بس رہی ہو گی۔
۶ ؍اگست کی کارروائی
۶؍ اگست کو اسمبلی کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی ۔ابھی جماعت کا وفد اسمبلی میں نہیں آیا تھا۔مگر معلوم ہو رہا تھا کہ آج کچھ حوالے پیش کر کے جماعت کے وفد کو لاجواب کرنے کی کوشش کی جائے گی۔سپیکر صاحب نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ کی سہولت کے لئے کتابیں سامنے ہی رکھ دی جائیں۔اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ وہ موجود ہیں۔سپیکر صاحب نے پھر تاکید کی کہ اٹارنی جنرل صاحب کے آس پاسLeast Disturbance ہونی چاہئے۔ان کے اردگرد کوئی سرگوشی نہیں ہونی چاہئے۔یہ اہتمام غالباََ اس لئے کیا جا رہا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب پوری یکسوئی سے سوال کر سکیں۔
اس سے قبل کہ حضور وفد کے ہمراہ ہال میں تشریف لاتے ایک ممبر جہانگیر علی صاحب نے سپیکر صاحبزادہ فاروق علی صاحب سے کہا
Mr. Chairman interpretation of document or a writting is not the job of witness. I would therefore request that the witness should not be allowed to interpret; it is the job of the presiding officer or the judge.
یعنی وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ایک تحریر یا دستاویز سے استدلال کرنا گواہ کا کام نہیں ہوتا ۔یہ کارروائی کے چیئر مین یا ججوں کا کام ہوتا ہے۔لہٰذا گواہوں کو یعنی جماعت کے وفد کو اس بات سے روکا جائے کہ وہ استدلال کریں۔جہانگیر علی صاحب کی طرف سے یہ ایک لا یعنی فرمائش تھی۔سوالات کرنے والوں کی طرف سے جماعت کی تعلیمات پر اعتراض کیے جا رہے تھے اور سیاق و سباق اور پس منظر سے الگ کر کے جماعتی تحریرات کے حوالے پیش کیے جا رہے تھے۔لیکن ان صاحب کے نزدیک جماعتی وفد کو اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہئے تھی کہ وہ ان کے متعلق جماعتی موقف کے مطابق استدلال پیش کرے۔اگر سپیشل کمیٹی میں جماعتی وفد کو بلانے کا مقصد صرف یہی تھا کہ وہ ممبرانِ اسمبلی کے غیر متعلقہ سوالات سنے ان کے تبصرے سنے لیکن ان کے جواب میں اپنا استدلال نہ پیش کرے تو اس لغو عمل کو کوئی بھی ذی ہوش قبول نہیں کر سکتا۔اس کے جواب میں سپیکر صاحب نے صرف یہ کہا کہ جج تو آپ ہی لوگ ہیں اور اٹارنی جنرل صاحب جب چاہیں اس ضمن میں درخواست کر سکتے ہیں۔کچھ دیر کے بعد جماعت کا وفد داخل ہوا۔سپیکر صاحب نے اظہار کیا کہ سوالات کا یہ سلسلہ دو تین دن جاری رہ سکتا ہے پوری کارروائی کے لئے حلف ہو چکا ہے یعنی نئے سرے سے گواہ سے حلف لینے کی ضرورت نہیں۔
اس کارروائی کے آغاز میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے گزشتہ روز کی بحث کے تسلسل میں سلف ِ صالحین کے حوالے سے یہ بات فرمائی کہ کفر دو قسم کا ہے ایک کفر وہ ہے جو ملت ِ اسلامیہ سے نکالنے کا باعث ہو گا اور دوسرا وہ جو ملت ِ اسلامیہ سے باہر نکالنے کا باعث نہیں ہو گا۔اور یہ بھی فرمایا کہ جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے یہ کبھی نہیں کہا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار ملت ِ اسلامیہ سے خارج کر دیتا ہے۔
اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے وہی پرانے اعتراضات دہرائے جو عموماََ جماعت کے مخالفین کی طرف سے کیے جاتے ہیں ۔یعنی احمدی غیر احمدیوں کا جنازہ نہیں پڑھتے ،ان سے شادیا ں نہیں کرتے۔ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے قائدِ اعظم کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا۔اب ذرا تصور کریں کہ یہ کارروائی ۱۹۷۴ء کے فسادات کے دوران ہو رہی تھی جبکہ خود اخبارات لکھ رہے تھے کہ علماء کی تحریک کے نتیجہ میں پاکستان بھر میں احمدیوں کا بائیکاٹ شروع ہو گیا ہے اور ان دنوں میں احمدیوں کا جنازہ پڑھنا تو دور کی بات ہے،احمدیوں کی تدفین میں بھی رکاوٹیں ڈالی جا رہی تھیں ،بعض مقامات پراحمدیوں کی قبروں کو اکھیڑ کر ان کی نعشوں کی بے حرمتی کی جا رہی تھی۔جگہ جگہ احمدیوں کو شہید کیا جا رہا تھا اور حکومت اور قانون نافذکرنے والے ادارے تماشائی بنے کھڑے تھے۔لیکن اسمبلی میں اعتراض احمدیوں پر ہو رہا تھا کہ وہ غیر احمدیوں کے جنازے کیوں نہیں پڑھتے اور ان سے شادیاں کیوں نہیں کرتے۔یہ سوال تو پہلے غیر احمدی مسلمانوں سے ہونا چاہئے تھا ۔کیا وہ احمدیوں کا جنازہ پڑھتے ہیں ؟ اس کا جواب یقیناََ نفی میں ہے تو اس اعتراض کاحق انہیں نہیں ہو سکتا کہ احمدی غیر احمدیوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھتے۔بلکہ جب ۱۹۵۳ء میں تحقیقاتی عدالت میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ پر سوالات کئے گئے تو سوالات کرنے والوں میں ایک مولانا میکش بھی تھے۔ انہوں نے حضور سے سوال کیا
’’عام مسلمان تو احمدیوں کا اس لئے جنازہ نہیں پڑھتے کہ وہ احمدیوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ آپ بتائیں کہ احمدی جو غیر احمدیوں کا جنازہ نہیں پڑھتے اس کی اس کے علاوہ کیا وجہ ہے جس کا آپ قبل ازیں اظہار کر چکے ہیں۔‘‘
(تحقیقاتی عدالت میں امام جماعت ِ احمدیہ کا بیان۔ناشر احمدیہ کتابستان سندھ ،ص۳۹)
اب ایک عدالتی کارروائی میں کتنا واضح اقرار ہیں کہ مولانا جن کی نمائندگی کر رہے ہیں وہ احمدیوں کو نہ مسلمان سمجھتے ہیں اور نہ ان کا جنازہ پڑھتے ہیں ،مگر اس کے باوجود مولانا کا یہ خیال تھا کہ ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ احمدیوں کو سرزنش فرمائیں کہ وہ غیر احمدیوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھتے۔
اور اسلام کے باقی فرقوں سے وابستہ اراکین جو یہ اعتراضات احمدیت پر کر رہے تھے ان کا حال یہ تھا کہ ہر فرقہ کے لوگوں نے دوسرے فرقوں پر وہ وہ اعتراضات کیے تھے اور ایسے فتوے لگائے تھے کہ خدا کی پناہ۔اس مرحلہ پر یہ ضروری تھا کہ ان کو کسی قدر آئینہ دکھایا جائے۔
چنانچہ جب یہ بحث کچھ دیر چلی توحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے غیر احمدی علماء کا ایک فتویٰ پڑھ کر سنایا۔اس فتویٰ سے صرف ہندوستان کے علماء نے ہی نہیں بلکہ بلادِ عرب کے بہت سے علماء نے بھی اتفاق کیا تھا۔حضور نے اس کے یہ الفاظ پڑھ کر سنائے:
’’وہابیہ دیوبندیہ اپنی تمام عبارتوں میں تمام اولیاء انبیاء حتیٰ کہ حضرت سید الاوّلین والآخرین ﷺ کی اور خاص ذات باری تعالیٰ شانہ کی اہانت اور ہتک کرنے کی وجہ سے قطعاََ مرتد و کافر ہیں اور ان کا ارتداد کفر میں سخت سخت سخت درجہ تک پہنچ چکا ہے ایسا کہ جو ان مرتدوں اور کافروں کے ارتداد و کفر میں ذرا بھی شک کرے وہ بھی انہی جیسا مرتد و کافر ہے اور جو اس شک کرنے والے کے کفر میں شک کرے وہ بھی مرتد و کافر ہے ۔مسلمانوں کو چاہئے کہ ان سے بالکل محترز ومجتنب رہیں۔ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا تو ذکر ہی کیا اپنے پیچھے بھی ان کو نماز نہ پڑھنے دیں اور نہ اپنی مسجدوں میں انہیں گھسنے دیں۔ نہ ان کا ذبیحہ کھائیں اور نہ ان کی شادی غمی میں شریک ہوں اور نہ اپنے ہاں ان کو آنے دیں ۔یہ بیمار ہوں تو عیادت کو نہ جائیں، مریں تو گاڑنے توپنے میں شرکت نہ کریں ۔مسلمانوں کے قبرستان میں کہیں جگہ نہ دیں غرض ان سے بالکل احتیاط و اجتناب رکھیں۔۔۔۔‘‘
ابھی یہ باغ وبہار قسم کا فتویٰ جاری تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ یہ تو محضر نامہ میں بھی شامل ہے اس لیے اسے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔اس سے ان کی بے چینی ظاہر ہوتی تھی۔اس پر حضور نے فرمایا کہ مجھے یہاں پر دہرانے کی اجازت دی جائے کیونکہ اگر سوال دہرایا جائے گا تو جواب بھی دہرایا جائے گا ۔اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔اس پر حضور نے اس فتوے کا باقی حصہ پڑھ کر سنایا ۔
’’پس دیوبندیہ سخت سخت اشد مرتد وکافر ہیں۔ایسے کہ جو ان کو کافر نہ کہے خود کافر ہو جائے گا۔اس کی عورت اس کے عقد سے باہرہو جائے گی اور جو اولاد ہو گی وہ ّ*** ہو گی۔اور از روئے شریعت ترکہ نہ پائے گی۔‘‘
حضور نے فرمایا کہ
’’ اس اشتہار میں جن علماء کے نام ہیں،ان میں چند ایک یہ ہیں سید جماعت علی شاہ ، حامد رضا خان صاحب ،قادری غوری رضوی بریلوی ،محمد کرم دین ،محمد جمیل احمد وغیرہ بہت سے علماء کے نام ہیں۔ایک رخ یہ بھی ہے تصویر کا۔ان کے بچوں کے متعلق بھی وہی فتویٰ ہے جس کے متعلق آپ مجھ سے وضاحت کروانا چاہتے ہیں۔اور یہ اس سے کہیں زیادہ سخت ہے۔یہ بہت سارے حوالے ہیں۔میں ساروں کو چھوڑتا ہوں تاکہ وقت ضائع نہ ہو۔اہلِ حدیث کے پیچھے نماز نہ پڑھیںتو اس کے متعلق بریلوی ائمہ ہمیں غیر مبہم الفاظ میں خبردار کرتے ہیں کہ وہابیہ وغیرہ مقلدین ِ زمانہ بالاتفاق علماء ِ حرمین شریفین کافر مرتد ہیںایسے کہ جو ان کے اقوالِ لغویہ پر اطلاع پا کر کافر نہ مانے یا شک کرے وہ کافر ہے۔ ان کے پیچھے نماز ہوتی ہی نہیں۔ان کے ہاتھ کا ذبیحہ حرام ہے۔ان کی بیویاں نکاح سے نکل گئیں۔ ان کا نکاح کسی مسلمان کافر یا مرتد سے نہیں ہو سکتا۔اس کے ساتھ میل جول ،کھانا پینا ،اٹھنا بیٹھنا، سلام کلام سب حرام ہیں ۔ان کے مفصل احکام کتاب مستطاب حسام الحرمین شریف میں موجود ہیں۔یہ اہلِ حدیث کے پیچھے نماز پڑھنے کا ذکرہو رہا ہے۔باقی اس کے حوالے میں چھوڑتا ہوں۔ بریلوی کے متعلق جہاں تک نماز پڑھنے کا تعلق ہے دیوبندی علماء یہ شرعی حکم ہمیں سناتے ہیں:
’’جو شخص اللہ جل شانہ کے سوا علمِ غیب کسی دوسرے کاثابت کرے اور اللہ تعالیٰ کے برابر کسی دوسرے کا علم جانے وہ بے شک کافر ہے ۔ اس کی اعانت اس سے میل جول محبت و مودّت سب حرام ہیں۔‘‘
یہ فتویٰ رشیدیہ میں رشید احمد صاحب گنگوہی کا ہے جو ان کے مرشد ہیں۔میںایک ایک فتوے کو صرف بتا رہا ہوں تا کہ معاملہ صا ف کر سکوں۔پرویزیوں اور چکڑالویوںکے متعلق نماز پڑھنے کے سلسلہ میں یہ فتویٰ ہے
’’چکڑالویت حضور سرورِ کائنات علیہ التسلیمات کے منصب و مقام اور آپ کی تشریعی حیثیت کے منکر اور آپ کی افادیت مبارکہ کی جانی دشمن۔رسولِ کریم کے کھلے باغیوں نے رسول کے خلاف ایک مضبوط محاذقائم کر دیا ہے۔جانتے ہو باغی کی سزا کیا ہے صرف گولی۔‘‘
شیعہ حضرات کے متعلق کہ ان کے پیچھے نماز ہوتی ہے یا نہیں
’’بالجملہ ان رافضیوں تبرّائیوں کے باب میں حکمِ یقینی قطعی اجماعی یہ ہے کہ وہ علی العموم کفّارمرتدین ہیں ان کے ہاتھ کا ذبیحہ مردار ہے۔ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام بلکہ خاص زنا ہے۔معاذاللہ مردرافضی اورعورت مسلمان ہو تو یہ سخت قہرِ الٰہی ہے۔اگر مرد سنی اورعورت ان خبیثوں کی ہو جب بھی نکاح ہر گز نہ ہو گا محض زناہوگا۔اولاد ولد الزنا ہو گی۔ باپ کا ترکہ نہ پائے گی اگرچہ اولاد بھی سنی ہو کہ شرعاََ ولد الزنا کا باپ کوئی نہیں۔عورت نہ ترکہ کی مستحق ہو گی نہ مہر کی کہ زانیہ کے لیے مہر نہیں۔رافضی اپنے کسی قریب حتی کہ باپ بیٹے ماں بیٹی کا ترکہ نہیں پا سکتا ۔سنی تو سنی کسی مسلمان بلکہ کسی کافر کے بھی ۔یہاں تک کہ خود اپنے ہم مذہب رافضی کے ترکہ میں اس کا اصلاًکچھ حق نہیں۔ان کے مرد عورت عالم جاہل کسی سے میل جول ،سلام کلام سخت کبیرہ اشد حرام ۔جو ان کے ملعون عقیدہ پر آگاہ ہو کر بھی انہیں مسلمان جانے یا ان کے کافر ہونے میں شک کرے ۔۔۔۔کافر بے دین ہے اور اس کے لئے بھی یہی سب احکام ہیں جو ان کے لئے مذکور ہوئے ۔مسلمان پر فرض ہے کہ اس فتویٰ کو بگوش ِ ہوش سنیں اوراس پر عمل کرکے سچے پکے سنی بنیں۔‘‘
(فتویٰ مولانا شاہ مصطفیٰ رضا خان بحوالہ رسالہ رد الرافضہ)
یہ اس میں آ گیا ہے ۔یہاں یہ سوال نہیں کہ احمدی ، وہابیوں ،دیوبندیوں وغیرہ کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے یا ان کی شادیوں کو کیوں مکروہ سمجھا جاتا ہے۔اس سے کہیں زیادہ فتویٰ موجود ہے۔ہمیں ساروں کو اکٹھا لے کر کوئی فیصلہ کرنا چاہئے۔‘‘
حضور نے یہ صرف چند مثالیں ممبرانِ قومی اسمبلی کی خدمت میں پیش کی تھیں ورنہ یہ فتاویٰ تو سینکڑوں ہزاروں ہیں اور مختلف فرقوں نے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگائے ہوئے ہیں۔چند اور مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔
سرور ِ غریزی فتاویٰ عزیزی میں لکھا ہے کہ جب مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی سے ایک سوال پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
’’بلاشبہ فرقہ امامیہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت سے منکر ہیں اور کتب فقہ میں مذکور ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت سے جس نے انکار کیا تو وہ اجماعِ قطعی کا منکر ہوا اور وہ کافر ہوگیا۔۔۔‘‘
(سرور ِ غریزی۔فتاویٰ عزیزی جلد اول ۔اردو ترجمہ،باہتمام محمد فخرالدین۔فخرالمطابع ۔لکھنوص۴۴۰)
فقہ کی کتاب عرفانِ شریعت میں لکھا ہے اور فتاویٰ عالمگیری کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ
’’جو شخص امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قیا س کو حق نہ مانے وہ کافر ہے۔‘‘
(عرفان ِ شریعت ۔حصہ سوم ص۷۵)
اب تک ممبرانِ اسمبلی اٹارنی جنرل صاحب کے ذریعہ جو سوالات کر رہے تھے ان کی طرز یہ جارہی تھی کہ چونکہ احمدی غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہیںپڑھتے ،ان کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھتے ،ان کی عورتیں ان کے مردوںسے شادی نہیں کرتیں،اس لیے یہ خود اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ رکھنا چاہتے ہیں ،لہٰذا دوسرے مسلمان اگر ان کو غیر مسلم قرار دے دیں تو کچھ مضائقہ نہیں۔لیکن جب حضور نے غیر احمدی جید علماء کی طرف سے دیئے گئے صرف چند فتاویٰ پڑھ کر سنائے تو یہ واضح ہو گیا کہ وہ ایک دوسرے کے متعلق کیا خیالات رکھتے ہیں ۔نماز پڑھنا یا جنازہ پڑھنا تو درکنار انہوں نے تو یہ بھی لکھا ہوا تھا نہ صرف دوسرے فرقہ کافر ہیں بلکہ اگر ان سے شادی کرلی جائے تو اولاد ولدالزنا ہو گی۔اگر اسی امر کو معیار بنا کر آئین میں غیر مسلم بنانے کا عمل شروع کیا جائے تو تمام فرقے غیر مسلم قرار دے دیئے جائیں گے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسا کوئی شخص دیکھنے کو بھی نہ ملے گا جسے آئینی طور پر مسلمان کہا جا سکے۔جنازہ کے متعلق حضور نے فرمایا کہ یہ فرضِ کفایہ ہے ۔اگر کہیں پر جنازہ پڑھنے والا کوئی مسلمان نہ ہو تو احمدیوں کو یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ ضرور اس غیر احمدی مسلمان کا جنازہ پڑھیں۔ بلکہ ایک مرتبہ جب ڈنمارک میں ایک مسلمان عورت کے جنازہ کی صورت میں ایسا نہیں کیا گیا تو اس پر حضور نے اس جماعت پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا۔
جب یہ حوالے پڑھے گئے تو جو اثر اٹارنی جنرل صاحب اپنے سوالات سے قائم کرنا چاہتے تھے وہ زائل ہو گیا۔لیکن انہوں نے پھر مطلوبہ تاثر کو قائم کرنے کے لیے یہ ذکر چھیڑا کہ احمدی غیر احمدی بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھتے ۔اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے انہیں یاد دلایا کہ کئی مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ ایک احمدی بچہ کی تدفین کی گئی اور غیر احمدیوں نے اس بنا پر کہ یہ ایک احمدی بچہ تھا اس کی قبر اکھیڑ کر لاش کو باہر نکلوایا ۔اور یہ یاد دلایا کہ انہی دنوں میں فسادات کے دوران گوجرانوالہ میں ایک احمدی بچے کی تدفین کو روکا گیا اور قائد آباد میں ایک احمدی کی قبر اکھیڑ کر اس کی لاش کو قبر سے باہر نکالا گیا۔اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے سوال اٹھایا کہ حالیہ دنوں میں احمدیوں کے مکانوں اور دوکانوں کو جلایا گیا ، انہیں لوٹا گیا زخمی کیا گیا ان کے خلاف کس نے آواز اٹھائیں اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے مختصراََ اتنا کہا کہ ان کو کوئی Defend نہیںکرتا ۔یہ اس سوال کا جواب نہیں تھا چنانچہ حضور نے پھر اپنا سوال دہرایا کہ ان کے خلاف کس نے آواز اُ ٹھائی ۔اٹارنی جنرل صاحب کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا ۔وہ صرف اتنا فرما سکے کہ ’’نہیں بالکل ٹھیک ہے۔‘‘
یہاں ذرا رک کر ایک اور پہلو سے اس الزام کا جائزہ لیتے ہیں کہ احمدی غیر احمدیوں کا جنازہ نہیں پڑھتے۔بعض فرقے ایسے بھی ہیں کہ جو یہ تو کہتے ہیں کہ اپنے مذہبی مخالف کا جنازہ تو پڑھ لو مگر کس طرح؟یہ بات تو واضح ہے کہ کوئی بھی فرقہ غیر مسلم کا جنازہ نہیں پڑھتا ۔اس لئے نیچے درج کئے گئے حوالے کا اطلاق اس مسلمان کے نماز ِ جنازہ پر ہی ہو سکتا ہے جو اس فرقہ کے برعکس عقائد رکھتا ہو۔ چنانچہ شیعہ فقہ کی کتاب فروع ِ کافی کی کتاب الجنائز میں لکھا ہے کہ علی بن ابراہیم سے روایت ہے کہ اگر حق سے انکار کرنے والے کی نماز ِ جنازہ پڑھو تو یہ دعا کرو
’’اگر وہ حق سے انکار کرنے والا ہے تو اس کے لئے کہہ کہ اے اللہ اس کے پیٹ کو آگ سے بھر دے اور اسکی قبر کو بھی۔اور اس پر سانپ اور بچھو مسلط کر دے۔اور یہ ابو جعفر نے بنوامیہ کی ایک بد کار عورت کے لئے کہا جس کی نماز ِ جنازہ اس کے باپ نے ادا کی۔اور یہ بھی کہا کہ شیطان کو اس کا ساتھی بنا دے۔محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ اس کے لئے کہا کہ اس کی قبر میں سانپ اور بچھو بھر دے۔تو اس نے کہا کہ سانپ اس کو کاٹے گا اور بچھو اسے ڈسے گا۔ اور شیطان اس کے ساتھ اس کی قبر کا ساتھی ہو گا۔۔۔‘‘
(فروع کافی ۔کتاب الجنائز ۔باب الصلوٰۃ علی الناصب ،ص۹۹)
اس کے بعد بھی یہ عبارت اسی طرز پر جاری رہتی ہے۔اگر اپنے مخالف عقیدہ رکھنے والے مسلمان کا جنازہ پڑھ کر یہی دعا خدا سے مانگنی ہے تو اس سے بہتر ہے کہ نماز ِ جنازہ پڑھنے کا تکلف نہ ہی کیا جائے۔اس پس منظر میں احمدیوں پر یہ اعتراض کسی طور پر معقولیت کا پہلو نہیں رکھتا۔
یہاں ذرا رک کر جائزہ لیتے ہیں کہ اس سپیشل کمیٹی کے سپرد یہ کام تھا کہ یہ فیصلہ کرے کہ جو ختمِ نبوت کا منکر ہے اس کا اسلام میں کیاStatusہے۔بحث کا دوسرا دن جا رہا تھا اور سوالات اپنے موضوع کو چھو کر بھی نہیں گزر رہے تھے۔احمدیوںکی تعداد کتنی ہے ؟احمدی غیر احمدیوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھتے ،ان کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ان سے شادیاں کیوں نہیں کرتے؟جب انہیں غیراحمدی علماء کے فتاویٰ سنائے گئے جس میں یہاں تک لکھا تھا کہ دوسرے فرقہ کے لوگ نہ صرف غیرمسلم بلکہ مرتد ہیں ۔ان سے سلام بھی نہیں کیا جاسکتا ۔اگر ان سے شادی کر کے اولاد ہو تو وہ ولد الزنا ہو گی۔تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔جب یہ راگ الاپا گیا کہ احمدی غیر احمدی بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھتے تو انہیں یاد دلایاگیا کہ انہی دنوں میں احمدیوں کو شہید کیا جا رہا ہے ،ان کی قبریں اکھیڑی جا رہی ہیں ،ان کی تدفین میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں،ان کے مکانات اور دوکانیں اور فیکٹریاں نذرِ آتش کی جا رہی ہیں ،آخر یہ تو بتائیں کہ ان کے خلاف آواز کس نے اُٹھائی اور آخر کیوں نہیں اُٹھائی؟حکومت نے تو ان کے دفاع کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ بہت سے مقامات پر قانون نافذ کرنے والے ادارے مفسدین کی اعانت کر رہے تھے اور احمدیوں کو ہی گرفتار کر رہے تھے ۔کیا حکومت کا فرض نہیں تھا کہ ان مظالم کو روکے یا کم از کم ان کے خلاف آواز ہی اُ ٹھائے۔لیکن اٹارنی جنرل صاحب کے پاس اتنے سادہ سوال کا جواب بھی نہیں تھا ۔اور جواب دیا بھی تو کیا کہ نہیں بالکل ٹھیک ہے اور بس۔
یہ ذکر دلچسپی کا باعث ہو گا کہ جب اٹارنی جنرل صاحب نے علماء کے یہ فتاویٰ سنے جن میں نہ صرف ایک دوسرے کو مرتد اور کافر ٹھہرایا گیا تھا بلکہ اس امر کی بھی سختی سے وضاحت کی گئی تھی کہ ان لوگوں سے سلام کرنا بھی ممنوع ہے اور اگر آدمی ان کے کفر پر شک بھی کرے تو خود کافر ہو جاتا ہے،تو معلوم ہوتا ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب کی قوتِ استدلال رخصت ہو گئی کیونکہ ان علماء کے دفاع میں انہوں نے کہا کہ
’’وہ کہتے ہیںکہ کسی ایک نے فتوے دیئے الیکشن کے زور میں۔یا کسی ایک نے
‏ Who take it seriously۔‘‘
اس غیر مربوط وضاحت سے یہ لگتا ہے کہ ان کا خیال تھا کہ یہ فتوے صرف الیکشن کے دوران دیئے گئے تھے ۔ حالانکہ اس قسم کے فتاویٰ کا سلسلہ اس وقت سے شروع ہو جاتا ہے جب ابھی الیکشنوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا ۔جب حضور نے اس بات کی نشاندہی فرمائی تو اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا،’’میں تو مثال دے رہا ہوں۔‘‘
پہلے یہ طے ہو چکا تھا کہ جو بھی سوال کرنے ہوں وہ یا تو پہلے اٹارنی جنرل یا سوالات کیلئے بنائی گئی کمیٹی کے سپرد کئے جائیں گے یا پھر دوران ِ کارروائی کاغذ پر لکھ کر اٹارنی جنرل صاحب کے حوالہ کئے جائیں گے تا کہ وہ یہ سوال کریں لیکن اس مرحلہ پر جماعت کے مخالف مذہبی جماعتوں کے لیے یہ صورتِ حال برداشت سے باہر ہو رہی تھی کیونکہ کارروائی کی نہج ان کی امیدوں کے برعکس جا رہی تھی۔ وہ یہ سوال اُ ٹھا رہے تھے کہ احمدی غیر احمدیوں کی نماز ِ جنازہ کیوں نہیں پڑھتے یا ان سے شادیاں کیوں نہیں کرتے لیکن اب ایسے حوالے سامنے پیش کئے جا رہے تھے جن سے یہ واضح طور پر یہ معلوم ہو جاتا تھا کہ اعتراض کرنے والے ممبران ِ اسمبلی جن مختلف فرقوں سے تعلق رکھتے تھے ان کے علماء نے ایک دوسرے کو کافر مرتد اور بے دین قرار دیا ہے۔اور ان کے ساتھ نکاح کرنے یا ان کے پیچھے نماز پڑھنے یا ان کا جنازہ پڑھنے سے سختی سے منع کیا تھا۔
سب سے پہلے جماعت ِ اسلامی کے پروفیسر غفور صاحب کھڑے ہوئے اور یہ اعتراض کیا کہ یہ (یعنی جماعت کا وفد) سوالات کوAvoidکرتے ہیں اور Side Trackکرتے ہیں۔جب کوئی سوال پوچھا جا تا ہے تو بہت سے پوائنٹ(Point) بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔یہاں بات قابلِ غور ہے کہ جب کوئی سوال اُ ٹھتا تھا تو جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اپنا موقف بیان فرماتے تھے ۔کسی ایک مقام پر بھی غیر متعلقہ بات نہیں پیش کی گئی تھی۔اگر یہ سوال اُ ٹھایا جائے اور بار بار اُٹھایا جائے کہ احمدی غیر احمدیوں کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے ،ان کی نمازِ جنازہ کیوں نہیں پڑھتے احمدی لڑکیاں غیر احمدی لڑکوں سے شادی کیوں نہیں کرتیں ۔تو اگر اس کے جواب میں غیر احمدی علماء کے فتاویٰ جو ان فرقوں سے تعلق رکھتے تھے جن سے تعلق رکھنے والے ممبران یہ اعتراضات اُٹھا رہے تھے،پیش کیے جائیں جنہوں نے دوسرے فرقوں کو مسلمان سمجھنے پر بھی کفر کا فتویٰ لگایا ہے ان کے ساتھ شادی کرنا تو درکنار ان سے سلام کرنے کو بھی ممنوع قرار دیا ہے،ان کی نمازِ جنازہ میں شرکت کو قطعاََ حرام قرار دیا ہے،دوسرے فرقہ سے شادی کو زنا قرار دیا ہے،کوئی بھی ذی ہوش اس بیان کو غیر متعلقہ نہیں قرار دے سکتا۔سوال یہ اُ ٹھتا ہے کہ اس پس منظر میں احمدیوں پر اعتراض ایک بے معنی بات نظر آتی ہے۔ موضوع کے مطابق حوالہ جات پیش کئے جارہے تھے۔ان کو کسی طرح بھیAvoidکرنا اور Side Track کرنا نہیں کہا جا سکتا۔یہ تلملاہٹ اس لئے ظاہر ہو رہی تھی کہ ان علماء کو اور دوسرے ممبران کو آئینہ دیکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ہاں یہ سوال ضرور اُ ٹھتا ہے کہ اصل موضوع سے گریزکیا جا رہا تھا۔ جب کہ ممبران محضر نامہ پڑھ چکے تھے تو یہ ہمت کیوں نہیںہو رہی تھی کہ زیر بحث موضوع کے متعلق سوالات کیے جائیں ۔اٹارنی جنرل صاحب اور ممبرانِ اسمبلی خود اصل موضوع کو Avoid اور Side trackکر رہے تھے۔اس کے بعد انہوں نے اپنی بات کے حق میں کوئی دلیل پیش کرنے کی بجائے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے ڈنمارک کا جو واقعہ بیان کیا ہے وہ بالکل غلط ہے ۔کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوااور اس کے حق میں وہ یہ دلیل لائے کہ ڈنمارک میں احمدیوں کی نسبت دوسرے مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔اب یہ سوچنے والی بات ہے کہ نہ یہ بیان کیا گیا تھا اور نہ ہی انہوں نے یہ سوال اُ ٹھایا تھا کہ یہ واقعہ کب ہوا تھا ،کہاں پر ہوا تھا یا اس کی دیگر تفصیلات کیا تھیں۔یہ سب کچھ جانے بغیر وہ کس طرح کہہ سکتے تھے کہ یہ واقعہ ہوا ہی نہیں تھا ۔کیا ڈنمارک میں ہونے والا ہر واقعہ ان کے علم میں آتا تھا۔اور یہ بھی کوئی دلیل نہیں کہ ڈنمارک میں غیراحمدی مسلمانوں کی تعداد احمدیوں سے زیادہ ہے۔ڈنمارک میں اب بھی احمدیوں اور غیر احمدیوں مسلمانوں دونوں کی تعداد بہت کم ہے اور کئی مقامات پر ان میں سے کوئی بھی نہیں رہتا اور ایسا واقعہ ہونا کسی طور پر بھی نا ممکن نہیں کہلا سکتا۔اس پر اٹارنی جنرل نے پروفیسر غفور صاحب کی اس بات سے اتفاق کیا کہ ان کے سوالات کوAvoidکیا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس مرحلہ پر اس وفد کو کچھ کہنے سے روکا گیا تو انہیں یہ عذر مل جائے گا کہ اسمبلی نے ان کو صحیح طرح سنا ہی نہیں۔ایک اور ممبر مولوی نعمت اللہ صاحب نے یہ سوال اُ ٹھایا کہ اس بات کا صحیح جواب نہیں دیا گیا کہ چوہدری ظفراللہ خان نے قائدِ اعظم کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا۔یہ بات بھی قابلِ حیرت ہے کہ آج مولویوں کے گروہ کی طرف سے یہ سوال اُ ٹھایا جا رہا تھا کہ کتنا بڑا ظلم ہو گیا کہ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے قائد ِ اعظم کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا ۔انہی مولویوں نے تو قائد ِ اعظم کو کافرِ اعظم کا نام دیا تھا اور جب عدالتی تحقیقات میں ان سے اس بابت سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ آج تک اپنے خیالات پر قائم ہیں(۵۶)۔اس اسمبلی میں جماعت ِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے چند ممبران بھی موجود تھے۔ کیا وہ بھول گئے تھے کہ ان کے راہبر اور ان کی پارٹی کے بانی نے کس دھڑلے سے لکھا تھا
’’مگر افسوس کہ لیگ کے قائد اعظم سے لے کر چھوٹے مقتدیوں تک ایک بھی ایسا نہیں جو اسلامی ذہنیت اور اسلامی طرزِ فکر رکھتا ہواور معاملات کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھتا ہو۔یہ لوگ مسلمان کے معنی و مفہوم اور اس کی مخصوص حیثیت کو بالکل نہیں جانتے۔‘‘(۵۷)
گویا قائد ِ اعظم کو تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ مسلمان لفظ کا مفہوم ہے کیا۔اور اب ان کو یہ فکر بہت تھی کہ قائد ِ اعظم کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا گیا۔
اور یہ امر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ احمدیوں پر یہ اعتراض کہ انہوں نے شبیر عثمانی صاحب کی اقتداء میں قائدِ اعظم کی نمازِ جنازہ کیوں نہیں ادا کی اور یہ امر کس طرح فراموش کیا جا سکتا ہے کہ شبیرعثمانی صاحب نے نہ صرف یہ اعلان کیا تھا کہ احمدی مرتد ہیں بلکہ اس وجہ سے احمدیوں کے واجب القتل ہونے کا تحریر ی فتویٰ بھی دیا تھا اور اس امر کا ذکر ۱۹۵۳ء میں فسادات پر ہونے والی عدالتی تحقیقات کی رپورٹ میں بھی ہے ۔لیکن شبیر عثمانی صاحب پر کوئی اعتراض نہیں اگر اعتراض ہے تو احمدیوں پر ہے جنہوں نے ان کی اقتدا میں نمازِ جنازہ نہیں پڑھی۔
مفتی محمود صاحب نے کہا کہ’’جنابِ والاجب تکفیرکے مسئلہ کا ذکر ہوا جنازے کی نماز کا ذکر ہو رہا تھا وہاں Categoriesنہیں تھیں۔اس وقت بھی انہوں نے مختلف عبارتیں پڑھیں مسلمان کروڑوں کے درمیان تکفیر کا مسئلہ تھا اور ساری عبارتیں پڑھی گئیں۔جنابِ والا متعلقہ بات نہیں تھی۔ جناب ِ والا بالکل غیر متعلقہ بات تھی۔۔۔۔‘‘ایک اور مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب نے کہا کہ انہوں نے علماء کے بارے میں جھوٹے الزامات لگائے ہیں۔یعنی یہ کفر کے فتاویٰ علماء نے نہیں دیئے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ فتاویٰ محضر نامہ میں بھی شامل تھے اور ان کے ساتھ مکمل حوالے بھی دے دیئے گئے تھے ۔اگر کوئی حوالہ غلط تھا تو ممبران جو جج بن کر بیٹھے تھے یہ سوال اُ ٹھا سکتے تھے لیکن کس طرح اُٹھاتے اس طرح کے فتوے دینا تو علماء کا معمول تھا۔
اس موقع پر ایک ممبر عبد الحمید جتوئی صاحب نے کہا کہ ہم کل سے جج بنے بیٹھے ہیں کہ ہم فیصلہ کریں ۔میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے دوست تو اس طرح ہیں جیسے کسی نان ایڈووکیٹ کو ہائی کورٹ کا جج بنا دیا جائے۔۔۔اور ہم سے فیصلہ کی امید کی جاتی ہے ۔اس پر سپیکر نے کہا کہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے۔ اس پر پھر عبد الحمید جتوئی صاحب نے کہا کہ آپ اس آدمی کو فیصلہ کا حق دیتے ہیں جس کو قانون کا ہی نہیں پتا۔اس اظہار ِ رائے سے اندازہ ہوتا تھا کہ جس طرز پر کارروائی جاری تھی اس پر اندر سے خود کئی ممبران کا ضمیر مطمئن نہیں تھا۔اور غیر احمدی علماء کے فتاویٰ جو پڑھے گئے تھے ان سے کئی ممبران کے دل پر کیا اثر تھا اس کا اندازہ ایک اور ممبر چوہدر ی غلام رسول تارڑ صاحب کے اس تبصرہ سے ہوتا ہے جو انہوں نے سپیکر اسمبلی کو مخاطب کر کے کیا۔انہوںنے کہا’’۔۔۔۔ جو حوالے مرزا صاحب نے یہاں پڑھے ہیں ان کی تردید جو علماء دین نے کی ہوئی ہے وہ کسی ممبر یا وہ مولانا صاحب کے پاس ہو تو ان کی بابت چونکہ تردیدکرنی چاہئے۔ اگر تردید ہے تو یہاں جو بیان ہوا ہے اس کا اثر کوئی اچھا نہ ہو گااس لیے میں گزارش کروں گا کہ عزیز بھٹی صاحب کے پاس ہو تو وہ ان کو بھیجیں۔اس پر عزیز بھٹی صاحب نے کہا کہ مجھے مفتی محمودصاحب نے لکھ کر دیا ہے کہ تردید ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔اور جب بھی اٹارنی جنرل صاحب مناسب موقع سمجھیں تو پوچھ لیں۔‘‘
یہ فتوے تو علماء کئی صدیوں سے ایک دوسرے کے مسلک اور دوسرے فرقوں کے خلاف دیتے آرہے تھے ۔اگر ان کو تسلیم کر کے پاکستان کے آئین میں ترمیم کی جاتی تو پاکستان میں مسلمان دیکھنے کو نہ ملتا۔یہ کوئی ایک مثال تو نہیں تھی کہ تردید ہوجاتی ۔ایسے فتوے تو سینکڑوں کی تعداد میں موجود تھے۔حقیقت یہ ہے کہ آخر تک اٹارنی جنرل صاحب نے اس تردید کو منظر ِ عام پر لانے کی ضرورت محسوس نہ کی جو مفتی محمود صاحب کے سینے میں ہی دفن رہی۔
اس کے بعد شام چھ بجے تک جو کارروائی ہوئی اس کے متعلق جیسا کہ بعد میں سپیکر صاحب نے کہا کہ جنرل اگزامینیشن ختم ہو گیا تھا اور حوالہ جات دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔یہ ایک نہایت اہم مرحلہ کا آ غاز ہو رہا تھا۔لیکن اس مرحلہ پر پہنچ کر اٹارنی جنرل صاحب نے جوسوالات کیے یا یوں کہنا چاہئے کہ ممبران میں سے جو جماعت کے مخالف مولوی حضرات تھے انہوں نے جو سوالات انہیں لکھ کر دیئے تا کہ وہ یہ سوالات حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے سامنے رکھیں،ان کے حوالہ جات میں عجیب افراتفری کا عالم تھا۔جماعت ِ احمدیہ کوتو یہ علم نہیں تھا کہ کیا سوالات کیے جائیں گے ۔دوسرا فریق سوالات کر رہا تھا ۔یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ اگر سوال کرنے والا کسی کتاب کا حوالہ پیش کرے تو یہ اس کا فرض ہے کہ وہ کتاب کا صحیح نام ،مصنف کا نام صفحہ نمبر اور مطبع خانہ کا نام سن ِ اشاعت وغیرہ بتائے تا کہ جواب دینے والا اصل حوالہ دیکھ کر جواب دے۔لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب اور ان کی اعانت کرنے والے مولوی حضرات نے اس تاریخی کارروائی کے لیے بنیادی تیاری کا تکلف بھی نہیں کیا تھا۔بعض مرتبہ تو متعلقہ بحث کے لیے ان کے پاس بنیادی معلومات بھی نہیں مہیا ہوتی تھیں۔ پہلے تو جب حضور نے آیت ِ کریمہ کا یہ ٹکڑا پڑھا(البقرۃ:۲۸۶) تو اٹارنی جنرل صاحب کو یہ مغالطہ ہو گیا کہ یہ صرف شرعی نبیوں کے بارے میں ہے۔حالانکہ آیت میں کہیں پر صرف شرعی نبیوں کا ذکر نہیں ہے بلکہ سورۃ بقرۃ میں اس مضمون کی جو دوسری آیت یعنی آیت نمبر ۱۳۷ ہے اس میں اس مضمون کے بیان سے قبل حضرت اسحقؑ،حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت یعقوبؑ جیسے غیر شرعی نبیوں کا ذکر بھی ہے۔بہر حال پھر بحث شروع ہوئی کہ کون ملت ِ اسلامیہ میں رہتا ہے اور کون اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔
اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے کسی ممبر کی طرف سے کیا گیا سوال اُ ٹھایا کہ’’ مرزا غلام احمد صاحب نے عبد الحکیم کو جو پہلے مرزا غلام احمد کا مرید تھا۔پھر اس سے شدید اختلاف کیا۔یا اس کی حیثیت نبوی ماننے سے انکار کیا تو مرزا غلام احمد نے اسے مرتد قرار دیا؟(حقیقۃ الوحی صفحہ۱۶۳)۔اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سوال کرنے والے نے سطحی معلومات بھی حاصل کیے بغیر حوالہ دے کر سوال کردیا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر عبد الحکیم نے اس عقیدہ کا اظہار کیا تھا کہ نجات کے لیے آنحضرت ﷺ پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے۔جب کہ جماعت ِ احمدیہ کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر ایمان لائے بغیر نہ تو نجات حاصل ہو سکتی ہے اور نہ کوئی روحانی مدارج حاصل ہو سکتے ہیں۔چونکہ اس کا یہ عقیدہ جماعت ِ احمدیہ کے بنیادی عقیدہ سے ہی مختلف تھا اس لیے حضرت مسیح موعود ؑ نے اس کا اخراج ِ فرمایا تھا۔اور اس معاملہ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی ماننے یا نہ ماننے سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔اور حقیقۃ الوحی کے جس مقام کا حوالہ دیا جا رہا تھا وہاں پر عبد الحکیم کے اخراج کا ذکر نہیںتھا ایک بالکل اور مضمون بیان ہو رہا تھا۔البتہ عبدالحکیم کو لکھے گئے ایک خط کا ذکر تھا۔
اسی کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عبد الحکیم کے ارتدادکی جو وجہ تحریر فرمائی تھی وہ یہ تھی:
’’وہ امر لکھنے کے لائق ہے جس کی وجہ سے عبد الحکیم خان ہماری جماعت سے علیحدہ ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کا یہ عقیدہ ہے کہ نجات ِ اخروی حاصل کرنے کیلئے آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر ایک جو خدا کو واحد لا شریک جانتا ہے (گو آنحضرت ﷺ کامکذب ہے) وہ نجا ت پائے گا۔‘‘(رو حانی خزائن جلد۲۲ص۱۱۲)
پھر بات آگے چلی تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ایک تحریر کا حوالہ دے کر بیان فرمایا کہ ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے بیان کیا کہ ایک مقتدر عالم جو حال ہی میں کافی سوچ بچار کر کے حال ہی میں ہجرت کر کے پاکستان آیا ہے ان سے ان وائس چانسلر صاحب نے ایک فرقہ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ان میں سے جو غالی ہیں وہ واجب القتل ہیں اور جو غالی نہیں ہیں وہ واجب التعزیر ہیں۔ایک اور فرقہ کے متعلق دریافت کیا جس میں کروڑ پتی تاجر بہت ہیں تو ان کے متعلق ان مولوی صاحب نے فتویٰ دیا کہ وہ سب واجب القتل ہیں۔یہی عالم جو ۳۰ ،۳۲ علماء کے گروہ کا کرتا دھرتا تھے۔انہوں نے اسلامی نظام کا ایک مجوزہ دستور تیار کیا ہے اور اس میں یہ لازمی قرار دیا ہے کہ ہر فرقہ کو تسلیم کر لیا جائے سوائے ایک کے جس کو اسلام سے خارج سمجھا جائے۔وہ واجب القتل ہیں مگر اس وقت علی الاعلان کہنے کی بات نہیں۔موقع آئے گا تو دیکھا جائے گا۔انہی میںسے ایک دوسرے عالم نے بیان کیا کہ اس وقت ہم نے ایک فرقہ سے جہاد فی سبیل اللہ کے کام کا آ غاز کیا ہے اس میں کامیابی کے بعد انشاء اللہ دوسرے فرقوں کی خبر لی جائے گی۔
یہاں ہم یہ وضاحت کرتے چلے جائیں کہ حضور نے اس موقع پر ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم کی کتاب ’’اقبال اور ملا‘‘ کا حوالہ دیا تھا ۔یہ کتاب بزمِ اقبال، کلب روڈ لاہور کے تحت شائع ہوئی تھی۔اس کا کچھ متعلقہ حصہ درج کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم اس کتاب کے صفحہ ۶۸۔۶۹ پرلکھتے ہیں :
’’ تقسیمِ ملک میں بڑے بڑے اقتدار پسند اور کج اندیش ملا تو ادھر ہی رہ گئے لیکن پاکستان کے شدید مخالفوں میں سے دو چار پاکستان پر قبضہ کرنے کے لئے ادھر آگئے۔کوئی شیخ الاسلام کا خواب دیکھنے لگا اور کوئی دینی آمریت کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں دوسرے مذاہب نے بڑی بڑی تنظیمات تبلیغ کے لئے قائم کر رکھی ہیں جہاں لاکھوں انسان جان و مال کی قربانی سے بودے مذہب کو بھی مضبوط کر دیتے ہیں۔ملا کو کبھی تبلیغ کی توفیق نہیں ہوئی۔اسے مومنوں کو کافر بنانے سے فرصت نہیں۔فلاں کے پیچھے نماز پڑھو تو کافر یا بیوی کو طلاق ،فلاں فرقہ واجب القتل ،فلاں فرقہ واجب التعزیر۔پاکستان کی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے مجھ سے حال ہی میں بیان کیا کہ ایک ملائے اعظم اور عالمِ مقتدر سے جوکچھ عرصہ ہو ابہت تذبذب اور سوچ بچار کے بعدہجرت کر کے پاکستان آگئے ہیں میں نے ایک اسلامی فرقے کے متعلق دریافت کیا۔انہوں نے فتویٰ دیا کہ ان میں جو غالی ہیں وہ واجب القتل ہیں اور جو غالی نہیں وہ واجب التعزیر ہیں۔ایک اور فرقے کے متعلق پوچھا جس میں کروڑ پتی تاجر بہت ہیں ۔فرمایا وہ سب واجب القتل ہیں۔یہی عالم ان تیس بتیس علماء میں پیش پیش اور کرتا دھرتا تھے جنہوں نے اپنے اسلامی مجوزہ دستور میں یہ لازمی قرار دیا کہ ہر اسلامی فرقہ کو تسلیم کر لیا جائے سوائے ایک کے جس کو اسلام سے خارج سمجھا جائے۔ہیں تو وہ بھی واجب القتل،مگر اس وقت علی الاعلان کہنے کی بات نہیں۔ موقع آئے گا تو دیکھا جائے گا۔انہیں میں سے ایک دوسرے سربراہ عالم دین نے فرمایا کہ ابھی تو ہم نے جہاد فی سبیل اللہ ایک فرقہ کے خلاف شروع کیا ہے۔اس میں کامیابی کے بعد انشا ء اللہ دوسروں کی خبر لی جائے گی۔‘‘
واضح رہے کہ مصنف کوئی احمدی نہیں تھا بلکہ کتاب کا سرسری مطالعہ ہی یہ واضح کر دیتا ہے کہ مصنف جماعت ِ احمدیہ کے عقائد سے شدید اختلاف رکھتا تھا لیکن ملا کے عزائم کوئی ایسے ڈھکے چھپے نہیں تھے کہ ملک کے پڑھے لکھے لوگوں کو اس کی خبر ہی نہ ہو۔جس طرح اب وطنِ عزیز میں مسلمانوں کے واجب القتل قرار دے کر خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اور جس طرح تنگ نظر طبقہ ہر ذریعہ استعمال کر کے ملک کے کسی نہ کسی حصہ پر اپنا تسلط جمانا چاہ رہا ہے اس سے یہ صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ خیالات محض وہم نہیں تھے۔
اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے کہا ’’مرزا غلام احمد نے آئینہ صداقت میں۔یہ ان کی تصنیف ہے؟‘‘اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی تصنیف کا نام آئینہ صداقت نہیں ہے تو پھر یحییٰ بختیار صاحب نے کچھ بے یقینی کے عالم میں کہا کہ پھر مرزا بشیر الدین کی ہوگی۔یہ عجیب غیر ذمہ داری ہے کہ آپ خود ایک کتاب کا حوالہ پیش کر رہے ہیں اور اس کے مصنف کا نام تک آپ کو معلوم نہیں اور کبھی ایک نام لیتے ہیں اور کبھی دوسرا نام لیتے ہیں اور یقین سے کہہ نہیں سکتے کہ کس کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔اس طرح سے تو کوئی سنجیدہ کارروائی یا بحث نہیں ہو سکتی اور نہ اس قسم کے انداز کو کوئی قابلِ توجہ سمجھ سکتا ہے۔
پھر انہوں نے کسی کتاب نہج معلا کا حوالہ دیا جس کا انہیں خود علم نہیں تھا کہ کس کی لکھی ہوئی ہے اور یقیناََ کتب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور خلفاء کی تحریر کردہ کتب میں اس نام کی کوئی کتاب نہیں۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے دریافت فرمایا کہ یہ کس کی لکھی ہوئی ہے تو اٹارنی جنرل صاحب نے اس کے جواب میں بجائے مصنف کا نام بتانے کے، کہا’’سوال کرنے والے نے کہا ہے کہ مرزاصاحب نے یہ کہا ہے اور یہ کتاب جو ہے ۔۔۔‘‘ اس کے بعد اور بات شروع ہو گئی اور حضرت خلیفۃ المسیح نے واضح فرمایا کہ یہ کتاب (جس کے مصنف کا نام بھی بتایا نہیں جا رہا تھا )ہمارے لیے اتھارٹی نہیں ہو سکتی۔
اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دو کتب کے حوالہ جات پیش کیے تا کہ اپنی طرف سے ایک مضبوط دلیل پیش کی جائے۔چنانچہ انہوں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب تحفہ گولڑویہ کے صفحہ ۳۸۲ کے حاشیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے ’’پھر دوسرے فرقوں کو جو دعویٰ اسلام کرتے ہیں بالکل ترک کرنا پڑے گا۔‘‘ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ تحفہ گولڑویہ کے تو ۳۸۲ صفحات ہی نہیں ہیں۔البتہ اس کتاب کے ایک مقام پر جو اس قسم کا فقرہ آتا ہے وہاں پر یہ بحث ہی نہیں ہو رہی کہ کس کو مسلمان کہلانے کا حق ہے کہ نہیں وہاں تو یہ مضمون بیان ہو رہا ہے کہ احمدیوں کا امام احمدیوں میں ہی سے ہونا چاہئے ۔انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکذبین کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔
یہاں پر یہ دلچسپ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب ہم نے صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب سے انٹرویو کیا تو انہوںنے کہا کہ یحییٰ بختیار صاحب نے کتابیں پڑھ کر سوال کئے تھے۔اور اس ضمن میں انہوں نے خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب تحفہ گولڑویہ کا نام لیا کہ یحییٰ بختیار صاحب نے اس کتاب کو پڑھ کر سوال اُ ٹھائے تھے۔اس سوالات کرنے والوں کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک کتاب کا ہی نام لیا جا رہا ہے کہ اس کو پڑھ کر سوال کئے گئے تھے اور اس کا جو ایک ہی حوالہ پڑھا گیا وہ بھی غلط نکلا۔
پھر اس کے بعد یہ دلیل لائے کہ حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۱۸۵ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے کہ’’کفر کی دو قسمیں ہیں ایک آنحضرت سے انکار دوسرے مسیح موعود سے انکار ۔دونوں کا نتیجہ و ماحصل ایک ہے۔‘‘یہاں پر اٹارنی جنرل صاحب صحیح الفاظ پڑھنے کی بجائے کوئی اور الفاظ پڑھ رہے تھے اور یہ دیانتدارانہ طریق نہیں تھا۔وہ نہ صرف عبارت صحیح نہیں پڑھ رہے تھے بلکہ نامکمل پڑھ رہے تھے۔جب اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ’’کیا یہ درست ہے کہ مرزا غلام احمد نے اپنی کسی تحریر میں یہ کہا ہے کہ کفر کی دو قسمیں ہیں ایک آنحضرت کا انکار اور دوسرے مسیح موعود کا انکار۔دونوں کا نتیجہ و ماحصل ایک ہے۔‘‘چونکہ اٹارنی جنرل صاحب معین الفاظ نہیں پڑھ رہے تھے اور عبارت مکمل بھی نہیں پڑ ھ رہے تھے اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا’’کسی کتاب میں یہ نہیں لکھا۔‘‘اس پر انہوں نے حوالہ پڑھا حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۸۵۔اس پر حضور نے فرمایا ’’جو الفاظ اصل تھے چھوڑ گئے ۔اس لئے میں کہتا ہوںکہ کسی کتاب میں نہیں لکھا۔‘‘اس پر اٹارنی جنرل صاحب بس اتنا ہی کہہ سکے ’’وہ توverifyکرلیں گے۔‘‘ اور پھر یہ عجیب و غریب جملہ ادا فرمایا،’’پوزیشن clarifyکرنی ہے۔یہ پڑھیں یا وہ پڑھیں۔‘‘
اب پڑھنے والے دیکھ سکتے ہیں کہ یہ کوئی معقول جواب نہیں تھا۔یہ اعتراض کرنے والے کا کام ہوتا ہے کہ وہ اصل حوالہ اور صحیح عبارت پیش کرے نہ کہ اعتراض کرنے کے بعد حوالہ تلاش کرتا رہے۔یا غلط حوالہ پکڑے جانے پر یہ کہے کہ اس سے فرق کیا پڑتا ہے۔اس طرح تو کوئی معقول گفتگو نہیں ہو سکتی۔
اب ان کے حوالہ جات کی غلطیاں ایک عجیب و غریب صورت حال اختیار کر چکی تھی۔اگر اخبار کا حوالہ پیش کیا جا رہا تھا تو پیش کرنے والے کو علم نہیں تھا کہ کس اخبار کا تھا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کا حوالہ اس کتاب سے دیا جا رہا تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر نہیں فرمائی تھی۔ایسی نامعلوم کتابوں کے حوالے پیش کئے جا رہے تھے جن کے متعلق خود انہیں معلوم نہیں تھا کہ لکھی کس نے تھی۔حضرت مسیح موعود کی کتب کے حوالہ جات بمعہ صفحہ نمبر پیش کئے گئے تو نہ صرف ان صفحات پر یہ عبارت موجود نہیں تھی بلکہ وہاں پر کسی اور موضوع کا ذکر ہو رہا تھا۔یا پھر صحیح الفاظ پڑھنے کی بجائے بدل کر الفاظ پڑھے جا رہے تھے۔پہلے تو انہیں نرمی سے یہ بتایا گیا تھا کہ ان حوالہ جات کو چیک کر کے جواب دیا جائے گا لیکن اس مرحلہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ کسی کتاب میں یہ نہیں لکھا ۔جب کارروائی شروع ہوئی تھی تو سپیکر صاحب نے اسی وقت کہا تھا کہ کتب اٹارنی جنرل صاحب کے قریب کردی جائیں تاکہ وہ حوالہ اٹارنی جنرل صاحب گواہوں کو یعنی جماعت احمدیہ کے وفد کے اراکین کو دکھا سکیں۔لیکن یہاں یہ ہو رہا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب ایک حوالہ بھی دکھانے کی زحمت نہیں کر رہے تھے۔
اس مرحلہ پر شام کی کارروائی میں وقفہ کا اعلان ہوا ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب سپیکر صاحبزادہ فاروق صاحب بھی یحییٰ بختیار صاحب اور ان کی ٹیم کی تیاری کے اس عالم سے تنگ آ چکے تھے۔جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ جماعت کے وفد کے ہمراہ ہال سے تشریف لے گئے تو سپیکر صاحب نے کہا
‏The honourable members may keep sitting
پھر انہوں نے ان کتب کو قرینے سے لگانے کے متعلق ہدایات دیں جن کے حوالے پیش کیے جا رہے تھے ۔اور لائبریرین کو اس کے قریب کرسیاں رکھنے کی ہدایت دی۔اور حوالہ جات میں نشانیاں رکھنے کی ہدایت دی۔اور کہا کہ جن لوگوں نے مخصوص حوالہ جات دیئے ہیں باقاعدہ کتابوں میں نشان لگا کر رکھیں اور اگر گواہ کسی چیز سے انکار کریں تو کتاب فوراََ پیش کی جائے اور پھر ان الفاظ میں سپیکر صاحب نے اظہار ِ برہمی کیا۔
’’یہ طریقہ کار بالکل غلط ہے کہ ایک حوالہ کو تلاش کرنے میں آدھا گھنٹہ لگتا ہے۔میں کل سے کہہ رہا ہوں کہ کتابیں اس طرح رکھیں یعنی چار پانچ کرسیاں ساتھ رکھ دیں۔جن ممبر صاحبان نے حوالہ جات تلاش کرنے ہیں ان کرسیوں پر بیٹھ کر تلاش کر سکتے ہیں اور وہ حضرات جنہوںنے حوالہ جات دینے ہیں ادھر آکر بیٹھیں لہٰذا وہ کتابیں Readyہونی چاہئیں تا کہ اٹارنی جنرل کو کوئی تکلیف نہ ہو اور ٹائم ضائع نہ ہو۔‘‘
ابھی سپیکر صاحب کے یہ الفاظ ختم ہی ہوئے تھے کہ مفتی محمود صاحب نے جو عذرپیش کیا وہ بھی خوب تھا۔انہوں نے یہ دقیق نکتہ بیان فرمایا :
’’جناب ِ والا ان کا یہ ہے کہ جلد مختلف ہوتے ہیں ۔ہم صفحہ اور لکھتے ہیں اور کتاب ہمارے پاس دوسری آجاتی ہے ۔‘‘
جو لوگ کتابوں کو دیکھنے سے کچھ بھی تعارف رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک کتاب کے کئی ایڈیشن چھپتے ہیں،حوالہ دینے والے کا فرض یہ ہے کہ وہ حوالہ دیتے ہوئے ایڈیشن کا نمبر اورسن ،اس کے پریس اور ناشر کا نام وغیرہ بتائے اور جس ایڈیشن سے صفحہ نمبر نوٹ کر کے بیان کرے اسی ایڈیشن کی کتاب کارروائی کے دوران پیش کرے۔اسی طرح کتابوں کے مجموعہ کی اشاعت کی صورت میں مختلف ایڈیشنوںمیں مختلف جلد نمبر ہو سکتے ہیں۔اگر ایک ایڈیشن سے حوالہ کا صفحہ نمبرنوٹ کیا جائے گا اور کتاب دوسرے ایڈیشن کی نکال لی جائے تو پھر ظاہر ہے کہ پیش کردہ عبارت اس طرح نہیں ملے گی۔اور پھر اصل الفاظ پیش کرنے کی بجائے الفاظ بدل کر پیش کیے جائیں گے اور کسی اور ایڈیشن میں مطلوبہ صفحہ پڑھ کر وہ عبارت ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ جد و جہد لا حاصل ہی رہے گی ۔یا پھر محض ایک مخالف کی کتاب سے جماعت کی کتاب کا فرضی حوالہ نقل کر کے پیش کر دیا جائے تو پھر خفت تو اُٹھانی پڑے گی ۔ایسے بزرجمہروں کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔مفتی محمود صاحب کے تبصرے سے تویہ معلوم ہوتا تھا کہ شاید انہیں کتابوں کو دیکھنے کا زیادہ تجربہ نہیں ہے۔
لیکن شاید سپیکر صاحب مفتی محمود صاحب کا دقیق نکتہ سمجھ نہیں پائے تھے۔انہوں نے کہا۔
’’حوالہ جات شروع ہو چکے ہیں۔جنرل ایگزامینیشن ختم ہو چکا ہے۔تقریباََ زیادہ بات حوالہ جات کی شروع ہو چکی ہے۔دو تین حوالہ جات نہیں ملے۔۔۔۔۔۔۔(بائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے)۔ادھر چار پانچ کرسیاں رکھ دیں اور جتنے انہوں نے حوالہ جات دیئے ہیںFlag کردیں۔یہ دو تین ایڈیشن ہیں آپ اپنے حوالہ جات کو ٹھیک کر کے رکھ دیں۔وہ اگر یہ کہیں تو ان کو کہیں کہ آپ کی یہ کتاب ہے۔‘‘
اس مرحلہ پر مولوی غلام غوث ہزاروی کو خیال آیا کہ وہ بھی کوئی نکتہ بیان فرمائیں۔ چنانچہ وہ کہنے لگے:
’’جناب والا میں ایک چیز کے متعلق عرض کروں کہ ہم حوالہ جات اس وقت تیار رکھیں جب ہمیں اٹارنی جنرل کی طرف سے علم ہو کہ وہ کون سے سوالات کریں گے۔۔۔۔‘‘
یہ نکتہ بھی خوب تھا۔مولوی غلام غوث ہزاروی صاحب جیسے ممبران سوالات حوالہ جات سمیت پیش کر رہے تھے اور چند حوالے ابھی ابھی پیش کئے گئے تھے اور وہ بھی غلط نکلے۔جس نے سوال کیا تھا وہ حوالہ نکال کر اپنے پاس رکھ سکتا تھا تاکہ عند الطلب پیش کر سکے یا پھر کتاب سے نکال کر اٹارنی جنرل کو دے سکتا تھا تا کہ جماعت کے وفد کو دکھایا جا سکے۔
اس کے بعد شاہ احمد نورانی صاحب نے خفت مٹانے کی کوشش کی اور سپیکر صاحب کو کہا کہ انہوں نے یعنی حضور نے حقیقۃ الوحی والے حوالے کا انکار کیا ہے جب کہ یہ حوالہ یہاں پر موجود ہے اور سپیکر صاحب کو کہا کہ آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔آفرین ہے نورانی صاحب پر۔معلوم ہوتا ہے کہ وہ کارروائی کے دوران ذہنی طور پر غیر حاضر تھے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا تھا کہ اصل الفاظ چھوڑ دیئے گئے ہیں یعنی معین عبارت نہیں پڑھی گئی اور اس کا علاج بہت آسان تھا اور وہ یہ کہ اصل عبارت پڑھ دی جاتی اور بس۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔اور جو الفاظ اٹارنی جنرل صاحب نے پڑھے تھے وہ معین الفاظ اس کتاب میںموجود نہیں ہیں۔صحیح طریق تو یہی ہے کہ حوالہ کی معین عبارت پڑھی جائے۔کتاب سامنے موجود تھی ،سادہ سی بات تھی کتاب اُ ٹھاتے اور معین عبارت پڑھ دیتے۔
مغرب کی نماز کے بعد جب کارروائی شروع ہوئی تو حقیقۃ الوحی کے اسی حوالہ سے بات شروع ہوئی جس کا حوالہ وقفہ سے پہلے دیا جا رہا تھا۔لیکن اٹارنی جنرل صاحب اب بھی پرانی غلطی پر مصر تھے۔انہوں نے ایک بار پھر معین عبارت پڑھنے کی بجائے اپنی طرف سے اس کا خلاصہ پڑھا البتہ اس مرتبہ یہ نہیں کہا کہ یہ حقیقۃ الوحی کے اس صفحہ پر لکھا ہے بلکہ یہ کہنے پر اکتفا کی کہ کسی تحریر میں لکھا ہے۔اٹارنی جنرل صاحب نے کہا:
’’کیا یہ درست ہے کہ مرزا غلام احمد نے اپنی کسی تحریر میں لکھا ہے کہ کفر کی دو قسمیں ہیں۔ایک آنحضرت ﷺ سے انکار اور دوسرا مسیح موعود سے انکار۔‘‘
حضور نے ان کی غلطی سے صرفِ نظر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے آگے کی عبارت خود اس کا مطلب واضح کردیتی کیونکہ آگے لکھا ہے کہ جو با وجود اتمامِ حجت کے اس کو جھوٹا جانتا ہے ۔حالانکہ خدا اور رسول نے اس کے ماننے کی تاکید کی ہے۔کیونکہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے۔
کچھ دیر بعد پھر اٹارنی جنرل صاحب نے ایک عجیب رخ اختیار کر لیا ۔ اور یہ بحث اٹھا دی کہ جماعت ِ احمدیہ کا کلمہ کیا ہے ،یہ کوئی خفیہ امر نہیں۔جماعت کا وسیع لٹریچر بیسیوں زبانوں میں دنیا کے سو سے زائد ممالک میں اچھی طرح معروف ہے۔ہر کتاب میں ،ہر تحریر میں کوئی ایک صدی سے یہی لکھا ہوا ملے گا کہ جماعت ِ احمدیہ کا کلمہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمّد رسول اللّٰہ ہے۔دنیا بھر کے دو سو کے قریب ممالک میں کسی احمدی بچے سے بھی پوچھ لیں تو وہ یہی جواب دے گا کہ ہمارا کلمہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمّد رسول اللّٰہ ہے۔ لیکن اس کارروائی میں اٹارنی جنرل صاحب ایک تصویر اٹھا لائے جو کہ نائیجیریا کے ایک شہر اجیبو اوڈے میں جماعت کی مسجد کی تھی۔اس کے اوپر کوفی رسم الخط میں کلمہ طیبہ لکھا ہوا تھا۔اور اس رسم الخط میں محمد کی پہلی میم کو لمبا کرکے لکھا گیا تھا۔اور اس کو دکھا کر اٹارنی جنرل صاحب یہ باور کروانے کی کوشش فرما رہے تھے یہ محمد رسول اللہ نہیں لکھا تھا بلکہ احمد رسول اللہ لکھا تھا۔ یعنی کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ احمدیوں کا تو کلمہ ہی مسلمانوں سے علیحدہ ہے۔حضور نے اس امر پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا کلمہ اگر دوسرا تھا تو ہر جگہ پر دوسرا ہونا چاہئے تھا ،یہ ممکن نہیں تھا کہ ہمارا کلمہ دوسرا تھا اور یہ صرف ایک جگہ پر لکھا ہے ،باقی مقامات پر وہ کلمہ تحریر لکھا ہے جس پر ہمارا ایمان نہیں تھا۔ یہ الزام ہی بچگانہ تھا اور اٹارنی جنرل صاحب خود بھی اس سوال کو کر کے ایک مخمصے میں پھنس گئے تھے۔آغاز میں ہی انہوں نے کچھ بے یقینی سے کہا کہ یہImpressionپڑتا ہے کہ احمد رسول اللہ لکھا ہے۔ May be it isمحمد رسول اللہ۔کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کہہ رہے تھے انہیں تو خود یقین نہیں تھا کہ یہ الزام معقول بھی ہے کہ نہیں۔ حضور نے فرمایا کہ ہماری سینکڑوں مساجد دنیا کے مختلف ممالک میںہیں ان میں سے صرف ایک مسجد کو منتخب کر کے شور مچایا گیا ہے کہ ان کا کلمہ مختلف ہے۔اٹارنی جنرل صاحب کبھی یہ کہتے تھے کہ مجھے یہ احمدرسول اللہ لکھا ہوا معلوم ہوتا ہے اور کبھی یہ کہتے کہ’’نہیں نہیں میں کہہ رہا ہوں محمد ﷺ کو اس طریقہ سے ۔۔’’میم‘‘ کو نیچے سے اٹھایا گیا ہے ،میم موٹا ہے ،پھر ہو سکتا ہے محمد ﷺ ہو۔۔‘‘ اس مرحلہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا کہ اس لفظ کی دوسری میم پر تشدید نظر آ رہی ہے ،احمد کے اوپر تشدید کہاں ہوتی ہے۔اب بیچارے اٹارنی جنرل صاحب کسی کے کہنے پر یہ نا معقول سوال تو اُ ٹھا چکے تھے لیکن اب اس تشدید کا کیا کرتے جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا تھا کہ یہ محمد لکھا ہوا ہے احمد ہو ہی نہیں سکتا۔ انہوں نے عاجز آکر کہا میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ یہVerifyکردیں کہ یہ صرف لا الٰہ الا اللّٰہ محمّد رسول اللّٰہ لکھا ہے۔اس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ ’’ہے ہی یہی ،ہم نے ہوش بھی نہ سنبھالا تھا کہ سلسلہ احمدیہ سے ہمیں سکھایا گیا ، آج اعتراض ہو گیا عجیب بات ہے۔‘‘اس مثال سے یہ بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی میں جو سوالات اُٹھائے جا رہے تھے وہ عقلِ سلیم سے عاری تھے ورنہ یہ تشدید اس وقت بھی موجود تھی جب کہ یہ نامعقول سوال اُٹھانے کی تیاری کی جا رہی تھی۔
اس کے بعد پھر انہی پرانے سوالات پر بات شروع ہوئی کہ احمدیوں نے خود اپنے آپ کو باقی مسلمانوں سے علیحدہ کیا کہ نہیں یا پھر قومی اسمبلی کو ایسا فیصلہ کرنے کا حق ہے کہ نہیں۔جب بات آگے چلتی اور سوالات کی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے سوالات کیے جاتے تو ان کا سقم خود ہی ظاہر ہو جاتا۔ اب اٹارنی جنرل صاحب نے رابطہ عالمِ اسلامی کی قرارداد کو دلیل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔اس سے پہلے وہ اس بات پر زور دے رہے تھے کہ احمدیوں نے خود اپنے آپ کو باقی مسلمانوں سے علیحدہ کیاہے۔جب رابطہ کی قرارداد کی بات شروع ہوئی تو حضور نے انہیں یاد دلایا کہ اس قرارداد میں تو یہ لکھا ہے کہ قادیانی سارے مسلمانوں والے کام کرتے ہیں۔اور ساتھ یہ کہاگیا کہ اندر سے کافر ہیں ۔ اس مرحلہ پر اٹارنی جنرل نے زچ آ کر کہا کہ’’میںReasoningمیں نہیں جا رہا ۔‘‘اس پر حضور نے فرمایا،’’تو میں Reasoningکے بغیر بات نہیں کر رہا۔‘‘اب کون سا ہوشمند ہو گا جو کہ یہ کہے گا کہ جب اس قسم کی کارروائی جاری ہو توReasoningمیں نہیں جانا چاہئے۔ظاہر ہے جماعت ِ احمدیہ پر اعتراضات کئے جا رہے تھے اور مختلف علمی بحثیں اُٹھانے کی کوشش کی جا رہی تھی ،یہ بات توReasoningکے بغیر ہو ہی نہیں سکتی۔اگر اٹارنی جنرل صاحب اور ممبرانِ اسمبلی Reasoning میں نہیں جانا چاہتے تھے تو پھر یہ کارروائی نہیں محض ڈرامہ کیا جا رہا تھا۔
لیکن بعد کی کارروائی سے یہی واضح ہوتا ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب یایہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ سوالات کرنے والی ٹیم Reasoningکا طریقہ کار نہیں اپنانا چاہتی تھی۔اس سے پہلے بھی یہ ذکر آ چکا ہے کہ خود اسپیکر سمبلی نے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ جو حوالہ جات پیش کیے جاتے ہیں،ان کو ڈھونڈنے میں آدھا آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے۔لیکن اب بھی یہی حال تھا کہ یا تو حوالے صحیح پیش ہی نہیں ہوتے تھے یا جب ان پر بات شروع ہوتی تو یہ صاف نظر آ جاتا کہ یا تو اس حوالہ کا سیاق و سباق بھی پڑھنے کی کوشش نہیں کی گئی یا پھر اس سوال کو اُ ٹھانے والوں میں یہ مضمون سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں پائی جاتی تھی۔چند مثالیں پیش ہیں۔
بحث کے دوران اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا کہ الفضل۲۶ ؍جنوری ۱۹۱۵ء کا حوالہ ہے مرزابشیر الدین محمود کا ہے،’’مسیح موعودؑ کو احمد نبی اللہ تسلیم نہ کرنا ۔آپ کو امتی قرار دینا۔امتی سمجھنا ۔گویا آنحضرت ﷺ سید المرسلین خاتم النبیین ہیں کو امتی قرار دیناامتوں میں داخل کرنا کفر عظیم ہے۔کفر در کفر۔‘‘ اس حوالہ کو پڑھتے یا یوں کہنا چاہئے کہ ایجاد کرتے ہوئے اٹارنی جنرل صاحب کو یہ بھی خیال نہیں آیا کہ ساری عبارت مہمل ہے اس کا مطلب ہی کچھ نہیں بنتا۔بہر حال اس کے جواب میں حضور نے اس بات کی نشاندہی فرمائی کہ یہ فقرہ تو بظاہر ٹوٹا پھوٹا لگتا ہے۔لیکن یحییٰ بختیار صاحب پھر بھی نہیں سمجھ پائے اور کہا کہ میں پھر پڑھ دیتا ہوں۔اس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ میں چیک کروں گا۔یہ بھی ظاہر ہوتا ہے وہ کہ اس حوالہ کے متعلق کچھ گو مگو کی کیفیت میں رہے۔کبھی یہ حوالہ ۲۶ تاریخ کا بن جاتا اور کبھی ۲۹ جنوری کا۔اس کا ذکر تو بعد میں آئے گا لیکن ریکارڈ کی خاطر یہاں یہ بتاتے چلیں کہ اس روز کی الفضل کی اشاعت میں یہ یا اس سے ملتی جلتی کوئی عبارت موجود نہیں۔یہ سوال کرنیوالوں کی ذہنی اختراع تھی۔
اٹارنی جنرل صاحب نے ایک سوال یہ اٹھایا کہ
’’صفحہ ۳۴۴ پر آئینہ کمالات ِ اسلام ہے تو اس میں ہے کہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا۔وہ ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا احترام کرے ۔نیز یہ بھی کہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر وحی نازل ہوئی ہے وہ ایک امت بنائے جو اس کو نبی سمجھتی ہواور اس کی کتاب کو کتاب ِ الٰہی جانتی ہو۔‘‘
ابھی انہوں نے یہ حوالہ پڑھنا ہی شروع کیا تھا اور ’’جو شخص ‘‘کے الفاظ ہی پڑھے تھے کہ حضور نے یہ اہم سوال اُ ٹھایا کہ اس کی ضمیر کس طرف جاتی ہے ۔اشارہ واضح تھا لیکن آفرین ہے کہ سننے والوں کو سمجھ نہیں آیا۔
یہ حوالہ پڑھنے کے بعد پاکستان کی قابل اسمبلی میں نہایت قابل ا ٹارنی جنرل صاحب نے یہ اہم سوال اُ ٹھایا کہ
’’تو یہ Referenceآنحضرت کی طرف ہے یا ان کے اپنے سے مراد ہے؟‘‘
اب ہم پورا حوالہ پیش کرتے ہیں :
’’اور یہ جو حدیثوں میں آیا ہے کہ دجال اول نبوت کا دعویٰ کریگا پھر خدائی کا۔اگر اس کے یہ معنی لئے جائیں کہ چند روز نبوت کا دعویٰ کر کے پھر خدا بننے کا دعویٰ کریگا تو یہ معنی صریح باطل ہیںکیونکہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کریگا اس دعویٰ میں ضرورہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرے اور نیز یہ بھی کہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر وحی نازل ہوتی ہے ۔اور نیز خلق اللہ کو وہ کلام سناوے جو اس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اور ایک امت بناوے جو اس کو نبی سمجھتی اور اس کی کتاب کو کتاب اللہ جانتی ہے۔اب سمجھنا چاہئے کہ ایسا دعویٰ کرنیوالا اسی امت کے روبرو خدائی کا دعویٰ کیونکرکر سکتا ہے کیونکہ وہ لوگ کہہ سکتے ہیںکہ تو بڑا مفتری ہے پہلے تو خدائے تعالیٰ کا اقرار کرتا تھا اور خدا تعالیٰ کا کلام ہم کو سناتا تھا اور اب اس سے انکار ہے اور اب آپ خدا بنتا ہے۔۔۔
صحیح معنے یہی ہیں کہ نبوت کے دعویٰ سے مراد دخل در امور ِ نبوت اور خدائی کے دعویٰ سے مراد دخل درامور ِ خدائی ہے جیسا کہ آجکل عیسائیوں سے یہ حرکات ظہور میں آرہی ہیں۔ ایک فرقہ ان میں سے انجیل کو ایسا توڑ مروڑ رہا ہے کہ گویا وہ نبی ہے اور اسپر آیتیں نازل ہو رہی ہیں۔اور ایک فرقہ خدائی کے کاموں میں اس قدر دخل دے رہا ہے کہ گویا وہ خدائی کو اپنے قبضہ میںکرنا چاہتا ہے۔‘‘(۵۸)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تو یہ لوگ ایمان نہیں لائے تھے لیکن اس حوالہ کا ایک حصہ پڑھ کر بغیر سوچے سمجھے یہ سوال اُ ٹھانا کہ کیا اس کی ضمیر آنحضرت ﷺ کی طرف جاتی ہے؟ اور پھر اس سوال کو دہرانا یا پرلے درجہ کی بے عقلی ہے یا ایک ایسی خوفناک گستاخی کہ کوئی مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ایک بات تو ظاہر ہے کہ ان سوالات کو پیش کرنے سے قبل کوئی خاص تیاری نہیں کی گئی تھی۔ان احادیث میں ایک اہم پیشگوئی بیان ہوئی ہے اور بعد میں رونما ہونے والے واقعات اس عظیم پیشگوئی کی واضح تصدیق کرتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس پیشگوئی کی ایک لطیف تشریح بیان فرما رہے ہیں لیکن پاکستان کے ممبران ِ اسمبلی میں سے اس سوال کو اُٹھانے والے سمجھے بھی تو کیا سمجھے۔
ان احادیث ِ نبویہ ﷺ میں اور مذکورہ عبارت میں ایک لطیف مضمون بیان کیا گیا ہے جو اس دور میں اعجازی طور پر پورا ہو کر آنحضرت ﷺ ؑ کا ایک زندہ نشان بن چکا ہے۔لیکن یہ علمی مضمون پاکستان کی قابل قومی اسمبلی میں سوالات مہیا کرنے والوں کی عقل سے بالاتر تھا۔
اس کے بعد کچھ دیر تک اٹارنی جنرل صاحب نے یہ بحث اُ ٹھائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ شرعی نبوت کا تھا یا غیر شرعی نبوت کا تھا۔ اس معاملہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی اور تحریرات بالکل واضح ہیں۔آپؑ کا دعویٰ امتی نبی کا تھا ۔آپ نے بارہا واضح الفاظ میں اس بات کا اعلان فرمایا تھا کہ اب آنحضرت ﷺ کی لائی ہوئی شریعت اور آپ کے احکامات کا ایک شوشہ بھی منسوخ نہیں ہو سکتا اور اب جو بھی کوئی روحانی مدارج حاصل کرے گا وہ آنحضرت ﷺ کی اتباع اور فیض سے ہی حاصل کر سکتا ہے۔اس بات کو بحث بلکہ کج بحثی کا موضوع بنانا ایک لایعنی بات تھی۔اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس موضوع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات پڑھ کر سنائیں جس سے اُٹھائے گئے اعتراضات باطل ہو جاتے تھے۔ابھی بحث جاری تھی کہ اٹارنی جنرل صاحب یا ان کو سوالات مہیا کرنے والے قابل احباب اپنی طرف سے ایک برہانِ قاطع یہ لائے کہ۔’’میں آپ کی کوٹیشن ۔۔۔سناتا ہوں شریعت ِ اسلام میں جو نبی کے معنی ہیں۔اس کے معنی ہے۔اگر مرزا غلام احمد اگر مجازی نبی نہیں بلکہ حقیقی نبی ہے۔That is shariat as you say۔‘‘ اب ذرا ملاحظہ ہو اٹارنی جنرل صاحب اپنی طرف سے یہ حوالہ پڑھ رہے ہیں اور ان جملوں کی ٹوٹی پھوٹی ساخت ہی بتا رہی تھی کہ حوالہ صحیح نہیں پڑھا جا رہا اور معین الفاظ نہیں پڑھے جا رہے ۔عقل کی بات ہے کہ جماعت کی کسی تحریر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام صرف مرزا غلام احمد کر کے نہیں لکھا جا سکتا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ارشاد فر مایا’’یہ کہاں کا حوالہ ہے؟‘‘۔اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے لب کشائی فرمائی’’شریعت نبوت صفحہ ۱۷۲ ‘‘۔ایک منٹ میں یہ ان کا دوسرا کارنامہ تھا ۔اس نام کی جماعت کی کوئی تصنیف نہیں تھی۔اس پر حضور نے ارشاد فرمایا ’’یہ سچ مچ بناوٹی ہے‘‘۔ پیشتر اس کے کہ یحییٰ بختیار صاحب حوالہ جات پیش کرنے کے میدان میں کچھ اور جوہر دکھاتے کہ سپیکر صاحب نے انہیں اس مخمصے سے نجات دلائی اور کہا کہ کل کارروائی جاری رہے گی اب وفد جا سکتا ہے۔کل دس بجے کارروائی شروع ہو گی۔
یعنی سپیکر صاحب نے تو یہ متنبہ کیا تھا کہ آپ کو حوالے وقت پر نہیں ملتے اور آدھا آدھاگھنٹہ حوالہ ڈھونڈنے میں لگ جاتا ہے اور اس کے بعد سوال اُ ٹھانے والوں نے یہ اصلاح کی کہ ان کتابوں کے حوالے پیش کرنے شروع کر دیئے جو کبھی لکھی ہی نہیں گئیں تھیں۔اسی افراتفری کے عالم میں ۶؍ اگست کی کارروائی ختم ہوئی۔
۷؍ اگست کی کارروائی
جب ۷؍ اگست کی کارروائی شروع ہوئی تو بات ان حوالہ جات سے شروع ہوئی تھی جو گزشتہ روزپڑھے گئے تھے۔سوالات کرتے ہوئے جو حوالہ جات پیش کیے جا رہے تھے یا یوں کہنا مناسب ہو گا کہ جن کو پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی وہ عجیب افراتفری کا شکار تھے۔اٹارنی جنرل صاحب نے حضور سے کہا کہ جو حوالے میں نے کل پڑھے تھے آپ نے ان کی تصدیق کر لی ہے؟اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا ’’ ایک ایک کولے لیتے ہیںجو ۲۹ جنوری ۱۹۱۵ء کا آ چکا ہے یہ پڑھ کر سنا دیجئے۔میں Verify کر دیتا ہوں۔‘‘اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا کہ کل جو آخر میں پڑھا تھا وہ پہلے پڑھتا ہوں ۔ایک روز پہلے انہوں نے ایک حوالہ پیش کیا تھا اور کتاب کا نام ’’شریعت ِ نبوت‘‘ بیان فرمایا تھا۔آج اس حوالہ کی عبارت کتاب کا نام اور صفحہ نمبر سب نیا جنم لے چکے تھے۔اب انہوں نے یہ عبارت پڑھی ’’اسلامی شریعت نبی کے جو معنی کرتی ہے ۔اسکے معنی سے حضرت مرزا غلام احمد ہرگز مجازی نہیں بلکہ حقیقی نبی ہیں۔(حقیقۃ النبوّت صفحہ ۱۷۴ )۔اب اس بحث سے ان کا مقصد یہ تھا کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حقیقی نبی لکھا گیا ہے اس لیے اس سے مراد یہ ہے کہ انہوںنے صاحبِ شریعت ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔کیونکہ جب ایک روز قبل یہ حوالہ پیش کیا گیا تھا تو اس وقت شرعی اور غیرشرعی انبیاء کا تذکرہ چل رہا تھا۔پہلی تو یہ بات قابلِ غور ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت سلیمان ؑ ، حضرت ایوب ؑ،حضرت یعقوب ؑ اور بہت سے دوسرے انبیاء شریعت نہیں لائے تھے ۔تو کیا یہ سب حقیقی نبی نہیں تھے،کیا ان کو غیر حقیقی انبیاء کہہ کر ان کی شان میں گستاخی کی جائے گی۔یا اگر کسی بھی لحاظ سے یہ کہا جائے کہ یہ حقیقی انبیاء تھے تو اس کا یہ مطلب لیا جائے گاکہ ان کو شرعی نبی سمجھا جا رہا ہے؟اور اسی کتاب میں جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی تصنیف ہے اس بات کی وضاحت بار بار کی گئی ہے ۔اس کا صرف ایک حوالہ پیش ہے
’’۔۔پس حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی عوام کو سمجھانے کے لئے انہی کی فرض کردہ حقیقت کو تسلیم کر کے انہیں سمجھایا ہے کہ میں ان معنوں سے نبی نہیں ہوں کہ کوئی شریعت جدیدہ لایا ہوں ۔بلکہ ان معنوں کی رو سے میں مجازی نبی ہوں ۔یعنی شریعت لانے والے نبیوں سے ایک رنگ میںمشابہت رکھتا ہوں ۔گو شریعت لانے والا نبی نہیں ہوں ۔کیونکہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی جدید شریعت نہیں۔‘‘ اور یہی مضمون اس کتاب میں بیسیوں جگہ پر بیان ہوا ہے۔
اس کے بعد ۲۹؍ جنوری یا ۲۶؍ جنوری کے اُس پُر اسرار حوالہ کا ذکر شروع ہوا جس کی فرضی ٹوٹی پھوٹی عبارت ایک روز قبل پڑھی گئی تھی۔۷؍ اگست کی کارروائی میں یہ حوالہ ۲۹؍ جنوری ۱۹۱۵ء کا بنا ہوا تھا۔اٹارنی جنرل صاحب نے ایک مرتبہ پھر اس حوالے کی عبارت دہرائی ۔حضور نے فرمایا کہ اس روز تو الفضل شائع ہی نہیں ہوا تھا۔اصولاََ تو سوال پیش کرنے والوں کے پاس حوالہ یا ثبوت ہونا چاہئے تھا۔لیکن اب ان کے لیے عجیب صورت ِ حال پیدا ہوئی تھی کہ جس روز کے الفضل کا وہ حوالہ اس طمطراق سے پیش کر رہے تھے،اس روز تو الفضل شائع ہی نہیں ہوا تھا۔کیونکہ اس دور میں الفضل روزانہ شائع نہیں ہوتا تھا۔اب اپنی خفت کو چھپانے کے لیے اٹارنی جنرل صاحب نے ایک اور ذہنی قلابازی کھائی اور فرمایا کہ ۱۹؍ جنوری میں یا کسی اور شمارہ میں یہ چھپا ہو گا۔ان کی یہ عجیب و غریب دلیل پڑھ کر تو ہنسی آتی ہے۔یہ صاحب قومی اسمبلی کی ایک اہم کمیٹی میں ایک حوالہ پیش کر رہے تھے اوردو روز میں ایک سے زائد مرتبہ پیش کر چکے تھے۔اور علماء کی ایک ٹیم اس کام میں ان کی اعانت کر رہی تھی۔اور اس حوالہ کی بنا پر وہ اپنے زعم میںجماعت احمدیہ کے خلاف کیس مضبوط کر رہے تھے اور ابھی انہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ حوالہ کس تاریخ کا تھا۔اس پر حضور نے واضح الفاظ میں فرمایا’’ نہیں نہیں،یہ کسی Issue میں نہیں ہے۔کسی حوالہ میں نہیں ہے۔یہ بنایا گیا ہے۔‘‘اس پر پاکستان کی قابل قومی اسمبلی کے نمائندہ نے جو کچھ کہا اس سے ان کی ذہنی اور علمی حالت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔انہوں نے فرمایا:
’’اس لئے آپ کو اخبار معلوم ہونا چاہئے۔‘‘
یعنی حوالہ اٹارنی جنرل صاحب پیش فرما رہے ہیں اور جماعت ِ احمدیہ پر اعتراض اُ ٹھانے کے لیے پیش فرما رہے ہیں اور ان کو بتایا جاتا ہے کہ جس روز کی اشاعت کا وہ حوالہ پیش کر رہے ہیں،اس روز تو الفضل شائع ہی نہیں ہوا تھا۔اور یہ عبارت الفضل میں شائع ہی نہیں ہوئی۔اور اٹارنی جنرل صاحب بجائے حوالہ پیش کرنے کے جماعت کے وفد سے فرمائش کر رہے ہیںکہ آپ کو اخبار معلوم ہونا چاہئے۔معلوم ہوتا ہے کہ اس مرحلہ پر اٹارنی جنرل صاحب کے ہاتھوں سے ہوش کا دامن بھی چھوٹ رہا تھا۔حضور ؒ نے فرمایا
’’۔۔یہ فائل پڑا ہے نکال دیں۔‘‘
اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے یہ بات ختم کی۔اب انہوں نے حوالہ جات کے علم سے باہر نکل کر علم تاریخ کا رخ کیا۔اور اپنی دلیل کے طور پر ایک انگریزی جریدہ کا طویل حوالہ پڑھنا شروع کیا۔ جریدہ کا نام Impactتھا اور یہ ۲۷؍ جون ۱۹۷۴ء کا حوالہ تھا۔ابھی یہ بھی واضح نہیں ہوا تھا کہ وہ کیا فرمانا چاہ رہے ہیں کہ حضور نے اس جریدہ کی اس تحریر کے متعلق ان سے استفسار فرمایاWho is the writer?یعنی اس تحریر کو لکھنے والا کون ہے؟اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کمال قول سدید سے فرمایاI really do not know.یعنی حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے۔حضور نے اگلاسوال یہ فرمایا What is the standing of this publication?یعنی اس اشاعت یا جریدہ کی حیثیت کیا ہے؟یعنی کیا یہ کوئی معیاری جریدہ ہے یا کوئی غیر معیاری جریدہ ہے۔اس کی حیثیت ایسی ہے بھی کہ نہیں کہ اس کے لکھے کو ایک دلیل کے طور پر پیش کیا جائے۔چونکہ یہ ایک غیر معروف نام تھا اس لیے اس سوال کی ضرورت پیش آئی۔اس سوال کے جواب میں اٹارنی جنرل صاحب ایک بار پھر نہایت بے نفسی سے فرمایا May be nothing at all, Sir یعنی جناب شاید اس کی وقعت کچھ بھی نہیںہے۔خیر اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے دریافت فرمایا : Have we any thing to do with thisیعنی کیا ہمارا اس تحریر سے کوئی تعلق ہے؟اس کا جواب یہ موصول ہوا Nothing I do not say you have any thing to do.......یعنی کوئی نہیں ،میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ کا اس سے کوئی تعلق ہے ۔
اب یہ ایک عجیب مضحکہ خیز منظر تھا کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان پوری قومی اسمبلی پر مشتمل سپیشل کمیٹی میں ایک جریدہ کی ایک تحریر بطور دلیل کے پیش کر رہا ہے اور اسے یہ بھی علم نہیں کہ یہ تحریر لکھی کس کی ہوئی ہے ،اسے یہ بھی خبر نہیں کہ اس جریدہ کی کوئی حیثیت بھی ہے کہ نہیں۔بہر حال انہوں نے حوالہ پڑھنے کا شوق جاری رکھا اور ایک طویل اقتباس پڑھا ۔اس کی تحریر اور ایک موضوع سے دوسرے موضوع پر بہکتے چلے جانا ہی بتا رہا تھا کہ یہ ایک غیر معیاری تحریر ہے۔لیکن اس کا لبِ لباب یہ تھا کہ احمدیوں نے خود اپنے آپ کو باقی مسلمانوں سے علیحدہ کیا ہے اور بعض وہ اعتراضات دہرائے جن کا جواب پہلے ہی گزر چکا ہے ۔لیکن جس حصہ کو اٹارنی جنرل صاحب نے بہت زور دے کر پڑھا اس میں دو اعتراضات تھے جن کا مختصراََ ذکر کرنا مناسب ہو گا۔
ایک اعتراض تو اس تحریر میں یہ کیا گیا تھا کہ جب پنجاب کے باؤنڈری کمیشن میں پاکستان کا مقدمہ پیش ہو رہا تھاتو
At the time of independance and demarcation of boundries the Qadianis submitted a representation as a group seperate from Muslims. This had the effect of decreasing the proportion of the Muslims population in some marginal areas in the Punjab and on consequent award Gurdaspur was given to India to enable her to have link with Kashmir.
یعنی آزادی کے وقت جب سرحدوں کے خطوط کھینچے جا رہے تھے ،اس وقت قادیانیوں نے مسلمانوں سے ایک علیحدہ گروہ کے طور پر اپنا موقف پیش کیا۔اور اس کے نتیجہ میںپنجاب کے بعض سرحدی علاقوں میں مسلمانوں کی تعداد کم ہو گئی اور بعد میں گورداسپور کو بھارت کو دے دیا گیا اور اس طرح وہ اس قابل ہو گیا کہ وہ کشمیر سے رابطہ پیدا کر سکے۔
ہم پہلے اُس دور کا جائزہ لے چکے ہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ یہ الزام بالکل غلط تھا۔احمدیوں نے مسلم لیگ کی اعانت کے لیے اپنا میمورنڈم پیش کیا تھا۔مسلم لیگ نے خود اپنے وقت میں سے جماعت کو اپنا موقف پیش کرنے کا کہا تھا۔اور احمدیوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں کا حصہ قرار دے کر کے استدعا کی تھی کہ گورداسپور کا ضلع پاکستان کے ساتھ شامل کیا جائے۔سکھوں نے اپنا موقف پیش کیا تھا کہ ہمارے مقدس مقامات جن اضلاع میں ہیں ان کو بھارت میں شامل کیا جائے کیونکہ ہم بھارت میں شامل ہونا چاہتے ہیں ۔اس کے جواب میں جماعت ِ احمدیہ نے یہ میمورنڈم پیش کیا تھا کہ قادیان میں ہمارے مقدس مقامات ہیں اور ہم مسلمان ہیں اور پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اور قائد اعظم نے مسلم لیگ کا مقدمہ پیش کرنے کے لیے حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ کا انتخاب کیا تھا۔اور جتنی جد وجہد کی تھی حضرت چوہدری صاحب اور جماعت ِ احمدیہ نے کی تھی ورنہ پنجاب کی مسلم لیگ تو فقط ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی رہی تھی۔یہ سب تفصیلات تو پہلے ہی گزر چکی ہیں۔ لیکن یہاں ذکر ضروری ہے کہ خود حکومت ِ پاکستان نے یہ سب کارروائی مع جماعت کے میمورنڈم کے۱۹۸۳ء میں حرف بحرف شائع کی۔اور یہ دور جماعت ِ احمدیہ کے اشد ترین مخالف جنرل ضیاء صاحب کے دور ِ صدارت کا تھا۔اس کتاب کا نام The partition of the Punjab ہے اور اس کی پہلی جلد میں جماعت کا میمورنڈم حرف بحرف نقل کیا گیا ہے۔اس کے چند حوالے پیشِ خدمت ہیں۔ قادیان کے بارے میںاس کا پہلا نقطہ ہی یہ تھا
It is the living centre of the world wide Ahmadiyya movement in Islam.
پھر لکھا ہے
The Headquarters of the Ahmadiyya Community, an important religious section of Muslims having branches all over the world, is situated in the district of Gurdaspur.
احمدیہ جماعت کا مرکز ،جو کہ مسلمانوں کا ایک اہم حصہ ہیں ،اور ان کی شاخیں پوری دنیا میں ہیں،ضلع گورداسپور میں ہے۔
اس میمورنڈم کے آ غاز میں ہی یہ صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ جماعت ِ احمدیہ نے قطعاََ اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ گروہ کے طور پر پیش نہیں کیا تھا بلکہ اپنے آپ کو مسلمانوں کے حصہ کے طور پر پیش کیا تھا اور اس وقت مسلم لیگ نے قطعاََ اس کی تردید نہیںکی تھی۔اس وقت کانگرس کی طرف سے یہ موقف پیش کیا جا رہا تھا کہ گو بعض اضلاع میں مسلمان اکثریت میں ہیں مگر یہاں پر ہندوؤں اور سکھوں کے پاس جائیداد زیادہ ہے اس لیے ان اضلاع کو ہندوستان میںشامل کرنا چاہئے ۔اس کے متعلق جماعت ِ احمدیہ نے اپنے میمورنڈم میں یہ موقف بیان کیا
If the idea of Pakistan was to give Muslims a chance to make up their losses in political and economic life and if this idea of division (which has been accepted by the British Government and the congress) is legitimate, then any attempt to partition the Muslims areas on the basis of property or superior economic status is to nullify the very idea of Pakistan, and will have to be rejected as fundamentally wrong.
اب کتنا صاف ظاہر ہے کہ جماعت ِ احمدیہ تو ہر طرح مسلم لیگ کے موقف کی تائید کر رہی ہے۔
اور جب اس کمیشن کے ایک جج جسٹس تیجا سنگھ صاحب نے سوال پوچھا
What is the position of the Ahmadiyya community as regards Islam
احمدیہ جماعت کا اسلام سے کیا تعلق ہے یا ان کی مسلمان ہونے کے بارے میں کیا پوزیشن ہے؟
تواس پر جماعت ِ احمدیہ کے نمائندہ مکرم شیخ بشیر احمد صاحب نے اس کا جو جواب دیا اس کا پہلا جملہ یہ تھا
They claim to be Mussalmans first and Mussalmans last. They are part of Islam.
یعنی وہ شروع سے لے کر آخر تک مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور وہ اسلام کا حصہ ہیں۔
ان چندمثالوں سے یہ صاف نظر آتا ہے کہ یہ الزام بالکل غلط ہے کہ باؤنڈری کمیشن میں احمدیوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ گروہ کے طور پر پیش کیا تھا۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ باؤنڈری کمیشن کی کارروائی کا مکمل ریکارڈ تو حکومتِ پاکستان کی اپنی تحویل میں تھا اور بعد میں جب حکومتِ پاکستان نے یہ کارروائی شائع کی تو یہ بات روز ِ روشن کی طرح ثابت ہو گئی کہ۱۹۷۴ء کی کارروائی میں اٹارنی جنرل صاحب نے ایک انگریزی جریدہ کے حوالہ سے جو الزام لگایا تھا وہ بالکل غلط تھا ۔اور انہیں اس بات کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی کہ وہ اس مسئلہ پر ایک غیر معروف انگریزی جریدہ کا حوالہ پیش کریں،اصل کارروائی تو ان کی حکومت کی اپنی تحویل میں تھی جس کا سرسری مطالعہ ہی اس بات کو ظاہر کر دیتا کہ یہ الزام غلط ہے۔یا تو اٹارنی جنرل صاحب اور ان کی ٹیم قومی اسمبلی اور قوم کو غلط حقائق پیش کر کے عمداََ دھوکہ دے رہے تھے یا پھر انہیں حقائق کی کچھ خبرنہ تھی اور شاید اس سے کوئی دلچسپی بھی نہیں تھی۔
ایک اور دلچسپ بات تو یہاں درج کرنی مناسب ہو گی وہ یہ ہے کہ جب ہم نے صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب سے انٹرویو کیا تو انہوں نے کہا کہ باؤنڈری کمیشن میں چوہدری ظفراللہ خان صاحب سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں ۔تو چوہدری صاحب نے کہا کہ باقی مسلمان ہمیں مسلمان نہیں سمجھتے قادیانی کہتے ہیںاور گورداسپور اسی لئے گیا تھا۔
یہاںہم بڑے ادب سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اب یہ تمام کارروائی شائع ہو چکی ہے اور ایک ایک لفظ شائع ہوا ہے۔اس طرح کا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں تھااور یہ سوال حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب سے ہونا ہی کیوں تھا۔وہ تو مسلم لیگ کا کیس پیش کر رہے تھے۔ جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے مسلم لیگ کے ایماء پر تو شیخ بشیراحمد صاحب پیش ہوئے تھے اور ان سے اس قسم کا سوال جسٹس تیجا سنگھ صاحب نے کیا تھا اور اس کا جو جواب انہوں نے دیا تھا وہ ہم نقل کر چکے ہیں۔اس مثال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کارروائی کے دوران اربابِ حل و عقد ان موضوعات کے متعلق بنیادی حقائق سے بھی بے خبر تھے ،جن کے متعلق سوالات کئے جا رہے تھے۔اور یہ صورت ِ حال اس لئے بھی زیادہ افسوسناک ہو جاتی ہے کہ یہ ریکارڈ حکومت کی تحویل میں تھا اور کسی نے حقائق جاننے کی کوشش بھی نہیں کی۔اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ صرف غیر سنجیدہ انداز میں سوالات کئے جا رہے تھے۔
اب ہم اُس دوسرے الزام کا جائزہ لیتے ہیںجو Impactکے اس شمارے میں جماعت پرلگایا گیا تھا۔ اور وہ یہ تھا:
Many allege a Qadiani role in the breakup of Pakistan. Suggestion to this effect were made even in the correspondence column of Bangladesh observer.Given this background the recent eruption of widespread disturbance should come as no surprise but it is deplorable too.
یعنی اٹارنی جنرل صاحب جس جریدہ کی بیساکھیوں کا سہارا لے کر جماعت ِ احمدیہ کے خلاف یہ الزامات پڑھ رہے تھے،اس کے مطابق بہت سے لوگوں کے مطابق چند سال پہلے پاکستان ٹوٹا تھا اور مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا تھا تو اس کی ذمہ دار بھی احمدی تھے ۔اور اس پس منظر میں اگر احمدیوں کے خلاف موجودہ فسادات شروع ہو گئے ہیں تو یہ بات قابلِ حیرت نہیں ،اگرچہ قابلِ مذمت ضرور ہے۔
ہم یقیناََ اس بات سے متفق ہیں کہ سقوط ِ ڈھاکہ کا سانحہ اور پاکستان کا دو لخت ہو جانا ایک بہت بڑا سانحہ تھا ۔اور جو گروہ بھی اس کا ذمہ دار تھا اس کو سزا ملنی چاہئے تھی۔لیکن ہم ایک بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب سانحہ ہو چکا تھا تو اس کے معاََ بعد ملک میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہو گئی تھی۔ اور اٹارنی جنرل صاحب اسی پارٹی کی حکومت کی نمائندگی کر رہے تھے اور اسمبلی کی اکثریت کا تعلق بھی اس پارٹی سے تھا۔جیسا کہ توقع تھی حکومت نے ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۱ء کو جب کہ ابھی مشرقی پاکستان میں شکست کو ایک ماہ بھی نہیں ہوا تھا ایک کمیشن قائم کیا تاکہ وہ اس سانحہ کے ذمہ دار افراد کا تعین کرے۔اس کمیشن کی سربراہی پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس حمود الرحمن صاحب کر رہے تھے۔ حمود الرحمن صاحب کا تعلق بنگال سے تھا۔پنجاب اور سندھ کے چیف جسٹس صاحبان اس کمیشن کے ممبر تھے اور عسکری پہلوؤں کے بارے میں مدد دینے کے لیے مکرم لیفٹیننٹ جنرل الطاف قادر صاحب مقرر کئے گئے۔اس کمیشن نے تمام واقعات کی تحقیق کر کے ۸ ؍جولائی ۱۹۷۲ء کو اپنی رپورٹ حکومت کے حوالے کر دی تھی ۔یعنی اسمبلی کی اس کمیٹی کے کام شروع کرنے سے دو سال قبل حکومت کے پاس یہ رپورٹ پہنچ چکی تھی کہ سانحہ مشرقی پاکستان کا ذمہ دار کون تھا۔اور اٹارنی جنرل صاحب جس حکومت کی نمائندگی کر رہے تھے وہ بخوبی جانتی تھی کہ مجرم کون کون تھا۔مگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر حکومت نے یہ رپورٹ شائع نہیں کی اور ۱۹۷۴ء میں یہ رپورٹ منظرِ عام پر نہیں آئی تھی۔اور چند دہائیوں بعد یہ رپورٹ جو کہ خفیہ رکھی گئی تھی پاکستان کی حکومت کی مستعدی کے باعث بھارت پہنچ گئی اور وہاں شائع ہو گئی اور اس کے بعد پھر حکومت ِ پاکستان بھی اس رپورٹ کو منظر عام پر لے آئی۔
اب ہم رپورٹ کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا اس میں یہ لکھا ہے کہ احمدی اس ملک کو دو لخت کرنے کے ذمہ دار تھے؟ہر گز نہیں ۔اس رپورٹ میں کہیں جماعت ِ احمدیہ پر یہ مضحکہ خیز الزام نہیں لگایا گیا۔اس رپورٹ میں اس سانحہ کا سب سے زیادہ ذمہ دار اس وقت کی حکومت ِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل یحییٰ خان صاحب اور ان کے ساتھی جرنیلوں کو قرار دیا تھا۔اور یہ سفارش کی تھی ان پر مقدمہ چلایا جائے۔اور اس رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ پاکستان کی افواج کی ہائی کمان نہ حالات کا صحیح تجزیہ کر پا رہی تھی اور نہ انہیں صحیح طرح ملک کو درپیش خطرات کا کوئی اندازہ تھا اور نہ افواج جنگ کرنے کے لیے کسی طور پرتیار تھیں۔مالی بد عنوانی کے الزامات اور غیر آئینی طریقوں سے اقتدار حاصل کرنے کے شواہد سامنے آئے تھے۔دورانِ جنگ مجرمانہ غفلت کی نشاندہی کی گئی۔آپریشن کے دوران مشرقی پاکستان میں قتل و غارت اور دیگر مظالم کی نشاندہی کی گئی۔اور حکومت سے کمیشن نے یہ بھی کہا کہ ان امور پر تفصیلی تحقیقات بلکہ کھلا مقدمہ چلایا جائے اور قصوروار افراد کو سزا دی جائے۔اور اس کمیشن نے اس رپورٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین پر بھی تنقید کی تھی کہ انہوں نے کیوں اسمبلی کے اجلاس سے بائیکاٹ کیا اور کہا کہ وہ مغربی پاکستان سے کسی کو ڈھاکہ میں اسمبلی کے اجلاس میں شامل نہیں ہونے دیں گے۔اور اس بات پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے چیئر مین نے اُدھر تم اِ دھر ہم کا نعرہ کیوں لگایا تھا۔ان عوامل کی وجہ سے آئینی طریقوں کے راستے بند ہو گئے اور حالات بگڑتے گئے۔
یہ رپورٹ حکومت کے حوالے کی گئی لیکن حکومت نے اس رپورٹ کو خفیہ رکھا اور عوام کو ان حقائق سے لا علم رکھا۔اور اس رپورٹ کی سفارشات کے مطابق ذمہ دار افراد کے خلاف مقدمات بھی نہیں چلائے گئے اور نہ ہی انہیں کوئی سزا دی گئی۔بلکہ اس رپورٹ میں جن افراد کو ذمہ دار قرار دیا گیا تھا کہ انہوں نے اقتدار حاصل کرنے اور اسے دوام بخشنے کے لیے غیر قانونی ذرائع اختیار کیے اور رشوت ستانی سے بھی کام لیا ،ان میں سے ایک کو پیپلز پارٹی کی حکومت نے فوج کا نیا سربراہ مقرر کر دیا۔ جیسا کہ کمیشن نے پہلے سفارش کی تھی جب وہ جرنیل جو جنگی قیدی بنے ہوئے تھے ملک واپس آگئے تو حکومت نے اس کمیشن کو دوبارہ کام شروع کرنے کا کہا تاکہ ان سے تحقیقات کر کے رپورٹ کے نا مکمل حصہ کو مکمل کیا جائے۔چنانچہ جب باقی جرنیل قید سے ملک واپس آگئے تو اس کمیشن کا دوبارہ احیاء کیا گیا کہ تاکہ تحقیقات مکمل کر لی جائیں۔یہ حکم ۲۵؍ مئی ۱۹۷۴ء کو جاری ہوتا ہے اور چند روز بعد ہی جماعت کے خلاف فسادات شروع ہو جاتے ہیں یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ شروع کرا دیئے جاتے ہیں۔اور اسمبلی کی اس سپیشل کمیٹی کی کارروائی کے دوران اٹارنی جنرل صاحب اس جریدہ کے حوالے سے یہ الزام سامنے لا رہے ہیں کہ ملک کو دو لخت کرنے کی ذمہ داری احمدیوں پر عاید ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف یہ فسادات شروع ہوئے ہیں۔جب کہ ارباب ِ حکومت جانتے تھے کہ یہ الزام جھوٹا ہے۔وہ صرف لا یعنی الزامات عائد کر کے دھوکا دینے کی کوشش کر رہے تھے۔اور حقائق پاکستان کے عوام سے پوشیدہ رکھے جا رہے تھے۔
ہاں جہاں تک جماعت ِ احمدیہ سے تعلق رکھنے والے جنرل یعنی جنرل افتخار جنجوعہ صاحب کا تعلق تھا تو یہ پاکستان کی تاریخ کے واحد جنرل تھے جنہوں نے دورانِ جنگ جامِ شہادت نوش کیا اور کسی جرنیل کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی اور اس رپورٹ سے یہ واضح طو ر پر نظر آتا ہے کہ اس جنگ کے دوران ان میں سے اکثر اس سعادت کے لیے مشتاق بھی نہیں تھے۔اور حمود الرحمن رپورٹ میں جہاں باقی اکثر جرنیلوں پر شدید تنقید کی گئی ہے اور انہیں مجرم قرار دیا گیا ہے وہاں جنرل افتخار جنجوعہ شہید کے متعلق اس رپورٹ میںA capable and bold commanderکے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔اور کسی جرنیل کے متعلق یہ الفاظ استعمال نہیں کیے گئے۔ہاں ان کی کارکردگی کا بھی ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے اور اس میں بھی بعض امور کی نشاندہی کی گئی ہے ۔لیکن فرق دیکھیں کہ باقی جرنیلوں پر یہ تنقید کی گئی کہ وہ لڑنے کے لیے تیار ہی نہیں تھے انہوں نے موجود وسائل کا بھی صحیح استعمال نہیں کیا،وہ قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔وہ مرکزی کمان کو بھی غیر ضروری طور پر سیاہ تصویر دکھاتے رہے ،اپنے فرائض چھوڑ کر چلے گئے وہاں جنرل جنجوعہ شہید پر یہ تبصرہ کیا گیا کہ انہیں جس علاقہ پر قبضہ کرنے کا کہا گیا تھا وہ اس سے زیادہ علاقہ پر قبضہ کرنے کے لیے کوشاں تھے اور جی ایچ کیو کو چاہئے تھا کہ انہیں اس سے روکتا اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بجائے علاقہ دشمن کے حوالہ کرنے کے دشمن کے علاقہ پر قبضہ کیا تھا ۔فرق صاف ظاہر ہے۔(۵۹)
اس حب الوطنی کا صلہ احمدیوں کو یہ دیا گیا کہ قومی اسمبلی میں یہ الزام لگایا گیا کہ ملک کو دو لخت کرنے کے ذمہ دار احمدی تھے۔جب کہ اس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق بھی جسے خود حکومت نے قائم کیا تھا اس الزام کو صرف ایک تیسرے درجہ کا جھوٹ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے دو ایسے اعتراضات کیے جو ایک طویل عرصہ سے مخالف مولویوں کی طرف سے کیے جاتے ہیں۔اور وہ یہ کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی بعض تحریروں میں حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت حسین ؓ کی توہین کی ہے۔اور اس نام نہاد الزام کو ثابت کرنے کے لیے وہ توڑ مروڑ کر یا سیاق وسباق سے علیحدہ کر کے بعض تحریروں کے حوالے پیش کرتے ہیں۔ہم یہاں پر ان دو مقدس ہستیوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چند تحریروں کے اقتباسات پیش کرتے ہیں،جس سے اس الزام کی قلعی کھل جاتی ہے۔اور زیادہ بحث کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک اشتہار میں تحریر فرمایا:۔
’’اس بات کو ناظرین یاد رکھیں کہ عیسائی مذہب کے ذکر میں ہمیں اسی طرز سے کلام کرنا ضروری تھا جیسا کہ وہ ہمارے مقابل پرکرتے ہیں۔عیسائی لوگ درحقیقت ہمارے اس عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتے جو اپنے تئیں صرف بندہ اور نبی کہتے تھے اور پہلے نبیوں کو راستباز جانتے تھے اور آنے والے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر سچے دل سے ایمان رکھتے تھے اور آنحضرت ﷺ کے بارے میں پیشگوئی کی تھی بلکہ ایک شخص یسوع نام کو مانتے ہیںجس کا قرآن میں ذکر نہیں اور کہتے ہیں کہ اس شخص نے خدائی کا دعویٰ کیا اور پہلے نبیوں کو بٹمار وغیرہ ناموں سے یاد کرتا تھا۔یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ شخص ہمارے نبی ﷺ کا سخت مکذب تھا اور اس نے یہ بھی پیشگوئی کی تھی کہ میرے بعد سب جھوٹے ہی آئیں گے۔سو آپ لوگ خوب جانتے ہیں ،کہ قرآن شریف نے ایسے شخص پر ایمان لانے کے لئے ہمیں تعلیم نہیں دی۔۔۔‘‘ (۶۰)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف تحفہ قیصریہ میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’اس نے مجھے اس بات پر بھی اطلاع دی ہے کہ درحقیقت یسوع مسیح خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہے۔اور ان میں سے ہے جو خدا برگزیدہ لوگ ہیں۔اور ان میں سے ہے جنکو خدا اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ۔اوراپنے نور کے سایہ کے نیچے رکھتا ہے۔لیکن جیسا کہ گمان کیا گیا ہے خدا نہیں ہے۔ہاں خدا سے واصل ہے اور ان کاملوں میں سے ہے جو تھوڑے ہیں۔‘‘(۶۱)
’’اور مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابنِ مریم کی عزت نہیں کرتا بلکہ مسیح تو مسیح میں تو اس کے چاروں بھائیوں کی بھی عزّت کرتا ہوں ۔کیونکہ پانچوں ایک ہی ماں کے بیٹے ہیں ۔نہ صرف اسی قدر بلکہ میں تو حضرت مسیح کی دونوں حقیقی ہمشیروں کو بھی مقدسہ سمجھتا ہوں ۔کیونکہ یہ سب بزرگ مریم بتول کے پیٹ سے ہیں۔‘‘(۶۲)
ان حوالوں سے یہ بات روز ِ روشن کی طرح واضح نظر آتی ہے کہ یہ الزام بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ ؑ کی توہین کی ہے یا آپ کے احترام کا خیال نہیں رکھا۔اور حضرت حسین ؓ کے بلند مقام کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کا فتویٰ ہے:۔
’’۔۔۔ہم اعتقاد رکھتے ہیں ۔کہ یزید ایک نا پاک طبع دنیا کا کیڑاا ور ظالم تھا ۔اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے ۔وہ معنے اس میں موجود نہ تھے ۔۔۔۔۔دنیا کی محبت نے اس کو اندھا کر دیا تھا ۔مگر حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا۔اور بلا شبہ ان برگزیدوں سے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے۔اور اپنی محبت سے مامور کر دیتا ہے۔ اور بلا شبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے ۔اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلبِ ایمان ہے اور اس امام کا تقویٰ اور محبت اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے۔۔اور ہم اس معصوم کی ہدایت کی اقتدا کرنے والے ہیں۔جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے۔اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میںاس کی محبت ظاہر کرتا ہے۔اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے۔جیسا کہ ایک صاف آئینہ ایک خوب صورت انسان کا نقش ۔یہ لوگ دنیاکی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔کون جانتا ہے ان کی قدر مگر وہی جو انہی میں سے ہے۔کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں۔یہی وجہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی تھی۔کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔‘‘(۶۳)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر تو ہم نے دیکھ لی کہ یزید کو ہم مومن نہیں کہہ سکتے۔اور اس کے برعکس جماعت احمدیہ کی مخالفت کرنے والے علماء کے خیالات کی ایک مثال پیش ہے۔دیوبند کے مشہور مولوی رشید احمد گنگوہی صاحب سے جب پوچھا گیا کہ یزید کو کافر کہنا اور لعن کرنا جائز ہے یا نہیں تو انہوں نے فتویٰ دیا کہ جب تک کسی کا کفر پر مرنا متحقق نہ ہو جائے اس پر *** کرنا نہیں چاہئے، جو علماء اس میں تردد رکھتے ہیں کہ اول میں وہ مومن تھا اس کے بعد اُن افعال کا وہ مستحل تھا یا نہ تھا اور ثابت ہوا یا نہ ہوا تحقیق نہیں ہوا(۶۴) ۔ البتہ بعض شیعہ کتب جو حضرت حسینؓ کی شان بیان کرتے ہوئے بعض نا مناسب باتیں تحریر ہیں جماعت ِ احمدیہ ان سے اتفاق نہیں کرتی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کا رد بھی فرمایا ہے۔مثلاََ بعض شیعہ کتب میں تو یہ بھی لکھا ہے حضرت حسینؓ کی ولادت سے کئی ہزار برس قبل حضرت آدم ؑ نے جب عرفات میں دعا کی تو پنجتن کا واسطہ دیا اور جب یہ واسطہ دیتے ہوئے حضرت حسین کا نام لیا تو آپ کے آنسو نکل آئے۔شبِ معراج کے دوران خود آنحضرت ﷺ نے حضرت حسین کا گریہ فرمایا ،جب حضرت نوحؑ کا سفینہ کربلا کے اوپر سے گزر رہا تھا تو اسے جھٹکا لگا اور حضرت نوحؑ روئے،بساطِ سلیمانی جب کربلا کے اوپر سے گزری تو اسے چکر آگیا۔قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے(الانعام: ۷۶) یعنی ’’اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت (کی حقیقت )دکھاتے رہے تا کہ (وہ) مزید یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے۔‘‘اس کی تفسیر میں شیعہ کتب میں لکھا ہے کہ جب اس دوران حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت حسینؓ کی شبیہ دیکھی تو گریہ شروع کر دیا۔اور جب عیسیٰ ؑ نے حواریوں کے درمیان کربلا کا ذکر کیا اور سب رونے لگے اور حضرت موسیٰؑ جب کوہ ِ طور پر گئے تو حضرت حسینؓ کی وجہ سے بار بار روئے(۶۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریروںمیں اور اشعار میں اس قسم کے عقائد کا کما حقہ رد فرمایا ہے۔
جب اٹارنی جنرل صاحب کے اعتراض کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے حضرت امام حسینؓ کی شان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ تحریر پڑھنی شروع کی جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے تو یہ صورت ِ حال ان ممبران کے لیے نا قابلِ برداشت ہو گئی جو ان خیالات میں غرق تھے کہ وہ جو کچھ کہیں گے اس کو بغیر کسی بحث کے قبول کر لیا جائے گا۔سب سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے رکنِ اسمبلی عبد العزیز کھڑے ہوئے۔وہ اس وقت تو خاموش بیٹھے رہے جب کچھ نا مکمل حوالوں کو پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی حضرت امام حسینؓ کی توہین کی گئی لیکن جب حضرت امام حسین کی شان میں حوالے پڑھے گئے تو انہوں نے فوراََ یہ مہمل اعتراض کیا کہ اگر مرزا صاحب جو حوالہ پڑھ رہے ہیں اگر وہ کہیں شائع ہوا ہے تو وہ پڑھ سکتے ہیں۔لیکن اگر خالی یہاں بیٹھ کر اس سوال کے جواب میں وہ کچھ پڑھنا چاہتے ہیں تو شاید قواعد کی رو سے اس کی اجازت نہیں ہے۔شاید سپیکر صاحب بھی اس اعتراض کا سر پیر سمجھ نہیں پائے اور انہوں نے ممبر صاحب کو کہا کہ وہ بعد میں اٹارنی جنرل صاحب سے اس بابت بات کر سکتے ہیں۔اٹارنی جنرل صاحب بھی اس جواب سے کچھ خوش معلوم نہیں ہوتے تھے انہوں نے کہا کہ’’ قاعدہ یہ ہے کہ ایک گواہ زبانی گواہی دیتا ہے وہ کسی سوال کے جواب میں پہلے سے تیار شدہ تحریر نہیں پڑھ سکتا ۔‘‘
اب یہ ایک عجیب اعتراض تھا کہ وہ نا مکمل حوالے پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں نعوذ با للہ حضرت حسینؓ کی توہین کی ہے۔جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے حضرت امام حسین ؓ کی شان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حوالہ پڑھنا شروع کیا تو یہ عجیب نکتہ ا ٹھا یا گیا کہ گواہ تحریر نہیں پڑھ سکتا۔اب اس موضوع پر جب بحث ہو رہی ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس ضمن میں حوالہ نہیں پڑھا جا سکتا تواور کیا کیا جا سکتا ہے۔اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا
‏I can quote the quotation
یعنی کہ میں ایک تحریر کا حوالہ پڑھ سکتا ہوں۔بہر کیف اس مرحلہ پر سپیکر صاحب نے مداخلت کی اور کہا کہ آپ کسی تحریر سے اپنی یاداشت کو تازہ کر سکتے ہیں۔پھر جاکر یہ حوالہ مکمل پڑھا گیا۔اب یہ ایک عجیب اعتراض تھا جو ایک ایسے ممبر کی طرف سے کیا گیا تھا جو خود وکیل تھا۔یہ ٹھیک ہے کہ عدالت میں ایک گواہ ایک تیار شدہ Statementنہیں پڑھ سکتا لیکن یہ ایک حوالہ تھا ۔جب جماعت کی طرف ایک غلط بات منسوب کی جا رہی تھی اور اس الزام کی تائید میں نا مکمل یا غلط حوالے پڑھے جا رہے تھے تو جماعت ِ احمدیہ کا وفد اپنے صحیح عقائد کو ظاہر کرنے کے لیے متعلقہ حوالہ کیوں نہیں پڑھ سکتا؟
اس روز کی کارروائی کی دو اہم باتیں قابلِ ذکر ہیں۔شام کو ایک بار پھر سوالات اٹھانے والی ٹیم کو ان حوالہ جات کو پیش کرنے میں دشواری پیش آنے لگی جن کو وہ خود بطور دلیل پیش کر رہے تھے۔وہ جو حوالہ جات تیار کر کے آئے تھے وہ وقت پر مل نہیں رہے تھے۔سپیکر صاحب نے ایک مرتبہ پھر ہدایت دی کہ جو حوالہ اٹارنی جنرل صاحب پڑھ رہے ہوں اس کے متعلقہ صفحہ پر متعلقہ عبارت کو Underlineکر کے ان کے آگے رکھا جائے۔اغلباََ خفت کو کم کرنے کے لیے شاہ احمد نورانی صاحب نے یہ مہمل سی وضاحت پیش کی:۔
’’میرے خیال میں تھوڑی سی Misunderstandingہوئی ہے۔آپ اس پر غور فرما لیں کہ انہوں نے جو یہاں کتابیں رکھی ہوئی ہیں یہ وہ ہیں جوربوہ کی چھپی ہوئی ہیں اور ان پر نشان لگا ہوا ہے۔جن کتابوں میں سے حوالے دیئے گئے ہیںوہ ان کی اپنی ذاتی ہیں۔‘‘
اب یہ عجیب وضاحت تھی۔سوال کرنے والے جن کتابوں سے حوالے پیش کر رہے تھے وہ انہوں نے خود تو شائع نہیں کی تھیں ۔وہ بھی تو جماعت کی شائع کی ہوئی تھیں۔اور وہ ان کو بھی کارروائی کے دوران پیش کر سکتے تھے۔اب سپیکر صاحب نے جواب دیا
‏The books are available for last two days
یعنی دو دن سے یہ کتابیں یہاں پر دستیاب ہیں۔اور ظاہر ہے کہ جب دو دن سے یہ کتب وہاں پر موجود تھیں۔جس کتاب کی جس جگہ سے حوالہ پیش کرنا مقصود تھا اس پر نشان لگا کر پیش کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔
اس پر نورانی صاحب فرمانے لگے’’چھاپے خانے کا فرق ہوتا ہے‘‘۔اب ظاہر ہے کہ اگر ایک ایڈیشن کا حوالہ دیا جائے گا اور دوسرے ایڈیشن کی کتاب ڈھونڈ کر اس صفحہ پر حوالہ ڈھونڈا جائے گا تو اس خفت کو تو بھگتنا پڑے گا۔اس لئے حوالہ دیتے وقت یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ حوالہ کس ایڈیشن سے نوٹ کیا گیا ہے اور سامنے کون سا ایڈیشن پڑھا ہے۔اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا حوالہ دیتے ہوئے تو یہ مشکل ہونی ہی نہیں چاہئے تھی کیونکہ جب روحانی خزائن کے نام سے کتب کا مجموعہ شائع ہوا تو اس میں پہلے ایڈیشن کے صفحات بھی ایک طرف لکھے ہوئے ہوتے تھے۔لیکن حقیقت یہ تھی کہ یہ مختلف ایڈیشن کا معاملہ نہیں تھا حوالے ویسے ہی غلط پیش کئے جا رہے تھے۔اور یہ سمجھ میں نہیں آتی کہ اتنے غلط حوالے پیش کرنے کی نوبت کیسے آئی ۔سپیکر صاحب کی جھنجلاہٹ جاری تھی وہ کہنے لگے
‏You should check it up
یعنی آپ کو چاہئے کہ اسے چیک کریں۔
اس مرحلہ پر سپیکر نے اعلان کیا کہ اب تک کے لیے اتنا ہی کافی ہے ۔ہم چھ بجے دوبارہ کارروائی شروع کریں گے۔جب حضور انور اراکینِ وفد کے ہمراہ ہال سے تشریف لے گئے تو سپیکر نے اراکین ِ اسمبلی کو رکنے کا کہا۔اور ایک بار پھر حوالہ جات کو نہ ملنے کے مسئلہ پر بات شروع کی۔ابھی انہوں نے جملہ مکمل نہیں کیا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب نے کہا۔
’’ایڈیشن جو پڑھے ہیں اس میں اور حوالہ جات ہیں اور وہاں کچھ اور ہیں ان میں نہیں ہیں ۔‘‘
جیسا کہ پہلے وضاحت کی جا چکی ہے یہ بالکل بودا عذر تھا۔
اب سپیکر صاحب کا پیمانہ صبر لبریز ہو رہا تھا۔انہوں نے کہا:
‘‘It takes about ten fifteen minutes to dig out a reference.’’
یعنی ایک حوالہ تلاش کرنے میں تقریباََ دس پندرہ منٹ لگ جاتے ہیں
اور پھر کہا :
‘‘Now after the adjournment those members who have given references in thier questions should arrange the referenced books properly. The change of edition is no excuse’’
یعنی اب وقفہ کے بعدوہ ممبران جنہوں نے اپنے سوالات میں حوالے دیئے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ جس کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے اس کا انتظام کرکے رکھیں ۔ایڈیشن کی تبدیلی کوئی عذر نہیں ہے۔
اور پھر کہا
اگر آپ نے اپنا کام دکھانا ہے تو وہ حوالہ جات تلاش کر کے دیں ۔یہ نہیں کہ تلاش کرنے میں آ دھا گھنٹہ لگ جائے۔Or you sayیہ Reference نہیں ہے۔یہ غلط دیا ہے۔کتاب نہیں ہے۔یہExist نہیں کرتا۔‘‘
اب سپیکر صاحب کا غصہ صاف نظر آ رہا تھا کہ اس اہم کارروائی میں ابھی تک سوال کرنے والے صحیح طریق پر حوالے تک پیش نہیں کر پا رہے ۔اور اسی کشمکش میں وقت ضائع ہو رہا تھا۔اور جب ایک ممبر نے کہا کہ جو اس کام سے واقف ہیں یہ ان کا فرض ہے۔اس پر سپیکر صاحب نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ نہیں یہ سب کا فرض ہے۔
یہ کارروائی ان ممبران کی امیدوں کے بالکل بر عکس جا رہی ہے۔اس کا اندازہ اس سیشن کے آخری تبصرہ سے لگایا جا سکتا ہے ۔یہ تبصرہ ممبر اسمبلی عبد الحمید جتوئی صاحب کا تھا انہوں نے کہا :
’’دوسرے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ اٹارنی جنرل صاحب جب ان سے سوالات پوچھتے ہیں۔ تو یہ پہلے سے ان کے پاس لکھا ہوا موجود ہوتا ہے۔میرا اندازہ ہے یہ سوالات Leak out ہوئے ہیں۔یہ کیسے ہوئے ہیں یہ آپ خود اندازہ لگائیں ۔۔۔۔اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہاؤس کے ممبران میں سے یا کہیںسے ایسا ہوتا ہے۔کون کرتا ہے وہ آپ بہتر جانتے ہیں۔‘‘
حقیقت یہ تھی کہ جو اعتراضات ممبرانِ کمیٹی کی طرف سے بالخصوص جماعت کے مخالفین کی طرف سے پیش کیے جا رہے تھے،وہ وہی تھے جو تقریباََ ایک صدی سے جماعت ِ احمدیہ پر کیے جا رہے تھے۔ اوراس وقت سے ہی ان کا تسلی بخش جواب دیا جا رہا تھا۔اور ان کا جواب ممبرانِ وفد نے پہلے سے ہی تیار کیا ہوا تھا۔نئی بات یہ تھی کہ جتنے غلط حوالے اب پیش کیے جا رہے تھے،شاید ہی پہلے مسلسل اتنے غلط حوالے پیش کیے گئے ہوں۔
پھر جب اس روزکی کارروائی ختم ہو رہی تھی تو ایک رکن حکیم سردار محمد صاحب نے اس امر کی نشاندہی کی کہ اس سب کمیٹی کے سامنے اصل سوال تو یہ تھا کہ جو نبیِ اکرم ﷺ کو آخری نبی نہیں مانتا اس کی اسلام میں حیثیت کیا ہے؟اور اس نکتے کو ابھی تک چھوا بھی نہیں گیا۔اب یہ بڑی اہم چیز کی نشاندہی کی جا رہی تھی۔یعنی اس کا مطلب یہ تھا کہ دو روز کی طویل بحث کے بعد ابھی تک اصل موضوع پر بات شروع بھی نہیں ہوئی تھی۔اور اس کے جواب میں سپیکر صاحب نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ ایسا نہیں اور نہ کسی اور ممبر نے یہ کہا کہ نہیں ہم تو مقرر کردہ موضوع کے متعلق بحث کرتے رہے ہیں۔سپیکر صاحب نے مختصراََ یہ کہا کہ
It will be taken up. It will be taken up at the proper time
یعنی یہ اس بات کا عتراف تھا کہ طویل کارروائی ہو چکی ہے لیکن ابھی تک اصل موضوع پر بات شروع بھی نہیں ہوئی تھی اور سپیکر صاحب فرما رہے تھے کہ جب صحیح وقت آئے گا تو اس موضوع پر بات شروع ہو گی۔اس سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ قومی اسمبلی پر مشتمل سپیشل کمیٹی اصل موضوع پر بحث کے معاملے میں خود کو پر اعتماد نہیں محسوس کر رہے تھے۔
اب اسمبلی میں ان ممبران کی پریشانی بڑھ چکی تھی جو جماعت سے بغض رکھتے تھے۔کارروائی ان کی امیدوں کے بر عکس جا رہی تھی ۔ان کی نفسیاتی الجھن یہ تھی کہ وہ اعتراض تو کر بیٹھتے تھے لیکن جب جواب شروع ہوتا تو انہیں اپنی خفت سامنے نظر آرہی ہوتی تھی۔چنانچہ کارروائی کے اختتام کے قریب جب حضور اور جماعت کا وفد باہر جا چکا تھا مولوی ظفر احمد انصاری صاحب نے سپیکر سے درخواست کی
’’جناب ِ والا میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے جو تحریری بیان دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے اسکی حوصلہ افزائی نہ کی جائے۔یہ محضر نامے میںکافی طویل جواب دے چکے ہیں ۔اس لئے جہاں تک ہو سکے ہم ان کوDiscourageکریںتا کہ یہ لامتناہی سلسلہ ختم ہو جائے۔ اب اس کی ضرورت نہیں۔‘‘
ان الفاظ پر زیادہ تبصرہ کی ضرورت نہیں۔جماعت ِ احمدیہ نے ایک مختصر سا محضر نامہ پیش کیا تھا، اسے کسی طرح بھی طویل نہیں کہا جا سکتا۔۵؍ اگست کو کارروائی شروع ہوتی ہے اور ۷؍ اگست کو مولوی صاحب کو خیال آنے لگ جاتے ہیں کہ یہ تو بہت طویل ہو گئی ہے۔حالانکہ اس کے بعد بھی کئی روز کارروائی جاری رہی۔اصل بات تو یہ تھی کہ وہ جوابات سے خفت محسوس کر رہے تھے اور اپنی جان چھڑانا چاہتے تھے۔لیکن اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ گواہ زیادہ سے زیادہ بولے کیونکہ جتنا وہ زیادہ بولے گا اتنا ہی اس کے بیان میںContradiction آئے گی۔ان کی خوش فہمی کس حد تک بجا تھی۔میرا نہیں خیال کہ اس کارروائی کو پڑھنے والے کو اس بارے میں خود فیصلہ کرنے میں کوئی دشواری پیش آئے گی۔
۸؍ اگست کی کارروائی
۸؍ اگست کو کارروائی شروع ہونے سے قبل سپیکر صاحب نے اس عندیہ کا اظہار کیا کہ یہ کارروائی ۱۳؍ اگست تک چلے گی اور ۱۴؍ اگست کو قومی اسمبلی کی نئی عمارت کا سنگ ِ بنیاد رکھنے کا پروگرام ہے۔ہم پہلے یہ ذکر کر چکے ہیں کہ پہلے سپیکر صاحب نے کہا تھا کہ یہ سلسلہ دو تین دن جاری رہ سکتا ہے لیکن اب یہ کہا گیا تھا کہ یہ کارروائی ۱۳ ؍اگست تک جاری رہے گی۔اس کے بعد عملاََ یہ کارروائی اس سے بھی آگے تک جاری رہی۔اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ سوال کرنے والے جانتے تھے کہ انہیں اب تک عملاً کامیابی حاصل نہیں ہوئی لیکن وہ محسوس کرتے تھے کہ اگر یہ کارروائی اور زیادہ جاری رہے تو انہیں مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔
اگلے روز جب کارروائی شروع ہوئی تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اس اعتراض کا جواب دینا شروع کیا جو ایک روز قبل کیا گیا تھا ۔اور یہ اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس کشف پر کیا گیا تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ دکھایا گیا تھا کہ حضرت محمد ﷺ ،حضرت علی ؓ، حضرت حسنؓ، حضرت حسین ؓ اور حضرت فاطمہؓ تشریف لائے ہیں ۔(اور ان میں سے کسی ایک نے اور حضرت مسیح موعود ؑ نے تحریر فرمایا تھا کہ یاد پڑتا ہے) حضرت فاطمہؓ نے مادرِمہربان کی طرح آپ کا سر اپنی ران پر رکھا۔ اس کے بعدایک کتاب آپ کو دی گئی اور آپ کو بتایا گیا کہ یہ تفسیرِ قرآن ہے جس کو علی نے تالیف کیا ہے اور اب علی وہ تفسیرتجھے دیتا ہے۔اور اس مبارک کشف سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا کہ افاضہ انوار ِ الٰہی میں محبت اہلِ بیت کو بھی عظیم دخل ہے ۔اور جو شخص حضرتِ احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے۔وہ انہی طیبّین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے۔
اب اگر اس پاکیزہ بیان اور با برکت کشف سے کوئی غلط اور قابلِ اعتراض مطلب اخذ کرتا ہے تو سوائے اس کے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مخالف تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ اہلِ بیت کی محبت سے اس کا کوئی دو ر کا تعلق نہیںبلکہ اس کا یہ اعتراض صرف اس کے گندے ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔حضرت فاطمہؓ کو یا آنحضرت ﷺ کو اگر رؤیا میں دیکھا جائے تو یہ نہایت ہی بابرکت رؤیا ہے۔اس روز یعنی ۸ اگست کو جب کمیٹی کی کارروائی کا آ غازہوا تو حضور نے علم التعبیر کا ذکر فرمایا اور بعض حوالے سنائے مثلاََ اس میں سے ایک رؤیا حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کا تھا ۔اس میں آپ نے دیکھا تھا کہ حضرت عائشہ ؓ نے آپ کو اپنے سینے کے ساتھ لگایا ہے اور آپ نے حضرت ام المومنینؓ کا دودھ پیا ہے ۔اور حضرت رسولِ کریم ﷺمخاطب ہوتے ہیں اور فرماتے ہیںیہ یقینا ہمارا بیٹا ہے۔(۶۶)
پھر آپ نے اشرف علی تھانوی صاحب کا ایک شائع شدہ خواب سنایا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت فاطمہؓ نے انہیں اپنے ساتھ چمٹایا اور وہ اچھے ہو گئے۔حضورؒ نے اس کے علاوہ بعض اور مثالیں پڑھ کر سنائیں۔
اب اٹارنی جنرل صاحب نے جو یہ دیکھا کہ جو تاثر وہ پیدا کرنا چاہتے تھے اس سے تو الٹ نتیجہ برآمد ہو رہا ہے۔تو انہوں نے اس موضوع کو بدلنے کے لیے گفتگو کا رخ وحی کے موضوع کی طرف کیا اور کہا کہ وحی تو صرف نبیوں کو ہوتی ہے۔اب وہ ایک اور غلط بات کہہ گئے تھے۔قرآنِ کریم میں شہد کی مکھی کو بھی وحی ہونے کا ذکر ملتا ہے۔جب حضور نے اس بات کی نشاندہی فرمائی کہ وحی تو شہد کی مکھی کو بھی ہوتی ہے اور اس ضمن میں سورۃ نحل کی آیت پڑ ھنی شروع کی تو اٹارنی جنرل صاحب نے قطع کلامی کر کے ایک اور سوال کرنے کی کوشش کی تو اس پر حضور نے انہیں یاد دلایا کہ’’ میں قرآنِ کریم کی آیت پڑھ رہا ہوں۔‘‘ لیکن وہ پھر بھی نہ سمجھے کہ یہ مناسب نہیں کہ قرآنِ کریم کی آیت پڑھی جا رہی ہو اور کوئی شخص بیچ میں اپنی بات شروع کر دے ۔اٹارنی جنرل صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں اس واسطےClarificationپوچھ رہا ہوں۔اس پر حضور نے واضح کرنے کے لیے قرآنِ کریم کی وہ آیت پڑھی جس میں حضرت موسٰیؑ کی والدہ کو وحی ہونے کا ذکر ہے۔اور اٹارنی جنرل صاحب کے پاس ان ٹھوس دلائل کا کوئی جواب نہیں تھا۔
اٹارنی جنرل صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اشعار پر اعتراض کیا تھا۔ اس کے بعد حضور نے ان کا صحیح مطلب بیان فرمایا۔پھر نبی اور محدث کی اصطلاحات پر بات ہوئی۔ اس کارروائی کے دوران یہ صورتِ حال بار بار سامنے آ رہی تھی کہ سوال پیش کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک حوالہ بغیر سیاق و سباق کے پڑھ کر کوئی اعتراض اُ ٹھانے کی کوشش کی جاتی لیکن جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ تمام حوالہ پڑھتے تو اعتراض خود بخود ہی ختم ہو جاتا۔کچھ سوال کرنے والوں کی علمی حالت بھی دگر گوں تھی۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس مرحلہ پر اٹارنی جنرل صاحب نے یہ سوال اُ ٹھا دیا کہ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام شرعی نبی تھے۔حالانکہ یہ بات تو بچوں کو بھی معلوم ہے کہ حضرت عیسیٰ کوئی نئی شریعت نہیں لے کر آئے تھے۔اس مرحلہ پر اٹارنی جنرل صاحب نے جو معین جملہ کہا وہ یہ تھا
’’مرزا صاحب میں آپ سے یہ عرض کر رہا تھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ امتی نبی نہیں تھے کیونکہ اس کی اپنی شریعت آگئی۔‘‘
اب اس اسمبلی اور اٹارنی جنرل صاحب کی دینی معاملات میں یہ علمی حالت تھی کہ ان قابل حضرات کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ حضرت عیسیٰ شرعی نبی نہیں تھے بلکہ حضرت موسیٰ کی شریعت کی پیروی کرتے تھے۔ اور اس کے با وجود وہ اپنے آپ کو اس قابل سمجھتے تھے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ کون مسلمان ہے اور کون مسلمان نہیں ہے۔
اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک کشف پڑھ کر اعتراض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نعوذباللہ خدا ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔یہ کشف ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں ہی تحریر کر دیتے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف کتاب البریہ میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں اور میرا اپنا کوئی ارادہ اور کوئی خیال اور کوئی عمل نہیں رہا اور میں ایک سوراخ دار برتن کی طرح ہو گیا ہوں۔یا اس شے کی طر ح جسے کسی دوسری شے نے اپنی بغل میں دبا لیا ہو اور اسے اپنے اندر بالکل مخفی کر لیا ہو یہاں تک کہ اس کا کوئی نام و نشان باقی نہ رہ گیا ہو۔اس اثناء میں میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی روح مجھ پر محیط ہو گئی اور میرے جسم پر مستولی ہو کر اپنے وجود میں مجھے پنہا ںکر لیا۔یہاں تک کہ میرا کوئی ذرہ بھی باقی نہ رہا اور میں نے اپنے جسم کو دیکھا تو میرے اعضاء اس کے اعضاء اور میری آنکھ اس کی آنکھ اور میرے کان اس کے کان اور میری زبان اس کی زبان بن گئی تھی۔میرے رب نے مجھے پکڑا اور ایسا پکڑا کہ میں بالکل اس میں محو ہو گیا اور میں نے دیکھا کہ اس کی قدرت اور قوت مجھ میں جوش مارتی اور اس کی الوہیت مجھ میں موجزن ہے۔حضرت عزت کے خیمے میرے دل کے چاروں طرف لگائے گئے اور سلطان ِ جبروت نے میرے نفس کو پیس ڈالا۔سو نہ تو میں میں ہی رہا اور نہ میری کوئی تمنا ہی باقی رہی۔۔۔۔‘‘(۶۷)
اس پُر معرفت کشف کا بیان تو جاری رہتا ہے لیکن اتنی سی عبارت کا مطالعہ ہی اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ اس کشف میں فنا فی اللہ ہونے کا ذکر ہے ،اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھوئے جانے کا ذکر ہے،اس کشف کی تعبیر کرتے ہوئے خدائی کا دعویٰ تو اس سے کسی طرح بھی نہیںنکالا جا سکتا۔ اور یہ حقیقت کس طرح نظر انداز کی جا سکتی ہے کہ خواب اور کشف تعبیر طلب ہوتے ہیں ۔اور جب آئینہ کمالات ِ اسلام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کشف بیان فرمایا تو خود یہ امر بھی تحریر فرما دیا کہ اس کشف سے وہ عقیدہ مراد نہیں ہے جو وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے والوں کا مذہب ہے اور نہ وہ مطلب نکلتا ہے جو حلولی عقائد رکھنے والوں کا مذہب ہے بلکہ اس میں وہی مضمون بیان ہوا ہے جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے کہ ایک بندہ نوافل کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تومیں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے،اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے،اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے،اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے۔
(صحیح بخاری،کتاب الرقاق، باب التواضع)
جب اس اجلاس کی کارروائی ختم ہو رہی تھی تو پھر اٹارنی جنرل صاحب نے ایک حوالہ پڑھنے کی کوشش فرمائی۔یہ سمجھ تو بعد میں آئی کہ وہ اعتراض کیا کرر ہے ہیں لیکن پہلے ہی انہوں نے خود ہی اعلان کیا کہ انہیں صحیح طرح معلوم نہیں کہ یہ حوالہ کہاں کا ہے۔ابھی انہوں نے کچھ نامکمل سے جملے ہی پڑھے تھے جن سے صرف یہی سمجھ آتا تھا کہ اس حوالہ میں ان کے مطابق ’’خوبصورت عورت ‘‘کے الفاظ آتے تھے ۔ ‘‘کہ حضور نے فرمایا کہ ہمارے علم میں ایسا حوالہ نہیں ہے۔اس سے اٹارنی جنرل صاحب کچھ اور گڑبڑا گئے اور کہا کہ
’’نہیں اس واسطےexplanationضروری ہے۔‘‘
حضور نے فرمایا
’’نہیں چیک کریں گے ناں۔‘‘
اس پر اٹارنی جنرل صاحب کچھ اور ڈگمگا گئے اور کہا
’’اگر یہ چیز ہی نہیں تو میں آپ سے سوال نہیں پوچھوں گا۔‘‘
اس پر حضور نے فرمایا
’’ہمارے علم میں کوئی نہیں لیکن میں نے آپ کو بتایا کہ یہ نہ تسلیم کرنے کے قابل ہے ۔نہ تردید کرنے کے قابل۔ چیک کروں گا۔‘‘
پھر اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا ’’میں نے پڑھا نہیں چیک کر کے پڑھ کر سنا دوں گا۔‘‘
اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے یہ جملہ فرمایا:۔
’’خوبصورت عورت ہے۔‘‘
اب یہ عجیب صورت ِ حال تھی کہ وہ حوالہ پڑھنے کی کوشش فرما رہے تھے اور علماء کی ایک ٹیم اس کار ِ خیر میں ان کی اعانت کر رہی تھی اور ’’خوبصورت عورت‘‘کے الفاظ پر ہی سوئی اٹک گئی تھی۔اگلی عبارت برآمد ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔چنانچہ حضور نے فرمایا:
’’ہاں ہاں خوبصورت عورت ہے۔‘‘
یعنی یہ کہ اب آگے بھی پڑھو۔لیکن یہ حوصلہ افزائی بھی کارآمد ثابت نہ ہوئی اور بجائے حوالہ پڑھنے کے اٹارنی جنرل صاحب نے الٹا حضور سے دریافت فرمایا:
’’آپ کے علم میں یہ چیز نہیں ہے؟‘‘
اب یہ عجیب ہَوَنّق حرکت تھی ۔سوال اٹارنی جنرل صاحب کر رہے تھے اور حوالہ دینا ان کا کام تھا اور وہ الٹا حضور سے پوچھ رہے تھے کہ آپ کے علم میں یہ چیز ہے کہ نہیں ۔اس پر حضور نے فرمایا ۔
’’نہ ہمارے علم میں کوئی چیز ہے ،نہ ہمارے بزرگوں کے علم میںہے۔دیکھنا یہ ہے کہ کس نے یہ حوالہ بنایا ہے۔‘‘
اس کے بعد لکھا ہے کہ کچھ دیر وقفہ رہا ۔اور پھر اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا
’’اس عرصہ میں اگر وہ مجھے مل جائے۔‘‘
کارروائی ختم ہو گئی لیکن اٹارنی جنرل صاحب کو یہ حوالہ نہ مل سکا۔
خیر اس مرحلہ پر سپیکر صاحب ان کی گلو خاصی کے لیے آئے اور اعلان کیا کہ اب وقفہ ہوتا ہے ۔اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ وفد کے ہمراہ ہال سے تشریف لے گئے۔
سوا بارہ بجے اجلاس کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی۔ابھی جماعت کا وفد ہال میں نہیں آیا تھا۔ سب سے پہلے تو سپیکر صاحب نے ارشاد فرمایا کہ دروازہ بند کر دیں۔سب سے پہلے تو مولوی شاہ احمد نورانی صاحب بولے کہ پہلے ان سے (یعنی جماعت کے وفد سے )معین جواب لیا جائے۔اس کے بعد تشریح وغیرہ کریں لیکن تحریری بیان نہ ہو۔سپیکر صاحب نے انہیں تسلی دلائی تو پھر مفتی محمود صاحب نے اپنے شکوے شروع کئے۔ان کا پس منظر یہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات اور کشوف اور رؤیا پر اعتراضات اُ ٹھائے گئے تھے۔ان کے جوابات دیتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے احادیث سے بعض بزرگان کی تحریروں سے اور بعض غیر از جماعت احباب کی تحریروں سے کئی مثالیں سنائی دی تھیں کہ اس طرح کے کشف اور رؤیا تو بہت سے بزرگوں کو ہوتے رہے ہیں اور ان کی تعبیر کی جاتی ہے ۔اب عقل کی رو سے جائزہ لیا جائے تو اس طرح کے جواب پر کوئی اعتراض نہیں اُ ٹھتا بلکہ ہر صاحبِ شعور اس علمی جواب کی قدر کرے گا۔مگر عقل اور شعور اس کمیٹی میں ایک جنسِ نایاب کی حیثیت رکھتی تھی۔مفتی صاحب کا اصرار یہ تھا کہ حضور کو روکا جائے کہ جب اس طرح کا کوئی اعتراض ہو تو وہ کوئی اور مثال پیش نہ کریں ۔بھلا کیوں نہ کریں مفتی صاحب نے اس کی کوئی وضاحت نہیں کی۔مفتی محمود صاحب نے جوفرمایا وہ یہ تھا :
’’جناب والا کل بھی یہ بات ہوئی تھی کہ وہ جواب لکھ کر لاتے ہیں اور پڑھ دیتے ہیں۔ جب کسی بات کے متعلق سوال ہوتا ہے تو یہ اسی وقت سوال کر دیتے ہیں۔کشف کے متعلق سوال آیا تووہ کشف کے مقابلے میں پانچ چھ مثالیں دے دیتے ہیں کہ فلاں نے یہ دیکھا اور ان کے جرم سے ہمارا جرم کم ہو جاتا ہے۔تومیں یہ کہتا ہوں کہ وہ کوئی مثال نہ دیں۔ایک سوال پوچھا جاتا ہے تو اس کا جواب آجاتا ہے۔اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح نہ کریں۔‘‘
اب صرف اس جملہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ عجیب صورت ِ حال نظر آتی ہے کہ مفتی صاحب یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ اس کمیٹی میں جماعت ِ احمدیہ پر ہر طرح کے اعتراضات تو کیے جائیں خواہ اس کے لیے جعلی اور خود ساختہ حوالے ہی کیوں نہ پیش کرنے پڑیں لیکن جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے کوئی خاطر خواہ دفاع نہ ہو۔ یہ ان کی طبع نازک پر بہت گراں گزرتا تھا۔وہ شاید یہ امید لگائے بیٹھے تھے ان کے سوال کا کوئی جواب دیا ہی نہیں جائے گا ۔ اس کے جواب میں سپیکر صاحب نے یہ تبصرہ کیا کہ بہت سی غیر متعلقہ باتیں آرہی ہیں۔اب یہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر غیر متعلقہ باتیں کیوں آ رہی تھیں ؟وجہ یہ تھی کہ کارروائی کو تیسرا دن گزر رہا تھا اور کمیٹی سوال پر سوال کئے جا رہی تھی لیکن ابھی تک اس موضوع پر سوال شروع ہی نہیں ہوئے تھے جس کے لیے اس کمیٹی کو قائم کیا گیا تھا۔پھر نورانی صاحب نے فرمایا :
‏’’Explanationقرآن اور حدیث کی روشنی میں ہونی چاہئے۔‘‘ یہ جملہ پڑھ کر تو احساس ہوتا ہے کہ شاید نورانی صاحب ابھی ابھی گہری نیند سے بیدار ہوئے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ اب تک کمیٹی نے بیسیوں سوالات اور تبصرے لکھ کر اٹارنی جنرل صاحب کو دیئے تھے لیکن کسی ایک میں بھی کسی آیتِ کریمہ یا حدیث شریف کو دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا گیا تھا۔البتہ جو جوابات حضور نے دیئے تھے اور جو جوابات اس کے بعد بھی دیئے گئے ان میں سے بہت سے جوابات میں قرآنی آیات اور احادیث کو بطور دلیل کے پیش کیا گیا تھا۔پھرایک اور ممبر محمد حنیف خان صاحب نے یہ گلہ کیا ’’وہ questionکرنا شروع کر دیتا ہے۔‘‘ سب اپنے گلے شکوے کر رہے تھے لیکن سب سے عجیب پوزیشن اٹارنی جنرل صاحب کی تھی۔بیشتر سوالات تو مولوی حضرات لکھ کر دیتے تھے لیکن انہیں اٹارنی جنرل صاحب کو پڑھنا ہوتا تھا۔اور اگر سوال لایعنی ہو یاحوالہ ہی غلط ہو تو خفت بھی انہیں اٹھانی پڑتی تھی۔اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ اب اس صورت ِ حال سے عاجز آ رہے تھے۔چنانچہ اس مرحلہ پر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا :
‘‘Sir, if I may respectfully submit, explanations are different, you may or may not accept, but I would request the honourable members not to supply me loose balls.’’
یعنی میں بڑے ادب سے عرض کروں گا کہ تشریحات تو مختلف ہو سکتی ہیں لیکن ممبران مجھے کمزورسوالات مہیا نہ کریں۔
اب اس سے کیا نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے؟ صرف یہی کہ خود سوالات کرنے والا اس بات کا شکوہ کر رہا ہے کہ اسے کمزور سوالات مہیا کئے جا رہے ہیں۔اس پر سپیکر صاحب نے پھر ممبران سے صحیح طرح حوالہ جات پیش کرنے کی درخواست کی ۔پھر ایک اور ممبر ا سمبلی سردارمولا بخش سومرو صاحب نے کہا کہ کوئی جواب پانچ یا دس منٹ سے زیادہ کا نہیں ہونا چاہئے اور جب کتب یہاں پر موجود ہیں تو انہیں اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ بعد میں اپنی کتب سے پڑھ کر جواب دیں گے۔سومرو صاحب کی یادداشت کچھ زیادہ مضبوط نہیں تھی۔وہ بھول گئے تھے کہ پہلے روز ہی اٹارنی جنرل صاحب نے حضور سے کہا تھا کہ اگر وہ کسی سوال کا جواب دینے کے لیے وقت لینا چاہیں تو کمیٹی سے اس کا وقت لے سکتے ہیں۔اس پر سپیکر صاحب نے سومرو صاحب کو یاد دلایاکہ سوال سوال میں فرق ہوتا ہے۔ بعض سوالات کے جواب میں وضاحتیں ہو تی ہیں اور بعض سوالات کا جواب تحقیق کے بعد دینا ہوتا ہے۔ ویسے یہ کوئی ایسا دقیق نکتہ نہیں تھا کہ اس کو دریافت کرنے کے لیے سومرو صاحب کو سپیکر صاحب کی مدد کی ضرورت ہوتی۔یہ بات کارروائی کے سرسری مطالعہ ہی سے نظر آ جاتی ہے کہ دس میں سے آٹھ سوالات کا جواب تو صرف ایک دو منٹ میں نہایت اختصار سے دیا گیا تھا اور شاید ہی اب تک کی کارروائی میں کسی سوال کا جواب دس منٹ کا ہو۔پھر عبد العزیز بھٹی صاحب نے کہا کہ جہاں جواب Irrelevantہو وہاں سپیکر صاحب اپنا اختیار استعمال کر کے اس کو بند کریں۔مولوی ظفر انصاری صاحب نے اصرار کیا کہ انہیں لکھی ہوئی چیز پڑھنے کا زیادہ موقع نہ دیا جا ئے۔احمد رضا قصوری صاحب نے یہ انکشاف کیا کہ گواہ بعض جوابات کو بار بار دہرا رہا ہے اور بعض کتابوں کے حوالے بھی بار بار دہرائے جا رہے ہیں ۔ہم یہاں اس لیے نہیں بیٹھے کہ ہمیں بتایا جائے کہ احمدیہ عقائد کیا ہیں اور نہ ہی وہ ہمیں تبلیغ کر رہے ہیں۔اب یہ اعتراض معقولیت سے قطعاََ عاری تھا کیونکہ حقیقت یہ نہیں تھی کہ کچھ جوابات دہرائے جا رہے تھے بلکہ حقیقت یہ تھی کہ اٹارنی جنرل صاحب بعض سوالات کو بار بار دہرا رہے تھے اور ظاہر ہے کہ جب کوئی سوال دہرایا جائے گا تو جواب دینے والے کو جواب بھی دہرانا پڑے گا۔یہ حقیقت اتنی واضح تھی کہ خود وفاقی وزیر عبد الحفیظ پیرزادہ صاحب کو بھی اس کی نشاندہی کرنی پڑی کہ اٹارنی جنرل صاحب کو بعض سوالات اس لیے دہرانے پڑتے ہیں تا کہ جوابات میں تضاد پیدا ہو۔
اس کے بعد جماعت ِ احمدیہ کا وفد داخل ہوا۔اب جو کارروائی شروع ہوئی تو جوابات میں تو کیا تضاد پیدا ہونا تھا ، خدا جانے کیا ہوا کہ اٹارنی جنرل صاحب نے جلد جلد کچھ بے ربط سوالات کرنے شروع کیے۔پہلے انہوں نے ایک حوالہ پڑھ کر یہ سوال اُٹھایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرو ں میں حضرت مریم کا کیا مقام بیان ہوا ہے ابھی اس پر تین چار منٹ ہی گزرے ہوں گے اور ابھی اس مسئلہ پر بات صحیح سے شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے اچانک یہ سوال اُٹھا دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیر مہر علی شاہ گولڑوی کو ملعون لکھا ہے۔ابھی لائبریرین کو حوالہ پکڑانے کا کہا ہی تھا کہ انہوں نے کہا کہ میں دو چار اکٹھے پڑھ دیتا ہوں اور فوراً ہی اس مسئلہ پر آ گئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رشید احمد گنگوہی کو شیطان گمراہ اور ملعون لکھا ہے۔ابھی اس کا جواب نہیں آیا تھا کہ سپیکر صاحب نے کہا کہ میں یہ تجویز دوں گا کہ اٹارنی جنرل صاحب ایک وقت میں ایک سوال کریں۔لیکن وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے۔انہوں نے کہا کہ یہ سب ایک ہی طرح کے سوالات ہیں اور ایک اور سوال کیا کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے سعدا للہ لدھیانوی کے بارے میںیہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ ہم یہ حوالہ جات چیک کر کے جواب دیں گے۔اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے کچھ اور حوالہ جات پڑھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریروں میں مخالفین کے متعلق سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔اس کے جواب میں بھی حضور نے فرمایا کہ یہ سب حوالہ جات نوٹ کرا دیئے جائیں ان کے جوابات اکٹھے دیئے جائیں گے۔
اس اعتراض کو پرکھتے ہوئے اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ جن لوگوں کا نام لے کر یہ اعتراض کیا جا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے متعلق سخت الفاظ استعمال کیے ہیں،خو د ان مخالفین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کیا الفاظ استعمال کئے تھے۔پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی مثال لے لیں۔انہوں نے اپنی کتاب ِ چشتیائی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق لکھا تھا ’’الغرض اکثر الہامات ان کے تو کاذب ہونے کی وجہ سے انکو مفتری علی اللہ قرار دیتے ہیں اور بعض الہامات گو کہ فی نفسھا صحت رکھتے ہیں مثل آیتِ قرآنیہ ملہمہ کی مگر ان سے الٹا نتیجہ نکالنے کے باعث سے ان پر پوری جہالت کا دھبہ لگاتے ہیں اور معہذا تلبیس ابلیس ہونے میں بھی کوئی شک نہیں رہتا۔‘‘ پھر وہ اسی کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ تین اقسام کے ہیں،’’(۱)الہاماتِ کاذبہ جن کے کاذب ہونے پر وہ خود ہی گواہ ہیں(۲)الہاماتِ کاذبہ جن کو بوجہ نہ پورا نکلنے انکے کاذب سمجھا گیا ہے(۳)الہامات ِ صیادیہ جن کا ابن ِ صیاد کے الہام کی طرح اگر سر ہے تو پاؤں نہیں اگر پاؤں ہیں تو سر نہیں۔۔۔۔(۴) الہاماتِ شیطانیہ انسیہ جن کو کسی آدمی پڑھے ہوئے نے اس کے قلب میں ڈالدیا ہے(۵)الہامت ِ شیطانیہ جنیہ (۶) الہامات ِ شیطانیہ معنویہ۔۔‘‘ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہ بد زبانی کی’’قادیانی صاحب نے اس مقام پر بڑی چالاکی اور دجل سے کام لیا ۔‘‘(۶۸)
اور پھر پیر گولڑوی صاحب نے اپنی کتاب ِ چشتیائی میں یہ فارسی شعر درج کیا
زمیں نفرت کند از تو فلک گرید بر احوالت
ملک *** کناں نزد خدا بر آسماں بینی
یعنی زمین تجھ سے نفرت کرتی ہے اور آسمان تیرے حال پر روتا ہے۔تو دیکھتا ہے کہ خدا کے نزدیک آسمان پر فرشتے تجھ پر *** کرتے ہیں۔(۶۹)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف اعجاز احمدی (ضمیہ نزول المسیح) میں یہ عربی شعر ان صاحب کے متعلق تحریر فرمایا۔
اَلا اَیُّھَا اللَّعَّانُ مَا لَکَ تَھْجُرُ
وَتَلْعَنُ مَنْ ھَُوَ مُرْسَلٌ وَّ مُوَقَّرٗ
یعنی اے *** کرنے والے تجھے کیا ہو گیا ہے کہ بیہودہ بک رہا ہے ۔اور تو اسپر *** کر رہا ہے جو خدا کا فرستادہ اورخدا کا طرف سے عزت یافتہ ہے۔(۷۰)
اور اٹارنی جنرل صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر کو اعتراض کیلئے پیش فرما رہے تھے حالانکہ ا س شعر کے الفاظ ہی ظاہر کر دیتے ہیں کہ یہ پیر گولڑوی کی سخت بیانی کے جواب میں ہے۔
اب ہر صاحبِ عقل دیکھ سکتا ہے کہ احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مامور من اللہ مانتے ہیں اور ان کے الہامات کو خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ مانتے ہیں۔اور پیر گولڑوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے الہامات کے متعلق اتنی بد زبانی کر رہے ہیں اور یہ جھوٹی تعلّی کر رہے ہیں کہ آسمان کے فرشتے نعو ذُ با للہ آپ پر *** کر رہے ہیں تو مذہب کے مسلمہ اصولوں کے مطابق ایسا مکذب اور مکفر اگر ملعون نہیں کہلائے گا تو کیا احمدی اسے ولی اللہ سمجھیں گے؟
اٹارنی جنرل صاحب نے یہ اعتراض تو اُ ٹھا دیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض بدزبانی کرنے والے معاندین کے متعلق ملعون کے الفاظ استعمال کئے ہیں لیکن وہ یہ بھول گئے تھے اگر *** کا لفظ استعمال کرنا فی ذاتہ قابلِ اعتراض ہے تو ان کا یہ اعتراض دوسرے انبیاء پر ،قرآنِ کریم پر اور نبی اکرم ﷺ کی مقدس ذات پر بھی ہوتا ہے۔قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے (المائدۃ:۷۹) یعنی جن لوگوں نے بنی اسرائیل میں سے کفر کیا وہ داؤد کی زبان سے *** ڈالے گئے اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے بھی۔اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی نسبت جنہوں نے ایمان کے بعد کفر کیا فرماتا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور لوگوں کی *** ہے۔(اٰل عمران: ۸۸)حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے قبر کی زیارت کے لیے جانے والی عورتوں پر *** کی (بعد میں اس بابت رخصت دے دی گئی تھی) (جامع ترمذی ابواب الجنائز )۔حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کی زبان سے اس شخص پر *** کی جو حلقہ کے بیچ بیٹھے (جامع ترمذی۔ باب ما جاء فی کراھیۃ القعود وسط الحلقۃ)اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابنِ عمر ؓ نے بیان فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے اس شخص پر *** کی ہے جو زندہ جانورکو باندھ کر اس پر نشانہ بازی کرے (صحیح مسلم۔کتاب الصید و الذبائح )
بہر حال جیساکہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ حضور نے فرمایا تھا کہ یہ حوالے نوٹ کرا دیئے جائیں،چیک کر کے جواب دیا جائے گا۔سوال اُ ٹھانے والوں کو محضر نامے کے مطالعہ سے ہی یہ انداز ہ ہو جانا چاہئے تھا کہ یہ سوال کرنا انہیں مہنگا پڑے گا۔عقلمندی کا تقاضہ تو یہ تھا کہ یہ سوال اُ ٹھایا ہی نہ جاتا ۔اور اگر اس کو اُٹھا ہی دیا گیا تھا تو اس کے جواب کے لئے اصرار نہ کیا جاتا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب بظاہر سخت الفاظ استعمال کئے ہیں ،تو وہ مخالفین کی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی بد زبانی کے جواب میں مناسب اور جائز سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیںلیکن یہ غلطی بھی کر دی گئی۔ہم کچھ دیر کے لیے واقعات کے تسلسل کو نظر انداز کر کے ۹؍ اگست کو شام چھ بجے شروع ہونے والی کارروائی کا جائزہ لیتے ہیں۔جب چھ بجے کارروائی شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل صاحب نے از خود دریافت کیا کہ چند حوالے سنائے گئے تھے جو چند بزرگوں کے متعلق توہین آمیز جملے تھے ان کا مطلب کیا تھا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا بات کرنے کا ایک خاص دھیما انداز تھا۔آپ نے آہستگی سے بات شروع فرمائی اور فرمایا: ’’جی ۔۔۔وہ جو حوالہ جس میں سخت زبان استعمال کی گئی تھی۔جس کی طرف آپ نے مجھے توجہ دلائی تھی وہ تاریخ کا ایک ورق ہے جس پر تقریباََ ستر سال گزر چکے ہیں اور تاریخی واقعات کی صحت کو سمجھنے کے لیے وہ تاریخ کا ماحول سامنے ہونا ضروری ہے ورنہ اس کی سمجھ نہیں آ سکے گی ۔‘‘کچھ تمہید کے بعد حضور نے مثالیں دینا شروع کیں اور ابھی پہلی مثال ہی دی تھی جس میں بریلویوں نے ایک اور فرقہ سے تعلق رکھنے والوں کو خبیث اور ان سے نکاح کو زنا اور ایسی شادی سے ہونے والی اولاد کو ولد الزنا قرار دیا ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب کی آنکھیں کچھ کھلیں کہ وہ کیا غلطی کر بیٹھے ہیں حالانکہ ابھی تو اس بدزبانی کا ذکر شروع ہی نہیں ہوا تھا جو ان کے بزرگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کی تھی۔ اب انہوں نے اس جواب کو روکنے یاکم از کم مختصر کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کئے اور کہا کہ میرا سوال تو سادہ تھا میں نے تو تین بزرگوں کا نام لے کر دریافت کیا تھا کہ ان کے متعلق مرزا صاحب نے سخت الفاظ استعمال کئے ہیں۔آپ ان فتووں کا ذکر کر رہے ہیں کہ سنیوں نے شیعوں کو کیا کہا ہے اور شیعوں نے سنیوں کو کیا کہا ہے۔ان کا کیا جواز ہے۔حضور نے اس کے جواب میں ابھی یہی فرمایا تھا کہ’’ آپ کا مطلب یہ ہے ۔۔۔‘‘ ۔تو معلوم ہوتا ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب کو احساس ہوا کہ وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں ۔سوال تو وہ کر چکے تھے ۔جواب کو روکنا انکے دائرہ اختیار میں نہیں تھا۔ انہوں نے بات بدل کر کہا کہ’’ یہ مختصر ہو ۔میں نہیں آپ کو روکتا ۔نہ مجھے اختیار ہے نہ میں آپ کو روک سکتا ہوں۔صرف یہ ہے کہ Proceedingsلمبی ہو گئی ہیں۔آپ پر بھی Strain ہے ۔ اسمبلی پر بھیStrainہے۔اس لئے میں مودبانہ عرض کروں گا کہ اگر آپ اس کو اس چیز کے لیے Confineکریں۔اس کاBackgroundہمیں مل گیا ہے ۔آپ نے پوری تفصیل سے بتایا ہے۔۔۔‘‘
بہر حال تیر تو اب کمان سے نکل چکا تھا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا’’اگر میں یہ سمجھوں کہ اس پس منظر کو سامنے لاتے ہوئے کہ میں اس مختصر سوال کا مختصر جواب نہیں دے سکتا تو پھر میرے لیے کیا ہدایت ہے آپ کی؟‘‘ اب یہاں پر اٹارنی جنرل صاحب بے بس تھے۔انہوں نے بے چارگی سے کہا جیسے آپ کی مرضی، میں نےRequest کی تھی۔اس پر حضور نے فرمایا کہ میں نے سینکڑوں میں سے صرف چند مثالیں لی ہیں اور دوسرا حوالہ پڑھنا شروع کیا۔اب تو مولوی حضرات کو بھی نظر آ رہا تھا کہ ان کے اعتراض کی کیا گت بن رہی ہے۔چنانچہ قواعد کو نظر انداز کرتے ہوئے مولوی غلام غوث ہزاروی صاحب نے سپیکر صاحب سے اپیل کی کہ گواہ کو روکا جائے کہ وہ دوسروں کی گالیاں کیوں پیش کر رہے ہیں۔لیکن اس وقت سپیکر صاحب ان کی مدد کو نہیں آ رہے تھے چنانچہ سپیکر صاحب نے انکو تنبیہ کی
‘‘This is a question. This can only come through the attorney general. Yes the witness can reply. He should continue. What he was replying.’’
یعنی یہ ایک سوال ہے اور یہ صرف اٹارنی جنرل صاحب کی وساطت سے کیا جا سکتا ہے۔ جی۔گواہ جواب دے سکتا ہے انہیں وہ جواب جاری رکھنا چاہئے جو وہ دے رہے تھے۔
اس کے بعد حضور نے وہ حوالے سنائے جن میں سوال کرنے والوں کے کچھ بزرگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں بد زبانی کی انتہا کر دی تھی۔گندی سے گندی گالی دے کر کے دل دُکھائے گئے تھے ۔شاید ہی کوئی جھوٹا الزام ہو جو آپ کی ذات اقدس پر ان لوگوں نے نہیں لگایا۔ اٹارنی جنرل صاحب نے سعد اللہ لدھیانوی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر پر اعتراض کیا تھا ۔حضور نے شاعرِ مشرق اقبال کے کچھ اشعار سنائے جو انہوں نے ایف اے میں سعداللہ لدھیانوی کے متعلق کہے تھے ۔وہ اشعار یہ تھے
واہ سعدی دیکھ لی گندہ دہانی آپ کی
خوب ہو گی مہتروں میں قدر دانی آپ کی
بیت سعدی آپ کی بیت الخلاء سے کم نہیں
ہے پسندِ خاکروباں شعر خوانی آپ کی
گوہر بے راہ جھڑے ہیں آپ کے منہ سے سبھی
جان سے تنگ آ گئی ہے مہترانی آپ کی
قوم عیسائی کے بھائی بن گئے پگڑی بدل
واہ کیا اسلام پر ہے مہر بانی آپ کی (۷۱)
پھر آپ نے پیر گولڑوی صاحب کی کتاب ِ چشتیائی کا حوالہ سنایا جس میں انہوںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ایک فارسی شعر میں لکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جو فرشتے ہیں وہ تجھ پر *** کر رہے ہیں۔اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ شعر لکھا تھا جس کا مطلب یہ تھا تم پر آسمانی *** ہو۔پھر اٹارنی جنرل صاحب نے یہ اعتراض کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رشید احمد گنگوہی کے متعلق سخت الفاظ استعمال کئے ہیں۔اس کے جواب میں حضور نے حوالہ دیا کہ اشاعۃ السنہ میں رشید احمد گنگوہی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہاں تک بدزبانی کی تھی کہ آپ کو اہلِ ھوا اور گمراہ اور دجال تک کہا تب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق وہ سخت الفاظ استعمال کئے ۔اٹارنی جنرل صاحب نے یہ اعتراض کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مخالفین کے متعلق ذریۃ البغایا کے الفاظ لکھے ہیں اور یہ اصرار کیا تھا کہ اس کا مطلب ولد الحرام کے ہی ہوتے ہیں ۔حضور نے لغوی تحقیق بیان فرمائی کہ اس کا مطلب سرکش انسان کے ہوتے ہیں اور ہمارے لٹریچر میں اس کا یہی مطلب لیا گیا ہے۔ابھی حضور کا جواب جاری تھا کہ سپیکر صاحب نے وقفہ کا اعلان کیا ۔اس کے بعد ہم کارروائی کے تسلسل کے حساب سے ہی جاری رکھتے ہیں۔
اس کے بعد پھر اٹارنی جنرل صاحب نے وہی پرانا سوال بار بار دہرایا۔مثلاً ایک موقع پر انہوں نے پوچھا:
’’جو اللہ اور رسول ﷺ پر ایمان لاتا ہے ان کو مانتا ہے۔اور مرزا غلام احمد صاحب کو نبی نہیں مانتا ۔پھر بھی مسلمان رہ سکتا ہے۔‘‘
اس پر حضور نے جواب میں فرمایا
’’غیر مسلم نہیں ہے۔گنہگار ہے وہ۔‘‘
اٹارنی جنرل صاحب بیچارے عجیب مخمصے میں مبتلا تھے۔وہ علمی بحثوں میں پڑنا چاہتے تھے اور اس کارروائی کی نوعیت کا تقاضا بھی یہی تھا لیکن ان کی طبیعت کو اس کام سے کوئی مناسبت نہیں تھی۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس بات پر بحث اٹھائی کہ ’’اتمامِ حجت‘‘ کا کیا مطلب ہے۔ حضور نے عربی زبان کی رُو سے اس کا مطلب بیان فرمایا۔اب اٹارنی جنرل صاحب نے ایک لغت نوراللغات کا حوالہ پیش کیا ۔آغاز میں ہی حضور نے فرمایا کہ یہ تو کوئی معیاری لغت نہیں ہے اور حضور نے معیاری لغت کی مثال کے طور پر منجد،مفردات ِ امام راغب اور اقرب کے نام بھی لیے ہیں۔ بہرحال صاحب موصوف نے اپنی چنیدہ لغت سے اس کا مطلب پڑھنا شروع کیا ۔تو حضور نے نشاندہی فرمائی کہ اس کی تو ،اردو بھی ٹھیک نہیں یہ معیاری لغت کہاں سے ہو گئی۔اس کے جواب میں اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا کہ آپ کوئی معیاری ڈکشنری لے آئیں اس میں دیکھ لیں گے۔اس کے بعد انہوں نے اس کے معنی کے متعلق اپنی تحقیق بیان کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔اور ان کے بے ربط جملوں کا مطلب یہ نکلتا تھا کہ وہ لغت کے مطالعہ کی بنا پر یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ اتمامِ حجت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سمجھانے والامطمئن ہو گیا ہے کہ میں نے سمجھا دیا ہے ۔اس کے جواب میں حضور نے فرمایا اس کا یہ مطلب نہیں ہوتاThis is rediculous۔اٹارنی جنرل صاحب تو اٹارنی جنرل! اسمبلی میں موجود مولوی حضرات کی علمی حالت بھی ایسی تھی کہ جب وقفہ ہوا اور جماعت کا وفد ہال سے چلا گیا تومولوی غلام رسول ہزاروی صاحب سپیکر صاحب سے فخریہ انداز میں کہنے لگے:
’’جناب ِ چیئر مین میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مرزا صاحب آج خوب پھنسے ہیں ۔ اس لیے اتمامِ حجت کے معنی جو وہ کر رہے ہیںجن کو دنیا تسلیم نہیں کرتی۔۔۔۔‘‘
اس جملے سے بیچارے مولوی صاحب کی بچگانہ خوشی ظاہر ہوتی ہے۔وہ اس خیال میں تھے کہ آج اللہ اللہ کر کے تیسرے دن ہمیں بھی کوئی خوشی ملی ہے۔لیکن معلوم ہوتا ہے کہ سپیکر صاحب ان کی خوش فہمی میں شریک نہیں تھے کیونکہ اس کے جواب میں انہوں نے کہا ۔
’’مولانا صاحب پھر یہ بحث کی بات ہے۔ضابطہ کی بات ہے۔یہ جو آپ تقریر کر رہے ہیں یہ وقت پھر بعد میں آپ کی تقریر سے کاٹا جائے گا ۔اس لیے میں کہتا ہوں کہ یہ بعد میں کریں گے۔‘‘
مولوی ہزاروی صاحب نے پھر کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن مداخلت کے باعث کہہ نہ سکے۔
بہر حال ان کی جو بھی خوش فہمی تھی جلد رفع ہو گئی کیونکہ وقفہ کے بعد کارروائی شروع ہوئی تو ایسا تصرف ہوا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے جن الفاظ کے لغوی معانی کے متعلق بات ہوئی تھی ان پر مختصر تحقیق کے بیان سے بات شروع فرمائی۔حضور نے حجت اور اتمامِ حجت کے الفاظ کے متعلق قرآنِ کریم سے مثالیں دیں ،مفردات ِ امام راغب اورلسان العرب جیسی عظیم لغات سے ان الفاظ کے مطالب بیان فرمائے،امام زہری کے اقوال پڑھ کر سنائے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر سے اس کے بارے میں اقتباس پڑھا۔ اس خفت کے بعد اٹارنی جنرل صاحب یا ان کی مدد کرنے والوںنے کسی لغت کا حوالہ دینے کی کوشش نہیں کی۔
پھر حضور نے فرمایا کہ آپ نے ایک کتاب کلمۃ الفصل سے حوالہ دیا ہے اور اسے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓکی طرف منسوب کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کلمۃ الفصل حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی کتاب ہے ہی نہیں بلکہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی کتاب ہے ۔پھر حضور نے وہ پورا حوالہ پڑھ کر سنایا جس سے کیا گیا اعتراض خود بخود ہی رفع ہو جاتا تھا۔بہر حال وقفہ تک انہی امور پر بحث ہوتی رہی جن پر پہلے بھی کئی مرتبہ بات ہو چکی تھی۔
اس روز کی کارروائی کے دوران اٹارنی جنرل صاحب نے یہ بحث بھی اُ ٹھانے کی کوشش کی کہ تقسیمِ ہند کے وقت احمدیوں نے اپنے آپ کو مسلمانوںسے علیحدہ ایک فریق کے طور پر پیش کیا تھا۔اس کا خاطر خواہ جواب۔سلسلہ احمدیہ حصہ دوئم میں ۱۹۴۷ء کے حالات بیان کرتے ہوئے گزر چکا ہے۔اس لئے اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔حضور نے الفضل کا ایک حوالہ پڑھ کر سنایا ۔اٹارنی جنرل صاحب یا تو غلط حوالہ پیش کرتے یانامکمل عبارت پڑھ کر یا تبدیل شدہ عبارت پڑھ کر ایک تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔لیکن جب پورا اقتباس پڑھا جاتا تو یہ اثر ویسے ہی زائل ہوجاتا۔اور اس مرتبہ بھی یہی ہوا۔
اس کے بعدیحییٰ بختیار صاحب نے یہ بحث اُ ٹھائی کہ آپ کے مطابق آنحضرت ﷺ کے بعد بھی نبی آ سکتا ہے۔اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ وضاحت فرمائی کہ نبی نہیں صرف امتی نبی آ سکتا ہے۔اٹارنی جنرل صاحب نے پھر دو سوال اُ ٹھائے ۔ایک تو یہ کہ آپ کے نزدیک کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ بھی کوئی نبی آ سکتا ہے اور دوسرا یہ کہ کیا پھر آپ کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخری نبی ہوں گے؟پہلے سوال کے متعلق تو حضور کا اصولی جواب یہ تھا کہ اب وہ امتی نبی آ سکتا ہے جس کے متعلق آنحضرت ﷺ نے خوشخبری دی ہو ۔اور جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے تو یہ سوال ہی بنیادی طور پر غلط ہے اور اس کی بنیاد یہ غلط تصور ہے کہ آخری ہونا اپنی ذات میں کوئی فضیلت کی بات ہے ۔حالانکہ زمانی طور پر آخری ہونا کسی طور پر کوئی فضیلت کا پہلو نہیں رکھتا۔البتہ یہ بات ایک عظیم الشان فضیلت کے بعد ہے کہ اب جو بھی مامور یا مصلح یا نبی آئے گا وہ آنحضرت ﷺ کی اتباع اور محبت کے نتیجہ میں یہ مقام پائے گا اور آپ کے تمام احکامات اور تعلیمات کی پیروی کرے گا ۔اور جماعت ِ احمدیہ کا یہی عقیدہ ہے۔اصل میں وہ یہ اعتراض اُ ٹھانا چاہتے تھے کہ احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آخری نبی مانتے ہیں۔
اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ تمام فرقوں کے مطابق مسیح موعود نے آنحضرت ﷺ کے بعد آنا ہے تو کیا ان فرقوں کے نزدیک آخری نبی نہیں بن جائے گا۔اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔اور حضور نے شاہ محمد اسمٰعیل شہید صاحب کا حوالہ بھی دیا جنہوں نے اپنی کتاب تقویۃ الایمان مع تذکیر الاخوان میں لکھا تھا ’’اس شہنشاہ کی تو یہ شان ہے ایک آن میں ایک حکم کُنْ سے چاہے تو کروڑوں نبی اور ولی اور جن اور فرشتہ جبرئیل اور محمد ﷺ کے برابر پیدا کر ڈالے۔‘‘(۷۲)
اٹارنی جنرل صاحب نے یہ سوال اُ ٹھایا کہ’’ایک اور سوال پو چھتا ہوں۔روز قیامت سارے نبی اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوں گے۔آخری نبی کون شمار ہو گا۔حضرت محمد ﷺ یا مسیح یا عیسیٰ علیہ السلام۔‘‘
اس پر حضور نے یہ پُر معرفت جواب دیا کہ
’’حضرت محمد ﷺ سب سے پہلے نبی بھی ہیں اور سب سے آخری نبی بھی ہیں۔‘‘
اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا
’’آخری نبی وہی ہو جائیں گے۔‘‘
اس پر حضور نے فرمایا:
’’ بالکل۔‘‘
اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے پھر یہ بحث اُ ٹھائی کہ اب اور نبی آ سکتے ہیں اور آخری نبی کون ہوگا۔اور سپیکر صاحب نے بھی اصرار کیا کہ اس سوال کا جواب نہیں آیا۔اس پر حضور نے پھر فرمایا کہ امتِ محمدیہ میں وہ اشخاص جن کی بزرگی پر شک نہیں کیا جا سکتا،جب وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو محمد ﷺ جیسے کروڑوں پیدا کر سکتا ہے تو ان کے لئے یہ بات خاموشی سے قبول کر لی جاتی ہے تو وہ بات ہمارے لئے بحث کا موضوع کس طرح بن سکتی ہے۔اور فرمایا کہ جس امتی نبی کی بشارت دی گئی تھی اس کا اپنا کوئی وجود نہیں ۔اور اس نے آنحضرت ﷺ کے مقاصد کے لئے اپنے نفس پر کامل موت وارد کی ہے ۔اس لئے اس کو آخری نبی نہیں کہا جا سکتا۔
حضور ؒ نے ان کی توجہ اس امر کی طرف بھی مبذول کرائی کہ رسول کریم ﷺ نہ صرف انبیاء کا آخر ہیں بلکہ اول بھی ہیں۔جیسا کہ آنحضرت ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں اس وقت سے اللہ تعالیٰ کا بندہ اور خاتم النبیین ہوں جب کہ ابھی آدم ؑ مٹی میں تھے۔(۷۳)
بہر حال جب ۸؍ اگست کی کارروائی ختم ہوئی تو کم از کم دو ممبران یعنی مولا بخش سومرو اور میاں عطاء اللہ خوشی کا اظہار کر رہے تھے کہ آج اٹارنی جنرل صاحب نے اچھی بحث کی ہے۔لیکن حقیقت کا اظہار اگلے روز کیسے ہوتا ہے اس کا ہم جائزہ ابھی لیتے ہیں۔
۹؍ اگست کی کارروائی
اب جو ۹؍ اگست کی کارروائی شروع ہوئی تو ممبران کی ایک اور گھبراہٹ سامنے آئی۔احمد رضا قصوری صاحب نے سپیکر صاحب سے درخواست کی کہ جب احمدیوں کا وفد ہال سے چلا جاتا ہے تو ہم آپس میں بات کرتے ہیں۔اگر یہ ریکارڈ کل کلاں کسی کے ہاتھ لگ گیا تو اس پر کوئی اعتراض کر سکتا ہے۔اس لئے میری درخواست ہے کہ جب ایسا ہو رہا ہو تو پلگ نکال دیا جائے۔اس کے کچھ دیر بعد ایک اورممبر چوہدری جہانگیر صاحب نے اپنی اس پریشانی کا اظہار کیا ۔
’’مسٹر چیئر مین میں یہ گذارش کرنا چاہتا ہوں کہDelegationکے ممبرز Brief Cases اورBagsلے کر اندر آ جاتے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ جناب ِ والا یہ ہاؤس کی کارروائی کو ٹیپ ریکارڈ کر رہے ہوں ۔اس کے متعلق ذرا تسلی کر لیجئے۔‘‘
اس کے بعد جب سوالات شروع ہوئے تو اٹارنی جنرل صاحب نے ایک بار پھر وہی پرانے سوالات دہرانے شروع کیے کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی تھے ؟یا امتی نبی تھے ؟کیا آپ کے بعد بھی کوئی نبی آ سکتا ہے؟ پھر آخری نبی کسے کہا جائے گا؟کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان سوالات کے جواب میں انہیں جماعت ِ احمدیہ کا موقف بتا دیا گیا تھا پھر انہیں بار بار دہرانے سے ان کا مقصد کیا تھا؟
ان سوالات کے جواب میں حضور نے فرمایا :
’’ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جس مہدی اور مسیح کا امت ِ محمدیہ تیرہ سو سال سے انتظارکر رہی تھی،وہ آچکا ہے۔۔‘‘
اور آنحضرت ﷺ کے جاری فیضان کے بارے میں آپ نے فرمایا:
’’میں اس بات کا اعلان کر دیتا ہوں کہ ہمارے نزدیک اب خدا تعالیٰ کے انعامات کے سب دروازے اتباع محمد ﷺ کے بغیر بند ہیں۔اب میں نے چونکہ اعلان کر دیا ہے اس لئے براہِ راست مجھ سے سوال کریں۔‘‘
پھر اٹارنی جنرل صاحب نے خاتم النبیین ﷺ کی مختلف تفاسیر کے بارے میں سوال کیا۔اس پر حضور نے جواب دیا:
’’ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ خاتم النبیین ہیں۔اس معنی میں بھی کہ آپ سے قبل جس قدر انبیاء گزرے ہیںان کی ساری روحانی تجلیات مجموعی طور پر محمد ﷺ کی روحانی تجلیات سے حصہ لینے والی اور ان سے کم تھیں۔پہلے بھی اور آیندہ بھی۔کوئی شخص روحانی بزرگی اور روحانی عزت کے چھوٹے سے چھوٹے مقام کو بھی حاصل نہیں کر سکتا سوائے نبی اکرم ﷺ کے فیض سے حصہ لینے کے۔یہ ہمارا عقیدہ ہے۔‘‘
اس مرحلہ پر ایک بار پھر یحییٰ بختیار صاحب نے یہ اعتراض اُ ٹھانے کی کوشش کی کہ احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آخری نبی مانتے ہیں ۔اس پر حضور نے فرمایا:
’’میں نے ابھی عرض کی کہ امت ِ محمدیہ شروع سے لے کر تیرہ سو سال تک نبی(اکرم ) ﷺ کو خاتم النبیین مانتے ہوئے ایک ایسے مسیح کا انتظار کرتی رہی جس کومسلم کی حدیث میں خود آنحضرت ﷺ نے بار بار نبی اللہ کہا اور وہ خاتم النبیین پر بھی ایمان رکھتے تھے۔اس واسطے میرے نزدیک کوئی الجھن نہیں ہے۔ساری امت ۔۔۔۔وہ سمجھتی رہی ایک مسیح آئے گا جو نبی اللہ ہو گا۔اور میں نے ابھی بتایا ہے کہ امت کے سلف صالحین کی سینکڑوں عبارتیں یہاں بتائی جا سکتی ہیں جو آنے والے کا مقام ظاہر کر رہی ہیں۔۔۔۔تیرہ سو سال تک امتِ محمدیہ نبی کاانتظارکرتی رہی اور تمام سلفِ صالحین اس بات پر متفق تھے۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے کچھ حوالے تصدیق کے لئے نوٹ کرائے۔اور پھر اپنی طرف سے اٹارنی جنرل صاحب نے یہ کہا کہ احمدیوں کے علاوہ باقی فرقے یہ کہتے ہیں کہ آ نحضرت ﷺ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا اور احمدی کہتے ہیں کہ امتی نبی آ سکتا ہے۔اس پر حضور نے پھر اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ تیرہ سو سال تک امت محمدیہ ایک مسیح نبی اللہ کاانتظار کر تی رہی ہے۔
اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ وہ تو پہلے ہی نبی بن چکے ہیں۔حالانکہ یہاں نئے اور پرانے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں ہو سکتا تو پھر وہ بھی نہیں ہو سکتا جسے پہلے ہی نبوت ملی ہو۔اس کے جواب میں حضور نے یہ پر معرفت نکتہ بیان فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام شریعتِ موسویہ کو جاری کرنے کے لئے دنیا میں آئے تھے۔اس پر یحییٰ بختیار صاحب نے جو کچھ فرمایا وہ انہیں کا حصہ ہے۔انہوں نے کہا:
’’مرزا صاحب ان کی اتھارٹیchangeہو گئی۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ فرما رہے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو صرف حضرت موسیٰؑ کی پیروی اور تورات کی پیروی میں بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے تھے جیسا کہ انجیل میں ان کے بہت سے اقوال سے ثابت ہے اور سب سے بڑھ کر قرآن کریم میں ان کے متعلق یہ ارشاد موجود ہے (اٰل عمرٰن: ۴۹) یعنی حضرت عیسیٰ بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے تھے اور یہ خبر ان کی والدہ کو ان کی پیدائش سے قبل اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تھی اور کسی آیت میں یہ نہیں آتا کہ ان کو کسی اور قوم کی طرف مبعوث کیا جانا مقدر تھا ۔لیکن اب قومی اسمبلی میں اٹارنی جنرل صاحب یہ اعلان فرما رہے تھے کہ اب ان کی اتھارٹیchangeہو گئی ہے۔گویا ان کے نزدیک قومی اسمبلی صرف یہی اختیار نہیں رکھتی تھی کہ کون مسلمان ہے کہ اور کون نہیں بلکہ یہ اختیار بھی رکھتی تھی کہ کس نبی کا دائرہ کار کیا ہے۔اٹارنی جنرل صاحب نے اس نکتے کی وضاحت نہیں فرمائی کہ جو بات قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے وہ کس طرح تبدیل ہو گئی اور کس نے اسے تبدیل کر دیا۔
اس مرحلہ پر کچھ دیر کے لئے یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ شاید اب یہ کارروائی اپنے اصل موضوع کی طرف آ جائے اور وہ موضوع یہ مقرر ہوا تھا کہ جو شخص آنحضرت ﷺ کو آخری نبی نہیں مانتا اس کا اسلام میں کیاstatusہے۔اور اس مرحلہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے بڑے جامع انداز میں یہ بیان فرمایا تھا کہ جماعت ِ احمدیہ کے نزدیک خاتم النبیین کے معنی کیا ہیں اورآنحضرت ﷺ کا اعلیٰ اور ارفع مقام کیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ کیا تھا۔ اور جب حضور نے یہ لطیف نکتہ بیان فرمایا کہ تیرہ سو سال سے امت ِ احمدیہ ایک ایسے مسیح کی منتظر رہی جس کے متعلق آنحضرت ﷺ نے نبی کا لفظ بیان فر مایا تھا اور وہ پھر بھی آنحضرت ﷺ کی ختمِ نبوت کے قائل تھے تو پھر اب اٹارنی جنرل صاحب کو چاہئے تھا کہ وہ اصل موضوع کے بارے میں سوالات اُ ٹھاتے اور بحث ایک ٹھوس رنگ اختیار کرتی۔لیکن جیسا کہ ہم جائزہ لیں گے کہ ایک بار پھر اٹارنی جنرل صاحب اصل موضوع سے کترا کے نکل گئے۔اور ایک بار پھر یہ واضح ہو رہا تھا کہ اربابِ حل و عقد کا یہ ارادہ ہی نہیں کہ وہ اس بحث کو اپنے اصل موضوع پر آنے دیں۔یہاں پر ایک سوال لازماََ پیدا ہو تا ہے کہ آخر وہ اس موضوع سے کترا کیوں رہے تھے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے قبل تیرہ سو سال تک امت ِ محمدیہ کے کتنے ہی بزرگ گزرے ہیں جو اس عقیدہ کا برملا اظہار کرتے رہے کہ خاتم النبیین کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺکے بعد کوئی امتی نبی بھی نہیں آسکتا۔آنحضرت ﷺ کے بعد شرعی نبی کوئی نہیں آسکتا لیکن آپ کی غلامی میں اور آپ کی اطاعت کا جوا اُ ٹھا کر امتی نبی ضرور آ سکتا ہے۔ ہم اس کی صرف چند مثالیں یہاں پر پیش کر تے ہیں۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ صحیح مسلم میں کتاب الفتن کی ایک ہی حدیث میں رسول کریم ﷺ نے آنے والے مسیح کو چار مرتبہ نبی اللہ کا نام دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ نبی دجال کے فتنہ کا سدِباب کرے گا۔اس حدیث کے راوی حضرت نواس بن سمعان ؓ ہیں۔
اس کے علاوہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں
’’قولوا خاتم النبیین ،ولا تقولوا لا نبی بعدہ ‘‘
یعنی (آپﷺکو) خاتم النبیین تو کہو لیکن یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔
(الدرالمنثور فی التفسیر الماثور،مصنفہ جلال الدین السیوطی ،الجزء الخامس،دارالکتب العلمیہ۔بیروت ص۳۸۶)
حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کے سامنے ایک آدمی نے یوں درود پڑھا صلّی اللّٰہ علی محمّد خاتم الانبیاء لا نبی بعدہ۔یعنی اللہ محمدﷺ خاتم الانبیاء پر سلامتی نازل کرے۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔اس پر حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓنے فرمایا جب تو نے خاتم الانبیاء کہا تھا تو یہ تیرے لئے کافی تھا۔ہم یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ ظہور فرمائیں گے جب آپ ظہور فرمائیں گے تو وہ پہلے بھی ہوں گے اور بعد بھی ہوں گے۔
(الدر المنثور فی التفسیر الماثور،مصنفہ جلال الدین السیوطی ،الجزء الخامس، دارالکتب العلمیہ۔بیروت ص۳۸۶)
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ اپنی تصنیف قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین میں درود شریف کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں
’’وَ قَدْ قَضَیْتَ اَنْ لَّا شَرْعَ بَعْدِیْ فَصَلِّ عَلَیَّ وَ عَلٰی آلِیْ بِاَنْ تَجْعَلَ لَہُمْ مَرْتَبَۃَ نَبُوَّۃٍ عِنْدَکَ وَ اِنْ لَّمْ یَشْرَعُوْا فَکَانَ مِنْ کَمَالِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ اَنْ اَلْحَقَ آلَہٗ بِالْاَنْبِیَائِ فِی الْمَرْتَبَۃِ ‘‘
ترجمہ :اور یقیناََ تو نے فیصلہ کر دیا ہے کہ میرے بعد شریعت نہیں ہو گی۔پس تو مجھ پر اور میری آل پر سلام بھیج ان معنوں میں کہ اپنے حضور انہیں نبوت کا مرتبہ عطا کر۔اگر چہ وہ شریعت لانے والے نہ ہوں۔پس یہ رسول اللہ ﷺ کا کمال ہے کہ آپ نے اپنی آل کو نبیوں کے ساتھ ملا دیا۔ (قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین مصنفہ حضرت شاہ ولی اللّٰہ دہلوی ؒ ،المکتبۃ السلفیہ ۔شیش محل روڈ لاہور ص۳۲۰)
اب دیکھتے ہیں کہ حدیث ِ نبوی لا نبی بعدی کی تشریح میں علماء سلف کیا فرماتے رہے ہیں۔
مشہور عالم ملا علی قاری تحریر فرماتے ہیں:
’’بعض علماء آنحضرت ﷺکے قول لا نبی بعدی کے بارے میں کہتے ہیںکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب عیسیٰ ؑ ابن مریم نازل ہوں گے تو وہ اس امت کے حکام میں سے ایک ہوں گے ۔اور وہ شریعت ِ محمدیہ کی طرف بلائیں گے۔اور کوئی اور نبی نازل نہیں ہو گا۔ میں کہتا ہوں کہ یہ اس بات کی نفی نہیں ہے کہ کوئی نبی پیدا ہو جائے اور وہ آنحضرتﷺ کی پیروی کرنے والا ہو۔آپکی شریعت کے احکام کے بیان میں اگرچہ اس کی طرف وحی بھی ہوتی ہو جس طرح رسولِ کریم ﷺ کے اس قول میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگرموسیٰ ؑ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے علاوہ چارہ نہ ہوتا۔آنحضرتﷺ کی مراد اس سے یہ ہے کہ اگر وہ نبوت اور رسالت کے وصف کے ساتھ بھی آئیں تو انہیں میری پیروی کرنی ہو گی۔‘‘(من مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح للعلامۃ الفاضل والفھامۃ الکامل المرحوم برحمۃ ربہ الباری علی بن سلطان محمد القاری الجزء الخامس ص۵۶۴)
حضرت مجدد الف ثانیؒ اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:
’’پس حصول کمالات ِ نبوت مرتابعانِ را بطریق تبعیت و وراثت بعد از بعثت خاتم الرسل علیہ و علیٰ آلہ و علی جمیع الانبیاء و الرسل الصلوات و التحیات منافی خاتمیت نیست‘‘
ترجمہ:خاتم الرسل کی بعثت کے بعد کامل تابعداروں کواتباع اور وراثت کے طریق سے کمالات نبوت کا حاصل ہوناخاتمیت کے منافی نہیں ۔
(مکتوبات ِ امامِ ربانی حضرت مجدد الف ثانیؒ ،باہتمام محمد سعید احمد نقشبندی ،ص۱۴۱)
علامہ شہاب الدین تورپشی جو ساتویں صدی کے بزرگ تھے تحریر فرماتے ہیں:
’’اگر سوال کیا جاوے کہ حدیث نواس بن سمعان میں بعد وصف دجال اور اس کے ہلاک ہونے کے آپ نے عیسیٰ علیہ السلام کی بابت فرمایا یفتح باب الدار کہ وہ انصاف کا دروازہ کھولیںگے۔کما فی اصل الحدیث اور اسی حدیث میں حضرت عیسیٰ ؑ کو نبی اللہ کہا۔ اور دوسری جگہ فرمایا فیرغب نبی اللّٰہ اس پر حضرت عیسیٰ ؑ کی نبوت ثابت ہوتی ہے اور تم اس سے نفی نبوت کرتے ہو۔
جواب یہ ہے کہ ہم وحی شریعت کی نفی کرتے ہیںنہ الہامِ الٰہی کی اور ہم آخر زمانے میں یعنی آنحضرت ﷺ کے حکمِ نبوت کی نفی کرتے ہیں نہ اسم ِنبوت کی‘‘
(عقائد مجددیہ المسمی بہ الصراط السوی ترجمہ عقائد ِ تورپشی
مصنفہ علامہ شہاب الدین تورپشی ؒ ناشر اللہ والے کی قومی دوکان ص۲۲۴)
ملا علی قاری اپنی کتاب الموضوعات الکبیر میں تحریر کرتے ہیں۔
’’لَوْ عَاشَ اِبْرَاہِیْمُ وَ صَارَ نَبِیًّا ، لَوْ صَارَ عُمَرُ نَبِیًّا لَکَانَا مِنْ اَتْبَاعِہٖ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَالسَّلامُ کَعِیْسٰی وَالْخِضْرِ وَاِلْیَاسَ عَلَیْھِمُ السَّلامُ فَلا یُنَاقِضُ قَوْلُہٗ تَعَالٰی وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ اِذِ الْمَعْنٰی اَنہ لا یاتی نبی بعدہ ینسخ ملتہ ولم یکن من امتہ ‘‘
ترجمہ : اگر ابراہیم زندہ رہتے اورنبی بن جاتے اور اسی طرح اگر (حضرت ) عمر ؓ بھی نبی بن جاتے تو وہ دونوں حضرت عیسیٰ ؑ۔حضرت خضر اور حضرت الیاس کی طرح آنحضرتﷺ کے تابع ہوتے ۔پس یہ اللہ تعالیٰ کے قول وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن کے مخالف نہیں ہے۔اس کے معنی ہیںکہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کے دین کو منسوخ کرے اور آپ کا امتی نہ ہو۔‘‘
(الموضوعات الکبیر مصنفہ ملا علی قاری ناشر نور محمد اصح المطابع آرام باغ کراچی ص۱۰۰)
امام عبد الوہاب شعرانی ؒ تحریر کرتے ہیں
’’اِعْلَمْ اَنَّ النُّبُوَّۃَ لَمْ تَرْتَفِعْ مُطْلَقًا بَعْدَ مُحَمَّدٍ ﷺ وَ اِنَّمَا ارْتَفَعَ نُبُوَّۃُ التَّشْرِیْعِ فَقَطْ فَقَوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ اَیْ مَا ثَمَّ مَنْ یَّشْرَعُ بَعْدِیْ شَرِیْعَۃً خَاصَّۃً ‘‘
جان لو مطلق نبوت بند نہیں ہوئی ۔صرف تشریعی نبوت بند ہوئی ہے۔آنحضرت ﷺ کے قول لانبی بعدی ولا رسول بعدی سے یہ مراد ہے کہ آپ کے بعد کوئی شخص شریعت ِ خاصہ کے ساتھ نہیں آئے گا۔‘‘
(الیواقیت والجواھر فی بیان عقائد الاکابر الجزء الاول ناشر داراحیاء التراث العربی موسسۃ التاریخ العربی بیروت ص۳۷۴)
حضرت محی الدین ابنِ عربی ؒ تحریر فرماتے ہیں
’’۔۔۔۔عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلامُ یَنْزِلُ فِیْنَا حَکَمًا مُقْسِطًا عَدْلًا فَیَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَ یَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَوَلَا نَشُکُّ قَطْعًا اَنَّہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ نَبِیُّہٗ وَ ھُوَ یَنْزِلُ فَلَہٗ عَلَیْہِ السَّلامُ مَرْتَبَۃُ النُّبُوَّۃِ بِلا شَکٍّ عِنْدَ اللّٰہِ وَمَا لَہٗ مَرْتَبَۃُ التَّشْرِیْعِ عِنْدَ نُزُوْلِہٖ فَعَلِمْنَا بِقَوْلِہٖ ﷺ اَنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَ لَا رَسُوْلَ وَ اَنَّ النُّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ وَالرَّسَالَۃَ اِنَّمَا یَرِیْدُ بِہِمَا التَّشْرِیْعُ۔۔۔‘‘
یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہم میں نزول فرمائیں گے اس حال میں کہ وہ حکم و عدل ہوں گے۔وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے۔اور ہمیں آپ کے نبی ہونے پر قطعاََ کوئی شک و شبہ نہیں اور جب وہ نازل ہوں گے تو اللہ کے نزدیک یقیناََ نبوت کا مرتبہ پائیں گے
اور نزول کے وقت وہ شرعی نبی نہیں ہوں گے۔اور ہمیں آنحضرت ﷺکے قول لا نبی بعدی و لا رسولکا یہ مطلب سمجھایا گیا ہے کہ یقینا رسالت منقطع ہو چکی ہے۔اس سے مراد شریعت ہے۔۔۔۔‘‘ (الفتوحات المکیہ ،المجلد الاول ۔ناشر دار صادر بیروت ،ص۵۴۵)
پھر اسی کتاب میں ایک اور مقام پر حضرت محی الدین ابنِ عربی فرماتے ہیں۔
’’فَاِنَّ النُّبُوَّۃَ الَّتِیْ قَدِ انْقَطَعَتْ بِوُجُوْدِِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ اِنَّمَا ہِیَ النُّبُوُّۃُ التَّشْرِیْعِ لَا مُقَامُھَا فَلا شَرْعَ یَکُوْنُ نَاسِخًا لِشَرْعِہٖ ﷺ وَلا یَزِیْدُ فِیْ حُکْمِہٖ شَرْعًا آخَرَ وَ ھٰذَا مَعْنٰی قَوْلِہٖ ﷺ اَنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنُّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ اَیْ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ یَکُوْنُ عَلٰی شَرْعٍ یُخَالِفُ شُرْعِیْ بَلْ اِذَا کَانَ یَکُوْنُ تَحْتَ حُکْمِ شَرِیْعَتِیْ ۔‘‘
ترجمہ: وہ نبوت جو رسول کریم ﷺ کے آنے سے منقطع ہو گئی ہے وہ صرف تشریعی نبوت ہے نہ کہ مقامِ نبوت۔پس اب کوئی شرع نہ ہو گی جو آنحضرتﷺ کی شرع کی ناسخ ہو اور نہ آپ کی شریعت میں کوئی نیا حکم بڑھانے والی شرع ہو گی اور یہی معنی رسولِ کریم کے اس قول کے ہیں کہ نبوت اور رسالت منقطع ہو گئی ہے۔پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا نہ نبی۔یعنی مراد آنحضرت ﷺ کے اس فرمان کی یہ ہے کہ اب کوئی ایسا نبی نہیں ہو گاجو میری شریعت کے مخالف شریعت پر ہو بلکہ جب (کوئی نبی) ہو گا تو وہ میری شریعت کے تحت ہو گا۔ (الفتوحات المکیہ ،المجلد الثانی ،ناشر دار صادر بیروت ص۳)
اور یہ عقیدہ کہ آنحضرت ﷺ کے بعد امتی نبی ہو سکتا ہے صرف سلف صالحین تک محدود نہیں تھا بلکہ اس دور کے علماء بھی بڑی تعداد میں یہ عقیدہ رکھتے رہے۔چنانچہ بانی دارالعلوم دیوبند ،مکرم مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب اپنی تصنیف تحذیر الناس میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’قبل عرض جواب یہ گزارش ہے کہ اول معنی خاتم النبیین معلوم کرنے چاہئیں تاکہ فہمِ جواب میں کچھ دقت نہ ہو سو عوام کے خیال میںتو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور سب میں آخر نبی ہیں مگر اہلِ فہم پر روشن ہو گاکہ تقدّم یا تاخّر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقامِ مدح میں ولکن رسول اللّٰہ و خاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے۔ہاں اگر اس وصف کو اوصاف ِ مدح میں سے نہ کہئے اور اس مقام کو مقام مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تاخرِ زمانی صحیح ہو سکتی ہے مگر میںجانتا ہوں کہ اہلِ اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی…
عرض پردازہوں کہ اطلاقِ خاتم اس بات کو متقضی ہے کہ تمام انبیاء کاسلسلہ نبوت آپ پر ختم ہوتا ہے جیسا انبیاء گزشتہ کا وصف ِ نبوت میں حسب تقریر مذکور اس لفظ میں آپکی طرف محتاج ہونا ثابت ہوتا ہے اور آپ کا اس وصف میں کسی کی طرف محتاج ہونا انبیاء گزشتہ ہوں یا کوئی اور۔ اسی طرح اگر فرض کیجئے آپ کے زمانے میں بھی اس زمین میں یا کسی اور زمین میں یا آسمان میں کوئی اور نبی ہو تو وہ بھی اس وصف ِ نبوت میں آپ ہی کا محتاج ہو گا اور اس کا سلسلہ نبوت بہر طور پر آپ پر مختتم ہوگا۔۔۔۔۔۔۔بلکہ اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور نبی ہو جب بھی آپ کا خاتَم ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔‘‘
( تحذیر الناس،مصنفہ مولانا قاسم ناتوتوی صاحب ،قاری پریس دیوبند ص۳)
اسی طرح نواب صدیق حسن خان صاحب نے تحریر کیا ہے کہ
’’حدیث لا وحی بعد موتی بے اصل ہے ہاں لا نبی بعدی آیا ہے۔ اس کے معنی نزدیک اہلِ علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرعِ ناسخ نہ لائے گا۔‘‘
(اقتراب الساعۃ ،مطبع مفید عام آگرہ ،مصنفہ نواب صدیق حسن خان ص۱۶۲)
ان کتابوں میں بھی جو لکھی ہی جماعت کی مخالفت میں گئی تھیں اور جن میں جماعت ِ احمدیہ کے خلاف جی بھر کر زہر اگلا گیا تھا،اس بات کا برملا اظہار کیا گیا تھا کہ امت ِ مسلمہ کے سلفِ صالحین کی ایک بڑی تعداد یہ عقیدہ رکھتی رہی ہے کہ گو کہ آنحضرت ﷺ کے بعد شرعی نبی نہیں آ سکتا لیکن آنحضرت ﷺ کی اتباع میں ایک شخص کو نبوت کا مقام مل سکتا ہے چنانچہ ایک کتاب ’’ مرزائیت نئے زاویوں سے ‘‘ میں مصنف لکھتا ہے :
’’اب رہی یہ بحث کہ صوفیائِ کرام نے نبوت کے معنی میں یہ توسیع کیوں فرمائی کہ اس کا اطلاق اولیاء پر بھی ہو سکے۔تو یہ ایک لطیف بحث ہے۔ہماری تحقیق یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری صوفیاء کے اس تصور پر عائد ہوتی ہے جو انہوں نے نبوت سے متعلق قائم کیا۔انہوں نے یہ سمجھا کہ کمالات ِ نبوت ایسی چیز ہے جو سعی اور کوشش سے حاصل ہو سکتی ہے۔زہد و ریاضت اور اللہ کی خوشنودی کے حصول میں جد و جہد انسان کو اس حد تک پہنچا دیتی ہے کہ اس کا آئینہ دل اتنا مجلا اور شفاف ہو جائے کہ غیب کے انوار و تجلیات کی جھلک اس پر منعکس ہو۔ان کا دل مہبط ِ وحی قرار پائے۔اور اس کے کان طرح طرح کی آوازیں سنیں۔یعنی مقامِ نبوت یا محدثیت اور بالفعل نبوت کا حصول یہ دو مختلف چیزیں نہیں ۔مقامِ نبوت سے مراد عمل و فکر کی وہ صلاحیتیں ہیں جو بشریت کی معراج ہیں۔ان تک رسائی کے دروازے امتِ محمدیہ پر بلا شبہ کھلے ہیں۔شوقِ عبودیت اور ذوقِ عبادت شرط ہے۔جو بات ختمِ نبوت کی تصریحات کے بعد ہماری دسترس سے باہر ہے ۔وہ نبوت کا حصول ہے کہ اس کا تعلق یکسر اللہ تعالیٰ کے انتخاب سے ہے۔یعنی یہ اس پر موقوف ہیکہ اس کی نگاہِ کرم اس عہدہ جلیلہ کے لئے اپنے کسی بندے کو چن لے ۔جس میں نبوت کی صلاحیتیں پہلے سے موجود ہوں اور جو مقامِ نبوت پر پہلے سے فائز ہو۔اب چونکہ نامزدگی کایہ سلسلہ بند ہے۔اس لئے کوئی شخص ان معنوں میں تو نبی ہر گز نہیں ہو سکتاکہ اس کاماننا دوسروں کے لئے ضروری ہو اور اس کے الہامات دوسروں پر شرعاً حجت ہوں۔البتہ مقامِ نبوت یا نبوت کی صلاحیتیں اب بھی حاصل ہو سکتی ہیں۔نبوت کے اس تصور سے چونکہ نبوتِ مصطلحہ اور ولایت کے اس مقام میں بجز نامزدگی کے اور کوئی بنیادی فرق نہیں رہتا۔اس لئے وہ حق بجانب ہیں کہ اس کو بھی ایک طرح کی نبوت قرار دیں کہ دونوں فطرت وحقیقت کے اعتبار سے ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔‘‘(مرزائیت نئے زاویوں سے مصنفہ محمد حنیف ندوی ص ۷۵۔۷۶)
اب ان چند مثالوں سے ظاہر ہے کہ پہلی صدی سے لے کر موجودہ دور تک سلف ِ صالحین اور بعد کے علماء کی ایک بڑی تعداد اس بات کی قائل رہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد آنحضرت ﷺ کی غلامی میں امتی نبی آنے کا دروازہ بند نہیں ہوا اور خاتم النبیین کے الفاظ کا قطعاََ یہ مطلب نہیں کہ آپ کے بعد اب کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آ سکتا۔اب پوری قومی اسمبلی پر مشتمل سپیشل کمیٹی کے سپرد تو یہ کام ہوا تھا کہ یہ تعین کرے کہ جو شخص آنحضرت ﷺ کو آخری نبی نہیں سمجھتا اس کا اسلام میں کیاStatusہے۔اب اگر وہ یہ بحث شروع کرتے تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ یہ کارروائی اپنے موضوع پر آگئی ہے ۔جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا تھا کہ پرانے بزرگوں اور بعد کے علماء نے اتنے تواتر سے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد امتی نبی کا مقام حاصل کرنامقامِ خاتم النبیین کے منافی نہیں ہے کہ ان حوالوں کو پڑھنے میں کئی دن درکار ہوں گے۔تو چاہئے تو یہ تھا کہ قومی اسمبلی بھی مشتاق ہوتی کہ ہاں ہمیں بھی وہ حوالے سنائیں ورنہ ہم ابھی تک تو یہی سمجھے بیٹھے تھے کہ آنحضرت ﷺکے بعد جو کسی قسم کی نبوت کے دروازے کو کھلا ہوا سمجھے وہ فوراً دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔سوالات اُ ٹھانے والے اپنی اس کمزوری کو جانتے تھے۔عقل کا تقاضا یہ تھا کہ اگر اس بنیاد پر کسی کو غیر مسلم کہا جاتا تو اس کافر گری کے عمل کی زد میں سلف ِ صالحین کی ایک بڑی تعداد آجاتی۔چنانچہ اس صورت ِ حال میں ہم اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ آخر کیوں ایک بارپھر اٹارنی جنرل صاحب نے موضوع سے گریز کیا اور دوسرے موضوع پر سوالات شروع کر دیئے۔
بہر حال اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے اپنی طرف سے ایک دلیل پیش فرمائی ۔اس دلیل کی حالت ملاحظہ ہو۔انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تحریر کو پڑھا:
’’۔۔اور میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر قسم کھا سکتا ہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے حضرت موسٰی ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ پر اپنا کلام نازل کیا تھا۔‘‘(۷۴)
یہ حوالہ پڑھ کر یحییٰ بختیار صاحب نے حضور سے کہا :
’’یہ آپ دیکھ لیجئے۔‘‘
یہ پڑھتے ہوئے آدمی سوچتا ہے کہ آخر اس پر وہ کیا اعتراض کریں گے۔انہوں نے یہ حوالہ دکھاتے ہی کہا
’’اب مرزا صاحب ۔اس پر ذرا کچھ روشنی ڈالیں کہ جب مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر یہ قسم کھا سکتا ہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے اوپر نازل ہوتی ہے۔ایک نبی ہونے کی حیثیت سے بول رہے ہیں کہ مجھ پر جو وحی نازل ہوتی ہے وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے حضرت موسٰیؑ،حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمد مصطفیٰ صلعم پر اپنا کلام نازل کیا تھا۔یہ ان تینوں سے علیحدہ نبی ہو کر اپنے کلام کا ذکر کر رہے ہیں۔‘‘
یعنی ان کی مراد یہ تھی کہ اس حوالہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ امتی نبی ہونے کا نہیں تھا اور نہ آپ کادعویٰ یہ تھا کہ آپ ؑ نے جو کچھ پایا ہے وہ آنحضرت ﷺ کے فیض سے پایا ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حوالہ پر یہ اعتراض کسی طور سے نہیں اُ ٹھ سکتا یہاں صرف منبع وحی کا ذکر ہے۔اٹارنی جنرل صاحب کا مطلب کیا یہ تھا کہ امتی نبی کو یہ کہنا چاہئے کہ مجھ پر کسی اور خدا کی وحی اترتی ہے اور اس خدا کی وحی نہیں اترتی جس نے گزشتہ انبیاء سے کلام کیا تھا۔اٹارنی جنرل صاحب کا یہ استنباط ان پاس دلائل کے فقدان کا ثبوت تو ہو سکتا ہے لیکن اسے کوئی سنجیدہ استنباط نہیں کہا جا سکتا۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کتاب کے اسی صفحہ پر اس نام نہاد اعتراض کی مکمل تردید ہو جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں۔
’’میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں۔ مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیو ض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علمِ غیب پایا ہے مگر بغیر کسی جدید شریعت کے۔‘‘
یحییٰ بختیار صاحب کو حضور نے اس عبارت کا مطلب سمجھانا شروع کیا مگر وہ بار بار یہ اصرار کر رہے تھے کہ اس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایک مختلف نبی کی حیثیت سے وحی آئی ہے۔حالانکہ اگر مذکورہ عبارت مکمل پڑھی جائے تو یہ عبارت تو صاف صاف یہ اعلان کر رہی ہے کہ حضرت مسیح موعود کو امتی نبی کا مقام آنحضرت ﷺ کی اقتدا ء کی برکت سے ملا تھا ۔اور آپ کوئی نئی شریعت نہیں لائے تھے ۔مگر اٹارنی جنرل صاحب کو اپنے استدلال پر اتنا یقین تھا کہ وہ اپنی بات پر مصر تھے اور یہاں تک کہہ گئے
‏The words are quite simple and plane
یعنی یہ الفاظ تو بالکل واضح ہیں۔بات تو ٹھیک تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ تو بالکل واضح تھے لیکن اٹارنی جنرل صاحب اور انہیںسوالات مہیا کرنے والوں کا ذہن کج روی کا شکار تھا۔
ابھی یہ بحث کسی نتیجہ کے قریب نہیں پہنچی تھی کہ اٹارنی جنرل صاحب نے موضوع تبدیل کیا اور یہ اعتراض پیش کیا کہ احمدیوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو باقی مسلمانوں سے علیحدہ رکھا ہے۔حالانکہ احمدیوں نے تو ہمیشہ مظالم کا نشانہ بننے کے با وجود مسلمانوں کے مفادات کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ یہ اعتراض اس لئے بھی بے بنیاد تھا۔عالمِ اسلام میں بہت سے فرقوں نے بہت سے پہلوؤں سے اپنا علیحدہ تشخص برقرار رکھا ہے۔ بلکہ بہت سے علماء نے دوسرے فرقوں کے متعلق یہ فتاویٰ دیئے تھے کہ ان کے ساتھ شادی بیاہ، مودت تو ایک طرف رہی عام معاشی تعلقات بھی حرام ہیں۔اور اس سلسلہ میں انہوں نے بہت سے الفضل کے حوالے بھی نوٹ کرائے ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا کہ یہ حوالے نوٹ کر لئے جائیں ان کو چیک کر کے جواب دیا جائے گا۔
اس کے بعد یہ گھسا پٹا اعتراض دہرایا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انگریز گورنمنٹ کی اطاعت اور ان سے تعاون کا حکم دیا تھا۔اوّل تو اس اعتراض کا اس مسئلہ سے کیا تعلق تھا کہ جس پر غور کرنے کے لیے یہ کمیٹی کام کر رہی تھی۔زیر غور مسئلہ تو یہ تھا کہ جو شخص حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی نہیں مانتا اس کا اسلام میں کیا Statusہے اور یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ آج سے کئی دہائیا ں قبل جب برِ صغیر میں انگریزوں کی حکومت قائم تھی تو کیا احمدی اس حکومت کی اطاعت کرتے تھے یا نہیں۔کوئی بھی صاحبِ شعور دیکھ سکتا ہے کہ غیر متعلقہ امور پرسوالات کر کے محض اصل موضوع سے کنارہ کیا جا رہا تھا۔ اور یہ سوال قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک کیا جا رہا ہے۔اگر ایک منٹ کے لیے یہ تسلیم کر لیا جائے کہ جس گروہ نے انگریز حکومت کی اطاعت کی تھی اسے دائرہ اسلام سے خارج کر دینا چاہئے۔یا اگر کوئی گروہ اس وقت انگریزوں کی حکومت سے تعاون کر رہا تھا تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ اس نے اپنے آپ کو امتِ مسلمہ سے علیحدہ رکھا ہے ۔تو پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ اس وقت کون کون سے گروہ انگریز حکومت کی اطاعت کر رہے تھے اور ان سے تعاون کر رہے تھے۔یہ حقیقت پیشِ نظر رہنی چاہئے کہ انگریزوں کی حکومت قائم ہونے سے قبل ہندوستان ایک طوائف الملوکی کے خوفناک دور سے گزر رہا تھا۔مغل سلطنت تو اب لال قلعہ کی حدود تک محدود ہو چکی تھی۔اور اس دورِ خرابی میں ہندوستان میں بالعموم اور بالخصوص پنجاب میںخاص طور پر مسلمانوں کے حقوق بری طرح پامال کیے جا رہے تھے۔اور پنجاب میں تو سکھوں کی حکومت میں مسلمانوں پر وہ وحشیانہ مظالم کئے گئے تھے کہ جن کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ان کی مذہبی آزادی مکمل طور پر سلب کی جا چکی تھی۔اس دور میں جب کہ ابھی پورے ہندوستان پر انگریزوں کا غلبہ نہیں ہوا تھا ،اس وقت ان علاقوں کے لوگوں کے خیالات کیا تھے جہاں پر ابھی مقامی راجہ مہاراجہ حکومت کر رہے تھے۔اسکے متعلق مسلمانوں کے مشہور لیڈر سر سید احمد خان صاحب لکھتے ہیں۔
’’۔۔۔ہماری گورنمنٹ کی عملداری دفعۃََ ہندوستان میں نہیں آئی تھی بلکہ رفتہ رفتہ ہوئی تھی جس کی ابتداء ۱۷۵۷ ء کے وقت سراج الدولہ کے پلاسی پر شکست کھانے سے شمار ہوتی ہے۔ اس زمانے سے چند روز پیشتر تک تمام رعایا اور رئیسوں کے دل ہماری گورنمنٹ کی طرف کھنچتے تھے اور ہماری گورنمنٹ اور اس کے حکامِ متعہد کے اخلاق اور اوصاف اور رحم اور استحکامِ عہود اور رعایا پروری اور امن و آسائش سن سن کر جو عملداریاںہندو اور مسلمانوں کی ہماری گورنمنٹ کے ہمسائے میں تھیں وہ خواہش رکھتی تھیں اس بات کی کہ ہماری گورنمنٹ کے سایہ میں ہوں ۔‘‘ (۷۵)
اس زمانہ کے حالات کے گواہ،مسلمانوں کے لیڈر اور عظیم خیر خواہ سر سید احمد خان صاحب لکھ رہے ہیں جب کہ خود ہندوستان کے لوگوں کی،جن میں مسلمان اور ہندو دونوں شامل تھے یہ خواہش تھی کہ وہ انگریزوں کی حکومت کے تحت آجائیں۔اس دور میں جب کہ پنجاب اور اس کے ساتھ ملحقہ علاقوں میں انگریزوں کی نہیں بلکہ سکھوں کی حکومت قائم تھی ۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دورِ حکومت میں تو پھر بھی مسلمانوں کی کچھ اشک شوئی ہوئی ورنہ باقی سکھ فرمانرواؤں کے دور میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی کو اس بری طرح پامال کیا گیا کہ بعض مسلمان قائد ین نے ان کے خلاف اعلانِ جہاد کر دیا۔ جن میں ایک نمایاں نام سید احمد شہید صاحب اورمولوی اسماعیل شہید کا ہے۔
سید احمد شہید کا فتویٰ تھا :
’’سرکار انگریز گو منکر ِ اسلام ہے مگر مسلمانوں پر کچھ ظلم اور تعدی نہیں کرتی اور نہ ان کو فرض ِ مذہبی اور عبادت ِ لازمی سے روکتی ہے ۔ہم ان کے ملک میں اعلانیہ وعظ کہتے اور ترویج کرتے ہیں وہ کبھی مانع اور مزاحم نہیں ہوتی ۔بلکہ اگر ہم پر کوئی زیادتی کرتا ہے تو اس کو سزا دینے کو تیار ہے ۔ہمارا اصل کام اشاعت ِ توحید الٰہی اور احیائے سنن سید المرسلین ہے۔سو ہم بلا روک ٹوک اس ملک میں کرتے ہیں ۔پھر ہم سرکار ِ انگریز پر کس سبب سے جہاد کریں اور خلاف ِ اصولِ مذہب طرفین کا خون بلاسبب گرادیں ۔‘‘(۷۶)
تو سید احمد شہید صاحب ؒ کے نزدیک اس دور میں انگریز حکومت کے خلاف جہاد کرنا خلاف ِ اصولِ مذہب اسلام تھا۔اسی دور میں مولوی اسماعیل شہید صاحب نے سکھوں سے جہاد کرنے کے لیے لوگوں کو ترغیب دی اور لشکر ترتیب دیئے۔انہوں نے یہ واضح اعلان کیا کہ ’’جو مسلمان سرکار ِ انگریز کی امان میں رہتے ہیں ہندوستان میں جہاد نہیں کر سکتے ۔‘‘(۷۷)
جب انگریزوں کی حکومت ہندوستان میں مستحکم ہو گئی تو علما ء نے اس کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی چنانچہ جماعت ِ احمدیہ کے ایک اشد مخالف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تحریر کرتے ہیں :
’’بناء علیہ اہلِ اسلام ہندوستان کے لئے گورنمنٹ انگریزی کی مخالفت و بغاوت حرام ہے۔‘‘(۷۸)
پھر تحریر کرتے ہیں :
’’اس امن و آزادی عام و حسنِ انتظام برٹش گورنمنٹ کی نظر سے اہلحدیث ِ ہند اس سلطنت کو ازبس غنیمت سمجھتے ہیں اور اس سلطنت کی رعایا ہونے کو اسلامی سلطنتوں کی رعایا ہونے سے بہتر جانتے ہیں اور جہاں کہیں وہ رہیں یا جائیں (عرب میں خواہ روم میں خواہ اور کہیں)کسی اور ریاست کا محکوم و رعایا ہونا نہیں چاہتے ۔‘‘ (۷۹)
جب ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے سیاسی مفادات کی حفاظت کے لیے مسلم لیگ قائم کی تو اس کے اغراض و مقاصد بھی طے کیے گئے۔ان میں سے پہلا مقصد یہ تھا :
To promote among Indian Muslims feelings of loyalty towards the British Government, and to remove any misconception that may arise as to the intentions of the government with regard to any of its measures.
ہندوستان کے مسلمانوں میں برٹش گورنمنٹ کی بابت وفاداری کے احساس کو بڑھانا اور گورنمنٹ کے کسی قدم کے بارے میں اگر کوئی غلط فہمی پیدا ہو تو اسے دور کرنا ۔(۸۰)
اور جب پنجاب میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تو اس کے بنیادی اغراض و مقاصد طے کیے گئے۔ ان چار مقاصد میں سے ایک یہ تھا :
’’مسلمانوں کے درمیان برٹش گورنمنٹ کی نسبت سچی وفاداری کا خیال قائم رکھنا اور بڑھانا ۔‘‘(۸۱)
واضح رہے کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کہلانے کی مستحق تھی تو وہ مسلم لیگ تھی اور اس کے اغراض و مقاصد میں انگریزوں کی حکومت کے بارے میں کن نظریات کا اظہار کیا گیا تھا یہ مندرجہ بالا حوالے سے واضح ہے۔اور جب وائسرائے ہند لارڈ منٹو کی خدمت میں پنجاب مسلم لیگ نے ایڈریس پیش کیا تو اس میں ان الفاظ میں مسلم لیگ کی پالیسی کا اعادہ کیا گیا
’’ہماری جماعت انگریزی تاج سے مستقل محبت وفاداری رکھتی ہے۔۔۔۔۔ہم اس موقع کو زور کے ساتھ یہ عرض کیے بغیر گزر جانے دینا نہیں چاہتے کہ بعض انقلاب پسندوں نے جو انارکزم کا رویہ اختیار کیا ہے۔اس سے نہ صرف مسلمانانِ پنجاب کو بلکہ کل ہندوستان کی اسلامی جماعت کو دلی نفرت ہے۔‘‘(۸۲)
اور ۱۹۱۱ء میں پنجاب مسلم لیگ نے جو ایڈریس لارڈ ہارڈنگ وائسرائے ہند کو پیش کیا اس میں یہ اقرار کیا :
’’گزشتہ چند سال میں ہندوستان کا پولیٹیکل مطلع اس صوبہ میں سڈیشن اور بے چینی کے بادلوں سے مکدر ہو رہا تھا ۔مسلمانوں نے کبھی ایک لمحہ کے لیے اپنی برٹش گورنمنٹ کی مستحکم عقیدت میں پس وپیش نہیں کیا۔‘‘(۸۳)
اور ۱۹۱۲ء میں جب پنجاب مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا تو اس کے خطبہ صدارت کا آ غاز برٹش گورنمنٹ کی گوناں گوں برکات کے ذکر سے ہوا۔(۸۴)
اگر یہی کلیہ تسلیم کر لیا جائے کہ جن مسلمانوں نے ہندوستان میں انگریز حکومت سے تعاون کیا یا تعاون کا اعلان کیا انہیں ملت ِ اسلامیہ سے علیحدہ متصور کرنا چاہئے تو اس نامعقول کلیہ کی زد میں سرسیداحمد خان ، سید احمد شہید ،مولوی اسماعیل شہید،غیر احمدی علماء اور پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ کے تمام مسلمان لیڈر آجائیں گے ۔نہ صرف یہ بلکہ ہندوستان کے مسلمانوں کی بھاری اکثریت کے متعلق بھی یہی کہنا پڑے گا کہ انہیں ملت ِ اسلامیہ سے علیحدہ سمجھنا چاہئے۔لیکن ماضی کے ان حقائق پر نظر ڈالے بغیر مخالفینِ جماعت مسلسل یہ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ جماعت ِ احمدیہ نے انگریز حکومت سے تعاون کیوں کیا؟بلکہ جب ہم نے صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب سے انٹرویو کیا تو ان کا کہنا تھا کہ انگریز حکومت سے تعاون کے بارے میں جو جوابات دیئے گئے تھے ممبرانِ اسمبلی کی ان سے تسلی نہیں ہوئی تھی۔ہم نے جو حوالے درج کئے ہیں ان کے مطابق تو یہ سوال اُ ٹھتا ہی نہیں ہے کجا یہ کہ اس پر تسلی ہونے یا نہ ہونے کی بحث کی جائے۔
۹؍ اگست کے دن کے آخری حصہ کی کارروائی کا کچھ حصہ تو پہلے ہی بیان ہو چکا ہے ۔اور اس روز کے آخری اجلاس کا بیشتر حصہ بھی اس امرپر بحث کرتے ہوئے گزرا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مخالفین کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کئے ہیں کہ نہیں ۔اس دن کی کارروائی کے آخر میں اٹارنی جنرل صاحب نے اکملؔ صاحب کے ایک شعر کا سہارا لے کر یہ اعتراض اُ ٹھانے کی کوشش کی کہ جماعت ِ احمدیہ کے عقائد کے مطابق نعوذُ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام آنحضرت ﷺ سے زیادہ بلند ہے ۔یہ بھی ایک پرانا اعتراض ہے اور اس کا جواب جماعت کے لٹریچر میں بار ہا بڑی تفصیل سے آچکا ہے ۔لیکن یہ بات قابلِ غور ہے کہ وہ یہ اعتراض اُ ٹھانا چاہتے تھے کہ جماعت ِ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام آنحضرت ﷺ سے زیادہ سمجھتی ہے ۔اور اس کی تائید میں حضرت مسیح موعود ؑ کا کوئی الہام یا تحریر نہیں پیش کی گئی،خلفاء میں سے کسی کی تحریریا قول پیش نہیں کر سکے ۔پیش کیابھی تو کیا اکملؔ صاحب کا ایک شعر ۔اب اگر کوئی یہ جاننا چاہے کہ اسلام کے عقائدکیا ہیں تو کیا قرونِ اولیٰ کے کسی شاعر کا شعر پیش کیا جائے گا یا یہ مناسب ہو گا کہ کسی قرآنی آیت یا حدیث شریف کا حوالہ پیش کیا جائے۔ اس خلافِ عقل طرزِ استدلال کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے اس اعتراض کی تائید میں حضرت مسیح موعودؑ کی کوئی تحریر یا الہام ڈھونڈ ہی نہیں سکتے تھے ۔وہاں تو ہر جگہ اس بات کا اعلان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیثیت آنحضرت ﷺ کے ایک روحانی فرزند اور خادم کی ہے۔
اس دن کی کارروائی کے اختتام پر جو کچھ ہوا اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اب تک جو جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے مختلف فرقوں کے علماء کے حوالے پیش کئے گئے تھے کہ کس طرح مختلف فرقوں نے دوسرے فرقوں کو کافر کہا ہے،اس سے مولوی حضرات کے کیمپ میں کافی بے چینی پیدا ہوئی تھی۔ اور ایسا ہونا لازمی تھا۔کیونکہ ان کی ایک کوشش تھی کہ کسی طرح یہ ثابت کریں کہ احمدی تو غیر احمدی مسلمانوں کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے اور اس لئے اب ہمیں یہ حق ہے کہ ہم آئین میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیں۔لیکن اب تک یہ ہوا تھا کہ کثرت سے مختلف فرقوں کے علماء کے فتاویٰ پیش کئے گئے تھے جن میں انہوں نے ایک دوسرے کو کافر قرار دیا تھاتو عقل یہ تقاضا کرتی تھی کہ پھر تو ان تمام فرقوں کو غیرمسلم قرار دے دینا چاہئے۔چنانچہ اس بگڑتی ہوئی صورت ِ حال کو سنبھالنے کے لئے نورانی صاحب نے کہا کہ جو فتوے جماعت کے وفد نے یہاں پر سنائے ہیں ۔ان کیOriginalکتابیں یہاں پیش کرنی چاہئیں۔اس کے بغیر ان کا بیان مکمل نہیں ہونا چاہئے۔
اس پر حضور نے فرمایا کہ وہ کل یہاں پر ر کھد یئے جائیں یا لائبریری میں رکھ دیئے جائیں۔اب یہ صورت ِ حال بھی نورانی صاحب کے لئے نا قابلِ قبول تھی کیونکہ اس طرح ان فتووں کی نمائش ہی لگ جانی تھی۔اس پر کچھ دیر بعد نورانی صاحب نے ایک اور نکتہ اُٹھایا اور وہ یہ تھا کہ جو کفر کے فتووں کے حوالے جماعت کا وفد پیش کرے وہ اس صورت میں قبول کئے جائیں جب کہ دیوبند یا فرنگی محل وغیرہ کےOriginal اصل مہروں والے فتوے پیش کئے جائیں ورنہ اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ وفد نے گواہی غلط دی ہے۔اب یہ ایک بالکل بچگانہ فرمائش تھی۔جماعت احمدیہ نے مختلف فرقوں کی معروف کتب سے حوالے پیش کئے تھے اور کہیں نہیںکہا تھا کہ ہم دیوبند،فرنگی محل یا ملتان کے کسی مدرسہ کے Originalمہر والے فتووں سے پڑھ رہے ہیں۔ اور یہ فتوے جماعتِ احمدیہ کے پاس کیوں ہونے تھے۔ یہ فتوے تو ان مولوی حضرات یا ان کے مدرسوں کے پاس ہی ہونے تھے۔ہاں اگر کسی کو شک تھا کہ کتب کے حوالے غلط دیئے گئے تھے تو وہ متعلقہ کتاب دیکھنے کا مطالبہ پیش کر سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا جا رہا تھا کیونکہ یہ سب فتاویٰ صحیح تھے۔اگر یہی کلیہ تسلیم کیا جاتا تو جماعت ِ احمدیہ بھی یہ مطالبہ کر سکتی تھی کہ ہمارا بھی صرف وہی حوالہ صحیح سمجھا جائے گا جس پر جماعت کی مجلسِ افتاء کی مہر ہو،جماعت کی کسی کتاب میں درج کوئی فتویٰ ہم تسلیم نہیں کریں گے۔ابھی اس پر بحث چل رہی تھی کہ سپیکر صاحب نے کارروائی لکھنے والوں کو جانے کا کہا۔
۱۰؍ اگست کی کارروائی
اس روز کی صبح کی کارروائی کے دوران زیادہ تر پرانے حوالوں پر ہی بات ہوئی ۔ان کو چیک کر کے اسمبلی میں ان کی صحیح اور مکمل عبارت سنائی گئی ۔بعض حوالے ایسے بھی تھے جو غلط دیئے گئے تھے۔ ایک بار پھر بحث اس نقطہ کی طرف واپس آ گئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر میںجب حقیقی مسلمان کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں تو اس سے کیا مطلب لیا جائے۔ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف آئینہ کمالات ِ اسلام کا ایک حوالہ پیشِ نظر تھا جس کا حوالہ محضر نامہ میں بھی دیا گیا تھا۔
اٹارنی جنرل صاحب نے جب یہ سوال کیا اور کہا کہ جب اس قسم کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس سے یہ تاثر پڑتا ہے کہ جو غیر احمدی ہیں وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اصل میں مسلمان نہیں ہیں۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایاکہ اس کا جواب محضر نامہ میں آچکا ہے لیکن چونکہ سوال دہرایا گیا ہے اس لئے میں اس کا جواب دہرانا چاہتا ہوں ۔اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف ِ لطیف آئینہ کمالات ِ اسلام کا حوالہ پڑھ کر سنایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر میں جب اصطلاح حقیقی مسلمان کی استعمال ہوتی ہے تو اس کا کیا مطلب لینا چاہئے۔یہ عبارت غور سے پڑھنی چاہئے۔ کیونکہ اس مرحلہ پر جو کارروائی ہوئی مختلف اسمبلی ممبران اس کو توڑ موڑ کر اور غلط اضافوں کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہے اور اپنے بیانات کی زینت بناتے رہے تاکہ یہ ثابت کریں کہ اگر اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا تو اس کے ذمہ دار احمدی خود ہیں کیونکہ انہوں نے اس کارروائی کے دوران یہ موقف پیش کیا تھا کہ ہم اپنے علاوہ دوسرے مسلمانوں کو مسلمان نہیں سمجھتے۔بہر حال حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے حضرت مسیح موعود عیہ السلام کا جو حوالہ پڑھا وہ یہ تھا :
’’اصطلاحی معنے اسلام کے وہ ہیں جو اس آیت ِ کریمہ میںاس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کردیوے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیوے ۔مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہو جاوے۔
اعتقادی طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو درحقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خدا تعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے
اور عملی طور پر اس طرح سے کہ خالصاََ للہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہر یک خداداد توفیق سے وابستہ ہیں بجا لاوے مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبودِ حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے۔۔۔۔
اب آیاتِ ممدوحہ بالا پر ایک نظر ِ غور ڈالنے سے ہر ایک سلیم العقل سمجھ سکتا ہے کہ اسلام کی حقیقت تب کسی میں متحقق ہو سکتی ہے کہ جب اس کا وجود معہ اپنے تمام باطنی و ظاہری قویٰ کے محض خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کی راہ میں وقف ہو جاوے اور جو امانتیں اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں پھر اس مُعطیء حقیقی کو واپس دی جائیں اور نہ صرف اعتقادی طور پر بلکہ عمل کے آئینہ میں بھی اپنے اسلام اوراس کی حقیقتِ کاملہ کی ساری شکل دکھلائی جاوے یعنی شخص مدعی اسلام یہ بات ثابت کر دیوے کہ اس کے ہاتھ اور پیر اور دل اور دماغ اور اس کی عقل اور اس کا فہم اور اس کا غضب اور اس کا رحم اور اس کا حلم اور اس کا علم اور اس کی تمام روحانی اور جسمانی قوتیں اور اس کی عزت اور اس کا مال اور اس کا آرام اور سرور اور جو کچھ اس کا سر کے بالوں سے پیروں کے ناخنوں تک باعتبار ظاہر و باطن کے ہے یہاں تک کہ اس کی نیّات اور اس کے دل کے خطرات اور اس کے نفس کے جذبات سب خدا تعالیٰ کے ایسے تابع ہو گئے ہیں کہ جیسے ایک شخص کے اعضاء اس شخص کے تابع ہوتے ہیں۔غرض یہ ثابت ہو جائے کہ صدق قدم اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ جو کچھ اس کا ہے وہ اس کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہو گیا ہے اور تمام اعضاء اور قویٰ الٰہی خدمت پر ایسے لگ گئے ہیں کہ گویا وہ جوارح الحق ہیں۔
اور ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات بھی صاف اور بدیہی طور پر ظاہر ہو رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگی کا وقف کرنا جو حقیقت ِ اسلام ہے دو قسم پر ہے ۔ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کو ہی اپنا معبود اور مقصود اور محبوب ٹھہرایا جائے۔اور اس کی عبادت اور محبت اور خوف اور رجا میں کوئی دوسرا شریک باقی نہ رہے اور اس کی تقدیس اور تسبیح اور عبادت اور تمام عبودیت کے آداب اور احکام اور اوامر اور حدود اور آسمانی قضا و قدر کے امور بدل و جان قبول کئے جائیں اور نہایت نیستی اور تذلل سے ان سب حکموں اور حدوں اور قانونوں اور تقدیروں کو بارادت تام سر پر اُ ٹھا لیا جاوے اور نیز وہ تمام پاک صداقتیں اور پاک معارف جو اس کی وسیع قدرتوں کی معرفت کا ذریعہ اور اس کی ملکوت اور سلطنت کے علو مرتبہ کو معلوم کرنے کے لئے ایک واسطہ اور اس کے آلاء اور نعماء کے پہچاننے کے لئے ایک قوی رہبر ہیں بخوبی معلوم کر لی جائیں ۔۔۔۔‘‘
ابھی حضور نے یہ حوالہ یہیں تک ہی پڑھا تھا کہ مولوی غلام غوث ہزاروی صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ۔وہ سپیکر صاحب سے کہنے لگے کہ جناب یہ محضرنامے کے صفحات پڑھ رہے ہیں۔یہ ہم نے پڑھ لئے ہیں ۔اسلام کی یہ تعریف مرزا صاحب نے اپنے تقدس کو ظاہر کرنے کے لئے کی ہے۔ پڑھنے والے اس بات کو خود ہی پرکھ سکتے ہیں کہ اس جواب کو شروع کرنے سے پہلے ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے یہ فرما دیا تھا کہ اس سوال کا جواب تو محضر نامہ میں آ چکا ہے لیکن چونکہ سوال دہرایا گیا ہے اس لئے میںاس کے جواب کو دہرانا چاہوں گا۔سوال کرنے والوں کی حالت یہ تھی کہ ان کے پاس کرنے کو وہی گھسے پٹے سوالات تھے جنہیں وہ مسلسل دہرائے جا رہے تھے اور یہ سوال کتنے ہی عرصہ سے کئے جا رہے تھے ۔نیا سوال کوئی بھی نہیں تھا ۔لیکن جب جواب سنایا جاتا تھا تو وہ ان سے برداشت نہیں ہوتا تھا۔جب اس کے متعلق ایک بار پھر سوال کیا گیا کہ کیا یہ حوالہ محضر نامے میں ہے تو اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا کہ پہلے دن یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ اگر سوال کو دہرایا جائے گا تو جواب بھی دہرایا جائے گا۔اس کے بعد اس حوالے پر سوالات کرتے ہوئے اٹارنی جنرل صاحب نے سوال کر کے جو بحث اُ ٹھائی وہ یہ تھی۔انہوں نے حضور سے سوال کیا کہ اس وقت آپ کے نزدیک کتنے لوگ اس Definitionکے مطابق حقیقی مسلمان ہوںگے۔اب یہ ایک عجیب بچگانہ سوال تھا۔ مندرجہ بالا حوالے میں حقیقی مسلمان کی جو علامات درج کی گئی ہیںیہ زیادہ تر دل کے پوشیدہ خیالات سے تعلق رکھتی ہیں۔ان کا صحیح علم تو صرف خدائے علیم کو ہی ہو سکتا ہے لیکن پہلے تو پاکستان کی اسمبلی یہ فیصلہ کرنے بیٹھی تھی کہ کون مسلمان ہے ؟ اور اب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب کا خیال تھا کہ حکومت ایک مردم شماری بھی کرائے جس میں لوگوں کے دلوں کی نیتوں کا حساب بھی ملحوظِ نظر رکھا جائے۔بہر حال حضور نے وضاحت فرمائی کہ میرا علم بہر حال حاوی نہیں لیکن اس وقت میرے خیال میں ہزاروں میں ہوں گے اور لاکھوں کروڑوں پہلے گزر چکے ہوں گے۔اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے سوال فرمایا کہ آپ کے نقطہ نظر کے مطابق کیا سب احمدی اس تعریف کے اندر آ جاتے ہیں۔اس پر حضور نے فرمایا کہ نہیں آ سکتے۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ بالا حوالہ کے مطابق ،جس میں حقیقی مسلمان کی یہ علامات لکھی گئی ہیں، یہ بات چل رہی تھی۔اٹارنی جنرل صاحب نے سوال کیا کہ کیا غیر احمدیوں میں کوئی اس معیار کا حقیقی مسلمان ہے آپ کے عقیدے کے مطابق۔اس پر حضور نے فرمایا :
’’میرے عقیدے کے مطابق۔ہاں یہ بڑا واضح سوال ہے۔میرے عقیدے کے مطابق اس تعریف کے لحاظ سے میرے علم میں غیر احمدیحقیقی مسلمان نہیں۔کوئی غیراحمدی ملتِ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والا اس معیارکا کوئی نہیں۔‘‘
اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے سپیکر صاحب سے کہا :
Sir, I have spent one hour to get the answer. We may adjourn for tea break.
جناب ِ والا یہ جواب حاصل کرنے کے لئے میں نے ایک گھنٹہ صرف کیا ہے ۔ہم اب چائے کا وقفہ کر سکتے ہیں۔
ہم ذرا تفصیل سے اس سوال اور اس جواب کا جائزہ لیں گے۔کیونکہ بہت سے اسمبلی ممبران نے بار بار یہ دعویٰ کیا ہے کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ سے یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ غیر احمدیوں کو کیا سمجھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم انہیں مسلمان نہیں سمجھتے ہیں،کافر سمجھتے ہیں ،جہنمی سمجھتے ہیں ۔اور جب انہوں نے یہ کہہ دیا تو ہم مجبور ہو گئے کہ انہیں بھی کافر کہیں۔یہ بات یا اس سے ملتی جلتی بات تو پوری کارروائی میں شروع سے لے کر آخر تک ،الف سے لے کر یے تک نہیں پائی جاتی۔بلکہ سوالات کرنے والے نامکمل حوالے اور جزوی تصویر سامنے رکھ کر کئی دن یہ کوشش کرتے رہے تھے کہ حضور ایسی کوئی بات فرمائیں جو موجبِ اعتراض ہو۔ہر ممبر کو کارروائی کی کاپی ملتی تھی کہ وہ اپنی تسلی کر سکتا ہے بلکہ حکومت کے پاس تو اس کارروائی کا آڈیوریکارڈ بھی ہونا چاہئے ۔یہ ممبران تو حکومت سے مطالبہ بھی کر سکتے ہیںکہ اس آڈیوریکارڈ کومنظر ِ عام پر لایا جائے۔ہاں یہ مندرجہ بالا حصہ دس اگست ۱۹۷۴ء کی کارروائی میں ہے۔اور اسی کو موڑ توڑ کر یہ بیچارے ممبران اپنے اس فیصلے کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پیشتر اس کے کہ ان میں سے کچھ اہم ممبران اسمبلی کے بیانات درج کریں ،پڑھنے والا اس سوال اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے اس جواب میں یہ باتیں تو واضح طورپر دیکھ سکتا ہے۔
(۱) سوال یہ تھا ہی نہیں کہ آپ غیر احمدیوں کو مسلمان سمجھتے ہیں کہ نہیں؟ سوال یہ تھا کہ اگر حقیقی مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ وہ شخص جو اپنی تمام خواہشوں،ارادوں ،عملی اور ایمانی قوتوں کوخدا کے لئے وقف کردے یہاں تک کہ وہ خدا تعالیٰ کا ہو جائے۔اور وہ تمام پاک صداقتیں اور پاک معارف جو اس کی سلطنت کے علو مرتبہ کو معلوم کرنے کے لئے ضروری ہیں بخوبی معلوم کر لے ۔وہ خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کی مخلوق کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف رکھتا ہو اور اپنے تمام وجود کو حوالہ بخدا کر دے۔اس کے تمام جذبات مٹ جائیں ۔وہ خدا کی خاطر ہر بے عزتی کو قبول کرنے کے لئے مستعد ہو اور ہزاروں موتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو اور سب نفسانی تعلقات توڑ دے تو یہ مقام کن کو حاصل ہو سکتا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ سوال کرنے والے کو عقل کا استعمال کر کے یہ سوچنا چاہئے کہ اگر خدا کی طرف سے ایک مامور آئے اور ایک شخص یا ایک طبقہ اس مامور کا انکار کر دے بلکہ اس کی تکذیب کرے اور پھر بھی اگر وہ ان مدارجِ عالیہ کو حاصل کر سکتا ہے تو یہ سوال اُ ٹھتا ہے کہ اس مامور کی بعثت کا مقصد کیا رہ جاتا ہے۔اس سے خدا کے فعل پر اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اس نے مامور کیوںمبعوث کیا؟ جب کہ اس کے بغیر ہی تمام مدارج حاصل کئے جا سکتے تھے۔
(۲) جب حضور سے یحییٰ بختیار صاحب نے سوال کیا کہ کیا تمام احمدی اس تعریف کے مطابق حقیقی مسلمان ہیں تو حضور نے اس کا جواب نفی میں دیا۔اس تعریف کی رو سے تو حضور نے تمام احمدیوں کو بھی اس مقام کا حامل قرار نہیں دیا۔ظاہر ہے کہ حضور کسی احمدی کو کافر قرار نہیں دے سکتے۔ غیر احمدیوں کے بارے میں بھی یہ بات اسی تناظر میں دیکھنی چاہئے۔
(۳) حضور کا جو جواب ہے اس میں کہیں بھی غیر احمدیوں کوکافر یا غیر مسلم نہیں کہا گیا۔ بلکہ الفاظ تو یہ تھے’’غیر احمدی ملت ِ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والااس معیار کا کوئی نہیں‘‘ اس میں ہر گز کافر نہیں کہا گیا۔بلکہ اس میں تو واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ غیر احمدی بھی ملت ِ اسلامیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔اس ایک جملہ میں ہی کئے جانے والے اعتراض کا کافی جواب موجود ہے۔البتہ حضور نے یہ فرمایا تھا یہ معیار جو بیان کیا جا رہا ہے ،اس معیار کا کوئی غیر احمدی میرے علم میں نہیں ہے۔اور اس معیار کا ذکر پہلے ہم کر چکے ہیں کہ ایسے شخص میں اسلام کی حقیقی روح پیدا ہو گی جب یہ شخص خدا کی راہ میں اپنا تمام وجود سونپ دے اوراپنے تمام وجود کو خدا کی راہ میں سونپ دے۔اور اس کے تمام اعضاء ا ور نیات خدا کے لئے ہو جائیں۔ اور وہ نیستی کے ساتھ خدا کے تمام احکام دل و جان سے قبول کرے۔اس کے بندوں کی خدمت اور ہمدردی اور چارہ جوئی کے لئے اپنی زندگی وقف کر دے اور دوسروں کو راحت پہنچانے کے لئے خود دکھ گوارا کر لے۔اور وہ اپنا تمام وجود مع اپنی تمام خواہشوں اور قوتوں کے حوالہ بخدا کر دے اوراس کے تمام جذبات مٹ جائیںوہ خدا کے جلال کو ظاہر کرنے کے لئے ہر بے عزتی اور ذلت کو برداشت کرنے کے لئے مستعد ہو ۔اس درجہ کا فرمانبردار ہو کہ خدا کے لئے اس کا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو کاٹ سکے۔اور اس سے تعلق کا ثبوت دینے کے لئے اپنے تمام نفسانی تعلقات توڑ لے۔
یہ تھا معیار جس کا ذکر کیا جا رہا تھا۔اور ظاہر ہے کہ اگر ایک فرقہ کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے ایک مامور مبعوث کیا ہے تو اس کے انکار بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس کی تکفیر کے بعد بھی کیا کوئی یہ اعلیٰ مرتبہ پا سکتا ہے جس کا مذکورہ بالا حوالہ میں ذکر ہے تو پھر اس سے خدا کے فعل پر اعتراض اُٹھتا ہے کہ آخر اس مامور کی بعثت کی ضرورت کیا تھی جبکہ اس کے بغیر بلکہ اس کی تکفیر کرنے کے بعد بھی تمام اعلیٰ مراتب حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔اور حضور نے اپنے جواب میں فرمایا تھا کہ ملت ِ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے غیر احمدیوں میں سے میرے علم کے مطابق اس معیار کا کوئی نہیں ہے۔یا پھر مندرجہ بالا معیار کا ذکر تھا ۔غیر احمدی مسلمانوں کے کافر کہنے کا کوئی ذکر نہیں تھا بلکہ ان کو ملت ِاسلامیہ سے تعلق رکھنے والا کہا گیا تھا۔
مخالفین جماعت کی طرف سے بھی قومی اسمبلی کی تحریف شدہ کارروائی شائع کی گئی ہے۔یہ شائع شدہ کارروائی بہت مختصر ہے ۔چونکہ اکثر حصہ کو مولوی حضرات شائع کرنے کی ہمت ہی نہیں کر سکتے تھے۔مگر جو حصہ شائع بھی کیا گیا ہے اس میں جگہ جگہ تحریف کی گئی ہے۔مندرجہ بالا حصہ شائع کرتے ہوئے ان مولوی حضرات نے اپنی طرف سے یہ ہوشیاری کی ہے کہ آئینہ کمالات ِ اسلام کے حوالے کا وہ حصہ نہیں شائع کیا جو حضور نے اس وقت پڑھا تھا۔لیکن یہ جملہ اس تحریف شدہ اشاعت میں بھی اس طرح لکھا گیا ہے
’’میرے عقیدے کے مطابق اس لحاظ سے کوئی غیر احمدی ملت ِ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والا اس معیار کا نہیں۔‘‘
(تاریخی قومی دستاویز ۱۹۷۴ء ،ترتیب و تدوین اللہ وسایا،ناشر عالمی مجلسِ ختم نبوت،
حضوری باغ روڈ ملتان۔جنوری ۱۹۹۷ء ص۱۵۳)
اگر چہ جیسا کہ اصل سے موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ اس جملہ میں بھی تحریف کی گئی ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ ’’اس معیار‘‘کی جو تعریف بیان کی گئی تھی وہ درج نہیں کی لیکن پھر بھی یہ تحریف شدہ جملہ اس بات کو بالکل واضح کردیتا ہے کہ اس جملہ میں غیر احمدی مسلمانوں کو ملت ِ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والا بیان کیا گیا تھا،غیر مسلم ہر گز نہیں کہا گیا تھا۔
اور اللہ وسایا صاحب نے ایک اور کتاب تحریکِ ختمِ نبوت بھی لکھی ہے ۔اس کے حصہ سوئم میںاٹارنی جنرل صاحب یحییٰ بختیار صاحب کا ایک انٹرویو بھی شائع کیا گیا ہے۔اس میں یحییٰ بختیار صاحب خود کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے حقیقی مسلمان کی لمبی تعریف بیان کی جو کہ گیارہ بارہ صفحات کی تھی اور پھر یہ بات کہی کہ کوئی غیر احمدی حقیقی مسلمان نہیں ہو سکتا۔اس انٹرویو میں بھی یحییٰ بختیار صاحب نے اپنے نام نہاد کارناموں کا بہت ذکر کیا ہے اور ان کے انٹرویو میں بہت سی غلط بیانیاں بھی ہیں لیکن سوال یہ اُ ٹھتا ہے کہ وہ تو یہ کہہ رہے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے حقیقی مسلمان کی نہایت طویل تعریف بیان کی تھی۔اس کا ذکر تو اللہ وسایا صاحب کی شائع کی گئی کارروائی میں موجود نہیں۔ اللہ وسایا صاحب نے تو جو کارروائی شائع کی ہے اس میں تو اس کا نام و نشان نہیں ملتا۔خود انہی کی ایک اور کتاب یہ ثابت کر رہی ہے کہ اللہ وسایا صاحب نے تحریف شدہ کارروائی شائع کی تھی۔اور پھر حضور کا جملہ صرف یہ تھا کہ میرے علم میں کوئی غیر احمدی اس معیار کا نہیں ہے۔اور کیا معیار پیشِ نظر تھا اس کا ذکر ہم کر چکے ہیں۔ (تحریکِ ختم نبوت ،جلد سوئم ،مصنفہ اللہ وسایا،ناشرعالمی مجلسِ ختمِ نبوت ملتان ص۸۷۴)
ایک اور امر قابلِ ذکر ہے کہ یحییٰ بختیار صاحب کے انٹرویو میںبھی حقیقی مسلمان کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں،مسلمان کے نہیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ پچیس سال سے پاکستان کی قومی اسمبلی کے اہم ممبران کارروائی کے اس حصہ کے متعلق کیا پر مغز نکات بیان فرما رہے ہیں۔ہم ذکر کر چکے ہیں کہ دوسری طرف کا نقطہ نظر معلوم کرنے کے لئے ہم نے بعض ایسی اہم شخصیات کا انٹرویو بھی کیا جو اس موقع پر موجود تھیں اور انہوں نے بھی کارروائی کے اس مرحلہ کے متعلق کچھ نہ کچھ بیان فرمایا۔یہ اس لئے ضروری تھا کہ ہم ان معزز اراکین ِ اسمبلی سے براہ ِ راست مل کر اس کے متعلق ان کی رائے ریکارڈ کر لیں تاکہ کوئی واسطہ بیچ میں نہ ہو اور اس بات کو چونکہ بہت شہرت دی گئی ہے اس لئے کسی غلطی کا امکان ختم ہو جائے۔
ڈاکٹر مبشر حسن صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ اس وقت قومی اسمبلی میں موجود تھے۔ڈاکٹر صاحب پیپلز پارٹی کے بانی ِ اراکین میں سے ہیں۔اس وقت کابینہ کے ایک اہم رکن تھے۔بعد میں وہ پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل بھی رہے۔انہوں نے ہم سے انٹرویو کے دوران جو بیان کیا وہ ہم لفظ بلفظ نقل کر دیتے ہیں۔ڈاکٹر مبشر حسن صاحب فرماتے ہیں:
مبشر حسن صاحب:’’۔۔۔لیکن وہ جو ریزولیشن تھا ایک اور بات جو ہے وہ مجھے اس کا بڑا قلق ہے۔اور اس ریزولیشن کے پاس ہونے میں اس بات نے بہت کردار ادا کیا ۔وہ یہ ہے کہ آپ کو علم ہے کہ مسٹر بھٹو نے کہا تھا کہ میں ایسا Solutionدوں گااور خاموش ہو جاؤ۔انہوں نے پارلیمنٹ کی ایکHouse meeting in private sitting ، پرائیویٹ سٹنگ private sitting اسے کہتے ہیں جہاں جو پارلیمنٹ کا ممبر نہ ہو اسے بھی بلایا جا سکے۔اور وہاں پر ناصر احمد صاحب اور طاہر احمد صاحب گئے۔ یحییٰ بختیار صاحب نے ان سے سوالات کئے۔ایک سوال کے جواب میں یحییٰ بختیار نے ان سے پوچھا کہ کیاآپ جو احمدی نہیں ہیں مسلمان،انہیں مسلمان سمجھتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔‘‘
سلطان:آپ اس موقع پر موجود تھے؟
مبشر حسن صاحب: ’’میں موجود تھا۔اُس فقرے پر جب یہ فقرہ انہوں نے کہا کہ ہم باقیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے۔تو سارے ہاؤس میں او او او ۔اس طرح کی آوازیں بلند ہوئیں۔اچھا جی اے سانوں مسلمان نہیں سمجھدے۔That turned the vote(اس چیز نے ووٹ کو تبدیل کر دیا۔)‘‘
جوبات ڈاکٹر صاحب نے بیان فرمائی ہے وہ پوری کارروائی میں نہیں پائی جاتی۔جو جواب ہم نے لفظ بلفظ نقل کر دیا ہے اس جملہ میں تو اس الزام کی تردید پائی جاتی ہے ۔اس میں تو غیر احمدیوں کو ملت ِ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والا بیان کیا گیا۔
اور جب ہم نے قومی اسمبلی کے سپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب سے انٹرویو کیا تو ان کا کہنا یہ تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب نے یہ سوال پوچھا تھا کہ آپ بھی مسلمان ہیں ہم بھی مسلمان ہیں۔ آپ بھی اللہ اور رسول کو مانتے ہیں ۔ہم بھی اللہ اور رسول کو مانتے ہیں لیکن یہ بتائیں آپ کہ آپ اپنے آپ کو راسخ العقیدہ مسلمان سمجھتے ہیں کہ باقی جو مسلمان ہیں آپ ان کو بھی راسخ العقیدہ مسلمان سمجھتے ہیں کہ نہیں؟صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب نے کہا کہ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ ہم باقیوں کو مسلمان سمجھتے ہیں مسلمان جانتے ہیں لیکن راسخ العقیدہ مسلمان نہیں سمجھتے۔
یہاں ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر ایک فرقہ اپنے عقائد کو صحیح سمجھ رہا ہو تو وہ اس کے خلاف عقائد رکھنے والے فرقہ کو راسخ العقیدہ کیسے کہہ سکتا ہے۔اگر کسی بھی فرقہ سے پوچھا جائے تویہی کہے گا کہ ہمارے نزدیک ہم راسخ العقیدہ ہیں اور دوسرے نہیں ہیں۔
پھر ہم نے پروفیسر غفوراحمد صاحب سے ملاقات کی اور ان کا انٹرویو لیا۔جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ پروفیسر غفور صاحب اس وقت قومی اسمبلی میں جماعت ِ اسلامی کے پارلیمانی لیڈر تھے اور جماعت ِ اسلامی کے سیکریٹری جنرل بھی تھے۔اور انہوں نے ہمارے سوال کئے بغیر خود ہی اس جواب کا ذکر کیا اور ان کے نزدیک بھی اصل بات یہی تھی کہ اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم نہیں کہا تھا بلکہ احمدیوں نے غیر احمدیوںکو غیر مسلم قرار دیا تھا ۔پہلے تو یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے بشیرالدین صاحب آئے تھے لیکن اس پر ہم نے انہیں یاد دلایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نہیں بلکہ حضرت مرزا ناصر احمد قومی اسمبلی میں جماعت کے وفد کی قیادت کر رہے تھے۔ پھرپروفیسر غفور صاحب نے کہا کہ جماعت ِ احمدیہ مبائعین کی طرف سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اور غیر مبائعین کی طرف سے ان کا وفد قومی اسمبلی پیش ہوئے تو انٹرویو میں اس سوال کے بارے میں پروفیسر غفور صاحب کے معین الفاظ یہ تھے:
’’جی مرزا ناصر احمد صاحب اور لاہوری فرقہ کے لوگ بھی آئے تھے۔اور دونوں کے ساتھ گفتگو ہوئی تھی۔اور گفتگو اس طرح ہوئی تھی یحییٰ بختیار کےThrough۔۔۔ ۔۔پھر یہ بات بھی کہی کہ مرزا غلام احمد کو جو نہیں مانے گا وہ مسلمان نہیں اور دونوں نے کہا کہ وہ جہنم میں جائے جائیں گے۔یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان کو جہنم سے نکال دے۔ لیکن وہ جہنمی ہیں۔یہ بات نہیں ہے کہ ہم کافر کہہ رہے ہیں قادیانیوں کو۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ سارے مسلمانوں کو کافر کہہ رہے ہیں۔ہر وہ آدمی جو مرزا غلام احمد پر ایمان نہیں لاتا وہ ان کے نزدیک کافر ہے۔اور وہ جہنمی ہے اور یہی بات دونوں نے کہی۔‘‘
پڑھنے والے خود دیکھ سکتے ہیں کہ جماعت کے وفد نے تو غیر احمدیوں کو مسلمان کہا تھا اور اس بات کو اس وقت اسمبلی کے سپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں اور پروفیسر غفور صاحب نے بالکل خلاف ِ واقعہ جواب منسوب کیا ہے۔بلکہ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب نے جواب میں کچھ اور اضافہ جات بھی کئے ہیں یعنی دونوں وفود نے یہ کہا کہ ہم غیر احمدیوں کو نہ صرف غیر مسلم بلکہ جہنمی بھی سمجھتے ہیں ۔یہ جواب نہ جماعت ِ احمدیہ مبایعین کے وفد نے دیا تھا اور نہ ہی غیر مبایعین کے وفد نے یہ جواب دیا تھا ۔اس کا پوری کارروائی میں کوئی ذکر نہیں بلکہ اس کے با لکل برعکس جواب دیا گیا تھا۔نہ کسی کے جہنم میں جانے کا ذکر تھا اور نہ کسی کے جہنم سے باہر آنے کا ذکر تھا ۔یہاں پر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا کہ ایک بچے نے جب اپنی کوئی خواب گھر میں بیان کرنی ہوتی تھی تو یہ کہنے کی بجائے کہ میں نے یہ خواب دیکھی یہ کہتا تھا کہ میں نے ایک خواب سوچی۔تو ان ممبرانِ اسمبلی نے یہ جواب سنے نہیں تھے بلکہ سوچے تھے۔
اس پر ہم نے ان کی خدمت میں پھر عرض کی کہ میں نے یہ کارروائی پڑھی ہے۔یہ سوال تو کئی دن چلا تھا۔اور اصل میں تو سوال کچھ اور تھا۔جب اتنا اختلاف ہے تو پھر کیااس کارروائی کو ظاہر کر دینا مناسب نہ ہو گا۔اس پر انہوں نے جواب دیا کہ آپ مطالبہ کریں ہم اس مطالبہ کی حمایت کریں گے۔ اس پر ہم نے اپنے سوال کی طرف واپس آتے ہوئے کہا کہ میں نے یہ بات پہلے بھی پڑھی تھی۔لیکن جب کارروائی پڑھی تو اس میں یہ بات as such نہیں تھی۔اس پر پروفیسر غفور صاحب نے فرمایا
’’کارروائی پڑھ کہاں سے لی آپ نے۔مجھے اس بات پر حیرت ہے۔مجھے available نہیں ۔ میں ممبر رہا ہوں قومی اسمبلی کا ۔سینٹ کا۔‘‘
اس پر ہم نے انہیں یاد دلایا کہ جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین نے تو اس کو شائع بھی کر دیا ہے۔ (اگرچہ مخالفین نے یہ کارروائی مسخ کر کے اور تبدیل کر کے شائع کی ہے اور ہماری تحقیق کا ماخذ یہ تحریف شدہ اشاعت نہیں تھی۔)
اس پر پروفیسر غفور صاحب نے فرمایا کہ شائع کی ہو گی پر وہ Authenticنہیں ہے۔اس پر ہم نے پھر سوال دہرایا کہ کیا آپ کے نزدیک مخالفین نے جو اشاعت کی ہے وہ Authenticنہیں ہے۔اس پر انہوں نے اپنے اسی موقف کا اعادہ کیا ۔
بہت سے سیاستدانوں کی طرف سے جماعت کی طرف جو جواب منسوب کیا گیا اس کے متعلق فیضؔ کے الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
اور یہ بھی مدِ نظر رہنا چاہئے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا کہ خلیفہ وقت سے ایسا سوال کیا گیا ہو اور امامِ جماعت احمدیہ نے مذکورہ جواب دیا ہو۔جب ۱۹۵۳ء کے فسادات کے بعد تحقیقاتی عدالت قائم ہوئی اور اس نے کارروائی شروع کی تو ۱۳؍ جنوری ۱۹۵۴ء کی کارروائی میں تحقیقاتی عدالت کی کارروائی میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے سوال کیا گیا:
’’اگر کوئی شخص مرزا غلام احمد صاحب کے دعاوی پر واجبی غور کرنے کے بعد دیانتداری سے اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ آپ کا دعویٰ غلط تھاتو کیا پھر بھی وہ مسلمان رہے گا؟‘‘
اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے فرمایا۔
’’جی ہاں عام اصطلاح میں وہ پھر بھی مسلمان سمجھا جائے گا۔‘‘
پھر ۱۴ ؍جنوری کی کارروائی میں یہ سوال ایک اور رنگ میں کیا گیا۔تحقیقاتی عدالت جو کیانی اور منیر پر مشتمل تھی ،نے دریافت کیا۔
’’کیا ایک سچے نبی کا انکار کفر نہیں؟‘‘
مقصد یہ تھا کہ جب آپ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سچا نبی سمجھتے ہیں تو پھر کیا ان کا انکار کرنے والوں کا کفر کہیں گے؟
اس کے جواب میں حضور نے فرمایا:
’’ہاں یہ کفر ہے۔لیکن کفر دو قسم کا ہوتا ہے۔ایک وہ جس سے کوئی ملت سے خارج ہو جاتا ہے۔دوسرا وہ جس سے وہ ملت سے خارج نہیں ہوتا ۔کلمہ طیبہ کا انکار پہلی قسم کا کفر ہے۔ دوسری قسم کا کفر اس سے کم درجہ کی بدعقیدیوں سے پیدا ہوتا ہے۔‘‘
اور ہم پہلے ہی یہ بیان کر چکے ہیں کہ احادیث میں اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے والے،اور اپنے باپ سے بیزار ہونے والے ،نسب پر طعن کرنے والے، میت پر چلا کر رونے والے، ترک نماز کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اورکی قسم کھانے والے کو کافر اور ان کے اعمال کو کفر کہا گیا ہے ۔لیکن یہ اس قسم کا کفر ہے جس سے ایک شخص ملت سے خارج نہیں ہوتا۔
اور اس کے بعد مولوی حضرات نے بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ سے اسی قسم کے سوالات کئے تھے اور حضور نے مذکورہ بالا اصول کی بنیاد پر ہی ان کے جوابات دیئے تھے۔
اور اس بات پر پروفیسر غفوراحمد صاحب کو تو بالکل اعتراض نہیں ہونا چاہئے تھا کیونکہ خود ان کی جماعت کے بانی اور ان کے قائد مودودی صاحب نے تو اس بات پر بہت برہمگی کا اظہار کیا تھا کہ مسلم لیگ ہر آدمی کو جو اپنے آپ کو مسلمان کہے اپنی جماعت کا رکن بنا لیتی ہے۔ان کے نزدیک ہر مسلمان کو حقیقی مسلمان سمجھ لینا بڑی بنیادی غلطی تھی۔چنانچہ وہ اپنی کتاب مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوئم میں لکھتے ہیں۔
’’ایک قوم کے تمام افراد کو محض اس وجہ سے کہ وہ نسلاًمسلمان ہیں حقیقی معنی میں مسلمان فرض کر لینا اور یہ امید رکھنا کہ ان کے اجتماع سے جو کام بھی ہو گا اسلامی اصول پرہو گا پہلی اوربنیادی غلطی ہے۔یہ انبوہ ِ عظیم جس کو مسلمان قوم کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے ۹۹۹ فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں،نہ حق اور باطل کی تمیز سے آشنا ہیں ،نہ ان کا اخلاقی نقطہ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے ۔باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس اسلام کا نام ملتا چلا آرہا ہے اس لیے یہ مسلمان ہیں۔‘‘
(مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوئم مصنفہ ابولاعلیٰ مودودی،ناشر دفتر ترجمان القرآن۔
درالاسلام ۔جمالپور ۔متصل پٹھانکوٹ۔بار سوئم دو ہزار)
تو یہ بات واضح ہے کہ مودودی صاحب کے نزدیک ایک ہزار میں سے ۹۹۹ مسلمان کہلانے والے حقیقی مسلمان نہیں تھے۔
یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ یحییٰ بختیار صاحب نے کہا کہ حضور نے فرمایا کہ ہم دوسرے فرقوں کو حقیقی مسلمان نہیں سمجھتے۔مبشر حسن صاحب نے کہا کہ یہ کہا گیا کہ ہم غیر احمدیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے۔صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب نے کہا کہ یہ کہا گیا کہ ہم باقی مسلمانوں کو مسلمان سمجھتے ہیں لیکن راسخ العقیدہ نہیں سمجھتے ۔ پروفیسر غفور احمدصاحب نے کہا کہ یہ کہا تھا کہ ہم غیر احمدیوں کو کافر اور دوزخی سمجھتے ہیں۔ان سب حضرات کا باہمی اختلاف بہت واضح ہے اور ایک کا بیان دوسرے کے بیان کو غلط ثابت کر رہا ہے۔اور حقیقت کیا تھی وہ ہم بیان کر چکے ہیں۔
اور یہ بات تو مختلف اسلامی فرقوں کے لٹریچر میں عام ہے کہ صحیح اور حقیقی مسلمان صرف ہمارا ہی فرقہ ہے۔جیسا کہ کتاب کشف الباری عما فی صحیح البخاری میں لکھا ہے
’’فِرَقِ اسلامیہ ان کو کہتے ہیں جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اپنے آپ کو اسلام سے منسوب کرتے ہیں خواہ گمراہ ہوں یا صحیح راستے پر ہوں،معتزلہ ،خوارج، مرجئہ، کرامیہ ، جہمیہ وغیرہ سب کے سب علی التشکیک فِرَقِ ضالہ ہیں،صحیح اسلامی فرقہ ’’اہلِ السنۃ والجماعۃ ‘‘ ہے جو’’ وما انا علیہ و اصحابی ‘‘کے مطابق ہے،یہ لقب بھی اسی ارشاد ِ نبوی سے ماخوذ ہے۔‘‘
(کشف الباری عما فی صحیح البخاری جلد اول ،افادات شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان مہتمم جامعہ فاروقیہ
کراچی،ناشر مکتبہ فاروقیہ،شاہ فیصل کالونی کراچی ص۵۵۸)
اس کے بعد چائے کا وقفہ ہوا اور جب سوا بارہ بجے دوبارہ اجلاس شروع ہوا اور ابھی جماعت کا وفد ہال میں نہیں آیا تھا کہ سپیکر صاحب نے ممبران اسمبلی کو مخاطب کر کے ایک نیا انکشاف کیا ۔ان کے الفاظ یہ تھے
I will just draw the attention of the honourable memebers that we have decided certain things about the programme. I want to tell the honourble memebers that the attorney general needs at least a week to prepare what he has done in six days. It takes at least a week for preperation. We also need a week for the preperation of our record .Only then we can supply to the honourable memebers the copies of the record .Without which we cannot proceed further .....So today will be the last day. Rather this meeting will be the last for the cross examination. But the cross examination will continue. The date will be fixed and will be announced.
یعنی اٹارنی جنرل صاحب فرما رہے تھے کہ ہم نے ابھی یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب ان اجلاسات کو تقریباََ ایک ہفتہ کے لیے ملتوی کر دیا جائے کیونکہ اٹارنی جنرل صاحب نے جو کچھ ان چھ دنوں میں کیا ہے اس کے پیشِ نظر وہ تیاری کر سکیں ۔اور ریکارڈ تیار کیا جا سکے تا کہ مزید پیش رفت ہو سکے ۔آج اس کارروائی کا آ خری دن ہو گا اور یہ اجلاس آخری اجلاس ہو گا ۔نئی تاریخ کا اعلان بعد میں کر دیا جائے گا ۔اور سوالات کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اب اس مرحلہ پر ہم اس حیران کن پیش رفت کا جائزہ لیتے ہیں۔اسمبلی نے سٹیرنگ کمیٹی قائم کی تھی اور اس کمیٹی کا لائحہ عمل بھی طے کیاتھا۔با وجود جماعت کے مطالبہ کے جماعت کو مطلع نہیں کیا گیا تھا کہ کیا سوال کیے جائیں گے۔اور ظاہر ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب کے علم میں تھا کہ وہ کیا سوالات پوچھیں گے۔اور چھ روز سے مسلسل سوالات کا سلسلہ جاری تھا ابھی اس موضوع پر سوالات شروع بھی نہیں ہوئے تھے جن پر تحقیق کرنے کے لیے پوری اسمبلی پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی تھی اور اٹارنی جنرل صاحب یہ فرما رہے تھے کہ انہیں مزید سوالات کی تیاری کے لیے چھ دن درکار ہیں۔یہ سوال اُٹھتا ہے کہ اس معرکۃ الآراء اسمبلی کے اٹارنی جنرل صاحب اور ان کی اعانت کرنے والے علماء نے متعلقہ موضوع پر کیا ایک بھی سوال نہیں تیار کیا تھا کہ متعلقہ معاملہ پر سوال کئے بغیر ہی ان کے سوالات ختم ہو گئے۔حالانکہ انہیں تیاری کے لیے خاطر خواہ وقت پہلے ہی مل چکا تھا۔اور یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ یہ قدم اتنا اچانک کیوں اُ ٹھایا گیا ۔نہ جماعت کے وفد نے درخواست کی کہ ہمیں تیاری کے لیے کوئی وقت درکار ہے نہ ممبرانِ اسمبلی کو پہلے کوئی عندیہ دیا گیا کہ یہ کارروائی کچھ دنوں کے لئے معطل ہونے والی ہے اور چائے کا وقفہ ہوا اور پھر یہ اعلان کر دیا گیا کہ اب کچھ دنوں کا وقفہ کیا جاتا ہے اور پہلے سے یہ وقفہ پروگرام میں شامل نہیں تھا۔اور یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اس سے پہلے جو چائے کا وقفہ ہوا تھا وہ اٹارنی جنرل صاحب کی درخواست پر کیا گیا تھا۔
غیر متعلقہ ہی سہی جو سوالات کئے گئے تھے وہ کوئی نئے سوالات نہیں تھے۔کوئی جماعت کے جوابات سے اتفاق کرے یا نہ کرے یہ بالکل علیحدہ بات ہے لیکن یہ سوالات گزشتہ اسی نوے سال سے کئے جا رہے تھے اور جماعت کے مخالفین کا لٹریچر ان سوالات سے بھرا ہوا تھا اور جماعت کا لٹریچر ان کے جوابات سے بھرا ہوا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی طالب علم کو جماعت کی اور جماعت کے مخالفین کی چند کتابیں ایک دن کے لیے دے دی جائیں تو وہ ان سے بہتر سوالات تیار کر سکتا ہے۔
اس پس منظر میں یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ یہ کارروائی مخالفین کی امیدوں کے مطابق نہیں جا رہی تھی اور وہ خود اپنی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے۔اب جبکہ وہ اپنے سوالات کا نتیجہ دیکھ چکے تھے انہیں اب مزید تیاری کے لئے کچھ وقت کی اشد ضرورت تھی۔
اور جب وقفہ کے بعد سوا بارہ بجے کارروائی کا دوبارہ آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل صاحب کے سوالات کے آغاز ہی سے یہ بات واضح ہو گئی کہ واقعی انہیں اور ان کے معاونین کوکچھ وقفہ کی ضرورت تھی۔ وہ اعتراض یہ اُ ٹھا رہے تھے کہ احمدیوں نے ہمیشہ خود کو مسلمانوں سے علیحدہ رکھا ہے۔اور اس کی دلیل یہ پیش کر رہے تھے کہ ہر مذہب کے لوگوں نے اپنا علیحدہ کیلنڈر بنایا ہے۔عیسائیوں کا اپنا، مسلمانوں کا اپنا اور ہندوؤں اور پارسیوں کے اپنے اپنے کیلنڈر ہیں،اسی طرح احمدیوں نے بھی اپنا علیحدہ کیلنڈر بنایا ہوا ہے۔گویا تان اس بات پر ٹوٹ رہی تھی کہ اس طرح احمدیوں نے اسلام سے اپنا علیحدہ مذہب بنایا ہوا ہے۔بہت سے پیدائشی احمدی بھی یہ اعتراض پڑھ کر دم بخود رہ گئے ہوں گے ، اس لیے وضاحت ضروری ہے۔ معروف اسلامی ہجری کیلنڈر تو قمری حساب سے رائج ہے۔اور مسلمانوں میں شمسی کیلنڈر کے لیے عیسوی کیلنڈر استعمال ہوتا ہے جو کہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے سال سے شروع ہوتا ہے۔حضرت مصلح موعودؓ نے ایک ایسا شمسی کیلنڈر تیار کروایا جو کہ رسولِ کریمﷺ کی ہجرت کے سال سے شروع ہوتا تھا۔اور جنوری فروری مارچ وغیرہ نام کی بجائے نئے نام رکھے گئے جو اس ماہ میں ہونے والے ایسے اہم واقعات کی نسبت سے رکھے گئے جو رسولِ کریمﷺ کی زندگی میں ہوئے۔مثلاًجنوری کا نام صلح اس نسبت سے رکھا گیا کہ اس ماہ میں صلح حدیبیہ کا واقعہ ہوا تھا، فروری کا نام تبلیغ اس وجہ سے رکھا گیا کہ اس ماہ میں آنحضرتﷺ نے بادشاہوں کو تبلیغی خطوط لکھے تھے۔
گویا اگر کوئی آنحضرتﷺ کی محبت میں یہ کہے کہ شمسی کیلنڈر کو حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کی بجائے رسول ِکریم ﷺ کی ہجرت سے شروع کرنا چاہئے۔اور مہینوں کے نام آنحضرت ﷺ کی حیات ِ طیبہ کے واقعات پر رکھنے چاہئیں تو اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ یہ شخص یا یہ جماعت اپنے آپ کو اسلام سے علیحدہ کر رہی ہے اور اسے دائرہ اسلام سے خارج کر دینا چاہئے۔کوئی ذی ہوش اس لغو سوچ کی حمایت نہیں کر سکتا۔اس کے علاوہ اگر کیلنڈر دیکھ کر کسی کے مذہب کا فیصلہ کرنا ہے تو پھر عالمِ اسلام میں تو سب سے زیادہ عیسوی کیلنڈر مستعمل ہے تو کیا ان سب مسلمانوں کو عیسائی سمجھا جائے گا۔پھر یہ اعتراض اُ ٹھایا گیا کہ احمدیوں نے مسنون درود کی بجائے اپنا علیحدہ درود بنایا ہوا ہے اور اس میں احمد کا نام شامل کیا گیا ہے ۔اس الزام کی لمبی چوڑی تردید کی ضرورت نہیں۔دنیا کے ایک سونوے سے زیادہ ممالک میں احمدی موجود ہیں ان میں سے کسی سے بھی دریافت کیا جا سکتا ہے کہ وہ نماز میں کون سا درود پڑھتا ہے اور جماعت کے لٹریچر میں ہزاروں جگہ پر درود کی عبارت درج ہے کہیں سے پڑھ کر اپنی تسلی کی جا سکتی ہے۔
اس سیشن میں باقی سوالات بھی اسی نوعیت کے تھے کہ احمدیوں نے خود ہی ہمیشہ سے اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ رکھا ہے۔اور اس کی نام نہاد برہانِ قاطع کے طور پر اٹارنی جنرل صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کی اس تقریر کا ایک حوالہ پیش کیا جو حضور نے ۱۹۲۴ء میں لندن میں ویمبلے کانفرنس کے موقع پر تحریر فرمائی تھی اور وہاں پر اس کا انگریزی ترجمہ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓ نے پڑھ کر سنایا تھا۔جو جملہ اٹارنی جنرل صاحب نے وہاں پر پڑھا وہ ملاحظہ ہو
Ahmadis to form a seperate from the outside Mussalmans
جملہ پر سرسری نظر ہی بتا دیتی ہے کہ یہ فقرہ ہی درست نہیں ہے ،اس حوالے نے کیا درست ہونا ہے۔ اس کا کوئی مطلب ہی نہیں بنتا۔اور حضور نے اسی وقت اس امر کی نشاندہی فرمادی۔اٹارنی جنرل صاحب اور ان کی ٹیم نے اپنی سابقہ غلطیوں سے کوئی سبق نہیں حاصل کیا تھا۔یہ تقریر انگریزی میں بھیAhmadiyya Movementکے نام سے شائع ہوئی ہے اور اس پوری تقریر میں اس قسم کا کوئی جملہ موجود نہیں۔اس تقریر میں تو حضرت مصلح موعود ؓ نے یہ مضمون بیان فرمایا ہے۔آپ فرماتے ہیں
’’میں یہ بیان کر چکا ہوں کہ مسیح موعودؑ کسی نئے مذہب کے لانے والے نہ تھے بلکہ آپ اسلام کی خدمت کرنے اس کو نئی زندگی دینے اس کی اشاعت کرنے اور بنی آدم کو اسلام کی معرفت خدا کی طرف لے جانے کے لئے بھیجے گئے تھے۔‘‘
اس میں تو اٹارنی جنرل صاحب کے لگائے گئے الزام سے بالکل بر عکس مضمون بیان ہوا تھا۔
جب وقت ختم ہوا تو جماعت کے وفد پر اس بات کا انکشاف کیا گیا کہ اب کارروائی کچھ دنوں کے لیے روکی جا رہی ہے۔اور سپیکر صاحب نے اعلان کیا کہ اب کچھ دنوں کے لیے کارروائی روکی جا رہی ہے کیونکہ اٹارنی جنرل صاحب بھی مشقت سے گزرے ہیں اور وفد کے اراکین بھی مشقت سے گزرے ہیں۔ اسی گفتگو کے دوران اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا :
It is a strain on me also.....you are well acquainted with Islamic Law I am not.
یہ (کارروائی )مجھ پر بھی بوجھ ہے ۔۔۔آپ اسلامی قانون سے بخوبی واقف ہیں اور میں نہیں ہوں۔
جماعت کے وفد کے رخصت ہوتے وقت سپیکر صاحب نے شکریہ ادا کیا اور تلقین کی کہ اس کارروائی کو ظاہر نہ کیا جائے۔
اس وقت بعض ممبرانِ اسمبلی اس بات کا اعلان بھی کر رہے تھے کہ حضور سے جو سوال ہونے ہوں ان کی اطلاع جماعت کو پہلے ہی سے ہوتی ہے ۔اور راولپنڈی کے ایک ممبر قومی اسمبلی عبد العزیز بھٹی صاحب جو وکیل بھی تھے نے اس کا ذکر ایک احمدی وکیل مکرم مجیب الرحمن صاحب سے کیا اور وجہ یہ بیان کی کہ مرزا صاحب یوں جواب دیتے ہیں جیسے انہیں سوال کا پہلے سے ہی علم ہو ۔مکرم مجیب صاحب نے اس کا جواب یہ دیا کہ جماعت کی سو سالہ تاریخ میں جو اعتراضات بارہا کئے جا چکے ہیں اور جن کا جواب بارہا دیا جا چکا ہے ان کے بارے میں آپ کا یہ خیال کیوں ہے کہ خلیفہ وقت کو ان کا جواب معلوم نہیں ہو گا۔آپ مجھے کوئی ایسا سوال بتائیں جو جماعت کی تاریخ میں پہلے نہ کیا گیا ہو اور آپ نے پہلی مرتبہ کیا ہو۔(۸۵)
پہلے تو جب جماعت کا وفد ہال سے چلا جاتا تھا تو ممبرانِ اسمبلی جو گفتگو کرتے تھے وہ اسمبلی کے رپورٹرزتحریر کرتے رہتے تھے لیکن وقفہ سے پہلے کچھ اجلاسات کے اختتام پر جب جماعت کا وفد چلا جاتا تھا تو رپورٹرز کو بھی بھجوا دیا جاتا تھا اور یہ بات چیت تحریر نہیں کی جا سکتی تھی۔
اس طرح سپیشل کمیٹی کی کارروائی میں وقفہ ہو گیا۔اٹارنی جنرل صاحب کو تیاری کے لیے اس وقفہ کی ضرورت تھی۔اور جماعت ِ احمدیہ کا امام اپنی جماعت کو کس تیاری کے لیے توجہ دلا رہا تھا اس کا اندازہ اس خطبہ جمعہ سے ہوتا ہے جو حضور نے اس دوران ۱۶؍ اگست ۱۹۷۴ء کو مسجد اقصیٰ ربوہ میں ارشاد فرمایا تھا۔حضور نے ارشاد فرمایا :
’’یہ ابتلاؤں کا زمانہ ،دعاؤں کا زمانہ ہے اور سخت گھڑیوں ہی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت اور پیار کے اظہار کالطف آتا ہے۔ہماری بڑی نسل کو بھی اور ہماری نوجوان نسل اور اطفال کو بھی،مرد وزن ہر دو کو یہ یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے محبوب مہدی کے ذریعہ غلبہ اسلا م کا جو منصوبہ بنایا ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت ناکام نہیں کرسکتی ۔ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے منصوبوں کو زمینی تدبیریں ناکام نہیں کیا کرتیں ۔پس غلبہ اسلام کا یہ منصوبہ تو انشاء اللہ پورا ہو کر رہے گا۔جیسا کہ کہا گیا ہے اسلام ساری دنیا پر غالب آئے گا اور جیسا کہ ہمیں بتایا گیا ہے نوع ِ انسانی کے دل جماعت ِ احمدیہ کی حقیر قربانیوں کے نتیجہ میں حضرت محمدؐ رسول اللہ کے لیے فتح کیے جائیں گے اور نوعِ انسانی کو حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی قوت ِ قدسیہ کے نتیجہ میں رب ِ کریم کے قدموںمیں جمع کر دیا جائے گا۔یہ بشارتیں اور یہ خوش خبریاں تو انشاء اللہ پوری ہو کر رہیںگی ۔ایک ذرہ بھر بھی ان میں شک نہیں البتہ جس چیز میں شک کیا جا سکتا ہے اور جس کے نتیجہ میں ڈر پیدا ہوتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جو ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ نے اس کمزور جماعت کے کندھوں پر ڈالی ہیں اپنی بساط کے مطابق وہ ذمہ داریاں ادا کی جا رہی ہیں یا نہیں؟
پس جماعت اپنے کام میں لگی رہے ۔ یعنی تدبیر کے ساتھ، دعاؤں کے ساتھ غلبہ اسلام کے جہاد میں خود کو مصروف رکھے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دیتی چلی جائے۔وہ خدا جو ساری قدرتوں کا مالک اور جو اپنے امر پر غالب ہے۔اس نے جو کہا ہے وہ ضرور پورا ہوگا۔ خدا کرے ہماری زندگیوں میں ہماری کوششوں کو مقبولیت حاصل ہواور غلبہ اسلام کے وعدے پورے ہوں اور ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو ۔‘‘(۸۶)
پاکستان کے لیے دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :
’’ہمارے ملک کی اکثریت اور بہت بڑی اکثریت نہایت شریف ہے۔وہ کسی کو دکھ پہنچانے کے لیے تیار نہیںلیکن ملک ملک کی عادتیں ہوتی ہیں۔کسی جگہ شریف آدمی مقابلہ کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور کسی جگہ شریف آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میری شرافت کا تقاضا ہے کہ خاموش رہوں ۔جن لوگوں نے یہاں تکلیف کے سامان پیدا کیے ہیں وہ دو چار ہزار یا پانچ دس ہزار سے زیادہ نہیںہیں۔اللہ تعالیٰ سے ہماری دعا ہے کہ ان کو بھی ہدایت نصیب ہو۔ ہمارے دل میں تو کسی کی دشمنی نہیں ہے لیکن آج ملک کو بھی آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اس لئے احباب ِ جماعت جہاں غلبہ اسلام کے لیے دعائیں کریں وہاں پاکستان جو ہمارا پیارا اور محبوب ملک ہے۔اپنے اس وطن کے لیے بھی بہت دعائیں کریں۔‘‘(۸۷)
جماعت احمدیہ کی طرف سے کارروائی کو صحیح خطوط پر لانے کی ایک اور کوشش
اب تک کی کارروائی کو پڑھ کر یہ اندازہ تو بخوبی ہو جاتا ہے کہ کارروائی میں اُ ٹھائے جانے والے سوالات میں اکثر تو معقولیت سے ہی عاری تھے ۔ اصل موضوع سے گریز کر کے غیر متعلقہ سوالات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا۔اکثر سوالات کا نہ موضوع سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا تھا کہ یہ سوالات جماعت کی طرف سے پیش کئے جانے والے محضر نامے پر کئے جا رہے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا پیش کردہ حوالہ غلط نکل رہا تھا۔اس پس منظر میں جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے ایک اور کوشش کی گئی کہ کسی طرح یہ کارروائی صحیح خطوط پر شروع کی جا سکے۔چنانچہ پندرہ اگست کو ناظر اعلیٰ مکرم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب نے قومی اسمبلی کے سیکریٹری کو لکھا کہ اس موضوع پر کارروائی کی جا رہی ہے اور ہمیں امید ہے کہ سپیشل کمیٹی کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی خواہش مند ہو گی۔اس کے لئے ہماری رائے ہے کہ تحریری سوال پہلے سے بھیج دیئے جائیں اور ان کے تحریری جوابات جماعت کی طرف سے بھجوائے جائیں اور اگر یہ طریقہ کار پہلے سے اختیار کرلیا جاتا تو ایوان کا بہت سا وقت بچ سکتا تھا اس خط کے آخر میں لکھا گیا تھا
After all it is not a criminal proceeding or an ordinary legal cross examination of an accused indvidual or a party. The committee is studying a very serious matter involving religious beliefs of millions of people. It is a grave moment not only in the history of Pakistan but also in the history of Islam. I would therefore be grateful if you please convey our request to the steering committee. I am sure the committee, realising the gravity and seriousness of the issue would grant our request.
۲۰ ؍اگست کو کارروائی تو شروع ہو گئی لیکن اس خط کا جواب ۲۳؍ اگست کو موصول ہوا کہ یہ خط ایوان میں پڑھا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ سپیشل کمیٹی پرانے طریقہ کار پر ہی کام کرتی رہے۔بہر حال یہ جماعتِ احمدیہ کی طرف سے ایک کوشش تھی کہ اس کارروائی میں کئے جانے والے سوالات کوئی سنجیدہ رنگ اختیار کریں مگر افسوس قومی اسمبلی نے اس کوشش کو بھی کامیاب نہیں ہونے دیا۔
کارروائی دوبارہ شروع ہوتی ہے اور صمدانی ٹریبونل کی رپورٹ حکومت کو پیش کی جاتی ہے
۲۰؍ اگست کو دوبارہ اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی شروع ہوئی۔لیکن اس روز ایک اور اہم واقعہ ہوا جس پر سے اس وقت کی حکومت نے یا بعد میں آنے والی حکومتوں نے پردہ راز نہیں اُ ٹھایا۔اس روز صمدانی ٹریبونل نے اپنی رپورٹ پنجاب کی صوبائی حکومت کو پیش کر دی۔جسٹس صمدانی نے یہ رپورٹ پنجاب کے وزیر ِ اعلیٰ محمد حنیف رامے صاحب کو ان کے دفتر میں پیش کی۔وزیرِ اعلیٰ نے اعلان کیا کہ جسٹس صمدانی نے بڑی محنت سے یہ رپورٹ مرتب کی ہے اور اب صوبائی حکومت اس پر غور کرے گی اور اسے اپنی سفارشات کے ساتھ وفاقی حکومت کو بھیج دے گی۔(مشرق ۲۱؍ اگست ۱۹۷۴ء ص۱)
۲۳؍اگست کو وزیر ِ اعلیٰ پنجاب حنیف رامے صاحب نے یہ رپورٹ وزیر ِ اعظم بھٹو صاحب کو پیش کر دی۔اور یہ بھی کہا کہ اس رپورٹ کی سفارشات پر عملدر آمد کیا جائے گا اور کہا کہ وزیر ِ اعظم اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ قومی اسمبلی کی خاص کمیٹی اس رپورٹ سے استفادہ کرے گی۔
(مشرق ۲۴ ؍اگست ۱۹۷۴ء ص۱)
لیکن یہ امر قابلِ ذکر بھی ہے اور قابلِ افسوس بھی کہ اس رپورٹ کو کبھی شائع نہیں کیا گیا۔جس کی بظاہر وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ اس رپورٹ کے کم از کم بعض حصے ایسے تھے جن کو شائع کرنے کو وہ ہاتھ پسند نہیں کرتے تھے جو ملک میں یہ فسادات برپا کرا رہے تھے۔ جسٹس صمدانی نے، جنہوں نے ربوہ کے سٹیشن پر ہونے والے واقعہ پر یہ تحقیقات کی تھیں،اس بات پر مایوسی کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔وہ اپنی خود نوشت’’جائزہ ‘‘ میں اس ٹریبونل کی رپورٹ کے بارے میں تحریر کرتے ہیں ۔
’’اس انکوائری سے متعلق مجھے دو باتیں اور بھی لکھنی ہیں تا کہ عوام میں جو غلط فہمیاں ہیں وہ دور ہو جائیں۔پہلی بات تو یہ کہ انکوائری اس لئے کروائی گئی کہ عوام میں جو شدید ردِ عمل تھا وہ دور ہو ۔لیکن جب انکوائری مکمل ہو گئی اور حکومتِ پنجاب کو رپورٹ دے دی گئی تو وہ رپورٹ عوام کے لئے شائع نہیں کی گئی۔کیوں؟کیا عوام کو انکوائری کا نتیجہ جاننے کا حق نہیں ہے جبکہ انکوائری کروائی ہی عوام کی تسلی کے لئے گئی تھی؟۔۔۔۔حکومت کو یہ جان لینا چاہیے کہ ایسی انکوائریز کی رپورٹ جو عوام کی اطلاع کے لئے کروائی گئی ہیں نہ چھاپنا غلط ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ عوام کی طرف سے بھی ایسا کوئی مطالبہ نہیں ہے۔میری رائے میں تو مطالبہ ہو یا نہ ہو،حکومت کو اپنا فرض پورا کرنا چاہیے۔تبھی عوام کو بھی معلوم ہو گا کہ ایسی رپورٹیں چھپنی چاہئیں۔‘‘
(جائزہ مصنفہ خواجہ محمد احمد صمدانی ،ناشر سنگِ میل پبلیکیشنز لاہور ۲۰۰۴،ص ۶۹و ۷۰)
جب ہم نے جسٹس صمدانی صاحب سے دریافت کیا کہ اس انکوائری سے کیا نتیجہ نکلا تھا تو انہوں جو جواب دیا وہ بغیر کسی تصدیق یا تردید کے یا بغیر کسی اتفاق یا اختلاف کے حرف بحرف درج کیا جاتا ہے،انہوں نے کہا۔
‏’’Concludeیہ کیا گیا تھا کہ دیکھیں ہر معاشرے میں شریف لوگ بھی ہوتے ہیں غنڈے بھی ہوتے ہیں۔ احمدیوں میں بھی غنڈے ہیں۔تو انہوں نے چونکہ ،نشتر میڈیکل کالج کے لڑکوں نے …جاتے ہوئے بد تمیزی کی تھی اس لئے انہوں نے یہ organize کیا کہ اس بد تمیزی کا بدلہ لیا جائے ۔تو چند غنڈوں نے بدلہ لیا اس میں جماعت ِ احمدیہ یا امیرجماعت ِ احمدیہ کا کوئی تعلق نہیں۔اس میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے۔‘‘
یہ بات ہمیں اپنے ایک انٹرویو میں جسٹس صمدانی صاحب نے بتائی ۔ ٹریبونل کی مکمل رپورٹ کے مندرجات کیا تھے؟ کیونکہ حکومت نے اس رپورٹ کو شائع نہیں کیا اس لئے ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔
ربوہ کے جو لڑکے سٹیشن کے واقعہ میں شامل تھے انہوں نے بلا شبہ غلطی کی لیکن اگر یہ لڑکے غنڈے تھے تو کیسے غنڈے تھے کہ کم از کم ڈیڑھ دو سو غنڈے دو گھنٹے کے قریب نشتر میڈیکل کالج کے لڑکوں کی پٹائی کرتے رہے اور کسی مضروب کی ہڈی تک نہ ٹوٹی اور نہ ہی کسی کو ایسی چوٹ آئی جسے ضرب ِ شدید کہا جا سکے۔بہر حال جسٹس صمدانی صاحب کی بات سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ ان کی تحقیقات کے مطابق اس واقعہ سے جماعت ِ احمدیہ یا امام جماعت ِ احمدیہ کا کوئی تعلق نہیں تھا۔اور اغلباََ اس رپورٹ کو اس نتیجہ کی وجہ ہی سے شائع نہیں کیا گیا کیونکہ ان دنوں ہر طرف یہ راگ الاپا جا رہا تھا کہ یہ واقعہ جماعت ِ احمدیہ اور امام جماعت ِ احمدیہ نے ایک گہری سازش کے تحت کرایا ہے۔اور جب ہم نے دریافت کیا کہ اس ٹریبونل کے رو برو ۱۲۰ مقامات کی فہرست پیش کی گئی تھی جہاں پر فسادات ہوئے تھے تو صمدانی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ تو مجھے یاد نہیں کہ لسٹ پیش ہوئی کہ نہیں لیکن اس واقعہ کے بعد فسادات کا کوئی جواز نہیں تھا۔
قومی اسمبلی کی کارروائی کے آغاز میں اٹارنی جنرل صاحب نے حضور سے کہا کہ آپ نے کچھ سوالات کے جوابات ابھی دینے ہیں ۔یعنی پہلے جن حوالہ جات کو پیش کرکے اعتراضات اُ ٹھائے گئے تھے ان میں سے کچھ کو چیک کر کے جواب دینا ابھی باقی تھا۔اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا کہ جوابات میرے پاس ہیں ۔اور ان کے جوابات دینے شروع کیے ۔پہلا حوالہ الفضل ۳ جولائی ۱۹۵۲ء کا تھا کہ اس میں لکھا تھا کہ ہم کامیاب ہوں گے اور دشمن ہمارے سامنے ابو جہل کی طرح پیش ہوں گے۔اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ اس پرچہ کو دیکھا گیا اور اس میں لفظی طور پر یا معنوی طور پر اس قسم کا کوئی جملہ نہیں موجود۔ظاہر ہے کہ یہ وہ آ غاز نہیں تھا جس کی خواہش اٹارنی جنرل صاحب یاان کی ٹیم یا اسمبلی کے اراکین رکھتے تھے۔ان کے زاویہ سے بسم اللہ ہی غلط ہو رہی تھی۔ اٹارنی جنرل صاحب ذرا بڑبڑاکر بولے۔ مرزا صاحب! آپ نے غور سے دیکھا ہے ؟اٹارنی جنرل صاحب کی حیرت پر حیرت ہے ۔یہ کوئی پہلا حوالہ تو نہیں تھا جو کہ غلط پیش کیا گیاتھا۔لیکن آفرین ہے اٹارنی جنرل صاحب پر کہ اس کے بعد وہ فرمانے لگے کہ بعض دفعہ سال کی غلطی بھی ہو جاتی ہے ہو سکتا ہے جہاں ۱۹۵۲ ہے وہ ۱۹۵۱ء ہو۔بعض دفعہ ۱۲ کی جگہ ۱۳ ہو جاتا ہے۔اب یہ عجیب صورت ِ حال تھی کہ ایک حوالہ پیش کر کے جماعت ِ احمدیہ پر الزامات لگائے جا رہے ہیں اور وہ حوالہ بیان کردہ تاریخ کے الفضل میں موجود نہیں ۔اور اٹارنی جنرل صاحب جماعت کے وفد سے یہ فرمائش کر رہے ہیں کہ کسی اور الفضل میں سے یہ حوالہ کسی طرح ڈھونڈ کراسمبلی کی خدمت میں پیش کیا جائے ۔جو سوال کر رہا ہے یہ اس کا فرض ہوتا ہے کہ متعلقہ حوالہ نکال کر اپنے سوال میں وزن پیدا کرے نہ کہ اسکا جس پر اعتراض کیا جارہا ہے۔بہر حال حضور نے اس کے جواب میں نرمی سے فرمایا کہ اس ایک حوالہ کے لیے الفضل کی ساری فائل دیکھنا انسان کے لیے ممکن نہیں ہے۔
پھر ضمیمہ تحفہ گولڑویہ کی ایک عبارت پیش کی گئی تھی کہ’’دوسرے فرقوں کو جو دعویٰ اسلام کرتے ہیں بکلی ترک کرنا پڑے گا(۸۸)‘‘ا ور اس پر یہ اعتراض اُٹھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ گویا یہ کہا گیا ہے کہ باقی مسلمان فرقوں کو اسلام کی طرف منسوب نہیں ہونا چاہئے۔حضور نے اس حوالہ کا سیاق و سباق پڑھا جس میں بالکل ایک اور مضمون بیان ہو رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تکذیب کرتا ہے اور آپ کو کافر کہتا ہے وہ اس قابل نہیں کہ احمدی اس کے پیچھے نماز پڑھیں ۔اور اب احمدیوں کا امام احمدیوں میں ہی سے ہونا چاہئے۔یہاں اس بات کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا کہ کسی فرقہ کو اسلام کی طرف منسوب ہونے یا اسلام کا دعویٰ کرنے کا حق ہے کہ نہیں۔اور اس ساری عبارت پر وہ اعتراض اُٹھ ہی نہیں سکتا جو اُٹھانے کی کوشش کی گئی تھی۔پھر اسی طرح حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف انواراسلام کی ایک عبارت کا پورا سیاق و سباق پڑھ کر سنایا۔ پہلے ایک اجلاس میں اٹارنی جنرل صاحب نے ۱۳؍ نومبر ۱۹۴۶ء کا ایک حوالہ پڑھ کر سنایا تھا کہ تقسیمِ ہند سے معاً قبل حضرت مصلح موعود نے فرمایا تھا کہ تم ایک پارسی لے آؤ میں اس کے مقابلہ میں دو دو احمدی پیش کرتا جاؤں گا۔اور اپنی طرف سے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی تھی کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ احمدی اپنے آپ کو خود مسلمانوں سے علیحدہ مذہب سے وابستہ سمجھتے ہیں اور اشارہ یہ کیا جا رہا تھا کہ بالخصوص تقسیمِ ہند سے قبل کے نازک دور میں جب ہندوستان کے مسلمان پاکستان کے لیے جد وجہدکر رہے تھے اس وقت احمدی اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ گروہ ظاہر کر رہے تھے۔اگرچہ جو عبارت پیش کی جا رہی تھی اس میں صرف یہ ذکر تھا کہ ملک میں احمدیوں کی تعداد پارسیوں سے زیادہ ہے اور اگر پارسیوں کی رائے لی جارہی ہے تو احمدیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس حوالہ کا سارا سیاق و سباق پڑھ کر سنایا۔یہ حوالہ ۱۹۴۶ء میں حضرت مصلح موعود ؓ کے سفرِ دہلی کے متعلق ہے۔ اس سفر کا مقصد کیا اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ گروہ کے طور پر پیش کرنا تھا یا مسلم لیگ کے ہاتھوں کو مضبوط کرنا تھا،اس کا اندازہ اس بیان کے ان حصوں سے بخوبی ہو جاتا ہے۔حضور ؓ نے فرمایا:
’’میں نے قادیان سے اپنے بعض نمائندے اس غرض کے لئے بھجوائے کہ وہ نواب چھتاری سے تفصیلی گفتگو کر لیں۔اور انہیں ہدایت کی کہ وہ لیگ کے نمائندوں سے بھی ملیں۔ اور ان پر یہ امر واضح کر دیں کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ لیگ کے مقاصد کے خلاف کوئی کام کریں۔ اگر یہ تحریک لیگ کے مخالف ہو تو ہمیں بتا دیا جائے۔ہم اس کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں۔اور اگر مخالف نہ ہو تو ہم شروع کر دیں۔اس پر لیگ کے بعض نمائندوں نے تسلیم کیاکہ یہ تحریک ہمارے لئے مفید ہو گی۔بالکل با موقع ہو گی اور ہم یہ سمجھیں گے کہ اس ذریعہ سے ہماری مدد کی گئی ہے۔‘‘
اور یہ تحریک کیا تھی ؟یہ تحریک یہ تھی حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:
’’۔۔۔اگر لیگ کے ساتھ حکومت کا ٹکراؤ ہواتو ہم اس کو مسلمان قوم کے ساتھ ٹکراؤ سمجھیں گے۔اور جو جنگ ہو گی اس میں ہم بھی لیگ کے ساتھ شامل ہوں گے۔یہ سوچ کر میں نے یہ چاہا۔کہ ایسے لوگ جو اثر رکھنے والے ہوں ۔خواہ اپنی ذاتی حیثیت کی وجہ سے اور خواہ قومی حیثیت کی وجہ سے، ان کو جمع کیا جائے ۔دوسرے میں نے یہ مناسب سمجھا ۔کہ کانگرس پر بھی اس حقیقت کو واضح کردیا جائے کہ وہ اس غلطی میں مبتلا نہ رہے کہ مسلمانوں کو پھاڑ پھاڑ کر وہ ہندوستان پر حکومت کر سکے گی۔اس طرح نیشنلسٹ خیالات رکھنے والوں پر بھی یہ واضح کر دیا جائے کہ وہ کانگرس کے ایسے حصوں کو سنبھال کر رکھیں۔‘‘(۸۹)
کیا یہ حوالہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جماعت ِ احمدیہ اپنے آپ کومسلمانوں سے علیحدہ رکھ کر ان کے مقاصد کے خلاف کام کر رہی تھی یا وہ مسلمانوں کے مفادات کی خاطر حکومت پر یہ واضح کر رہی تھی کہ اگر مسلم لیگ اور حکومت میں جنگ ہوئی تو ہم مسلم لیگ کے ساتھ ہوں گے۔اور اس حوالہ سے یہ بات صاف نظر آجاتی ہے کہ احمدیوں نے انگریز حکومت پر یہ واضح کر دیا تھا کہ انگریز حکومت مسلمانوں میں اختلافات پیدا کرنے کا خیال چھوڑ دے اور اگر اس امر کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت اور ہندوستان کے مسلمانوں میں انتہائی ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوئی تو احمدی بہر حال مسلمانوں کا ساتھ دیں گے۔مندرجہ بالا حوالہ کی روشنی میں اس کا جواب ظاہر ہے۔اسمبلی میں اس عبارت کے ایک جملے کا حوالہ دے کر جھوٹا اعتراض اٹھانے کی بھونڈی کوشش کی گئی تھی۔اس حوالہ میں تو بالکل بر عکس مضمون بیان ہوا تھا۔
اسی طرح حضور نے بعض اور حوالوں پر اُ ٹھائے گئے اعتراضات کے جوابات بیان فرمائے اور جب ان حوالوں کو مکمل طور پر پڑھا جاتا تو کسی مزید وضاحت کی ضرورت ہی نہ رہتی ،یہ واضح ہو جاتا کہ اعتراض غلط تھا۔
گزشتہ اجلاسات میںیہ اعتراض بھی اُ ٹھایا گیا تھا کہ جماعت کے لٹریچر میں ان لوگوں کے لیے سخت لفظ استعمال کئے گئے ہیں جنہوں نے ۱۸۵۷ء میں ہندوستان میں انگریز حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔یہ جنگ ان فوجیوں نے شروع کی تھی جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں تنخواہ دار ملازم تھے۔ اور ۱۹۴۷ء میں آزادی کے بعد سے اس جنگ کو جنگِ آزادی کا نام دے کر اس میں شریک سپاہیوں کو مجاہد کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ قطع نظراس بحث کے جماعت کے لٹریچر میں ان کے متعلق کیا لکھا ہے اور ۱۸۵۷ء کی جنگ کی حقیقت کیا تھی، یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ اہم مسلمان لیڈر جو اس دور کے گواہ تھے اور اس دور کے مسلمانوں کا برا بھلا آج کے لوگوں کی نسبت زیادہ اچھی طرح سمجھتے تھے،وہ اس جنگ کے متعلق کیا خیالات رکھتے تھے ۔کیا وہ سمجھتے تھے کہ اس جنگ میں شریک مسلمانوں کے ہمدرد تھے یا ان کے خیال میں اس جنگ میں شرکت کرنے والوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا تھا۔حضور ؒ نے ان خطوط پر جواب دیا ۔اور اس دور کے مشہور مسلمان قائدین کے کچھ حوالہ جات سنائے۔ان میں سے کچھ پیش ہیں۔سرسید احمد خان صاحب اپنی کتاب اسبابِ بغاوت ِ ہند میں تحریر کرتے ہیں۔
’’غور کرنا چاہیے کہ اس زمانہ میں جن لوگوں نے جہاد کا جھنڈا بلند کیا ایسے بد اطوار آدمی تھے کہ بجز شراب خوری اور تماش بینی اور ناچ اور رنگ دیکھنے کے کچھ وظیفہ ان کا نہ تھا۔بھلا یہ کیونکر پیشوا اور مقتدا جہاد کے گنے جا سکتے تھے۔اس ہنگامے میں کوئی بھی بات مذہب کے مطابق نہیں ہوئی ۔سب جانتے ہیں کہ سرکاری خزانہ اور اسباب جو امانت تھا اس میں خیانت کرنا ۔ملازمین کی نمک ّ*** کرنی مذہب کی رو سے درست نہ تھی۔صریح ظاہر ہے کہ بے گناہوں کا قتل علی الخصوص عورتوں اور بچوں اور بڈھوں کا مذہب کے بموجب گناہِ عظیم تھا۔۔۔پھر یہ بات بھی مفسدوں کی حرامزدگیوں میں سے ایک حرامزدگی تھی نہ واقعہ میں جہاد۔‘‘ (۹۰)
خواجہ حسن نظامی صاحب نے بہادر شاہ ظفر کے مقدمہ کی روئیداد شائع کی ہے۔ حضور ؒ نے اس روئیداد میں سے بہادر شاہ ظفر کا ایک بیان پڑھ کر سنایا جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ اس وقت بہادر شاہ ظفر بھی جسے بادشاہ بنایا گیا تھا ،سپاہیوں کے ہاتھ میں ایک بے بس مہرے کی حیثیت رکھتا تھا ۔خواجہ حسن نظامی نے اس جنگ کے متعلق لکھا ہے۔
’’غدر ۱۸۵۷ء میں جس قسم کے ناجائز واقعات پیش آئے اسلا م نے کہیں بھی ان کی اجازت نہیں دی۔تیرہ سو برس سے آج تک تاریخ ایک واقعہ بھی ایسا پیش نہیں کرتی کہ اسلام کی اجازت سے اس قسم کی کوئی حرکت کی گئی ہوجیسی غدر ۵۷ء میں پیش آئی۔۔‘‘ (۹۱)
اور خود اس جنگ کے دوران کئی مولوی صاحبان مسجد میں یہ بحث کرتے رہے تھے کہ یہ جنگ ہرگز جہاد نہیں ہے۔اور کچھ مغل شہزادے ایسے بھی تھے جو ان سپاہیوں کو جو انگریز عورتوں اور بچوں کو قتل کر رہے تھے یہ کہہ کر روکنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اسلام میں بچوں اور عورتوں کو قتل کرنا منع ہے۔لیکن یہ لوگ ان کو بھی قتل کرنے پر آمادہ ہوئے تو ان منع کرنے والوں کو وہاں سے فرار ہونا پڑا۔ (۹۲)
جماعت کے ایک اشد مخالف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ،جماعت کے ایک اور مخالف مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی کے متعلق تحریر کرتے ہیں۔
’’مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب محدث دہلوی نے اصل معنی جہاد کے لحاظ سے بغاوت ۱۸۵۷ء کو شرعی جہاد نہیں سمجھابلکہ اس کو بے ایمانی و عہد شکنی عناد خیال کر کے اس میں شمولیت اور اس کی معاونت کو معصیت قرار دیا۔‘‘(۹۳)
بہر حال ۱۸۵۷ء کی جنگ کے متعلق جواب ختم ہوا تو حضور نے بعض اور پیش کردہ حوالوں کی حقیقت بیان فرمانی شروع کی۔اٹارنی جنرل صاحب نے ایک حوالہ سیرت الابدال کے صفحہ ۱۹۳ کا پیش کیا تھا ۔حضور نے قومی اسمبلی کے علم میں یہ اضافہ فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تصنیف کے صرف۱۶ صفحات ہیں ۔اور سوال کرنے والے کا تبحرِ علمی ملاحظہ ہو کہ اس کے صفحہ نمبر ۱۹۳ کو پیش کر کے اس پر اعتراض بھی کر دیا۔اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے شرمندگی کم کرنے کے لیے کہا کہ کسی اور Volumeکا ہو گا۔اس پر حضور نے واضح فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو روحانی خزائن کے نام سے اکٹھا شائع کیا گیا ہے اس میں بھی یہ کتاب صفحہ نمبر ۱۴۴ پر ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے جواب میں یحییٰ بختیار صاحب حیرت سے یہی دہراتے رہے کہ کیا وہ حوالہ ہے ہی نہیں۔اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے ان غلط حوالوں پر کوئی وضاحت پیش کرنا مناسب نہیں سمجھا مگر قاضی اکمل صاحب کے اس شعر پر طویل سوال و جواب کیے۔
پھر انہوں نے اپنی توجہ خطبہ الہامیہ کی طرف کی ۔اور یہاں بھی وہی غلطی دہرائی جو اب تک کمیٹی کی طرف سے کیے جانے والے سوالات کا خاصہ رہی تھی۔
اٹارنی جنرل صاحب نے خطبہ الہامیہ کا حوالہ پڑھنے کی کوشش شروع کی لیکن آغاز میں ہی کچھ گڑبڑا گئے۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ صفحہ نمبر کون سا ہے۔انہوں نے ایک کی بجائے دو صفحہ نمبر پڑھے۔پھر حوالے کے معین الفاظ پڑھنے کی کوشش ترک کی اور صرف عمومی طور پر یہ کہا کہ خطبہ الہامیہ میں مرزا صاحب نے کہا ہے کہ اسلام ابتدائی حالت میں ہلال کے چاند کی طرح تھا اور مرزا صاحب نے اپنے دور کو چودہویں کا چاند قرار دیا ہے۔اعتراض کا لب ِ لباب یہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گویا نعوذُ باللہ اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ سے افضل قرار دیا ہے۔ابھی اس پر بات جاری تھی کہ سپیکر صاحب نے یہ کہہ کر وقفے کا اعلان کیا کہ شام کے اجلاس میں حضور کو اس کا حوالہ دکھا دیا جائے۔وقفہ ہوا اور ختم ہوا ۔وقفہ کے بعد حضور نے فرمایا کہ ہم نے خطبہ الہامیہ کا جو صفحہ نمبر بتایا گیا تھا اس پر اور اس کے آگے پیچھے بھی دو تین صفحات کو چیک کیا ہے مگر یہاں پر تو کوئی ایسی عبارت موجود نہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے فخر سے کہا کہ ہمیں مل گیا ہے۔اور مولوی ظفر احمد صاحب انصاری سے کہا کہ آپ سنا دیں۔مولوی صاحب شروع ہوئے کہ مرزا بشیر الدین نے ذکر کیا ہے، الفضل قادیان یکم جنوری ۱۹۱۶ء ۔۔۔ایک بار پھر نا قابلِ فہم صورت ِ حال درپیش تھی کہ حوالہ خطبہ الہامیہ کا تھا اور اس کی جگہ الفضل کے ایک شمارے سے عبارت پڑھی جارہی تھی جہا ں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر یا تقریر کو Quoteہی نہیں کیا جا رہا تھا۔حضور نے فرمایا کہ بات تو خطبہ الہامیہ کی ہو رہی تھی۔مگر مولوی صاحب اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں پائے اور الفضل کی عبارت پڑھنی شروع کی۔حضور نے اس پر فرمایا کہ
ہم اسے چیک کریں گے اور فرمایا ’’۔۔۔نہیں خطبہ الہامیہ اصل کتاب ہے ۔اس میں سے سنا دیں ۔ہاں اس میں سے سنا دیں بس۔‘‘
شایدبہت سے پڑھنے والوں کو قومی اسمبلی کے اس انداز ِ استدلال کا کچھ بھی سمجھ نہ آ رہا ہو اس لیے وضاحت ضروری ہے۔مولوی صاحب اسمبلی میں الفضل کے جس شمارے سے بزعمِ خودحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تقریر کا حوالہ پڑھ رہے تھے (۹۴)۔ اس شمارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی تقریر کا خلاصہ درج ہے مگر اس میںخطبہ الہامیہ یا ہلال اور بدر کی تمثیل کاذکر ہی نہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کا خطاب تو اس خوش خبری کے بارہ میں تھا کہ پارہ اول کا انگریزی ترجمہ تیار ہو گیا ہے۔وہ جو حوالہ پڑھ رہے تھے وہ حضرت غلام رسول راجیکی ؓ صاحب کی پنجابی تقریر کا ترجمہ تھا اور اس جگہ پر بھی خطبہ الہامیہ کا نام تک درج نہیں تھا۔مولوی صاحب نے خطبہ الہامیہ کا حوالہ پڑھنے میں یہ کہہ کر تردد کیا کہ یہ بہت لمبا ہے۔ بہر حال حضور کے اصرار پر مولوی صاحب نے خطبہ الہامیہ سے عبارت پڑھنے کی کوشش از سرِ نو شروع کی۔اور جو حوالہ پڑھا وہ ملاحظہ ہو
’’اسلام ہلال کی طرح شروع ہوا اور مقدر تھا کہ انجام کار آخر زمانہ میںبدر ہو جائے خداتعالیٰ کے حکم سے پس خدا تعالیٰ کی حکمت نے چاہا کہ اسلام اس صدی میں بدر کی شکل اختیار کرے جو شمار کی رو سے بدر کی طرح مشابہ ہو ۔پس انہی معنوں کی طرف اشارہ ہے خداتعالیٰ کے قول میں کہ لَقَدْ َنصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ۔پس اس امر میں باریک نظر سے غور کر اور غافلوں میں سے نہ ہو۔‘‘(۹۵)
حضور نے اسی قت ارشاد فرمایاکہ
’’یہ جو حوالہ ابھی سنایا گیا ہے اس میں اسلام کا ذکر ہے نبی اکرم ﷺیا بانیِ سلسلہ کا ذکر نہیں۔‘‘
یہ بات بالکل واضح تھی اس لیے اٹھایا گیا اعتراض بالکل رفع ہو جاتا تھا۔کیا قومی اسمبلی کے ممبران کے نزدیک اگر اسلام ترقی کرتا چلا جائے تو یہ بات رسولِ کریم ﷺ کی شان کو کم کرنے والی تھی۔ اور جب اسلام ترقی کرتا ہے تو یہ رسول کریم ﷺ کی قوتِ قدسیہ ہی کا کارنامہ ہے۔کیا ان کے نزدیک یہی مناسب تھا کہ نعوذُ باللہ ا سلام ترقی نہ کرے بلکہ اسے زوال ہو ۔کوئی بھی ذی ہوش اس سوچ کو قبول نہیں کر سکتا۔اس حوالہ کو کوئی صاحبِ فہم یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس میں رسولِ کریم ﷺکی توہین کی گئی ہے۔
اب صورت ِ حال یہ تھی کہ وقفہ اس لیے کیا گیا تھا کہ سپیشل کمیٹی تازہ دم ہو کر نئے ثبوتوں کے ساتھ جماعت پر وزنی اعتراضات اُ ٹھانے کی کوشش کرے گی ۔اور ابھی تک جو خفت اُ ٹھانی پڑی تھی اس کا ازالہ ہوگا ۔لیکن عملاً یہ ہوا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس کا آغاز اس طرز پر فرمایا کہ بہت سے حوالے جو انہوں نے اب تک پیش کئے تھے جن پر ان کے اعتراضات کا دارومدار تھا ان کی حقیقت کھولنی شروع فرمائی۔اکثر حوالے تو سرے سے ہی غلط تھے۔متعلقہ جگہ وہ عبارت ہی موجودنہ تھی۔یا ایک آدھا جملہ سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا تھا ۔جب پورے حوالے پڑھے گئے تو ان مقامات پر تو بالکل بر عکس مضمون بیان ہو رہا تھا ،جس سے اس اعتراض کی ویسے ہی تردید ہو جاتی تھی۔
سوالات کسی نے بھی لکھ کر دیئے ہوں ،حوالہ کسی نے بھی نکالا ہو،بیچارے اٹارنی جنرل صاحب کو یہ سوالات پیش کرنے پڑتے تھے اور جب ان کا جواب ملتا تو خفت بھی سب سے زیادہ ان کے حصہ میں آتی تھی۔اب تک تو ان کا ردِ عمل حیرانی یا زیادہ سے زیادہ بوکھلاہٹ کا تھا لیکن اس تازہ صورت ِ حال نے ان کے رویہ میں چڑچڑا پن بھی پیدا کر دیا تھا۔انہوں نے اس بات کی کوئی وضاحت نہیں پیش کی کہ ملک کی قومی اسمبلی پر مشتمل سپیشل کمیٹی میں مسلسل غلط حوالے کیوں پیش کئے جا رہے تھے۔ آخر اتنی متواتر غلطیوںکا جواز کیا تھا؟اس کا ذمہ دار کون تھا؟جب حضور نے اور دو حوالوں کی نشاندہی فرمائی کہ جو مکتوبات ِ احمدیہ کے ایک صفحہ اور الفضل کے ایک شمارے کی عبارت پر اعتراض اُٹھائے گئے تھے تو اس صفحہ اوراس شمارے میں اس قسم کی عبارات نہیں ملیں،تو اس پر اٹارنی جنرل صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔وہ کہنے لگے کہ اگر آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ وہاں نہیں ہے تو ٹھیک ہے لیکن اس کے بعد ایسی عبارت ملی تو بڑا برا Inferenceہوگا۔اور پھر انہوں نے جو کہا وہ ان کے اپنے ہی الفاظ میں درج کرنا مناسب ہو گا
’’۔۔۔۔کیونکہ یہ presumeکیا جاتا ہے کہ احمدیت کے بارے میںجتنی بھی چیزیں ہیں وہ آپ کے علم میں ضرور ہوں گی۔‘‘
اس مرحلہ پر ان کے اس جملہ کا تجزیہ ضروری ہے۔جماعت نے پہلے سپیشل کمیٹی سے درخواست کی تھی کہ جو سوالات کیے جانے ہیں وہ پہلے سے بتا دئے جائیں تاکہ جماعت کے لٹریچر سے متعلقہ حوالہ جات نکال کر ،پوری تحقیق کر کے ان کے جوابات کمیٹی کو دیئے جائیں۔لیکن کمیٹی اس خیال میں تھی کہ وہ کوئی بہت حیران کن سوالات پیش کرے گی ۔جب وہ سوالات تو پیش کیے گئے جو مولوی ممبران ِ اسمبلی نے لکھ کر دئے اور اٹارنی جنرل صاحب نے ان کو حضور کے سامنے رکھا تو جماعت نے تحقیق شروع کی تو معلوم ہوا کہ بہت سے پیش کردہ حوالے تو سرے سے غلط تھے یا پوری عبارت نہیں پیش کی گئی تھی۔اب کوئی بھی شخص جماعت کے پورے لٹریچر کا ،تمام اخبارات کا ،تمام حوالوں کا حافظ نہیں ہوسکتا۔یہ تو حوالہ پیش کرنے والے کا فرض ہوتا ہے کہ وہ صحیح صفحہ ،صحیح عبارت ،صحیح ایڈیشن پیش کرے ۔اور اٹارنی جنرل صاحب بلکہ پوری قومی اسمبلی اس معاملہ میں مکمل طور پر ناکام ہوئی تھی تو اس کا الزام جماعت کے وفد کو دینا بالکل خلاف ِ عقل تھا۔اور جہاں تک برےInferenceکا تعلق ہے تو یہ اس وقت ہونا چاہئے تھا جب کہ خود اٹارنی جنرل صاحب کے پیش کردہ حوالے غلط ثابت ہو رہے تھے۔اور رہی یہ بات کہ گزشتہ نوے برس کے دوران دنیا کے بیسیوں ممالک میں جماعت کا جو جریدہ اور جو کتاب چھپی تھی ۔یا کسی احمدی شاعر نے اگر کوئی شعر کہا تھا یا کسی جماعت نے کوئی قرارداد پاس کی تھی ،یہ تمام باتیں خلیفہ وقت کے ذہن میں ہر وقت مستحضر ہونی چاہئیں ،اٹارنی جنرل صاحب کی اس بات کو کوئی بھی صاحبِ عقل تسلیم نہیں کر سکتا۔زیادہ سے زیادہ یہ حسنِ ظن کیا جا سکتا ہے کہ اس کارروائی کے دوران ان کو جو ناکامی ہو رہی تھی اس نے وقتی طور پر ان کی قوت ِ فیصلہ کو مفلوج کر دیا تھا۔حضور نے اس کا یہ اصولی جواب دیا کہ
’’یہInferenceمیرے نزدیک درست نہیں ہے۔اس لئے میرا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ لاکھوں صفحوں کی کتب جن کی اشاعت تقریباََ نوے سال پر پھیلی ہوئی ہے،میں اس کا حافظ ہوںاور ہر حوالہ مجھے یاد ہے۔‘‘
پھر آپ نے فرمایا
’’لیکن جب میں یہ کہتا ہوں کہ میرے علم میں نہیں ہے تو آپ کو یقین رکھنا چاہئے کہ میرے علم میں نہیں ہے۔‘‘
بہر حال یہ اس کا اثر تھا یا کوئی اور وجہ تھی ،سپیکر صاحب نے اس اجلاس کے دوران اٹارنی جنرل صاحب کو اصرار سے یہ کہا کہ وہ اس کارروائی کو اب مختصر کرنے کی کوشش کریں۔اس پس منظر میں سپیکر صاحب اٹارنی جنرل صاحب کی ہمدردی میں اس سے زیادہ اور کیا کر سکتے تھے۔
اٹارنی جنرل صاحب یا ان کی ٹیم کی ذہنی کیفیت کچھ بھی تھی لیکن جب ملک کی قومی اسمبلی میں ایک غلط حوالہ پیش کر کے جماعت ِ احمدیہ پر غلط اعتراض کیا جا رہا ہوتو جماعت ِ احمدیہ کے وفد کایہ فرض تھا کہ وہ ان کا مکمل جواب دے۔اٹارنی جنرل صاحب نے ایک احمدی کی کتاب کا حوالہ دے کر اعتراض اُٹھایا تھا کہ اس میں جو درود دیا گیا ہے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام بھی شامل ہے۔حضور نے فرمایا کہ ہم نے اس کتاب کے تمام ایڈیشن دیکھ لئے ہیں۔درود کی جو عبارت یہاں پڑھ کر سنائی گئی تھی وہ اس کے کسی ایڈیشن میں سرے سے موجود ہی نہیں۔ابھی اٹارنی جنرل صاحب اس تازہ صدمہ سے سنبھل نہیں پائے تھے کہ انہیں ایک اور صدمہ سے دوچار ہونا پڑا ۔یحییٰ بختیار صاحب نے ایک کتاب کے انگریزی ترجمہ کا حوالہ پیش کیا تھا ۔حضور نے اس کا اصل اردو کا حوالہ پیش کیا تو یہ اعتراض خود بخود ہی باطل ہو گیا۔اٹارنی جنرل صاحب نے ترجمہ پر اصرار کرنا چاہا تو سپیکر صاحب نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی
When the original is available translation is of no use
جب اصل کتاب موجود ہے تو پھر ترجمہ کی کوئی اہمیت نہیں۔
۲۱؍ اگست کی کارروائی
جب ۲۱؍ اگست کی کارروائی شروع ہوئی تو سپیکر صاحب نے ممبرانِ اسمبلی کو مطلع کیا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے ایک خط موصول ہوا ہے جس میں انہوںنے لکھا ہے کہ جماعت ِ احمدیہ کو اس سپیشل کمیٹی کی بحث کی روئیداد کی کاپی مہیا کی جائے۔سپیکر نے کہا کہ میں نے اس کا جواب انکار میں دیا ہے۔ممبرانِ اسمبلی نے اس بات کی متفقہ تائید کی کہ اس کارروائی کی نقول جماعتِ احمدیہ کو بالکل نہیں دینی چاہئے ۔حضرت صاحبزادہ مرزامنصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ نے یہ خط ۱۵؍ اگست ۱۹۷۴ء کو تحریر فرمایا تھا ، اس سے قبل کارروائی کے آغاز پر ۶؍ اگست ۱۹۷۴ء کو ایڈیشنل ناظر اعلیٰ مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کی طرف سے بھی ایک خط قومی اسمبلی کے سیکریٹری کو لکھا گیا تھا کہ اس کارروائی کی ریکارڈنگ جماعت احمدیہ کو مہیا کی جائے اس خط میں یہ یقین دلایا گیا تھا کہ اگر یہ ریکارڈنگ مہیا کر دی جائے تو صدر انجمن احمدیہ بھی اس کے مندرجات کو ظاہر نہیں کرے گی ۔ اب تک جس نہج پر کارروائی چلی تھی اس کو پیشِ نظر رکھا جائے تو ممبرانِ اسمبلی کے اس انکار کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں۔پھر یہ تجویز سامنے رکھی گئی کہ جماعت ِ احمدیہ کے وفد کو سوالات سے پہلے مطلع کر دیا جائے تا کہ وہ اس کا تحریری جواب جمع کرا سکیں۔ اٹارنی جنرل صاحب نے اس کی مخالفت کی ۔اور پوری سپیشل کمیٹی نے اٹارنی جنرل صاحب کی رائے کی متفقہ تائید کی۔یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ جب ہم نے صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب سے دریافت کیا کہ جب جماعت کی طرف سے یہ درخواست کی گئی کہ ہمیں سوالات سے پہلے سے مطلع کر دیا جائے تو اس کو منظور نہیں کیا گیا تھا تو اس کی وجہ کیا تھی۔اس کے جواب میں سابق سپیکر صاحب نے فرمایا کہ میرے سامنے اس قسم کی کوئی بات نہیں آئی تھی۔ریکارڈ کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے سٹیرنگ کمیٹی کو اور پھر سپیشل کمیٹی کو یہ درخواست کی گئی تھی لیکن اسے منظور نہیں کیا گیا تھا۔اور سپیکر صاحب نے ایوان میںبھی اس درخواست کا ذکر کیا تھا۔
اس کے بعد مولوی ظفر انصاری صاحب نے بھی ایک تجویز پیش فرمائی ۔اور وہ تجویز یہ تھی
’’جناب ِ والا میں ایک چیز یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بعض ممبران بار بار یہ کہتے ہیں کہ بہت دیر ہو رہی ہے۔دیر یقیناََ ہو رہی ہے لیکن جب ہم نے ایک دفعہ یہ کام شروع کر دیا تو پھر اسے کسی ایسے مرحلہ پر چھوڑنا بہت غلط ہو گا اور مقصد کے لئے مضر ہو گا۔میرے ذہن میں ایک تجویز یہ ہے کہ ہم کسی موضوع پر چار پانچ Questions ایک دفعہ پڑھ دیں۔ ان سے اگر یہ کہہ دیں کہ وہ اسے Admitکرتے ہیں یا نہیں کرتے۔ کوئی Explaination نہ لیں۔ اگر وہ Admitنہیں کرتے ہم کوشش کریں گے کہ ہم Original Produceکریں۔‘‘
یہ بات مدِ نظر رہے کہ مولوی ظفرانصاری صاحب سوالات تیار کرنے کے لئے اٹارنی جنرل صاحب کے دستِ راست کا کام کر رہے تھے۔یہ تجویز پیش کیوں کی گئی اس کی وجہ ظاہر ہے۔جو سوالات کئے جا رہے تھے ان میں پیش کردہ حوالے اگر کبھی قسمت سے ٹھیک ہو جاتے تھے تو جب پوری عبارت پیش کی جاتی تھی تو یہ صاف نظر آجاتا تھا کہ اس عبارت پر تو یہ اعتراض ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ نامکمل حوالہ پیش کر کے جو تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہوتی تھی وہ ناکام ہو جاتی تھی۔اس لئے اب بار بار کی خفت سے بچنے کے لئے مولوی صاحب نے یہ حل تجویز فرمایا تھا کہ جماعت ہر حوالے کے جواب میں صرف یہ کہے کہ یہ حوالہ صحیح ہے یا غلط۔اور اس کا سیاق و سباق بھی سامنے نہ رکھے۔
اس تجویز کے جواب میں سپیکر صاحب نے کہا
’’اگر original produceکریں تو بڑا easy ہوگا۔جب آپ حوالہ دیتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم دیکھیں گے۔verify کریں گے۔‘‘
اب یہ بڑی معقول تجویز تھی کہ اگر اصل حوالہ اسی وقت پیش کردیا جائے تو پھر اتنی دیر اور تلاش کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی۔لیکن مولوی ظفرانصاری صاحب اس طرف آنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے اس کے جواب میں اپنی سابقہ بات ہی دہرائی اور صرف یہ اضافہ کیا کہ اگر وفد چاہے تو explainationکے لئے سپلیمنٹری وقت لے سکتا ہے۔
ممبرانِ اسمبلی اس کارروائی کے افشا ہونے سے اس قدر خوف زدہ تھے کہ اس مرحلہ پر ایک ممبر نے کہا کہ وہ دروازہ کھلا رہتا ہے اور وہاں پر کوئی Constantlyسنتا رہتا ہے۔سپیکر صاحب نے ہدایت دی کہ یہ معلوم کر کے بتائیں کہ یہ شخص کون ہے ،یہ طریقہ کار غلط ہے۔جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ جماعت ِ احمدیہ کے وفد کے اراکین کے ہمراہ تشریف لائے تو ابتدا میں ہی حضور نے فرمایا کہ کل مجھ پر جو الزام لگایا گیا تھا (یعنی بعض ممبران نے یہ الزام لگایا تھا کہ جو حوالہ ان کی تائید میں ہو وہ یہ نکال کر لے آتے ہیں اور جو ان کے خلاف جائے اس کو ٹالتے رہتے ہیں )۔ابھی حضور نے اپنا جملہ مکمل نہیں کیا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب نے جملہ کاٹ کر کہا کہ’’نہیں مرزا صاحب میں نے کوئی الزام نہیں لگایا تھا ۔‘‘
لیکن حضور نے فرمایا ۔
’’نہیں میری بات سن لیں۔اس لیے سوالوں کے متعلق جو حوالے چاہئیں اسے معزز اراکین جو چاہیں خود تلاش کریں۔ہمیں آپ صرف یہ پوچھیں کہ یہ حوالہ ہے اس کا مطلب کیا ہے ۔ہم پر یہ بوجھ نہ ڈالیں کہ آپ کے لئے ہم حوالے تلاش کریں۔‘‘
ایک روز پہلے تو اٹارنی جنرل صاحب کے رویہ کی تلخی کا عالم کچھ اور تھا لیکن اس روز وہ کچھ معذرت خواہانہ رویہ ظاہر کر رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ نہیں اگر آپ یہ کہیں گے کہ آپ کے علم میں نہیں تو وہ کافی ہے۔اور کہا کہ بعض دفعہ اخبار کی تاریخ کی غلطی ہو جاتی ہے مثلاً ۲۱ کی جگہ ۳۱ ہو جاتا ہے یا سال کا فرق ہو جاتا ہے۔اس پر حضور نے فرمایا :
’’نہیں میں نے تو صرف یہ عرض کی ہے کہ میں نے اپنی طرف سے نہایت دیانتداری کے ساتھ اس بات کو تسلیم کر لیا تھا کہ ہم اس کو تلاش کریں گے لیکن جس کا بدلہ مجھے یہ دیا گیا کہ بڑا نا مناسب اعتراض مجھ پر کر دیا گیا تو اس واسطے میں صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ جو بوجھ آپ کا ہے وہ آپ اُ ٹھائیں اور جو ہمارا ہے وہ ہم اُ ٹھانے کی کوشش کریں گے۔ اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ میں آپ کی دیانت پر شک نہیں کرتا ہوں اور پھر کہا کہ کل جو اعتراض اُ ٹھایا گیا تھا وہ Clarifyہو گیا ہے۔
اس کے بعد جو کارروائی شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل صاحب زیادہ تر انہی اعتراضات کو دہرا رہے تھے جو اس کمیٹی کے سامنے پہلے بھی پیش ہو چکے تھے۔ایک بوسیدہ یہ اعتراض بھی پیش کیا کہ آپ کا مشن اسرائیل میں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ فلسطین میں احمدی اس وقت سے موجود ہیں جب کہ ابھی اسرائیل وجود میںہی نہیں آیا تھا اور احمدیوں کی تعداد تو وہاں پر بہت کم ہے ،باقی فرقوں کے مسلمان احمدیوں کی نسبت بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔وہاں احمدیوں کی بھی مسجد ہے اور غیر احمدی مسلمانوں کی بھی بہت سی مساجد ہیں۔اس بات پر کسی طرح کوئی اعتراض اُ ٹھ ہی نہیں سکتا۔احمدی تو اپنی غریبانہ آمد میں سے چندہ دے کر اپنا خرچہ چلاتے ہیں اور اس سے تبلیغ کا کام بھی کیا جاتا ہے۔یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اسرائیل کی فوج میں مسلمان فوجی بھی شامل ہیں اور اسرائیلی فوج بعض مسلمان اماموں کو کچھ رقم بھی دیتی ہے کہ تاکہ وہ مرنے والے مسلمان افراد کی آخری رسومات ادا کریں۔اس بات کا ذکر International Religious Freedom Report 2008 میں بھی موجود ہے جو کہ Bureau of Democracy, Human Rights, and Labor نے ۲۰۰۸ء میں شائع کی ہے۔
ایک اور نیا نکتہ جو اٹارنی جنرل صاحب نے منکشف فرمایا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دہلی کا سفرکیا تو انہوں نے پولیس کی حفاظت کا مطالبہ کیوں کیا؟پھر خود ہی یحییٰ بختیار صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور کہا کہ Everybody has right وہ میں نہیں کہہ رہا۔اس پر حضور نے فرمایاکہ ہماری کتابوں میں ہے کہ پولیس سے Protection نہیں مانگی تھی۔اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ پولیس نے خود ہی کیا ہو گا۔ پولیس کی Protection میں وہ تقریر کیا کرتے تھے۔ اٹارنی جنرل صاحب کا ذہنی انتشار نہ جانے اور کیا کرشمے دکھاتا کہ سپیکر صاحب نے کہا کہ مغرب کی نماز کے لیے وقفہ ہوتا ہے۔
یہاں یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب کے اس سوال کی حقیقت کیا ہے۔اول تو اگر یہ بات سچ بھی ہوتی تو یہ سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر ایک شخص ایسی حالت میں جب کہ امنِ عامہ کو خطرہ ہو ، پولیس کو حفاظت کے لیے کہے تو اس میں قابلِ اعتراض بات کون سی ہے ۔جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۱ء میں دہلی کا سفر کیا تو اس وقت مخالفت کا یہ عالم تھا کہ جس گھر میں حضور رہائش فرما تھے اس پر قتل کی نیت سے مسلسل بلوائیوں نے حملے کیے تھے۔اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مباحثہ کے لیے جامع مسجد دہلی تشریف لے جا رہے تھے تو راستے میں حملہ کرنے کے لیے کچھ لوگ بندوقوں سمیت تیار تھے مگر خود ہی بگھی والوں نے راستہ تبدیل کر لیا ۔یہ ا عتراض اُ ٹھانے والے یہ بھول گئے کہ جب آنحضرت ﷺ طائف کے سفر سے واپس تشریف لائے تو آپ مکہ میں داخل ہونے سے قبل حرا کے مقام پر رک گئے اور آپ نے مکہ کے ایک مشرک رئیس مطعم بن عدی کو پیغام بھجوایا کہ کیا میں تمہارے پڑوس میں داخل ہو سکتا ہوں ۔اس پر مطعم بن عدی نے خود بھی ہتھیار پہنے اور اپنے بیٹوں کو بھی مسلح کر کے بیت الحرام کے قریب کھڑے ہو گئے اور یہ اعلان کیا کہ میں نے محمد (ﷺ) کوپناہ دی ہے۔ اور آنحضرت ﷺ خانہ کعبہ میں تشریف لائے اور حجرِ اسود کو بوسہ دیا اور دو رکعت نماز پڑھی۔(۹۶)
اور اٹارنی جنرل صاحب نے یہ سوال کرتے ہوئے کئی تاریخی حقائق بھی غلط بیان فرمائے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پولیس کو اپنی حفاظت کے لیے کہا ہی نہیں تھا بلکہ غیراحمدی علماء کو فرمایا تھا کہ وہ اس مناظرے کے لیے موقع کی مناسبت سے پولیس کا انتظام کر لیں۔ اور یہ بات بھی غلط ہے کہ اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پولیس کی حفاظت میں کوئی تقریر کی تھی۔عملاً اس موقع پر کوئی تقریر ہوئی ہی نہیں تھی۔اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام صرف بارہ خدام کے ساتھ جامع مسجد تشریف لے گئے تھے اور وہاں پر پانچ ہزار مخالفین کا مجمع تھا جنہوں نے پتھر اُٹھا رکھے تھے اور خون خوار آنکھوں سے اس مبارک گروہ کو دیکھ رہے تھے ۔ایسے موقع پر صرف اللہ تعالیٰ کی خاص حفاظت ہی تھی جو اپنے مامور کی حفاظت کر رہی تھی و رنہ ایسے خطرناک مواقع پر پولیس کے چند سپاہی بھی کیا کر سکتے ہیں۔مخالف علماء نے مناظرہ کرنے کی بجائے وہاں سے چلے جانا مناسب سمجھا تھا ۔جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ علماء خدا کی قسم کھالیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مادی جسم کے ساتھ آسمان پر زندہ موجود ہیں تو ان علماء نے یہ جرأت بھی نہیں کی تھی۔
مغرب کے وقفہ کے بعد جب کہ ابھی جماعت کا وفد ہال میں نہیں آیا تھا تو سپیکر اسمبلی اس بات پر اظہار ِ ناراضگی کرتے رہے کہ ممبران اکثر غیر حاضررہتے ہیں۔سپیکر صاحب نے کہا کہ ممبران نو بجے کے بعد ایک ایک کر کے ہاتھ میں بستہ لے کر کھسکنا شروع ہو جاتے ہیں۔اس کے بعد جو کارروائی شروع ہوئی تو ایک سوال اس حوالہ سے بھی آیا کہ جماعت ِ احمدیہ کے نزدیک حدیث کا کیا مقام ہے اور کیا جماعت ِ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کو حدیث سے زیادہ وقعت دیتی ہے۔جب حضور نے اس کا واضح جواب دینا شروع کیا تو اٹارنی جنرل صاحب نے ایک مرحلہ پر کہا کہ مجھے تو ممبرانِ اسمبلی کی طرف سے جو سوال آئے اس کو پیش کرنا پڑتا ہے۔
اٹارنی جنرل صاحب نے ایک مرحلہ پر یہ اعتراض بھی اُ ٹھانے کی کوشش کی کہ جماعت ِ احمدیہ کے عقائد کے مطابق نعوذ ُ با للہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کا مقام احادیث ِ نبویہ سے زیادہ ہے۔اس کے رد کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد ہی کافی تھاآپ فرماتے ہیں:
’’ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سنت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کو ترجیح دیں ۔‘‘(۹۷)
اس اجلاس میں ان سوالات اور جوابات کا تکرار ہوتا رہا جن پر پہلے بھی بات ہو چکی تھی۔ ایک موقع پر اٹارنی جنرل صاحب نے یہ سوال اُ ٹھایا کہ جہاد کے مسئلہ کو چھوڑ کر وہ کون سا خزانہ تھا جو ۱۳۰۰ سال سے مسلمانوں کو نہیں ملا تھا اور مرزا صاحب نے سامنے لا کر رکھ دیا؟اول تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف جہاد کے مسئلہ پر ہی مسلمانوں میں رائج غلط خیالات کی اصلاح نہیں فرمائی تھی بلکہ اور بہت سے پہلو تھے جن پر آپ کی مبارک آمد کے ساتھ غلط خیالات کی دھند چھٹنے لگی۔بہر حال حضور نے قرآنی آیات پڑھ کر فرمایا کہ قرآنِ کریم جہاں ایک کھلی کتاب ہے وہاں یہ کتابِ مکنون بھی ہے۔ پھر حضور نے مختلف پرانے بزرگوں کی مثالیں پڑھ کر سنائیں کہ جن پر ان کے دور کے لوگوں نے اس وجہ سے کفر کے فتوے لگائے کہ آپ وہ باتیں کرتے ہیں جو آپ سے پہلے بزرگوں نے نہیں کیں۔ حضور نے فرمایا کہ اس دور کے تمام مسائل کا حل بھی قرآنِ کریم میں موجود ہے۔اور فرمایا کہ میں اپنی ذات کے متعلق بات کرنا پسند نہیں کرتا لیکن مجبوری ہے اور پھر بیان فرمایا کہ ۱۹۷۳ء کے دورہ یورپ کے دوران میں نے ایک پریس کانفرنس میںذکر کیا تھا کہ کمیونزم جو حل آج پیش کر رہا ہے اس سے کہیں زیادہ بہتر علاج قرآنِ کریم نے بیان فرمایا ہے۔مزید فرمایا کہ کون سے مخفی خزانے تھے جو اس Ageمیں جماعت ِ احمدیہ کے ذریعہ ظاہر ہوئے ۔چنانچہ ان کے مطابق میں یہ کہوں گا کہ میرا یہ دعویٰ نہیں کہ پہلی ساری کتب پر مجھے عبور ہے ۔اگر کسی صاحب کو عبور ہو کہ وہ آج کے مسائل حل کرنے کے لیے پہلی کتب میں سے مواد نکال دیں تو میں سمجھوں گا کہ وہ ٹھیک ہیں۔جب اس موضوع پر بات چلی تو اٹارنی جنرل صاحب نے سوال کیا کہ کوئی اور مثال دی جائے جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے نکتہ بیان کیا ہو اور پہلے علماء نے نہ بیان کیا ہو۔اس پر حضور نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر کی مثال دی۔ اور اس کی کچھ تفصیلات بیان فرمائیں کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر کے وہ نکات بیان فرمائے تھے کو پہلے کسی عالم نے بیان نہیں کئے تھے۔اور اس ضمن میں حضور نے بیان فرمایا کہ کس طرح حضور نے ڈنمارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چیلنج کو دہرایا تھا کہ عیسائی اپنی مقدس کتب میں وہ خوبیاں نکال کر دکھائیں جو سورۃ فاتحہ میں موجود ہیں۔پھر اٹارنی جنرل صاحب اس موضوع پر سوال کرتے رہے کہ قرآنِ کریم سے نیا استدلال کوئی غیر نبی بھی کر سکتا ہے۔یقیناََ تاریخِ اسلام میں بہت سے ایسے علمائِ ربانی گزرے ہیں جنہوں نے قرآنِ کریم سے استدلال کر کے لوگوں کی ہدایت کا سامان کیا ہے انہیں الہامات بھی ہوتے تھے لیکن یہ خدا کی مرضی ہے کہ کب اس کی حکمتِ کاملہ اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ دنیا کی اصلاح اور دنیا کو قرآنِ کریم کے نور سے منور کرنے کے لئے نبی کو آنا چاہئے اور کب یہ کہ وہ دینِ اسلام کی تجدید کے لئے مجددین کو دنیا میں بھیجتا ہے۔یہ ایسی بات نہیں ہے کہ دنیا کی کوئی اسمبلی اور وہ بھی پاکستان کی اسمبلی اس بات کا فیصلہ کرے کہ دنیا میں نبی آنا چاہئے یا مجدد کا ظہور ہونا چاہئے۔
اس کے بعد ایک بار پھر جہاد کے موضوع پر سوالات شروع ہوئے۔حضور نے فرمایا کہ جہادِ کبیر تو جاری ہے لیکن مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں جہادِ صغیر کی شرائط پوری نہیں ہوئیں۔ایک سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ اگرجہادِ صغیر کی شرائط پوری ہوں تو احمدی بھی باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر لڑیں گے۔ابھی یہ موضوع جاری تھا کہ ۲۱؍ اگست کی کارروائی ختم ہوئی۔
۲۲ ؍اگست کی کارروائی
۲۲؍ اگست کو بھی اسی موضوع پر گفتگو جاری رہی کہ جہاد بال کا زمانہ اس وقت نہیں ہے۔کب تک یہ جہاد ملتوی رہے گا ۔ایسا کیوں ہے؟وغیرہ وغیرہ ۔زیادہ تر پرانے سوالات ہی دہرائے جا رہے تھے۔صرف ایک حدیث اس ساری بحث کا فیصلہ کر دیتی ہے۔اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے مسیح موعود کی آمد کی نشانیاں بیان فرمائیں اور دیگر نشانیوں کے علاوہ آنحضرت ﷺ نے ایک نشانی یَضَعُ الْحَرْبَ کی بھی بیان فرمائی ہے یعنی مسیح موعود کی آمد کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہو گا کہ وہ جنگوں کا خاتمہ کرے گا۔(۹۸)
یہ اعتراض بھی جماعتِ احمدیہ کے خلاف بڑے زور و شور سے پیش کیا جاتا ہے کہ جماعت ِ احمدیہ جہاد کی قائل نہیں اور یہ ایک اہم رکن اسلام کا ہے اور یہ جماعت اس کی منکر ہے۔دیگر اعتراضات کی طرح یہ اعتراض بھی معقولیت سے قطعاََ عاری ہے۔اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ جماعت ِ احمدیہ قطعاََ جہاد کی منکر نہیں ہے بلکہ قرآنِ کریم اور نبیِ اکرم ﷺ کے بیان کردہ معیار کے مطابق پوری دنیا میں حقیقی معنوںمیں جماعت ِ احمدیہ ہی پوری دنیا میں جہاد کر رہی ہے جب کہ جماعت ِ احمدیہ پر الزام لگانے والے اس اہم فرض سے مسلسل غفلت برت رہے ہیں۔ لیکن یہ بحث اٹھانے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جہاد کہتے کسے ہیں ۔قرآنِ کریم نے اس کے بارے میں کیا تعلیم دی ہے ۔آنحضرت ﷺ نے اس کے بارے میں کیا راہنمائی فرمائی ہے۔یہ باتیں سمجھے بغیر تو یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کون جہاد کا منکر ہے اور کون جہاد کامنکر نہیں ہے۔
سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہئے کہ جہاد کا حکم کب نازل ہوا اور آنحضرت ﷺ نے اپنے عمل سے اس کی کیا تشریح فرمائی۔یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ جہاد کا حکم آنحضرت ﷺ کی حیات ِ مبارکہ کے مکی دور میں نازل ہو چکا تھا۔اللہ تعالیٰ سورۃ فرقان میں ارشاد فرماتا ہے ۔
(الفرقان: ۵۳)
یعنی کافروں کی پیروی نہ کر اور اس کے ذریعہ ان سے ایک بڑا جہاد کر۔
اور مفسرین اس آیت کریمہ میں اس آیت سے یہی مطلب لیتے رہے ہیں کہ اس میں قرآنِ کریم کے ذریعہ جہاد کرنے کا حکم ہے۔چنانچہ تفسیر کی مشہور کتاب فتح البیان میں یہی لکھا ہوا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جہاد سے صرف یہی مراد تھی کہ قتال کیا جائے اور جنگ کی جائے تو نا ممکن تھا کہ اس حکم کے بعد رسولِ کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ مکی زندگی میں ہی بلا توقف قتال اور جنگ شروع نہ کر دیتے ۔جب کہ اس وقت مسلمانوں کی مذہبی آزادی بھی ہر طرح سلب کی جا رہی تھی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور جب قرآنِ کریم میںقتال کی مشروط اجازت مدنی زندگی میں نازل ہوئی تو مسلمانوں کو اپنے دفاع میں انتہائی مجبوری کی حالت میں تلوار اُ ٹھانی پڑی۔
پھر مکہ میں نازل ہونے والی ہونے والی سورتوں میں جہاد کرنے والوں کا ذکر بھی مل جاتا ہے۔چنانچہ سورۃ نحل جو کہ مکہ میں نازل ہوئی تھی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

ترجمہ:پھر تیرا رب یقیناََ ان لوگوں کو جنہوں نے ہجرت کی بعد اس کے کہ وہ فتنہ میں مبتلا کئے گئے پھر انہوں نے جہاد کیا اور صبر کیا تو یقینا تیرا رب اس کے بعد بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
یہ تو مکی زندگی میںنازل ہونے والی آیت ہے ۔اس وقت بھی مسلمان جہاد کا عظیم فرض ادا کر رہے تھے۔اگرچہ باوجود سخت آزمائشوں کے قتال نہیں کیا جا رہا تھا۔جبکہ اس وقت مسلمان جہاں پر رہ رہے تھے وہاں پر مشرکین کی حکومت تھی۔
پھر قرآنِ کریم سے ہی یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ جہاد مال سے بھی کیا جاتا ہے۔جیسا کہ سورۃ الانفال میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
۔۔۔(الانفال: ۷۳)
یعنی انہوں نے اموال اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔
اس آیت ِ کریمہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ جہاد مال سے بھی کیا جاتا ہے۔
پھر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ رسولِ کریم ﷺ کے اس ضمن میں کیا ارشادات ہیں۔آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے ماتحت مجاہد کسے کہتے ہیں۔آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ’’اَلْمُجَاھِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہٗ‘‘ یعنی مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے۔(جامع ترمذی ابواب فضائل الجھاد)
پھر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ۔
’’جَاھِدُوا الْمُشْرِکِیْنَ بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ وَ اَلْسِنَتِکُمْ‘‘
یعنی مشرکین سے اپنے اموال سے اپنی جانوں سے اور اپنی زبانوں سے جہاد کرو۔
(سنن ابی داؤد باب کراھیۃ ترک الغزو)
پھر رسولِ کریم ﷺ فرماتے ہیں :۔
’’اِنَّ مِنْ اَعْظَمِ الْجِھَادِ کَلِمَۃَ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ‘‘
یعنی ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا جہاد کی ایک سب سے عظیم قسم ہے
(جامع ترمذی باب افضل الجھاد کلمۃ عدل عند سلطان جائر)
ان ارشاداتِ نبویہ سے یہ بات ظاہر ہے کہ جہاد صرف جنگ کرنے کو یا تلوار اُ ٹھانے کو نہیں کہتے۔ اس کے بہت وسیع معانی ہیں۔اور ان وسیع معانی کو محض قتال تک محدود کر دینا محض ایک نادانی ہے بلکہ رسولِ کریم ﷺ نے قتال کو جہادِ صغیر قرار دیا ہے۔چنانچہ ایک غزوہ سے واپسی پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا’’رَجَعْنَا مِنَ الْجِھَادِ الْاَصْغَرِ اِلَی الْجِھَادِ الْاَکْبَرِ‘‘ یعنی ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آرہے ہیں۔(رد المختار علی الدر المختار ،کتاب الجہاد )
اور جہاں تک قتال کا تعلق ہے یہ دیکھنا چاہئے کہ شریعت نے اس کے لئے جو شرائط مقرر کی ہیں وہ پوری ہو رہی ہیں کہ نہیں۔وہ علماء بھی جو جماعت کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے ہیں، انہوں نے بھی اپنی تحریرات میں یہ شرائط بڑی تفصیل سے بیان کی ہیں۔اور جب ۲۲؍ اگست کو جہاد کے مسئلہ پر بات شروع ہوئی اور اس موضوع پر بات ہو رہی تھی کہ احمدیوں کے نزدیک قتال کی شرائط کیا ہیں۔اس پر حضور نے فرمایا کہ ابھی ہم فلسفیانہ بات کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ قتال کی شرائط کے بارے میں ہمارے بھائیوں کا کیا فتویٰ ہے۔پھر آپ نے فرمایا میں مثال کے طور اہلِ حدیث کا فتویٰ بیان کرتا ہوں ۔اور پھر آپ نے اہلِ حدیث کے مشہور عالم نذیر حسین صاحب دہلوی کا فتویٰ سنایا جو انہوں نے انگریز کے دورِ حکومت میں ہی دیا تھا۔ہم فتاویٰ نذیری سے ہی یہ فتویٰ نقل کر دیتے ہیں۔
’’۔۔۔۔۔مگر جہاد کی کئی شرطیں ہیں جب تک وہ نہ پائی جائیں جہاد نہ ہو گا۔
اول یہ کہ مسلمانوں کا کوئی امامِ وقت و سردار ہو۔دلیل اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کلام ِ مجید میں ایک نبی کا انبیاء ِ سابقین سے قصہ بیان فرمایا ہے کہ ان کی امت نے کہا کہ ہمارا کوئی سردار اور امامِ وقت ہو تو ہم جہاد کریں۔الم ترالی الملا من بنی اسرائیل من بعد موسٰی اذ قالوا لنبی لھم ابعث لنا ملکا نقاتل فی سبیل اللہ۔ الایۃ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جہاد بغیر امام کے نہیں کیونکہ اگر بغیر امام کے جہاد ہوتا تو ان کو یہ کہنے کی حاجت نہ ہوتی کما لایخفٰی اور شرائع من قبلناجب تک اس کی ممانعت ہماری شرع میں نہ ہو،حجت ہے۔کما لا یخفیٰ علی المعاصر بالاصول ۔اور حدیث میں آیا ہے کہ امام ڈھال ہے ،اس کے پیچھے ہو کر لڑنا چاہئے اور اس کے ذریعہ سے بچنا چاہئے۔عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ انما الامام جنۃ یقاتل من ورائہ و یتقی بہ الحدیث رواہ البخاری و مسلم۔اس سے صراحتاً یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جہاد امام کے پیچھے ہو کر کرنا چاہئے بغیر امام کے نہیں۔
دوسری شرط کہ اسباب لڑائی کا مثل ہتھیار وغیرہ کے مہیا ہو جس سے کفار کا مقابلہ کیا جاوے۔فرمایا اللہ تعالیٰ نے واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ و من رباط الخیل ترھبون بہ عدو اللہ و عدوکم وا خرین من دونھم الایۃ (ترجمہ)اور سامان تیار کرو ان کی لڑائی کے لئے جو کچھ ہو سکے تم سے، ہتھیار اور گھوڑے پالنے سے اس سے ڈراؤ اللہ کے دشمن کو اور اپنے دشمنوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی قوت کے معنی ہتھیار اور سامانِ لڑائی کے ہیں۔اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے یا ایھا الذین اٰمنوا خذوا حذرکم فانفروا ثباتا اوانفروا جمیعا(ترجمہ)اے ایمان والو!اپنا بچاؤ پکڑو ،پھر کوچ کرو جدا جدا فوج یا سب اکٹھے۔۔۔۔۔۔یعنی حذر سے مراد لڑائی ہے۔مثلاًہتھیار وغیرہ کا مہیا ہونا ضروری ہے اور حدیثوں سے بھی اس کی تاکید معلوم ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ بغیر ہتھیار کے کیا کرے گا۔
تیسری شرط یہ ہے کہ مسلمانوں کا کوئی قلعہ یا ملک جائے امن ہو کہ ان کا ماویٰ و ملجا ہو چنانچہ قرآن کے لفظ من قوۃ کی تفسیر عکرمہ نے قلعہ کی ہے۔ قال عکرمۃ اَلْقُوَّۃُ اَلْحُصُوْنُ انتہی ما فی المعالم التنزیل للبغوی اور حضرت ﷺ نے جب تک مدینہ میں ہجرت نہ کی اور مدینہ جائے پناہ نہ ہوا جہاد فرض نہ ہوا،یہ صراحۃ دلالت کرتا ہے کہ جائے امن ہونا بہت ضروری ہے۔
چوتھی شرط یہ ہے کہ مسلمانوں کا لشکر اتنا ہو کہ کفار کے مقابلہ میں مقابلہ کر سکتا ہو یعنی کفار کے لشکر سے آدھے سے کم نہ ہو۔۔۔۔‘‘ (فتاویٰ نذیریہ جلد سوم ص۲۸۲۔۲۸۴)
اب اس فتویٰ سے ظاہر ہے کہ جہاد امامِ وقت کے حکم اور اس کی اتباع کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ اور اب اگر امام الزمان قتال سے روک رہا ہو تو پھر اس کو جہاد نہیں قرار دیا جا سکتا۔دراصل یہ اعتراض تو احمدیوں پر ہو ہی نہیں سکتا۔اس ضمن میں ان کے عقائد تو بہت واضح ہیں۔اگر الزام آتا ہے تو ان فرقوں پر آتا ہے جن کے عقائد تو یہ تھے کہ قتال فرض ہے اور سو سال انگریز نے ان پر حکومت کی اور وہ محض ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہے۔بلکہ لاکھوں کی تعداد میں انگریز کی فوج میں شامل ہو کر ان کی طرف سے لڑتے رہے بلکہ اس مقصد کے لئے مسلمانوں پر بھی گولیاں چلاتے رہے اور جب انگریز یہاں سے رخصت ہو گیا تو انہیں یاد آیا کہ انگریز سے لڑنا بہت ضروری تھا اور احمدیوں پر اعتراض شروع کر دیا کہ وہ جہاد کے قائل نہیں۔
اب جماعت ِ اسلامی کی مثال لے لیں ۔ان کی طرف سے یہ اعتراض بارہا کیا گیا کہ احمدی جہاد یعنی قتال کے قائل نہیں ہیں۔انگریز ابھی ہندوستان پہ حکمران تھا کہ جماعت ِ اسلامی کی بنیاد رکھی جا چکی تھی۔اور جماعت ِ اسلامی کا اعلان ہی یہ تھا کہ وہ ملک میں حکومت ِ الٰہیہ قائم کرنے کے لئے کھڑی ہوئی ہے۔اور جب اسی دور میں ان کے بانی مودودی صاحب نے اپنے لائحہ عمل کا اعلان کیا تو اس کے الفاظ یہ تھے:۔
’’جماعت کا ابتدائی پروگرام اس کے سوا کچھ نہیںہے کہ ایک طرف اس میں شامل ہونے والے افراد اپنے نفس اور اپنی زندگی کا تزکیہ کریںاور دوسری طرف جماعت سے باہر جو لوگ ہوں (خواہ وہ غیر مسلم ہوں یا ایسے مسلمان ہوں جو اپنے دینی فرائض اور دینی نصب العین سے غافل ہیں)ان کو بالعموم حاکمیت ِ غیر اللہ کا انکار کرنے اور حاکمیت رب العالمین کو تسلیم کرنے کی دعوت دیں۔اس دعوت کی راہ میں جب تک کوئی قوت حائل نہ ہو، ان کو چھیڑ چھاڑ کی ضرورت نہیں۔اور جب کوئی قوت حائل ہو ،خواہ کوئی قوت ہو ،توان کو اس کے علی الرغم اپنے عقیدہ کی تبلیغ کرنی ہو گی۔اور اس تبلیغ میں جو مصائب بھی پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کرنا ہو گا۔‘‘ (مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوئم صفحہ آخر)
پڑھنے والے خود دیکھ سکتے ہیں کہ جب انگریز حکومت ہندوستان میں موجود تھی اس وقت تک جماعت ِ اسلامی کا مسلک یہی تھا کہ اگر تو تبلیغ کی راہ میں کوئی قوت حائل نہیں تو کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ تک نہیں کرنی۔اور اگر قوت حائل بھی ہو تو اس کو تبلیغ کرو اور بس۔یہ واضح طور پر اس بات کی ہدایت ہے کہ تم نے قتال نہیں کرنا۔
جب اس موضوع پر بات آگے بڑھی تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ تعلیمات پیش فرمائی ہیں کہ یہ نظریہ جس کا عیسائی مناد اس زور و شور سے پرچار کر رہے ہیںکہ اسلام تلوار اور جبر کے زور سے پھیلا ہے سراسر غلط اور خلاف ِ واقعہ ہے۔اور اسلام نے تو ہر طرح کے مظالم کا سامنا کر کے یہ تعلیم دی ہے کہ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ یعنی دین کے معاملہ میں کسی قسم کا جبر نہیں ہے۔اور جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔کیونکہ اسلام کی تاثیرات اپنی اشاعت کے لئے کسی جبر کی محتاج نہیں ہیں۔اور یہ خیال بھی لغو ہے کہ اب ایسا کوئی مہدی یا مسیح آئے گا جو تلوار چلا کر لوگوں کو اسلام کی طرف بلائے گا۔
اس کے دوران حضور نے فرمایا کہ یہ تصور ہی احمقانہ ہے کہ جبر کے ساتھ عقائد تبدیل کئے جائیں۔ اب معلوم ہوتا ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب اس بات سے خوش نہ تھے کہ بحث اس روش کی طرف جائے چنانچہ انہوں نے کہا :۔
’’وہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
لیکن اس کے بعد وہ ایک مخمصے میں پڑ گئے۔ایک طرف تو وہ یہ کہہ بیٹھے تھے کہ جبر کے ذریعہ عقائد بدلنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور دوسری طرف وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تعلیم پر اعتراض بھی کرنا چاہتے تھے کہ مہدی اور مسیح کے ظہور کے ساتھ اسلام اپنی حقانیت اور دلائل کے ساتھ پھیلے گا نہ کہ کسی جنگ کے نتیجے میں۔اب اس مرحلہ پر جو گفتگو ہوئی وہ پیش کی جاتی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا کہ مسلمانوں میں جو خونی مہدی کا انتظار ہے وہ ایک ایسے وجود کا انتظار ہے جو کہ امن کا انتظار کئے بغیر جہاد کا اعلان کر دے گا۔
اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا:
’’ایک یہ مطلب نہیں لیا جاتا ۔بعض مسلمانوں کا یہ خیال ہے۔میری سمجھ کے مطابق جب مہدی آئے گا تو اسلام پھیل جائے گا۔جہاد کفار کے خلاف ہوتا ہے اس لئے ضرورت نہیں رہے گی جہاد کی۔‘‘
اب اٹارنی جنرل صاحب اس بات کی نفی کر رہے تھے جو انہوں نے چند لمحوں پہلے کی تھی ۔ان کی بات کا صرف یہی مطلب لیا جا سکتا تھا کہ اسلام کو اپنے پھیلنے کے لئے قتال کی ضرورت ہے اور جب مہدی کے زمانہ میں اسلام پھیل جائے گا تو ایسے جہاد کی ضرورت نہیں رہے گی۔اس پر حضور نے فرمایا:
’’وہی پھر کہ اسلام کو ضرورت ہے اپنی اشاعت کے لئے۔‘‘
اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا:
’’نہیں میں تلوار کی بات نہیں کر رہا۔۔۔کہ جب مہدی آئے گا تو اسلام پھیل جائے گا‘‘
اس پر حضور نے بات کو واضح کرنے کے لئے پھر سوال دہرایا۔
’’کس طرح پھیلے گا۔وہاں پہ لکھا ہوا ہے۔‘‘
اب اٹارنی جنرل صاحب بے بس تھے انہوں نے چار و نا چار ان الفاظ میں اعتراف کیا۔
’’تلوار کے ساتھ‘‘
اس پر حضور نے ایک بار پھر ان کے موقف کی بو العجبی واضح کرنے کے لئے فرمایا
’’جبر کے ساتھ وہاں یہ لکھا ہوا ہے۔‘‘
یحییٰ بختیار صاحب نے اب جان چھڑانے کے لئے جماعت کے موقف کا ذکر شروع کیا اور کہا
’’نہیں آپ کاconcept یہ ہے کہ جبر کے ساتھ نہیں ہو گا پیار سے ہوگا۔‘‘
یقینا َ جماعت ِ احمدیہ کا موقف یہی ہے ۔اور جماعت اس موقف کو سختی سے رد کرتی ہے کہ دین کی اشاعت میں جنگ یا جبر کا کوئی دخل ہونا چاہئے۔یہ قرآنِ کریم کی تعلیم اور رسولِ کریم ﷺ کے عظیم اسوہ کے خلاف ہے۔جماعت کے اکثر مخالفین یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کا تلوار کا بڑا گہرا تعلق ہے۔اس اسمبلی میں جماعت ِ اسلامی کی نمایندگی بھی موجود تھی۔ ان کے بانی اور قائد کی زبان میں ان کے خیالات درج کرتے ہیں۔وہ اپنی کتاب ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ میں تحریر کرتے ہیں
’’لیکن جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد داعیِ اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی ۔۔۔۔۔‘‘
انا للّٰہ و انا الیہ رٰجعون۔کس دھڑلے سے مودودوی صاحب فتویٰ دے رہے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ کا وعظ اور آپ کی تلقین ناکام ہو گئے۔جماعت ِ احمدیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ خیال ہی فاسد ہے کہ رسولِ کریم ﷺ کا وعظ اور آپ کی تلقین ناکام ہو گئے۔دنیا کے کسی اسلحہ کسی قوت میں وہ تاثیر وہ برکت وہ اثر نہیں جو کہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد ات ِ گرامی میں ہے۔اگر دنیا فتح ہو سکتی ہے تو آپ کے وعظ و تلقین کے اثر اور ان کی برکات سے ہی ہو سکتی ہے۔لیکن بہر حال مودودی صاحب کو حق ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھیں لیکن ان کی صحت کو پرکھنے کے لئے ہم قرآنِ کریم ﷺکو معیار بناتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
’’‘‘ (الاعلٰی:۱۰)
ترجمہ: پس نصیحت کر۔نصیحت بہر حال فائدہ دیتی ہے۔
لیکن مودودی صاحب مصر ہیں کہ نعوذ با للہ رسولِ کریم ﷺ کی نصیحت ناکام ہو گئی۔
پھر اللہ تعالیٰ رسول ِ کریم ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے۔
’’‘‘
ترجمہ:پس بکثرت نصیحت کر ۔تو محض ایک بار بار نصیحت کرنے والا ہے‘‘
’’‘‘
تو ان پر داروغہ نہیں ہے۔
قرآنِ کریم تو یہ کہتا ہے لیکن مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ نصیحت ناکام ہی ثابت ہوئی۔
بہر حال مودودی صاحب مضمون کو آگے چلا کر لکھتے ہیں کہ جب تلوار ہاتھ میں لی گئی تو تمام موروثی امتیازات کا خاتمہ ہوا۔اخلاقی قوانین نافذ ہوئے۔لوگوں کی طبیعتوں سے بدی اور شرارت کا زنگ چھوٹنے لگا،طبیعتوں کے فاسد مادے خود بخود نکل گئے۔حق کا نور عیاں ہوا۔تلوار کے یہ معجزے بیان کر کے پھرمودودی صاحب یہ بھیانک نتیجہ نکالتے ہیں:
’’پس جس طرح یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے لوگوں کو مسلمان بناتا ہے،اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تلوار کا کوئی حصہ نہیں ہے۔حقیقت ان دونوں کے درمیان ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تبلیغ اور تلوار دونوں کا حصہ ہے جس طرح ہر تہذیب کے قیام میں ہوتا ہے۔تبلیغ کا کام تخم ریزی ہے اور تلوار کا کام قلبہ رانی۔ پہلے تلوار زمین کو نرم کرتی ہے تاکہ اس میں بیج کو پرورش کرنے کی قابلیت پیدا ہو جائے ۔ پھر تبلیغ بیج ڈال کر آبپاشی کرتی ہے تاکہ وہ پھل حاصل ہو جو اس باغبانی کا مقصود ِ حقیقی ہے۔‘‘
( الجہاد فی الاسلام ،مصنفہ ابواعلیٰ مودودی صاحب،ناشر ادارہ ترجمان القرآن دسمبر ۲۰۰۷ص۱۷۴ ۔۱۷۵)
مودودی صاحب یہ خوفناک عقیدہ پیش کر رہے ہیں کہ کسی کو تبلیغ کرنے سے قبل اس پر تلوار چلانا ضروری ہے تاکہ زمین خوب نرم ہو جائے پھر تبلیغ کچھ فائدہ دے گی ورنہ تبلیغ کا بیج ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔اسی قسم کے خیالات نے دشمنانِ اسلام کو موقع دیا ہے کہ وہ اسلام کی امن پسند تعلیمات پر حملہ کر سکیں ورنہ ان خیالات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ اعتراض بار بار ہوا تھا اوراب بھی ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس وقت ہندوستان کی انگریز حکومت کی اطاعت کرنے اور قانون کی پیروی کرنے کا ارشاد کیوں فرمایا۔پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ اس وقت کے باقی مسلمان فرقوں اور سیاسی اور غیر سیاسی تنظیموں کا اور مسلمانوں کا بالعموم کیا موقف تھا۔کیا وہ اس وقت یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کی انگریز حکومت سے بغاوت کرنا ان کے مفاد میں ہے یا وہ یہ سمجھتے تھے اس حکومت سے تعا ون کرنا اور قانون کی حدود میں رہنا ان کے مفاد ات کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جیسا کہ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ صرف ایک سیاسی جماعت تھی جسے ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت کہا جا سکتا تھا اور وہ مسلم لیگ تھی۔اس کے طے کردہ اغراض و مقاصد پڑھ لیں تو بات واضح ہو جاتی ہے ۔ان میں سے پہلا مقصد ہی یہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں انگریز حکومت سے وفاداری کے خیالات میں اضافہ کیا جائے اور انہیں قائم رکھا جائے۔اس کا حوالہ ہم پہلے ہی درج کر چکے ہیں۔اب یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہمارا مفاد اسی میں ہے کہ ہم حکومت سے تعاون کریں اور وفاداری کا رویہ دکھائیں بلکہ جیسا کہ پہلے حوالے گزر چکے ہیں وہ تو حکومت سے پر زور مطالبات کر رہے تھے کہ باغیانہ طرز دکھانے والوں کو طاقت کے ذریعہ دبائے اور ان کے جلسوں میں یہ اعلان ہوتا تھا کہ ہم نے تو کبھی حکو مت سے مستحکم عقیدت میں کبھی پس و پیش کیا ہی نہیں ۔اس پس منظر میں یہ اعتراض ہی نامعقول ہے کہ جماعت ِ احمدیہ نے انگریز حکومت سے تعاون کیوں کیا ؟ اور ان کی تعریف کیوں کی؟سوال تو یہ اُ ٹھنا چاہئے کہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں نے ،خود مسلم لیگ نے ،ان کے بڑے بڑے علماء نے انگریز حکومت سے وفاداری کا بار بار اعلان کیوں کیا؟اس لیے کہ ان کے آنے سے قبل خاص طور پر اس علاقہ میں جو اب پاکستان ہے مسلمان بہت پسی ہوئی حالت میں زندگی گذار رہے تھے اور ان کی مذہبی آزادی بالکل سلب کی جا چکی تھی اور انگریزوں کی مستحکم حکومت قائم ہونا ان کے حقوق کی بحالی کا باعث بنا تھا ۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی غالب اکثریت کو انگریزوں سے جہاد کا خیال ۱۹۴۷ء کے بعد آیا تھا جب انگریز برِ صغیر سے رخصت ہو چکا تھا۔اس سے قبل توہندوستان کے لاکھوں مسلمان اور ہندوستان کے دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے بھی ،پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے موقع پر فوج میں بھرتی ہو کر انگریزوں کی فوج میں شامل ہو کر ان کی طرف سے جنگ کرنے کے لیے جاتے تھے۔
بہر حال اسی موضوع پر بات ہو رہی تھی کہ وقفہ ہوا اور وقفہ کے بعد دوبارہ اسی موضوع پر گفتگو شروع ہوئی۔اور پرانے حوالوں کی تکرار کے ساتھ مغرب کی نماز کے لیے ہونے والے وقفہ تک جاری رہی۔پھر ساڑھے آٹھ بجے دوبارہ کارروائی شروع ہوئی۔اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے حوالے پڑھ کر سنائے کہ کس طرح جب کسی سمت سے اسلا م پر حملہ ہوا تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک فتح نصیب جرنیل کی طرح اسلام کا کامیاب دفاع کیا۔اور حضور نے تفصیل سے بیان فرمایا کہ تاریخ میں جب بھی مسلمانوں کے حقوق کی خاطر آواز اُ ٹھانے اور جد وجہد کرنے کا وقت آیا تو جماعتِ احمدیہ ہمیشہ صف اول میں کھڑے ہو کر قربانیاں دیتی رہی تھی ۔ابھی حضور یہ واقعات مرحلہ وار بیان فرما رہے تھے اور ابھی مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کے لیے مسلمانوں کی خدمات کا ذکر ہوناتھا کہ اس روز کی کارروائی کا وقت ختم ہوا۔
۲۳ ؍اگست کی کارروائی
اس روز کارروائی شروع ہوئی اور ابھی حضور اقدس ہال میں تشریف نہیں لائے تھے کہ ممبرانِ اسمبلی نے اپنے کچھ دکھڑے رونے شروع کئے۔ایک ممبر اسمبلی صاحبزادہ صفی اللہ صاحب نے یہ شکوہ کیا کہ پہلے یہ فیصلہ ہوا تھا کہ مرزا ناصر احمد لکھا ہوا بیان نہیں پڑھیں گے سوائے اس کے کہ وہ مرزا غلام احمد یا مرزا بشیر الدین کا ہو لیکن وہ کل ایک کاغذ سے پڑھ رہے تھے اور یہ ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ یہ حوالہ کس کا ہے؟ دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ اٹارنی جنرل صاحب ایک چھوٹا سا سوال کرتے ہیں اور یہ جواب میں ساری تاریخ اپنی صفائی کے لیے پیش کر دیتے ہیں۔جہاں تک صفی اللہ صاحب کی پہلی بات کا تعلق ہے تو شاید انہیں بعض باتیں سمجھنے میں دشواری پیش آ رہی ہو ۔اور دوسری بات بھی عجیب ہے۔اعتراض جماعت ِ احمدیہ پر ہو رہے تھے۔کچھ اعتراضات ایسے تھے کہ ان کا صحیح تاریخی پس منظر پیش کرنا ضروری تھا۔کوئی بھی صاحبِ عقل اس بات کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا کہ بہت سی تحریروں اور واقعات کو سمجھنے کے لیے ان کے صحیح پس منظر کا جاننا ضروری ہے۔اصل مسئلہ یہ تھا کہ اعتراض تو پیش کیے جا رہے تھے لیکن جوابات سننے کی ہمت نہیں تھی۔ایک اور ممبر ملک سلیمان نے کہا کہ کارروائی کی جو کاپی دی گئی ہے اس پرAhmadiya issueلکھا ہوا ہے ،جب کہ یہ احمدی ایشو نہیں بلکہ قادیانی ایشو ہے۔یہ ہم نے فیصلہ نہیں کیا کہ یہ احمدی ایشو ہے۔اور شاہ احمد نورانی صاحب نے اس کی تائید کی۔گویا یہ بھی پاکستان کی قومی اسمبلی کا حق تھا کہ وہ ایک مذہبی جماعت کا نام اس کی مرضی کے خلاف تبدیل کر دیں۔لیکن اس وقت سپیکر صاحب نے اس خلافِ عقل اعتراض پر کوئی توجہ نہیں دی۔جب کارروائی شروع ہوئی تو حضور نے قدرے تفصیل سے یہ تفاصیل بیان کرنی شروع کیں کہ جب ہندوستان کی آزادی کے دن قریب آ رہے تھے تو کس طر ح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ اور جماعت ِ احمدیہ نے ہمیشہ مسلمانوں میں اتحاد کی کوششیں کیں اور ان کے مفادات کے لیے بے لوث خدمات سرانجام دیں ۔جب یہ ذکر آگے بڑھتا ہوا فرقان بٹالین کے ذکرتک پہنچا تو یہ صا ف نظر آ رہا تھا کہ سوالات کرنے والوں نے جو تاثرات قائم کرنے کی کوشش کی تھی وہ اس ٹھوس بیان کے آگے دھواں دھواں ہو کر غائب ہو رہے تھے۔اس لیے اٹارنی جنرل صاحب نے کہاکہ آپ سے یہ سوال نہیں کیا گیا۔ اس طرح باہر کی باتیں آ جائیں گی ۔حضور نے اس پر فرمایا کہ ٹھیک ہے میں یہ بیان بند کر دیتا ہوں۔لیکن حقیقت یہ تھی کہ جماعت ِ احمدیہ پر جس قسم کے اعتراضات کیے گئے تھے ان کے پیشِ نظر یہ تفصیلات بیان کرنا ضروری تھیں ۔پھر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیںکہ آپ کے موقف کی وضاحت کے لیے ان کا بیان کرنا ضروری ہے تو آپ بیان کر دیں۔اس پر حضور نے اہلِ کشمیر کے لیے جماعت ِ احمدیہ کی بے لوث خدمات کا خلاصہ بیان فرمایا ۔اس کے بعد جو سوالات شروع ہوئے تو وہ انہی سوالات کا تکرار تھاجو پہلے بھی کئی دفعہ ہو چکے تھے۔معلوم ہوتا ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب اس موہوم امید پر انہیں دہرا رہے تھے کہ شاید جوابات میں کوئی قابلِ گرفت بات مل جائے۔
ایک سوال یہ دہرایا گیا کہ باؤنڈری کمیشن کے سامنے جماعت نے اپنا میمورنڈم کیوں پیش کیا؟ اس کاکچھ جواب پہلے ہی آچکا ہے کہ ایسا مسلم لیگ کی مرضی سے ان کے کیس کی تائید کرنے کے لئے کیا گیا تھا۔ایک سوال یہ کیا گیا کہ ۱۹۷۴ء کے فسادات کے دوران حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحب نے بین الاقوامی تنظیموں سے یہ اپیل کیوںکی تھی کہ وہ پاکستان میں جا کر دیکھیں کہ احمدیوں پر کیا مظالم ہو رہے ہیں۔اب جب کہ اس کارروائی پر کئی دہائیاں گزر چکی ہیں یہ سمجھنا زیادہ آسان ہے کہ یہ سوال بھی خلافِ عقل تھا۔خواہ وہ پارٹی ہو جس سے اٹارنی جنرل صاحب وابستہ تھے یا وہاں پر موجود دوسری سیاسی پارٹیاں ہوں ان سب نے بارہا بین الاقوامی تنظیموں سے یہ اپیل کی کہ وہ پاکستان میں آ کر دیکھیں کہ وہاں ان پر کیا کیا مظالم ہو رہے ہیں۔کئی اہم مواقع پر بین الاقوامی مبصرین منگوائے گئے ہیں۔کئی مرتبہ ملک کے اندرونی مذاکرات میں بیرونی گروہوں کی اعانت لی گئی ہے۔یہ ایک لمبی اور تکلیف دہ تاریخ ہے اور یہ حقائق معروف ہیں۔جب ہم یہ الفاظ لکھ رہے ہیں اسی پیپلزپارٹی نے جس کی حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل صاحب سوالات کر رہے تھے، اقوامِ متحدہ سے اپیل کی ہوئی ہے کہ وہ اس کی چیئر پرسن اور ملک کی سابق وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو صاحبہ کے قتل کی تحقیقات کرے حالانکہ اس وقت ملک میں پیپلز پارٹی کی ہی حکومت ہے۔
پھر یہ فرسودہ اور بالکل غلط الزام دہرانے کی کوشش کی گئی کہ جماعت ِ احمدیہ کے عقائد کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درجہ نعوذُ باللہ آنحضرت ﷺ کے برابر ہے۔اور پھر یہ سوالات شروع ہو گئے کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مقامِ نبوت یکلخت ملا تھا یا تدریجی طور پر ملا تھا ۔ان تمام سوالات کا زیر ِ بحث معاملہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔اب یہ ظاہر تھا کہ سوال کرنے والے محض وقت گزار رہے تھے اوران کے پاس کرنے کو اب کوئی ٹھوس سوال نہیں تھا۔اس مرحلہ پر وقفہ ہوا اور نو بجے کے بعد جب کارروائی شروع ہوئی تو جماعت کے وفد کے آنے سے پہلے ایک ممبر عبد الحمید جتوئی صاحب نے اکتا کر کہا ،’’یہ کب تک چلے گا۔‘‘ سپیکر صاحب بھی کچھ جھنجلا چکے تھے ،وہ کہنے لگے کہ جب تک آپ چلائیں گے۔اور پھر چھ ممبران کا تعین ہوا جو ابھی مزید سوالات پوچھنا چاہتے تھے۔شاہ احمد نورانی صاحب نے کہا کہ ابھی دو چار روز اور چلا لیں۔اس پر سپیکر صاحب نے اصرار کیا کہ نہیں اب اس کو ختم کیا جائے۔اور یہ دو چار روز اور نہیں چلے گا یہ حتمی بات ہے۔
پھر جو کچھ انہوں نے کہا وہ من و عن درج ہے:
’’۔۔کچھ موضوعات اگلی اسمبلی کے لیے بھی چھوڑ دیں جو آپ کے Successor ہیں۔ انہوں نے بھی کچھ فیصلے کرنے ہیں۔یہ تو نہیں کہ آپ نے قیامت تک کے تمام فیصلے کر دینے ہیں۔ابھی آگے اسمبلیاں بھی رہیں گی۔۔‘‘
اس پر عبد الحمید جتوئی صاحب نے لقمہ دیا کہ قیامت میں ایک صدی باقی رہتی ہے۔سپیکر صاحب نے اس کے جواب میں کہا :
’’ایک صدی کے معاملات کا فیصلہ بھی تو یہ اسمبلی نہیں کر سکتی۔‘‘
اس مرحلہ پر حضورہال میں تشریف لائے اور ان کی آپس کی نوک جھونک ختم ہوئی۔اٹارنی جنرل صاحب نے آ غاز میں ان حوالوں کا ذکر کر کے جو وقفہ سے پہلے پیش ہوئے تھے اور جن کو چیک کرنا تھا ، کہا کہ آپ نے کچھ جوابات دینے تھے۔اس پر حضور نے جواب دیاکہ میں دس منٹ میں کیا کر سکتا تھا اور اس وقت کتاب نہیں تھی۔اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے یہ انکشاف فرمایا کہ اب انہیں بتایا گیا ہے کہ جو حوالہ دیا گیا تھا اس کا Page غلط ہے۔اس پر حضور نے ارشاد فرمایا :
‏’’Page غلط ہے تو میں کیسے ڈھونڈوں گا۔‘‘
اس کے جواب میں یحییٰ بختیار صاحب نے یہ دقیق نکتہ بیان فرمایا کہ
’’ بعض دفعہ Pageٹھیک ہوتا ہے کتاب غلط ہوتی ہے۔پتہ نہیں لگتا ۔اس لئے بڑی مشکل ہوتی ہے۔۔۔‘‘
اب تک حوالہ جات کے معاملہ میں جو غلطیاں ان سے ہو چکی تھیں اس پس منظر میں اس پر تبصرہ کی ضرورت نہیں۔پھر ان کی گفتگو کا سلسلہ کچھ بے ربط سا ہو گیا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ آپ غدر۱۸۵۷ء کی جنگ کو جہاد نہیں سمجھتے ،اس میں بہت سے بچوں کو اور عورتوں کو مارا گیا تھا لیکن ۱۹۴۷ء میں آزادی کے وقت بھی تو بہت سے بچوں اور عورتوں کو فسادات کے دوران مارا گیا تھا۔یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اس منطق سے کیا نتیجہ نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔اور اب ان کے سوالات مفروضوں کی طرف نکل رہے تھے کہ اگر یہ ہو جائے تو کیا ہوگا اور اگر اس طرح ہو تو کیا ہو گا۔اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے فرمایا کہ ’’اگر‘‘ کے ساتھ بات نہ کریں۔ ’’اگر ‘‘کے ساتھ تو قیامت تک مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔جو واقعہ ہے یا جو تعلیم ہے اس کے متعلق میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ایک مرحلہ پر سپیکر صاحب نے اٹارنی جنرل صاحب کو کہا کہ وہ اگلا سوال کریں۔ گواہ سوال کا جواب دینے کو تیار نہیں ہے۔اٹارنی جنرل صاحب نے سوال دہرانا چاہا لیکن سپیکر صاحب نے اس کی اجازت نہیں دی۔بات آگے چلی تو اٹارنی جنرل صاحب نے چشمہ معرفت کا ایک حوالہ پڑھنے کی کوشش کی اور پھر خود ہی کہا کہ یہ حوالہ تو غلط ہے۔اب سپیکر صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا ۔انہوں نے کہا کہ میں اٹارنی جنرل صاحب سے درخواست کروں گا کہ وہ باقی حوالہ جات گواہ کو دے دیں تاکہ کل اس کا جواب آجائے۔چنانچہ چاروناچار انہوں نے حوالوں کی فہرست لکھوانی شروع کی ۔ابھی حوالہ کی عبارت نہیں پڑھی جا رہی تھی ۔جب فہرست لکھوا دی گئی تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ پہلے ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ جس مضمون کے متعلق حوالہ دیا گیا ہے اس صفحہ پر اس مضمون کا ذکر ہے کہ نہیں۔اس کے جواب میں اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا،’’مجھے تو ملتے نہیں‘‘حضور نے فرمایا۔
’’نہیں ٹھیک ہے‘‘ اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا ِ’’ تو آپ چیک کر لیں اس کو‘‘
یہ بات قابلِ ملاحظہ ہے کہ اتنے روز کی بحث کے بعد جب کارروائی اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی تو سوالات کرنے والے قابل حضرات کے وکیل کو متعلقہ حوالے بھی نہیں مل رہے تھے۔اور بعض اوقات تو یہ تاثر ملنے لگتا تھا کہ شاید ان کے ذہن میں ہے کہ یہ بھی جماعت ِ احمدیہ کے وفد کی ذمہ داری ہے کہ ان کے کام کے حوالے تلاش کر کے ان کی خدمت میں پیش کرے تا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی بسہولت اپنے اعتراضات کو پیش کر سکے۔
کارروائی کا آخری دن
کارروائی اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی اور اب تک اصل موضوع یعنی ختمِ نبوت پر سوالات شروع ہی نہیں ہوئے تھے۔شاید کسی ذہن میں یہ امید ہو کہ آخری دن تو موضوع پر بات ہو گی لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا۔ممبرانِ اسمبلی آخری روز بھی یہ ہمت نہیں کر سکے کہ ادھر اُدھر کی باتوں کو چھوڑ کر اُس موضوع پر بحث کریں جس کا تعین خود انہوں نے کیا تھا۔پہلے حضور اقدس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ فارسی اشعار پڑھ کر ان کا مطلب بیان فرمایا۔ان اشعار پر پہلے اعتراض کیا گیا تھا۔اس کے بعد حضور نے اس اعتراض کا جواب شروع فرمایا جو اس بات پر کیا گیا تھا کہ فروری ۱۸۹۹ ء کوجب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی عدالت میں مقدمہ چل رہا تھاتو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عدالت کے کہنے پر ایک نوٹس پر دستخط فرمائے کہ آئندہ سے میں کسی کی موت کی پیشگوئی شائع نہیں کروں گا۔اور یہ ایک نبی کی شان کے مطابق نہیں ہے۔اس واقعہ کا پس منظر یہ تھا کہ انگریز حکومت کے ایک پولیس افسر نے ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو لکھا کہ ایک گزشتہ مقدمہ میں مرزا غلام احمد کو سابق ڈپٹی کمشنر ڈگلس صاحب نے یہ کہا تھا کہ وہ آئندہ سے ایسی پیشگوئیاں شائع نہ کریں جس سے نقضِ امن کا اندیشہ ہو لیکن اب انہوں نے اس کی خلاف ورزی شروع کر دی ہے۔اور اس کی تائید میں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے بھی ڈپٹی کمشنر کو درخواست دی کہ مجھے خطرہ ہے کہ مرز ا غلام احمد کے پیروکار مجھے نقصان پہنچائیں گے۔ اور آخر میں عدالت نے مولوی محمد حسین بٹالوی کی اشتعال انگیز تحریروں کو بھی دیکھا۔اور مقدمہ کے آخر میں محمد حسین بٹالوی صاحب کو فہمائش کی گئی کہ وہ آئندہ تکفیر اور بد زبانی سے باز رہیں۔ مقدمہ کے آخر میں عدالت نے فریقین سے ایک تحریر پر دستخط کرائے کہ آئندہ کوئی فریق اپنے مخالف کی نسبت موت وغیرہ کسی دل آزار مضمون کی پیشگوئی نہ کرے۔کوئی کسی کوکافر اور دجال اور مفتری نہ کہے۔بد گوئیوں اور گالیوں سے مجتنب رہیں۔
اس اعتراض کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ اس واقعہ سے بہت قبل ۱۸۸۶ء میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس طریق کا اعلان فرما چکے تھے کہ وہ کسی کی موت کی پیشگوئی اس وقت تک شائع نہیں فرماتے تھے جب تک اُس شخص کی طرف سے اس بابت اصرار نہ ہو ۔اور اس کے ثبوت کے طور پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار کی عبارت پیش فرمائی ۔ اور اگر آپ نے عدالت میں اس تحریر پر دستخط فرمائے تو یہ آپ کے طریق کے مطابق ہی تھا۔
پھر اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض پیشگوئیوں کے متعلق کچھ سوالات اُ ٹھائے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے مولوی ثنا ء اللہ صاحب کو دعوتِ مباہلہ اور عبد اللہ آتھم اور محمدی بیگم کی پیشگوئیوں کے متعلق تفاصیل بیان فرمائیں۔اس کے بعد یحییٰ بختیار صاحب نے تاریخِ احمدیت کے متعلق یہ انکشاف فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے احمدیت قبول نہیںکی تھی۔گویا انہیں آپ کی ۱۹۳۰ء میں ہونے والی بیعت کی اطلاع اب تک موصول نہیں ہوئی تھی اور یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی بیعت کا مسئلہ ختمِ نبوت سے کیا تعلق تھا؟
پھر اٹارنی جنرل صاحب نے یہ سوال اُ ٹھایا کہ احمدیوں نے کہا تھا کہ مذہباََ ترکوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں اور اٹارنی جنرل صاحب نے کوئی حوالہ پڑھ کر غلطیوں میں اضافہ کرنے کی کوشش تو نہیں کی البتہ یہ ضرور کہا کہ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ یہ کہا گیا تھا کہ ہم ترکی کے سلطان کو مذہباََ خلیفہ نہیں مانتے۔ اب یہ بات ظاہر ہے کہ پہلی اور دوسری بات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اور صاف ظاہر ہے احمدی خلافت ِ احمدیہ سے وابستہ ہیں اور وہ ترکی کے سلطان کو خلیفہ کیوں ماننے لگے۔اور تو اور پاکستان میں غیر احمدی مسلمانوں سے پوچھ لیں کہ ان میں سے کتنے ترکی کے سلطان کو خلیفہ راشد سمجھتے ہیں، ایسا آدمی ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔ اور پھر یہ سوال اُ ٹھایا کہ جب پہلی جنگِ عظیم کے دوران بغداد پر انگریزوں کا قبضہ ہوا ہے تو قادیان میں چراغاں جلائے گئے تھے کہ نہیں۔
یہ ا عتراض بھی بار بار کیا جاتا ہے کہ جب پہلی جنگِ عظیم میں انگریز افواج نے بغداد پر قبضہ کیا تو قادیان میں چراغاں کیا گیا تھا۔پہلی بات یہ ہے کہ چراغاں بغداد کی فتح پر نہیں ہوا تھا بلکہ جب اتحادیوں نے جرمنی کو شکست دی ہے اور پہلی جنگِ عظیم کا خاتمہ ہوا ہے اس وقت ہوا تھا۔بغداد پر قبضہ مارچ ۱۹۱۷ء میں اور پہلی جنگِ عظیم کا خاتمہ ۱۹۱۸ء کے آ خر میں ہوا تھا۔اور صرف قادیان میں نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں کئی مقامات پر یہ چراغاں کیا گیا تھا ۔لیکن یہ اعتراض اُ ٹھانے والے اپنی دانست میں بہت بڑا اعتراض اُ ٹھاتے ہیں ۔جب ہم نے انٹرویو کے دوران صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب سے اس سوال کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے یہ سوال یاد ہے اور یہ سوال کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ احمدیوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے علیحدہ رکھا ہے۔ اور مسلم دنیا کے ساتھ منسلک نہیں ہوتے تھے ۔اس لئے اس کےDownfallکو Welcome کیا۔ پہلی بات یہ ہے کہ جب جنگِ عظیم کا خاتمہ ہوا تو ترکی کی سلطنتِ عثمانیہ کو پہلے ہی شکست ہو چکی تھی اور اس موقع پر ترکی کی شکست پر نہیں بلکہ جرمنی کی شکست پر جشن منایا گیا تھا۔اوراگر ہم یہ معیار تسلیم کرلیں کہ پہلی جنگِ عظیم میں جس کی ہمدردیا ںانگریزوں کے ساتھ تھیں وہ اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ رکھنا چاہتا تھا۔اور یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کو قانونِ پاکستان میں غیر مسلم قرار دینے کی ایک وجہ بن سکتا ہے۔ تو ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران ہندوستان کے مسلمانوں میں سے کس کس کی ہمدردیاںانگریزوں کے ساتھ تھیں۔پھر اسی کلیہ کی رو سے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ان کے متعلق بھی یہی خیالات روا رکھے جائیں۔
جب ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگِ عظیم کا آغاز ہوا تو مسلمانان برِ صغیرکا ردِ عمل کیا تھا،اس کا اندازہ اس مواد سے لگایا جا سکتا ہے جو کہ پنجاب یونیورسٹی کی ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان نے ایک کتاب میںجمع کیا ہے۔جب پہلی جنگ ِ عظیم کا آغاز ہوا توپنجاب کیLegislative Council نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی ۔اس کونسل میں مسلمان ،ہندو اور سکھ نمائندگان شامل تھے۔اس قرارداد میں یہ درج تھا کہ ہم ایمپائر کے بادشاہ کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہیں اور یہ یقین دلاتے ہیںکہ ایمپائر کے دشمنوںکے خلاف جو بھی مدد درکار ہو گی یہ صوبہ اس کو فراہم کریگا۔
A Book of Readings on the History of the Punjab 1799-1947 by Imran Ali Malik, Published by Research Society of the Punjab 1985 p321
جہاں تک مسلمانوں کے علیحدہ ردِعمل کا تعلق ہے تو اس کتاب میں اس کے متعلق پہلی خبر درج ہے۔ جب پہلی جنگِ عظیم کا آغاز ہوا تو لاہور میں مسلمانوں کا ایک جلسہ منعقد ہوا اور منتظمین کی طرف سے اس جلسہ کی غرض یہ بیان کی گئی کہ
’’ ملکہ معظم جارج پنجم دام اقبالہ کے حضور میں مسلمانان ِ لاہور و پنجاب کی طرف سے اظہارِ وفاداری و عقیدت کیا جائے اور پروردگار ِ عالم کی درگاہ میں سرکار ِ انگلشیہ کی فتح و نصرت کے واسطے دعا کی جائے۔نیز مسلمانانِ پنجاب کی طرف سے گورنمنٹ کو یقین دلایا جاوے کہ مسلمانوںکا ہر فرد و بشر سرکار ِ عالیہ کی ہر قسم کی امداد و خدمت کے واسطے تیار ہے۔‘‘
اس میں ایک قرارداد پیش کی گئی۔اس قرار داد میں کہا گیا تھا کہ :
’’مسلمانان لاہور کا یہ عام جلسہ جو بسرپرستی انجمنِ اسلامیہ پنجاب لاہور منعقد کیا گیا ہے۔ مسلمانانِ پنجاب کی طرف سے اپنی گورنمنٹ اور حضور شہنشاہ معظم کی خدمت میں ایک غیرمتزلزل مکمل وفادار ہے۔اور عقیدت شعاری کا اظہار کرتا ہے۔اور سلطنت کی حفاظت میں اپنی خدمت اور تمام ذرائع پیش کرتا ہے۔‘‘
اور اس قرارداد کی حمایت میں بہت سے معززین نے تقاریر کیں جن میں سے ایک نام ڈاکٹر اقبال صاحب بار ایٹ لاء کا بھی تھا۔اس کے بعد مولوی غلام اللہ صاحب کی طرف سے دوسرا ریزولیشن یہ پیش کیا گیا کہ ہم سب مسلمانوں پر یہ فرض ہے کہ سرکار کی فتح و نصرت کے لئے دعائیں مانگیں۔ چنانچہ یہ قرارداد بھی منظور کی گئی کہ تمام مساجد میں سرکار کی فتح و نصرت کے لئے دعائیں مانگی جائیں۔
اس کے علاوہ بہت سے علماء نے بھی اس موقع پر مختلف جلسوں سے خطاب کئے ۔مذکورہ کتاب میں اس کی مثالیں درج ہیں۔ایک مولوی صاحب ،مولوی نظر حسین صاحب نے گوجرانوالہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سلطنت ِ برطانیہ نے محض حقوق اور انصاف کی طرف داری کے لئے اس جنگ میں حصہ لیا ہے۔چونکہ ہر مسلمان پر انصاف کی حمایت فرض ہے اس لیے ہم کو اپنے بادشاہ اور گورنمنٹ کی امداد اور جان نثاری لازمی ہے۔ان مولوی صاحب نے پر جوش آوازمیں اعلان کیا کہ اگر گورنمنٹ عالیہ قبول کرے تو وہ سب سے پہلے بطور والنٹیئر میدانِ جنگ میں جانے کے لئے تیار ہیں۔اور دیگر حاضرین نے بھی پر جوش الفاظ میں اپنے جان و مال گورنمنٹ کی خدمت میں نثار کرنے کی آمادگی ظاہر کی۔
‏A Book of Readings on the History of the Punjab 1799-1947 by Imran Ali Malik, Published by Research Society of the Punjab 1985 p328-329
اس وقت یہ افواہیں گرم تھیں کہ شاید ترکی جرمنی کا اتحادی بن کر برطانیہ کے خلاف میدان ِ جنگ میں کود پڑے ۔اس پس منظر میں ۱۶ ؍ستمبر۱۹۱۴ء کو انجمنِ اسلامیہ پنجاب کا ایک پبلک جلسہ لاہور میںمنعقد ہوا اس میں دیگر قرار دادوں کے علاوہ یہ قرارداد بھی منظور کی گئی کہ ہم امید رکھتے ہیں کہ اس جنگ میں مدبران ترکی اس جنگ میں بے تعلقی کا مسلک اختیار کئے رہیں گے۔اور ایک اور قرارداد یہ بھی منظور کی گئی کہ اگر
’’ٹرکی خدانخواستہ اس جنگ میں دشمن کے ساتھ ہو جائے تو بھی مسلمانانِ ہند تاجِ برطانیہ کے ساتھ اپنے مستقیم وفا شعاروں اور مستقل اطاعت گزاری پر قائم رہیں گے۔‘‘
اور یہ دعائیہ قرار بھی منظور ہوئی کہ
’’یہ جلسہ قادرِ مطلق سے دعا کرتا ہے کہ وہ ٹرکی کو سب سے بڑی سلطنتِ اسلامی زمانہ حال کے خلاف جنگ میں آنے سے باز رکھے۔‘‘
A Book of Readings on the History of the Punjab 1799-1947 by Imran Ali Malik, Published by Research Society of the Punjab 1985 p330-331
لیکن ہندوستان کے مسلمانوں کی تمام خواہشات کے برعکس اکتوبر ۱۹۱۴ء میں ترکی کی سلطنتِ عثمانیہ نے جرمنی اور آسٹریا کی حمایت میں جنگ میں شامل ہونے کااعلان کر دیا۔دوسری طرف برطانیہ، فرانس اور روس تھے اور بعد میں اٹلی اور امریکہ بھی ان اتحادیوں کے ساتھ مل گئے۔چونکہ اس دور میں ترکی کی سلطنتِ عثمانیہ مسلمانوں کی سب سے بڑی سلطنت تھی اور اس کے بادشاہ خلیفہ کہلاتے تھے ،ان وجوہات کی بنا پر عموماََ مسلمانوں میں اس سلطنت کے ساتھ اور ان کے بادشاہ کے ساتھ عمومی ہمدردی پائی جاتی تھی۔ لیکن جب ترکی نے برطانیہ کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کا اعلان کیا تو مسلمانوں کا ردِ عمل کیا تھا اس کا اندازہ ان مثالوں سے ہوتا ہے۔
مولانا محمد علی جوہر کے اخبار کامریڈ نے لکھا کہ انہیں ترکی سے ہمدردی ہے اور اس طرح ترکی کا برطانیہ کے مقابلے پر آنا تکلیف دہ بھی ہے لیکن پھر واضح الفاظ میں مسلمانوں کے بارے میں لکھا کہ
’’ان کے جذبات کچھ بھی ہوں اس معاملے میں ان کا راستہ سیدھا سادا ہے۔انہیں اپنے ملک اور اپنے بادشاہ کے بارے میں اپنے فرائض کے بارے میں ذرہ بھر شبہ نہیں ہے۔ ہم ایک سے زیادہ مرتبہ بغیر کسی جھجک کے یہ اظہار کر چکے ہیں کہ ترکی اور برطانیہ کی جنگ کی صورت میںہندوستان کے مسلمانوں کا رویہ کیا ہو گا۔اس کو دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔جہاں تک ہندوستان کے مسلمانوں کے نقطہ نظر کا تعلق ہے ،چونکہ وہ ہزمجسٹی کنگ ایمپرر کے وفادار اور امن پسند رعایا ہیں ہمیں اعتماد ہے کہ مزید کسی یقین دہانی کی ضرورت نہیں ہے۔ان کے جذبات پر بہت بوجھ ہے لیکن وہ یہ بات نہیں بھول سکتے کہ وہ ہندوستان کی آبادی کا ایک بہت بڑا اور بہت ذمہ دار حصہ ہیں اور تاجِ برطانیہ کی رعایا ہیں۔اس بحران میں ترکی کا معاملہ کچھ بھی ہو ہندوستان کے مسلمان اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ یہ کوئی مذہبی معاملہ نہیں ہے۔‘‘
The Indian Muslims, A documentary Record 1900-1947 Vol 5, Compiled by Shan Muhammad, published by Menakshi Prakashan New Dehli p12
پھر مولانا محمد علی جوہر نے کامریڈ کی ایک اشاعت میں پہلی جنگِ عظیم کے حالات کا تجزیہ کر کے لکھا کہ اگر ان حالات میں برطانوی گورنمنٹ ہمیں سیلف گورنمنٹ بھی دے دے تو ہم نہایت عاجزی سے اس کو لینے سے انکار کر دیں گے کہ یہ اس کا وقت نہیں ہے۔مراعات کا مطالبہ اور ان کو تسلیم کرنے کا وقت امن کا زمانہ ہے۔ہم روس کے پولش نہیں ہیں ہمیں کسی رشوت کی ضرورت نہیں ہے۔
The Indian Muslims, A documentary Record 1900-1947 Vol 5, Compiled by Shan Muhammad, published by Menakshi Prakashan New Dehli p38
اگر ہم صرف پنجاب کی ہی مثال لیں تو یہاں پر لاہور ،جہلم اور ملتان اور دیگر مقامات پر بڑے بڑے جلسے ہوئے اور مسلمانوں سمیت اہلِ پنجاب نے ایک طرف تو اس بات پر اظہار ِ افسوس کیا کہ ترکی جنگ میں شامل ہو گیا ہے اور دوسری طرف انگریز حکومت کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا۔ اس کے علاوہ حکومت کی جنگی مہمات کے لئے کثیر قرضہ بھی جمع کیا گیا ۔یہ قرضہ دینے والوں میں اہم شخصیات کے علاوہ عام لوگ بھی شامل تھے۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ جب جنگ اپنے آخری سال میں داخل ہو چکی تھی تو کلکتہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس۳۰؍ دسمبر ۱۹۱۷ء سے لے کر یکم جنوری ۱۹۱۸ء تک منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں جو پہلی قرارداد منظور کی گئی وہ یہ تھی:
The All India Muslim League notes with deep satisfaction the steadfast loyalty of the the Muslim community to the British Crown during the present crisis through which the Empire is passing, and it assures the Government that it may continue to rely upon the loyal support of the Mussalmans and prays that this assurance may be conveyed to H.M. the King Emperor.
یعنی آل انڈیا مسلم لیگ اس بات پر اظہار ِ اطمینان کرتی ہے کہ مسلمان اس بحران کے دوران جس میں سے ایمپائر گزر رہی ہے ثابت قدمی کے ساتھ تاج ِ برطانیہ کے وفادار رہے ہیں۔ اور وہ گورنمنٹ کو اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی وفادارانہ حمایت پر انحصار جاری رکھ سکتی ہے ۔اور اس بات کی درخواست کرتی ہے کہ یہ یقین دہانی شاہِ معظم تک پہنچا دی جائے۔
اور ریکارڈ سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ جب یہ قرارداد منظور کی گئی تو دیگر عمائدینِ مسلم لیگ کے علاوہ قائد اعظم محمد علی جناح بھی بمبئی مسلم لیگ کے نمائندے کی حیثیت سے اجلاس میں موجود تھے۔
The Indian Muslims, A documentary Record 1900-1947 Vol 5, Compiled by Shan Muhammad, published by Menakshi Prakashan New Dehli p145,149
اور پھر ستمبر ۱۹۱۸ء میں راجہ صاحب محمود آباد کی صدارت میں مسلم لیگ کا ایک اجلاس بمبئی میں منعقد ہوا۔اور ریکارڈ سے یہ بات ظاہر ہے کہ اس اجلاس میں بھی قائدِ اعظم محمد علی جناح موجود تھے۔ اس اجلاس میں پہلی قرارداد جو متفقہ طور پر منظور کی گئی وہ یہ تھی۔
The All India Muslim League tenders its most loyal homage to his majesty The King Emperor and assures the Government of the steadfast and continued loyalty of the Muslim community of India throughout the present crisis.
آل انڈیا مسلم لیگ شاہ ِ معظم کی خدمت میں نہایت وفادارانہ تعظیم پیش کرتی ہے۔اور حکومت کو اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اس بحران میں ثابت قدمی کے ساتھ اپنی وفاداری جاری رکھیں گے۔
The Indian Muslims, A documentary Record 1900-1947 Vol 5, Compiled by Shan Muhammad, published by Menakshi Prakashan New Dehli p184,189
ان اجلاسات میں حکومت کے کئی فیصلوں سے اظہار ِ اختلاف بھی کیا گیا اور حکومت کے بعض فیصلوں پر تنقید بھی کی گئی لیکن مذکورہ بالا قراردادوں سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اس جنگِ عظیم کے دوران مسلم لیگ کی یہ پالیسی ہر گزنہیں تھی کہ مسلمانوں میں بغاوت کے خیالات پیدا کئے جائیں یا کسی بھی رنگ میں جنگ کے معاملے میں انگریز حکومت سے عدم تعاون کیا جائے۔مندرجات بہت واضح ہیں کسی تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔اس وقت قوم کے قائدین نے قوم کے مفادات میں اسی راہ کو سب سے زیادہ مناسب سمجھا تھا۔اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ قائد ِ اعظم جیسے دور اندیش سیاستدانوں کی ذہانت تھی کہ انہوں نے مسلمانوں کو ایک پر امن بالغ نظر اور حقیقت پسندانہ روش پر چلایا۔اور کسی قسم کے فتنہ فساد میں ڈال کر ان کو ابتلاؤں میں مبتلا نہیں کیا۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ بعد میں جب پہلی جنگ ِ عظیم کے دوران مہتمم دارالعلوم دیوبند محمد احمد صاحب کو یہ خبر ملی کہ مکہ میں ترکی کے حامیوں نے میٹنگ کی ہے اور انکی ملاقات انور پاشا سے ہوئی ہے اور انہوں نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ ہندوستان میں بغاوت کو اُ بھارا جائے اور اس میٹنگ میں ان کے مدرسہ کے ایک استاد محمود حسن بھی موجود تھے تو مہتمم دارالعلوم دیو بندنے یہ تفصیلات انگریز حکومت کو بھجوا دیں۔
The Indian Muslims, A documentary Record 1900-1947 Vol 5, Compiled by Shan Muhammad, published by Menakshi Prakashan New Dehli p53
بعد میں جب محمود حسن واپس ہندوستان آ رہے تھے تو اس مخبری کی بنا پر شریف حسین والیِ مکہ نے انگریزوں کے ایما ء پر انہیں گرفتار کر لیا اور انہیں انگریزوں کے حوالے کر دیا اور انگریزوں نے انہیں مالٹا بھجوا دیا۔دوسری طرف مسلم لیگ کے اکا برین کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ محمود حسن صاحب کو کیوں گرفتار کیا گیا ہے۔وہ اس مخبری سے لا علم تھے چنانچہ انہوں نے جنوری ۱۹۱۸ء کے اجلاس میں اس بات کا اظہار کیا کہ یہ شخص اس قسم کا آدمی نہیں ہے کہ حکومت کے خلاف کسی سرگرمی میں حصہ لے۔
The Indian Muslims, A documentary Record 1900-1947 Vol 5, Compiled by Shan Muhammad, published by Menakshi Prakashan New Dehli p113
اور اس جنگ میں لاکھوں ہندوستانی مسلمان سپاہی انگریزوں کی فوج میں بھرتی ہو کر ان کی طرف سے لڑ رہے تھے۔اب کیا اس صورت میں ہندوستان کے مسلمان اس فوج کی شکست یا اپنے بھائیوں کے گرفتار ہونے یا ہلاک ہونے کے خواہشمند رہتے۔لیکن اس ضمن میں دو باتیں قابلِ توجہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس جنگ میں ہندوستان کے غیر از جماعت مسلمانوں کی ہمدردیاں کس کے ساتھ تھیں اور دوسرے یہ کہ انگریزوں نے بغداد اور دوسرے عرب علاقوں پر قبضہ کن کے تعاون سے کیا تھا۔جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو تاریخ کے سرسری مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے اس جنگ میں ہندوستان کے مسلمان پوری طرح سے برطانیہ کا ساتھ دے رہے تھے۔اور ان میں سے لاکھوں نے تو فوج میں بھرتی ہو کر برطانیہ کی طرف سے جنگ میں حصہ بھی لیا تھا۔اگر ہم صرف پنجاب کا ہی جائزہ لیں تو اس صوبہ کے مسلمانوں نے لاہور سمیت صوبہ کے شہروں میں بڑے بڑے جلسے منعقد کیے تھے جن میں انگریز حکومت سے وفاداری کا اعادہ کیا تھا اوران کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگی تھیں۔مثلاََایک بڑا جلسہ ۱۲؍ اگست ۱۹۱۴ء کو لاہور میں منعقد ہوا تھا اور اس کی رپورٹ کے مطابق اس میںمسلمانانِ پنجاب کی طرف سے اظہارِ وفاداری اور عقیدت کیا گیا اور سرکارِ انگلشیہ کی فتح اور نصرت کے لیے دعائیں مانگی گئیں۔اور یہ ریزولیشن منظور کیا گیاجس میں حکومت کو پنجاب کے مسلمانوں کی طرف سے ’’غیر متزلزل وفاداری اور عقیدت شعاری‘‘کا یقین دلایا گیا اور ’’سلطنت کی حفاظت کے لیے اپنے تمام ذرائع اور خدمات کو پیش کیا گیا۔‘‘اس ریزولیشن کی بھرپور تائید میں تقریر کرنے والوں میں ایک نمایاں نام علامہ اقبال کا بھی تھا۔اور تو اور مولوی حضرات مساجد میں جلسے کر رہے تھے اور یہ اظہار کر رہے تھے کہ ہم پر اپنے بادشاہ اور گورنمنٹ ِ انگلشیہ کی وفاداری لازمی ہے بلکہ بعض علماء نے تو یہ بھی اعلان کیا کہ اگر حکومت منظور کرے تو وہ سب سے پہلے بطور رضاکار میدانِ جنگ میں جانے کوتیار ہیں۔اس وقت جبکہ ابھی ترکی جنگ میں شامل نہیں ہوا تھا مسلمانوں کی تنظیمیں یہ قرارادادیں منظور کر رہی تھیں کہ ترکی غیر جانبدار رہے۔لیکن جب ترکی نے جرمنی کے ساتھ مل کر جنگ میں شمولیت کا اعلان کر دیا تو مسلمانوں نے جلسے کر کے اس بات کا واضح اعلان کر دیا کہ اس سے ہندوستان کے مسلمانوں کی وفاداری پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔علاوہ ازیں مسلم لیگ کی طرف سے بھی وائسرائے کو وفاداری کا ریزولیشن بھجوایا گیا اور اس کے جواب میں وائسرائے نے تار دیا کہ ہمیں ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ ہم تمام حالات میں ہندوستان کے مسلمانوں کی وفاداری پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔(۹۹) یہ سب حقائق حکومتِ پاکستان کے ماتحت اداروں کی شائع کردہ کتب میں بھی موجود ہیں۔اس پس منظر کی موجودگی میں یہ اعتراض کہ قادیان میں چراغاں ہوا تھا کہ نہیں ایک مضحکہ خیز اعتراض ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت کی ہمدردیاں انگریز حکومت کے ساتھ تھیں اور اس جنگ میں مسلم لیگ بھی انگریز حکومت کی حمایت کر رہی تھی اور مسلمانوں کو حکومت کا وفادار رہنے کی تلقین کر رہی تھی۔دیوبند کے مہتمم انگریزوں کو مخبری بھی کر رہے تھے۔مسلمان بڑی تعداد میں فوج میں شامل ہو کر ترکی کی فوج کے خلاف لڑ رہے تھے اور ان پر گولیاں چلا رہے تھے۔اور ہندوستان کے بہت سے مسلمان اس جنگ میں سلطنت ِ برطانیہ کی طرف سے لڑتے ہوئے مارے بھی گئے۔ اگر قادیان میں چراغاں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ احمدی اپنے آپ کو امت ِ مسلمہ سے علیحدہ رکھنا چاہتے تھے تو پھر ان ناقابلِ تردید شواہد سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان کے تمام مسلمان، ہندوستان کے علماء اور مسلم لیگ ، یہ سب اپنے آپ کو امتِ مسلمہ سے علیحدہ رکھنا چاہتے تھے۔
ایک مرحلہ پر جب کہ اٹارنی جنرل صاحب نے یہ کہا کہ جو Annexuresدیئے جا رہے ہیں وہ بھی پرنٹ ہو کر ممبران کو دیئے جا رہے ہیں۔اس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ ہمیں کیوں اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے ہمیں بھی تو کارروائی کی ایک کاپی ملنی چاہئے۔لیکن اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ نہیں یہ تو Secretہے اور پھر اصرار پر اس موضوع کو ٹال گئے۔ایک وقفہ سے پہلے حضور نے سپیکر صاحب سے کہا کہ اگر اجازت ہو تو میرے وفد کے ا ور اراکین بھی کچھ سوالات کے جوابات دے دیں۔ اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔
جب وقفہ کے بعد کارروائی دوبارہ شروع ہوئی اور ابھی حضور ہال میں تشریف نہیں لائے تھے کہ رکنِ اسمبلی احمد رضا خان قصوری صاحب نے سپیکر کو مخاطب کر کے کہا کہ آج جب وہ وقفہ کے دوران اپنے گھر جا رہے تھے۔تو ایک جیپ سے ان پر فائرنگ کی گئی ہے۔گو وہ یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں تھے کہ ان پر یہ قاتلانہ حملہ کرنے والا کون تھا؟اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے اس کی ایف آئی آر تھانے میں درج کرادی ہے۔لیکن ان دنوں کے اخبارات میں اس کا ذکر کوئی نہیں ہے۔یہ بات قابلِ غور ہے کہ اس کے بعد ان پر ایک اور قاتلانہ حملہ بھی فی الحقیقت ہوا تھا اور اس قاتلانہ حملہ میں ان کے والد نواب محمد احمد خان صاحب گولیاں لگنے سے جان بحق ہوگئے تھے۔اور اس کا الزام اس وقت کے وزیر ِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب پر لگایا گیا تھا اور جب ان کا تختہ الٹنے کے بعد ان پر اس کا مقدمہ چلایا گیا تو انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی ۔اور اس کے بعد انہیں پھانسی دے دی گئی۔اس بات کا ذکر پہلے بھی آ چکا ہے کہ جب پہلے دن اسمبلی میں جماعت ِ احمدیہ کے خلاف ہونے والے فسادات پر بحث ہوئی تو وزیر ِ اعظم کے منہ سے ایسا جملہ نکلا تھا جو انکے خلاف اس مقدمہ قتل کے دوران بار بار پیش کیا گیا۔اور جب جماعتِ احمدیہ کا وفد آخری روز سوالات کا جواب دے رہا تھا تو ایک ایسے شخص نے یہ دعویٰ کیا کہ مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا ہے ،جس کو قتل کروانے کی کوشش کے الزام میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو سزائے موت دی گئی ۔
جب کارروائی شروع ہوئی تو کچھ پرانے حوالوں پر بات کرنے کے بعد مولوی ظفر احمد انصاری صاحب نے اس الزام کے متعلق سوالات شروع کیے کہ نعوذُباللہ احمدیوں نے قرآنِ کریم میں تحریف کی ہے۔اس کے ساتھ یہ بات بھی سامنے آئی کہ چیئرمین کمیٹی اور اٹارنی جنرل اس بات پر کچھ زیادہ آمادہ نہیں دکھائی دیتے تھے کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے حضور اقدس کے علاوہ اور کوئی ممبر وفد کسی سوال کا جواب دے۔بیشتر اس کے کہ تحریفِ قرآن مجید کے متعلق سوالات شروع ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے کچھ اصولی باتیں بیان فرمائیں۔حضور نے قرآنی تفسیر کے سات معیار بیان فرمائے۔ آپ نے پہلا معیار یہ بیان فرمایا کہ چونکہ قرآنِ کریم میں کوئی تضاد نہیں اس لیے قرآنِ کریم کی کسی آیت کی کوئی ایسی تفسیر نہیں کی جا سکتی جو کہ کسی اور آیت کے مخالف ہو۔دوسرا معیار آنحضرت ﷺ کی وہ صحیح احادیث ہیں جن میں قرآنی آیات کی تفسیر بیان کی گئی ہے اور تیسرا معیار یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے صحابہؓ نے جو تفسیر کی ہے اسے ترجیح اس لیے دینی پڑے گی کیونکہ صحابہؓ کو آنحضرت ﷺ کی صحبت سے ایک لمبا عرصہ فیض ا ٹھانے کا موقع ملا تھا۔اسی طرح چوتھا معیار یہ ہے کہ سلف ِ صالحین نے جو تفسیر بیان کی ہے اسے بھی ہم قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔پانچواں معیار عربی لغت ہے۔اور یہ مد ِ نظر رہے کہ بعض دفعہ ایک لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں۔چھٹا معیار یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قول و فعل میں کوئی تضاد ممکن نہیں ہے۔اگر کوئی تفسیر ایسی کی جا رہی ہے جو کہ خدا تعالیٰ کے اس فعل کے مخالف ہے جو سائنس کے ذریعہ ہمیں معلو م ہوا ہے تو یہ تفسیر رد کرنے کے قابل ہے ۔اور ایک اصول حضور نے یہ بیان فرمایا کہ ہر نئے زمانے میں نئے مسائل پیدا ہوتے رہیں گے اور قرآنِ کریم ان نئے مسائل کے حل کے لیے بھی راہنمائی کرتا ہے۔اس لیے ہم یہ کبھی نہیں کہہ سکتے کہ قرآن کریم کے جتنے مطالب تھے سب سامنے آ گئے ہیں اور اب کوئی اور نئے مطالب سامنے نہیں آئیں گے۔ حضور کے اس لطیف بیان کے بعد مولوی ظفر احمدصاحب انصاری نے تحریف پر سوالات شروع کیے۔ اور پہلا سوال یہ کیا کہ:
حضرت مسیح موعود علیہ االسلام کی کتاب ازالہ اوہام میں سورۃ حج کی آیت ۵۳ وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَلَا نَبِیٍّ…الخ اور کہاکہ جو کتاب جماعت احمدیہ نے شائع کی ہے اس میں قَبْلِکَ کا لفظ نہیں ہے۔اب یہ نا معقول اعتراض ہے اسے سہوِ کتابت تو کہا جا سکتا ہے لیکن کسی طرح تحریف نہیں کہا جا سکتا۔جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے سو سے زائد مرتبہ قرآنِ کریم شائع کیا گیا ہے اور ان میں سے کسی میں بھی یہ آیت بغیر قَبْلِکَ کے لفظ کے موجود نہیں۔اور ازالہ اوہام جب روحانی خزائن کے نام سے شائع کی گئی تو اس میں بھی یہ آیت درست موجود ہے،حضور نے ان امور کی نشاندہی فرمائی۔اور خود غیر احمدیوں کے شائع کردہ قرآنِ کریم کے کئی نسخوں میں سہوِ کتابت کئی جگہ پر پائی جاتی ہے۔پھر دوبارہ اس موضوع پر سوالات شروع ہوئے تو ظفرا حمد انصاری صاحب نے یہ بیان کرنا شروع کیا کہ مرزا بشیر الدین محمود صاحب کا جو انگریزی ترجمہ قرآن ہے۔Commentary کے ساتھ۔ابھی وہ بات مکمل نہیں کر پائے تھے کہ حضور نے فرمایا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ کا کوئی انگریزی ترجمہ قرآن موجود نہیں ہے۔لیکن مولوی صاحب یہ بات دہرانے کے با وجود بات سمجھ نہیں پائے اور کہنے لگے کہ انہوں نے ترجمہ کیا ہے
‏And they have firm faith in what is yet to come
ان کی مراد یہ تھی کہ سورۃ بقرۃ کی پانچویں آیت کے آخری حصہ کا یہ ترجمہ کیا گیا ہے جو کہ غلط ہے۔گویا ان کے نزدیک آخرۃ کے لفظ کا ترجمہ صرف آخرت ہی ہو سکتا ہے۔عربی لغت کے اعتبار سے یہ اعتراض بے بنیاد ہے کیونکہ اٰخر کا لفظ اول کے مقابل پر استعمال ہوتا ہے ۔اور آخرت کے علاوہ اس آیت میں سیاق و سباق کے لحاظ سے اس کا مطلب بعدمیں ظاہر ہونے والے واقعات بھی ہو سکتے ہیں۔
اس کے بعد مولوی ظفر انصاری صاحب نے کچھ مثالیں دے کر یہ اعتراض اُٹھایا کہ مرزا صاحب نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہیں قرآنی آیات الہام ہوئی ہیں۔اس سے وہ دو نتائج نکال رہے تھے ایک تو یہ کہ یہ ٹھیک نہیں کہ قرآنی آیات امت میں کسی کو الہام ہوں اور دوسرے اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ جو آیات آنحضرت ﷺ کی شان میں تھیں بانیِ سلسلہ عالیہ احمدیہ نے انہیں اپنے اوپر چسپاں کیا ہے۔ اس اعتراض سے یہی تاثر ملتا ہے کہ معترض کو اسلامی لٹریچر پر کچھ زیادہ دسترس نہیں ہے۔کیونکہ تاریخِ اسلام ان مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ امت کے مختلف اولیاء کو قرآنی آیات الہام ہوئیں۔تو اس طرح یہ اعتراض ان سب عظیم اولیاء پر بھی اُ ٹھتا ہے۔
اگر وہاں پر موجود مخالفین کے ذہن میں یہ خیال تھا کہ یہ اعتراض اُٹھا کر انہوں نے کوئی بڑا تیر مارا ہے تو یہ خوش فہمی جلد دور ہو گئی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا کہ’’جہاں تک آیات قرآنی بطور وحی کے امت پر نازل ہونے کا تعلق ہے ،ہمارا امتِ مسلمہ کا لٹریچر اس سے بھرا پڑا ہے۔‘‘اس کے بعد حضور نے اس کی مثالیں دینے کا سلسلہ شروع کیا ۔حضور نے پہلی مثال حضرت سید عبد القادر جیلانی کی دی۔
اس کے بعد حضور نے عبداللہ غزنوی صاحب کی مثالیں دینی شروع کیں کہ انہیں بھی بہت سی قرآنی آیات الہام ہوئی تھیں ۔چونکہ ابتداء ہی سے یہ واضح ہوتا جا رہا تھا کہ یہ ایک بے وزن اعتراض کیا گیا ہے،اس لیے سپیکر صاحب نے یہی مناسب سمجھا کہ اس جواب کو کسی طرح مختصر کیا جائے۔انہوں نے دریافت کیا کہ
So the answer is
اس پر حضور نے یہ اصولی موقف بیان فرمایا
’’میں Acceptکرتا ہوں۔امت ِ مسلمہ کے اصول کے مطابق Accepted ہے قرآنِ کریم کی آیات امت پر نازل ہو سکتی ہیں۔‘‘
اس پر سپیکر صاحب نے کہا کہ سوال کا جواب دے دیا گیا ہے اگلا سوال کریں۔لیکن حضور نے فرمایا کہ وہ کچھ مثالیں اور پڑھناچاہتے ہیں۔سپیکر صاحب نے اتفاق کیا اور اس پر حضور نے عبد اللہ غزنوی صاحب کو ہونے والے مزید الہامات پڑھے جو قرآنی آیات پر مشتمل تھے۔
اور یہ بات صرف حضرت سید عبد القادر جیلانی یا عبد اللہ غزنوی صاحب تک محدود نہیں تھی بلکہ اسلامی تاریخ میں ایسے بہت سے اولیاء گزرے ہیں جنہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی ہے۔مثلاََ علمِ حدیث کے مشہور امام حضرت احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا ہے کہ انہیں نہ صرف وحی ہوئی بلکہ وحی لانے والا جبرئیل تھا (الشفائ۔بتعریف حقوق المصطفیٰ تالیف عیاض بن موسیٰ ناشر عبد التواب ص۱۳)اب مولوی ظفرا نصاری صاحب کی گلو خلاصی کے لیے اٹارنی جنرل صاحب سامنے آئے اور یہ غیر متعلقہ سوال کر کے موضوع بدلنے کی کوشش کی کہ الہام اور وحی میں کیا فرق ہے۔اس سوال کی بنیاد یہ ہے کہ بہت سے علماء نے یہ غلط فہمی پھیلائی ہے کہ وحی تو صرف نبی کو ہو سکتی ہے اور رسولِ کریم ﷺ کے بعد کسی کو وحی نہیں ہو سکتی۔حالانکہ قرآنِ کریم کے مطابق تو شہد کی مکھی کو بھی اللہ تعالیٰ وحی کرتا ہے اور حضرت موسیٰؑ کی والدہ کو بھی وحی ہوئی تھی ۔اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے تفصیل سے یہ مضمون سمجھانا شروع کیا۔اور فرمایا کہ ہم نے وسیع مواد جمع کیا ہے جس کے مطابق امت کے بہت سے سلف صالحین نے یہ دعویٰ کیا یہ کہ انہیں وحی کے اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ اور پھر حضور نے فرمایا کہ اب تو ایک اخبار میں یہ فتویٰ بھی چھپ گیا ہے کہ کسی مسلمان کو سچی خواب بھی نہیں آ سکتی۔اس قسم کی باتوں سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے۔لیکن اٹارنی جنرل صاحب نے یہ سوال دہرایا کہ مرزا صاحب کو الہام ہوتا تھا یا وحی ہوتی تھی۔حضور نے اس کا جواب ایک خاص انداز سے دیا آپ نے فرمایا کہ اس کا جواب میں دوں یا صحیح مسلم میں درج آنحضرت ﷺ کی حدیث شریف دے ۔اور پھر آپ نے حضرت نواس بن سمعانؓ کی وہ حدیث بیان فرمائی جو کہ صحیح مسلم کتاب الفتن باب الذکر الدجال میں مذکور ہے۔اس حدیث میں ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ آخر زمانہ میں مبعوث ہونے والے حضرت عیسیٰ ؑ کووحی کرے گا کہ میں نے ایسے لوگ برپا کیے ہیں کہ کسی کو ان سے جنگ کی طاقت نہیں اس لیے تم میرے بندوں کو پہاڑ کی طرف لے جاؤ۔
اب اس سے یہ واضح ہو گیا کہ خود آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ آپ ﷺ کے بعد مسیح موعود ؑ کو وحی ہو گی اور قرآنِ کریم تو یہ کہہ رہا ہے کہ شہد کی مکھی کو بھی وحی ہوتی ہے ۔اور صرف حضرت سید عبدالقادر جیلانی اور عبد اللہ غزنوی صاحب ہی نہیں امتِ مسلمہ کے اولیاء نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہیں قرآنی آیات وحی ہوئیں ہیں۔مثلاً حضرت محی الدین ابنِ عربی نے اپنی کتاب فتوحات ِ مکیہ میں تحریر کیا ہے کہ انہیں یہ آیت قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَا اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَمَا اُنْزِلَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَا اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی۔۔۔نازل ہوئی اور پھر لکھتے ہیں کہ اس آیت کو میرے لیے ہر علم کی کنجی بنایا گیا اور میں نے جان لیا کہ میں ان تمام انبیاء کا مجموعہ ہوں جن کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے (۱۰۰)۔ تذکرۃ الاولیاء میں درج ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مبارکؒکو آیت اَوْفُوْا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلاً الہام ہوئی ۔تو اب یہ حق کس کو حاصل ہے کہ یہ کہے کہ اب کسی کو وحی نہیں ہو سکتی۔لیکن مولوی ظفر انصاری صاحب کا خیال تھا کہ انہیں یہ حق حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ شہد کی مکھی کو بھی وحی ہو تی ہے لیکن اب اصطلاحِ شریعت میں اس کے خاص معنی متعین ہو گئے ہیں۔یہ بھی ایک خوب نکتہ تھا یعنی قرآنِ کریم ایک لفظ کے واضح طور پر کئی مطالب بیان کر رہا ہے اور مولوی حضرات مصر ہیں کہ نہیں اب ہماری شریعت میں اس کے ایک خاص معنی متعین ہو گئے ہیں۔اور اب یہی چلیں گے۔اس کے بعد انہوں نے لغت کا سہارا لے کر اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کی کوشش کی۔اور یہ کوشش خود اتنی بے وزن تھی کہ انہوں نے عربی میں قرآنی اصطلاح کا مطلب بیان کرنے کے لیے اردو کی لغت فرہنگِ آصفیہ کا حوالہ پیش کر دیا۔اس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ اردو کی ضرورت نہیں بہت سے الفاظ عربی میں ایک معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اردو میں دوسرے معنی میںا ستعمال ہوتے ہیں۔
قرآنی الفاظ کی سب سے معتبر لغت مفردات ِ امام راغب میں وحی کا مطلب ان الفاظ سے بیان ہونا شروع ہوتا ہے۔ الوحیُ کے اصل معنی اشارہ شریعہ کے ہیں۔اور اس کے معنی سرعت کومتضمن ہونے کی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو ’’امر وحی ‘‘ کہا جاتا ہے۔اور المنجد میں وحی کا مطلب یہ لکھا ہے، ’’لکھا ہوا ،پیغام ،الہام ،الہام کردہ چیز،انبیاء کی وحی،رمز ،اشارہ‘‘۔لفظ وحی ان سب پر اطلاق پاتا ہے اور خود قرآنِ کریم میں وحی کا لفظ اشارہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔
اب سپیکر صاحب نے مولوی صاحب کواس مخمصے سے نکالنے کے لیے کہا
’’مولانا پہلے آپ اپنے Subjectکے Questionپوچھ لیں۔
‏Come back to your own subject‘‘
لیکن مولوی صاحب اشارہ سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے ۔انہوں نے پھر لمبی چوڑی بے جوڑ بحث شروع کر دی۔کبھی وہ وحی اور الہام کی بحث میں پڑتے اور کبھی یہ کہتے کہ ہم صرف قرآنِ کریم کو مانتے ہیں اور قادیانی اس کے علاوہ مرزا صاحب کے الہامات کو بھی مانتے ہیں۔سپیکر صاحب نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی وہ ایسے سوال کو دہرا رہے ہیں جو پہلے ہی ہو چکا ہے لیکن وہ مصر تھے کہ میں Duplicateسوال کروں گا۔آخر انہوں نے پھر ایک سوال شروع کیا اور اپنی طرف سے حوالہ پڑھنا شروع کیا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے دریافت فرمایا کہ یہ حوالہ کہاں کا ہے۔اس پر انہوں نے الفضل کا حوالہ دیا ۔اس پر حضور نے فرمایا کہ آپ کے ہاتھ میں تو الفضل کا کوئی شمارہ ہے ہی نہیں۔آپ ایک کتاب سے یہ حوالہ پڑھ رہے ہیں اور یہاں پر یہ تجربہ پہلے بھی ہو چکا ہے کہ حوالہ در حوالہ پڑھا جاتا ہے اور وہ غلط نکلتا ہے۔اس پر مولوی صاحب نے اعتراف کیا کہ وہ سلسلہ کے مخالف الیاس برنی صاحب کی کتاب سے یہ حوالہ پڑھ کر سنا رہے ہیں۔سپیکر صاحب نے کہا کہ آپ کا سوال کیا ہے۔اس پر بڑی مشکل سے مولوی ظفر انصاری صاحب کے ذہن سے یہ سوال برآمد ہوا کہ جو کہ در حقیقت سوال تھا ہی نہیں اور وہ یہ تھا کہ قرآن جو ہمارے پاس ہے یہ مکمل ہے اور اس پر ایمان لانا اور اس کی اتباع کرنا کافی ہے۔اس پر حضور نے قرآنِ کریم کو ہاتھ میں لے کر فرمایا’’یہ قرآنِ کریم جو میں نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے،اس کو گواہ بنا کر میں اعلان کرتا ہوں۔سوائے اس قرآن کے ہمارے لئے کوئی کتاب نہیں۔‘‘
اس پر مولوی صاحب نے موضوع بدلا اور اس اعتراض پر آ گئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے متعلق صحابہ کا لفظ کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟پھر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مصرعہ پر اعتراض کیا
ع یہی ہیں پنجتن جن پر بنا ہے۔
اس پر حضور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وحی کے ذریعہ بتا دیا گیا تھا کہ ان کے آباء کی نسل کاٹی جائے گی اور اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نسل چلے گی۔اس سے زیادہ اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔اس کے بعدظفر انصاری صاحب کچھ اور ایسے اعتراضات پیش کرتے رہے جو کہ ایک عرصہ سے جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین کر رہے تھے۔مثلاََ یہ کہ کیا احمدی حج کا مقام اپنے جلسہ سالانہ کو دیتے ہیں،اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ احمدیوں کے نزدیک حج ہر صاحب ِ استطاعت پر فرض ہے ۔پھر یہ عجیب اعتراض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بیت الذکر اور بیت الفکر کے متعلق یہ الہام ہوا تھا کہ جو اس میں داخل ہوگا وہ امن میں آ جائے گا ۔جب کہ مسلمانوں کے نزدیک مکہ مکرمہ امن کا مقام ہے اور یہ مقام مکہ مکرمہ کو حاصل ہے ۔اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ رسولِ کریم کی بعثت صرف اس لیے تھی کہ صرف ایک چھوٹی سی جگہ کو امن کا مقام بنا دیا جائے لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ مکہ تو صرف ایک Symbol ہے اور وہ ایک نمونہ ہے اور ہمیں حکم ہے کہ جگہ جگہ وہ مقامات بناؤ جہاں پر داخل ہونے والے امن میں آ جائیں ۔لیکن اب یہ تھا کہ جب حضور اس کا جواب دے دیتے تو سپیکر صاحب فوراََ اگلا سوال پوچھنے کا کہتے اور مجبوراََ مولوی صاحب کو آگے چلنا پڑتا ۔ جب اٹارنی جنرل صاحب کی جگہ مولوی صاحب کو سوالات کے لیے سامنے لایا گیا تو وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ اٹارنی جنرل صاحب چونکہ عربی صحیح نہیں بول سکتے اس لیے کچھ سوالات مولوی صاحب پیش کریں گے ۔لیکن حقیقت یہ تھی کہ مولوی صاحب اکثر سوالات وہ کر رہے تھے جن میں عربی بولنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔مشہور ہے کہ مخالفین کو یہ شک ہو گیا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب سوالات سے جماعت کو مطلع کر دیتے ہیں،اسی لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فوراََ سوال کا جواب دے دیتے ہیں۔ اس لیے اپنی طرف سے مخالفین نے یہ چال چلی تھی کہ اب ان میں سے کوئی براہ ِ راست یہ سوالات کرے۔لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جو سوالات اب کیے جا رہے تھے ان میں سے اکثر کے متعلق لکھا ہوا مواد جماعت کے وفد کے پاس موجود تھا اس لیے مولوی صاحب کو پاؤں جمانے کا موقع بھی نہیں میسر آ رہا تھا۔
اس مرحلہ پر سپیکر صاحب نے جماعت کے وفد کو کہا کہ وہ کمیٹی روم میں دس منٹ انتظار کریں اور کارروائی لکھنے والوں کو بھی باہر جانے کا کہا۔اس دوران کارروائی لکھی نہیں گئی۔اس لیے خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس دوران کیا بات ہوئی۔جب دس منٹ کے بعد کارروائی دوبارہ شروع ہوئی تو مولوی ظفر انصاری صاحب نے ایک مختصر سوال یہ کیا کہ دمشق اور قادیان میں کیا مماثلت ہے ۔اور اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے اس کارروائی کا آخری سوال کیا ۔انہوں نے کہا کہ مرزا صاحب میں آپ کی توجہ محضر نامے کے صفحہ ۱۸۹ کی طرف دلاتا ہوں۔(اصل میں یہ حوالہ صفحہ ۱۸۷ پر تھا۔آخر تک اٹارنی جنرل صاحب نے غلط حوالہ پڑھنے کا ریکارڈ قائم رکھا)۔اور اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ بعض ممبران محسوس کر رہے ہیں کہ اس کی Relevanceکیا ہے۔پھر انہوں نے محضر نامے کے آخر پر درج حضرت مسیح موعود کی پر شوکت تحریر کا شروع کا حصہ پڑھا جو یہ تھا
’’اے لوگو تم یقیناََ سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر تک مجھ سے وفا کرے گا۔اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لیے دعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دعا نہیں سنے گا۔۔۔۔۔‘‘
یہ حصہ پڑھ کر اٹارنی جنرل صاحب نے سوال کیا کہ یہ کوئی دھمکی ہے یا اپیل ہے ۔اس کی Relevanceکیا ہے۔اس پر حضور نے فرمایا کہ
یہ دھمکی نہیں یہ خواہش بھی نہیں۔صرف یہ کہا گیا ہے کہ تمھارے اورمیرے درمیان اختلاف ہے اسے خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو۔میرا یہ عقیدہ ہے کہ جب تم اسے خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو گے تو میری دعائیں قبول ہوں گی اور تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوں گی اور جس مقصد غلبہ اسلام کے لیے مجھے کھڑا کیا گیا ہے وہ پورا ہو گا اور اسلام ساری دنیا پر غالب آ جائے گا۔
اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے یہ کہا کہ اب ان کے سوالات ختم ہو گئے ہیں۔اور حضور سے کہا کہ آپ کسی سوال کے متعلق کچھ اور کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں۔اس پر حضور نے فرمایا کہ
’’ ان گیارہ دنوں کے دوران تقریباََ ۶۰ گھنٹے مجھ پر جرح کی گئی ہے۔اس دوران میرے دماغ کی یہ کیفیت ہے کہ نہ دن کا مجھے پتہ ہے اور نہ رات کا پتہ ہے ۔ہم نے اور بھی کئی کام کرنے ہوتے ہیں ۔عبادت کرنی ہے ۔ دعائیں کرنی ہیں۔اس وقت میرے دماغ ایسے سوالات جن کے متعلق مجھے کچھ کہنا ہے حاضر نہیں ہیں۔صرف ایک بات آپ کی اجازت سے فائدہ اُ ٹھاتے ہوئے یہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر دل کی گہرائیاں چیر کر میں آپ کو دکھا سکوں تو وہاں میرے اور میری جماعت کے دل میں اللہ تعالیٰ (جیسا کہ اسلام نے اسے پیش کیا دنیا کے سامنے) اورحضرت محمد ﷺ کی محبت اور عشق کے سوا کچھ نہیں پایا جاتا۔شکریہ۔‘‘
اس کے بعد ایک بار پھر اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ اب ان کے پاس اور کوئی سوال نہیں ہے۔اور سپیکر صاحب نے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے صبر و تحمل سے کارروائی میں حصہ لیا۔اور ایک بار پھر بڑے اصرار سے کہا کہ اس کارروائی کو خفیہ رکھنا چاہئے ۔اور اس طرح یہ تاریخی کارروائی ختم ہوئی۔
چند اہم نکات کا اعادہ
پڑھنے والے اس کارروائی کا خلاصہ پڑھ چکے ہیں۔یہ کارروائی اپنی مثال آپ ہی ہے ۔آئندہ آنے والے وقت میں اس کے متعلق بہت کچھ لکھا اور کہا جائے گا۔ہم ساتھ کے ساتھ اہم امور کے متعلق اپنا نقطہ نظر بھی بیان کرتے آئے ہیں۔لیکن مناسب ہو گا کہ کچھ اہم نکات کا خلاصہ ایک بار پھر پیش کر دیں۔
(۱) غلط حوالے
یہ بات بالکل سمجھ میں نہیں آتی کہ اس تواتر کے ساتھ یحییٰ بختیار صاحب نے یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ انہیں سوالات مہیا کرنے والے ممبران اور علماء نے اتنے غلط حوالے کس طرح مہیا کئے۔ علماء اور وکلاء کی ایک لمبی چوڑی ٹیم دن رات کام کر رہی تھی۔ان کو لائبریرین اور عملہ بھی مہیا تھا۔ اور انہیں تیاری کے لئے کافی وقت بھی دیا گیا تھا ۔جماعت ِ احمدیہ کے وفد کو معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ کیا سوال کیا جائے گا جبکہ سوال کرنے والے اپنی مرضی سے سوالات کرتے تھے۔پھر بھی مسلسل ان کے پیش کردہ حوالے غلط نکلتے رہے اور یہ عمل اتنے دن بغیر کسی وقفہ کے جاری رہا۔اگر سوالات میں پیش کئے گئے حوالے اس طرح غلط نکل رہے ہوں تو سوالات کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہتی۔نہ معلوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا تصرف تھا کہ آخر تک یہ لوگ اس بنیادی نقص کو دور ہی نہ کر سکے۔جب ہم نے اس بارے میں ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے سوال کیا تو انہوں نے کمال قولِ سدید سے جواب دیا
’’یہ ہوا ہی کرتے ہیں دن رات ہوتا ہے۔یحییٰ بختیار بیوقوف آدمی تھا ۔بالکل جاہل۔ اور اس کو تو جو کسی نے لکھ کر دے دیا اس نے وہ کہہ دیا۔‘‘
جب یہ سوال اس اضافہ کے ساتھ دہرایا گیا جب ان کو عملہ اور دیگر سہولیات بھی میسر تھیں تو پھر بار بار یہ غلطیاں کیوں ہوئیں تو اس پر جو سوال و جواب ہوئے وہ درج کئے جاتے ہیں۔
’’ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب :ارے بابا! وہ کارروائی ساری Fictitious( بناوٹی )تھی۔
سلطان : وہ اسمبلی کی کارروائی ساریfictitiousتھی؟
ڈاکٹر مبشر حسن صاحب:فیصلہ پہلے سے ہوا ہوا تھا کہ کیا کرنا ہے۔
سلطان:So there was no need to bother
ڈاکٹر مبشر حسن صاحب :No need to bother‘‘
ہم نے یہ سوال پروفیسر غفور صاحب کے سامنے بھی رکھا کہ اس کارروائی کے دوران جب سوالات پیش کئے جا رہے تھے تو ان میں پیش کردہ حوالے اس تواتر سے غلط کیوں ہو رہے تھے۔تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے خیال میں یہ سوالات قادیانیوں کی کتابوں پرBaseکر کے کئے گئے تھے اور ان دونوں(یعنی دونوں وفود نے) میں سے کسی نے بھی اسے چیلنج نہیں کیا۔اور پھر یہ ذکر شروع کر دیا کہ احمدیوں نے ہی روز ِاول سے اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ رکھا ہے۔جب یہ بات ختم ہوئی تو میں نے پھر یہ غلط حوالوں کے بارے میں عرض کی۔اس پر انہوں نے کہا
’’ میں نے بتایا آپ کوکہ ریفرنسز(References) کو کبھی چیلنج نہیں کیا کسی نے۔۔۔‘‘
ہم نے حیران ہو کر پھر یہ سوال دہرایا کہ کیا سپیکر نے حوالہ جات کے بارے میں تنبیہ نہیں کی تھی۔ اس پر انہوں نے پھر کہا
’’بالکل نہیں۔میں بتا رہا ہوں کہOriginalکتابیں وہاں موجود تھیں ۔۔۔۔‘‘
پھر سہ بارہ سوال پر بھی انہوں نے انکار کیا کہ کوئی حوالہ غلط نہیں نکلا۔
ہم نے ساری کارروائی کا جائزہ لے لیا۔اور اس میں حوالوں کی جو حالت تھی اس کا بھی تفصیلی جائزہ لیا۔اب ہم پروفیسر غفور صاحب کے اس دعویٰ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں تین صورتوں میں سے ایک کو تسلیم کرنا پڑتا ہے
۱) ایک تو یہ کہ پروفیسر غفور صاحب ساری کارروائی سے غیر حاضر رہے۔لیکن یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کارروائی میں انکی شرکت کا ثبوت بہر حال موجود ہے۔
۲) یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ وہ جسمانی طور پر تو وہاں پر موجود تھے لیکن ذہنی طور پر وہاں سے مکمل طور پر غیرحاضر تھے۔
۳) تیسری صورت یہی ہو سکتی ہے کہ پہلے تو یہ کوشش کی گئی کہ جماعت ِ احمدیہ کے وفد سے یہ بات نکلوائی جائے کہ احمدی باقی فرقوں کو غیر مسلم سمجھتے ہیں لیکن جب اس میں کامیابی نہیں ہوئی تو کارروائی کو شائع ہونے سے روک دیا گیا اوراس غلط بیانی سے کام لیا گیا کہ دراصل احمدیوں نے باقی فرقوں کو غیرمسلم کہا تھا اس لئے ہم اس بات پر مجبور ہوئے کہ انہیں غیر مسلم قرار دیں۔اور پاکستانی قوم کو دھوکا دیا گیا اور انہیں مسلسل جھوٹ سنایا گیا۔یعنی آخر میں وہی بات آجاتی ہے جو مبشر حسن صاحب نے فرمائی تھی کہ اس قوم کا کوئی حق نہیں ۔اس قوم کابس یہی حق ہے کہ وہ غلامی کرے۔ہم اس کا ذکر کچھ ٹھہر کر کریں گے۔
ہم نے یہ سوال صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب سے دریافت کیا کہ قومی اسمبلی کی کارروائی میں پیش کئے گئے بہت سے حوالہ جات غلط کیوں تھے۔اس پر انہوں نے کہا
’’اصل میں توResponsibility یحییٰ بختیار کی تھی ناں ۔جرح اس نے کرنی تھی۔ سوال اس نے پوچھنا تھا۔اگر اس کوProper Assisstanceملتی تو یہ نہ ہوتا۔‘‘
پھر اس پر انہوں نے یہ اضافہ کیا
’’اور یحییٰ بختیار لیتا بھی نہیں تھا ۔یہ بھی مصیبت ہے۔۔۔‘‘
(۲) کارروائی کو خفیہ کیوں رکھا گیا؟
اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ اگر اس وقت حالات کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کر بھی لیا گیا تھا کہ اس کارروائی کو بند کمرے میں کیا جائے تو بعد میں اس کو منظر ِ عام پر کیوں نہیں لایا گیا جبکہ اس فیصلہ کے بعد بھٹو صاحب نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ کچھ عرصہ کے بعد اس کارروائی کو منظر ِ عام پر لایا جائے گا اور بہت سے ممبران قومی اسمبلی اس کو اپنے کارنامے کے طور پر بھی بیان کرتے رہے تو ان کو تو بھی خواہش ہونی چاہئے تھی کہ اس کارنامے کو دنیا کے سامنے لایا جائے۔لیکن نہ ایسا کیا گیا اور جماعت ِ احمدیہ کے علاوہ کسی اور گروہ نے اس کو منظر ِ عام پر لانے کا مطالبہ بھی نہیں کیا۔
جب ہم نے یہ سوال ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے کیا کہ پھر یہ کارروائی بعد میں شائع کیوں نہ کی گئی تو ان کا جواب یہ تھا۔
’’ڈاکٹر مبشر حسن صاحب:(مسکراتے ہوئے)اگر کرنی ہوتی تو خفیہ کیوں ہوتی۔
سلطان: تو مطلب قوم کا حق تو ہے ناں کہ وہ جانے اندر کیا ہوا۔
ڈاکٹر مبشر حسن صاحب:قوم کاکوئی حق نہیں۔قوم کا حق ہے غلامی میں رہنا اور حکم بجا لانا۔
اس کارروائی کو خفیہ کیوں رکھا گیا اس کے بارے میں ۱۹۸۵ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے فرمایا:
’’۱۹۷۴ میں حکومت نے اپنے فیصلے کے دوران جماعت کو موقع تو دیا اور چودہ دن قومی اسمبلی میں سوال و جواب ہو تے رہے۔جماعت نے اپنا موقف تحریری طور پر بھی پیش کیا لیکن ساتھ ہی چونکہ وہ بڑی ہوشیار اور چالاک حکومت تھی اس نے قومی اسمبلی کی کارروائی کے دوران ہی یہ محسوس کر لیا تھاکہ اگر یہ باتیں عام ہو گئیں اور سوال و جواب پر مشتمل اسمبلی کی کارروائی اوراس کی جملہ روئیداد دنیا کے سامنے پیش کر دی گئی تو حکومت کا مقصد حل نہیں ہو سکے گا بلکہ برعکس نتیجہ نکل سکتا ہے……
چنانچہ اس وقت کی حکومت نے اس خطرہ کی پیش بندی اس طرح کی کہ جماعت کو قانوناً اور حکماً پابند کیا گیا کہ قومی اسمبلی میں جو بھی کارروائی ہو رہی ہے اس کا کوئی نوٹ یا کوئی ریکارڈنگ اپنے پاس نہیں رکھیںگے اور یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ حکومت اس کارروائی کو دنیا میں ظاہر نہیں ہونے دے گی۔‘‘ ( خطبات طاہر جلد ۴ ص۵۶)
(۳) غیر متعلقہ سولات
جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ راہبر کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ پوری قومی اسمبلی پر مشتمل ایک سپیشل کمیٹی سپیکر کی صدارت میں کارروائی شروع کرے گی اور یہ فیصلہ کرے گی کہ جوشخص آنحضرت ﷺ کو آخری نبی نہیں مانتا اس کااسلام میں Statusکیا ہے؟لیکن ساری کارروائی سے گزر جائیں اس موضوع پر سوالات ہوئے ہی نہیں۔اب اس بات کا کہ احمدیوں کی آبادی پاکستان میں کتنی ہے، پہلی جنگِ عظیم کے اختتام پر قادیان میں چراغاں ہوا تھا کہ نہیں۔باؤنڈری کمیشن میں جماعت کا موقف کیا تھا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے صاحبزادے صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب نے بیعت کی تھی کہ نہیں۔اب ان جیسے سوالات کے زیر بحث موضوع سے کوئی تعلق بنتا ہی نہیں۔یہ تو پوچھا ہی نہیں گیا کہ جماعت ِ احمدیہ کے ختم نبوت کے متعلق کیا عقائد ہیں۔یااگر کوئی شخص آنحضرت ﷺ کے بعد امتی نبی کی آمد کا قائل ہے تو کیا اس بنا پر اس شخص کو غیر مسلم کہا جا سکتا ہے کہ نہیں؟ساری کارروائی غیر متعلقہ سوالات اور غلط حوالوں کے گرد گھومتی رہی تھی۔آخر یہ سوال تو لازماً اُ ٹھتا ہے کہ اصل موضوع سے گریزکیوں کیا گیا؟اس کی بظاہر وجہ تو یہ نظر آتی ہے کہ جب جماعت ِ احمدیہ کے محضرنامے کو دیکھا گیا اور مولوی حضرات کے پیش کردہ موقف بھی پڑھے گئے تو فیصلہ یہی کیا گیا کہ اصل موضوع کونہ چھیڑنے میں ہی ہماری عافیت ہے اور تو کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔چنانچہ اتنے دن بند دروازوں کے پیچھے غیر متعلقہ سوالات میں وقت ضائع کر کے خفت سے بچا گیا اور پھر اس کارروائی کو شائع بھی نہیں ہونے دیا کہ اس کارروائی کو چلانے والوں کی علمی قابلیت کا راز فاش نہ ہو جائے۔اگر اصل موضوع پر بھی سوالات کا سلسلہ چلتا اور کچھ غیر متعلقہ سوالات بھی ہو جاتے تو یہ بات پھر بھی کچھ قابل ِ درگزر ہوتی۔لیکن یہاں تو عملاً یہ ہوا کہ ساری کارروائی ہی غیر متعلقہ موضوعات پر ہوتی رہی۔ ہم نے جب اس بابت پروفیسر غفور صاحب سے سوال کیا تو پہلے تو وہ سوال کو سمجھ نہیں پائے اور ہم سے دریافت کیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہے کہ یہ سوالات کئے گئے۔ جب ہم نے غیر متعلقہ سوالات کی مثالیں دے کر سوال کو واضح کیا تو ان کا جواب تھا۔
’’یہRelevant چیزیں نہیں ہیں۔Relevantچیزیں بالکل دوسری ہیں۔ Relevantچیزیں وہی ہیںکہ قادیانیوں کاStatusکیا ہے؟ان کی پوزیشن کیا ہے؟ ختم نبوت کے معاملے میں ان کا اپنا عقیدہ کیا ہے؟یہی چیزیں Relevant تھیں۔اسی پر بحث ہوئی ہے ساری۔‘‘
ان کے جواب سے ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک جن سوالات کا ہم نے حوالہ دیا تھا وہ ان کے نزدیک بھی متعلقہ سوالات نہیں تھے۔جب کہ یہ سوالات بار بار اس کارروائی کے دوران کئے گئے تھے۔لیکن پڑھنے والے خود دیکھ سکتے ہیں کہ ان کا یہ کہنا درست نہیں کہ Relevantموضوعات پر ساری بحث ہوئی تھی۔ہم اس ساری بحث کو بیان کر چکے ہیں۔ان میں سے اکثر سوالات تو مقررہ موضوع سے دور کا تعلق بھی نہیں رکھتے۔البتہ جب یہ سوال ہوا کہ احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام کیا سمجھتے ہیں تو یہ گمان ہوتا تھا کہ شاید یہ بحث اپنے اصل موضوع پر آ جائے مگر افسوس ایک بار پھر غیر متعلقہ سوالات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔اصل موضوع تو یہ تھا کہ جو شخص آنحضرت ﷺ کو آخری نبی نہیں سمجھتا، اس کا اسلام میںStatusکیا ہے۔ہم نے انٹرویو میں مکرر پروفیسر غفور صاحب سے سوال کیا کہ کارروائی میں غیر متعلقہ سوالات کیوں کئے گئے۔اس پر پھر ان کا جواب یہ تھا
’’وہ سارے سوالRelevantہی تھے۔‘‘
اب پڑھنے والے اس کے متعلق خود اپنی رائے قائم کر سکتے ہیں۔
جب ہم نے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے یہ سوال کیا کہ کیا وجہ تھی کہ ساری کارروائی میں غیر متعلقہ سوالات پوچھے گئے؟اس پر انہوں نے جواب دیا:
‏’’I do not know۔ یہ تو ان سے پوچھیں یہ وکیل ہیں(یہ بات انہوں نے مرزا عدیل احمد صاحب کی طرف اشارہ کر کے کہی تھی جو وکیل ہیں اور اس انٹرویو میں شامل تھے) Cross Examination میں کیا کیاRelevantہے۔‘‘
اس طرح انہوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔
(۱) خطبات ِ ناصر جلدپنجم ،۵۲۵تا ۵۲۹(۲)خطبات ِ ناصر جلدپنجم ۵۲۹ تا ۵۳۰
(۳)روایت مکرم پروفیسر ڈاکٹر سلطان محمود شاہد صاحب(آپ نے یہ واقعہ خوددیکھا تھا)
(۴)روایت طارق محمود جاوید صاحب (آپ اس واقعہ کے چشم دید گواہ ہیں)(۵) چٹان ۴ جون ۱۹۷۴ ص ۳
(۶) روزنامہ نوائے وقت ،۳۰مئی ۱۹۷۴ ص۱(۷) روزنامہ مشرق ۳۰ مئی ۱۹۷۴ ص ۳
‏(۸)Dawn,May 30 1974p5(۹) تحریر مکرم بشیر رفیق صاحب سابق مشنری انچارج لندن مشن بنام مکرم وکیل اعلیٰ صاحب
‏(۱۰)Pakistan Times,31 May 1974,last page
(۱۱) نوائے وقت ۳۱ مئی ۱۹۷۴ ص۱(۱۲)نوائے وقت ۴ جون ۱۹۷۴ ص۱
‏(۱۳)The National Assembly of Pakistan Debates, official report, Third seesion of 1974,1st june p78-91
(۱۴) نوائے وقت ،۱۱ پریل ۱۹۷۳ ص۱
‏(۱۵)The National Assembly of Pakistan,Debates Official Report 3rd june 1974p 121_131
(۱۶)سزا یافتہ سیاستدان،مصنفہ مرتضیٰ انجم ،ناشر دارالشعور لاہور،ص۱۲۱
‏(۱۷) The National Assembly of Paksitan, Debates, Offical Report, 4th June,1974 p171-172
(۱۸)نوائے وقت ۵ جون ۱۹۷۴ ص ۱(۱۹) نوائے وقت ۱۰ جون ۱۹۷۴ ص۱
‏(۲۰) The Plain Dealer,June 9,1974
(۲۱) نوائے وقت ۱۳ جون ۱۹۷۴ ص۱(۲۳)(۲۲) نوائے وقت ۱۴ جون ۱۹۷۴ ص۱(۲۴)Dawn,14 June 1974p1
(۲۵) خطبات ِ ناصر ،جلد پنجم ۵۵۶،۵۵۷(۲۶) نوائے وقت ۱۷ جون ۱۹۷۴ ص اول و آخر
(۲۷)خطبات ِ ناصر جلد پنجم ص۵۷۱ تا۵۷۴(۲۸) خطبات ِ ناصر جلد پنجم ص۵۷۵
(۲۹) نوائے وقت یکم جولائی ۱۹۷۴ص۱(۳۰)Dawn,1st July 1974p1
‏(۳۱) Pakistan Times,1st Juyl 1974p1(۳۲)Pakistan Times July 2,1974p1
‏(۳۳)Dawn July 2,1974p1(۳۴)Pakistan Times ,July 4 1974p1
(۳۵)روایت مکرم مجیب الرحمن صاحب (۳۶) Dawn 15 th July 1974p1(۳۷)نوائے وقت یکم جولائی ۱۹۷۴ص۲
(۳۸) روزنامچہ مرتبہ افضال ربانی ص۵۹تا ۸۳(۳۹)روایت مکرم محمود احمدو رپورٹ از جماعت ِ احمدیہ کراچی
(۴۰)نوائے وقت ۱۱ جولائی ۱۹۷۴ ص۱(۴۱) چٹان ۳ جون ۱۹۷۴(۴۲)روایت مکرم مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ
(۴۳)نوائے وقت ۲۴ جوالائی ۱۹۷۴ص۱ص۵(۴۴)روحانی خزائن جلد۱۵ص۴۳۲۔۴۳۳
(۴۵) روحانی خزائن جلد ۲۲ص۱۶۷۔۱۶۸(۴۶) روحانی خزائن جلد۲۲ص۱۸۵،۱۸۶(۴۷)انوارالعلوم جلد ۶ ص۱۱۲
(۴۸)عرفانِ شریعت مرتبہ مولوی محمد عرفان علی صاحب الناشر سنی دارالاشاعت علویہ رضویہ ڈجکوٹ روڈ لائلپور ص۷۷
(۴۹) فتاویٰ عثمانی از مفتی محمد تقی عثمانی ،ناشر مکتبہ معارف القرآن کراچی ص۷۲تا ۸۱
(۵۰)فتاویٰ عزیزی از مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی،ناشر سعید کمپنی کراچی ص۳۶۲
(۵۱) فتاویٰ رشیدیہ از رشید احمد گنگوہی ص۶۲،۶۳(۵۲)مجموعۃ الفتاویٰ از مولوی عبد الحی فرنگی محلی ناشر سعید کمپنی کراچی ص۲۴
(۵۳)حسام المحرمین علی منحرالکفر والمین ص۹۵
(۵۴) فتاویٰ ھندیہ ترجمہ فتاویٰ عالمگیریہ جلد سوم ترجمہ سید امیر علی ناشر سراج الدین اینڈ سنز لاہور ص۵۷۶تا۵۹۹
(۵۵)امروز ۵ اکتوبر ۱۹۷۸ ص۱(۵۶) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ ص۱۱
(۵۷)مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم مصنفہ ابو اعلیٰ مودودی صاحب ص ۳۰(۵۸)روحانی خزائن جلد۵ص۳۴۴۔۳۴۵
‏(۵۹) Hammodur Rahman commission Report, Published by Vanguard company, P214.215
(۶۰)مجموعہ اشتہارات جلد ۱ ،ص۵۸۸ ، اشتہار ۱۵۵۰(۶۱)تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ص۲۷۲۔۲۷۳
(۶۲) کشتی نوح ،روحانی خزائن جلد۱۹ ص۱۷و ۱۸(۶۳)فتاویٰ مسیح موعود ؑص۲۳۶۔۲۳۷
(۶۴) فتاویٰ رشیدیہ کامل مبوب ،مصنفہ رشید احمد گنگوہی ،ناشر محمد سعید اینڈ سنز ،ص۳۵۰
(۶۵) حیات ِ چہار دہ معصومین مولفہ سید ذیشان حیدر جوادی ص۳۲۳ ۔۳۲۶
(۶۶)قلائد الجواہر ،تالیف محمد بن یحییٰ التادفی الحنبلی ،مطبع شرکۃ مساھمۃ مصریہ ص۵۷
(۶۷)روحانی خزائن جلد ۱۳ ص۱۰۳۔۱۰۴(۶۸) سیف ِ چشتیائی مصنفہ پیر مہر علی گولڑوی ،ص۳۵،۳۶،۳۷،۴۳
(۶۹) ِ چشتیائی مصنفہ مہر علی شاہ صاحب ،ہمدرد سٹیم پریس راولپنڈی ،ص۳۴۵(۷۰)روحانی خزائن جلد ۱۹ص ۱۶۵
(۷۱)یہ پوری نظم کتاب اقبال اور احمدیت مصنفہ شیخ عبد الماجد کے صفحہ ۲۶۲۔۲۶۳ پر درج ہے
(۷۲)مجموعہ تقویۃ الایمان مع تذکیر الاخوان مولفہ علامہ شاہ محمد اسمعیل رحمۃ اللہ علیہ،ناشر نور محمد اصح المطابع و کارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی ص۳۷
(۷۳) مسند امام احمد بن حنبل ؒ ،مسند عرباض بن ساریہ ؓ ،جلد ۴ ص ۱۲۷
(۷۴) روحانی خزائن جلد ۱۸ ص ۲۱۰(۷۵)مقالات ِ سرسید حصہ نہم ص۵۴۔۵۵
(۷۶)سوانح احمدی ،مولفہ مولوی محمد جعفر تھانیسری ،صوفی پرنٹنگ اینڈ پبلشنگ کمپنی منڈی بہاؤالدین ص۷۱
(۷۷)مقالات ِ سرسید حصہ نہم ص۵۷ (۷۸) اشاعۃ السنہ جلد ۶ نمبر ۱۰ اکتوبر نومبر ص۲۸۷
(۷۹) اشاعۃ السنہ جلد ۶ نمبر ۱۰ اکتوبر نومبر اکتوبر نومبر ص۲۹۳
‏(۸۰)Indian Muslims, A political History,1858 -1947, by Ram Gopal,Book Traders Lahore, p102
‏(۸۱) A Book of readings on the The History of The Punjab,compiled by Ikram Ali Malik,published by Research Society of Pakistan ,2nd impression 1985 , P268
‏(۸۲) A Book of readings on the The History of The Punjab, compiled by Ikram Ali Malik, published by Research Society of Pakistan, 2nd impression 1985p 272
‏(۸۳)A Book of readings on the The History of The Punjab, compiled by Ikram Ali Malik, published by Research Society of Pakistan ,2nd impression 1985p287
‏(۸۴) A Book of readings on the The History of The Punjab,compiled by Ikram Ali Malik,published by Research Society of Pakistan ,2nd impression 1985p291
(۸۵) روایت مجیب الرحمن ایڈووکیٹ صاحب(۸۶) خطبات ِ ناصر جلد ۵ص۶۱۵۔۶۱۶(۸۷)خطبات ِ ناصر جلد ۵ص۶۲۰
(۸۸)روحانی خزائن جلد ۱۷ ص۶۴(۸۹)الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۴۶ (۹۰)مقالات ِ سرسید حصہ نہم ص۵۷۔۵۸
(۹۱) مقدمہ بہادر شاہ ظفر مصنفہ خواجہ حسن نظامی صاحب ،اسلام اور مسلمین،دیباچہ مقدمہ کتاب
(۹۲)مقدمہ بہادر شاہ ظفر ص۱۳۲(۹۳)اشاعۃ السنہ اکتوبر ،نومبر ۱۸۸۳؁ء ص۲۸۸(۹۴)انوارالعلوم جلد ۸ ص۳۹۴
(۹۵)روحانی خزائن جلد۱۶ ص ۲۷۵ ۔۲۷۶(۹۶)طبقات ِ ابن ِ سعد جلد اول ،ناشر داراالا شاعت کراچی ۲۰۰۳ ص۲۰۵،۲۰۶
(۹۷) روحانی خزائن جلد ۱۹ ص ۲۱۲(۹۸)سنن ابن ِ ماجہ ،کتاب الفتن،فتنہ الدجال و خروج عیسی ابن مریم و خروج یاجوج و ما جوج
‏(۹۹)The Book of Readings on The History of The Punjab 1799-1947,by Ikram Ali,published by Rsearch Society of Pakistan ,University of The Punjab Lahore,April 1985 ,Page328_338 (۱۰۰)فتوحات ِ مکیہ ،الجزء الثالث،مطبع دارالکتب العربیہ الکبریٰ ،ص۳۵۰
قومی اسمبلی کا فیصلہ
اسمبلی میں کارروائی شروع ہونے سے قبل یہ تو واضح نظرآ رہا تھا کہ حکومت اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے جماعت ِ احمدیہ کو آئین میں غیر مسلم قرار دینے کا پکا ارادہ کر چکی ہے۔پیپلز پارٹی کے قائد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب اور ان کی پارٹی غیر مذہبی رجحانات کے لیے شہرت رکھتی تھی اوران کے سیاسی مخالفین اس بات کو ان کے خلاف پروپیگنڈا کے لیے استعمال کرتے تھے۔اور اب بھٹو صاحب یہ سمجھتے تھے کہ احمدیوں کے خلاف فیصلہ کر کے وہ مذہبی حلقوں میں بھی مقبولیت حاصل کر لیں گے اور ان کے مخالفین کے ہاتھ میں ان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے یہ ہتھیار نہیں رہے گا اور اس طرح ان کی پوزیشن بہت مستحکم ہو جائے گی۔اپوزیشن میں بہت سی نام نہاد مذہبی جماعتیں موجود تھیں وہ تو ایک عرصہ سے اس بات کے لیے تگ و دو کر رہی تھیں کہ کسی طرح احمدیوں کو نقصان پہنچایا جائے اور آئین میں ایسی ترامیم کی جائیں جن کے نتیجے میں احمدیوں کے بنیادی حقوق بھی محفوظ نہ رہیں۔قومی اسمبلی میںموجود تمام گروہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ جماعت ِ احمدیہ کو غیر مسلم قرار دے کراپنے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
۲۰؍ اگست کو جسٹس صمدانی نے ربوہ کے سٹیشن پر ہونے والے واقعہ پر اپنی تحقیقات وزیر اعلیٰ پنجاب کے سپرد کیں اور وزیر ِ اعلیٰ نے اعلان کیا کہ اب صوبائی حکومت اس پر غور کر کے اسے وفاقی حکومت کی طرف بھجوائے گی تاکہ اسے قومی اسمبلی کی اس خاص کمیٹی میں پیش کیا جا سکے جو کہ قادیانی مسئلہ پر غور کر رہی ہے(۱)۔اس رپورٹ سے کوئی اتفاق کرتا یا اختلاف کرتا یہ الگ بات ہوتی لیکن اس رپورٹ کو بھی اس سارے تنازعہ کی دوسری باتوں کی طرح خفیہ رکھا گیا ۔جسٹس صمدانی صاحب نے عرصہ بعد جب اپنی یادداشتیں لکھیں تو اس کتاب میں اس رپورٹ کے حوالے سے لکھا
’’اس انکوائری سے متعلق مجھے دو باتیں اور بھی لکھنی ہیں تا کہ عوام میں جو غلط فہمیاں ہیں وہ دور ہو جائیں۔پہلی بات تو یہ کہ انکوائری اس لیے کرائی گئی کہ عوام میں جو شدید ردِ عمل تھا وہ دور ہو۔لیکن جب انکوائری مکمل ہو گئی اور حکومت ِ پنجاب کو رپورٹ دے دی گئی تو وہ رپورٹ عوام کے لیے شائع نہیں کی گئی۔کیوں ؟کیا عوام کو انکوائری کا نتیجہ جاننے کا حق نہیں ہے جبکہ انکوائری کروائی ہی عوام کی تسلی کے لیے تھی۔رپورٹ کے شائع نہ ہونے کی وجہ سے عوام میں جو سب سے بڑی غلط فہمی ہے (اور یہ میری دوسری بات ہے)وہ یہ ہے کہ میں نے احمدیوں کو کافر قرار دیا ہے جبکہ جن سوالوں پر مجھ سے انکوائری کرائی گئی تھی ان میں یہ سوال شامل ہی نہیں تھا۔سو میں نے اپنی رپورٹ میں یہ نہیں لکھا کہ احمدی کافر ہیں یا نہیں۔‘‘(۲)
۲۴ ؍اگست کو وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کوثر نیازی صاحب نے بیان دیا کہ قادیانی مسئلہ کے بارے میں قومی اسمبلی جو فیصلہ کرے گی اس کے حل سے ملک کا وقار مزید بلند ہو گا اور اس فیصلہ میں ختمِ نبوت کو جو اسلام کی اساس ہے مکمل آئینی تحفظ حاصل ہو جائے گا(۳)۔ہم اس بات کا تفصیلی جائزہ لے چکے ہیں کہ اسمبلی کی کارروائی کے دوران ممبرانِ اسمبلی اصل موضوع پر سوالات کرنے کی ہمت بھی نہ کر سکے تھے اور اتنے روز محض ادھر اُدھر کے سوالات کی تکرار میں وقت ضائع کیا گیا تھا ۔ لیکن جماعت کے مخالف علماء اس بات پر بہت اطمینان کا اظہار کر رہے تھے کہ وہ قومی اسمبلی میں ہونے والی کارروائی سے مطمئن ہیں۔چنانچہ ۲۶؍ اگست کو جمعیت العلماء اسلام کے قائد مولوی مفتی محمود صاحب نے یہ بیان دیا کہ وہ اسمبلی میں ہونے والی کارروائی سے مطمئن ہیں ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان مولوی حضرات کی مرضی بھی یہ تھی کہ اصل موضوع پر سوالات کی نوبت نہ آئے۔اسی روز پیپلزپارٹی کے وفاقی وزیر کوثر نیازی صاحب نے بیان دیا کہ پاکستان میں اسلامی نظام کے سوا کوئی دوسرا نظام نافذ نہیں کیا جا سکتا۔اور یہ دعویٰ کیا کہ موجودہ حکومت نے سب سے زیادہ اسلام کی خدمت کی ہے (۴)۔ جماعت کے وفد پر سوالات ختم ہونے کے بعد کچھ دن کے لیے جماعت ِ احمدیہ غیرمبایعین کے وفد پر سوالات ہوئے۔اور ۳۰؍ اگست کو قومی اسمبلی پر مشتمل سپیشل کمیٹی نے پھر اجلاس کر کے اس مسئلہ پر غور کیا یا کم از کم ظاہر کیا کہ اس پر غور کیا جا رہا ہے کیونکہ فیصلہ تو اس کارروائی کے آ غاز سے قبل ہی ہو چکا تھا(۵)۔ جماعت کے مخالف مولوی حضرات جلسہ کر کے یہ اعلان کر رہے تھے کہ یہ آخری موقع ہے کہ مرزائیت کے فتنہ کو حل کر دیا جائے ۔چنانچہ ۲؍ ستمبر کو لاہور میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا۔اس میں مودودی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مرزا ئیت کے فتنے کو ختم کرنے کا یہ آخری موقع ہے۔اگر ہم نے اسے کھو دیا تو ممکن ہے کہ یہ فتنہ ہمیں لے ڈوبے۔نورانی صاحب نے کہا کہ اگر یہ فیصلہ ہماری مرضی کے مطابق نہ ہوا تو مسلمان اسے قبول نہیں کریں گے۔عبدالستار نیازی صاحب جو کہ ۱۹۵۳ء کے فسادات میں داڑھی منڈوا کر بھاگے تھے ،نے اس جلسہ میں کہا کہ اگریہ مسئلہ مسلمانوں کے عقائد کے مطابق حل نہ کیا گیا تو مسلمان اسے خود حل کر لیں گے۔مودودی صاحب ابھی سے احمدیوں کے بارے میں نئے مطالبات کر رہے تھے۔ان میں سے ایک مطالبہ یہ تھا کہ احمدی افراد کو کلیدی اسامیوں سے علیحدہ کیا جائے۔پاسپورٹ میں ان کے مذہب کا علیحدہ اندراج کیا جائے۔ووٹر لسٹ میں ان کا اندراج علیحدہ کیا جائے۔شناختی کارڈوں میں بھی احمدیوں کے متعلق علیحدہ اندراج کیا جائے۔ربوہ کی زمین جن شرائط پر دی گئی تھی ان کو تبدیل کیا جائے۔ان سے یہ صاف ظاہر ہوتا تھا کہ احمدیوں کو آئین میں غیر مسلم قرار دے کر بھی ان انتہاء پسند مولویوں کی تسلی نہیں ہو گی بلکہ احمدیوں کو تمام بنیادی حقوق سے محروم کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔اور اس کی بنیاد پر اپنی سیاسی دوکان چمکائی جائے گی(۶،۷)۔ ایک طرف تو قومی اسمبلی کے اراکین اور سپیکر صاحب اس بات کو بار بار یقینی بنانے کے لیے تاکید کر رہے تھے کہ اس کارروائی کو خفیہ رکھا جائے اور اسمبلی کے باہر اس بات کا تذکرہ تک نہ ہو کہ اندر کیا کارروائی ہوئی تھی اور دوسری طرف اسمبلی کے بعض مولوی حضرات اپنی کارکردگی پر جھوٹی تعلیاں کررہے تھے۔چنانچہ ان ہی دنوں میں نورانی صاحب نے سرگودھا میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مرزا ناصر احمد ہمارے سوالات سے اس قدر بوکھلا اُٹھے کہ وہ یہ کہتے سنے گئے کہ میں تنگ آ چکا ہوں۔ سوالات کا یہ سلسلہ کب ختم ہو گا۔ان کی یہ ڈینگ کس قدر دور از حقیقت ہے اس کا اندازہ کارروائی کے اس خلاصہ سے ہی ہو جاتا ہے جو ہم نے درج کیا ہے۔یہ سب مولوی حضرات اس قسم کی ڈینگیں تو مارتے رہے لیکن کسی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ یہ مطالبہ کرے کہ کارروائی کو شائع کیا جائے تاکہ دنیا بھی دیکھے کہ انہوں نے کیسی فتح پائی تھی۔یہ مطالبہ ہمیشہ جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے ہی کیا گیا ہے۔اسی جلسہ میں نورانی صاحب نے ایک طرف تو یہ کہا کہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دے کر ان کے جان و مال کی حفاظت کی جائے اور دوسری طرف یہ بھی کہا مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو ختم کرنے کے لیے یہ پودا کاشت کیا گیا تھا لیکن اب یہ وقت آ گیا ہے کہ اس فتنہ کو جڑ سے اکھیڑ کر پھینک دیا جائے اور یہ بھی کہا کہ قادیانیوں سے بائیکاٹ جائز ہے(۸) ۔اور جماعت اسلامی کی طلباء تنظیم واضح الفاظ میں حکومت کو یہ دھمکی دے رہی تھی کہ اگر اس معاملہ میں ان کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ دیا گیا تو حکومت کے لیے عوام کے غیظ و غضب سے بچنا مشکل ہو جائے گا۔اور یہ دھمکیاں کوئی خفیہ انداز میں نہیں دی جا رہی تھیں بلکہ اخبارات میں شائع ہو رہی تھیں۔(۹)
۴ ؍ستمبر کو اسلامی سیکریٹریٹ کے سیکریٹری جنرل حسن التہامی صاحب پاکستان آئے۔انہوں نے بیان دیا کہ میں مختلف اسلامی ممالک میں رابطہ قائم کرنے کے لیے اسلامی ممالک کا دورہ کر رہا ہوں ۔ اور کہا کہ میں ایک نہایت اہم مشن پر پاکستان آیا ہوں ۔جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ وزیرِ اعظم بھٹو سے کس مسئلہ پر بات کریں گے تو انہوں نے کہا کہ وہ یہ نہیں بتا سکتے۔(۱۰)
یہ اعلان ہو چکا تھا کہ قومی اسمبلی ۷؍ ستمبر کو فیصلہ کرے گی۔۶ ستمبر کا دن آیا ۔یہ دن پاکستان میں یومِ دفاع کے طور پر منایا جاتا ہے۔اگر کوئی صاحبِ عقل ہوتا تو یہ دن اس بات کو سوچنے کے لیے ایک موقع تھا کہ پاکستان کے احمدیوں نے اپنے ملک کے دفاع کے لیے کیا قربانیاں دی تھیں ۔جب احمدی جنرل میدان ِ جنگ میں اترے تھے تو انہوں نے بزدلی نہیں دکھائی تھی بلکہ جنرل اختر حسین ، لیفٹنٹ جنرل افتخار جنجوعہ شہید اور میجر جنرل عبد العلی ملک جیسے احمدی جرنیلوں کے کارنامے ایسے نہیں جنہیں فراموش کیا جا سکے۔جب جماعت ِ احمدیہ تقسیم برصغیر کے وقت داغِ ہجرت کے بعد شدید بحران سے گزر رہی تھی اس وقت بھی پاکستانی احمدیوں نے رضا کارانہ طور پر ملک کے دفاع میں حصہ لیا تھا۔
خود ایک احمدی جنرل کے متعلق بھٹو صاحب کے خیالات کیا تھے؟ اس کا اندازہ ان کے اس تبصرے سے ہو جاتا ہے جو انہوں نے جیل میں اس وقت کیا تھا جب انہیں سزائے موت سنائی جا چکی تھی۔کرنل رفیع صاحب جو اس وقت جیل میں ڈیوٹی پر تھے بھٹو صاحب کی ایک گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں:
’’پھر کہنے لگے کہ جنرل اختر ملک کو کشمیر کے چھمب جوڑیاں محاذ پر نہ روک دیا جاتا تو وہ کشمیر میں ہندوستانی افواج کو تہس نہس کر دیتے مگر ایوب خان تو اپنے چہیتے جنرل یحییٰ خان کو ہیرو بنانا چاہتے تھے۔۱۹۶۵ء کی جنگ کے اس تذکرے کے دوران بھٹو صاحب نے جنرل اختر ملک کی بے حد تعریف کی۔کہنے لگے اختر ملک ایک باکمال جنرل تھا۔وہ ایک اعلیٰ درجہ کا سالار تھا۔وہ بڑا بہادر اور دل گردے کا مالک تھا اور فنِ سپاہ گری کو خوب سمجھتا تھا۔اس جیسا جنرل پاکستانی فوج نے ابھی تک پیدا نہیں کیا۔پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگے باقی سب تو جنرل رانی ہیں۔‘‘(۱۱)
لیکن توازن اور فراست ایسی اجناس نہیں تھی جو کہ اس دور کے صاحبانِ اقتدار کو میسر ہوں ۔اب تو ہر طرف جماعت ِ احمدیہ کے خلاف نفرت کی آندھیاں چلائی جا رہی تھیں۔ہر طرف سے یہ آوازیں اُٹھ رہی تھیں کہ انہیں مارو،ان کے گھروں کو جلاؤ ،ان کا بائیکاٹ کرو ،ان کو بنیادی حقوق سے محروم کر دو۔ ہر سیاستدان یہ سوچ رہا تھا کہ وہ اس مسئلہ پر بیان بازی کر کے کس طرح سیاسی مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔ایک روایت ہے کہ یوم دفاع کے دن وزیر اعظم ملک کے عوام کے نام ایک پیغام دیتے ہیں۔ اس روز وزیر اعظم بھٹو صاحب نے جو پیغام دیا اس میں انہوں نے کہاکہ’’اس وقت ملک کو مختلف النوع خطرات درپیش ہیں۔بیرونی اشارے پر تخریبی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ملک میں بعض سیاسی گروپ علاقہ پرستی کو ہوا دے رہے ہیں۔ اور انتہا پسند فرقہ پرست گروہ ہمارے دفاع کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں‘‘(۱۲) بہت خوب! ملک کے دفاع پر آپ خود اقرار کر رہے ہیں کہ انتہا پسند فرقے ملک کے دفاع کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔مگر جب ملک کو یہ خطرہ لاحق تھا تو آپ کیا کر رہے تھے؟آپ ان کے مطالبات تسلیم کر کے ان کو تقویت دے رہے تھے اور یہ سوچ رہے تھے کہ احمدی تو ایک چھوٹا سا گروہ ہے اگر ان کے حقوق تلف بھی کر لیے گئے تو کیا فرق پڑتا ہے؟یہ تو اپنا بدلہ لینے کی بھی طاقت نہیں رکھتے۔اس سے ہم سیاسی فائدہ اُ ٹھا سکتے ہیں۔یہ بات صحیح بھی تھی لیکن ایک بات پاکستان کے سیاستدان بھول رہے تھے ایک خدا بھی ہے جو احمدیوں پر ہونے والے ہر ظلم کا بدلہ لینے پر قادر ہے۔اور تب سے اب تک اس ملک کی تاریخ عبرت کی داستانوں سے بھری ہوئی ہے۔
بہر حال فیصلے کے اعلان سے ایک روز پہلے اخبارات میں یہ فخریہ خبریں شائع ہونی شروع ہو گئیں کہ سواد ِ اعظم کی خواہشات کے مطابق قادیانی مسئلہ کا قابلِ قبول حل تلاش کر لیا گیا ہے۔(۱۳)
۶ ستمبر کو جمعہ کا روز تھا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے خطبہ میں فرمایا
’’۔۔جو شخص یہ کہے کہ میں دنیا کی طاقتوں سے مرعوب ہو گیا۔دوسرے لفظوں میں وہ یہ اعلان کر رہا ہے کہ میرا خدا کے ساتھ واسطہ کوئی نہیں۔۔ورنہ آدم سے لے کر معرفت حاصل کرنے والوں نے خدا تعالیٰ کے پیار کے سمندر اپنے دلوں اور سینوں میں موجزن کئے اور سوائے خدا تعالیٰ کی خشیت کے اور کوئی خوف اور خشیت تھی ہی نہیں ان کے دلوں میں۔یہ جو خشیت اللہ ہے یہ غیر اللہ کے خوف کو مٹا دیتی ہے۔اللہ سے یہ ڈر کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائے وہ ہر دوسرے کے خوف کو دل سے نکال دیتا ہے۔۔۔۔۔۔
شاید سات آٹھ سال گزر گئے غالباََ ۱۹۶۶۔ ۱۹۶۷ کی بات ہے ایک موقع پر مجھے حاکمِ وقت سے ملنا تھا تو مجھے بڑے زور سے اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہئَ اَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ۔اور یہ میرے لئے عنوان تھا۔ہدایت تھی کہ اس رنگ میں جا کر باتیں کرنی ہیں۔پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ کمزوری سے بچانے کے لیے وقت سے پہلے ہی راہ بتا دی ۔‘‘ (خطبات ناصر جلدپنجم صفحہ ۶۲۴،۶۲۵)
اس خطبہ کے آخر میں حضور نے فرمایا
’’پس یہ دنیا جس میں دنیاکے لوگ بستے ہیں ایک اور دنیا ہے اور وہ دنیا جس میں احمدی بستے ہیں وہ ایک اور ہی دنیا ہے اور احمدیوں کا فرض ہے کہ اپنے نفسانی جذبات کو بالکل فنا کر دیں اور کسی صورت میں اور کسی حال میںغصہ اور طیش میں نہ آئیں اور نفس بے قابو ہو کر وہ جوش نہ د کھلائیںجو خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینا ہے بلکہ تواضع اور انکسار کی انتہاء کو پہنچ جائیں اور اپنی پیشانیاں ہمیشہ خدا تعالیٰ کے حضور زمین پر رکھے رہیں۔‘‘ (۱۴)
عام خیال تھا کہ ۷؍ ستمبر کو قومی اسمبلی احمدیوں کے متعلق فیصلہ کرے گی۔حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ ان کی تمام کوششوں اور مخالفت کے با وجود اس فیصلہ کا یا اس جیسے دیگر فیصلوں کا جماعت پر اگر کوئی نتیجہ مرتب ہوا تو وہ یہی تھا کہ جماعت پہلے سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرنے لگ گئی۔لیکن اصل حقیقت یہ تھی کہ یہ فیصلہ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کیا جا رہا تھا اور ایک منفی فیصلے نے پاکستان کے لیے نہ ختم ہونے والی مصیبتوں کے دروازے کھول دیئے۔بہر حال ۷؍ ستمبر کا دن آیا۔دوپہر کو ساڑھے چار بجے اسمبلی کی کارروائی شروع کی گئی۔تلاوت کے بعد سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب نے وزیر قانون عبد الحفیظ پیرز ادہ صاحب کو اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لئے کہا :
(الف)کہ پاکستان کے آئین میںحسب ِ ذیل ترمیم کی جائے
(اوّل) دفعہ۱۰۶(۳) میں قادیانی جماعت اور لاہوری جماعت کے اشخاص (جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں) کا ذکر کیا جائے۔
(دوم)دفعہ ۱۰۶ میں ایک نئی شق کے ذریعے غیر مسلم کی تعریف درج کی جائے۔
مذکورہ بالا سفارشات کے نفاذ کے لیے خصوصی کمیٹی کی طرف سے متفقہ طور پر منظور شدہ مسودہ قانون منسلک ہے۔
(ف)کہ مجموعہ تعزیرات ِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵ الف میں حسب ِ ذیل تشریح درج کی جائے
تشریح :کوئی مسلمان جو آئین کی دفعہ ۲۶۰ کی شق نمبر ۳ کی تشریحات کے مطابق حضرت محمد ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے تصور کے خلاف عقیدہ رکھے یا عمل یا تبلیغ کرے وہ دفعہ ہذاٰ کے تحت مستوجب سزا ہو گا۔
(ج)کہ متعلقہ قوانین مثلاً قومی رجسٹریشن ایکٹ ۱۹۷۳ء اور انتخابی فہرستوں کے قواعد ۱۹۷۴ء میں قانونی اور ضابطہ کی ترمیمات کی جائیں۔
(د)کہ پاکستان کے تمام شہریوں کو خواہ وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں کے جان، مال، آزادی، عزت اور بنیادی حقوق کا پوری طرح تحفظ اور دفاع کیا جائے۔
وزیر قانون عبد الحفیظ پیر زادہ نے قرارداد کے الفاظ پڑھنے شروع کیے تھے کہ وزیر ِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب ایوان میں داخل ہوئے۔اور اس وقت ایوان کے ممبران نے ڈیسک بجا کر وزیر اعظم کا والہانہ استقبال کیا۔لیکن اس موقع پر احمد رضا قصوری صاحب نے مداخلت کی اور کہا کہ اس آئینی ترمیم میں یہ الفاظ شامل کئے جائیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے پیرو کار خواہ وہ کسی نام سے جانے جاتے ہوں قانون اور آئین کے حوالے سے غیر مسلم ہیں۔لیکن وزیر قانون نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ کمیٹی میں اس ترمیم کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا اور اب جب اس ترمیم کی شقوں پر رائے شماری کی گئی تو انہیں بھی ایوان میں متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔احمد رضا قصوری صاحب اپنی ترمیم ایوان کے سامنے پیش کرنے پر مصر تھے۔وزیر ِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے بھی اسے خلافِ ضابطہ قرار دیا۔سپیکر نے ایوان سے رائے لی کہ کیا احمد رضا قصوری صاحب کو اس بات کی اجازت دی جائے کہ وہ اس ترمیم میں اپنی ترمیم پیش کر سکیں تو ہر طرف سے نہیں نہیں کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔اس پر سپیکر صاحب نے کہا کہ وہ اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے۔احمد رضا قصوری صاحب نے کہا کہ وہ واک آؤٹ کر رہے ہیں کیونکہ انہیں (یعنی احمدیوں کو) غیر مسلم نہیں قرار دیا جا رہا۔رائے شماری سے پہلے وزیر اعظم نے تقریر کرتے ہوئے اسے متفقہ قومی فیصلہ قرار دیا۔اور کہا کہ یہ نوے سالہ پرانا مسئلہ تھا جس کا مستقل حل تلاش کرلیا گیا ہے۔اور کہا کہ میں اس سے کوئی سیاسی فائدہ نہیں اُ ٹھانا چاہتا۔پھر انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بنیاد اسلام ہے ۔اور اگر کوئی ایسا فیصلہ کیا جائے جو مسلمانوں کے عقائد کے خلاف ہوتا تو اس سے پاکستان کی بنیاد پر ضرب پڑتی پھر انہوں نے کہا کہ وہ امید رکھتے ہیں کہ اب یہ باب ختم ہو جائے گا۔کل شاید ہمیں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑے لیکن اب تک پاکستان کو درپیش آنے والے مسائل میں یہ سب سے زیادہ سنگیں مسئلہ تھا۔لیکن ایک بات بھٹو صاحب بھی محسوس کر رہے تھے۔قومی اسمبلی نے اتنا بڑا کارنامہ سرنجام دیا تھا لیکن اس کی کارروائی خفیہ رکھی گئی تھی ۔آخر کیوں؟ سب کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ قومی اسمبلی کی کارروائی میں کیا ہوا تھا۔بھٹو صاحب نے اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کی یہ کارروائی خفیہ ہوئی ہے۔اگر یہ کارروائی خفیہ نہ ہوتی تو ممبران اس یکسوئی سے اظہار ِ خیال نہ کر سکتے۔لیکن کوئی بھی چیز ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رہتی۔یہ کارروائی بھی ایک روز منظرِ عام پر آئے گی لیکن ابھی کچھ اضافی وقت لگے گا، جس کے بعد یہ کارروائی منظر ِ عام پر لائی جائے گی۔میں یہ نہیں کہتا کہ ہم اس ریکارڈ کو دفن کر دیں گے ۔ہر گز نہیں یہ خیال ایک غیر حقیقی خیال ہوگا۔اگر ہم بھٹو صاحب کی اس بات کا تجزیہ کریں تو وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ اگر یہ کارروائی خفیہ انداز میں نہ کی جاتی تو ممبران اس طرح یکسوئی سے آزادانہ اظہار ِ خیال نہ کر سکتے۔جبکہ ہم اس حقیقت کا جائزہ لے چکے ہیں کہ ممبران کے سوالات میں اگر کوئی چیز نمایاں تھی تو وہ پراگندہ خیالی تھی۔اتنے دن سوالات کرنے کے با وجود وہ اصل موضوع سے صرف کتراتے ہی رہے۔اور اگر یکسوئی کا یہی طریق ہے کہ کارروائی خفیہ ہو اور ممبران کی آزادانہ اظہار ِ رائے کا بھی یہی طریق ہے تو پھر تو اسمبلی کی ہر کارروائی خفیہ ہونی چاہئے۔بھٹو صاحب نے یہ تو کہا کہ وہ ایک دن اس کارروائی کو منظرِعام پر لے آئیں گے مگر اس کے بعد وہ کئی سال برسرِ اقتدار رہے لیکن انہوں نے اس کارروائی کومنظرِ عا م پر لانے کا قدم کبھی نہیں اُ ٹھایا۔یہ سوال ہر صاحب ِ شعور ضرور اُ ٹھائے گا کہ آخر ایسا کیوں کیا گیا؟
سپیکر کے کہنے پر مولوی مفتی محمود صاحب نے مختصر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور ان کی پارٹی اس ترمیم کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔اور متفقہ طور پر یہ ترمیم منظور کر لی گئی۔کچھ ہی دیر بعد یہ بل سینٹ میں پیش کیا گیا اوروہاں پر متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔اور وہاں پر تالیاں بجا کر اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا گیا۔ اس روز معلوم ہوتا تھا کہ پاکستان کے تمام سیاسی حلقے تالیاں پیٹ رہے تھے،ڈیسک بجا رہے تھے ،مٹھائیاں تقسیم ہو رہی تھیں چراغاں کیا جا رہا تھا۔اور بیچارے یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ احمدیوں کی قسمت کا فیصلہ کر رہے تھے حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ اپنی اور ملک کی قسمت پر مہر لگا رہے تھے۔مولوی خوش تھے کہ ہم نے ایک تیرمارا ہے اور حکومتی پارٹیاں اس بات پر خوشیاں منا رہی تھیں کہ ہم نے اپنی سیاسی پوزیشن اور مضبوط کر لی ہے ۔
جلد ہی جو تبصرے آنے لگے تو اس سے بھی یہی معلوم ہوتا تھا کہ وقتی طور پر بھٹو صاحب کے حصہ میں بہت سی داد و تحسین آئی ہے۔مجلسِ عمل برائے ختمِ نبوت کے مولوی محمدیوسف بنوری صاحب نے ایک پریس کانفرنس میں اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا۔صدر ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشنز سید عبد القادر نے وزیر ِ اعظم کو مبارکباد کی تار بھجوائی اور کہا کہ پوری دنیا کے مسلمان اس فیصلہ کا خیر مقدم کر رہے ہیں اور جس طرح آپ نے اس معاملہ کو طے کیا ہے اس کو سراہتے ہیں،شاہ احمد نورانی صاحب صدر جمعیت العلماء پاکستان نے کہا کہ یہ مسلمانوں کے لیے عظیم فتح ہے اور انہوں نے اس کے لیے انتھک کوششیں کی ہیں،ایئر مارشل اصغر خان صدر تحریک ِ استقلال نے کہایہ ایک عظیم کامیابی ہے،جماعت ِ اسلامی کے پروفیسر غفور صاحب نے کہا کہ وہ اس فیصلہ سے مکمل طور پر مطمئن ہیں صدر مجلس علماء پاکستان نے وزیر اعظم کو مبارکباد دی اور کہا کہ یہ اس صدی کی سب سے اچھی خبر ہے،جمعیت العلماء اسلام کے قائد مفتی محمود صاحب نے کہا کہ یہ فیصلہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا(۱۵)۔ان کے بہت سے دیرینہ مخالف بھی ان پر پھول نچھاور کر رہے تھے۔مثلاََ ایڈیٹر چٹان شورش کاشمیری صاحب نے کہا کہ اس فیصلہ پر ملت ِ اسلامیہ ہی نہیں خود اسلام وزیر اعظم کا ممنون ہے(۱۶)۔اسلامک کانفرنس کے سیکریٹری حسن التہامی صاحب نے جو کہ پاکستان میں موجود تھے بیان دیا کہ اب پاکستان صحیح معنو ں میں ایک اسلامی ملک بن گیا ہے۔اور کہا کہ اس فیصلہ کی نقول دوسرے اسلامی ممالک کو بھی بھجوائی جائیں گی اور امید ہے کہ یہ ممالک بھی اس فیصلہ کی پیروی کریں گے۔اور اب اخبارات میں یہ خبریں شائع کی جا رہی تھیں کہ اب قادیانیوں کو تمام کلیدی آسامیوں سے ہٹا دیا جائے گا۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ حنیف رامے صاحب نے یہ فخریہ بیان دیا کہ ہماری حکومت نے صحیح معنوں میں علماء سے بھی زیادہ اسلام کی خدمت کی ہے۔مجلس ختمِ نبوت کی مجلسِ عمل نے بیان جاری کیا کہ اس فیصلہ سے صحیح معنوں میں قومی اتحاد کی بنیاد پڑی ہے اور ان کے صدر نے کہا کہ امید ہے کہ اب اکثر قادیانی مسلمانوں کی تبلیغ کے نتیجہ میں اسلام قبول کر لیں گے۔ (۱۷)
یہ تھے اس وقت مختلف لوگوں کے خیالات لیکن پھر کیا ہوا۔کیا اس فیصلہ کے بعد قومی اتحاد قائم ہوا؟ہر گز نہیں بلکہ پاکستان کا معاشرہ ہر پہلو سے اس بری طرح تقسیم ہوا کہ جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔کیا ملک میں اسلامی معاشرہ قائم ہوا؟کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا بلکہ قتل و غارت اور دہشتگردی کا وہ طوفان امڈا کہ خدا کی پناہ۔اور کیا یہ علماء جو اب بھٹو صاحب کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر رہے تھے ،ان کے وفا دار رہے؟ نہیں یہ مولوی طبقہ کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتا۔جلد ہی انہوں نے بھٹو صاحب کے خلاف ایک مہم چلائی اور ان کے خلاف، ان کے اہلِ خانہ کے خلاف ان کے آباء کے خلاف ملک بھر میں وہ گندہ دہنی کا طوفان اُ ٹھایا کہ شاید ہی کوئی گالی ہو جو نہ دی گئی ہو۔ ۷؍ستمبر کو بھٹو صاحب اپنے آپ کو بہت مضبوط محسوس کر رہے تھے۔لیکن کیا اس نے انہیں کوئی فائدہ دیا؟ جلد ہی ان کے خلاف ایک ملک گیر تحریک چلی اور پھر ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ان پر احمدرضا قصوری صاحب پر قاتلانہ حملہ کرانے اور ان کے والد کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا اور انہیں پھانسی کی سزا دی گئی۔اگر یہ فیصلہ خدا کی نظر میں مقبول تھا تو اس کے کچھ آثار بھی تو نظر آنے چاہئے تھے۔ہمیں اس کے بعد کی تاریخ میں ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔کیا اس فیصلہ سے جماعت ِ احمدیہ کی ترقی رک گئی؟بالکل نہیں جماعت ِ احمدیہ پہلے سے بہت زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرتی چلی گئی۔جو نقصان ہوا ملک کا اور اس فیصلے کو کرنے والوں کا ہوا۔
بہت سے تجزیہ نگاروں نے اس فیصلہ کا تجزیہ کیا ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ان میں سے کچھ مثالیں پیش ہیں۔موسیٰ خان جلال زئی اپنی کتاب The Sunni-Shia Conflict in Pakistanمیں لکھتے ہیں۔
’’صورتِ حال اس وقت تبدیل ہو گئی جب پنجاب حکومت نے ۱۹۵۱ء میں مرکزی حکومت کے خلاف مذہبی پتے کھیلنے کا فیصلہ کیا ۔مؤخر الذکر ثابت قدم رہی اور احمدیوں کے خلاف فسادات کو روکنے کے لیے فوج کو طلب کر لیا گیا۔دو دہائیوں کے بعد بھٹو صاحب نے احمدیوں کی مخالفت کا پتہ کھیلنے کا فیصلہ کیا ۔شاید یہ اس لیے کیا گیا کہ پاکستان اسلامی ممالک کی قیادت کرنے والے ممالک کے گروہ میں بیٹھنے کے قابل ہو جائے۔‘‘(۱۸)
ایما ڈنکن(Emma Duncan) اپنی کتاب Breaking The Curfew میں بھٹو صاحب کا ذکر کرتے ہوئی لکھتی ہیں
’’غالباََ احمدیوں پر ان کا حملہ بھی اس نیت سے کیا گیا تھا تاکہ وہ قدامت پسند مذہبی حلقوں میں مقبولیت حاصل کر سکیں۔۔۔۔۔۔ مگر ۱۹۷۴ میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ بھی شاید ان حلقوں میں سستی مقبولیت حاصل کرنے کا طریق تھا جو کہ ان کو نا پسند کرتے تھے۔اس کے باجود بھٹو صاحب کی پالیسی اور اخلاقیات حملے کی زد میں رہے۔‘‘(۱۹)
اس فیصلہ کے بعد پہلا جمعہ ۱۳ ؍ستمبر کو تھا۔قدرتاََ احباب ِ جماعت حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی زبان ِ مبارک سے یہ ہدایت سننا چاہتے تھے کہ اس فیصلہ پر احمدیوں کا کیا ردِ عمل ہونا چاہئے؟ حضور نے خطبہ جمعہ کے آغاز میں فرمایا کہ اس وقت تو یہ تبصرہ ہے کہNo Comments،یعنی کوئی تبصرہ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پر تبصرہ سے قبل بڑے غور اور تدبر کی ضرورت ہے اور مشورے کی ضرورت ہے۔اس پر مشورے اور غور کرنے کے بعد میں بتاؤں گا کہ جو پاس ہوا ہے وہ اپنے اندر کتنے پہلو لئے ہوئے تھا۔کیا بات صحیح ہے کیا بات صحیح نہیں ہے۔حضور نے فرمایا کہ حقیقت کو ابھرنے دیں۔ حقیقت کوUnfold ہونے دیں۔اس کے بعد حضور نے تفصیل سے بیان فرمایا کہ اس فیصلہ پر کسی احمدی کے ردِ عمل میں ظلم اور فساد کا شائبہ تک نہیں ہو نا چاہئے۔(۲۰)
اس کے بعد حضور نے مختلف خطبات اور تقاریر میں بیان فرمایا کہ اس فیصلہ پر جماعت ِ احمدیہ کا ردِعمل کیا ہونا چاہئے۔جب جلسہ سالانہ کا وقت آیا تو ایک عجیب سماں تھا۔حکومت نے پہلی مرتبہ فیڈرل سیکیورٹی فورس کے جوان ربوہ کے جلسہ پر بھجوائے تھے۔حضور نے افتتاحی خطاب کے آ غاز میں فرمایا
’’۔۔لوگوں کی طرف سے بہت سی افواہیں پھیلائی گئیں ۔ایک افواہ یہ تھی کہ مستورات کا جلسہ نہیں ہو گا ۔حالانکہ مستورات کا جلسہ ہو رہا ہے ہماری احمدی بہنیں کافی تعداد میں پہنچ چکی ہیں لیکن بعض علاقوں سے بہت کم مستورات اس جلسہ میں شامل ہو رہی ہیں۔ایک یہ افواہ بھی بعض جگہوں پر پھیلائی گئی کہ ربوہ کے مسافروں کو راستہ میں بہت تنگ کیا جا رہا ہے گویا کہ ان کے نزدیک ہمارے ملک میں کوئی حکومت ہی نہیں ہے۔اس لئے بعض جگہوں سے لاریوں نے چلنے سے انکار کیا ۔بعض جگہوں پر احمدی تذبذب میں پڑ گئے حالانکہ یہاں حکومت ہے اور ان کا بڑا اچھا انتظام ہے۔اس جلسہ پر یہاں بھی دوستوں کو پہلی بار گیلریوں کے اوپر حکومت کے با وردی نمائندے نظر آ رہے ہیں جو بڑے خوبصورت لگ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی ذمہ داریوں کے نباہنے کی توفیق عطا کرے۔‘‘(۲۱)
اس موقع پر جب جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین بڑے طمطراق سے یہ دعوے کر رہے تھے کہ اب ہم اس جماعت کو ختم کر دیں گے۔حضور نے یہ پیشگوئی فرمائی :
’’۔۔۔جنہوں نے علی الاعلان کہا کہ وہ زمین سے خدا کے نام کو اور آسمانوں سے اس کے وجود کو مٹا دیں گے ۔خدا نے ہمیں کہا تم ان کے لئے بھی دعائیں کرو۔اس لئے ہم ان کی ہدایت کے لئے بھی دعائیں کرتے ہیں کیونکہ وہ لوگ خدا کے حقیقی پیار سے محروم ہیں۔ دنیا کی یہ عارضی ترقیات تو کوئی معنی نہیں رکھتیں۔انسان نے پہلی دفعہ تو یہ ترقی نہیں کی۔ اصطلاحاََ بڑے بڑے فراعنہ دنیا میں پیدا ہوئے اور ان میں ایک وہ بھی تھا جس کا نام بھی فرعون تھا۔جس کی حکومت بڑی شاندار اور مہذب کہلاتی تھی۔دنیا میں اس نے بڑا رعب قائم کیا مگر کہاں گئے وہ لوگ؟اور کہاں گئیں سرمایہ دارانہ حکومتیں ؟ایک وقت میں سرمایہ دار دنیا پرچھائے ہوئے تھے اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ انسان کے اوپر سوائے سرمایہ داری کے اور کوئی چیز حکومت نہیں کر سکتی ۔وہ پیچھے چلے گئے۔دوسرے نمبر پر کمیونزم آگیا۔یہ بھی پیچھے چلا جائے گا ۔صدیوں کی بات نہیں…… درجنوں سالوں کی بات ہے کہ اشتراکی نظام بھی پیچھے چلا جائے گا اور پھر دوسری طاقتیں آگے آجائینگی اور ایک وقت میں وہ بھی پیچھے چلی جائیں گی۔پھر خدا اوراس کا نام لینے والی جماعت ،حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی طرف منسوب ہونے والی جماعت ،قرآن ِ کریم کے احکام کا سکہ دنیا میں قائم کرنے والی جماعت، اسلام کا جھنڈا دنیا کے گھر گھر میں گاڑنے والی جماعت آگے آئیگی اور پھر اس دنیا میں اخروی جنت سے ملتی جلتی ایک جنت پیدا ہوگی اور ہر انسان کی خوشی کے سامان پیدا کئے جائیں گے اور تلخیاں دور کر دی جائیں گی۔‘‘(۲۲)
جہاں تک عالمی منظر پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے متعلق اس پیشگوئی کا تعلق ہے تو اس ضمن میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ۱۹۷۲ کی مجلسِ شوریٰ سے خطاب کرتے ہوئے بھی یہ تجزیہ بیان فرمایا تھا کہ اشتراکیت ناکام ہو چکی ہے ۔انہوں نے انسانیت کی خدمت کی آواز تو بلند کی لیکن وہ ابھی تک ایسا کوئی نظام روس میں قائم نہیں کر سکے جس میں انہوں نے روس کے مفادات قربان کر کے دنیا کے ممالک کی بھلائی کی کوشش کی گئی ہو۔وہ دوسرے ممالک کو Dictateکرنا چاہتے ہیں کہ جو ہم کہتے ہیں تم وہ مانو ۔اور خود روس کے مشرقی اور مغربی حصے کی ترقی میں بہت فرق ہے۔حضور نے اپنا مشاہدہ بیان فرمایا کہ جب حضور ۱۹۶۷ء میں یورپ کے دورہ پر جاتے ہوئے کچھ دیر کے لئے ماسکو کے ایئر پورٹ پر رکے تو یہ دیکھا کہ وہاں ایک مردنی اور پژ مر دگی چھائی ہوئی ہے،غذائی قلت کے آ ثار صاف نظر آ رہے تھے۔کوئی بشاشت نہیں تھی کوئی مسکراہٹ نہیں تھی۔ انہوں نے اپنے ملک میں جو کام کیا وہ تو کیا لیکن وہ جو نہیں کر سکے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے لوگوں میں بشاشت نہیں پیدا کر سکے۔اس کے ساتھ ہی حضور نے ارشاد فرمایا کہ چین ایک بڑی قوت بن کر ابھر رہا ہے۔ اور چینیوں نے جو نظام اپنے لئے منتخب کیا ہے اس میں وہ زیادہ سمجھداری اور عقلمندی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔(۲۳)۔آئندہ چند دہائیوں میں دنیا کی آ نکھ نے مشاہدہ کیا کہ یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی ۔جیسا کہ حضور نے فرمایا تھا کمیونزم کی ناکامیاں سب کے سامنے آگئیں اور سوویت یونین بکھر کر رہ گیا اور مشرقی یورپ سے بھی کمیونزم کا نظام ختم ہو گیا۔ اور اس کے برعکس چین کے نظام نے بروقت اپنے اندر کچھ تبدیلیاں پیدا کر لیں اور چین ایک بڑی صنعتی قوت کے طور پر سامنے آیا۔
اس کے بعد بہت سے خطبات میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے جماعت کی راہنمائی فرمائی کہ پاکستان کے آئین میں اس ترمیم پر جماعت ِ احمدیہ کا ردِ عمل کیا ہونا چاہئے اور ان کا کچھ ذکر ۱۹۷۵ء کے دور کے ذکر میں آئے گا۔لیکن جب ہم ان تمام خطبات اور تقاریر کو پڑھتے ہیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ جماعت ِ احمدیہ کے ردِ عمل کا حتمی اعلان حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۱۹۷۵ء کے جلسہ سالانہ کے افتتاحی خطاب کے دوران کیا تھا۔جب یہ جلسہ شروع ہوا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سٹیج پر تشریف لے آئے توحسب ِ سابق مشہور احمدی شاعر مکرم ثاقب زیروی صاحب اپنی نظم ترنم سے سنانے کے لئے آئے۔خاکسار کو خود بھی یہ لمحے یاد ہیں۔نظم کا شروع ہونا تھا کہ ایک سماں بندھ گیا۔ اس نظم کا پہلا شعر تھا :
وہ جو گرد سی تھی جمی ہوئی وہ جبیں سے ہم نے اتار دی
شبِ غم اگرچہ طویل تھی شب ِ غم بھی ہنس کے گزار دی
اس نظم کے کچھ اور اشعار یہ تھے
بھلا کیوں بقائے دوام کو نہ ہو ناز ان کے وجود پر
وہ جنہوں نے جاں سے عزیز شے بھی ترے حبیب پہ وار دی
وہی ٹھہرے موردِ کفر بھی جنہیں دین جان سے عزیز تھا
وہی خار بن کر کھٹک رہے ہیں جنہوں نے فصلِ بہار دی
میرے زخم جس میں نہاں رہے مرا درد جس میں چھپا رہا
میرے چارہ گر تیرا شکریہ وہ قبا بھی تو نے اتار دی
جب حضور نے ۲۶؍ دسمبر ۱۹۷۵ء کو جلسہ سالانہ کے افتتاحی اجلاس سے اپنا روح پرورخطاب شروع فرمایا تو آپ نے آنحضرت ﷺ کی مختلف دعائیں پڑھیں اور یہ ارشاد فرمایا کہ دوست آمین کہتے ہوئے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کو ہمارے حق میں بھی جو آپ کی امت میں سے ہیں قبول کرے۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ یہ دعائیں پڑھتے گئے اور جلسہ سالانہ کے حاضرین جو کہ تعداد میں لاکھ سے زائد تھے آمین کہتے رہے۔ان مبارک دعاؤں میں سے جو آخری دعا حضور نے اس جلسہ سالانہ کے موقع پر پڑھی اس کا آخری حصہ یہ تھا
۔۔۔وَانْصُرْنِیْ عَلٰی مَنْ ظَلَمَنِیْ وَ اَرِنِیْ فِیْہِ ثَأْرِیْ وَ أَقِرَّ بِذٰلِکَ عَیْنِیْ
اور حضور نے اس کا یہ ترجمہ پڑھا :
’’۔۔۔اور جو مجھ پر ظلم کرے اس کے خلاف تو میری مدد فرما اور جو بدلہ تو اس سے لے وہ مجھے بھی دکھا دے اور اس طرح میری آنکھ کو ٹھنڈک عطا فرما۔‘‘
اور وہاں پر موجود احباب نے آنحضرت ﷺ کی اس دعا پر آمین کہی۔جیسا کہ جماعت کی تاریخ کا معروف واقعہ ہے کہ جب مارٹن کلارک نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر قتل کا منصوبہ بنانے کا جھوٹا مقدمہ قائم کیا اور اللہ تعالیٰ کی قدرت نے یہ نشان دکھایا کہ انہی کے سکھلائے ہوئے آدمی نے ان کی سازش کا راز افشا کر دیاتو مقدمہ خارج کرتے ہوئے جج ڈگلس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو ان پر مقدمہ کر سکتے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں نے اپنا مقدمہ آسمان پر دائر کر دیا ہے۔۱۹۷۴ء کے دوران جماعت ِ احمدیہ پر جو مظالم کئے گئے اور جس طرح ایک خلافِ اسلام ،خلافِ عقل اور خلافِ آئین فیصلہ کر کے اپنے زعم میں جماعتِ احمدیہ پر ضرب لگائی گئی ،اس کا بیان تو گزر چکا ہے۔ہم یہ ذکر کر چکے ہیں کہ ان اقدامات سے بھٹو صاحب اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے اور اس وقت بظاہر یہ لگ بھی رہا تھا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو بھی گئے ہیں۔وہ سیاسی طور پر اتنے مضبوط کبھی بھی نہیں تھے جتنا اس وقت نظر آ رہے تھے۔ان کے مخالف بھی جن میں مولوی گروہ کی ایک بڑی تعداد شامل تھی ان کے اس فیصلے کی تعریفوں کے پل باندھ رہی تھی۔وہ صرف پاکستان کے مقبول وزیر ِ اعظم ہی نہیں تھے ،عالمی سطح پر بھی ان کا طوطی بول رہا تھا۔دوسرے مسلمان ممالک سے بھی واہ واہ کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔اس پس منظر میں کوئی کہہ سکتا تھا کہ اگر جماعت ِ احمدیہ پر کوئی ظلم ہو گیا ہے تو یہ ایک کمزور سی جماعت ہے ان کی کون سنے گا؟ کون ان کا بدلہ لے گا؟ یہ کمزور گروہ اپنے مقدمے کوکہاں لے کر جائے گا ؟لیکن ۲۶؍دسمبر ۱۹۷۵ء کی صبح کو یہ مقدمہ آسمان پر دائر کر دیا گیا تھا۔بھٹو صاحب جیسے مقبول ،ذہین اور منجھے ہوئے سیاستدان کا اقتدار سے رخصت ہونا اور پھر ایک تکلیف دہ اسیری سے گزرنا اور پھر قتل کے الزام میں ان کو پھانسی کی سزا ملنا ،یہ سب ایسے واقعات ہیں جن پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اس کا بہت کچھ تجزیہ کیا گیا ہے اور آئندہ بھی کیا جائے گا۔لیکن جب بھی کوئی روحانی آنکھ سے ان واقعات کا تجزیہ کرے گا تو اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ ۲۶ ؍دسمبر ۱۹۷۵ء کو کی جانے والی دعا ایک مقدمہ تھی جورب العالمین کے حضور دائر کیا گیا تھا اور چند سالوں کے بعد دنیا کی آنکھ نے فیصلہ بھی مشاہدہ کر لیا۔اس فیصلہ کرنے والوں کا انجام کیا ہوا اور ملک اور قوم کو اس کا کیا خمیازہ بھگتنا پڑا اس کا جائزہ ہم مختلف مرحلوں پر لیتے رہیں گے۔
لیکن پیپلز پارٹی اور قومی اسمبلی میں شریک دوسری جماعتوں کے لیڈر اس وقت سے اب تک فخریہ بیان بازی کرتے آئے ہیں کہ ہم نے ۱۹۷۴ء میں یہ فیصلہ کر کے بڑا تیر مارا تھا ۔گو کہ اب کچھ آوازیں اس طرح کی بھی سننے میںآ رہی ہیں کہ اس کے ساتھ ملک میں تنگ نظری اور مذہبی دہشت گردی کا ایک نیا باب کھل گیا تھا۔جماعت کے مخالف بیان بازی اصول اور سچائی سے کتنا خالی ہوتی ہے۔اس کا اندازہ اس ایک مثال سے ہو سکتا ہے۔
اکتوبر ۱۹۷۵ء میں پاکستان کے وزیر مملکت برائے ریلوے میاں عطا ء اللہ صاحب نے یہ بیان داغا کہ ہم نے تو اس فیصلہ کے ذریعہ ۹۰ سالہ مسئلہ حل کر دیا ہے لیکن قادیانی سازش کر رہے ہیں کہ کسی طرح یہ آئین منسوخ ہوجائے اور اس کا طریقہ یہ استعمال کر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی سے باغی ہونے والے کچھ اراکین کو وہ مالی مدد دے رہے ہیں ۔اس ضمن میں انہوں نے خاص طور پر پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور گورنر غلام مصطفیٰ کھر صاحب کا نام لیا کہ وہ قادیانیوں سے رشوت لے رہے ہیں اور صوبائی خود مختاری کا نعرہ لگا رہے ہیںوزیر موصوف نے بڑے اعتماد سے یہ دعویٰ کیا کہ حکومت کے پاس اس بات کے معین ثبوت موجود ہیں جو جلد منظرِ عا م پر لائے جائیں گے ۔اس کے ساتھ انہوں نے علمِ تاریخ پر طبع آزمائی کرتے ہوئے یہ الزام بھی لگایا کہ قادیانی تو شروع سے ہی قیامِ پاکستان کے مخالف تھے۔(۲۴)
اس سنسنی خیز انکشاف کو تیس سال گزر گئے لیکن اب تک یہ الزا م لگانے والوں کو توفیق نہ ہوئی کہ کوئی ثبوت سامنے لاتے ۔جس طرح انہیں با وجود وعدہ کرنے کے یہ ہمت نہیں ہوئی کہ اسمبلی کی کارروائی کو منظر ِ عام پر لاتے اس طرح یہ نام نہاد ثبوت بھی سامنے نہ آسکا۔لیکن ان کے جھوٹ کی قلعی خدا نے اس طرح کھول دی کہ غلام مصطفیٰ کھر صاحب کو ، جو ان کے مطابق احمدیوں سے رشوت لے کر ملک کے اور پیپلز پارٹی کے خلاف سازشیں کر رہے تھے ،ان کو دوبارہ نہ صرف پیپلز پارٹی میں قبول کیا گیا بلکہ وفاقی وزیر بھی بنا دیا گیا۔
بحیثیت ادارہ پاکستان کی قومی اسمبلی کا انجام
جماعت ِ احمدیہ کا یہ موقف تھا کہ کسی ملک کی اسمبلی کا یہ کام نہیں کہ وہ لوگوں کے مذہبی امور کا فیصلہ کرے۔لیکن جماعت ِ احمدیہ کے انتباہ کے با وجود قومی اسمبلی نے اس مسئلہ پر کارروائی کا آغاز کیا اور ممبرانِ اسمبلی نے اپنے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے بزعمِ خود مفتی بنتے ہوئے خدا کے مامورپر ایمان لانے والوں پر کفر کا فتویٰ بھی لگایا۔یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں ایک سال قبل ہی نیا آئین نافذ ہوا تھا اور جمہوریت کی بحالی اور نئے سیاسی نظا م سے بہت سی امیدیں وابستہ کی جا رہی تھیں ۔ اور جماعت کا وفد اس سپیشل کمیٹی میں سوالات کے جوابات دے رہا تھا تو انہی دنوں میں بڑی امیدوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی نئی عمارت کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ جیسا کہ ہم بعد میں ذکر کریں گے کہ نئے انتخابات ہوئے اور دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے فسادات شروع ہو گئے اور پھر ملک پر ایک طویل مارشل لاء مسلط کر دیا گیا۔اور اس دوران آئین معطل رہا۔پھر آئین بحال ہونے کا وقت آیا تو ایک کے بعد دوسری اسمبلی ٹوٹتی رہی اور اس ادارہ کا وہ حشر ہوا کہ صاحبزادہ فاروق صاحب جو کہ اس کارروائی کے دوران قومی اسمبلی کے سپیکر تھے انہوں نے یہ بیان دیاکہ موجودہ پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کا سنگ ِ بنیاد رکھوانا میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی اور یہ میرا ایک نا قابلِ معافی جرم تھا۔انہوںنے کہا کہ اگر انہیں اندازہ ہوتا کہ اس اسمبلی کی حیثیت صفر ہو جائے گی اور عوام کی رائے خود اس اسمبلی میں بیٹھنے والوں کے ذریعہ ختم کر دی جائے گی تو وہ اس غلطی کا ارتکاب کبھی نہ کرتے۔یہ تھا اس ادارے کا انجام جس نے احمدیوں پر کفر کا فتویٰ لگایا تھا۔(۲۵)
یہ فیصلہ دنیا کی تاریخ میں ایک انوکھا فیصلہ تھا کہ ایک ملک کی سیاسی اسمبلی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ کسی فرقہ کا مذہب کیا ہونا چاہئے۔اس وقت بھی پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی ایک تاریخ تھی جس سے بھٹو صاحب بخوبی واقف تھے۔اور بھٹو صاحب خود بھی برملا اس بات کا اظہار کر چکے تھے کہ ان واقعات کے پیچھے بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔ظاہر ہے کہ جب کسی بیرونی ہاتھ کی خواہش کے مطابق ایسے اقدامات کئے جائیں تو اس سے ملک کو نقصان ہی پہنچ سکتا ہے۔جب ہم نے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے یہ سوال کیا کہ اگر ایسا تھا کہ یہ سب کچھ کوئی بیرونی ہاتھ کرار ہا تھا۔اور یہ ساری سازش پاکستان کی سالمیت اور وحدت کے لئے خطرہ تھی پھر کیوں ان کے مطالبات تسلیم کر لئے گئے اور وہ بھی متفقہ طور پر۔کیا اس سے بیرونی ہاتھ کے شروع کئے گئے کام کو تقویت نہیں ملی ۔اس کے جواب میں ڈاکٹر مبشرحسن صاحب نے کہا
‏’’Actually he always thought (اصل میں ان کا ہمیشہ خیال ہوتا تھا)
کہ وہ کچھ بھی کر لیں اس پر قابو پالیں گے۔‘‘
بھٹو صاحب کا یہ خیال درست ثابت ہو ا یا یہ ان کی سب سے بڑی بھول تھی اس کا جائزہ ہم بعد میں لیں گے۔
اس فیصلہ کے بعداحمدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا ایک سلسلہ شروع کر دیا گیا۔جماعت نے ربوہ کی جو اراضی لیز پر لی تھی،اس میں سے دریا کے ساتھ ملحقہ اراضی پر حکومت نے زبردستی قبضہ کر کے ایک کالونی بنانی شروع کر دی۔اس کالونی کا نام مسلم کالونی رکھا گیا۔اور اس میں پلاٹ لینے کے لئے ایک ہی شرط تھی اور وہ یہ کہ اس پر آباد ہونے والا احمدی نہ ہو۔ویسے تو یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ ربوہ کھلا شہر نہیں ہے مگراب حکومت جماعت کے مخالفین کے ساتھ مل کر ربوہ میں ایک ایسی کالونی آباد کر رہی تھی جو کہ کھلی کالونی نہیں تھی۔جس میں جگہ لینے کے لئے احمدیوں کے لئے دروازے بند تھے۔ ربوہ میں شہر کے نمائندگان کی ٹاؤن کمیٹی کو بے دخل کر دیا گیا اور اس کمیٹی پر حکومت نے ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔جماعت کی طرف سے شائع ہونے والے جرائد کے لئے مشکلات پیدا کی گئیں۔حتیٰ کہ لجنہ اماء اللہ کے شائع کئے گئے ایک پمفلٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مصرعہ ’’یہی ہیں پنجتن جن پر بناء ہے‘‘ شائع ہوا تو اسی پر سیکریٹری لجنہ ،کاتب محمد ارشد صاحب اور سید عبد الحی صاحب پر مقدمہ قائم کر دیا گیا۔سید عبد الحی صاحب اور محمد ارشد صاحب کو کئی روز حوالات میں رکھا گیا اور ان پر مقدمہ کئی ماہ جاری رہا۔
(۱) مشرق ۲۱ ؍اگست ۱۹۷۴ء ص ۱(۲)جائزہ،مصنفہ جسٹس صمدانی،ناشر سنگ ِ میل پبلیکیشنز ص۶۹،۷۰
(۳) مشرق ۲۵؍ اگست ۱۹۷۴ء ص ۱ (۴)مشرق ۲۷؍ اگست ۱۹۷۴ء ص۱(۵) مشرق ۳۱ ؍اگست ۱۹۷۴ء ص۱
(۶) نوائے وقت ۲؍ ستمبر ۱۹۷۴ء ص آخر(۷) امروز ۴؍ ستمبر ۱۹۷۴ء ص۱(۸) نوائے وقت یکم ستمبر ۱۹۷۴ء ص۱
(۹) نوائے وقت ۲؍ ستمبر ۱۹۷۴ء ص۲(۱۰)مشرق ۵؍ ستمبر ۱۹۷۴ء ص۱
(۱۱)بھٹو کے آخری ۳۲۳ دن ،مصنفہ کرنل رفیع الدین ،ناشر جنگ پبلیکیشنز ،ص۶۶(۱۲) امروز ۶؍ ستمبر ۱۹۷۴ء ص۱
(۱۳)نوائے وقت ۶؍ ستمبر ۱۹۷۴ء ص۱(۱۴) خطبات ِ ناصر جلد ۵ ص۶۲۴۔۶۲۵،۶۳۰
)۱۵)ڈان ۹؍ ستمبر ۱۹۷۴ء ص اول و آخر (۱۶)نوائے وقت ۸ ؍ستمبر ۱۹۷۴ء ص۱(۱۷)نوائے وقت ۹ ؍ستمبر ۱۹۷۴ء ص۱
‏(۱۸)The Sunni Shia Conflict In Pakistan,by Musa Khan Jalalzai, published by Book Traders ,1998, page 235
‏.4(.4۱۹.4).4Breaking The Curfew,By Emma Duncan, published by Arrow books, page 222-22.43
(۲۰) خطبات ِ ناصر جلد پنجم ص ۶۳۱تا ۶۴۱(۲۱) الفضل ۱۷ ؍اپریل ۱۹۷۶ء ص۲(۲۲) الفضل ۱۷ ؍اپریل ۱۹۷۶ء ص۶
(۲۳) رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۷۲ء ص ۵ تا۹(۲۴) پاکستان ٹائمز ،۱۴ ؍اکتوبر ۱۹۷۵ء (۲۵) روزنامہ ایکسپریس ،۲۵ جنوری ۲۰۰۸ء ص۱
ربوہ کی زمین کا کچھ حصہ قومیایا جانا
ربوہ کی زمین صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے حکومت پنجاب سے خریدی تھی۔ زمین کا سودا ہوتے ہوئے باقاعدہ شرائط طے ہوئی تھیں۔ ان میں ایک شرط یہ تھی کہ زمین ’’احمدیہ کالونی ‘‘ ’’جس کا نام ربوہ ‘‘ ہوگا بنانے کے لئے صدر انجمن کو فروخت کی جارہی ہے۔ مورخہ 30-11-1949 کو اس معاہدہ پر حکومت اور انجمن کی طرف سے دستخط کئے گئے۔
ربوہ کی ٹاؤن پلاننگ کا نقشہ باقاعدہ منظور ہوا۔ اس پلاننگ کے تحت پلاٹ بنا کر احمدیوں کو 99 سالہ پٹہ پر دئیے گئے۔
حکومت پنجاب نے مورخہ 22 نومبر 1975ء کو ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا کہ گورنر پنجاب نے ربوہ میں کم آمدنی کے لوگوں کے لئے 56 ایکڑ پر محیط رقبہ پر ہاؤسنگ سکیم کی منظوری دی ہے۔ اس سکیم کے محل وقوع کو ظاہر کرنے کے لئے نوٹیفیکیشن میں صرف یہ درج کیا گیا کہ اس مطلوبہ زمین کے مشرق میں ریلوے لائن جنوب میں دریا شمال میں ربوہ کی آبادی اور مغرب میں سٹرک ہے۔ اس پہلے نوٹیفیکیشن کے بعد Land Acquistion Collector سرگودھا کی طرف سے ایک اور نوٹیفیکیشن مورخہ 11 دسمبر 1975ء کو جاری کیا گیا جس میں زمین کی تفصیل خسرہ نمبر وغیرہ کے حساب سے دے کر متاثرہ لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے معاوضہ کے مطالبہ جات جمع کرادیں۔
مورخہ 23 دسمبر 1975ء کو ایک اور نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا جو کہ 27 دسمبر کو شائع ہوا کہ DC جھنگ نے فیصلہ کیا ہے کہ زمین فوری طور پر درکار ہے اس لئے Acquistion of Land (Housing) Act 1973 کی دفعہ 13 کے تحت کولیکٹرHousing and Physical Planning سرکل لائلپور کو یہ اختیار دیا جارہا ہے کہ وہ فی الفور اس زمین کو اپنے قبضہ میں لے لے۔ یہ امر مد نظر رہے کہ حکومت یہ زمین Acquistion of Land (Housing) Act 1973 کے تحت Acquire کر رہی تھی۔ اس لئے اس قانون کی تمام شقوں کا اطلاق اس Acquistion پر بھی ہوتا ہے۔ اس لئے جو عدالت میں رٹیں (Writs) دائر کی گئیں وہ بھی اس قانون کو مد نظر رکھ کر کی گئیں۔
جب یہ سب نوٹیفیکیشن جاری ہوگئے تو 1976ء کے اوائل میں ہائیکورٹ میں ان کے خلاف 3عدد Writ Petitions دائر کی گئیں۔ ان رٹ پٹیشن کو درج ذیل صورت میں تقسیم کیا گیا۔
:1 صدر انجمن احمدیہ پاکستان اور بعض پٹہ گیر برخلاف پنجاب گورنمنٹ، 2 ۔ DC جھنگ
3-Land Acquistion Collector Sargodha, Housing and Physical Planning Circle. Lyellpur
رٹ نمبر575/1976
:2 پٹہ گیروں کی جانب سے برخلاف صوبہ پنجاب ، 2 ۔سیکرٹری ہاؤسنگ اینڈ فزیکل پلاننگ ڈیپارٹمنٹ سول سیکٹریٹ، 3 ۔DC جھنگ، 4 ۔ کولیکٹر ہاؤسنگ اینڈ فزیکل ڈیپارٹمنٹ سرکل لائلپور، 5 ۔ایڈمنسٹریٹر ٹاؤن کمیٹی ربوہ۔ 6 ۔ صدر انجمن احمدیہ پاکستان
رٹ نمبر606/1976
:3 پٹہ گیروں کی جانب سے برخلاف صوبہ پنجاب، 2 ۔ DC جھنگ، 3 ۔ کولیکٹر ہاؤسنگ اینڈ فزیکل ڈیپارٹمنٹ سرکل لائلپور، 4 ۔صدر انجمن احمدیہ پاکستان، 5 ۔ مجلس تحفظ ختم نبوت۔
رٹ نمبر 942/1976
صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے خلاف پٹہ گیروں کی جانب سے رٹ اس لئے کی گئیں تھیں کیونکہ انجمن نے پٹہ گیروں کو پلاٹ دیئے تھے اس لئے انجمن کو فریق بنانا ضروری تھا۔
ان رٹوں میں جماعت کی طرف سے جو قانونی نقاط اٹھائے گئے ہیں ان کا خلاصہ ذیل میں درج ہے:
:1 ایک ٹاؤن پلاننگ حکومت کی طرف سے ربوہ کی منظور شدہ تھی اس کو نہ تو منسوخ کیا گیا اور نہ ہی معطل کیا گیا بلکہ اس پر حکومت نے ایک اور ٹاؤن پلاننگ بنادی۔
:2 حکومت کے پاس اس چیز کا کوئی قانونی اختیار نہیں ہے کہ ایک سکیم جو حکومت کی منظور شدہ ہو اس پر نظر ثانی کرے یا اس کا از سر نو جائزہ لے۔
:3 نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے قانونی لوازمات کو پورا نہیں کیا گیا۔
:4 اصل ربوہ کی سکیم بھی اسی مقصد یعنی کم آمدنی والوں کے لئے تھی اس پر ایک اور سکیم کم آمدنی والے لوگوں کے لئے بنائی گئی اور کم آمدنی والے لوگوں کو ہی ان کے حق سے محروم کیا گیا۔
‏:5 Land Acquistion Collector (Housing and Physical Planning) نے زمین کا قبضہ حاصل نہ کیا ہے اور نہ جو لوگ قابض ہیں ان کو نوٹس دئیے گئے ہیں۔
:6 ہمارے وکیل کی بار بار کی درخواست کے باوجود کہ Acquistion کی کارروائی اور Notices کی مسل ہمیں دکھائی جائے لیکن نہیں دکھائی گئی۔
:7 قریب ہی صنعتی شہر چنیوٹ میں کافی خالی زمین موجود ہے وہاں آسانی سے کم آمدنی والوں کے لئے کالونی بنائی جاسکتی ہے۔
اس بنیاد لینے کی وجہ یہ تھی کہ عام طور کم آمدنی والوں کی کالونیاں ایسی جگہوں پر بنائی جاتی ہے جو صنعتی علاقوں کے پاس ہوں۔
:8 اس سکیم کے تحت زمین کم آمدنی والوں کے لئے لی جارہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 10 مرلہ کے پلاٹوں کے مالکان سے زمین لے کر ایک کنال کے پلاٹ الاٹ کئے جارہے ہیں۔ جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ سکیم بد نیتی پر مشتمل ہے۔
رٹ 575/1976 میں جو مزید بنیادیں لی گئی ہیں وہ ذیل میں درج ہیں:
1 ۔ ربوہ میں زمین Acquire کرنے کی تجویز احتجاج کرنے والوں کی طرف سے اس غلط بنیاد پر دی گئی تھی کہ ربوہ ایک بند شہر ہے اسے کھلا شہر قرار دیا جائے۔
رٹ کے واقعات تحریر کرتے ہوئے پس منظر میں ربوہ ریلوے اسٹیشن کے واقعہ کا ذکر کیا گیا اور سارے پاکستان میں فسادات کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔ یہاں احتجاج کرنے والوں سے وہ فسادی لوگ مراد ہیں۔
2 ۔ اس امر سے بھی اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کا کتنا اثر مقامی انتظامیہ پر تھا کہ ربوہ میونسپل کمیٹی کی حدود میں دفعہ 144 لگا کر ہر قسم کی تعمیر پر پابندی لگائی گئی تھی۔
3 ۔ اخبارات میں بیان چھپا ہے کہ یہ زمین صرف مسلمانوں کے لئے لی جارہی ہے یعنی ان مسلمانوں کے لئے جو قانون کی نظر میں مسلمان ہیں یعنی جو قانون کی نظر میں مسلمان نہیں ہیں ان کے لئے نہیں لی جارہی۔
یہ صرف بیان ہی نہیں تھا بلکہ آج تک گزشتہ 33 سالوں میں جتنی بھی نیلامی کے اشتہار آئے ہیں ان میں یہ شرط ہوتی ہے کہ صرف مسلمان ہی درخواست دے سکتے ہیں۔
4 ۔ یہ بات کہ زمین کا قبضہ حکومت نے لے لیا ہے بھی غلط ہے کیونکہ Petitioner نمبر 2 تا 22 ابھی بھی اپنے پلاٹوں پر قابض ہیں۔ (جن پٹہ گیروں کی طرف سے رٹ کی گئی ہے)
5 ۔ حکومت کا کوئی افسر بھی اس قانون کی دفعہ 6 اور 7 میں دیئے ہوئے لوازمات کے بغیر کسی جائیداد پر قبضہ نہیں کر سکتا۔
6 ۔ The Aquisition of Land (Housing) Act 1973 کے مطابق پلاننگ اور ڈیویلپمنٹ حکومت کی کسی منظور شدہ سکیم کیلئے ہونی چاہیئے لیکن بظاہر اس قانون کے تحت کوئی سکیم ہی بنائی نہیں گئی۔ جس کے تحت سارا کام ہو۔
7 ۔ ربوہ کی زمین کی موجودہ بازاری مالیت 25 ہزار روپے کنال سے کم نہیں ہے۔ اس قانون کی دفعہ 9 کے مطابق زیادہ سے زیادہ جو معاوضہ Acquire کی گئی زمین کا دیا جا سکتا ہے وہ 20 ہزار روپے کنال ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقننہ کا یہ منشاء نہیں ہے کہ غریب لوگوں کے ایسے قیمتی پلاٹ لے کر اپنی مرضی کے لوگوں کو الاٹ کر کے نوازا جائے۔
8 ۔ آئین اسمبلی ، حکومت یا اس کے کسی افسر کو لامتناہی اختیارات نہیں دیتا کہ وہ کسی بھی جائیداد کا انتخاب اس جائیداد کی بازاری قیمت سے کم میں کریں۔ اس وجہ سے قانون کی دفعہ 11 آئین پاکستان کے خلاف ہے۔
9 ۔ ربوہ ٹاؤن سکیم کے تحت بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے کوئی شہری رہائشی پلاٹ انڈیا میں چھوڑے ہوئے رہائشی پلاٹوں کے بدلہ میں نہیں لیا۔
10 ۔ گرین بیلٹ ربوہ کے رہائشیوں کے فائدہ کے لئے رکھی گئی تھیں جو کہ صرف پلاننگ میں درج مقاصد کے لئے ہی استعمال ہوسکتی ہیں۔ کوئی پٹہ گیر انجمن کی اجازت کے بغیر کوئی پلاٹ کسی اور کو منتقل نہیں کرسکتا۔ اور نہ ہی کوئی پٹہ گیر(Lease Holder) انجمن کے قواعد کے خلاف کوئی تعمیر کر سکتا ہے۔
درج بالا بنیادوں کی بناء انجمن اور اس کے پٹہ گیروں نے ان نوٹیفیکیشنز کو چیلنج کیا تھا۔ 04-03-1976 کو انجمن اور دوسرے پیٹیشنرز کو عدالت عالیہ لاہور کی طرف سے حکمِ امتناعی (Stay Order)درج ذیل الفاظ میں مل گیا:
Status quo shall be maintained meanwhile, that is to say, the petitioners, who claims to be in possession, shall not be dispossessed.
لیکن سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حکم امتناعی کے باوجود حکومت نے مسلم کالونی کے پلاٹوں کی الاٹمنٹ جاری رکھی اس کے خلاف عدالت عالیہ لاہور میں Contempt of Court کی درخواست بھی دی گئی۔ حکومت کے متعلقہ افسران کو بھی حکم امتناعی کی نقول ارسال کی گئی لیکن یہ سب بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہی رہا اور حکومت نے Acquire کی گئی زمین کے اکثر حصہ پر کالونی تعمیر کرلی۔ اب ان رٹوں کی سماعت مکمل ہو کر مسل فیصلہ کے لئے محفوظ ہے۔ لیکن جو دو جج سماعت کر رہے تھے ان میں سے ایک جج PCO جج ہونے کی وجہ سے آج کل کام نہیں کر رہا۔
اصولاًتو ایک رٹ کا فیصلہ دو تین ماہ یا زیادہ سے زیادہ ایک سال میں آجانا چاہیئے کیونکہ اس میں کوئی شہادت وغیرہ تو لینی نہیں ہوتی صرف قانون کی تشریح کرنی ہوتی ہے۔ لیکن جماعت احمدیہ کے ساتھ ہی یہ خاص سلوک ہے کہ اِس اور اِس کی طرح اور رٹوں کے فیصلے آج تقریباً 33 سال گزرنے کے باجود نہ ہوسکے۔
نواب محمد احمد قصوری کا قتل
۱۰ اور ۱۱ ۔نومبر ۱۹۷۴ء کی درمیانی رات کو احمد رضا قصور ی صاحب اپنے والد نواب محمد احمد صاحب کے ہمراہ اپنی کار میں ایک شادی سے ماڈل ٹاؤن لاہور میں واقعہ اپنے گھر واپس آ رہے تھے۔وہ کار کو ڈرائیو کر رہے تھے اور نواب محمد احمد صاحب ان کی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ ان کی والدہ اور ان کی بہن پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے۔جب وہ شاہ جمال ۔شادمان کے چوک(Round about)پر پہنچے توان کی گاڑی پر گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔ احمد رضا قصوری صاحب کو تو کوئی گولی نہیں لگی لیکن ان کے والد گولیوں کی زد میں آ گئے اور گاڑی کا فرش خون سے بھر گیا۔وہ اسی گاڑی کو لے کر یو سی ایچ ہسپتال پہنچے لیکن ان کے والد جانبر نہ ہو سکے۔ان کے سر پر ایک سے زیادہ گولیاں لگی تھیں۔واقعہ کی اطلاع ملنے پر پولیس افسران جب ہسپتال پہنچے تو احمد رضا قصوری صاحب نے ایف آئی آر میں یہ درج کرانے پر اصرار کیا کہ میں اپوزیشن کا ممبر قومی اسمبلی ہوں اور مجھے وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میںدھمکی دی تھی کہ میں اب تمہیں برداشت نہیں کر سکتا ۔قصوری صاحب نے وزیرِ اعظم کا نام ایف آئی آر میں درج کرانے پر اصرار کیا۔بھٹو صاحب اس وقت اقتدار میں تھے تحقیقات بے نتیجہ رہیں اور احمد رضا قصوری صاحب ایک بار پھر بھٹو صاحب کی پارٹی میں شامل ہو گئے۔بلکہ ان کی تعریف میں خطوط بھی لکھتے رہے۔اور جب ۱۹۷۷ء کا الیکشن آیا تو وہ پی پی پی کے ٹکٹ کے لئے درخواست گذار بھی ہوئے مگر انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا۔
انجام بلند ایوانوں کا
بھٹو صاحب احمدیوں کے خلاف آئین میں ترمیم سے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرناچاہتے تھے یہ کوئی مفروضہ نہیں ۔یہ ایک حقیقت ہے جس کا اقرار خود ان کے قریبی رفقاء اور وہ وزراء جو اس کام میں ان کے ساتھ رہے تھے وہ بھی کرتے ہیں۔بھٹو صاحب کی کابینہ کے وزیر برائے اطلاعات اور نشریات کوثر نیازی صاحب تحریر کرتے ہیں:۔
’’یہ ۱۵ ستمبر کی خنک رات تھی(جماعت ِ احمدیہ کے خلاف آئینی ترمیم ۷ ستمبر کو منظور کی گئی تھی۔ناقل ) وزیر ِ اعظم بھٹو نے فرائضِ منصبی نمٹانے کے بعد عبدالحفیظ پیرزادہ، رفیع رضا اور مجھے ڈنر کے لئے اپنی قیام گاہ پر روکا ہوا تھا۔وہ حسبِ معمول تھوڑا سا بھنا ہوا قیمہ پلیٹ میں رکھے بیٹھے تھے۔بے تاثر چہرے کے ساتھ ہم تینوں کی طرف دیکھتے ہوئے نہایت سنجیدگی سے بولے۔
’’یوم تشکر جس انداز میں منایا گیا ،اس کا حکومت کو کیا فائدہ ہوا؟‘‘
وہ احمدیوں سے متعلق آئینی ترمیم کا حوالہ دے رہے تھے جس کی خوشی میں پاکستان بھر میں یوم تشکر منایا گیا تھا بھٹو صاحب کا خیال تھا کہ آئین میں اس ترمیم کا جو کریڈٹ حکومت کو ملنا چاہئے تھا وہ انہیں نہیں ملا،ان کو شکایت تھی کہ ۔۔۔۔۔۔’’مولوی لوگ زبردستی اس کا سہرا اپنے سر باندھ رہے ہیں جس کے لئے ہمیں لوگوں کو اصل صورت حال بتانا چاہئے۔‘‘
’’لوگ اصل صورت ِ حال جانتے ہیں جناب ‘‘ حفیظ نے اپنی روایتی اکڑ فوں کامظاہرہ کیا۔
’’مولویوں کے کتنے آدمی اسمبلیوں میں ہیں ؟عوام انہیں خوب جانتے ہیں،وہ ان کے کھوکھلے دعووں کے فریب میں نہیں آئیں گے۔میرے خیال میں حکومت کو پورا کریڈٹ ملا ہے۔‘‘
’’آپ کا کیا خیال ہے مولانا‘‘ وزیر ِ اعظم بھٹو نے نیم واآنکھوں اور دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ مجھ سے سوال کیا۔۔۔۔۔۔
جب انہوں نے مجھ سے میرا خیال پوچھا تو ان کے ذہن میں در حقیقت صرف کریڈٹ کی بات نہ تھی معاملہ حقیقتاََ کچھ اور تھا۔ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگا کر میں نے محتاط انداز میں بولنا شروع کیا۔
ــ’’یہ درست ہے کہ علماء اس کا سہرا اپنے سر باندھ رہے ہیں کیونکہ وہ ایک مدت سے یہ مہم چلا رہے تھے۔ان کی طرف سے قربانیاں بھی دی گئیں لیکن فیصلہ تو بہر حال آپ کی حکومت نے کیا ہے۔اب جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں۔آپ انتخابات کے نقطہ نظر سے سوچ رہے ہیں۔۔۔اس اقدام سے مذہبی حلقوں میں آپ کی مقبولیت یقیناََ بڑھی ہے۔لیکن انتخابات کے نتائج کبھی ان حلقوں میں مرتب نہیں ہوتے۔سیاسی فیصلہ ہمیشہ سوادِ اعظم کا ہوتا ہے۔۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۱۵ ستمبر کی اس رات جب بھٹو صاحب نے مجھ سے میرا خیال پوچھا تو میں نے اس وقت کی ملکی جذباتی فضا کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہی انہیں پھر انتخابات کے انعقادکا مشورہ دیا۔مسٹر بھٹو احمدی مسئلہ پر قومی اسمبلی کا فیصلہ کرانے کے بعد انتخابات کے نقطہ نظر ہی سے سوچ رہے تھے۔‘‘ (۱)
ہم اس مرحلہ پر ٹھہر کر جائزہ لیتے ہیں کہ ۱۹۷۴ء میں آئینی ترمیم کرنے کے بعد حکمران سیاستدان کس نفسیات سے حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔کچھ روز پہلے ہی آئین میں ایک انوکھی ترمیم کی گئی تھی۔جس کے نتیجہ میں اسمبلی نے بزعمِ خود یہ اختیار لے لیا تھا کہ وہ یہ تعین کرے کہ کس گروہ کا مذہب کیا ہو۔اس ترمیم کے نتیجہ میں بہت سے بھیانک مضمرات سامنے آ سکتے تھے اور ملک میں تنگ نظری اور مذہبی تعصب کا ایک نیا باب کھل سکتا تھا۔مستقبل میں بہت سے آئینی اور قانونی مسائل سر اُٹھا سکتے تھے۔اور ایسا ہوا بھی اور یہ عمل اب تک جاری ہے۔انہی غلطیوں کی وجہ سے ملک ایک تاریک گڑھے میں گرتا جا رہا ہے۔ملک کا امن و امان برباد ہو چکا ہے۔لیکن اس وقت کے حکمرانوں کو اگر کوئی فکر لاحق تھی تو صرف یہ کہ ان کے ووٹوں پرکیا اثر پڑے گا۔اس نام نہاد کارنامے کا کریڈٹ کسے کتنا مل رہا ہے۔یہ فیصلہ اچھا تھا کہ ُبرا ،اس بحث کو تو رہنے دیں لیکن اس کا ملک پر بھی تو کوئی اچھا برا اثر پڑنا تھا۔ان بالا ایوانوں میں یہ سوچنے کی زحمت کوئی نہیں کر رہا تھا۔اتنی دور کی کون سوچتا اور ملک کی فکر کس کو تھی۔یونین کونسل کے امیدواروں کی طرح صرف یہ فکر کی جا رہی تھی کہ اوہو کہیں مخالف اس کا سہرا اپنے سر نہ باندھ لے۔دور بینی کے دعووں کے باجود ان کی دور کی نظر کمزور ہو چکی تھی۔اور کوثر نیازی صاحب کو یہ تو یاد رہ گیا کہ اس رات بھٹو صاحب کی پلیٹ میں بھنا ہوا قیمہ پڑا ہوا تھا لیکن یہ ذکر انہوں نے نہیں کیا کہ ان فسادات میں کتنی بے رحمی سے احمدیوں کو شہید کیا گیا تھا۔باپوںنے بیٹے کو شہید ہوتے دیکھا ۔بے بس بیٹیوں نے باپوں کو ظلم کی بھینٹ چڑھتے دیکھا ۔اور انہیں تنہا اپنے باپ کی لاش اُٹھانی پڑی۔ان کے گھروں اور دوکانوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔۔مریضوں کو دوائیاں بھی نہ مل سکیں۔ معصوم بچے مر گئے توتدفین بھی نہ ہونے دی۔سوشل اور اقتصادی بائیکاٹ کیا گیا۔لیکن یاد رہا تو کیا ؟ کہ بھٹو صاحب کی پلیٹ میں قیمہ پڑا ہوا تھا اور کوثر نیازی صاحب کو تو قیمے کی مقدار بھی یاد رہ گئی۔اس محفل کی روئیداد سن کر تو بہادر شاہ ظفر کے دربار کی حالت یاد آجاتی ہے جس کا نقشہ کتاب بزمِ آخر میں کھینچا گیاہے۔اس میں یہ ذکر تو نہیںملتا کہ اس دربار میں قوم اور ملک یا دہلی کے مستقبل کی بات بھی ہوتی تھی البتہ بہادر شاہ ظفر کے دستر خوان کی لمبی فہرست بڑے اہتمام سے لکھی گئی ہے۔ایسی بزم بالآخر ’’بزمِ آخر ‘‘ہی ثابت ہوتی ہے۔
حکومت کے ایوانوں میں تو یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر اور آئین میں یہ ترمیم کر کے وہ کتنے ووٹ حاصل کر سکتے ہیں اور دوسری طرف جماعت ِ احمدیہ کا ردِ عمل کیا تھا،اس کا اظہار حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس گفتگو سے صرف دو روز قبل پہلے خطبہ جمعہ میں ان الفاظ میں فرمایا تھا :
’’باقی جہاں تک کسی کے مسلم یا غیر مسلم ہونے کا سوال ہے یہ تو میں شروع سے کہہ رہا ہوں اس قرارداد سے بھی بہت پہلے سے کہتا چلا آیا ہوںکہ جس شخص نے اپنا اسلام لاہور کی مال (روڈ)سے خریدا ہو،وہ تو ضائع ہو جائے گا لیکن میں اور تم جنہیں خدا خود اپنے منہ سے کہتا ہے کہ تم (مومن) مسلمان ہو تو پھر ہمیں کیا فکر ہے۔ دنیا جو مرضی کہتی رہے تمہیں فکر ہی کوئی نہیں۔۔‘‘(خطبات ناصر جلد پنجم ص ۶۴۱)
بہت سی وجوہات پر ۱۹۷۴ء میں قبل از وقت انتخابات تو نہیں کرائے گئے مگر۱۹۷۷ء میں وقت سے کچھ عرصہ قبل انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔انتخابات کا اعلان کرنے سے قبل بھٹو صاحب نے کچھ زرعی اصطلاحات نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔نہری اراضی کے لئے زیادہ سے زیادہ ملکیت کی حد ۱۵۰ ایکڑ سے کم کر کے ۱۰۰ ایکڑ اور بارانی اراضی کی زرعی زمین کے لئے زیادہ سے زیادہ ملکیت کی حد ۳۰۰ ایکڑ سے کم کر کے ۲۰۰ ایکڑ کر دی گئی۔ان کے ایک قریبی معتمد اور وفاقی وزیر اور ان کی انتخابی مہم کے نگران رفیع رضا صاحب لکھتے ہیں۔
‘‘ZAB(Zulfikar Ali Bhutto)thought this would surprise the leftist in the PPP; having outflanked the rightist parties on the Qadiani issue, he now wanted to do the same to the left.’’
ترجمہ :ذوالفقار علی بھٹو کا خیال تھا کہ یہ قدم پی پی پی میں بائیں بازو کے لوگوں کو حیران کر دے گاوہ قادیانی مسئلہ پردائیں بازو کی جماعتوں کو مات دے چکے تھے اب وہ بائیں بازوکو بھی مات دینا چاہتے تھے۔(۲)
باوجود تمام تجربہ اور ذہانت کے بھٹو صاحب اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ خواہ وہ زرعی اصطلاحات کا معاملہ ہو یا آئین میں مذہبی ترمیمات کا قضیہ ہو ،ایسے فیصلوں کے ملک پر قوم پر اور سیاسی عمل پر دور رس نتائج مرتب ہوتے ہیں اور یہ سب معاملات پیشِ نظر رکھتے ہوئے ان کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا چاہئے ۔اگر صرف یہ سوچ کر یہ اقدامات کئے جائیں کہ اب اس کے ذریعہ میں دائیں بازو کو مات دے دوں یا اب اس کے ذریعہ میں بائیں بازو کو پچھاڑ دوں گا تو یہ تو بہت سطحی سوچ ہو گی اور نہ صرف ملک کے لئے بلکہ فیصلہ کرنے والوں کے حق میں بھی اس کے بہت خوفناک نتائج نکل سکتے ہیں اور ایسا ہی ہوا۔
جب الیکشن کا سال آیابھٹو صاحب نے ۷ ؍مارچ کو قومی اسمبلی کا انتخاب کرانے کا فیصلہ کیا ۔اور سب سے پہلے وفاقی وزراء میں سے عبد الحفیظ پیرزادہ اور رفیع رضا صاحب اور امریکہ کے سفیر بایوروڈ(Byroade)کو اس فیصلہ سے مطلع کیا۔ایک اہم ملکی معاملہ میں سب سے پہلے ایک غیر ملکی سفیر کو اعتماد میں لیا جا رہا تھا جب کہ خودان کے اکثر وزراء اس فیصلہ سے بے خبر تھے۔(۳)
۷؍ جنوری ۱۹۷۷ء کو وزیر ِ اعظم بھٹو نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک طویل تقریر کی۔اس میں پہلے انہوں نے اپنے دور ِ اقتدار کی کامیابیوں کا ذکر کیا۔اسلام کے لئے اپنی خدمات کا ذکر کیا اور ۱۹۷۳ء کے آئین کی تشکیل کے کارنامے کا ذکر کیا۔انہوں نے اپنی اقتصادی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے ڈرامائی انداز میں ایک بوتل نکالی کہ پاکستان میں ڈھوڈک کے مقام پر تیل دریافت ہوا ہے اور اپوزیشن کے لیڈر مفتی محمود صاحب کو سونگھائی کہ یہ تیل ہے۔پھر انہوں نے انتخابات کی نئی تاریخ کا اعلان کیا۔اس کے علاوہ اپنے دور ِ اقتدار کو مزیدمشرف بہ اسلام کرنے کے لئے انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ اب سے جمعہ کے روز تعطیل ہو گی۔اور کہا کہ اتوار کی تعطیل ایک غیر اسلامی چیز تھی جس کی اصلاح کر دی گئی ہے اور پھر فخریہ انداز میں کہا کہ یہ فرض بھی ہم گنہگاروں نے انجام دیا ہے۔(۶)
بھٹو صاحب کوذاتی طور پرمذہب سے تو کم ہی دلچسپی تھی لیکن عموماََ یہ رجحان ضعیف الاعتقادی کی طرف بھی لے جاتا ہے۔چنانچہ اب جو انتخابات کا اعلان ہوا تو بھٹو صاحب نے نجومیوں اور دست شناسوں کی طرف رجوع کیا۔ان کے ایک صوبائی وزیر انتخابات کی تاریخ کے سعد ہونے کی سند لینے کے لئے سری لنکا دوڑے دوڑے گئے تاکہ وہاں کے نجومیوں کی رائے لی جا سکے۔اور جب ان نجومیوں نے اس کے حق میں رائے دی تو انتخابات کا اعلان کیا گیا۔پھر بھٹو صاحب نے اپنے ہاتھ کی لکیروں کا عکس ایک دست شناس کو بھجوایا۔
اس وقت اپوزیشن بٹی ہوئی تھی اور اس میں کوئی جان نظر نہیں آرہی تھی۔لیکن جلد ہی اپوزیشن کی نو جماعتوں نے اتحاد کا اعلان کیا اور اقتدار میں آ کرنظامِ مصطفیٰ نافذ کرنے کا اعلان کیا۔اور اس کے ساتھ ہی بھٹو صاحب کے خلاف ایک منظم اور جاندار انتخابی مہم شروع ہو گئی۔دوسری طرف بہت سے لیڈروں نے جو پہلے کسی زمانے میں بھٹو صاحب کے سخت مخالف رہ چکے تھے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ کے حصول کے لئے بزعمِ خود اپنے ہزاروں ساتھیوں سمیت پیپلز پارٹی میں شمولیت کے اعلانات کرنا شروع کر دیئے۔یہ علیحدہ بات ہے کہ بھٹو صاحب کے وزیر رفیع رضا صاحب کے مطابق اگر ان دعووں کی تعداد جمع کر دی جاتی تو پاکستان کی آبادی سے دوگنی نکلتی۔لیکن بھٹو صاحب اس صورت ِ حال میں بہت خوش تھے ۔
جب انتخابات کے لئے پارٹی کے منشور کی تیاری کا مرحلہ آیا تو رفیع رضا صاحب بیان کرتے ہیں کہ وزیر ِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے خود اصرار کیا کہ حکومت کے کارنامے بیان کرتے ہوئے منشور میں یہ حصہ ضرور شامل کیا جائے
’’نوے سالہ قدیم قادیانی مسئلہ کو خوش اسلوبی سے طے کر دیا ۔دستور میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص حضرت محمدمصطفیٰ ﷺکو قطعی اور غیر مشروط طور پر آخری نبی نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں۔‘‘(۵۔۲۶)
بھٹو صاحب نے بھی ایک بھرپور انتخابی مہم شروع کی۔پہلے جو ہوا تھا وہ تو ہوا تھا لیکن اس مہم کے دوران بھی بھٹو صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق گستاخانہ کلمات استعمال کئے۔ انہوں نے قومی اتحاد کے لیڈروں کے متعلق یہ بیان دیا:
’’۔۔۔۔۔اگر الیکشن جیتنے کے لئے ان لوگوں کو مرزا غلام احمد قادیانی کی قبر پر بھی جانا پڑا تو یہ دریغ نہیںکریں گے‘‘(۴)
یہ نہ صرف ایک مامور من اللہ کی شان میں گستاخی تھی بلکہ سیاست کے اعتبار سے بھی تیسرے درجہ کی بیان بازی تھی۔بہر حال اپنے بھیجے ہوئے مامورین کی شان میں گستاخی کا بدلہ خود خدا تعالیٰ لیتا ہے۔
بھٹو صاحب نے تو اپنی دانست میں احمدیوں کے خلاف آئین میں ترمیم کر کے مذہبی حلقوں کو مکمل طور پر لاجواب کر دیا تھا لیکن اب تمام مخالف جماعتیں قومی اتحاد کے نام سے اتحاد بنا کر ان کے خلاف صف آراء تھیں اور ان کا نعرہ تھا کہ وہ پاکستان میں نظامِ مصطفیٰ نافذ کریں گے۔اور مولویوں کا گروہ بھٹو صاحب کے خلاف سب سے زیادہ سرگرم تھا۔
مقررہ تاریخوں کو انتخابات ہوئے۔نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی نے ۱۳۶ اور مخالف قومی اتحاد نے صرف ۳۶ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔اپوزیشن نے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلیوں کا الزام لگایا اور نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔اور اس کے ساتھ صوبائی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا گیا۔جو کہ کامیاب رہا اور بہت کم لوگ صوبائی انتخابات میں ووٹ ڈالنے آئے۔
اپوزیشن وزیر اعظم کے مستعفی ہونے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی تھی۔یہ مہم تیز تر ہوتی گئی ۔ بھٹو صاحب کے اکثر پرانے رفقاء انہیں چھوڑ چکے تھے یا پھر بھٹو صاحب نے خود ہی انہیں اپنے غضب کا نشانہ بنا کر اپنے سے علیحدہ کر دیا تھا۔با وجود ایک طاقت ور اور قدآور شخصیت ہونے کے اس وقت وہ تنہا اور بے بس نظر آرہے تھے۔ان کے پرانے رفیق اور سابق وفاقی وزیر رفیع رضا صاحب لکھتے ہیں:
’’پی پی پی کے ابتدائی گروہ میں سے اب صرف ممتاز بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تھے اور اس کی وجوہات بھی خاندانی تھیں۔میں اور ممتاز اس بات پر تبصرہ کیا کرتے تھے کہ کس طرح اس وقت بھٹو صاحب نے اپنی ایجنسیوں کی بجائے ہمارے سے رجوع کیا ہے اگرچہ میں اس وقت وزیر نہیں تھا۔گو بد قسمتی سے اس وقت تک بہت کچھ بگڑ چکا تھا۔وہ بالکل بے بس نظر آتے تھے۔ان کے پاس کہنے کو کوئی نئی بات نہیں تھی ۔ان کے پاس کرنے کو کچھ نیا نہ تھا۔وہ پی پی پی کے پرانے دوستوں اور ساتھیوں کو کھو چکے تھے۔پبلک اور پارٹی کا جو کچھ بھی بچا تھا ان کی مدد کو نہیں آ رہا تھا۔اور اب انہیں احساس ہو گیا ہو گا کہ وہ طاقت پر بہت زیادہ انحصار کرتے رہے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ ممتاز نے کچھ مہینے پہلے یہ پیشگوئی کی تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو جس سمت میں جا رہے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ فوج ان کا تختہ الٹ دے گی۔‘‘
اس وقت پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل مبشر حسن صاحب تھے ۔وہ پہلے بھی تحریری طور پر بھٹو صاحب کو متنبہ کر چکے تھے کہ اس رویہ کا انجام اچھا نہ ہو گا۔وہ اس صورت ِ حال میں بالکل دل برداشتہ ہو چکے تھے۔انہوں نے بھی مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا لیکن اس سے پہلے انہوں نے کئی گھنٹے وزیرِ اعظم سے ملاقات کی۔اس کے کچھ دنوں بعد بھٹو صاحب نے رفیع رضا صاحب کو اس ملاقات کی تفصیلات بتائیں تو بھٹو صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔انہوں نے کہا کہ مبشر نے الزام لگایا ہے کہ ان کے رشتہ دار اور ملازم بد عنوانیاں کر رہے ہیں اور اصرار کیا کہ وہ فون اُ ٹھا کر متعلقہ شعبہ سے اس کی تصدیق کریں ۔بھٹو صاحب نے کہا مبشر کا یہ الزام غلط تھا۔مبشر حسن صاحب نے بھٹو صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے ارد گرد درباریوں اور بیورو کریسی کے افراد سے نجات حاصل کریں ۔اور مذہبی جماعتیں جس نظامِ مصطفیٰ ﷺ کا مطالبہ کر رہی ہیں اسے تسلیم نہ کریں۔اور یہ مطالبہ کیا کہ پارٹی کو اس کی اصلی حالت میں واپس لایا جائے اور اس بحران سے نمٹنے کے لئے بنیادی تبدیلیاں کی جائیں۔بھٹو صاحب نے کہا کہ اس بحران میں یہ تبدیلیاں کرنا ممکن نہیں ہے۔پھر بھٹو صاحب نے دکھ سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ پی پی پی میں ان کے پرانے ساتھی انہیں چھوڑ چکے ہیں۔بہتر ہوتا کہ بھٹو صاحب اگر یہ سوال اپنے آپ سے پوچھتے۔ (۷)
اس صورتِ حال میں بھٹو صاحب کو یہی سوجھی کہ ایک مرتبہ پھر مولویوں کو خوش کر کے اپنے خلاف برپا اس شورش کو ٹھنڈا کریں۔چنانچہ انہوں نے ۱۸ ؍اپریل ۱۹۷۷ء کو ایک پریس کانفرنس میں ملک میں شریعت کے نفاذ کا اعلان کیا۔اور ابتدائی اقدامات کے طور پر ملک میں شراب کے استعمال پر، قمار بازی پر اور نائٹ کلبوں پر پابندی لگا دی اور اعلان کیا کہ ملک میں اسلامی نظریاتی کونسل کے دوبارہ احیاء کا اعلان کیا اور مودودی صاحب،مفتی محمود صاحب ،شاہ احمد نورانی صاحب اور احتشام الحق تھانوی صاحب کو کونسل میں شامل کرنے کا اعلان کیا ۔اور یہ یقین دلایا کہ اس کونسل کی سفارشات کو چھ ماہ کے اندر منظور کر لیا جائے گا۔اب وہ مخالف مولویوں کے آگے گھٹنے ٹیک کر اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔لیکن وہ ایک بات بالکل سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ مولوی کو اس بات سے کم ہی دلچسپی ہوتی ہے کہ ملک میں اسلامی آئین ہے کہ غیر اسلامی آئین ہے۔ چھٹی جمعہ کو ہو رہی ہے یا اتوار کو ہو رہی ہے۔نائٹ کلب کھلے ہیں یا درپردہ کام کر رہے ہیں۔جیسا کہ ہم گزشتہ جلد میں واضح کر چکے ہیں انہیں صرف اور صرف حصول اقتدار سے غرض ہوتی ہے۔
بھٹو صاحب کے خلاف تحریک کی شدت میں کوئی کمی نہیں آ رہی تھی اور ملک کی حالت بد سے بد تر ہوتی جا رہی تھی۔جب نئی قومی اسمبلی نے کام شروع کیا تو ۲۸ ؍اپریل ۱۹۷۷ء کو بھٹو صاحب نے اس سے خطاب کیا۔انہوں نے اس تقریر میں الزام لگایا کہ ان کی حکومت کے خلاف اور پاکستان کے خلاف بیرونی ہاتھ سازش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ ہاتھی ہیں جو کہ ملک کے خلاف سازش کر رہے ہیں ۔ان ہاتھیوں کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے انہیں یاد ہے کہ ویت نام کے مسئلہ میں،چین سے تعلقات قائم کرنے میں ہم نے ان کی مرضی کے خلاف کام کیا تھا۔ہم نے عرب ممالک کو فوجی مدد دی تھی۔اس کا بدلہ لینے کے لئے ان ہاتھیوں نے اس حکومت کے خلاف تحریک چلوانے کے لئے پانی کی طرح پیسہ بہایا ہے۔یہاں تک کہ کراچی میں ڈالر کی قیمت گر کر چھ سات روپے فی ڈالر تک آ گئی۔ اس بیرونی ہاتھ نے ملک کو مفلوج کرنے اور پہیہ جام کرنے کے لئے تخریب کاروں کو تربیت دی۔ انہوں نے کہا کہ وہ جانتے ہیں میں پاکستان کے استحکام کا ستون ہوں۔ہاتھیوں نے اس بات کو پسند نہیں کیا کہ پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی،ہم نے یونان اور ترکی کے تنازعہ کو ختم کرانے کی کوشش کی۔کوریا نے اپنا تنازعہ حل کرنے کے لئے پاکستان سے رجوع کیا۔پاکستان نے فرانس سے ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ لینے کا معاہدہ کیا۔انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کو نقصان پہنچا تو متحدہ عرب امارات،عمان اور سعودی عرب جیسے مسلم ممالک کی پیٹھ میں چھرا گھونپا جائے گا۔
اس تقریر کا لبِ لباب یہ تھا کہ یہ تحریک،یہ سیاسی ایجی ٹیشن بیرونی ہاتھ کی کارگزاری ہے۔بھٹو صاحب نے اس الزام کو اپنی کتاب If I am assasinatedمیں دہرایا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ قومی اتحاد میں شامل اکثر جماعتوں کو اس سازش کا کم از کم پورا علم نہیں تھا۔خاکسارتحریک کو اس کا علم نہیں تھاNDPکو اس کا پورا علم نہیں تھا۔جو جماعت پوری طرح اس سازش میں رابطہ بنی ہوئی تھی وہ جماعتِ اسلامی تھی۔اور اس جرم کو چھپانے کے لئے اب جماعتِ اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد امریکہ پر تنقید کرتے رہتے ہیں تا کہ پاکستان کے سادہ لوح لوگوں سے حقائق کو پوشیدہ رکھا جا سکے۔ بھٹو صاحب لکھتے ہیں کہ اس اپوزیشن نے میری حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے الیکشن سے قبل بیرونی طاقت سے ۲۵ کروڑ اور الیکشن کے بعد ۵ کروڑ لئے تھے۔ (۸)
یہاں پر طبعاََ ایک سوال اُ ٹھتا ہے۔اور وہ یہ کہ تین سال قبل ۱۹۷۴ء میں جب احمدیوں کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ان کا خون بہایا جا رہا تھا ،ان کی املاک نذر ِ آتش کی جا رہی تھیں،ان کا بائیکاٹ کر کے ان کا جینا دوبھر کیا جا رہا تھااس وقت آپ نے برملا کہا تھا کہ نہ صرف آپ بلکہ دوسرے بھی یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس کے پیچھے ایک بیرونی ہاتھ کام کر رہا ہے۔مگر آپ نے نہ قوم کو یہ بتایا کہ وہ ہاتھ کون سا تھا اور نہ ہی اس کی سازش کے رد کرنے کے لئے کوئی مؤثر قدم اُ ٹھایا بلکہ اس کی سازش کا حصہ بن گئے اور آئین میں ترمیم کر کے احمدیوں کی مذہبی آزادی غصب کر لی۔آج قومی اسمبلی کے سامنے آپ یہ کہنے پر مجبور تھے کہ ایک بیرونی ہاتھ آپ کی حکومت کے خلاف سازش کر رہا ہے۔ملک کے استحکام کے خلاف سازش کر رہاہے اور یہ بیرونی ہاتھ دوسرے مسلمان ممالک کے لئے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔اگر بر وقت اس بیرونی ہاتھ کو روک دیا جاتا اور اسے کھل کر کھیلنے کا موقع نہ دیا جاتا تو یہ نوبت نہ آتی۔
بھٹو صاحب نے فوج کی مدد لینی چاہی کہ کسی طرح گولی چلا کر اس شورش کو ختم کیا جائے اور ملک کے تین شہروں کا نظم و نسق بھی فوج نے سنبھالا مگر جلد ہی جرنیلوں کے بدلتے ہوئے تیور ان کو نظر آ گئے۔ کچھ عرب ممالک نے بیچ میں آ کر مفاہمت کی کوشش کی مگر بے سود۔عین اس وقت جب کہ پورا ملک ایک بحران کی لپیٹ میں تھا بھٹو صاحب نے کچھ عرب ممالک کا دورہ کیا۔
اپوزیشن کے قومی اتحاد نے مئی ۱۹۷۷ء میں اپنے مطالبات پیش کئے جس میں یہ مطالبہ بھی شامل تھا کہ نئے انتخابات کے نتیجہ میں جو صوبائی اور قومی اسمبلیاں وجود میں آئی تھیں ان کو تحلیل کیا جائے۔ مذاکرات کا لمبا دور شروع ہوا۔۴؍جولائی کی رات کو مذاکرات کامیابی کے قریب پہنچتے لگ رہے تھے ۔بہت سی تگ و دو کے بعد قومی اتحاد نے حتمی مطالبات سامنے رکھ دیئے تھے اور بھٹو صاحب نے تھکا دینے والے مذاکرات سے گزر کر آخر اس رات کو اپنے وزراء کو مطلع کر دیا تھا کہ وہ اب اس مفاہمت پر دستخط کردیں گے۔وزیر اعظم کا یہ فیصلہ سن کر اور اس پر بات کر کے ان کے کچھ وزراء رات کے ڈیڑھ بجے اپنے گھروں کو واپس گئے۔ اور اسی رات فوج نے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔یہ مارشل لاء فوج کے چیف آف سٹاف جنرل ضیا ء الحق صاحب کے حکم پر لگایا گیا تھا۔یہ وہی جنرل ضیاء الحق صاحب تھے جنہیں کئی ایسے جرنیلوں کی موجودگی میں جو ان سے سینیئر تھے بھٹو صاحب نے چیف آف سٹاف مقرر کیا تھا۔یہ وہی جنرل ضیاء الحق صاحب تھے جنہوں نے اس وقت جب بھٹو صاحب کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک چل رہی تھی تو انہوں نے بھٹو صاحب کے عرب ممالک کے دورہ پر روانہ ہونے سے قبل کہا تھا کہ بھٹو صاحب کی حکومت سے وفاداری قائد ِ اعظم کے ارشاد کے مطابق ان کا ایک اہم اور واضح فرض ہے۔(۹)
یہ وہی جنرل ضیاء صاحب تھے کہ جب جرنیلوں کے ساتھ میٹنگ میں بھٹو صاحب کے ایک وزیر نے بحران کے ممکنہ حل بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک راستہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فوج اقتدار سنبھال لے اور بعد میں انتخابات کرائے۔تو جنرل ضیاء صاحب نے فوراََ کھڑے ہو کر اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر جھک کر کہا تھا
‘‘No Sir, we have no such intention, we are the right arm of the government. We are loyal and we will remain loyal.’’
نہیں سر،ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہم حکومت کا دایاں بازو ہیں۔ہم وفادار ہیں اور وفادار رہیں گے۔(۱۰)
اور کچھ ہی عرصہ بعد انہی جنرل ضیاء صاحب نے ان کا تختہ الٹ کر انہیں قید کر دیا اور پھر تختہ دار تک پہنچا دیا۔باقی رہے نام اللہ کا۔
جنرل ضیاء کا دور ِ حکومت شروع ہوتا ہے
بھٹو صاحب کا تختہ الٹنے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اپنی پہلی نشری تقریر میں پاکستان کے عوام کو یقین دلایا کہ وہ نوے دن کے اندر اندر ملک میں نئے انتخابات کراکے رخصت ہو جائیں گے۔اور اس آپریشن کا نام انہوں نے آپریشن فیئر پلے رکھا۔بھٹو صاحب کو کچھ ہفتہ نظر بند رکھ کر ۲۸ ؍جولائی ۱۹۷۷ء کو رہا کر دیا گیا۔ ابتداء میں ضیاء صاحب نے بھٹو صاحب کے مخالف کوئی خاص جذبات ظاہر نہیں کئے بلکہ ان کے متعلق کچھ تعریفی کلمات بھی کہے۔ اگست کے شروع میںجب بھٹو صاحب لاہور گئے تو لوگوں کے عظیم ہجوم نے ان کا استقبال کیا۔لوگوں کی اتنی بڑی تعداد انہیں ایئر پورٹ پر الوداع کہنے آئی تھی کہ عملاََ ایئر پورٹ پر ان کی پارٹی کے کارکنوں کا قبضہ ہو گیا تھا۔یہ سب کچھ ظاہر کر رہا تھا کہ اب تک ان کی مقبولیت بڑی حد تک قائم ہے۔جلد ہی کچھ ایسے آثار ظاہر ہونے لگے کہ ضیاء حکومت کے کچھ اور ارادے بھی ہیں۔بھٹو صاحب نے فیڈرل سیکیورٹی فورس کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی۔ ان کے مخالفین کا کہنا تھا کہ یہ ان کی ذاتی پولیس کے طور پر کام کرتی تھی۔اس تنظیم کے سربراہ مسعود محمود کو گرفتار کر لیا گیا۔۵؍ ستمبر ۱۹۷۷ء کو بھٹو صاحب کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔اس بار گرفتار کرنے والوں کے تیور بگڑے ہوئے تھے۔گرفتار کرنے والوں نے ان پر سٹین گنیں تانی ہوئی تھیں۔فوج کے کمانڈو ان کی بیٹیوں کے کمروں میں داخل ہو گئے۔ملازموں کو مارا پیٹا گیا ۔پورے گھر کو الٹ پلٹ دیا گیا۔ ۱۳ ؍ستمبر کو انہیں جسٹس صمدانی کے سامنے پیش کیا گیا۔ان پر احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد کے قتل کا الزام تھا۔آج بھٹو صاحب اسی جج کے سامنے پیش ہو رہے تھے ،جس جج کو کچھ سال قبل انہوں نے ربوہ سٹیشن کے واقعہ کی تحقیق کے لئے مقرر کیا تھا ۔جسٹس صمدانی نے بھٹو صاحب کی درخواستِ ضمانت منظور کر لی مگر انہیں کچھ روز کے بعد ایک بار پھر مارشل لاء قواعد کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔
مارشل لاء حکام کے مطابق بھٹو صاحب پر قتل کے الزام کی بنیاد یہ تھی کہ جب ۵؍ جولائی ۱۹۷۷ء کو،یعنی جس روز مارشل لاء لگایا گیا تو فیڈرل سکیورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود صاحب کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔جب فوج نے انہیں گرفتار کر کے اپنی تحویل میں رکھا تو پھر’’ ضمیر کے بوجھ ‘‘سے مجبور ہو کر ۱۴؍ اگست ۱۹۷۷ء کو انہوں نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء صاحب کو خط لکھا جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ اس وقت کے وزیر ِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے انہیں ہدایت دی تھی کہ احمد رضا قصوری صاحب کو قتل کرایا جائے۔اور پھر ان کی ہدایت پر فیڈرل سیکیورٹی فورس کے کارندوں سے لاہور میں احمد رضا قصوری صاحب پر قاتلانہ حملہ کرایا گیا ،جس میں ان کے والد نواب محمد احمد قتل ہو گئے مگر احمد رضا قصوری صاحب بچ گئے۔پھرمسعود محمود صاحب نے اسلام آباد کے ایک مجسٹریٹ کے رو برو بھی یہ بیان دیا ۔پھر۷؍ ستمبر ۱۹۷۷ء کو مسعود محمود نے وعدہ معاف گواہ بننے کی درخواست بھی دے دی۔ (۱۱)
۱۱؍ اکتوبر ۱۹۷۷ء کو لاہور ہائی کورٹ میں بھٹو صاحب کا مقدمہ شروع ہوا۔لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق صاحب اس بنچ کی صدارت کر رہے تھے اور ان کے علاوہ چار اور جج بھی اس بنچ میں تھے جن میں سے ایک جسٹس آفتاب بھی تھے۔جسٹس آفتاب جماعت ِ اسلامی سے روابط رکھتے تھے۔جن جج صاحب نے بھٹو صاحب کی ضمانت کی درخواست منظور کی تھی انہیں اس بنچ میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔بھٹو صاحب پر فرد ِ جرم لگائی گئی اور انہوں نے Pleadکیا کہ وہ not guilty ہیں۔ اس پر کارروائی شروع ہوئی۔پہلے احمد رضا قصوری صاحب نے کئی دن گواہی دی کہ ان کے بھٹو صاحب سے اختلافات کیسے شروع ہوئے اور کس طرح بھٹو صاحب نے ان کو قومی اسمبلی میں دھمکی دی۔انہوں نے کہا کہ وہ اپنے والد کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی میں دوبارہ شامل ہو گئے اور ان کو تعریفی خطوط بھی لکھتے رہے کیونکہ وہ اپنی جان بچانا چاہتے تھے۔پھر مسعود محمود صاحب نے نو دن میں اپنی گواہی مکمل کی۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ بھٹو صاحب نے انہیں مجبور کیا تھا کہ وہ ڈائریکٹر انٹیلی جنس فیڈرل سیکیورٹی فورس کو حکم دیں کہ وہ اپنے کارندوں کے ذریعہ احمد رضا قصوری صاحب کو قتل کرائیں۔اس کے بعد فیڈرل سیکیورٹی فورس کے دیگر کارندوں کے بیانات قلمبند کئے گئے۔بھٹو صاحب کے وکیل کو شکایت تھی کہ جج صاحبان کی تمام پابندیا ں ان کے لئے اور ان کے مددگار وکلاء کے لئے ہیں۔بھٹو صاحب اس دوران بیمار ہو گئے انہیں ملیریا اور انفلوائنزا ہو گیا تھا ۔تین دن کے توقف کے بعد ان کے بغیر ہی کارروائی جاری رہی۔دوبارہ کارروائی شروع ہوئی تو ایک مرحلہ پر بھٹو صاحب اور جج صاحبان میں تلخ کلامی ہو گئی ۔بھٹو صاحب نے اس دوران کہا کہ وہ جج صاحبان کا توہین آمیز رویہ کافی برداشت کر چکے ہیں۔چیف جسٹس مولوی مشتاق صاحب نے پولیس کو کہا کہ اس شخص کو لے جاؤ جب تک اس کے ہوش و حواس بجا نہ ہو جائیں۔۱۸ ؍دسمبر کو بھٹو صاحب نے درخواست دی کہ ان کے مقدمہ کو کسی اور بنچ کی طرف منتقل کیا جائے۔لیکن یہ درخواست مسترد کر دی گئی۔اب تلخی اتنی بڑھ گئی تھی کہ بھٹو صاحب کے وکیل اعوان صاحب نے عدالت کو مخاطب کر کے کہا کہ ان کے موکل نے ان کا وکالت نامہ منسوخ کر دیا ہے اور اپنے آپ کو عدالت کی کارروائی سے لاتعلق کر لیا ہے۔اس سے عدالت کے غصہ میں اضافہ ہو گیا۔بھٹو صاحب کی طرف سے گواہوں پر جرح بھی بند کر دی گئی۔لیکن بھٹو صاحب کے پاس ایک موقع آنا تھا جب انہیں اپنے دفاع میں بولنے کا موقع ملنا تھا۔یعنی جب عدالت میں ان کا بیان لیا جانے کا وقت آئے گا۔جب ۲۴ ؍جنوری ۱۹۷۸ء کو بھٹو صاحب کے بیان کا پہلا دن آیا اور بھٹو صاحب کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کمرہ عدالت میں جج اور وکلاء تو موجود تھے لیکن سامعین موجود نہیں تھے۔کورٹ روم خالی تھا ۔انہیں استفسار پر بتایا گیا کہ اب سے مقدمہ کی کارروائی In Cameraہو گی۔اس سے پہلے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق صاحب نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کارروائی دن کی روشنی میں ہو گی اور اب جب کہ بھٹو صاحب کے جواب کا وقت آیا تو فیصلہ کیا گیا کہ کارروائی خفیہ ہو گی۔بھٹو صاحب نے اس پر شدید احتجاج کیا۔انہوں نے کہا کہ نہ صرف انصاف ہونا چاہئے بلکہ یہ نظر بھی آنا چاہئے کہ انصاف ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ آپ اسے انصاف کہتے ہیں۔ آپ اسے مقدمہ چلانا کہتے ہیں۔یہ بھی بھول جائیں کہ میں ملک کا صدر اور وزیر ِ اعظم رہا ہوں۔ اسے بھی بھول جائیں کہ میں ملک کی سب سے بڑی پارٹی کا سربراہ ہوں۔ان سب چیزوں کو بھول جائیں لیکن میں پاکستان کا شہری تو ہوں اور میںقتل کے مقدمے کا سامنا کر رہا ہوں۔ایک عام آدمی کو بھی انصاف کے حصول سے نہیں روکا جاتا۔
بھٹو صاحب کو اس بات پر بہت اعتراض تھا کہ جب کہ ان کے خلاف پیش ہونے والے گواہوں کے بیان کو سرِ عام سنا گیا اور ان کے بیانات کی پوری طرح تشہیر ہوئی لیکن جب اس بات کی باری آئی کہ وہ جواب دیں تو خفیہ کارروائی شروع ہو گئی۔انہوں اس بات کا تذکرہ اپنی کتاب If I am assassinatedمیں بھی کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں
‘‘When I protested on the conversion of my trial for murder from open proceeding to in camera trial for my defence somehow I could not make clear to judges the differences between publicity and justice. I was demanding a public trial because the concept of justice is inextricably intertwined with an open trial, especially if it involves capital punishment .........The last and final messenger of God dispensed justice in an open mosque and not as a cloistered virtue.’’
جب میں نے اس بات پر احتجاج کیا کہ جب میرے دفاع کا وقت آیا توکیوں میرے مقدمہ کو ایک کھلی کارروائی سے ایک خفیہ کارروائی میں تبدیل کر دیا گیا ہے تو میں ججوں پر یہ بات واضح نہ کر سکا کہ تشہیر اور انصاف میں کیا فرق ہے۔میں اس بات پر اصرار کر رہا تھا کہ سرِ عام کارروائی ہو کیونکہ کھلی کارروائی اور انصاف ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیںِخاص طور پر جب ایک قتل کے مقدمہ کی کارروائی کی جا رہی ہو۔۔۔۔۔خدا کے آخری پیغمبر ﷺ بھی مسجد میں سرِ عام انصاف فرمایا کرتے تھے۔یہ کام کسی خفیہ گوشے میںنہیں کیا جاتا تھا۔
بھٹو صاحب کے دلائل وزنی ہیں۔واقعی اگر انصاف ہو رہا ہے تو سب کو نظر آنا چاہئے کہ انصاف ہو رہا ہے۔خفیہ کارروائی یا جیسا کہ خود بھٹو صاحب نے الفاظ استعمال کئے ہیں IN CAMERA کارروائی سے تو یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جا رہے۔لیکن اس کتاب میں In Camera کے الفاظ پہلے بھی کہیں آئے ہیں ۔کچھ برس پہلے بھٹو صاحب نے خود ہی قومی اسمبلی میں ایک کارروائی کے متعلق اعلان کیا تھا کہ وہ In Cameraہو گی۔یعنی جب پوری قومی اسمبلی نے جماعت کے وفد کا موقف سنا تھا۔یہ کارروائی تو بڑے اہتمام سےIn Camera اور خفیہ کی گئی تھی اور اس کے بعد قرارداد منظور کی گئی تھی کہ احمدیوں کو آئین میں غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے۔بھٹو صاحب نے فیصلہ کے بعد تقریر کرتے ہوئے یہ وعدہ کیا تھا کہ اس کارروائی کو منظرِ عام پر لایا جائے گا۔ لیکن تین سال گزر گئے ایسا نہیں کیا گیا۔پھر اگربھٹو صاحب کا کلیہ تسلیم کر لیا جائے تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ۱۹۷۴ء میںانصاف کے کم از کم تقاضے پورے ہو گئے تھے۔ آج انہی کے الفاظ ان کو ملزم کر رہے تھے۔اور دوسری طرف جماعت کے مخالفین کو کھلی چھٹی تھی کہ وہ اخبارات میں اعلان کریں کہ ہم نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ،ہم نے وہ کارنامہ کیا۔لیکن جماعت ِ احمدیہ کو کارروائی کے دوران بھی اس کارروائی کی کاپی بھی نہیں مہیا کی گئی تھی تاکہ وہ اگلے روز کے جوابات سہولت سے تیار کر سکیں۔جبکہ اسمبلی ممبران کو روزانہ کی بنیاد پر کارروائی کی کاپی مہیا کی جا رہی تھی۔آج خدا کی قدرت خودبھٹو صاحب کے منہ سے نکلوا رہی تھی کہ In Cameraکارروائی سے تو انصاف کے کم از کم تقاضے بھی پورے نہیں ہوتے۔
ہائی کورٹ کا فیصلہ
بہر حال اب فیصلہ کا وقت قریب آ رہا تھا۔ہائی کورٹ نے ۱۸ ؍مارچ ۱۹۷۷ء کو فیصلہ سنانا تھا۔ فیصلہ سے قبل بھاری پیمانے پر پیپلز پارٹی کے کارکنان کی گرفتاریاں شروع ہو چکی تھی۔بڑے شہروں میں بڑے پیمانے پر پولیس گشت کر رہی تھی۔فیصلہ سنایا گیا فیصلہ متفقہ تھا۔ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو سزائے موت سنائی ۔اور سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے لئے صرف سات روز دیئے گئے تھے۔
تفصیلی فیصلہ جسٹس آفتاب نے لکھا تھا جو جماعت ِ اسلامی کے ہمدرد سمجھے جاتے تھے۔اس تفصیلی فیصلہ کا ایک متنازع حصہ ،جس پر بھٹو صاحب کو بھی بہت اعتراض تھا اس میں بھٹو صاحب کے بارے میں یہ تبصرہ کیا گیا تھا۔
‘‘It is ,as is clear from the oath of the Prime Minister as prescribed in the constituition, a constituitional requirement that the Prime Minister of Pakistan must be a Muslim and a believer inter alia in the total requirement and teachings of the Holy Quran and the sunnah.He could not be a Muslim only in name who may flout with impunity his oath without caring for ugly consequences ........’’
یعنی آئین میں وزیر ِ اعظم کے لئے مقرر کردہ حلف نامے سے یہ واضح ہے کہ وزیر اعظم کو مسلمان ہونا چاہئے اور اسے قرآن اور سنت کے تمام تقاضوں اور تعلیمات پر یقین رکھنا چاہئے۔نہ کہ ایسا شخص جو کہ صرف نام کا مسلمان ہو اور نتائج کی پرواہ کئے بغیر اپنے حلف کی توہین کرتا پھرے۔۔۔۔(۳)
جب ۱۹۷۳ء کے آئین میں یہ عجیب قسم کے حلف نامے رکھے گئے تو گزشتہ دساتیر کی نسبت ان کو مختلف اس لئے رکھا گیا تھا کہ کہیں کوئی احمدی ان عہدوں پر مقرر نہ ہو سکے اور اس طرح مولویوں کو اور ان کے پیچھے کام کرنے والے ہاتھوں کو خوش کیا گیا تھا لیکن اب انہیں حلف ناموں کی بنیاد پر اس آئین کے بنانے والے کے خلاف فیصلہ سنایا جا رہا تھا۔
سپریم کورٹ میں اپیل
جیسا کہ توقع تھی بھٹو صاحب نے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل کی۔ اب ان کے کیس کی پیروی کرنے والے وکلاء کی قیادت سابق اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار کر رہے تھے ۔ وہی یحییٰ بختیار جنہوں نے قومی ا سمبلی میں اٹارنی جنرل کی حیثیت سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ سے سوالات کئے تھے۔وہ آج بھٹو صاحب کی سزائے موت کے خلاف اپیل کے لئے سپریم کورٹ میں پیش ہو رہے تھے۔یحییٰ بختیار صاحب کی اعانت وکلاء کی ایک ٹیم کر رہی تھی،جس میں ملک کے سابق وزیر ِ قانون عبد الحفیظ پیرزادہ صاحب بھی شامل تھے۔جب ۱۹۷۴ء کا واقعہ ہوا تو پیرزادہ صاحب اس سٹیرنگ کمیٹی کے سربراہ بھی بنے تھے جس نے قومی اسمبلی میں کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور ملک کے وزیرِ قانون کی حیثیت سے ۱۹۷۴ء کی آئینی ترمیم میں ان کا بہت کچھ عمل دخل تھا۔پہلے تو یہ امید تھی کہ فیصلہ چھ سات ہفتوں میں ہو جائے گا مگر پھر یہ کارروائی دس ماہ چلی۔اس دوران ضیاء صاحب کی مارشل لاء حکومت اپنے پاؤں مضبوطی سے گاڑتی گئی۔انتخابات کرانے کا منصوبہ کھٹائی میں ڈال دیا گیا :
۱۶؍ مئی کو بھٹو صاحب کو کوٹ لکھپت جیل لاہور سے راولپنڈی جیل منتقل کیا گیا۔پھانسی کی سزا پانے تک بھٹو صاحب یہیں پر رہے۔کرنل رفیع صاحب یہاں پر ڈیوٹی پر تھے ،انہوںنے اپنی کتاب میں اس دور میں بھٹو صاحب کی گفتگو کا خلاصہ درج کیا ہے۔اس میں وہ لکھتے ہیں:۔
’’احمدیہ مسئلہ : یہ ایک ایسا مسئلہ تھا جس پر بھٹو صاحب نے کئی دفعہ کچھ نہ کچھ کہا۔ایک دفعہ کہنے لگے ’’رفیع یہ لوگ چاہتے تھے کہ ہم پاکستان میں ان کو وہ رتبہ دیں جو یہودیوں کو امریکہ میں حاصل ہے۔یعنی ہماری ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے۔
ایک بار انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی نے ان کو غیر مسلم قرار دیا ہے اس میں میرا کیا قصور ہے۔
ایک دن اچانک مجھ سے پوچھا کہ کرنل رفیع کیاا حمدی آجکل یہ کہہ رہے ہیں کہ میری موجودہ مصیبتیں ان کے خلیفہ کی بد دعا کا نتیجہ ہیں کہ میں کال کوٹھری میں پڑا ہواہوں۔ایک مرتبہ کہنے لگے کہ بھئی اگر ان کے اعتقاد کو دیکھا جائے تو وہ تو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو آخری نبی ہی نہیں مانتے اور اگر وہ مجھے ہی اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دینے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو کوئی بات نہیں۔پھر کہنے لگے میں تو بڑا گناہ گار ہوںاور کیا معلوم میرا یہ عمل ہی میرے گناہوں کی تلافی کر جائے اور اللہ میرے تمام گناہ اس نیک عمل کی بدولت معاف کر دے۔‘‘(۲۰)
اپیل کا آ غاز ۲۰ ؍مئی ۱۹۷۸ء کو ہوا۔ پہلے دن کی معروضات کے اختتام پر یحییٰ بختیار صاحب نے کہا کہ میری اپیل کی بنیاد یہ ہے کہ یہ مقدمہ جھوٹا ہے،گھڑا ہوا ہے اور سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا ہے اور یہ بھٹو صاحب کے خلاف ایک بین الاقوامی سازش ہے۔اور انہیں ایک منتخب وزیر ِ اعظم ہوتے ہوئے اقتدار سے علیحدہ کر دیا گیا تا کہ انہیں سیاسی طور پر اور جسمانی طور پر ختم کر دیا جائے۔ان کے اس آ غاز نے عدالت میں ایک کھلبلی مچا دی۔ایک بار پھر بیرونی ہاتھ کا تذکرہ کیا جا رہا تھا ۔
اس کے ساتھ سپریم کورٹ میں ایک طویل کارروائی کا آ غاز ہوا ۔جس میں دونوں طرف سے دلائل کا تبادلہ ہوا۔ہم اس تمام تذکرے کو چھوڑ کر آخر میں ایک اہم حصہ کی طرف آتے ہیں ۔یعنی جس روز بھٹو صاحب کے وکلاء نے ان کی طرف سے دلائل نہیں دیئے تھے بلکہ خود بھٹو صاحب نے سپریم کورٹ کے سامنے اپنی معروضات پیش کیں۔یہ اٹھارہ دسمبر ۱۹۷۸ء کا دن تھا۔جس کمرہ میں اس مقدمہ کی سماعت ہونی تھی وہ آج کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔بھٹو صاحب جب کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو ان کے حامی احتراماََ کھڑے ہو گئے۔ بھٹو صاحب ایک خوش لباس شخص تھے ۔آج بھی وہ ایک نفیس سوٹ میں ملبوس تھے۔لیکن یہ سوٹ ان پر ڈھیلا لگ رہا تھا۔اسیری کے دنوں میں ان کی صحت بری طرح متاثر ہوئی تھی اور ان کا وزن خطرناک حد تک گر چکا تھا۔پہلے کچھ دیر یحییٰ بختیار صاحب نے اپنے دلائل کو مکمل کیا۔پھر بھٹو صاحب اپنی معروضات پیش کرنے کے لئے کھڑے ہوئے۔بھٹو صاحب قابل شخص تھے۔ اس سے کوئی انکار نہیں۔وہ ایک نہایت عمدہ مقرر بھی تھے۔سپریم کورٹ میں ان کی تقریر جو ان کی آخری تقریر ثابت ہوئی پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے ۔یہ تقریر چارروز جاری رہی۔ سینکڑوں مصنفوں،قانون دانوں اور محققین نے اپنے طور پر اس کا جائزہ لیا ہے۔ہم بھی اس کے چند پہلوں کا جائزہ پیش کریں گے۔
پہلے روز بھٹو صاحب نے اپنے اس دفاع کا خلاصہ پیش کیا جو انہوں نے آیندہ آنے والے دنوں میں پیش کرنا تھا۔بولتے بولتے ان کا رنگ زرد ہو جاتا تھا اور ان کے ماتھے پر پسینہ آجاتا تھا۔انہوں نے اس بات کی شکایت کی کہ جیل میں ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا ہے۔یہ ذکر شروع کرنے سے پہلے انہوں نے کہا کہ ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے کہ میں موت کی کوٹھری میں بند ہوں جس کا رقبہ ۷×۱۰ فٹ ہے۔میں غیر ملکی افراد کے سامنے اس حقیقت کا ذکر نہیں کرنا چاہتا جو مجھ پر بیت چکی ہے۔میں اپنے جسم پر نشانات یا ایسی چیزیں لوگوں کے سامنے دکھانا پسند نہیں کروں گا۔کوٹ لکھپت جیل میں کئی روز ان کے ساتھ کی کوٹھریوں میں پاگلوں کو رکھا گیا جن کی چیخیں انہیں سونے نہیں دیتی تھیں۔راولپنڈی میں مجھے پریشان کرنے کے لئے یہ ترکیب نکالی گئی کہ کوٹھری کی چھت پر پتھر پھینکے جاتے تھے جن کا شور مجھے سونے نہیں دینے دیتا۔اور گزشتہ رات بھی مجھے سونے نہیں دیا گیا۔یہ مصائب بیان کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسوتیرنے لگے۔پہلے روز کی کارروائی کے اختتام پر بھٹو صاحب نے کہا کہ اگلے روز وہ بات کا آغاز نام کے مسلمان کے مسئلہ سے کریں گے او رکہا کہ میں ان پیراگرافس کا حوالہ دوں گا جو اس موضوع پر ٹرائل کورٹ نے اپنے فیصلے پر شامل کئے ہیں۔جو پیراگراف ۲۰۹ سے ۲۱۵ تک محیط ہیں۔
دوسرے روز ان کے بیان میں پہلے دن سے زیادہ روانی تھی۔اس روز وہ خرابیِ صحت اور رنگت کے زرد ہوجانے کے باجود روانی سے اپنا بیان دے رہے تھے۔ایک مرحلہ پر ان کے وکیل نے ان کے کان میں کہا کہ اب انہیں رک جانا چاہئے تو انہوں نے کہا کہ میں تھکا ہوا ہوں لیکن مجھے اپنا بیان جاری رکھنا ہے۔اس دن انہوں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے اس حصہ پر شدید تنقید کی ،جس میں انہیں نام کا مسلمان کہا گیا تھا۔فیصلہ کے اس حصہ نے انہیںاتنا شدید صدمہ پہنچایا تھا کہ انہیں یہ حصہ زبانی یاد تھا۔جب اس دوران ان کے وکیل نے انہیں پیراگراف کا نمبر بتانا چاہا تو انہوں نے بے صبری سے کہا کہ میں ان پیراگرافوں کو جانتا ہوں۔انہوں نے اس بیان کے آغاز پر مذہب کی تاریخ پر روشنی ڈالنا چاہا لیکن چیف جسٹس صاحب نے کہا یہ سب کچھ بہت دلچسپ ہے لیکن آپ براہِ راست متعلقہ موضوع پر آجائیں۔(۱۳)
انہوں نے اپنا بیان شروع کرتے ہوئے کہا:
’’ایک اسلامی ملک میں ایک کلمہ گو کے عجز کے لئے یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہوگا کہ وہ یہ ثابت کرے کہ وہ مسلمان ہے۔میرے خیال میں یہ اسلامی تمدن کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ ایک مسلم صدر ، ایک مسلم راہنما ایک وزیر ِ اعظم جسے مسلمان قوم نے منتخب کیا ہو ،ایک دن وہ اپنے آپ کو اس حیثیت میں پائے کہ وہ یہ کہے کہ وہ مسلمان ہے۔
یہ ایک ہراساں کر دینے والا ہی مسئلہ نہیں ہے۔بلکہ ایک کربناک معاملہ بھی ہے۔ یورلارڈ شپس! یہ مسئلہ کیسے کھڑا ہوا؟آخر کس طرح ؟یہ مسئلہ اصطلاحاً عوام کے انقلاب یا کسی تحریک کے نتیجے میں کھڑا نہیں کیا گیا جو اس کے خلاف چلائی گئی ہو کہ وہ شخص مسلمان نہیں ہے۔یہ ایک آئیوری ٹاور سے آیا ہے۔اسے بطور ایک رائے کے ایک فرد نے دیا ہے۔اب یہ دوسری بات ہے کہ وہ خود خواہ کتنے ہی اعلیٰ عہدے پر کیوںنہ ہو لیکن دراصل اسے اس معاملے میں دخل دینے کا کوئی استحقاق نہیںہے۔جو امور اس کی سماعت کے دائرے میں آتے ہیں ان میں یہ معاملہ قطعی طور پر شامل نہیں۔نہ ہی یہ ایسا موضوع ہے کہ جس پر وہ اپنا موقف بیان کر سکے۔کسی فرد، کسی ادارے اور اس عدالتی بنچ کا یہ حق نہیں بنتا کہ وہ ایک ایسے معاملے پر اپنی رائے دے۔جس پر رائے دینے کا اسے کوئی جائز حق حاصل نہیں۔
چونکہ انسان اور خدا کے درمیان کوئی بیچ کا واسطہ نہیںہے۔اس لئے یہاں معاشرے میں غلطیاں ہوتی ہیں۔سماج میں سماجی برائیاں جنم لیتی ہیں۔اور ان کی سزا اسی دنیا میں ہی دی جاتی ہے۔جیسے چوری غنڈہ گردی زنا وغیرہ۔لیکن خدا کے خلاف بھی انسان جرم کرتے ہیں۔جن کا اسلام میں ذکر موجود ہے لیکن ان گناہوں کا تصفیہ اللہ اور انسان کا معاملہ ہے اور اس کا فیصلہ خدا خود روزِ حشر کرے گا۔۔۔۔۔۔مائی لارڈ! جیسا کہ میں اس سے پہلے کہہ چکا ہوں کہ ایک مسلمان کے لئے کافی ہے کہ وہ کلمے میں ایمان رکھتا ہو کلمہ پڑھتا ہو۔اس حد تک بات کی جا سکتی ہے کہ جب ابو سفیان مسلمان ہوئے اور انہوں نے کلمہ پڑھا تو رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ نے سوچا کہ اس کی اسلام کی دشمنی اتنی شدید تھی کہ شاید ابو سفیان نے اسلام کو محض اوپری اور زبانی سطح پر قبول کیا ہو۔لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس سے اختلاف کیا اور فرمایا کہ جونہی اس نے ایک بار کلمہ پڑھ لیا تو وہ مسلمان ہو گئے ۔‘‘(۱۴)
لاہور ہائی کورٹ کے ان ریمارکس نے بھٹو صاحب کو اتنا شدید صدمہ پہنچایا تھا کہ سلمان تاثیر صاحب جو بعد میں گورنر پنجاب بھی بنے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس مرحلہ پران کی آواز سسکیوں میں ڈوب گئی۔(۱۵)
بھٹو صاحب نے اس بات پر کہ انہیں کورٹ نے نام کا مسلمان کہا ہے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
’’یہ اصلی صورت ِ حال ہے جب آپ مجھ پر الزام لگاتے ہیںتو مجھے ذلیل نہیں کرتے بلکہ آپ پاکستان کے عوام کو ذلیل کرتے ہیں۔جب مجھے نام کا مسلمان کہا جاتا ہے تو دراصل ان عوام کو یہ الزام دیا جاتا ہے کہ وہ اچھے مسلمان نہیں بلکہ نام کے مسلمان ہیں۔۔۔۔۔
مائی لارڈ! آپ میری جگہ نہیں کھڑے ہیں آپ نہیں جانتے ان ریمارکس نے مجھے کتنا دکھ پہنچایا ہے۔اس کے مقابلے میں تو میں پھانسی کو ترجیح دوں گا۔اس الزام کے بدلے میں پھانسی کے پھندے کو قبول کروں گا۔‘‘(۱۶)
بھٹو صاحب کا یہ بیان بہت سی وجوہات کی بنا پر بہت اہم ہے۔ان کے دلائل واقعی وزنی ہیں ۔ یہ دلائل اتنے زوردار تھے اور انہیں اس خوبصورتی سے پیش کیا گیا تھا کہ پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کے ایک معزز جج جسٹس صفدر شاہ نے ان دلائل کے درمیان ہی کہہ دیا کہ ہم فی الوقت آپ کو اپنی یہ رائے بتا سکتے ہیں کہ ہمارے نزدیک لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے یہ پیراگراف غیر متعلقہ ہیں۔(۱۷)
لیکن یہ ایک قانونی مسئلہ ہے ۔یہ ایک مذہبی مسئلہ ہے۔یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے تار ماضی قریب اور ماضی بعید کے بہت سے تاریخی واقعات کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں۔اور اس کتاب کے پڑھنے والے کو شاید یہ محسوس ہو رہا ہو کہ اس جیسے دلائل کا تذکرہ چند سال پہلے کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے گزر چکا ہے لیکن اس وقت یہ دلائل کسی اور طرف سے پیش کئے جا رہے تھے اور اب جو ملزم بن کے کھڑے تھے اس وقت وہ اپنے زعم میں منصف بنے ہوئے تھے۔بھٹو صاحب ایک قد آور شخصیت تھے اور ایسی قد آور شخصیات کے اہم بیانات ہوا میں گم نہیں ہو جاتے ۔تاریخ ان کا بار بار تجزیہ کرتی ہے۔بھٹو صاحب کایہ بیان واقعی بہت اہم ہے ۔ہم اس کے ایک ایک جملے کا تجزیہ کریں گے۔
بھٹو صاحب نے ،اس وقت جب وہ اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہے تھے۔یہ کہا کہ ایک مسلمان کہلانے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ کلمہ پڑھتا ہو اور یہ بھی کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ اس کی نیت پر شک کرے۔تو سوال یہ اُ ٹھتا ہے کہ پھر ۱۹۷۴ء میں بھٹو صاحب اور ان کی حکومت نے یہ قدم کیوں اُ ٹھایا کہ ایک سیاسی اسمبلی کے سپرد یہ کام کیا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ ایک جماعت ، ایک فرقہ مسلمان ہے یا نہیں۔اور یہ جماعت ایک کلمہ گو جماعت ہے۔ اسمبلی کئی روز کھڑکیاں دروازے بند کر کے غیر متعلقہ کارروائی میں الجھی رہی اور اصل موضوع پر بات کا خاطر خواہ آغاز بھی نہیں کر سکی۔اور اگر ہر کلمہ گو قانون کی رو سے مسلمان ہے اور کسی کو اس نیت پر شک کرنے کا حق نہیں تو پھر ۱۹۷۴ء میں آئین میں ترمیم کر کے ایک سیاسی اسمبلی نے یہ فیصلہ کیوں کیا اب پاکستان میں قانون کی رو سے لاکھوں کلمہ گو مسلمان شمار نہیں ہوں گے۔
ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے بڑا زور دے کر یہ بات کہی کہ کسی فرد،کسی ادارے یا عدالتی بنچ کا یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی شخص کو کہے کہ وہ مسلمان نہیںہے اور یہ بھی کہا اور بالکل درست کہا کہ مذہب خدا اور انسان کے درمیان معاملہ ہے۔ کسی انسان کو اس میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہے۔ہم کچھ دیر کے لئے ۱۹۷۴ء کی طرف واپس جاتے ہیں جب جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے قومی اسمبلی کے تمام اراکین کو اور حکومت کو ایک محضر نامہ بھجوایا گیا جس میں جماعت ِ احمدیہ کا موقف بیان ہوا تھا کہ قومی اسمبلی کو نہ یہ اختیار ہے اور نہ اسے یہ زیب دیتا ہے کہ وہ کسی جماعت یا کسی شخص کے مذہب کے بارے میںیہ فیصلہ کرے۔لیکن جماعت ِ احمدیہ کا یہ موقف نظر انداز کر دیا گیا ۔آج آپ یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ کسی ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ کرے تو پھر ۱۹۷۴ء میں آپ کی حکومت کا وہ فیصلہ کسی طور پر صحیح نہیں کہلا سکتا۔ لیکن بھٹو صاحب اپنے سابق عمل اور موجودہ بیان میں تضاد دیکھ نہیں پا رہے تھے۔اسی نکتہ پر اپنا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے اپنی خدمات گنوائیں اور ان میں اسلام کی یہ خدمت بھی گنوائی کہ ان کے دور میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر نوے سالہ پرانا مسئلہ حل کیا گیا تھا۔
بھٹو صاحب نے عدالت میں اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عدالت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ مجھے نام کا مسلمان قرار دیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ جناب ِ والا اگر آپ نام کے مسلمان کے مسئلے پر جاتے ہیں تو پھر میں ایک ایسا شہری ہوں جس کا کوئی ملک نہیں ۔کیونکہ یہ شہریت دستور میں ایک مسلمان یا اقلیتوں کو فراہم کی گئی ہے۔یہ شہریت اس جانور کو نہیں دی جا سکتی جو نام کا مسلمان ہو۔میں نہیں جانتا اور کتنے لوگوں کو اس درجہ بندی میںشامل کر کے انہیں بے ملک بنا دیا جائے گا اور اگر ہم بے ملک لوگ بنا دیئے گئے تو ہم کہاں جائیں گے۔(۱۸)
بہت خوب ۔بہت مؤثر انداز بیان ہے بہت مضبوط دلائل ہیں۔لیکن یہاں پر ایک سوال اُ ٹھتا ہے۔وہ جماعت جو کہ کلمہ گو ہے اور اور اس کا عقیدہ ہے کہ وہ مسلمان ہے۔اور وہ کسی اور مذہب کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ایک روز دو سو کے قریب سیاستدان بیٹھتے ہیں اور یہ مضحکہ خیز فیصلہ کرتے ہیں کہ اب سے قانون کی رو سے یہ جماعت مسلمان نہیں ہے۔بھٹو صاحب کہتے ہیں کہ اس ملک کے آئین میں شہریت کے حقوق یا مسلمان کے لئے ہیں یا پھر غیر مسلم کے لئے تو پھر کیا ۱۹۷۴ء کا فیصلہ کرنے سے پہلے انہوں نے سوچا تھا کہ یہ جماعت اپنے آپ کو غیر مسلم نہیں سمجھتی ایسا کہنا یا سمجھنا اس کے ضمیر کے خلاف ہے، اس کے بنیادی عقیدہ کے خلاف ہے تو پھر اس کی شہریت کے حقوق کا کیا بنے گا۔ایک نامعقول فیصلے نے خود آپ کے بیان کردہ معیار کے مطابق ان کو شہریت کے حقوق سے محروم کر دیا ۔۱۹۷۴ء میں اسمبلی کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے جماعت ِ احمدیہ نے ایک محضر نامہ میں اپنا موقف بیان کیا تھا۔اور اس میں کرتا دھرتا افراد کو ان الفاظ میں متنبہ کیا تھا
’’ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا صورتیں عقلاََ قابلِ قبول نہیں ہو سکتیں اور بشمول پاکستان دنیا کے مختلف ممالک میں ان گنت فسادات اور خرابیوں کی راہ کھولنے کا موجب ہو جائیں گی۔‘‘(۱۹)
اور یہ حقائق ثابت کرتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔جوآگ ۱۹۷۴ء میں جماعت ِ احمدیہ کے خلاف بھڑکائی گئی تھی ،اس وقت کے وزیر اعظم کا آشیانہ بھی بالآخر ان کے شعلوں کی نذر ہو گیا۔
دوسرے روز کے بعد بھی بھٹو صاحب کا بیان دو روز مزید جاری رہا۔۲۱ دسمبر کو بھٹو صاحب نے سپریم کورٹ میں اپنا بیان ختم کیا۔
ان دنوں میں بھٹو صاحب اس نازک وقت میں اپنی پارٹی کی کارکردگی سے بھی مایوس ہوتے جا رہے تھے۔ان کی جیل میں متعین کرنل رفیع صاحب تحریر کرتے ہیں۔
’’لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا بھٹو صاحب کچھ مایوس سے ہوتے گئے۔اوائل ۱۹۷۹ء میں وہ اپنی پارٹی سے جو امیدیں لگائے بیٹھے تھے وہ بر نہیں آ رہی تھیں۔ایک دن وہ کچھ مایوسی کے عالم میں مجھ سے کہنے لگے کہ وہ حرامزادے کدھر ہیں جو کہا کرتے تھے کہ ہم اپنی گردنیں کٹوا دیں گے(اپنی انگشت ِ شہادت گردن کی ایک طرف سے دوسری طرف کھینچتے ہوئے)میرے خیال میں وہ دن ایسے تھے (فروری مارچ ۱۹۷۹ئ) جب بھٹو صاحب اپنی پارٹی سے مایوس ہوتے جا رہے تھے۔‘‘(۲۱)
سپریم کورٹ کا فیصلہ اور پھانسی
سپریم کورٹ کی کارروائی ختم ہوئی تو فیصلہ کا انتظار شروع ہوا۔جو کئی ہفتہ تک طول کھینچ گیا۔بالآ خر ۶ ؍فروری ۱۹۷۹ء کو صبح گیارہ بجے کورٹ فیصلہ سنانے کے لئے جمع ہوئی۔سپریم کورٹ نے سابق وزیر ِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل مسترد کر دی تھی۔اور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا گیا تھا۔فیصلہ متفقہ نہیں تھا۔چار ججوں نے پھانسی کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا،ان کے نام جسٹس انوارالحق (چیف جسٹس ) جسٹس نسیم حسن شاہ،جسٹس اکرم اور جسٹس چوہان تھے۔اور تین ججوں یعنی جسٹس صفدر شاہ،جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس حلیم نے فیصلہ سے اختلاف کیا تھا۔بھٹو صاحب نے تحمل سے جیل میں فیصلہ کی خبر سنی ۔ان کے وکلاء نے ریویو پیٹیشن داخل کی لیکن یہ بھی مسترد ہو گئی۔بیرونی دنیا کے بہت سے لیڈروں نے رحم کی اپیلیں کیں لیکن ان کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا ۔اور پریس کو بتا یا گیا کہ صدر ِ پاکستان جنرل ضیاء نے کیس میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔بھٹو صاحب کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کو سزائے موت دے دی جائے گی۔لیکن فیصلہ کیا گیاکہ ۳ اور ۴ ؍اپریل کی درمیانی شب کو بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی جائے گی۔فیصلہ آنے کے بعد جیل کے حکام کا رویہ بھٹو صاحب سے بہت بدل گیا تھا اور وہ بار بار اس بات کی شکایت کرتے تھے کہ وہ ان سے بے عزتی کا برتاؤ کر رہے ہیں۔جب انہیں بتایا گیا کہ آج ان کا آخری دن ہے اور اب انہیں پھانسی دے دی جائے گی اور وہ اب اپنی وصیت لکھ سکتے ہیں تو انہوں نے ڈیوٹی پرمتعین کرنل رفیع صاحب سے پوچھا کہ رفیع یہ کیا کھیل ہے ۔اس پر رفیع صاحب نے انہیں بتایا کہ جناب آج آخری حکم مل گیا ہے آج انہیں پھانسی دے دی جائے گی۔ رفیع صاحب ان لمحوں کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتے ہیں۔
’’مسٹر بھٹو میں پہلی مرتبہ میں نے وحشت کے آثار دیکھے۔انہوں نے اونچی آواز میں ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا۔ بس ختم؟بس ختم۔
میں نے جواب میں کہا جی جناب۔
بھٹو صاحب کی آنکھیں وحشت اور اندرونی گھبراہٹ سے جیسے پھٹ گئیں ہوں۔ان کے چہرے پر پیلاہٹ اور خشکی آگئی جو میں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔میں اس حالت کو صحیح بیان نہیں کر سکتا۔انہوں نے کہا ’’کس وقت؟‘‘ اور پھر کہا کس وقت اور پھر کہا آج؟میں نے اپنے ہاتھوں کی سات انگلیاں ان کے سامنے کیں۔۔۔۔
انہوں نے کہا سات دن بعد۔میں نے ان کے نزدیک ہو کر سرگوشی میں بتایا ۔جناب گھنٹے
انہوں نے کہا آج رات سات گھنٹوں بعد۔میں نے اپنا سر ہلاتے ہوئے ہاں میں جواب دیا۔
بھٹو صاحب جب پنڈی جیل میں لائے گئے اس وقت سے وہ مضبوط اور سخت چٹان بنے ہوئے تھے لیکن اس موقع پر وہ بالکل تحلیل ہوتے دکھائے دے رہے تھے۔۔۔‘‘(۲۲)
انہوں نے خود کلامی کے انداز میں کہا’’میرے وکلا ء نے اس کیس کو خراب کیا ہے۔یحییٰ میری پھانسی کا ذمہ دار ہے۔وہ مجھے غلط بتاتا رہا ۔اس نے اس کا ستیاناس کیا ہے۔اس نے ہمیشہ سبز باغ دکھائے۔پھر کہنے لگے میری پارٹی کو مردہ بھٹو کی ضرورت تھی زندہ بھٹو کی نہیں۔(۲۳)
ہم جیسا کہ ذکر کر چکے ہیں کہ یحییٰ بختیار صاحب کو اور اس مقدمہ میں ان کے معاون وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب کو بھٹو صاحب کا بہت اعتماد حاصل تھا۔یحییٰ بختیار صاحب نے بحیثیت اٹارنی جنرل ۱۹۷۴ء میں جب قومی اسمبلی میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ پر کئی روز سوالات کئے تھے اور وہ خود بھی اپنے اس کام کو اپنا ایک اہم کارنامہ خیال کرتے تھے۔اور اسی طرح عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب اس سٹیرنگ کمیٹی کے چیئر مین تھے جس نے اس مسئلہ کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کے متعلق قواعد طے کئے تھے۔جب بھٹو صاحب کی اپیل سپریم کورٹ میں زیر ِ سماعت تھی تو ضیاء حکومت نے ان کے خلاف ایک قرطاسِ ابیض (White Paper) شائع کیا تو انہوں نے جیل سے اس کے جواب میں ایک کتاب If I am assassinatedتحریر کی۔اس میں انہوں نے ۱۹۷۴ء میں یحییٰ بختیار صاحب کی کارکردگی کے متعلق لکھا
As Attorney General of Pakistan he rendered yeoman service to successfully piloting the sensitive Ahmadi issue in Parliament
یعنی انہوں نے(یحییٰ بختیار صاحب نے) بحیثیت اٹارنی جنرل نے پارلیمنٹ میں احمدیوں کے حساس مسئلہ کے بارے میں کارروائی کے دوران اہم اور کامیاب خدمات سرانجام دیں ۔
خدا کی قدرت کے کچھ عرصہ بعد بھٹو صاحب انہی یحییٰ بختیار صاحب کو اپنی پھانسی کی سزا کا ذمہ دار بتا رہے تھے اور کہہ رہے تھے انہوں نے اس مقدمہ کا ستیاناس کر دیا۔
جیل کے عملہ نے پھانسی کی تیاریاںشروع کیں۔زائد حفاظتی اقدامات کے علاوہ ایک زائد یہ بھی تیاری کی جا رہی تھی کہ انٹیلی جینس ایجنسیوں کے ایک فوٹو گرافر کا انتظام کیا گیا ۔اس کا کام کیا تھا اس کے متعلق وہاں ڈیوٹی پر متعین کرنل رفیع صاحب لکھتے ہیںکہ یہ فیصلہ کیا گیا
’’ایک فوٹو گرافر جو ایک انٹیلی جنس ایجنسی سے تھا ،اپنے سامان کے ساتھ تین اپریل شام پانچ بجے جیل میں رپورٹ کرے گا۔وہ بھٹو صاحب کی لاش کے فوٹو لے گا(تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان کے ختنے ہوئے تھے یا نہیں؟)(مجھے سرکاری طور پر بتایا گیا تھا کہ مسٹر بھٹو کی ماں ہندو عورت تھی جو ان کے والد نے زبردستی اپنا لی تھی اور مسٹر بھٹو کا پیدائشی نام نتھارام تھا اور غالباََ ان کے ختنے نہیں کرائے گئے تھے)پھانسی اور غسل کے بعد اس فوٹو گرافر نے بھٹو صاحب کے جسم کے درمیانی حصہ کے نزدیکی فوٹو لئے تھے۔پڑھنے والوں کے لئے میں بتا دوں کہ بھٹو صاحب کا اسلامی طریقہ سے باقاعدہ ختنہ ہوا تھا۔‘‘(۲۵)
بھٹو صاحب کا کسی سے لاکھ اختلاف ہو لیکن اس وقت کا یہ قدم سوائے بیہودگی کے اور کچھ نہیں تھا اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔اس سے صرف حکم جاری کرنے والوں کی نیچ ذہنیت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔جب ریاست اور حکومت اس بحث میں الجھ جائے کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں تو اس کا انجام اس قسم کی نامعقول اور قابلِ نفرت حرکات پر ہی ہوتا ہے کہ ایک مردہ آدمی کی نعش کو برہنہ کر کے یہ دیکھا جائے کہ اس کے ختنے ہوئے تھے کہ نہیں ۔گویا اس کے مسلمان ہونے کی ایک ہی دلیل رہ گئی کہ اس کے ختنے ہوئے تھے کہ نہیں۔
بھٹو صاحب نے اپنی وصیت لکھی لیکن پھر اسے جلادیا اور کہا کہ وہ اپنے خیالات کو مجتمع نہیں کر پا رہے۔جب پھانسی کا وقت آیا تو وہ کئی روز کی بھوک ہڑتال کی وجہ سے اور اس مرحلہ کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکے تھے۔ان کا رنگ زرد ہو چکا تھا ۔وہ اس قابل نہیں تھے کہ خود چل کر پھانسی کی جگہ تک جا سکیں۔انہیں پہلے اُ ٹھایا گیا اور پھر سٹریچر پر لٹایا گیا وہ پھانسی گھاٹ تک بالکل بغیر حرکت کے رہے۔پھانسی دینے والے تارا مسیح نے ان کے چہرے پر ماسک چڑھا دیا اور ان کے ہاتھ پشت پر باندھ دیئے گئے۔اس کی تکلیف کی وجہ سے ان کے منہ سے صرف یہ نکلا کہ’’یہ مجھے‘‘۔رات کے دو بج کر چار منٹ پر لیور دبا دیا گیا اور ان کا جسم ایک جھٹکے کے ساتھ پھانسی کے کنویں میں گر پڑا۔
پاکستان میں اور مسلمان ممالک میں بہت سے سیاستدان سیاست کے میدان میں سرگرم ہیں ۔ بہت مرتبہ انہیں اس قسم کے سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب انہیں بتایا جاتا ہے کہ اگر وہ مذہبی جذبات کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کریں یا پھر احمدیوں کے خلاف تحریک کا حصہ بن کر ان پر ظلم کا دروازہ کھول کر مُلّا سے تعاون کریں تو اس سے ان کو بہت سیاسی فائدہ ہو گا۔اور کم از کم مُلّا طبقہ تو ان کا حامی ہو جائے گا۔اگر مذہبی اور اخلاقی پہلو کو ایک طرف بھی رکھا جائے اور سیاسی حقائق پر توجہ مرکوز رکھی جائے تو کم از کم ان سیاستدانوں اور حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ بھٹو صاحب کے حالات کا بغور مطالعہ کریں۔خود ان حقائق کا جائزہ لیں۔بھٹو صاحب کوئی معمولی سیاستدان نہیں تھے ۔وہ بہت ذہین آدمی تھے۔طویل سیاسی تجربہ رکھتے تھے۔ان کی مثبت خدمات سے بھی انکار نہیں۔وہ ملک میں مقبول ترین لیڈروں میں سے تھے۔اس بات سے بھی انکار نہیں کہ آج جب کہ ان کی موت کوقریباََ تیس سال گزر چکے ہیں ان کے نام پر ووٹ دیئے جاتے ہیں۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بھٹو صاحب نے سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لئے ۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دینے کے لئے آئین میں ترمیم کی اور جماعت احمدیہ کے بنیادی حقوق کی بھی پروا نہیں کی گئی،انہیں بری طرح پامال کیا گیا۔اس کا نتیجہ کیا نکلا کیا مُلّا خوش ہو گیا۔کچھ ہی سالوں میں ان کے خلاف اس طبقہ نے ایک ایسی مہم چلائی کہ کوئی گالی ہو گی جو کہ انہیں اور ان کے اہلِ خانہ کو نہ دی گئی ۔بالآ خر ان کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا۔اور قتل کے الزام میں جیل میں ڈال دیا گیا۔بھٹو صاحب نے جیل میں اپنی کتاب میں لکھا کہ جماعت ِ اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتیں بیرونِ پاکستان ہاتھوں سے مدد لیکر ان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔پھر انہیں پھانسی چڑھا دیا گیا۔پھر نامعلوم حالات میں ان کے دونوں بیٹے قتل کر دیئے گئے اور پھر ان کی بیٹی اور سیاسی وارث ملک کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو انہیں مذہبی انتہا پسندوں نے قتل کر دیا۔آخر اس فیصلہ سے بھٹو صاحب کو کیا ملا؟یہ ایک تاریخی سبق ہے کہ مُلّا کبھی کسی کا نہیں ہوتا ۔اور نہ مذہبی مسائل کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے کوئی فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ ان تاریخی حقائق کا بار بار مطالعہ کریں ۔خود ان کا جائزہ لیں ۔۱۹۷۴ء کے حالات قلمبند کرتے ہوئے ہم نے اس وقت کے سیاسی قائدین کے انٹرویو بھی لئے تھے۔ان میں سے ایک انٹرویو معراج محمد خان صاحب کا بھی تھا۔یہ صاحب ایک وقت میں بھٹو صاحب کے قریبی سیاسی رفیق تھے۔ بھٹو صاحب نے ایک مرتبہ ان کو اپنا سیاسی جانشین بھی قرار دیا تھا۔وہ بھٹو صاحب کی کابینہ میں وزیر بھی رہے۔لیکن پھر بھٹو صاحب کے ان سے اختلافات ہو گئے اور بھٹو صاحب نے ان کو انتقاماََ جیل میں ڈال دیا۔جب یہ انٹرویو ختم ہوا تو انہوں نے آخری بات یہ کہی اور یہ بات انہوں نے اس انٹرویو میں بہت مرتبہ کہی تھی کہ آپ جہاں دوسری باتیں لکھیں یہ ضرور لکھیں کہ وہ بہت ذہین آدمی تھے ،بہت جفاکش تھے ،وہ بہت بڑے آدمی تھے ۔لیکن ایک اور بات جو انہوں نے اس انٹرویو میں ایک سے زائد مرتبہ کہی وہ یہ تھی کہ جب کوئی بڑا آدمی غلطی کرتا ہے تو وہ بھی بہت بڑی ہوتی ہے۔ہم نے ان کی خواہش کے مطابق معراج صاحب کی یہ بات درج کردی ہے لیکن ایک اور بات کا اضافہ کردیں کہ جب کوئی بڑا آدمی ایسی غلطی کرتا ہے تو بسا اوقات پوری قوم کو اس کی غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔مسلمان سیاستدانوں کو چاہئے کہ تاریخی حقائق سے سبق حاصل کریں ۔اور ان غلطیوں کو نہ دہرائیں جن کو کر کے بھٹو صاحب اور دولتانہ صاحب جیسے سیاستدانوں نے اپنے سیاسی زندگی یا خود اپنی زندگی کا خا تمہ کر لیا۔جو سیاستدان ہیں وہ صرف سیاست کریں،مذہب کے ٹھیکیدار بننے کی کوشش نہ کریں۔
پاکستان پر اس قرار داد کا کیا اثر پڑا
جب ہم نے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے سوال کیا کہ آپ کے نزدیک اس قرارداد اور آئینی ترمیم کا ملک اور قوم پر کیا اثر پڑا ؟تو ان کا جواب تھا ’’بہت بُرا اثر پڑا۔نہایت بُرا اور دور رس۔‘‘ جب اس سوال کو دوسرے الفاظ میں دہرایا گیا تو ان کا جواب تھا
’’آپ دیکھ تو رہے ہیں گورنمنٹ کا کیا حشر ہوا۔ان کی پارٹی کا کیا حشر ہوا۔اس سے بُرا ہو سکتا تھا؟‘‘
جب ہم نے صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب سے سوال کیا کہ اس قرارداد کا ملک پر کیا اثر پڑا تو ان کا یہ کہنا تھا کہ کوئی اثر نہیں پڑا نہ اچھا نہ برا۔نہ ملک پر کوئی اثر پڑا اور نہ احمدیوں پر کوئی اثر پڑا ۔
عبد الحفیظ پیزادہ صاحب نے اس سوال کے جواب فرمایا کہ اس قسم کے فیصلوں کا کبھی ملک پر اچھا اثر نہیں پڑتا۔جب یہ سوال پروفیسر غفور صاحب سے کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میرے نزدیک تو یہ فیصلہ نہایت مناسب ہوا ۔اور قادیانیوں کی پوزیشن بھی ایک مرتبہ آئین میں متعین ہو گئی۔

(۱) اور لائن کٹ گئی ،مصنفہ کوثر نیازی،جنگ پبلیکیشنز فروری۱۹۸۷ء ص۱۵ تا ۱۸
‏(۲)Zulfikar Ali Bhutto and Pakistan1967-1977,by Rafi Raza,published by OXFORD University Press 1997p317
‏(۳)Zulfikar Ali Bhutto and Pakistan1967-1977,by Rafi Raza,published by OXFORD University Press 1997p318
(۴) اور لائن کٹ گئی ،مصنفہ کوثر نیازی،جنگ پبلیکیشنز فروری۱۹۸۷ء ص۴۰
‏(۵)Zulfikar Ali Bhutto and Pakistan1967-1977,by Rafi Raza,published by OXFORD University Press 1997p295
(۶) نوائے وقت ۸؍ جنوری ۱۹۷۷ء ص۱
‏(۷)Zulfikar Ali Bhutto and Pakistan1967-1977,by Rafi Raza,published by OXFORD University Press 1997p345,346
‏(۸)If I am assasinated,by ZA Bhutto,published by Classic Lahore,p170
‏(۹)If I am assasinated,by ZA Bhutto,published by Classic Lahore,p149
(۱۰) اور لائن کٹ گئی ،مصنفہ کوثر نیازی،جنگ پبلیکیشنز فروری۱۹۸۷ء ص۱۳۴
‏(۱۱)Bhutto Trial Documents,compiled by Syed Afzal Haider,National Comission on History and Culture,p27
‏(۱۲)If I am assassinated,By ZA Bhutto,published by Classic Lahore,p193&194
‏(۱۳) Bhutto Trial and Execution,by Victoria Schofield,Published by Classic Mall Lahore,169-183
(۱۴) ذوالفقار علی بھٹو،ولادت سے شہادت تک،مصنفہ سجاد علی بخاری ناشر فکشن ہاؤس ۱۹۹۴ء ص۲۵۶تا ۲۶۲
(۱۵) ذوالفقار علی بھٹو بچپن سے تختہ دار تک ،مصنفہ سلمان تاثیر،ناشرسلمان تاثیرنومبر ۱۹۸۸ئ،ص۲۰۱
(۱۶) ذوالفقار علی بھٹو،ولادت سے شہادت تک،مصنفہ سجاد علی بخاری ناشر فکشن ہاؤس ۱۹۹۴ء ص۲۵۹۔۲۶۰
‏(۱۷)The Pakistan Times, Dec. 20 1978, p5
(۱۸) ذوالفقار علی بھٹو،ولادت سے شہادت تک،مصنفہ سجاد بخاری ناشر فکشن ہاؤس ۱۹۹۴ء ۲۶۳
(۱۹) محضر نامہ ،ناشر اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ،ص۵
(۲۰) بھٹو کے آخری ۳۲۳ دن ،مصنفہ کرنل رفیع الدین ،ناشر احمد پبلیکیشنزلاہور جولائی ۲۰۰۷ئ،ص۶۷
(۲۱) بھٹو کے آخری ۳۲۳ دن ،مصنفہ کرنل رفیع الدین ،ناشر احمد پبلیکیشنزلاہور جولائی ۲۰۰۷ئ،ص۷۵
(۲۲) بھٹو کے آخری ۳۲۳ دن ،مصنفہ کرنل رفیع الدین ،ناشر احمد پبلیکیشنزلاہور جولائی ۲۰۰۷ئ،ص۱۱۸۔۱۱۹
(۲۳) بھٹو کے آخری ۳۲۳ دن ،مصنفہ کرنل رفیع الدین ،ناشر احمد پبلیکیشنزلاہور جولائی ۲۰۰۷ئ،ص۱۲۰
‏(۲۴)If I am assasinated, by Z. A. Bhutto, Published by Classic Lahore, p91
(۲۵) بھٹو کے آخری ۳۲۳ دن ،مصنفہ کرنل رفیع الدین ،ناشر احمد پبلیکیشنزلاہور جولائی ۲۰۰۷ئ،ص۹۳
(۲۶) روزنامہ مساوات ۲۶؍ جنوری ۱۹۷۷ء ص۳
یوگینڈا میں جماعت ِ احمدیہ پر پابندی
جیسا کہ پہلے ہم اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ ۱۹۷۴ء میں جماعت ِ احمدیہ کے خلاف بنائی جانے والی سازش کا دائرہ صرف پاکستان تک محدود نہیں تھا۔یہ آثار شروع ہی سے ظاہر تھے کہ دوسرے ممالک تک اس فتنہ کوپھیلایا جائے گا۔رابطہ عالم اسلامی کی قرارداد میں واضح طور پر ذکر تھا کہ تمام مسلمان ممالک جماعت ِ احمدیہ پر پابندیاں لگائیں اور احمدیوں کو سرکاری ملازمتوں سے برطرف کیا جائے۔اور جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے احمدیوں کے بارے میں آئین میں ترمیم کی تواس وقت اسلامک سیکریٹریٹ کے سیکریٹری تہامی صاحب نے فوراََ یہ بیان دیا تھا کہ دوسرے اسلامی ممالک کو بھی پاکستان کی پیروی کرنی چاہئے اور یہ کہ اس فیصلہ کی نقول بھجوائی جائیں گی۔آثار صاف ظاہر تھے کہ اب دوسرے ممالک میں بھی اس سازش کا جال پھیلایا جائے گا۔اس غرض کے لئے جس ملک کا انتخاب کیا گیا وہ مشرقی افریقہ کا ملک یوگینڈا تھا۔اس وقت یوگینڈا میں صدرعیدی امین کی حکومت تھی۔
مناسب ہو گا کہ اگر ہم اس مرحلہ پر عیدی امین صاحب کا مختصر پس منظر بیان کر دیں۔وہ ۱۹۲۰ء کی دہائی میں پیدا ہوئے۔ان کی پیدائش کے بعد ان کے باپ نے ان کی والدہ اور ان سے اپنے بچوں سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔وہ باقاعدگی سے ابتدائی تعلیم حاصل نہیں کر سکے۔البتہ ۱۹۴۱ء میں وہ ایک اسلامی مدرسہ میں کچھ دیر داخل رہے اور پھر وہ کچھ چھوٹی موٹی ملازمتیں کرتے رہے۔۱۹۴۶ء میں عیدی امین صاحب برطانوی فوج میں بحیثیت معاون باورچی بھرتی ہو ئے۔اور پھر سپاہی کی حیثیت سے خدمات سرنجام دینے لگے۔انہوں نے برطانوی فوج کے لئے کینیا اور صومالیہ میں بھی خدمات سرانجام دیں۔اس وقت کینیا میں آزادی کی تحریک ماؤ ماؤ چل رہی تھی۔عیدی امین نے ان کی بغاوت کے خلاف برطانوی فوج میں خدمات سرانجام دیں اور پھر انہیں پہلے کارپورل اور پھر سارجنٹ کے عہدہ پر ترقی دے دی گئی۔۱۹۵۴ء میں انہیں برطانوی فوج میں وارنٹ آفیسر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ان دنوں میں مشرقی افریقہ میں مقامی افریقن شہری اسی عہدے تک ترقی پا سکتے تھے۔ ۱۹۶۱ء میں برطانوی فوج میں دو یوگینڈن افراد کو لیفٹیننٹ کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔عیدی امین ان میں سے ایک تھے۔یوگینڈا کے آزاد ہونے پر انہوں نے فوج میں ترقی کے زینے طے کرنے شروع کئے۔اور ۱۹۶۴ء میں انہیں یوگینڈا کی آرمی کا ڈپٹی کمانڈر بنا دیا گیا۔جب ملک کے وزیر ِ اعظم نے ایک سیاسی بحران میںنیا آئین نافذ کر کے ملک کے صدر کو برطرف کیا تو اس کے ساتھ عیدی امین کو کرنل کے عہدے پر ترقی دے کر آرمی کا کمانڈر بنا دیا گیا۔اس وقت عیدی امین نے صدر کے محل پر حملہ کی قیادت کی۔شروع میں تو وزیر اعظم اوبوٹے (Obote)اور عیدی امین کے تعلقات ٹھیک رہے لیکن پھر دونوں کے درمیان اختلافات رونما ہو گئے اور ۲۵ جنوری ۱۹۷۱ء کو عیدی امین نے وزیر اعظم کا تختہ الٹ دیا اور ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا۔عیدی امین نے اقتدار میں آکر اعلان کیا کہ فوجی حکومت صرف نگران حکومت کے طور پر رہے گی اور جلد ملک میں انتخابات کرائے جائیں گے۔لیکن جلد ہی انہوں نے ملک کے صدر کمانڈر انچیف اور ایئر فورس کے چیف آف سٹاف کے عہدے سنبھال لئے۔عدالتی نظام کے اوپر فوجی عدالتیں قائم کر دی گئیں۔وہ کچھ قبائل کو اپنا دشمن سمجھتے تھے۔انہوں نے فوج میں موجود ان قبائل کے افراد کا قتلِ عام شروع کرادیا۔چنانچہ ۱۹۷۲ء کے آغاز تک لانگو اور آچولی قبائل کے پانچ ہزار فوجیوں کو بیرکوں میں قتل کرایا جا چکا تھا۔اور پھر یہ سلسلہ بڑھتا رہا۔جس کے متعلق انہیں شبہ ہوتا کہ وہ ان کا مخالف ہے اسے قتل کرا دیا جاتا۔یوگینڈا میں بہت سے ایشین با شندے ایک لمبے عرصہ سے بلکہ کچھ نسلوں سے آباد تھے۔ان میں سے ہزاروں کے پاس وہاں کی شہریت بھی تھی۔ ان میں سے بہت سے بڑے بڑے کاروباروں اور صنعتوں کے مالک تھے۔عیدی امین صاحب نے ۱۹۷۲ء میں ان کو ملک بدر کر دیا اور ان کی املاک کو ضبط کر لیا گیا۔اس حکم کی وجہ سے جماعت کے کئی پاکستانی مبلغین کو بھی یوگینڈا سے نکلنا پڑا۔صرف کمپالا کے سکول کے دو اساتذہ مکرم چوہدری محمود احمد (بی ٹی) صاحب اور مکرم منیر احمد منیب صاحب کو سکول میں کام کرنے کی اجازت ملی۔اس کے بعد ملک کی اقتصادی حالت دگرگوں ہو گئی۔عیدی امین صاحب نے تمام مسلمان تنظیموں کو ایک مسلم سپریم کونسل میں ضم کر کے تمام تنظیموں کو اس کے تحت رجسٹر ہونے کی ہدایت دی۔ فروری۱۹۷۴ء میں عیدی امین صاحب نے لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کی اور ایسے بیانات دیئے کہ شاہ فیصل کو عالمِ اسلام کا خلیفہ بنا لینا چاہئے۔وہ سعودی عرب سے مالی مدد بھی لے رہے تھے۔درمیان میں امداد کا یہ سلسلہ معطل بھی کیا گیا تھا۔اس کانفرنس میں جو وفد یوگینڈا کی نمائندگی کے لئے شامل ہوا،اس میں مسلم سپریم کونسل کے چیئر مین حاجی سلیمان ،یوگینڈا کے چیف قاضی شیخ عبدالرزاق موٹووو (Matovu) ، جو کہ پاکستان کے ایک دینی مدرسہ کے فارغ التحصیل تھے،بھی شامل تھے۔
لوگینڈا میں قرآنِ کریم کے ترجمہ کی اشاعت
لوگینڈا یوگینڈا کے سب سے بڑے قبیلے،بوگانڈا کی زبان ہے۔اب تک اس زبان میں قرآنِ کریم کا ترجمہ شائع نہیں ہوا تھا۔اگرچہ بوگانڈا قبیلہ کے خاطر خواہ لوگوں کی تعداد مسلمان تھی۔اس کاوش کی ابتدا ۱۹۶۵ء میں ہوئی جب یوگینڈا میں مبلغِ سلسلہ مکرم عبد الکریم شرما صاحب نے کچھ مقامی احباب کے تعاون کے ساتھ کچھ سپاروں کا ترجمہ کیا۔ان مقامی احباب میں مکرم ابراہیم سنفوما صاحب قابل ِ ذکر تھے۔لیکن چونکہ انہیں لوگینڈا پر مکمل عبور حاصل نہیں تھا اس لئے یہ خدشہ تھا کہ اس میں کچھ سقم نہ رہ گئے ہوں۔پھر پانچ سپاروں کا ترجمہ شائع ہوا اس کام میں ان دو احباب کے علاوہ مکرم زکریا کزیٹو صاحب ، سلیمان مولومبا (Mulumba) صاحب اور مکرم سلیمان مو آنجے صاحب(Mwanje) بھی شامل ہو گئے تھے۔پھر یوگینڈا کے مقامی احمدی مکرم زکریا کزیٹو صاحب نے لوگینڈا زبان میں قرآنِ کریم کے ترجمہ کے لئے محنت شروع کی۔انہوں نے سواحیلی اور انگریزی کے تراجم سامنے رکھ کر تین چار سال میں ترجمہ کا کام مکمل کر کے مرکز سے اس کی اشاعت کے لئے درخواست کی۔قرآنِ کریم کا ترجمہ ایک نازک کام ہے جس کے لئے بہت احتیاط کرنا ضروری ہے۔چنانچہ مرکز نے مکرم جلال الدین قمر صاحب کی صدارت میں ایک بورڈ قائم کیا۔اس بورڈ میں مکرم زکریا کزیٹو صاحب کے علاوہ مکرم سلمان موآنجے صاحب اور مکرم حاجی ابراہیم سینفوما(Senfuma) صاحب بھی شامل تھے۔مکرم جلال الدین صاحب قمر کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے زبان دانی کا خاص ملکہ عطا ہوا تھا۔وہ لوگینڈا اورعربی اور سواحیلی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ان احباب کے علاوہ حسبِ ضرورت بہت سے غیر از جماعت احباب سے بھی مشورہ کیا جاتا تھا۔برسوں کی عرقریزی کے بعد یہ ترجمہ مکمل ہوا اور ۱۹۷۴ء میں اسے شائع کیا گیا۔اس ترجمہ کی اشاعت جماعت کے مخالفین کو بہت گراں گزری۔وہ پہلے ہی اس بات پر بہت برافروختہ تھے کہ جماعتِ احمدیہ اپنے آپ کو مسلم سپریم کونسل کے ماتحت کیوں نہیں لے کر آتی۔جب پہلے پہلے مسلم سپریم کونسل وجود میں آئی تو اس نے جماعت احمدیہ کی مخالفت میں کوئی سرگرمی نہیں دکھائی تھی۔بلکہ یہ نمایاں احمدیوں کو اپنی تقریبات میں مدعو بھی کرتے تھے۔بلکہ جب ان کی آئین ساز کمیٹی بنی تو اس کے صدر خود جماعت کے مبلغ جلال الدین قمر صاحب ہی تھے۔لیکن پھر مسلم سپریم کونسل کا رویہ بھی بدلنے لگا۔انہوں نے جماعت کے مشن کو کہا کہ وہ اپنے آپ کو مسلم سپریم کونسل کے تحت رجسٹر کرائیں۔لیکن جماعت احمدیہ نے اصولی طور پر اس سے انکار کر دیا۔
۲۳؍ مارچ ۱۹۷۵ء کو عیدی امین صاحب عید میلاد النبی کی ایک غیر سرکاری تقریب میں شرکت کر رہے تھے۔کچھ احمدی بھی اس تقریب میں شامل تھے۔انہوں نے جیب سے ایک کاغذ نکالا اور یہ اعلان پڑھا کہ وہ یوگینڈا میں جماعتِ احمدیہ پر پابندی لگا رہے ہیں۔جب وہ یہ اعلان پڑھ رہے تھے تو وہ جماعت ِ احمدیہ کا نام بھی بدقت پڑھ پائے تھے۔اور یہ نام پڑھنے میں انہیں تیسری کوشش میں کامیابی ہوئی تھی۔اس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ اعلان کسی اور کے ایماء پر کیا جا رہا ہے ورنہ صدر تو جماعت سے اتنا بھی واقف نہ تھے کہ نام بھی صحیح پڑھ پاتے۔اس اعلان میں عیدی امین صاحب نے یہ بھی کہا کہ احمدیوں نے قرآنِ کریم کا ترجمہ اضافوں کے ساتھ شائع کیا ہے اور جنہوں نے یہ نسخے خریدے ہیں وہ انہیں مسلم سپریم کونسل کے پاس جمع کرائیں تا کہ انہیں نذرِ آتش کر دیا جائے۔اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ احمدی برطانیہ اور امریکہ کے اشاروں پر یہ سب کام کر رہے ہیں۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ خود عیدی امین صاحب ایک طویل عرصہ برطانوی فوج میں ملازم رہے تھے اور اس کی طرف سے مشرقی افریقہ میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کی کاوشوں کا بھی حصہ رہے تھے۔ تمام ذرائع ابلاغ میں یہ خبر شائع ہوگئی لیکن سرکاری گزٹ میں اس خبر کو ۱۹۷۶ء کے اواخر میں شائع کیا گیا۔
شام کو مکرم چوہدری محمود صاحب،منیر احمد منیب انصاری صاحب ،زکریا کزیٹو صاحب اور سلمان موآنجے صاحب مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک فوجی افسر کیپٹن موسیٰ صاحب آ گئے اور تلخ کلامی شروع کردی۔ لیکن ان احباب نے ان کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔صبح کو مسلم سپریم کونسل کی طرف سے شیخ کالیسا(Kalisa) صاحب جو کہ سعودی عرب سے تعلیم حاصل کر کے آئے تھے کئی لوگوں کے ساتھ جماعت کی مسجد واقعہ وانڈے گیا ،کمپالہ آئے اور وہاں پر موجود احباب جماعت سے کہا کہ حکومت کے فیصلے کے مطابق یہ مسجد اب مسلم سپریم کونسل کی ملکیت ہے۔اور وہ احمدی جو کمپالہ میں جماعت کے سکول ،بشیر ہائی سکول کے بورڈ آف گورنر کے ممبر تھے انہیں ہدایت دی کہ ان کا اب سکول سے کوئی تعلق نہیں ۔یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ سکول کے بورڈ آف گورنر کے چیئر مین سلیمان موآنجے صاحب تھے۔ ان حالات میں انہیں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی تار موصول ہوئی کہ وہ سکول کی خدمت کرتے رہیں۔جبکہ بظاہر ایسا ممکن نظر نہیں آتا تھا۔لیکن پھر یکلخت یہ خبر موصول ہوئی کہ مسلم سپریم کونسل نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ سلیمان موآنجے صاحب بدستور سکول کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین رہیں گے۔اس کا پس منظر یہ تھا کہ سکول کو اپنی تحویل میں لیتے ہی کچھ مالی بد عنوانی کے واقعات ہوئے تو مسلم سپریم کونسل کے اعلیٰ عہدیداران نے یہی مناسب سمجھا کہ سلیمان موآنجے صاحب بدستور اس عہدے پر برقرار رہیں۔
جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ عیدی امین صاحب نے اعلان کیا تھا کہ شاہ فیصل کو عالمِ اسلام کا خلیفہ منتخب کر لیا جائے۔ابھی جما عت ِ احمدیہ کے خلاف یہ قدم اُ ٹھائے دو دن ہی گزرے تھے کہ شاہ فیصل کو ان کے بھتیجے نے گولی مار کر قتل کر دیا۔لیکن جماعتِ احمدیہ پر پابندی لگنے کے کچھ ہی عرصہ کے بعد عیدی امین کی حکومت کو سعودی عرب سے دوبارہ امداد ملنے لگی۔حکومت کے فیصلہ کے ساتھ ہی یوگینڈا میں تمام مشن ہاؤس ،جن میں کمپالا،مساکا اور جنجا کے مشن ہاؤس بھی شامل تھے اور کمپالا میں جماعت کا سکول جماعت کے مخالفین یعنی مسلم سپریم کونسل نے اپنی تحویل میں لے لئے۔اور جماعت احمدیہ کے لئے وہاں پر اپنی تبلیغی و تربیتی کام کھلم کھلا جاری رکھناممکن نہ رہا۔پابندیوں کا یہ حال تھا کہ اگر جنجا میں کسی احمدی نے جمعہ پڑھنا ہوتا تو وہ کمپالا جاتا جہاں سلیمان مو آنجے صاحب کے گھر پرجمعہ پڑھا جاتاتھا۔ مختلف دیہات میں احمدی کسی کے گھر میں یا کسی درخت کے نیچے نماز ِ جمعہ ادا کرتے۔انہی دنوں میں ایک بار عیدی امین صاحب سعودی عرب گئے ہوئے تھے کہ ان کے پیچھے سے ایک ابتدائی احمدی شیخ زید صاحب کا انتقال ہو گیا۔مخالفین نے ان کی تدفین میں رکاوٹیں ڈالنی شروع کیں۔عیدی امین صاحب ان کو جانتے تھے۔کسی طرح ان کو اطلاع ہو گئی۔اب ان کی شخصیت ایک اور رنگ میں ظاہر ہوئی ۔انہوں نے ریڈیو پر براہ راست خطاب کیا اور مولویوں کو خوب برا بھلا کہا ۔اور اپنا فون نمبر پڑھ کر کہا کہ جس احمدی کو کوئی مولوی تنگ کرے وہ مجھے فون کرے۔یہ حالات دیکھ کرمولویوں کا جوش کچھ ٹھنڈا ہوا۔
عیدی امین صاحب کے دور کے آخری دنوں میں جب یوگینڈا کے مکرم محمد علی کائرے صاحب جامعہ احمدیہ سے تعلیم مکمل کر کے یوگینڈا پہنچے توانہوں نے پوشیدہ طور پر مختلف مقامات پر احمدی احباب سے روابط شروع کئے۔ان کی آمد کے کچھ ماہ ہی بعد عیدی امین کو اقتدار سے رخصت ہونا پڑا، وقت کے ساتھ عیدی امین صاحب کی ذہنی حالت عجیب رخ اختیار کر رہی تھی۔اپنے ملک میں تو انہوں نے قتل وغارت اور مظالم کا بازار گرم کیا ہوا تھا۔لیکن وہ اپنے آپ کو خود بہت سے خطابات سے نوازتے چلے جا رہے تھے۔انہوں نے اپنے آپ کو یوگینڈا کا تا حیات صدر مقرر کر نے کے علاوہ اپنے آپ کو فیلڈ مارشل بھی مقرر کیا۔پھر گھر بیٹھے خود کو Conquerer of the British Empireیعنی فاتحِ سلطنت ِ برطانیہ سے نوازا۔اس کے علاوہ انہوں نے اپنے ملک کی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری حاصل کی اور اپنے آپ کو ڈاکٹر بھی کہلوانے لگے۔پھر انہوں نے خود کو شاہِ سکاٹ لینڈکا خطاب بھی عطا کیا۔ملک میں مظالم کی یہ حالت ہو گئی کہ خود ان کے وزراء بھی ملک سے بھاگ کر دوسرے ممالک میں پناہ لینے لگے۔جب لندن میں حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی صلیب سے نجات پر کانفرنس ہوئی تو اس میں بمشکل تمام یوگینڈا کے تین احمدی احباب بھی پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ان دنوں یوگینڈا سے باہر جانے کے لئے اجازت لینی پڑتی تھی اور فارن ایکسچینج کا مسئلہ اس کے علاوہ تھا ۔ جب ان احباب کی حضر ت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ سے ملاقات ہوئی تو حضور نے فرمایا کہ عیدی امین کے لئے مشکلات کا آغاز ہورہا ہے ۔جبکہ دوسری طرف یہ یوگینڈین احمدی یوگینڈا سے رخصت ہوئے تھے تو اس وقت تک عیدی امین کی حکومت کے ختم ہونے کے کچھ امکانات نہیں تھے۔ لیکن جلد ہی حالات نے ایک اور رخ اختیار کر لیا۔
۱۹۷۹ء میں جب ان کے نائب صدر ایک حادثہ میں زخمی ہو گئے تو نائب صدر کی حامی افواج نے بغاوت کر دی۔عیدی امین نے تنزانیہ پر الزام لگایا کہ اس نے یوگینڈا پر حملہ کیا ہے اور اس کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔جنگ شروع ہوئی تو ان کی افواج پسپا ہوتی گئیں اور بالآخر انہیں ملک سے فرار ہونا پڑا ۔ معزول ہونے کے بعد وہ سعودی عرب میں رہنے لگے اور وہاں کی حکومت ان کے اخراجات کی کفالت کرنے لگی۔ان کے معزول ہونے کے معاََ بعد جماعت کو اپنی ضبط شدہ مساجد،مشن ہاؤس اور سکول واپس مل گئے۔
(ان تفصیلات کا بیش قیمت حصہ مکرم سلیمان مو آنجے صاحب ،مکرم محمد علی کائرے صاحب ، مکرم چوہدری محمود احمد صاحب اور مکرم منیر احمد منیب انصاری صاحب نے مہیا کیا ہے)
دورہ یورپ ۱۹۷۵ء
۱۹۷۵ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی طبیعت ناساز رہ رہی تھی۔اگر چہ سال کے وسط تک طبیعت میں افاقہ تھا لیکن حضور کی صحت ابھی پوری طرح بحال نہیں ہوئی تھی۔طبی مشورہ بھی تھا اور احبابِ جماعت کی درخواست بھی یہ تھی کہ حضور بیرونِ ملک تشریف لے جا کر تشخیص اور علاج کرائیں۔ چنانچہ ۵؍ اگست ۱۹۷۵ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ صبح نماز ِ فجر کے بعد ربوہ سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔اسی روز پونے گیارہ بجے آپ بذریعہ ہوائی جہاز کراچی کے لیے روانہ ہو گئے اور اسی روز رات کو اڑھائی بجے حضور لندن کے لیے روانہ ہو گئے۔
پاکستان سے روانگی سے قبل حضور نے احباب جماعت کو جو پیغام دیا ،اس میں حضور نے تحریر فرمایا:
’’ہمارے ربِ کریم نے جو ذمہ داریاں ہمارے کمزور کندھوں پر ڈالی ہیں اور ان فرائض کی ادائیگی پر جن بشارتوں کا وعدہ کیا ہے وہ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم کامل اطاعت کے ساتھ پورے جذبہ ایثار کے ساتھ ،ساری شرائط کے ساتھ ،عملِ صالح کے ہر پہلو کو حسین بناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت کا نمونہ پورے اندرونی اتحاد کے ساتھ اور بنی نوع انسان کی کامل ہمدردری اور خیر خواہی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں اور حضرت خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ کے اسوہ کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنے والے ہوں۔یاد رکھیں کہ ہم کسی کے بھی دشمن نہیں۔ سب کے لئے ہی دعائیں کرنے والے ہیں،سب کے لئے ہی اپنے ربِ کریم سے خیر کے طالب ہیں اور پورا بھروسہ رکھتے ہیں کہ ہمارا محبوب خدادنیا کی نجات کے سامان پیدا کرے گا اور نوعِ انسانی اس کے قدموں میں اکٹھی ہو جائے گی اور امتِ واحدہ بن جائیگی۔ہر دل میں محمد رسول اللہ ﷺ کا پیار موجزن ہو جائے گا۔
پس آپس میں بھی پیار اور اتحاد سے رہیں اور نوعِ انسانی کے لئے بھی دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دکھوں کو حقیقی سکھ میں بدل دے۔جہاں آپ میرے لئے اور جماعت کے لیے دعائیں کر رہے ہوں گے وہاں اپنے عزیز وطن کے لئے بھی دعائیں کریں کہ خوشحالی ،استحکام اور ترقیات کے سامان پیدا ہوں۔۔‘‘
جہاز اڑھائی گھنٹے کے لئے ایمسٹرڈم میں رکا اور پھر وہاں سے روانہ ہو کر لندن پہنچا۔لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ میں انگلستان کے مشنری انچارج مکرم بشیراحمد رفیق صاحب اور دیگر احباب ِ جماعت نے حضور کا استقبال کیا۔ایئرپورٹ سے روانہ ہو کر قافلہ ۱۶ گریسن ہال روڈ پر واقع مشن ہاؤس پہنچا۔
حضور کی طبیعت کے پیشِ نظر ابھی باقاعدہ مجالسِ عرفان اور ملاقاتوں کا سلسلہ تو شروع نہیں ہوا تھا لیکن پھر بھی احبابِ ذوق و شوق سے مشن ہاؤس اور مسجد میں آتے تاکہ حضور کی زیارت کرسکیں اور اگر ممکن ہو تو حضور کے ارشادات سے مستفید ہو ں۔ڈاکٹری ہدایت کے مطابق حضور مشن ہاؤس کے سامنے لان میں چہل قدمی فرماتے اور بہت سے احباب بھی حضور کے ساتھ شامل ہو جاتے۔ ۸؍اگست کو حضور نے مسجد فضل لندن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا ۔حضور نے اپنی صحت کے متعلق تفصیلات بیان کرنے کے بعد احباب کو دعاؤں کی طرف توجہ دلائی ۔اس کے بعد حضور نے احباب کو پاکستان اور اہلِ پاکستان کی ترقی کے لئے دعائیں کرنے کی طرف توجہ دلائی ۔حضور نے فرمایا کہ اس وقت ہمارے ملک پاکستان کو بھی ہماری دعاؤں کی بہت ضرورت ہے۔سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات کی روشنی میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے لیے دعائیں کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔تیسرے حضور نے تمام بنی نوع انسان کے لئے دعائیں کرنے کی تحریک فرمائی۔حضور نے فرمایا کہ ہماری جماعتی پیدائش کی غرض یہ ہے کہ دنیا میں توحیدِ خالص قائم کی جائے اور نوعِ انسان کے دلوں میں محمد ﷺ کی محبت پیدا کی جائے۔حضور ان دنوں میں مشن ہاؤس کے دفتر میں تشریف لاتے اور ضروری ڈاک ملاحظہ فرماتے اور برطانیہ کے مشنری انچارج صاحب کو تبلیغ کے متعلق ضروری ہدایات سے نوازتے۔ بہت سے دنوں میں رات کے کھانے کے بعد حضور احمدی احباب کے ساتھ مجلس میں تشریف فرما رہتے اور ان سے گفتگو فرماتے۔حضور ڈاکٹری مشورہ کے مطابق لندن سے باہر بھی تشریف لے جاکر چہل قدمی فرماتے۔مکرم ڈاکٹر منظور حسین صاحب اور مکرم ڈاکٹر داؤد احمد صاحب نے ۹ ؍اگست کو تفصیل سے حضور کا طبی معائنہ کیا اور دوسرے ماہر ڈاکٹر صاحبان سے بھی مشورہ فرمایا۔طبی معائنوں میں پراسٹیٹ کی حالت تسلی بخش پائی گئی لیکن پیشاب میں گلوکوز اور انفیکشن کی موجودگی پہلے کی طرح برقرار رہی۔ Intravenous Pyelographyکا ٹسٹ ہوا تو گردوں کی حالت تسلی بخش پائی گئی۔
۱۵ ؍اگست ۱۹۷۵ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے سورہ زمر کی کچھ آیات تلاوت فرماکے ایک لطیف خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔حضور نے فرمایا کہ خدائی جماعتوں کے لئے ان کا خدا کافی ہے۔خدا تعالیٰ کے علاوہ جن دوسرے وجودوں سے بالعموم ڈرایا اور جن کا خوف دلایا جاتا ہے ان کا دائرہ اقتدار بہت محدود اور عارضی ہے اور ان سے کوئی توقع رکھنا یا ان پر بھروسہ کرنا محض بیکار ہے۔وہ خود محتاج ہیں وہ کسی کو کیا دے سکتے ہیں۔اسی طرح جو خدا کی نگاہ میں ہدایت یافتہ ہے دنیا کی کوئی طاقت یا دنیا کا کوئی فتویٰ اسے ہدایت سے محروم نہیں کر سکتا۔اللہ تعالیٰ غالب ہے اور بدلہ لینے پر قادر ہے۔اس لئے وہ اپنے ہدایت یافتہ حقیقی بندوں کو اپنی تائید و نصرت کا مورد بنا کر ان کے ذریعہ حق کو غلبہ عطا فرماتا ہے اور اطاعت سے نکلنے والے نا فرمانوں اور ظلم کو اپنا شیوہ بنانے والوں پر اپنا قہر نازل کرتا ہے۔
اب لندن میں سالانہ جلسہ کا وقت قریب آ رہا تھا۔نہ صرف برطانیہ بلکہ یورپ،امریکہ اور افریقہ کے بعض احباب بھی اس میں شرکت کے لیے تشریف لا رہے تھے۔۲۴؍ اگست ۱۹۷۵ء کو جماعت ِ احمدیہ بر طانیہ کا جلسہ سالانہ شروع ہوا۔اپنی افتتاحی خطاب میں حضور نے فرمایا کہ وہ اکیلی آواز جو آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آج سے ۸۵ سال قبل بلند ہوئی تھی،اس کی گونج آج دنیا کے کونے کونے میں سنی جا رہی ہے اور دنیا بھر سے سعید روحیں اس پر لبیک کہتے ہوئے توحید کی طرف کچھی چلی آرہی ہیں۔اس انقلاب کے متعلق ایک خاص بات یاد دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق یہ انقلاب نرمی، دعاؤں اور اخلاق کے ذریعہ رو نما ہوا ہے اور آئندہ بھی اسی طرح اس میں وسعت پیدا ہو گی۔اس لئے احباب ِ جماعت کو چاہئے کہ وہ نرمی اور اخلاق کا مظاہرہ کرنے اور دعاؤں سے کا م لینے میں کبھی بھی سست نہ ہوں۔
یہ جلسہ دو روز کا تھا اور اس کے اختتامی خطاب میں حضور نے تفصیل سے ان فضلوں کا ذکر فرمایا جو مجلس نصرت جہاں کے اجراء کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمائے اور تفصیلات بیان فرمائیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے احمدی ڈاکٹروں کی حقیر مساعی میں خارق عادت برکت ڈال دی۔جلسہ سالانہ کے بعد حضور نے مختلف ممالک اور برطانیہ کے مختلف مقامات سے آئے ہوئے دوستوں سے ملاقات فرمائی۔ حضور جلسہ کے بعد اپنی علالت کے با وجود با قاعدگی سے ڈاک ملاحظہ فرماتے رہے۔اور اس کے ساتھ ماہر یورولوجسٹ ڈاکٹر صاحبان سے مشورہ کا سلسلہ بھی جا ری تھا۔اور مختلف ٹسٹ بھی کئے جا رہے تھے۔رات کو حضور بسا اوقات احباب ِ جماعت کے ساتھ تشریف فرما ہوتے اور ان سے گفتگو فرماتے۔شام کو چہل قدمی کرتے تو بہت سے دوست اس وقت حضور کے ساتھ شامل ہو جاتے۔اس موقع سے فائدہ اُ ٹھاتے ہوئے بعض اور ممالک سے مبلغینِ سلسلہ بھی حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سویڈن سے مکرم کمال یوسف صاحب اور نائیجیریا سے مکرم منصوراحمد خان صاحب بھی لندن میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور نے انہیں ہدایات سے نوازا۔حضور کے لندن میں قیام کے دوران رمضان کے مبارک ایام آئے اور عید الفطر کا موقع بھی آیا۔عید پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے احباب ِ جماعت کو یہ پیغام بھجوایا۔
’’تمام احمدی بھائیوں اور بہنوں کو میری طرف سے السلامُ علیکم اور عید مبارک ۔میری صحت اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالکل اچھی ہے اور کسی قسم کی کوئی تکلیف باقی نہیں ہے۔ الحمد للہ علی ذالک۔‘‘
لندن میں عید کی نماز میں دو ہزار کے قریب احباب ِ جماعت نے شرکت فرمائی۔حضور نے خطبہ عید میں احباب ِ جماعت کو تحریک فرمائی کہ وہ اسلام کے پیغام کو اکناف ِ عالم میں پھیلانے کے لئے نئے عزم و ہمت کے ساتھ اپنی کمریں کس لیں۔(۱ تا ۱۶)


(۱)الفضل۶ اگست ۱۹۷۵ء ص ۱(۲)الفضل ۱۵ اگست ۱۹۷۵ء ص۱(۳) الفضل ۱۸ اگست ۱۹۷۵ء ص ۱
(۴) الفضل ۲۰ اگست ص۲(۵) الفضل ۲۱ اگست ۱۹۷۵ء ص۱(۶) الفضل ۲۲ اگست ۱۹۷۵ء ص۱
(۷) الفضل ۲۳ اگست ۱۹۷۵ء ص۲(۸) الفضل ۲۶ اگست ۱۹۷۵ء ص۲(۹) الفضل یکم ستمبر ۱۹۷۵ء ص۱
(۱۰) الفضل ۲ ستمبر ۱۹۷۵ء ص۱(۱۱) الفضل ۴ ستمبر ۱۹۷۵ء ص۲(۱۲)الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۷۵ء ص۱
(۱۳) الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۷۵ء ص۱ (۱۴) الفضل ۱۷ ستمبر ۱۹۷۵ء ص۱(۱۵)الفضل ۹ اکتوبر ۱۹۷۵ء ص۱
(۱۶)الفضل ۱۰ اکتوبر ۱۹۷۵ء ص۱
دورہ امریکہ و کینیڈا۔ ۱۹۷۶ء
۱۹۷۶ء کا سال امریکہ اور کینیڈا کی جماعتوں کی تاریخ میں اس لئے بہت اہمیت رکھتا ہے کہ یہ وہ پہلا سال تھا جس میں خلیفہ وقت نے اس خطے کا دورہ فرمایا۔۲۱؍ جولائی ۱۹۷۶ء کو حضور اس دورہ کے لئے ربوہ سے روانہ ہوئے۔اور اسی روز حضور کراچی سے روانہ ہو کر لندن پہنچ گئے۔۲۳ ؍جولائی کو حضور نے خطبہ جمعہ مسجد فضل لندن میں ارشاد فرمایا۔اور ۲۴؍ جولائی کو حضور واشنگٹن پہنچ گئے۔ڈلاس کے ہوائی اڈے پر تین صد احمدی احباب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا استقبال کیا۔جماعت ِ احمدیہ امریکہ کے لیے یہ ایک تاریخی موقع تھا ۔بہت سے مقامی نومسلم احباب پر اس وقت رقت طاری تھی اور حضور ان احباب سے مل کر بہت مسرور تھے۔۳۰ ؍جولائی کو حضور نے مسجد فضل واشنگٹن میں انگریزی میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔اس خطبہ کا اکثر حصہ دعاؤں پر مشتمل تھا اور آخر میں حضور نے یہ دعاکی
’’اے ہمارے ربّ ! تیری راہ میں جو بھی سختیاں اور آزمائشیں ہم پر آئیں ان کی برداشت کی قوت اور طاقت ہمیں بخش اور سختیوں اور آزمائشوں کے میدان میں ہمیں ثباتِ قدم عطا کر،ہمارے پاؤں میں لغزش نہ آئے اور اپنے اور اسلام کے دشمن کے خلاف ہماری مدد کر اور ہماری کامیابیوں کے سامان تو خود اپنے فضل سے پیدا کردے۔‘‘(۱)
واشنگٹن میں حضور کے قیام کے یہ دن نہایت مصروف دن تھے۔حضور کا قیام مکرم صاحبزادہ مرزامظفراحمد صاحب کے مکان میں تھا۔بہت سے احباب نے حضور سے ملاقات کی۔امریکہ کی مختلف جماعتوں کے امراء اور دیگر عہدیدارانِ جماعت نے حضور سے ملاقات کی اور حضور نے مختلف جماعتی امور میں انہیں ہدایات دیں۔حضور نے امریکہ کی مختلف جماعتوں کے امراء کا اجلاس طلب فرمایا۔اس اجلاس میں تبلیغ اسلام کے متعلق منصوبے پیش کئے گئے۔حضور نے اس امر کی نشاندہی فرمائی کہ اس پر عملدرآمد کے لیے اس بات کی بنیادی اہمیت ہے کہ ان پر کتنے اخراجات ہوں گے اور اس کے لئے کتنی مدت درکارہو گی۔اور ان منصوبوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔اس کے بعد حضور نے امریکہ کی مختلف جماعتوں کے چندوں کی تفاصیل دریافت فرمائیں اور چندوں کی وصولی کے نظام میں بعض خامیوں کی نشاندہی فرماکر ہدایات دیں۔اس اجلاس میں ایک تجویز یہ پیش کی گئی تھی کہ امریکہ سے جنوبی امریکہ کے ممالک اور کیوبا اور میکسیکو میں تبلیغ کی جائے۔اس بارہ میں آراء سننے کے بعد حضور نے ارشاد فرمایا کہ جنوبی امریکہ میں تبلیغ آپ لوگوں کی ذمہ داری نہیں ہے پہلے شمالی امریکہ میں اپنے آپ کو منظم کریں ۔اور تمام آمد پیدا کرنے والے احباب سے حسب ِ شرح چندہ وصول کرکے اپنے آپ کو مضبوط کریں۔اور جہاں بھی تین یا تین سے زیادہ احباب موجود ہوں وہاں انہیں جماعت کی صورت میں منظم کیا جائے۔امریکہ میں پریس قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی اور یہ بھی تجویز کیا گیا کہ اس کے لئے ایک احمدی کو ٹریننگ دلائی جائے۔اس پر رپورٹ تیار کرنے کے لئے حضور نے ایک کمیٹی قائم فرمائی اور فرمایا کہ مجوزہ پریس کا اکنامک یونٹ ہونا ضروری ہے۔کتابوں کی اشاعت کے متعلق حضور نے دو احباب کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ یہ جائزہ لیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کون سی کتب کا انگریزی ترجمہ ہونا ضروری ہے۔اور فرمایا کہ مستورات سے بھی مشورہ لیا جائے۔اور فرمایا کہ قرآنِ کریم اور مختصر تفسیر کے کم ازکم پچاس ہزار نسخے شائع کر کے اس ملک میں جلد از جلد تقسیم ہونے چاہئیں۔ نئی مساجد کی تعمیر کی تجویز کے متعلق حضور نے ارشاد فرمایا کہ مساجد ہماری جماعتی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور ان کی تعمیر کے لئے مقامی طور پر رقم مہیا ہونی چاہئے۔جماعت کی تربیت کی تجویز پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ یہاں کے احمدیوں سے رابطہ کر کے انہیں فعال احمدی بنایا جائے اور یہ کام اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ عہدیداروں اور احباب ِ جماعت کے درمیان ذاتی رابطہ نہ ہو۔
۲۷ جولائی کو حضور نے دو صحافیوں کو انٹرویو دیا۔ان میں سے ایکMiss Lavonia Perryman تھیں جو ریڈیو کی نمائندہ تھیں۔دوسرے Mr.John Novotnayتھے ۔ جب حضور سے سوال کیا گیا کہ اسلام کے پاس عیسائیت سے بڑھ کر کیا ہے جو انسان کے لئے پیش کی گئی ہے۔جب کہ عیسائی بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عیسائیت قبول کرنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے سے خدا سے زندہ تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ عیسائی پادری میرے اس دعوے کو چیلنج کریں کہ اسلام پر عمل کرنے سے خدا سے زندہ تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔میں انہیں اسلام کے اس امتیازی فرق اور اس کی افضلیت کا تازہ بتازہ ثبوت دینے کو تیار ہوں۔
واشنگٹن میں قیام کے دوران ایک واقعہ پیش آیا جس کے ایک حصہ کا ذکر حضور نے بعد میں ایک خطبہ جمعہ میں بھی فرمایا۔جب حضور یہاں سے واپس جانے کے لئے ہال میں کھڑے ہوئے تو ایک سیاہ فام امریکن خاتون جو پہلے دور کھڑی تھی دوڑ کر حضور کے سامنے جا کر کھڑی ہوئی اور حضور کو ایک خط دے کر کہنے لگی کہ مجھے اس کا جواب آج ہی چاہئے۔دوسرے احمدی احباب کو اس سے سخت تشویش ہوئی لیکن حضور نے نہایت اطمینان اور سکون سے فرمایا کہ یہاں سے آکر جواب لے جانا اور خط پڑھے بغیر جیب میں ڈال لیا۔جب مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے گھر پر آ کر خط کھولا تو یہ ایک داؤد نامی شخص کی طرف سے تھا جو پہلے احمدی تھا پھر اس کو بعض خلاف ِ سلسلہ حرکات کی وجہ سے نظام جماعت سے علیحدہ کر دیا گیا تھا۔اس نے لکھاتھا کہ امریکہ کے دورہ کے دوران آپ پر قاتلانہ حملہ کا پروگرام بن چکا ہے جس کا مجھے علم ہے ۔مگر اس کی تفصیلات میں اس صورت میں بتا سکتا ہوں اگر آپ کینیڈا میں مجھے ملاقات کا وقت دیں اور جواب اس عورت کے ہاتھ ارسال کر دیں۔یہ خط ٹرینیڈاڈ سے تحریر کیا گیا تھا کیونکہ یہ شخص اب امریکہ سے ٹرینیڈاڈ منتقل ہو چکا تھا۔حضور نے خط پڑھ کر امیر جماعت مکرم مولانا محمد صدیق گورداسپوری صاحب اور نیشنل پریذیڈنٹ مکرم رشید احمد صاحب کو طلب فرمایا اور مناسب کارروائی کی ہدایت فرمائی اور اس کے ساتھ ہی تمام تقریبات کو حسب ِ پروگرام جاری رکھنے کا ارشاد فرمایا۔جماعت کی طرف سے حکومتی ادارے کو اس امر سے مطلع کر دیا گیا اور اس کے ساتھ حفاظت کے انتظامات مزید سخت کر دیئے گئے۔اگلے روز یہ عورت حضور کی آمد پر پھر مشن ہاؤس آ گئی لیکن اس کو وہاں سے رخصت کر دیا گیا۔جب حضور نیویارک تشریف لے گئے تو اس گروہ کے کچھ لوگ ہوٹل پہنچ گئے اور حضور سے ملنا چاہا لیکن انہیں اس میں کامیابی نہ ہوئی۔جب حضور ٹورونٹو کینیڈا کے ایئر پورٹ پر پہنچے تو ایک شخص آ کر حضور کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔سب سے پہلے حضور کی بیگم صاحبہ سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کو اس امر کا خیال آیا کہ یہ وہی شخص ہو سکتا ہے جس کی طرف سے وہ خط ملا تھا۔ آپ کے متوجہ کرنے پر اس شخص کو وہاں سے رخصت کر دیا گیا۔یہ ٹورونٹو کے ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔پولیس کو مطلع کیا گیا تو پولیس نے اس کو تلاش کر کے اسے وارننگ دی کہ اگر اس نے احمدیوں کی کسی تقریب میں شرکت کرنے کی کوشش کی یا اس جگہ کے قریب گیا جہاں پر امام جماعت احمدیہ ٹھہرے ہوئے ہیں تو اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔اس کے بعد یہ شخص کہیں نظر نہیں آیا۔(۲)
واشنگٹن میں چند روز قیام کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ ۳۰ ؍جولائی کو ڈیٹن پہنچ گئے۔ سٹی کمشنر نے حضور کا خیرمقدم کیا اور شہر کی چابی پیش کی۔اور مڈویسٹ اور لیک ریجن کے تین صد احباب نے حضور کا استقبال کیا۔ڈیٹن میں حضور کی آمد وہاں کے مقامی نو مسلم احباب کے لئے خاص طور پر خوشی کا باعث تھی اور حضور سے ملتے ہوئے ان احباب پر ایک خاص رقت کی کیفیت طاری تھی۔بہت سے غیر مسلم احباب نے حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ڈیٹن میں وہاں ٹیلی ویژن چینلز اور اخبارات نے حضور کے انٹرویو لئے۔ملاقاتوں اور انٹرویو میں یہ سوال عموماََ حضور سے پوچھا جاتا کہ آپ اہلِ امریکہ کو کس طرح مسلمان کریں گے۔اس کا جواب حضور یہی دیتے کہ محبت پیار اور بے لوث خدمت کے ذریعہ لوگوں کے دل اسلام کے لئے جیتے جائیں گے۔ ڈیٹن کی جماعت نے حضور کی آمد پر استقبالیہ کی تقریب کا اہتمام کیا جس میں دیگر احباب کے علاوہ ڈیٹن کے میئر اور ممبرانِ کانگرس نے بھی شرکت کی۔حضور کے ڈیٹن میں قیام کے دوران امیرمڈ ویسٹ ریجن مکرم مظفر احمد صاحب ظفر اور دیگر احباب کا اخلاص اپنی ذات میں ایک نشان تھا ۔۴ ؍اگست کو حضور ڈیٹن سے بذریعہ ہوائی جہاز نیویارک تشریف لے گئے۔نیویارک اور قریب کی دوسری جماعتوں کے سینکڑوں احباب نے حضور کا استقبال کیا۔ان دنوں میں پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے پاکستان کے بہت لوگوں کو مشکلات کا سامنا تھا۔حضور کو اس بابت بہت تشویش تھی۔حضور نے نیویارک سے پیغام بھجوایا کہ سیلاب کے موجودہ ایام میں احمدی احباب کو خاص طور پر بہت دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ جماعت اور پاکستان کا حافظ و ناصر ہو اور انہیں ہر طرح کی آفات سے محفوظ رکھے۔۵؍ اگست کو حضور نے نیویارک میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا ۔اس میں مختلف اخبارات،نیوز ایجنسیوں اور ٹیلی وژن کے نمائندگان نے شرکت کی۔اس پریس کانفرنس میں بھی حضور سے یہ سوال خاص طور پر کیا گیا کہ آپ کی یہاں پر آمد کا مقصد کیا ہے؟ حضور نے مسلمانوں کا اولین مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ دنیاکی صحیح سمت میں راہنمائی کرے۔سو جو چیز مجھے یہاں لائی ہے وہ یہ ہے کہ میں اہلِ امریکہ کو بتانا چاہتا ہوںکہ اس زمانہ میں نوعِ انسان نے اپنے مقصد کو فراموش کر دیا ہے اور وہ سراسر بے مقصد زندگی بسر کر رہے ہیں۔اس کی مثال بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ اس زمانہ میں انسان نے اپنی عقل کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے۔حضور نے مثالوں سے عقل کی نارسائی کو واضح فرمایا اور بیان فرمایا انسان کو اللہ تعالیٰ کے سہارے کی کیوں ضرورت ہے اور اسے کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔اسی روزحضور نے نیویارک کی جماعت کی طرف سے دیئے جانے والے استقبالیہ میں شرکت فرمائی جس میں اقوامِ متحدہ میں متعین مختلف ممالک کے سفارتی نمائندگان نے بھی شرکت کی ۔حضور نیویارک سے میڈیسن ( نیو جرسی) تشریف لے گئے۔یہاں پر حضور نے ۶؍اگست ۱۹۷۶ء کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی جماعتوں کے سالانہ کنونشن کا افتتاح فرمایا۔کنونشن کے با قاعدہ افتتاح سے قبل شہر کے میئر نے حضور کو خوش آمدیدکہا۔اپنے افتتاحی خطاب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے خلافت ِ احمدیہ کے مقام کی اہمیت واضح فرمائی اور احباب کو نصیحت فرمائی کہ وہ خلافت کی مضبوط رسی کو تھامے رکھیں اور سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے لائے ہوئے پیغام کی اشاعت کے لئے کوشاں رہیں ۔اس کنونشن کے اختتامی خطاب میں حضور نے نئی نسل کی تربیت کے ایک جامع منصوبہ کا اعلان فرمایا اورنوع ِ انسانی کو مکمل تباہی سے بچانے کے لئے امریکی احمدیوں کو ان کی اہم اور عظیم ذمہ داری کی توجہ دلائی۔
۸؍ اگست ۱۹۷۵ء کو حضور واشنگٹن سے کینیڈا کے شہرٹورونٹو تشریف لے گئے۔تقریباََ چار صد احباب نے حضور کے استقبال کی سعادت حاصل کی۔یہ پہلا موقع تھا خلیفہ وقت کینیڈا کے ملک کا دورہ فرما رہے تھے۔کینیڈا پہنچنے کے اگلے روزہی حضور نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا۔اور اس کے بعد حضور کی زیر ِ صدارت کینیڈا کے مختلف امراء کی میٹنگ منعقد ہوئی ۔حضور کی خدمت میں مختلف جماعتی سرگرمیوں کی رپورٹ پیش کی گئی۔اور یہ صورت حال بھی حضور کی خدمت میں پیش کی گئی کہ کینیڈا میں کوئی باقاعدہ مبلغ ،مشن ہاؤس اور مسجد نہ ہونے کی وجہ سے منظم بنیادوں پر کا م نہیں ہو رہا۔مسجد کی بابت حضور نے ارشاد فرمایا کہ موجودہ مرحلہ میں ہم کو مسجد کی تعمیر پر زیادہ رقم نہیں خرچ کرنی چاہئے بلکہ افادیت کو مد ِ نظر رکھ کر ایسی مسجد تعمیر کرنی چاہیے جس سے ضرورت پوری ہو سکے۔اس مرحلہ پر ایک دوست نے عرض کی کہ آجکل چرچ کی عمارتیں فروخت ہو رہی ہیں اور سستے داموں مل جاتی ہیں ۔ہم بھی ایسی کوئی عمارت خرید کر اسے مسجد میں تبدیل کر سکتے ہیں۔اس پر حضورنے فرمایا ہر گز نہیں ،ہم اپنی مسجد آپ بنائیں گے۔ہم یہ الزام نہیں لینا چاہتے کہ ہم نے عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو مساجد میں تبدیل کر دیا ہے۔حضور نے شرح کے ساتھ چندوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی۔اور فرمایا کہ یہ درست نہیں کہ لوگ تھوڑی بہت رقم ادا کر کے سمجھ لیں کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔جماعتی تنظیم کے سلسلہ میں حضور نے فرمایا کہ اتحاد تنظیم اور یکجہتی کے بغیر کوئی تنظیم قائم نہیںہو سکتی اور ہو بھی جائے تو خاطر خواہ طریق پر چل نہیں سکتی لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ سرے سے کوئی اختلاف رو نما ہی نہ ہو۔اس بارہ میں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر وہ اختلاف جس سے بہتری کے سامان پیدا ہو تے ہیں وہ اسلامی اختلاف ہے اور رحمت و برکت کا موجب ہے۔بر خلاف اس کے جس اختلاف کے نتیجے میں بہتری کے سامان پیدا نہ ہوں بلکہ تنظیم میں خلل پڑنے لگے اور فرائض کی ادائیگی میں پہلو تہی کا رحجان پنپنے لگے تو ایسا اختلاف سراسر غیر اسلامی ہے۔اس روزحضور نے احباب ِ جماعت سے ملاقات فرمائی اور کمیونٹی سنٹر کے لئے مجوزہ زمین کا معائنہ بھی فرمایا۔اور جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے دیئے جانے والے استقبالیہ میں شرکت فرمائی۔کینیڈا میں حضور کا قیام ۱۱؍ ا گست تک رہا جس کے بعد حضور پھر واشنگٹن تشریف لے آئے۔اور پھر ۱۵؍ اگست کو حضور امریکہ سے لندن تشریف لے آئے۔۱۸؍ اگست کو حضور لندن سے گوٹن برگ سویڈن روانہ ہو گئے۔۲۰؍ اگست کو حضور نے سویڈن میں بننے والی مسجد کا افتتاح فرمایا۔مختلف ممالک سے آئے ہوئے چھ صد احباب نے اس مبارک تقریب میں شرکت کی۔یہ پہلی مسجد تھی جو صد سالہ جوبلی منصوبہ کے تحت تعمیر ہوئی تھی۔حضور نے خطبہ جمعہ میں اعلان فرمایا کہ دراصل مساجد تو اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں ہماری حیثیت تو محض نگران کی ہے۔ہماری مساجد کے دروازے ان تمام لوگوں کے لئے کھلے ہیں جو خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرنا چاہتے ہیں۔حضور نے احباب ِ جماعت کو تلقین فرمائی کہ وہ اس مسجد کو حتی الوسع صاف رکھیں تا کہ لوگ پوری دلجمعی اور اطمینان کے ساتھ اس میں خدا کی عبادت کر سکیں۔اس تقریب سے قبل سویڈن ریڈیو کے نمایندوں نے حضور سے انٹرویو لیا۔اور حضور نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا۔ابھی اس مسجد کے افتتاح کو چند دن ہی گزرے تھے کہ کچھ یوگو سلاوین احباب بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔
سویڈن کے بعد حضور پہلے ناروے اور پھر ڈنمارک تشریف لے گئے۔اور یکم ستمبر کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ ڈنمارک سے مغربی جرمنی تشریف لے گئے۔مغربی جرمنی میں حضور پہلے ہمبرگ اور پھر فرانکفورٹ تشریف لے گئے۔۷؍ ستمبر کو حضور سوئٹزر لینڈ تشریف لے گئے۔زیورچ میں سوئس ریڈیو نے عید کے موقع کے لئے حضور کا پیغام ریکارڈ کیا۔۱۲ ؍ستمبر کو حضور سوئٹزر لینڈ سے ہالینڈ تشریف لے آئے۔ہالینڈ میں کچھ ڈچ،سورینامی اور انڈونیشین احباب نے بیعت کی۔۱۴ ؍ستمبر کو حضور ہالینڈ سے واپس لندن تشریف لے آئے۔
جب اس سال عید الفطر کا مبارک موقع آیا توحضور لندن میں تشریف رکھتے تھے۔حضور نے عید کے موقع پرخطبہ میں ارشاد فرمایا کہ خدا کا اپنے بندوں پر رجوع برحمت ہونا ہی اصل عید ہے کیونکہ اس کے پیار کے حصول سے بڑھ کر اور کوئی خوشی نہیں۔حضور نے فرمایا کہ اس آخری زمانہ میں اسلام کے عالمی غلبہ کی صورت میں ایک عظیم الشان عید ہمارے لئے مقدر ہے۔اس تاریخی دورہ کو مکمل کر کے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ ۲۰ ؍اکتوبر کو و اپس مرکزسلسلہ ربوہ تشریف لے آئے۔








(۱) خطباتِ ناصر جلد ششم ص۵۰۶
(۲) تحریری روایت مکرم مولانا محمد صدیق گورداسپوری صاحب

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی وفات
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد میں سے ایک بابرکت وجود تھیں۔آپ کی پیدائش ۲ مارچ ۱۸۹۷ کو ہوئی آپ کی پیدائش سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماََ بتایا گیا تھا تنشا فی الحلیۃ یعنی زیورات میںپرورش پائے گی۔اس سے معلوم ہوتا تھا کہ لڑکی کی پیدائش ہو گی اور یہ لڑکی نہ کم عمری میں فوت ہو گی اور نہ تنگی دیکھے گی ۔پھر ۱۹۰۱ء میں آپ کے متعلق الہام ہوا ’’نواب مبارکہ بیگم ‘‘(۱)۔۱۹۰۱ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ مبارکہ سلمہا اللہ پنجابی زبان میں بول رہی ہے کہ مینوں کوئی نہیں کہہ سکدا کہ ایسی آئی جس نے ایہہ مصیبت پائی۔‘‘(۲)
آپ کو بچپن ہی سے رؤیا صالحہ دکھائے جاتے تھے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاتھا کہ میری یہ بچی بہت خوابیں دیکھتی ہے اور اکثر وہ خوابیں سچی نکلتی ہیں۔آپ نے قاعدہ حضرت پیر منظور محمد صاحب سے پڑھا۔ حضرت پیر منظور صاحب نے قاعدہ یسرنا القرآن آپ کو اور اپنی ایک بیٹی کو پڑھانے کے لئے ایجاد کیا تھا۔آپ بچپن ہی سے بہت ذہین و فہیم تھیں اور جلد ہی قرآنِ کریم روانی سے پڑھنے لگیں۔حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے آپ کو پہلے تین پاروں کا ترجمہ پڑھایا اور باقی ترجمہ آپ نے حضرت خلیفہ اول ؓ سے پڑھا۔اس کے علاوہ آپ نے فارسی اور عربی کی بعض کتب پڑھیں ۔اور شادی کے بعد آپ نے انگریزی کی بھی کچھ تعلیم حاصل کی اور انگریزی کتب بھی آپ کے زیر ِ مطالعہ رہتی تھی(۴) ۔حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح حضرت نواب محمد علی خان صاحب ؓ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک زندگی میں آخری سال میں ہوا۔۱۷؍ فروری ۱۹۰۸ء کو حضرت مولانا نورالدین صاحب ؓ نے خطبہ نکاح پڑھا اور فرمایا کہ ’’ایک وقت تھا جب کہ حضرت نواب صاحب موصوف کے مورثِ اعلیٰ صدر جہاں کو ایک بادشاہ نے اپنی لڑکی نکاح میں دی تھی۔اور وہ بزرگ بہت ہی خوش قسمت تھا ۔مگر ہمارے دوست نواب محمد علی خان صاحب اس سے زیادہ خوش قسمت ہیں کہ ان کے نکاح میں ایک نبی اللہ کی لڑکی آئی ہے۔‘‘(۳)
آپ کا شفیق وجود جماعت ِ احمدیہ کے لئے بہت سی برکات رکھتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت اعلیٰ پائے کا ادبی ذوق عطا فرمایا تھا۔آپ کا مجموعہ کلام درِ عدن آپ کی ادبی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوع پر آپ کی تقاریر اور مضامین جماعت کے علمی سرمایہ کا ایک اہم حصہ ہیں۔حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کا انتقال ۱۹۴۷ء میں ہو گیا تھا۔ آپؓ نے اس صدمہ کو بلند حوصلہ کے ساتھ برداشت کیا۔۱۹۷۶ء میں ہی آپ کی طبیعت بہت زیادہ کمزور رہنے لگی تھی۔ایک طویل علالت کے بعد آپؓ ۲۲ اور ۲۳ مئی۱۹۷۷ء کی درمیانی شب اس جہانِ فانی سے رحلت فرما گئیں۔اگلے روز حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے بہشتی مقبرہ کے احاطے میں آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور ہزاروں احباب نے اس جلیل القدر ہستی کی نماز ِ جنازہ میں شرکت کی۔
۱۰ ؍جون ۱۹۷۷ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے خطبہ جمعہ میں آپ کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :
ہمارے لئے دو صدمے اوپر نیچے آئے پہلے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ ہماری محترمہ پھوپھی جان کی وفات ہوئی اور پھر چند دن کے بعد محترم ابو العطاء صاحب کی وفات ہوئی۔آپ سب مرد و زن اور چھوٹے بڑے اچھی طرح سمجھ لیں کہ ہم بت پرست نہیں ہیں۔ ہم خدائے واحد و یگانہ پر ایمان لاتے ہیں۔حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے متعلق آپ نے فرمایا کہ آپ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ میری یہ بچی بہت خوابیں دیکھتی ہے اور کثرت سے یہ خوابیں سچی نکلتی ہیں۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کا ایک جلوہ ہے کہ ایک بچی جس پر ابھی شاید نمازیں بھی فرض نہیں ہوئی تھیں اللہ تعالیٰ کااس سے یہ سلوک ہے کہ اسے کثرت سے اپنی قدرت کے نظارے دکھاتا ہے۔پھر ساری عمر اللہ تعالیٰ نے آپ سے پیار اور محبت اور فضل اور رحمت کا سلوک کیا اور انہوں نے کبھی بھی اسے اپنی کسی خوبی کا نتیجہ نہیں سمجھا بلکہ دل میں یہی خیال پیدا ہوا کہ یہ خدا کی عطاء ہے۔میں ہر دو کی بات کر رہا ہوں یعنی نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور ابوالعطاء صاحب کے متعلق ان کے روئیں روئیں سے یہ آواز نکلی لا فخر(۵)
(۱) تذکرہ ص ۳۳۸(۲) تذکرہ ص۲۷۷(۳)مصباح دسمبر ۲۸ جنوری ۱۹۷۹ء ص۲۶
(۴) اخبار بدر ۲۷ فروری ۱۹۰۸ء ص۲(۵)الفضل ۲۹ جون ۱۹۷۷ء ص۲،۳
حضرت عیسیٰ ؑ کی صلیب سے نجات پر لندن میں کانفرنس
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے قبل مسلمان اور عیسائی دونوں اس عقیدہ میں مبتلا تھے کہ حضرت عیسیٰ ؑ اس دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔اور عیسائیت نے اس خیال کی بنیاد پر کہ حضرت عیسیٰ ؑ صلیب پر ان کے گناہوں کے کفارہ کے لئے وفات پا گئے اور پھر دوبارہ زندہ ہو کر آسمان پر تشریف لے گئے اور پھر اس دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے،اپنے مشرکانہ عقائد کو دنیا بھر میں پھیلایا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس عقیدہ کی بنیاد پر حملہ فرمایا اور روشن دلائل سے ثابت فرمایا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی صلیب پر وفات ہوئی ہی نہیں تھی اور نہ ہی وہ آسمان کی طرف اُٹھائے گئے تھے۔ان دلائل سے کفارہ کے عقیدہ کا بطلان خود بخود ہو جاتا ہے۔
اپنی وفات سے ایک روز قبل نماز ِ عصر سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفاتِ مسیحؑ کے مسئلہ پر ہی تقریر فرمائی۔اور یہ کسی مجلس میں آپ کی آخری تقریر تھی۔موقع یہ تھا کہ مولوی ابراہیم سیالکوٹی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ وہ بعض مسائل پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں اور یہ بھی عرض کی کہ پاسِ ادب سے گفتگو کریں گے۔اس ضمن میں کسی دوست نے یہ عرض کی کہ وہ اس بات کے قائل نہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کو سولی پر لٹکایا گیا تھا۔اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسئلہ وفاتِ مسیح پر ایک مختصر تقریر کی۔اس کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’افسوس ہے ان نام کے مسلمانوں پر کہ اپنی ناک کاٹنے کے واسطے آپ ہی دشمن کے ہاتھ میں چھری دیتے ہیں۔یاد رکھوکہ اگر خدا تعالیٰ کا یہی منشا ہوتا اور قرآن و حدیث میں حقیقتاََ یہی امر اس نے بیان کیا ہوتا کہ واقعہ میں حضرت مسیحؑ زندہ ہیں اور وہ مع جسمِ عنصری آسمان پر بیٹھے ہیں اور یہ عقیدہ بھی حضرت مسیح کے بن باپ پیدا ہونے کی طرح خدا تعالیٰ کے نزدیک سچا عقیدہ ہوتا تو ضرورتھا کہ اللہ تعالیٰ اس کی بھی کوئی نہ کوئی نظیر پیش کرکے قومِ نصاریٰ کو اس امر کے حضرت مسیحؑ کی خدا ئی کی دلیل پکڑنے سے بند اور لا جواب کر دیتا۔مگر خدا تعالیٰ کے اس امر کی دلیل پیش نہ کرنے سے صاف عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر گز ہر گز یہ منشا ء نہیں جو تم محض افتراء سے خدا تعالیٰ کے کلام پر تھوپ رہے ہو بلکہ توفی کا لفظ خدا تعالیٰ نے محض موت ہی کے معنوں کے واسطے وضع کیا ہے اور یہی حقیقت اور اصل حال ہے۔
دیکھو ہر ایک خصوصیت جو کہیں کسی خاص شخص کے متعلق پیدا کی گئی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا ضرور جواب دیا ہے مگر کیا وجہ اتنی بڑی خصوصیت کا کوئی جواب نہیں دیا۔خصوصیت ہی ایک ایسی چیز ہے کہ جس سے شرک پیدا ہوتاہے۔‘‘(۱)
حضرت بھائی عبد الرحمن قادیانی ؓ صاحب یہ تقریر قلمبند کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’یہ حضرت اقدس علیہ السلام کی زندگی میں آپ کی آخری تقریر ہے جو آپ نے بڑے زور اورخاص جوش سے فرمائی ۔دورانِ تقریر آپ کا چہرہ اس قدر روشن اور درخشاں ہو گیا تھا کہ نظر اُ ٹھا کر دیکھا بھی نہیں جاتا تھا۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تقریر میں ایک خاص اثر اور جذب تھا ۔رعب ،ہیبت اور جلال اپنے کمال عروج پر تھا۔بعض خاص خاص تحریکات اور موقعوں پر حضرت اقدس کی شان دیکھنے میں آئی ہو گی جو آج کے دن تھی۔اس تقریر کے بعد آپ نے کوئی تقریر نہیں فرمائی۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی بہت سی کتب میں اس اہم موضوع پر دلائل بیان فرمائے اور خاص طور پر اپنی تصنیف ’’مسیح ہندوستان میں‘‘ میں اس موضوع پر بہت وسیع بنیادوں پر قائم تحقیق بیان فرمائی ہے۔آپ نے اناجیل سے بھی دلائل بیان فرمائے،تاریخی کتب اور طب کی پرانی کتب سے بھی دلائل دیئے۔تاریخی کتب کے حوالے بھی درج کئے ، انساب کے علم سے بھی ثبوت مہیا فرمائے اور عقلی پہلو سے بھی عیسائیت کے عقائد کا بطلان واضح فرمایا۔یہ مسئلہ مذہبی دنیا میں ایک بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ جن دلائل کو آپ ؑ نے بیان فرمایا تھا ان کی صداقت اور بھی واضح ہو کر سامنے آتی رہی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فیصلہ فرمایا کہ ۱۹۷۸ء میں اس موضوع پر لندن میں ایک کانفرنس کا اہتمام کیا جائے۔حضور اس کانفرنس میں شرکت کے لئے ۸؍ مئی ۱۹۷۸ء کو ربوہ سے روانہ ہوئے۔حضور نے روانگی سے قبل بعد نماز ِ عصر احباب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کانفرنس کا وہاں پر چرچا شروع ہو گیا ہے۔چرچ کی طرف سے اس پر اظہار ِ ناپسندیدگی کیا گیا ہے۔اور ہمارے لندن مشن کو دھمکیوں پر مشتمل خطوط بھی موصول ہو رہے ہیں لیکن بہر حال ہمیں جو ہدایت قرآن ِ کریم نے دی ہے وہ تو یہی ہے کہ فلا تخشوہم واخشونی یعنی تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ صرف مجھ سے ڈرو۔چنانچہ اس کے مطابق ہم ان دھمکیوں سے نہیں ڈرتے اور ہماری فطرت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ناکامی کا خمیر ہی نہیں ہے۔پھر حضور نے فرمایا کفنِ مسیح کی تحقیق کے بارے میں ماہ مئی میں عیسائیوں نے جس کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا تھا اسے غالباََ ہماری اس کانفرنس کی وجہ سے ہی اب ملتوی کر کے ماہ اگست پر ڈال دیا گیا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو اس کفن کے بارے میں کچھ تحریر نہیں فرمایا اور حضور ؑ نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیحؑ کے صلیب پر نہ مرنے اور زندہ اتارے جانے کے متعلق اتنی واضح شہادتیں اورزبردست ثبوت موجود ہیں کہ اگر عیسائی دنیا کا ایک حصہ اسے بناوٹی بھی ظاہر کرنے کی کوشش کرے تو بھی دنیا اب ان کے چکر میں نہیں آسکتی اور نہ ہی ہم اسے زیادہ اہمیت دیتے ہیں(۲) ۔ ۲ ؍جون ۱۹۷۸ء کو اس کانفرنس کا افتتاح ہوا۔کئی ہفتہ پہلے ہی تمام سیٹوںکی ریزویشن ہو چکی تھی۔افتتاح کے وقت ہی ان جگہوں پر بھی جگہ خالی نہیں رہی جہاں ٹی وی کے ذریعہ کارروائی دکھائی جا رہی تھی۔کانفرنس کے آغاز پر امام مسجد لندن مکرم بشیراحمد رفیق صاحب نے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے احباب کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم سب یہاں پر سچ کی تلاش میں اور خدا کی منشا کو پورا کرنے کے لئے آئے ہیں۔یہاں پر ان عقائد کا پوسٹ مارٹم کرنا مقصود نہیں جن کی ترویج چرچ کی طرف سے کی جاتی ہے بلکہ ہمارا مقصد حقیقی مسیح کو تلاش کرنا ہے۔
اس کے بعد حضرت چوہدری ظفراللہ خاں صاحب نے کانفرنس کا باقاعدہ افتتاح فرمایا۔اس کے بعد ہندوستان کے مشہور ماہرِ آثار ِ قدیمہ پروفیسر ایف ایم حسنین نے اپنا مضمون پڑھنا تھا ۔آپ بہت سی کتب کے مصنف ہیں اور ۱۹۵۴ء سے لے کر ۱۹۸۳ء تک کشمیر میں State Archives, Archeology Research, Museumکے ڈائریکٹر رہے۔اپنی طرز کے آدمی تھے بہت سے سادھووں اور فقیروں کے پاس بھی جا کر رہتے رہے۔اس کانفرنس میںوہ بعض نا مساعد حالات کی وجہ سے لندن نہ پہنچ سکے اس لئے ان کا مقالہ ایئر مارشل ظفر چوہدری صاحب نے پڑھ کر سنایا۔ یہ مقالہ محلہ خانیار سرینگر میں یوز آسف کے مقبرہ کے بارے میں تھا۔اور اس مقالہ میں یوزآسف کے کشمیر میں آنے کے بارے میں تاریخی روایات بیان کی گئی تھیں۔
اس کے بعد ایک جرمن محقق Mr.Andreas Faber Kaiser جو اب سپین میں رہائش رکھتے تھے اپنا مقالہ پڑھنے کے لئے تشریف لائے۔یہ صاحب مشہور کتاب Jesus died in Kashmir کے مصنف ہیں۔آپ کے مقالہ کا عنوان تھاJesus did not die on the crossیعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات صلیب پر نہیں ہوئی۔اس مقالے میں انہوں نے اس بات کے ثبوت بیان کئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات صلیب پر یا اس کے نتیجے میں ملنے والے زخموں کے نتیجہ میں نہیں ہوئی اور وہ ان سے شفا یاب ہو گئے تھے۔پھر انہوں نے ٹیورن میں رکھے ہوئے اس کفن کی تفصیلات بیان کیں جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ وہ کپڑا ہے جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو واقعہ صلیب کے بعد رکھا گیا تھا۔
اس روز کی کارروائی کا آخری مقالہ Dr.Ladislav Filipکا تھا۔آپ کاتعلق چیکوسلاویکیا سے تھا۔آپ نے فلسطین کے باہر حضرت عیسیٰ کی زندگی کے بارے میں ایک نیا نقطہ نظر کے موضوع پر لیکچر دیا۔انہوں نے آغاز میں ہی کہا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے زندگی کے بارے میں معقولیت پسند مورخین نے کم ہی کام کیا ہے۔اس کے بعد انہوں نے مختلف تاریخی روایات بیان کیں جن میں واقعہ صلیب کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی اور مختلف علاقوں کی طرف سفر کا اشارہ ملتا ہے۔اس لیکچر کے بعد سوال جواب ہوئے اورپھر پہلے روز کی کارروائی ختم ہوئی۔
دوسرے روز جب کارروائی شروع ہوئی تو آڈیٹوریم پورا بھرا ہوا تھا اور باقی سامعین دوسرے ہالوں میں ٹی وی پر کارروائی دیکھ رہے تھے یا اس عمارت کے دوسرے حصوں میں لاؤڈ سپیکر پر کارروائی سن رہے تھے۔اس روز کا پہلا لیکچر ڈنمارک کے مکرم عبد السلام میڈیسن صاحب کا تھا۔انہوں نے اس مسئلہ کے متعلق قرآنی آیات پیش کیں اور ان سے استدلال بیان کیا۔اس کے بعد کانفرنس کے کنوینر مکرم بشیر احمد رفیق صاحب امام مسجد لندن کا لیکچر تھا۔انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے بارے میں پائے جانے والے مختلف نظریات کا ذکر کیا اور پھر اناجیل کے مختلف حوالہ جات سے ثابت کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات صلیب پر نہیں ہوئی۔اس کے بعد حضرت چوہدری سرمحمد ظفراللہ خان صاحب ؓ اپنا مقالہ پڑھنے کے لئے تشریف لائے۔آپ کے مقالہ کا موضوع تھا ’’حضرت عیسیٰ ؑ نبی یا خدا‘‘۔آپ نے بائیبل کے حوالہ جات سے واضح فرمایا کہ حضرت عیسیٰ کا مقام اور آپ کا دعویٰ ایک نبی ہونے کا تھا جو بنی اسرائیل کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔اور آپ نے کبھی بھی خدا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔اور بائیبل میں خدا کے بیٹے ہونے کا محاورہ کئی نیک لوگوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اور حضرت عیسیٰ کی تعلیمات میں تثلیث کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ دوپہر کے وقفہ کے بعد صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کا لیکچر شروع ہوا۔اس کا موضوع تھا ’’بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑیں۔‘‘ آپ نے اپنے لیکچر کی بنیاد حضرت عیسیٰ کے اس قول پر رکھی کہ،’’میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔‘‘(متی باب ۱۵)۔اس کے بعد مکرم صاحبزادہ مرزا مظفراحمد صاحب نے مختلف محققین کی تحقیق کا نچوڑ بیان فرمایا کہ بنی اسرائیل کے دس گم شدہ قبائل دراصل کشمیر ،افغانستان اور تبت میں آباد ہوئے تھے اور حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنے وعدہ کے مطابق ان کی طرف سفر کیا اور ان کو خدا تعالیٰ کی طرف بلایا۔اس کے بعد مکرم شیخ عبدالقادر صاحب نے اپنا مقالہ پڑھا ۔ آپ نے عیسائیت پر تحقیق کے میدان میں اپنا ایک مقام پیدا کیا تھا۔آپ کے مقالہ کا موضوع تھا ’’واقعہ صلیب کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی‘‘۔اس مقالہ میں آپ نے اناجیل اور Apocrypha اور دوسری تاریخی کتب کے بہت سے حوالے پیش کئے جن میں واقعہ صلیب کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا سراغ ملتا ہے۔اس کے بعد اس کانفرنس کے کنوینر اور امام مسجد لندن مکرم بشیراحمد رفیق صاحب نے ایک قرار داد پیش کی جسے حاضرین نے منظور کیا۔اس قرارداد میں بھارت کی حکومت سے درخواست کی گئی کہ محلہ خانیار سری نگر میں واقعہ مقبرہ کو مذہبی تاریخی عمارت کا درجہ دیا جائے اور اس کے بعد دلچسپ سوال و جواب کا سلسلہ چلا۔کانفرنس کا تیسرا روز ایک خاص تاریخی اہمیت کا حامل تھا۔ اس روز انیس ممالک اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے پندرہ سو شرکا ء نے کانفرنس کی کارروائی میں شرکت کی۔یہ کارروائی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے خطاب پر مشتمل تھی۔حضور نے اپنے خطاب کاآغاز اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے ذکر سے فرمایا۔اس کے بعد نجات اور عدل اور رحم کے مضمون پر روشنی ڈالی۔پھر حضور نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صلیب کی *** موت سے نجات پر پُر معرفت خطاب شروع فرمایا اور مختلف دلائل بیان فرمائے۔اورہجرت مسیح علیہ السلام کے متعلق پیشگوئی بیان فرمائی۔اس کانفرنس کے دوران بہت سے محققین نے اپنے مقالوں میں Turin Shroud پر ہونے والی تحقیق بیان کی تھی۔اس کے متعلق حضور نے ارشاد فرمایا کہ یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ جماعت ِ احمدیہ کی تحقیق میں اس کپڑے کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہے۔یہ کپڑا جسے حضرت عیسیٰ ؑ کا کفن کہا جاتا ہے اصلی ہے یا جعلی ہے اس کا فیصلہ عیسائی دنیا نے کرنا ہے۔اگر یہ جعلی ہے تو یہ سوال اُ ٹھے گا کہ اب تک عیسائی دنیا اسے اتنی اہمیت کیوں دیتی رہی ہے۔اور اس کے جعلی ہونے سے ان دلائل پر کوئی فرق نہیں پڑتا جنہیں ہم پیش کرتے ہیں۔اور اس کی حیثیت ایک گمشدہ کڑی کی نہیں ہے۔اس کے بعد حضور نے بنی اسرائیل کے دس گمشدہ قبائل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان قبائل میں حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد کا مقصد ان کے ذہنوں کو اسلام کے لئے تیار کرنا تھا۔اس تاریخی خطاب کے آخر میں حضور نے فرمایا کہ میں آپ کو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکی پیروی کی طرف دعوت دیتا ہوں۔اس دنیا کی جھوٹی خوشیوں کا مقابلہ خدا تعالیٰ کی محبت سے نہیں ہو سکتا۔
مختلف چرچ بھی اس کانفرنس کا جائزہ لے رہے تھے۔برطانیہ کے کیتھولک چرچ کے سربراہ کارڈینل ہیوم نے بیان دیا تھا کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت کے لئے ایک مبصر بھجوا رہے ہیں۔اور پولینڈ کے کیتھولک چرچ نے بھی اس میں شرکت کے لئے اپنے دو نمائندے بھجوائے تھے۔برٹش کونسل آف چرچز نے اس کانفرنس سے پانچ روز قبل بیان جاری کیا تھا کہ وہ اس بات کے متمنی ہیں کہ احمدی مسلمان اور عیسائی آپس میں خدا تعالیٰ کی رحمت کے بارے میں مشترکہ خیالات پر اور حضرت عیسیٰؑ کی اہمیت کے بارے میں ایک دوسرے سے تبادلہ خیالات کریں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس پیشکش کو قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تبادلہ خیالات پانچ مقامات پر یعنی لندن ،روم، ایک مغربی افریقہ کے دارالحکومت ،وسطی ایشیا کے ایک دارالحکومت اور امریکہ میں کسی مقام پر ہونا چاہئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ایک خطبہ جمعہ میں اس کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’غرض اس رنگ کا پروپیگنڈا اور اشاعت وہاں ہوئی کہ انگلستان کے چرچ کو کچھ پریشانی سی لاحق ہو گئی۔چنانچہ انہوں نے کانفرنس سے تقریباََ دس دن پہلے اپنی طرف سے ایک ریلیز ایک خبر اخبارات کو بھجوائی اور اس کے نیچے یہ نوٹ دیا کہ اسے فلاں تاریخ سے پہلے شائع نہ کیا جائے۔غالباََ ۳۰ مئی یا یکم جون کی تاریخ تھی اور وہ ریلیز ہمارے مشن کو بھی بھجوا دی۔میں نے اس کا جواب تیار کیا۔کانفرنس میں میں نے بھی ایک چھوٹا سا مضمون پڑھا تھا۔اپنے مضمون کے بعد میں نے ان کی ریلیز پڑھ کر سنوا دی اور پھر اس کا جواب خود میں نے پڑھ کر سنایا ۔ایک تو ان کا خط تھا اور ایک ان کی ریلیز تھی۔وہ دو علیحدہ علیحدہ کاغذوں پر تھے اور یہی دستور ہے۔خط میں لکھا تھا کہ ہم Open Dialogueکرنا چاہتے ہیں یعنی کھلی بات چیت ہو۔ہر ایک کو پتہ ہو کہ کیا تبادلہ خیال ہوا ہے۔اور اسی خط کے اندر کے حصے میں تھا کہunpublicised dialogueہونی چاہئے یعنی ایسا تبادلہ خیال جس کی اشاعت نہ ہو۔openاورunpublicisedتو ویسے ہی متضاد چیزیں ہو گئیں۔میں نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ یہ تو ساری دنیا کے ساتھ تعلق رکھنے والا معاملہ ہے اس کی اشاعت ہونی چاہئے اور صرف انگلستان میں ہی کیوں؟ میں نے دنیا کے مختلف حصوں کے نام لے کر کہا کہ ہم ہر جگہ تبادلہ خیالات کرنے کو تیار ہیں اور صرف انگلستان کی کونسل آف چرچز سے ہی کیوں ،ہم کیتھولکس سے بھی تبادلہ خیال کرنے کو تیار ہیں۔دنیا کوپتہ لگنا چاہئے کہ وہ عقائد جو غلط طور پر حضرت مسیح کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے اور وہ واقعات جو حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔میں نے اس کا وہاں اعلان کیا اور یہ اخباروں میں بھی آگیا اور پھر انہی صاحب کو جن کے دستخط سے کونسل آف چرچز کی طرف سے دعوت نامہ ملا تھا وہاں کے مشنری انچارج عزیز بشیر رفیق صاحب کی طرف سے خط گیا کہ ہمارے امام نے آپ کا دعوت نامہ قبول کر لیا ہے اور وہ اس قسم کی بحث یا تبادلہ خیال کا انتظام کریں گے لیکن بڑا لمبا عرصہ گزر گیا اس کا کوئی جواب نہیں آیا ۔کانفرنس کے آخری دن ۴ ؍جون کو میں نے یہ اعلان کیا تھا پھر ان کو ایک یاد دہانی کروائی گئی اور اس یاد دہانی کا جواب دس پندرہ دن کے بعد ایک اور دستخط سے یہ آیا کہ ان صاحب نے جن کے دستخط سے یہ دعوت نامہ آیا تھا مجھے یہ کہا کہ میں ان کی طرف سے آپ کو یہ جواب لکھ دوں کہ چونکہ انہیں اسلام کے بارے میںکچھ بھی معلوم نہیں اس لئے آپ نے جو پوائنٹس جو نکات اُ ٹھائے ہیںان کے متعلق جب تک وہ ان پادریوں سے مشورہ نہ کر لیں جو اسلام کے متعلق معلومات رکھتے ہیں اس وقت تک وہ جواب نہیں دے سکتے ا ن سے مشورہ کرنے کے بعد وہ جواب دیں گے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں جماعت پھیلی ہوئی ہے۔ساری دنیا میں ہمارے جو مبلغ ہیں انہیں میں نے لکھا کہ چونکہ دعوت کے جواب میں میں نے کیتھولکس کو بھی شامل کیا ہے اس لئے آپ بڑے پیار کے ساتھ انہیں تبا دلہ خیال کے لئے بلائیں۔اپنے جواب میں بھی میں نے لکھا تھا کہ پیار کے ساتھ اور امن قائم رکھتے ہوئے اس قسم کے تبادلہ خیالات ہونے چاہئیں۔چنانچہ کیتھولکس بشپس کو بھی دنیا کے مختلف حصوں میں لکھا گیا اور ان کا ردِ عمل یہ تھا کہ اکثر نے جواب ہی نہیں دیا۔جنہوں نے جواب دیا ان میں ایک جاپان کے کیتھولک بشپ ہیں،ایک برلن کے کیتھولک بشپ ہیں اور بعض اور ہیں جن کے علاقوں کے نام مجھے یاد نہیں۔ انہوں نے صاف طور پر یہ لکھ دیا کہ مسیح کی خدائی پر ہمارا پختہ عقیدہ ہے اسلئے ہم اس معاملہ پر آپ سے کسی قسم کی بات کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں ۔‘‘(۳)
اسی خطبہ جمعہ میں حضور نے اپنے خطاب کی تیاری کے متعلق فرمایا:
’’اس کانفرنس میں سب سے آخر میں میں نے بولنا تھا۔ اور میرے لئے مسئلہ یہ تھا کہ سوائے دعا کے اور میں کچھ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اگر اس کو ایک کتاب کہیں تو کتاب کے بہت سے باب ہوتے ہیں اور مجھ سے پہلے کسی نہ کسی مقرر نے ان ابواب کے عنوان کے ماتحت چھوٹے سے چھوٹے مضمون کو بھی تفصیل سے بیان کر دیا تھا۔۔۔۔چنانچہ ایک دن ایک منٹ میں خدا تعالیٰ نے دماغ کھول دیا۔پہلے میں فرینکفرٹ میں قریباََ بیس بائیس دن رہا تھا وہاں بھی دماغ کھل نہیںرہا تھا۔میں نوٹ لکھتا تھا لکھواتا تھا لیکن تسلی نہیں ہوتی تھی آخر جب خدائے عزیز و کریم کا فضل نازل ہوا اور میں نے مضمون مسلسل لکھوانا شروع کر دیا اور خدا نے بڑا فضل کیا کہ وہ ایسا مضمون ہو گیا جس قسم کا میں خدا کے فضل سے امید رکھتا تھا کہ مجھے عطا ہو جائے گا۔اس سلسلہ میں ایک بات خدا تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ ڈالی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانے میں ہی کفنِ مسیح کے متعلق عیسائی دنیا میں بحث چل پڑی تھی۔ویسے تو یہ دیر سے کفن دکھا رہے ہیں لیکن انیسوی صدی میں بھی انہوں نے دو تین دفعہ اس کی زیارت کروائی اورستر ستر اسی اسی لاکھ آدمی ہر زیارت پر وہاں گئے اور انہوں نے زیارت کی اور اخباروں میں اس کا چرچا ہوا ۔سب کچھ ہوا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے عیسائی عقائد کے متعلق اتنا مواد اکٹھا کرنے کے با وجود کہ یہ عقائد مسیح کی شان کے خلاف ہیں ۔۔۔۔آپ نے کفنِ مسیح کا کہیں نام بھی نہیں لیا۔میں فرینکفرٹ میں ہی تھا کہ خدا تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ ڈالا کہ اس کو بالکل اہمیت نہیں دینی۔ آج کل اسے بہت اہمیت دی جا رہی ہے اور ہمارے بعض مضمون نگاروں نے بھی وہاں دی لیکن میری آخر میں باری تھی۔میں نے یہ موقف اختیار کیا کہ جہاں تک Shroud of Turin یعنی اس کفنِ مسیح کا تعلق ہے جو انہوں نے ٹیورن میں رکھا ہوا ہے ہمارے نزدیک اسے کوئی اہمیت نہیں دینی چاہئے اس لئے اگر یہ محفوظ نہ رہتا اور مرورِزمانہ اس کی یاد بھی انسان کے دماغ سے مٹا دیتا تب بھی ان دلائل پر جو ہمارے پاس موجود ہیں کوئی اثر نہ پڑتا۔‘‘(۴)
اس کانفرنس میں شرکت کے لئے مختلف ممالک سے بہت سے مبلغینِ کرام تشریف لائے ہوئے تھے۔کانفرنس کے بعد یورپ ،افریقہ اور امریکہ سے آئے ہوئے ان مبلغینِ کرام کی ایک کانفرنس مورخہ ۸؍ جون کو منعقد ہوئی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے گیارہ بجے سے دو بجے تک ان سے خطاب فرمایا۔
جلد ہی اس کانفرنس پر متوقع ردِ عمل سامنے آنے لگا۔اس پر حضور نے انگلستان کے احبابِ جماعت کے سامنے ارشاد فرمایاکہ لندن کانفرنس نے سب سے بڑا کام یہ کیا ہے اس نے عیسائی دنیا کو غصہ دلا دیا ہے۔پہلے یہ لوگ بڑے آرام سے بیٹھے ہوئے تھے اور سمجھتے تھے کہ کوئی آدمی ان پر غالب نہیں آسکتا۔ان کے ساتھ کوئی بات نہیں کرسکتا ۔چیلنج تو ان کو ۱۹۶۷ء میں بھی دیا گیا تھا لیکن یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ لوگ خاموش رہیں تو ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔لیکن اب وہ بات نہیں رہی۔خود انگریز اپنے چرچ سے کہہ رہے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ نے تمہارا چیلنج قبول کر لیا ہے تو تم بھی ان کی دعوت قبول کر لو۔(۵)
حضور نے اس دورہ کے دوران ڈنمارک،مغربی جرمنی سویڈن اور ناروے کا دورہ فرمایا۔اس کے ساتھ مغربی افریقہ کا دورہ بھی ہونا تھا مگربعض نا مساعد حالات کی وجہ سے یہ دورہ منسوخ کرنا پڑا۔
(۱) ملفوظات جلد پنجم ص ۶۹۴ ،۶۹۷(۲)الفضل۱۰ مئی۱۹۷۸ء ص۱(۳) خطبات ِ ناصر جلد ہفتم ص۴۱۵۔۴۱۶(۴)خطبات ِ ناصر جلد ہفتم ص۴۲۲۔۴۲۳(۵)الفضل ۵ جولائی ۱۹۷۸ء ۱۹ئ۵
تعلیمی منصوبہ کا اعلان
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ۱۹۷۹ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت ِ احمدیہ کی تعلیمی ترقی کے لئے ایک منصوبہ کا اعلان فرمایا۔اس موقع پر آپ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’اصل چیز یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کے متعلق جو پیش خبریاں دیںان میں سے ایک یہ بھی ہے آپ نے فرمایا:
’خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے۔۔‘
بڑا عظیم الہام ہے بڑی عظیم پیشگوئی ہے۔۔۔۔میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ اگلے دس سال کے بعد آنے والے سو سال میں جس صدی کو میں غلبہ اسلام کی صدی کہتا ہوں ہمیں ایک ہزار سائنسدان اور محقق چاہئیں اور یہ جو اس سے پہلے دس سال ہیں اس میں ایک سو سائنسدان اور محقق چاہئیں۔۔۔۔۔
اب ہم اسی سلسلہ میں جو دوسرا بڑا ہی اہم پہلو ہے اسے لیتے ہیںوہ ذہن رسا ہے جو ماں کی گود میں خدا تعالیٰ کی رحمت سے آتا ہے۔پیدائش کے وقت۔ضائع کر دیا جاتا ہے یا سنبھال لیا جاتا ہے۔میں نے پہلے بھی کہا اب بھی کہنے لگا ہوں اور کہتا رہوں گا کہ اصل بات تو یہ ہے کہ کوئی ذہین بچہ خواہ وہ افریقہ کے جنگلات میں پیدا ہو یا نیویارک کے محلات میں۔وہ ماسکو میں پیدا ہو یا خانہ کعبہ کے علاقہ میں پیدا ہو۔کوئی ذہین بچہ(جو ذہن خدا کی عطا ہے)ضائع نہیں ہونا چاہئے اور نوع انسانی کو اس بچے کو اس کے ذہن کو سنبھالنا چاہئے۔یہ بنیادی حقیقت اور اصول ہے جو اسلام نے ہمیں بتایا اور جسے اسلام قائم کرنا چاہتا ہے۔
لیکن جماعت ِ احمدیہ اس بنیادی اصول کو عملاً آج قائم نہیں کر سکتی ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے۔جتنا ہم سے ہو سکتا ہے ہم کرتے ہیں۔ایک وقت میں ہم سے یہ ہواکہ جب ۱۹۴۴ء میں تعلیم الاسلام کالج کی بنیاد پڑی۔۔۔۔۔مجھے پرنسپل مقرر کر دیا گیا۔جب میں نے قرآن کریم حفظ کیا اور مولوی فاضل پاس کیا تو میں نے انگریزی تعلیم شروع کر دی۔پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کی ۔پھر آکسفورڈ چلا گیا۔جب واپس آیا تو حضرت صاحب کو خیال تھا کہ شاید میں عربی بھول گیا ہوں گا ،دینی تعلیم بھول گیا ہوں گا۔مجھے جامعہ احمدیہ میں استاد لگا دیا ۔پھر میں نے از سر نو تیاری کی، پڑھا اور پڑھایا اور ۱۹۳۸ء کے آخر سے لے کر ۱۹۴۴ء تک جامعہ احمدیہ میں ایک استاد کی حیثیت سے پھر پرنسپل کی حیثیت سے میں نے کام کیا ۔
پھر ۱۹۴۴ء میں جب کالج بنا تو مجھے جامعہ احمدیہ سے نکال کر(میں واقف ِ زندگی ہوں میں یہ واقعہ بتا رہا ہوں ہر قدم پر ہر حکم میں نے بشاشت سے قبول کیا ۔میں نے اپنی زندگی وقف کی تھی خدمت کے لئے اپنے آرام کے لئے نہیں کی تھی)کہا گیا کہ تم کالج کے پرنسپل لگ جاؤ۔ خیر میں بن گیا پرنسپل۔ایک ہدایت جو مجھے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دی،وہ یہ تھی کہ کالج ہم نے اس پسماندہ ملک کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لئے جاری کیا ہے،تبلیغ کے لئے جاری نہیں کیا۔اس کے لئے ہمارے دوسرے محکمے ہیں۔اس واسطے اس کالج میں ہر عقیدہ کا لڑکا جو غریب اور ذہین ہے اس کو اگر تمہاری طاقت ہے اور جس حد تک تمہاری طاقت ہے تم نے پڑھانا ہے۔یہ چیز میرے دماغ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اچھی طرح داخل کر دی تھی۔اللہ جانتا ہے ولا فخر ہماری جماعت کامزاج ہے بے لوث خدمت کرنا اور ہر احمدی کا بھی یہی مزاج ہے ۔یونیورسٹی کا قاعدہ یہ ہے کہ ایک پرنسپل کل تعداد طلباء کی جو ہے اس کی دس فیصدی کو نصف فیس معاف کر سکتا ہے اور بس ۔یعنی اگر چار سو لڑکا ہو تو صرف ۴۰ لڑکوں کی آدھی فیس معاف کر سکتا ہے اس سے زیادہ کی نہیں کر سکتا۔مجھے جو حکم تھا وہ یہ تھا کہ ذہین بچے کو پڑھا سکتے ہو تو پڑھاؤ۔سچی بات یہ ہے کہ کسی سے نہیں پوچھا میں نے کہ یونیورسٹی کا قاعدہ میں توڑنے لگا ہوں توڑوں یا نہ توڑوں۔میں نے یہ سوچا جب میرا امام حضرت مصلح موعودؓ یہ کہہ رہا ہے کہ جس حد تک پڑھا سکتے ہو پڑھاؤ تو میں پڑھاتا جاتا ہوں۔میں نے سو میں سے پچاس لڑکوں کی فیس معاف کر دی ۔چار سو میں سے چالیس کی نہیں سو میںسے پچاس کی یعنی دس فیصد کی بجائے پچاس فیصد کی معاف کر دی جن میں سے آگے پچاس فیصد وہ طلبہ تھے جن کا احمدیت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔مجھے کہا گیا تھا کہ یہ تعلیم کا ادارہ ہے تبلیغ کا ادارہ نہیں ہے۔جو غریب لڑکا ذہین بچہ آیا میرے پاس اس کو میں نے داخل کیا ۔نہ صرف اس کی فیس معاف کی ۔اس کے کھانے کا انتظام کیا۔بعض دفعہ اس کے کپڑوں کا انتظام کیا ۔اس کے علاج کا انتظام کیا۔۔۔۔۔۔
اب میں نے پچھلے دنوں میں سوچا کہ اگر کوئی غریب ہے تو وہ بی اے بھی پاس نہیں کر سکتا۔ اس کو تو میں نے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔استغفار کی اور آج میں یہ اعلان کر رہا ہوں کہ جماعت ِ احمدیہ ذہین بچے کو پرائمری سے سنبھالے گی۔پانچویں جماعت کاجب امتحان دے گا (بورڈ کا) اور ذہین ہو گا اور غریب ہو گا تو اس کو جماعت سنبھال لے گی۔لے کے پالے گی نہیں سنبھال لے گی۔۔۔۔۔‘‘
اس کے بعد حضور نے فرمایا:
’’تو آپ میری مدد کریں دعاؤں کے ساتھ۔دو دعاؤں سے آپ میری مدد کریں۔ ایک یہ کہ یہ سکیم جو ہے اس کا اجراء جماعت اور قوم کے لئے انتہائی مفید ثابت ہو(۲) اور اس سے بھی اہم دعا یہ کریں اپنے رب سے کہ اے خدا! مرزا ناصر احمد کی یہ خواہش ہے کہ اگلے سو سال میں ایک ہزار انتہائی غیر معمولی ذہین سائنسدان جماعت ِ احمدیہ کو ملیں تو اس خواہش کو پورا کر اور اس خواہش کے لئے جو وہ دعائیں کریں ان کو بھی قبول کر اور جو ہم کریں ، انہیں بھی قبول کر۔۔۔۔۔ ہمارے سیکھنے کا بڑا علم ہے پھیلا ہوا اس دنیا اور کائنات میں۔بہر حال یہ کتابوں کے ذکر کے ساتھ علم کا ذکر آیا اور علم کے ذکر کے ساتھ اس وعدہ اور بشارت کا ذکر آیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ محمد ﷺ کی عظمت اور شان پہنچاننے والوں کے علوم اور تحقیق میں برکت ڈالی جائے گی اور وہ اپنے میدان میں اس جگہ پہنچیں گے کہ دوسروں کا منہ بند کرنے والے ہوں گے۔اس کا ایک پہلو آگیا سامنے ۔کل کو ایک دوسرا آجائے گا پھر تیسرا آ جائے گا۔دروازہ کھل گیا اب آگے ہی آگے چلیں گے۔انشا ء اللہ تعالیٰ‘‘(۱)
حضور کے اس اعلان کے بعد مارچ ۱۹۸۰ء میں جب جماعت ِ احمدیہ کی مجلسِ مشاورت کا اجلاس ہوا تو اس میں ایک سب کمیٹی اس غرض کے لئے قائم کی گئی تھی کہ یہ جائزہ لے کہ جماعتِ احمدیہ کی نئی نسل میں تعلیم کا معیار کہیں پہلے کی نسبت گر تو نہیں رہا۔اور اگر یہ معیار گر رہا ہے تو اسے بڑھانے کے لئے کیا ذرائع استعمال کئے جا سکتے ہیں۔اس سب کمیٹی نے یہ عملی اقدامات کئے کہ جب تک طلباء اور طالبات کے بارہ میں ہر قسم کے تعلیمی کوائف نہ منگوائے جائیں اس وقت تک اس پر کما حقہ غور نہیں ہو سکتا۔چنانچہ ضروری کوائف کے تعین کے بعد انہیں طبع کروا کر مختلف جماعتوں کو بھجوائے گئے۔اور حضور کی ہدایت کے مطابق تمام امراء ِ شہر و ضلع کا ایک اجلاس مرکز میں منعقد کیا گیا تاکہ کوائف جمع کرنے کے طریقہ کار کو واضح کیا جائے اور اس بارے میں ان سے ضروری مشورہ کیا جائے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ارشاد فرمایا تھا کہ مشوروں میں طلباء کو شامل کیوں نہیں کیا جاتا۔چنانچہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے موقع پر آئے ہوئے کالجوں اور یونیورسٹی کے طلباء سے بھی مشورے کئے گئے۔ان اقدامات کے نتیجہ میں جو صورتِ حال سامنے آئی اس کی روشنی میں کمیٹی نے جس کی صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کر رہے تھے یہ رپورٹ مجلسِ مشاورت میں پیش کی کہ یہ مفروضہ درست نہیں کہ احمدی طلباء اور طالبات کا معیارِ تعلیم گر رہا ہے۔تا ہم تعلیمی معیار کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش جاری رہنی چاہئے۔اور نظارت تعلیم کو چاہئے کہ وہ طلباء کی راہنمائی کے لئے ایک Cell قائم کرے،جس میں مختلف تعلیمی اداروں کے بارے میں معلومات مہیا ہوں۔نظارت تعلیم، احمدیہ سٹودنٹس ایسوسی ایشن کے تعاون سے ایسی Coachingکلاسز جاری کریں جن میںہوشیار طلباء کمزور طلباء کی اعانت کریں۔اس کمیٹی نے سفارش پیش کی کہ مختلف شہروں کے طلباء حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کرتے ہیں۔اس پروگرام کو وسیع تر کرنا چاہئے تا کہ طلباء حضور سے براہِ راست راہنمائی حاصل کریں۔نظارت تعلیم ایسے احمدی صنعت کاروں اور ماہرینِ فن کے کوائف بھی حاصل کرے جو طلباء کو عملی تجربہ مہیا کرنے میں کوئی مدد کر سکتے ہوں۔یہ بھی سفارش کی گئی کہ ربوہ کی خلافت لائبریری میں مختلف موضوعات سے تعلق رکھنے والی کتب موجود ہونی چاہئیں تا کہ رخصت کے ایام میں ربوہ آنے والے طلباء ان سے استفادہ کر سکیں۔اس کمیٹی نے طلباء کی اس خواہش سے بھی اتفاق کیا کہ سال میں ایک مرتبہ مرکز ِ سلسلہ میں احمدی طلباء کا اجتماع منعقد کیا جائے جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ طلباء سے خطاب فرمائیں اور بے تکلف گفتگو کا موقع عنایت فرمائیں۔
اس رپورٹ پر مختلف احباب کی آراء سننے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا۔
’’۔۔۔دوسرے یہ کہ جب یہ کمیٹی بنائی تھی اس کے بعد بہت کچھ ہم آگے نکل گئے۔ مثلاََ جلسہ سالانہ پر میں نے وظائف کا اعلان کیا ۔ایک کمیٹی بھی بنائی انہوں نے سمجھا ہی نہیں وہ سمجھے یہ انعامی وظائف ہیں۔گذشتہ جلسہ سالانہ پر میں نے کسی انعامی وظیفے کا اعلان نہیں کیا۔میں نے یہ اعلان کیا تھا جو ہمارے لڑکے مستحق ہیں۔یعنی طالب علم اور اللہ تعالیٰ نے جو ان کا یہ حق قائم کیا ہے کہ ذہن دے کے ہمیں کہا کہ اس کی نشو ونما کرو۔ان کو بغیر نشوو نما کے نہیں چھوڑا جائے گا۔ان کی مختلف شکلیں بنتی ہیں۔ وہ وظیفہ ہے یا ادائیگی حقوق طلبہ اس کا نام رکھنا چاہئے وظائف بھی نہیں۔ایک گھرانہ ہے اس میں ایک بڑا ذہین بچہ پیدا ہوا وہ گھرانہ سارا خرچ نہیں برداشت کر سکتا اعلیٰ تعلیم کا۔بیس فیصد خرچ برداشت کر سکتا ہے۔وہ بیس فیصد اس کو ضرور خرچ کرنا پڑے گا۔اس کے بعد وہ جماعت کے پاس آئے اور کہے کہ اسی(۸۰) فیصد میں نہیں خرچ کر سکتا۔یہ مجھے دے دیا جائے۔۔
میں نے یہ سوچا کہ ہمارے صوفی بشارت الرحمن صاحب اور نظارت تعلیم جتنا مرضی زور لگا لیں طلبہ کے اتنے پتے نہیں حاصل کر سکتے جس طرح اس سکیم سے مہیا ہو جائیں گے۔ پھر بھی کچھ رہ جائیں گے کیونکہ آپ سب کو اطلاع نہیں دیتے اور اس کے مطابق میں نے یہ اعلان کیا پہلے اس ایریا میں اعلان تھا اب ساری جماعت کو میں کہتا ہوں کہ ہر وہ بچہ اس سال امتحان میں پاس ہو وہ مجھے خط لکھے ۔ہر بچہ پہلی جماعت سے لے کے کنڈر گارٹن سے لے کے پی ایچ ڈی تک ہر بچہ جو امتحان پاس کرتا ہے وہ اس سال مجھے خط لکھے اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہر اس بچے کے لئے خاص طور پر دعا کروں گا۔‘‘
اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ پانچویں اور مڈل جماعت کے بورڈ کے امتحان میں جو احمدی بچہ پہلی تین سو میں سے اور میٹرک ،انٹرمیڈیٹ اور بی اے اور بی ایس سی کے امتحانات میں جو پہلی دو سو میں اور ایم اے ،ایم ایس سی ،میڈیکل اور انجینیئرنگ میں سے جو پہلی بیس میں سے پوزیشن لے گا اسے حضور کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر کی ایک جلد یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب اپنے دستخطوں سے مرحمت فرمائیں گے۔ (۲)
اس کے بعد حضور نے یہ اعلان بھی فرمایا کہ جو احمدی طلباء یونیورسٹی اور بورڈ کے امتحانات میں پہلی تین پوزشنوں میں سے کوئی پوزیشن حاصل کریں گے انہیں حضور کی طرف سے میڈل دیا جائے گا۔
حضور نے ۱۵ ؍اگست ۱۹۸۰ء کو مسجد فضل لندن میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ تعلیمی منصوبہ دو سال کے لئے پاکستان،ہندوستان اور بنگلہ دیش سے شروع کیا گیا ہے۔آپ نے فرمایا میں نے اس بات پر بہت سوچا ہے کہ خدا تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ایک ذہین بچہ ہے۔ذہنِ رسا سے بہتر کوئی چیز نہیں ۔ایسے ذہن کے لئے اگر ایک ملین روپیہ بھی دینا پڑے تو دیں۔ہم نے یہ کوشش کرنی ہے کہ ہر ذہین بچے کو سنبھالا جائے اور جینیئس کو ہر قیمت پر سنبھالنا ہے۔ہم نے اس منصوبہ کے ذریعہ اسلام کو غالب کرنا ہے۔کوئی بچہ ایسا نہیں ہونا چاہئے جو میٹرک سے پہلے تعلیم چھوڑ دے۔ہم آدھا پیٹ بھر کر تو زندگی گزار سکتے ہیں مگر بچوں کو تعلیم ضرور دلوائیں گے۔
حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے کہ علم کے میدان میں آگے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے اور یہ یاد رکھا جائے کہ اللہ کی مدد کے بغیر کوئی شخص علم حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔اور اس کے لئے دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کی فضلوں کے دروازے کھٹکھٹاؤ اور یاد رکھوکہ اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ جو یہ دروازہ کھٹکھٹائے گا اس کے لئے یہ دروازہ کھولا جائے گا۔حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک اقتباس میں سے ایک فقرہ لیا ۔یہ فقرہ تھا
’’فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے‘‘
حضور نے فرمایا کہ اس سے یہ مراد ہے کہ تحقیق کے میدان میں احمدیوں کواللہ تعالیٰ کے افضال حاصل کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے اور تحقیق کی راہوں پر اس طرح چلیں کہ نوعِ انسانی کے خادم بنیں۔حضور نے فرمایاکہ جب تک قرآنی ہدایت کے مطابق علمی تحقیق میں آگے نہیں بڑھو گے اس وقت تک تم دنیا کے معلم نہیں بن سکو گے۔اس لئے یہ منصوبہ خدا تعالیٰ کے اذن سے شروع کیا گیا ہے۔ پھر فرمایا یہ زمانہ غلبہ اسلام کا زمانہ ہے اور غلبہ اسلام کے لئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں انتہائی قربانیاں دے کر آگے بڑھنا ہے اور ان قربانیوں کے میدان میں ایک علم کا میدان بھی ہے۔(۳)
پھر اسی دورہ کے دوران حضور نے نائیجیریا کے شہر لیگوس میں مسجد کے افتتاح کے بعد خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تک ہم اسلام سے نفرت کرنے والے لوگوں کو تعلیم کے میدان میں شکست نہ دے دیں گے ہم اسلام کو نہیں پھیلا سکتے۔پھر حضور نے نائیجیریا کے شہر الارو میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت ِ احمدیہ غافلوں کی جماعت نہیں ہے۔یہ سکالروں، پڑھے لکھوں کی جماعت ہے۔ہم کو ہمارے خدا نے بتایا ہے کہ ہم اس کے قریب ہوں اور اس کی ذات کا عرفان حاصل کریں۔اللہ تعالیٰ ساری دنیا کا علم رکھتا ہے اور دنیا کے تمام علوم کیمسٹری ،حساب ،فزکس ،فلکیا ت وغیرہ اس کی صفات کے مظہر ہیں اور جتنا زیادہ آپ ان علوم کو حاصل کرتے چلے جائیں گے اتنا زیادہ آپ خدا کی صفات کا علم حاصل کرسکیں گے۔اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ آپ اس کی صفات کا علم حاصل کریں اور دنیا کی ہر سائنس پڑھیں۔(۳)
اس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ جماعت میں تعلیمی منصوبہ کا آغاز فرمایا۔اس منصوبہ کے تحت حوصلہ افزائی کے لئے حضور کی طرف سے طلباء کو انعامات اور میڈل بھی دئے گئے۔حضور کی راہنمائی میں کثیر تعداد میں طلباء کو تعلیمی وظائف دیئے گئے۔ اور جماعت میں ایک نئی آگاہی پیدا ہوئی کہ انہیں خدمت ِ اسلام کے لئے تعلیم اورتحقیق کے میدان میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جانا ہے۔


(۱) الفضل ۲۵ فروری ۱۹۸۰ء ص۲تا۶
(۲)رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۸۰ء ص۱۸۲۔۱۹۰
(۳)خالد نومبر ،دسمبر ۱۹۸۰ء ص۵۴تا۵۹
احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کا قیام
جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی شدید خواہش تھی کہ احمدی طلباء تعلیم کے میدان میں پوری دنیا سے آگے نکل جائیں اور اپنے اندر اسلامی اخلاق پیدا کر کے اسلام کی خدمت کریں۔اور اس طرح جماعت کی نئی پود اسلام کی خدمت کے لئے کما حقہ تیار ہو سکے۔ظاہر ہے کہ اس کے لئے طلباء کی تعلیم وتربیت اور تنظیم پر خاص توجہ دینے کی ضرورت تھی۔احمدی طلباء کی تنظیم احمدیہ سٹودنٹس ایسوسی ایشن کا قیام بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی تھی۔اس کی تنظیم رفتہ رفتہ شروع ہوئی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کو اس کا پہلا سرپرست مقرر فرمایا۔ابتدائی دنوں میں پنجاب یونیورسٹی لاہور اور لاہور کے دیگر کالجوں کے احمدی طلباء نے اس تنظیم کے لئے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔مکرم منور نعیم صاحب اس ایسوسی ایشن کے پہلے صدر تھے۔اور آپ کے بعد مکرم چوہدری کریم الدین صاحب نے احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے صدر کے فرائض سرانجام دیئے۔اور جلد ہی لاہور کے علاوہ فیصل آباد اور دوسرے شہروں میں اس ایسوسی ایشن کی شاخیں قائم ہوگئیں۔اس تنظیم کا ایک اہم سنگِ میل پہلا سالانہ کنونشن تھا جونومبر ۱۹۸۰ء میں ربوہ میں منعقد ہوااور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس کنونشن سے خطاب فرمایا۔جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ خطاب فرماتے تو یہ محض ایک رسمی خطاب نہیں ہوتا تھا بلکہ اس میں ایک بے تکلف گفتگو کا رنگ پایا جاتا تھااور اس موقع پر موجود طلباء گو انتہائی ادب سے بیٹھے ہوتے تھے لیکن یہی محسوس کرتے تھے جیسے وہ اپنے ایک دوست کی مجلس میں موجود ہیں۔حضور نے اس خطاب کو بھی رسمی انداز میں شروع کرنے کی بجائے ایک لطیف انداز میں شروع فرمایا۔حضور نے فرمایا:۔
’’ قرآنِ کریم نے اس عظیم کائناتUniverseکے متعلق جو بنیادی حقائق ہمارے سامنے رکھے ہیں ان میں سے ایک بہت ہی اہم بنیادی حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات کی، کہ یہ منتشر اجزا کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک منطقی مجموعہ ہے۔یعنی ہر چیز کا،کائنات کی ہر چیز کا، میں کہہ رہا ہوں کائنات کی ہر چیز کا دوسرے کے ساتھ ایک تعلق ہے اور یہ اصول توازن پر قائم کیا گیا ہے وَضَعَ الْمِیْزَانَ(الرحمن :۸) ۔ابھی جو تلاوت ہوئی ہے اس کے اندر یہ آگیا ہے۔ اتنا عظیم مضمون اس چھوٹی سی آیت میں یا آیت کے ٹکڑہ میں بیان ہوا وَضَعَ الْمِیْزَانَکہ آپس میںتوازن قائم کیا گیا ہے۔۔‘‘
اس کے بعد حضور نے کائنات میں اور خشخش میں پائے جانے والے توازن کو بیان فرمایا اور پھر حضور نے نئی تحقیقات کی روشنی میں انسان کے جسم میں پائے جانے والے بعض عجائب کا ذکر فرمایا۔ اب اگر ایک نا واقف اس خطاب کا مطالعہ کرے تو شروع میں شاید یہ خیال کرے کہ ایک ایسوسی ایشن کے پہلے کنونشن سے خطاب کے آغاز میں یہ امور بیان کرنے سے کیا حاصل ہو سکتا ہے۔لیکن جو لوگ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے خطابات سنتے رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس معارف کو بیان کر کے جب ہر علمی ذوق رکھنے والے شخص کی توجہ کما حقہ اس طرف مرکوز ہو جاتی تھی تو حضور حاضرین کو اس خطاب کے اصل مقصد کی طرف توجہ دلاتے تھے۔چنانچہ یہ معارف بیان کرنے کے بعد حضور نے فرمایا
’’دوسری حقیقت یہ پتہ چلی ہمیںقرآنِ کریم سے کہ انسان کا،جو ریسرچ پروگرام ہے انسانیت کا،تحقیق کا میدان جو وہ نہ ختم ہونے والا ہے۔اس واسطے آپ کے سامنے ہر نسل کے سامنے تحقیق کے دروازے کھلے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور تیسری حقیقت اس زمانے کی یہ ہے کہ خدا چاہتا ہے کہ احمدی طالب علم اس میدان میں سب سے آگے نکلیں۔‘‘
اسی خطاب میں حضور نے فرمایا کہ کہ تعلیمی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ وہ متوازن غذائیں استعمال کریں اور اس ضمن میں حضور خاص طور پر سویابین اور اس سے حاصل شدہ سویا لیسیتھین کی افادیت پر تحقیق بیان فرمائی کہ کس طرح اس کے استعمال کرنے سے ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔اس خطاب کے آ خر میں حضور نے دعا کروائی۔
اسی کنونشن کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی طرف سے دئے گئے عصرانے میں شرکت فرمائی۔اس موقع پر بھی حضور نے خطاب کیااوراس کے آ غاز میں حضور نے فرمایا
’’بہترین نتیجہ اس وقت نکلتا ہے جب انسان تدبیر کو اپنی انتہا تک پہنچائے اور دعاکو اپنی انتہا تک پہنچائے۔جہاں تک آپ کا سوال ہے طلبہ کا ، تدبیر کرنا بڑی حد تک آپ کا کام ہے۔ تھوڑا سا میرا حصہ بیچ میں آ گیا کہ میں نے آپ کو یہ مشورہ دیا کہ سویا لیسیتھین کھایا کریں۔ جہاں تک دعا کا سوال ہے،میں تقریباََ ہر نماز میں طلباء اور طالبات کے لئے دعا کرتا ہوں۔اور آپ کا فرض ہے کہ جس حد تک ممکن ہو آپ دعا کریں۔‘‘
ایک عارف باللہ کا کام ہے کہ وہ ہر لمحہ خدا تعالیٰ کی خشیت کو مدِ نظر رکھے اور اسی سے کامیابی کا طالب ہو اور دعا میں لگا رہے اور صرف اپنی تدبیر پر ناز نہ کرے۔اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے حضور نے کچھ مثالیں بیان فرمائیں۔حضور نے فرمایا:
’’۔۔اور یہ ایک حقیقت ہے کہ دیتا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔بڑے بڑے ذہین بچے ٹوٹتے ٹکڑے ہوتے میں نے دیکھے ہیں۔ہمارے ساتھ گورنمنٹ کالج میں گوجرانوالہ کا ایک ذہین غیر احمدی لڑکا داخل ہوا۔وہ چوٹی کے نمبر پندرہ بیس پوزیشن تھی ان میں غالباً تھا اور بڑا اس کو ناز تھا اپنے علم اور اپنے دماغ پر۔اور کہتا تھا میں بس چھلانگیں مارتا ہوا۔۔۔۔آئی سی ایس میں پہنچ جاؤں گا۔سخت متعصب گھرانے کا وہ بچہ ،فرسٹ ایئر میں میں جب داخل ہوا ہوں وہ بھی داخل ہوا۔تو وہ ذرا پہلے آکے انتظار کرتا تھا ۔۔۔۔اور نہایت فضول گالیوں سے ہمیں خوش آمدید کہتا تھا۔یعنی میں تو اسے خوش آمدید ہی کہتا ہوں کسی کے گالی دینے سے تو کچھ نہیں بنتا ۔۔۔ہمارے پیریڈکچھ مضامین مختلف تھے خالی ہو جاتے اکٹھے تو ڈھونڈ ڈھانڈ کے اور وہاں پاس آکے کھڑا ہوجاتا اور گالیاں نکالنی شروع کر دیتا۔اور امتحان سے پہلے انٹرمیڈیٹ کے اللہ تعالیٰ نے اسے پاگل کر دیا ۔دماغ خراب ہو گیا اس کا ۔پاگل خانے چلا گیا۔۔۔۔یہ جو عقل دیتا ہے لے بھی سکتا ہے۔یہ عقل لنڈے بازار میں تو نہیں ملتی کہ جا کے آپ خرید لائیں بوری بھر کے۔یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ ذہنِ رسا عطا کرتا ہے انسان کو۔اور اسے یہ طاقت بھی ہے کہ اگر غصے میں آئے اور سمجھے کہ سزا اس فرد کی یہ ہے کہ اس سے ذہن واپس لے لیا جائے۔واپس لے لیتا ہے۔اور یہ تو غیر احمدی پر غصہ تھا نا۔ ایک احمدی پر غصہ ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے نکالا۔خوف کا مقام ہے۔ایک اسی طرح بڑا ذہین احمدی بچہ ہمارے ٹی آئی کالج میں داخل ہوا۔جب کالج لاہور میں تھا۔اس کے والد کو میں ذاتی طور پر بھی جانتا تھا میرے اس کے ساتھ تعلقات تھے اور بڑے پیار سے میں نے داخل کیا، اسے رکھا۔مہینے دو مہینے کے بعد اس کا والد آیا اور کہنے لگا میرے کچھ رشتہ دار غیرمبائع ہیںوہ میرے پیچھے پڑ گئے ہیں کہ تمہارا بچہ اتنا ذہین اور یہ تو آئی سی ایس اور Superior Servicesمیں جانے والا دماغ اور یہ کیا ظلم کیا تم نے اپنے خاندان پر اور ہمارے پر اور اس بچے پر کہ اسے تعلیم الاسلام کالج میں داخل کر دیا اور جب وہ انٹرویو میں جہاں بھی جائے گا کہے گا میں تعلیم الاسلام کالج کا پڑھا ہوا ہوں۔اس کو نمبر نہیں دیں گے فیل کر دیں گے۔اس کی مائیگریشن کراؤ گورنمنٹ کالج لاہور میں۔میں نے اسے آرام سے سمجھایا۔۔۔دیکھو خدا تعالیٰ کو جماعتِ احمدیہ کے لئے بڑے غیرت ہے۔تو یہ اس کو ناراض کرنے والی بات نہ کرو۔اور آرام سے سمجھایا ،میرے ساتھ تعلقات بھی تھے ۔وہ چلا گیا۔ پندرہ دن بعد پھر آ گیا پھر وہ اس کے انہی غیر مبائع دوستوں نے کہا کہ یہ تم نے کیا حرکت کی ہے۔پھر میں نے سمجھایا پھر وہ چلا گیا۔پھر دس پندرہ دن کے بعد آیا اور اس وقت اس کی حالت ایسی تھی کہ کہ میں سمجھا کہ اگر میں نے دستخط نہ کئے تو اس کو ابتلاء آ جائے گا۔ میں نے کہا ادھر لاؤ فارم ۔فارم اس کے ہاتھ میں تھا پر کیا ہوا۔میں دستخط تو کر دیتا ہوں لیکن میںتمہیں یہ بھی بتاتا ہوں کہ یہ لڑکا ایف اے پاس نہیں کرے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کے لئے بڑی غیرت ہے۔خیر میں نے دستخط کئے وہ گیا۔اس کے اتنے نمبر تھے گورنمنٹ کالج والوں نے اسی وقت اس کو داخل کر لیا۔پانچ سال کے بعد ایک دن ڈاک میں میرے نام خط ۔اور شروع یہاں سے ہوا کہ شاید آپ کو یاد نہ رہا ہو میں اپنا تعارف کروادوں آپ سے۔میں وہ نوجوان ہوں جس کے فارم پر دستخط ہوئے آپ نے کہا تھا یہ لڑکا ایف اے نہیں کر سکے گا۔ انٹر میڈیٹ نہیں کر سکے گا۔میں آج تک انٹر میڈیٹ پاس نہیں کر سکا۔پھر وہ کوئی تجارت میں گیا ۔اس کے والد بھی بیچارے فوت ہو گئے۔یہ پرانی بات ہے ۵۳ء سے پہلے کی۔‘‘
پھر آخر میں حضور نے فرمایا:
’’اس واسطے وہ ایک در ہے بس اور کسی جگہ جانا ہی نہیں چاہئے۔اس در کو کھٹکھٹائیںمل جائے گا تمہیں۔خدا کرے آپ اس حقیقت کو سمجھیں اور اس سے فائدہ اُ ٹھائیں۔‘‘
ابتداء میں احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے جن عملی خدمات سے آغاز کیا ا ن میں اپنی تنظیم سازی کے علاوہ طلباء کے لئے فری کوچنگ کلاسز کا اجراء بھی تھا۔ان کلاسز میں طلباء ہی دوسرے طلباء کو پڑھاتے اور ان کی تعلیم میں ان کی مدد کرتے ۔ان کلاسز کا اجراء ربوہ میں کیا گیا۔اور ربوہ سے باہر سے بھی طلباء آکر ان سے استفادہ کرتے۔یہ کلاسز ایف ایس سی کے طلباء کے لئے لگائی جا رہی تھیں۔اور جولائی ۱۹۸۰ء تک ایسی تین کلاسز لگائی جا چکی تھیں۔جب تیسری کلاس کا افتتاح ہوا تو اس سے خطاب کرتے ہوئے ایسوسی ایشن کے سرپرست حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے فرمایا کہ احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے قیام کا مقصد احمدی طلباء کے کردار کی تعمیر اور اسلامی اخلاقِ حسنہ کا قیام ہے۔ تاکہ ان میںخدمت قربانی اور ایثار کا جذبہ پیدا کیا جائے جو کہ جدید تہذیب کے کسی بھی سطح اخلاق سے بہت اعلیٰ اور بلند ہے۔اس موقع پر محترم صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ اس طرح کی کلاسز کا اجراء ربوہ سے باہر دوسرے شہروں میں بھی کیا جائے۔(۱)
اس کے علاوہ اس ایسوسی ایشن کی سرگرمیاں زیادہ تر آپس کے تعلقات بڑھانے اور نئے طلباء کی راہنمائی تک محدود تھیں۔جب ۱۹۸۱ء میں اس ایسوسی ایشن کا دوسرا کنونشن ہوا تو اس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا:۔
’’پہلی بات تواللہ تعالیٰ کی حمد ہے۔جب سے تعلیمی منصوبہ جاری ہوا ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جو علم میں بات آئی ہے اس میں پہلے سے زیادہ برکتیں نظر آتی ہیں کہ اس وقت ہمارے ستائیس طلباء اور طالبات یہ جو ہم نے تین تمغے ہم نے فرسٹ ، سیکنڈ اور تھرڈ کے لئے ہم نے رکھے ہیں ان کے مستحق قرار پا چکے ہیں۔اور یہ صرف پاکستان کی تصویر ہے۔انشاء اللہ تعالیٰ اگر انسان خدا کا شکر گزار بندہ بنے تو برکتیں ہر آن بڑھتی چلی جاتی ہیں (ابراہیم:۸)
جب میں نے یہ منصوبہ جاری کیا تو ذہن میں صرف یہ نہیں تھا کہ اچھے طالب علم پیدا ہوں۔ذہن میں یہ تھا کہ اچھے ایسے طالب علم پیدا ہوں جو سلسلہ عالیہ احمدیہ کی اس رنگ میں خدمت کرنے والے ہوں جس رنگ میں کہ خدا ہم سے چاہتا ہے کہ ہم خدمت کریں۔مثلاً ڈاکٹرز فزیشن اور سرجن میری مراد ہے۔کیونکہ جو پی ایچ ڈی کر لیتے ہیں وہ بھی ڈاکٹر کہلاتے ہیں میں ان کی بات اس وقت نہیں کر رہا ،اچھے نکلیں اور جو ہم مظلوم اور پسماندہ دنیا کی خدمت کی کوشش کر رہے ہیں،مثلاً افریقن ممالک میں وہاں جا کے وہ خدمت کریں۔۔۔‘‘
پھر حضور نے مرکز کی ضروریات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’تو ضرورت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔پھر خدمت کا جو مرکز ہے اسکی ضروریات جہاں تک تعلیمیExcellenceجو مہارت اور ہنر اور حسن اور نور ہے علم کے میدان میں، سب سے زیادہ ہمیں اس کی یہاں ضرورت ہے کیونکہ یہ مرکز ہے ہمارا ۔مثلاََ ہمارا ہسپتال ہے ہمارے ہسپتال میں اب بھی ہماری کمزوریوں کے با وجود دور دور سے علاج کے لئے بھی اور آپریشن کے لئے بھی آ جاتے ہیں۔دنیا کا بہترین احمدی ڈاکٹر یہاں آنا چاہئے۔اور اس کا ہر لحاظ سے بڑا اثر ہے کیونکہ تلوار کے زور سے تو نہ اسلام پہلے پھیلا نہ اب پھیلانا ہے ہم نے۔محبت اور پیار اور اسلامی اخلاق جو ہیں وہ اثر کرتے ہیں قریب لاتے ہیں۔یہ جو ادارے ہیں یہ تبلیغی ادارے نہیں لیکن یہ ادارے احمدیت کے قریب لانے کا موجب بن جاتے ہیں، واسطہ بن جاتے ہیں۔‘‘
پھر حضور نے مرکز میں انتظامی امور کے لئے درکار واقفین کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا
’’دوسرے یہاں کا جو نظام ہے اس کے لئے آرٹس سائڈ(Arts Side)کے اچھے ذہین ، یہ نہیں جو سات دفعہ بی اے میں فیل ہو جائے،وہ آ جائے میرے پاس کہ جماعت کو بڑی ضرورت ہے اور مجھے رکھ لیں یہاں نائب ناظر۔تو وہ پھر میں سات دفعہ فیل کرنے والا نظام قائم کر دوں نا۔مجھے ایسا نظام چاہئے جو ایک دفعہ بھی فیل نہ ہو… …تو جو وقف کی روح کے ساتھ ایم اے آرٹس سائڈ کے اوپر یا اچھے بڑے ٹاپ کے دماغ وہ یہاں آئیں۔اللہ تعالیٰ ان کو بھوکا نہیں مارے گا۔‘‘
با وجود بے پناہ مصروفیات کے حضور کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ براہ راست طلباء سے رابطہ رکھیں اور طلباء بھی اپنی محبت کی وجہ سے حضور کے ارشادات سے براہ راست مستفید ہونے کے لئے مشتاق رہتے تھے۔چنانچہ اس خطاب میںفرمایا:۔
’’ایک چیز جو میںنے اب شروع کی تھی کہ میرا آپ کے ساتھ ملاپ زیادہ رہنا چاہئے۔ اس کے لئے میں نے یہ سوچا ہے( میاں طاہر احمد صاحب نوٹ کریں)کہ سال میں چار دفعہ میں آپ کو چائے کی دعوت پر بلاؤں گا۔۔۔۔۔اور ہفتے میں کون سا دن Suitکرے گا۔مجھے جمعہ نہیں Suitکرتا ۔جمعہ میرا پرائیویٹ دن ہے ۔اس میں میں تلاوت زیادہ کرتا ہوں۔اس میں مجھے دعائیں بڑی کرنی پڑتی ہیں۔سب سے زیادہ بوجھ کا کام اس دن ہوتا ہے جو چھٹی کا دن سمجھا جاتا ہے۔کیونکہ جمعہ کا خطبہ کوئی مذاق تو نہیںنا۔ مولوی صاحب کی طرح میں نے گالیاں تو نہیں دے دینی کھڑے ہو کے۔میں تو کچھ یعنی قرآن میں سے کچھ نکال کر پیش کرنا ہے۔اور میں نہیں نکال سکتا جب تک خدا تعالیٰ مجھے نہ سمجھائے۔پھر بڑی دعا کرتا ہوں۔بڑے نشان دیکھتا ہوں خدا تعالیٰ کے اس میدان میں۔‘‘
(یہاں حضور نے ان غیر احمدی مولوی صاحب کا ذکر فرمایا تھاجن کو حکومت نے ریلوے سٹیشن کی زمین میں مسجد بنا کر امام مقرر کیا تھا۔معلوم نہیں کہ نماز پڑھاتے تھے کہ نہیں لیکن وہ لاؤڈ سپیکر پر احمدیوں کو گالیاں دینے پرہر وقت ضرور مستعد رہتے تھے۔اور جب سونے کا وقت ہوتا تو بعض اوقات ٹیپ ریکارڈر کو لاؤڈ سپیکر کے سامنے رکھ کر اہلِ ربوہ کی نیندیں حرام کرنے کا جہاد سرانجام دیتے۔بہت کم دوسرے مولویوں نے مسجد کو گالی گلوچ کے لئے اس طرح استعمال کیا ہوگا۔)
باقی شہروں کی طرح کراچی کے احمدی طلبہ نے بھی احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی تنظیم کاکام شروع کیا۔اور اپنا ایک مجلہ الناصر کے نام سے جاری کیا۔اور ان کے اجلاسات بھی منعقد ہونے شروع ہوئے۔مکرم الطاف قدیر صاحب نے ان کاوشوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔یہ اس تنظیم کا آ غاز تھا بعد میں رفتہ رفتہ پاکستان کے باہر بھی احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی تنظیم کے کام کا آ غاز ہوا۔


(۱) الفضل ۱۲ جولائی ۱۹۸۰ء ص۱
دورئہ یورپ، افریقہ و شمالی امریکہ۔۱۹۸۰ء
۱۹۸۰ء کا سال جماعتی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔اس سال حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے بیرونی ممالک کا آخری دورہ فرمایا اور سپین کی مسجد کا سنگ ِ بنیاد رکھا گیا۔یہ دورہ تین برِ اعظموں اور تیرہ ممالک پر محیط تھا۔اس کے دوران حضور نے مغربی جرمنی، سوئٹزر لینڈ ، آسٹریا، ڈنمارک، سویڈن، ناروے،ہالینڈ، سپین، نائیجیریا، غانا، کینیڈا ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور انگلستان کا دورہ فرمایا۔ حضور ۲۹ ؍جون ۱۹۸۰ء کو ربوہ سے روانہ ہوئے ۔اس دورہ کا آغاز مغربی جرمنی سے ہوا اور حضور نے اس ملک میں تبلیغی مساعی کے کام کا جائزہ لیا اور راہنمائی فرمائی اور احبابِ جماعت نے حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔حضور کا قیام فرینکفرٹ میں تھا۔یہاں پر حضور نے ایک پریس کانفرنس میں بھی شرکت فرمائی۔ اس کے دوران حضور نے فرمایا کہ قرآنی تعلیم پر عمل پیرا ہونے سے بین الاقوامی محبت اور اخوت کی فضا قائم ہو سکتی ہے اور اس ضمن میں متعدد قرآنی آیات پیش کیں۔اس پر ایک صحافی نے کہا کہ ایسی ہی اعلیٰ تعلیم عیسائیت بھی پیش کرتی ہے اور اس پر عمل پیرا ہونے سے محبت اور باہمی خیرخواہی کی فضا قائم ہو سکتی ہے۔حضور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اس میں شک نہیں کہ ہرمذہب نے اخلاق پر زور دیا ہے۔میں جو بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اسلام نے بین الاقوامی سطح پر امن و آشتی اور انسانی حقوق کی جو تعلیم دی ہے وہ کسی اور مذہب نے نہیں دی۔حضور نے بائیبل کا جرمن ترجمہ اس صحافی کو دیتے ہوئے کہا کہ باہمی محبت و اخوت ،شرفِ انسانی کے قیام اور انسانی حقوق کے احترام کے متعلق جو متعدد آیاتِ قرآنی میں نے پڑھ کر سنائی ہیں اگر ان کا چوتھا حصہ بھی آپ بائیبل سے نکال کر دکھا دیں تو میں آپ کی بات مان لوں گا۔صحافی مذکور نے ایسی کوئی آیت نکالنے سے معذوری ظاہر کی۔اس کے بعد حضور نے بائیبل کی بعض آیات پڑھ کر سنائیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ بائیبل کی ہدایت تمام بنی نوع انسان کے لئے نہیں تھی اور یہ کہ وہ انسان انسان میں تفریق کرتی ہے۔ اس کانفرنس میں متعدد اخبارات اور نیوز ایجنسیوں کے نمایندے شریک ہوئے تھے اور یہ تقریباً تین گھنٹے جاری رہی اور شرکاء کیا تاثر لے کر لوٹے اس کا اندازہ وہاں کے ایک با اثر اخبار Frankfurter Rundschau کی اس سرخی سے ہو سکتا ہے جو اس نے کانفرنس کی خبر کے اوپر لگائی اور وہ سرخی تھی،’’محبت کا سفیر‘‘ ۔اسی طرح ایک اور اخبار نے صفحہ اول پر حضور کی تصویر کے نیچے یہ عبارت درج کی’’محبت کا سمندر ۔جماعت ِ احمدیہ کے امام حضرت مرزا ناصر احمد ‘‘۔
احباب ِ جماعت کو اپنے اموال کی حفاظت کی نصیحت
اللہ تعالیٰ مومنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے(فرقان: ۶۸)۔یعنی ،’’ اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو اسراف نہیں کرتے نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ اس کے درمیان اعتدال ہوتا ہے۔اور سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد خداوندی ہے کہ(بنی اسرائیل: ۲۸) یعنی یقینا فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بہت نا شکرا ہے۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ فضول خرچی کے نتیجہ میں آدمی نہ صرف خود تباہ ہوتا ہے بلکہ جس قوم میں یہ بد عت موجود ہو وہ قوم بھی طرح طرح کے مصائب میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ فرینکفرٹ میں اپنے قیام کے دوران حضور نے وہاں پر ان احمدیوں سے ملاقات کی جو پاکستان سے نقل مکانی کر کے یہاں پر کام کر رہے تھے۔حضور نے ان سے ملاقات کر کے ان کی تعلیمی استعدادوں کا جائزہ لیا اور ان سے سوال کیا کہ وہ کتنے عرصہ سے مغربی جرمنی میں قیام پذیر ہیں۔اور اس امر کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد حضور نے ان سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اپنے محنت سے کمائے ہوئے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے اپنا مستقبل بنانے اور اس طرح دنیا کے نئے علاقوں میں قرآنِ کریم کا پیغام پہنچانے کی تلقین فرمائی۔حضور نے فرمایا میں جب پہلے یہاں آیا تھا تو میں نے آپ کو وارننگ دی تھی کہ آپ اپنے پیسے کی حفاظت کریں ۔اسلام حلال ذرائع سے کمائے ہوئے مال کو خرچ کرنے سے منع نہیں کرتا، وہ نا واجب خرچ سے منع کرتا ہے۔جن حالات میں سے آپ لوگ گزر رہے ہیں ۔ ان کے پیشِ نظر آپ لوگوں کے لئے اپنے کمائے ہوئے مال کی حفاظت بدرجہ اولیٰ ضروری ہے۔ حضور نے انہیں اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ وہ سرمایہ جمع کر کے دنیا کے بعض دوسرے ملکوں میں جا کر وہاں تجارت کر کے یا بہت سستے داموں میں ملنے والی زرعی زمینیں خرید کر اور زرعی فارم قائم کر کے اپنا مستقبل بھی بنا سکتے ہیں اور وہاں پر قرآن کی اشاعت کر کے وہاں کے لوگوں کے لئے ہدایت کا سامان بھی بن سکتے ہیں۔(۱)
جرمنی کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ سوئٹزر لینڈ تشریف لے گئے۔یہاں پر حضور نے اس ملک میں تبلیغی مساعی کا جائزہ لے کر راہنمائی فرمائی اور مختلف احباب نے شرف ِ ملاقات حاصل کیا۔ یہاں پر حضور نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا اورمقامی جماعت اور زیورک کے میئر نے حضور کے اعزاز میں استقبالیہ دیا۔چار روز کے بعد حضور سوئٹزر لینڈ سے واپس جرمنی تشریف لے آئے۔ اور اس مرحلہ پر ہیمبرگ بھی تشریف لے گئے۔پھر اس کے بعد دورہ ڈنمارک کا آ غاز ہوا۔ حضور نے یہاں پر ایک استقبالیہ کی تقریب میں شرکت فرمائی اور اس موقع پرمجلس ِ سوال و جواب بھی منعقد ہوئی۔۲۴؍ جولائی ۱۹۸۰ء کو حضور نے احباب ِ جماعت سے خطاب فرمایا۔حضور نے خطاب کے آ غاز میں ایک احمدی کا مقام بیان کیا اور فرمایا کہ ان سب باتوں کو پیش نظر رکھے بغیر اور ان پر غور کئے بغیر ایک احمدی کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق نہیں مل سکتی۔حضور نے ڈنمارک کے احمدی احباب کو ایک اہم بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ یورپین قوموں کے افراد خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی آگ کی طرف بھاگے جا رہے ہیں اور آپ ہیں کہ آرام سے بیٹھے ہیں اور انہیں بچانے کی فکر نہیں کرتے۔یہاں آکر چند ہزار کرونے(ڈنمارک کی کرنسی) کمانا تو کوئی کام نہیں ۔اصل کام تو ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی آگ سے بچانا ہے۔خدا تعالیٰ کے فضل تو بارش کی طرح برس رہے ہیں اور ہمیں بیدار کر رہے ہیں کہ ہم آگے بڑھیں اور ان لوگوں کو اس آگ سے بچائیں جو ان کے چاروں طرف بھڑک رہی ہے لیکن آپ کے دلوں کی حالت اور عمل کی کیفیت ایسی نہیں جس سے آپ کے پوری طرح بیدار ہونے کا ثبوت مل سکے۔ ہمارے جو لوگ دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں میرے نزدیک ان کی حالت کسی نہ کسی حد تک قابلِ اصلاح ہے۔ان پر ماحول کا اثر ہو رہا ہے گو انہیں اس کا پتہ نہیں ۔
ڈنمارک کے بعد حضور کے دورہ سویڈن کا آغاز ہوا۔اس دورہ کے دوران حضور کا قیام گوٹن برگ میں تھا۔حضور نے سویڈن میں اپنے سہ روزہ قیام کے دوران ایک استقبالیہ میں شرکت فرمائی ،جس میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔احباب ِ جماعت سے ملاقات کے علاوہ مختلف اخباری نمائندگان سے بھی ملاقات فرمائی۔وہاں کے مشہور اخبار Arbetetکے نمائندگان نے انٹرویو کے دوران بعض مسلمان ممالک میں رونما ہونے والے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہاں کے بعض لیڈروں کے پُر تشدد نظریات کا ذکر کیا۔اور دریافت کیا کہ ان کا طرز عمل کہاں تک اسلام کے مطابق ہے۔حضور نے فرمایا تمام مذہبی لیڈروں کا میرے دل میں احترام ہے لیکن خود اسلامی تعلیم کی رو سے تشدد خواہ کسی شکل میں ہو ،میں اس کے خلاف ہوں۔امن کسی صورت میں برباد نہیں ہونا چاہئے۔ہمیشہ قائم رہنے والی کامیابی پُر امن طریقوں سے ہی حاصل ہوتی ہے اس لئے اسلام نے اس کوبرقرار رکھنے اور اس میں کوئی رخنہ نہ ڈالنے پر بہت زور دیا ہے۔میں تو تشدد کا جواب تشدد سے نہ دینے کا قائل ہوں۔کیونکہ اگر ہر حالت میں تشدد کا جواب تشدد سے دینے کو ضروری اور لازمی سمجھا جائے تو تشدد کا چکر کبھی ختم نہیں ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ جب آج سے چند سال قبل احمدیوں کے خلاف تشدد ہوا تو میں نے احمدیوں کو صبر سے کام لینے کی تلقین کی اور انہیں جواباََ کسی قسم کا تشدد اختیار نہیں کرنے دیا۔
اوسلو (ناروے) میں مشن ہاؤس اور مسجد کا افتتاح
اس دورہ کے دوران ایک اور اہم واقعہ اوسلو (ناروے ) میں مشن ہاؤس اور مسجد کا افتتاح بھی تھا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے یہ افتتاح یکم اگست ۱۹۸۰ء کو فرمایا۔اس روز پہلے ایک طویل پریس کانفرنس منعقد ہوئی۔ پھر نماز ِ جمعہ کے ذریعہ افتتاح عمل میں آیا۔حضور نے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہے۔اور یہ ان تمام لوگوں کے لئے کھلی ہے جو داخل ہو کر خدائے واحد کی عبادت کرنا چاہیں۔یہ جماعت ِ احمدیہ کی ناروے میں پہلی اور سکینڈے نیویا میں تیسری مسجد تھی۔اس مسجد کا نام حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کے نام پر مسجد نور رکھا گیا ۔
حضور نے ناروے کے عہدیداروں کو ہدایات دیں کہ وہ سست خدام کو چست بنائیں۔اور جماعت کے مالی نظام کے متعلق بھی ہدایات سے نوازا۔اور ارشاد فرمایا کہ میرا ارادہ ہے کہ بیرونی مشنوں اور جماعتوں میں باقاعدہ آڈٹ کا نظام رائج کیا جائے۔پہلے وہ یہاں آکر ڈبل انٹری سسٹم متعارف کرائیں اور پھر وہ وقفہ وقفہ سے یورپ کے تمام مشنوں کا آڈٹ کر کے حساب تیار کریں۔
جہاں ایک جماعت میں اکثر مخلصین ہوتے ہیں وہاں چند لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا طرزِعمل جماعتی معیار کے مطابق نہیں ہوتا۔حضور نے ناروے میں خطاب کرتے ہوئے ان معدودے چند احباب کو جن کا طرزِ عمل قابلِ اصلاح تھا انتباہ فرمایا کہ’’ایک بات اور بتا دوں اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ اپنے مہدی اور اس کی جماعت کے لئے بڑی غیرت رکھتا ہے۔تم سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔وہ شدید العقاب بھی ہے۔اس کی پکڑ بڑی سخت ہے۔لیکن وہ خود کہتا ہے
(الاعراف :۱۵۸)
یعنی میری رحمت ہر ایک چیزپر حاوی ہے۔پس اس کی رحمت سے حصہ لینا چاہئے نہ کہ اس کے غضب سے۔‘‘(۲،۳)
ناروے کے بعد حضور نے ہالینڈ کا دو روز کا دورہ فرمایا۔ہالینڈ کا دورہ مکمل کرنے کے بعد حضور برطانیہ تشریف لے آئے۔
برطانیہ میں آکر حضور نے ایک خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا ۔اس میں حضور نے ارشاد فرمایا کہ یورپ میں ہم اسلام کی جو تبلیغ کر رہے ہیںاس میں ایک رکاوٹ ایسی ہے جو اب تک دور نہیں ہو سکی ہے۔وہ رکاوٹ یہ ہے کہ ہمارے اور یورپین قوموں کے درمیان ایکBarrierحائل ہے جو دونوں کو ایک دوسرے کے قریب نہیں آنے دیتی۔اس بیرئر کو ہم نے اب تک نہیں توڑا ہے۔تبلیغ میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہمارے قریب آئیں ۔وہ قریب نہیں آ سکتے جب تک درمیان میں حائل Barrierنہ ٹوٹے۔اس سفر میںاللہ تعالیٰ نے اس Barrier کو توڑنے کا منصوبہ القاء کیا ہے۔اس منصوبے کا تعلق اس اسلامی ادارہ سے ہے جسے عید گاہ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔اس کے بعد حضور نے اس منصوبہ کی تفصیلات بیان فرمائیں کہ شہر سے باہر زمین کے بڑے قطعات لئے جائیں۔ اس غیر مسقف قطعہ میں نماز پڑھی جا سکے اور اس میں درخت لگائے جائیں۔یہاں احمدی بھی جا کر پکنک منائیں اور دوسروں کے بچوں کوبھی پکنک منانے کے لئے مدعو کیا جائے تاکہ وہ بھی ہمارے بچوں کے ساتھ مل کر پکنک منائیں ۔اس طرح ہمارے بچوں اور دوسروں کے بچوں اور خود بڑوں کے درمیان میل ملاپ بڑھے گا۔اور دونوں کے درمیان وہ Barrier جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ ہم سے دور دور رہتے ہیں ٹوٹنا شروع ہو گا۔
رمضان کے بعد حضور نے عید الفطر بھی لندن میں منائی۔لندن میں اس قیام کے دوران حضور نے ایک پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا۔اور اسلام کے خلاف پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا مؤثر انداز میں رد فرمایا۔رپورٹروں کی یہ کوشش معلوم ہوتی تھی کہ دنیا کے موجودہ حالات میں اس انداز سے سوالات اُ ٹھائے جائیں جن سے یہ ثابت ہو کہ اسلام ایک امن پسند مذہب نہیں ہے۔ایک رپورٹر نے یہ سوال کیا کہ احمدیہ فرقہ اور باقی مسلمانوں کے نقطہ نظر میں اختلاف پایا جاتا ہے۔مشرق وسطیٰ کے مسلمان ممالک میں باہم جنگ شروع ہوتی نظر آتی ہے۔آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے ۔حضور نے فرمایا کہ میرا یہ طریق نہیں کہ میں اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کے متعلق کچھ کہوں لیکن آپ کے سوال نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں عیسائیت کا ذکر بیچ میں لاؤں ۔یہ آپ کو معلوم ہے کہ ماضی قریب میں دو عالمی جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔میں پوچھتا ہوں یہ جنگیں کن قوموں کے درمیان لڑی گئیں ؟کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ان جنگوں میں عیسائی عیسائیوں کے خلاف لڑتے رہے۔اس کے با وجود یہ کوئی نہیں کہتا کہ ان جنگوں میں عیسائیت عیسائیت کے خلاف نبرد آزما تھی۔کسی نے ان ہولناک جنگوں کا الزام عیسائیت پر نہیں دھرا۔اگر کسی مسلمان کا عمل اسلامی تعلیم کے خلاف ہو تو پھر اس کا الزام اسلام پر کیوں؟کسی مسلمان لیڈر کا طرز عمل اپنی جگہ ہے اور اسلام کی پُر امن تعلیم اپنی جگہ۔ایک اور رپورٹر نے بعض غیر احمدیوں کی طرف سے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا ذکر کر کے اسلام کی پُر امن تعلیم کی اہمیت کو کم کرنا چاہا۔اس کے جواب میں حضور نے فرمایا ایک زمانہ تھا پروٹسٹنٹ عیسائیوں کو کافر قرار دیا گیا تھا اور اب انہیں کوئی کافر نہیں کہتا اور وہ عیسائی شمار ہوتے ہیں۔اگر ہمارے ساتھ بھی ایسا ماجرا گزرا ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ۔ایسا دنیا میں ہوتا ہی آیا ہے۔بھٹو ایک ہوشیار انسان تھا اس نے اعلان یہ کیا کہ احمدی آئین یا قانون کی اغراض کے تحت غیر مسلم شمار ہوں گے۔کسی اور غرض کا اس نے ذکر نہیں کیا۔پھر حضور نے قرآنی آیت سے استدلال کر کے ثابت کیا کہ کوئی کسی کو مجبور نہیں کر سکتا کہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے کے با وجود خود کو غیر مسلم کہے ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ۱۷ ؍اگست ۱۹۸۰ء کو لندن سے براستہ ایمسٹرڈم (ہالینڈ) افریقہ کے دورے کے پہلے مرحلے پر نائیجیریا کے لئے روانہ ہوئے۔راستہ میں حضور کچھ دیر کے لئے ایمسٹر ڈم (ہالینڈ ) کے ایئر پورٹ پر رکے اور وہاں کے وزیر ِ اعظم Mr. A VAN AGTبھی امریکہ سے واپسی کے موقع پر ایئر پورٹ پر موجود تھے۔جب انہیں ایئر پورٹ پر حضور کی موجودگی کا علم ہوا تو انہوں نے پیغام بھجوایا کہ انہوں نے ابھی ایک پریس کانفرنس کرنی ہے جس کے بعد وہ خود حضور کے پاس آ کر ملاقات کریں گے۔چنانچہ تھوڑی دیر میں ہی وہ اپنے عملہ سمیت وی آئی پی لاؤنج کے اس حصہ میں آئے جہاں پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ تشریف فرما تھے اور حضور سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ جب حضور اگلی مرتبہ ہالینڈ تشریف لائیں تو ان سے ضرور ملاقات کریں۔نائیجیریا میں حضور کا پہلا قیام لیگوس میں تھا۔ایئر پورٹ پر ہزاروں احباب نے حضور کا استقبال کیا۔حضور نے ایئر پورٹ پر ایک پریس کانفرنس سے بھی خطاب فرمایا۔اس موقع پر مغربی افریقہ کے ان ممالک سے بھی احمدی احباب حضور سے ملاقات کے لئے نائیجیریا آ گئے تھے جن کا ملک حضور کے اس دورہ کے پروگرام میں شامل نہیں تھا۔حضور نے اس دورہ کے چھ روز انتہائی مصروفیت میں گزارے۔جماعتی عہدیداران ، احبابِ جماعت سے ملاقاتوں کے علاوہ حضور نے اموسان ،اجیبو اوڈے ،ابادان اور الارو کا دورہ فرمایا۔تین مساجد کا افتتاح اس مبارک موقع پر کیا گیا اور حضور نے مبلغین،اساتذہ اور ڈاکٹر صاحبان کے علیحدہ اجلاسات کی صدارت فرما کران کی راہنمائی فرمائی۔حضور نے اپنی آمد کے اگلے روز جماعت ِ احمدیہ نائیجیریا کی مجلس ِ عاملہ کے ساتھ میٹنگ کی ۔اور اس کے آ غاز میں ہی حضور نے وہاں کے نیشنل پریذیڈنٹ مکرم عبدالعزیز ابیولا صاحب سے دریافت فرمایا کہ ۱۹۷۰ء میں حضور کے گزشتہ دورہ کی نسبت اب نائیجیریا میں تبلیغ کے حالات کیسے ہیں۔اس پر عبد العزیز صاحب نے رپورٹ پیش فرمائی کہ اس وقت کی نسبت اب حالات بہتر ہیں ۔حضور نے مزید سکول کھولنے کے منصوبے کے خد و خال بیان فرمائے۔اور فرمایا کہ ہم نے بلا تفریق و امتیاز سب کی خدمت کرنی ہے اور یہ سمجھ کر کرنی ہے کہ یہ ان کا حق ہے۔اور مجلسِ عاملہ کے اراکین کو مخاطب کر کے فرمایا تمہیں سارے مسلمانوں اور اس ملک کے تمام دوسرے لوگوں کو اسلام کی صحیح تعلیم سے آگاہ کرنا ہے۔اگر وہ اس بات سے ناراض ہوتے ہیں تو ہونے دو۔ اگر تمہارا خدا ناراض نہیں تو پھر تمہیں کسی فکر کی ضرورت نہیں۔بینن سے جماعت کے ایک وفد نے صدر جماعت احمدیہ بینن الحاج راجی صاحب کی قیادت میں حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔حضور نے ان کے ساتھ افریقہ کے ان علاقوں میں تبلیغ کے مواقع پر گفتگو فرمائی۔اسی روز حضور نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا۔اپنے دورہ کے تیسرے روز حضور نے اوگون سٹیٹ میں اموسون اور اجیبو اوڈے میں ہسپتالوں کا معائنہ فرمایا اور پھر ابادان تشریف لے جا کر وہاں پر مسجد کا افتتاح فرمایا۔ہزاروں احباب نے ابادان میں حضور کا استقبال کیا۔حضور نے یہاں پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے جماعت ِ احمدیہ میں داخل ہو کر ایک بہت بڑی ذمہ داری اُ ٹھائی ہے۔پھر حضور نے نائیجیریا کے احمدی احباب کو تلقین فرمائی کہ وہ قرآن کریم کا ترجمہ سیکھیں اور تفسیر کا مطالعہ کریں۔حضور نے فرمایا کہ تم میں سے ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائے۔اگر تم ایسا کرو گے تو تمہاری تعلیم کی شرح دوسروں کے مقابلہ میں بہت بڑھ جائے گی اور تمہیں ایک ایسا امتیاز حاصل ہو گا جو پوری قوم کے لئے باعث ِ فخر ہو گا۔حضور نے واپس لیگوس تشریف لا کر مرکزی احمدیہ مسجد کی سہ منزلہ عمارت کا افتتاح فرمایا۔حضور اپنے دورہ کے پانچویں روز ۲۲ ؍اگست کو الارو کے قصبہ تشریف لے گئے اور وہاں پر مسجد کا افتتاح فرمایا۔اور الارو جاتے ہوئے حضور نے راستہ میں ڈیڑھ ہزار اطفال اور ناصرات کی تربیتی کلاس کا معائنہ فرمایا۔الارو میں جماعت کا مشنری ٹریننگ سکول قائم ہے۔یہاں پر حضور نے ایک احمدیہ ہال کا سنگ ِ بنیاد بھی رکھا۔۲۴ ؍اگست کو حضور نائیجیریا سے غانا کے لئے روانہ ہو گئے۔
جب حضور کا طیارہ غانا کے دارالحکومت اکرا پہنچا توہزاروں افراد حضور کے استقبال کے لئے چشم براہ تھے۔ہوائی اڈے کی چھتیں گیلریاں ہیں ان سب میں لا تعداد لوگ کھڑ ے تھے اور اپنے سفید رومال ہلا ہلا کر اظہارِ مسرت کر رہے تھے۔اور جب طیارے نے زمین کو چھوا تو ان احباب کا تلاطم بڑھتا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے غانا کے صدر ڈاکٹر ہلالیمان سے ملاقات کرنے کے بعداوسو اسٹیٹ میں مسجد کا افتتاح فرمانا تھا۔جب افتتاح کا وقت آیا تو موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔دس ہزار افرادنے اس بارش میں بھیگتے ہوئے حضور کا خطاب سنا۔سٹیج کا شامیانہ بھی اس میں روک نہ بن سکا ۔ ایک شخص حضور کے اوپر چھتری تانے کھڑا تھا۔حضور نے اسے بھی ایک طرف کر دیا اور اسی کیفیت میں خطاب فرمایا۔اور خطاب کے آ غاز میں ہی فرمایا کہ بارش ہمارے کام میں روک نہیں بن سکتی، یہ تو کئی رنگ میں ہمیں فائدہ پہنچانے کے لئے برس رہی ہے۔حضور نے اس چھ روزہ دورہ کے دوران دو دن کماسی میں قیام فرمایا۔کماسی میں قریباََدس ہزار افراد نے حضور کا خطاب سنا ۔حضور کی آمد پر کماسی کے احباب کا جوش و خروش قابلِ دید تھا۔اس دوران حضور نے کوکوفو کے ہسپتال کی مستقل عمارت کا سنگ ِ بنیاد رکھا اور واپسی پر جماعت کے ایک اور ہسپتال سویڈرو کا معائنہ فرمایا۔غانا کے دورے کے آخری روز حضور سالٹ پانڈ تشریف لے گئے۔اگرچہ راستے میں بہت سی بستیوں کے لوگ حضور کے استقبال کے لئے کھڑے تھے ۔لیکن جب قافلہ سالٹ پانڈ کے قریب پہنچا تو راستے کے دونوں طرف ہزاروںلوگ حضور کے انتظار میں چشم براہ تھے۔اور جب حضور کا قافلہ ان کے پاس سے گزرتا تو وہ رومال ہلا کر خوشی کا اظہار کرتے اور فلک شگاف نعرے بلند کرتے۔حضور نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایااور غانا کے احمدیوں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی۔اور انہیں اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ وہ اپنی نمازوں میں اپنے ملک کی ترقی کے لئے درد ِ دل سے دعائیں کریں۔
سالٹ پانڈ سے واپسی پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اسارچر کے سکول کا معائنہ فرمایا جس کے پرنسپل مکرم صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب تھے۔حضور نے اس سکول کی نو تعمیر شدہ عمارت کی یادگاری تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور دعا کرائی۔پھر حضور اکرافو نامی قصبہ تشریف لے گئے یہاں حضور نے حضرت مولانا عبد الرحیم نیر صاحب ؓ کے ذریعہ سب سے پہلے احمدیت قبول کرنے والے غانین احمدی الحاجی مہدی اپا کی قبر پر دعا کی۔اور پھر وہاں سے واپس آکر کچھ دیر کے لئے اسارچر میں مکرم صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب کے مکان پر کچھ دیر کے لئے آرام فرمایا اور چائے نوش فرمائی۔اور پھر رات کو واپس اکرا تشریف لے آئے۔غانا سے واپسی سے قبل حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے صدر غانا کی خواہش پر ان سے دوسری ملاقات فرمائی۔
غانا سے دورہ کے بعد حضور دوبارہ لندن تشریف لائے اور وہاں سے کینیڈا کے لئے روانہ ہوئے۔ اس دورہ میں پہلا قیام کینیڈا کے شہر ٹورونٹو میں تھا۔جب حضور ٹورونٹو پہنچے تو وہاں پر کینیڈا جماعت کے نیشنل پریذیڈنٹ خلیفہ عبد العزیز صاحب اور مبلغ انچارج مکرم منصور احمد بشیر صاحب اور دیگر احباب ِ جماعت نے حضور کا استقبال کیا۔اگلے روز حضور نے نماز جمعہ پڑھائی اور دینی تربیت کے موضوع پر ایک خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔حضور نے فرمایا مجھے چار سال بعد یہاں آنے کا اتفاق ہوا ہے ۔ اور جو بات میں نے محسوس کی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں کی جماعت میں اخلاص تو ہے لیکن تربیت کا فقدان ہے ۔یہ امر میرے لئے تکلیف کا باعث ہوا ہے۔جب میں ۱۹۷۶ء میں پہلی بار یہاں آیا تھا تو میرا خیال تھا کہ چونکہ آپ کے ہاں کوئی مربی نہیں ہے اس لئے خاطر خواہ تربیت نہیں ہو سکی۔اس کے بعد مربی بھجوایا گیا۔میںنے محسوس کیا ہے کہ چار سال گزرنے اور مربی موجود ہونے کے با وجود تربیت میں کوئی فرق نہیں ۔حضور نے احمدیوں کو ان کا مقام یاد دلا کر فرمایا کہ اپنی نسلوں کو *** ِ خداوندی سے بچانے کی فکر کریں اور ان کی اسلامی رنگ میں تربیت کریں۔ورنہ آئندہ نسلیں آپ پر *** بھیجیں گی کہ ہمارے والدین نے ہمیں اردو نہ پڑھا کر ہمیں روحانیت کے سرچشمہ سے محروم کردیا۔اگر آپ اپنی اور اپنے بچوں کی تربیت نہیں کریں گے ،انہیں دین نہیں سکھائیں گے اور انہیں یہاں کے رنگ میں رنگین ہونے دیں گے تو خدا تعالیٰ آپ کو اور آپ کی اولادوں کودھتکار دے گا۔وہ اور قوموں کو آگے لے آئے گا جو اعمالِ صالحہ بجالانے والی ہوں گی اور دین کی خدمت کرنے والی اور اسلام کا عملی نمونہ پیش کرنے والی ہوں گی۔
حضور نے نہایت پر زور الفاظ میں خبردار کرتے ہوئے فرمایا اگر ایسے لوگوں نے اپنی اصلاح نہ کی اور مجھے سب کو جماعت سے خارج کرنا پڑا تو میں ایسا کرنے سے ذرا نہیں ہچکچاؤں گا۔خدا میں ہو کر زندگی گزاریں ورنہ آپ کا مستقبل مجھے بہت تاریک نظر آ رہا ہے۔آپ لوگوںکی حالت پر رات میری طبیعت میں بہت غصہ تھا۔نصف شب کے بعد جب میں بیدار ہوا غصہ جا چکا تھا اور اس کی جگہ پیار نے لے لی تھی۔میں نے بہت دعائیں کی۔خدا تعالیٰ میری دعائیں قبول فرمائے اور آپ کی زندگیوں میں انقلاب آئے۔آپ میں اور دوسروں میںنمایاں فرق نظر آنا چاہئے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیرِ قرآن سورۃ کہف تک چھپ چکی ہے اسے منگوائیں اور پڑھیں۔اگر اصل منبع سے آپ کا تعلق قائم نہیں ہے تو آپ خشک ٹہنی کی طرح ہو جائیں گے ۔اگر خدا میں ہو کر زندگی گزارنا نہیں چاہتے تو جہاں جی چاہے چلے جائیں احمدیت میں نہ رہیں۔
حضور نے ٹورونٹو میں ا حبابِ جماعت سے ملاقات فرمائی،ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا اور جماعت ِ احمدیہ ٹورونٹو کی طرف سے دی گئی ایک استقبالیہ دعوت میں بھی شمولیت فرمائی ، ٹورنٹو کے بعد حضور کیلگری تشریف لے گئے۔حضور نے یہاں پر احباب جماعت اور مختلف غیر از جماعت احباب سے ملاقات فرمائی اور ایک پریس کانفرنس سے بھی خطاب فرمایا۔کیلگری کی جماعت نے کینیڈا کے دور افتادہ علاقوںمیں بھی قرآن مجید کی اشاعت کے لئے قابلِ قدر مساعی کی تھی۔حضور نے اس کاوش پر ان کی تعریف فرمائی اور اظہارِ خوشنودی کے لئے کیلگری کی جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر فرمودہ سورۃ فاتحہ کی ایک جلد اپنے دستخطوں کے ساتھ مرحمت فرمائی اور اس پر تحریر فرمایا،’’اللہ تعالیٰ آپ کو اشاعتِ تراجمِ قرآن کی مزید توفیق دیتا چلا جائے۔‘‘
۱۱؍ ستمبر کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کیلگری سے امریکہ کے شہر سان فرانسسکو روانہ ہو گئے۔
سان فرنسسکو میں حضور نے چار روز قیام فرمایا۔یہاں پر خطبہ جمعہ میں حضور نے ارشاد فرمایا کہ احمدیت ہمارے کندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری ڈالتی ہے اور اس ذمہ داری کو کما حقہ ادا کرنا ہمارا ایک اہم بنیادی فرض ہے۔آپ نے فرمایا یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ جب تک ہم مغربی قوموں کے سامنے اسلام کا عملی نمونہ پیش نہیں کریں گے اس وقت تک ہم انہیں اسلام کی طرف مائل نہیں کر سکیں گے۔یہاں کے لوگ اگر متاثر ہوں گے تو عملی نمونہ سے ہوں گے نہ کہ محض زبانی پیش کئے جانے والے دلائل سے۔حضور نے فرمایا کہ اس ذمہ داری سے کما حقہ عہدہ برآ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہم مغربی تہذیب سے بکلی کنارہ کش رہتے ہوئے اسلام کو ساری دنیا میں پھیلانے میں کوشاں رہیں۔ آج تہذیب کے معنی اباحتی زندگی گزارنا ہیں ۔حالانکہ بے قید زندگی گزار کر حرام کے بچے جننا تو تہذیب نہیں ہے۔ہمارا کام ان لوگوں کو جو حیوان کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔دوبارہ انسانی زندگی کے قابل بنانا ہے۔آج خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص مغربی تہذیب سے بکلی مجتنب رہتے ہوئے اسلام پر کما حقہ عمل پیرا ہو۔سان فرانسسکو کے بعد حضور واشنگٹن تشریف لے گئے۔
واشنگٹن میں حضور نے مبلغین اور امریکہ کے صدرانِ جماعت کے ایک اجلاس کی صدارت فرمائی۔ مختلف صدرانِ جماعت نے اپنے علاقوں میں تبلیغی مساعی کی رپورٹ حضور کی خدمت میں پیش کی۔اور مالی امور کے متعلق بھی حضور کی خدمت میں ایک رپورٹ پیش کی گئی۔حضور نے مختلف امور کے بارے میں جماعت ِ احمدیہ امریکہ کی راہنمائی فرمائی۔حضور نے یہاں بھی عید گاہ والے منصوبے کے خدو خال بیان فرمائے۔حضور نے فرمایا کہ میں نے ۱۹۷۶ء میں آپ لوگوں کو ملک کے مختلف علاقوں میں کمیونٹی سینٹر قائم کرنے کی غرض سے زمینیں خریدنے کی ہدایت کی تھی لیکن آپ نے میری اس ہدایت پر عمل نہیں کیا۔میں نے اس سکیم میں بعض تبدیلیاں کی ہیں۔ان میں سے ایک اہم تبدیلی یہ ہے کہ آپ کمیونٹی سینٹر بنانے کی بجائے مختلف علاقوںمیں عید گاہیں بنانے کا پروگرام بنائیں۔ جسے عید گاہ کے طور پر بھی استعمال کیا جائے اور دیگر تربیتی مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جائے۔ اس احاطہ کو اپنے اجتماعات اور پکنک وغیرہ کے لئے استعمال کیا جائے۔ چھٹیوں کے دوران کئی احمدی گھرانے وہاں جائیں اور ساتھ اپنے بچوں کو بھی لے جائیں۔اس طرح تفریح بھی ہو گی اور ان کی تربیت بھی ہو جائے گی۔حضور نے فرمایا کہ ہماری تبلیغ کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ یہاں کے لوگ ہمارے قریب نہیں آتے اور نہ ہم ان کے قریب ہوتے ہیں۔ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار سی حائل ہے ۔جب تک یہ دیوار نہیں ہٹے گی ہم انہیں اسلام کے قریب لانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔حضور نے فرمایا کہ بعض زمینیں بہت سستی مل جاتی ہیں ۔دراصل ہم دو قسم کی ضروریات کے تحت زمینیں خریدنا چاہتے ہیں۔ ایک فوری ضرورت کے تحت اور دوسرے بیس تیس سال کے بعد پیدا ہونے والی ضرورتوں کے پیشِ نظر۔میں ہر سٹیٹ میں ایسی زمینیں خریدنا چاہتا ہوں حتیٰ کہ ایسی سٹیٹ میں بھی جہاں فی الحال کوئی احمدی بھی نہیں ہے۔
اشاعت لٹریچر کے ضمن میں حضور نے ارشاد فرمایا کہ احمدیت کے تعارف اور بعثت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوع پر دنیا کی ہر معروف زبان میں فولڈر شائع کرنے چاہئیں۔اور یہ ہدایت فرمائی کہ ہر Age Group کے لئے علیحدہ لٹریچر ہونا چاہئے۔تا کہ ہر عمر کے لوگ اپنی عقل اور شعور کے مطابق اس سے استفادہ کر سکیں۔حضور نے اپنے قیام کے دوران احباب جماعت سے خطاب فرمایا ۔اس خطاب میں حضور نے آنحضرت ﷺ کی بعثت کے مقاصد بیان فرمائے۔اور احباب ِ جماعت کو ارشاد فرمایا کہ اپنے آپ کو ایسا بناؤ کہ ودسرے تمہاری تقلید کریں اور ایسا نہ بنو کہ تم دوسروں کی تقلید کرو۔حضور نے مغربی تہذیب کے بد اثرات سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا اس ملک کی معاشرتی فضا اور یہاں کے تمدنی ماحول کی حالت انتہائی نا گفتہ بہ ہے ۔یاد رکھو اگر تم نے یہاں کے تمدنی ماحول کا اثر قبول کیا اور بے راہ روی میں بہہ گئے تو تم اپنے آپ کو لاکھ مہذب سمجھو تم خدا کی نگاہ میں گر جاؤ گے۔حضور نے امریکہ کے احمدیوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ خدا تعالیٰ تو اپنے فضل بارش کی طرح نازل کر رہا ہے اور وہ اسلام کو غالب کرتا چلا آرہا ہے اور اب اسلام کی آ خری فتح کو قریب سے قریب تر لا رہا ہے۔لیکن تمہارے لئے غور طلب بات یہ ہے کہ جب تک تم سچے مسلمان نہیں بنتے تم اسلام کی آ خری فتح میں حصہ دار نہیں بن سکتے ۔تم اپنے دلوں کو ٹٹولو اور سوچو کہ تم اسلام کی آخری فتح میں حصہ دار بننے کے لئے کیا کر رہے ہو۔خدا تعالیٰ تو انہی پر اپنے فضلوں کی بارش کرے گا جو اچھا نمونہ پیش کریں گے۔امریکہ میں مقیم پاکستانی احمدیوں کو مخاطب کر کے حضور نے فرمایا ۔تم یہاں کے لوگوں کے لئے نمونہ بنو ۔برا نمونہ پیش نہ کرو ۔سوچو اور غور کرو۔اور پھر امریکی احمدیوں کو مخاطب کر کے فرمایاتم بھی اپنے ہم وطنوں کے لئے نمونہ بننے کی کوشش کرو۔واشنگٹن میں آٹھ روز قیام کے بعد حضور امریکہ سے واپس لندن تشریف لے گئے۔
انگلستان میں حضور کے قیام کے دوران ایک اور اہم تاریخی واقعہ یہ تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے انگلستان میں پانچ نئے مراکزِ تبلیغ کا افتتاح فرمایا ۔مسجد فضل لندن کے افتتاح کو پچپن برس گزر چکے تھے ۔اس دوران انگلستان میں کسی نئے مشن ہاؤس کا آ غاز نہیں ہوا تھا ۔لیکن اس سال حضور کی با برکت آمد کے موقع پر مانچسٹر ،ہڈرز فیلڈ، بریڈ فورڈ ،ساؤتھ ہال اور برمنگھم میں نئے مشن ہاؤسز کا افتتاح عمل میں آیا۔
پانچ سو سال بعد سپین میں مسجد کا سنگِ بنیاد
اس دورہ کے تقریباََ آخر میں سپین میں جماعت کی پہلی مسجد کا تاریخی سنگ ِ بنیاد رکھا گیا۔
سپین وہ ملک ہے جہاں کے مسلمانوں نے صدیوں تک حکومت کی وہاں کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اسلام کو قبول کیا ۔لیکن جب وہاں مسلمان بادشاہوں کا زوال ہوا اور عیسائی بادشاہوں کی حکومت قائم ہوئی تو وہاں سے جبر کے ذریعہ اسلام کو مٹایا گیا۔ پھر کئی سو برس تک وہاں پر مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دیا گیا۔مذہبی رواداری کے فقدان کا یہ عالم تھا کہ کسی دوسرے مذہب کے پیروکار کو وہاں پر تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ مکرم و محترم کرم الٰہی ظفر صاحب نے بہت نامساعد حالات میں وہاں پر تبلیغ کو جاری رکھا۔ لیکن سپین میں مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ملتی تھی۔آخر کار ملک میں ان قوانین کو نرم کیا گیا تو مسجد کا سنگ ِ بنیاد رکھنے کی اجازت ملی۔ اس تاریخی مسجد کی تعمیر کے لئے پیدرو آباد کے قصبے کا انتخاب کیا گیا جو سے کچھ فاصلے پر ہے۔اس سنگ ِ بنیاد کے لئے ۹ ؍اکتوبر ۱۹۸۰ء کے دن کا انتخاب کیا گیا۔حضور کا قیام قرطبہ کے ہوٹل Meila میں تھا۔افتتاح والے روز حضور نے سب کو ارشاد فرمادیا تھا کہ یہ وقت میں دعاؤں میں گذارنا چاہتا ہوں۔اور اس احتمال کی وجہ سے حضور بہت دعا کر رہے تھے کہ آخر وقت میں مسجد کے سنگ ِ بنیاد میں کوئی روک نہ ڈال دی جائے۔جب حضور سنگ ِ بنیاد کی تقریب میں تشریف لے جانے کے لئے باہر تشریف لائے تو حضور نے ارشاد فرمایا’’آج عید ہے۔‘‘ پیدرو آباد میں مختلف ممالک سے آئے ہوئے احمدی احباب کے علاوہ ہزاروں مقامی احباب تقریب میں شرکت کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے۔جس پتھر کو سنگِ بنیاد کے طور پر نصب کیا جانا تھا حضور نے اس پر اپنا دایاں ہاتھ اس کے اوپر رکھا ۔اس ہاتھ میں حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی۔حضور نے ارشاد فرمایا’’یہ حضرت بانیِ سلسلہ کی انگوٹھی ہے اس سے میں برکت لوں گا۔‘‘اس کے بعد حضور نے مختلف قرآنی دعائیں اور آیات پڑھیں اور یہ دعا ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم بھی بار بار پر سوز انداز میں پڑھی اور ان دعاؤں کے ساتھ حضور نے مسجد کا سنگ ِ بنیاد رکھا۔اس کے بعد حضرت منصورہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اور پھر مکرم کرم الٰہی صاحب ظفر مبلغ سلسلہ سپین نے سنگ ِ بنیاد رکھا ۔پھر مختلف مبلغینِ سلسلہ نے پتھر رکھنے کی سعادت حاصل کی۔اس کے بعد حضور کے ارشاد کے تحت قصبہ کی سب سے معمر خاتون نے سنگ ِ بنیاد رکھا اور سب سے کم سن بچے نے پتھر کوہاتھ لگایا جس کو بنیاد میں رکھا گیا۔قصبہ کے مقامی احباب نے اس پر خوش ہو کر تالیاں بجائیں۔سپینش احمدی احباب میں سے مکرم عبد الکریم صاحب بائنا اورJose Lopeصاحب نے سنگ ِ بنیاد رکھا۔اس ساری تقریب میں حضور بار بار لا الٰہ الا اللّٰہ، لا الہ اللّٰہ محمّد رسول اللّٰہ اور لا الٰہ الا انت سبحانک انّی کنت من الظلمین کا ورد فرماتے رہے۔اور تمام احبابِ جماعت بھی ان کلمات کو ساتھ دہراتے رہے۔سنگ ِ بنیاد کے رکھنے کے بعد حضور نے سٹیج پر تشریف لا کر مختصر خطاب فرمایا اور فرمایا کہ میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مسجد کے دو بنیادی مقاصد ہیں اول خدائے واحد کی عبادت کرنا دوم تمام بنی نوع انسان میں مساوات قائم کرنا۔اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ سب انسان برابر ہیں۔مرد عورت میں کوئی فرق نہیں۔امیر غریب عالم جاہل بحیثیت انسان سب برابر ہیں۔پیدرو آباد میں بسنے والے اور ہزاروں میل دور پاکستان میں رہنے والے میں کوئی فرق نہیں۔‘‘ حضور نے فرمایا کہ اسلام عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے ۔اسلام سکھاتا ہے کہ محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں۔ اس کے بعد آپ نے مقامی احباب کو دعائیں دیں ۔پھر حضور نے پریس کے نمایندگان کے سوالات کے جوابات دیئے۔ایک سوال یہ تھا کہ آپ نے مسجد کے لئے پیدرو آباد کا انتخاب کیوں کیا۔اس کے جواب میں حضور نے فرمایا’’اللہ تعالیٰ نے خود اس کا انتخاب فرمایا ہے۔‘‘ریڈیو اور ٹی وی نے اس تقریب کی خبر کو نمایاں کر کے نشر کیا ۔اور اخبارات میں یہ خبر نمایاں کر کے شائع کی گئی۔اگلے روز جمعہ تھا َحضور نے پیدرو آباد جا کر جمعہ کی نماز پڑھائی۔۱۱؍ اکتوبر کو حضور سپین سے لندن تشریف لے گئے۔(۴،۵)
تین براعظموں کے اس تاریخی دورہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ ۲۶؍ اکتوبر ۱۹۸۰ء کو واپس ربوہ تشریف لے آئے۔







(۱) الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۸۰ء ص۲
(۲) الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۸۰ء ص۲
(۳) الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۸۰ء ص۲
(۴) الفضل ۱۰ نومبر ۱۹۸۰ء ص۱
(۵) الفضل ۱۱ نومبر ۱۹۸۰ء ص۲
خلافتِ ثالثہ کے دوران
بعض ممالک میں ہونے والی تبلیغی سرگرمیاں
خلافت ِ ثالثہ کے دوران دنیا بھر میں تبلیغ اور تربیت کا کام بھرپوراندازمیں جا ری تھا۔ہم ان میں سے بعض ممالک کا جائزہ پہلے لے چکے ہیں۔بعض ممالک میں ہونے والی تبلیغی سرگرمیوں کا خلاصہ ہم یہاں درج کرتے ہیں۔
سیرالیون
حضرت مصلح موعودؓ کی وفات کے بعد ۱۹۶۶ء میں جماعت ِ احمدیہ سیرالیون کی جو پہلی مجلسِ مشاورت منعقد ہوئی اس میں ملک بھر سے ۱۵۰ جماعتوں کے نمایندگان نے شرکت کی۔اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی وفات پر تعزیت اور تجدیدِ بیعت کی قررادادیں منظور کی گئیں۔(۶)
جماعت ِ احمدیہ سیرالیون کا ۱۹۶۶ء کا جلسہ ایک خاص اہمیت رکھتا تھا۔یہ خلافتِ ثالثہ کے دور کا پہلا جلسہ تھا۔اس جلسہ سے تقریر کرتے ہوئے ایک غیر از جماعت مہمان نے کہا کہ مجھے اب تک وہ دن خوب یاد ہے جب سب سے پہلے احمدی مبلغ سیرالیون میں آئے تھے انہوں نے بہت تکالیف اُ ٹھا کر اپنے کام کو جاری رکھا جس کے نتیجہ میں آج تمام ملک میں احمدیت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس جلسہ میں گیمبیا سے بھی ایک وفد نے شرکت کی(۱)۔تبلیغی مساعی کے ساتھ سیرالیون میں جماعتِ احمدیہ کی تعلیمی خدمات بھی آگے بڑھ رہی تھیں۔ چند کمروں میں شروع ہونے والا احمدیہ مسلم سکینڈری سکول بو (80) اب ملک کا ایک معروف تعلیمی ادارہ بن چکا تھا۔۱۹۶۳ء میں مکرم صاحبزادہ مرزاحنیف احمد صاحب اس کے پرنسپل مقرر ہوئے اور اس کے بعد اس سکول میں مہیا کی جانے والی سہولیات میں اضافہ ہوتا رہا(۲)۔اسی سال حکومت کی طرف سے جماعت کو بو آجے بو میں ایک سکول کھولنے کی اجازت دی گئی۔اس مقام پر سکول کھولنے کے راستے میں بہت دقتیں پیش آئیں تھیں۔ کیونکہ وہاں پر عیسائی مشنری حکومت پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہاں پر احمدیوں کی بجائے عیسائی مشنریوں کو سکول کھولنے کی اجازت دی جائے۔اور ۱۹۶۶ء کے دوران ہی فرنچ گنی کی سرحد کے قریب ایک پرائمری سکول کھولا گیا۔ سیرالیون میں مبلغین کی تعلیم کے لئے ہر سال ریفرشر کورس کا اہتمام کیا جاتا تھا اور بڑی عمر کے احباب کے لئے عربی کلاس کا اہتمام کیا جاتا ۔جماعت کا جماعت کی طرف سے ماہنامہ افریقہ کریسنٹ بھی شائع کیا جا رہا تھا۔۱۹۶۶ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی تحریک کے تحت وقف ِ عارضی کا آ غاز کیا گیا اور چند افراد نے اس با برکت تحریک کے تحت خدمات سرانجام دیں۔ اس سال جماعت نے غریبانہ انداز میں دو مزید مقامات پر پرائمری سکول کھولے۔ ان میں سے ایک کیلاہوں کے ضلع میں باہیما گاؤں میں تھا اور دوسرا گنی کی سرحد پر مدینہ ثانیہ نامی گاؤں میں تھا(۳،۷)۔ جماعت کی خدمات ایسی تھیں کہ حکومتی حلقے بھی اس کا اعتراف کرتے تھے۔۱۹۶۷ء کے دوران سیرالیون میں ایک اور سکینڈری سکول کھولا گیا جس کے بعد یہاں پر جماعت کے سکولوں کی تعداد چار ہو گئی۔چنانچہ ۱۹۶۹ء کے جلسہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیرالیون کے گورنر جنرل بنجا تیجانسی صاحب نے جماعت کا شکریہ ادا کیا اور حکومت کی طرف سے مکمل تعاون کا یقین دلایا اور کہا کہ جماعت ِ احمدیہ نے اسلامی تعلیم کو عام کر کے اسے عوام تک پہنچانے کے لئے اہم خدمات سرانجام دی ہیں۔مبلغین کا جذبہ ایثار اور ادائے فرض اس جماعت کا اہم وصف ہے(۴)۔ملک کے وزیر ِ اعظم ڈاکٹر سیکا سٹیونس (Siaka Stevens) نے جب فری ٹاؤن میں جماعت کے سکول کا دورہ کیا تو اپنے خطاب میں کہا کہ احمدیہ مشن نے جس طرح اس ملک کی شاندار اور بے لوث خدمت کی ہے اور تعلیم اور مشنری میدان میں جو نمایاں کام کیا ہے اس کو سیرا لیون کی تاریخ لکھنے والے مورخ ہر گز فراموش نہیں کر سکتے(۵)۔ابھی یہ دور شروع نہیں ہوا تھا کہ سیرالیون سے طلباء مرکزِ سلسلہ آ کر دینی تعلیم حاصل کریں لیکن دینی تعلیم کی ضرورت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ۱۹۶۵ء میں مکرم وکیل التبشیر صاحب کے ودرہ افریقہ کے دوران یہ فیصلہ ہوا تھا کہ غانا میں مشنری ٹریننگ کالج کا اجراء کیا جائے۔ چنانچہ اس میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے ۱۹۶۶ء میںسیرالیون سے چار طلبا ء کا گروہ غانا کے لئے روانہ ہوا۔(۷)
جوں جوں وقت کے ساتھ سیرالیون میں نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آ رہا تھا اورسعید روحوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق مل رہی تھی اس کے ساتھ ساتھ نئی مساجد کی ضرورت بھی بڑھ رہی تھی۔ چنانچہ ۱۹۶۹ء کے دوران ۳مساجد کی تعمیر ہوئی ۔اس ملک میں جماعت کی بڑھتی ہوئی ترقی اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ اب احباب ِ جماعت پہلے سے زیادہ بڑھ کر قربانیوں کا مظاہرہ کریں۔چنانچہ جب ۱۹۶۹ء میں سیرالیون جماعت کی سالانہ کانفرنس منعقد ہوئی تو اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے اپنے پیغام میں فرمایا:۔
’’جماعت ہائے احمدیہ سیرالیون کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ عظیم الشان مقاصد اور فتوحات عظیم الشان قربانیاں چاہتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اسلام کی فتح اور غلبہ کے جو وعدے فرمائے ہیں،ان کے مطابق اسلام کی فتح اور غلبہ کے دن قریب ہیں۔اس لئے اس راہ میں ہر قسم کی قربانیاں پیش کرنے کے لئے تیار ہوجاؤاور اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت حاصل کرنے کیلئے دعائیں کرو کہ اس کی مدد اور تائید کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔‘‘(۸)
۱۹۶۹ء تک سیرالیون میں جماعتِ احمدیہ کی سکولوں کی مجموعی تعداد ۲۴ ہو چکی تھی ۔ان میں پرائمری، مڈل اور سکینڈری سکول شامل تھے۔(۹)
مکرم مولانا محمدصدیق گورداسپوری صاحب نے پہلے جولائی ۱۹۶۸ء سے لے کر ۱۹۷۲ء تک سیرالیون میں امیر و مشنری انچارج کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پائی۔پھر ۱۹۷۹ء سے لے کر ۱۹۸۴ء تک آپ نے سیرالیون میں خدمات سر انجام دیں۔جب سیرالیون جانے سے قبل مولانا محمدصدیق گورداسپوری صاحب حضور سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ سیرالیون کے موجودہ حالات بتاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے برکت اُ ٹھا لی ہے اور سیرالیون مشن اب باہر کی مدد کا طالب ہو رہا ہے۔نصرت جہاں کے بعض ڈاکٹرز کو گیمبیا سے رقم منگوا کر الاؤنس دیا گیا ہے جو افسوسناک ہے۔لہٰذا جماعت کو چالیس روزوں کا چلہ کرائیں اور ہر پانچ روز کے بعد ایک روزہ رکھوائیں اور اپنے گناہوں کی خدا تعالیٰ سے معافی مانگیں۔پھر فرمایا کہ کام کریں اور لوگوں سے محبت اور پیار سے پیش آئیں۔اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا۔
چنانچہ سیرالیون کے احباب ِ جماعت کو بذریعہ سرکلر اس ارشاد کی اطلاع دی گئی اور جلد سیرالیون کی جماعت میں برکت کے آثار پیدا ہونے شروع ہوئے اور مشن ایک بار پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا۔
(۱)الفضل ۳ ؍مارچ ۱۹۶۶ء ص۳(۲)الفضل۱۶؍ نومبر ۱۹۶۶ء ص۵(۳)الفضل ۲۹؍ نومبر ۱۹۶۶ء ص۳و۴
(۴) الفضل ۲۲ ؍فروری ۱۹۶۹ء ص۸(۵) الفضل ۲۵؍ دسمبر ۱۹۶۹ء ص۳(۶)الفضل۶؍ جنوری ۱۹۶۶ء ص۳
(۷)الفضل ۸؍ مئی ۱۹۶۶ء (۸) الفضل ۱۵ ؍اپریل ۱۹۶۹ء ص۴(۹) الفضل ۲۸؍ ستمبر ۱۹۶۹ء ص۴
مڈغاسکر میں تبلیغی مساعی کا آغاز
بہت سی جگہیں ایسی ہیں جہاں ابتداء میں جماعت مشن تو نہ قائم کر سکی لیکن اس کے قریب کے ممالک سے وفود نے جا کر تبلیغی مساعی کا آ غاز کیا اور اس طرح یہاں پر جماعت احمدیہ کا پودا لگا۔ مڈغاسکر بھی ایک ایسا ہی ملک ہے۔مڈغاسکر مشرقی افریقہ میں واقعہ ہے اور یہاں پر احمدیت کا تعارف ماریشس کے ذریعہ ہوا۔ماریشس سے وقتاًفوقتاً مڈغاسکر لٹریچر بھجوایا گیا ۔۱۹۷۳ء میں مکرم قریشی محمد اسلم صاحب نے وہاں کا دورہ کیا اور آپ کے ہمراہ ماریشس کے ایک احمدی دوست صالح یوسف اچھا صاحب بھی تھے۔قریشی اسلم صاحب جلد واپس آگئے لیکن اچھا صاحب اٹھارہ روز وہاں رہے اور تبلیغ کا کام کرتے رہے۔اس کے بعد مکرم صالح محمد خان صاحب مربیِ سلسلہ نے ۱۹۷۶ء میں وہاں کا دورہ کیا۔وہاں کے ابتدائی احمدیوں میں مکرم حمادی صاحب،رفیقی اسماعیل صاحب ،عبدالمومن صاحب، Mr Albert Alfred Totozafy اور Mr.Mady Agoudoشامل ہیں۔
زائرے میں احمدیت
زائرے کے ایک حصہ میں سواحیلی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔جب جماعت کا لٹریچر سواحیلی میں شائع ہوا تو یہ زائرے بھی پہنچا۔زائرے کے شمالی صوبے کیسانسانی (Kisansani)کی سرحد یوگینڈا سے اور دو مشرقی صوبوں باکاوو (Bukavu) اورکیٹانگا (Kitanga)کی سرحد تنزانیہ سے ملتی ہے اور سب سے پہلے انہی صوبوں میں احمدیت کا تعارف پہنچا۔اس ملک میں سب سے پہلے احمدیت کو قبول کرنے کی سعادت مشرقی صوبہ کے مکرم ابراہیم کانکو (Kankoo) صاحب کے حصہ میں آئی۔اسی طرح کیناگا(Kinaga) کے یوسف صاحب نے بھی اس دور میں بیعت کی۔ ۱۹۷۰ء تک زائرے کے مختلف علاقوں میں کچھ لوگ احمدیت قبول کر چکے تھے اور ان کے ذریعہ بھی احمدیت کا پیغام پھیلنے لگا تھا۔اسی عرصہ میں کیوو(Kivu)کے علاقے میں بھی احمدیت کا پودا لگا۔مغربی کسائی میں کے علاقے میں احمدیت کو متعارف کراونے میں مکرم عثمان بابن بانٹو نے خصوصی کوششیں کیں اور ۱۹۷۶ء میں آپ کے ذریعہ ۸۱ افراد کو احمد یت قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
نومبر ۱۹۷۵ء میں مقامی احمدیوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں ایک مبلغ بھجوانے کی درخواست کی۔جس کے بعد مکرم مولانا محمدمنور صاحب ۱۹۷۷ء میں یوگینڈا سے ملحقہ صوبے ہوٹ زائرے (Haut Zaire)پہنچے۔
زیمبیا میںمشن کا قیام
۱۹۵۸ء میں محترم مولانا محمد منور صاحب زیمبیا میں مشن کے قیام کا جائزہ لینے کے لئے زیمبیا گئے اور دو ماہ وہاں قیام کیا۔اس وقت وہاں پر کچھ ایشیائی احمدی موجود تھے اور ان کی خواہش تھی کہ زیمبیا میں مشن کھولا جائے۔ ۱۹۷۰ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ جب مغربی افریقہ سے واپس تشریف لارہے تھے تو زیمبیا کے وزیرِ صحت اور برطانیہ میں زیمبیا کے سفیر نے آپ سے ملاقات کی۔اور حضور نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ ہم زیمبیا میں اپنا مشن کھولنا چاہتے ہیں۔چنانچہ زیمبیا کے لئے پہلے مبلغ مکرم شیخ نصیرالدین احمد صاحب مقرر ہوئے ۔جب آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ سے الوداعی ملاقات کرنے کے لئے آئے تو حضور نے اپنے دستِ مبارک سے یہ نوٹ لکھا:
’’اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور توفیق دے کہ وہ جس رنگ اور جس شکل میں ایک احمدی مجاہد کو دیکھنا چاہتا ہے اس رنگ اور شکل میں وہ آپ کو ہمیشہ پائے۔‘‘(۱)
آپ ۱۴؍ اکتوبر کو زیمبیا کے دارالحکومت پہنچے۔انہیں ویزا کے لئے بہت سی مشکلات پیش آئیں مگر پھر وزٹ ویزا مل گیا۔زیمبیا پہنچنے کے تیسرے روز اتفاقاً ان کی ملاقات دی ٹائمز آف زیمبیا کے ایک نمائندے سے ہوئی۔اس کو جب معلوم ہوا کہ آپ یہاں پر اسلام کی تبلیغ کے لئے آئے ہیں تو اس نے اسی وقت آپ کو اپنے دفتر لے جا کر انٹرویو لیا جو اگلے روز کے اخبار میں شائع ہوا۔اور اسی روز آپ کو ایک شخص ملا جس نے کسی اور ملک میں جماعت کا فرانسیسی لٹریچر پڑھا تھا اس نے اسی وقت بیعت کر کے احمدیت قبول کر لی۔ان کا نام محمد ادریس تھا اور وہ بعد میں ربوہ بھی تشریف لائے۔کچھ عرصہ کے بعد شیخ نصیرالدین احمد صاحب ان کے گھر میں ہی منتقل ہو گئے۔ادریس صاحب کی تبلیغ سے کچھ عیسائیوں نے اسلام قبول کر لیا۔
مکرم شیخ نصیرالدین احمد صاحب نے بڑی تگ و دو سے اس ملک میں جماعت کی رجسٹریشن کروائی لیکن ویزا کی مدت میں توسیع نہ ہو سکی اور انہیں تنزانیہ آنا پڑا۔ پھر حکومت نے ان کے ویزے میں توسیع کر دی اور وہ دوبارہ زیمبیا آگئے۔ اور لوساکا میں ایک نہایت سستی جگہ کرایہ پر لے کر مشن کا کام شروع کیا۔ بد قسمتی سے کچھ مسلمانوں کا یہ طریق ہوتا ہے کہ وہ ہر موقع پر جماعت ِ احمدیہ کے خلاف زہر اگل کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں ۔اسی دور میں ساؤتھ افریقہ کے مسلمانوں کے مشہور عالم اور مناد احمد دیدات (Ahmad Deedat) یہاں کے دورے پر آئے۔ ان کے آنے سے قبل زیمبیا میں مقیم گجراتیوں نے بہت بڑے بڑے اشتہار شائع کرنے شروع کئے اور بعض نے یہ افواہیں اڑانی شروع کیں کہ وہ یہاں پر آ کر احمدیت کے خلاف پرچار کریں گے۔جب احمد دیدات صاحب زیمبیا آئے تو مکرم شیخ نصیرالدین احمد صاحب نے ان سے ملاقات کی اور ان سے ان افواہوں کا ذکر کئے بغیر اسلام کی پر امن تعلیم اور جماعت کے خلاف اڑائی جانے والی جھوٹی افواہوں کا ذکر کیا۔اس پر احمد دیدات صاحب نے خوشی کا اظہار کیا اور اپنے دورے کے دوران کسی اختلافی مسئلہ کو ہوا دینے کی کوشش نہیں کی۔بلکہ واقعہ صلیب کا ذکر بھی آیا تو صرف یہ کہا کہ قرآن کی رو سے حضرت عیسیٰ کو قتل کیا گیا اور نہ ان کو صلیب دی گئی تھی۔(۲)
(۱) الفضل یکم نومبر ۱۹۸۱ء ص۵
(۲) الفضل ۱۲ دسمبر ۱۹۸۱ء ص۴و۵
کینیڈا میں جماعت اور مشن کا قیام
۱۹۵۶ئ۔۱۹۵۷ء میں بعض احمدیوں نے کینیڈا کے شہر ٹورونٹو میں سکونت اختیار کی۔۱۹۶۱ء میں مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیلِ اعلیٰ تحریک جدید نے مکرم عبدالقادر ضیغم صاحب مبلغ امریکہ کے ہمراہ مشن کے قیام کا جائزہ لینے کی غرض سے کینیڈا کا دورہ کیا۔دسمبر ۱۹۶۴ء میں ڈیٹن کے مبلغ عبدالحمید صاحب نے وہاں کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد مرکز کو لکھا کہ ٹورونٹو اور مانٹریال میں احمدی موجود ہیں اور یہاں جماعت کا قیام عمل میں آ سکتا ہے۔چنانچہ مکرم میاں عطا ء اللہ صاحب اس جماعت کے پہلے پریذیڈنٹ مقرر ہوئے۔اس وقت یہ جماعت مبلغ انچارج امریکہ کی نگرانی میں کام کر رہی تھی۔۱۹۶۶ء میں اونٹاریو کے صوبے میں جماعت قانونی طور پر رجسٹر ہو گئی۔۱۹۶۷ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے مکرم طاہر احمد بخاری صاحب کو کینیڈا کی جماعت کا پریذیڈنٹ مقرر فرمایا اور بعد میں انہیں نیشنل پریذیڈنٹ مقرر کیا گیا۔۱۹۶۹ء میں مکرم خلیفہ عبد العزیز صاحب کو نیشنل پریذیڈنٹ مقرر کیا۔ پہلے کینیڈین احمدی مسٹر جان وارڈ (John Ward) تھے جنہوں نے ۱۹۶۹ء میں بیعت کی۔۱۹۷۵ء میں مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیرو وکیلِ اعلیٰ نے کینیڈا کا دورہ کیا۔۱۹۷۶ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے کینیڈا کا دورہ فرمایا ۔یہ پہلا موقع تھا کہ کسی خلیفہ وقت نے کینیڈا کا دورہ کیا ہو۔اس کا ذکر علیحدہ کیا گیا ہے۔
کینیڈا میں پہلے مبلغِ سلسلہ مکرم منصور احمد بشیر صاحب تھے ۔آپ نے ۱۹۷۷ء میںٹورونٹو میں ایک کرایہ کے اپارٹمنٹ میں کام شروع کیا۔کینیڈا میں احمدی احباب دور دراز مقامات پر بکھرے ہوئے تھے۔آپ نے ایک ساحل سے لے کر دوسرے ساحل تک دورے کر کے احمدیوں سے رابطے قائم کئے۔اس سے قبل مشرقی کینیڈا میں چھ جماعتیں قائم تھیں ۔آپ کے مغربی کینیڈا کے دورہ کے بعد وہاں پر مزید چار جماعتوں کا قیام عمل میں آیا۔مشن ہاؤس میں ایک چھوٹی لائبریری قائم کی گئی اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ہفتہ وار کلاسز کا آغاز کیا گیا۔ اس وقت جماعت کا ہفتہ وار گزٹ ’’احمدیہ گزٹ ‘‘ بھی نکل رہا تھا۔لٹریچر کی تقسیم اور لیکچرز کا انتظام کیا گیا اور نمائشوں میں بک سٹال لگائے گئے۔ جماعت احمدیہ کینیڈا کا پہلا سالانہ کنونشن ۲۴۔۲۵ دسمبر ۱۹۷۷ء کی تاریخوں میں ہوا ۔جس میں پانچ سو احباب نے شرکت کی۔ ۱۹۷۸ء میں کیلگری میں ایک دو منزلہ مکان لے کر اسے مشن ہاؤس بنایا گیا۔ ۱۹۷۸ء میں مکرم منصور احمد بشیر صاحب نے صوبہ نواسکوشیا کا دورہ کر کے وہاں کی جماعتوں کو منظم کیا۔ ۱۹۷۹ء میں جماعت کیلگری نے وسیع پیمانے پر جلسہ پیشوایانِ مذاہب منعقد کیا گیا اور حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت فرمائی۔کینیڈا ایک وسیع ملک ہے اس لئے بہت سے احباب کے لیے سالانہ کنونشن میں شرکت مشکل ہوتی تھی اس لئے کینیڈا کے مختلف ریجنز میں ریجنل کانفرنسز کا سلسلہ شروع کیا گیا۔۱۹۷۹ء میں سسکا ٹون شہر میں ایک عمارت خرید کر اسے مشن ہاؤس بنایا گیا ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس کا نام الرحمت رکھا۔۱۹۸۰ء میں جماعت ِ احمدیہ کینیڈا نے وسیع پیمانے پر قرآنِ کریم کے انگریزی ترجمہ قرآن کی تقسیم کی سعادت حاصل کی۔ ۱۹۸۰ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے دوسری مرتبہ کینیڈا کا دورہ فرمایا۔اسی سال مکرم منیرالدین شمس صاحب نے مکرم منصور احمد بشیر صاحب سے چارج لے کر کینیڈا کے مشنری کے طور پر کام شروع کیا۔
مکرم منیرالدین شمس صاحب نے کینیڈا آنے کے بعد ملک میں ٹیلی وژن پر جماعت کے متعلق پروگرام شروع کئے۔۱۹۸۲ء میں مانٹریال میں بھی ایک عمارت لے کر اسے مشن ہاؤس بنایا گیا۔
کینیا
یوں تو ایک عرصہ سے مشرقی افریقہ میں جماعتیں قائم تھیں ۔لیکن ان میں سے اکثر بر صغیر سے گئے ہوئے احمدیوں کی تھی۔اور مقامی آبادی کے لوگ بہت کم تھے۔جب یہ ملک آزاد ہوئے تو ایشیائی باشندوں کی ایک بڑی تعداد نے یہاں سے نقلِ مکانی شروع کر دی۔اور یہاں کی جماعتوں میں ضعف پیدا ہونا شروع ہوا۔اور یہ امر خاص طور پر کینیا میں قابلِ تشویش تھا۔اس صورت ِ حال کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۱۹۶۹ء کے جلسہ سالانہ میں فرمایا:۔
’’مشرقی افریقہ میں پاکستانی ہندوستانی لوگ ۔۔۔بہت کثرت سے آباد تھے اور انہی میں سے بیعتیں ہوئیں اور انہیں میں سے جماعتیں بنیں۔اور مشرقی افریقہ مثلاً کینیا کے علاقے میں تو شاید ہی کوئی مقامی باشندہ احمدی ہوا ہو۔لیکن بڑی مضبوط جماعتیں تھیں بڑے چندے دیتی تھیں۔بڑی قربانی کرنے والی تھیں۔لوگوں کے سامنے مشرقی افریقہ کے نام سے تو مشرقی افریقہ کی جماعت متعارف تھی لیکن ان میں کوئی مقامی آدمی تھا ہی نہیں یا نہ ہونے کے برابر تھا۔اب جب وہاں سے لوگ بھاگنے شروع ہوئے حکومت بدل گئی۔پس جماعت ختم ہونی شروع ہو گئی۔چنانچہ دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ ایک ملک جس میں اتنی کثرت سے احمدی پائے جاتے تھے اور ان کا اتنا چندہ ہوتا تھا۔یکدم جماعت کے سامنے یہ چیز آجائے گی کہ وہاں نہ ہمارے آدمی رہے نہ ان کا چندہ رہا۔جماعت ہی ختم ہو گئی۔ چنانچہ میرا آپ کے سامنے اس بات کو بیان کرنے کا یہ پہلا موقع ہے۔بہت دعائیں کریں۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے دعائیں کرنے کی توفیق دی۔اصل میں تو وہی ہے جو دعاؤں کو بھی سنتا ہے اور بغیر دعاؤں کے بھی ہمارے کام کرتا ہے۔ہمارا کیا کام کرتا ہے۔اسی کے سارے کام ہیں۔مشرقی افریقہ میں ان دنوں مقامی افریقنوں کو احمدیت میں داخل ہونے کی توجہ پیدا ہو گئی ہے۔۔۔۔۔بعض جگہ تو گاؤں کے گاؤں احمدی ہوئے ہیں۔تنزانیہ میں زیادہ ہیں۔یوگینڈا میں اس سے کم اور کینیا میں اس سے کم۔لیکن کینیا میں اب حالات ایسے پیدا ہو رہے ہیں کہ ساحلِ سمندر پر غالباً مقامی لوگوں کی جماعتیں پیدا ہو جائیں گی۔آپ دعائیں کرتے رہیں۔‘‘
خلافت ثالثہ میں دیگر طریقوں کے ساتھ زراعتی میلوں میں جماعت کے لٹریچر کے سٹال لگانے کے طریق کو بھی تبلیغ کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا۔یہ میلے نیروبی ،کسومو ،ایلڈوریٹ اور ممباسہ میں منعقد ہو رہے تھے۔
افریقہ کے باقی ممالک کی طرح کینیا بھی عیسائی منادوں کی سرگرمیوں سے اپنا حصہ لے رہا تھا جو اپنے اپنے طریق سے عیسائیت کی تبلیغ کے لئے کاوشیں کر رہے تھے۔ جولائی ۱۹۶۸ء میں ایک پادری اورل رابرٹس (Oral Roberts) کینیا آئے اور معجزہ نمائی کا دعویٰ پیش کیا۔ذرائع ابلاغ پر اس کا خوب چرچا ہوا۔جماعت کے مبلغ مکرم عبد الکریم شرما صاحب نے انہیں دعا کے ذریعہ نشان نمائی کی دعوت دی۔لیکن اس کے جواب میں پادری صاحب نے خاموشی اختیار کر لی۔ نیشن(Nation) جیسے قومی جریدے نے بھی پادری صاحب پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس دعوت کو قبول کریں لیکن انہوں نے یہی جواب دیا کہ ہم اس دعوت کو قبول نہیں کر سکتے۔
لامو (Lamu) کینیا کے ایک ساحلی مقام پر واقعہ ہے۔کینیا میں سب سے پہلے اسلام یہاں پر پہنچا تھا۔۱۹۶۸ء میں مکرم بشیر احمد اختر صاحب مشنری انچارج مکرم عبد الکریم شرما صاحب کی ہدایت پر تبلیغ کے لئے گئے۔وہاں پر موجود عرب شیوخ کی طرف سے آپ کی شدید مخالفت کی گئی اور سرکاری حکام نے آپ کو وہاں سے جانے کے لئے کہا۔آپ تو وہاں سے آگئے لیکن اس مقام پر احمدیت کا بیج بودیا گیا۔اور سب سے پہلے بیعت کرنے والے پولیس کے ایک اہلکار تھے۔
کینیا میں تبلیغی مساعی صرف شہروں تک محدود نہ رہی بلکہ دیہات میں بھی جماعت ِ احمدیہ کی تبلیغی کاوشیں رنگ لانے لگیں۔ اور خلافتِ ثالثہ کے دوران مختلف دیہات میں غریبانہ رنگ میں مساجد کی تعمیر بھی ہوئی ۔چنانچہ ۱۹۷۰ء میں اسمبو (Asembo)اور کیسا (Kisa)کے مقام پر مساجد تعمیر ہوئیں۔۱۹۷۱ء میںٹاویٹا (Taveta)اور امبالے(Mbale)(یہ والا امبالے کینیا کے مغربی صوبہ میں ہے۔ ایک اور امبالے یوگینڈا میں واقع ہے )کے مقامات پر مساجد تعمیر ہوئیں۔۱۹۷۵ء میں مشرقی یوگینڈا میںشیبنگا (Shibinga) ،کیتوبو(Kitobo) چیبومبو (Chibombo) اور نزوئیا(Nzoia) کے مقامات پر اورWest Ugenya کے مقامات پر مساجد قائم ہوئیں۔اس کے علاوہ امبالے (Mbale) ، Mutoma Mumias اور مازومالومے Mazumalume کے مقامات پر نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا۔
مختلف اوقات میں کینیا کے امراء جماعت کینیا کے مختلف علاقوں میں تبلیغی اور تربیتی دورے کرتے اور ان مواقع پر خلافت ثالثہ کے دوران بھی کینیا میں جماعتی لٹریچر شائع کیا گیا اور اس کے ذریعہ اس ملک میں تبلیغ کی گئی۔سواحیلیLuoاورLuaزبانوں میں ہزاروں کی تعداد میں پمفلٹ تقسیم کئے جاتے۔مختلف مقامات پر لیکچر ہوتے جن میں غیر از جماعت احباب بھی خاطر خواہ تعداد میں شرکت کرتے۔(۱)
اللہ تعالیٰ نے مکرم جمیل الرحمن رفیق صاحب امیر و مشنری انچارج کینیاکو سواحیلی زبان پر ملکہ عطا فرمایا تھا ۔چنانچہ انہوں نے اس زبان میں بہت سی کتب کا ترجمہ کیا اور تبلیغی نقطہ نگاہ سے بہت سے کتابچوں کی تصنیف کی۔آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ ،حضرت مصلح موعودؓ کی تصنیف’’اسلام اور دیگر مذاہب‘‘۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘،منتخب احادیث ،منتخب قرآنی آیات،حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی منتخب تحریروں، احادیث کے مجموعہ ’’حدیقۃ الصالحین‘‘ اور الوصیت کا سواحیلی میں ترجمہ کیا۔یہ تراجم خلافت ِ ثالثہ اور رابعہ میں مختلف اوقات میں شائع ہوئے۔
۱۹۷۰ء کی دہائی کے آ غاز پر ممباسہ میں ماریشس سے تعلق رکھنے والے مبلغِ سلسلہ مکرم احمد شمشیر سوکیہ صاحب متعین تھے اور بڑی تندہی سے کام کر رہے تھے۔(۲)


(۱) الفضل ۲۷ اکتوبر ۱۹۷۱ء ص۳
(۲) الفضل ۲ اکتوبر ۱۹۷۰ء ص۳
گیمبیا
خلافتِ ثالثہ میں بھی اس ملک میں جماعت کی ترقی کا سفر جاری رہا۔اور اس کے ساتھ ساتھ مخالفت بھی ہوتی رہی۔۱۰ مئی ۱۹۶۹ء کو گیمبیا کے ایک گاؤں مصرا میں مبلغِ سلسلہ مکرم داؤد احمد حنیف صاحب اور گیمبیا کے ایک احمدی سیاکا سایانگ (Siaka Sayang) صاحب کے ذریعہ جماعت کا قیام عمل میں آیا لیکن مقامی چیف اور ڈسٹرکٹ چیف نے شدید مخالفت شروع کر دی۔ اور وہاں پر ایک نواحمدی مکرم حمزہ صاحب کا ایک عربی مدرسہ بھی تھا اسے مخالفین نے مسمار کر دیا اور احمدیوں سے ان کی زمینیں بھی چھین لی گئیں۔کچھ کمزور ایمان والے اس کے نتیجے میں پیچھے ہٹ گئے لیکن ان میں سے کئی ثابت قدم رہے۔ان میں مکرم ابوبکر نیا بالی صاحب اور مکرم محمد فاطی صاحب قابلِ ذکر ہیں۔ آہستہ آہستہ مخالفت کا دور ختم ہو گیا اور جہاں پر وہ مدرسہ گرایا گیا تھا وہاں جماعت نے ایک مسجد بنائی۔ ۱۹۶۳ء میں ہی گیمبیا کے انتہائی شمال میں بصے کے قصبے میں بیعتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ جون ۱۹۶۹ء میں حکومت نے گیمبیا میں تیسرے مبلغ کے ویزے کی منظوری دی تو مکرم اقبال احمد غضنفر صاحب گیمبیا پہنچے اور آپ کو بصے میں جماعت کا مبلغ مقرر کیا گیا۔غیراحمدی امام نے جماعت کی مخالفت تیز کر دی اور لوگوں کو احمدیوں کی مجلس میں آنے سے روکنا شروع کر دیا اور حکام کو یہ تاثر دیا کہ احمدیوں کی وجہ سے نقضِ امن کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔حالانکہ وہ خود فساد کو بھڑکانے کی کوششوں میں مصروف تھا۔آہستہ آہستہ وہاں پر جماعت کی مخالفت کم ہو گئی اور ۱۹۷۴ء میں جماعت نے اس قصبے میں ایک میڈیکل سینٹر اور ۱۹۸۲ء میں ایک سکول قائم کیا۔سب سے پہلے مرکز آنے والے اور امامِ وقت کی زیارت کا اعزاز حاصل کرنے والے احمدی مکرم تیجان بابو کرفون (Tijan Baboucarfoon) صاحب تھے۔ ۱۹۷۰ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے دورہ گیمبیا کا ذکر علیحدہ جگہ پر کیا گیا ہے۔
مکرم مولانا چوہدری محمدشریف صاحب گیمبیا میں جماعت کے پہلے مبلغ تھے۔۔آپ گیمبیا کے امیر کی حیثیت سے بھی خدمات سر انجام دے رہے تھے۔۱۹۷۳ء میں آپ مرکز واپس تشریف لے آئے اور مکرم بشیرالدین عبید اللہ صاحب نے گیمبیا مشن کا چارج لیا۔مکرم بشیرا لدین عبید اللہ صاحب کا گیمبیا میں قیام مختصر تھا لیکن آپ کے وہاں پر قیام کا ایک اہم واقعہ گیمبیا میں جلسہ سالانہ کی روایت کا آغاز ہے۔جماعت ِ احمدیہ گیمبیا کا پہلا جلسہ سالانہ مارچ ۱۹۷۵ء میں فیرافینی کے مقام پر ہوا۔مارچ ۱۹۷۵ء میں مکرم بشیر الدین عبید اللہ صاحب بیمار ہوجانے کی وجہ سے لندن چلے گئے اور آپ کے بعد مولوی عبدالشکور صاحب گیمبیا آئے اور امیر اور مشنری انچارج کے طور پر کام شروع کیا۔
جنوری ۱۹۷۶ء میں اس وقت کے وہ صاحب جنہیں سعودی عرب نے خانہ کعبہ میں امام مقرر کر رکھا تھا گیمبیا کی حکومت کی دعوت پر گیمبیا آئے۔جب وہ گیمبیا سے جانے والے تھے تو انہوں نے بانجل میں ائمہ مساجد سے ایک میٹنگ کی اور اس میں جماعت ِ احمدیہ کے خلاف بہت زہر اگلا۔انہوں نے کہا کہ احمدی کافر ہیں اور ان کے انگریزوں اور اسرائیل سے خفیہ تعلقات ہیں۔ان کے اس بیان کو گیمبیا کے سرکاری ریڈیو میں نمایاں کر کے نشر کیا گیا۔جماعت ِ احمدیہ کے وفد نے قائم مقام صدر سے مل کر اس پر احتجاج کیا۔اس پر قائم مقام صدر نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ علماء کو بلا کر سمجھا دیں گے کہ وہ اشتعال انگیزی سے اجتناب کریں۔جماعت ِ احمدیہ کے وفد نے کہا کہ وہ ریڈیو پر ہی اس کاجواب دینا چاہتے ہیں۔اس پر قائم مقام صدر نے کہا کہ جماعت ریڈیو پر جواب دینے پر اصرار نہ کرے البتہ وہ اس بیان کا جواب شائع کر سکتے ہیں۔اس پر جماعت ِ احمدیہ نے ایک پمفلٹ شائع کیا جس کا نام تھاAhmadis are Muslims۔بظاہر یہ ایک چھوٹا سا واقعہ نظر آتا تھا لیکن بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ ایک عالمی سازش کا جال بنا جا رہا تھا۔
۱۹۷۸ء میں مکرم عبد الشکور ساحب پاکستان واپس تشریف لے آئے اور مکرم داؤد احمد حنیف صاحب جماعت ِ احمدیہ گیمبیا کے امیر مقرر ہوئے۔۱۹۷۹ء میں گیمبیا کے مشن کے زیر ِ اہتمام ایک رسالہ اسلا م کے نام سے جاری ہوا۔
خلافت ِ ثالثہ میں گیمبیا میں ذیلی تنظیموں کا نظام بھی قائم کیا گیا۔ اکتوبر ۱۹۷۹ء میں لجنہ اماء اللہ کا قیام عمل میں آیا اور مکرمہ بشریٰ حنیف صاحبہ اہلیہ داؤد احمدحنیف صاحب لجنہ گیمبیا کی پہلی صدر مقرر ہوئیں۔ ۱۹۷۹ء میں ہی انصاراللہ گیمبیا قائم ہوئی اور مکرم عبد القادر جنکنی صاحب اس کے پہلے ناظمِ اعلیٰ مقرر ہوئے۔۱۹۸۱ء میں مجلس خدام الاحمدیہ گیمبیا کا قیام عمل میں آیا اور مکرم لامین جوارا صاحب اس کے پہلے نیشنل قائد مقرر ہوئے۔جارج ٹاؤن میں ۱۹۷۸ء میں ایک مشن ہاؤس اور ۱۹۸۱ء میں مسجد تعمیر ہوئی۔
نائیجیریا
۱۹۶۶ء میں نائیجیریا اور مغربی افریقہ کی جماعت ِ احمدیہ کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ نائیجیریا میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس تھی جس میں مغربی افریقہ کے مشنری انچارج صاحبان نے شرکت کی۔ یہ کانفرنس لیگوس میں منعقد ہوئی۔اور اس میں متعلقہ مشنوں کی ترقی کے حوالے سے بہت سی اہم تجاویز تیار کی گئیں۔
خلافتِ ثالثہ کے آ غاز میں نائیجیریا کے مشنری صاحبان نے ایک نئے عزم سے مختلف علاقوں کے دورے شروع کئے اور اس کے نتیجے میں تیز رفتاری سے بیعتیں شروع ہوئیں۔مکرم شیخ نصیرالدین احمد صاحب نے چار سال نائیجیریا میں بطور امیر و مشنری انچارج فرائض انجام دیئے ۔۱۹۶۸ء میں آپ واپس ربوہ تشریف لے آئے۔اور مکرم فضل الٰہی انوری صاحب نے آپ کی جگہ یہ فرائض ادا کرنے شروع کئے۔۱۹۷۰ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے دورہ نائیجیریا کا ذکر علیحدہ کیا گیا ہے۔اس دورہ کے نتیجہ میں نائیجیریا کی جماعت کو بڑی برکات حاصل ہوئیں ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے دور میں نائیجیریا کی جماعت نے حکومت ِ نائیجیریا سے یہ درخواست کی کہ کیتھولک چرچ کو ایک سو پچاس مشنریوں کے ویزے کا کوٹہ دیتے ہیں ہم بھی ایک سو پچاس مشنریوں کے ویزے کا کوٹہ لیں گے۔اس کے متعلق حضور نے ۲۷؍ دسمبر ۱۹۷۰ء کے جلسہ سالانہ کی تقریر میں فرمایا:۔
’’تحریک جدید کے ہمارے کل چونسنٹھ مبلغ کام کر رہے ہیں اور نائیجیریا کی جماعت نے وہاں کی حکومت کو یہ درخواست بھیج دی ہے کہ آپ کیتھولکس کو ایک سو پچاس کا کوٹہ دیتے ہیںہم بھی ایک سو پچاس کا کوٹہ لیں گے۔یہ سوچا ہی نہیں کہ ہمیں کس پریشانی میں ڈال دیں گے۔ لیکن اگر ہم دعا کریں اور بے حد عاجزانہ دعائیں کریں اور تدبیر کریں اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھتے رہتے ہیں وہ اپنے آپ کو وقف کریں۔آج اگر پچاس کی ضرورت ہے تو پچاس احمدیوں کو قربانی کے میدان میں نکلنا چاہئے۔اگر ڈیڑھ سو کی ضرورت ہے تو ڈیڑھ سو کو نکلنا چاہئے۔یہ وقت پھر ہاتھ نہیں آئے گا۔‘‘
اب سے قبل تک جماعت ِ احمدیہ تعلیمی میدان میں خدمت کر رہی تھی لیکن یہ خدمت پرائمری سکولوں کے قیام تک محدود تھی۔ لیکن اب تک سیکنڈری سکول کھولنے میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ ۱۹۷۰ء میں جماعت نے کانو میں ایک سیکنڈری سکول کھولا ۔اس سے پہلے کانو میں جماعت کا ہسپتال موجود تھا۔اس کے بعد ۱۹۷۱ء میں جماعت نے نائیجیریا میں مزید دو سیکنڈری سکول کھولے۔یہ سکول گوساؤ اور رمنا کے مقامات پر تھے۔ان سکولوں نے کچھ عرصہ کام کیا پھر انہیں بند کرنا پڑا۔
بہت سے مقا مات ایسے تھے جہاں پر باقاعدہ تبلیغ کے لئے کوئی احمدی مبلغ تو نہیں پہنچا لیکن وہاں کے لوگوں کو خود احمدیت کی طرف توجہ پیدا ہوئی۔ ابادان کے نواح میں الاباٹا (Ilabata) بھی ایک ایسی ہی جگہ تھی۔یہاں کے رؤسا ء نے خود جماعت کی طرف پیغام بھجوایا کہ انہیں بتایا جائے کہ احمدیت کیا ہے؟ان کے معززین کا ایک وفد آیا اور سوال و جواب کی ایک طویل نشست کے بعد انہوں نے بیعت کر لی اور اس طرح اس جگہ پر جماعت کا قیام عمل میں آیا۔اسی طرح اجیبو اوڈے کے نواح میں اموساں کے مقام پر ایک گاؤں کے لوگوں نے جماعت کو ایک وسیع قطعہ زمین پیش کیا کہ وہاں کوئی درسگاہ قائم کی جائے۔جماعت کا وفد وہاں پہنچا اور وہاں کے کچھ لوگوں کو احمدیت سے دلچسپی پیدا ہوئی اور سوال و جواب کے بعد بیعتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور وہاں پر جماعت قائم ہو گئی۔اسی طرح جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے دورہ کا ملک میں چرچا ہوا تو اس سے بھی بہت سے مقامات پر لوگوں کو احمدیت سے دلچسپی پیدا ہوئی اور اس کے نتیجہ میں جہاں پہلے چند ایک احمدی موجود تھے وہاں باقاعدہ جماعتیں قائم ہو گئیں۔اس عمل کے نتیجے میں اکیروں، اوشوگبو اور یجبگو کے قصبوں میں بھی احمدیت کو وسعت عطا ہوئی۔(۱)
خلافت ِ ثالثہ کے دوران جماعت احمدیہ نائیجیریا کی ذیلی تنظیموں نے بھی نئی مستعدی سے کام شروع کیا۔یوں تو ۱۹۵۰ء سے خدام الاحمدیہ نائیجیریا میں قائم تھی اور اسکے پہلے قائد الحاج عبد الوحید فلاویو (Flawiyo)صاحب تھے ۔لیکن ایک لمبا عرصہ تک نائیجیریا میں خدام الاحمدیہ صرف چند جماعتوں تک محدود رہی۔۱۹۷۲ء میں مکرم اجمل شاہد صاحب نے اس تنظیم کو ملکی سطح پر مستحکم کیا۔۱۹۷۲ء میں ہی خدام الاحمدیہ نائیجیریا کا پہلا اجتماع ابادان میںمنعقد ہوا۔اسی طرح کسی حد تک کہیں کہیں مجالسِ انصاراللہ حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب کے زمانے میں ہی قائم ہو گئی تھیں لیکن ملکی سطح پر اس مجلس کی باقاعدہ تشکیل ۱۹۷۳ء میں ہوئی۔اور الحاج ابو بکر ابو ڈوگے کوکوئی (Idogbe Kokoyi) صاحب مجلس انصاراللہ نائیجیریا کے پہلے زعیمِ اعلیٰ مقرر ہوئے۔اسی طرح اسی دور میں لجنہ اما ء اللہ میں نئی روح پیدا ہوئی اور ۱۹۷۶ء میں لجنہ نائیجیریا کا پہلا ملکی اجتماع منعقد ہوا۔نائیجیریا میں جماعت کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے تحت مساجد کی تعمیر کا کام بھی جاری تھا۔ چنانچہ ۱۹۷۸ء کے دوران یہاں پر جماعت احمدیہ کی تین مساجد تعمیر کی گئیں۔اور اسی سال یہاں پر دو مشن ہاؤس بھی تعمیر ہوئے۔۱۹۷۸ء میں نائیجیریا کی جماعت نے یوروبا زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کیا جو کہ بہت مقبول ہوا۔اب جماعت کی دینی تربیت کے تقاضے بہت بڑھ گئے تھے۔اور صرف مرکز آکر تعلیم پا کر واپس جانے والے اس بڑھتے ہوئے بوجھ کو سنبھال نہیں سکتے تھے۔اس لئے نائیجیریا میں جماعت کا ایک مشنری ٹریننگ کالج کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔یہ کالج الارو کے مقام پر کھولا گیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اس کے قیام کے متعلق فرمایا:۔
’’الارو کے مقام پر احمدیہ مشنری ٹریننگ کالج کا اجراء کیا گیا ہے۔اب وہاں ضرورت بہت بڑھ گئی ہے اور یہاں سے اتنے آدمی ہم جامعہ احمدیہ کے بھجوا نہیں سکتے،اس میں بہت ساری روکیں ہیں۔کچھ ہماری ہیں ۔ہمارے پاس اتنا پیسہ بھی نہیں جو خرچ کریں۔اس واسطے ایک غانا میں ٹریننگ کالج ہے اور وہاں مختلف ملکوں کے احمدی آ جاتے تھے۔پھر اب ان کے آپس میں بھی فارن ایکسچینج کی مشکلیں ہیں۔تو دوسرا ٹریننگ کالج نائیجیریا میں کھل گیا ہے۔‘‘
۱۹۷۲ء سے ۱۹۸۲ء تک مکرم محمداجمل شاہد صاحب نے جماعت ِ احمدیہ نائیجیریا کے امیر اور مشنری انچارج کے فرائض سر انجام دیئے۔خلافت ِ ثالثہ کے دوران نائیجریا کے مختلف علاقوں میں جماعتوں کا قیام عمل میں آیا۔جس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ اوگباگی کا قصبہ اونڈو (Ondo)سٹیٹ میں واقعہ ہے۔یہاں پر جماعت کا تعارف ہوامگر اس وقت مقامی لوگوں نے جماعت کے خلاف طرح طرح کی افواہیں پھیلانی اور مخالفت کرنی شروع کی۔مگر ۱۹۶۹ء تک یہاں کے کئی احباب جماعت میں داخل ہو چکے تھے۔اور ایک مقامی مبلغ مکرم زکریا صاحب کو یہاں مقرر کیا گیا۔
اوویری (Oweri) مشرقی نائیجیریا کا ایک شہر اور ایمو(Imo) سٹیٹ کا صدر مقام ہے۔ یہاں پر جماعت کا تعارف مکرم حاجی تیجانیا آکوبو(Tijania Akubuo) کے ذریعہ سے ہوا۔ یہاں کے محمد اکابگا صاحب کو مبلغ کے طور پر تیار کرنے کے لئے لیگوس بھجوایا گیا۔لیکن پھر نائیجیریا میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور ان سرگرمیوں میں تعطل پیدا ہو گیا۔اس کے بعد یہاں پر جماعت کا احیاء نو مکرم علی انو حوا (Onvoha) کے ذریعہ ہوا ۔
کا ڈونا (Kadona) شہر کاڈونا سٹیٹ کا صدر مقام ہے ۔یہاں پر جماعت کا آغاز ۱۹۶۷ء میں ،ان لوگوں کے ذریعہ ہوا جو کام کاج کے سلسلہ میں نقل ِ مکانی کر کے آباد ہوئے تھے۔پہلی جماعتی میٹنگ میں صرف پانچ احباب شامل ہوئے تھے۔اور ۱۹۸۱ء میں یہاںپر نئے مشن ہاؤس اور مسجد کا سنگ ِ بنیاد رکھا گیا۔
جماعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیشِ نظر اب لیگوس میں جگہ کم ہو چکی تھی۔چنانچہ۱۹۷۲ء میں شہر سے ۲۷ کلو میٹر دور اجوکورو (Ojokoro)کے مقام پر زمین حاصل کی گئی۔جماعتی دفاتر کی تعمیر کے علاوہ احمدی احباب کو بھی تحریک کی گئی یہاں پر زمین لے کر مکان بنائیں۔
کالابار(Calabar) کراس ریور(Cross River)سٹیٹ کا صدر مقام ہے۔یہاں پر خانہ جنگی کے دوران ایک مسجد ویران ہو گئی تھی جس پر عیسائیوں نے قبضہ کر کے اسے چرچ میں تبدیل کر دیا تھا ۔ایک مسلمان نے اس کی بازیابی اور اسے دوبارہ آباد کرنے کے لئے مختلف تنظیموں سے رابطہ کیا تھا۔سوائے جماعت احمدیہ کے کسی نے ان کی مدد کرنے کی حامی نہ بھری۔اور جماعت کا وفد یہاں پہنچا ۔اس طرح ان لوگوں کا جماعت سے تعارف ہوا اور ان میں سے کئی لوگوں نے بیعت کی اور یہاں جماعت کا قیام عمل میں آیا۔
باؤچی سٹیٹ میں جماعت کا قیام ۱۹۷۶ء میں ان لوگوں کے ذریعہ ہوا جو ملازمت کے سلسلہ میں یہاں پر آکر آباد ہوئے تھے لیکن یہاں پر تبلیغ پر پابندی تھی اس لئے یہاں پر جماعت کی ترقی نسبتاََآہستہ رہی۔
خلافت ثالثہ کے دوران بہت سے نائیجیرین احباب نے ربوہ آکر جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کی اور جماعت کے مبلغ کی حیثیت سے خدمات کا آغاز کیا۔
(۱) الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۷۱ء ص۳و۴
جاپان میں مشن کا احیاء ِ نو
جاپان میں مشن کے قیام کا ذکر پہلے گزر چکا ہے ۔لیکن اس کے بعد اس ملک میں ایک لمبا عرصہ تبلیغی سرگرمیوں میں تعطل رہا۔ستمبر ۱۹۶۹ء میں مکرم عبدالحمید صاحب بطور مبلغ جاپان تشریف لے گئے۔ آپ نے ۱۸ سال کی عمر میں براہینِ احمدیہ کے مطالعہ کے بعد احمدیت قبول کی تھی۔پہلے فوج میں ملازمت کی اور پھر ۱۹۶۰ء میں فوج سے ریٹائر منٹ کے بعد زندگی وقف کر دی اور انگلستان اور امریکہ میں بھی بطور مبلغ خدمات سرانجام دیں۔جاپان پہنچ کر پہلے ایک ہوٹل میں قیام کیا اور اور ایک سکول میں داخلہ لے کر زبان سیکھنی شروع کی۔پھر ایک کرایہ کا مکان لے کر کام شروع کیا۔آپ نے جماعت کا بنیادی لٹریچر کثرت سے تقسیم کیا ۔اور ڈکشنری اور جاپانی زبان کے اساتذہ کی مدد سے مسیح کی بعثت ِ ثانی کے عنوان سے ایک فولڈر شائع کیا اور کثرت سے تقسیم کیا۔آپ نے پریس سے رابطہ کیا اور اخبارات نکان توشی اور جاپان ٹائمز میں مضامین شائع کئے جو سوال و جواب کا رنگ اختیار کر لیتے اور رابطے کا ذریعہ بن جاتے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اس مشن کے احیاء ِ نو کے بارے میں۱۹۶۹ء کے جلسہ سالانہ میں فرمایا:
’’پس جاپان میںاللہ تعالیٰ کے فضل سے مشن قائم ہو گیاہے اور وہ پیشگوئی جس کا ذکر قرآنِ کریم میں تھا ذوالقرنین کے بیان کے مطابق اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ایک اور جلوہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں دکھایا ہے۔میں نے بتایا تھا کہ اس کے لئے فنڈ کی میں علیحدہ تحریک کروں گا۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک بغیر کسی تحریک کے گیارہ ہزار سے زائد کی رقم جمع ہو چکی ہے اور اس میں سے اندازاََ پانچ ہزار روپیہ خرچ ہوا ہے۔اور اس واسطے میںیہ تحریک نہیں کروں گا کہ آپ ابھی اس میں کچھ دیں۔میں یہ تحریک کروں گا کہ آپ یکم مئی کے بعدجب سالِ رواں کی مختلف مالی ذمہ داریاں ادا کر چکیں۔تو اس وقت جتنا خوشی اور بشاشت سے دوسرے چندوں پر اثر ڈالے بغیر آپ جاپان مشن میں دے سکتے ہوں دے دیں۔‘‘
اور اسی تقریر میں حضور نے جاپانی معاشرے میں مذہب کے متعلق رویے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’اس میدان میں ہمیں بڑی جدو جہد کرنی پڑے گی کیونکہ ان کے اندر یہ عادت پڑ گئی ہے کہ ایک ہی شخص کیتھولک کلب کا بھی ممبر ہے اور بدھ کلب کا بھی ممبر ہے اور مختلف مذاہب کے چرچ اور عبادت گاہوں کو وہ کلب سمجھتے ہیں اور وہاں جتنی کلبیں ہیں وہ ان کے ممبر بن جاتے ہیں۔ بلکہ لوگ کہتے ہیںکہ جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو ایک مذہب کی رسومات پر عمل کرتے ہیں اور جب وہی بڑا ہو کر مرتا ہے تو اسے دفنانے کے لئے دوسرے مذہب کی رسومات پر عمل کرتے ہیں۔۔۔۔تو ان کو اس صراط مستقیم پر لانا یعنی کلبوں سے نکال کر مذہب میں داخل کرنا۔چونکہ وہ لوگ مذاہب کو کلب سمجھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مختلف مذاہب کی ذہنیت اور ان کا فلسفہ اور اس فلسفہ کے متعلق تقاریر ان کے نزدیک ایسی ہیں جیسی کسی کلب میں مختلف تقاریر ہوتی ہیں۔اس فلسفہ کو مغلوب کرنے کے لئے اور اسلام کو غالب کرنے کے لئے کسی اور فلسفہ کی ضرورت نہیں اور نہ وہ ہمیں مفید ہو سکتی ہے۔شاید میں نے پچھلے سال بھی دوستوں کو متوجہ کیا تھا کہ وہاں جماعت کو ترقی حاصل کرنے کے لئے نشانِ آسمانی اور تائیدات ِ سماوی کی ضرورت ہے۔اب ہمیں ایسے بے نفس انسان چاہئیں جن پر ایک نظر پڑنے سے اگلا دیکھنے والا انسان اثر قبول کئے بغیر نہ رہ سکے۔‘‘
اکتوبر ۱۹۷۰ء میں جاپان کے شہر کیوتو میں مذاہب اور امن کے موضوع پر ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس موقع پر حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ نے اس کانفرنس میں قرآنِ کریم کی روشنی میں امن کے بنیادی اصولوں پر خطاب فرمایا۔کانفرنس میں مکرم عبدالحمید صاحب نے جماعت ِ احمدیہ کی نمائندگی کی اور حقوقِ انسانی کی سب کمیٹی میں آپ نے حصہ لیا اور تقاریر کیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۲۷ دسمبر ۱۹۷۰ء کو جلسہ سالانہ کی تقریر میں اس کانفرنس کے بارے میں ارشاد فرمایا:۔
’’۔۔۔جاپان میں ایک عالمگیر مذہبی کانفرنس منعقد ہوئی،اس میں جماعت ِ احمدیہ کو بھی مدعو کیا گیا اور وہاں جماعت کے نمائندے نے شرکت کی۔دوسرے مسلم ممالک یا مسلم مجالس کے نمائندے وہاں آئے تھے۔وہ اتنے متاثر ہوئے کہ بلا استثناء سب نے آکر ہمارے نمائندے کی تعریف کی اور اس موقف سے بہت متاثر ہوئے جو اس نے لیا جو اسلام کا سچا موقف اور نبی اکرم ﷺ کی سچی تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حقیقی پیغام ہے۔ الحمد للہ علیٰ ذلک۔اس میں مکرم و محترم چوہدری ظفراللہ خان صاحب بھی شامل ہوئے تھے ۔ بظاہر جماعت کے نمائندے کی حیثیت سے نہیں، ویسے جماعت کے نمائندے کی حیثیت سے ہی میں کہوں گا۔بظاہر میں نے اس لئے کہا ہے کہ جماعت ِ احمدیہ کے ہر فرد کو جو بھی ملا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس برکت کے طفیل سے ملا ہے جو محمدﷺ سے آپ نے لی اور آپ کی امت کو آپ نے دی۔‘‘
مکرم عبدالحمید صاحب کی کاوشوں کے نتیجہ میں آپ کے قیام کے دوران تیس افراد نے احمدیت کو قبول کرنے کی سعادت حاصل کی۔فروری ۱۹۷۵ء میں مکرم عطاء المجیب راشد صاحب جاپان تشریف لے آئے اور بطور مبلغ کام شروع کیا اور مکرم عبد الحمید صاحب واپس مرکز تشریف لے آئے۔ آپ کے دور میں جاپان میں مستقل دارالتبلیغ قائم ہوا۔آپ نے بھی جاپان میں آمد کے بعد سب سے پہلے زبان سیکھنے کی طرف توجہ کی اور سکول میں داخلہ لیا۔آمد کے کچھ عرصہ کے بعد ہی آپ کا ایک انٹرویو ٹی وی پر نشر ہوا اور اس طرح تبلیغ کا ایک موقع پیدا ہو گیا۔مکرم عطا ء المجیب راشد صاحب نے انفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ تبلیغ کا کام جاری رکھا۔۱۹۷۷ء میں جاپان میں اسلامی لٹریچر کی ایک نمائش منعقد کی گئی۔
۱۹۷۹ء کے جلسہ سالانہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے جلسہ سالانہ کی ۲۷؍ دسمبر کی تقریر میں فرمایا:
’’جاپان میں بھی مشن بڑا Active ہو گیا ہے۔ اور وہاں انہوں نے رسالے شائع کرنے شروع کر دیئے ہیں۔جلسے کرتے ہیں اخباروں میں خطوط لکھتے ہیں۔۔۔جب عیسائی یا دوسرا کوئی مذہب والا ان سے تنگ آ جاتا ہے تو پھر وہ اخبار کو کہتا ہے کہ اب یہ سلسلہ بند کردو۔’’امن کا پیغام اور ایک حرف ِ انتباہ ‘‘اس کا ترجمہ ہو چکا ہے جاپانی میں۔‘‘
۱۹۸۱ء میں جماعت ِ احمدیہ جاپان کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد کیا گیا۔۱۹۸۱ء میں ہی جاپان کی جماعت نے اپنا ایک سہ ماہی رسالہ شائع کرنا شروع کیا۔۱۹۷۹ء میں مکرم مغفور احمد منیب صاحب کو بھی بطور مبلغ جاپان بھجوایا گیا اور آپ نے یوکوہاما کے شہر میں دوسرے مشن کا آ غاز کیا۔یہ شہر ٹوکیو کے قریب ہی ہے۔
جب مکرم عطاء المجیب راشد صاحب جاپان آئے تو اس وقت ٹوکیو کے مغربی حصہ میں سیتا گایا وارڈ میں جماعت کا مشن ایک کرائے کے کمرے میں تھا۔جب حالات نے بڑی جگہ کا تقاضا کیا تو مئی۱۹۷۸ء میں ٹوکیو کے مشرقی حصہ میں ایدو گاوا وارڈ میں مشن منتقل کر دیا گیا۔۱۹۸۱ء میں وکیلِ اعلیٰ مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے دورہ جاپان کا منصوبہ بنا تو اس موقع پر مبلغ جاپان مکرم عطاء المجیب راشد صاحب نے تجویز دی کہ جاعت کا مشن ٹوکیو سے باہر کسی زیادہ موزوں مقام پر منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اور اس سلسلہ میں ناگویا شہر کا نام بھی تجویز کیا۔مکرم صاحبزادہ مرز ا مبارک احمد صاحب کی آمد پر ایک مکان پسند کیا گیا۔لیکن جب اس کی منظوری آئی تو معلوم ہواکہ یہ مکان تو اب فروخت ہو چکا ہے۔چنانچہ پھر ایک اور مکان کا انتخاب کیا گیا۔اور جماعت نے یکمشت رقم ادا کر کے اس مکان میں اپنا مشن ہاؤس قائم کردیا۔(۱)





(۱)الفضل جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۸۱ء ص۳۹۔۴۱
(۲) خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء
بینن میں جماعت کا آ غاز
بینن میں جماعت کا تعارف ۱۹۶۷ء میں ہوا۔بینن کے ایک باشندے مکرم سیکرو داؤد صاحب (Sikirou Dauda) ملازمت کے سلسلہ میں نائیجیریا میں مقیم تھے۔ انہوں نے ۱۹۶۵ء میں احمدیت قبول کر لی۔ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اپنے ہم وطنوں کو حق کا پیغام پہنچائیں۔چنانچہ مشنری انچارج مکرم شیخ نصیرالدین احمد صاحب نے ایک وفد تشکیل دیا جس میں مرکزی مبلغ مکرم محمدبشیر شاد صاحب ، دو لوکل معلمین اور مکرم سیکرو داؤد صاحب شامل تھے۔یہ وفد ایک ہفتہ کے دورہ پر بینن پہنچا اور وہاں پر اجتماعی اور انفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ احمدیت کا پیغام پہنچایا۔حکومت کے افسران اور مسلمان لیڈروں نے کافی تعاون کیا اور جامع مسجد میں بھی احمدیت کا تعارف کرانے کا موقع دیا ۔اس دورہ کے دوران ایک تاجر اور سیکنڈری سکول کے چار طلباء نے بیعت کی۔بیعت کرنے والے تاجر کا نام الحاجی راجی بصیرو (Radji Basiru) صاحب تھا۔۱۹۶۹ء میں مکرم سیکرو داؤد صاحب نے ملازمت ترک کردی اور وطن آکر تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔آپ کی تحریک پر مختلف اوقات پر چار نائیجیرین مبلغین نے بینن آ کر گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔ان میں سے سب سے پہلے مکرم الحاج محمد توحید شیکونی (Tohid Shekoni) صاحب تھے۔یہ صاحب اگست ۱۹۷۲ء میں بینن پہنچے اور ۱۹۷۳ء تک بینن میں کام کیا اور آپ نے یہاں پر احمدیوں کی علیحدہ نماز اور جمعہ شروع کرایا۔ دوسرے مبلغ برادر بن صالح تھے۔آپ نے ۱۹۷۴ء سے ۱۹۷۵ء تک ایک سال بینن میں کام کیا۔ الحاج الووا صاحب نے اس ملک میں ۱۹۷۶ء سے ۱۹۷۷ء تک یہاں پر خدمت کی توفیق پائی۔ آپ نے باوجود پیرانہ سالی کے اس ملک میں تبلیغ کا کام جاری رکھا۔چوتھے مبلغ مکرم عبد العزیز تاج الدین صاحب تھے آپ ۱۹۷۸ء میں یہاں آئے اور آپ نے چار سال یہاں پر خدمت کی توفیق پائی۔بینن میں تبلیغ کا ایک اچھا ذریعہ اہلِ بینن کا نائیجیریا میں آنا جانا تھا۔جب یہاں کے رہنے والے نائیجیریا آتے تو ان میں سے بعض کا نائیجیریا کے احمدیوں سے رابطہ ہو جاتا اور اس طرح تبلیغ کا راستہ کھل جاتا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۱۹۷۹ء کے جلسہ سالانہ میں دوسرے روز کے خطاب میں بینن کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :
’’وہی لوگ جب ادھر آتے ہیں نائیجیریا تو ان کا ملاپ ہوتا ہے ہمارے مشن سے۔وہ ہماری باتیں سنتے ہیں ،کتابیں پڑھتے ہیں۔لے جاتے ہیں۔گھر جاتے ہیں ۔اپنے علماء سے باتیں کرتے ہیں۔ان کو بتاتے ہیں مسئلے مسائل کہ یہ ایک جماعت ہے جو یہ باتیں پیش کر رہی ہے۔اس طرح ان کو تبلیغ ہوتی ہے۔وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فضل کیا ہے کہ بغیر کسی مبلغ اور مشن کے ایک مخلص اور فعال جماعت اللہ تعالیٰ نے ہمیں دے دی۔اس سال بینن کے جلسہ سالانہ پر سینکڑوں افراد جمع ہوئے۔چھوٹی جماعت ہے،نئی نئی بنی ہے اور مشن ہاؤس کی تعمیر انہوں نے شروع کر دی ہے۔جس کے اخراجات وہ خود اکٹھے کر رہے ہیں ۔‘‘
بینن میں جماعتِ احمدیہ کی پہلی مسجد پورتو نووو میں بنی ۔اس مسجد کا سنگ ِ بنیاد امیر صاحب جماعت ِ احمدیہ نائیجیریا مکرم اجمل شاہد صاحب نے مورخہ ۲۷؍ جنوری ۱۹۷۴ء کو رکھا ۔اور اگست ۱۹۷۴ء کو اس کا افتتاح ہوا۔اور پھر اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا مشن ہاؤس بھی بنا دیا گیا۔
اب اس جماعت کی ترقی اس بات کا تقاضا کر رہی تھی کہ یہاں پر ایک مرکزی مبلغ مقرر کیا جائے۔ چنانچہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے ارشاد پر آئیوری کوسٹ سے مکرم احمد شمشیر سوکیا صاحب یہاں آئے ۔آپ کی آمد کے بعد بینن کی جماعت ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔ بینن میں فرانسیسی بولی اور سمجھی جاتی ہے اور سوکیا صاحب کو فرانسیسی پر عبور تھا اس لئے آپ کو تبلیغ میں بہت سہولت تھی۔نئی جماعتیں قائم ہوئیں اور جماعت کا لٹریچر شائع کیا گیا۔
برکینا فاسو میں تبلیغ کی کوششیں
برکینا فاسو جو کہ پہلے اپر وولٹا کہلاتا تھا مغربی افریقہ کا ملک ہے۔یہ پہلے فرانسیسی کالونی تھی اور ۱۹۶۰ء میں اسے آزادی ملی۔اس کی اکثریت ارواح پرست(Animist) ہے اور مسلمان بھی خاطرخواہ تعداد میں آباد ہیں۔غانا اور برکینا فاسو کے درمیان ہمیشہ سے قریبی روابط رہے ہیں اور برکینا فاسو میں احمدیت کا تعارف بھی غانا کے ذریعہ پہنچا۔شمالی غانا میں ایک قصبہ وا نام کا ہے۔یہاں پر ایک عالم اور تاجر الحاج معلم صالح نام کے تھے۔جنہوں نے اپنے کچھ دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ احمدیت قبول کر لی۔ان کی بہت شدید مخالفت کی گئی۔دوسرے مسلمانوں اور عیسائیوں نے ان کا بائیکاٹ کیا ان پر مقدمات قائم کئے اور ان میں سے کئی کو جلاوطن کیا گیا۔ان پر قاتلانہ حملے کئے گئے۔ الحاج معلم صالح کے بعض شاگرد اپر وولٹا ( برکینا فاسو ) کے تھے۔انہوں نے احمدیت قبول کی اور اس طرح وا کے ذریعہ احمدیت کا پیغام اس ملک میں پہنچا لیکن یہاں پر کوئی باقاعدہ تنظیم قائم نہ ہو سکی۔ ستمبر۱۹۵۳ء میں غانا کے مبلغ مکرم مولانا نذیر احمد مبشر صاحب نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ دریائے وولٹا کے بالائی حصہ میں جو فرانسیسی علاقہ ہے ،اس میں دو مقامات پر احمدیوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔اور ایک جگہ کے احمدی جو اپنے علاقے کے شاہی خاندان سے ہیں ان کو فرانسیسی حکومت نے غیراحمدیوں کی مخالفت کی وجہ سے نکال دیا تھا لیکن پھر واکے الحاج معلم صالح نے بہت کوششیں کر کے انہیں وہاں پھر آباد کروا دیا۔
اپر وولٹا اور وا میں تجارتی تعلقات تو تھے ،اس طرح وا کی جماعت کی وساطت سے اپر وولٹا کے احمدیوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام بھی ہو جاتا۔یہاں کے غیر احمدی احباب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب بڑے شوق سے خریدتے۔مولانا نذیر احمد مبشر صاحب کی کتاب القول الصریح فی ظہور المہدی والمسیح بھی اپر وولٹا کے عربی دان مسلمانوں میں بہت مقبول ہوئی۔اپر وولٹا کے کچھ احمدی احباب وا کی سالانہ کانفرنس میں بھی شامل ہوتے۔
جب ۱۹۶۷ء میںمغربی افریقہ کے مبلغین کی کانفرنس لائبیریا میں منعقد ہوئی تو اس میں یہ فیصلہ کیاگیا کہ اپروولٹا (برکینا فاسو) میں تبلیغ کا کام اب آئیوری کوسٹ کی جماعت کے سپرد کیا جائے۔ بظاہراس کی ایک وجہ تویہ نظر آتی ہے کہ یہ دونوں ممالک Francophone ہیں یعنی ان میں دوسری زبان کے طور پر فرانسیسی زبان مستعمل ہے۔اور یہ کام آئیوری کوسٹ کے امیر و مشنری انچارج مکرم قریشی محمد افضل صاحب کے سپرد ہوا۔انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ یہ فیصلہ کیاکہ ایک مبلغ برکینا فاسو بھجوایا جائے اور اس کے لئے اپنے ایک شاگرد عبدالحمید صاحب کا انتخاب کیا جو برکینافاسو کے باشندے تھے۔عربی،فرانسیسی اور مقامی زبانیں بول سکتے تھے ۔اور ابی جان میں سالہاسال مکرم قریشی محمد افضل صاحب کے زیر ِ تربیت رہ چکے تھے۔چنانچہ عبدالحمید صاحب ایک اور فدائی سمیت برکینا فاسو پہنچے اور ملک کے دوسرے بڑے شہر بوبوجلاسو میں ایک مکان کرایہ پر لے کرکام کا آغاز کیا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ۱۲؍ جنوری ۱۹۶۸ء کو اپنے جلسہ سالانہ کی تقریر میں ارشاد فرمایا :
’’اپر وولٹا فرنچ مغربی افریقہ میں ایک نیا مشن کھولا جارہا ہے۔اس کے اخراجات مغربی افریقہ کے مشن برداشت کریں گے۔فی الحال آئیوری کوسٹ سے ایک لوکل مبلغ وہاں بھیجا جا رہا ہے۔‘‘
۱۹۶۹ء میںیہ اطلاع ملی کہ برکینا فاسو میں پانچ سو احمدیوں کا ایک اجلاس ہوا ہے جس میں یہ درخواست کی گئی ہے کہ یہاں کے لئے ایک مرکزی مبلغ بھجوایا جائے ۔چنانچہ اس درخواست پر حضور نے یہاں کے لئے حکیم محمد ابراہیم صاحب سابق مبلغ مشرقی افریقہ کا انتخاب کیا لیکن بعض وجوہات کی بنا پر انہیں وہاں نہیں بھجوایا جا سکا۔اسی سال غانا کی جماعت کے امیر مکرم مولانا عطا ء اللہ کلیم صاحب نے دوسرے ممالک کے ساتھ برکینا فاسو کا بھی دورہ کیا۔اور بوبو جلاسو کے علاوہ ایک اور مقام کوئیں(Konngy)کا بھی دورہ کیا۔ اس جگہ پر احمدیوں کی ایک مسجد بھی تھی۔
۱۹۷۲ء میں برکینا فاسو کی جماعت کے لئے مشکلات پیدا ہو گئیں اور محکمہ تعلیم نے کسی غلط فہمی کی بنا پر مشن کو یکسر بند کرنے کا حکم دیا۔لیکن چونکہ مقامی پولیس حقیقت سے زیادہ واقف تھی اس لئے انہوں نے کہا کہ صرف مشن کا سائن بورڈ اتار دو۔اس مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ مقامی مسلمانوں کی ایک تنظیم یونین کلچرل مسلمان جماعت کی مخالفت کر رہی تھی۔اس طرح برکینا فاسو میں خدمت کے کام کا آغاز تو کر دیا گیا لیکن یہاں بڑی ترقی شروع ہونا خلافتِ رابعہ کے دور میں مقدر تھا۔
جنوبی افریقہ میں احمدیت کی مخالفت
اس دور میں جنوبی افریقہ میں رنگ و نسل کی بنیاد پر ظلم تو ایک عام سی بات تھی۔اور وقتاً فوقتاً احمدیوں کو تختہ مشق بنایا گیا۔لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ثابت قدم رہے۔صرف احمدی ہونے کی وجہ سے مکرم بدر الدین جعفر صاحب کی اتنی مخالفت ہوئی کہ انہیں اپنا ریسٹورانٹ بند کرنا پڑا۔ مخالفت اتنی شدت اختیار کر گئی کہ ایک نوجوان مکرم آرمین صالح صاحب نے احمدیت قبول کی تو ان کے والدین نے گھر سے نکال دیا۔جماعت کے صدر مکرم ہاشم ابراہیم صاحب پر کلہاڑی سے حملہ کیا گیا جو کہ ایک مُلّا نے کیا تھا لیکن یہ قاتلانہ حملہ ناکام رہا۔متعدد احمدیوں کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا۔ ۱۹۸۲ء میں احمدی تراویح ادا کر رہے تھے تو ان پر پتھراؤ کیا گیا۔
جنوبی افریقہ میں مشن ہاؤس اور مسجد کی تعمیر کا آ غاز ۱۹۷۰ء میں ہوا ۔اور اس کا سنگ ِ بنیاد مکرمہ عائشہ پٹ صاحبہ نے رکھا۔آپ جنوبی افریقہ کی جماعت کی ایک بہت مخلص خاتون تھیں۔۱۹۵۹ء میں مکرم ہاشم ابراہیم صاحب کو جماعت ِ احمدیہ جنوبی افریقہ کا صدر مقرر کیا گیا تھا ۔آپ ۱۹۸۵ء میں اپنی وفات تک اس عہدہ پر کام کرتے رہے۔
لائبیریا
گو کہ لائبیریا میں جماعت کی ترقی مغربی افریقہ کے بعض اور ممالک کی طرح تیز نہیں تھی لیکن اس کی ترقی کا سفر بھی آہستہ آہستہ جاری تھا۔لائبیریا میں دو ماہ کے لئے مکرم عبدالقادر جکنی(Jikni) صاحب کو بھی خدمت کی توفیق ملی۔اس وقت آپ گیمبیا میں جماعت کی مقامی مبلغ کے طور پر خدمات بجا لا رہے تھے۔اسی طرح غانا کے مکرم جبریل سعید صاحب نے بھی کچھ عرصہ کے لئے اپنا گھر بار چھوڑ کر لائبیریا کے مختلف علاقوں میں جا کر احمدیت کا پیغام پہنچایا۔اسی طرح مکرم سنوسی سیسے (Senusi Sesay)صاحب سیرالیون کے باشندے تھے۔لائبیریا کے مشنری انچارج مکرم مبارک احمد ساقی صاحب کی خواہش پر مکرم مشنری انچارج سیرالیون کی وساطت سے آپ نے نقل ِ مکانی کی اور لائبیریا آکر یہاں کی کیپ ماؤنٹ کاؤنٹی کے ایک گاؤں لارگو میں رہائش اختیار کر لی۔یہاں آپ نے بچوں کو قرآنِ کریم کی تعلیم دینی شروع کی اور پھر یہاں پر دینی تعلیم کا اجراء کیا۔یہ گاؤں دارالحکومت منروویا سے تقریباََ ۹۰ میل دور ہے۔
پہلے جماعت کی کوشش تھی کہ مشن کے لئے حکومت زمین مہیا کر دے لیکن حکومت کی طرف سے یہ عندیا دیا گیا کہ اس غرض کے لئے جماعت کو زمین خریدنی پڑے گی۔چنانچہ زمین کی خرید کے لئے کوششیں شروع کی گئیں اور فروری ۱۹۶۷ء میں منروویا میں ایک مکان کو خریدا گیا۔۱۹۶۹ء میں اس زمین پر مبلغ کی رہائش کی تعمیر مکمل ہوئی۔ ۲۶ تا ۲۸ جولائی ۱۹۶۷ء کو مغربی افریقہ کے مبلغین کی ایک کانفرنس منروویا (لائبیریا ) میں منعقد ہوئی۔اس میں نائیجیریا سے مکرم شیخ نصیرالدین احمد صاحب اور غانا سے مکرم عطا ء اللہ کلیم صاحب ،سیرالیون سے مکرم بشارت احمدبشیر صاحب اور گیمبیا سے مکرم چوہدری محمدشریف صاحب اور آئیوری کوسٹ سے مکرم قریشی محمد افضل صاحب نے اس میں شرکت کی۔ اس کے پہلے اجلاس میں منروویا کی دونوںمساجد کے ائمہ اور پریذیڈنٹ مسلم کا نگرس اور پریذیڈنٹ مسلم کمیونٹی لائبیریا نے بھی شرکت کی۔ٹی وی،ریڈیو اور اخبارات میں اس کانفرنس کی خبریں شائع اور نشر ہو کر تبلیغ کا ذریعہ بنتی رہیں۔لائبیریا میں ابھی تک جلسہ سالانہ کی روایت کا آ غاز نہیں ہوا تھا۔اس ضمن میں ایک کوشش ۱۹۶۷ء میں ہوئی ۔یہ ایک روزہ تقریب پیگ وے کے مقام پر منعقد کی گئی۔ نومبر ۱۹۶۹ء میں مکرم امین اللہ سالک صاحب نے مکرم مبارک احمد ساقی صاحب سے امیر و مشنری انچارج لائبیریا کا چارج لیا۔۱۹۷۰ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے لائبیریا کا دورہ فرمایا جس کاذکر علیحدہ کیا گیا ہے۔جنوری ۱۹۷۴ء میں لائبیریا میں جماعت ِ احمدیہ کے پہلے سکول کا آ غاز کیا گیا۔ یہ سکول سانویا (Sanoyea)کے قصبہ میں بنایا گیا تھا۔اور حکومت نے یہاں پر جماعت کو سوایکڑ زمین الاٹ کی تھی۔یہ سکول مجلس نصرت جہاں کے تحت کھولا گیا تھا اور مکرم سردار رفیق احمد صاحب اس کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے تھے۔پھر حکومت کے دو سکول اس علاقہ میں کھولے گئے۔وہاں کی انتظامیہ کے بعض افسران نے کہا کہ ہم نے یہ سکول آپ کے مقابلہ کے لئے بنائے ہیں ،اس پر جماعت کے سکول کے پرنسپل صاحب نے کہا کہ ہم آپ سے مقابلہ نہیں کرنا چاہتے بلکہ آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ اس سکول میں طلباء کی تعداد زیادہ نہیں تھی ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں تجویز پیش کی گئی کہ اس سکول کو بند کر دیا جائے لیکن حضور نے اسے منظور نہیں فرمایا(۱)۔۱۹۷۴ء میں مکرم امین اللہ سالک صاحب کی جگہ مکرم رشیدالدین صاحب کو لائبیریا کی جماعت کا امیر و مشنری انچارج مقرر کیا گیا۔ اور ۱۹۷۶ء میں جب مکرم رشیدالدین صاحب مرکز واپس آئے تو مکرم عطاء الکریم شاہد صاحب کو یہاں کا امیر و مبلغ انچارج مقرر کیا گیا۔
‏Sanoyea میں سکول کے بننے کے بعد وہاں کے گرد و پیش میں بیعتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
۱۹۷۹ء میں لائبیریا میں افریقی اتحاد کی تنظیم کا اجلاس ہوا۔اس موقع پر جماعت ِ احمدیہ نے شرکاء کو جماعت کا لٹریچر پیش کرنے کے لئے خاص پروگرام مرتب کیا اور مرکز کی ہدایت کے مطا بق غانا سے مکرم عبد الوہاب آدم صاحب بھی لائبیریا تشریف لے گئے۔اس موقع پر سینکڑوں شرکاء تک احمدیت کا پیغام پہنچایا گیا۔ جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے لندن میں واقعہ صلیب کے موضوع پر ایک کانفرنس منعقد کی گئی تھی۔اس موقع پر برٹش کونسل آف چرچز نے جماعتِ احمدیہ کو ایک مذاکرہ کی دعوت دی تھی ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اس دعوت کو قبول فرماتے ہوئے بذریعہ خط انہیں اس بات کی اطلاع بھی کر دی تھی۔ لیکن اس کے بعد چرچ نے مکمل خاموشی اختیار کر لی تھی۔
مارچ ۱۹۷۹ء میں Anglican Church کے سربراہ ڈونالڈ کوجن(Donald Coggan) لائبیریا کے دورہ پر آئے تو مکرم عطا ء الکریم صاحب نے ان سے ملاقات کر کے ان سے تحریری درخواست پیش کی کہ وہ اس مذاکرہ کے انعقاد کے سلسلہ میں ضروری کارروائی کریں گے۔اس بات کی لائبیریا کے اخبارات میں خوب تشہیر ہوئی۔وہاں کے ایک اخبار Scopeنے سرخی لگائی
‏Arch Bishop Gets Unusual Present
۱۹۸۰ء میں مکرم عطاء الکریم صاحب مرکزِ سلسلہ واپس تشریف لائے اور آپ کی جگہ مکرم عبدالشکور صاحب امیر و مشنری انچارج مقرر ہوئے۔
اکتوبر ۱۹۸۱ء میں دو لائبیرین دوست مشنری ٹریننگ کالج غانا سے تعلیم حاصل کر کے واپس وطن پہنچے۔یہ دو دوست مکرم علی ساما صاحب اور مکرم محمود بن بشیر صاحب تھے۔۱۹۸۱ء میں اس ملک میں ہفتہ وارپبلک لیکچرز کا آ غاز کیا گیا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے لائبیریا میں بھی ایک ہسپتال کے قیام کی منظوری عطا فرمائی تھی ۔دو ڈاکٹر اس ملک میں پہنچے بھی مگر رجسٹریشن نہ ہو سکنے کے باعث اور کلینک کی منظوری نہ ملنے کے باعث یہاں پر اس کام کا آ غاز خلافت ِ ثالثہ میں نہ ہو سکا۔
(۱)ریکارڈ وکالت تبشیر
تنزانیہ
ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ مشرقی افریقہ کا مشن تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔موجودہ تنزانیہ اس وقت ٹانگا نیکا کہلاتا تھا۔اس وقت ٹانگا ریجن میں مقامی مبلغ مکرم ابو طالب کام کر رہے تھے۔ ۱۹۶۶ء میں یہاں پر ایک مسجد اور دارالتبلیغ کی بنیاد رکھی گئی ۔ مشنری انچارج مکرم چوہدری عنایت اللہ احمدی صاحب نے اس کا سنگ ِ بنیاد رکھا۔اپریل ۱۹۶۶ء میں اس مسجد اور دارالتبلیغ کی تعمیر مکمل ہو گئی۔ ۱۹۶۵ء میں ایبری (Ibiri)کے مقام پر نئی جماعت قائم ہوئی۔تنزانیہ میں موروگورو کے مقام پرمسجد اور دارالتبلیغ کی بنیاد رکھی گئی۔ مکرم جمیل الرحمن رفیق صاحب نے ۱۹۶۷ء میں تعمیر کے کام کا آ غاز کیا۔۱۹۶۸ء میں مشن ہاؤس اور پھر اگست ۱۹۷۰ء میں مسجد کی تعمیر کا کام مکمل ہوا۔۱۹۶۶ء میں تنزانیہ میں غیر احمدی مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرف سے جماعت کی شدید مخالفت کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ان کی طرف سے جماعت کے خلاف کثیر تعداد میں لٹریچر شائع کیا گیا اور جماعت کے مشن کی طرف سے اس کا جواب شائع کیا گیا۔آخر مخالفت کا زور ٹوٹ گیا۔۱۹۶۶ء کے دوران جماعت کی طرف سے بکوبا ، موانزہ اور اجیجی میں تبلیغی مراکز قائم کئے گئے اور ان میں مبلغین کو مقرر کیا گیا۔
اس ملک کی جماعت کا پہلا جلسہ جسے اس وقت سالانہ کانفرنس کہا جاتا تھا ۱۹۶۱ء میں دارالسلام کے مقام پر ہوا تھا ۔لیکن اس کے بعد یہ سلسلہ معطل ہو گیا ۔مکرم جمیل الرحمن صاحب رفیق نے ۱۹۶۸ء میں امیر جماعت کے طور پر خدمات شروع کیں تو اسی سال دارالسلام کے مقام پر جلسہ کا دوبارہ آغاز کرایا ۔اس کے بعد ہر سال مختلف مقامات یہ جلسہ منعقد ہوتا رہا۔
امبیا (Mbeya) میں ۱۹۷۲ء میں ایک نئی جماعت کا قیام عمل میں آیا۔۱۹۷۲ء میں مکرم مولوی محمد منور صاحب مرکز واپس تشریف لائے۔آپ کے بعد کچھ ماہ کے لئے مکرم عبدالباسط صاحب نے مبلغ انچارج کے فرائض ادا کئے اور پھر مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب نے تنزانیہ کے مبلغ انچارج کی حیثیت سے فرائض ادا کرنے شروع کئے۔ ۱۹۷۲ء میں دارلحکومت دارالسلام کے علاوہ بکوبا ، موروگورو ، ٹبورہ، چومبے اور اروشاکے مقامات پر مبلغین اور معلمین کام کر رہے تھے۔
۱۹۷۵ء میں ایک نیا مشن سونگیا (Songea) کے مقام پر شروع کیا گیا اور یہاں پر ملک رفیق احمد صاحب کو مبلغ مقرر کیا گیا۔یہ ضلع ملاوی اور موزنبیق دونوں ممالک سے ملتا ہے۔ملک رفیق صاحب نے جانفشانی سے وہاں پر کام شروع کیا ۔انفرادی ملاقاتیں شروع کیں اور عیسائیوں سے مباحثات کئے۔احباب ِ جماعت کے وفود کے ساتھ شہر کے مختلف علاقوں میں تبلیغی دورے کئے۔لٹریچر فروخت اور تقسیم کیا گیا ۔جلد ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں پر مخلصین کی ایک جماعت قائم ہو گئی۔ شہر کی حدودمیں ایک قطعہ زمین حاصل کئے گئے جس پر اب مشن ہاؤس اور مسجد تعمیر ہو چکے ہیں۔ ۱۹۷۵ء میں تنزانیہ کے مشنری انچارج مکرم عبد الکریم شرما صاحب کی تقرری نیروبی میں کر دی گئی اور مکرم جمیل الرحمن رفیق صاحب نے تنزانیہ مشن کے انچارج کی حیثیت سے کام شروع کر دیا۔۱۹۷۸ء میں تنزانیہ میں دو مشن ہاؤس تعمیر ہوئے۔
دنیا بھر میں جماعت کی یہ روایت رہی ہے کہ جب بھی اسلام پر کوئی اعتراض کیا گیا ہے احمدیوں نے سب سے پہلے بڑھ کر اس کا جواب دیا ہے۔چنانچہ ۱۹۷۸ء میں جب ایک پادریHP Anglars نے ایک کتاب اولاد ِ ابراہیم کے نام سے لکھی جس میں اسلام اور آنحضرت ﷺ پر بہت گند اچھالا گیا ۔اس کے جواب میں مکرم جمیل الرحمن رفیق صاحب نے Mwana Mkuuwa Ibrahimu لکھ کر شائع کی ۔اس کتاب کی اشاعت کا خرچ ایک غیر احمدی دوست سالم صاحب اور ایک احمدی دوست ابو بکر صاحب نے ادا کیا۔یہ کتاب بہت کثیر تعداد میں فروخت ہوئی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پادری کی لکھی ہوئی کتاب دوکانوں سے اٹھا لی گئی۔بعد میں معلوم ہوا کہ یہ کتاب عیسائی مشنریوں نے کونگو بھجوا دی تھی۔
تنزانیہ کے جنوب میں مکرم مولوی عبدالوہاب صاحب نے نیوالا میں نیا مشن قائم کیا ۔اور یہاں پر آہستہ آہستہ بیعتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک مسجد پہلے سے موجود تھی اور چار نئی مساجد بنائی گئیں اور چار نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔
۱۹۷۹ء کے جلسہ سالانہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا :
’’تنزانیہ میں ایک نئے مشن کا قیام عمل میں آ چکا ہے۔ایک مقامی مبلغ عیسیٰ احمدی وہاں متعین کئے گئے ہیں۔اب وہاں تنزانیہ میں مشنوں کی تعداد دس ہو گئی ہے۔تین نئی مساجد اس سال تعمیر ہوئی ہیں۔‘‘(۱)
تنزانیہ کے مختلف علاقوں میں بھی جب جماعت ِ احمدیہ کا نفوذ شروع ہوتا تو وہاں پر نہ صرف احمدیت کی مخالفت شروع ہو جاتی بلکہ نو احمدیوں پر تشدد کا آغاز بھی کر دیا جاتا۔اس کی ایک مثال ٹاویٹا کی جماعت کی ہے۔یہاں پر احمدیت کا پیغام خلافت ِ ثانیہ میں ہی پہنچ گیا تھا۔یہاں کے ایک باشندے جمعہ علی صاحب نے عبد الکریم شرما صاحب مربی سلسلہ کی وساطت سے بیعت کی۔اور ان کے ساتھ دوسرے احباب نے بھی بیعت کی۔اس کے بعد ان کے آبائی قصبہ میں ان پر مظالم کا سلسلہ شروع کر دیاگیا۔ان کو اور ان کے بچوں کومارا پیٹا گیا۔ان کا بائیکاٹ کیا گیا۔ان کی بیویوں کو زبر دستی ان سے علیحدہ کر دیا گیا۔احمدیوں نے تہیہ کیا کہ وہ اپنی مسجد تعمیر کریں گے۔چنانچہ کیٹوبو (Kitobo) اور کیٹوگو (Kitogho) کے قصبوں میں دو چھوٹی اور کچی مساجد تعمیر کی گئیں۔لیکن مخالفین جب وہاں سے گزرتے تو نماز پڑھنے والے احمدیوں پرپتھر پھینکتے۔خلافتِ ثالثہ کے دوران اس علاقہ کے پہلے احمدی جمعہ علی صاحب نے اپنے صاحبزادے مکرم عبد اللہ حسین جمعہ صاحب کو وقف کر دیا اور انہوں نے ربوہ آ کر دینی تعلیم حاصل کی۔وہ اب کینیا میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔خلافتِ ثالثہ کے دوران کیتوبو(Kitobo) اور ایلڈورو (Eldoro)کے مقامات پرپختہ مساجد تعمیر کی گئیں ۔ابتدا میںاس علاقہ میں مکرم مولانا عیسیٰ صاحب اور مکرم بشیر اختر صاحب نے یہاں کے ریجنل مشنری کی حیثیت سے فرائض انجام دیئے۔
خلافت ِ ثالثہ کے دوران تنزانیہ کے بہت سے دیہات میں بھی چھوٹی چھوٹی مساجد تعمیر ہوئیں۔ ۱۹۷۴ء میںMuhezaاور Machameکے مقام پر ،۱۹۷۵ء میں Iringaکے مقام پر، ۱۹۷۷ء میں Mtama کے مقام پر،۱۹۷۸ء میں Namtumboکے مقام پر،۱۹۷۹ء میں Mahuta اور Newala کے مقامات پر،۱۹۸۰ء میں Ndutumi اور Chikole کے مقامات پر اور۱۹۸۱ء میںMpwahiaاورSongeaکے مقامات پر مساجد تعمیر کی گئیں۔(۲)
(۱) خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء
(۲) تحریری روایت مکرم جمیل الرحمن رفیق صاحب
روانڈا
روانڈا مشرقی افریقہ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے ۔آزادی سے پہلے یہ ملک بیلجیم کے ماتحت تھا۔اور پھر ۱۹۶۲ء تک یہ ملک برونڈی کے ساتھ رہا اور پھرعلیحدہ ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوا۔ ۱۹۷۹ء کے جلسہ سالانہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے روانڈا میں جماعت قائم ہو گئی ہے۔(۱)
(۱) خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء
یوگینڈا
۱۹۶۶ء کے دوران مغربی یوگینڈا کے شہر مساکا(Masaka) میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی۔
خلافتِ ثالثہ کے دوران جماعت ِ احمدیہ یوگینڈا کے دو اہم واقعات لوگینڈا زبا ن میں قرآنِ مجید کے ترجمہ کی اشاعت اور عیدی امین کے زمانے میں جماعت ِ احمدیہ پر لگائی جانے والی پابندی تھی۔ان واقعات کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔جب عیدی امین کے زوال کے بعد جماعت ِ احمدیہ کے افراد نے ایک بار پھر آزادانہ کام شروع کیا تو آہستہ آہستہ جماعتی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔خلافتِ ثالثہ کے دوران یوگینڈا کے متعدد احباب جامعہ احمدیہ ربوہ سے تعلیم حاصل کر کے واپس یوگینڈا آئے اور عملی میدان میں اپنی خدمات کا آغاز کیا۔ان میں سے پہلے مکرم محمد علی کائرے صاحب تھے جنہوں نے ۱۹۷۹ء میں یوگینڈا میں اپنی عملی خدمات کا آ غاز کیا۔اس دور میں جنجہ کی جماعت سب سے بڑی جماعت تھی۔اور جماعتیں زیادہ تر ملک کے جنوبی حصہ میں قائم تھیں۔اور ملک کے دارالحکومت کمپالا میں بھی جماعت کی ایک مسجد مشن ہاؤس،اور سکینڈری سکول قائم تھے۔ملک کے مغرب میں مساکا میں بھی جماعت کا مشن ہاؤس اور مسجد موجود تھے۔خلافتِ ثالثہ کے دوران مکرم صوفی محمد اسحق صاحب ، مکرم چوہدری محمود احمد صاحب، مکرم راجہ نصیر احمد صاحب نے بطور مبلغ خدمات کی توفیق پائی۔
گی آنا
۱۹۶۹ء میں برٹش گی آنا میں ایک مسجد کی تعمیر ہوئی اور دوسری مسجد کے لئے پلاٹ خریدا گیا۔اور ڈچ گی آنا میں اسی سال میں ایک سکول کا اجراء کیا گیا۔(۱)
(۱) خطاب جلسہ سالانہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء
ماریشس
خلافت ِ ثالثہ کے آ غاز میں مکرم مولانا محمد اسماعیل منیر صاحب کو بطور مبلغ ماریشس بھجوایا گیا ان کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا۔
اللہ تعالیٰ نے ماریشس میں انقلاب پیدا کیا۔ہمارے مبلغ اسماعیل منیر جو بڑے مخلص کارکن ہیں لیکن جسمانی لحاظ سے بڑے کمزور ہیں۔چوبیس گھنٹے کام کرنے والے ہیں اور صحیح وقف کی روح ان کے اندر ہے۔ دوست ان کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ابھی وہاں پہنچے نہیں تھے ۔یہاں سے روانہ ہو گئے تھے۔اس وقت مجھے رؤیا میں ایک نظارہ دکھایا گیا اور اس کی صحیح تعبیر اس وقت میرے ذہن میں نہیں آئی تھی۔میرے ذہن میں اس وقت دو تعبیریں آئیں کہ یاتو یوں ہو گایا یہ دوسری شکل اختیار کرے گا۔اگر پہلی تعبیر ہوتی تو اس میں انذار کا پہلو بڑا نمایاں تھا۔اور دوسری تعبیر میں تبشیرکا پہلو نمایاں تھا۔اور اس بات کا پتہ لگنا تھا ان کے وہاں پہنچنے پر کہ اس کی اصل تعبیر کیا ہے۔اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان دنوں میں بہت دعائیں کرتا رہاکہ اللہ تعالیٰ اس رؤیا کے انذاری پہلو سے ہمیں محفوظ رکھے۔ جس وقت وہ وہاں پہنچ گئے تو انذاری پہلو کا واقع ہونا نا ممکن بن گیا۔تب مجھے سمجھ آئی کہ اس رؤیا کی وہی تعبیر صحیح تھی جو تبشیری رنگ اپنے اندر رکھتی ہے۔میں نے انہیں اس وقت لکھ دیا تھا کہ میں نے یہ رؤیا دیکھی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ واقعہ اس طرح ہو گا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے مطابق وہاں کچھ تبدیلیاں کرنی شروع کی ہیں ۔وہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی فعال ہے۔بڑے پیسے خرچ کرتی ہے۔۔خود کفیل ہے۔ان کے اخلاص اور مستعدی کا آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ شاید یہاں بھی لوگ اس کی جرأ ت نہ کر سکیں۔ کنکریٹ یعنی سیمنٹ اور لوہے کی چھت جو ایک خاص قسم کی ہوتی ہے۔اس کے نیچے ایک عارضی چھت بنائی جاتی ہے۔پھر اس کے اوپر سلیب ڈالا جاتا ہے۔ وہاں کے مشن ہاؤس پراس قسم کا چھت وہاں کے احمدیوں نے وقارِ عمل کے ذریعہ سے ڈالا اور مزدوری پر ایک پیسہ بھی ضائع نہیں کیا۔ ‘‘
تریولے میں جماعت کی مرکزی مسجد روز ہل سے ۱۶ میل دور واقع تھی۔یہاں پر ایک اور مسجد کا سنگ ِ بنیاد کافی عرصہ پہلے رکھا گیا تھا لیکن تعمیر نہیں ہوئی تھی۔۱۹۷۱ء میں اس مسجد کی تعمیر دوبارہ شروع ہوئی اور احبابِ جماعت نے وقارِ عمل کے ذریعہ اس کی تعمیر میں حصہ لیا۔(۱)
ماریشس سے مڈغاسکر میں بھی تبلیغی مساعی ہو رہی تھی۔۱۹۷۱ء میں بھی یہاں سے ایک دوست کو مڈغاسکر میں تبلیغ کا جائزہ لینے کے لئے مڈغاسکر روانہ کیا گیا۔۱۹۷۱ء میں ماریشس میں دعوۃ الامیر کا خلاصہ فرنچ میں شائع کیا گیا۔یہاں پر خدام الاحمدیہ کے ٹریننگ کیمپ اور خدام اور لجنہ کے اجلاسات کے ذریعہ بھی احباب ِ جماعت کی تربیت کا کام جاری تھا۔(۲)
۱۹۷۴ء میں جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی قرارداد منظور کی تو ماریشس کے جماعت مخالف عنصر نے بھی کوشش کی کہ اس نا معقولیت میں وہ پاکستان کی پیروی کریں۔ چنانچہ یہاں پر جماعت کے ایک پرانے مخالف عبد الرزاق محمد صاحب تھے ۔ان کے بیٹے ماریشس کی قومی اسمبلی کے ممبر تھے۔ انہوں نے جماعتِ احمدیہ کا مسئلہ زیر بحث لانے کے لئے موشن اسمبلی میں بھیج دیا۔ فوری طور پر جماعت کے ایک وفد نے ملک کے وزیرِ اعظم Sir Sewsagar Ramgolam سے ملاقات کی اور مخالفین کے ارادوں سے آگاہ کیا۔انہوں نے یقین دلایا کہ ایسا نہیں ہو گا کیونکہ ماریشس میں ہر مذہب سے وابستہ افراد کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔وزیر اعظم صاحب نے یوسف محمد صاحب کو طلب کیا اور انہیں کہا کہ وہ یہ موشن واپس لے لیں۔چونکہ مخالفینِ جماعت ایک لمبے تجربے کی بنا پر جانتے ہیں کہ اس قسم کی شرارتوں میں ان کی دال تبھی گلتی ہے جب کہ حکومت ان کے ساتھ ہو اس لئے انہوں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ اپنی موشن واپس لے لیں اور یوں یہ وقتی جوش ختم ہو گیا۔(۳)
خلافت ِ ثالثہ کے دوران جب لندن میں واقعہ صلیب پر کانفرنس ہوئی تو مرکز کی ہدایت کے مطابق ماریشس کے مشن نے ماریشس کے کیتھولک چرچ کو دوستانہ تبادلہ خیالات کی دعوت دی لیکن اس چرچ نے تحریری طور پر معذرت کر لی کہ چونکہ کفارہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے اس لئے ہم اس پر کسی قسم کا تبادلہ خیالات کرنے کو تیار نہیں۔
خلافتِ ثالثہ کے دوران نماز کا فرانسیسی ترجمہ بھی شائع کیا گیا۔اس کے علاوہ اس مشن نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف فتحِ اسلام ،لیکچر سیالکوٹ اور چشمہ مسیحی کے فرانسیسی تراجم شائع کئے گئے۔اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے لیکچر ’’امن کا پیغام ‘‘ کا فرانسیسی ترجمہ بھی شائع کیا گیا۔ ۱۹۸۰ء میںحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی ہدایت کی روشنی میںجماعت ِ احمدیہ ماریشس کو وکالتِ تبشیر کا یہ ارشاد موصول ہوا کہ ’’مسیح و مہدی آگیا ہے ‘‘کے عنوان سے ایک فولڈر تیار کیا جائے ۔ چنانچہ یہ فولڈر تیار کر کے ایک دن میں ہی ۷۵ ہزار کی تعداد میں تقسیم کیا گیا۔تقسیم کرنے والوں کو بعض مقامات پر بدسلوکی کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن یہ کام جاری رکھا گیا۔اسی طرح ماریشس میں پروجیکٹر کے ذریعہ سلائیڈز دکھا کر احمدیت کی تبلیغ کی جاتی تھی۔ماریشس میں تقریباََ ہر گاؤں میں حکومت نے سوشل سینٹر بنائے ہیں ۔ ان میں بھی جماعت ِ احمدیہ کی عالمگیر سرگرمیوں کے بارے میں سلائیڈز دکھائی گئیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒکے دورِ خلافت میں زانچلی(Gently)، کاتغ بورن (Quartreborn) ، پورٹ لائیس (Port Louis) اور تریولے(Trivlet) کے مقامات پر مساجد تعمیر ہوئیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے دورِ خلافت میں ہی روزہل کے قریب تریفلے (Trefle) کے مقام پر ایک ایکڑ زمین خریدی جہاں پر جلسہ سالانہ کا انعقاد ہوتا ہے۔(۳)
(۱)الفضل ۱۱ جولائی ۱۹۷۱ء ص۵(۲) الفضل ۱۹ء ستمبر ۱۹۷۱ء
(۳)تحریری روایت مکرم صدیق احمد منور صاحب سابق مربی انچارج ماریشس۔
کوموروز (Comoros)میں جماعت کا قیام
اس ملک کے باشندوں میں سب سے پہلے احمدی ہونے کا اعزاز مکرم سعید عمر درویش صاحب کو حاصل ہوا۔آپ پیشہ کے لحاظ سے گلوکار اور موسیقار تھے۔وہ اسی سلسلہ میں ماریشس آئے ہوئے تھے۔ ایک دن وہ روزہل میں اپنے ہوٹل کا راستہ بھول گئے۔اور ایک احمدی ٹیلر ماسٹر صاحب کی دوکان پر آگئے۔وہ ان سے بہت اخلاق سے ملے اور انہیں مشن ہاؤس لے آئے ۔یہاں ان کی ملاقات ماریشس میں مبلغِ سلسلہ مکرم صدیق احمد منور صاحب سے ہوئی ۔یوں ان صاحب کو احمدیت سے تعارف حاصل ہوا۔جو بعد میں ان کی بیعت کا باعث بنا۔
پھر اپریل ۱۹۸۰ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی اجازت سے مکرم صدیق منور صاحب اور ماریشس کے ایک مخلص احمدی دوست مکرم یوسف اچھا صاحب ماریشس سے کوموروز کے دارالحکومت مورونی (Moroni) پہنچے اور یہاں پر مختلف لوگوں سے جن میں حکومتی عہد یدار بھی شامل تھے رابطہ کیا۔آپ ملک کے وزیر خارجہ سے ملاقات کے لئے ان کے دفتر میں انتظار کر رہے تھے کہ دو پولیس افسران داخل ہوئے اور کہا کہ ہمیں حکم ہوا ہے کہ فوراََ آپ کو پولیس کمشنر کے دفتر میں لے کر جاؤں۔ کمشنر صاحب کافی درشتگی سے پیش آئے۔اور پوچھا کہ یہاں کس غرض سے آئے ہو۔انہیں بتایا گیا کہ یہاں آنے کی غرض کچھ دوستوں سے ملاقات کرنا تھا۔ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپ نے یہاںپر کوئی لٹریچر بھی تقسیم کیا ہے۔انہیں بتایا گیا کہ کچھ احباب کے کہنے پر انہیں کچھ لٹریچر بھی دیا گیا ہے۔اس پر پولیس کمشنر صاحب نے دراز سے ’’اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘ کے عربی تر جمہ کی ایک کاپی نکالی اور کہا کہ کیا یہ کام کرنے آئے ہو۔یہ کاپی ایک عربی دان مسلمان کو دی گئی تھی ۔پھر انہوں نے دریافت کیا کہ کیا تمہارے پاس اور کتابیں بھی ہیں ۔اس پر انہیں بتایا گیا کہ ہمارے ہوٹل کے کمرے میں اور کتب بھی موجود ہیں۔چنانچہ پولیس ہوٹل میں گئی اور ان تمام کتب کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔ ہوٹل سے جب دوبارہ یہ لوگ دفتر پہنچے تو پولیس کمشنر وہاں پر نہیں تھا۔اور یوں پونا گھنٹہ اس دفتر میں تبلیغ کا موقع مل گیا۔ اس دوران اس دفتر کے لوگ جماعت کی کتب پڑھتے رہے۔پولیس کمشنر صاحب اس وقت ملک کے مفتیِ اعظم سے مشورہ کرنے گئے تھے۔انہوں نے واپس آکر کہا کہ وہ اب جا سکتے ہیں اور وزیر خارجہ سے مل سکتے ہیں ۔جب ان سے دریافت کیا گیا کہ جو کتب ضبط کی گئی ہیں تو انہیں بتایا گیا کہ جب تک مفتی اعظم اس کی منظوری نہ دیں گے یہ کتب واپس نہیں ہو ں گی۔جب وزیر ِ خارجہ سے ملے تو انہوں نے کہا کہ چونکہ یہاں پر تمام مسلمان شافعی ہیں اس لئے حکومت نہیں چاہتی کہ یہاں پر اور کوئی فرقہ جنم لے۔
دورہ کے دوسرے مرحلہ میں یہ وفد Anjouanپہنچے۔یہاں پر ایک غیر احمدی مسلمان نے اپنے ہاں ٹھہرانے پر اصرار کیا۔کوموروز کے پہلے احمدی سعید عمر درویش صاحب بھی یہاں کے رہنے والے تھے انہوں نے مختلف احباب کو اپنے گھر پر بلانا شروع کیا جن کے ساتھ تبلیغی مجالس شروع ہوئیں۔ تبلیغ کے ساتھ احمدی احباب کی تربیت کا کام بھی شروع کیا گیا اور سعید عمر درویش صاحب کو یہاں کی جماعت کا صدر مقرر کیا گیا۔ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ دو پولیس افسر پھر آگئے اور انہیں وزیرِاعظم کی تار دکھائی کہ ماریشس سے آنے والے ان دو مسافروں کو آج دوپہر ان سے ملنے کے لئے Moroni پہنچ جانا چاہئے۔جہاز سے Moroniپہنچ کر سب سے پہلے انہوں نے اپنی سیٹیں ریزرو کرالیں۔ پھر وزیر ِاعظم کے دفتر میں گئے تو چیف آف پروٹو کول نے ان سے ملاقات کی اور ان سے آنے کا مقصد دریافت کیا۔انہیں مختصر جواب دیا گیا اور کہا گیا کہ ہمیں افسوس ہے کہ حکومت کو ہمارے بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے ہمارا مقصد سوائے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے اور کچھ نہیں ہے۔ اور انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ ہم واپسی کی سیٹیں بک کرا چکے ہیں۔اس پر انہوں نے کہا کہ پھر تو کوئی مشکل باقی نہیں رہتی۔جب واپسی پر یہ دونوں احباب ایئر پورٹ پہنچے تو کمشنر پولیس نے ان کو ان کی کتب واپس کیں ۔اور پھر یہ وفد اس قیام کے بعد ماریشس روانہ ہو گیا۔اس دورہ کے دوران بارہ افراد نے جماعت میں شمولیت اختیار کی اور ان کے ساتھ یہاں پر احمدیوں کی تعداد پچاس کے قریب ہو گئی۔
غانا
۱۹۶۶ء میں غانا میں سالٹ پانڈ کے مقام پر مشنری ٹریننگ کالج کھولا گیا۔اور اس میں اب تک مغربی افریقہ کے مختلف ممالک کے طلباء دینی تعلیم پاتے رہے ہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء کو جلسہ کی تقریر میں ارشاد فرمایا :۔
’’اسی طرح وہاں ایک مشنری ٹریننگ کالج بھی کھولا گیا ہے جہاں ہم مبلغین تیار کر رہے ہیں اور اس کالج میں نائیجیریا، غانا، سیرالیون، گیمبیا اور لائبیریا کے طلباء تربیت حاصل کر رہے ہیں۔‘‘
اس کا لج کا منصوبہ تو خلافتِ ثانیہ میں ہی ،صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے دورہ افریقہ کے موقع پر ہی بنا لیا گیا تھا لیکن اس کا اجراء خلافت ِ ثالثہ میں ہوا۔اس کے پہلے پرنسپل کے طور پر مکرم مولانا محمد صدیق شاہد گورداسپوری صاحب کو بھجوایا گیا۔اس کالج کا افتتاح مورخہ ۲۱؍ مارچ ۱۹۶۶ء کو عمل میں آیا۔اس کا افتتاح امیر و مبلغ انچارج مکرم عطاء اللہ کلیم صاحب نے دعا اور طلباء کو نصائح سے کیا۔ ابتدائی طلباء کی تعداد ۱۴ تھی جو مغربی افریقہ کے مختلف ممالک سے آئے تھے۔ابتداء میں مکرم مولانا محمد صدیق گورداسپوری صاحب ہی سارے مضامین پڑھاتے تھے اور ان کے علاوہ مکرم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب بھی طلباء کو پڑھاتے۔پھر مکرم جبریل سعید صاحب بھی اساتذہ میں شامل ہوئے۔ پھر جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ارشاد پر مکرم مولانامحمد صدیق گورداسپوری صاحب سیرالیون بطور امیرومبلغ انچارج تشریف لے گئے تو مکرم عبد الوہاب آدم صاحب نے غانا کے مشنری ٹریننگ کالج کے پرنسپل کے فرائض سنبھالے۔
۱۹۶۶ء کے سال میں ہی غانا میں جماعت کے پانچ پرائمری سکولوں نے کام شروع کیا ۔اس دور میں غانا کی جماعت کا ماہانہ جریدہ دی گائیڈنس باقاعدگی سے شائع ہو رہا تھا۔پھر ۱۹۶۷ء میں غانا میں جماعت کے تین نئے مڈل سکولوں نے کام شروع کیا۔اس اضافہ کے ساتھ غانا میں جماعت کے پرائمری اور مڈل سکولوں کی تعداد انتیس ہو گئی۔
۱۹۷۰ء میں مکرم بشارت احمد بشیر صاحب نے مکرم عطا ء اللہ کلیم صاحب سے غانا کے امیر و مشنری انچارج کا چارج لیا اور مکرم عطا ء اللہ کلیم صاحب مرکز تشریف لے آئے۔مکرم مولونا عطا ء اللہ کلیم صاحب کو ۱۹۵۱ء سے لے کر ۱۹۷۵ء تک مختلف اوقات میں تقریباََ ۱۹ سال تک غانا میں خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا۔جب آپ آخری مرتبہ غانا سے واپس آئے تو مکرم عبدالوہاب آدم صاحب نے آپ سے غانا کے امیر و مشنری انچارج کے فرائض سنبھالے۔
۱۹۷۰ء کی دہائی میں جماعت ِ احمد یہ غانا تبلیغ کے لئے کیا طریقہ کار اپنا رہی تھی،اس کے متعلق مکرم عبدالشکور صاحب جواس وقت غانا میں مبلغ تھے بیان کرتے ہیں کہ غانا میں ہر فرقہ اور مذہب کو تبلیغ کی اجازت تھی اور سلسلہ کے مبلغین تبلیغ کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔غانا میں تبلیغی جلسہ بہت کامیاب رہتے تھے اور ان کے ساتھ سوال و جواب کی مجالس کافی لمبی چلتی تھیں۔غانا میں بہت سے مقامات پر مستحکم جماعتیں قائم تھیں لیکن بہت سے علاقے ایسے تھے کہ جہاں پر احمدی نہ ہونے کے برابر تھے۔مکرم بشارت احمدبشیر صاحب نے ۱۹۷۱ء میں ایسے علاقوں میں خصوصی طور پر شمالی غانا میں تبلیغی وفود بھجوائے اور ایسا پروگرام مرتب کیا کہ یہ وفود بڑے قصبوں میں مختصر قیام کی بجائے پندرہ دن یا مہینہ بھر قیام کرتے۔اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ میں برکت ڈالی اور ایسے بڑے قصبوں میں دس کے قریب نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔۱۹۷۰ء کی دہائی میں دوسرے مغربی افریقہ کے ممالک کی طرف نصرت جہاں کی سکیم پر زور و شور سے کام ہو رہا تھا لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی ہدایت تھی کہ سکولوں اور ہسپتالوں پر توجہ کے باعث تبلیغ میں سستی پیدا نہ ہو۔(۴)
شاہ اشانٹی کے انتقال کے بعد جب نئے شاہِ اشانٹی کی تخت نشینی ہوئی تو اس موقع پر جماعت احمدیہ کے وفد نے ان کی خدمت میں قرآنِ کریم کا تحفہ پیش کیا۔غانا کے مروجہ قوانین کے مطابق بھتیجا جائیداد کا وارث قرار پاتا ہے اور بیوی بیٹیوں کو محروم رہنا پڑتا ہے۔غانا کے احمدی احباب اپنی وصیت میں اسلامی تعلیمات کو ملحوظ ِ نظر رکھتے تھے اور اس پر ان کی وفات کے بعد ان کے کئی غیر از جماعت رشتہ دار ہنگامہ کھڑا کر دیتے تھے۔ ایسی ایک صورت میں غانا کی عدالت نے امیر جماعت ِ احمدیہ کو عدالت میں طلب کیا تاکہ وہ عدالت کو اسلامی نظام وصیت کے خدو خال سے مطلع کریں۔چنانچہ مکرم بشارت احمد صاحب بشیر نے پہلے عدالت کو تحریری طور پر اسلامی نظامِ وصیت کے متعلق ایک تحریر بھجوائی جسے متعلقہ وکلاء میں تقسیم کیا گیا اور پھر آپ نے عدالت میں پیش ہو کر اس موضوع پر خطاب کیا اس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا ۔
جولائی ۱۹۷۱ء تک حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی تحریک کے مطابق غانا میں چار ہسپتال کھل چکے تھے لیکن ان کے قیام میں بعض اوقات با اثر عیسائی احباب کی طرف سے رکاوٹ کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔ان میں کام کرنے والے ڈاکٹر صاحبان نہ صرف کہ علاج سے اہلِ غانا کی خدمت کر رہے تھے بلکہ اپنے مخصوص فرائض کے علاوہ تبلیغی خدمات میں بھی بھرپور حصہ لیتے تھے۔مثلاََ ڈاکٹر غلام احمد صاحب اور ڈاکٹر سید غلام مجتبیٰ صاحب اپنے علاقوں میں سیرت النبی ﷺ کے جلسے منعقد کراتے ۔
اس دور میں غانا میں نصرت جہاں سکیم کے تحت تبلیغ کی مہم جاری تھی ۔۱۹۷۱ء میں چند ماہ کے دوران ۱۶ نئی جماعتوں کا قیام عمل میںآیا۔نو مبایعین کی تربیت کے لئے چار نئے مراکز کھولے گئے۔ اپر رینج میں سوالا(Swala) میں اچھی خاصی جماعت بن گئی۔مسجد کی زمین کے لئے قطعہ زمین حاصل کیا گیا تو پادری حضرات مخالفت پر اتر آئے مگر چیف نے مطلوبہ قطعہ جماعت کو دینے کا فیصلہ کیا۔(۱)
جب بھی کسی ملک میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو ترقی مل رہی ہو تو اس کے ساتھ مساجد کی ضرورت بھی خود بخود بڑھ جاتی ہے۔ مساجد تبلیغ اور تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔چنانچہ جوںجوں غانا میں جماعت کا قدم ترقی کی طرف بڑھ رہا تھا یہاں کی جماعت بڑی ہمت سے مساجد کی تعمیر کی طرف توجہ دے رہی تھی۔چنانچہ صرف ۱۹۷۸ء کے سال کے دوران غانا میں ۱۵ مساجد تعمیر کی گئیں۔ان میں سے تین بڑی مساجد تھیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اس سال کے جلسہ سالانہ میں اس پر اظہار ِ خوشنودی فرمایا اور فرمایا کہ ان میں سے کسی جماعت نے مسجد کی تعمیر کے لئے غانا کے مرکز سے بھی کوئی مدد نہیں لی۔
۱۹۷۷ء میں احمدیہ مسلم سیکنڈری سکول کماسی کی سلور جوبلی منائی گئی۔پاکستان سے اس سکول کے پرانے اساتذہ مکرم صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب اور مکرم پروفیسر سعود احمد خان صاحب نے ان تقریبات میں شرکت کی۔
اب غانا میں ملکی جلسہ سالانہ کی روایت مستحکم ہو چکی تھی۔۱۹۷۶ء میں غانا کا پچاسواں جلسہ سالانہ سالٹ پانڈ میں منعقد کیا گیا۔اس ایک سال کے دوران ہی غانا میں چھ نئی مساجد تعمیر کی گئی تھیں۔(۴)
۱۹۷۷ء میں غانا میں جماعت نے دوسرا پریس ناصر پریس کے نام سے قائم کیا(۲)۔جماعت کا تیار کردہ انگریزی ترجمہ قرآن تو ایک عرصہ سے شائع ہو رہا تھا ۔افریقہ کے بہت سے ممالک میں انگریزی وسیع پیمانے پر بولی پڑھی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس لئے اس ترجمہ کی افریقہ میں بھی بہت مانگ رہتی تھی۔اس ضرورت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے۔غانا مشن نے ۱۹۷۹ء میں غانا میں دس ہزار کی تعداد میں انگریزی ترجمہ قرآن کی اشاعت کی۔
۱۹۸۲ء میں اکرا میں جماعت کے نئے مشن ہاؤس کا افتتاح عمل میں آیا۔(۳)
(۱) الفضل۱۶ جولائی ۱۹۷۱ء ص۳(۲) ریکارڈ وکالت تبشیر(۳) الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۸۲ء ص۱(۴) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا
جلسہ سالانہ ۱۹۷۶ء سے دوسرے روز کا خطاب(۴) تحریری روایت مکرم عبدالشکور صاحب
سوئٹزر لینڈ
سوئٹزر لینڈ میں تبلیغی مساعی میں صرف وہاں کے باشندوں کو ہی تبلیغ نہیں کی جا رہی تھی بلکہ ان احباب کو بھی با قاعدہ تبلیغ کی جا رہی تھی جو مختلف مقامات سے نقل ِ مکانی کر کے یہاں پر آباد ہو گئے تھے۔ان میں عرب ترک اور الجیریا کے احباب بھی شامل تھے۔اور ملک سے باہر بھی یورپ کے مختلف ممالک میں یہاں سے لٹریچر بھجوایا جا رہا تھا۔چنانچہ دو نوجوانوں نے آسٹریا سے لٹریچر طلب کیا اور پھر مطالعہ کے بعد بیعت کر لی۔(۱)
ستمبر ۱۹۷۱ء میں سوئٹزرلینڈ میں ہفتہ تبلیغ منانے کا اہتمام کیا گیا۔سویڈن سے مکرم سیدکمال یوسف صاحب مبلغِ سلسلہ اور مکرم شعیب موسیٰ صاحب بھی اس سعادت میں شامل ہوئے۔اور اس دوران خاص طور پر یوگوسلاویا کے باشندوں میں کامیابی حاصل ہوئی اور چالیس یوگوسلاوین باشندوں نے بیعت کی۔
(۱)الفضل ۲۱ جولائی ۱۹۷۱ء ص۳
انڈونیشیا
انڈونیشیا کی جماعت ان جماعتوں میں سے ہے جو خلافت ِ ثانیہ کے با برکت دور میں اچھی طرح مستحکم ہو گئی تھیں۔خلافت ِ ثالثہ کے دوران بھی اس جماعت کی ترقی کا سفر جاری رہا۔حضور نے ۱۹۶۹ء کے جلسہ سالانہ کے دوران اپنے خطاب میں فرمایا :
’’انڈونیشیا میں تو خدا کے فضل سے اتنی بڑی جماعتیں ہیں کہ وہ آپ کے مقابلے میں کھڑی ہو سکتی ہیں۔اپنی کثرت تعداد اور کثرت ِ ایثار اور قربانی کے لحاظ سے۔وہ بڑی قربانی دینے والی جماعتیں ہیں۔دعاؤں میں مشغول رہنے کی کثرت کے ساتھ بے نفسی کے مظاہروں کی کثرت کے ساتھ ،ہر لحاظ سے آپ کے مقابلے میں ہیں۔‘‘
۱۹۶۹ء میں جماعت ِ احمدیہ انڈونیشیا کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اپنے پیغام میں تحریر فرمایا۔
’’اسلام کی فتح کے دن خدا کے فضل سے قریب ہیں مگر یہ ہم سے ایک عظیم قربانی چاہتے ہیں۔ نفوس کی قربانی ،اموال کی قربانی ،اولاد کی قربانی ،اوقات کی قربانی ،ذاتی مفادات کی قربانی، عادات کی قربانی،اکرام کی قربانی۔پس اسلام کی فتح کے دن کو قریب لانے کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہو اور ہر طرح سرگرمِ عمل ۔سستی اور غفلت چھوڑ دو۔تبلیغ کرو تبلیغ کرو تبلیغ کرو۔اپنی زبان سے ،اپنے عمل سے۔ اپنے اخلاق سے اور اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کر کے۔دعاؤں کے ساتھ ساتھ باہم متفق اور متحد ہو کر اس جہاد میں شریک رہو۔‘‘(۲)
انڈونیشیا میں جلسہ سالانہ وہاں کے احمدیوں کی تربیت کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔۱۹۴۹ء سے یہاں پر جلسہ سالانہ منعقد ہو رہا ہے۔۱۹۷۱ء میں بھی یہ جلسہ تاسک ملایا میں منعقد کیا گیا۔اس موقع پر خدام الاحمدیہ کا ایک اجتماع بھی منعقد کیا گیا اور ایک ہال میں علیحدہ تبلیغی جلسہ بھی منعقد ہوا۔اس تبلیغی جلسہ میں ہی دو ہزار کے قریب احباب نے شرکت کی۔(۱)
انڈونیشیا میں بھی مخالفین اخلاق سے گری ہوئی حرکات کے ذریعہ جماعت کی پر امن سرگرمیوں کو روکنے کی کوششیں کرتے رہتے تھے۔چنانچہ جب ۱۹۷۸ء میں جماعت کی طرف سے ایک تربیتی کلاس کا اہتمام کیا گیا۔یہ کلاس ایک گاؤں گسلادا (Gislada)میں منعقد کی جا رہی تھی ۔یہ چھوٹا سا گاؤں سارا احمدی تھا۔مخالفین کو جب اس کی خبر ہوئی تو بعض غیر احمدیوں نے تو تعاون کیا اور کچھ مخالفین نے بائیکاٹ کی مہم چلائی اور جس سڑک سے احمدیوں نے آنا تھا اس پر کیلیں اور دوسری تکلیف دہ اشیاء ڈال دیں۔
انڈونیشیا کی جماعت اشاعت لٹریچر سے بھی تبلیغ کا کام وسیع پیمانے پر کر رہی تھی۔چنانچہ مجلسِ عاملہ خدام الاحمدیہ کے تیار کردہ منصوبہ کے تحت۱۹۷۸ء میں کتاب ’’احمدیت کیا ہے اور اس کا ماننا کیوں ضروری ہے اور انڈونیشیا کی جماعت کے جریدے سینار اسلام کو وسیع پیمانے پر شائع کیا گیا۔ ۱۹۷۸ء میں سراویلا اور مشرقی جاوا میں گریسک(Gresik) کے مقام پر جماعتیں قائم ہوئیں اور اسی سال جزیرہ مادورہ (Madura)میں نیا مشن کھولا گیا۔
۱۹۷۹ء میں ایک مخلص احمدی خاتون مکرمہ ایبو درمہ صاحبہ نے بانڈونگ شہر میں ایک قطعہ زمین اس غرض کے لئے جماعت کوہبہ کیا کہ اس پر ایک مسجد تعمیر کی جائے۔اور پھر اپنے خرچ پر یہ مسجد تعمیر بھی کرائی۔اور دفاتر کی تعمیر کے لئے زمین کا عطیہ بھی دیا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ۱۹۷۸ء کے جلسہ سالانہ میں اعلان فرمایا کہ اس سال انڈونیشیا میں تین مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور اسی سال انڈونیشیا میں ایک مشن ہاؤس کی تعمیر بھی ہوئی۔اسی طرح ۱۹۷۹ء میں جماعت نے شہر کونیگانKuningan میں کتابوں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا جس سے ہزاروں افراد نے فائدہ اُ ٹھایا۔(۳)
انڈونیشیا میں جماعتِ احمدیہ کی طرف سے باقاعدگی سے مختلف مقامات پر سیرت النبیؐ کے جلسے منعقد کئے جاتے ۔ان تقاریب میں غیر از جماعت احباب بھی شرکت کرتے۔(۴)
۱۹۸۱ء میں مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیلِ اعلیٰ و وکیل التبشیر نے انڈونیشیا کا دورہ فرمایا۔
۱۹۸۲ء میں جماعت ِ احمدیہ انڈونیشیا کے ایک مخلص کارکن اور قادیان آکر دینی تعلیم حاصل کرنے والے ابتدائی انڈونیشین مکرم عبد الواحد صاحب انتقال کر گئے۔آپ کے انتقال سے قبل آپ کے صاحبزادے مکرم عبد الباسط صاحب مبلغ بن کر اپنی خدمات کا آ غاز کر چکے تھے۔(۵)
اس دور میں انڈونیشیا میں ۱۵۰ جماعتیں قائم تھیں اور ۱۲۷ مساجد موجود تھیں۔اور اس ملک میں سات مرکزی مبلغ ،آٹھ مقامی مبلغین اور بارہ معلمین اور ۷۶ اساتذہ کام کر رہے تھے۔اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ِ احمدیہ انڈونیشیا نے جاپان میں ایک مرکز کا خرچ بھی اُٹھایا تھا۔اسی طرح بانڈونگ شہر میں ایک مقامی احمدی عورت نے ایک بڑی مسجد تعمیر کروائی تھی۔اور مانسلور نامی گاؤںمیں جلسہ سالانہ کے لئے ایک بڑا ہال تعمیر کیا گیاتھا۔
خلافتِ ثالثہ کے دوران جو مختلف مبلغین انڈونیشیا تشریف لے گئے انہیںتحریر کے ذریعہ بھی اس جہاد میں حصہ لینے کی توفیق ملتی رہی۔مکرم محمود احمد چیمہ صاحب کو خلافت ِ ثالثہ کے دوران ۱۹۶۹ء کے بعد انڈونیشیا میں کام کرنے کی توفیق ملی۔آپ نے چھوٹے کتابچوں اور کتب کی صورت میں لٹریچر تحریرکیا۔ان کی تعداد ۱۳ تھی۔ان میں تین مسائل وفاتِ مسیح،ختمِ نبوت،صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام،امام مہدی کے آنے کی خوشخبری،حضرت مرزا غلام احمد امام مہدی علیہ السلام کے معجزات، سیرت امام مہدی علیہ السلام ،سوانح حیات حضرت خلیفۃ المسیح الا ول رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سوانح حیات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سوانح حیات حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ شامل ہیں۔(۷)
(۱) الفضل ۸ اکتوبر ۱۹۷۱ء ص۳و۴
(۲) تحریک ِ جدید جنوری ۱۹۶۹ء ص۸
(۳) الفضل ۸ اگست ۱۹۷۹ء ص۶(۴)
الفضل ۱۴ جون ۱۹۷۹ء ص۳
(۵)الفضل ۱۸ ؍اپریل ۱۹۸۲ء ص۵
(۶) تقریر جلسہ سالانہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء
(۷) تحریری روایت مکرم محمود احمد چیمہ صاحب
ملائیشیا
ملائیشیا میں سبا میں جماعت کا مشن کام کر رہا تھا اور مولوی بشارت احمد امروہی صاحب اس کے انچارج کے طور پر کام کر رہے تھے۔یہاں پر انفرادی ملاقاتوں اور روابط کے ذریعہ تبلیغ کا کام جاری تھا۔ اور ملک کی لائبریریوں کو باقاعدگی سے ریویو آف ریلیجنز بھجوایا جاتا۔
سوڈان
سوڈان مین باقاعدہ مشن قائم کرنے کی اجازت تو نہیں ہے لیکن سوڈان میں احمدیت کا پیغام خلافتِ ثانیہ میں ہی پہنچ گیا تھا۔اس وقت سوڈان بھی بلادِ غربیہ کے مبلغ کے ماتحت تھا۔جب مولانا جلال الدین شمس صاحب مصر اور فلسطین کے مبلغ انچارج تھے تو ایک سوڈانی عالم محمد عثمان صاحب مصر تشریف لائے اور شمس صاحب سے تبادلہ خیالات کے بعد انہوں نے احمدیت قبول کر لی۔واپس جا کر انہوں نے وہاں پر احمدیت کی تبلیغ بھی کی۔متحدہ ہندوستان سے بھی کچھ لوگ بسلسلہ روزگار سوڈان پہنچے اور وہ بھی زبانی اور لٹریچر کے ذریعہ تبلیغ کرتے رہے۔
سوڈان میں مشن کھولنے اور باہر سے وہاں پر مبلغ بھجوانے کی راہ میں تو بہت سی رکاوٹیں حائل تھیں لیکن ایک سوڈانی ابراہیم عباس فضل اللہ حصولِ تعلیم کے لئے ربوہ تشریف لائے۔آپ ۱۹۴۱ء میں خود احمدی ہوئے تھے۔ربوہ میں تین سالہ کورس مکمل کر کے ۱۹۵۳ء میں واپس سوڈان تشریف لے گئے اور حسبِ توفیق تبلیغ کا کام شروع کیا لیکن عمر نے وفا نہیں کی اور جلد ہی آپ کی وفات ہو گئی۔اسی طرح دسمبر ۱۹۵۰ء میں سوڈان سے ایک اور طالب علم رضوان عبداللہ دینی تعلیم کے حصول کے لئے ربوہ آئے لیکن دریائے چناب میں نہاتے ہوئے ڈوب کر آپ کا انتقال ہو گیا۔اور آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے خصوصی ارشاد پر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن کیا گیا۔
بیسویں صدی کے پہلے نصف میںجنوبی سوڈان میں عیسائیت کا پرچار پورے زور و شور سے جاری تھا۔اور انگریزوں کی عملداری میں اس حصہ میں مسلمان علماء کا داخلہ بھی بند تھا۔جب مولانا نذیر احمد مبشر صاحب مبلغ سیرالیون سوڈان گئے تو وہاں پر ایسے نمایاں مسلمانوں نے جو افریقہ کے دوسرے ممالک میں عیسائیت کے مقابلہ میں جماعت ِ احمدیہ کی خدمات دیکھ چکے تھے ا نہیں ملے اور اس بات کا اظہار کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں یہ پیغام بھجوایا جائے کہ حضور سوڈان کی طرف بھی اپنے مبلغین بھجوائیں۔اور مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر نے بھی اس رپورٹ کے ساتھ ایک دردبھری اپیل احمدیوں کو کی کہ وہ اپنی اولادوں اور جائیدادوں کو وقف کریں تاکہ تبلیغ کا کام بغیر کسی روک کے آگے بڑھتا رہے۔
اسی دور میں ایک سوڈانی احمدی دوست مکرم محمد عثمان سنی صاحب بھی سوڈان میں اپنے طور پر تبلیغی کاوشوں میں مصروف تھے۔اور ان کے دائرہ تبلیغ میں سوڈان کی دینی مدارس کے طلباء اور اساتذہ بھی شامل تھے جو ان سے سلسلہ کی کتابیں لے کر مطالعہ کرتے تھے۔(۱تا۳)
(۱) الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۳۰ء
(۲) الفضل ۱۶ اکتوبر ۱۹۳۰ء ص۲
(۳) الفضل ۲۶ ؍اپریل ۱۹۴۵ء ص۴و۵
امریکہ
۱۹۶۹ء میںامریکہ میں جماعتی ضروریات کے لئے تحریک ِ جدید نے ایک پریس خریدا۔
۱۹۷۰ء کی دہائی کے آ غاز پر جماعت کے مبلغین مختلف جگہوں پر چرچوں اورتعلیمی اداروں میں جا کر لیکچر دیتے جو یہاں پر جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کا ایک اہم حصہ تھا۔یہاں پر چھوٹے اشتہار اور پمفلٹ چھپو ا کر وسیع تعداد میں تقسیم کئے گئے۔(۲)
امریکہ میں سالانہ جلسہ کو وسیع پیمانے پر تبلیغ کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔چنانچہ ۱۹۷۱ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر جو واشنگٹن میں منعقد ہوا ،کے موقع پر ایک منظم مہم کی صورت میں چالیس ہزار افراد کو تبلیغی فولڈر تقسیم کئے۔(۱)
امریکہ کے لوگوں کو حقیقی اسلام سے روشناس کرانے کے لئے جس وسیع پیمانے پر لٹریچر کی ضرورت ہے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۱۹۷۶ء کے جلسہ سالانہ کے دوسرے روز کے خطاب میں فرمایا:۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح درد صاحب مرحوم نے لکھی ہے غالباً ۱۹۰۴ء تک کی ہے، کچھ حصہ رہ گیا ہے۔امریکہ والوں نے شور مچایا ہوا تھا اور کہتے تھے اسکو مکمل کر کے ہمیں دیں۔ بڑی عجیب کتاب ہے۔وہ داستانِ حیات ،وہ فدائیت کے واقعات ۔ایک ایک لحظہ خدا کی یاد میں اور محمد ﷺ کے عشق میں جس نے گزارا ہے۔اس کی زندگی کے حالات امریکنوں پر بھی اثر انداز ہیں،اس گندے ماحول میں پرورش یافتہ لوگوں پر بھی۔ پس یہ ان کا مطالبہ ہے۔بچوں کے متعلق میں نے خطبہ میں اعلان کیا تھا کہ میرا اندازہ ہے کہ ہمیں ایک ہزار کتاب امریکہ اور یورپ کے بچوں کے لئے تیار کرنی پڑے گی۔انکی اپنی اپنی عمر کے لحاظ سے ۔چھوٹی عمر پھر بڑی عمر پھر بڑی عمر ۔تاکہ ان کو پتہ تو لگے اسلام کہتا کیا ہے۔ اسلام کی تعلیم کیا ہے۔انکو پتہ تو لگے خدا تعالیٰ کی ہستی کتنی عظیم اور جلالت ِ شان والی ہے اور انکو پتہ تو لگے جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کی چودہ سو سال سے آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک ۔انہوں نے پھر اس معرفت کے بعد کس طرح خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی ہر چیز قربان کر دی۔‘‘
(۱)الفضل ۲۱ اکتوبر ۱۹۷۱ء ص۴
(۲) الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۷۰ء ص۵
ہالینڈ
۱۹۷۰ء کی دہائی کے آغاز پر ہالینڈ کے مشن کے انچارج مکرم عبد الحکیم اکمل صاحب تھے۔اس دور میں مشن ہاؤس میں غیر مسلم سکالرز کے لیکچر بار بار کروائے گئے ۔جس کی وجہ سے آنے والے احباب کو جماعت سے تعارف حاصل ہوتا اورجماعت کے مبلغ ان کو تبلیغ بھی کرتے(۱)۔اس کے علاوہ مکرم عبد الحکیم صاحب نے متعدد لیکچر دیئے۔ان میں سے بعض لیکچر گرجاؤں،سکولوں اور سوسائٹیوں میں دیئے گئے تھے۔اور متعدد افراد وفد کی صورت میں مشن ہاؤس آتے اور ان کو تبلیغ کی جاتی۔جب غیروں سے مقابلہ ہوتا تو غیر احمدی مسلمان بھی احمدی مبلغ سے رابطہ کرنا پسند کرتے۔ایک بار بہائیوں نے بین المذاہب کانفرنس منعقد کی۔ایک ترک امام صاحب کو بھی مدعو کیا گیا لیکن انہوں نے موقع کی نزاکت کے اعتبار سے جماعت کے مبلغ کو فون کیا کہ آپ اس کانفرنس میں ضرور ہوں ورنہ اگر اسلام کی طرف سے مناسب رنگ میں نمائندگی نہ ہوئی تو بہت خفت ہو گی۔چنانچہ اس کانفرنس میں مسلمانوں کی نمائندگی جماعت ِ احمدیہ کے مبلغ کو سونپی گئی ۔اللہ تعالیٰ نے ایسی راہنمائی فرمائی کہ انہوں نے دورانِ گفتگو بہائی حضرات سے دریافت کیا کہ آپ میں سے کسی نے خود اپنے مذہب کے بانی کی کتاب القدس پڑھی یا دیکھی ہے تو ان میں سے صرف ایک نے کہا کہ میں نے اس کا ایک غیر مستند ترجمہ پڑھا ہے۔جب دریافت کیا گیا کہ کیا اس کا کوئی مستند ترجمہ بھی ہے تو وہ بولے کہ ابھی تک تو نہیں ہوا۔جب پوچھا کہ کیا آپ کے پاس القدس کتاب موجود بھی ہے تو بہائی حضرات نے اس کا جواب بھی نفی میں دیا۔اس پر مکرم عبدالحکیم اکمل صاحب نے انہیں مولوی ابو العطاء صاحب کا کیا ہوا ترجمہ دکھا کر کہا کہ کیا وجہ ہے کہ اتنی سی کتاب کا ترجمہ اتنے سالوں میں نہیں ہو سکا۔آپ کو چاہئے کہ اپنے منتظمین سے اس کتاب کا مطالبہ کریں لیکن میں یہ بتا دیتا ہوں کہ آپ کو یہ کتاب نہیں ملے گی کیونکہ اس کے پڑھنے ہی سے آپ کو اس مذہب کے بانی کے صحیح خیالات کا پتہ چلے گا۔اس گفتگو کا حاضرین پر ایک خاص اثر ہوا۔واپسی پر ترک امام صاحب نے اور ان کے ساتھیوں نے بڑے جوش سے انہیں کہا کہ آپ نے ہماری عزت رکھ لی ہے۔(۲)
ہالینڈ میں باقاعدگی کے ساتھ بچوں کی کلاس کا اہتمام کیا جاتا اور اس کلاس میں بعض غیر از جماعت بچے بھی شامل ہوتے۔لٹریچر کے لئے مختلف ممالک سے خطوط موصول ہوتے جنہیں حسب خواہش لٹریچر بھجوایا جاتا۔یہاں پر آئے ہوئے ترک مراکشی اور ایرانی مسلمان جماعت کے مشن سے رابطہ کرتے ۔ان میں سے بعض نے بیعت بھی کی۔(۳)
(۱) الفضل ۲۹؍ اکتوبر ۱۹۷۰ء ص۳و۴
(۲) الفضل ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۷۰ء ص۳و۴
(۳)الفضل ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۷۰ء ص۳و۴
سکاٹ لینڈ
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء کی جلسہ سالانہ کی تقریر میں ارشاد فرمایا:۔
’’ سکاٹ لینڈ میں نیا مشن کھولا گیا ہے جہاں بشیر احمد آرچرڈ صاحب کام کر رہے ہیں۔ یہ بڑے مخلص انگریز واقفِ زندگی ہیں کہ یہاں کے لوگوں کو بھی ان پر رشک آتا ہے۔ بڑے ہی فدائی ۔بڑے ہی قربانی دینے والے اور ایثار پیشہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر احمدیت اور اسلام کی خدمت کرنے والے نوجوان ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان کے ساتھ ہو۔‘‘
جماعت ِ احمدیہ گلاسکو کا باقاعدہ آغاز ۱۹۶۳ء یا ۱۹۶۴ء میں ہوا جب مکرم منور احمد صاحب جماعت کے صدر مقرر کئے گئے۔۱۹۶۴ء میں مکرم ایوب احمد خان صاحب یہاں کے صدر جماعت مقرر ہوئے۔اور انہوں نے اپنا ایک فلیٹ جماعتی ضروریات کے لئے استعمال کرنے کے لئے دیا۔ اسی فلیٹ میں احباب ِ جماعت جمعہ اور عیدین پڑھتے رہے اور یہیں پر اجلاسات منعقد ہوتے رہے۔ مکرم بشیر احمد آرچرڈ صاحب ۱۹۶۶ء میں سکاٹ لینڈ میں مبلغ مقرر ہوئے تو آپ کا قیام بھی اسی فلیٹ میں تھا۔ مکرم بشیر احمد آرچرڈ صاحب نے ۱۹۸۳ء تک یہاں پر بطور مبلغ خدمات سرنجام دیں۔۱۹۶۷ء کے دورہ کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اسی فلیٹ میں تشریف لائے اور اور اس دورہ کے دوران جماعت کو اپنا فلیٹ خریدنے کا ارشاد بھی فرمایا۔ اس کے چند سال کے بعد حضرت چوہدری ظفراللہ خان ساحب نے ایک فلیٹ خرید کر جماعت کو پیش کیا اور پھر یہ فلیٹ جماعتی مرکز کے طور پر استعمال ہونے لگا۔
سپین
سپین میں خلافت ِ ثالثہ کے دوران بھی مکرم کرم الٰہی ظفر صاحب خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ۱۹۶۹ء کے جلسہ کے خطاب میں آپ کی خدمات کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ارشاد فرمایا:۔
’’ابھی مجھے چند ہفتے ہوئے سپین کے مبلغ کا خط آیا۔وہاں ہمارے مبلغ کی یہ حالت ہے کہ جماعت کی طرف سے اسے کوئی گزارہ نہیں ملتا۔اسکے ساتھ معاہدہ ہی یہی ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے انتہائی قربانی کرنے والے کچھ نوجوان نکالے تھے۔اور ان سے کہا تھا کہ ہم تمہیں ایک دھیلا نہیں دیں گے۔جاؤ،کماؤ اور تبلیغ کرو۔وہ اس قسم کے مبلغین میں سے ہیں۔یہ شخص دن کے وقت ایک عام بازار کی نکڑ پر کھڑا ہو کر چھابڑی میں عطر بیچتا ہے۔ایک دنیا دار کی نگاہ میںایک چھابڑی فروش سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہونی چاہئے۔جس طرح اور لاکھوں کروڑوں چھابڑی فروش دنیا کی گلیوں میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں اس طرح ظاہری طور پر یہ بھی ہیں۔لیکن اس کے چہرے پر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ اس قسم کا عزت و احترام کاغلاف چڑھایا ہے کہ جنرل فرانکو کے ساتھیوں میں سے ایک شخص ان کو ملنے کے لئے آیا اور اس نے اپنی پارٹی۔۔۔ کے بلیٹن میں ایک مضمون لکھا اور اس نے بڑی اچھی باتیں لکھیں ۔علاوہ اور باتوں کے اس نے ایک بات یہ لکھی کہ اس مادی دنیا میں کہ انسان اپنے منہ تک مادیت کے گند میںپھنسا ہوا ہے۔لیکن ایک ایسے راہب انسان سے ملنا میرے لئے بڑی عزت افزائی کا موجب ہے۔۔۔۔۔ اس قسم کے متقی پرہیز گار بے نفس دعاؤں میں مشغول رہنے والے اور مادی قوتوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جانے والے خدا کا نام بلند کرنے اور محمدﷺ کی محبت دلوں میں پیدا کرنے والے ہمیں جاپان میں اس قسم کے مبلغ چاہئیں۔‘‘(۱)
سپین میں تبلیغ کے لئے ایک اہم ضرورت یہ تھی کہ سپینش زبان میںاسلامی لٹریچر مہیا کیا جائے۔ چنانچہ اس غرض کے لئے منظم انداز میں کام کیا جا رہا تھا۔چنانچہ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء کے جلسہ سالانہ کی تقریر میں حضور نے ارشاد فرمایا۔
’’اسلامی اصول کی فلاسفی اسپینش زبان میں پہلی دفعہ زیر ِ طبع ہے انشاء اللہ دو ہزار کی تعداد میں شائع ہو جائے گی۔اسی طرح ’’کشتیِ نوح‘‘ ’’مسیح ہندوستان میں‘‘ بھی سپینش زبان میں زیرِ طبع ہیں۔حضرت مصلح موعودؓ کی کتب میں سے ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘کو تحریک ِ جدید نے ساتویں مرتبہ شائع کیا ہے۔’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ اسپینش زبان میں دو ہزار کی تعداد میں ۔۔۔۔شائع کیا ہے۔‘‘
(۱) خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء
سنگا پور
جب ۱۹۷۰ء کی دہائی کا آ غاز ہوا تو سنگاپور میں مکرم محمد عثمان چینی صاحب بطور مبلغ کام کر رہے تھے۔ آپ ۱۹۶۶ء سے اس ملک میں کام کر رہے تھے اور آپ نے وہاں پر فروری۱۹۷۰ء تک کام کیا۔ اس قیام کے دوران آپ نے کچھ ماہ کے لئے ملائیشیا میں بھی کام کیا۔سنگاپور میں لوگوں کو بالعموم مذہب کی طرف کم توجہ ہوتی ہے اور یہ چیز بھی تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ تھی۔یہاں پر مشن کی طرف سے چینی اور انگریزی میں لٹریچر تقسیم کیا گیا۔اس میں اسلامی اصول کی فلاسفی کا چینی ترجمہ بھی شامل تھا۔ اور اس کے علاوہ عثمان چینی صاحب نے احمدیت کے تعارف پر چینی زبان میں کتاب لکھی جو پانچ ہزار کی تعداد میں تقسیم کی گئی۔مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے ملائی زبان میں تین کتابیں لکھی تھیں جو سنگاپور ملائیشیا اور انڈونیشیا میں تقسیم کی گئیں۔یہاں پر مسلمانوں کی بہبود کے لئے ایک تنظیم قائم تھی اور اس کے صدر مکرم ابراہیم ما صاحب تھے۔وہ جماعت ِ احمدیہ کی برملا تعریف کرتے تھے اور دوسروں کو بھی تلقین کرتے تھے کہ وہ تبلیغی مساعی میں جماعت ِ احمدیہ سے تعاون کریں۔تحقیق کے بعد یہ صاحب وفاتِ مسیح کے قائل بھی ہو گئے تھے اور اپنے مضامین میں اس کا برملا اظہار بھی کر دیا تھا۔(۱)
(۱) الفضل ۲۶ ستمبر ۱۹۷۰ء ص۵
سری لنکا
ایک عرصہ سے سری لنکا میں مرکزی نمائندہ موجود نہیں تھا۔جس کی وجہ سے جماعت کے کئی افراد میں کچھ کمزوریوں کے آثار پیدا ہو گئے تھے۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ارشاد پر وکیلِ اعلیٰ و وکیل التبشیر تحریک جدید مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے ۱۹۷۳ء میں یہاں کا دورہ کیا ۔ مکرم مسعود احمدجہلمی صاحب آپ کے ہمراہ تھے۔اس دورہ کے ساتھ جماعت احمدیہ سری لنکا کی از سرِ نو شیرازہ بندی ہوئی۔سری لنکا میں دو بڑی جماعتیں تھیں ایک تو دارالحکومت کولمبو کی جماعت تھی اور دوسری کولمبو کے ایئر پورٹ کے قریب واقعہ نیگومبو کی جماعت تھی۔اس دورہ کے دوران ان جماعتوں میں ذیلی تنظیموں کے انتخابات کرائے گئے۔(۱)
مکرم عبد القادر صاحب نے ۱۹۷۳ء تک جماعت ِ احمدیہ سری لنکا کے پریذیڈنٹ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ان کے بعد مکرم ایم حسن صاحب نے یہ فرائض ادا کرنے شروع کئے۔۱۹۷۴ء میں نامبولاوا پاسیالاNambulawa Pasyala میں ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کی گئی۔اس کی زمین ایک احمدی نے عطیہ کے طور پر دی تھی۔
مکرم قریشی عبدالرحمن صاحب نے دوسری مرتبہ اگست ۱۹۷۶ء سے لے کر مارچ ۱۹۷۷ء تک سری لنکا میں بطور مبلغ خدمات کی توفیق پائی۔مکرم مولوی محمد عمر صاحب نے ۱۹۷۸ء میں تین ماہ کے لئے یہاں پر خدمات کی توفیق پائی۔ان کی آمد کے بعد جماعت ِ احمدیہ سری لنکا کا جلسہ سالانہ بھی منعقد ہوا۔جب اس کی خبر اخبار میں چھپی تو فوراََ مخالفین میں اشتعال پھیلنا شروع ہو گیا۔سب ایک بار پھر سر جوڑ کے بیٹھے کہ کس طرح احمدیت کو ختم کیا جائے۔چنانچہ ایک جلسہ کا اہتمام کیا گیا ۔یہ جلسہ نیگومبو میں جماعت کی مسجد کے سامنے منعقد کیا گیا ۔پروگرام یہ تھا کہ جلسہ کے بعد ہجوم جماعت کی مسجد پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لے گا۔جلسہ میں سری لنکا کے ایک مسلمان وزیر صاحب ،رابطہ عالمِ اسلامی کے نمائندے اور سری لنکا سے باہر سے آئے ہوئے مخالفین بھی شامل تھے۔احمدیوں کے خلاف شدید اشتعال پھیلایا گیا تھا۔احمدیوں کی جانوں کو شدید خطرہ تھا۔چنانچہ وہ اپنے گھروں سے ایک محفوظ مقام پر منتقل ہو گئے تھے۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جب جلسہ شروع ہوا تو شدید بارش شروع ہو گئی۔اور جلسہ درہم برہم ہو گیا۔اسی رات کو احمدیوں کے بعض مکانوں کو آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔لیکن ہمسایوں اور پولیس کی مداخلت کی وجہ سے یہ منصوبہ بھی کامیاب نہ ہو سکا۔
اسی طرح ایک روز رات کو ایک بجے غیر احمدیوں کی بڑی مسجد میں اذان دی گئی اور ایک ہجوم جمع ہو کر احمدیوں کی مسجد کی طرف بڑھنے لگا۔احمدیوں کی مسجد یہاں سے قریب ہی ہے۔ لیکن ابھی مفسدین کا یہ گروہ جماعت کی مسجد کے قریب نہیں پہنچ پایا تھا کہ پولیس کا ایک دستہ وہاں سے گزرا اور انہوں نے صورت ِ حال کو بھانپ کر کہا کہ اگر یہ گروہ منتشر نہ ہوا تو وہ فائر کھول دیں گے۔یہ سن کر اس ہجوم کا جذبہ جہاد سرد ہوا اور وہ منتشر ہو گئے۔
مکرم محمدسعید انصاری صاحب نے ۱۹۸۰ء میں چھ ماہ کے لئے سری لنکا میں خدمات سرانجام دیں۔اس وقت یہاں پر کولمبو اور نیگمبو کے علاوہ پولا نروا، پسیالا اورپتلم میں جماعتیں قائم تھیں۔یہاں پر ایک مختصر جماعت قائم تھی ۔سری لنکا میں اس وقت احمدیوں کی تعداد دو سو اور تین سو کے درمیان تھی۔
۱۹۷۸ء کے جلسہ سالانہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا۔
’’سری لنکا میں۱۹۲۰ء میں اس وقت کے حالات اور جماعت کی تعداد کے لحاظ سے ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر ہوئی تھی۔اب اسکی جگہ جماعت بڑی ہو گئی حالات بہتر ہو گئے۔تین منزلہ عمارت تعمیر کی گئی ہے۔اور اسمیں ایک منزل غالباََ پوری ایک مسجد کی ہو گی۔اور اس کے علاوہ دارالمطالعہ اور لائبیریری کا قیام بھی عمل میں آیا ہے۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ارشاد پر جنوبی ہندوستان کے مولوی محمد عمر صاحب ہر سال سری لنکا کا دورہ کرتے ۔اور ان کے دوروں سے اس جماعت کو بہت فائدہ پہنچا۔
۱۹۷۹ء میں سری لنکا کی جماعت کے دوسرے سالانہ جلسہ کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اپنے پیغام میں فرمایا
’’۔۔۔۔ایسے وقت میں ایسے استادوں کی ضرورت ہو گی جو یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا کے تحت افواج کی صورت میں نئے داخل ہونے والوں کودین کی تعلیم دے سکیں اور ان کے دلوں میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی تعلیم کی حقیقی روح پیدا کر سکیں۔اور ایسے استاد اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی جب تک ہم قرآنی علوم و معارف سے بہرہ ور نہ ہو ں۔اور اس زمانہ میں قرآنی علوم اور معارف سیکھنے کا ایک ہی ذریعہ اور وہ یہ کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کریں۔۔۔۔‘‘(۲)
۱۹۷۹ء میں نیگومبو جماعت کے صدر عشاء کی نماز پڑھ کر واپس جا رہے تھے کہ مخالفین کے ایک گروہ نے ان پر حملہ کر کے انہیں شہید کر دیا۔سری لنکا کی زمین پر یہ پہلے شہید تھے۔قاتلوں پر مقدمہ چلا پر تمام مجرمین بری کر دیئے گئے ۔دنیا کی عدالت سے تو بچ گئے مگر خدا کی گرفت نے انہیں اپنی پکڑ میں لیا۔
(۱) تحریک ِ جدید جولائی ۱۹۷۳ء ص۵ تا۱۰
(۲)تحریک جدید دسمبر ۱۹۷۹ء ص۷
سویڈن
سویڈن میں کچھ یوگو سلاوین احمدی احباب بھی تھے جو کہ ایک مرتبہ ناراض ہو گئے اور ابتلاء میں آکر مشن میں آنا بند کر دیا۔ خلافتِ ثالثہ کے دوران سویڈن میں جن مبلغینِ کو خدمت کا موقع ملا ،ان میں مکرم منیرالدین احمد صاحب بھی تھے۔جب وہ جانے سے قبل حضرت خلیفۃ المسیح الثالث سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ وہاں جا کر ان یوگوسلاوین احباب کو واپس لانا ہے۔ چنانچہ جب منیرالدین احمد صاحب سویڈن پہنچے تو انہوں نے ان میں سے ایک شعیب صاحب کو فون کیا کہ میں حضور کا پیغام لے کر آیا ہوں اور آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ میں خود آکر آپ سے ملوں گا لیکن پھر وہ نہ آئے۔ناراضگی کی وجہ سے وہ مشن ہاؤس میں آتے ہوئے ہچکچاتے تھے۔اس دوران منیرالدین احمد صاحب مسجد کی زمین کی خرید کے لئے ناروے گئے اور وہاں برف پر پھسل کر ہڈی ٹوٹ گئی۔ سویڈن آکر ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔شعیب صاحب عیادت کے لئے ہسپتال آئے مگر اس دوران منیرالدین احمد صاحب ہسپتال سے ڈسچارج ہو کر جا چکے تھے۔چنانچہ انہیں عیادت کے لئے مشن ہاؤس آنا پڑا۔اس موقع پر دوسرے دوست بھی موجود تھے۔چنانچہ حضور کا پیغام انہیں پہنچا دیا گیا کہ تمام یوگوسلاوین دوستوں کو لے کر مسجد میں آؤ۔اس کے بعد ناراض یوگوسلاوین احباب پھر سے مسجد آنے لگے۔ اس طرح حضور کی شفقت ان احباب کو ابتلاء سے نکالنے کا وسیلہ بن گئی۔(۱)
سویڈ ن میں تبلیغ کا طریقہ عموماََ یہ ہوتا کہ سکولوں اور کالجز میں اسلام کے بارے میں لیکچر دیئے جاتے اور اپنی مسجد میں بھی لیکچر کا انتظام کیا جاتا۔تبلیغ کی بنیاد یہی ہے کہ خدا سے وفا کا تعلق رکھا جائے اور اسی پر توکل کیا جائے۔چنانچہ مکرم حامد کریم صاحب جنہیں سویڈن میں بطور مبلغ خدمت کا موقع ملا ہے بیان کرتے ہیں کہ سویڈن کے ۱۹۸۰ء کے دورہ کے دوران یہ الفاظ حضور کی زبان سے بار بار سنے ’’اپنے خدا سے کبھی بے وفائی نہیں کرنی۔‘‘(۲)
پہلے سویڈن کا مشن ڈنمارک کے مشن کے حصہ کے طور پر کام کر رہا تھا لیکن خلافت ِ ثالثہ میں اس نے علیحدہ مشن کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ستمبر ۱۹۷۰ء میں مکرم کمال یوسف صاحب،جنہیں پہلے بھی ایک لمبا عرصہ سے سکینڈے نیوین ممالک میں خدمات کی توفیق مل رہی تھی، یہاں آئے اور کام شروع کیا۔ آپ نے پہلے زبان میں مہارت حاصل کرنے کے لئے ایک سکول میں داخلہ لیا۔اور پھر کام شروع کیا۔
خلافتِ ثالثہ کے دوران سویڈن میں ذیلی تنظیموں کا قیام بھی عمل میں آیا۔چنانچہ شروع میں سویڈن اور ناروے کی مجالس انصاراللہ اکٹھی بنیں۔اور سویڈن میں پہلے زعیمِ اعلیٰ مکرم ڈاکٹر عبدالرؤف خان صاحب مقرر ہوئے۔خلافتِ ثانیہ کے دوران بھی سکینڈے نیویا کے ممالک میں مجلس خدام الاحمدیہ نے کام شروع کر دیا تھا۔۱۹۶۱ء میں مالمو(سویڈن) میں سکینڈے نیویا کے خدام کی سالانہ کانفرنس ہوئی اور اس موقع پر قائد مجلس خدام الاحمدیہ کے طور پر مکرم مدحت ابراہیم بیگووچ کا انتخاب ہوا۔سویڈن میں مجلس خدام الاحمدیہ کاباضابطہ آغاز۱۹۶۷ء میں ہوا اور قائد کے طور پر ایک سویڈش نو مسلمGhulam Ahmad Christer Stahlجو کہ سٹاک ہولم کے باشندے تھے مقرر ہوئے۔۱۹۷۷ء میں خدام الاحمدیہ سویڈن کا پہلا اجتماع گوٹن برگ میں منعقد ہوا۔یہ سویڈن اور ناروے کا مشترکہ اجتماع تھا۔سویڈن میں لجنہ اماء اللہ کا قیام ۱۹۷۶ء کو عمل میں آیا اور مکرمہ ڈاکٹر قانتہ صادقہ صاحبہ لجنہ سویڈن کی پہلی صدر مقرر ہوئیں۔انہوں نے ۱۹۸۱ء تک اس فرض کو نبھایا اور ان کے ساتھ مکرمہ بشریٰ احمد صاحبہ نے نیشنل صدر کے فرائض ادا کئے۔
خلافتِ ثالثہ کے دوران مکرم سید کمال یوسف صاحب،مکرم منیرالدین احمد صاحب،مکرم حامد کریم صاحب، مکرم سمیع اللہ زاہد صاحب اور مکرم میر عبد القدیر صاحب نے بطور مبلغ خدمات سرانجام دیں۔
(۱) تحریری روایت مکرم منیرالدین احمد صاحب
(۲) روایت مکرم حامد کریم صاحب
ڈنمارک
اس ملک میں پہلا ملکی جلسہ سالانہ ۱۹۷۵ء میں ہوا۔ڈنمارک کی ایک چھوٹی جماعت ہے اسی نسبت سے اس پہلے جلسہ سالانہ میں تقریباََ سو مرد و خواتین شامل ہوئے۔جلسہ سالانہ سے ایک دن پہلے مجلس خدام الاحمدیہ کا اجتماع منعقد ہوا۔اس سے قبل ۱۹۷۱ء میں خدام الاحمدیہ کا پہلا اجتماع منعقد ہو چکا تھا۔اس کے بعد کئی سال یہاں پر کوئی جلسہ منعقد نہیں ہو سکا ۔اس کے بعد دوسرا جلسہ ۱۹۸۳ء میں منعقد کیا گیا۔
ابتداء میں سیکنڈے نیویا کی جماعتوں کا مشترکہ رسالہ ایکٹو اسلام اور یہ رسالہ ڈینش ،سویڈش اور نارویجین میں شائع ہوتا تھا۔یہ رسالہ ۱۹۶۱ء سے ۱۹۶۹ء تک شائع ہوتا رہا بعد میں اسے بند کرنا پڑا۔ پھر نومبر ۱۹۷۷ء سے اس کا دوبارہ اجراء ہوا اور یہ باقاعدگی سے شائع ہونا شروع ہوا۔
ڈنمارک میں مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام ۱۹۷۵ء میں عمل میں آیا۔مئی ۱۹۸۱ء میں مجلس انصاراللہ ڈنمارک کے پہلے زعیمِ اعلیٰ کا انتخاب عمل میں آیا اور مکرم سوین ہنسن صاحب پہلے زعیم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ سکینڈے نیوین ممالک میں سب سے پہلے ڈنمارک میں لجنہ اماء اللہ کا قیام عمل میں آیا یہاں پر لجنہ کا پہلا اجلاس ۱۹۶۸ء میں منعقد ہوا جس میں سات لجنات نے شرکت کی۔۱۹۷۰ء میں پہلی مرتبہ یہاں پر صدر لجنہ کا انتخاب عمل میں آیا اور ڈینش خاتون مکرمہ محترمہ عائشہ صاحبہ نے صدر لجنہ ڈنمارک کے فرائض سنبھالے۔
خلافتِ ثالثہ کے دوران مکرم کمال یوسف صاحب،مکرم میر مسعود احمد صاحب ،مکرم سید جواد علی شاہ صاحب اور مکرم منصور احمد مبشر صاحب نے بطور مبلغ ڈنمارک میں خدمات سرانجام دیں۔
ناروے
خلافت ِ ثالثہ کے دوران بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مکرم سید کمال یوسف صاحب کو بطور مبلغ نمایاں خدمات کی توفیق ملی۔اور مقامی احمدی مکرم نور احمد بوستاد صاحب مبلغین کے شانہ بشانہ نمایاں خدمات سرانجام دیتے رہے۔آپ ناروے میں آنریری مبلغ کے طور پر کام کرتے رہے۔جب مکرم سید کمال یوسف صاحب کچھ سالوں کے لئے ڈنمارک چلے گئے تو آپ سیکریٹری ناروے مشن کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔آپ سکولوں میں جا کر اسلام کے متعلق لیکچر بھی دیتے رہے۔
یہاں پر خدام الاحمدیہ کا آ غاز ۱۹۷۴ء میں ہوا اور تنویر احمد ڈار صاحب پہلے قائد مقرر ہوئے ۔ ناروے میں لجنہ اما ء اللہ کا قیام مارچ ۱۹۷۵ء میں عمل میں آیا اور پہلی صدر مکرمہ قانتہ مبشر صاحبہ نامزد ہوئیں۔ ملکی مجلس انصاراللہ کا قیام ۱۹۸۱ء میں ہوا اور مکرم سید محمود احمد شاہ صاحب اس کے پہلے زعیمِ اعلیٰ مقرر ہوئے۔اسی طرح یہاں پر اطفال الاحمدیہ کا قیام ۱۹۸۱ء میں ہوا۔ناروے میں پہلی مجلسِ شوریٰ ۱۹۸۲ء میں ہوئی اور اس کے بعد اس اہم جماعتی روایت کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری رہا۔
جرمنی
خلافتِ ثالثہ کے دوران مندرجہ ذیل مبلغین کو جرمنی میں بطور خدمات کی توفیق ملی۔مکرم فضل الٰہی انوری صاحب ۱۹۶۴ء تا۱۹۶۷ئ، بشیر احمد شمس صاحب ۱۹۶۶ء تا ۱۹۶۹ئ،قاضی نعیم الدین صاحب ۱۹۶۹ء تا ۱۹۷۴ئ، مکرم فضل الٰہی انوری صاحب دوبارہ ۱۹۷۲ء تا ۱۹۷۷ئ، مکرم منصور احمد عمر صاحب ۱۹۷۴ء تا ۱۹۷۵ئ، مکرم حیدر علی ظفر صاحب ۱۹۷۴ء تا۱۹۷۸ئ، مکرم مشتاق احمد باجوہ صاحب ۱۹۷۵ء تا ۱۹۷۷ئ، مکرم نواب منصور احمد خان صاحب۱۹۷۶ء تا ۱۹۸۳ئ، مکرم لئیق احمد منیر صاحب ۱۹۷۸ء تا۱۹۸۲ئ۔
خلافت ِ ثالثہ کے با برکت دور کے دوران جرمنی میں ذیلی تنظیموں کا قیام بھی عمل میں آیا۔۱۹۷۰ء میں جرمنی میں فرینکفرٹ کے مقام پر پہلی مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں آیا اور مکرم خالد قریشی صاحب اس کے قائد مقرر ہوئے۔اس میں ۱۸ خدام شامل تھے۔اکتوبر ۱۹۷۳ء میں فرینکفرٹ میں لجنہ کی پہلی تنظیم قائم ہوئی،جس کی صدر قانتہ صاحبہ مقرر ہوئیں ۔یہ خاتون سویڈش تھیں اور انہوںنے خود اسلام قبول کیا تھا۔دوسری صدر مکرمہ بیگم صاحبہ ہدایت اللہ ہوبش صاحب مقرر ہوئیں ۔ان خاتون کا تعلق ماریشس سے تھا اور ان کی شادی مکرم ہدایت اللہ ہوبش صاحب سے ہوئی تھی۔ان دونوں خواتین نے لجنہ جرمنی کی تربیت اور تنظیم میں نمایاں کردار ادا کیا۔۱۹۸۲ء میں لجنہ جرمنی کی نیشنل عاملہ کا قیام عمل میں آیا۔۱۹۷۵ء میں فرینکفرٹ میں مجلس انصاراللہ کا قیام عمل میں آیا۔اور ۱۹۷۶ء میں ہیمبرگ میں بھی مجلس انصاراللہ کا قیام عمل میں آیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اپنے دورِ خلافت کے دوران ۱۹۶۷ئ، ۱۹۷۰ئ، ۱۹۷۳ئ، ۱۹۷۶ء اور ۱۹۸۰ء میں جرمنی کا دورہ فرمایا ۔ان دوروں کا ذکر علیحدہ کیا جا چکا ہے۔
جرمنی میں تبلیغ کا کام انفرادی تبلیغ کے علاوہ،چرچز اور سکولوں میں سیمینارز اور لیکچروں کے ذریعہ اور ریڈیو پر تقاریر کے ذریعہ جاری تھا۔جب فرینکفرٹ میں جماعت اور مسجد کے قیام کے دس سال مکمل ہونے پر ۱۹۶۹ء میں تقریبات منائی گئیں۔تو سفارتی نمایندوں کے علاوہ شہر کے میئر نے بھی اس میں شرکت کی۔اور اخبارات کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی اس تقریب کا چرچا ہوا۔
۱۹۷۱ء میں جرمنی کی جماعت کا پہلا جلسہ سالانہ ہوا۔اور مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کا پہلا اجتماع ۱۹۷۳ء میں منعقد کیا گیا۔
جب مکرم فضل الٰہی انوری صاحب جرمنی میں بطور مبلغ پہنچے تو انہوں نے ایک سرکلر تیار کر کے قریب کے سکولوں کالجوں اور چرچوں میں بھجوا دیا جس کا مضمون تھا ہم جو اسلام کی نمائندہ تنظیم ہیں ہم اسلام سے تعلق رکھنے والے کسی بھی مضمون پر تقریر کرنے کے لئے اپنے خرچ پر آپ کے پاس آ سکتے ہیں۔ اگر کوئی سکول یا ادارہ ہمارے پاس آ کر اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہے تو ہم اس کا خوشی سے استقبال کریں گے۔اس سرکلر کایہ اثر ہوا کہ کثرت سے سکولوں ، کالجوں اور چرچوں کی طرف سے پیغام ملنے لگے کہ ہمارے پاس آ کر تقریر کرو یا فلاں تاریخ کو ہمارا یہ گروپ آپ کے پاس آئے گا۔
ہر عمر کے لوگوں کے سوالات مختلف ہوتے۔لیکن ایک سوال بڑی اور چھوٹی عمر کے لوگوںکی طرف سے یکساں کیا جاتا تھا وہ یہ تھا کہ اسلام میں سؤر کھانا کیوں حرام ہے؟یہ سوال ایک بچے نے کیا جو اپنے پادری استاد کے ساتھ طلباء کے ایک گروہ میں آیا ہوا تھا تو مکرم انوری صاحب نے جواب دیا کہ مسلمان تو سؤر اس لئے نہیں کھاتے کیونکہ قرآنِ کریم میں اس کو کھانے سے منع کیاگیاہے لیکن یہ سوال آپ کو اپنے ٹیچر سے کرنا چاہئے کہ عیسائی سؤر کیوں کھاتے ہیں جبکہ بائیبل میں اس کا کھانا حرام قرار دیا گیا ہے۔ بائیبل کی کتاب احبار کے باب گیارہ میں لکھا ہے’’اور سؤر کو کیونکہ اس کے پاؤں الگ اور چرے ہوئے ہیں پر وہ جگالی نہیں کرتا ۔وہ بھی تمہارے لئے ناپاک ہے ۔تم ان کا گوشت نہ کھانا اور ان کی لاشوں کو نہ چھونا۔وہ تمہارے لئے ناپاک ہیں۔‘‘ یہ سننا تھا کہ سارے بچے اپنے پادری ٹیچر کا منہ دیکھنے لگے اور وہ یوں خاموش کھڑے تھے جیسے اچانک کسی صدمہ سے دوچار ہو گئے ہوں۔ اس کی خاموشی سے بچے سمجھ گئے کہ ان کے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔اسی طرح ایک مرتبہ ایک چرچ سے وابستہ بڑی عمر کے لوگوں کا ایک گروہ اپنے پادری کے ہمراہ مسجد میں آیا اور ایک شخص نے یہی سوال کر دیا کہ قرآن مجیدمیں سؤر کھانا حرام کیوں ہے؟اس پر مولانا انوری صاحب نے کہا کہ قرآن مجید نے تو سؤر کو کھانا حرام نہیں قرار دیا۔سؤر کھانا تو بائیبل نے حرام قرار دیا ہے ۔قرآن نے تو بائیبل کے اس حکم کی توثیق کی ہے۔یہ سننا تھا کہ حاضرین پر سناٹا چھا گیا۔اس خاموشی کو خود انوری صاحب نے توڑا اور کہا کہ دیکھیں دو بڑی مذہبی کتب نے سؤر کو حرام قرار دیا ہے اس کی ضرور کوئی وجہ ہو گی۔ ہمیں اس کی وجہ مل کر تلاش کرنی ہو گی۔جہاں تک اہلِ اسلام کا تعلق ہے،ہماری تحقیق ہے کہ اس جانور میں کچھ ایسی اخلاقی حالتیں ہیں جو سخت معیوب ہیں اور خوراک کا انسان کی اخلاقی حالت پر اثر پڑتا ہے اس لئے اس کا کھانا حرام ہے تاکہ وہ اخلاقی کمزوریاں انسان میں پیدا نہ ہو جائیں۔اسی طرح شہر سے باہر سے بھی لیکچرز کی دعوت ملتی تھی۔چنانچہ ایک ایسے ہی لیکچر پر ایک قصبہ اوفن برگ کے چرچ میں بھی مدعوکیا گیا۔جب لیکچر کے دوران انوری صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کی پیشگوئیوں کو چسپاں کیا۔یہ سب کچھ حاضرین کے لئے حیران کن تھا ۔ ان میں سے ایک نوجوان نے اُ ٹھ کر سوال کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کی جماعت کے بانی کے وجود میں مسیح کی آمدِ ثانی ہو چکی ہے اور وہ بھی آج سے اسی سال پہلے ظاہر ہو کر فوت بھی ہو چکے ہیں۔یہ ایک اتنا بڑا واقعہ ہوا ہے اور ہمیں کانوں کان خبرنہیں ہوئی۔ہمیں تو بتلایا گیا تھا کہ جب مسیحؑ آئیں گے تو دنیا میں شور مچ جائے گا۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مسیح آکر چلے بھی جائیں اور ہمیں خبر بھی نہ ہو۔انہیں جواب دیا گیا کہ آپ نے انجیل نہیں پڑھی۔حضرت مسیح نے کہا ہے کہ میری آمد چور کی مانند ہو گی۔جیسے چور رات کو آتا ہے اور اپنا کام کر کے چلا جاتا ہے اور گھر والوں کو خبر تک نہیں ہوتی اسی طرح میرا دوبارہ آنا ہو گا۔ متی کی انجیل کے باب ۴۲ میں ہے ،’’پس جاگتے رہو کیونکہ تم نہیں جانتے تمہارا خداوند کس دن آئے گا۔لیکن یہ جان رکھو کہ اگر گھر کے مالک کو معلوم ہوتا کہ چور رات کے کون سے پہر آئے گا تو جاگتا رہتا اور اپنے گھر میں نقب نہ لگانے دیتا۔اس لئے تم بھی تیار رہو کیونکہ جس گھڑی تم کو گمان بھی نہ ہو گا ابنِ آدم آجائے گا۔‘‘ دوسرے اگر آپ نے پہلے یہ خبر نہیں سنی تھی تو میں آج جو آپ کو بتلا رہا ہوں۔ یہ جواب سن کر حاضرین عش عش کر اُ ٹھے اور ایک خوشگوار فضا پیدا ہو گئی۔
خلافت ِ ثالثہ کے دوران فرینکفرٹ مشن ہاؤس میں سلسلہ کی کتب کی نمائش کا مستقل انتظام بھی کیا گیا۔۱۹۷۴ء کے بعد بہت سے پاکستانی احمدی احباب نے جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کی۔اور اس طرح بہت سے پاکستانی احمدی جرمنی میں آباد ہو گئے۔جوں جوں ان کی آمد بڑھنی شروع ہوئی اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ ان تمام دوستوں کوکسی نہ کسی حلقہ سے وابستہ کیا جائے تاکہ یہ باقاعدہ نظامِ جماعت کا حصہ بن کر رہیں۔چنانچہ اس قسم کا پہلا حلقہ اوفن باغ(Offenbach)میں بنایا گیا تھا۔جماعتی عہدیداروں کا انتخاب کیا گیا اور چندے کے وعدے لکھوائے گئے۔پھر یہ سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔شروع میں نئے آنے والے پاکستانی احمدی زیادہ تر فرینکفورٹ میں یا اس کے قریب آباد ہوئے تھے۔اب جماعت کے مبلغین نے ان کی تربیت کے لئے منظم کوششوں کا آغاز کیا۔
جن جرمن احباب نے اسلام کو قبول کیا ان میں ایسے بھی شامل تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے راہنمائی کے نتیجہ میں یہ سعادت حاصل کی۔ان نو مسلم احباب میں ایک ہدایت اللہ ہوبش صاحب بھی تھے۔وہ نوجوانی میں ایک آزاد منش زندگی بسر کر رہے تھے اور اس حالت میں آپ نے مراکش کا سفر بھی اختیار کیا ۔اس طرزِ زندگی سے آپ کی صحت پر بہت برا اثر پڑ رہا تھا ۔ایک دن اچانک آپ کو احساس ہوا کہ آپ کا وجود کسی غیر مرئی طاقت کے قبضہ میں آگیا ہے۔اور آپ کے اندر سے یہ دعا نکلی’’اے خدا مجھے پاک کر دے۔‘‘اس بات سے آپ کو سکون محسوس ہوا گو کہ آپ اب بھی اپنے آپ کو مصائب میں گھرا ہوا محسوس کرتے تھے۔پھر آپ سپین چلے گئے اور وہاں کچھ دن ہسپتال میں اور جیل میں رہ کر آپ کو اپنے وطن بھجوا دیا گیا۔اب ان کی عمر ۲۵ سال ہو چکی تھی ۔آپ نے ذہنی سکون کی تلاش میں یوگا کی ورزشیں شروع کر دیں۔ایک دن آپ اپنی والدہ کے گھر میں اپنے بستر بیٹھے ہوئے ایک ہندو طرز پر منقش کپڑے کی طرف ٹکٹکی باندھے ہوئے دیکھ رہے تھے کہ انہیں اپنے کندھے کے اوپر سے روشنی نکل کر کتابوں کی الماری کی طرف جاتی ہوئی دکھائی دی۔وہ روشنی ایک کتاب پر آ کر رک گئی۔انہوں نے جب اُ ٹھ کر اس کتاب کو نکالا تو یہ قرآنِ کریم کا جرمن ترجمہ تھا جو کہ ان کے چچا نے کسی موقع پر انہیں تحفہ میں دیا تھا اور وہ اسے اب تک فراموش کر چکے تھے۔اس سے ہوبش صاحب کو یقین ہو گیا کہ خدا اس کتاب کی وساطت سے بول رہا ہے۔پھر ان کا جماعت کی مسجدنور سے رابطہ ہوا اور ۱۹۷۰ء میں انہوں نے بیعت کر کے با قاعدہ اسلام قبول کر لیا۔(۱)
جرمنی جیسے ملک میں جو باقی مغربی ممالک کی طرح مادیت کا شکار ہو تبلیغ کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ تبلیغ کرنے والا ایک عز مِ صمیم کے ساتھ یہاں پر اسلا م کی تبلیغ کرے۔چنانچہ جب مکرم حیدر علی صاحب ظفر اور مکرم ملک منصور احمد عمر صاحب جرمنی کے لئے روانہ ہوئے تو حضور نے انہیں ارشاد فرمایا کہ خدمت ِ دین اور تبلیغ کے میدان میں طارق بن زیاد کی طرح کشتیاں جلا کر کام کرنا ہے۔
(۱) تحریری روایت مکرم فضل الٰہی انوری صاحب
پولینڈ
ہم کتاب کے حصہ دوئم میں ذکر کر چکے ہیں کہ کس طرح پولینڈ میں تبلیغ کا کام شروع ہوا اور پھر اس میں حالات کی وجہ سے ایک طویل عرصہ کا تعطل آگیا۔خلافت ِ ثالثہ کے دوران یہاں لٹریچر کے ذریعہ جماعت کی تبلیغ دوبارہ پہنچی۔یہاں پر ایک معزز عیسائی خاندان کے فرد مکرم طہ زک صاحب کو سب سے پہلے احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔آپ نے پادری بننے کے لئے ایک عیسائی ادارے میں داخلہ لیا اور دوران تعلیم دیگر مذاہب کا مطالعہ جاری رکھا۔اس دوران آپ کو احمدیہ مسلم مشن یو کے کی طرف سے شائع ہونے والا رسالہ دی مسلم ہیرلڈ کا ایک شمارہ ملا۔لنڈن مشن کے مبلغ انچارج مکرم بشیر احمد رفیق صاحب سے خط و کتابت شروع ہوئی۔اور آپ نے بشیر احمد رفیق صاحب کو پولینڈ آنے کی دعوت دی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی اجازت سے آپ ۱۹۷۶ء میں پولینڈ گئے اور اس موقع پر طہ زک صاحب نے بیعت فارم پُر کیا اور آپ نے اپنی زندگی خدمتِ دین کے لئے وقف کر دی۔
۱۹۷۶ء کے جلسہ سالانہ کے دوسرے روز کے خطاب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا:
’’اس وقت مسلمانوں میں سب سے زیادہ مظلوم اور اپنے حالات کے ظلم کی وجہ سے بھی اسلام سے دور وہ ممالک ہیں جہاں اشتراکیت یعنی کمیونزم آگیا ۔وہاں یہ حال ہے کہ کمیونسٹ یوگوسلاویہ کے سینکڑوں خاندان احمدی ہو گئے ہیں۔سینکڑوں خاندان!اور یہ حال ہے کہ اس وقت ہنگری کے ایک احمدی یہاں موجود ہیں۔اور وارسا پولینڈ کے امام جو پچھلے سال احمدی ہوئے تھے وہ بھی جلسہ سالانہ پر تشریف لائے ہوئے ہیں۔‘‘
۱۹۷۷ء میں طہ زک صاحب نے ربوہ کے جلسہ سالانہ میں شرکت کی۔اور آپ کا رابطہ سویڈن میں گوٹن برگ مشن سے رہا۔بعد ازاں زک صاحب نے مبلغ انچارج سویڈن کو پولینڈ کے دورہ کی دعوت دی اور اس موقع پر لیوبن (Lublin)کی کیتھولک یونیورسٹی میں مبلغ انچارج سویڈن کی تقریر بھی ہوئی۔ اور دو مقامی اخبارات نے ان کے انٹرویو بھی شائع کئے۔
۱۹۷۸ء کے جلسہ سالانہ کے درمیان والے دن کے خطاب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ارشاد فرمایا :
’’۔۔نئی جماعت قائم ہوئی ہے پولینڈ میں۔اور وہاں جماعتِ احمدیہ کے عقائد اور تعارف پر اس وقت تک پولش زبان میں دو پمفلٹ چھپ چکے ہیں۔۔۔‘‘
یوگوسلاویہ
جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں یوگوسلاویہ میںتبلیغ کے لئے مکرم مولوی محمد الدین صاحب گئے تھے۔ لیکن پھر دوسری جنگِ عظیم اور یوگوسلاویہ کی حکومت کی پالیسیوں کے باعث یہاں پر تبلیغ کا کام جاری نہیں رہ سکا اور نہ ہی احمدیوں کی تربیت اور ان سے رابطے کا کام جاری رہ سکا ۔
ایک لمبے عرصہ کے تعطل کے بعد اگست ۱۹۷۰ء میں مکرم چوہدری مشتاق احمد باجوہ صاحب مبلغ انچارج سوئٹزر لینڈ نے ایک ہفتہ کے لئے یوگوسلاویہ کے جنوبی حصہ کا دورہ کیا جہاں پر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔دوران قیام آپ ان کے بڑے بڑے علماء سے ملے اور انہیں جماعت احمدیہ سے متعارف کرایا اور ان کے سوالات کے جوابات دیئے۔
وہاں قیام کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بعض عرب ممالک سے جماعت کے خلاف لٹریچر یوگوسلاویہ بھجوایا گیا تھا۔آپ نے اس دورہ میں مختلف علماء سے مل کر اس لٹریچر میں لگائے گئے الزامات کی حقیقت سے ان علماء کو آگاہ کیا۔
دوسری بار آپ جولائی ۱۹۸۳ء میں یوگو سلاویہ گئے۔وہاں آپ نے ایک خاندان سے ملاقات کی جنہوں نے سوئٹزر لینڈ میں احمدیت کو قبول کیا تھا۔آپ کی تبلیغ سے جن افراد نے احمدیت قبول کی تھی ان میں سے Mr. Daut Dautiقابلِ ذکر تھے۔انہو ں نے ۱۹۸۳ء میں سوئٹزرلینڈ میں احمدیت قبول کی تھی اور پھر اپنے گاؤںGjilanمیں آ کر تبلیغ کی۔اور آپ کی کاوشوں سے یہاں پر تین گھرانوں کے بیس افراد نے احمدیت قبول کی۔اور اس مقام پر باقاعدہ جماعت قائم ہو گئی۔
آئیوری کوسٹ
آئیوری کوسٹ میں جماعت کے قیام کے بعد اس بات کی ضرورت تھی کہ یہاں پر جماعت کے مشن کے لئے زمین خریدی جائے۔جماعت کے مبلغ مکرم قریشی محمد افضل صاحب نے اس ضمن میں کوششوں کا آ غاز کیا۔کئی مقامات کا جائزہ لینے کے بعد آجامے (Adjame)میں ایک پلاٹ پسند کیا گیا۔اس پر ایک مکان پہلے سے تعمیر شدہ تھا۔اس پر ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کر لی گئی۔اکتوبر ۱۹۶۸ء میں تعلیم الاسلام احمدیہ فرینچ عریبک سکول کا آغاز کیا گیا۔آئیوری کوسٹ سے ہمسایہ ممالک میں بھی تبلیغ کے کام کا آ غاز کیا گیا۔اور اپر وولٹا (موجودہ برکینا فاسو) اور مالی میں تبلیغ کا کام کیا گیا۔۱۹۷۰ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے دورہ آئیوری کوسٹ کا ذکر پہلے آچکا ہے۔۱۹۷۲ء میں ماریشس کے مکرم شمشیر سوکیہ صاحب کو آئیوری کوسٹ میں امیر و مشنری انچارج مقرر کیا گیا اور انہوں نے مکرم قریشی محمد افضل صاحب سے چارج لیا۔شمشیر سوکیہ صاحب نے فرنچ زبان میں ۹ کتابچے شائع کئے۔ ۱۹۷۷ء میں مکرم قریشی محمد افضل صاحب ایک بار پھر آئیوری کوسٹ کے امیر و مشنری انچارج مقرر ہوئے۔جو مسجد پہلے بنائی گئی تھی وہ اب ضروریات سے چھوٹی ہو گئی تھی۔اس لئے ۱۹۷۷ء میں اس میں توسیع کی گئی۔۱۹۸۱ء میں عبد الرشید رازی صاحب کا تقرر آئیوری کوسٹ کے امیر و مشنری انچارج کے طور پر کیا گیا۔
کسی بھی ملک میں تبلیغ کے کام کو بھرپور طریقے سے کرنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہاں کے مقامی احباب کو تبلیغ کے اہم کام کے لئے تیار کیا جائے۔چنانچہ مکرم قریشی مقبول صاحب نے مالی کے رہنے والے ایک باشندے مکرم محمد غزالی جالی صاحب کو مقامی مبلغ کے طور پر تیار کیا۔انہوں نے آئیوری کوسٹ کے علاوہ مالی میں بھی جا کر تبلیغ کی۔مکرم قریشی محمد افضل صاحب نے بھی عربی اور دینیات کی کلاسوں کا اجراء کیا۔ان کلاسوں سے استفادہ کرنے والے احباب میں سے جن کو خدمتِ دین کا شو ق ہوتا تو ان سے مبلغ کے طور پر خدمات لی جاتیں۔ان میں سے مکرم عبد الحمید صاحب برکینافاسو کے باشندے تھے انہیں پہلے برکینا فاسو بھجوایا گیا پھر وہ آئیوری کوسٹ میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ان کے علاوہ ان طلباء میں سے مکرم عبد الرحمن کوناتے صاحب ،احمد تورے صاحب، سعید کوناتے صاحب اور صدیق آدم صاحب نے آئیوری کوسٹ میں خدمات سرانجام دیں۔اور ان کے علاوہ مالی کے عمر معاذ صاحب اور تیرو دریسا صاحب نے بھی تبلیغی خدمات سرانجام دیں۔ پہلے ان احباب نے تو باقاعدہ کسی ادارے میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن ان میں سے مکرم عبد الرحمن کوناتے صدیق آدم صاحب اور عمر معاذ صاحب نے فیصلہ کیا کہ وہ مرکز ِ سلسلہ جا کر دین کا علم حاصل کریں گے۔ لیکن ہوائی سفر کی استعداد نہیں تھی ۔چنانچہ یہ تینوں احباب خشکی کے راستے اس سفر پر ربوہ کے لئے روانہ ہو گئے۔۱۹۸۱ء میں یہ سفر شروع کیا گیا اور ۱۹۸۲ء کے آخر میں یہ احباب ربوہ پہنچ گئے۔اور پھر اپنے تعلیم مکمل کر کے ۱۹۸۶ء میں یہ احباب واپس آئیوری کوسٹ پہنچے۔
ٹرینیڈاڈ
خلافتِ ثالثہ کے دوران ٹرینیڈاڈ میں ایک نئی مسجد کی تعمیر ہوئی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ۱۹۷۰ء کے جلسہ سالانہ کی تقریر میں اس کا ذکر بھی فرمایا۔محمد حنیف یعقوب صاحب نے اپنی زمین کا ایک قطعہ جماعت کے لئے وقف کیا اور اس پر مسجد کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔۱۹۷۴ء میں اس مسجد کی تعمیر کا کام مکمل ہوا۔یہاں پر جماعت ِ احمدیہ کی رجسٹریشن کا مرحلہ طے ہونا باقی تھا۔محمد حنیف یعقوب صاحب نے حکومت کو رجسٹریشن کے لئے درخواست دی۔جب جون ۱۹۷۳ء میں سینٹ میں یہ بل پیش ہوا تو پانچ مسلمان ممبران نے مخالفت کی لیکن اکثریت نے اس بل کی حمایت میں ووٹ دیئے اور جماعت یہاں پر رجسٹر ہو گئی۔
لبنان
خلافتِ ثانیہ کے اختتام پر لبنان میں مکرم مولوی نصیر احمد خان صاحب بطور مبلغ خدمات سرانجام دے رہے تھے۔۱۹۶۲ء میں لبنان میں بغاوت ہو گئی اور ملکی حالات کی وجہ سے تبلیغی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئیں۔ مولوی نصیر احمد خان صاحب کی شکایت کی گئی کہ یہ تبلیغ کرتے ہیں۔ان میں سے کئی شکایات عیسائیوں کی جانب سے بھی کی گئی تھیں۔ان حالات میں دسمبر ۱۹۶۳ء میں آپ واپس پاکستان تشریف لے آئے۔
اس کے بعد مکرم مولانا غلام باری سیف صاحب کو عربی زبان سیکھنے کے لئے لبنان بھجوایا گیا۔ اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے جو ہدایات اپنے قلم سے تحریر فرمائیں ان میں یہ بات بھی تھی کہ علمِ قرآن سیکھنے کے لئے ربوہ سے باہر جانے کی ضرورت نہیں آپ وہاں عربی زبان تحریر تقریر بول چال سیکھنے کے لئے جا رہے ہیں پس پوری توجہ اس طرف دیں۔آپ کو ہدایت دی گئی تھی کہ کھلم کھلا تبلیغ نہ کی جائے۔ تاہم آپ حکمت کے ساتھ مختلف احباب ،اساتذہ اور طلباء سے تبادلہ خیالات کرتے رہے اور ان تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علمِ کلام کے معارف پہنچاتے رہے۔اس عرصہ میں بیروت میں مرزا جمال احمد صاحب کے گھر پر نمازِجمعہ کا اہتمام ہوتا تھا۔
لبنانی احمدیوں کی تربیت اور مرکز سے رابطہ کے لئے مکرم مولانا چوہدری محمد شریف صاحب گیمبیا جاتے ہوئے بیروت بھی رکے۔آپ نے مفتی لبنان سے بھی ملاقات کی۔
نظامِ جماعت کو قائم کرنے کے لئے لبنان میں مکرم جمال احمد صاحب کو صدر اور مکرم محمد درمنانی صاحب کو سیکریٹری مال مقرر کیا گیا۔۱۹۶۷ء میں مکرم مولانا غلام باری سیف صاحب واپس ربوہ تشریف لے آئے۔
فلسطین
خلافت ِ ثالثہ کے آ غاز میں محترم مولانا جلال الدین قمرصاحب فلسطین میں بطور مبلغ کام کر رہے تھے۔ اپنے قیام کے دوران آپ نے احباب جماعت کی تربیت،مدرسہ احمدیہ میں تعلیم،معززین سے ملاقاتوں کے ذریعہ اوراخبارات میں عربی اور عبرانی میں مضامین لکھ کر کام کو جاری رکھا۔آپ کے دور میں مدرسہ احمدیہ پرائمری سے مڈل سکول ہو گیا۔آپ نے بعض پمفلٹ بھی شائع کئے جو کہ عربی اور عبرانی زبانوںمیں تھے۔آپ نے مختلف دیہات اور قصبوں کے دورے بھی کئے۔آپ نے ۱۹۷۷ء تک یہاں پر خدمات سرانجام دیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے حکم پر ۱۹۶۶ء میں مکرم فضل الٰہی بشیر صاحب فلسطین چلے گئے۔ جماعت کا عربی رسالہ البشریٰ ایک عرصہ سے بند تھا،آپ نے دوبارہ اس کی اشاعت کا کام شروع کروایا۔کشتیِ نوح کا عربی پیش لفظ جو کہ مکرم سید زین العابدین شاہ صاحب نے تحریر فرمایا تھا ۔وہ دوبارہ شائع کیا گیا۔۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد آپ نے غزہ اور دریائے اردن کے مغربی کنارہ پر تبلیغ کا کام شروع کیا گیا۔جنوری ۱۹۶۸ء میں آپ کو ماریشس بھجوا دیا گیا اور آپ دوسری مرتبہ اکتوبر ۱۹۷۷ء میں کبابیر فلسطین آئے اور ۱۹۸۱ء تک یہیں پر مقیم رہے۔۔آپ کے دور میں مندرجہ ذیل کتب شائع ہوئیں۔انسال المسلمین و علماء ھم ۔ولقد جاء کم الحق المبین مصنفہ مکرم مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب ، مقطعات القرآن ( از حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ)، تفسیرِ کبیر میں سورۃ کہف کی تفسیر کا عربی ترجمہ مکرم السید عبد اللہ اسعد عودہ صاحب نے کیا اور یہ ترجمہ بھی شائع کیا گیا۔
۸؍ فروری ۱۹۶۸ء کو مکرم بشیر الدین عبید اللہ صاحب نے احباب کی تربیت کے ساتھ تبلیغ کے کام کو بھی وسعت دی۔آپ کی کوششوں سے غزہ میں ایک جماعت قائم ہوئی۔علاقہ میں احمدیت کی مخالفت نے زور پکڑا لیکن پھر بھی لوگوں کی توجہ احمدیت کی طرف ہوئی۔لوگوں کی شکایات کی وجہ سے ایک نو احمدی کو ایک ماہ جیل میں بھی رہنا پڑا۔بیعت کرنے والوں میں بعض تعلیم یافتہ با اثر احباب مثلاً احمد حسن سردانی صاحب اور ہاشم نعمان صاحب بھی شامل تھے ۔۱۹۶۸ء میں کبابیر کی جماعت نے اپنے قیام کے چالیس سال مکمل ہونے کی تقریبات بھی منائیں۔مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب نے تقریباً چار سال یہاں پر خدمات سرانجام دیں۔
مرکز کی ہدایت پر ۱۹۷۲ء میں مکرم مولانا محمدمنور صاحب بطور مبلغ کینیا سے کبابیر تشریف لے گئے۔ اور ایک سال وہیں پر مقیم رہے۔آپ نے احباب کی تربیت کے علاوہ عرب آبادی کے تمام شہروں کا دورہ کیا۔اور یروشلم اور الخلیل جا کر وہاں پادریوں سے مذہبی گفتگو کی اور یہودی علماء سے بھی ملاقات کی۔آپ نے غزہ کی جماعت کی رجسٹریشن بھی کرائی ۔حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری جب یہاں پر کام کر رہے تھے اس وقت یہاں پر یوم التبلیغ منایا جاتا تھا لیکن پھر ایک عرصہ تک یہ سلسلہ بند رہا۔ یہ سلسلہ آپ نے دوبارہ جاری فرمایا۔آپ نے اپنی یادداشت میں تحریر فرمایا ہے کہ ا س وقت سنی ائمہ حکومت سے اپنی تنخواہیں لیتے تھے،ایک مرحلہ پر ان ائمہ نے حکومت کو دھمکی دی کہ ہماری تنخواہیں بڑھائی جائیں ورنہ ہم نماز پڑھانا بند کر دیں گے۔چار و ناچار حکومت نے ان کی تنخواہوں میں اضافہ کر کے کام جاری رکھنے کو کہا۔
فجی
جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی وفات ہوئی تو اس وقت حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ فجی میں موجود تھے۔آپ نے اس نازک موقع پر احبابِ جماعت مسجد فضل عمر سامبولا میں نصائح فرمائیں۔ مئی ۱۹۶۶ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فجی کے لوگوں کے لئے اپنا ایک پیغام ریکارڈ کرایا۔اس پیغام کے آخری الفاظ یہ تھے :
’’پس اے میرے عزیز بھائیو!آپ جو دور دراز علاقوں ،جزائر فجی میں رہنے والے ہیں، آپ اپنی ذمہ داریوںکو کبھی نہ بھولیں۔باہم پیار اور محبت سے رہیں اور اس مقصد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں جس مقصد کے لئے جماعت احمدیہ کا قیام ہوا ہے۔‘‘
مکرم شیخ عبد الوہاب صاحب فجی میں بطور مبلغ کام کر رہے تھے،جماعتی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وہاں پر ایک دوسرا مبلغ بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا۔چنانچہ مکرم نورالحق انور صاحب مارچ ۱۹۶۶ء میں فجی پہنچے۔آپ نے بحیثیت امیر و مشنری انچارج فجی میں خدمات کا آغاز کیا۔آپ کو مختلف مواقع پر ریڈیو پر بھی اظہارِ خیال کے ذریعہ تبلیغ کا موقع ملا۔
اس سے قبل سائیکلو سٹائل ہو کر جماعت کا ایک ماہانہ پرچہ’’اسلام‘‘ کے نام سے نکلتا تھا۔محترم مولانا نورالحق انور صاحب نے The Muslim Harbingerکے نام سے ایک سہ ماہی رسالہ نکالنا شروع کیا۔اس میں فجی،انگریزی اور ہندی تینوں زبانوں میں مضامین شائع ہوتے تھے۔
با (Ba)کے مقام پر جماعت قائم ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ یہاں پر ایک مکان لے کر دارالتبلیغ بنایا گیا۔لیکن اس کے ساتھ ہی مخالفین کا حسد بھی بھڑک اُ ٹھا۔اس مخالفت کا سرغنہ وہاں کا ایک نمایا ں شخص ابوبکر کویا تھا۔اس نے اور دیگر مخالفین نے برملا شہر میں یہ کہنا شروع کیا کہ ہم احمدیوں کے مشن ہاؤس کو جلا کر راکھ کردیں گے۔احتیاطی تدابیر کے با وجود ایک رات فتنہ پروروں کوموقع مل گیا اور انہوں نے مٹی کا تیل چھڑک کر دارالتبلیغ کو آگ لگا دی لیکن یہ آگ جلد ہی ختم ہو گئی اور صرف چند لکڑیاں ہی جل پائیں۔جب جماعت کے افرادنقصان کا جائزہ لے رہے تھے تو مکرم مولانا نورالحق صاحب نے آہ بھر کر کہا کہ جس نے اللہ کے دین اسلام کا یہ مرکز جلانے کی کوشش کی ہے، خدا اس کے اپنے گھر کو آگ لگا کر راکھ کر دے۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ چند ہی روز کے بعداس فتنہ کے سرغنہ ابو بکر کویا کے گھر کو آگ لگ گئی اور باوجود کوششوں کے نہ بجھ سکی اور یہ گھر جل کر راکھ ہو گیا۔ فجی میں سب سے پہلے واقفِ زندگی ہونے کا اعزاز بھی با (Ba) کے ایک احمدی دوست کے حصہ میں آیا۔یہ دوست مکرم محمد حنیف کویا صاحب تھے۔انہوں نے کچھ عرصہ مکرم مولانا نورالحق انور صاحب سے دینی تعلیم حاصل کی اور پھر فجی میں خدمت دین میں مصروف ہو گئے۔
مئی ۱۹۶۸ء میں فجی کی کونسل آف چرچز کی دعوت پر پادری عبد الحق صاحب فجی آئے اور اسلام کے خلاف دل آزار تقاریر کا ایک سلسلہ شروع کر دیا۔غیر احمدی مسلمانوں نے مکرم مولانا نورالحق انور صاحب سے درخواست کی کہ وہ ان پادری صاحب سے مناظرہ کریں۔چنانچہ ایک سکول کی عمارت میں یہ مباحثہ شروع ہوا۔پہلے تو پادری صاحب نے اپنی علمیت کاتاثر بٹھانے کی کوشش کی لیکن جب مولانا صاحب نے دلائل پیش کئے تو ان کی حالت غیر ہونی شروع ہو گئی۔جب ایک مرحلہ پر مولانا نورالحق صاحب نے ان سے کہا کہ اگر انہیں اپنے سچا ہونے کا یقین ہے تو اپنے ساتھیوں سمیت میدان میں آئیں اور مباہلہ کر لیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریںکہ وہ سچ اور جھوٹ کو ظاہر کر دے۔یہ سن کر پادری صاحب کی حالت غیرہو گئی اور وہ دشنام دہی پر اتر آئے ۔اور مناظرہ کی شرائط کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اُٹھ کر چلے گئے۔جب شام کو مولانا نورالحق انور صاحب اپنا تحریر کردہ مضمون سنانا تھا تو پادری صاحب آگئے اور انہوں نے شور و غوغا شروع کر دیا۔یہ ہنگامہ دیکھ کر صاحبِ صدر نے مناظرہ برخواست کر دیا۔اگرچہ اس طرح یہ مباحثہ ادھورا رہا لیکن اس کے ذریعہ تبلیغ کا ایک دروازہ کھل گیا۔
فجی میں مقامی آبادی بھی موجود ہے اور بر صغیر سے نقلِ مکانی کر کے آباد ہونے والے بھی وہاں کئی نسلوں سے رہ رہے ہیں۔پہلے وہاں پر زیادہ تر احمدی ہندوستانی نسل کے تھے لیکن وقت کے ساتھ مقامی آبادی میں بھی احمدیت کا نفوذ شروع ہوا۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ۱۹۷۹ء کے جلسہ سالانہ میں ارشاد فرمایا :
’’فجی میں جو آئی لینڈ ہیں وہاں کی مقامی آبادی میں احمدیت اثرو رسوخ قائم کر رہی ہے اور بہت سے مقامی لوگ جو ہیں وہ احمدی ہو چکے ہیں۔‘‘(۱)
(۱) خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء
گیانا
گیانا میں احمدیت کا تعارف کسی با قاعدہ مبلغ کے جانے سے قبل پہنچ چکا تھا۔گیانا میں رہنے والے ایک صاحب مکرم محمد یوسف خان صاحب اور ان کے بھائی مکرم محمد ابراہیم خان صاحب گیانا میں سسٹر ویلج کے رہنے والے تھے۔یہ دونوں ۱۹۵۰ء سے قبل ہی لٹریچر کے مطالعہ کے نتیجے میں احمدیت قبول کر چکے تھے۔اور ان کی مرکز سے باقاعدہ خط وکتابت بھی تھی ۔ان کے علاوہ ابتدائی احمدیوں میں ایک صاحب محمد شریف بخش صاحب بھی شامل تھے۔انہوں نے مرکز سے خط و کتابت کر کے عہدیداران کی منظوری حاصل کی اور جماعت کو منظم کیا۔انہیں پہلا پریذیڈنٹ اور مکرم یوسف خان صاحب کو سیکریٹری مقرر کیا گیا۔۱۹۵۹ء تک یہاں پر احمدیوں کی تعداد ۳۴ تھی۔یہاں کے احمدیوں میں سے ایک نوجوان رحیم بخش صاحب نے ۱۹۵۹ء میں چند سال ربوہ میں رہ کر دینی تعلیم حاصل کی۔
گی آنا میں پہلے مرکزی مبلغ مکرم بشیر آرچرڈ صاحب تھے جو ۱۹۶۰ء میں گیانا پہنچے اور انہوں نے چھ سال یہاں پر خدمات سرانجام دیں ۔ان کے بعد غلام احمد نسیم صاحب ،مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب، مولانا محمد صدیق صاحب اور محمد اسلم قریشی صاحب نے ا س ملک میں بطور خدمات سرانجام دیں۔
دورِ خلافت ثالثہ میں جماعتِ احمدیہ بھارت کی سرگرمیاں
1965ء
جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کا وصال ہوا اور تمام جماعت نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی بیعت کی تو ۹ نومبر ۱۹۶۵ کو جماعت ِ احمدیہ کے دائمی مرکز قادیان میں صدر انجمن احمدیہ قادیان نے اپنے غیر معمولی اجلاس میں حضرت مصلح موعود ؓ کے وصال پر تعزیت اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی بیعت اور کامل اطاعت کے عہد کی قرارداد منظور کی (۱)۔خلافت ِ ثالثہ کے پہلے سال کے دوران ہی قادیان کی جماعت نے قرضہ حسنہ حاصل کر کے ،جماعت احمدیہ کا تیار کیا ہوا انگریزی ترجمہ قرآن شائع کیا(۲)۔قادیان دارالامان میں 13,12,11دسمبر 1965ء بروز ہفتہ ، اتوار، پیر کوجماعت احمدیہ کا چوہترواں اور خلافت ِ ثالثہ کے دوران قادیان کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا دور دراز علاقوں سے بڑی تعداد میں احباب جماعت نے اس مقدس جلسہ میں شرکت فرمائی ۔ یوپی ، مدراس ، کیرالہ ، بمبئی ،کشمیر جموں وغیرہ صوبوں سے شریک ہونے والے احباب کی تعداد گزشتہ سالوں سے دو چند تھی(۳)۔ محترم صاحبِ صدر عبد الرحمن صاحب فاضل نے اپنی اختتامی تقریر کے بعد سید نا حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثالث امام جماعتِ احمدیہ کا ایک روح پرور پیغام پڑھ کر سنایا جو حضور اقدس نے اس مقدس جلسہ کے لئے ارسال فرمایا۔ یہ پہلا پیغام احمدیہ مسلم مشن رنگون کے واسطہ سے قادیان پہنچا کیونکہ اس وقت ۱۹۶۵ کی جنگ کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات منقطع تھے۔ اس پیغام کا پورا متن یہ تھا :
’’ترجمہ :۔ اے ارضِ پاک کے رہنے والو! اور اے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے مشتاق زائرین ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خداکرے آپ ہمیشہ فرشتوں کی حفاظت میں رہیں اور خدا تعالیٰ کا رحم اور اس کا فضل ہمیشہ آپ پر ایک ٹھنڈے اور محافظ سایہ کی طرح قائم رہے ۔ خداتعالیٰ آپ تمام کو نیک اور دوسروں کے لئے قابلِ تقلیداعلیٰ نمونے بنائے ۔ خدا کرے آپ کے دل ایسے بن جائیں کہ ان سے ہمیشہ روحانی شعاعیں پھوٹتی رہیں ۔ اور خدا تعالیٰ آپ کو ایسی دلکشی اور حسن عطا کرے کہ ساری دنیا آپ کی طرف کھنچی چلی آئے ۔ خدا کرے آپ ہمیشہ مکمل امن اور اتحاد کے ساتھ رہیں ۔ اور آپ کے دلوں میں انسانیت کے لئے ہمدردی ، بہبود اور پُرخلوص خدمت کا جذبہ موجزن رہے تاکہ دُنیا آپ کی ہمیشہ ممنون اور شکرگزار رہے ۔ اللہ کرے آپ کو رحیم و کریم خدا کے دروازے کے سواکسی اور کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
آپ ہمیشہ ہمیں اپنی دعائوں میں یاد رکھیں ۔ خدا تعالیٰ آپ تمام کے ساتھ ہو ۔ آمین۔
( حضرت ) مرزا ناصراحمد ( صاحب)
خلیفۃ المسیح الثالث ۔ امام جماعتِ احمدیہ
مورخہ 9دسمبر 1965ئ‘‘
1966ء
بھار ت ایک وسیع ملک ہے اور اس میں جماعتیں بھی ایک وسیع علاقے پر بکھری ہوئی ہیں۔ اوربہت سی جماعتیں قادیان سے اتنے فاصلے پر ہیں کہ ان سے روابط میں مشکل پیدا ہوتی ہے ۔اس پس منظر میں ان جماعتوں کے دورہ جات کی ایک خاص اہمیت ہے۔چنانچہ خلافت ِ ثالثہ کے پہلے سال کے دوران بھارت کی جماعتوں میں بہت سے اہم دورے ہوئے۔اس کے ذکر کے بعد ہندوستان کے مختلف صوبوں میں ہونے والے اجتماعات اور جلسوں کا مختصر ذکر کریں گے۔ان کے علاوہ ہر سال قادیان میں جلسہ سالانہ منعقد ہوتا رہا تھا۔اور اس طرح درویشانِ قادیان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قائم ہونے والی اس روایت کو پوری شان کے ساتھ زندہ رکھا ہوا تھا۔ 28فروری 1966ء کو مکرم مولوی شریف احمد صاحب امینی انچارج احمدیہ مسلم مشن کلکتہ نے مکرم شیخ عبد الرئوف صاحب ساقی کے ہمراہ مغربی بنگال کی جماعتوں مرشد آباد، تالگرام ، کیتھا، انگار پور ، بھرت پور وغیرہ کاکا میاب تبلیغی و تربیتی دورہ کیا ۔ یہ دورہ اگرچہ مختصر تھا مگر 400کلومیٹر کا سفر ہوا تین تبلیغی جلسے ہوئے اور تین بیعتیں ہوئیں اور ایک جگہ مسجد احمدیہ بنانے کے انتظامات شروع کئے گئے (۴)۔ نظارت دعوت و تبلیغ قادیان کے زیرِاہتمام محترم الحاج سیٹھ معین الدین صاحب امیر جماعت ہائے حیدرآباد ، سکند ر آباد کی زیرِ امارت علماء کے ایک وفد کو جنوبی ہند کی جماعتوں تیماپور اور و یوورگ اور رائچور وغیرہ کے کامیاب تبلیغی اور تربیتی دورہ کی توفیق ملی(۵)۔حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے مع اہل و عیال 3اپریل 1966ء شمالی ہند کی جماعتوں کے دورے کا آغاز فرمایا اور مختلف جماعتوں کے تربیتی و تبلیغی دورے کئے(۶)۔ہر ملک میں بسنے والے احمدی ،جس ملک میں بس رہے ہوں اس کے وفادار ہوتے ہیں۔24 اپریل 1966ء کو ستمبر 1965ء کی جنگ میں جان بحق ہونے والوں کی یاد میںقادیان میں ایک تقریب منائی گئی جس میں وزیرِ خارجہ آنریبل سردار سورن سنگھ صاحب تشریف لائے ۔ حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب امیر جماعت احمدیہ قادیان کی قیادت میں ممبران صدر انجمن احمدیہ نے وزیر خارجہ کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے اور احمدیہ چوک میں استقبال کیا ۔ مسجد مبارک میں استقبالیہ تقریب ہوئی اور معزز مہمان کی خدمت میں قرآن کریم کے تحفہ کی پیشکش کی۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے شیخ عبد الحمید صاحب عاجز نے معزز مہمان کی خدمت میں ایڈریس پڑھ کر سنایا ۔(۷)
1966ء کے آ غاز میں جنوبی ہند کی جماعتوں نے اپنا جلسہ منعقد کیا۔اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے پیغام بھجوایا:
’’……آپکے خط مورخہ 9-3-66سے یہ معلوم کرکے بے حد مسرت ہوئی کہ جنوبی ہند میں مختلف مقامات پر تبلیغی جلسوں کاپروگرام شروع کیا جارہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ یہ اجتماعات مبارک کرے ، علاقہ کے لوگوں کے دل کھول دے، انہیں احمدیت کی طرف مائل کردے ۔ اس طرح کہ اس علاقہ میں احمدیت سُرعت سے ترقی کرتی چلی جائے ۔ یہاں تک کہ ساراعلاقہ احمدی ہو جائے ۔ اللھم آمین
دوستوں کو میری طرف سے یہ پیغام دیں کہ ’’اپنے اندر ایک نیک تغیر اور خدمتِ دین کیلئے دل میں ایک تڑپ پیدا کریں ‘‘اللہ تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو ۔ آمین۔‘‘(۸)
اسی طرح جماعتِ احمدیہ کیرنگ اڑیسہ کے جلسہ سالانہ کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے یہ پیغام بھجوایا:
’’…مجھے یہ معلوم کرکے بے حد مسرت ہوئی کہ کیرنگ میں جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ منعقد ہو رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ مبارک کرے آمین ۔ میری طرف سے دوستوں کی خدمت میں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پہنچا کر یہ پیغام عرض کریں کہ سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ دنیامیں اسلام غالب آجائے اور ہم ناچیز بندوں نے احمدیت کوقبول کرکے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اس مقصد کے حصول کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کیلئے ہمیشہ تیار رہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ سب دوستوں کے اخلاص میں برکت دے ۔ اور اس عظیم عہد کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔‘‘ (۹)
جماعت ِ احمدیہ کیرنگ کا یہ دوسرا جلسہ تھا جو کہ اپریل ۱۹۶۶ میں منعقد ہوا۔ اس میں حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اور علمائے سلسلہ نے شمولیت فرمائی ۔ اسلام اور احمدیت کی حقانیت کے متعلق پُر مغز تقاریر ہوئیں (۱۰)۔ 17,16,15اپریل1966ء کو علاقہ جنوبی ہند کا تبلیغی و تربیتی دورہ نظارت دعوۃ وتبلیغ کی ہدایت کے مطابق علماء کے ایک وفدنے کیا اور شہر مدراس کے تین مختلف اطراف میں کامیاب جلسے ہوئے (۱۱)۔ 26.04.66جنوبی ہند میں جماعت ہائے احمدیہ حیدر آباد، سکندرآبادکے زیرِ اہتما م سہ روزہ کامیاب جلسہ میں غیر از جماعت احباب نے شرکت کی اور مقامی اخباروں میں اس کا تذکرہ ہوا۔ (۱۲)
5مئی 1966ء کو جماعت احمدیہ سونگڑہ اڑیسہ کا جلسہ سالانہ ہوا جس میں صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اور علمائے سلسلہ نے شرکت فرمائی اور ایمان افروز تقاریر ہوئیں ۔ (۱۳)
26,25جون 1966ء جماعت ہائے احمدیہ اُتر پردیش کی دوسری دو روزہ صوبائی کانفرنس لکھنؤ میں ہوئی اور اہم جماعتی اُمور کے متعلق فیصلے کئے گئے۔(۱۴)
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے لکھنؤ کی کانفرنس کے بارے پیغام بھیجاکہ
’’اللہ تعالیٰ اس کانفرنس کو کامیاب کرے اور اس کے بہترین نتائج برآمد فرماوے۔ میرا پیغام یہ ہے کہ قرآن سیکھیں اس پر عمل کریں اور زیادہ سے زیادہ اس کی اشاعت کریں ۔‘‘(۱۵)
20اکتوبر 1966ء کو جماعت احمدیہ قادیان کی دعوت پر آنریبل گورنر پنجاب جناب دھرم ویر صاحب بہادر قادیان تشریف لائے ۔ احمدیہ محلہ میں ممبرانِ جماعتِ احمدیہ اور معززین ِشہر نے پرتپاک استقبال کیا ۔ جناب گورنر صاحب کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا گیا جس کے جواب میں گورنر صاحب نے شکریہ ادا کیا اور حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمدیہ نے گورنر صاحب کی خدمت میں قرآن مجید انگریزی اور دیگر جماعتی لٹریچر کا تحفہ پیش کیا ۔(۱۶)
مورخہ 13نومبر ایک بجے کے قریب چیف منسٹر پنجاب جناب گیانی گورمکھ سنگھ صاحب جماعت احمدیہ کی دعوت پر ضلع گورداسپور کاسرکاری دورہ کرتے ہوئے قادیان بھی تشریف لائے ۔ احمدیہ محلہ میں اُن کا پُر تپاک استقبال کیا گیا ۔ (۱۷)
26اکتوبر 1966ء مولوی عبدالحق صاحب فضل مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ نے وادی کشمیر کی جماعتوں سری نگر، شورت اور کنی پورہ کا کامیاب تبلیغی اور تربیتی دورہ کیا۔(۱۸)
6,5,4؍ دسمبر بروز اتوار ، پیر، منگل جماعت احمدیہ بھارت کا قادیان میں 75 واں جلسہ سالانہ منعقد ہوا جس میں ہند و پاکستان اور غیر ممالک کے دور دراز علاقوں سے شمع احمدیت کے پروانوں نے شرکت کی ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے اس جلسہ کیلئے یہ پیغام ارسال فرمایا :۔
’’آج آپ قادیان کی اس مقدس بستی میں اسلئے جمع ہوئے ہیں کہ اپنے رب کے حضور جھکیں عاجزانہ دعا ئیں کریں کہ وہ غلبۂ اسلام و احمدیت کے متعلق اپنے وعدوں کو جلد اور ہماری زندگیوں میں ہی پورا کردے اور ہماری غفلتیں اور کوتاہیاں اس میں تاخیر کا باعث نہ بنیں……اے میرے عزیزدرویشو!اے اس پاک اور مقدس بستی کے مکینو! ربِ عزیز نے اپنے بے پایاں فضل سے ان ’’بیوت مرفوعۃ ‘‘ کو آباد رکھنے کی ایک ایسی خدمت تمہارے سپرد کی ہے کہ اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ نباہ لواور بشاشت کے ساتھ ادائیگی فرض کی تلخیاں برداشت کر لو توقیامت تک تمہارا نام رشک اوراحترام سے لیا جائے گا اور آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ۔ آج ہمارا رب تم سے انتہائی ایثار کامطالبہ کررہا ہے تا وہ اپنے انتہائی فضلوں اور رحمتوں کا تمہیں وارث بنائے۔ ‘‘(۱۹)
1967کے دوران تبلیغی مساعی کے تحت جماعت احمدیہ یادگیر نے گلبرگہ شریف میں حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کے عُرس کے موقع پر جو 15ذی قعدہ کو شروع ہوتا ہے ایک تبلیغی سٹال لگایا ۔ عرس کے آغاز سے قبل ہی سٹال قائم کرنے کیلئے خواجہ بازار کے احاطہ میں جگہ کرایہ پر لی گئی جہاں ایک خوبصورت سٹال کھڑا کیا گیااور جس کے اندرونی جانب ایک نقشہ کپڑے پر اترواکر آویزاں کیا گیا ۔ جس میں جماعت احمدیہ بھارت اور عالمگیر جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی ، مساجد مشن ہائوسز اور تراجمِ قرآن کو دلآویز انداز میں بتلایا گیا تھا۔ اس سٹال میں جماعت احمدیہ کا لٹریچر، حضرت مسیح موعودؑ کی بعض تصانیف اور قرآن کریم انگریز ی ترتیب سے رکھا گیا تھا۔ چونکہ اِس عُرس میں ہزار ہا عقیدت مند شرکت کرتے ہیں لہذا کثرت سے لٹریچر تقسیم کرنے کا موقع ملا۔(۲۰)
31مارچ کو ہندی مارٹن انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک سٹڈیز میں مکرم مولوی سمیع اللہ صاحب انچارج احمدیہ مسلم مشن بمبئی کو وحی والہام کے موضوع پر ایک کامیاب تقریر کا موقع ملا اس جلسہ میں کثرت سے مختلف مذاہب کے اہل علم احباب نے شرکت کی۔ (۲۱)
یکم اپریل 1967کو جمشید پور بہار جماعت احمدیہ کی مقامی شاخ انجمن احمدیہ جمشید پور کے زیرِ اہتمام ایک دوروزہ جلسہ سیرت پیشوایانِ مذاہب منعقد ہوا جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے علماء نے اپنے اپنے پیشوائوں کی سیرت کے بارے تقاریر کیں اور اسطرح قومی یکجہتی کے ساتھ ساتھ جماعتی وقار کو بھی تقویت ملی ۔
10؍اپریل 1967ء کو اُڑیسہ کی جماعتوں بھدرک اور سورو میں دوکامیاب جلسے ہوئے نہایت پُر مغز تقاریر ہوئیں اور دو بیعتیں بھی اسی موقع پر ہوئیں ۔(۲۲)
23,22؍ اپریل 1967ء کو ٹیلی چری کیرلہ میں گیارہویں آل کیرلہ احمدیہ کانفرنس کا کامیاب انعقاد ہوا۔ اگرچہ اس جگہ کی فضا احمدیت کی مخالفت میںہمیشہ مکدر رہی ہے ۔لیکن امسال کامیاب کانفرنس کے انعقاد کاموقع ملا ذیلی تنظیموں نے ہزاروں کی تعداد میں لٹریچر ملیالم زبان میں شائع کروایا اور پھر اس کو تقسیم کا انتظام کیا۔ (۲۳)
پوری دنیا میں جماعت ِ احمدیہ نے قرآنِ کریم کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا ہے۔ بھارت میںنظارت دعوت و تبلیغ قادیان کے تحت مکرم مولوی خورشید احمد صاحب درویش پر بھاکرنے دن رات محنت کرکے قرآن کریم کا ہندی ترجمہ مکمل کیا۔ (۲۴)
27؍اگست کو یاڑی پورہ کشمیر میںایک عظیم الشان جلسہ ہوا اور دو افراد نے بیعت کی اگست میں شورت ،کنی پورہ کشمیر میں ایک کامیاب تبلیغی جلسہ ہوا اور 5افراد نے بیعت کی ۔ (۲۵)
10ستمبر کو چک ایمرچھ کشمیرمیں ایک عظیم الشان جلسہ ہوا اور 16افراد بیعت کرکے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے۔ (۲۶)جولائی میںقادیان سے وادیٔ کشمیر میںمرکزی وفدنے تبلیغی و تربیتی کامیاب دورہ کیا اور 32افراد بیعت کرکے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے۔ (۲۷)
یکم اور 2اکتوبر 1967ء جماعت ہائے احمدیہ کشمیر کاکامیاب و عظیم الشان صوبائی جلسہ ہوا مرکزی نمائندوں نے شمولیت کی ۔ (۲۸)
جلسہ سالانہ قادیان 1967ء کیلئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا پیغام
’’…… اے میرے عزیزو! میرے پیارو جو آج قادیان کی مقدس بستی میںجمع ہوئے ہو اللہ تعالیٰ آپکو اور ہم جملہ احمدیوںکو ہمیشہ صحیح اعتقاد پر قائم رکھے اور ایسے صالح اعمال کی توفیق دیتا چلا جائے جن میں کسی قسم کا کوئی فساد نہ ہو ……اگر ہم واقعہ میں اور حقیقی طور پر دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے بن جائیں ، اگر ہم واقعہ میں اور سچے طور پر دنیا کے خادم ٹھہریں ، اگر ہماری عملی زندگی میں دنیا فی الحقیقت اسلام کے احسان کے جلووں کو موجزن پائے اور دیکھے ، اگر اور جب حقیقتاً ایسا ہو جائے ، تب ہی تو دنیا اپنے رب کوپہچان سکتی ہے اور اس کا احسان اور معرفت حاصل کرکے اپنے دل اور اپنی روح کے ساتھ اس کے آستانہ پر جھک سکتی ہے ۔ اس کے غضب سے بچنے کے قابل ہو سکتی ہے۔
پس اٹھو اور بیدار ہو جائو سستیاں ترک کرو اور کمرِ ہمت کس لو اور اپنی دعائوں ، اپنے علم ،اپنے عمل ،اپنے حسنِ سلوک اور اپنے ہمدردی اور غمخواری سے دنیا پر اسلام کے حسن اور اس کے احسان کے جلوے ظاہر کرو اور دنیا کے دل اپنے ربِ کریم کیلئے جیت لو اور اپنے ربّ کے محبوب بن جائو۔ وَعلیہ توکلنا وبہ التوفیق……‘‘ (۲۹)
1968ء 21رمضان المبارک 24؍دسمبر1967ء کو کلکتہ سے تقریباً 37میل کے فاصلہ پر ایک پُر فضا مقام ڈائمنڈ ہاربر میں ایک مسجد احمدیہ حاجی پور کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ اس کے علاوہ اسی رمضان میں کلکتہ کی جماعت کو دو تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بیعت کروانے کا موقع ملا۔ (۳۰)
علاقہ مالا بار میں مبلغین سلسلہ نے کامیاب تبلیغی دورہ کیا۔ شنکرن کو تیل شہر میں مخالفت کے باوجود پانچ افراد نے احمدیت قبول کی۔ (۳۱)
علاقہ کیرالہ میں مبلغین سلسلہ نے کامیاب تبلیغی دورہ کیا مختلف مقامات پر تبلیغی جلسے اور لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ (۳۲)
مدراس میں عیسائی مشن کی کانفرنس ہوئی جس میں جماعتِ احمدیہ کے خدا م کو لٹریچر کی تقسیم کا موقع ملا۔(۳۳)
۱۹۶۸ میںچمبہ ہماچل پردیش میں مرزا وسیم احمد صاحب کا تبلیغی و تربیتی دورہ ۔ (۳۴)
اکتوبر ۱۹۶۸ میںمسجد احمدیہ ابراہیم پور علاقہ بھرت پور ضلع مرشدآباد کا افتتاح ہوا۔(۳۵)
۱۹۶۸ کے آخر میںشاہ جہانپور ( یوپی ) میں دو روزہ احمدیہ صوبائی کانفرنس بخیرو خوبی منعقد ہوئی ، علاقہ یوپی کے سینکڑوں احمدی نمائندگان نے شرکت کی۔ ڈیڑھ ہزار کے مجمع کو علماء سلسلہ نے خطاب کیا اور تبلیغ کاموقع ملا۔ تین بیعتیں بھی ہوئیں ۔(۳۶)
1969 ء گزشتہ سالوں کی طرح ۱۹۶۹ء میں بھی جماعت احمدیہ بھارت کی اِن جماعتوں کو تبلیغی و تربیتی اجتماع و جلسے کرنے کا موقع ملا ۔ صوبہ بنگال و اُڑیسہ ، یادگیر ،کیرلہ ، مالابار ، کالیکٹ، کیرنگ ، رشی نگر، کشمیر میں آسنور، کوریل ،یاڑی پورہ ، چک ایمرچھ ، راٹھ یو۔پی ،ممبئی میں اس قسم کے جلسے منعقد کئے گئے۔اسی سال کے دوران حضرت مرزا وسیم احمد صاحب نے اُڑیسہ ،علاقہ جنوبی ہند ، وغیرہ کی جماعتوں کا تبلیغی و تربیتی دورہ کیا ۔ تبلیغی مساعی کے تحت جماعت کو آل ورلڈ گورو نانک کنوشن اور بابانانک کی پانچ سو سالہ تقریب میں شرکت کا موقع ملا ۔ شیموگہ ( میسور سٹیٹ ) میں مسجد احمدیہ کا افتتاح ہوا۔ (۳۷)
1970 ء کے دوران بھارت کی کئی جماعتوں کو تبلیغی و تربیتی جلسوں کے انعقاد کا موقع ملا ۔ جماعت احمدیہ کیرنگ اُڑیسہ کا چھٹا کامیاب جلسہ سالانہ ہوا۔ صوبہ بہار کی جماعتوں کا تبلیغی دورہ ہوا۔ کشمیر کی جماعتوں کا تبلیغی و تربیتی دورہ ہوا۔رُڑکی ضلع سہارنپورمیں اتر پردیش صوبائی کانفرنس ،سری نگر احمدیہ صوبائی کانفرنس چنتہ کنٹہ سہ روزہ آل انڈیا احمدیہ کانفرنس،رُڑکی جماعت یو۔پی میں دو روزہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ (۳۸)
۱۹۷۰ء کے دوران حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے وادی کشمیر کی مختلف جماعتوں کا تبلیغی اور تربیتی دورہ کیا(۳۹)۔اور اسی سال حیدرآباد مسجد احمدیہ چنتہ کنٹہ کا افتتاح ہوا اور آل انڈیا احمدیہ کانفرنس کا انعقاد بھی ہوا۔ (۴۰)
1971 کے دوران بھارت کی مختلف جماعتوں کو جلسے اور اجتماعات منعقد کرنے کا موقع ملا۔ان جلسوں میں یومِ مسیح موعودؑ اور یومِ مصلح موعودؓ کے جلسے بھی شامل تھے۔ پاسگھاٹ میں آل کیرلہ احمدیہ کانفرنس ہوئی ۔ شاستان کوٹہ (کیولا ) میں جملہ مذاہب کی عالمی کانفرنس ہوئی ، سرینگر میں دو روزہ کامیاب کنونشن یومِ مسیح موعود کی تقریب ہوئی۔ علاقہ مالا بار میں تبلیغی جلسے، جماعت احمدیہ مدراس ، صوبہ اڑیسہ ، وادی پونچھ جلسہ سیر ت النبی ﷺ ، حیدر آباد سونگھڑہ( اُڑیسہ ) سالانہ کانفرنس منعقد کی گئی مختلف مقامات پرجلسہ ہائے یوم خلافت منعقد کئے گئے۔ پاسگھاٹ میں تبلیغی نمائش ، کیرنگ میں جلسہ سالانہ اور کلکتہ شہر یوم تبلیغ منعقد کیا گیا ۔ سرینگر میں آل کیرلہ کشمیر احمدیہ مسلم کانفرنس ، امروہہ (یو۔پی) میں دوروزہ سالانہ کانفرنس بہوہ ضلع فتح پور ( یو۔پی ) میں تبلیغی جلسہ کا اہتمام کیا گیا۔ (۴۱)
۱۹۷۱ ء کے دوران حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے حیدر آباد کا دورہ فرمایا اور احمدیہ جوبلی ہال حیدرآباد کا سنگِ بنیاد رکھا ۔ جماعت احمدیہ یاد گیر میں بھی دورہ کیا ۔ (۴۲)
1972ء
۱۹۷۲ء کے دوران مندرجہ ذیل جماعتوں کو تبلیغی اور تربیتی جلسے کرنے کا موقع ملا۔
مدراس ، کالی کٹ کیرلہ میں جلسہ یومِ پیشوایانِ مذاہب ہوا، متفرق مقامات پر یومِ مسیح موعودؑ کی تقریبات ہوئیں،متفرق مقامات پر جلسہ ہائے یومِ مصلح موعود ہوئے، موگراں ( مالابار ) میں دو روزہ کامیاب صوبائی کانفرنس ہوئی ، متفرق مقامات پر جلسہ سیرت النبی ﷺکا انعقاد ہوا، سرگوڑ( کیرلا) میں احمدیہ انٹر نیشنل نمائش کا انعقاد علاقہ مالابار میں تبلیغی جلسے ہوئے۔ ضلع بارہ مولاکشمیر کی جماعتوں کا تبلیغی و تربیتی دورہ اور 16بیعتیں ہوئیں۔ موسیٰ بنی مائنز ( بہار) میں دور وزہ کانفرنس ہوئی ۔ مختلف مقامات پر جلسہ ہائے یومِ خلافت کا انعقاد ، صوبہ اڑیسہ کا دورہ ہوا، کیرنگ ( اُڑیسہ ) کا جلسہ سالانہ ہوا، سری نگر کشمیر کی دور وزہ کانفرنس ہوئی۔ فتح پور شہر میں دو روزہ صوبائی کانفرنس ہوئی ۔ جماعت احمدیہ کیرلہ کے تبلیغی جلسے ہوئے (۴۳)۔ حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کو امسال بہار کی جماعتوں اور حیدر آباد بنگلور ، یادگیر ، سری نگر کشمیر کی جماعتوں کے دورے کا موقع ملا(۴۴)۔ لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کے قیام پر پچاس سال پورے ہونے پرقادیان میں ایک خصوصی تقریب منائی گئی ۔ (۴۵)
1973 ۱۹۷۳ ء کے دوران علاقہ کیرلا کا تبلیغی دورہ ہوا۔ کیرنگ اُڑیسہ کا9واں جلسہ سالانہ ہوا۔رانچی ( بہار) میں احمدیہ تبلیغی کانفرنس ہوئی، موسیٰ بنی مائنز میں جلسہ پیشویانِ مذاہب کا انعقاد ہوا، علاقہ تامل ناڈو میںتبلیغ، بہار اور یوپی کی جماعتوں کا تبلیغی اور تربیتی دورہ ہوا۔یوپی کی آٹھویں کامیاب کانفرنس ہوئی ۔ سری نگر کشمیر میں کامیاب کانفرنس ہوئی اور جلسے پونچھ ، راجوری میں ہوئے ۔ (۴۶) ۱۹۷۳ء کے دوران حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے یوپی ، مدراس ، کشمیر کی متفرق جماعتوں کا دورہ فرمایا۔علاقہ گوری دیوی پیٹ میں 9افراد نے احمدیت قبول کی اور نئی جماعت کا قیام ہوا۔(۴۷)
1974کے دوران ہبلی میں تربیتی اور تبلیغی جلسہ ہوا۔ علاقہ مری پیڈا کا تبلیغی دورہ ہوا، 12افراد نے احمدیت قبول کی ایک نئی مسجد کا افتتاح ہوا اور نئی جماعت کا قیام ہوا۔ میلاپالم میں کامیاب جلسے ہوئے اور 2نئی بیعتیں ہوئیں۔ ضلع ترونیلویلی ( تامل ناڈو ) میں کامیاب تبلیغ ہوئی۔ آندھرا پردیش کی جماعتوں کا تبلیغی دورہ ہوا، کیرنگ کا دسواں جلسہ سالانہ ہوا۔ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد کی شمولیت ، مدراس میں وسیع پیمانہ پر لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ مالا بار میں آل کیرلا کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ صاحبزادہ وسیم احمد صاحب نے اُڑیسہ کا کامیاب دورہ کیا۔ کشمیر کی جماعتوں کا تبلیغی دورہ ہوا۔میلا پالم میں دو روزہ کامیاب جلسہ ہوا۔ (۴۸)
1975کے دوران پونچھ شہر میںکامیاب تبلیغ ہوئی اور 18افراد نے احمدیت قبول کی (۴۹) ۔ تامل ناڈو میں مذہب، سائنس ،دہریہ کانفرنس میں جماعت کے وفد کی شمولیت میلا پالم (تامل ناڈو) میں دو روزہ تبلیغی اور تربیتی جلسہ ہوا۔ پونچھ میں دو روزہ احمدیہ مسلم کانفرنس ہوئی جس میں صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب بھی شامل ہوئے۔ اترپردیش مظفر نگر میں دو روزہ کامیاب کانفرنس ہوئی ۔ کیرنگ کا 11واںجلسہ سالانہ ہوا۔ میلا پالم (تامل ناڈو)میں نئے مشن ہائوس کا قیام ہوا۔ صوبہ بنگال ، اُڑیسہ اور یوپی کا کامیاب تبلیغی دورہ ہوا۔ وادی پونچھ میں دلچسپ مباحثہ ہوا۔ جزائر انڈیمان میں تبلیغ احمدیت ہوئی۔ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے یادگیر، تیما پور، بھاگلپور اور کلکتہ کی مختلف جماعتوں کا کامیاب دورہ فرمایا۔ناصرآباد کشمیر میں خدا م الاحمدیہ کا پہلا اجتماع ہوا۔ میلا پالم میں دو روزہ کامیا ب جلسہ ہوا۔ مغربی بنگال میں ایک نئی جماعت قائم ہوئی ۔ جزائر انڈیمان میں جماعت کو تبلیغ کاموقع ملا۔(۵۰)
1976 میںصوبہ بنگال میں 42افراد نے احمد یت قبول کی(۵۱)۔ صوبہ یوپی کی متعدد جماعتوں کا تبلیغی دورہ ہوا۔ ارکھ سٹینہ ( اُڑیسہ ) کی مسجد کا افتتاح ہوا(۵۲)۔ مدراس میں تبلیغ ہوئی ۔ پیگاری ( مالا بار ) میں مسجد کا افتتاح ہوا۔کیرلا کی سالانہ کانفرنس ہوئی ۔ پونچھ کی تیسری کانفرنس ہوئی ۔ کیرنگ اُڑیسہ کا 12واں کامیاب جلسہ ہوا۔ یوپی کی دسویں سالانہ کانفرنس ہوئی ۔ آسنور( کشمیر ) میں خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع ہوا۔ آل کشمیر خدا م الاحمدیہ کا دوسرا سالانہ اجتماع ہوا۔ وادی کشمیر کی مختلف جماعتوں میں صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے دورہ فرمایا ۔ جنوبی ہند اور رگوا کا تبلیغی دورہ ہوا ۔آل بنگال احمدیہ مسلم کانفرنس ہوئی ، علاقہ لداخ کا تبلیغی دورہ ہوا۔ موسیٰ بنی مائنز میں جماعت احمدیہ کا دو روزہ کامیاب جلسہ ہوا۔(۵۳)
1977کے آ غاز میںحضرت الحاج مولانا عبد الرحمن صاحب فاضل ؓ جو امیر مقامی و ناظرِ اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ قادیان تھے اچانک دل کا شدید دورہ پڑنے سے 21,20جنوری کی درمیانی رات وفات پاگئے ۔ اِنَّا لِلہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُون ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے حضرت صاحبزادہ مرزاوسیم احمد صاحب کو امیر مقامی و ناظر ِ اعلیٰ مقرر فرمایا (۵۴)۔۱۹۷۷ء میںمتفرق جماعتوں میں یومِ مسیح موعود اور یومِ مصلح موعود حسبِ سابق نہایت احترام سے منائے گئے۔جلسہ سیرت النبیﷺ بھی کثیر جماعتوں میںہوئے۔ بنگال میںمجلس خدام الاحمدیہ صوبہ اُڑیسہ کا تیسرا اجتماع ہوا ، مدھیہ پردیش میںجماعت کی پہلی صوبائی کانفرنس ہوئی ۔ اٹاری میں بھی پہلی کانفرنس کا انعقا د ہوا ۔ کیرنگ کا 13واں جلسہ سالانہ ہوا۔ کیرالہ کی سالانہ کانفرنس ہوئی ۔ مختلف مقامات پر جلسہ ہائے یومِ خلافت کا بھر پور طریق سے انعقاد ہوا۔ اطفال الاحمدیہ اُڑیسہ کا پہلا سالانہ اجتماع ہوا۔ یاد گیر میںیومِ تبلیغ اور تربیتی جلسہ ہوا۔ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے حیدر آباد کا دورہ فرمایا ۔ لکھنؤ میں یوپی کی گیارھویں سالانہ کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ ایک امریکن عیسائی ڈاکٹر بلی گرام نے دورہ ہند کیا۔ صدر جماعت نے روحانی دعوت پیش کی۔(۵۵)
1978کے دوران اُڑیسہ خدام الاحمدیہ کا چوتھاکامیاب سالانہ اجتماع ہوا۔ اطفال الاحمدیہ کیرنگ کا پہلا سالانہ اجتماع ہوا۔ ظہیرآباد ( آندھرا) میںتبلیغی جلسہ ہوا۔ کلکتہ میںدوسری آل بنگال احمدیہ مسلم کانفرنس کا انعقادہوا۔ محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے بھی شرکت کی ۔صوبہ بہار کی احمدیہ مسلم کانفرنس بھاگلپور میں ہوئی ۔ کیرلہ کی 21ویں سالانہ کانفرنس ہوئی ۔ خدا م الاحمدیہ صوبہ بہار کا پہلا سالانہ اجتماع ہوا ۔ آل اُڑیسہ اطفال الاحمدیہ دوسرا سالانہ اجتماع ہوا۔ کشمیر چار کوٹ میں دو روزہ کانفرنس اور پونچھ میں تبلیغی جلسہ ہوا۔ آل کشمیر ساتویں کامیاب سالانہ کانفرنس ہوئی ۔ خدام الاحمدیہ مرکزیہ بھارت کا پہلا سالانہ اجتماع ہوا۔ امروہہ میں یوپی کی بارھویں سالانہ کانفرنس ہوئی مدراس میں احمدیہ دارالتبلیغ کا افتتاح ہوا۔ جماعت احمدیہ چندا پور کا سالانہ اجتماع ہوا۔
1979میںلجنہ اماء اللہ حیدر آباد و سکندر آباد کا پہلا سالانہ اجتماع ہوا(۵۶)۔آل اُڑیسہ خدا م الاحمدیہ کاپانچواںسالانہ اجتماع ہوا(۵۷)۔ کلکتہ بُک فیئر میںجماعت احمدیہ کا تبلیغی بُک سٹا ل لگایا گیا اور اعلیٰ پیمانے پر تبلیغ و اشاعت اسلام کا موقع ملا(۵۸)۔ جماعت احمدیہ کیرنگ کا پندرھواں کامیاب جلسہ سالانہ ہوا (۵۹)۔آل بنگال احمدیہ مسلم کانفرنس کا کلکتہ میں شاندار انعقاد ہوا۔ (۶۰)
مسجد احمدیہ بھاگلپور میں تو سیع ہوئی اوروسیم نئے دارالتبلیغ کی تعمیر ہوئی (۶۱)۔ سرینگر کشمیر میں آٹھویں سالانہ کانفرنس ہوئی (۶۲)۔ صاحبزادہ مرزا وسیم احمدصاحب ناظرِ اعلیٰ دورہ کیلئے حیدر آباد تشریف لے گئے (۶۳)۔صُوبہ آسام کا پہلا کامیاب تبلیغی دورہ ہوا (۶۴)۔صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے علاقہ یاد گیر کا دورہ فرمایا (۶۵)۔ خدا م الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ بھارت کا دوسرا مشترکہ سہ روزہ سالانہ اجتماع ہو (۶۶)۔ آل بہار احمدیہ مسلم کانفرنس کا انعقاد ہوا(۶۷)۔ محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے کلکتہ کا تبلیغی اور تربیتی دورہ فرمایا۔ (۶۸)
1980کے دوران بھی یومِ مصلح موعود ، یومِ مسیح موعود اور یومِ خلافت مختلف مقامات پر جماعتوں نے نہایت عقیدت سے منائے (۶۹)۔ اور اس سال کلکتہ ، صوبہ اڑیسہ ، آندھر پردیش ، رومان (اندھرا) کیرنگ ، مدراس ، شیموگہ ، بہار بنگلور ، گٹیاری شریف صوبہ بنگال، علاقہ پونچھ کشمیر، سرینگر میں مختلف اجتماعات اور جلسے منعقد ہوئے (۷۰)۔ ذیلی تنظیموں انصار اللہ ، خدا م الاحمدیہ ، اطفال الاحمدیہ ، لجنہ اماء اللہ و ناصرات الاحمدیہ کے اجتماعات اور جلسے متفرق جماعتوں میںہوئے۔(۷۱)
1981 کے دوران جماعتوں کو تبلیغی وتربیتی اجلاسات ،جلسے اور اجتماعات منعقد کرنے کا موقع ملا۔ آل کیرلہ سالانہ کانفرنس ، اُڑیسہ سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ ، بمبئی ، اٹاری ، اُڑیسہ میں سونگھڑا اور کیرنگ ، آل مہارراشٹر احمدیہ کانفرنس، مجلس خدا م الاحمدیہ یاد گیر ، تیمارپور ، جمشید پورمشن ، صوبہ کشمیر سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ سرینگر کشمیر احمدیہ سالانہ کانفرنس ، یوپی کی سالانہ کانفرنس، آل بنگال کانفرنس منعقد ہوئی(۷۲)۔صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے امسال اُڑیسہ ، مہاراشٹر ، بنگلور ، حیدرآباد کیرالہ کشمیر کی متفرق جماعتوں کا کامیاب تبلیغی و تربیتی دورہ فرمایا (۷۳)۔سری نگر میں مسجد احمدیہ اور دارالتبلیغ کی تعمیر ہوئی (۷۴)۔متفرق جماعتوں میں ذیلی تنظیموں کے اجتماع اور جلسے ہوئے نیز یوم مصلح موعودــ یوم مسیح موعود اور یوم خلافت کو بھی عقیدت سے منایا گیا ۔ (۷۵)
1982میںکالیکٹ سالانہ اجتماع و کانفرنس کیرالہ اور تامل ناڈو کا تبلیغی دورہ ، مدراس میں جلسہ عام ، کیرنگ ( اُڑیسہ ) کا 18واں سالانہ جلسہ منعقد کیا گیا اور کلکتہ بُک فیئر میںتبلیغی سٹال لگایا گیا (۷۶)۔ یوم مصلح موعود ، یوم مسیح موعود اور یوم خلافت متفرق جماعتوں میں عقیدت سے منائے گئے جلسے ہوئے اور مقررہ دن کے حوالے سے تقاریر ہوئیں (۷۷)۔ذیلی تنظیموں انصار اللہ ، خدا م الاحمدیہ ، اطفال الاحمدیہ ، لجنہ اماء اللہ اور ناصرات کے اجتماع اور جلسے بھی متفرق جماعتوں میں ہوئے۔ (۷۸)
صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ نے کلکتہ اور اُڑیسہ کا کامیاب تبلیغی اور تربیتی دورہ کیا ۔ (۷۹)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی وفات پر جماعت احمدیہ اور ذیلی تنظیموں نے قرار داد ہائے تعزیت پیش کیں اور خلافت رابعہ سے مکمل وابستگی اور اطاعت و فاداری کا اقرار کیا ۔ (۸۰)

(۱) (ہفت روزہ بدر 11نومبر 1965ئ)
(۲) (ہفت روزہ بدر دسمبر1965ء جلسہ سالانہ نمبر )
(۳) (ہفت روزہ بدر 23دسمبر1965ئ)
(۴) ( 31مارچ 1966ء ہفت روزہ بدر ص 9)
(۵) ( 7اپریل 1966 ء ہفت روزہ بدر ص 7)
(۶) ( 14اپریل 1966 ء ص 2,1 و 21 اپریل1966ء ص (6,5
(۷) ( 28اپریل 1966ء ہفت روزہ بدر ص 1)
(۸) ( 12مئی 1966ء ہفت روزہ بدر ص10)
(۹) ( 26مئی 1966ء ہفت روزہ بدرص1)
(۱۰) ( 3جون 1966ء ہفت روزہ بدرص1)
(۱۱) ( 26مئی1966ء ہفت روزہ بدرص5)
(۱۲) ( 9جون 1966ء ہفت روزہ بدرص9)
(۱۳) ( 16جون1966ء ہفت روزہ بدرص10)
(۱۴) (18اگست 1966ء ہفت روزہ بدر ص 2)
(۱۵) (15ستمبر1966ء ہفت روزہ بدر ص7)
(۱۶) ( 27اکتوبر 1966ء ہفت روزہ بدرص 1)
(۱۷) (17نومبر1966ء ہفت روزہ بدر ص1)
(۱۸) (24نومبر1966ء ہفت روزہ بدر ص7)
(۱۹) (15دسمبر1966ء ہفت روزہ بدر ص3)
(۲۰) ( 23مارچ 1967ء ہفت روزہ بدر ص1)
(۲۱) ( 20اپریل 1967ء ہفت روزہ بدر ص1)
(۲۲) ( 27اپریل 1967ء ہفت روزہ بدر ص1)
(۲۳) ( 18مئی 1967ء ہفت روزہ بدر ص1)
(۲۴) ( 27جولائی 1967ء ہفت روزہ بدر ص1)
(۲۵) (21ستمبر 1967ء ہفت روزہ بدر ص7 ،10)
(۲۶) (5 اکتوبر 1967ء ہفت روزہ بدر ص7)
(۲۷) (9نومبر1967ء ہفت روزہ بدر ص8)
(۲۸) (30نومبر 1967ء ہفت روزہ بدر ص 17)
(۲۹) ( 7دسمبر1967ء ہفت روزہ بدر ص3)
(۳۰) (4جنوری 1968ء ہفت روزہ)
(۳۱) (27جون 1968ء ہفت روزہ بدر ص1)
(۳۲) (27جون 1968ء ہفت روزہ بدر ص6)
(۳۳) (5ستمبر1968ء ہفت روزہ بدر ص6)
(۳۴) (12ستمبر1968ء ہفت روزہ بدر ص1)
(۳۵) ( 12اکتوبر1968ء ہفت روزہ بدر ص 9)
(۳۶) ( 14نومبر 1968ء ہفت روزہ بدر ص1
(۳۷) ( متفرق ہفت روزہ بدر قادیان جنوری تا دسمبر 1969ئ)
(۳۸) (جنوری تا دسمبر 1970ء ہفت روزہ بدرقادیان متفرق)
(۳۹) ( 17ستمبر 1970ء ہفت روزہ بدر ص1)
(۴۰) ( 3ستمبر 1970ء ہفت روزہ بدر ص12)
(۴۱) ( ہفت روزہ بدر قادیان متفرق جنوری تا دسمبر1971ئ)
(۴۲) ( ہفت روزہ بدر29جولائی 1971ء ص 4 ۔5اگست ص1)
(۴۳) ( ہفت روزہ بدر متفرق جنوری تا دسمبر1972ء )
(۴۴) ( ہفت روزہ بدر14ستمبرص1۔ 28دسمبر 1972ء ص9)
(۴۵) ( ہفت روزہ بدر 4جنوری1973ء ص1)
(۴۶) ( ہفت روزہ بدر قادیان متفرق جنوری تا دسمبر1973ء )
(۴۷) ( ہفت روزہ بدر 18اگست1973ئ)
(۴۸) ( بدر متفرق جنوری تا دسمبر1974ئ)
(۴۹) ( 14جنوری1975ئ)
(۵۰) ( ہفت روزہ بدر قادیان متفرق جنوری تا دسمبر1975ئ)
(۵۱) (ہفت روزہ بدر قادیان8جنوری1976ئ)
(۵۲) (ہفت روزہ بدر قادیان15جنوری1976ئ)
(۵۳) ( ہفت روزہ بدر قادیان متفرق جنوری تا دسمبر 1976ئ)
(۵۴) ( ہفت روزہ بدر 20جنوری ص 1)
(۵۵) (ہفت روزہ بدر15دسمبر 1977ئ)
(۵۶) ( ہفت روزہ بدر1فروری 1979ئ)
(۵۷) ( ہفت روزہ بدر 29مارچ 1979ئ(
(۵۸) ( ہفت روزہ بدر 5اپریل 1979ئ)
(۵۹) ( ہفت روزہ بدر 12اپریل 1979ئ)
(۶۰) ( ہفت روزہ بدر 26اپریل 1979ئ)
(۶۱) ( ہفت روزہ بدر 28جون 1979ئ)
(۶۲) ( ہفت روزہ بدر 5جولائی 1979ئ)
(۶۳) ( ہفت روزہ بدر 5جولائی 1979ئ)
(۶۴) ( ہفت روزہ بدر26جولائی 1979ئ)
(۶۵) ( ہفت روزہ بدر2اگست 1979ئ)
(۶۶) ( ہفت روزہ بدر18اکتوبر 1979ئ)
(۶۷) ( ہفت روزہ بدر 8نومبر1979ئ)
(۶۸) ( ہفت روزہ بدر 4دسمبر1979ئ)
(۶۹) (ہفت روزہ بدر 28فروری، 10اپریل ،19جون 1980ئ)
(۷۰) (ہفت روزہ بدر جنوری تا دسمبر 1980ئ)
(۷۱) (ہفت روزہ بدر متفرق 1980ئ)
(۷۲) (ہفت روزہ بدر جنوری تا دسمبر 1981ئ)
(۷۳) (ہفت روزہ بدر 14اپریل ، 4جون ، 15اکتوبر10دسمبر 1981ئ)
(۷۴) (ہفت روزہ بدر 9جولائی 1981ئ)
(۷۵) (ہفت روزہ بدر متفرق جنوری تا دسمبر 1981ئ)
(۷۶) ( ہفت روزہ بدر جنوری تا جون1982ئ)
(۷۷) ( ہفت روزہ بدر فروری، مارچ، جون 1982ئ)
(۷۸) ( ہفت روزہ بدر جنوری تا جون 1982ئ)
(۷۹) ( ہفت روزہ بدر 8اپریل ، 22اپریل 1982ئ)
(۸۰) ( ہفت روزہ بدر 8اپریل ، 22اپریل 1982ئ)
وفات حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ
۲۳؍مئی ۱۹۸۲ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اسلام آباد تشریف لے گئے ۔حضور کا ارادہ تھا کہ وہاں چند روز قیام کر کے اپنے آنے والے بیرونِ ملک کے دورے کی تیاری فرمائیں ۔اس دورہ کے دوران آپ نے مسجد بشارت سپین کا افتتاح بھی فرمانا تھا۔حضور ربوہ سے روانہ ہونے سے قبل بہت مصروف رہے اور آپ نے اپنا زیادہ وقت دفتر میں گزار رہے تھے۔آپ نے کئی مرتبہ اپنی اہلیہ حضرت سیدہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ سے فرمایا کہ میں اپنا کا م wind up کر کے جانا چاہتا ہوں۔حضور کا قیام اسلام آباد میں جماعت کے گیسٹ ہاؤس بیت الفضل میں تھا۔۲۶؍ مئی کو حضور بیت الفضل میں نماز ِ عشاء کی امامت کرا رہے تھے کہ اچانک حضور کوشدید کمزوری محسوس ہوئی اور حضور کو ٹانگوں میں کپکپاہٹ کا احساس ہوا۔حضور نے باقی نماز بیٹھ کر پڑھائی۔حضور جب اپنے کمرے میں واپس تشریف لائے تو آپ نے حضرت سیدہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ سے فرمایا کہ میں نے آخری رکعت صرف اپنی قوت ِ ارادی کے ذریعہ ادا کی ہے اور اب بھی قوت ِ ارادی سے سیڑھیاں چڑھ کر آیا ہوں۔نماز کے بعد طبی معائنہ سے معلوم ہوا کہ حضور کا بلڈ پریشر بڑھ گیا ہے اور خون میں گلوکوز کی مقدار گر گئی ہے۔ ڈاکٹروں نے معائنہ کے بعد علاج شروع کیا اور اس وقت کوئی قابلِ تشویش بات سامنے نہیں آئی۔ جب ڈاکٹروں نے ای سی جی کروانے کی رائے دی تو پہلے تو آپ نے انکار کیا مگر پھر اس کی اجازت دے دی۔لیکن ای سی جی پر کوئی قابلِ تشویش بات سامنے نہیں آئی۔ آرام کے بعدحضور کی طبیعت بہتر ہو گئی اور حضور معمول کے مطابق دفتر میں آکر کام کرتے رہے۔لیکن حضور کمزوری محسوس فرما رہے تھے اس لئے آپ نچلی منزل پر نماز پڑھانے کے لئے تشریف نہیں لے جا سکے۔حضور کو ہلکا ہلکا بخار بھی تھا اور کھانسی بھی تھی۔۲۹؍ مئی کو حضور کا نتھیا گلی جانے کا پروگرام تھا لیکن کمزوری کی وجہ سے یہ پروگرام منسوخ کر دیا گیا۔۳۱؍ مئی کو حضور نے حسبِ معمول میز پر آکر ناشتہ کیا اور گھر والوں سے گفتگو فرماتے رہے۔ لیکن پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے دل کی رفتار تیز ہوگئی،سانس کی تکلیف شروع ہو گئی اور چھاتی پر بوجھ محسوس ہونے لگا۔اسی وقت مکرم ڈاکٹر محمود الحسن صاحب اور مکرم ڈاکٹر مسعود الحسن نوری صاحب کو بلوایا گیا۔معائنہ پر یہ تشویشناک بات سامنے آئی کہ دل کی وجہ سے سینہ پر اثر پڑ رہا ہے اور دل حسب َ معمول کام نہیں کر رہا تھا۔ECGپر یہ بات سامنے آئی کہ ماضی میں کسی وقت حضور کے دل کو نقصان پہنچا تھا لیکن اس نے اپنی علامات ظاہر نہیں کی تھیں۔اس وقت حضور کا بلڈ پریشر بڑھا ہوا تھا اور خون میں گلوکوز کی مقدار زیادہ پائی گئی تھی۔فوری طور پر علاج شروع کیا گیا اور رات دس بجے تک حضور کی طبیعت بہتر ہو ررہی تھی۔شام کو حضور نے ارشاد فرمایا کہ میری صحت کے متعلق الفضل میں ایک بلیٹن شائع کرادو ۔جماعت کو صحیح صورت ِ حال سے آگاہ کردو لیکن Exageration (مبالغہ) نہ ہو۔اتنا پیار کرنے والی میری جماعت ہے۔رات کو بھی حضور کو بار بار کھانسی آتی رہی۔حضور کے علاج کے لئے دیگر ماہر ڈاکٹر صاحبان کو بھی علاج میں شامل کیا گیا ۔ڈاکٹروں کی جو ٹیم حضور کا علاج کر رہی تھی اس میں مکرم ڈاکٹر لطیف قریشی صاحب فضلِ عمر ہسپتال ربوہ ، مکرم ڈاکٹر مسعود الحسن نوری صاحب، مکرم ڈاکٹر جنرل شوکت سید صاحب ،مکرم ڈاکٹر کرنل ذوالفقار صاحب اور مکرم ڈاکٹرصاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب فضلِ عمر ہسپتال شامل تھے۔یکم جون کو حضور کی علالت کے پیش نظر صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کو بطور نمایندہ صدر انجمن احمدیہ اسلام آباد بھجوا دیا ۔اور ان کی ہدایت پر مکرم صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب نے ڈاکٹروں کی اس ٹیم کے سیکریٹری کے فرائض ادا کرنے شروع کئے جو حضور اقدس کا علاج کر رہی تھی۔ نیز بیرونِ ملک ماہرین سے بھی رابطہ رکھا جا رہا تھا۔ یکم جون کو جب حضور کا معائنہ کیا گیا تو ای سی جی پر یہ بات سامنے آئی کہ دل کے ایک حصہ کو اس حملہ میں نقصان پہنچا ہے جس سے سانس کی تکلیف ہوئی ہے۔اور ماہرین کے نزدیک دل کی حالت تسلی بخش نہیں تھی۔دو جون کی صبح کو مکرم صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب نے اطلاع دی کہ رات کسی حد تک آرام سے گزری۔سانس کی حالت قدرے بہتر رہی لیکن دل کی حالت ابھی بھی تشویشناک تھی اور دھڑکن میں کچھ بے قاعدگی بھی پائی جاتی تھی اور بخار ۱۰۰ فارن ہائیٹ تھا۔۲ جون کو شام کی رپورٹ تھی کہ طبیعت صبح کی نسبت بہتر ہے۔دل کی دھڑکن پہلے سے کم بھی تھی اور اس میں بے قاعدگی کا رجحان بھی کم تھا۔لیکن صورتِ حال اب بھی تشویشناک تھی۔انگلستان سے سینٹ تھامس ہسپتال کے ماہر امراضِ قلب ڈاکٹر جینکنز بھی حضور کے معائنہ کے لئے لندن سے اور نیویارک سے احمدی ڈاکٹر شاہد احمد صاحب بھی حضور کا علاج کرنے والی ٹیم میں شامل ہو گئے۔ ۳؍جون کو جو دوسرا ایکس رے کیا گیا اس کے مطابق بائیں پھیپھڑے میں ہلکی سی سوزش موجود تھی۔ خون میں گلوکوز کی مقدار بڑھی ہوئی تھی۔دل کی کمزوری دور ہو رہی تھی۔۴؍ جون کی صبح کو بیماری کی وجہ سے کمزوری کا اثر نمایاں تھا اور گلوکوز کی سطح بھی نارمل کی طرف واپس آرہی تھی۔۴؍ جون کی صبح کو حضور کی صحت کی بابت رپورٹ یہ تھی کہ رات کو کچھ بے چینی اور بے خوابی کی کیفیت رہی ۔دل کی حالت نسبتاََ بہتر رہی ہے اور سانس کی کیفیت بھی معمول پر آ رہی ہے۔لیکن بیماری کی وجہ سے کمزوری کا اثر نمایاںہے۔خون میں گلوکوز کی مقدار کم ہو کر تندرستی کی طرف مائل ہے۔دل کی حالت ابھی تک تشویش کا باعث ہے۔۵؍ جون کو حضور اقدس ڈاکٹری مشورہ کے مطابق کچھ دیر کے لئے بستر سے باہر تشریف فرما رہے ۔دن میں دو مرتبہ ڈاکٹر جینکنز اور دیگر ڈاکٹر صاحبان نے حضور کا معائنہ کیا اور دل کی بہتر ہوتی ہوئی حالت پر تسلی کا اظہار کیا۔ ۶؍ جون کو شام کو معائنہ پر یہ بات سامنے آئی کہ دل میں کمزوری کی علامات پہلے سے زیادہ نمایاں ہیں اور یہ امر باعثِ تشویش تھا۔۷؍ جون دل کی حالت بہتر تھی اور بخار اتر چکا تھا۔۸؍ جون کی رپورٹ تھی کہ رات کوپر سکون نیند آگئی تھی۔دل کی حالت بھی معمول کی طرف مائل تھی اور کھانسی میں بھی افاقہ تھا۔حضور اپنی علالت کے دوران ربوہ کو بار بار یاد فرماتے رہے۔اور دو تین مرتبہ حضرت سیدہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ سے فرمایا کہ ہم ربوہ کب جائیں گے؟اس روز دوپہر کوکھانے کے وقت آپ نے فرمایا کہ اس بیماری کے پہلے چار دن میں نے اللہ تعالیٰ سے بہت باتیں کی ہیں۔پھر فرمایا ۷۳ سال میں اس نے مجھ پر اتنے انعامات اور اتنے فضل کئے میں نے اس سے کہا کہ اگر اب تو مجھے بلانا چاہتا ہے تو میں راضی ہوں لیکن میں نے کچھ کام ایسے شروع کئے ہوئے ہیں جن کی تکمیل کے لئے مجھے دس پندرہ سال چاہئیں۔اس روزشام کو آپ دیر تک مکرم ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب اور مکرم ڈاکٹر مسعودالحسن نوری صاحب سے گفتگو فرماتے رہے۔
۸ اور ۹؍ جون کی درمیانی رات کو حضور رات کو لیٹ بارہ بجے تک عزیزوں سے گفتگو فرماتے رہے۔ ویسے طبیعت میں کوئی خرابی بظاہر نظر نہیں آتی تھی۔صرف آواز میں قدرے کمزوری محسوس ہوتی تھی۔تقریباََ نصف شب کو آپ کروٹ لیتے ہوئے اور باتیں کرتے ہوئے اچانک خاموش ہو گئے۔ فوراََ ڈاکٹرز کمرے میں آ گئے ۔آپ کی نبض بند ہو چکی تھی۔دل کی حرکت بحال کرنے کے لئے بار بار Electric Shocksدیئے گئے۔انجکشن بار بار لگائے گئے۔شروع میں چند مرتبہ تو دل کی حرکت نارمل ہو گئی لیکن پھر فوراََVentricular Fibrillationشروع ہو جاتیں۔اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے سامنے سب بے بس تھے۔پونے ایک بجے ڈاکٹروں نے اپنی کاوشیں بند کردیں۔اللہ تعالیٰ کا پیارا وجود اپنے مالک کی خدمت میں حاضر ہو چکا تھا۔انا للّٰہ و انا الیہ راجعون
جنازہ کو ربوہ منتقل کرنے سے قبل اسلام آباد میں غسل دیا گیا۔کیونکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاہور میں وفات ہوئی تھی تو جسد ِ اطہر کو قادیان منتقل کرنے سے قبل لاہور میں ہی غسل دیا گیا تھا۔ مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب نمایندہ صدر انجمن احمدیہ نے مکرم ڈاکٹر لطیف قریشی صاحب ، ڈاکٹر مسعود الحسن نوری صاحب اور مکرم ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب کو غسل دینے کے لئے کہا۔اسی طرح حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کو بھی کہا گیا کہ وہ حضور کو غسل دینے میں شامل ہوں۔وہ بہت غمگین تھے اور کہنے لگے کہ مجھ سے برداشت نہیں ہو گا۔جب صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب نے اصرار کیا تو وہ جسد مقدس کے سرہا نے کھڑے ہو کر دعائیں کرتے رہے۔اور غسل دینے والے احباب کو غسل کا مسنون طریقہ بتاتے رہے۔اور اس طرح مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب اور تینوں ڈاکٹر صاحبان نے غسل دیا۔جنازے کو ربوہ لانے کے لئے ایک عارضی تابوت بنایا گیا اور بیت الفضل اسلام آباد جہاں پر حضور کا انتقال ہوا تھا اس کی نچلی منزل میں ایک احمدی دوست نے حضور کے لئے کفن تیار کیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی بیگم صاحبہ حضرت سیدہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ کی اجازت سے تابوت گاڑی میں رکھا گیا۔اور یہ قافلہ ربوہ کے لئے روانہ ہوا۔جس ہائی ایس گاڑی میں جنازہ رکھا گیا تھا اس کو مکرم عبد الشکور صاحب چلا رہے تھے۔راستے میں گجرات اور شیخو پورہ سے باہر اس گاڑی کی اندر رکھی گئی برف کی سلوں کو تبدیل کیا گیا۔ پونے بارہ بجے قبل دوپہر کو قافلہ ربوہ پہنچا اور جنازہ قصرخلافت میں واقعہ گیسٹ ہاؤس کے ہال میں رکھا گیا۔
ربوہ میں جنازہ کی تیاری
فوری طور پر دنیا کے باقی مقامات کی طرح ربوہ میں بھی یہ اندوہناک خبر پہنچی ۔رات کو سونے سے قبل اکثر اہلِ ربوہ یہ خبر سن کے مطمئن ہو کر سوئے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی طبیعت اب بہتر ہو رہی ہے۔یہ اچانک خبر سن کر بہت سے احباب کے حواس سن ہو گئے۔ فجر کا وقت ہوا تو لوگ نماز ادا کرنے کے لئے مساجد کی طرف روانہ ہوئے۔مسجد مبارک کے حلقہ میں رہنے والے لوگ مسجد مبارک کی طرف جا رہے تھے۔یہ وہ مسجد تھی جس میں احباب نے حضورؒ کی اقتداء میں نمازیں ادا کی تھیں۔ لوگ سر جھکائے خاموشی سے مسجد کی طرف جا رہے تھے جیسے زبانیں گنگ ہو گئیں ہوں۔ دوجاننے والے ملتے تھے تو محض آنکھیں چار ہوتی تھیں اور پھر سر جھکا کر آگے بڑھ جاتے تھے۔مسجد مبارک میں حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓنے نمازِ فجر پڑھائی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اپنے آخری ایام میں احاطہ قصرِ خلافت میں گیسٹ ہاؤس میں مقیم تھے کیونکہ نئے قصرِ خلافت کی تعمیر ہو رہی تھی۔اس گیسٹ ہاؤس کے ہال میں حضور کا جنازہ رکھنے کی تیاریاں شروع کی گئیں۔اسی ہال میں کچھ روز قبل حضور اپنے عزیزوں اور اہلِ خانہ کے درمیان رونق افروز ہوتے تھے۔ربوہ میں مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کی نگرانی میں تابوت تیار کیا گیا۔
امیر مقامی و ناظر ِ اعلیٰ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب نے فیصلہ فرمایا کہ صدر انجمن احمدیہ ، تحریکِ جدید انجمن احمدیہ اور وقف ِ جدید کا ایک مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔چنانچہ حضور کی وفات کے بعد پہلا اجلاس صبح چھ بجے منعقد ہوا ۔اور اس کے بعد بھی سب مجالس کے اجلاس ہوئے۔
الفضل کا جو ضمیمہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی وفات کی اطلاع دینے کے لئے شائع ہوا تھا اس میں مجلسِ انتخابِ خلافت کے اجلاس کے متعلق یہ اعلان بھی شائع ہوا
اجلاس مجلس انتخاب ِ خلافت
(بموجب ارشاد حضرت المصلح الموعود بر موقع مجلسِ مشاورت ۱۹۵۷ ء
بحوالہ رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۵۷ ء ص۱۱)
مجلس ِ انتخاب ِ خلافت کا اجلاس انشاء اللہ تعالیٰ کل بتاریخ ۱۰ جون ۱۹۸۲ ء بروز جمعرات ڈیڑھ بجے بعد نمازِ ظہر مسجد مبارک ربوہ میں منعقد ہو گا ۔جملہ ممبران مجلسِ انتخاب خلافت کی خدمت میں عرض ہے کہ مہربانی فرما کر نمازِ ظہر مسجد مبارک ربوہ میں ادا فرمائیں جو ڈیڑھ بجے بعد دوپہر ادا کی جائیگی۔ اس کے بعد صرف ممبر صاحبان ہی مسجد میں تشریف رکھیں۔اور اجلاس کی کارروائی میں شامل ہوں۔
مرزا غلام احمد مرزا منصور احمد
سیکرٹری مجلسِ شوریٰ ناظرِ اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ
۸۲۔۶۔۹ ۸۲۔۶۔۹
دوپہر کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا جنازہ ربوہ پہنچ گیا۔یہ سخت گرمی کے دن تھے۔ پاکستان سے اور ملک سے باہر سے ہزاروں افراد ربوہ اپنے امام کے آخری دیدار کے لئے پہنچ رہے تھے۔یہ سب احباب اس جھلسا دینے والی گرمی میں لمبی قطاروں میں کھڑے ہو کر صبر و تحمل سے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے تا کہ اپنے امام کا آخری دیدار کر سکیں۔اور دنیا بھر کے احمدی اپنے رب کے حضور دعائیں کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ ایک بار پھر رحم کرتے ہوئے جماعت ِ احمدیہ کی خوف کی حالت کو امن سے تبدیل کر دے۔
۱۰؍ جون کی نمازِ ظہر کے بعد صرف مجلس ِ انتخاب خلافت کے اراکین مسجد میں بیٹھے رہے اور باقی احباب باہر تشریف لے گئے۔اور پھر دروازے بند کر دیئے گئے اور انتخابِ خلافت کی کارروائی شروع ہوئی۔ حسبِ قواعد ناظران اور وکلاء میں سے سب سے سینئر حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیلِ اعلیٰ تحریک جدید نے اجلاس کی صدارت کی اور سیکریٹری مجلسِ شوریٰ مکرم صاحبزادہ مرزاغلام احمد صاحب نے سیکریٹری کے فرائض ادا کئے۔ کثرتِ رائے سے حضرت صاحبزادہ مرزاطاہر احمد صاحب کو خلیفۃ المسیح الرابع منتخب کیا گیا۔انتخاب کے بعد آپ نے مجلسِ انتخاب ِ خلافت کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
’’مجھے سیکریٹری صاحب (مجلسِ شوریٰ۔ناقل) نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ (اللہ تعالیٰ ان پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے ان کے تمام مقاصد کو کامیاب کرے،تمام نیک کام جن کی بنیادیں انہوں نے رکھیں ،ہم سب کو ان کو محض رضائے باری تعالیٰ کے جذبے سے معمور ہو کر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے)کا انتخاب ہوا تو آپ نے سب سے پہلے مختصر خطاب فرمایا اور اس کے بعد بیعت لی۔
میں سوائے اس کے کچھ نہیں کہنا چاہتا کہ اپنے لئے بھی دعائیں کریں اور میرے لئے بھی دعائیں کریں کہ (البقرۃ :۲۸۷)
یہ ذمہ داری اتنی سخت ہے ،اتنی وسیع ہے اور اتنی دل دہلا دینے والی ہے کہ اس کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بستر مرگ پر آ خری سانس لینے کے قریب یہ فقرہ ذہن میں آجاتا ہے: اَللّٰھُمَّ لَا لِیْ وَلَا عَلَیَّ۔
یہ درست ہے کہ خلیفہ وقت خدا بناتا ہے اور ہمیشہ سے میرا اسی پر ایمان ہے اور مرتے دم تک اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اسی پر ایمان رہے گا۔یہ درست ہے کہ اس میں کسی انسانی طاقت کا دخل نہیں ۔اور اس لحاظ سے اب میں نہ آپ کے سامنے جواب دہ ہوں،نہ جماعت کے کسی فرد کے سامنے جواب دہ ہوں۔لیکن یہ کوئی آزادی نہیںکیونکہ میں براہ راست اپنے رب کے حضور جواب دہ ہوں ۔آپ تو میری غلطیوں سے غافل ہو سکتے ہیں۔آپ کی میرے دل پر نظر نہیں۔آپ شاہد و غائب کی باتوں کا علم نہیں جانتے ۔میرا رب دل کی پاتال تک دیکھتا ہے۔اگر جھوٹے عذر ہوں گے تو انہیں قبول نہیں فرمائے گا۔اگر اخلاص اور پوری وفا کے ساتھ۔تقویٰ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میں نے کوئی فیصلہ کیاتو اس کے حضور صرف وہی پہنچے گا۔اس لئے میری گردن کمزوروں سے آزاد ہوئی لیکن کائنات کی سب سے طاقتور ہستی کے حضور جھک گئی اور اس کے ہاتھوں میں آئی۔یہ کوئی معمولی بوجھ نہیں۔میرا سارا وجود اس کے تصور سے کانپ رہا۔۔۔۔۔
پیشتر اس کے کہ میں بیعت کا آ غاز کروں میں چاہتا ہوں کہ حضرت چوہدری محمدظفراللہ خان صاحب سے درخواست کروںکہ صحابہ کی نمائندگی میں آگے تشریف لا کر پہلا ہاتھ وہ رکھیں۔ میری خواہش ہے میرے دل کی تمنا ہے کہ وہ ہاتھ جس نے سیدنا(حضرت اقدس ۔ناقل) کے ہاتھوں کو چھوا ہے وہ پہلا ہاتھ جو میرے ہاتھ پر آئے۔حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب سے میں درخواست کرتا ہوں کہ وہ تشریف لائیں۔اس کے بعد بیعت کا آغاز ہوگا۔(۱)
اس کے بعد اراکینِ مجلسِ خلافت نے حضور کی بیعت کی۔اس کارروائی کے دوران مسجد مبارک اور احاطہ قصرِ خلافت کے دروازے بند تھے۔اور ہزاروں احباب باہر دعائیں کر رہے تھے اور انتظار کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ ایک بار پھر رحم کرتے ہوئے ہماری خوف کی حالت کو امن میں بدل دے۔جب انتخابِ خلافت ہو گیاتو لاؤڈ سپیکر پر مکرم سیکریٹری صاحب مجلسِ انتخاب ِ خلافت نے اعلان کیا اور دروازے کھول دیئے گئے۔ہزاروں احباب بیعت کرنے کے لئے بیتابی سے اندر داخل ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے احباب کو ارشاد فرمایا کہ بیٹھ جائیں پھر حضور نے احباب کو مخاطب کر کے فرمایا :
’’۔۔۔حضرت محمد مصطفی ﷺ نے جو اطاعت کے گر سکھائے اپنے غلاموں کو اس کی ایک مثال آپ بارہا سن چکے ہیں۔ایک صحابی جمعہ کے لئے مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ان کے کانوں میں یہ آواز پڑی’’بیٹھ جائیں ‘‘۔وہ اسی وقت گلی میں بیٹھ گئے۔ اور جس طرح پرندہ پھدکتا ہے۔اس طرح دونوں قدموں پر اچھل اچھل کے مسجد کی طرف چلنے لگے ۔ ایک اور صحابی نے دیکھا تو تعجب سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوا ہے۔اس نے کہا کہ مجھے تو کچھ نہیں ہوا مگر میرے کانوں میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی یہ آواز پڑی تھی کہ بیٹھ جاؤ۔انہوں نے جواباََ فرمایا کہ وہ تو مسجد کے اندر والوں کے لئے ارشاد تھا۔آپ نے فرمایا کہ میں نے یہ نہیں سنا۔میرے کانوں میں تو صرف بیٹھ جاؤ کی آواز آئی۔اس لئے جہاں میں نے سنا میں وہیں بیٹھ گیا۔
جس آقا کی غلامی میں ہم نے دنیا کوفتح کرنا ہے اور دل جیتنے ہیں عالم کے ۔میں آپ کو عرض کرتا ہوں کہ اس کی غلامی کے بغیر کوئی نجات نہیں ہے۔ایک ذرہ بھی نجات کا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے دائرہ غلامی سے باہر نہیں۔اس لیے جو اصول حضور اکرم ﷺ نے قیامت تک کے لئے اپنے غلاموں کے سامنے پیش فرمائے اور اپنی زندگی میں ان پر عمل کر کے دکھایا وہ جاری و ساری ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
پس حضرت محمد مصطفی ﷺ کے صدقے اور آپ کے فیض سے اور آپ کے ارشاد کی تعمیل میں میں جس منصب پر بٹھایا گیا ہوں میں جانتا ہوں آپ سب سے زیادہ کہ میں اس کا اہل نہیں اور اپنے آپ کو میں اس کا اہل نہیں سمجھتا ۔مگر خدا کی تقدیر کیا کام دکھانا چاہتی ہے وہی بہتر جانتا ہے مجھے اس کا کوئی علم نہیں ۔لیکن جب تک اللہ تعالیٰ کی تقدیر مجھے اس منصب پر بٹھائے رکھے آپ اس منصب سے تبھی استفادہ کر سکیں گے،جب وہ حقوق ادا کریں گے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اس منصب کے مقرر فرمائے ہیں۔اور میں خدا کے حضور تبھی تک سرخرو رہوں گا جب تک حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی تعلیم اور ارشاد کے مطابق میں آپ کے حقوق ادا کرتا رہوں گا۔۔۔۔‘‘
حضور کے مختصر خطاب کے بعد بیعت ہوئی۔حضور نے ارشاد فرمایا کہ سب سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے تینوں صاحبزادگان وہ پہلے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھیں اور پھر آپ سب اس بیعت میں شامل ہوں ۔اس کے بعد وہاں پر موجود ہزاروں احباب نے اس تاریخی بیعت میں شرکت کی۔
بیعت کے بعد حضور نے ارشاد فرمایا
’’دوست دعاؤں میں اپنے نہایت محبوب اور پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث (رحمہ اللہ تعالیٰ) کو بھی خاص طور پر یاد رکھیں آپ نے بڑی محبت اور شفقت کے ساتھ جماعت سے سلوک فرمایا۔ اور بڑے تحمل اور عفو کے ساتھ ہماری غفلتوں سے پردہ پوشی کی۔ آپ کامل وفا کے ساتھ اپنے رب کے کاموں پر لگے رہے۔اتنا بوجھ آپ پر ڈالا گیا کہ میں جب دیکھتا تھا تو لرز اٹھتا تھا کہ کیسے انسان میں طاقت ہے کہ وہ اتنا بوجھ اُ ٹھا سکے۔مسلسل بیماریوں کے باوجود ،اپنی عمر کی زیادتی کے باوجود جب بھی حضور کو وقت ملا میں نے دیکھا کہ رات بعض دفعہ دو بجے تک،بعض دفعہ صبح تین بجے تک آپ نے لوگوں کے خطوط کے جواب دیئے اور ڈاک کو دیکھا اور ختم کیا۔مسلسل دعائیں کرتے رہے۔ایسی راتیں آپ کی زندگی میں آئیں ابتلاء کے دنوں میں جبکہ ایک لمحہ کے لئے بھی آپ نہیں سوئے۔اور ساری رات اپنے رب کو یاد کرتے رہے۔اس سے رحمت اور فضل مانگتے رہے۔جب تک مجھے واسطہ پڑا میں نے دیکھا آپ بیحد ہمدرد تھے۔بیحد شفیق تھے۔لوگوں کے ذرا سے دکھ سے آپ کو بیحد دکھ پہنچتا تھا۔آپ کا حق ہے جانے والے کا حق ہے کہ ہم آپ سے کامل وفا اور محبت کا سلوک کرتے ہوئے ہمیشہ آپ کو دعاؤں میں یاد رکھتے رہیں اور آپ سے پہلے جو خلفاء ہیں ان کو بھی اور ان کو بھی جن کے قدموں میں بیٹھنا خلفاء اپنی سعادت سمجھتے ہیں یعنی (حضرت اقدس۔۔۔۔) اور آپ کے آقا ،بینظیر آقا ،بیمثل آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ پر درود اور رحمتیں بھیجتے رہیں۔۔۔۔۔
ان دعاؤں کی طرف خصوصی توجہ دلاتے ہوئے میں یہ عرض کروں گاکہ خصوصا ابتلاؤں سے بچنے کی دعائیں کریں۔اور ابتلائوں سے بچانے کے لئے بیمار دلوں کے لئے دعائیں کریں ۔ایک روح بھی ایک جان بھی اگر ضائع ہو تو میرا دل اس کے لیے دکھ محسوس کرے گا۔اور میں یقین کرتا ہوں کہ ساری جماعتِ احمدیہ کا دل وہی ہے جو خلیفہ وقت کا دل ہے۔ ایک ذرہ بھی فرق نہیں۔اس لیے ہم سب دکھوں میں مبتلا ہو جائیں پہلے اس سے کہ وہ دکھ ہم پر ڈالے جائیں ۔ اور درد بھری دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد مانگتے ہوئے عرض کریں کہ اے خدا ! ہمارے سارے بھائیوں کو بچا لے۔ایک بھی ہم سے ضائع نہ ہو اور اگر کوئی زخم خوردہ ہے تواس کے زخموں کو شفا بخشے اور وہ کامل توبۃ النصوح کے ساتھ دوبارہ سلسلے سے تعلق جوڑ لے آمین۔‘‘
اس کے بعد حضور نے ایک پرسوز دعا کروائی۔پھر حضور قصرِ خلافت میں واقع گیسٹ ہاؤس میں تشریف لے آئے جہاں پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا جنازہ رکھا تھا۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع پر رقت طاری تھی اور وہاں پر موجود احباب کی آنکھیں بھی پر نم تھیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ماتھے پر بوسہ دیا اور پھر ہال سے ملحقہ ایک وسیع کمرہ میں وہاں پر موجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی عورتوں نے بیعت کی۔اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی حضرت سیدہ امۃ الحفیظ صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الیس اللّٰہ بکاف عبدہ والی انگوٹھی جو پہلے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ پہنتے رہے ، حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو پہنائی۔
شام کو احاطہ بہشتی مقبرہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔پہلے قصرِ خلافت سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کا جنازہ بہشتی مقبرہ لے جایا گیا۔ ہزاروں افراد نے جنازہ کے ساتھ چلنے اور کندھا دینے کی سعادت حاصل کی۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے کندھا دیا اورجنازہ کے ساتھ پیدل چلتے رہے۔یہ ممکن نہیں تھا کہ سب خواہش مند حضرات کو کندھا دینے کا موقع ملتا۔رضاکاروں کی تین لائینوں نے جنازہ کے ارد گرد دائرہ بنایا ہوا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے نماز ِ جنازہ پڑھائی۔تقریباََ ایک لاکھ احباب نے اپنے امام کی نماز ِ جنازہ میں شرکت کی۔نماز ِ جنازہ کے بعد بہشتی مقبرہ کے اندر موجود احاطہ میں حضرت مصلح موعود ؓ کے پہلو میں تدفین ہوئی۔ تدفین کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ قبر کے سرہانے کھڑے رہے۔ حضور کے ارشاد کے ماتحت کچھ احباب نے مٹی ڈالنے کی سعادت حاصل کی۔تدفین کے بعدحضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے دعا کروائی۔اس کے بعد رات گئے تک احباب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی قبر پر آ کر دعا کرتے رہے۔(۲)
(۱) الفضل ۱۹ جون ۱۹۸۲ء ص۲و۳
(۲)الفضل ۱۲ جون ۱۹۸۲ء ص۱و۲
 
Top